تفسیر نمونہ جلد ۱۰

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 26873
ڈاؤنلوڈ: 1883


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 93 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 26873 / ڈاؤنلوڈ: 1883
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 10

مؤلف:
اردو

چند اہم نکات

۱ ۔ زمین اور آسمان بدل جائیں گے :

زیر نظر آیات میں ہم نے پڑھا ہے کہ قیامت میں یہ زمین کسی دوسری زمین میں اور اسی طرح آسمان دوسرے آسمانوں میں تبدیل ہو جائی گے ۔

کیا اس تبدیلی سے مراد ذاتی وجود کی تبدیلی ہے یعنی کیایہ زمین بالکل نا بود ہو جائے گی اور کوئی دوسری زمین خلق کع دی جائے گی اور قیامت اس زمین میں برپا ہوگی یعنی یہ کرہ خاکی اور یہ آسمان ویران ہو جائیں گے اور ان کے ویرانوں پر نئے زمین و آسمان پیدا ہوں گے جو اس زمین و آسمان کی نسبت تکامل و ارتقاء میں زیادہ ہوں گے ۔؟

قرآن مجید کی بہت سی آیات کا ظاہری مفہوم دوسرے معنی کی تائید کرتا ہے : ۔

سورہ فجر کی آیہ ۲۱ ۔ میں ہے :( کلا اذا دکت الارض دکاً دکاً )

ایک ایسا وقت آئے گا کہ جب زمین درہم برہم ہو جائے گی۔

سورہ زلزال میں اس جہان کے اختتام اور قیامت کے آغاز کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے :

( اذا زلزلت الارض زلزالها و اخرجت الارض اثقالها )

جب زمین میں زلزلہ آئے گا اور وہ اپنے مخفی بوجھ اگل دے گی ۔

سورہ حاقہ کی آیہ ۱۴ اور ۱۵ میں ہے :( و حملت الارض والجبال فدکتا دکة واحدة فیومئذوقعت الواقعة )

زمین اور پہاڑ اپنی جگہ سے اٹھالئے جائیں گےاور وہ درہم برہم ہو جائیں گے اور اس روز وہ عظیم واقعہ رونما ہوگا ۔

سورہ طٰہٰ کی آیات ۱۰۵ تا ۱۰۸ میں ہے :

۲ ۔سورہ ابراہیم کا آغاز اور اختتام

جیسا کہ ہم نے دیکھا ہے سورہ ابراہیم قرآن کے ایک حساس موضوع سے شروع ہوتی ہے اور یہ موضوع ہے انسان کو جہالت اور شرک کے اندھیروں سے علم و توحید کی طرف نکال لے جانا ۔ اس سورت کا اختتام تمام لوگوں کو جہالت و شرک کے نتائج سے ڈرانے ، تعلیم توحید اور اولوا الباب کو متوجہ کرنے پر ہوتا ہے ۔

اس ابتداء اور انتہاء سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ جو کچھ بھی ہم چاہتے ہیں وہ اسی قرآن میں موجود ہے ۔ حضرت امیر المومنین علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں :فیه ربیع القلب و ینابیع العلم

دلوں کی بہار اور علوم و دانش کے سوتے اسی قرآن سے پھوٹتے ہیں(۱)

اسی طرح تمام فکری ، اخلاقی اجتماعی اور سیاسی بیماریوں کا علاج اسی قرآن میں تلاش کرنا چاہئے ۔ بقول امیر المومنین :فاستشفوه من ادوائکم

اسی قرآن سے اپنی بیماریوں کی دوا حاصل کرو ۔(۲)

یہ بیان اس امر کی دلیل ہے کہ آج کے مسلمان جو سمجھتے ہیں کہ قرآن صرف ایک ایسی مقدس کتاب ہے جو پڑھنے اور ثواب حاصل کرنے کے لئے نازل ہوئی ہے اس کے بر عکس یہ ایک ایسی کتاب ہے جو انسانوں کی ساری زندگی کے دستور العمل کے طور پر نازل ہوئی ہے ۔ یہ آگہی عطا کرنے والی اور بیدار کرنے والی کتاب ہے ۔

خلاصہ یہ کہ یہ ایسی کتاب ہے جو عالم اور دانشور کو متوجہ کرتی ہے اور عامة الناس اس سے ہدایت حاصل کرتے ہیں ۔ چاہیے کہ یہ کتاب مسلمانوں کی زندگی میں جگہ پائے اور ان کی زندگی کا آئین بن جائے ۔ نیز ضروری ہے کہ یہ کتاب ہمیشہ زیادہ سے زیادہ اور بہتر سے بہتر عمل کرنے کے لئے تحقیق ، مطالعہ اور غور و خوض کا موضوع بنی رہے ۔ مسلمانوں کے زوال اور پس ماندگی کا موثر عامل اور سبب یہ ہے کہ انہوں نے اس عظیم آسمانی کتاب کو فراموش کر دیا اور مشرق و مغرب کے انحرافی مکاتب فکر کی رخ کر لیا ہے ۔

حضرت علی علیہ السلام نے کیا عمدہ فرمایا ہے :

( واعلموا انه لیس علی احد بعد القرآن من فاقة ولا لاحد قبل القرآن من غنی ) ۔

یقین جانیے کہ آپ میں سے کوئی شخص بھی حامل قرآن ہو جائے تو اسے ذرہ بھر فقر و احتیاج نہیں رہے گی اور حامل قرآن ہونے سے پہلے بے نیازی اور تونگری ممکن نہیں ۔(۳)

کس قدر درد ناک ہے ۔ قرآن سے ہماری بیگانگی اور بے گانوں کی قرآن سے آشنائی ۔

کس قدر تکلیف دہ ہے ۔ کہ بہترین وسیلہ سعادت ہمارے گھر میں موجود ہے اور ہم اس سعادت کے لئے دنیا کے پیچھے لگے ہوئے ہیں ۔

