تفسیر نمونہ جلد ۱۰

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 27209
ڈاؤنلوڈ: 1987


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 93 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 27209 / ڈاؤنلوڈ: 1987
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 10

مؤلف:
اردو

آیات ۷۷،۷۸،۷۹

۷۷ ۔( قَالُوا إِنْ یَسْرِقْ فَقَدْ سَرَقَ اٴَخٌ لَهُ مِنْ قَبْلُ فَاٴَسَرَّهَا یُوسُفُ فِی نَفْسِهِ وَلَمْ یُبْدِهَا لَهُمْ قَالَ اٴَنْتُمْ شَرٌّ مَکَانًا وَاللهُ اٴَعْلَمُ بِمَا تَصِفُونَ ) ۔

۷۸ ۔( قَالُوا یَااٴَیُّهَا الْعَزِیزُ إِنَّ لَهُ اٴَبًا شَیْخًا کَبِیرًا فَخُذْ اٴَحَدَنَا مَکَانَهُ إِنَّا نَرَاکَ مِنْ الْمُحْسِنِینَ ) ۔

۷۹ ۔( قَالَ مَعَاذَ اللهِ اٴَنْ نَاٴْخُذَ إِلاَّ مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ إِنَّا إِذًا لَظَالِمُونَ ) ۔

ترجمہ

۷۷ ۔) بھائیوں نے ) کہا: اگر اس( بنیامین ) نے چوری کی ہے تو ( تعجب کی بات نہیں )اس کے بھائی ( یوسف ) نے بھی اس سے پہلے چور ی کی تھی یوسف(کو بہت دکھ ہوا اور اس ) نے اس ( دکھ ) کو اپنے اندرچھپائے رکھا اور ان پر ظاہر نہیں کیا۔ ( بس اتنا) کہا: تم بد تر ہو او رجو کچھ تم بیان کرتے ہو خدا اس سے زیادہ آگاہ ہے ۔

۷۸ ۔انہوں نے کہا : اے عزیر مصر ! اس کا ایک بوڑھا باپ ہے ( اور وہ بہت پریشان ہوگا ) ہم میں سے ایک کو لے لے ہم دیکھ رہے ہیں کہ تو نیکوکاروں میں سے ہے ۔

۷۹ ۔ اس نے کہا : اس سے خدا کہ پناہ کہ جس شخص کے پاس سے ہمارا مال و متاع ملا ہم سوائے اس کے کسی اور کو لیں کیونکہ اس صورت میں ہم ظالموں میں سے ہو جائیں گے ۔

برادران یوسفعليه‌السلام کی فداکاری کیوں قبول نہیں ہوئی ؟

آخر کا ر بھائیوں نے یقین کرلیا کہ ان کے بھائی بنیامین نے ایسی قبیح اور منحوس چوری کی ہے اور اس طر ح اس نے عزیز مصر کی نظروں میں ان کا سابقہ رکار ڈ سارا خراب کردیا ہے ۔ لہٰذا اپنے آپ کو بری الذمہ کرنے کے لئے انہوں نے کہا: اگر اس لڑکے نے چوری کی ہے تو یہ کو ئی تعجب کی بات نہیں کیونکہ ا سکا بھائی یوسفعليه‌السلام بھی پہلے ایسے کام کا مرتکب ہو چکا ہے “ اور یہ دونوں ایک ماں اور باپ سے ہیں اور ہم کہ جو دوسری ماں سے ہیں ہمارا حساب کتاب ان سے الگ ہے( قَالُوا إِنْ یَسْرِقْ فَقَدْ سَرَقَ اٴَخٌ لَه مِنْ قَبْل ) ۔اس طرح سے انہوں نے اپنے اور بنیامین کے درمیان ایک حد فاصل قائم کرنا چاہی اور اس کا تعلق یوسفعليه‌السلام سے جوڑ دیا ۔

یہ بات سن کر یوسفعليه‌السلام بہت دکھی اور پریشان ہوئے اور ” اسے دل میں چھپائے رکھا اور ان کے سامنے اظہار نہ کیا “( فَاٴَسَرَّهَا یُوسُفُ فِی نَفْسِهِ وَلَمْ یُبْدِهَا لَهُم ) ۔کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یہ بات کہہ کر انہوں ایک بہت بڑا بہتان باندھا ہے لیکن انہوں نے اس کا کوئی جواب نہ دیا ۔ بس اجمالی طور پر اتنا”کہا:جس کی طرف تم یہ نسبت دیتے ہو تم اس سے بد تر ہو “ یا”میرے نزدیک مقام ومنزلت کے لحاظ سے تم بد ترین لوگ ہو “( قَالَ اٴَنْتُمْ شَرٌّ مَکَانًا ) ۔

