تفسیر نمونہ جلد ۱۰

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 27323
ڈاؤنلوڈ: 2007


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 93 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 27323 / ڈاؤنلوڈ: 2007
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 10

مؤلف:
اردو

آیات ۱۱،۱۲

۱۱ ۔( قَالَتْ لَهُمْ رُسُلُهُمْ إِنْ نَحْنُ إِلاَّ بَشَرٌ مِثْلُکُمْ وَلَکِنَّ اللهَ یَمُنُّ عَلَی مَنْ یَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَمَا کَانَ لَنَا اٴَنْ نَأتیَکُمْ بِسُلْطَانٍ إِلاَّ بِإِذْنِ اللهِ وَعَلَی اللهِ فَلْیَتَوَکَّلْ الْمُؤْمِنُونَ ) ۔

۱۲ ۔( وَمَا لَنَا اٴَلاَّ نَتَوَکَّلَ عَلَی اللهِ وَقَدْ هَدَانَا سُبُلَنَا وَلَنَصْبِرَنَّ عَلَی مَا آذَیْتُمُونَا وَعَلَی اللهِ فَلْیَتَوَکَّلْ الْمُتَوَکِّلُونَ ) ۔

ترجمہ

۱۱ ۔ ان کے رسولوں نے ان سے کہا : یہ ٹھیک ہے کہ تم جیسے بشر ہیں لیکن خدا اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے ( اور اسے اہل پاتا ہے ) نعمت عطا کرتا ہے ( اور اسے مقام ِ رسالت پر فائز فرماتا ہے ) اور ہم حکم خدا کے بغیر ہر گز معجزہ نہیں لاسکتے ( او رہم تمہاری دھمکیوں سے نہیں ڈرتے ) اور باایمان افراد کی طرح صرف اللہ پر توکل کرنا چاہتے ہیں ۔

۱۲ ۔ ہم اللہ پر کیوں توکل نہ کریں جب کہ اس نے ہمیں ہماری ( سعادت کی) راہوں کی طرف رہبری کی ہے اور ہم تمہاری ایذا سانیوں پریقینا صبر کریں گے ( اور اپنی رسالت کی انجام دہی سے دستبر دار نہیں ہوں گے )اور توکل کرنے والوں کی صرف اللہ پر توکل کرنا چاہیئے ۔

صرف اللہ پر توکل کرو

ان دو آیات میں انبیاء کے ہٹ دھرم دشمنوں کی بہانہ سازیوں کا جواب دیا گیا ہے کہ جن کا ذکر گزشتہ آیات میں کیا گیا تھا ۔ وہ کہ جو کہتے تھے کہ تم نوعِ بشر میں سے کیوں ہو، ان کے جواب میں پیغمبران ِ گرامی نے کہا یقینا ہم تمہی جیسے بشر ہیں لیکن خدا اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اس پر احسان کرتا ہے اور اسے نعمت عطا کرتا ہے( قَالَتْ لَهُمْ رُسُلُهُمْ إِنْ نَحْنُ إِلاَّ بَشَرٌ مِثْلُکُمْ وَلَکِنَّ اللهَ یَمُنُّ عَلَی مَنْ یَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ) ۔

یعنی یہ امر فراموش نہ کرو کہ اگر بشر کی بجائے فرشتے کا انتکاب ہوتا تو اس کے پاس بھی اپنی طرف سے کچھ نہ ہوتا ۔ تمام نعمات کہ جن میں سے ایک رسالت و رہبری کی ہے ، خدا کی طرف سے ہیں ۔ تو جو ایسا مقام فرشتے کو دے سکتا ہے وہ انسان کو بھی دے سکتا ہے ۔

واضح ہے کہ اللہ کی طرف سے ایسی نعمت کی عطا بلا وجہ نہیں ہے اور ہم نے با رہا کہا ہے کہ خدا کی مشیت اس کی حکمت سے ہم آہنگ ہے یعنی ہم جہاں بھی پڑھیں کہ ” خدا جسے چاہتا ہے “ تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ ” خدا جسے چاہتا ہے اور اہل پاتا ہے “ یہ ٹھیک ہے کہ مقام رسالت بالآخرخدائی نعمت ہے لیکن اہلبیت (علیه السلام) بھی ذات پیغمبر میں حتماً موجود ہوتی ہے ۔

اس کے بعد دوسرے سوال کاجواب دیتے ہوئے تیسرے سوال کا جواب دیاگیاہے گویا آباؤ اجداد کی سنت کو بطور دلیل پیش کرنا اس قدر کمزور اور بے بنیاد تھا کہ ہر عاقل انسان تھوڑے سے غور و فکر سے اس کی کمزوری کو جان لیتاہے ۔ علاوہ ازہم قرآن کی دیگر آیات میں اس کا جواب دیا جاچکا ہے ۔

بہر حال تیسرے سوال کے جواب میں فرمایا گیا ہے : معجزات لانا ہمارا کام نہیں ۔ ہم کوئی جادو گر نہیں کہ ایک طرف بیٹھ جائیں اور جو شخص بھی من پسند کے معجزے کی فرمائش کرے اسے پیش کرتے رہیں اور معجزہ بے ار زش کھیل کود ہو کر رہ جائے بلکہ ” ہم کوئی معجزہ حکم الہٰی کے بغیر نہیں لاسکتے “( وَمَا کَانَ لَنَا اٴَنْ نَأتیَکُمْ بِسُلْطَانٍ إِلاَّ بِإِذْنِ اللهِ ) ۔