کس قدر اندوہناک ہے ۔ کہ آب حیات کا چشمہ ہمارے پاس ہو اور ہم تشنہ کام جان دے دیں یا تپتے ہوئے بے آب بیابانوں میں سیراب کے پیچھے بھاگتے رہیں ۔

خدا وندا ! ہمیں وہ عقل و ایمان عطا فرما جس کے ذریعے ہم سعادت کا یہ عظیم وسیلہ کھو نہ بیٹھیں جو تیری راہ کے شہداء نے ہم تک پہنچایا ہے ۔

اور ہمیں وہ شعور مرحمت فرما کہ ہم جان لیں کہ ہماری گمشدہ متاعیں اسی عظیم کتاب میں ہیں ۔

تا کہ ہم کبھی اس کے سامنے اور کبھی اس کے سامنے ہاتھ نہ پھیلاتے پھریں ۔

____________________

۱ ۔نہج البلاغہ

۲ ۔نہج البلاغہ خطبہ ۱۷۶

۳ ۔ نہج البلاغہ خطبہ ۱۷۶ ۔

۳ ۔ اول و آخر ۔ توحید

زیر نظر آیات کا ایک پہلو توحید پر تاکید ہے ۔ یہاں آخری ذکر بھی توحید کا ہے اور اسی کی طرف اولوا الباب کو متوجہ کیا گیا ہے ۔

جی ہاں ۔ توحید اسلام کی عمیق بنیاد ہے ۔ عقیدہ توحید اسلام کا وہ شجرہے جس کی جڑیں ہر طرف پھیلی ہوئی ہیں ۔ اسلامی تعلیم و تربیت کے سب راستے اسی پر اختتام پذیر ہوتے ہیں ۔ اسلام کی ابتداء بھی توحید ہے اور انتہاء بھی توحید ۔ اسلام کا تانا بانا توحید ہی سے بنا گیا ہے ۔ توحید کا تعلق فقط معبود اور اللہ کے عقیدہ ہی سے نہیں بلکہ اس کے ہر نظریے ، عقیدہ اور پروگرام کا ہدف بھی توحید ہی ہے ۔ ہر ایک کی بنیاد توحید پر ہے ۔

آج مسلمانوں کی عظیم ابتلا کی وجہ یہی ہے کہ ہم نے توحید کو عملی طور پر اسلام سے حذف کر دیا ہے ۔

افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ عرب ممالک کہ جہاں اسلام پروان چڑھا ۔آج شرک آلود نعروں کے پیچھے لگے ہوئے ہیں ۔ آج وہ نسل پرستی ، عرب تفاخر ، احیاء عربیت اور عظمت عرب کے بھنور میں گرفتار ہیں ۔اسی طرح دوسرے ممالک میں سے بھی ہر کسی نے اپنے لئے اسی قسم کا کوئی بت تراش لیا ہے ۔ انہوں نے اسلامی توحید کو اپنے سے باکل الگ کر دیا ہے کہ جس نے کسی وقت مشرق و مغرب کو ایک دوسرے سے جوڑ دیا تھا ۔ اس طرح یہ سب ممالک اپنے آپ میں ڈوب کر خود اپنے آپ سے بے گانہ ہو گئے ہیں ۔ حالت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ان کی آپس میں جنگ خون کے پیاسے دشمنوں سے کہیں زیادہ ہے ۔

یہ بات کتنی شرمناک ہے کہ ہم سنیں کہ عرب ممالک کی باہیمی جنگوں میں مرنے والوں کی تعداد اسرائیلی یہودیوں کے مقابلے میں مرنے والوں سے کہیں زیادہ ہے ۔ اس وقت جب کہ ان کا ایک مشترک خطرناک دشمن ہے تو ان کے انتشار کا یہ عالم ہے اگر ایسا دشمن نہ ہوتا تو ان کی کیا حالت ہوتی ۔

اس وقت جبکہ ہم تفسیر کا یہ حصہ لکھ رہے ہیں حکومت عراق نے بڑی بے رحمی سے اسلامی جمہوریہ ایران پر حملہ کر دیا ہے اور بہانہ بھی اس کے پاس سرحد کا معمولی سا تنازعہ ہے جو یقینا مذاکرات سے حل ہو سکتا تھا ۔ یہ وہی حکومت عراق ہے کہ جس نے اسرائیلی سپاہیوں پر آج تک ایک بھی گولی نہیں چلائی ۔ آج اس نے اس سفا کی سے حملہ کیا ہے کہ جیسے دو قوموں کا آپس میں کوئی رشتہ ہی نہ ہو ۔ جیسے یہ نہ آپس میں ہمسایہ ہیں ، نہ ان میں تہذیب و ثقافت کا کوئی رشتہ ہے اور نہ گہرا دینی تعلق ہے ۔ ادھر ہم دیکھتے ہیں کہ مشترک دشمن یہودی خوش ہو کر کہتا ہے :

اس سے بہتر منصوبہ کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے تھے کہ عراق ایران پر حملہ کر دے اور دونوں میں شدید تباہ کن طولانی جنگ شروع ہو جائے اور ہمیں ایک مدت کے لئے آسودگی مل جائے ۔

یہ وہ مقام ہے کہ ایک موحد ، متعہد اور صاحب ایمان مسلمان پر لازم ہے کہ ان طاغوتو ں کا شر ختم کرنے کے لئے اٹھ کھڑا ہو ایسے شرک آلود ، نفاق ڈالنے والوں ، تباہیاں پھیلانے والوں اور دشمن کو خوش کرنے والوں کو قعر جہنم میں پہنچائے ۔

