تفسیر نمونہ جلد ۱۰

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 27333
ڈاؤنلوڈ: 2014


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 93 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 27333 / ڈاؤنلوڈ: 2014
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 10

مؤلف:
اردو

آیات ۳۵،۳۶،۳۷،۳۸،۳۹،۴۰،۴۱

۳۵ ۔( وَ إِذْ قالَ إِبْراهیمُ رَبِّ اجْعَلْ هَذَا الْبَلَدَ آمِناً وَ اجْنُبْنی وَ بَنِیَّ اٴَنْ نَعْبُدَ الْاٴَصْنامَ ) ۔

۳۶۔( رَبِّ إِنهُنَّ اٴَضْلَلْنَ کَثیراً مِنَ النَّاسِ فَمَنْ تَبِعَنی فَإِنّه مِنِّی وَ مَنْ عَصانی فَإِنَّکَ غَفُورٌ رَحیمٌ ) ۔

۳۷ ۔( رَبَّنا إِنِّی اٴَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتی بِوادٍ غَیْرِ ذی زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِکَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنا لِیُقیمُوا الصَّلاةَ فَاجْعَلْ اٴَفْئِدَةً مِنَ النَّاسِ تَهْوی إِلَیْهِمْ وَ ارْزُقْهُمْ مِنَ الثَّمَراتِ لَعَلّهُمْ یَشْکُرُونَ ) ۔

۳۸ ۔( رَبَّنا إِنَّکَ تَعْلَمُ ما نُخْفی وَ ما نُعْلِنُ وَ ما یَخْفی عَلَی اللَّهِ مِنْ شَیْء ٍ فِی الْاٴَرْضِ وَ لا فِی السَّماء ) ۔

۳۹ ۔( الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذی وَهَبَ لی عَلَی الْکِبَرِ إِسْماعیلَ وَ إِسْحاقَ إِنَّ رَبِّی لَسَمیعُ الدُّعاء ) ۔

۴۰ ۔( رَبِّ اجْعَلْنی مُقیمَ الصَّلاةِ وَ مِنْ ذُرِّیَّتی رَبَّنا وَ تَقَبَّلْ دُعاء ) ۔

۴۱ ۔( رَبَّنَا اغْفِرْ لی وَ لِوالِدَیَّ وَ لِلْمُؤْمِنینَ یَوْمَ یَقُومُ الْحِسابُ ) ۔

ترجمہ

۳۵ ۔ وہ وقت (یاد کرو )جب ابراھیم نے کہا : پروردگارا، اس شہر ( مکہ ) کو شہر امن قرار دے اور مجھے اور میری اولاد کو بتوں کی پرستش سے دور رکھ ۔

۳۶ ۔ پروردگارا ! انہوں ( بتوں ) نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کر رکھا ہے ۔ پس جو شخص میری پیروی کرے وہ مجھ سے ہے اور جو میری نا فرمانی کرے تو تو بخشنے والا اور مہربان ہے ۔

۳۷ ۔ پروردگارا ! میں نے اپنی اولاد کو تیرے گھر کے پاس کہ جو تیرا حرم ہے بے آب و گیاہ زمین میں ٹھہرایا ہے تاکہ نماز قائم کریں تو کچھ لوگوں کے دل ان کی طرف موڑ دے اور انھیں ثمرات میں سے رزق دے شاید وہ تیرا شکر بجا لائیں ۔

۳۸ ۔ پروردگارا !جو کچھ ہم چھپاتے ہیں یا ظاہر کرتے ہیں تو اسے جانتا ہے اور زمین و آسمان میں کوئی چیز اللہ پر مخفی نہیں ہے ۔

۳۹ ۔ حمد ہے اس اللہ کی جس نے مجھے بڑھاپے میں اسماعیل اور اسحاق عطا کئے یقینا میرا خدا دعا سنتا ہے ( اور قبول کرتا ہے ) ۔

۴۰ ۔ خدا یا ! مجھے نماز قائم کرنے والا بنا اور میری اولاد میں سے بھی ایسا کر ۔ پروردگارا ! (ہماری ) دعاء قبول فرما ۔

۴۱ ۔ پروردگارا! مجھے -، میرے ماں باپ کو اور تمام مومنین کو اس روز بخش دینا جب حساب قائم ہوگا ۔

تفسیر

ابراہیم (علیه السلام)بت شکن کی اصلاحی دعائیں

گذشتہ آیت میں سچے مومنین اور نعمات الہی کا شکر ادا کرنے والوں کے بارے میں گفتگو تھی ۔ زیر بحث آیت میں راہ خدا میں استقامت دکھانے والے اور اس کے عبد شاکر ابراہیم (علیه السلام) کی کچھ دعائیں بیان کی گئی ہیں تا کہ گذشتہ تمام بحثوں کی تکمیل ہو جائے اور یہ امر خدائی نعمتوں سے بہترین فائدہ اٹھانے کی خواہش رکھنے والوں کے لئے نمونہ بن جائے ۔

