تفسیر نمونہ جلد ۱۰

تفسیر نمونہ 6%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

جلد ۱ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱ جلد ۱۲ جلد ۱۵
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 93 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 32094 / ڈاؤنلوڈ: 3200
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد ۱۰

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

آیات ۳۵،۳۶،۳۷،۳۸،۳۹،۴۰،۴۱

۳۵ ۔( وَ إِذْ قالَ إِبْراهیمُ رَبِّ اجْعَلْ هَذَا الْبَلَدَ آمِناً وَ اجْنُبْنی وَ بَنِیَّ اٴَنْ نَعْبُدَ الْاٴَصْنامَ ) ۔

۳۶۔( رَبِّ إِنهُنَّ اٴَضْلَلْنَ کَثیراً مِنَ النَّاسِ فَمَنْ تَبِعَنی فَإِنّه مِنِّی وَ مَنْ عَصانی فَإِنَّکَ غَفُورٌ رَحیمٌ ) ۔

۳۷ ۔( رَبَّنا إِنِّی اٴَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتی بِوادٍ غَیْرِ ذی زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِکَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنا لِیُقیمُوا الصَّلاةَ فَاجْعَلْ اٴَفْئِدَةً مِنَ النَّاسِ تَهْوی إِلَیْهِمْ وَ ارْزُقْهُمْ مِنَ الثَّمَراتِ لَعَلّهُمْ یَشْکُرُونَ ) ۔

۳۸ ۔( رَبَّنا إِنَّکَ تَعْلَمُ ما نُخْفی وَ ما نُعْلِنُ وَ ما یَخْفی عَلَی اللَّهِ مِنْ شَیْء ٍ فِی الْاٴَرْضِ وَ لا فِی السَّماء ) ۔

۳۹ ۔( الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذی وَهَبَ لی عَلَی الْکِبَرِ إِسْماعیلَ وَ إِسْحاقَ إِنَّ رَبِّی لَسَمیعُ الدُّعاء ) ۔

۴۰ ۔( رَبِّ اجْعَلْنی مُقیمَ الصَّلاةِ وَ مِنْ ذُرِّیَّتی رَبَّنا وَ تَقَبَّلْ دُعاء ) ۔

۴۱ ۔( رَبَّنَا اغْفِرْ لی وَ لِوالِدَیَّ وَ لِلْمُؤْمِنینَ یَوْمَ یَقُومُ الْحِسابُ ) ۔

ترجمہ

۳۵ ۔ وہ وقت (یاد کرو )جب ابراھیم نے کہا : پروردگارا، اس شہر ( مکہ ) کو شہر امن قرار دے اور مجھے اور میری اولاد کو بتوں کی پرستش سے دور رکھ ۔

۳۶ ۔ پروردگارا ! انہوں ( بتوں ) نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کر رکھا ہے ۔ پس جو شخص میری پیروی کرے وہ مجھ سے ہے اور جو میری نا فرمانی کرے تو تو بخشنے والا اور مہربان ہے ۔

۳۷ ۔ پروردگارا ! میں نے اپنی اولاد کو تیرے گھر کے پاس کہ جو تیرا حرم ہے بے آب و گیاہ زمین میں ٹھہرایا ہے تاکہ نماز قائم کریں تو کچھ لوگوں کے دل ان کی طرف موڑ دے اور انھیں ثمرات میں سے رزق دے شاید وہ تیرا شکر بجا لائیں ۔

۳۸ ۔ پروردگارا !جو کچھ ہم چھپاتے ہیں یا ظاہر کرتے ہیں تو اسے جانتا ہے اور زمین و آسمان میں کوئی چیز اللہ پر مخفی نہیں ہے ۔

۳۹ ۔ حمد ہے اس اللہ کی جس نے مجھے بڑھاپے میں اسماعیل اور اسحاق عطا کئے یقینا میرا خدا دعا سنتا ہے ( اور قبول کرتا ہے ) ۔

۴۰ ۔ خدا یا ! مجھے نماز قائم کرنے والا بنا اور میری اولاد میں سے بھی ایسا کر ۔ پروردگارا ! (ہماری ) دعاء قبول فرما ۔

۴۱ ۔ پروردگارا! مجھے -، میرے ماں باپ کو اور تمام مومنین کو اس روز بخش دینا جب حساب قائم ہوگا ۔

تفسیر

ابراہیم (علیه السلام)بت شکن کی اصلاحی دعائیں

گذشتہ آیت میں سچے مومنین اور نعمات الہی کا شکر ادا کرنے والوں کے بارے میں گفتگو تھی ۔ زیر بحث آیت میں راہ خدا میں استقامت دکھانے والے اور اس کے عبد شاکر ابراہیم (علیه السلام) کی کچھ دعائیں بیان کی گئی ہیں تا کہ گذشتہ تمام بحثوں کی تکمیل ہو جائے اور یہ امر خدائی نعمتوں سے بہترین فائدہ اٹھانے کی خواہش رکھنے والوں کے لئے نمونہ بن جائے ۔

پہلے فرمایا گیا ہے : وہ وقت یاد کرو جب جب ابراہیم (علیه السلام) نے بارگاہ ایزدی میں عرض کیا : پروردگارا ! اس شہر ( مکہ ) کو سر زمین امن و امان قرار دے( وَ إِذْ قالَ إِبْراهیمُ رَبِّ اجْعَلْ هَذَا الْبَلَدَ آمِناً ) اور مجھ پر میرے بیٹے پر اپنا لطف و عنایت فرما اور بتوں کی پرستش سے دور رکھ( وَ اجْنُبْنی وَ بَنِیَّ اٴَنْ نَعْبُدَ الْاٴَصْنامَ ) ۔ کیونکہ میں جانتا ہوں کہ بت پرستی کتنی بڑی مصیبت اور گھروں کو ویران کرنے والی ہے اور میں نے اپنی آنکھوں سے اس راستے میں برباد ہونے والوں کو دیکھا ہے ۔

پروردگارا ! ان بتوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کیا ہے( رَبِّ إِنهُنَّ اٴَضْلَلْنَ کَثیراً مِنَ النَّاسِ ) ۔ گمراہ بھی کیسی خطرناک کہ جس میں وہ اپنی عقل و خرد تک گنوا بیٹھتے ہیں ۔

میرے اللہ میں تیری توحید کی دعوت دیتا ہوں اور سب کو تیری طرف پکارتا اور بلاتا ہوں ۔ ” جو شخص میری پیروی کرے وہ مجھ سے ہے اور جو میری نا فرمانی کرے اگر وہ قابل ہدایت اور بخشش ہے تو اس کے بارے میں محبت و احسان فرما کیونکہ تو بخشنے والا مہربان ہے “( فَمَنْ تَبِعَنی فَإِنّه مِنِّی وَ مَنْ عَصانی فَإِنَّکَ غَفُورٌ رَحیمٌ ) ۔

در اصل ان الفاظ میں حضرت ابراہیم (علیه السلام) بارگاہ خدا وندی میں عرض کرنا چاہتے ہیں کہ اگر میری اولاد بی راہ توحید سے منحرف ہو جائے اور بت پرستی کی طرف متوجہ ہو جائے تو وہ مجھ سے نہیں ہے اور اگر غیر اس راستے پر گامزن ہو جائیں تو وہ میرے بیٹوں اور بائیوں اور بھائیوں کی مانند ہیں ۔

حضرت کی یہ مؤدبانہ اور انتہائی محبت آمیز تعبیر اس لحاظ سے بھی قابل توجہ ہے کہ یہ نہیں کہتے کہ جو شخص میری نافرمانی کرے گا وہ مجھ سے نہیں ہے اور اسے اسطرح یا اس طرح سزا دے بلکہ کہتے ہیں -: جو شخص میری نا فرمانی کرے تو تو بخشنے والا اور مہربان ہے ۔

پھر اپنی دعا اوردرخواست جاری رکھتے ہیں : پروردگارا ! میں نے اپنی کچھ اولاد کو تیرے گھر کے پاس کہ جو تیرا حرم ہے بے آب و گیاہ سر زمین میں ٹھہرایا ہے تا کہ وہ نماز قائم کریں( رَبَّنا إِنِّی اٴَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتی بِوادٍ غَیْرِ ذی زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِکَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنا لِیُقیمُوا الصَّلاةَ )

یہ اس وقت کی بات ہے جب خدا نے انھیں ان کی کنیز ہاجرہ سے فرزند عطا کیا ۔ جس کا نام انہوں نے اسماعیل رکھا ۔ اس پر ان کی پہلی بیوی سارہ کے دل میں حسد پیدا ہو گیا ۔ وہ ہاجرہ اور ان کے بیٹے کی موجودگی برداشت نہ کر سکی ۔ اس نے ابراہیم (علیه السلام) ست تقاضا کیا کہ اس ماں بیٹے کو کہیں اور لے جائے ۔ حضرت ابراہیم (علیه السلام) نے فرمان خدا پر یہ بات مان لی اور اسماعیل اور ان کی والدہ کو لے کر سرزمین مکہ میں چلے آئے ۔ ان دنوں یہ علاقہ بالکل خشک بنجر اور ویران تھا ۔ آپ نے انہیں وہاں ٹھہرایا اور خدا حافظ کہہ کر چلے آئے ۔

تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ اس گرم اور تپتی ہوئی زمین پر ماں اور بیٹے کو پیاس لگی ۔ ہاجرہ نے اپنے ننھے سے بچے کی جان بچانے کی بہت کوشش کی ۔

دوسری طرف خدا کا ارادہ تھا کہ یہ سرزمین ایک عظیم مرکز عبادت بنے اس موقع پر زمزم کا چشمہ جاری ہو گیا ۔ تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ صحرا نورد قبیلہ ” جرہم “ وہاں سے گزارا ۔ اسے سارے ماجرے کا پتہ چلا ۔ اس نے وہیں پڑاو ڈال لیا اور مکہ آہستہ آہستہ ایک آبادی کی شکل اختیار کرنے لگا ۔

