تفسیر نمونہ جلد ۱۰

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 27214
ڈاؤنلوڈ: 1988


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 93 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 27214 / ڈاؤنلوڈ: 1988
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 10

مؤلف:
اردو

آیات ۲۴،۲۵،۲۶،۲۷

۲۴ ۔( اٴَلَمْ تَرَی کَیْفَ ضَرَبَ اللهُ مَثَلًا کَلِمَةً طَیِّبَةً کَشَجَرَةٍ طَیِّبَةٍ اٴَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِی السَّمَاءِ ) ۔

۲۵ ۔( تُؤْتِی اٴُکُلَهَا کُلَّ حِینٍ بِإِذْنِ رَبِّهَا وَیَضْرِبُ اللهُ الْاٴَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَتَذَکَّرُونَ ) ۔

۲۶ ۔( وَمَثَلُ کَلِمَةٍ خَبِیثَةٍ کَشَجَرَةٍ خَبِیثَةٍ اجْتُثَّتْ مِنْ فَوْقِ الْاٴَرْضِ مَا لَهَا مِنْ قَرَارٍ ) ۔

۲۷ ۔( یُثَبِّتُ اللهُ الَّذِینَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَفِی الْآخِرَةِ وَیُضِلُّ اللهُ الظَّالِمِینَ وَیَفْعَلُ اللهُ مَا یَشَاءُ ) ۔

ترجمہ

۲۴ ۔ کیا تو نے دیکھا نہیں کہ کس طرح اللہ نے کلمہ طیبہ (اور گفتار پاکیزہ )کو پاکیزہ درکت سے تشبیہ دی ہے کہ جس کی جڑ( زمین میں ) ثابت ہے او رجس کی شاخ آسمان میں ہے ۔

۲۵ ۔ وہ اپنے پروردگار کے اذن سے بر وقت اپنے پھل دیتا ہے اور اللہ لوگوں کے لئے مثالیں بیان کرتا ہے کہ شاید وہ نصیحت حاصل کریں ۔

۲۶ ۔ اور ( اسی طرح ) کلمہخبیثہ کو ناپاک درخت سے تشبیہ دی ہے کہ زمین سے اکھڑ چکا ہے اور ا س کے لئے قرار و ثبات نہیں ہے ۔

۲۷ ۔ جولوگ ایمان لائے ہیں اللہ ان کی گفتار اور اعتقاد کے ثبات کی وجہ سے ثابت قدم رکھے گا ، اس جہان میں بھی اور آخرت میں بھی ۔ نیز اللہ ظالموں کو گمراہ کرتاہے (اور ان سے اپنا لطف و کرم چھین لیتا ہے )اور خدا جو کام چاہے (اور قرین مصلحت سمجھے )انجام دیتاہے ۔

تفسیر

”شجرہ طیبہ“اور” شجرہ خبیثہ“

یہاں حق و باطل، ایمان وکفر او رطیب و خبیث کو ایک نہایت عمیق اور پر معنی مثال کے ذریعے مجسم کرکے بیان کیا گیا ہے ۔ یہ آیات اس سلسلے کی گزشتہ آیات کی بحث کو مکمل کرتی ہیں ۔

پہلے فرمایا گیا ہے : کیا تو نے دیکھا نہیں کہ خد انے کس طرح پاکیزہ کلام کے لئے مثال دی ہے اور اسے طیب و پاکیزہ در خت سے تشبیہ دی ہے( اٴَلَمْ تَرَی کَیْفَ ضَرَبَ اللهُ مَثَلًا کَلِمَةً طَیِّبَةً کَشَجَرَةٍ طَیِّبَةٍ ) ۔

پھر اس شجرہ طیبہ یعنی پاکیزہ و با بر کت درخت کی خصوصیات بیان کی گئی ہے اور مختصر عبارت میں ا س کے تمام پہلوؤں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔

اس سے پہلے کہ ہم قرآن میں موجود اس شجرہ کی خصوصیات کا مطالعہ کریں “ ہمیں دیکھنا چاہئیے کہ ”کلمہ طیبہ“ سے مراد کیا ہے ۔

بعض مفسرین نے اس کو کلمہ توحید او رجملہ ” لاالہ الا اللہ “سے تفسیر کی ہے جب کہ بعض دوسرے اسے اوامر و فرمین الٰہی کی طرف اشارہ سمجھتے ہیں ۔بعض اسے ایمان سمجھتے ہیں کہ جو لاالہ الااللہ کامعنی و مفہوم ہے ۔ بعض دوسروں سے اس کی ” مؤمن “‘ سے تفسیر کی ہے اور بعض نے اس کا مفہوم اصلاحی و تربیتی روش او رلائحہ عمل بیان کیا ہے ۔(۱)

لیکن ”کلمہ طیبہ“ کے مفہوم و معنی کی وسعت کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ اس میں یہ تمام تفاسیر شامل ہیں کیونکہ لفظ ”کلمہ “ کے وسیع معنی میں تمام موجودات شامل ہیں ۔ اسی بناء پر مخلوقات کو ”کلمة اللہ “ کہا جاتا ہے ۔(۲)

نیز ”طیب“ ہر قسم کی پاک و پاکیزہ چیز کو کہتے ہیں ۔

نتیجہ کلام یہ ہے کہ اس مثال کے مفہوم میں ہر پاک سنت ، حکم ، پروگرام ، روش ، عمل ، انسان شامل ہے ۔ مختصر یہ کہ ہر پاک و با برکت موجود کلمہ طیبہ ہے اور یہ سب ایک پاکیزہ درخت کی طرح ہیں کہ جس کی یہ خصوصیات ہیں :

۱ ۔ وہ موجودہ کہ جو نشو و نما کا حامل ہے نہ کہ بے روح ، جامد اور بے حرکت ہے ۔ بڑھنے او پھلنے پھولنے والاہے ۔ دوسروں کی اور اپنی پرورش و اصلاح کرنے والا ہے ۔ لفظ” شجرہ “اس حقیقت کو بیان کرتا ہے ۔

