تفسیر نمونہ جلد ۱۰

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 27204
ڈاؤنلوڈ: 1987


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 93 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 27204 / ڈاؤنلوڈ: 1987
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 10

مؤلف:
اردو

آیات ۳۱،۳۲،۳۳،۳۴

۳۱۔( قُلْ لِعِبَادِی الَّذِینَ آمَنُوا یُقِیمُوا الصَّلَاةَ وَیُنفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرًّا وَعَلَانِیَةً مِنْ قَبْلِ اٴَنْ یَأتیَ یَوْمٌ لاَبَیْعٌ فِیهِ وَلاَخِلَالٌ ) ۔

۳۲ ۔( اللهُ الَّذِی خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضَ وَاٴَنزَلَ مِنْ السَّمَاءِ مَاءً فَاٴَخْرَجَ بِهِ مِنْ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَکُمْ وَسَخَّرَ لَکُمْ الْفُلْکَ لِتَجْرِیَ فِی الْبَحْرِ بِاٴَمْرِهِ وَسَخَّرَ لَکُمْ الْاٴَنهَارَ ) ۔

۳۳( وَسَخَّرَ لَکُمْ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دَائِبَیْنِ وَسَخَّرَ لَکُمْ اللَّیْلَ وَالنَّهَارَ ) ۔

۳۴ ۔( وَآتَاکُمْ مِنْ کُلِّ مَا سَاٴَلْتُمُوهُ وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللهِ لاَتُحْصُوهَا إِنَّ الْإِنسَانَ لَظَلُومٌ کَفَّارٌ ) ۔

ترجمہ

۳۱ ۔ میرے ان بندوں سے کہہ دو کہ جو ایمان لائے ہیں کہ نماز قائم کریں اور ہم نے جو انہیں روزی دی ہے اس میں سے پنہاں و آشکار انفاق کریں ، اس سے پہلے کہ وہ دن آجائے کہ جس میں خرید و فروخت ہے نہ دوستی ( نہ مال کے ذریعے عذاب ِ خدا سے نجات مل سکے گی اور نہ کسی او رمادی رشتے سے ) ۔

۳۲ ۔ اللہ وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پید اکیاہے اور آسمان سے پانی نازل کیا ہے اس کے ذریعے تماہرے رزق کے طور پر پھل اگائے ہیں اورکشتی کو تمہارے لئے مسخر کیا ہے تاکہ وہ اس کے حکم سے صفحہ دریا پر چلے اور نہریں بھی تمہارے لئے مسخر کی ہیں ۔

۳۳ ۔ منظم پرو گرام کے ماتحت کام کر نے والے سورج اور چاند کو تمہارے لئے مسخر کیا ہے اور رات او ردن کو ( بھی ) تمہار ے لئے مسخر کیا ہے ۔

۳۴ ۔ اور تم نے جس چیز کا اس سے تقاضا کیا تھا وہ اس نے تمہیں دے دی اور نعمات ِ الہٰی کا شمار کرنے لگو تو ہر گز شمار نہیں کرسکوگے انسان ستمگر اور کفران کرنے والا ہے ۔

تفسیر

قرآن کی نگاہ میں انسان کی عظمت

گزشتہ آیات میں مشرکین اور ان لوگوں کے طرز عمل کے بارے میں گفتگو تھی کہ جنہوں نے نعماتِ الٰہی کاکفران کیا اور آخر کار دار البوار کی طرف کھینچے گئے ۔ زیر نظر آیات میں خدا کے سچے بندوں کا ذکر ہے اور اللہ کی بندوں پر نازل ہونے والی غیر متناہی نعمات کے بارے میں با ت کی گئی ہے ۔

پہلے فرمایا گیا ہے : میرے ان بندوں کو جو ایمان لائے ہیں کہہ دو کہ نماز قائم کریں اور ہم نے جو رزق دیا ہے اس میں سے پنہاں و آشکار خرچ کریں