اس کے بعد حضرت ابراہیم (علیه السلام) نے اپنی دعاء کو اس طرح سے جاری رکھا : اب جبکہ وہ تیرے عظیم گھر کے احترام میں اس جلا ڈالنے والے بیابان میں سکونت پذیر ہو گئے ہیں تو تو کچھ لوگو کا دل ان کر طرف موڑ دے اور ان کی محبت ان کے دلوں میں ڈال دے( فَاجْعَلْ اٴَفْئِدَةً مِنَ النَّاسِ تَهْوی إِلَیْهِمْ ) )اور انہیں طرح طرح کی ( مادی و معنوی ) ثمرات سے بہرہ مند کردے ، شاید وہ تیری نعمتوں کا شکر ادا کرے( وَ ارْزُقْهُمْ مِنَ الثَّمَراتِ لَعَلّهُمْ یَشْکُرُونَ ) ۔

ایک موحد اور آگاہ انسان جانتا ہے کہ علم الہی کے مقابلے میں اس کا علم محدود ہے اور اس کے مصالح کو صرف خدا جانتا ہے ، اکثر وہ خدا سے ایسی چیزوں کا تقاضا کرتا ہے جو اس کے لئے قرین مصلحت نہیں ہوتیں اور بہت سی ایسی چیزیں ہیں کہ جن میں اس کی مصلحت ہے لیکن وہ ان کے لئے درخواست نہیں کرتا اور کبھی اس کے دل کی آرزوئیں ہوتی ہیں کہ جن سب کو وہ زبان پر نہیں لا سکتا لہذا مذکورہ دعاؤں اور تقاضوں کے بعد حضرت ابرہیم (علیه السلام) یوں عرض کرتے ہیں پروردگارا ! تو ان سب چیزوں سے اچھی طرح آگاہ ہے جنہیں ہم چھپاتے ہیں یا آشکار کرتے ہیں( رَبَّنا إِنَّکَ تَعْلَمُ ما نُخْفی وَ ما نُعْلِن ) اور زمین و آسمان میں کوئی چیز خدا سے مخفی نہیں ہے( ُ وَ ما یَخْفی عَلَی اللَّهِ مِنْ شَیْء ٍ فِی الْاٴَرْضِ وَ لا فِی السَّماء ) ۔

اگر میں اپنے بیٹے اور بیوی کے فراق میں غمگین ہوں تو تو جانتا ہے اور اگر آشکار بھی میری آنکھ سے آنسوں جھلکتے ہیں تو تو انہیں دیکھتا ہے ۔ اور اگر فراق میرے دل پر چھایا ہوا ہے تو بھی تو جانتا ہے اور تیرے حکم کی اطاعت سے میرا دل ساتھ ساتھ مطمئن بھی ہے تو بھی تجھے خبر ہے ۔

اور اگر وقت جدائی میری بیوی مجھ سے کہتی ہے :الی من تکلنی ؟

مجھے کس کے سہارے چھوٹے جاتے ہو ؟

تو اس سے بھی تو آگاہ ہے ۔

تو ان سب چیزوں سے آگاہ ہے ۔ اس سر زمین اور ان کا مستقبل ایک دوسرے سے مضبوطی سے بندھا ہوا ہے ، یہ سب تیری بارگاہ علم میں روشن ہے ۔

اس کے بعد نعمات پروردگار کے شکر کی طرف اشارہ ہے ۔ ان میں سے اہم ترین یہ تھی کہ پروردگار نے عالم پیری میں حضرت ابراہیم (علیه السلام) کو دو آبرو مند بیٹے اسماعیل اور اسحاق عطا فرمائے تھے بارگاہ ایزدی میں عرض کرتے ہیں : حمد و سپاس ہے اس اللہ کے لئے جس نے مجھے بڑھاپے میں اسماعیل اور اسحاق بخشے( الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذی وَهَبَ لی عَلَی الْکِبَرِ إِسْماعیلَ وَ إِسْحاقَ ) (۱)

جی ہاں ! یقینا میرا خدا دعاؤں کو سنتا ہے( إِنَّ رَبِّی لَسَمیعُ الدُّعاء ) ۔

پھر بھی درخواست اور دعا جاری رکھتے ہیں اور عرض کرتے ہیں پر ور دگارا ! مجھے نماز قائم کرنے والا قرار دے اور اے میرے خدا ! میری اولاد میں سے بھی اسی طرح قرار دے( رَبِّ اجْعَلْنی مُقیمَ الصَّلاةِ وَ مِنْ ذُرِّیَّتی ) ۔پروردگارا ! میری دعاء قبول کر لے( رَبَّنا وَ تَقَبَّلْ دُعاء ) ۔

اور آخری تقاضا ابراہیم (علیه السلام) نے یہ کیا : پروردگارا ! مجھے ، میرے ماں باپ کو سب مومنین کو اس روز بخش دےنا جس دن حساب قائم ہو

( رَبَّنَا اغْفِرْ لی وَ لِوالِدَیَّ وَ لِلْمُؤْمِنینَ یَوْمَ یَقُومُ الْحِسابُ ) ۔

چند اہم نکات

۱ ۔ کیا مکہ اس وقت شہر تھا ؟

زیر نظر آیات میں ہم نے دیکھا ہے کہ ابراھیم (علیه السلام) اچانک عرض کرتے ہیں کہ خدا وندا! میں اپنے بیٹے کو ایک ایسی سر زمین میں چھوڑ رہا ہوں جہاں پانی ہے نہ آبادی اور نہ زراعت۔

یقینا یہ سر زمین مکہ میں ورود کا آغاز ہے کہ جب پانی تھا نہ آبادی ، نہ مکان تھا نہ مکین ۔ صرف خانہ خدا کے باقی ماندہ آثار تھے جو وہاں دکھائی دیتے تھے اور کچھ خشک اور بے آب و گیاہ پہاڑ تھے ۔

لیکن ہم جانتے ہیں کہ ابراہیم (علیه السلام) نے اس علاقہ کا یہی ایک سفر نہ کیا تھا ۔ اس کے بعد بھی آپ نے اس سر زمین مقدس پر بارہا قدم رکھا جبکہ تدریجاً مکہ شہر کی شکل اختیار کرتا جا رہا تھا ۔ قبیلہ ” جرہم “ وہاں سکونت اختیار کر چکا تھا ۔ چشمہ زمزم پیدا ہونے پر علاقہ رہائش کے قابل ہو چکا تھا ۔

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیه السلام) کی یہ دعائیں ان کے کسی بعد کے سفر سے تعلق رکھتی ہیں یہی وجہ ہے کہ آپ کہتے ہیں : خدا وندا ! اس شہر کو جاء امن و امان قرار دے ۔

اور یہ جو وادی ” غیر ذی زرع “ کہا ہے تو یہ یا گزشتہ زمانے کی بات کر رہے ہیں اور اپنے پہلے سفر کی یاد تازہ کر رہے ہیں اور یا اس طرف اشارہ ہے کہ سر زمین مکہ ایک شہر بن جانے کے بعد بھی نا قابل زراعت ہے لہذا اس کی ضروریات باہر سے آنا چاہئیں کیونکہ جغرافیائی لحاظ سے یہ علاقہ خشک پہاڑوں پر مشتمل ہے جہاں پانی بہت کم ہے ۔

۲ ۔ مکہ سر زمین امن

یہ بات جاذب نظر ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس سر زمین میں جو سب سے پہلی دعا کی وہ ( امن ) کے لئے تھی ۔ یہ امر نشاندہی کرتا ہے کہ امن کی نعمت انسانی زندگی کے لئے ، کسی جگہ قیام کرنے کے لئے اور ہر قسم کی تعمیر ِ آبادی اور ترقی کے لئے پہلی شرط ہے اور ہے بھی ایسا ہی ۔ اگر کسی جگہ امن و امان نہ ہو تو وہ رہنے کے قابل نہیں اگر چہ دنیا کی تمام نعمتیں وہاں موجود ہوں ۔ اصولی طور پر وہ شہر ، آبادی اور ملک کہ جو امن کی نعمت سے محروم ہو گویا وہ تمام نعمتیں کھو بیٹھا ہے ۔

یہاں اس نکتہ کی طرف بھی توجہ کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے مکہ کے امن کے بارے میں حضرت ابراہیم (علیه السلام) کی دعا کو دو طرح سے قبول کیا ہے ۔ اسے امنیت تکوینی بھی دی کیونکہ یہ ایسا شہر ہو گیا کہ جس نے پوری تاریخ میں امن کے لئے تباہ کن حوادث بہت کم دیکھے ہیں اور اسے امنیت تکوینی بھی دی ۔ یعنی خڈا نے حکم دیا ہے کہ تمام انسان بلکہ جانور تک اس زمین میں امن و امان میں رہیں ۔ یہاں کے جانوروں کا شکار کرنا ممنوع ہے ۔(۲)

____________________

۱ ۔ جب حضرت اسما عیل (علیه السلام) اور حضرت اسحاق (علیه السلام) پیدا ہوئے اس وقت حضرت ابراہیم (علیه السلام) کی عمر کیا تھی ۔ اس سلسلے میں مفسرین میں اختلاف ہے بعض نے کہا ہے کہ ابراہیم (علیه السلام) ۹۹ سال کے تھے کہ پہلے فرزند اسماعیل (علیه السلام) پیدا ہوئے اور ۱۱۲ سال کے تھے جب اسحاق (علیه السلام) نے آنکھ کھولی ۔ بعض نے اس سے کم اور بعض نے زیادہ عمر لکھی ہے تا ہم یہ مسلم ہے کہ اس وقت آپ کی عمر اتنی تھی کہ معمولاً اس عمر میں بچے کی پیدائش بہت بعید معلوم ہوتی تھی ۔