۲ ۔یہ درخت پاک و طیب ہے لیکن کس لحاظ سے ، اس سلسلے میں کسی خاص پہلو کی نشاندہی نہیں کی گئی ۔ لہٰذا ا س کامفہوم یہ ہے کہ یہ ہر پہلو سے پاکیزہ ہے ۔ اس کا پھل پاکیزہ ہے ، اس کے شگوفے اور پھول پاکیزہ ہیں ، اس کا سایہ پاکیزہ ہے اور اسے خارج ہونے والی گیس پاکیزہ ہے ۔

۳ ۔ یہ درخت ایک منظم نظام کا حامل ہے ۔ اس کی جڑ اور اس کی شاخوں میں سے ہر ایک اپنی ذمہ داری ہے ۔اصولی طور پر اس میں جڑ اور شاخ ک اوجود اس میں موجود منظم نظام کی دلیل ہے ۔

۴ ۔ اس کی جڑ اور ریشہ ثابت ومستحکم ہے ۔ اس طرح سے کہ طوفان اور تند و تیز آندھیاں اسے اس کی جگہ اکھاڑ نہیں سکتیں ۔ اس میں ایسی توانائی ہے کہاس کی آسمان سے باتیں کرتی ہوئی شاخیں سورج کی کرنوں کے نیچے اور آزاد ہوا میں محفوظ ہیں کیونکہ جو شاخ جتنی اونچی ہو اسے اتنی ہی قوی تر جڑ کی ضرورت ہے( اٴَصْلُهَا ثَابِتٌ ) ۔

۵ ۔ اس شجرہ کی شاخیں کسی پست اور محدود ماحول میں نہیں ہیں بلکہ وہ آسمان کی بلندیوں میں ہیں ۔ یہ شاخیں ہو اکا سینہ چیز کی بلندی پر جاپہنچیں ہیں ۔ جیا ہاں ”اس کی شاخیں آسمان میں ہیں “( وَفَرْعُهَا فِی السَّمَاءِ ) ۔

واضح ہے کہ شاخیں جس قدر بلند ہو ں گی ، زمین کے گرد وغبار سے اتنی ہی دور ہو ں گی اور ان کے پھل اتنے ہی زیادہ پاکیزہوں گے اور ایسی شاخیں سورج کی کرنوں اور پاکیزہ ہوا سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں گی اور ان کا اثر طیب پھلوں پر بہتر بہتر ہو گا ۔(۳)

۶ ۔ یہ شجرہ طیبہ پھلوں سے لدا ہوا ہے ۔ یہ ان درختوں کی مانند نہیں کہ جو بے ثمر ہوتے ہیں ” یہ درخت اپنا پھل دیتا ہے “( تُؤْتِی اٴُکُلَهَا ) ۔

۷ ۔ اور ایہ ایسا درخت ہے جو ایک دو فصلوں میں پھل نہیں دیتا بلکہ ہر موسم میں اس پر پھل لدے ہوتے ہیں تو جب بھی اس کی جانب ہاتھ بڑھا ئے محروم نہیں لوٹے گا( کُلَّ حِینٍ ) ۔

۸ ۔ اس کا یہ پھل کسی پروگرام کے بغیر نہیں بلکہ قوانین فطرت کے مطابق سنتِ الہٰی کے تحت اور ” اپنے پر وردگار کے اذن سے “ ہے اور سب کے لئے عام ہے( بِإِذْنِ رَبِّهَا ) ۔

اس ”شجرہ طیبہ “ کی یہ خصوصیات آپ کے سامنے ہیں اب غور کیجئے کہ یہ بر کات کس درخت کو حاصل ہیں ۔ یقینا یہ خوبیاں او ربر کتیں کلمہ توحید اور اس کے معنی میں موجود ہیں ، ایک موحد اور صاحب معرفت انسان کو حاصل ہیں اور ایک اصلاحی اور پاکیزہ لائحہ عمل میں موجود ہیں او ریہ سب مفاہیم محکم و ثابت جڑوں کے حامل ہیں ، سب میں ایسی فراواں شاخیں ہیں جو آسمان سے باتیں کرنے والی ہیں اورمادی آلوگیوں او ر کثافتوں سے دور ہیں ۔ سب ثمر آور ، نور افشاں اور فیض بخش ہیں ۔

جو شخص جو وقت بھی ان کے پا س آئے اور ہاتھ ان کے شاخسارِ وجود کی طرف پھیلائے ان کے لذیزو معطر اور قوت بخش پھلوں سے اپنا دامن ِ مراد بھر لے گا ۔ حوادث کی تیز آندھیاں اور سخت طوفان انہیں ان کی جگہ سے ہٹا نہیں سکتے اور ان کا افق فکر چھوٹی سی دنیا میں محدود نہیں ہے وہ زمان و مکان کے حجاب چاک کرکے ابدیت کی طرف آگے بڑھتے ہیں ۔

ان کا پروگرام ہوا و ہوس کے تابع نہیں بلکہ سب کے سب اذن پر ور دگار سے ا س کے فرمان کے مطابق آگے بڑھے اور حرکت کرتے ہیں او ریہی ان کے ثمر بخش ہونے کا سرچشمہ ہے ۔

پر وردگار کے ان کلمات ِ طیبہ عظیم و با ایمان جوانمردوں کی زندگی برکت کا باعث ہے او ران کی موت ہے او ران کی موت حرکت کا سبب ہے ا، ان کے آثار ، ان کے کلمات ، ان کی باتیں ، ان کے شاگرد ، ان کی کتابیں ،ان کی پرافتخار تاریخ حتی کہ ان کی خاموش قبریں سب کی سب الہام بخش ، سر چشمہ ہدایت ، انسان ساز اور تربیت کنندہ ہیں ۔