اس کے بعد مزید کہا: جو کچھ تم کہتے ہو خدا اس کے بارے میں زیادہ جاننے والا ہے( وَاللهُ اٴَعْلَمُ بِمَا تَصِفُونَ ) ۔

یہ ٹھیک ہے کہ یوسفعليه‌السلام کے بھائیوں نے ان بحرانی لمحوں میں اپنے آپ کو بری الذمہ ثابت کرنے کے لئے اپنے بھائی یوسفعليه‌السلام پر ایک ناروا تہمت باندھی تھی لیکن پھر بھی اس کام کے لئے کوئی بہانہ اور سند ہونا چاہئیے جس کی بناء پر وہ یوسفعليه‌السلام کی طرف ایسی نسبت دیں ۔ اس سلسلے میں مفسرین کا وش و زحمت میں پڑے ہیں اور گزشتہ لوگوں نے تواریخ سے انہوں نے تین روایات نقل کی ہیں ۔

پہلی یہ کہ یوسفعليه‌السلام اپنی ماں کی وفات کے بعد اپنی پھوپھی کے پاس رہا کرتے تھے اور انہیں یوسفعليه‌السلام سے بہت زیادہ پیار تھا جب آپ بڑے ہو گئے اور حضرت یعقوبعليه‌السلام نے انہیں ان کی پھوپھی سے واپس لینا چاہا تو ان کی پھوپھی نے ایک منصوبہ بنایا او روہ یہ کمر بند یا ایک خاص شال جو حضرت اسحاق (ع)کی جانب سے ان کے خاندان میں بطور یاد گار چلی آرہی تھی یوسفعليه‌السلام کی کمر سے باندھ دی اور دعویٰ کیا کہ یوسفعليه‌السلام اسے چھپا لے جانا چاہتا تھا ایسا انہوں نے اس لئے کیا تاکہ اس خاص کمر بند یا شال کے بدلے یوسفعليه‌السلام کو اپنے پاس رکھ لیں ۔

دوسری روایت یہ ہے کہ حضرت یوسفعليه‌السلام کے مادری رشتہ داروں میں سے ایک کے پاس ایک بت تھا جسے یوسفعليه‌السلام نے اٹھا کر توڑ دیا اور اسے سڑک پر لا پھینکا لہٰذا انہوں نے حضرت یوسفعليه‌السلام پر چوری کا الزام لگا دیا حالانکہ اس میں تو کوئی گناہ نہیں تھا۔

تیسری روایت یہ ہے کہ کبھی کبھار وہ دسترخوان سے کھانا لے کر مسکینوں اور حاجت مندوں کو دے دیتے لہٰذا بہانہ تراش بھائیوں نے اسے بھی چوری کا الزام دینے کے لئے سند بنا لیا حالانکہ ان میں سے کوئی چیز گناہ کے زمرے میں نہیں آتی ۔

اگر ایک شخص کسی کو کوئی لباس پہنادے اور پہنے والا نہ جانتا ہو کہ یہ کسی دوسرے کا مال ہے تو کیا اسے چوری کا الزام دینا صحیح ہے ۔

اسی طرح کیا کسی بٹ کو اٹھا کر پٹخ دینا گناہ ہے ۔

نیز انسان کو ئی کوئی چیز اپنے باپ کے دستر خوان سے اٹھا کر مسکینوں کو دےدے جب کہ اسے یقین ہو تو کیا اسے گناہ قرار دیا جاسکتا ہے ۔

بھائیوں نے دیکھا کہ ان کے چھوٹے بھائی بنیامین کو اس قانون کے مطابق عزیز مصر کے پاس رہنا پڑے گا جسے وہ خود قبول کرچکے ہیں اور دوسری طرف انہوں نے باپ سے پیمان باندھا تھا کہ بنیامین کی حفاظت اور اسے واپس لانے کے لئے اپنی پوری کوشش کریں گے ۔ ایسے میں انہوں نے یوسفعليه‌السلام کی طرف رخ کیا جسے ابھی تک انہوں نے پہچانا نہیں تھا اور ” کہا : اے عزیز مصر :اے بزرگوار صاحبِ اقتدار ! اس کا باپ بہت بوڑھا ہے اور وہ اس کی جدائی کو بر داشت کرنے کی طاقت نہیں رکھتا ہم نے آپ کے اصرار پر اسے باپ سے جدا کیا اور با پ نے ہم سے تاکیدی وعدہ لیا کہ ہم ہر قیمت پر اسے واپس لائیں گے ۔ اب ہم پر احسان کیجئے اور اس کے بدلے میں ہم سے کسی ایک کو رکھ لیجئے “( قَالُوا یَااٴَیُّهَا الْعَزِیزُ إِنَّ لَهُ اٴَبًا شَیْخًا کَبِیرًا فَخُذْ اٴَحَدَنَا مَکَانَهُ ) ۔کیونکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ آپ نیکو کاروں میں سے ہیں “ اور یہ پہلا موقع نہیں کہ آپ نے ہم پر لطف و کرم اور مہر بانی کرکے اپنی کرم نوازیوں کی تکمیل کیجئے ۔( إِنَّا نَرَاکَ مِنْ الْمُحْسِنِینَ ) ۔