۲- اس وقت جبکہ ہم تفسیر کے اس حصہ کو مرتب کر رہے ہیں امت اسلامی پر ایک نہایت اندوہناک سانحہ گزرا ہے ۔ سر زمین حرم پر اطراف خانہ خدا میں سعودی پولیس نے وحشت و درندگی کی انتہا کر دی ۔ اس نے ایرانی حاجیوں پر گولی چلائی ۔ سیکڑوں عورتیں بچے بوڑھے شہید ہو گئے ۔ ایک انتہائی منظم پر امن اور با وقار جلوس پر یہ ظلم صرف اس ” جرم “ پو ہوا کہ وہ عالمی طاغوتی طاقتوں امریکہ ، روس اور اسرائیل کے خلاف اظہار نفرت کر رہے تھے ۔یہ واقعہ ان دنوں میں ہوا جب خلیج فارس میں امریکہ نے کھلم کھلا فوجی مداخلت شروع کردی ہے تاکہ ایران کے اسلامی انقلاب سے اپنی رسوائی سے بدلا لے سکے ۔ ایسے میں جبکہ مسلمانوں کی گردنوں پر مسلط استعماری ایجنٹوں ، فوجی آمروں اور بادشاہوں نے ایران کی اسلامی حکومت کے خلاف ایکا کر لیا ہے اور سب امریکہ سے تعاون پر کمر بستہ ہیں ۔ سودیوں نے نہ فقط سر زمین کعبہ کو اسلام کے صریح احکام کے خلاف زائرین حرم کے خون سے لالہ زار بنایا بلکہ ایسا پوری دنیا میں ان مظلوموں کے خلاف پراپیکنڈہ کیا ۔ صہیونیت اور استعماری قوتوں کے تمام نشریات ادارے ان مظلوموں کے خلاف استعمال ہوئے ۔ قاتلوں کو امن کا محافظ اور مشرکین اور دشمنان اسلام کے خلاف فریاد کرنے والوں کو امن کا دشمن قرار دیا گیا ۔

سعودی ایسا کیوں نہ کرتے کیوں کہ یہ اسی یزید اور حجاج کے افکار کے وارث ہیں جنہوں نے خانہ خدا کی حرمت پامال کی تھی ( ثاقب ) ( اگست ۱۹۸۷ء) ۔

یہاں تک کہ جو مجرم اس حرم اور خانہ خدا میں پناہ لیں ان کا تعاقب بھی جائز نہیں ۔ ایسے مجرمین کا صرف پانی بند کیا جا سکتا ہے تا کہ وہ باہر نکل آئیں اور سر تسلیم خم کردیں ۔

۳ ۔ ابراہیم (علیه السلام) بت پرستی سے دوری کی دعا کیوں کرتے ہیں ؟

اس میں شک نہیں کہ ابراہیم (علیه السلام) معصوم نبی تھے اور ان کے بلاواسطہ بیٹے جو آیت کے لفظ ” بنی “ کے یقینی مصداق ہیں یعنی اسماعیل (علیه السلام) اور اسحاق (علیه السلام)بھی معصوم پیغمبر تھے اس کے باوجود وہ تقاضا کرتے ہیں : خدا یا مجھے اور انھیں بتوں کی پوجا سے دور رکھ !

یہ بات بت پرستی کے خلاف جہاد کرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ تاکید کے لئے دلیل ہے ۔ یہاں تک کہ معصوم نبی اور بت شکن بھی اس سلسلہ میں خدا سے دعا کرتے ہیں ۔ یہ بعینہ پیغمبر اسلام کی طرف سے اپنی وصیتوں میں حضرت علی (علیه السلام) یا دوسرے آئمہ کو جو ان کے جانشین تھے انہیں نماز کی تاکید کرنے کے مشابہ ہے جبکہ ان کے بارے میں ترک نماز کا احتمال کا ہر گز کوئی مفہوم نہیں بلکہ اصولی طور پر نماز ان کی سعی و کوشش سے برپا ہوئی ہے ۔

تو اب یہ سوال سامنے آتا ہے کہ ابراہیم (علیه السلام) نے کس طرح سے کہا کہ پروردگارا ! ان بتوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کیا ہے حالانکہ وہ پتھر اور لکڑی کے سوا کچھ نہیں اور لوگوں کو گمراہ کرنے کی قدرت نہیں رکھتے ۔

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ :

اولاً بت ہمیشہ پتھر اور لکڑی کے نہیں ہوتے تھے بلکہ کبھی فرعون اور نمرود جیسے افراد لوگوں کو اپنی پرستش کی دعوت دیتے تھے اور اپنے آپ کو ” رب اعلیٰ “ ” زندہ کرنے والا “ اور ” مارنے والا “ کی حیثیت سے متعارف کرواتے تھے ۔

ثانیاً بعض اوقات پتھر اور لکڑی کے بتوں کو ان کے متولی اور کارندے اس طرح سے آراستہ و پیراستہ کرتے اور ان کے لئے ایسے احترامات بجا لاتے کہ وہ واقعاً سادہ لوح عوام کے لئے گمراہ کن ہو جاتے تھے ۔

۴ ۔ ابراہیم (علیه السلام) کے تابع کون ہیں ؟

زیر بحث آیات میں ہے کہ ابراہیم کہتے ہیں :خدا وندا ! وہ لوگ جو میری پیروی اور اتباع کرتے ہیں ۔

یہاں سے سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پیرو کار صرف وہ لوگ تھے جو ان کے زمانے میں تھے یا ان کے بعد ان کے دین پر تھے یا ساری دنیا کے توحید پرست اور خدا پرست اس میں شامل ہیں کیونکہ ابراہیم (علیه السلام) توحیداور بت شکنی کی علامت اور نمونہ ہیں ۔

قرآنی آیات میں ملت اسلامیہ اور دین اسلام کو ملت و دین ابراہیمی کی حیثیت سے متعارف کروایا گیا ہے ۔(۱)

اس سے اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ ابراہیم (علیه السلام) کی دعاء تمام توحید پرستوں اورراہ توحید میں جد و جہد کرنے والوں کے لئے ہیں ۔

آئمہ اھلبیت (علیه السلام) سے مروی روایات میں بھی اس تفسیر کی تاکید کی گئی ہے ۔ ان میں سے ایک روایت امام باقر علیہ السلام سے مروی ہے ۔ آپ (علیه السلام) فرماتے ہیں :

من احبنا فھو منا اھل البیت قلت : جعلت فداک منکم قال : منا واللہ اما سمعت قول ابراہیم ! ”من تبعنی فانه منی

جو شخص ہم سے محبت رکھے ( اور اہل بیت کی سیرت پر چلے ) وہ ہم میں سے ہے ۔

راوی نے پوچھا : میں آپ پر قربان ، واقعاً آپ میں سے ہے ؟

فرمایا : واللہ ہم میں سے ہے ۔ کیا تم نے ابراہیم کی گفتگو نہیں سنی جو کہتے ہیں من تبعنی انہ منی ( جو شخص میری اتباع کرے وہ مجھ سے ہے )(۲)

یہ حدیث نشاندہی کرتی ہے کہ کسی مکتب کی پیروی اور اس کے پروگرام میں سے تعلق کسی خاندان سے روحانی طور پر تعلق ہونے کے مترادف ہے ۔

ایک اور حدیث میں امام امیر المومنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں :

نحن اٰل ابراهیم افترغبون عن ملة ابراهیم و قد قال الله تعالیٰ فمن تبعنی فانه منی

ہم آل ابراہیم ہیں ۔ تو کیا ابراہیم کی ملت اوردین سے منہ موڑتے ہو ؟ حالانکہ خدا وند عالم ( ابراہیم کا قول نقل کرتے ہوئے فرماتا:

جو شخص میری پیروی کرے وہ مجھ سے ہے ۔

____________________

۱ حج ۔۷۸ ۔

۲ ۔ تفسیر نور الثقلین ، جلد ۲ ص۵۴۸۔

۵ ۔ وادی -” غیر ذی زرع “ اور خدا کا پر امن حرم

جو لوگ مکہ گئے ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ خانہ خدا مسجد حرام اور پورا مکہ مکرمہ چند خشک اور بے آب و گیاہ پہاڑوں کے درمیان واقع ہے ۔ گویا پتھروں کو پہلے ایک چلتے ہوئے تنور میں بھونا گیا ہے اور پھر انھیں ان کی جگہ پر نصب کیا گیا ہے ۔ حالانکہ یہ خشک اور جلا دینے والی زمین عبادت کا عظیم ترین مرکز اور روئے زمین پر توحید کا اولین مرکز ہے علاوہ ازیں خدا کا حرم امن ہے اور جیسا کہ ہم نے کہا ہے امنیت تکوینی کا بھی حامل ہے اور امنیت تشریعی کا بھی ۔

بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں اس مقام پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خدائے تعالیٰ نے ایسا مرکز ایسی سر زمین پر کیوں بنایا ۔ اس سلسلے میں حضرت علی علیہ السلام نے خطبہ قاصعہ میں نہایت خوبصورت اور عمدہ الفاظ میں اس کا فلسفہ بیان فرمایا ہے :۔

وضعه باوعر بقاع الارض حجراً و اقل نتائق الدنیا مدراً۰۰۰۰۰۰۰بین جبال خشنه و رمال دمثة ۰۰۰۰۰۰ ولو اراد سبحانه ان یضع بیته الحرام و مشاعره العظام بین جنات و انهار و سهل وقرار جم الاشجار ، دانی الثمار ، ملتف البنی ، متصل القری ، بین برة سمراء و روضة خضراء ، و اریاف محدقه ، و عراص مغدقة و ریاض ناظرة و طرق عامره لکان قد صغر قدر الجزاء علی حسب ضعف البلاء ، ولو کان الاساس محمول علیهاو الاحجار المرفوع بها، بین زمردة خضراء و یاقوتة حمراء ، ونور وضیاء ، لخفف ذالک مصارعة الشک فی الصدور ، و لوضع مجاهدة ابلیس عن القلوب ، ولنفی معتلج الریب من الناس ، و لٰکن الله یختبر عباده بانواع الشدائد ، و یتعبدهم بانواع المجاهد ویبتلیهم بضروب المکارة ، اخراجا للتکبرمن قلوبهم ، و اسکاناً للتذلل فی نفوسهم ، و لیجعل ذٰلک ابوابا ً فتحا ً الیٰ فضله ، و اسباباً ذللا لعفوه ۔

