تفسیر نمونہ جلد ۱۰

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 27206
ڈاؤنلوڈ: 1987


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 93 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 27206 / ڈاؤنلوڈ: 1987
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 10

مؤلف:
اردو

آیات ۹۹،۱۰۰،۱۰۱،

۹۹ ۔( فَلَمَّا دَخَلُوا عَلَی یُوسُفَ آوَی إِلَیْهِ اٴَبَوَیْهِ وَقَالَ ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شَاءَ اللهُ آمِنِینَ ) ۔

۱۰۰ ۔( وَرَفَعَ اٴَبَوَیْهِ عَلَی الْعَرْشِ وَخَرُّوا لَهُ سُجَّدًا وَقَالَ یَااٴَبَتِ هَذَا تَاٴْوِیلُ رُؤْیَای مِنْ قَبْلُ قَدْ جَعَلهَا رَبِّی حَقًّا وَقَدْ اٴَحْسَنَ بِی إِذْ اٴَخْرَجَنِی مِنْ السِّجْنِ وَجَاءَ بِکُمْ مِنْ الْبَدْوِ مِنْ بَعْدِ اٴَنْ نَزَغَ الشَّیْطَانُ بَیْنِی وَبَیْنَ إِخْوَتِی إِنَّ رَبِّی لَطِیفٌ لِمَا یَشَاءُ إِنَّه هُوَ الْعَلِیمُ الْحَکِیمُ ) ۔

۱۰۱ ۔( رَبِّ قَدْ آتَیْتَنِی مِنْ الْمُلْکِ وَعَلَّمْتَنِی مِنْ تَاٴْوِیلِ الْاٴَحَادِیثِ فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ اٴَنْتَ وَلِیِّ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ تَوَفَّنِی مُسْلِمًا وَاٴَلْحِقْنِی بِالصَّالِحِینَ ) ۔

ترجمہ

۹۹ ۔ جس و قت یوسف کے پاس پہنچے تو وہ اپنے ماں باپ سے بغل گیر ہوئے اور کہا : سب کے سب مصر میں داخل ہو جاؤ ، انشاء اللہ امن و امان میں رہو گے

۱۰۰ ۔ اور ماں باپ کو تخت پر بٹھایا اور سب کے سب ان کے لئے سجدے میں گر گئے اور اس نے کہا: ابا جان : یہ اس خواب کی تعبیر ہے کہ جو پہلے میں نے دیکھا تھا، خدا نے اسے حقیقت میں بدل دیا اور اس نے مجھ سے نیکی کی جب مجھے زندان سے نکالا اور آ پ کو اس بیا بان سے ( یہاں ) لے آیا اور جب کہ شیطان میرے اور میرے بھائیوں کے درمیان خرابی پیدا کرچکا تھا ، اور میرا پر وردگار جسے چاہتا ہے ( اور مناسب دیکھتا ہے ) اس کے لئے صاحبِ لطف ہے کیونکہ وہ دانا اور حکیم ہے ۔

۱۰۱ ۔ پر ور دگارا ! تونے مجھے حکومت کا ( عظیم ) حصہ بکشا ہے اور تونے مجھے خوابوں کا تعبیر کا علم دیا ہے تو آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے اورتو دنیا و آخرت میں میرا سر پرست ہے ، مجھے مسلمان مارنا اور صالحین کے ساتھ ملحق فرمانا ۔