حضرت یوسفعليه‌السلام نے اس تجویز کی شدت سے نفی کی او ر” کہا : پناہ بخدا ۱ کیسے ہو سکتا ہے کہ جس کے پاس سے ہمارا مال و متاع بر آمد ہو اہے ہم اس کے علاوہ کسی شخص کو رکھ لیں “ کبھی تم نے سنا ہے کہ ایک منصف مزاج شخص نے کسی بے گناہ کو دوسرے کے جرم میں سزا دی ہو( قَالَ مَعَاذَ اللهِ اٴَنْ نَاٴْخُذَ إِلاَّ مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ ) ۔اگر ہم ایسا کریں تو یقینا ہم ظالم ہوں گے( إِنَّا إِذًا لَظَالِمُونَ ) ۔

یہ امر قابل توجہ ہے کہ حضرت یوسفعليه‌السلام نے اپنی اس گفتگو میں بھائی کی طرف چوری کی کوئی نسبت نہیں دی بلکہ کہتے ہیں کہ ” جس شخص کے پاس سے ہمیں ہمارا مال و متاع ملا ہے “ یہ اس امر کی دلیل ہے کہ وہ اس امر کی طرف سنجیدگی سے متوجہ تھے کہ اپنی پوری زندگی میں کبھی کوئی غلط با ت نہ کریں ۔

آیات ۸۰،۸۱،۸۲،

۸۰ ۔( فَلَمَّا اسْتَیْئَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِیًّا قَالَ کَبِیرُهُمْ اٴَلَمْ تَعْلَمُوا اٴَنَّ اٴَبَاکُمْ قَدْ اٴَخَذَ عَلَیْکُمْ مَوْثِقًا مِنْ اللهِ وَمِنْ قَبْلُ مَا فَرَّطتُمْ فِی یُوسُفَ فَلَنْ اٴَبْرَحَ الْاٴَرْضَ حَتَّی یأذَنَ لِی اٴَبِی اٴَوْ یَحْکُمَ اللهُ لِی وَهُوَ خَیْرُ الْحَاکِمِینَ ) ۔

۸۱ ۔( ارْجِعُوا إِلَی اٴَبِیکُمْ فَقُولُوا یَااٴَبَانَا إِنَّ ابْنَکَ سَرَقَ وَمَا شَهِدْنَا إِلاَّ بِمَا عَلِمْنَا وَمَا کُنَّا لِلْغَیْبِ حافِظِینَ ) ۔

۸۲ ۔( وَاسْاٴَلْ الْقَرْیَةَ الَّتِی کُنَّا فِیهَا وَالْعِیرَ الَّتِی اٴَقْبَلْنَا فِیهَا وَإِنَّا لَصَادِقُونَ ) ۔

ترجمہ

۸۰ ۔ جب ( بھائی) ا س سے مایوس ہو گئے تو ایک طرف گئے اور آپس میں سر گوشی کی ۔ ان میں سے سب سے بڑے نے کہا : کیا تم نہیں جانتے کہ تمہارے باپ سے تم سے الہٰی پیمان لیا تھا اور اس سے پہلے تم سے یوسفعليه‌السلام کے بارے میں کوتاہی کی تھی لہٰذامیں اس سر زمین سے نہیں جاؤں گا جب تک مجھے میرا باپ اجازت نہ دے یا خدا اپنا حکم میرے بارے میں صادر نہ فرمائے اور وہ بہترین حکم کرنے والا ہے ۔

۸۱ ۔ تم اپنے باپ کی طرف پلٹ جاؤ اور اس سے کہو ابا(جان) ! تمہارے بیٹے نے چوری کی ہے اور ہم جو کچھ جانتے ہیں اس کے سوا ہم نے گواہی نہیں دی اور نہ ہی ہم غیب سے آگاہ تھے ۔

۸ ۔ ( مزید اطمینان کے لئے ) اس شہرے سے پوچھ لیں جس میں ہم تھے نیز اس قافلے سے پوچھ لیں جس کے ساتھ ہم آئے ہیں اور ہم ( اپنی بات میں ) سچے ہیں ۔