خدا نے اپنا گھر سنگلاخ ترین علاقے ، نہایت بے آب و گیاہ زمین ، سخت پہاڑوں اور ریگستانی علاقے میں قرار دیا ہے ۔

اللہ تعالیٰ چاہتا تو اپنا گھر اور احرام اور حج جیسی عظیم عبادت کا مقام کسی ایسے علاقے میں بنا سکتا تھا کہ جہاں باغات ہوتے ، نہریں بہہ رہی ہوتیں ، زمین ہموار ہوتی ، ہر طرف درخت ہوتے ، جہاں پھلوں پھولوں کی فراوانی ہوتی ، ارد گرد محلات اور آبادیاں ہوتیں گندم کے کھیت ہوتے سبزہ ہی سبزہ ہوتا ، خونصورت کیاریاں ہوتیں ، پانی سے سیراب چمن ہوتے ، شاداب گلستان ہوتے اور آباد شاہرا ہیں ہوتیں ۔

لیکن عظیم حج اور عبادت کی آزمائش جس قدر سہل اور آارام وہ ہوتی اجر و جزا بھی اسی قدر کم ہوتی ۔

نیز ااگر خدا چاہتا تو کعبہ کے ستون اور اس کی عمارت کے پتھر سبز زمرد اور سرخ یاقوت کے ہوتے جن سے روشنی پھوٹتی لیکن یہ چیز سینوں سے شک وشبہات کا ٹکراؤ کم کر دیتی اور دلوں سے شیطان کی دوڑ دھوپ کا اثر زایل کر دیتی اور لوگوں سے شکوک کے خلجان دور کر دیتی مگر اللہ اپنے بندوں کو گوناگوں سختیوں سے آزماتا ہے اور ان سے ایسی عبادت کا خواہاں ہے جو طرح طرح کی مشقتوں سے بجا گئی ہو اور اور انھیں قسم قسم کی نا گواریوں سے جانچتا ہے تاکہ ان کے دلوں سے غرور تکبر کو نکال باہر کرے اور ان کے نفوس میں عجز و فروتنی کو جگہ دے اور یہ کہ اس آزمایش کی راہ سے اپنے فضل و امتنان کے کھلے ہوئے دروازوں تک انھیں پہونچائے اور سے اپنی معافی اور بخشش کا آسان وسیلہ قرار دے ۔(۱)

____________________

۱۔نہج البلاغہ خطبہ قاصعہ ، خطبہ ۱۹۲۔

۶ ۔حضرت ابراہیم (علیه السلام) کی سات دعائیں

زیر نظر آیات میں توحید و دعاکے ہیرواور بتوں ، بت پرستی اور ظالموں کے خلاف قیام کرنے حضرت ابراہیم (علیه السلام) کی بارگاہ خدا میں سات دعائیں مذکورہیں ۔

پہلی دعاء : توحیدی معاشرے کے عظیم مرکز شہر مکہ کی امنیت کے بارے میں ہے اور یہ دعا ء نہایت معنی خیز ہے ۔

دوسری دعاء : بتوں کی پرشتش سے دور رہنے کے بارے میں ہے کہ جو تمام دینی عقائد اور پروگراموں کی اساس ہے ۔

تیسری دعاء : ان کی اولاد اور ان کے مکتب کے پیرو کاروں کی طرف تمام لوگوں اور خدا پرستوں کے قلبی میلان اور فکری رجحان کے بارے میں ہے کہ جو معاشرے میں کسی انسان کا عظیم ترین سرمایہ ہو سکتا ہے ۔

چوتھی دعاء : شکر گزاری کے مقدمہ کے طور پر اور خالق نعمات کی طرف مزید توجہ کے جزبہ سے انواع و اقسام کے ثمرات سے بہرہ مند ہونے کے بارے میں ہے ۔

پانچویں دعاء : قیام نماز کی توفیق کے متعلق ہے اور یہ انسان کے خدا کے ساتھ عظیم ترین رشتہ کی علامت ہے اور یہ دعا حضرت ابراہیم (علیه السلام) صرف اپنے لئے نہیں بلکہ اپنی اولاد کے لئے بھی کرتے ہیں ۔

چھٹی دعاء : قبولیت دعاء کے بارے میں ہے اور ہم جانتے ہیں کہ خدا وہ دعا قبول کرتا ہے کہ جو پاک دل اور بے آلائش روح سے نکلے ۔

ساتویں دعاء : اور حضرت ابراہیم (علیه السلام) کا آخری تقاضا اس بارے میں ہے کہ اگر ان سے کوئی لغزش سر زد ہوئی ہے تو بخشنے والا اور مہربان خدا انہیں اپنے لطف و بخشش سے نوازے اور اسی طرح روز قیامت ان کے ماں باپ اور تمام مومنین کو اپنے لطف و رحمت سے بہرہ ور کرے ۔

اس طرح حضرت ابراہیم (علیه السلام) کی سات دعائیں امنیت سے شروع ہوتی ہیں اور مغفرت و بخشش پر تمام ہوتی ہیں ۔ یہ امر جاذب نظر ہے کہ ان دعاؤں میں حضرت ابراہیم (علیه السلام) صرف اپنے لئے تقاضا نہیں کرتے بلکہ دوسروں کے لئے بھی طلب کرتے ہیں کیونکہ مردانِ خدا کبھی بھی صرف اپنے لئے نہیں سوچتے ۔

۷ ۔ کیا ابراہیم (علیه السلام)اپنے باپ کے لئے دعاء کررہے ہیں ؟

اس میں شک نہیں کہ آزر بت پرست تھا اور جیسا کہ قرآن کہتا ہے کہ اس کی ہدایت کے لئے حضرت ابراہیم کی کوششیں موثر ثابت نہ ہو سکیں اور اگر ہم یہ مان لیں کہ آزر حضرت ابراہیم (علیه السلام) کا باپ تھا تو یہ سوال سامنے آئے گا کہ ان آیات میں حضرت ابراہیم (علیه السلام) اس کی بخشش کی دعاء کیوں کر رہے ہیں حالانکہ قرآن صراحت سے مومنین کو مشرکین کے لئے استغفار کرنے سے روکتا ہے ۔ ( توبہ ۔ ۱۱۳) ۔

یہاں سے واضح ہوجاتا ہے کہ آزر کو حضرت ابراہیم (علیه السلام) کا باپ نہیں سمجھا جا سکتا اور یہ جو علماء نے کہا ہے کہ لفظ ” اب عربی زبان میں کبھی چچا کے لئے بھی بولا جاتا ہے ، زیر بحث آیات کو ملحوظ نظر رکھا جائے تو یہ بات پوری طرح قابل و قبول معلوم ہوتی ہے ۔

خلاصہ یہ عربی لغت کے اعتبار سے لفظ ” اب “ اور ” والد “ میں فرق ہے ۔ لفظ ” والد “ کہ جو زیر بحث آیات میں بھی استعمال ہوا ہے صرف باپ کے معنی میں ہے لیکن لفظ ” اب “ کہ جو آزر کے متعلق آیا ہے چچا کے معنی میں استعمال ہو سکتا ہے ۔

مندرجہ بالا آیات اور سورہ توبہ کی آیات کہ جن میں مشرکین کے استغفار کی ممانعت کی گئی ہے کو باہم ملا کر دیکھا جائے تو ہم نہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ آزر یقینا حضرت ابراہیم (علیه السلام) کا باپ نہیں تھا ۔(۱)

____________________

۱- مزید وضاحت کے لئے تفسیر نمونہ جلد ۵ ص ۲۴۸ ۔ ( اردو ترجمہ ) کی طرف رجوع فرمائیں ۔

آیت ۱۶

۱۶ ۔( قُلْ مَنْ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ قُلْ اللهُ قُلْ اٴَفَاتَّخَذْتُمْ مِنْ دُونِهِ اٴَوْلِیَاءَ لاَیَمْلِکُونَ لِاٴَنفُسِهمْ نَفْعًا وَلاَضَرًّا قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الْاٴَعْمَی وَالْبَصِیرُ اٴَمْ هَلْ تَسْتَوِی الظُّلُمَاتُ وَالنُّورُ اٴَمْ جَعَلُوا لِلَّهِ شُرَکَاءَ خَلَقُوا کَخَلْقِهِ فَتَشَابَهَ الْخَلْقُ عَلَیْهِمْ قُلْ اللهُ خَالِقُ کُلِّ شَیْءٍ وَهُوَ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ ) ۔

ترجمہ

کہو آسمان اور زمین کا پر وردگار کون ہے ؟ کہہ دو : تم نے اپنے لئے اس کے علاوہ اولیاء ( اور خدا) بنالئے ہیں ، کہ جو اپنے سودو زیاں کے ( بھی ) مالک نہیں ہیں ( چہ جائیکہ تمہارے ) ۔ کہو : کیا بینا اور نابینا برابر ہیں یا ظلمتیں اورنور برا بر ہیں ؟ کیا انہوں نے انہیں خدا کا اس لئے شریک قرار دیا ہے کہ وہ خدا کا طرح خلقت رکھتے ہیں اور یہ خلقتیں ان کے لئے مشتبہ ہو گئی ہیں ؟ کہہ دو : خدا ہر چیز کا خالق ہے اور وہی ہے یکتا و کامیاب ۔