( قُلْ لِعِبَادِی الَّذِینَ آمَنُوا یُقِیمُوا الصَّلَاةَ وَیُنفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرًّا وَعَلَانِیَةً ) ۔اس کے پہلے کہ وہ دن آجائے کہ جس میں نہ خرید و فروخت ہے کہ اس طرح عذاب سے نجات کے لئے راہ سعادت خرید سکیں او رنہ وہاں کسی کی دوستی کا م آئے گی( مِنْ قَبْلِ اٴَنْ یَأتیَ یَوْمٌ لاَبَیْعٌ فِیهِ وَلاَخِلَالٌ ) ۔

اس کے بعد معرفت ِ خدا کے لئے اس کی نعمتوں کا ذکر کیا گیا ہے ایسی معرفت کہ جس سے دلوں میں اس کا عشق زندہ ہو جائے نیز انسان کو اس کی عظمت اور اس کے لطف کے حوالے سے اس تعظیم پر ابھارا گیا ہے ۔ کیونکہ یہ ایک فطری امر ہے کہ مدد اور لطف و رحمت کرنے والے سے انسان کے دل میں لگاؤ اور محبت ہید اہوتی ہے ۔ یہی بات چند ایک آیات میں یہاں اس طرح بیان کی گئی ہے :۔

خد اوہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیاہے( اللهُ الَّذِی خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْض ) ۔اور اس نے آسمان سے پانی نازل کیا جس کے ذریعے تمہاری روزی کے لئے مختلف ثمرات پیدا ہوتے ہیں( وَاٴَنزَلَ مِنْ السَّمَاءِ مَاءً فَاٴَخْرَجَ بِهِ مِنْ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَکُمْ ) ۔

” اور اس نے تمہارے لئے کشتی کو مسخر کیا “ اس کے ساخت کے مواد کے لحاظ سے بھی کہ جسے طبیعت ِ مادہ سے پیدا کیا اور سمندروں پرمنظم ہواؤں کی صورت میں اس کی وقت ِ محرکہ لحاظ سے بھی( وَسَخَّرَ لَکُمْ الْفُلْکَ ) ۔” تاکہ یہ کشتیاں اس کے حکم سے سطح سمندر پر چلیں “ اور پانی پر سینہ چیر کر ساحلِ مقصود کی طرف بڑھیں اور انسانوں اور ان کے وسائل ایک سے دوسری جگہ کی طرف آسانی سے اٹھالے جائیں( لِتَجْرِیَ فِی الْبَحْرِ بِاٴَمْرِهِ ) ۔

اسی طر ح ” نہریں بھی تمہارے لئے مسخر کردی گئیں “( وَسَخَّرَ لَکُمْ الْاٴَنهَارَ ) ۔تاکہ ان کے حیات بخش پانی سے تم اپنی فصلوں کی آبیاری کرو اور تم خود اور تمہارے مویشی اس سے سیراب ہوں ۔ نیز اکثر اوقات کے لئے سطح آب کو ہموارہ رکھا گیا ہے تاکہ چھوٹی بڑی کشتیاں اس میں آمد و رفت کرسکیں ۔ نیز نہریں مسخر کی گئی ہیں تاکہ تم ان کی مچھلیوں بلکہ یہاں تک کہ ان کی گہرائیوں میں موجود اصداف سے استفادہ کرسکو۔

نہ صرف زمینی موجودات کو تمہارے لئے مسخر کیا ہے بلکہ سورج اور چاند کو جو ہمیشہ مصروف ِ کار ہیں انہیں تمہارے فرمان کے زیر گردش قرار دے دیا ہے( وَسَخَّرَ لَکُمْ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دَائِبَیْنِ ) ۔(۱)

نہ صرف اس جہان کے موجودات کو تمہارے زیر فرمان کردیا گیا ہے بلکہ ان کے عارضی حالات کو بھی تمہارے لئے مسخر کردیا گیا ہے جیسا کہ ”رات اور دن کو تمہارے لئے مسخر کیا گیا ہے “( سَخَّرَ لَکُمْ اللَّیْلَ وَالنَّهَارَ ) ۔