بھائی سر جھکائے باپ کے پاس پہنچے

بھائیوں نے بنیامین کے رہائی کے لئے اپنی آخری کوشش کر دیکھی لیکن انہوں نے اپنے سامنے تمام راستے بند پائے ۔ ایک طرف تو اس کام کو کچھ اس طرح سے انجام دیا گیا تھا کہ طاہراً بھائی کی برأت ممکن نہ تھی اور دوسری طرف عزیز مصر نے اس کی جگہ کسی اور فرد کو رکھنے کی تجویز قبول نہ کی لہٰذا وہ مایوس ہو گئے ۔ یوں انہوں نے کنعان کی طرف لوٹ جانے اور باپ سے سارا ماجرا بیان کرنے کا رادہ کرلیا ۔ قرآن کہتا ہے : جس وقت وہ عزیز مصر سے یا بھائی کی نجات سے مایوس ہو گئے تو ایک طرف کو آئے اور دوسروں سے الگ ہو گئے اور سر گوشی کرنے لگے( فَلَمَّا اسْتَیْئَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِیًّا ) ۔

” خلصوا“”یعنی “ خالص ہو گئے “۔ یہ دونوں سے الگ ہونے اور خصوصی مٹینگ کرنے کی طرف اشارہ ہے ۔ اور ”نجی “ ” مناجات“ کے مادہ سے در اصل ” نجوہ “ سے مر تفع زمین کے معنی میں لیا گیا ہے چونکہ اونچی اور مفع زمینیں اپنے اطراف سے جدا اور الگ ہوتی ہیں اور مخفی میٹنگیں اور سر گوشیاں ارد گرد والوں سے ہٹ کر ہوتی ہیں اس لئے انہیں ” نجوی “ کہتے ہیں ( اس بناء پر ” نجوی “ ہر قسم کی محرمانہ بات کو کہا جاتا ہے چاہے وہ کان میں کہی جائے یا کسی خفیہ میٹنگ میں ) ۔

جملہ” خلصوا نجیا“ جیسا کہ بہت سے مفسرین نے کہا ہے کہ فصیح ترین اور خوبصورت ترین قرآنی تعبیر ہے جس میں دو لفظوں کے ذریعے بہت سے مطالب بیان کردئے گئے ہیں جب کہ یہ مطالب بیان کرنے کے لئے بہت سے جملے در کار تھے ۔

بہر حال سب سے بڑے بھائی نے اس خصوصی میٹنگ میں میں ان سے کہا : کیا تم جانتے ہو کہ تمہارے باپ نے تم سے الہٰی پیمان لیا ہے کہ بنیامین کو ہر ممکنہ صورت میں ہم واپس لائیں گے( قَالَ کَبِیرُهُمْ اٴَلَمْ تَعْلَمُوا اٴَنَّ اٴَبَاکُمْ قَدْ اٴَخَذَ عَلَیْکُمْ مَوْثِقًا مِنْ اللهِ ) ۔اور تمہی نے اس سے پہلے بھی یوسف کے بارے میں کوتاہی کی “ اور باپ کے نزدیک تمہارا گزشتہ کردار برا ہے( وَمِنْ قَبْلُ مَا فَرَّطتُمْ فِی یُوسُفَ ) ۔(۱)

” اب جبکہ معاملہ یوں ہے تو میں اپنی جگہ سے ( یا سر زمین ِ مصرسے ) نہیں جاؤں گا اور یہیں پڑاؤ ڈالوں گا ، مگر یہ کہ میرا باپ مجھے دے دے یا خدا میرے متعلق کوئی فرمان صادر کرے جو کہ بہترین حاکم و فرماں رواہے( فَلَنْ اٴَبْرَحَ الْاٴَرْضَ حَتَّی یأذَنَ لِی اٴَبِی اٴَوْ یَحْکُمَ اللهُ لِی وَهُوَ خَیْرُ الْحَاکِمِینَ ) ۔

اس حکم یا تو موت کا حکم مراد ہے یعنی مرتے دم تک یہاں سے نہیں جاؤں گا یا خدا کی طرف پیداہونے والا کوئی چارہ کار مراد ہے یا پھر کوئی قابل قبول اور ناقابل ِ توجیہ عذر مراد ہے جوکہ باپ کے نزدیک قطعی طور پر قابل قبول ہو۔

پھر بڑے بھائی نے دوسرے بھائیوں کو حکم دیا “ تم باپ کے پاس لوٹ آؤ او رکہوابا جان آپ کے بیٹے نے چوری کی ہے( ارْجِعُوا إِلَی اٴَبِیکُمْ فَقُولُوا یَااٴَبَانَا إِنَّ ابْنَکَ سَرَقَ ) ۔