پہلے فرمایا گیا ہے : وہ وقت یاد کرو جب جب ابراہیم (علیه السلام) نے بارگاہ ایزدی میں عرض کیا : پروردگارا ! اس شہر ( مکہ ) کو سر زمین امن و امان قرار دے( وَ إِذْ قالَ إِبْراهیمُ رَبِّ اجْعَلْ هَذَا الْبَلَدَ آمِناً ) اور مجھ پر میرے بیٹے پر اپنا لطف و عنایت فرما اور بتوں کی پرستش سے دور رکھ( وَ اجْنُبْنی وَ بَنِیَّ اٴَنْ نَعْبُدَ الْاٴَصْنامَ ) ۔ کیونکہ میں جانتا ہوں کہ بت پرستی کتنی بڑی مصیبت اور گھروں کو ویران کرنے والی ہے اور میں نے اپنی آنکھوں سے اس راستے میں برباد ہونے والوں کو دیکھا ہے ۔

پروردگارا ! ان بتوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کیا ہے( رَبِّ إِنهُنَّ اٴَضْلَلْنَ کَثیراً مِنَ النَّاسِ ) ۔ گمراہ بھی کیسی خطرناک کہ جس میں وہ اپنی عقل و خرد تک گنوا بیٹھتے ہیں ۔

میرے اللہ میں تیری توحید کی دعوت دیتا ہوں اور سب کو تیری طرف پکارتا اور بلاتا ہوں ۔ ” جو شخص میری پیروی کرے وہ مجھ سے ہے اور جو میری نا فرمانی کرے اگر وہ قابل ہدایت اور بخشش ہے تو اس کے بارے میں محبت و احسان فرما کیونکہ تو بخشنے والا مہربان ہے “( فَمَنْ تَبِعَنی فَإِنّه مِنِّی وَ مَنْ عَصانی فَإِنَّکَ غَفُورٌ رَحیمٌ ) ۔

در اصل ان الفاظ میں حضرت ابراہیم (علیه السلام) بارگاہ خدا وندی میں عرض کرنا چاہتے ہیں کہ اگر میری اولاد بی راہ توحید سے منحرف ہو جائے اور بت پرستی کی طرف متوجہ ہو جائے تو وہ مجھ سے نہیں ہے اور اگر غیر اس راستے پر گامزن ہو جائیں تو وہ میرے بیٹوں اور بائیوں اور بھائیوں کی مانند ہیں ۔

حضرت کی یہ مؤدبانہ اور انتہائی محبت آمیز تعبیر اس لحاظ سے بھی قابل توجہ ہے کہ یہ نہیں کہتے کہ جو شخص میری نافرمانی کرے گا وہ مجھ سے نہیں ہے اور اسے اسطرح یا اس طرح سزا دے بلکہ کہتے ہیں -: جو شخص میری نا فرمانی کرے تو تو بخشنے والا اور مہربان ہے ۔

پھر اپنی دعا اوردرخواست جاری رکھتے ہیں : پروردگارا ! میں نے اپنی کچھ اولاد کو تیرے گھر کے پاس کہ جو تیرا حرم ہے بے آب و گیاہ سر زمین میں ٹھہرایا ہے تا کہ وہ نماز قائم کریں( رَبَّنا إِنِّی اٴَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتی بِوادٍ غَیْرِ ذی زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِکَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنا لِیُقیمُوا الصَّلاةَ )

یہ اس وقت کی بات ہے جب خدا نے انھیں ان کی کنیز ہاجرہ سے فرزند عطا کیا ۔ جس کا نام انہوں نے اسماعیل رکھا ۔ اس پر ان کی پہلی بیوی سارہ کے دل میں حسد پیدا ہو گیا ۔ وہ ہاجرہ اور ان کے بیٹے کی موجودگی برداشت نہ کر سکی ۔ اس نے ابراہیم (علیه السلام) ست تقاضا کیا کہ اس ماں بیٹے کو کہیں اور لے جائے ۔ حضرت ابراہیم (علیه السلام) نے فرمان خدا پر یہ بات مان لی اور اسماعیل اور ان کی والدہ کو لے کر سرزمین مکہ میں چلے آئے ۔ ان دنوں یہ علاقہ بالکل خشک بنجر اور ویران تھا ۔ آپ نے انہیں وہاں ٹھہرایا اور خدا حافظ کہہ کر چلے آئے ۔

تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ اس گرم اور تپتی ہوئی زمین پر ماں اور بیٹے کو پیاس لگی ۔ ہاجرہ نے اپنے ننھے سے بچے کی جان بچانے کی بہت کوشش کی ۔