اور تم نے جس چیز کا اس سے تقاضا کیا اور فرد اورمعاشرے کی روح اور بدن کے لئے تمہیں جس چیز کی احتیاج ہوئی یا اپنی سعادت کے لئے تمہیں جس چیز کی ضرورت پڑی وہ سب کچھ اس نے تمہارے اختیار میں دے دیا( وَآتَاکُمْ مِنْ کُلِّ مَا سَاٴَلْتُمُوهُ وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللهِ لاَتُحْصُوهَا ) ۔

کیونکہ پر وردگارکی مادی اور معنوی نعمتوں نے تمہارے وجود اور محیط ِ زندگی کو اس طرح سے گھیر رکھا ہے ان کا شمار ممکن نہیں اور جن خدائی نعمتوں کو تم جانتے ہو وہ ان کے مقابلے میں جنہیں تم نہیں جاتنے دریا کے مقابلے میں قطرے کی مانند ہیں لیکن خدا کے اس تمام لطف و رحمت کے باجود یہ انسان ظالم ہے اور کفران ِ نعمت کرنے والا ہے( إِنَّ الْإِنسَانَ لَظَلُومٌ کَفَّارٌ ) ۔

انسان کو ایسی نعمتیں عطا کی گئیں ہیں کہ اگر وہ ان سے صحیح استفادہ کرتاتو سارے جہاں کو گلستان بنا دیتا اور ” مدینہ فاضلہ “ کی تشکیل کا خواب پورا ہو جاتا لیکن سوئے استفادہ ، ظلم و ستم اورکفران ِ نعمت کے سبب وہ اس مقام پر پہنچ گیا ہے کہ اس کی اس زندگی کاافق تاریک ہو گیا ، شہدِ حیات اس کے دہن میں جاں گداز زہر بن چکا ہے اور طاقت فرسا مشکلات نے طوق و زنجیر مشکلات نے طوق و زنجیر کے اسے جکڑ رکھا ہے ۔

____________________

۱۔”دائبین “ ” دؤب “کے مادہ سے ایک عادت کے مطابق یا محکم سنت کے مطابق کام جاری رکھنے کے معنی میں ہے ۔ سورج اور چاند چونکہ لاکھوں سال سے ایک معین و مستحکم طریقے سے نور افشانی کرنے ، زندہ موجودات کی پرورش کرنے ، سمندروں میں مدو جز پیدا کرنے اور کئی دوسری خدمات میں مصروف ہیں لہٰذ ان کے لئے ” دائبین “ سے بہتر تعبیر کا تصور نہیں ہوسکتا ۔

چند اہم نکات

۱ ۔ خالق اور مخلوق سے رشتہ

ان آیات میں ایک مرتبہ پھر سچے مومنین کے لائحہ عمل میں سے ” نماز “ اور انفاق “ کا ذکر کیا گیا ہے ۔

ہوسکتا ہے کہ بتدائی نظر سے سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلام کے تمام عملی پروگراموں میں سے یہاں صرف دو کاتذکرہ کیوں کیا گیا ہے ۔

اس کی علت یہ ہے کہ اسلام کی مختلف جہتیں ہیں ۔ ان کا خلاصہ تین میں پیش کیا جا سکتا ہے :

۱) انسان کا خدا سے رابطہ ۔

۲) انسان کا مخلوق سے رابطہ ۔

۳) انسان کا اپنی ذات سے رابطہ۔

درحقیقت تیسرا حصہ پہلے حصے اور دوسرے حصے کا نتیجہ ہے ۔ مذکورہ دو پروگرام ( نماز اور انفاق ) در اصل انہی دو حصوں میں سے ایک ایک کی طرف اشارہ ہیں ۔