بت پرستی کیوں ؟

گزشتہ آیات میں وجودِ خد اکی معرفت کے بارے میں بہت سی بحثیں تھیں ۔ اس آیت میں بت پرستوں کے اشتباہ کے بارے میں بحث کی گئی ہے اور اس کے بارے میں مختلف پہلوؤں سے گفتگو کی گئی ہے ۔

پہلے پیغمبر کی طرف روئے سخن کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : ان سے پوچھوکہ آسمانوں اور زمین کاپر وردگار اور مدبر کون ہے( قُلْ مَنْ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ ) ۔

اس کے بعد بغیر اس کے کہ پیغمبر ان کے جواب کے انتظار میں رہے حکم دیا گیا ہے کہاس سوال کا جواب خود دو، کہو : ”اللہ “( قل الله ) ۔

پھر انھیں یو ں ملامت کی گئی ہے : ان سے کہو : کیا تم نے غیر خدا کو اپنے لئے اولیاء ،سہارا اور معبود قرار دے لیا ہے حالانکہ یہ بت تو اپنے نفع و نقصان کے مالک نہیں ہیں( قُلْ اللهُ قُلْ اٴَفَاتَّخَذْتُمْ مِنْ دُونِهِ اٴَوْلِیَاءَ لاَیَمْلِکُونَ لِاٴَنفُسِهمْ نَفْعًا وَلاَضَرًّا ) ۔

در حقیقت پہلے ” خدا کی ربوبیت “ کے حوالے سے بحث کی گئی ہے نیز یہ کہ وہی عالم ک امالک و مدبر ہے ہر خیر و نیکی اسی کی جانب سے ہے اور وہی ہر شر کو دور کرنے کی طاقت رکھتا ہے یعنی جب کہ تم یہ بات قبول کرتے ہوکہ خالق اور پرور دگار وہ ہے تو اب جو مانگنا ہے اسی سے مانگو نہ کہ بتوں سے کہ جہ جو تمہاری کوئی مشکل حل نہیں کرسکتے۔ پھر اس سے بھی پڑھ کر فرمایاگیا ہے کہ وہ تو اپنے نفع و نقصان تک کے مالک نہیں ہیں چہ جائیکہ تمہارے ۔ ان حالات میں وہ تمہاری کونسی مشکل آسان کرسکتے ہیں جس کی بناء پر تم ان کی پرستش کرتے ہو جب وہ اپنے لئے بے بس ہیں تو تم ان سے کیا توقع رکھتے ہو۔

اس کے بعد دو واضح اور صریح مثالوں کے ذریعے ” موحد“ اور ”شرک“ کی کیفیت بیان کی گئی ہے ۔

پہلے فرمایا گیا ہے : کہو: کیا نابینا اور بینا برابر ہیں( قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الْاٴَعْمَی وَالْبَصِیرُ ) ۔

جس طرح بینا اور نابینا برابر نہیں ہیں اسی طرح کافر اور مون بھی برابر نہیں ہیں اور بتوں کو ”اللہ “ کا شریک قرار نہیں دیا جاسکتا ۔

دوسرا یہ کہ : کیا ظلمات اور نور برابر ہیں( اٴَمْ هَلْ تَسْتَوِی الظُّلُمَاتُ وَالنُّورُ ) ۔

وہ ظلمت کہ جو انحراف ، گمراہی ، اشتباہ اور خوف و خطر کا مر کز ہے اسے اس نور کے برابر کیسے سمجھا جا سکتا ہے جو رہنما اور حیات بخش ہے ۔ کس طرح سے بتون کو کہ جو محض ظلمات ہیں خدا کے ساتھ شریک کیا جا سکتا ہے کہ جو عالم ہستی کا نور مطلق ہے ۔ ایمان اور توحید کہ جو روحِ نور ہے اسے شر ک و بت پرستی سے کیانسبت کہ جو ظلمت کہ روحِ رواں ہے ۔

اس کے بعد ایک طریقے سے مشرکین کے عقیدے کابطلان ثابت کیا گیا ہے ۔ ارشاد ہو تا ہے : وہ کہ جنہوں نے خدا کے لئے شریک قرار دئے ہیں کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے بھی خدا کی طرح خلق کیا ہے او ریہ خلق کیا ہے اور یہ خلقت ا س کے لئے مشتبہ ہو گئی اور انہیں یہ گمان ہو گیا ہے کہ بت بھی خدا کی طرح عبادت کے مستحق ہیں کیونکہ ان کی نظر میں بت بھی وہی کام کرتے ہیں کہ جو خدا کرتا ہے( اٴَمْ جَعَلُوا لِلَّهِ شُرَکَاءَ خَلَقُوا کَخَلْقِهِ فَتَشَابَهَ الْخَلْقُ عَلَیْهِمْ ) ۔

حالانکہ ایسا نہیں ہے ۔ یہاں تک کہ بت پرست بھی بتوں کے بارے میں ایساعقیدہ نہیں رکھتے ۔ وہ بھی خدا کو تمام چیزوں کا خالق سمجھتے ہیں اور عالم خلقت کو فقط اس سے مربوط شمار کرتے ہیں ۔

اسی لئے فوراً فرمایا گیاہے : کہہ دو خدا ہر چیز کا خالق ہے اور وہی ہے یکتا و کامیاب( قُلْ اللهُ خَالِقُ کُلِّ شَیْءٍ وَهُوَ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ ) ۔

چند اہم نکات

۱ ۔ خالقیت و ربوبیت معبودیت سے مر بوط ہے :

زیر نظر آیت سے پہلے تو یہ نکتہ معلوم ہوتا ہے کہ جو خالق ہے وہ رب اور مدبر ہے بھی ہے کیونکہ خلقت ایک دائمی اور مسلسل امر ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ خدا وند عالم موجودات کو پیداکرکے ایک طرف بیٹھ جائے بلکہ فیضِ ہستی خدا کی طرف سے دائمی طور پر ہوتا ہے اور ہر موجود اس کی پاک ذات سے ہستی اور وجود حاصل کرتا رہتا ہے ۔ اس بناء پر آفرینش کا پر وگرام اور عالم ہستی خدا کی تدبیر ابتدائے خلقت کی طرح خدا کے ہاتھ میں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ سود زیاں اور نفع و نقصان کامالک وہی ہے اور اس کے علاوہ جس کے پاس جو کچھ بھی ہے اسی کی طرف سے ہے ۔ اس کے باوجود کیا خدا کے علاوہ کوئی عبودیت کا اہل ہے۔

۲ ۔ خود ہی سوال اور خود ہی جواب :

محل بحث آیت سے یہ سوال سامنے آتا ہے کہ خدا اپنے پیغمبر کو کیونکر حکم دیتا ہے کہ مشرکین سے سوال کریں کہ آسمان و زمین کا پر ور دگار اور مالک کون ہے اور ا سکے بعد بغیر جواب کا انتظار کئے اپنے پیغمبر کو حکم دیتا ہے کہ وہ ا س سوال کا جواب دیں اور اس کے بعد بلا فاصلہ ان مشرکین کو سر زنش کی گئی ہے کہ وہ بتوں کی پر ستش کیوں کرتے ہیں ۔

یہ سوا ل و جواب کا کیسا طریقہ ہے ؟ایک نکتہ کی طرف تو جہ کرنے سے اس سوال کا جوا ب واضح ہو جاتا ہے اور وہ یہ کہ بعض اوقات ایک سوال کا جواب اس در واضح ہوتا ہے کہ وہ اس بات کا محتاج نہیں ہوتا کہ مدمقابل کے جواب کا انتظار کیا جائے ۔ مثلا ًیہ کہ ہم کسی سے سوال کرتے ہیں کہ اس وقت رات یا دن اور پھر بلا فاصلہ ہم خود جواب دیتے ہیں کہ یقینارات ہے ۔ یہ در اصل اس امر کے لئے ایک لطیف کنایہ ہے کہ یہ بات اس قدر واضح ہے کہ جواب کے انتظار کرنے کی محتاج نہیں ہے ۔

علاوہ ازیں مشرکین خالقیت کو خدا کے ساتھ مخصوص سمجھتے تھے اور وہ ہر گز یہ بات نہیں کہتے تھے کہ بت پرست زمین و آسمان کے خالق ہیں بلکہ ان کا عقیدہ تھا کہ وہ شفیع ہیں اور انسان کو نفع و نقصان پہونچانے پر قادر ہیں اور اسی بناء پر ان کا یہ عقیدہ تھا کہ ان کی عبادت کرنا چاہئیے ۔ لیکن چونکہ ”خالقیت“ اور ”ربوبیت“ ( عالم ہستی کی تدبیر اور اس کے نظام کو چلانا)ایک دوسرے سے جد انہیں ہے لہٰذا مشرکین پر یہ اعتراج کیا جا سکتا ہے اور انہیں کہا جا سکتا ہے کہ تم خالقیت کو خدا کے ساتھ مخصوص سمجھتے ہو تو ربوبیت کو بھی اس کے ساتھ مخصوص سمجھو اور اس کے ساتھ عبادت بھی اسی سے مخصوص ہو گئی ہے ۔

۳ ۔چشم بینا اور روشنی لازم و ملزوم ہیں :

آیت میں ” نابینا و بینا “ اور ”ظلمات و نور “ دونوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ گویا یہ اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ ایک حقیقت ِ عینی کے مشاہدہ کے لئے دو چیزوں کی ضرورت ہے ۔ چشم بیناکی بھی اور نور کی شعاعوں کی بھی ۔ ان میں سے کوئی ایک نہ ہو تو مشاہدہ ممکن نہیں ۔ لہٰذا سوچنا چاہئیے کہ ان لوگوں کی کیا حالت ہو گی کہ جو ان دونوں سے محروم ہوں ، بینائی سے بھی اور نور سے بھی ۔ اس کا حقیقی مقصداق مشرکین ہیں کہ جن کی چشم بصیرت بھی اندھی ہے او ر جن کی زندگی کو بھی کفر و بت پرستی کی تاریکی نے گھیر لیارکھا ہے اسی لئے وہ تاریک گھاٹیوں اور گڑھوں میں سر گرداں ہیں ۔ جب ان کے بر عکس مومنین نگاہِ بینا رکھتے ہیں ۔ ان کا پر و گرام واضح ہے اور انہوں نے نورِ وحی اور تعلیماتِ انبیاء کی مدد سے اپنی زندگی صحیح راستے پر دال لیا ہے ۔