علاوہ ازیں ہر پیغمبر لوگوں کے تقاضا کے بغیر بھی اس قدر معجزہ پیش کردیتا ہے جوکافی ہوتا کہ وہ ایک کی حقانیت کے اثبات کی سند ہو ۔ اگر چہ ان کے دعوت کے مضامین اور انکا مکتب خود تنہا عظیم ترین معجزہ ہے لیکن بہانہ تراش عام طور پر ان باتوپر کان دھرتے اور ہر روز ایک نئی فرمائش کرتے ہیں اور پیغمبر اسے قبول نہ کریں تو شور و غوغا بر پا کردیتے ہیں ۔

اس کے بعد اس بناء پر کہ ان کی دھمکیوں کابھی قاطع جواب دیا جائے انبیاء اپناموقف بیان کرتے ہوئے کہتے :” تمام باایمان افراد کو صرف خدا پر بھروسہ کرنا چاہئیے “ وہی خدا کہ جس کی قدرت کے مقابلے میں تمام قدرتیں ناچیز اور حقیر ہیں( وَعَلَی اللهِ فَلْیَتَوَکَّلْ الْمُؤْمِنُونَ ) ۔

پھر مسئلہ توکل کو ایک واضح استدلال کے ساتھ بیان کرتے : ہم اللہ پر توکل کیوں نہ کریں اور تمام مشکلات میں اس کی پناہ کیوں نہ لیں ، ہم ناچیز طاقتوں اور دھمکیوں سے کیوں ڈریں جب کہ اس نے ہماری ہدایت سعا دت کی راہوں کی طرف کی ہے( وَمَا لَنَا اٴَلاَّ نَتَوَکَّلَ عَلَی اللهِ وَقَدْ هَدَانَا سُبُلَنَا ) ۔

اس نے جب کہ ہمیں سعادت کی راہوں کی طرف ہدایت ، کی افضل ترین نعمت عطا کی ہے تو یقینا وہ ہر قسم کی جارحیت ، کارشکنی اور مشکل میں ہمیں اپنی حمایت کے زیر سایہ رکھے گا ۔

پھر وہ اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہتے : اب جب کہ ہمارا سہارا خدا ہے ایسا سہار کہ جوناقابل ِ شکست ہے اور سب سے بلند ہے تو ”ہم یقینی طورپر تمہاری سب اذیتوں کے مقابلے میں پامردی اور صبر و شکیبائی دکھائیں گے “( وَلَنَصْبِرَنَّ عَلَی مَا آذَیْتُمُونَا ) ۔

اور وہ اپنی بات یوں ختم کرتے: تمام توکل کرنے والوں کو صرف اللہ پر توکل کرنا چاہیئے( وَعَلَی اللهِ فَلْیَتَوَکَّلْ الْمُتَوَکِّلُونَ ) ۔

چند اہم نکات

۱ ۔ مومنین اور متوکلین

۱ ۔ مومنین اور متوکلین : زیر بحث پہلی آیت میں ہے کہ مومنین کو اللہ پر توکل کرنا چاہیئے اور دوسری آیت میں ہے کہ متوکلین کو اللہ پر توکل کرنا چاہئیے ۔ گویا دوسرا جملہ پہلے کی نسبت زیادہ وسعت کا حامل ہے یعنی مومنین کے لئے تو آسان ہے کیونکہ خدا پر ایمان ہو تو یہ ایمان اس کی قدرت ، حمایت اور اس پر توکل کے ایمان سے جد ا نہیں ہوسکتا حتی کہ غیر مومنین اور سب لوگوں کے پاس خدا کے علاوہ کوئی سہار ا نہیں ہے ۔ کیونکہ جس کی طرف بھی نگاہ کریں اسکے پاس خود اپنی طرف سے تو کچھ بھی نہیں تمام نعمتیں ، طاقتیں اور عنایتیں اس کی پاک ذات کی طرف لوٹتی ہیں پس انہیں بھی اس کے آستان پر سر جھکا نا چاہیئے اور اس سے طلب کرنا چاہیئے ۔ کیونکہ یہ توکل انہیں اللہ پر ایمان کی دعوت بھی دے گا ۔

۲ ۔ انبیاء اور معجزات

زیر بحث آیات ایسے لوگوں کے لئے واضح جواب ہیں کہ جو انبیاء سے معجز کی نفی کرتے ہیں یا قرآن حکیم کے علاوہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دوسرے معجزات کا انکار کرتے ہیں ۔ یہ آیات ہمیں سمجھاتی ہیں کہ انبیاء یہ ہر گز نہیں کہتے تھے کہ ہم معجزہ نہیں لائیں گے بلکہ وہ کہتے تھے کہ ہم حکم خدا اور اذن الہٰی کے بغیر یہ کام نہیں کریں گے کیونکہ معجزہ اس کاکام ہے ، ا س کے اختیار میں ہے اور جب وہ قرینِ مصلحت سمجھتا ہے ہمیں معجزہ دیتا ہے ۔

۳ ۔ توکل کی حقیقت اور فلسفہ

”توکل“ در اصل ”وکالت“ کے مادہ سے وکیل انتخاب کرنے کے معنی میں ہے اور ہم جانتے ہیں کہ ایک اچھا وکیل وہی ہے کو کم از کم چار صفات کا حامل ہو:

۱ ۔ کافی علم و آگاہی ۔ ۲ ۔ امانت داری ۔ ۳ ۔ طاقت و قدرت ۔ ۴ ۔ ہمدردی

شاید یہ امر بھی یا دلانے کی ضرورت نہ ہو کہ مضتلد کاموں کے لئے ایک مدافع کا انتخاب اس موقع پر ہوتا ہے کہاں انسان ذاتی طور پر دفاع پر قادر نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اس موقع پر دوسری قوت سے استفادہ کرتا ہے اور اس کی طاقت و صلاحیت سے اپنی مشکل حل کرتا ہے ۔