جی ہاں ! خدا اس طرح سے لوگوں کے لئے مثالیں بیان کرتا ہے کہ شاید وہ سمجھ جائیں ”( وَیَضْرِبُ اللهُ الْاٴَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَتَذَکَّرُونَ ) ۔

یہاں مفسرین کے درمیان ایک سوال پیدا ہوا او روہ یہ ہے کی کوئی درخت مذکورہ بالاصفات کا وجودِخارجی رکھتا ہے کہ جس سے کلمہ طیبہ کو تشبیہ دی گئی ہے ایسا درخت موجود ہے او روہ کھجور کا درخت ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے مجبوراً” کل حین “کی تفسیر ” چھ ماہ ، بیان کی ہے ۔

لیکن کسی وجہ سے بھی ضروری نہیں کہ ہم اس قسم کے درخت کے وجود پر اصرار کریں بلکہ مختلف زبانوں میں ایسی بہت تشبیہیں موجود ہیں جو بالکل وجودِ خاجی نہیں رکھیں مثلاًہم کہتے ہیں کہ قرآن ایسے آفتاب کی مانند ہے جو کبھی غروب نہیں ہوتا ( حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ آفتاب ہمیشہ غروب کرتا ہے ) یا کہاجاتا ہے کہ میرا ہجر ایسی رات کی طرح ہے جو ختم ہونے کو نہیں آتی( حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ ہر شب ختم ہو جاتی ہے ) ۔

بہر حال تشبیہ کا مقصد چونکہ حقائق کو مجسم کر نا ہے اور عقلی مسائل کو محسوس کے قالب میں ڈھالنا ہے لہٰذا ایسی تشبیہات میں کوئی مضائقہ نہیں بلکہ یہ پوری طرح دلنشیں ،مؤثر اور جاذب ہیں ۔

اس کے باوجود دنیا میں ایسے درخت موجود ہیں جن کی شاخوں پر سے سارا سال پھل ختم نہیں ہوتے یہاں تک کہ ہم نے خودگرم علاقوں میں بعض ایسے درخت دیکھے ہیں کہ ان پر پھل بھی موجود تھا اور تازہ پھول بھی اُگے ہوئے تھے اور نئے پھل کے آثار بھی موجود تھے جب کہ موسم سر دیوں کاتھا ۔

مسائل سمجھنے اور افہام و تفہیم کا بہترین طریقہ چونکہ موازنہ کرنا ہے لہٰذا شجرہ طیبہ کے ذکر کے بعد بلا فاصلہ اگلی آیت میں فرمایا گیاہے : رہی مثال کلمہ خبیثہ کی ، تو وہ خبیث ، ناپاک اور بے ریشہ درخت کی مانند ہے کہ جو زمین سے اکھڑچکا ہے اور طوفان آتے ہیں تو روزانہ کسی اور کونے میں جاگر تا ہے اور اسے قرار و ثبات میسر نہیں( وَمَثَلُ کَلِمَةٍ خَبِیثَةٍ کَشَجَرَةٍ خَبِیثَةٍ اجْتُثَّتْ مِنْ فَوْقِ الْاٴَرْضِ مَا لَهَا مِنْ قَرَارٍ ) ۔

”کلمہ خبیثہ“ وہی کفر و شرک کا کلمہ ہے ، گھٹیا ، قبیح او ربری گفتار ہے ، گمراہ کن اور غلط پروگرام ہے او رناپاک و آلودہ انسان ہیں خلاصہ یہ کہ ہرخبیث اورناپاک چیز کلمہ خبیثہ ہے ۔

واضح ہے کہ ہر ناکارہ او رقبیح و منحوس درخت کہ جس کی جریں اکھڑ گئی ہوں اس میں نہ نشو و نما ہوگی ، نہ ترقی و تکامل ، نہ پھل پھول ، نہ سایہ و منظراو رنہ ثبات و قراردہ تو ایک لکڑی جو سوائے جلانے اور آگ لگانے کے کسی کام کی نہیں بلکہ راستے کی رکاوٹ ہے ۔ ایسا درخت کبھی گزند پہنچا تا اور مجروح کرتا ہے ی الگوں کے لئے تکلیف و آزار کا باعث بنتا ہے ۔

یہ بات قابل ِ توجہ ہے کہ شجرہ طیبہ کی تعریف میں قرآن تفصیل سے بات کرتا ہے لیکن جب شجرہ خبیثہ کے ذکر کا موقع آتا ہے ۔ تو ایک مختصر سا جملہ کہہ کر گزر جاتا ہے ۔ صرف اتنا کہتا ہے ۔( اجتثت من فوق الارض مالها من قرار )

یہ زمین سے اکھڑا ہوا ہے اور اسے ثبات و قرار نہیں ہے ۔

کیونکہ جس وقت یہ ثابت ہو گیا کہ یہ درخت جڑ کے بغیر ہے تو پھر شاخ و بر گ اور پھل پھول کے ذکر کے ذکر کی ضرورت نہیں رہتی ۔ علاوہ ایں یہ ایک طرح کی لطافت ِ بیان ہے کہ انسان محبوب کا ذکر کوتا ہے تو اس کی تمام خصوصیات بیان کرتاہے لیکن جب”مبغوض“ کے ذکر کا موقع آتا ہے تو بس ایک نفرت انگیز جملہ کہہ کے آگے بڑ جاتا ہے ۔

یہاں پھر ہم دیکھتے ہیں کہ مفسرین اس درخت کے متعلق کہ جو مشبہ بہ کے طور پر آیا ہے کے بارے میں سوال اٹھا تے ہیں کہ یہ کونسا درخت ہے ۔