ابراہیم علیہ السلام کی زندگی پر ایک نظر

حضرت ابراہیم (علیه السلام)

یہ وہ صورت ہے جو قرآن حکیم میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے نام سے موسوم ہے اگر چہ ان کے حالات زندگی صرف اسی صورت میں نہیں ہیں بلکہ مختلف مناسبتوں سے دیگر صورتوں میں بھی خدا کے اس عظیم پیغمبر کا ذکر موجود ہے ۔ ہم نے مناسب سمجھا کہ مکتب توحید کے اس ہیرو کی پر افتخار زندگی کے مختصر حالات زندگی اس سورہ کے آخر میں پیش کر دیں تا کہ اس سلسلہ میں آنے والی مختلف آیات کی تفسیر میں قارئین محترم کے لئے مدد گار ثابت ہو سکیں کیونکہ ان میں حضرت ابراہیم (علیه السلام) کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر تفصیل کی ضرورت پیش آئے گی ۔

زندگی کے تین دور

حضرت ابراہیم کی زندگی کو واضح طور پر تین ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے :

۱ ۔ قبل بعثت کا دور

۲ ۔ دور نبوت اور بابل کے بت پرستوں سے مقابلہ ۔

۳ ۔ بابل سے ہجرت اور مصر ، فلسطین اور مکہ میں مساعی کا دور ۔

بت شکن پیغمبر ابراہیم علیہ السلام کی زندگی پر ایک نظر

بچپن

حضرت ابراہیم بابل میں پیدا ہوئے ۔ یہ دنیا کا حیرت انگیز اور عمدہ خطبہ تھا ۔ اس پر ایک ظالم و جابر اور طاقتور حکومت مسلط تھی(۱)

حضرت ابراہیم نے آنکھ کھولی تو بابل پر نمرود جیسا جابر و ظالم بادشاہ حکمران تھا ۔ وہ اپنے آپ کو بابل کا بڑا خدا سمجھتا تھا ۔

البتہ بابل کے لوگوں کے لئے یہی ایک بت نہ تھا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ان کے ہاں مختلف مواد کے بنے ہوئے مختلف شکلوں کے کئی ایک بت تھے ۔ وہ ان کے سامنے جھکتے اور ان کی عبادت کرتے تھے ۔

حکومت وقت سادہ لوح افراد کو بیوقوف بنانے اور انہیں افیون زدہ رکھنے کے لئے بت پرستی کو ایک موثر ذریعہ سمجھتی تھی لہذا وہ بت پرستی کی سخت حامی تھی ۔ وہ کسی بت کی اہانت کو بہت بڑا نا قابل معافی جرم قرار دیتی تھی ۔

حضرت ابراہیم کی ولادت کے بارے میں مورخین نے عجیب و غریب داستان نقل کی ہے جس کا خلاصہ یہاں پیش کیا جاتا ہے : بابل کے نجومیوں نے پیش گوئی کی تھی کہ ایک ایسا بچہ پیدا ہوگا جو نمرود کی غیر متنازعہ طاقت سے مقابلہ کرے گا ۔ لہذا اس نے اپنی تمام قوتیں اس بات پر صرف کر دیں کہ ایسا بچہ پیدا نہ ہو اس کی کوشش تھی کہ ایسا بچہ پیدا ہو بھی جائے تو اسے قتل کر دیا جائے ۔ لیکن اس کی کوئی تدبیر کار گر نہ ہوئی اور یہ بچہ آخر کار پیدا ہو گیا ۔

اس بچہ کی جاء ولادت کے قریب ہی ایک غار تھی ۔ اس کی ماں اس کی حفاظت کے لئے اسے اس میں لے گئی اور اس ک ی پرورش ہونے لگی ۔ یہاں تک کہ اس کی عمر کے تیرہ برس وہیں گزر گئے ۔

اب بچہ نمرود کے جاسوسوں سے بچ بچا کر نو جوانی میں قدم رکھ چکا تھا ۔ اس نے ارادہ کیا کہ اس عالم تنہائی کو چھوڑ دیا جائے اور لوگوں تک وہ درس توحید پہنچائے جو اس نے باطنی الہام اور فکری مطالعہ سے حاصل کیا تھا ۔

____________________

۱ ۔ بعض مورخین نے لکھا ہے کہ آپ ملک بابل کے شہر آور میں پیدا ہوئے ۔

بت پرستوں سے مقابلہ

بابل کے لوگ اپنے ہاتھ سے بنائے ہوئے بتوں کے علاوہ سورج ، چاند اور ستارے جیسے آسمانی موجودات کی پرستش کرتے تھے ۔ حضرت ابراہیم نے عزم صمیم کر لیا کہ واضح منطق اور استدلال کے ذریعہ ان کے خوابیدہ وجدان کو پیدا کیا جائے اور ان کی پاک فطرت کے چہرے سے غلط تعلیمات کے تاریک پردے ہٹا دئے جائیں تا کہ نور فطرت چمک اٹھے اور وہ توحید پرستی کے راستے پر گامزن ہو سکیں ۔

انہوں نے مدتوں آسمان و زمین کی خلقت پر غور کیا تھا ، ان پر حکمران قدرت کا مطالعہ کیا تھا اور آسمان و زمین کے شگفت انگیز اور تعجب خیز نظام کے بارے میں فکر کی تھی ۔ نور یقین ان کے دل میں چمک رہا تھا ( انعام ۔ ۷۵) ۔

منطق و استدلال کے سہارے

پہلے انہیں ستارہ پرستوں کا سامنا کرنا پڑا ۔” زہرہ “ ستارہ کہ جو غروب آفتاب کے ساتھ ہی افق مغرب پر چمک اٹھتا ہے ، یہ لوگ اس کی پرستش و تعظیم میں مشغول تھے ۔