لہٰذا خد اپر توکل کرنے کا اس کے علاوہ کوئی مفہوم نہیں کہ انسان زندگی کی مشکلات وحوادث ، مخالفین کی دشمنیوں اور سختیوں ،پیچیدگیوں اور کبھی اہداف کے راستے میں حائل رکاوٹوں میں جب خود انہیں دور کرنے کی طاقت نہ ررکھتا ہو تو اسے پنا وکیل قرار دے اور اس پر بھروسہ کرے اور خود بھی ہمت و کوشش سے باز نہ رہے بلکہ جہاں کسی کام کو خود انجام دینے کی طاقت رکھتا ہووہاں بھی مؤ ثر حقیقی خداہی کو جانے کیونکہ ایک موحد کی چشم بصیرت کے دریچے سے دیکھا جائے تو تمام قدرتوں او ر قوتوں کا سر چشمہ وہی ہے ۔

” توکل علی الله “ کا نقطہ مقابل یہ ہے کہ اس کے غیر پر بھروسہ کیا جائے ۔ یعنی کسی غیر پر تکیہ کرکے جینا ، دوسرے سے وابستہ ہونا اور اپنی ذات میں استقلال و اعتماد سے عاری ہونا ۔

علماء اخلاق کہتے ہیں کہ خد اکی توحید افعالی کا ثمرہ مستقیم توکل ہے کیونکہ جیسے ہم نے کہا ہے کہ ایک موحد کی نظر میں ہر حرکت ، ہو کوشش، ہر جنبش اور عالم میں صورت پذیر ہونے والی ہر چیز آخرکار اس جہان کی پہلی علت یعنی ذات ِ پاک خدا سے ارتباط رکھتی ہے ۔ لہٰذا ایک مؤحد کی نگاہ میں تمام طاقتیں اور کامیابیاں اسی کی طرف سے ہیں ۔

توکل کا فلسفه

جو کچھ ہم نے ذکر کیا ہے ا س کی طرف توجہ کرتے ہوئے معلوم ہوتا ہے کہ :

اولاً: توکل علی اللہ زندگی کے سخت حوادث و مشکلات میں اس ناقابل ِ فنا منبع قدرت پر توکل انسان کی استقامت و مقاومت کا سبب بنتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جب مسلمانون نے میدانِ احد میں سخت ضرب لگائی اور دشمن میدان چھوڑنے کے بعد راستے میں سے پلٹ آئے تاکہ مسلمانوں پر آخری ضرب لگائیں اور یہ خبر مسلمانوں کو پہنچی تو

قرآن کہتا ہے کہ صاحب ایمان افراد اس خطر ناک لمحے میں وحشت زدہ ہوئے جب کہ وہ اپنی فعال قوت کاایک اہم حصہ کھو چکے تھے بلکہ ” توکل “ اور قوت ِ ایمانی نے ان کی استقامت کے نمونے متعد آیات میں نظر آتے ہیں ۔ ان میں سے آلِ عمران کی آیت ۱۲۲ میں قرآن کہتا ہے :

توکل علی اللہ نے مجاہدین کے دو گروہوں کو میدانِ جہاد میں سستی سے بچا یا ۔

سورہ ابراہیم کی آیہ ۱۲ مین دشمن کے حملوں اور نقصانات کے مقابلے میں توکل اور صبر کا باہم ذکر ہوا ہے ۔

آل ِ عمران کی آیہ ۱۵۹ میں اہم کاموں کی انجام دہی کے لئے پہلے مشورے کا ، پھر پختہ ارادے کا اور پھر توکل علی اللہ کا حکم دیا گیا ہے ۔

یہاں تک کہ قرآن کہتا ہے :انه لیس له سلطان علی الذین اٰمنوا وعلی ربهم یتوکلون

شیطانی وسوسوں کا صرف وہ لوگ مقابلہ کرسکتے ہیں اور ا س کے نفوذسے بچ سکتے ہیں کہ جو ایمان اور توکل کے حامل ہوں ۔( نحل۔ ۹۹)

ان آیات سے مجموعی طور پر معلوم ہوتا ہے کہ شدید مشکلات میں انسان ضعف اور کمزوری محسوص نہ کرے بلکہ اللہ کی بے پایاں قدرت پر بھروسہکرتے ہوئے اپنے آپ کو کامیاب اور فاتح سمجھے ۔ گویا توکل امید آفرین ، قوت بخش ، تقویت پہنچانے والااور استقامت مین اجافے کا سبب ہے ۔ توکل کا مفہوم اگر گوشہ نشینی اختیار کرنا اور ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جانا ہوتا تو مجاہدین اور اس قسم کے لوگوں میں تحرک پیدا کرنے کا باعث نہ بنتا ۔

اگر کچھ لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ عالم اسباب اور طبیعی عوامل کی طرف توجہ روح ِ توکل سے مناسبت نہیں رکھتی تو وہ انتہائی غلط فہمی میں مبتلاہیں کیونکہ طبیعی عوامل کے اثرات کو ارادہ الہٰی سے جدا کرنا ایک طرح کا شرک ہے ۔ کیا ایسا نہیں کہ عوامل طبیعی کے پاس جو کچھ ہے وہ اسی کاہے اور سب کچھ اسی کے ارادے اور فرمان کے تحت ہے ۔ البتہ اگر عوامل کو ایک مستقل طاقت سمجھا جائے اور انہیں اس کے ارادے کے مد مقابل قرار دیا جائے تو یہ وہ مقام ہے جو روحِ توکل سے مطابقت نہیں رکھتا ۔