نماز اللہ سے ہر قسم کے رابطے کا مظہر ہے کیونکہ نماز کے دوران یہ رابطہ دوسرے عمل کی نسبت زیادہ واضح ہوتا ہے ۔ جب کہ انفاق مخلوق ِ خدا سے رشتے کی طرف اشارہ ہے اور ا س کے لئے ضروری ہے کہ ہر نعمت ِ رزق میں سے انفاق کا وسیع مفہوم پیش ِ نظر رکھا جائے جس میں ہر طرح کی مادی و روحانی نعمت شامل ہے ۔

البتہ اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ جس سورہ کی بحث جاری ہے وہ مکی ہے اور ا س کے نزول کے وقت ابھی زکوٰة کا حکم نازل نہیں ہوا تھا، اس انفاق کو زکوٰة سے مر بوط نہیں سمجھا جاسکتا بلکہ یہ ایک وسیع معنی رکھتا ہے کہ جس میں نزول ِ حکم کے بعد زکوٰة بھی شامل ہے ۔

۲ ۔انفاق، پنہان اور آشکار کیوں ؟

ہم بار ہا قرآنی آیات میں پڑھ چکے ہیں کہ سچے مومنین پنہاں بھی انفاق اور صدقہ کرتے ہیں اور آشکا ربھی ۔ اس طرح سے انفاق کا وسیع معنی بیان کرنے کے سا تھ ساتھ اس کی کیفیت کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے کیونکہ بعض اوقات مخفی انفاق زیادہ مؤثر اور زیادہ آبرومند دانہ ہوتا ہے او ربعض اوقات آشکار ہو تو دوسروں کی تشویق کا باعث بنتا ہے ، اسلامی طرز ِ عمل کے لئے نمونہ مہیا کرتا ہے اور شعائر دین کی تعظیم و تکریم شمار ہوتا ہے ۔ علاوہ ازیں کبھی ایسے مواقع بھی آتے ہیں کہ جسے کچھ دیا جارہا ہو وہ لینے سے ناراحت ہوتا ہے ۔

اس وقت جب کہ ہم خونخوار دشمن سے جنگ میں مصروف ہیں ( یا کسی مسلمان قوم کو ایسی حالت کا سامنا ہو )تو اہل ایمان ہر روز جنگ زدگان یا مجروحین یاخود جنگجو یان کی امداد کے لئے مختلف قسم کا بہت زیادہ وہ سامان لے کر سر حدوں اور جنگی علاقوں کی طرف روانہ ہوتے ہیں اور ان کی خبریں ذرائع ابلاغ سے نشر ہوتی ہیں ایک تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پوری ملت جنگ کرنے والوں کی پشت پر ہے اور دوسرا ان لوگون کے لئے باعثِ تشویق ہوتا ہے جو اس قافلے سے پیچھے رہ گئے ہیں تاکہ جتنا جلدی ہو سکے وہ قافلے سے آملیں ۔ واضح ہے کہ ایسے مواقع پر اعلانیہ انفاق زیادہ مؤثر ہے ۔

ان دونوں میں فرق کے سلسلے میں بعض مفسرین نے کہا ہے کہ اعلانیہ انفاق واجبات کے ساتھ مربوط ہے کہ جس عام طور پر تظاہر کا پہلو نہیں ہوتا کیونکہ ذمہ داری کی ادائیگی سب پر لازم ہے اور ا س میں کوئی پنہاں معاملہ نہیں لیکن مستحب انفاق چونکہ واجب سے زائد چیز ہے لہٰذا ہو سکتا ہے اس میں تظاہر یا ریا کا معاملہ بہتر ہے کہ اسے مخفی طور پر انجام دیا جائے ۔

ایسا نظر آتا ہے کہ یہ تفسیر کلی حیثیت نہیں رکھتی بلکہ در حقیقت پہلی تفسیر کی ایک شاخ ہے ۔