” اور یہ جو ہم گواہی دے رہے ہیں اتنی ہی ہے جتنا ہمیں علم ہوا“ بس ہم نے اتنا دیکھا کہ بادشاہ کا پیمانہ ہمارے بھائی کے بارے سے بر آمد ہو اجس سے ظاہر ہوتا تھا کہ اس نے چوری کی ہے ، باقی رہا امر ِ باطن تو وہ خدا جانتا ہے( وَمَا شَهِدْنَا إِلاَّ بِمَا عَلِمْنَا ) ۔” اورہمیں غیب کی خبر نہیں “( وَمَا کُنَّا لِلْغَیْبِ حافِظِینَ ) ۔اس آیت کی تفسیر میں یہ احتمال بھی ہے کہ بھائیوں کا مقصد یہ ہو کہ وہ باپ سے کہیں کہ اگر ہم نے تیرے پاس گواہی دی اور عہد کیا کہ ہم بھائی کو لے جائیں گے اور واپس لے آئیں گے تو اس بناء پر تھا کہ ہم اس کے باطن سے باخبر نہ تھے اور ہم غیب سے آگاہ نہ تھے کہ اس کا انجام یہ ہوگا ۔

____________________

۱۔ ” فرطتم “ تفریط“ کے مادہ سے در اصل ”فروط“ (بروزن” شروط“)مقدم ہونے کے معنی میں ہے اور جب یہ بات تفعیل میں آجائے تو آگے بڑھنے میں کوتاہی کرنے کے معنی میں ہے اور جب باب افعال سے ” افراط “ ہوتو تقدم اور اگے بڑھنے میں تجاوز کرنے کے معنی میں ہے ۔

چند اہم نکات

۱ ۔ سب سے بڑا بھائی کون تھا ؟

بعض نے سب سے بڑے بھائی کا نام ” روبین “ ( روبیل ) لکھا ہے ۔ بعض نے ” شمعون “ کو سب سے بڑا بھائی سمجھا ہے ۔ بعض نے اس کانام ” یہودا“ بیان کیا ہے ۔

نیز اس لحاظ سے بھی مفسرین میں اختلاف ہے کہ یہاں بڑا ہونے سے مراد عمر میں بڑا ہے یا عقل و فہم کے لحاظ سے بڑا ہے ۔ البتہ آیت کا ظاہری مفہوم یہی ہے کہ یہاں سن و سال میں بڑا ہونا مراد ہے ۔

۲ ۔ موجود قرائن کی بنیاد پر فیصلہ :

اس آیت سے ضمنی طور پر معلوم ہوتا ہے کہ اقرار اور گواہ نہ ہوں تو قاضی قطعی قرائن پر عمل کرسکتا ہے کیونکہ برادران ِ یوسف (علیه السلام) کے اس واقعے میں نہ گواہ تھے اور نہ اقرار۔ صرف بنیامین کے بارے میں بادشاہ کے پیمانے کا کامل جانا اس کے مجرم ہونے کی دلیل شمار کیا گیا ۔

نیز ان میں سے ہر ایک ذاتی طور پر اپنے بار کو پرکرتا تھا یا کم از کم پرکرتے وقت وہاں حاضر ہوتا تھا اور اگر تالالگانا ہوتا یا بند کرنا ہوتا تو چابی وغیرہ بھی خود اسی کے قبضے میں ہوتی۔ دوسری طرف کوئی شخص یہ سوچ بھی نہیں سکتاتھا کہ اس کے پیچھے کوئی منصوبہ کار فرماہے ۔ مزید یہ کہ کنعان کے مسافروں ( برادران یوسف )کا اس شہر میں کوئی دشمن بھی نہ تھا کہ جو ان کے خلاف کوئی سازش کرتا ۔

ان تمام پہلوؤں کو پیش، نظر رکھتے ہوئے یہ نتیجہ نکلتا تھا کہ بنیامین کے بارے میں جو بادشاہ کا پیمانہ برآمد ہوا ہے یہ خوداس کا ذاتی کام ہے ۔

دور حاضر میں ایسی ہی بنیادوں پر فیصلے کئے جاتے ہیں ۔ اس سلسلے میں فقہ ِ اسلامی میں مزید جستجو اور تحقیق کی ضرورت ہے کیونکہ یہ امر موجودہ زمانے میں عدالتی بحثوں میں بہت مؤثر ہے ۔ کتاب القضاء میں اس سلسلے میں بحث کی جانا چاہئیے ۔

۳ ۔ برادران یوسف (علیه السلام) میں فرق :