کیسے ممکن ہے کہ توکل کی ایسی تفسیر کی جائے حالانکہ خود پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو جو متوکلین کے سید و سردار ہیں اپنے اہداف کی پیش رفت کے لئے کسی موقع ، صحیح منصوبہ، مثبت تکنیک اور مختلف ظاہری وسائل سے غفلت نہیں برتتے تھے ۔

یہ سب چیزیں ثابت کرتی ہیں کہ توکل کا وہ منفی مفہوم نہیں ہے ۔

ثانیاً:توکل علی اللہ انسان کو ان وابسگتیوں سے نجات دیتا ہے کہ جو ذلت و غلامی کا سر چشمہ ہیں اور اسے آزادی اور خود اعتمادی بخشتا ہے ۔

”توکل “ اور ”قناعت “ ہم ریشہ ہیں اور فطرتاًان دونون کا فلسفہ بھی کئی پہلوؤں سے ایک دوسرے سے مشابہت رکھتا ہے ۔ اس کے باوجود ان میں فرق بھی ہے ۔ یہاں ہم چند ایک اسلامی روایات پیش کرتے ہیں جن سے توکل کا حقیقی مفہوم اور اصلی بنیاد واضح ہو سکے ۔

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :ان الغنی و العز یجولان فاذا ظفرا بمواضع التوکل او طنا

بے نیازی اور عزت محوِ جستجو رہستی ہیں جہاں توکل کو پالیتی ہیں وہیں ڈیرے ڈال دیتی ہیں اور اسی مقام کو اپنا وطن بنا لیتی ہیں ۔(۱)

اس حدیث میں بے نیازی اور عزت کا اصلی وطن” توکل “ بیان کیا گیا ہے ۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے منقول ہے ، آپ (علیه السلام) نے فرمایا: میں نے وحی الہٰی کے قاصد جبرئیل سے پوچھا کہ توکل کی اہے تو اس نے کہا :

العلم بان المخلوق لایضر ولاینفع ، ولا یعطی ولایمنع ، واستعمال الیأس من الخلق فاذا کان العبد کذٰلک لم یعمل لا حد سوی الله فهٰذا هو التوکل ۔

جب بندہ اس حقیقت سے آگاہ ہو جاتا ے کہ مخلوق نقصان پہنچاسکتی ہے نہ فائدہ اور عطا کرسکتی ہے نہ روک سکتی ہے اور وہ مخلوق کے ہاتھ سے آنکھ اٹھالیتا ہے تو پھر وہ خدا کے علاوہ کسی کے لئے کام نہیں کرتا اور اس کے سوا کسی سے امید نہیں باندھتا تو یہ ہے حقیقتِ توکل ۔(۲)

کسی نے حضرت امام علی ابن موسیی رضا علیہ السلام سے پوچھا :ماحد التوکل ؟

تو آپ (علیه السلام) نے فرمایا:ان لاتخاف مع الله احداً ( سفینة البحار ، جلد ۲ ص ۶۸۲) ۔

یہ کہ تو خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے کسی سے نہ ڈرے ۔(۳)

____________________

۱۔اصول کافی ، جلد ۲ ، باب ” “ حدیث ۳ ۔

۲۔ بحار الانوار ،جلد ۱۵، حصہ ۲ ص ۱۴چاپ قدیم

۳۔توکل کے بارے میں مزید وضاحت کے لئے کتاب ” انگیزہ پیدا ئش ِ رجوع کریں ۔

آیات ۱۳،۱۴،۱۵،۱۶،۱۷

۱۳( وَقَالَ الَّذِینَ کَفَرُوا لِرُسُلِهِمْ لَنُخْرِجَنَّکُمْ مِنْ اٴَرْضِنَا اٴَوْ لَتَعُودُنَّ فِی مِلَّتِنَا فَاٴَوْحَی إِلَیْهِمْ رَبُّهُمْ لَنُهْلِکَنَّ الظَّالِمِینَ ) ۔

۱۴ ۔( وَلَنُسْکِنَنَّکُمْ الْاٴَرْضَ مِنْ بَعْدِهِمْ ذَلِکَ لِمَنْ خَافَ مَقَامِی وَخَافَ وَعِیدِ ) ۔

۱۵ ۔( وَاسْتَفْتَحُوا وَخَابَ کُلُّ جَبَّارٍ عَنِیدٍ ) ۔

۱۶ ۔( مِنْ وَرَائِهِ جَهَنَّمُ وَیُسْقَی مِنْ مَاءٍ صَدِیدٍ ) ۔

۱۷ ۔( یَتَجَرَّعُهُ وَلاَیَکَادُ یُسِیغُهُ وَیَأتیهِ الْمَوْتُ مِنْ کُلِّ مَکَانٍ وَمَا هُوَ بِمَیِّتٍ وَمِنْ وَرَائِهِ عَذَابٌ غَلِیظٌ ) ۔

ترجمہ

۱۳ ۔ جنہوں نے اپنے رسولوں سے کفر کیا انہوں نے کہا : یقینا ہم تمہیں اپنی سر زمین سے نکال باہر کریں گے مگر یہ کہ ہمارے دین کی طرف لوٹ آؤ تو ایسے موقع پر ان کے پر وردگار نے ان کی طرف وحی کی کہ میں ظالموں کو ہلاک کردوں گا ۔

۱۴ ۔ اور تمہیں ان کے بعد زمین میں سکونت بخشوں گایہ (کامیابی ) ا س کے لئے ہے کہ جو میرے مقام ( عدالت ) سے ڈرتا ہو اور میرے عذاب کا خوف رکھتا ہو۔