۴ ۔ کیا خدا کی خالقیت جبر و اکراہ کی دلیل ہے ؟

زیر نظر جبر کی بعض طرفداروں نے محل بحث آیت کے جملے ”( الله خالق کل شیء ) “ سے اپنا مقصد ثابت کرنے کے لئے استدلال کیا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ کاموں کا خالق بھی خدا ہے یعنی ہمارا اپنا کوئی اختیار نہیں ہے ۔

اس بات کو دو طریقوں سے جواب دیاجا سکتا ہے :

پہلا یہ کہ اس آیت کے دوسرے جملے اس بات کی پورے طور پر نفی کرتے ہیں کیونکہ ان میں بت پرستوں کی بڑی ملامت کی گئی ہے اگر واقعا ً ہم اپنے اعمال میں کوئی اختیار نہیں رکھتے تو پرتنبیہ اور سر زنش کس بناء پر ؟اگر خدا چاہتا کہ ہم بت پرست رہین تو پھر وہ کیون سر زنش کرتا ہے او رکیوں ہدایت کے لئے اور راہ بدلنے کے لئے استدلال کرتا ہے ۔ یہ سب چیزیں اس بات کی دلیل ہیں کہ لوگ اپنی راہ انتخاب کرنے میں آزاد اور مختار ہیں ۔

دوسرایہ کہ ہر چیز میں خالقیت بالذات خدا کے ساتھ مخصوص ہے لیکن پھر بھی یہ چیز اپنے افعال میں ہمارے مختار ہونے کے منافی نہیں ہے کیونکہ ہماری طاقت اور ہماری عقل بلکہ ہمارے ارادے کی آزادی سب کے سب اسی کی جانب سے ہیں ۔ اس بناء پر ایک لحاظ سے وہ بھی خالق ہے ( تمام چیزوں کا خالق حتی کہ ہمارے افعال و اعمال کا خالق ) اور ہم بھی فاعل مختار ہیں اور یہ دونوں ایک دوسرے کے طول میں ہیں کہ کہ عرض میں ۔ وہ فعل کے تمام وسائل اور ذرائع پیدا کرنے والا ہے اور ہم خیر و شر کے راستے پر ان وسائل سے استفادہ کرنے والے ہیں ۔

یہ بالکل اس طرح ہے جس طرح سے کوئی شخص بجلی گھر یا پانی پلائی کا مر کز تیار کرکے ہمارے اختیار میں دے دیتا ہے ۔ مسلم ہے کہ ہم اس بجلی سے کسی قریب المرگ بیمار کے لئے آپریشن تھیٹر کو روشن کریں یا ایک برائی کے مرکز کو ۔ اسی طرح پانی سے کسی تشنہ لب کو سیراب کریں اور پھولوں کے پودوں کی آبیاری کریں یا کسی بے گناہ کے گھر کی بنیادوں میں پانی ڈال کر اسے تباہ کردیں ۔

آیت ۱۷

۱۷ ۔( اٴَنزَلَ مِنْ السَّمَاءِ مَاءً فَسَالَتْ اٴَوْدِیَةٌ بِقَدَرِهَا فَاحْتَمَلَ السَّیْلُ زَبَدًا رَابِیًا وَمِمَّا یُوقِدُونَ عَلَیْهِ فِی النَّارِ ابْتِغَاءَ حِلْیَةٍ اٴَوْ مَتَاعٍ زَبَدٌ مِثْلُهُ کَذَلِکَ یَضْرِبُ اللهُ الْحَقَّ وَالْبَاطِلَ فَاٴَمَّا الزَّبَدُ فَیَذْهَبُ جُفَاءً وَاٴَمَّا مَا یَنفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِی الْاٴَرْضِ کَذَلِکَ یَضْرِبُ اللهُ الْاٴَمْثَالَ ) ۔

ترجمہ

۱۷ ۔ خدا نے آسمان سے پانی بھیجا اور ہر درّہ اور دریا سے ان کی مقدار کے مطابق سیلاب امند پڑا پھر پانی کے ریلوں پر جھگ پیدا ہو گئی اور جن (بھٹیوں ) میں زیرات یا اسباب زندگی تیار کرنے کے لئے آگ روشن کرتے ہیں ان سے بھی جھاگ نکلنے لگی ۔ اس طرح خدا حق او رباطل کے لئے مثال بیان کرتا ہے ۔لیکن جھگ ایک طرف ہو جاتی ہے او رلوگوں کے لئے فائدہ رساں چیز ( پانی یا خالص دھات ) زمین میں باقی رہ جاتی ہے ۔ خدا اسی سے مثال بیان کرتا ہے ۔

حق و باطل کی منظر کشی

قرآن کے جو تعلیم وتربیت کی کتاب ہے ا س کی روش ہے کہ وہ مسائل عینی کی بنیا دپر گفتگو کرتا ہے لہٰذا اس میں پیچیدہ مسائل کو ذھن نشین کروالے کے لئے لوگوں کی روز مرہ زندگی سے عمدہ، خوبصورت اور حسی مثالیں پیش کی گئی ہیں زیر نظر آیت میں بھی توحید و شرک ، ایمان و کفر اور حق و باطل کے بارے میں گزشتہ آیات میں ذکر کئے گئے حقائق کو مجسم کرنے کے لئے ایک بہت ہی رسا اور عمدہ مثال بیان کی گئی ہے ۔

پہلے ارشاد ہوتا ہے : خدا نے آسمان سے پانی نا زل کیا ہے( اٴَنزَلَ مِنْ السَّمَاءِ مَاءً ) ۔زندگی کی بخش اور حیات آفرین پانی نشو ونما اور حرکت کا سر چشمہ پانی ۔

اس وقت یہ پانی زمین کے دروں ،گڑھوں ، دریاؤں اور نہروں میں ان کی وسعت کے مطابق سما جا تا ہے( فَسَالَتْ اٴَوْدِیَةٌ بِقَدَرِهَا ) ۔

چھوٹی چھوٹی ندیاں ایک دوسرے گلے ملتی ہیں ۔ تو در یا وجود میں آتے ہیں دریا باہم مل مل جائیں تو دامن کہساز سے سیلابِ عظیم امنڈ پڑتا ہے پانی کندھوں اور سروں سے بلند ہو جاتا ہے او رجو کچھ اس کی راہ میں آتا ہے اسے بہالے جاتا ہے ۔ ایسے میں پانی کی موجیں اور لہریں جب آپس میں ٹکراتی ہیں تو جھاگ پیدا ہوتی ہے ۔ جیسا کہ قرآن کہتا ہے : سیلاب کے اوپر جھاگ اٹھتی ہے( فَاحْتَمَلَ السَّیْلُ زَبَدًا رَابِیًا ) ۔

”رابی “ کا مادہ ”ربو“ ( بر وزن ”غلو“) ہے ۔ یہ بلندی و بر تری کے معنی میں ہے۔ ”ربا “کہ جوسود یا اضافی رقم یا اضافی جنس کے معنی میں ہے وہ بھی اسی مادہ سے اسی معنی میں ہے چونکہ یہ اضافے اور زیادتی کا معنی دیتا ہے ۔

جھاگ صرف بارش برسنے سے پیدا نہیں ہوتی بلکہ جو دھاتیں آگ کے ذریعے پگھلتی ہیں تاکہ ان سے زیوارات یا دیگر اسباب ِ زندگی تیار کئے جائیں ان سے بھی پانی کی جھاگ کی طرح جھاگ نکلتی ہے( وَمِمَّا یُوقِدُونَ عَلَیْهِ فِی النَّارِ ابْتِغَاءَ حِلْیَةٍ اٴَوْ مَتَاعٍ زَبَدٌ مِثْلُهُ ) ۔(۱)

یہ تعبیر ان کٹھالیوں کی طرف اشارہ ہے جن میں دھاتیں پگھلانے کے لئے ان کے نیچے بھی آگ ہوتی ہے اور اوپر بھی ۔ اس طرح سے نیچے آگ ہوتی ہے پھر اس کے اوپر ایسے پتھر کہ جن میں سامواد ہوتا ہے ڈالے جاتے ہیں اور پھر اس کے اوپر بھی آگ ڈالتے ہیں ۔ یہ بہترین قسم کی کٹھالی ہے کہ جن میں آگ نے پگھلنے کے قابل مواد کو ہر طرف سے گھیر رکھا ہوتا ہے ۔

یہ ایک ایسی وسیع مثال بیان کی گئی ہے جو صرف پانی سے متعلق نہیں ہے بلکہ دھاتوں کے بارے میں بھی ہے چاہے وہ دھا تیں زیورات بنانے کے لئے استعمال ہوتی ہوں یا دیگر اسباب ِ حیات تیار کرنے کے کام میں آتی ہوں ۔ اس کے بعد نتیجہ اخذ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : اس طرح خدا حق او رباطل کے لئے مثال بیان کرتا ہے( کَذَلِکَ یَضْرِبُ اللهُ الْحَقَّ وَالْبَاطِلَ ) ۔

پھر اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایا گیاہے : لیکن جھاگ ایک طرف ہو جاتی ہے اور وہ پانی کہ جو لوگوں کے لئے مفید اور سود مند ہوتا ہوتا ہے زمین میں باقی رہ جاتا ہے( فَاٴَمَّا الزَّبَدُ فَیَذْهَبُ جُفَاءً وَاٴَمَّا مَا یَنفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِی الْاٴَرْضِ ) ۔