۳ ۔اس دن ”بیع “ اور خلال“ نہیں ہے

ہم جانتے ہیں کہ روز قیامت کی ماہیت و حقیقت یہ ہے کہ ہم اعمال کے نتائج اور رد عمل کاسامنا کریں گے ۔ لہٰذا کوئی شخص وہاں عذاب سے نجات کے لئے کوئی فدیہ نہیں دے گا ۔ یہاں تک کہ اگر بالفرض روئے زمین کی ساری دولت اس کے قبضے میں ہو اور وہ اسے چرخ کرکے ذرہ بھر اپنے اعمال کی سز اکم کروانا چاہیئے تو ممکن نہیں کیونکہ دار العمل تو یہی دنیا ہے اور یہاں سے اس کا روزنامچہ مکمل ہو کر لپیٹا جاچکا ہے اور وہاں دار الحساب ہے ، وہ محاسبہ کا گھر ہے ۔ اسی طرح مادی دوسری کا رشتہ جس

شخص سے جس صورت میں بھی ہو وہاں نجات بخش نہیں ہوسکتا ۔ ( توجہ رہے کہ ”خلال“ اور” دوستی کے معنی میں ہے ) ۔

آسان لفظوں میں لوگ اس دنیا وی زندگی میں سزا سے بچنے کے لئے عام طور پر پیسے کا سہارا لیتے ہیں یا پارٹی اور دوستی کا ذریعہ استعما ل کرتے ہیں یعنی رشوتوں اور رشتوں کے ذریعے سزا سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اگر یہ سمجھیں کہ وہاں بھی اسی طرح کوئی صورت نکل آئے تو یہ ممکن نہیں ۔ یہ ان کی بے خبری اور انتہائی نادانی کی دلیل ہے ۔

یہاں سے واضح ہوجاتا ہے کہ اس آیت میں جس طرح کی دوستی کی نفی کی گئی ہے وہ عالم ِ قیامت میں مومنین کی باہمی دوستی کے منافی نہیں ہے کہ جس کے بارے میں بعض آیات میں تصریح کی گئی ہے کیونکہ یہ تو ایمان کے زیر سایہ ایک معنوی دوستی مؤدت ہے ۔

باقی رہا مسئلہ شفاعت تو جیسا کہ ہم نے بار ہاکہا ہے کہ اس کامادی مفہوم نہیں ہے بلکہ اس سلسلے میں وارد ہونے والی صریح آیات کے پیشِ نظر یہ صرف ،منعوی اور روحانی رشتوں کے زیر سایہ بعض اعمال خیر کی وجہ سے حاصل ہونے والی اہلیت کے باعث میسر آتی ہے ۔ اس کی تفصیل ہم سورہ بقرہ کی آیہ ۲۵۴ کے ذیل میں بیان کرچکے ہیں ۔(۱)

____________________

۱۔ تفسیر نمونہ جلد اول ص ۱۸۷ ۔اور تفسیر نمونہ جلد دوم ص ۱۵۵( اردو ترجمہ ) کی طرف رجوع کریں ۔

۴ ۔ اے انسان ! تمام موجودات تیرے فرمان پر سر تسلیم خم ہیں

ان آیات میں دو بارہ زمین و آسمان کی مختلف موجودات کے انسان کے لئے تسخی رہونے کے بارے میں بات کی گئی ہے ۔ اس گفتگو کے چھ حصے ہیں ۔

۱) کشتیوں کی تسخیر

۲) نہروں اور دریاؤن کی تسخیر

۳) سورج کی تسخیر

۴) چاند کی تسخیر

۵) رات کی تسخیر

۶) دن کی تسخیر

ان میں سے بعض کا تعلق آسمان سے ہے اور بعض ( رات و دن ) کادونوں سے ۔

ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں اور پھر یاد دہانی ضروری ہے کہ انسان قرآن کی نگاہ میں اس قدر باعظمت ہے کہ اللہ کے حکم سے تمام موجودات اس کے لئے مسخر ہیں یعنی یا اس کے اختیار میں ہیں اور ان کہ مہار ا س کے ہاتھ میں ہے یا ان کی حرکت انسان کی خدمت کے لئے اور اس انسا ن کو ہر حالت میں اس قدر عظمت حاصل ہے کہ تمام آفرینش کا یہ ایک ہدف عالی بن گیا ہے ۔