۱۵ ۔ انہوں نے ( خدا سے) فتح و کامرانی کا تقاضا کیا اور ہر جبار ِ منحرف نا امید اور نا بود ہوا ۔

۱۶ ۔ اس کے پیچھے جہنم ہو گی اور اسے متعفن پانی پلایاجائے گا ۔

۱۷ ۔ وہ اسے بڑی مشکل سے گھونٹ گھونٹ کرکے پئے گا اور وہ اسے خوشی سے پینے کو تیار نہیں اور ہر جگہ سے موت اس کی طرف آئے گی لیکن اس کے باوجود وہ مرے گا نہیں اور اس کے پیچھے عذاب ِ شدید ہے ۔

تفسیر

منحرف جابروں کا طرز عمل اور ان کا انجام

بے منطق افراد کا طریقہ ہے کہ جب وہ اپنی بات اور عقیدے میں کمزوری پر آگاہ ہوتے ہیں تو پھر دلیل کا راستہ چھوڑکر طاقت اور ظلم کا سہارالیتے ہیں ۔ اس جگہ پر بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ہت دھرم اور بہانہ ساز کافر قوموں نے جب انبیاء کی متین ورسا منطق کہ جو گزشتہ آیات میں گزر چکی ہے ،سنی تو انہوں نے اپنے انبیاء سے کہا : ہم قسم کھا کر کہتے ہیں کہ تمہیں اپنی سر زمین سے نکال دیں گے مگر یہ کہ ہمارے دین ( بت پرستی ) کی طرف پلٹ آو

( وَقَالَ الَّذِینَ کَفَرُوا لِرُسُلِهِمْ لَنُخْرِجَنَّکُمْ مِنْ اٴَرْضِنَا اٴَوْ لَتَعُودُنَّ فِی مِلَّتِنَا ) ۔

یہ جاہل مغرور گویا ساری زمین کو اپنی ملکیت سمجھتے تھے اور اپنے انبیاء کو ایک شہری کے حقوق ملنے کے بھی قائل نہیں تھے ۔ اسی لئے کہتے تھے ”ارضنا“ (ہماری زمین )حالانکہ خدا نے زمین اور اس کی تمام نعمتیں صالح اور نیک لوگوں کے لئے پیدا کی ہیں اور یہ خود سر، جابر اور متکبر در حقیقت اس میں کوئی حق نہیں رکھتے چہ جائیکہ سب کچھ اپناسمجھیں ۔

ہوسکتا ہے ”لتعودنّ فی ملتنا “ ( ہمارے دین کی طرف لوٹ آؤ) سے غلط فہمی پید اہو کہ انبیاء قبل ِ رسالت بت پرستی کے مذہب پر تھے حالانکہ ایسا نہیں ہے کیونکہ قطع نظر اس کے کہ وہ معصوم تھے اور قبل رسالت بھی تھے ان کی عقل ودرایت اس سے کہیں زیادہ تھی وہ ایسا احمقانہ کام کرتے پتھر اور لکڑی کے سامنے سجدہ کرتے ۔

ہو سکتا ہے یہ اس بنا ء پر ہو کہ اعلان ِ نبوت سے قبل انبیاء پر تبلیغ کی ذمہ داری نہ تھی شاید ان کی خاموشی کے سبب یہ غلط فہمی پیدا ہوئی کہ وہ مشرکین کے ہم عقیدہ تھے ۔

اس سے قطع نظر اگر چہ خطاب خود انبیاء کو ہے لیکن در حقیقت ان کے پیرو کاروں پر بھی محیط ہے اور ہم جانتے ہیں کہ ان کے پیرو کار پہلے مشرکین کے مذہب پر تھے اور مشرکین کی نظر صرف انہی پر ہے ۔ نیز اصطلاح کے مطابق ” لتعودنّ“عمومی تعبیر ہے او ر باب ِ تغلیب میں سے ہے ( یعنی حکم اکثریت کو عمومیت پر محمول کرنا ) ۔(۱)

بعض دوسری قرآنی آیات کی طرف رجوع کیا جائے تو ظاہر ہوتا ہے کہ لفظ ”عود“ جب“ ”فی “کے ساتھ ہو تو بھی بازگشت کا معنی دیتاہے ( غور کیجئے گا )

قرآن مزید کہتا ہے کہ خدا وند عالم ایسے مواقع پر پیغمبروں کی دلجوئی کرتا اور انہیں اطمینان دلاتا” اور ان کی طرف وحی کرتا کہ میں یقینا ظالموں کو ہلاک کروں گا “( فَاٴَوْحَی إِلَیْهِمْ رَبُّهُمْ لَنُهْلِکَنَّ الظَّالِمِینَ ) ۔

لہٰذا ان دھمکیوں سے ہر گز نہ ڈرو اور تمہارے آہنی ارادے کی راہ میں ذرہ بر سستی بھی حائل نہیں ہونا چاہیئے ۔

ظالم منکرین چونکہ انبیاء کو اپنے علاقے سے جلا وطن کردینے کی دھمکی دیتے تھے تو خدا تعالیٰ ا س کے مقابلے میں ان سے وعدہ کرتا ہے کہ ” ہم تمہیں اس علاقے میں ان کی نابودی اور تباہی کے بعد سکونت بخشیں گے “( وَلَنُسْکِنَنَّکُمْ الْاٴَرْضَ مِنْ بَعْدِهِمْ ) ۔