مندرجہ بالاآیات سے معلوم ہوتا ہے کہ برادران یوسف (علیه السلام) میں عزم و ہمت کے لحاظ سے بہت فرق تھا ۔ سب سے بڑا بھائی اپنے وعدہ کا بہت سختی سے پابندتھا جب کہ دوسرے بھائیوں نے جب دیکھا کہ عزیز مصر سے ان کی گفتگو نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئی تو انہوں نے بس اسی پر اپنے آپ کو معذور سمجھا اور مزید کوشش نہ کی البتہ حق بڑے بھائی کے ساتھ تھا کیونکہ وہ مصر ہی میں ٹھہر گیا تھا خصوصاً عزیز مصر کے دربار کے نزدیک اس نے پڑاؤ ڈال لیا ۔ اس سے یہ توقع ہو سکتی تھی کہ وہ لطف و مہر بانی کرے اور ایک پیمانے کی وجہ سے جو آخر کار مل گیا تھا اور ایک مسافر اس سے داغ دار بھی ہو گیا تھا ، اب اس کے بدلے بھائیوں اور اس کے بوڑھے باپ کو سزا نہ دے ۔ اسی احتمال کی بناء پر وہ مصر میں ٹھہر گیا اور بھائیوں کو باپ کاحکم معلوم کرنے کے لئے باپ کی خدمت میں روانہ کردیا تاکہ وہ جاکرسارا واقعہ بیان کریں ۔

آیات ۸۳،۸۴،۸۵،۸۶

۸۳ ۔( قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَکُمْ اٴَنفُسُکُمْ اٴَمْرًا فَصَبْرٌ جَمِیلٌ عَسَی اللهُ اٴَنْ یَأتیَنِی بِهِمْ جَمِیعًا إِنَّه هُوَ الْعَلِیمُ الْحَکِیمُ ) ۔

۸۴ ۔( وَتَوَلَّی عَنْهُمْ وَقَالَ یَااٴَسَفَی عَلَی یُوسُفَ وَابْیَضَّتْ عَیْنَاهُ مِنَ الْحُزْنِ فَهُوَ کَظِیمٌ ) ۔

۸۵ ۔( قَالُوا تَاللهِ تَفْتَاٴُ تَذْکُرُ یُوسُفَ حَتَّی تَکُونَ حَرَضًا اٴَوْ تَکُونَ مِنْ الْهَالِکِینَ ) ۔

۸۶ ۔( قَالَ إِنَّمَا اٴَشْکُو بَثِّی وَحُزْنِی إِلَی اللهِ وَاٴَعْلَمُ مِنْ اللهِ مَا لاَتَعْلَمُونَ ) ۔

ترجمہ

۸۳ ۔(یعقوب (علیه السلام) نے کہا: نفس ( اور ہوا و ہوس ) نے معاملہ تمہاری نگاہ میں اس طرح سے مزین کردیا ہے ۔ میں صر کروں گا ، صبر جمیل ( کہ جس میں کفران نہ ہو )، مجھے امید ہے کہ خدا ان سب کو میری طرف پلٹادے گا کیونکہ وہ علیم و حکیم ہے ۔

۸۴ ۔ اور ان سے منہ پھیر لیا اور کہا : ہائے یوسف (علیه السلام) ۔ اور اس کی آنکھیں غم اندوہ سے سفید ہوگئیں لیکن وہ اپنا غصہ پی جاتا ( اورہر گز ناشکری نہ کرتا ) ۔

۸۵ ۔ انہوں نے کہا : بخدا ! تو یوسف (علیه السلام) کو اس قدر یاد کرتا ہے کہ تو موت کے قریب جاپہنچے گا یا ہلاک ہو جائے گا ۔

۸۶ ۔ اس نے کہا: میں اپنا درد و غم صرف خدا سے کہتا ہوں ( اور ا س کے ہاں شکایت کرتا ہوں ) اور میں خدا کی طرف سے ایسی چیزین جانتا ہوں جنہیں تم نہیں جانتے ۔

میں وہ الطاف الہٰی جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے

بھائی مصر سے چل پڑے سب سے بڑے اور سب سے چھوٹے بھائی کو وہاں چھوڑ آئے اور پریشان و غم و زدہ کنعان پہنچے ۔ باپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ اس سفر سے واپسی پر باپ نے جب گزشتہ سفر کے بر عکس غم و اندوہ کے آثار ان کے چہروں پر دیکھے تو سمجھ گئے کہ کوئی ناگوار خبر لائیں ہیں خصوصاًجبکہ بنیامین اور سب سے بڑا بھائی ان کے ہمراہ نہ تھا ۔جب بھائیوں نے بغیر کسی کمی بیشی کے ساری آپ بیتی کہہ دی تو یعقوب (علیه السلام) بہت حیران ہوئے اور ان کی طرف رخ کرکے ” کہنے لگے : تمہاری نفسانی خواہشات کا یہ معاملہ تمہارے سامنے اس طرح سے پیش کیا ہے اور اسے اس طرح سے مزین کیا ہے “( قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَکُمْ اٴَنفُسُکُمْ اٴَمْراً ) ۔