بعض نے اسے ”حنظل“سمجھا ہے کہ جس کا پھل بہت تلخ اور برا ہوتا ہے

بعض نے اسے ”کشوت“ (بروزن” سقوط“)کہا ہے ۔ یہ ایک پیچیدہ ساپودا ہے ، جو بیابانوں میں خاردار بوٹوں سے لپٹ کر اوپر چلا جاتا ہے ۔ نہ ا س کی جڑ ہوتی ہے نہ پتے ( توجہ رہے کہ ” شجر“لغت میں درخت کو بھی کہا جاتا ہے اور پودے کو بھی ) ۔

لیکن جیسا کہ ہم نے ”شجرہ طیبہ “ کی تفسیر میں بیان کیا ہے کہ ضروری نہیں کہ ہر تشبیہ میں ” مشبہ بہ“ ان تمام صفات کے ساتھ وجود خارجی رکھتا ہو بلکہ یہاں مقصد کلمہ شرک ، انحرافی طرز عمل اور خبیث لوگوں کی حقیقی چہرہ کو مجسم طور پر پیش کرنا ہے اور بتانا ہے کہ وہ ان درختوں کی طرح ہیں جن کی ہر چیز خبیث او ناپاک ہے اور ان کا ثمر سوائے اس کے کچھ نہیں کہ وہ راستے میں مزاحم ہوتے ہیں اور درد سر کا باعث بنتے ہیں ۔ علاوہ ازیں ایسے ناپاک درخت کم نہیں کہ جو جڑ سے اکھاڑ پھینکے گئے ہوں اور بیابان میں طوفان اور تیز آندھی کی زد پر ہوں ۔

مذکورہ بالاآیت میں دو ناطق مثالوں کے ذریعے ایمان و کفر ، مومن و کافر اور کلی طور پر ہ رپاک و ناپاک وجود کو مجسم شکل میں ذکر کیا گیا ہے لہٰذ آخری زیر نظر آیت میں نتیجہ کار اور ان کا انجام آخر ذکر کیا گیا ہے ۔

پہلے ارشاد ہوتا ہے : ایمان لانے والوں کو خدا ان کی ثابت و پائدار گفتار و اعتقاد کے سبب ثابت قدم رکھتا ہے ، اس جہاں میں بھی اور اس جہاں میں بھی( یُثَبِّتُ اللهُ الَّذِینَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَفِی الْآخِرَةِ ) ۔

کیونکہ ا ن کا ایمان سطحی اور متزلزل نہیں ہوتا نہ ان کی شخصیت کھوکھلی اور متلون ہوتی ہے بلکہ وہ ایک شجرہ طیبہ ہیں کہ جس کی جڑیں ثابت و پائدہیں اور جس کی شاخیں آسمان کی طرح بلندہیں اور چونکہ کوئی شخص لطف ِ خدا سے بےنیاز نہیں ، دوسرے لفظوں میں ہر نعمت بالآخر اس کی ذات ِ پاک کی طرف لوٹتی ہے لہٰذا یہ سچے ثابت قدم مومنین لطفِ خد اکے بھروسہ ہر حادثے کے مقابلے میں پہاڑ کی طرح استقامت دکھاتے ہیں ۔ لغزش کہ جس سے زندگی میں بچا نہیں جاسکتا ان کے راستے میں آتی ہے تو خدا ن کی حفاظت کرتا ہے ۔ شیاطین ہر طرف سے انہیں وسوسہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس دنیا کی زرق برق چیزوں کے ذریعے انہیں پھسلانے کی سعی کرتے ہیں مگر ان کا خدا انہیں محفوظ رکھتا ہے ۔ جہنمی طاقتیں اور سنگدل ظالم انہیں طرح طرح کی دھمکیوں کے ذریعے جھکانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ انہیں اثبات ِ قدم عطا کرتا ہے کیونکہ ان کی جڑ اور بنیاد ثابت و مستحکم ہوتی ہے ۔

یہ بات جاذبِ نظر ہے کہ یہ خدائی حفاظت وثبا ت ان کی ساری زندگی پر محیط ہے ۔ اس جہاں کی زندگی پر بھی اور اس جہاں کی زندگی پر بھی ۔ یہاں وہ ایمان و پاکیزگی پر باقی رہتے ہیں اور ان کا دامن آلودگیوں کے عار و ننگ سے پاک ہوتا ہے اور وہاں وہ خدا تعالیٰ کی بے پایاں نعمتوں میں ہمیشہ رہیں گے ۔

پھر ان کے مقابل افراد کے بارے میں فرمایا گیاہے : اور خدا ظالموں کوگمراہ کرتا ہے اور خدا جو کچھ چاہتا ہے انجام دیتا ہے( وَیُضِلُّ اللهُ الظَّالِمِینَ وَیَفْعَلُ اللهُ مَا یَشَاءُ ) ۔

ہم نے بارہا کہا ہے کہ جہاں جہاں بھی ہدایت و ضلالت کی نسبت خدا کی طرف دی جاتی ہے اس کے لئے پہلے انسان خود قدم اٹھا تا ہے ۔ خدا کا کام تو تاثیر پیدا کرتا ہے جو اس نے ہر عمل میں کی ہے نیز خدا کاکام نعمتیں عطا کرنا اور انہیں سلب کرتا ہے اور ایسا وہ اہلیت اور عدم اہلیت کی بناء پر کرتا ہے (غور کیجئے گا ) ۔

”یضل اللہ “ کے بعد ” ظالمین “ کی تعبیر اس امر کے لئے بہترین قرینہ ہے یعنی جب تک کوئی شخص ظلم و ستم سے آلودہ نہ ہو اس سے نعمت ہدایت سلب نہیں ہو گی لیکن جب کوئی ظلم و ستم سے آلودہ ہوجاتاتو گناہ کی تاریکی ا س کے وجود پر چھا جاتی ہے او رہدایت الہٰی کا نور ا س کے دل سے نکل جاتا ہے او ریہ بالکل ارادہ و اختیار کی آزادی ہے ۔ ایسا شخص اگر فور ی طور پر اپنی سمت درست کرلے تو نجات کا راستہ اس کے سامنے کھلا ہوا ہے لیکن گناہ میں مستحکم ہو جانے کے بعد پلٹنا بہت ہی مشکل ہے ۔