دوسری طرف خدا کا ارادہ تھا کہ یہ سرزمین ایک عظیم مرکز عبادت بنے اس موقع پر زمزم کا چشمہ جاری ہو گیا ۔ تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ صحرا نورد قبیلہ ” جرہم “ وہاں سے گزارا ۔ اسے سارے ماجرے کا پتہ چلا ۔ اس نے وہیں پڑاو ڈال لیا اور مکہ آہستہ آہستہ ایک آبادی کی شکل اختیار کرنے لگا ۔

اس کے بعد حضرت ابراہیم (علیه السلام) نے اپنی دعاء کو اس طرح سے جاری رکھا : اب جبکہ وہ تیرے عظیم گھر کے احترام میں اس جلا ڈالنے والے بیابان میں سکونت پذیر ہو گئے ہیں تو تو کچھ لوگو کا دل ان کر طرف موڑ دے اور ان کی محبت ان کے دلوں میں ڈال دے( فَاجْعَلْ اٴَفْئِدَةً مِنَ النَّاسِ تَهْوی إِلَیْهِمْ ) )اور انہیں طرح طرح کی ( مادی و معنوی ) ثمرات سے بہرہ مند کردے ، شاید وہ تیری نعمتوں کا شکر ادا کرے( وَ ارْزُقْهُمْ مِنَ الثَّمَراتِ لَعَلّهُمْ یَشْکُرُونَ ) ۔

ایک موحد اور آگاہ انسان جانتا ہے کہ علم الہی کے مقابلے میں اس کا علم محدود ہے اور اس کے مصالح کو صرف خدا جانتا ہے ، اکثر وہ خدا سے ایسی چیزوں کا تقاضا کرتا ہے جو اس کے لئے قرین مصلحت نہیں ہوتیں اور بہت سی ایسی چیزیں ہیں کہ جن میں اس کی مصلحت ہے لیکن وہ ان کے لئے درخواست نہیں کرتا اور کبھی اس کے دل کی آرزوئیں ہوتی ہیں کہ جن سب کو وہ زبان پر نہیں لا سکتا لہذا مذکورہ دعاؤں اور تقاضوں کے بعد حضرت ابرہیم (علیه السلام) یوں عرض کرتے ہیں پروردگارا ! تو ان سب چیزوں سے اچھی طرح آگاہ ہے جنہیں ہم چھپاتے ہیں یا آشکار کرتے ہیں( رَبَّنا إِنَّکَ تَعْلَمُ ما نُخْفی وَ ما نُعْلِن ) اور زمین و آسمان میں کوئی چیز خدا سے مخفی نہیں ہے( ُ وَ ما یَخْفی عَلَی اللَّهِ مِنْ شَیْء ٍ فِی الْاٴَرْضِ وَ لا فِی السَّماء ) ۔

اگر میں اپنے بیٹے اور بیوی کے فراق میں غمگین ہوں تو تو جانتا ہے اور اگر آشکار بھی میری آنکھ سے آنسوں جھلکتے ہیں تو تو انہیں دیکھتا ہے ۔ اور اگر فراق میرے دل پر چھایا ہوا ہے تو بھی تو جانتا ہے اور تیرے حکم کی اطاعت سے میرا دل ساتھ ساتھ مطمئن بھی ہے تو بھی تجھے خبر ہے ۔

اور اگر وقت جدائی میری بیوی مجھ سے کہتی ہے :الی من تکلنی ؟

مجھے کس کے سہارے چھوٹے جاتے ہو ؟

تو اس سے بھی تو آگاہ ہے ۔

تو ان سب چیزوں سے آگاہ ہے ۔ اس سر زمین اور ان کا مستقبل ایک دوسرے سے مضبوطی سے بندھا ہوا ہے ، یہ سب تیری بارگاہ علم میں روشن ہے ۔

اس کے بعد نعمات پروردگار کے شکر کی طرف اشارہ ہے ۔ ان میں سے اہم ترین یہ تھی کہ پروردگار نے عالم پیری میں حضرت ابراہیم (علیه السلام) کو دو آبرو مند بیٹے اسماعیل اور اسحاق عطا فرمائے تھے بارگاہ ایزدی میں عرض کرتے ہیں : حمد و سپاس ہے اس اللہ کے لئے جس نے مجھے بڑھاپے میں اسماعیل اور اسحاق بخشے( الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذی وَهَبَ لی عَلَی الْکِبَرِ إِسْماعیلَ وَ إِسْحاقَ ) (۱)