یعنی بالکل وہی جملہ کہا جو انہوں نے حادثہ یوسف (علیه السلام) کے بعد کہا تھا جب کہ انہوں نے وہ جھوٹا واقعہ بیان کیا تھا ۔

یہا ں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا حضرت یعقوب (علیه السلام) نے ان کے سابقہ کردار ہی کے باعث ان کے بارے میں سوء ظن کیا اور یقین کرلیا کہ یہ جھوٹ بولتے ہیں اور اس میں کوئی سازش ہے حالانکہ ایسا کرنا نہ صرف یعقوب (علیه السلام) جیسے پیغمبر سے بعید معلوم ہوتا ہے بلکہ عام لوگوں سے بھی بعید ہے کہ کسی کو صرف اس کے کسی سابقہ برے کردار کی وجہ سے یقینی طور پر متہم کریں جبکہ دوسری طرف گواہ بھی ہوں اور تحقیق کا راستہ بھی بند نہ ہو۔

یا پھر ۔ کیا اس جملہ کا مقصد ایک اور نکتہ بیان کرنا ہے جس کے یہ پہلو ہیں :

۱ ۔ تم فقط بادشاہ کا پیمانہ بھائی کے بارے میں دیکھ کر کیوں مان گئے کہ اس نے چوری کی ہے جب کہ تنہا یہ بات من طقی دلیل نہیں بن سکتی ۔

۲ ۔ تم نے عزیز مصر سے کیوں کہا کہ طور کی یہ سزا ہے کہ اسے غلام بنالو حالانکہ یہ کوئی خدائی قانون نہیں بلکہ کنعان کے لوگوں کی ایک غلط رسم ہے

( یہ بات اس صورت میں درست ہے جب بعض مفسرین کے قول کے خلاف اس قانون کو شریعت ِ یعقوب کاحصہ نہ سمجھا جائے ) ۔

۳ ۔ اس واقعہ کے بعد تم فوراً کیوں چل پڑے اور برے بھائی کی طرح قیام کیوں نہیں کیا جبکہ تم میرے ساتھ پکا خدائی وعدہ کرچکے تھے ۔(۱)

اس کے بعد یعقوب (علیه السلام) اپنی جانب متوجہ ہوئے اور ” کہنے لگے کہ میں صبر کا دامن اپنے ہاتھ سے نہیں چھوڑوں گا اور اچھا صبر کروں گا کہ جو کفران نعمت سے خالی ہو( فَصَبْرٌ جَمِیلٌ ) ۔

مجھے امید ہے کہ خدا ان سب جو ( یوسف (علیه السلام) ، بنیامین اور میرے بڑے بیٹے کو )میری طرف پلٹا دے گا( عَسَی اللهُ اٴَنْ یَأتیَنِی بِهِمْ جَمِیعًا ) ۔کیونکہ میں جانتا ہوں کہ ” وہ ان سب کے دل کو داخلی کیفیات سے باخبر ہے ، علاوہ ازین وہ حکیم بھی ہے اور وہ کوئی کام بغیر کسی حساب کتاب کے نہیں کرتا“( إِنَّه هُوَ الْعَلِیمُ الْحَکِیمُ ) ۔

اس وقت یعقوب (علیه السلام) رنج و غم میں ڈوب گئے ۔ بنیامین کہ جو ان کے دل کی ڈھارس تھا واپس نہ آیا تو انہیں پیارے یوسف (علیه السلام) کی یاد آگئی ۔ انہیں خیال آیاکہ اے کاش آج وہ آبرومند ، باایمان ، باہوش اور حسین و جمیل بیٹا ان کی آغوش میں ہوتا اور اس کی پیاری خوشبو ہرلمحہ باپ کو ایک حیاتِ نو بخشی لیکن آج نہ صرف یہ کہ اس کا نام و نشان نہیں بلکہ ا س کا جانشین بنیامین بھی اس کے طرح ایک درد ناک معالے میں گرفتار ہو گیا ہے ۔ ” اس وقت انہوں نے اپنے بیٹوں سے رخ پھیر لیا اور کہا:ہائے یوسف (علیه السلام)( وَتَوَلَّی عَنْهُمْ وَقَالَ یَااٴَسَفَی عَلَی یُوسُف ) بھائی کہ پہلے جو بنیامین کے ماجرے پر باپ کے سامنے شرمندہ تھے یوسف کانام سن کر فکر میں ڈوب گئے ۔ ان کے ماتھے پر عرق ِ ندامت کے قطرے چمکنے لگے ۔