____________________

۱۔مجمع البیان ، قرطبی، فی ظلال اور تفسیر کبیر از فخر رازی کی طرف رجوع کریں ۔

۲۔ لفظ ”کلمہ “ اور اس کے مفہوم کے بارے میں تفسیر نمونہ جلد ۵ میں سورہ انعام کی آیہ ۱۱۵ کے ذیل میں ہم بحث کر چکے ہیں ( دیکھئے ص۳۳۱ اردو ترجمہ ) ۔

۳۔ ایسی تاثیر خصوصاً ایک درخت کے پھلوں پر خوب واضح ہے ۔ وہ کہ جو درخت کی اوپرکی شاخوں پرلگنے والے پھلوں کی کی نسبت بہتر اور خوب پکے ہوئے ہوتے ہیں اور زیادہ عمدہ ہوتے ہیں ۔

۴۔تفسیر نور الثقلین جلد ۲ صفحہ ۵۴۰ و ۵۴۱۔

چند اہم نکات

۱ ۔ کیا آخرت سے مراد قبر ہے ؟

بہت سی روایات میں ہے کہ جب انسان قبر میں پہنچتا ہے اور فرشتے اس سے اس کی حقیقت کے متعلق سوال کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اسے ایمان کے راستے پر ثابت قدم رکھتا ہے اور اس کا یہی معنی ہے :

( یُثَبِّتُ اللهُ الَّذِینَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَفِی الْآخِرَةِ )

ان میں سے بعض روایا ت میں صراحت کے ساتھ لفظ” قبر “ آیاہے ۔(۱)

جبکہ بعض دوسری روایات میں ہے کہ شیطان موت کے وقت صاحب ِ ایمان کے پاس آتا ہے اور کبھی داہنی طرف سے اور کبھی بائیں طرف سے اور کبھی بائیں طرف سے اسے گمراہ کرنے کے لئے وسوسہ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے لیکن خدا اسے اجازت نہیں دیتا کہ وہ مومن کو گمراہ کرے ” یثبت اللہ الذین اٰمنوکا یہی مفہوم ہے ۔

امام صادق علیہ السلام کی اس روایت کا بھی یہ مفہوم ہے :

( ان الشیطان لیا تی الرجل من اولیاء ناعند موته عن یمینه و عن شماله لیضله عما هو علیه فیأبی الله عزو جل له ذٰلک قول الله عزو جل یثبت الله الذین اٰمنوا بالقول الثابت فی الحیٰوة الدنیا و فی الآخرة ) ۔(۲)

مفسر عظیم طبرسی نے مجمع البیان میں نقل کیا ہے کہ اکثر مفسرین نے اس تفسیر کو قبول کیا ہے ۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ دار ِ آخر نہ لغزش کی جگہ ہے اور نہ عمل کی بلکہ صرف نتائج اعمال کا سامنا کرنے کا مقام ہے لیکن وہ لمحہ کہ جب موت آپہنچے اور حتی کہ عالم بر زخ ( وہ جہان کہ جو اس عالم اور عالم ِ آخرت کے درمیان ہے )میں تھوڑا بہت لغزش کا امکان ہے ۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں لطف ِ الہٰی انسا ن کی مدد کو آپہنچتا ہے، اس کی حفاظت کرتا ہے اور اسے ثابت قدم رکھتا ہے ۔

۲ ۔ ثبات و استقامت کا اثر

شجرہ طیبہ اور شجرہ خبیثہ کی تمام صفات میں سے کہ جو مندرجہ بالا آیات میں ذکر ہوئی ہیں سب سے زیادہ ثبات و عدم ثبات کا مسئلہ سامنے آتا ہے ۔ یہاں تک کہ شجرہ طیبہ کے ثمر کے طور پر آخری زیر بحث آیت میں فرمایا گیا ہے کہ خدا صاحب ِ ایمان افراد کو اپنے ثابت قدم و مستحکم عقیدے کی بناء پر دنیا و آخرت میں ثابت قدم رکھتا ہے ۔ ا س سے ثبات اور اس کی تاثیر کے مسئلے کی انتہائی اہمیت ظاہر ہوتی ہے ۔

عظیم لوگوں کی کامیابی کے عوامل کے بارے میں بہت گفتگو ہوتی ہے لیکن ان تمام میں سے استقامت و پامردی کا درجہ پہلاہے ۔

بہت سے لوگ ایسے ہیں جو سمجھ بوجھ اور استعداد کے لحاظ سے درمیانے درجے کے ہوتے ہیں یا عمل میں پیش قدمی کے لحاظ سے اوسط درجے کے ہوتے ہیں لیکن انہیں زندگی میں بڑی بڑی کامیابیاں حاصل ہوتی ہیں ان کے بارے میں تحقیق و مطالعہ کے بعد ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ ان کی کامیابیوں کی وجہ سے ثبات و استقامت کو ختم کرنے پر صرف ہوتی ہے ۔ اصولی طور پر حقیقی مومنین کو زندگی کے سخت حوادث اور طوفان کے مقابلے میں ان کے ثبات و استقامت کے حوالے سے پہچاننا چاہئیے ۔

۳ ۔ روایات اسلامی میں شجرہ طیبہ اور شجرہ خبیثہ

جیسا کہ ہم نے کہا ہے کہ ”طیبہ “اور خبیثہ “ کہ جنہیں دو درختوں سے تشبیہ دی گئی ہے ایک وسیع مفہوم رکتھے ہیں او ریہ ہر طرح کے شخص ، پروگرام ، مکتب ، فکر و نظر ، سوچ بچار اور گفتار و عمل پر محیط ہے لیکن بعض اسلامی روایات میں اس کی خاص حوالوں سے تفسیر کی گئی ہے ۔ واضح ہے کہ مفہوم ِ آیت ان میں منحصر نہیں ہے ۔