لیکن یہ توفیق و کامیابی سب کو نصیب نہیں ہوتی ” یہ ان کے لئے ہے جومیرے مقام سے ڈریں اور احساس ِ ذمہ داری کریں اور اسی طرح انحراف ، ظلم اور گناہ پر ہونے والی تہدید ِعذاب سے ڈریں اور اسے سنجید گی سے لیں “( ذَلِکَ لِمَنْ خَافَ مَقَامِی وَخَافَ وَعِیدِ ) ۔

لہٰذا عنایت اور نعمت اور لطف وکرم نہ حساب کتاب کے بغیر ہے اور نہ بلاوجہ بلکہ ایسے افراد کے ساتھ مخصوص ہے کہ جو احساس ِ ذمہ داری کے ساتھ پر وردگار کے مقام ِ عدل کے مقابلے میں نہ ظلم و ستم کرتے ہیں او رنہ دعوت ِ حق کے جواب میں دشمنی کرتے ہیں ۔

اور ایسے موقع پر کہ جب انتہاہو گئی تھی اور وہ اپنی قوم کے سامنے اپنی ذمہ داری انجام دے چکے تھے، جنہیں ایمان لانا تھا لا چکے تھے اور باقی اپنے کفر پر ڈٹے ہوئے تھے اور مسلسل انبیاء و رسل کو دھمکیاں دے رہے تھے ”تو انہوں نے خدا سے فتح و کامرانی کا تقاضا کیا “( وَاسْتَفْتَحُوا ) ۔توخدا نے بھی ان سچے مجاہدوں کی دعا کو شرف قبولیت بخشا اس طرح سے کہ ”منحرف جابر نا امید ، زیاں کار اور نابود ہو گئے “( وَخَابَ کُلُّ جَبَّارٍ عَنِیدٍ ) ۔

خاب ” خیبة“ (بر وزن”غیبة“) کے مادہ سے مطلوب ہاتھ سے نکل جانے کے معنی میں ہے کہ جو تقریبا ناامیدی کامفہوم دیتا ہے ۔

”جبار“ یہاں متکبر اور سر کش کے معنی میں ہے ۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ ایک عورت آنحضرت کی خدمت میں حاضر ہوئی تو آپ نے اسے کوئی حکم دیا ۔ اس نے نافرمانی کی اور فرمان ِ پیغمبر پر عمل نہیں کیا تو آپ نے فرمایا :

( دعوها فانها جبارة ) اسے چھوڑ و یہ سر کش عورت ہے ۔(۲)

لیکن لفظ ”جبار“ کبھی کبھی خدا کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے جس کا ایک اور معنی ہے اور وہ ہے ”محتاج ِ اصلاح موجود کی اصلاح کرنے والا “ یا” وہ کہ جو ہر چیز پر مسلط ہے “۔(۳)

لفظ ”عنید “در اصل ”عند“ (بر وزن ”رند“) سے سمت کے معنی میں ہے ۔ یہاں انحراف اور راہ ِ حق کے علاوہ کی طرف جھکاؤ کے معنی میں ہے ۔ اسی لئے ایک حدیث میں پیغمبر اکرم سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا :

کل جبار عنید من ابی ان یقول لااله الاالله

جبار ِ عنید وہے کہ جولاالہ الا اللہ کہنے سے انکار کرے ۔ ( نور الثقلین جلد ص ۵۳۲) ۔

ایک اور حدیث میں امام باقر علیہ السلام سے منقول ہے :العنید المعرض عن الحق

عنید وہ ہے جو حق سے ر وگردانی کرے ۔ (نور الثقلین جلد ص ۵۳۲) ۔

یہ امر قابل توجہ ہے کہ ”جبار “ صفت ِ انسانی یعنی روح ِ سر کشی کی طرف اشارہ ہے اور ”عنید “ افعال ِ انسانی میں اس صفت کے اثر کی طرف اشارہ ہے کہ جو اسے حق سے منحرف کردیتا ہے ۔

اس کے بعد دوسرے جہان میں ان جبارانِ عنید کے نتیجہ عمل پر انہیں ملنے والی سزاؤں کے بارے میں دو آیات میں پانچ چیزوں کی طرف اشارہ کیاگیا ہے ۔ وہ پانچ چیزیں یہ ہیں :

۱) اس ناامید ی اور خسران کے پیچھے یا ایسے شخص کے پیچھے جہنم اور جلانے والی آگ ہوگی( مِنْ وَرَائِهِ جَهَنَّمُ ) ۔

لفظ ”وراء “ اگر چہ پس پشت کے معنی میں ( لفظ ”امام “کے مقابلے میں ) ہے لیکن ایسے مواقع پر نتیجہ اور انجام کار کے معنی میں ہے جیسا کہ فارسی میں بھی اس معنی میں یہ لفظ بہت استعمال ہوا ہے ۔ مثلاً ہم کہتے ہیں کہ اگر فلاں غذا کھاؤ تو اس کے پیچھے بیماری ہے یااگر فلاں شخص سے دوستی کر و تو اس کے پیچھے بدبختی اور پشیمانی ہے یعنی اس کا نتیجہ اور معلول اسی طرح ہے ۔

۲) اس جلانے والی آ گ میں جب وہ پیا سا ہو گا تو ہم اسے آب ِ ”صدید “ پلائیں گے( وَیُسْقَی مِنْ مَاءٍ صَدِیدٍ ) ۔

جیسا کہ علماء لغت نے کہا ہے کہ ”صدید “ ایک طر ح کی میل کچیل کو کہتے ہیں کہ جو چمڑے اور گوشت کے درمیان جمع ہوجاتی ہے ۔

یہ اس طرف اشار ہ ہے کہ میل اور خون کی طرح بد بو دار متعفن اور بد رنگ پانی اسے پلا یا جائے گا ۔