حزن و ملال اتنا بڑھا کہ یعقوب (علیه السلام) کی آنکھوں سے بے اختیار اشکوں کا سیلاب بہہ کریہاں تک کہ ” اس کی آنکھیں دردو غم سے سفید اور نابینا ہو گئیں( وَابْیَضَّتْ عَیْنَاهُ مِنَ الْحُزْنِ ) ۔

لیکن اس کے باوجود کوشش کرتے تھے کہ ضبط کریں اور اپنا غم و غصہ پی جائیں اور رضائے حق کے خلاف کوئی بات نہ کہیں ” وہ باحوصلہ اور جواں مرد تھے اور انہیں اپنے غصے پر پورا کنٹرول تھا “( فَهُوَ کَظِیمٌ ) ۔

ظاہر آیت سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت یعقوب (علیه السلام) اس وقت تک نابینا نہیں ہوئے تھے لیکن اب جب کہ رنج و غم کئی گنابڑھ گیا اور آپ مسلسل گریہ و زاری کرتے رہے اور آپ کے آنسو تھمنے نہ پاتے تھے تو آپ کی بینائی ختم ہوگئی اور جیسا کہ ہم پہلے بھی اشار ہ کرچکے ہیں کہ یہ کوئی اختیاری چیز نہ تھی کہ جو صبر و جمیل کے منافی ہو۔(۲)

بھائی کہ جو ان تمام واقعات سے بہت پریشان تھے ، ایک طرف تو ان کا ضمیر حضرت یوسف (علیه السلام) کے واقعے کی بناء پر انہیں عذاب دیتا اور دوسری طرف وہ بنیامین کی وجہ سے اپنے آپ کو ایک نئے امتحان کی چوکھٹ پر پاتے اور تیسری طرف باپ کا اتنا غم اور دکھ ان پر بہت گراں تھا لہٰذا انہوں نے پریشانی اور بے حوصلگی کے ساتھ باپ سے ”کہا:بخدا تو اتنا یوسف یوسف کرتا ہے کہ بیمار ہو جائے گا اور موت کے کنارے پہنچ جائے گا یا ہلاک ہو جائے گا( قَالُوا تَاللهِ تَفْتَاٴُ تَذْکُرُ یُوسُفَ حَتَّی تَکُونَ حَرَضًا اٴَوْ تَکُونَ مِنْ الْهَالِکِینَ ) ۔(۳)

لیکن کنعان کے اس مرد بزرگ اور روشن ضمیر پیغمبر نے ان کے جواب میں کہا:

میں تمہارے سامنے اپنی شکایت پیش نہیں کی جو اس طرح کی باتیں کرتے وہ میں اپنادرد و غم بار گاہ الہٰی میں پیش کرتا ہوں اور ا س کے ہاں اپنی شکایت پیش کرتا ہوں “( قَالَ إِنَّمَا اٴَشْکُو بَثِّی وَحُزْنِی إِلَی اللهِ ) ۔(۴)

اور اپنے خدا کی طرف سے مجھے ایسے الطاف و عنایات حاصل ہیں او رایسی چیزیں مجھے معلوم ہیں کہ جن سے تم بے خبر ہو( وَاٴَعْلَمُ مِنْ اللهِ مَا لاَتَعْلَمُونَ ) )

____________________

۱۔ یہ جو بعض نے احتمال ظاہر کیا ہے کہ یہ واقعہ یوسف (علیه السلام) کی طرف اشارہ ہے ، بعید معلوم ہوتا ہے کیونکہ یوسف کو ماں باپ سے جدا کرنے کا معاملہ مندرجہ بالا آیات میں بالکل نہیں آیاہے ۔

۲۔ مزید وضاحت کے لئے اس سورہ کی آیہ ۱۸ کی تفسیر ملاحظہ کیجئے ۔

۳۔”بث“ کا معنی ہے پراکندگی اور ایسی چیز جسے چھپا یا نہ جاسکے او ریہاں واضح غم و اندوہ اور دل کی نمایاں پراکندگی کے معنی میں ہے ۔

۴۔ ”حرض“ (بروزن ِ ”مرض “)فاسد اور پریشان کرنے والی چیز کے معنی میں ہے ۔ یہاں اس کا معنی ہے بیمار، نحیف ، لاغر اور قریب المرگ۔