ان میں سے ایک روایت امام صادق علیہ السلام مروی ہے آپ ”اصلھا ثابت و فرعھا فی السماء “ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

رسول الله اصلها و امیر المومنین فرعها ،

و الائمه من ذریتهما اغصانها ، و علم الائمه ثمر ها ، و شیعتهم المؤمنون ورقها، هل فیها فضل؟

قال : قلت لا والله ،

قال و الله ان المومن لیولد فتورق ورقة فیها و ان المؤمن لیموت فتسقطو رقة منها۔

رسول اللہ اس درخت کی جڑ ہیں ۔ امیر المومنین علی (علیه السلام) اس کا تنا ہیں اور وہ امام جو ان دونوں کی ذریت میں سے ہیں ا س کی ٹہنیاں ہیں اور آئمہ کا علم اس درخت کا پھل ہے اور ان کے صاحب ِ ایمان شیعہ اس کے پتے ہیں ۔

پھر امام نے فرمایا کیاکوئی اور چیز باقی رہ جاتی ہے ؟

راوی کہتا ہے : میں نے کہا نہیں ، خدا کی قسم ۔

فرمایا: و اللہ جس وقت ایک صاحب ِ ایمان پیدا ہوتا ہے تو اس درخت پر ایک پتے کا اضافہ ہو جاتا ہے اور جس وقت کوئی حقیقی مومن مرجاتا ہے اور جس وقت کوئی حقیقی مومن مر جاتا ہے تو اس درخت کا ایک پتہ گر جاتا ہے ۔(۳)

ایک روایت میں یہی مضمون امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے ۔ اس میں ہے :

راوی نے سوال کیا :”تؤتی اکلها کل حین باذن ربها “کا کیا مفہوم ہے ۔

امام (علیه السلام) نے فرمایا: آئمہ کے علم کی طرف اشارہ ہے کہ جو ہر سال اور ہر علاقے میں تم تک آپہنچتا ہے ۔(۴)

ایک اور روایت میں ہے :

” شجرہ طیبہ “ رسول اللہ ، علی ، حسن اور حسین اور ان کے فرزند ان ِ گرامی ہیں اور ” شجرہ خبیثہ “بنی امیہ ہیں ۔(۵)

نیز بعض روایا ت میں یہ بھی شرط ہے کہ ” شجرہ طیبہ “ کھجور کا درخت ہے اور ”شجرہ خبیثہ “ حنظل“ ( تُمّہ ) کا درخت ہے ۔(۶)

بہر حال ان تفاسیر میں کوئی باہمی تضاد نہیں ہے ۔ جو کچھ اوپر بیان ہوا ہے او رجو کچھ ہم نے آیہ کے عمومی معنی میں ذکر کیا ہے اس میں ہم آہنگی موجود ہے کیونکہ یہ تو اس عمومی مفہوم کے مصادیق میں سے ہیں ۔

____________________

۱۔تفسیر نور الثقلین جلد ۲ صفحہ ۵۴۰ و ۵۴۱۔

۲۔ نور الثقلین ، جلد ۲ ص۵۳۵۔

۳۔نور الثقلین ، جلد ۲ ص۵۳۵۔ و ص۵۳۸۔

۴۔نور الثقلین ، جلد ۲ ص۵۳۵۔ و ص۵۳۸۔

۵۔ المیزان ، زیر بحث آیت کے ذیل میں ،بحوالہ تفسیر در منثور ۔

آیات ۲۸،۲۹،۳۰

۲۸ ۔( اٴَلَمْ تَرَی إِلَی الَّذِینَ بَدَّلُوا نِعْمَةَ اللهِ کُفْرًا وَاٴَحَلُّوا قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِ ) ۔

۲۹ ۔( جَهَنَّمَ یَصْلَوْنَهَا وَبِئْسَ الْقَرَارُ ) ۔

۳۰ ۔( وَجَعَلُوا لِلَّهِ اٴَندَادًا لِیُضِلُّوا عَنْ سَبِیلِهِ قُلْ تَمَتَّعُوا فَإِنَّ مَصِیرَکُمْ إِلَی النَّارِ ) ۔

ترجمہ

۲۸ ۔ کیا تونے ( انہیں )نہیں دیکھا جنہوں نے خدا کی نعمت کو نا شکری میں بدل دیا او راپنی قوم کو ہلا کت کے گڑھے کی طرف کھینچ لے گئے ۔

۲۹ ۔ ( دار البوار وہی ) جہنم ہے کہ جس کی آگ میں وہ داخل ہوں گے اور وہ برا ٹھکانا ہے ۔

۳۰ ۔ انہوں نے خدا کے ہمسر قرار دئیے تاکہ ( لوگوں کو ) اس کی راہ سے ( منحرف اور)گمراہ کریں ۔ ان سے کہہ دو (کہ چنددن )دنیا کی زندگی (اور اس کی لذتوں سے) فائدہ اٹھا لو مگر بالا ٓخر تمہیں ( جہنم کی ) آگ کی طرف لوٹ کر جانا ہے ۔

تفسیر

کفران ِ نعمت کا انجام

ان آیات میں روئے سخن پیغمبر اکرم کی طرف سے ہے ۔ در اصل ان میں شجرہ خبثہ کے ایک موقع کی تصویر کشی کی گئی ہے ۔

پہلے فرمایا گیا ہے : کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہوں نے نعمت ِ الہٰی میں تبدیل کردیا ہے( اٴَلَمْ تَرَی إِلَی الَّذِینَ بَدَّلُوا نِعْمَةَ اللهِ کُفْرًا ) ۔

اور بالآخرہ انہوں نے اپنی قوم کو دار البوار او رہلاکت کے گڑھے کی طرف دھکیل دیا( وَاٴَحَلُّوا قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِ ) ۔