فضول شوریلی اور اندر سے خالی جھاگ کہ جو ہمیشہ اوپر ہوتی ہے لیکن کوئی فائدہ بخش نہیں ہوتی اسے ایک طرف پھینک دینا چاہئیے لیکن خاموش، بے صدا، متواضع ، مفید اور سود مند پانی باقی رہ جاتا ہے اور اگر زمین کے اوپر نہ ہو تو زمین کی گہرائیوں میں اتر جاتا ہے اور زیادہ وقت نہیں گذرتا کہ رواں چشموں اور کنوؤں کی صورت میں زمین سے نکل آتا ہے اور تشنہ کاموں کو سیراب کرتا ہے ۔ درختوں کو بار آور ، گلو کو شگفتہ اور پھلوں کو تیار کرتا ہے اور ہرچیز کو سروسامان ِ حیات عطا کرتا ہے ۔

آیت کے آخر میں مزید تاکید کے طور پر اور اس آیت میں زیادہ غور و فکر کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا گیا ہے : اس طرح خدا مثالیں بیان کرتا ہے( کَذَلِکَ یَضْرِبُ اللهُ الْاٴَمْثَالَ ) ۔

چند اہم نکات

اس معنی خیز مثال میں نہایت موزوں الفاظ اور جملے استعمال ہوئے ہیں ۔ حق و باطل کی منظر کشی نہایت عمدہ گی سے کی گئی ہے ۔ اس میں بہت سے حقائق پوشیدہ ہیں ۔ ان میں سے بعض کی طرف ہم یہاں اشارہ کرتے ہیں ۔

۱ ۔ حق و باطل کی شناخت کے لئے علامتیں :

حق و باطل کی پہچان کہ جو در حقیقت واقعیت اور حقیقت کو خالی اور جعلی باتوں سے الگ کرنے کا نام ہے بعض اوقات انسان کے لئے اس قدر مشکل اور پیچیدہ ہو جاتی ہے کہ کسی حتمی اور یقینی علامت کو تلاش کرنا پڑتا ہے اور علامتوں کے ذریعے حقائق کو اوہام سے اور حق کو باطل سے جدا کرکے پہچاننا پڑتا ہے ۔ قرآن نے مذکورہ مثال میں ان علامتوں کو اس طرح سے بیان کیا ہے :

الف : حق ہمیشہ مفید اور سود مند ہوتا ہے آب شیریں کی طرح کہ جو باعث حیات ہے لیکن باطل بے فائدہ اور فضول ہوتا ہے پانی کے اوپر والی جھاگ کسی کو سیراب کرتی ہے نہ درخت اگاتی ہے ۔ کٹھالی میں پگھلنے والی دھاتوں سے نکلنے والی جھاگ بھی نہ زیور بنانے کے کام آتی ہے نہ زندگی کا کوئی اور ساز و سامان ۔ اگر اس جھاگ کا کوئی مصرف ہے تو پست اور بے وقعت جو کسی حساب و شمار میں نہیں آتا ۔ جیسے خمس و خاشاک کو جلانے کے کا م لایاجائے ۔

ب:باطل ہمیشہ مستکبر ، بالا نشین اور قال و قیل اورشور و غوغا سے پر لیکن اند سے خالی اور کھوکھلا ہوتا ہے لیکن حق متواضع ، کم صدا، باعمل ، با مقصد اور وزنی ہوتا ہے ۔(۲)

۲۔حضرت علی علیہ السلام اپنے متعلق اور اپنے دشمنوں ، جیسے اصحاب ِ جمل تھے ، کے بارے میں فرماتے ہیں

وقد ارعدوا و برقوا و مع هٰذین الامرین الفشل ولسنا نر عد حتی نو قع ولانسیل حتی نمطر

وہ رعد بر ق کی سی گرج دکھاتے ہیں لیکن انجام کا رسکتی اور ناتوانی کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا لیکن اس کے بر عکس ہم جب تک کوئی اکام انجام نہ دے لیں گرج چمک نہیں دکھاے۔ ہم نہ بر سیں تو سیلاب ِ خروشاں نہیں اٹھاتے(ہمارا پر گرام عمل ہے نہ کہ باتیں کرنا ) ۔نہج البلاغہ ۔ خطبہ ۹ ۔

ج:حق ہمیشہ اپنے اوپر تکیہ کرتا ہے لیکن باطل حق کی آبرو کا سہارا لیتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ اپنے آپ کو حق کے لباس میں پیش کرے اور اس کے مقام سے استفادہ کرے ۔ جیسے کہا جاتا ہے :

” ہر دروغی از راست فروغ می گیرد“

یعنی ہر دروغ اور جھوٹ سچ سے فروغ حاصل کرتا ہے ۔ کیونکہ اگر سچ بات دنیا میں نہ ہوتی تو کوئی شخص کبھی جھوٹ کا اعتبار نہیں کرتااور اگر خالص جنس دنیا میں نہ ہوتی تو کوئی ملا وٹی اور جعلی چیز سے فریب نہ کھا تا۔ اس بناء پر باطل کا کم عمر فروغ اور وقتی آبرو بھی حق کی وجہ سے ہے لیکن حق ہر جگہ اپنے اوپر بھروسہ کرتا ہے اور اپنی آبرو کا سہارا لیتا ہے ۔

اسی امر کی طرف حضرت علی علیہ السلام نے نہج البلاغہ میں اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے :

لو ان الباطل خلص من مزاج الحق لم یخف علی المرتادین ولو ان الحق خلص من لبس الباطل انقطعت عنه السن المعاندین

اگر اگر باطل حق سے مل نہ جائے تو حق متلاشیوں کے لئے مخفی نہ رہے اور اگر حق باطل سے جدا ہو جائے تو بد لوگو ں کی زبان اس سے منقطع ہو جائے گی۔(۳)

بعض مفسرین نے کہا ہے کہ مندرجہ بالا آیت میں در حقیقت تین تشبیہیں ہیں ۔

۱ ۔ آسمان وحی سے آیات ِ قرآن کا نزول جسے بارش کے حیات بخش قطرات کے برسنے سے تشبیہ دی گئی ہے ۔

۲ ۔ انسانوں کے دلوں کو ایسی زمینوں ، دروں اور گہرائیوں سے تشبیہ دی گئی ہے جو اپنی وسعت اور ظرف کے لحاظ سے استفادہ کرتے ہیں ۔

۳ ۔ ”شیطانی وسوسوں “ کو پانی پر پیدا ہونے والی ایسی گندی جھاگ سے تشبیہ دی گئی ہے جو پانی سے پیدا نہیں ہوئی بلکہ پانی کے گرنے کی جگہ کی گندگی سے پیدا ہوئی ہے ۔ اسی بناء پر نفس اور شیطان کے وسوسے مومنین کے دلوں سے بر طرف ہو جاتے ہیں اور وحی کا آپ شیریں باقی رہ جاتا ہے جو انسانوں کی ہدایت اور حیات کا موجب ہے ۔

۳ ۔ فائدہ ہمیشہ اہلیت کے اعتبار سے ہوتا ہے :

اس آیت سے ضمنی طور پر معلوم ہوتا ہے کہ خدائی فیض کے مبداء میں کسی قسم کا کوئی بخل، محدودیت اور ممنوعیت نہیں ہے ۔ جیساکہ آسمانی بادل ہر جگہ بغیر کسی قید کے برستے ہیں اور زمین کے مختلف حصے اور درّے اپنے وجود کی وسعت کے اعتبار سے اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں ۔جو زمین چھوٹی ہے ا س کا حصہ کم ہے اور جو بڑی ہے اس کا حصہ زیادہ ہے ۔ انسانوں کے دل اور روحیں بھی خدائی فیض سے اسی اعتبار سے مستفید ہوتی ہیں ۔

۴ ۔ باطل سر گرداں ہے :

جس وقت سیلِ آب کسی صاف صحرا میں پہنچا ہے اور پانی کا جوش و خروش مد ہم پرجاتا ہے تو جو چیزیں پانی سے مخلوط ہوئی ہوتی ہیں آہستہ آہستہ تی نشین ہو جاتی ہیں اور جھاگ ختم ہو جاتی ہے ۔ صاف و شیریں پانی نمایاں ہو جاتا ہے ۔ باطل بھی اسی طرح پریشاں حال ہے وہ مفاد اٹھانے کے چکر میں ہے لیکن جس وقت سکون آتا ہے اورہرشخص اپنے مقام پر بیٹھ جاتا ہے حقیقی معیار اور ضابطے معاشرے میں ظاہر ہوتے ہیں تو پھر باطل کے لئے کوئی جگہ نہیں ہوتی اور وہ جلدی ہی رفو چکر ہو جا تا ہے ۔

۵ ۔ باطل صرف ایک لبادہ میں نہیں ہوتا:

باطل کی خصوصیت میں سے ہے کہ لمحہ بہ لمحہ شکلیں اور لباس بدلتا رہتا ہے ۔ تاکہ اگر اسے ایک بہروپ میں پہچان لیا جائے تو وہ دوسرے میں اپنے تئیں چھپا لے ۔

مندرجہ بالا آیت میں بھی اس معالے کی طرف ایک لطیف اشارہ کیا گیا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے کہ جھاگ نہ صرف پانی پر ظاہر ہوتی ہے بلکہ ہر بھٹی، ہر کٹھالی اور سانچے میں سے کہ جس میں دھاتوں کو پگلایا جاتا ہے نئی جھاگ نئی شکل میں اور نئے لباس میں آشکار ہو تی ہے ۔ دوسرے لفظوں میں حق و باطل ہر جگہ موجود ہوتا ہے جیسا کہ ہر بہنے والی چیز میں جھاگ نئی اپنی خاص شکل میں ظاہر ہوتی ہے ۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ہم شکلیں بدلنے سے دھوکا نہ کھائیں اور ہر جگہ باطل کو اس کی مخصوص صفات سے پہچان لیں کیونکہ اس کی صفات ہر جگہ ایک ہی طرح کی ہیں اور جیسا کہ اوپر اشارہ کیا جا چکا ہے کہ ان صفات کے حوالے سے باطل کو پہچان کر اسے حق سے الگ کردینا چاہئیے ۔