جی ہاں ! یقینا میرا خدا دعاؤں کو سنتا ہے( إِنَّ رَبِّی لَسَمیعُ الدُّعاء ) ۔

پھر بھی درخواست اور دعا جاری رکھتے ہیں اور عرض کرتے ہیں پر ور دگارا ! مجھے نماز قائم کرنے والا قرار دے اور اے میرے خدا ! میری اولاد میں سے بھی اسی طرح قرار دے( رَبِّ اجْعَلْنی مُقیمَ الصَّلاةِ وَ مِنْ ذُرِّیَّتی ) ۔پروردگارا ! میری دعاء قبول کر لے( رَبَّنا وَ تَقَبَّلْ دُعاء ) ۔

اور آخری تقاضا ابراہیم (علیه السلام) نے یہ کیا : پروردگارا ! مجھے ، میرے ماں باپ کو سب مومنین کو اس روز بخش دےنا جس دن حساب قائم ہو

( رَبَّنَا اغْفِرْ لی وَ لِوالِدَیَّ وَ لِلْمُؤْمِنینَ یَوْمَ یَقُومُ الْحِسابُ ) ۔

چند اہم نکات

۱ ۔ کیا مکہ اس وقت شہر تھا ؟

زیر نظر آیات میں ہم نے دیکھا ہے کہ ابراھیم (علیه السلام) اچانک عرض کرتے ہیں کہ خدا وندا! میں اپنے بیٹے کو ایک ایسی سر زمین میں چھوڑ رہا ہوں جہاں پانی ہے نہ آبادی اور نہ زراعت۔

یقینا یہ سر زمین مکہ میں ورود کا آغاز ہے کہ جب پانی تھا نہ آبادی ، نہ مکان تھا نہ مکین ۔ صرف خانہ خدا کے باقی ماندہ آثار تھے جو وہاں دکھائی دیتے تھے اور کچھ خشک اور بے آب و گیاہ پہاڑ تھے ۔

لیکن ہم جانتے ہیں کہ ابراہیم (علیه السلام) نے اس علاقہ کا یہی ایک سفر نہ کیا تھا ۔ اس کے بعد بھی آپ نے اس سر زمین مقدس پر بارہا قدم رکھا جبکہ تدریجاً مکہ شہر کی شکل اختیار کرتا جا رہا تھا ۔ قبیلہ ” جرہم “ وہاں سکونت اختیار کر چکا تھا ۔ چشمہ زمزم پیدا ہونے پر علاقہ رہائش کے قابل ہو چکا تھا ۔

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیه السلام) کی یہ دعائیں ان کے کسی بعد کے سفر سے تعلق رکھتی ہیں یہی وجہ ہے کہ آپ کہتے ہیں : خدا وندا ! اس شہر کو جاء امن و امان قرار دے ۔

اور یہ جو وادی ” غیر ذی زرع “ کہا ہے تو یہ یا گزشتہ زمانے کی بات کر رہے ہیں اور اپنے پہلے سفر کی یاد تازہ کر رہے ہیں اور یا اس طرف اشارہ ہے کہ سر زمین مکہ ایک شہر بن جانے کے بعد بھی نا قابل زراعت ہے لہذا اس کی ضروریات باہر سے آنا چاہئیں کیونکہ جغرافیائی لحاظ سے یہ علاقہ خشک پہاڑوں پر مشتمل ہے جہاں پانی بہت کم ہے ۔

۲ ۔ مکہ سر زمین امن

یہ بات جاذب نظر ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس سر زمین میں جو سب سے پہلی دعا کی وہ ( امن ) کے لئے تھی ۔ یہ امر نشاندہی کرتا ہے کہ امن کی نعمت انسانی زندگی کے لئے ، کسی جگہ قیام کرنے کے لئے اور ہر قسم کی تعمیر ِ آبادی اور ترقی کے لئے پہلی شرط ہے اور ہے بھی ایسا ہی ۔ اگر کسی جگہ امن و امان نہ ہو تو وہ رہنے کے قابل نہیں اگر چہ دنیا کی تمام نعمتیں وہاں موجود ہوں ۔ اصولی طور پر وہ شہر ، آبادی اور ملک کہ جو امن کی نعمت سے محروم ہو گویا وہ تمام نعمتیں کھو بیٹھا ہے ۔

یہاں اس نکتہ کی طرف بھی توجہ کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے مکہ کے امن کے بارے میں حضرت ابراہیم (علیه السلام) کی دعا کو دو طرح سے قبول کیا ہے ۔ اسے امنیت تکوینی بھی دی کیونکہ یہ ایسا شہر ہو گیا کہ جس نے پوری تاریخ میں امن کے لئے تباہ کن حوادث بہت کم دیکھے ہیں اور اسے امنیت تکوینی بھی دی ۔ یعنی خڈا نے حکم دیا ہے کہ تمام انسان بلکہ جانور تک اس زمین میں امن و امان میں رہیں ۔ یہاں کے جانوروں کا شکار کرنا ممنوع ہے ۔(۲)