۳) یہ گنہگا ر، مجرم اور جبار ِ عنید جب دیکھے گا کہ اسے پینے کے لئے ایسا پانی ملا ہے تو بڑی تکلیف کرکے مشکل سے اسے گھونٹ گھونٹ پئے گا اگر چہ ہر گز اسے پینا نہیں چاہے گا ”بلکہ ہم ا س کے حلق میں یہ پانی ڈالیں گے “( یَتَجَرَّعُهُ وَلاَیَکَادُ یُسِیغُهُ ) ۔(۴)

۴) اسے اس قدر عذاب ، تکلیف اور ناراحتی کا سامنا ہو گا کہ ” ہر طرف سے موت اس کی طرف آئے گی لیکن اس کے باوجود وہ مرے گا نہیں “ تاکہ اپنے اعمال کا انجام بھگتے گا( وَیَأتیهِ الْمَوْتُ مِنْ کُلِّ مَکَانٍ وَمَا هُوَ بِمَیِّتٍ ) ۔اگر چہ ظاہراً یو ں لگتا ہے کہ جو کچھ عذاب بیان کیا گیا ہے اس سے بڑھ کر نہیں ہو گا لیکن قرآن مزید کہتا ہے : اس کے پیچھے عذاب ِ شدید ہے( وَمِنْ وَرَائِهِ عَذَابٌ غَلِیظٌ ) ۔

اس طرح جس قدر شدید عذاب اور بر اانجام فکر انسانی میں آسکتا ہے حتیٰ کہ جو کچھ نہیں آسکتا وہ ان خود غرض ظالموں اور بے ایمان و گنہگاروں جابروں کے انتظار میں ہے ۔ ان کا بستر آگ ہے ، ان کے پینے کے لئے متعفن اور نفرت آورپانی ہے اور ان کے لئے طرح طرح کا عذاب ہے اور اس کے باوجود وہ مریں گے نہیں بلکہ زندہ رہیں گے اور اس کا مزہ چکھیں گے ۔

یہ ہر گز تصور نہیں کرنا چاہئیے کہ اس قسم کی سزائیں غیر عادلانہ ہیں کیونکہ جیسا کہ ہم نے بارہا کہا ہے کہ یہ سب کچھ انسانوں کے اعمال کا نتیجہ اور طبیعی اثر ہے بلکہ ان کے کام اس طرح دوسرے گھر میں مجسم ہوتے ہیں کہ جہاں عمل اپنی مناسب شکل میں مجسم ہو گا ۔

اگر ہم اپنے زمانے کے بعض ظالموں کے اعمال اور جرائم پر نظر کریں کہ جن کا ہم نے مشاہدہ کیا ہے یا ایسے گزشتہ لوگوں کی تاریخ کا صحیح طور پر مطالعہ کریں تو بعض اوقات ہم سوچتے ہیں کہ یہ سزا ئیں بھی ان کے لئے بہت کم ہیں ۔

۴۔ اسی تباہ کن جنگ ہی کو لیجئے کہ جس کا سامنا ہمیں اس وقت یہ بحث کرتے ہوئے ہے ۔ ہم جانتے ہیں کہ اس کا ماحصل ایک ستم گر حکمران کی خود خواہی یا زیادہ صحیح الفاظ مین ایک پاگل جبار ِ عنید کی خود سری کے علاوہ کچھ نہیں اور اس کے لئے کسی عاقلانہ مقصد کا تصور نہیں ہوسکتا ۔ اس میں کیسے کیسے مظالم کئے گئے ہیں کہ جن کے ذکر سے زبان و قلم عاجز ہیں ۔ ہم نے خود ملک کے مغربی اسپتالوں میں مجر وحین ِ جنگ کو دیکھا ہے ۔ معصوم بچوں سے لے کر بوڑھوں اور عورتوں تک زخی حالت میں دیکھا ہے ان میں سے بہت سے اپنی آنکھیں اور ہاتھ پاؤں کھو بیٹھتے ہیں اور واقعاً ان کی ایسی حالت ہے کہ ان پر ایک نظر کی جائے تو انسان ہل کر رہ جائے ۔ تو غور کیجئے کہ جس وقت ایک ظالم او ر ستم گر لاکھوں انسانوں کو مصائب میں اس طرح تڑپائے تو ا س کے لئے کیسی سزا او ر عذاب ہونا چاہئیے ۔

____________________

۱۔اس غلط فہمی کو کا ایک اور جواب بھی دیاگیا ہے او روہ یہ کہ ”عود“ کا مادہ اگر ” الیٰ “ کے ساتھ متعدی ہو تو باز گشت اور لوٹنے کے معنی میں ہے اور اگر ”فی “ کے ساتھ متعدی ہوتو حالت کی تبدیلی کے معنی میں ہے اور باز گشت کا معنی نہیں دیتا ۔ لہٰذا ”لتعودن فی ملتنا “ کا مفہوم یہ ہے کہ تم اپنی حالت کو بدل دو اور اپنا دین چھوڑ کر ہمارے دین کو قبول کرلو۔ لیکن دیگر آیات مثلاًکلما ارادو ا ان یخرجوا منها اعید وا فیها (سجدہ :۲۰)