حضرت ابراہیم نے استفہام انکاری کے طور پر یا ان کے نظریے کو غلط ثابت کرنے کے لئے ہم آہنگی کے اظہار کے طور پر پہلے کہا : یہ میرا خدا ہے ۔

لیکن جس وقت وہ غروب ہو گیا تو کہا : مجھے غروب ہونے والے اچھے نہیں لگتے ۔

جس وقت چاند افق کا سینہ چاک کرکے ابھرا اور چاند کی پرستش کرنے والوں نے مراسم عبادت شروع کیے تو ان کے ساتھ ہم صدا ہوکر کہنے لگے : یہ میرا خدا ہے ۔

اور جب وہ بھی ڈوب گیا تو کہا : اگر میرا پروردگار میری راہنمائی کرے تو میں تو گمراہوں میں سے ہو جاوں ۔

آفتاب نے شب تیرہ کا پردہ ہٹایا اور کوہ صحرا پر اپنی طلائی شعائیں چھڑکیں تو سورج پرست عبادت کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ۔ اس پر ابراہیم (علیه السلام) نے کہا : یہ میرا خدا ہے ، یہ تو ان سب سے بڑا ہے ۔

مگر جب وہ بھی ڈوب گیا تو گویا ہوئے : اے قوم ! میں ان شریکوں سے بیزار ہوں کہ جو تم نے خدا کے لئے بنا رکھے ہیں ۔ یہ تو سب غروب ہو جاتے ہیں ۔ یہ تو سب خوبصورت تغیر و تبدل کا شکار اور قوانین آفرینش کے اسیر ہیں ۔ ان کے تو اپنے بس میں کوئی ارادہ و اختیار نہیں چہ جائیکہ یہ خود اس جہان کے خالق اور اسے گردش دینے والے ہوں ۔ میں تو اپنا رخ اس کی طرف کرتا ہوں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اس کے لئے میں اپنے ایمان میں خالص اور ثابت قدم ہوں اور میں ہر گز مشرکین میں شامل نہیں ہوں گا ( انعام ۔ ۷۵ تا ۷۹ ) ۔

ابراہیم نے بت پرستوں سے مقابلہ نہایت خوبصورتی سے جیت لیا ۔ کچھ لوگ بیدار ہو گئے اور باقی کم از کم اپنے عقاید کے بارے میں شک و شبہ میں پڑ گئے ۔

تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ علاقہ میں یہ بات دھوم گئی ۔ ہر کوئی سوچتا کہ یہ جوان کون ہے ، اس کی باتیں کتنی منطقی ہیں ، اس کا پیغام کتنا دل نشین ہے ، اس کی آواز تو لوگوں کے دلوں میں اترتی جاتی ہے ۔

آزر سے گفتگو

ایک اور مرحلہ آیا ۔ ابراہیم کی اپنے چچا آزر سے بحث ہونے لگی ۔ کبھی بہت مضبوط انداز سے ، محبت کے سلیقے سے اور کبھی تنبیہ و سر زنش کے لہجے میں ، آپ نے اسے بت پرستی کے بارے میں خبر دار کیا اور اس سے کہا : تو ایسی چیز کی پرستش کیوں کرتا ہے جو نہ سن سکتی ہے ، نہ دیکھ سکتی ہے اور نہ ہی تیری کوئی مشکل حل کر سکتی ہے ؟

آپ (علیه السلام) نے چچا سے کہا : اگر تو میری پیروی کے تو میں تجھے سیدھی راہ کی طرف ہدایت کروں ۔ مجھے ڈر ہے کہ اگر تو شیطان کی پیروی کرتا ہے تو کہیں تجھے عذاب الہی دامن گیر نہ ہو جائے ۔

یہاں تک کہ ان کا چچا ان نصیحتوں کے جواب میں انہیں سنگسار کرنے کی دھمکی دیتا ۔ آپ (علیه السلام) ” سلام علیک “ کہتے ہوئے اسے جواب دیتے ہیں : میں تمہارے لئے استغفار کروں گا ۔

اس طرح آپ کوشش کرتے کہ اس سنگ دل کے دل میں کوئی گنجائش نکل آئے ۔ (مریم ۔ ۴۷ )

دور نبوت

حضرت ابراہیم کب مبعوث نبوت ہوئے ، اس سلسلے میں ہمارے پاس کوئی واضح دلیل موجود نہیں ہے ۔ البتہ سورہ مریم سے بس اتنا معلوم ہوتا ہے کہ جب آپ نے اپنے چچا آزر سے بحث چھڑی تو آپ مقام نبوت پر فائز ہو چکے تھے کیونکہ سورہ کہتی ہے :

( و اذکر فی الکتاب ابراهیم انه کا صدیقاً نبیا ً اذ قال لابیه یا ابت لم تعبد مالا یسمع ولا یبصر ولا یغنی عنک شیئاً ) ۔

ہم جانتے ہیں کہ یہ واقعہ بت پرستوں کے ساتھ شدید معرکہ آرائی اور آپ کو آگ میں ڈالے جانے سے پہلے کا ہے ۔ بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ آگ میں ڈالے جانے کے وقت حضرت ابراہیم (علیه السلام) کی عمر ۱۶ ۔ سال تھی ۔ ہم اس کے ساتھ یہ اضافہ کرتے ہیں کہ یہ عظیم کا رسالت آغاز نو جوانی ہی میں آپ کے دوش پر آن پڑا تھا ۔

عملی مقابلے کا آغاز

بہر حال بت پرستوں کے ساتھ حضرت ابراہیم کی معرکہ آرائی روز بروز شدید سے شدید تر ہوتی چلی گئی ۔ یہاں تک کہ ایک روز موقعہ پا کر آپ نے بابل کے بت خانے کے بڑے بت کے علاوہ تمام بت توڑ دئے ۔ یہاں سے زبانی محاذ آرائی عملی مقابلے کی شکل اختیار کر گئی ۔