____________________

۱ ۔ جب حضرت اسما عیل (علیه السلام) اور حضرت اسحاق (علیه السلام) پیدا ہوئے اس وقت حضرت ابراہیم (علیه السلام) کی عمر کیا تھی ۔ اس سلسلے میں مفسرین میں اختلاف ہے بعض نے کہا ہے کہ ابراہیم (علیه السلام) ۹۹ سال کے تھے کہ پہلے فرزند اسماعیل (علیه السلام) پیدا ہوئے اور ۱۱۲ سال کے تھے جب اسحاق (علیه السلام) نے آنکھ کھولی ۔ بعض نے اس سے کم اور بعض نے زیادہ عمر لکھی ہے تا ہم یہ مسلم ہے کہ اس وقت آپ کی عمر اتنی تھی کہ معمولاً اس عمر میں بچے کی پیدائش بہت بعید معلوم ہوتی تھی ۔

۲- اس وقت جبکہ ہم تفسیر کے اس حصہ کو مرتب کر رہے ہیں امت اسلامی پر ایک نہایت اندوہناک سانحہ گزرا ہے ۔ سر زمین حرم پر اطراف خانہ خدا میں سعودی پولیس نے وحشت و درندگی کی انتہا کر دی ۔ اس نے ایرانی حاجیوں پر گولی چلائی ۔ سیکڑوں عورتیں بچے بوڑھے شہید ہو گئے ۔ ایک انتہائی منظم پر امن اور با وقار جلوس پر یہ ظلم صرف اس ” جرم “ پو ہوا کہ وہ عالمی طاغوتی طاقتوں امریکہ ، روس اور اسرائیل کے خلاف اظہار نفرت کر رہے تھے ۔یہ واقعہ ان دنوں میں ہوا جب خلیج فارس میں امریکہ نے کھلم کھلا فوجی مداخلت شروع کردی ہے تاکہ ایران کے اسلامی انقلاب سے اپنی رسوائی سے بدلا لے سکے ۔ ایسے میں جبکہ مسلمانوں کی گردنوں پر مسلط استعماری ایجنٹوں ، فوجی آمروں اور بادشاہوں نے ایران کی اسلامی حکومت کے خلاف ایکا کر لیا ہے اور سب امریکہ سے تعاون پر کمر بستہ ہیں ۔ سودیوں نے نہ فقط سر زمین کعبہ کو اسلام کے صریح احکام کے خلاف زائرین حرم کے خون سے لالہ زار بنایا بلکہ ایسا پوری دنیا میں ان مظلوموں کے خلاف پراپیکنڈہ کیا ۔ صہیونیت اور استعماری قوتوں کے تمام نشریات ادارے ان مظلوموں کے خلاف استعمال ہوئے ۔ قاتلوں کو امن کا محافظ اور مشرکین اور دشمنان اسلام کے خلاف فریاد کرنے والوں کو امن کا دشمن قرار دیا گیا ۔

سعودی ایسا کیوں نہ کرتے کیوں کہ یہ اسی یزید اور حجاج کے افکار کے وارث ہیں جنہوں نے خانہ خدا کی حرمت پامال کی تھی ( ثاقب ) ( اگست ۱۹۸۷ء) ۔

یہاں تک کہ جو مجرم اس حرم اور خانہ خدا میں پناہ لیں ان کا تعاقب بھی جائز نہیں ۔ ایسے مجرمین کا صرف پانی بند کیا جا سکتا ہے تا کہ وہ باہر نکل آئیں اور سر تسلیم خم کردیں ۔

۳ ۔ ابراہیم (علیه السلام) بت پرستی سے دوری کی دعا کیوں کرتے ہیں ؟

اس میں شک نہیں کہ ابراہیم (علیه السلام) معصوم نبی تھے اور ان کے بلاواسطہ بیٹے جو آیت کے لفظ ” بنی “ کے یقینی مصداق ہیں یعنی اسماعیل (علیه السلام) اور اسحاق (علیه السلام)بھی معصوم پیغمبر تھے اس کے باوجود وہ تقاضا کرتے ہیں : خدا یا مجھے اور انھیں بتوں کی پوجا سے دور رکھ !