یہ و ہی شجرہ خبیثہ کی جڑیں اور کفر و انحراف کے رہبر ہیں جن کے دامن میں نعمتیں تھیں مثلاً وجود ، پیغمبر کی سی نعمت کہ جس سے بڑھ کر کوئی نعمت نہ تھی ۔ چاہے تویہ تھا کہ وہ ان سے استفادہ کرتے اور شب بھر میں سوسال کی مسافت طے کرلیتے لیکن اندھے تعصب ، ہٹ دھرمی ، خود غرضی اور خود پسندی کے سبب وہ اس عظیم ترین نعمت سے استفادہ نہ کرسکے ۔ وہ نہ فقط خود کفران ِ نعمت کے مرتکب ہوئے بلکہ اپنی قوم کو بھی وسوسہ میں مبتلا کیا اور ہلاکت و بد بختی کی انہیں سوغات دی ۔

بزرگ مفسرین نے منابع ِ اسلامی میں آنے والی روایات کے پیش نظر کبھی اس نعمت کو وجود ِپیغمبر کہا ہے ، کبھی آئمہ اہل بیت (علیه السلام) اور کفران ِ نعمت کرنے والے کبھی بنو امیہ قرار دئیے ہیں ۔کبھی بنی مغیرہ اور کبھی زمانہ پیغمبر کے سب کفار لیکن آیت کا مفہوم یقینا وسیع ہے او ریہ کسی معین گروہ کے لئے مختص نہیں ہے اور اس میں وہ تمام لوگ شامل ہیں جو خدا کی کسی نعمت کا کفران کریں ۔

ضمناًمندرجہ بالا آیت سے یہ حقیقت بھی ثابت ہوتی ہے کہ خدائی نعمتوں خصوصاً عظیم ہادیوں اور رہبری کی نعمت کہ جو اہم ترین نعمتوں میں سے ہے ، سے استفادہ کرنا خود انسان کے فائدے میں ہے ۔ اب ان نعمتوں کا کفران اور آخری رہبری سے منہ پھیرنا سوائے ہلاکت اور دار البوار میں گرنے کے اور کچھ نہیں ہے ۔

اس کے بعد قرآن ”دار البوار “ کی تفسیر کرتا ہے : یہ جہنم ہے کہ وہ جس کے جلاڈالنے والے شعلوں میں جاگریں گے اور یہ بد ترین ٹھکانا ہے( جَهَنَّمَ یَصْلَوْنَهَا وَبِئْسَ الْقَرَارُ ) ۔(۱)

اگلی آیت میں کفران ِ نعمت کی ایک بد ترین قسم کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ،کہ جس کے وہ مر تکب ہوتے تھے ۔ارشاد ہوتا ہے :انہو ں نے خدا کے لیے شریک قراردیئے تا کہ اس طریقے سے لو گوں کو اس کی راہ سے گمراہ کریں( وجعلوالله انداً لیضلوا عن سبیله ) شرک و کفر اختیار کر کے اورلو گوں کو دین و طریق حق سے منحرف کرکے وہ لوگوں پر چند روزہ مادی اقتدار کوئی حا صل کرتے ہیں ۔اے رسول !ان سے کہو: اس ناپائیدار اور بے وقعت مادی زندگی سے فائدہ اٹھا لولیکن یہ جان لو کہ تمہارا انجام ِ کار آگ ہے( وَجَعَلُوا لِلَّهِ اٴَندَادًا لِیُضِلُّوا عَنْ سَبِیلِهِ قُلْ تَمَتَّعُوا فَإِنَّ مَصِیرَکُمْ إِلَی النَّارِ ) ۔نہ تمہاری یہ زندگی ہے بلکہ بدبختی ہے او رنہ تمہارا یہ اقتدار کوئی حیثیت رکھتا ہے بلکہ تباہ کاری مصیبت ہے لیکن اس کے باوجود اپنے انجام کے بدلے تم اس سے فائدہ اٹھا لو ۔

ایک اور آیت میں فرمایا گیا ہے :( قل تمتع بکفرک قلیلاً انک من اصحابِ النار )

کہہ دو : اپنے کفر سے تھوڑا سا فائدہ اٹھالے آخر کار تو اصحاب ِ نار میں سے ہے ۔(زمر ۔ ۸)

____________________

۱۔”یصلون “ ” صلی “مادہ سے آگ جلانے ، آگ میں جلنے، آگ میں مبتلا ہونے اور آگ میں جل کر کباب ہونے کے معنی میں ہے ۔

چند اہم نکات

۱ ۔ نعمت کوکفر میں بدل دیا :

عام طور پر کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص نے نعمت ِ الہٰی کا کفران کیا لیکن زیر بحث آیت میں ہے : انہوں نے نعمت ِ خد اکو کفر میں تبدیل کیا اور کفران کیا“۔ہوسکتا ہے یہ خاص تعبیر دو میں ایک وجہ کی بناء پر ہو:

الف :مراد ہے ”شکر نعمت “ کو” کفران “ میں تبدیل کرنا یعنی ان کے لئے ضروری تھا کہ وہ پر وردگار کی نعمتوں پر شکر گزارہوں لیکن انہوننے اس شکر کو کفران میں تبدیل کردیا ۔ حقیقت میں لفظ شکر مقدر ہے اور تقدیر میں اس طرح تھا ،

الذین بدلوا شکر نعمتہ اللہ کفراً

ب:مراد یہ ہے کہ انہوں نے خود نعمت کو کفر میں تبدیل کردیا ۔ درحقیقت خدائی نعمتیں وسیلہ ہیں ۔ ان سے استفادہ کا طریقہ کود انسان کے ارادہ سے وابستہ ہے ۔ جیسا کہ ممکن ہے نعمتوں سے ایمان ، خوش بختی او رنیکی کی راہ میں فائدہ اٹھایا جائے اسی طرح ا ہیں کفر، ظلم اور برائی میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے یہ نعمتیں خام مال کی طرح ہیں جن میں سے مختلف قسم کی چیزیں تیار کی جا سکتی ہیں اگر اصل میں یہ خیر و سعادت کے لئے پید اکی گئی ہیں ۔