سلطان جابر کے سامنے

حضرت ابراہیم (علیه السلام)کی مخالفت اور محاذ آرائی کا ماجرا آخر کار نمرود کے کان تک پہنچ گیا ۔ آپ (علیه السلام) کو دربار میں حاضر کیا گیا تا کہ وہ بزعم خویش پند و نصیحت کے ذریعے ، یا ڈانٹ ڈپٹ کے ذریعے یا پھر دھمکی سے کام لے کر انہیں خاموش کردے ۔

نمرود بہت چالاک تھا ۔ اس نے حضرت ابراہیم (علیه السلام) سے پوچھا : اگر تو ان بتوں کی پوجا نہیں کرتا تو پھر تیرا پروردگار کون ہے ؟

آپ نے کہا : وہی جس کے قبضہ میں موت و حیات ہے ۔

وہ چلا کر کہنے لگا : اے بے خبر ! یہ تو میرے ہاتھ میں ہے ۔ کیا تو دیکھتا نہیں کہ جس مجرم کو قتل کی سزا ملی ہو میں اسے آزاد کر دیتا ہوں اور ایسے قیدی کو جسے قتل کرنے کا حکم نہیں دیا گیا ، میں چاہوں تو اسے قتل کر دیتا ہوں ۔

حضرت ابراہیم (علیه السلام) دندان شکن جواب میں بہت مشہور تھے ۔ نبوت کی طاقت سے مدد لیتے ہوئے آپ نے اس سے کہا : خدا کے ہاتھ میں صرف موت و حیا ہی نہیں بلکہ تمام عالم ہستی اس کے تابع فرمان ہے ۔ کیا تو دیکھتا نہیں کہ ہر صبح سورج اس کے حکم سے افق مشرق سے طلوع ہوتا ہے اور وقت شام اس کے حکم سے مغرب میں ڈوب جاتا ہے ۔ اگر تو عالم ہستی کی اس وسعت کا فرماں روا ہے تو کل معاملہ اس کے بر عکس کر دے تو کہ سورج مغرب سے نکلے اور مشرق میں ڈوب جائے ۔ نمرود مبہوت ہو گیا ۔ ایسا چکرایا کہ اس کی زبان میں جواب کی سکت نہ رہی ( بقرہ ۔ ۲۵۸ )

اس میں شک نہیں کہ ابراہیم (علیه السلام) خوب جانتے تھے کہ موت و حیات پر قدرت کے بارے میں نمرود کا دعویٰ بس چکر بازی اور تیز طراری ہے لیکن استدلال پر آپ کی مہارت اجازت نہ دیتی تھی کہ اس موضوع پر بات کرتے رہیں کہ جسے مکار دشمن نے دیتاویز بنا لیا ہے لہذا اسے چھوڑ کر فورا ً ایسے موضوع پر بات شروع کی کہ جس پر وہ ہاتھ پاؤں مارنے کی طاقت بھی نہ رکھتا تھا ۔

حضرت ابراهیمعليه‌السلام کی هجرت

آخر کار نمرود کی ظالم حکومت کی مشیزی کو اس بات کا احساس ہوا کہ یہ جوان آہستہ آہستہ حکومت کے لئے خطرے کا مرکز بنتا جا رہا ہے ۔ انہوں نے سوچا کہ اس کی زبان گویا ، فکر توانااور منطق رسا کہیں پسے ہوئے محروم عوام کی بیداری اور آگاہی کا باعث نہ بن جائے کہیں لوگ استعمار کی زنجیر توڑ کی ان کے خلاف نہ اٹھ کھڑے ہوں لہذا حکومت نے فیصلہ کر لیا کہ بت پرستوں کے جاہلانہ تعصب کا سہارا لے کر ابراہیم کو راستے سے ہٹا دیا جائے ۔ انہیں ایک خاص انداز اور حالات پیدا کر کے لوگوں کے سامنے آگ کے دریا میں پھینکنے کا فیصلہ کر لیا گیا ۔ سورہ انبیا میں اس واقعہ کی تفصیل آئیں گی ۔یہ آگ در حقیقت لوگوں کی جہالت اور حکمران نظام کے ظلم کے ایندھن سے جلائی گئی تھی ۔ حکومت اس طرح اپنے آپ کو ہمیشہ کے لئے آسودہ فکر کرنا چاہتی تھی ۔

لیکن جب آگ حکم خدا سے خاموش ہو گئی اور ابراہیم اس سے صحیح و سالم نکل آئے تو نمرود کے نظام حکومت میں لرزہ پیدا ہو گیا ۔ اب ابراہیم ایک اور حیثیت سے سامنے آئے ۔ وہ ایک عام تفرقہ پرواز انسان نہ تھے کہ جسے وہ قتل کرنا چاہتے تھے ۔ وہ تو ایک خدائی رہبر تھے وہ ایک ایسے بہادر ہیرو تھے جو تن تنہا خالی ہاتھ طاقتور ظالم حکمرانوں پر حملہ کر سکتے تھے ۔ لہذا عوام کا خون چوسنے والے نمرود اس کے درباریوں نے فیصلہ کیا کہ وہ پوری قوت سے ابراہیم کا مقابلہ کریں گے اور جب تک انہیں ختم نہ کر لیں آرام سے نہیں بیٹھیں گے ۔

دوسری طرف ابراہیم یہاں اپنا کردار ادا کر چکے تھے ۔ آمادہ دل لوگ ان پر ایمان لا چکے تھے ۔ انہوں نے مناسب سمجھا کہ مؤمنین اور اپنے حامیوں کو ساتھ لے کر بابل سے نکل جائیں اور اپنی دعوت حق کو دور دور تک پھیلانے کے لئے شام ، فلسطین اور فرعون کی سر زمین مصر کی طرف روانہ ہوں ۔ آپ نے ان علاقوں میں حقیقت توحید کی تبلیغ کی اور بہت سے لوگ خدائے واحد پر ایمان لائے ۔