سورج ا س کے لئے نور افشانی کرتا ہے ، اس کا بستر حیات گرم کرتاہے، اس کے لئے طرح طرح کی نباتت اور پودے اُسگاتا ہے ، اس کی زندگی کے ماحول کو ضرر رساں جراثیم سے پاک کرتا ہے ، اسے مسرت و شادمانی کا پیغام دیتا ہے اور اسے راہ ِ حیات کی نشاندہی کرتا ہے ۔

چاند انسان کی تاریک راتوں کا چراغ ہے یہ طبیعی ، فطری اور جاوداں تقویم ہے اور اس کی وجہ سے پیدا ہونے والا جوار باٹا انسان کی بہت سی مشکلات حل کرتا ہے ۔

سمندروں اور دریاؤں سے جاری نہروں کا پانی اوپر آجات ہے ۔ یہ بہت سے درختوں کی آبیاری کرتا ہے ۔ خاموش ، ساکن اور رکے ہوئے سمندروں کو حرکت میں لے آتا ہے اوراسے گندا اور متعفن ہونے بچا تا ہے ۔ اور موجوں کے اٹھنے سے دریاؤں اور سمندوں کے زندہ موجودات کے لئے ضروری آکسیجن میسر آجاتی ہے ۔

ہوائیں بحری جہاز اور کشتیاں سمندر کے سینے پر چلاتی ہیں ۔ وسیع ترین شاہراہ انہیں سمندروں میں رواں دواں ہوتے ہیں ۔

دریااور نہریں انسان کی خدمت گزار ہیں ۔ یہ زراعت کی آبیاری ، جانوروں کی سیرابی اور ماحول ِ زندگی کو ترتازہ رکھنے کے لئے ہیں یہاں تک کہ خود ان میں انسان کے لئے مچھلیوں کی صور میں غذائی مواد پل رہا ہوتا ہے ۔

تاریکی شب انسان کولباس کی طرح ڈھانپ دیتی ہے ، اسے سکون و راحت پہنچاتی ہے اور سورج کی جلانے والی حرارت سے اس طرح بچاتی ہے جیسے سائے میں پنکھے کی ہوا رات انسان کو حیات تازہ بخشتی ہے ۔

اسی طرح دن کی روشنی انسان کو اٹھ کھڑا ہونے اور سعی و کوشش کی دعوت دیتی ہے اور ا س کے اندر گرمی اور حرارت پیدا کرتی ہے اور ہر مقام پر جنبش و حرکت انسان کی فرمانبردارہیں ۔ ان تمام نعتموں کا بیان اور ان کی وضاحت انسان میں ایک نئی روح پھوکنے کے علاوہ اسے اسکی عظمت سے آگاہ کرتی ہے اور اس میں احساس تشکر ابھارتی ہے ۔

اس گفتگو سے ضمنی طور پر یہ تنیجہ نکلتا ہے کہ قرآنی لغت میں تسخیر دومعانی کے لئے آتا ہے ۔

ایک انسان کے مفادات اور مصالح کے لئے مصروف ِخدمت ہونے ( جیسے سورج اور چاند کی تسخیر ) اور دوسرا انسانی اختیار ہونے ( مثلاًکشتیوں اور دریاؤں کی تسخیر کے معنی میں آیا ہے ۔ او ریہ جو بعض کا خیال ہے کہ یہ آیات موجودہ زمانے میں تسخیر کے اصطلاحی معنی کی طرف اشارہ کرتی ہیں ( جیسے خلائی سفر کے ذریعے تسخیر ماہتاب)، یہ خیال درست معلوم نہیں ہوتا ۔ کیونکہ بعض قرآنی آیات میں ہے ،وسخر لکم السمٰوٰت ومافی الارض جمیعاًمنه

جوکچھ بھی آسمانوں اور زمین میں ہے وہ سب تمہارے لئے مسخر کر دیا گیا ہے ۔ ( جاثیہ ۔ ۱۳)