۲۔تفسیر فخر رازی ،مذکورہ آیت کے ذیل میں ۔

۳۔مزید وضاحت کے لئے تفسیر نمونہ جلد ۴ ص ۲۵۹( اردو ترجمہ کی طرف رجوع کریں ۔

۴-”یسیغہ“ ”اساغة“ کے مادہ سے ہے ۔ اس کا معنی ہے ” پینے کی چیز حلق میں ڈالنا “۔

چند اہم نکات

۱ ۔ مقام ِ پروردگار سے کیا مراد ہے ؟

۱ ۔ مقام ِ پر وردگار سے کیا مراد ہے ؟ مندرجہ بالا آیات میں ہم نے پڑھا ہے کہ ظالموں پر کامیابی اور ان کی نابودی کے بعد زمین پر حکومت ان افراد کاحصہ ہے کہ جو ”مقام ِ الہٰی “ سے ڈریں ۔ یہاں لفظ ” مقام “ سے کیا مراد ہے ۔ اس سلسلے میں مختلف احتمالات پیش کئے گئے ہیں ۔ ہوسکتا ہے کہ یہ تمام احتمالات صحیح ہوں آیت سے سب مراد ہوں :

الف: اس سے مراد محاسبہ کرتے وقت پر وردگار کی حیثیت ہے ۔ جیسا کہ قرآن کی بعض دوسری آیات میں بھی آیا ہے ۔مثلاً( و امامن خاف مقام ربه ونهی النفس عن الهوٰی )

مگر جو شخص اپنے پر وردگار کے سامنے کھڑے ہونے ڈرتارہا اور جی کو نا جائز خواہشوں سے روکتا رہا ۔ ( نازعات ۔ ۴۰) ۔اور( ولمن خاف مقام ربه جنتان )

اور جو شخص اپنے پر وردگار کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرتارہا اس کے لئے دوباغ ہیں (رحمن ۔ ۴۶) ۔

ب:”مقام “ ”قیام “ کے معنی میں ہے اور ”قیام “ نظارت و نگرانی “ کے معنی میں ہے یعنی جواللہ کی طرف سے اپنے اعمال کی شدید نظارت سے ڈرتا ہے اور احساسِ مسئولیت کرتا ہے ۔

ج:”مقام “ اجرائے عدالت اور احقاق ، حق کے لئے قیام کرنے کے معنی میں ہے یعنی جو پر وردگار کی اس حیثیت سے ڈرتے ہیں ۔

بہرحال جیس اکہ ہم نے کہا ہے کہ کوئی مانع نہیں کہ آیت کے مفہوم میں یہ سب معانی جمع ہوں ۔ یعنی وہ لوگ کہ جو خدا کو اپنے اوپر ناظر و نگران سمجھتے ہیں اور اس کے حساب اور اجزائے عدالت سے ڈرتے ہیں اور ان کا یہ خوف اصلاحی ہے کہ جو انہیں ہر کام میں احساس ذمہ داری کی دعوت دیتا ہے اور انہیں ہر قسم کی نا انصافی ، ظلم اور گناہ سے روکتا ہے ، کامیابی اور روئے زمین پر حکومت آخر کار انہی کا حصہ ہے ۔

۲ ۔ ”استفتحوا“کامفہوم

اس لفظ کی تفسیر کے بارے میں مفسرین میں اختلاف ہے ۔ بعض اسے فتح و کامرانی کے تقاضا کے معنی میں سمجھتے ہیں ۔ جیسا کہ ہم نے ذکر کیاہے ۔ اس اس کا شاہد سورہ انفال کی آیہ ۱۹ میں ہے :( ان تستفتحوا فقد جائکم الفتح )

اے مومنین ! اگر تم فتح و کامرانی کا تقاضا کرتے ہوئے تو یہ فتح و کامرانی تمہارے پاس آگئی ہے ۔

بعض قضا وت کا تقاضا کرنے کا معنی لیتے ہیں ۔ یعنی انبیاء نے خدا سے تقاضا کیا کہ ان کے اور کافروں کے درمیان فیصلہ کرے ۔ اس کا شاہد سورہ اعراف کی آیہ ۸۹ ہے :( ربنا افتح بیننا و بین قومنابالحق و انت خیر الفاتحین )

خدا وند !ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان حق کا فیصلہ کر اور تو بہترین فیصلہ کرنے والا ہے ۔

۳ ۔ ایک جابر حکمران اور قرآن کی یہ آیت

تواریخ اور تفسیر میں آیاہے کہ ایک دن جابر حکمراں ولید بن یزید عب الملک اموی نے اپنے مستقبل کے لئے قرآن سے فال نکالی ۔ اتفاقاً ابتدائے صفحہ میں یہ آیت اس کے سامنے آگئی :”واستفتحوا وخاب کل جبار عنید “ ۔

وہ بہت زیادہ پریشان ہوا ۔ اسے سخت غصہ آیا ۔ یہاں تک کہ اس لعین نے وہ قرآن جو اس کے ہاتھ میں تھا پارہ پارہ کردیا پھر یہ اشعار پرھے :

اتوعد کل جبار عنید ؟ فها انا ذاک جبار عنید

اذا ماجئت ربک یوم حشر فقل یا رب مزقنی الولید

کیا توہے کہ جو ہر جبار عنید کو دھمکا تا ہے ؟

تویہ لے میں وہی جبار عنید ہوں

جب روز حشر اپنے پر وردگار سے ملنا

تو کہہ دینا خداوندا ! مجھے ولید نے ٹکڑے ٹکڑے کردیا تھا

زیادہ وقت نہ گزارا کہ یہ لعین اپنے دشمنوں کے ہاتھوں بد ترین طریقے سے مارا گیا ۔ انہوں نے اس کا سر کاٹ کر اسی کے محل کی چھت پر لٹکادیا اور پھر وہاں سے ہٹاکر شہر کے دروازے پر لٹکا دیا ۔ ( تفسیر قرطبی ص ۳۵۷۹) ۔