رسالت کا آخری مرحلہ

حضرت ابراہیم نے تمام عمر ہر طرح کی بت پرستی خصوصا ً انسان پرستی کے خلاف جہاد کرتے گزاری ۔ آپ نے آمادہ دلوں کو نور توحید سے روشن کیا ۔ آپ نے انسانی جسموں میں نئی روح پھونک دی اور بہت سے لوگوں کو خود غرضوں اور خود سروں کی قید سے رہائی دلائی ۔ اب ضروری تھا کہ آپ بندگی خدا کے آخری مرحلے میں قدم رکھیں اور اپنی متاع حیات کو طبق اخلاص میں رکھ کر بارگاہ الٰہی میں پیش کر دیں تاکہ خدا کی عظیم آزمائشوں سے گزر کر ایک عظیم روحانی انقلاب کے ذریعے انسانوں کی امامت کے مرحلے میں داخل ہوں ۔

اس کے ساتھ ساتھ اب انہیں خانہ توحید یعنی خانہ کعبہ کی بنیادوں کو بھی بلند کرنا تھا اور اسی خدا پرستی کے ایک بے نظیر مرکز میں تبدیل کرنا تھا اور تمام آمادہ دل مؤمنین کو اس عظیم مرکز توحید کے پاس ایک عظیم کانفرنس کی دعوت دینا تھا ۔

آپ نے اپنی کنیز ہاجرہ کو اپنی بیوی بنا لیا تھا ۔ اس سے انہیں اسمٰعیل جیسا بیٹا نصیب ہوا ۔ آپ کی پہلی بیوی سارہ نے ان سے حسد کیا ۔ یہی حسد سبب بنا کہ آپ ہاجرہ اور اپنے شیر خوار بچہ کو حکم خدا سے فلسطین سے لے کر مکہ کی جلتی ہوئی سنگلاخ پہاڑوں کی سر زمین میں لے گئے ۔ یہ وہ علاقہ تھا جہاں پانی کی ایک بوند بھی دستیاب نہ تھی آپ حکم خدا سے ایک عظیم امتحان سے گزرتے ہوئے انہیں وہاں چھوڑ کر واپس فلسطین آگئے ۔

وہاں چشمہ زمزم پیدا ہوا ۔ اس اثناء میں جرہم قبیلہ ادھر سے گزرا ۔ اس نے جناب ہاجرہ سے وہاں قیام کی اجازت چاہی ۔ گویا واقعات کا ایک طولانی سلسلہ ہے کہ جو اس علاقہ کی آبادی کا باعث بنا ۔

حضرت ابراہیم نے خدا سے دعا کی تھی کہ اس جگہ کو آباد اور پر برکت شہر بنا دے اور لوگوں کے دل میری اولاد کی طرف مائل کر دے ۔ ان کی اولاد وہاں پھلنے پھولنے لگی تھی ۔(۱)

یہ بات جاذب نظر ہے کہ بعض مورخین نے نقل کیا ہے کہ جب حضرت ابراہیم ہاجرہ اور شیر خوار اسمعیل کو مکہ میں چھوڑ کر واپس جانا چاہتے تھے تو جناب ہاجرہ نے فریاد کی : اے ابراہیم آپ کو کس نے حکم دیا ہے کہ ہمیں ایسی جگہ پر چھوڑ جائیں کہ جہاں نہ کوئی سبزہ ہے ، نہ دودھ دینے والا کوئی جانور ، یہاں تک کہ جہاں پا نی کا ایک گھونٹ بھی نہیں ہے ۔ آپ پھر بھی ہمیں بغیر زاد و توشہ اور مونس و مدد گار کے چھوڑے جارہے ہیں ۔

حضرت ابراہیم نے مختصر سا جواب دیا : میرے پروردگار نے مجھے یہی حکم دیا ہے ۔

ہاجرہ نے یہ سنا تو کہنے لگی : اگر ایساہے تو پھر خدا ہر گز ہمیں یوں ہی نہیں چھوڑے گا ۔(۲)

حضرت ابراہیم بار ہا فلسطین سے اسماعیل کو ملنے کے لئے مکہ آئے ۔ ایک سفر کے موقعہ پر آپ مراسم حج بجا لائے اور حکم خدا سے اپنے آبرو مند اور نہایت پاکیزہ صاحب ایمان نو جوان بیٹے اسماعیل کو لے کر قربان گاہ میں آئے ۔ اسمعیل آپ کی زندگی کا بہترین ثمر تھے ۔ آپ بالکل تیار تھے کہ انہیں راہ خدا میں قربان کر دیں ۔

اس اہم ترین آزمائش سے جب آپ نہایت عالی طریقہ سے عہدہ بر آ ہو چکے اور آخری مرحلے تک اپنی آمادگی کا مظاہرہ کر چکے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی قربانی کو قبول کر لیا اور اسمعیل کو بچا لیا اور قربانی کے لئے ایک دنبہ کو بھیج دیا ۔(۳)

حضرت ابراہیم ان سب امتحانات سے کامیابی سے گزر چکے اور آزمائشوں کی اس کٹھالی سے کامیاب نکل آئے تو آپ کو ایک ایسا مقام حاصل ہوا جو وہ بلند ترین مقام ہے جو ایک انسان ترقی کرکے حاصل کر سکتا ہے ۔ جیسا کہ قرآن کہتا ہے :