یہ آیت نشاندہی کرتی ہے کہ وہ تما چیزین جوآسمانوں میں ہیں اور تمام چیزیں زمین میں ہیں انسان کے لئے مسخر ہیں حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ فضا نوردوں کا تمام آسمانی کرات میں پہنچنا قطعاًمحال ہے ۔

قرآن میں بعض دوسری آیات ہیں کہ جو ممکن ہے اس قسم کی تسخیر کی طرف اشارہ ہوں ۔ اس کے بارے میں ہم انشاء اللہ سورہ رحمن کی تفسیر میں بحث کریں گے ۔

( موجودات کے انسان کے سامنے مسخر ہونے کے بارے میں سورہ رعد کی آیہ ۲ کے ذیل میں بھی بحث کی جائے گی ) ۔

۵ ۔ دائبین

ہم کہہ چکے ہیں کہ ”دائب“ مادہ ”دؤب“ سے ہے اس کا معنی ہے ایک عادت ی امحکم سنت کے مطابق کا جاری رکھنا ۔ البتہ سورج زمی کے گرد حرکت نہیں کرتابلکہ بلکہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے اور ہم یہ خیال کرتے ہیں کہ سورج ہمارے گرد گھومتا ہے لیکن ” دائب“ کے معنی جگہ میں حرکت کرنے کامفہوم نہیں ہے بلکہ کسی کام کو مسلسل جاری رکھنے کا مفہوم اس میں مضمر ہے اور ہم جانتے ہیں کہ سورج اور چاند نور افشانی کرتے ہیں اور نشور نما کا ذریعہ ہیں ۔ کرہ زمین اور انسانوں کے لئے ان کا یہ پروگرام مسلسل پوری طرح منظم ہے ( اور اس بات کو فراموش نہ کیجئے گا کہ ”داٴب “ کا ایک معنی عادت بھی ہے ) ۔(۱)

____________________

۱۔البتہ موجودہ زمانے کے ہارین سورج کی دوسری قسم کی گردش کے قائل ہیں ۔ مثلاً وہ اپنے مدار کے گرد گھومتا ہے اور جس نظام ِ شمسی سے اس کا تعلق ہے اس کے ساتھ اس کہکشاں کے اندر حرکت کرتا ہے جس میں وہ موجود ہے ۔

۶ ۔ جو کچھ ہم خدا سے چاہتے ہیں کیا وہ دیتا ہے ؟

زیر بحث آیات میں ہم نے پڑھا ہے کہ :

خد انے تم پر لطف کیا اور جو کچھ تم نے اس سے طلب کیا اس کا کچھ حصہ تمہیں دیا ۔

( توجہ رہے کہ ”( من کل ماساٴلتموه ) “ میں ”من “ تبعیضیہ ہے ) ۔

یہ اس بناء پر ہے کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ انسان خداسے کوئی چیز چاہتا ہے کہ جس میں یقینی طور پر اس کا نقصان بلکہ بعض اوقات ہلاکت پنہاں ن ہوتی ہے لیکن وہ اس سے بے خبر ہوتا ہے لیکن عالم ، حکیم اور رحیم خد اہر گز اس قسم کا تقاضا پورا نہیں کرتا اور ا س کی بجائے شاید بہت سے مواقع پر انسان اپنی زبان سے خدا سے کوئی چیز طلب نہیں کرتا لیکن زبان حال سے اور اپنی فطرت سے اس کی تمنا کرتا ہے اور خدا اسے دے دیتا ہے اور کوئی مانع نہیں کہ ”ما ساٴلتموه “ میں زبان قال کا تقاضا بھی شامل ہو او ر زبان ِ حال کی آرزو بھی ۔

۷ ۔ اس کی نعمتیں کیوں قابل ِ شمار نہیں

یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارا وجود سرتا پا ا س کی نعمتوں میں مستغرق ہے ۔ اگر مختلف طبیعی علوم ، علم ِ عمرانیات ، علم نفسانیات اور علم نباتات وغیرہ کی کتب کا مطالعہ کریں تو ہم دیکھیں گے کہ ان نعمتوں کا دامن کسی قدر وسیع ہے ۔ اصولی طور پر ایک عظیم ادیب کے بقول ہر سانس میں دو نعمتیں موجود ہیں اور ہر نعمت پر شکر واجب ہے ۔