۲ ۔ نعمت سے سوئے استفادہ کفران ِ نعمت ہے :

کفران ِ نعمت صرف یہ نہیں کہ انسان خدا کی ناشکری کرے بلکہ نعمت سے ہر طرح کا انحرافی فائدہ حاصل کرنا اور سوئے استفادہ کفران ِ نعمت ہے ۔ اصولی طور پر کفرانِ نعمت کی حقیقت یہی ہے ۔ ناشکری اور شکر ادا نہ کرنا تو دوسرے مرحلے کی بات ہے ۔ جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں کہ نعمت کو اس مقصد کے مطابق صرف نہ کرنا جس کے لئے وہ پیدا کی گئی ہے کفران ِ نعمت ہے اور زبانی شکر گزاری ثانوی حیثیت رکھتی ہے ۔ اگر آپ ہزار مرتبہ زبان سے ” الحمد للہ“ کہیں لیکن عملی طو رپر نعمت سے سوء استفادہ کریں تو کفرانِ نعمت او رکیا ہے ۔

دورِ حاضر میں نعمت کو کفران میں تبدیل کرنے کے انتہائی واضح نمونے دکھائی دیتے ہیں ۔

فطرت کی بہت سے قوتیں انسان کی خدا داد بصیرت اور پیش قدمی کی وجہ سے انسان کے ہاتھ لگی ہیں اور ان سے فائدہ حاصل کرنا اب انسان کی دسترس میں ہے ۔

سائنسی انکشاف اور صنعتی ایجادات نے پوری دنیا کا رخ ہی بدل کر دکھ دیا ہے ۔ ان انکشافا ت و ایجادات نے انسان کے کندھوں بہت بھاری بوجھ اتار کر کار خانوں کے پہیوں پر ڈال دیا ہے ۔ آج نعمات ِ الہٰی ہر دور سے زیادہ ہیں ۔ آج انسان اپنے افکار اور عالم کو پوری دنیا میں پھیلاسکتا ہے ۔ ساری دنیا کی خبروں سے آگاہی حاصل کرسکتا ہے ۔ اب چاہیئے تو یہ تھا کہ اس دور میں لو گ ہر زمانے سے زیادہ خوشحال ہوتے ، مادی لحاظ سے بھی اور روحانی لحاظ سے بھی۔

آج خد انے ان عظیم نعمتوں کو کفر میں تبدیل کرنے کا راستہ اپنا یا گیا ہے ۔ مادے کے عجیب و غریب توانائیوں کو ظلم و طغیان کی راہ میں استعمال کیا جارہاہے ۔ انکشافات و ایجادات کو برائی اور تخریبی مقاصد کے لئے استعمال کیا جارہا ہے ۔ ہر نیا صنعتی شاہکار پہلے تکریبی مقاصد کے لئے استعمال ہوتا ہے اور اس کی تعمیری پہلو کی نوبت بعد کی بات ہو جاتی ہے ۔

خلاصہ یہ کہ یہ عظیم نا شکری ہے جو انبیاء الہٰی کی اصلاحی اور تر بیتی تعلیما ت سے دور رہنے کا نتیجہ ہے اور ایسا کرنے والے اپنی قوم کو نعمات ِ الہٰی کا کفران کر کے اسے دار البوار کی طر ف کھینچے لے جارہے ہیں ۔

۳ ۔ ” انداد“ کا مفہوم :

”انداد“ جمع ہے ”ند“ کی ۔ اس کا معنی ہے ”مثل“ لیکن جیسا کہ راغب نے مفردات میں اور زبیدی نے تاج العروس میں (بعض اہل لغت سے ) نقل کیا ہے ”ند“ اس چیزکو کہا جاتا ہے جو دوسری چیز سے شاہت جو ہری رکھتی ہولیکن ” مثل“ کا اطلاق ہر قسم کی شباہت پر ہوتا ہے ۔ لہٰذا ”ند“ کااستعمال ” مثل “ کی نسبت زیادہ عمیق ، رسا اور عمدہ ہے ۔

اس معنی کے مطابق زیر نظر آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ آئمہ کفر کی کوشش تھی کہ خدا کے کچھ ایسے شریک بنائیں کہ جنہیں جوہر ِ ذا میں خدا کا شبیہ قرار دیں تاکہ مخلوق کو خدا کی پر ستش سے روک سکیں اور اس طرح اپنے منحوس مقاصد پورے کرسکیں ۔

بعض اوقات وہ قربانیوں کا کچھ حصہ ان کے لئے قرار دیتے او رکبھی نعمات الہٰی کا کچھ حصہ ( جیسے بعض جانور ) بتوں کے لئے مخصوص کردیتے اور کبھی پرستش وعبادت کے ذریعے انہیں خدا کا ہم پلہ خیال کرتے ۔ سب سے بڑھ کر وقبیح یہ بات تھی کہ زمانہ جاہلیت میں مراسم حج میں کہ جو دین ِ ابراہیمی کے مطابق تھا اس میں انہوں نے بہت سی خرافات شامل کردی تھیں یہاں تک کہ ” لبیک “ کہتے ہوئے یوں کہتے تھے :

لبیک لاشریک لک ،

الا شریک هولک ،

تملکه و ماهلک ،

میں تیری دعوت کو قبول کرتا ہوں ، اے خد اکہ جس کا کوئی شریک نہیں ۔

سوائے اس شریک کے کہ جو تیرا شریک ہے ۔

اس کا بھی تو مالک ہے اور جس کاوہ مالک ہے اس کا بھی ۔(۱)

____________________

۱۔تفسیر فخر الدین رازی ، زیر بحث آیت کے ذیل میں ۔