یہ بات بت پرستی کے خلاف جہاد کرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ تاکید کے لئے دلیل ہے ۔ یہاں تک کہ معصوم نبی اور بت شکن بھی اس سلسلہ میں خدا سے دعا کرتے ہیں ۔ یہ بعینہ پیغمبر اسلام کی طرف سے اپنی وصیتوں میں حضرت علی (علیه السلام) یا دوسرے آئمہ کو جو ان کے جانشین تھے انہیں نماز کی تاکید کرنے کے مشابہ ہے جبکہ ان کے بارے میں ترک نماز کا احتمال کا ہر گز کوئی مفہوم نہیں بلکہ اصولی طور پر نماز ان کی سعی و کوشش سے برپا ہوئی ہے ۔

تو اب یہ سوال سامنے آتا ہے کہ ابراہیم (علیه السلام) نے کس طرح سے کہا کہ پروردگارا ! ان بتوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کیا ہے حالانکہ وہ پتھر اور لکڑی کے سوا کچھ نہیں اور لوگوں کو گمراہ کرنے کی قدرت نہیں رکھتے ۔

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ :

اولاً بت ہمیشہ پتھر اور لکڑی کے نہیں ہوتے تھے بلکہ کبھی فرعون اور نمرود جیسے افراد لوگوں کو اپنی پرستش کی دعوت دیتے تھے اور اپنے آپ کو ” رب اعلیٰ “ ” زندہ کرنے والا “ اور ” مارنے والا “ کی حیثیت سے متعارف کرواتے تھے ۔

ثانیاً بعض اوقات پتھر اور لکڑی کے بتوں کو ان کے متولی اور کارندے اس طرح سے آراستہ و پیراستہ کرتے اور ان کے لئے ایسے احترامات بجا لاتے کہ وہ واقعاً سادہ لوح عوام کے لئے گمراہ کن ہو جاتے تھے ۔

۴ ۔ ابراہیم (علیه السلام) کے تابع کون ہیں ؟

زیر بحث آیات میں ہے کہ ابراہیم کہتے ہیں :خدا وندا ! وہ لوگ جو میری پیروی اور اتباع کرتے ہیں ۔

یہاں سے سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پیرو کار صرف وہ لوگ تھے جو ان کے زمانے میں تھے یا ان کے بعد ان کے دین پر تھے یا ساری دنیا کے توحید پرست اور خدا پرست اس میں شامل ہیں کیونکہ ابراہیم (علیه السلام) توحیداور بت شکنی کی علامت اور نمونہ ہیں ۔

قرآنی آیات میں ملت اسلامیہ اور دین اسلام کو ملت و دین ابراہیمی کی حیثیت سے متعارف کروایا گیا ہے ۔(۱)

اس سے اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ ابراہیم (علیه السلام) کی دعاء تمام توحید پرستوں اورراہ توحید میں جد و جہد کرنے والوں کے لئے ہیں ۔

آئمہ اھلبیت (علیه السلام) سے مروی روایات میں بھی اس تفسیر کی تاکید کی گئی ہے ۔ ان میں سے ایک روایت امام باقر علیہ السلام سے مروی ہے ۔ آپ (علیه السلام) فرماتے ہیں :

من احبنا فھو منا اھل البیت قلت : جعلت فداک منکم قال : منا واللہ اما سمعت قول ابراہیم ! ”من تبعنی فانه منی

جو شخص ہم سے محبت رکھے ( اور اہل بیت کی سیرت پر چلے ) وہ ہم میں سے ہے ۔

راوی نے پوچھا : میں آپ پر قربان ، واقعاً آپ میں سے ہے ؟

فرمایا : واللہ ہم میں سے ہے ۔ کیا تم نے ابراہیم کی گفتگو نہیں سنی جو کہتے ہیں من تبعنی انہ منی ( جو شخص میری اتباع کرے وہ مجھ سے ہے )(۲)

یہ حدیث نشاندہی کرتی ہے کہ کسی مکتب کی پیروی اور اس کے پروگرام میں سے تعلق کسی خاندان سے روحانی طور پر تعلق ہونے کے مترادف ہے ۔

ایک اور حدیث میں امام امیر المومنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں :

نحن اٰل ابراهیم افترغبون عن ملة ابراهیم و قد قال الله تعالیٰ فمن تبعنی فانه منی

ہم آل ابراہیم ہیں ۔ تو کیا ابراہیم کی ملت اوردین سے منہ موڑتے ہو ؟ حالانکہ خدا وند عالم ( ابراہیم کا قول نقل کرتے ہوئے فرماتا:

جو شخص میری پیروی کرے وہ مجھ سے ہے ۔

____________________

۱ حج ۔۷۸ ۔

۲ ۔ تفسیر نور الثقلین ، جلد ۲ ص۵۴۸۔

۵ ۔ وادی -” غیر ذی زرع “ اور خدا کا پر امن حرم

جو لوگ مکہ گئے ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ خانہ خدا مسجد حرام اور پورا مکہ مکرمہ چند خشک اور بے آب و گیاہ پہاڑوں کے درمیان واقع ہے ۔ گویا پتھروں کو پہلے ایک چلتے ہوئے تنور میں بھونا گیا ہے اور پھر انھیں ان کی جگہ پر نصب کیا گیا ہے ۔ حالانکہ یہ خشک اور جلا دینے والی زمین عبادت کا عظیم ترین مرکز اور روئے زمین پر توحید کا اولین مرکز ہے علاوہ ازیں خدا کا حرم امن ہے اور جیسا کہ ہم نے کہا ہے امنیت تکوینی کا بھی حامل ہے اور امنیت تشریعی کا بھی ۔

بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں اس مقام پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خدائے تعالیٰ نے ایسا مرکز ایسی سر زمین پر کیوں بنایا ۔ اس سلسلے میں حضرت علی علیہ السلام نے خطبہ قاصعہ میں نہایت خوبصورت اور عمدہ الفاظ میں اس کا فلسفہ بیان فرمایا ہے :۔

وضعه باوعر بقاع الارض حجراً و اقل نتائق الدنیا مدراً۰۰۰۰۰۰۰بین جبال خشنه و رمال دمثة ۰۰۰۰۰۰ ولو اراد سبحانه ان یضع بیته الحرام و مشاعره العظام بین جنات و انهار و سهل وقرار جم الاشجار ، دانی الثمار ، ملتف البنی ، متصل القری ، بین برة سمراء و روضة خضراء ، و اریاف محدقه ، و عراص مغدقة و ریاض ناظرة و طرق عامره لکان قد صغر قدر الجزاء علی حسب ضعف البلاء ، ولو کان الاساس محمول علیهاو الاحجار المرفوع بها، بین زمردة خضراء و یاقوتة حمراء ، ونور وضیاء ، لخفف ذالک مصارعة الشک فی الصدور ، و لوضع مجاهدة ابلیس عن القلوب ، ولنفی معتلج الریب من الناس ، و لٰکن الله یختبر عباده بانواع الشدائد ، و یتعبدهم بانواع المجاهد ویبتلیهم بضروب المکارة ، اخراجا للتکبرمن قلوبهم ، و اسکاناً للتذلل فی نفوسهم ، و لیجعل ذٰلک ابوابا ً فتحا ً الیٰ فضله ، و اسباباً ذللا لعفوه ۔

خدا نے اپنا گھر سنگلاخ ترین علاقے ، نہایت بے آب و گیاہ زمین ، سخت پہاڑوں اور ریگستانی علاقے میں قرار دیا ہے ۔

اللہ تعالیٰ چاہتا تو اپنا گھر اور احرام اور حج جیسی عظیم عبادت کا مقام کسی ایسے علاقے میں بنا سکتا تھا کہ جہاں باغات ہوتے ، نہریں بہہ رہی ہوتیں ، زمین ہموار ہوتی ، ہر طرف درخت ہوتے ، جہاں پھلوں پھولوں کی فراوانی ہوتی ، ارد گرد محلات اور آبادیاں ہوتیں گندم کے کھیت ہوتے سبزہ ہی سبزہ ہوتا ، خونصورت کیاریاں ہوتیں ، پانی سے سیراب چمن ہوتے ، شاداب گلستان ہوتے اور آباد شاہرا ہیں ہوتیں ۔

لیکن عظیم حج اور عبادت کی آزمائش جس قدر سہل اور آارام وہ ہوتی اجر و جزا بھی اسی قدر کم ہوتی ۔

نیز ااگر خدا چاہتا تو کعبہ کے ستون اور اس کی عمارت کے پتھر سبز زمرد اور سرخ یاقوت کے ہوتے جن سے روشنی پھوٹتی لیکن یہ چیز سینوں سے شک وشبہات کا ٹکراؤ کم کر دیتی اور دلوں سے شیطان کی دوڑ دھوپ کا اثر زایل کر دیتی اور لوگوں سے شکوک کے خلجان دور کر دیتی مگر اللہ اپنے بندوں کو گوناگوں سختیوں سے آزماتا ہے اور ان سے ایسی عبادت کا خواہاں ہے جو طرح طرح کی مشقتوں سے بجا گئی ہو اور اور انھیں قسم قسم کی نا گواریوں سے جانچتا ہے تاکہ ان کے دلوں سے غرور تکبر کو نکال باہر کرے اور ان کے نفوس میں عجز و فروتنی کو جگہ دے اور یہ کہ اس آزمایش کی راہ سے اپنے فضل و امتنان کے کھلے ہوئے دروازوں تک انھیں پہونچائے اور سے اپنی معافی اور بخشش کا آسان وسیلہ قرار دے ۔(۱)

____________________

۱۔نہج البلاغہ خطبہ قاصعہ ، خطبہ ۱۹۲۔

۶ ۔حضرت ابراہیم (علیه السلام) کی سات دعائیں

زیر نظر آیات میں توحید و دعاکے ہیرواور بتوں ، بت پرستی اور ظالموں کے خلاف قیام کرنے حضرت ابراہیم (علیه السلام) کی بارگاہ خدا میں سات دعائیں مذکورہیں ۔

پہلی دعاء : توحیدی معاشرے کے عظیم مرکز شہر مکہ کی امنیت کے بارے میں ہے اور یہ دعا ء نہایت معنی خیز ہے ۔