اس سے قطع نظر ہم جانتے ہیں کہ ایک انسان کے بدن میں اوسطاً دس ملین ارب زندہ خیلے موجود ہیں ان میں سے ہر ایک ہمارے فعال بدن کاحصہہے ۔ یہ عدد اس قدر بڑا ہے کہ اگر ہم ان خلیوں کو گننا چاہیں تو سینکڑوں سال در کار ہیں اور پھر یہ تو ہم پر خدائی نعمتوں کا صرف ایک حصہ ہے ۔ لہٰذا اگر ہم واقعاً اس کی نعمتوں کو گننا چاہیں تو یہ ہمارے بس کی بات نہیں( و ان تعدوا نعمت الله لاتحصوها ) ۔

انسان کے خون میں دو قسم کے گلو بل ہیں (Globules)۱

ہوتے ہیں ۔ سرخ گلوبل کئی ملین ہیں اور اسی طرح سفید گلوبل بھی ۔ سرخ گلو بل بدن کے خلیوں کی سوخت و ساز کے لئے آکسیجن پہنچاتے ہیں اور سفید گلوبل انسان کی صحت و سلامتی کی حفاظت کرتے ہیں اور جب جراثیم جسم پر حملہ آور ہوتے ہیں تو یہ اپنا کردار ادار کتتے ہیں ۔ تعجب کی با ت یہ ہے کہ بغیر کسی استراحت اور آرام کے ہمیشہ خدمت ِ انسان کے لئے کمر بستہ رہتے ہیں ۔

۸ ۔ افسوس کہ انسان ” مظلوم “ اور ”کفار“ ہے

گزشتہ مباحث سے ہم اس حقیقت تک پہنچے ہیں کہ خدا نے تمام موجودات کو حکم انسان کے سامنے مسخر کردیا ہے اور اس قدر نعمتیں اسے عطا کردی ہیں کہ اب کسی پہلو سے اس کے لئے کوئی کمی نہیں ۔لیکن یہ انسان نور ِ ایمان سے اور تربیت سے دور رہنے کی بناء پر طغیان اور ظلم و ستم کے راستے پر قدم رکھتا ہے اور کفران ِ نعمت میں مشغول ہوجاتا ہے ۔

خود غرض افراد کی کوش ہوتی ہے کہ خدا کی وسیع و عریض نعمتوں کو اپنے لئے منحصر کرلیں اور زمین کے وسائل ِ حیات پر اپنا قبضہ جمالیں وہ خود تو تھوڑی سی مقدار کے علاوہ صرف نہیں کرسکتے لیکن اس کے باوجود دوسروں کو ان تک پہنچنے سے محرو م رکھتے ہیں ۔

یہ مظالم جو خود غرضی ، استعمار اور دوسروں کے حقوق پر تجاوز کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں اس کی زندگی کے پر سکون ماحول کو طوفانوں کے سپر د کردیتے ہیں ۔ ان کے باعث جنگیں برپا ہوتی ہیں ، خون بہتا ہے اور اموال و نفوس کی ہلاکت کا سامنا پڑتا ہے ۔

در حقیقت قرآن کہتا ہے : اسے انسان ! تریے دستِ اختیار میں تمام چیزیں اس قدر ہیں جو کافی ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ تو ” ظلوم “ اور ”کفار “نہ بنے، اپنے حق پر قناعت کرے ، دوسروں کے حقوق پر تجاوز نہ کرے او رکسی کے حق پر ڈاکہ نہ ڈالے ۔

____________________

۱۔ چھوٹے چھوٹے زندہ موجودات جوخون میں تیرے ہیں اور زندگی کے بارے میں بھاری ذمہ داری ان پر عائد ہوتی ہے ۔