اللہ نے کچھ کلمات کے ذریعے ابراہیم کاا متحان لیا ۔ وہ ان سب سے کامیاب گزرے تو اس پر اللہ نے ان سے کہا : میں تجھے لوگوں کا امام اور پیشوا قرار دیتا ہوں ۔ ( ابراہیم اس خوش خبری پر وجد میں آئیں گے ) کہنے لگے : یہ مقام میرے کچھ اولاد کو بھی عطا کر دے ۔ ( ان کی دعا قبول ہو گئی لیکن ایک شرط کے ساتھ) اللہ نے کہا : یہ مقام ہر گز کسی ایسے شخص کو نصیب نہ ہوگا جس سے ظلم و ستم اور انحراف سرزد ہوا ہو۔(۴)

____________________

۱ ۔ کامل ابن اثیر جلد ۱ ص ۱۰۳

۲ ۔ سورہ صٰفٰت ۱۰۴ تا ۱۰۷

۳ ۔ بقرہ ۔ ۱۲۴

۴ ۔ سفینة البحار جلد ۱ ۔ ص ۷۴۔

قرآن اور ابراہیم کا مقام بلند

آیات قرآن مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کو بہت بلند مقام عطا فرمایا تھا ۔ ایسا بلند مقام اللہ تعالیٰ نے کسی اور گزشتہ نبی کو عطا نہیں فرمایا تھا ۔

اس پیغمبر خدا کی عظمت ان تعبیرات سے واضح طور پر معلوم کی جا سکتی ہے :

۱ ۔ خدا نے ابراہیم کی ایک ” امت “ قرار دیا ہے اور ان کی شخصیت کو ایک امت کی مانند گردانا ہے ( نحل ۔ ۱۲۰ ) َ ۔

۲ ۔اللہ نے آپ کو خلیل اللہ کا مرتبہ عطا فرمایا ہے :

( واتخذ اللهابراهیم خلیلا ) (نساء ۔ ۱۲۵) ۔

یہ امر قابل توجہ ہے کہ بعض روایات میں ہے :

یہ مقام انہیں اس بناء پر حاصل ہوا کہ ابراہیم نے خود کبھی کسی چیز کے لئے کسی کے سامنے دست دراز بلند نہ کیا اور کبھی کسی سائل کو محروم نہیں لوٹایا ۔(۱)

۳ ۔ قرآن کے مطابق وہ نیک ۱ صالح ۲ قانتین میں سے ، ۳ صدیقین میں سے ،

۴ صابرین میں سے

۵ اور ایفائے عہد کرنے والوں میں سے تھے ۔(۲)

۱ ۔ ص ۴۷

۲ ۔ نحل ۔ ۱۲۲

۳ ۔ نحل ۱۲۰

۴ ۔ مریم ۔ ۴۱

۵ ۔ توبہ ۱۱۴

۶ ۔ نجم ۔ ۳۷

۷ ۔ ذاریات ۲۴ تا ۲۷

یہاں تک کہ بعض روایات میں انہیں ابوا ضیاف ( مہمانوں کا باپ یا مہمانوں کا ساتھی ) کا لقب دیا گیا ہے ۔(۳)

۸ ۔ سفینة البحار جلد ۱ ص ۷۴

جب ہت دھر قوم آپ کو آگ کے سمندر میں پھینک رہی تھی ۔ فرشتوں نے خواہش کی تھی کہ ہم آپ کو بچا لیں ۔ ابراہیم نے ان کے اس تقاضے کو قبول نہ کیا ۔ تاریخ میں اس بات کا تذکرہ موجود ہے ۔ آپ (علیه السلام) نے کہا : میں سر تا نیاز و احتیاج ہوں لیکن مخلوق سے نہیں صرف خالق سے ،(۴)

۶ ۔ شجاعت و بہادری میں بے مثال تھے ۔

بت پرستوں کے دہاڑتے ہوئے سیلاب کے سامنے تنہا کھڑے ہو گئے ، ان کا دل لمحہ بھر کے لئے ان سے وحشت زدہ نہ ہوا ۔ آپ نے ان کے بتوں کا مذاق اڑایا اور ان کے بت کدے کو ڈھا کر پتھروں کا ڈھیر بنا دیا نیز نمرود اور اس کے جلادوں کے بڑی جرأت سے بات کی جو قرآنی آیات میں موجود ہے ۔

۷ ۔ ابراہیم بڑی منطق سے بات کرتے تھے ۔

آپ نے گمراہوں کو بہت مختصر ، محکم ، دندان شکن استدلال سے جواب دئے اور اپنے مطقی استدلال سے مخالفین کو رسواکر دیا ۔

آپ کبھی سختی و خشونت سے پیش نہیں آتے تھے بلکہ بڑے اطمینان سے بات کرتے ۔ آپ کا یہ انداز آپ کی عظیم روحانی قوت کا ترجمان تھا ۔ آپ نے گفتار و کردار سے مخالفین کو شکست دی ۔ نمرود کے سامنے آپ کی بات چیت اور اپنے چچا آزر سے آپ کی گفتگو بابل کے قاضیوں سے مناظرہ بڑی وضاحت سے مرقوم ہے ۔ بابل کے قاضی آپ کو خدا پرستی اور بت شکنی کے جرم میں سزا دینا چاہتے تھے آپ نے بڑے اعتماد اور اطمینان سے مدلل جواب دئے ۔ اس سلسلے میں سورہ انبیاء کی مندرجہ ذیل آیات کو غور سے پڑھنا چاہیے :

قاضیوں نے آپ سے پوچھا : کیا وہ تم ہی ہو جس نے ہمارے خداؤں کے سر پر یہ مصیبت ڈھائی ہے اور ان سب چھوٹے بڑے بتوں کو توڑ پھوڑ دیا ہے ۔( قالو ا اٴانت فعلت هٰذا بالٰهتنا یاابراهیم )