دوسری دعاء : بتوں کی پرشتش سے دور رہنے کے بارے میں ہے کہ جو تمام دینی عقائد اور پروگراموں کی اساس ہے ۔

تیسری دعاء : ان کی اولاد اور ان کے مکتب کے پیرو کاروں کی طرف تمام لوگوں اور خدا پرستوں کے قلبی میلان اور فکری رجحان کے بارے میں ہے کہ جو معاشرے میں کسی انسان کا عظیم ترین سرمایہ ہو سکتا ہے ۔

چوتھی دعاء : شکر گزاری کے مقدمہ کے طور پر اور خالق نعمات کی طرف مزید توجہ کے جزبہ سے انواع و اقسام کے ثمرات سے بہرہ مند ہونے کے بارے میں ہے ۔

پانچویں دعاء : قیام نماز کی توفیق کے متعلق ہے اور یہ انسان کے خدا کے ساتھ عظیم ترین رشتہ کی علامت ہے اور یہ دعا حضرت ابراہیم (علیه السلام) صرف اپنے لئے نہیں بلکہ اپنی اولاد کے لئے بھی کرتے ہیں ۔

چھٹی دعاء : قبولیت دعاء کے بارے میں ہے اور ہم جانتے ہیں کہ خدا وہ دعا قبول کرتا ہے کہ جو پاک دل اور بے آلائش روح سے نکلے ۔

ساتویں دعاء : اور حضرت ابراہیم (علیه السلام) کا آخری تقاضا اس بارے میں ہے کہ اگر ان سے کوئی لغزش سر زد ہوئی ہے تو بخشنے والا اور مہربان خدا انہیں اپنے لطف و بخشش سے نوازے اور اسی طرح روز قیامت ان کے ماں باپ اور تمام مومنین کو اپنے لطف و رحمت سے بہرہ ور کرے ۔

اس طرح حضرت ابراہیم (علیه السلام) کی سات دعائیں امنیت سے شروع ہوتی ہیں اور مغفرت و بخشش پر تمام ہوتی ہیں ۔ یہ امر جاذب نظر ہے کہ ان دعاؤں میں حضرت ابراہیم (علیه السلام) صرف اپنے لئے تقاضا نہیں کرتے بلکہ دوسروں کے لئے بھی طلب کرتے ہیں کیونکہ مردانِ خدا کبھی بھی صرف اپنے لئے نہیں سوچتے ۔

۷ ۔ کیا ابراہیم (علیه السلام)اپنے باپ کے لئے دعاء کررہے ہیں ؟

اس میں شک نہیں کہ آزر بت پرست تھا اور جیسا کہ قرآن کہتا ہے کہ اس کی ہدایت کے لئے حضرت ابراہیم کی کوششیں موثر ثابت نہ ہو سکیں اور اگر ہم یہ مان لیں کہ آزر حضرت ابراہیم (علیه السلام) کا باپ تھا تو یہ سوال سامنے آئے گا کہ ان آیات میں حضرت ابراہیم (علیه السلام) اس کی بخشش کی دعاء کیوں کر رہے ہیں حالانکہ قرآن صراحت سے مومنین کو مشرکین کے لئے استغفار کرنے سے روکتا ہے ۔ ( توبہ ۔ ۱۱۳) ۔

یہاں سے واضح ہوجاتا ہے کہ آزر کو حضرت ابراہیم (علیه السلام) کا باپ نہیں سمجھا جا سکتا اور یہ جو علماء نے کہا ہے کہ لفظ ” اب عربی زبان میں کبھی چچا کے لئے بھی بولا جاتا ہے ، زیر بحث آیات کو ملحوظ نظر رکھا جائے تو یہ بات پوری طرح قابل و قبول معلوم ہوتی ہے ۔

خلاصہ یہ عربی لغت کے اعتبار سے لفظ ” اب “ اور ” والد “ میں فرق ہے ۔ لفظ ” والد “ کہ جو زیر بحث آیات میں بھی استعمال ہوا ہے صرف باپ کے معنی میں ہے لیکن لفظ ” اب “ کہ جو آزر کے متعلق آیا ہے چچا کے معنی میں استعمال ہو سکتا ہے ۔

مندرجہ بالا آیات اور سورہ توبہ کی آیات کہ جن میں مشرکین کے استغفار کی ممانعت کی گئی ہے کو باہم ملا کر دیکھا جائے تو ہم نہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ آزر یقینا حضرت ابراہیم (علیه السلام) کا باپ نہیں تھا ۔(۱)

____________________

۱- مزید وضاحت کے لئے تفسیر نمونہ جلد ۵ ص ۲۴۸ ۔ ( اردو ترجمہ ) کی طرف رجوع فرمائیں ۔