۶ ۔ ہر موجود کی بقا اس کے فائدے سے وابستہ ہے :

اس سلسلے میں زیر بحث آیت میں ہے کہ جو چیز لوگوں کو فائدہ پہنچاتی ہے باقی رہ جاتی ہے( واماما ینفع الناس فیمکث فی الارض ) ۔

یعنی پانی کہ جو صرف باعث حیات ہے باقی رہ جاتا ہے اور جھاگ ختم ہو جاتی ہے بلکہ دھات بھی چاہے وہ زیور کے لئے ہو چاہے اسباب زندگی تیار کرنے کے لئے اس میں سے بھی خالص دھات جو مفید ، سود مند یا صاف و شفاف اور خوبصورت و زیبا ہوتی ہے باقی رہ جاتی ہے اور جھاگ کو دور پھینک دیتی ہے ۔

اسی طرح سے انسان ، گروہ ، مکاتب فکر اور پروگرام جس قدر سود مند ہیں اس قدر بقا و حیات کا حق رکھتے ہیں اور اگر ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی انسان یا باطل مکتب و مذہب ایک مدت تک باقی رہ جاتا ہے تو اس کی وجہ بھی حق کی وہ مقدار ہے جو اس میں ملا ہوا ہے اور وہ اتنی مقدار کے لئے حقِ حیات پیدا کرچکا ہے ۔

۷ ۔ حق باطل کو کس طرح باہر نکال پھینکتا ہے :

لفظ ”جفاء “ جو گر جانے او ربا ہر کی طرف جا پڑنے کے معنی میں ہے اپنے اندر ایک لطیف نکتہ لئے ہوئے ہے اور وہ یہ کہ باطل اس مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ وہ اپنی حفاظت نہیں کرسکتا اور ہمہ وقت معاشرے سے باہر جا گر نا چاہتا ہے او ریہ اسی وقت ہوتا ہے جب حق جوش میں آتا ہے اور جس وقت حق میں حرکت اور جوش و خروش پیدا ہوتا ہے تو باطل کسی بر تن کی جھاگ کی طرح اچھل کر باہر جا پڑتا ہے اور یہ بات خود اس امر کی دلیل ہے کہ حق کو ہمیشہ جوش او رجنبش و خروش میں رہنا چاہیئے تاکہ باطل کو اپنے سے دو رکھے ۔

۸ ۔ باطل اپنی بقا میں حق کا مقروض ہے :

جیسا کہ ہم نے آیت کی تفسیر میں کہا ہے کہ اگر پانی نہ ہوتو جھاگ کبھی بھی اپنا وجود بر قرار نہیں رکھ سکتی ۔ اسی طرح اگر حق نہ ہو تو باطل کے لئے فروغ و ظہو ر ممکن نہیں ۔ اگر صالح اور اچھے لوگ نہ ہوتے تو کوئی شخص خائن اور دھو کا باز افراد سے متاثر نہ ہوتا اور ان کے فریب میں نہ آتا لہٰذا باطل کا یہ جھوٹا جولان اور فروغ بھی فروغِ حق سے بہرہ وری ہے :

کان دروغ از راست می گیرد فروغ جھوت سچ سے فروغ پاتا ہے ۔

۹ ۔ حق اور باطل میں ہمیشہ مقابلہ رہتا ہے :

قرآن نے یہاں حق و باطل کو مجسم کرنے کے لئے ایک ایسی مثال دی ہے جوکسی مکان و زمان سے مخصوص نہیں ہے ۔ یہ ایک ایسا منظر ہے جو دنیا کے مختلف علاقوں میں انسانوں کے سامنے آتا رہتا ہے ۔ یہ امر نشاندہی کرتا ہے کہ حق و باطل کے مابین جنگ کوئی وقتی اور مقامی جنگ نہیں ہے ۔ صاف اور آلودہ پانی کی یہ ندیاں مخلوق پر صور پھونکے جانے تک اسی طرح جاری رہیں گی مگر یہ کہ ایک آئیڈیل معاشرے وجود میں آجائے ( مثلاً حضرت مہدی علیہ السلام کے دور قیام کا معاشرہ) ۔ کو اس مبارزہ کے اختتام کا اعلان ہو گا ۔ حق کا لشکر کامیاب ہو جائے گا ۔ باطل کی بساط الت جائے گی ۔ بشریت اپنی تاریخ کے نئے مرحلے میں داخل ہو گی اور جب تک یہ تاریخی مرحلہ نہ آجائے ہر جگہ حق و باطل کے تصادم کی انتظار میں رہنا چاہئیے اور باطل کے مقابلے کے لئے ضروری اہتمام کرنا چاہئیے ۔

۱۰ ۔ زندگی جہاد و جستجو کے سائے میں :

زیر بحث آیت میں دی گئی خوبصورت مثال زندگی کی اس بنیادی حقیقت کو بھی واضح کرتی ہے کہ زندگی بغیر جہاد کے بقا و سر بلندی بغیر سعی و کوشش کے ممکن نہیں ہے ۔ ارشاد فرمایا ہے کہ لوگ وسائل زندگی یا زیور کی تیاری کے لئے جو کچھ بھٹیوں اور کٹھالیوں میں ڈالتے ہیں اس میں سے ہمیشہ غیر ضروری مواد نکلتا ہے اور جھاگ پیدا ہوتی ہے اور یہ دو قسم کے وسائل یعنی ضروری اور رفاہی وسائل (ابتغاء حلیة او متاع) حاصل کرنے کے لئے اصلی مواد کو جو عالم ِ طبیعت میں اصلی شکل میں نہیں مل سکتا اور ہمیشہ دوسری چیز وں میں ملا ہوتا ہے اسے ااگ کی کٹھالی میں ڈالنا پڑتا ہے اور اسے پاک صاف کرنا پڑتا ہے تاکہ خالص دھات میسر آسکے اور یہ کام سعی و جستجو کے بغیر ممکن نہیں ۔

اصولی طور پر دنیا وی زندگی کا مزاج یہ ہے کہ گلوں کے ساتھ خار م نوش کے ساتھ نیش ، اور کامیابیوں کے ساتھ مشکلات ہوتی ہیں ۔ قدیم زمانے کی کہاوت ہے کہ :

خزانے ویرانوں میں ہوتے ہیں اور ہر خزانے کے اوپر ایک اژدھا سویا ہوا ہے ۔

کیا یہ ویرانے اور اژدھا سوائے مشکلات کے کسی اور چیز کا نام ہے کہ جو کامیابی کے راستے میں موجود ہیں ۔

ایرانی داستانوں میں بھی رستم کی داستان میں ہے کہ وہ کامیابی تک پہنچنے کے لئے مجبور تھا کہ سات خوان سے گزرے کہ جن میں سے ہر ایک انبوہِ مشکلات کی طرف اشارہ ہے کہ جو ہر مثبت کام کے راستے میں در پیش ہوتی ہیں ۔

بہر حال قرآن نے یہ حقیقت با رہا بیان فرمائی ہے کہ انسان کوئی کامیابی مشکلات اور تکالیف اٹھائے بغیر حاصل نہیں کرسکتا ۔ اس کے لئے قراان میں مختلف عبارتیں ہیں ۔ سورہ بقرہ کی آیہ ۲۱۴ میں ہے :

( ام حسبتم ان تدخلوا الجنة و لما یأتکم مثل الذین خلوا من قبلکم مستهم الباٴساء و الضراء و زلزلوا حتی یقول الرسول و الذین اٰمنوا معه متی نصر الله قریب )

کیا تم نے سمجھ رکھا ہے کہ کہ تمام آسانی سے جنت میں جا پہنچو گے اور تمہیں وہ حوادث پیش نہیں اائیں گے جو گزشتہ لوگوں کو در پیش ہوئے ، وہی لوگ کہ جنہیں دشواریاں اورتکلیفیں در پیش ہوئیں اور وہ ایسے دکھ درد میں مبتلا ہوئے کہ پیغمبر اور ان کے ساتھ اہل ایمان کہنے لگے کہ خدا کی مدد کہا ں ہے تو ان بہت ہی سخت اور دردناک لمحات میں خدائی نصرت ان کے پاس آپہنچی اور ان سے کہا گیا کہ خدا ئی مدد قریب ہے ۔

____________________

۱۔اس جملہ کا لفظی ترجمہ یہ ہے

اس معنی خیز زیور اور متاع حاصل کرنے کے لئے آگ روشن کرتے ہیں اس سے پانی کی جھاگ کی طرح جھاگ حاصل ہوتی ہے ۔

۲۔ ”زبد“ کیا ہے ؟ ”زبد“ پانی کے اوپر والی یا ہر قسم کی جھاگ کو کہتے ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ آبِ شیریں پر بہت کم جھاگ آتی ہے کیونکہ پانی کے خارجی اجسال سے آلودہ ہونے کی وجہ سے جھاگ پیدا ہوتی ہے ۔ یہاں سے واضح ہو جاتا ہے کہ اگر حق اپنی اصل صفائی اور پاکیزگی پر رہے تو ا س کے اطراف میں باطل کی جھاگ کبھی پیدا نہ ہوگی لیکن جب حق آلودہ گندے ماحول میں ہو اور حقیقت خرافات میں کھو جائے ، درستی نا درستی سے مل جائے اور پاکیزگی ناپاکی سے خلط ملط ہو جائے تو باطل کی جھاگ اس کے ساتھ ظاہر ہو جاتی ہے ۔

۳۔ نہج البلاغہ ،خطبہ۔۵۰۔


14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31