( کہنے لگے : اے براہیم کیا وہ تم ہی ہو جس نے ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ سلوک کیا ہے )؟ ۔

آپ نے انہیں ایسا جواب دیا کہ ان کےلئے بچ نہ نکلنے کی کوئی راہ نہ رہی ۔قرآن کے الفاظ میں :

( قال بل فعله کبیرهم هٰذا فاسئلوهم ان کانوا ینطقون )

بولے :ہوسکتا ہے کہ ان کے بڑے نے یہ کام کیا ہو اگر یہ بات کرسکتے ہیں تو انہیں سے پوچھو ۔

اس ایک ہی جملہ سے آپ نے اپنے دشمنوں کے لئے تمام راستے بند کردئے ۔ اب اگر وہ کہیں کہ بت گونگے ہیں ، لب پستہ ہیں او ربا ت کرنے کی سکت نہیں رکھتے ، تو ان کے گونگے اور بے عزت خدا ؤں کی کتنی رسوائی ہے اورا گر کہیں کہ یہ با ت کر سکتے ہیں تو پھر ان کے پوچھنا پڑتا او رانہیں جواب دینا پڑتا ۔

اس پر ان کا کوابیدہ وجدان جاگ اٹھا ۔ ان کے اندر آواز آئی : تم ظالم اور خود پرست ہو ، نہ اپنے اوپر رحم کرتے ہو اور نہ اپنے معاشر پر ۔

قرآن الفاظ میں :( فارجعوا الیٰ انفسهم فقالوا انهم انتم الظالمون )

بہرحال جواب تو انہیں دینا ہی تھا ۔( ثم نکثو ا علی رؤسهم لقد علمت ما هوؤلاء ِ ینطقون )

بڑی بے دلی سے سر شکستہ ہو کر کہنے لگے : تم تو جانتے ہی ہو کہ یہ بات نہیں کرسکتے ۔

یہاں حضرت ابراہیم (علیه السلام) بات ان کے سر پر بجلی بن کر گری ۔

آپ نے پکار کر کہا :( اف لکم و لما تعبدون من دون الله افلا تعقلون )

حیف ہے تم پراور ان پر کہ خدا کو چھوڑ کر جن کی عبادت کرتے ہو ۔ کیا گیاہے تمہاری عقلوں کو؟ ۔

آخر کا رجب انہوں نے دیکھا کہ وہ ابراہیم (علیه السلام) قوی منطق کے مقابلہ کی سکت نہیں رکھتے تو انہوں پھر تمام جھوٹے سر کشوں کی طرح طاقت کا سہارا لیا اور کہنے لگے :تمہیں چاہئیے کہ انہیں جلادو:

اس کام کے لئے انہوں بت پرستوں کے جاہلانہ تعصبات سے مدد لی او رپکا رکر کہا : اگر تم میں طاقت ہے تو اسے جلا دو اور اپنے خداؤں کی مدد کےلئے تیار ہو جاؤ۔

( قالوا حرقوه و انصروا الٰهتکم ان کنتم فاعلین ) “۱۷

یہ ابراہیم (علیه السلام) کی رسا ،استدالالی اور قاطع منطق کا ایک نمونہ تھا ۔

۸ ۔ یہ بات قابل توجہ ہے کہ قرآن مسلمانوں کا ایک اعزازیہ شمار کرتا ہے کہ وہ دین ابراہیم پر ہیں(۵)

اور قرآن کہتا ہے کہ ان ہی نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے ۔(۶)

یہاں تک کہ مسلمانوں کو شوق دلانے کے لئے ان کے چند کے احکام پر عمل در آمد کی دعوت دیتا ہے او رکہتا ہے کہ تمہیں ابراہیم او ران کے انصا رکی اقتدا کرنا چاہئیے ۔(۷)

۹ ۔ اس عظمت و شکوہ سے مراسم حج کی بنیاد حکم الٰہی سے حضرت ابراہیم (علیه السلام) نے رکھی ۔ یہی وجہ ہے کہ تمام مراسم حج میں ابراہیم کا نام ، ان کے کی یاد اور ان کا ذکر موجود ہے ۔(۸)

۱۰ ۔ ابراہیم (علیه السلام) کی شخصیت اس قدر بلند ہے کہ ہر گروہ کی کوشش تھی کہ انہیں اپنے میں سے قرار دیں ۔

یہودی اور عیسائی ابراہیم (علیه السلام) کے ساتھ اپنے تعلق پر بہت زور دیتے تھے یہاں تک کہ قرآن ان کے جواب میں یہ حقیقت بیان کرتا ہے کہ وہ ایک مسلمان اور سچے موحد تھے یعنی وہ ہر امر میں حکم خدا کے سامنے سر تسلیم خم تھے ، اس کے علاوہ انہیں کوئی سوچ نہ تھی اور بس اسی کی راہ میں قدم اٹھاتے تھے ۔(۹)

____________________

۱۔ ابراہیم بہت مہمان نواز تھے ۔ ۱۳

۲ ۔ ان کا توکل بے مثال تھا یہاں تک کہ کسی کام اور کسی مشکل میں خدا کے علاوہ کسی پر نظر نہیں رکھتے تھے ۔ جو کچھ بھی مانگتے خدا ہی سے مانگتے اور اس کے علاوہ کسی کا دروازہ نہیں کھٹکھٹاتے تھے ۱۵

۳- شعراء ۷۸ تا ۸۲

۴ ۔ کامل بن اثیر جلد ۱ ۔ ص ۹۹ ۔

۵۔انبیاء ۶۳ ۔تا ۔ ۶۷۔

۶۔ ملة ابیکم ابراھیم حج ۷۸۔

۷۔ ملة ابیکم ابراھیم حج ۷۸۔

۸۔ ممتحنة ۔۴۔

۹۔ سورہ حج ۲۷۔