تفسیر

یوسف (علیه السلام)، یعقوب (علیه السلام) اور بھائیوں کی سر گزشت کا اختتام

عظیم ترین بشارت لئے ہوئے مصر سے فاقلہ کنعان پہنچا ۔ بوڑھے یعقوب بینا ہوگئے ۔ عجیب جو ش و خروش تھا ۔ سالہا سال سے جو گھرانا غم و اندوہ میں ڈابا ہوا تھا وہ خوشی اور سرور میں ڈوب گیا ۔ ان سب نعمات الٰہی پر وہ پھولے نہیں سما تے تھے ۔ یوسف (علیه السلام) فرمائش کے مطابق اس خاندان کو اب مصر کی طرف روانہ ہونا تھا ۔ سفر کی تیاری ہر لحاظ سے مکمل ہو گئی ہعقوب (علیه السلام) ایک مرکب پر سوار ہوئے جب کہ ان کے مبارک لبوں پر ذکر و شکر خدا جاری تھا اور عشق ِ وصال نے انہیں اس طرح قوت و توانائی بخشی کہ کہ گویا وہ نئے سےجواب ہو گئے تھے ۔

بھائیوں کے گزشتہ سفر تو خوف و پریشانی سے گزرے لیکن ان کے بر خلاف یہی سفر ہر قسم کے فکر و اندیشہ سے خالی تھا ۔ یہاں تک کہ سفر کی کوئی تکلیف تھی بھی تو اس انتظار میں پنہاں مقصد کے سامنے اس کی کوئی حقیقت نہ تھی ۔

وصال کعبہ چناں می دواندام بشتاب کہ خار ہای مغیلاں می آید

کعبہ مقصود کے وصال نے مجھے اتنا دوڑا یا کہ خارمغیلاں ریشم معلوم ہوتے تھے ۔

رات و دن گویا بڑی آہستگی سے گزررہے تھے کیونکہ اشتیاق ِ وصال میں ہر گھڑی ایک دن بلکہ ایک سال معلوم ہورہی تھی مگر جو کچھ تھا آخر گزر گیا ۔ مصرکی آباد یاں دور سے نمایاں ہوئیں ،مصر کے سر سبز کھیت ،آسمان سے باتیں کرنے والے درخت اور خوبصورت عمارتیں دکاھئی دینے لگیں ۔

لیکن قرآن اپنی دائمی سیرت کے مطابق ان سب مقدمات کو جو تھوڑے سے غور و فکر سے واضح ہو جاتے ہیں حذف کرتے ہوئے کہتا ہے : جب وہ یوسف کے پاس پہنچے تو یوسف اپنے ماں باپ سے بغل گیر ہوئے( فَلَمَّا دَخَلُوا عَلَی یُوسُفَ آوَی إِلَیْهِ اٴَبَوَیْه ) ۔

” اٰوی “ جیسا کہ راغب نے کہا ہے اصل میں کسی چیز کو دوسری چیز سے منضم کرنے کے معنی میں ہے یوسف (علیه السلام) کا اپنے تئیں ماں باپ سے منضم کرنا ، ان سے بغل گیر ہونے کے لئے کنایہ ہے ۔

آخر کار یعقوب (علیه السلام) کی زندگی کا شیرین ترین لمحہ آگیا ۔ دیدار وصال کا یہ لمحہ فراق کے کئی سالوں بعد آیاتھا ۔ خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ وصال کے یہ لمحات یعقوب (علیه السلام) اور یوسف (علیه السلام) پر کیسے گزرے ، ان شیرین لمحات میں ان دونوں کے احساسات و جذبات کیا تھے ، عالم ِ شوق میں انہوں نے کتنے آنسو بہائے اور عالم ِ عشق میں کیا نالہ ہوا ۔

پھر یوسف (علیه السلام) نے ” سب سے کہا : سر زمین ، مصر میں قدم رکھیں کہ انشاء اللہ یہاں آپ بالکل امن و امان میں ہوں گے “ کیونکہ مصر یوسف (علیه السلام) کی حکومت میں امن و امان کا گہوارہ بن چکا تھا( وَقَالَ ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شَاءَ اللهُ آمِنِینَ ) ۔

اس جملے سے معلوم ہوتا ہے کہ یوسف (علیه السلام) اپنے ماں باپ کے استقبال کے لئے شہر کے دروازے کے باہر تک آئے تھے اور اور شاید جملہ ”دخلوا علی یوسف “کہ جو دروازے سے باہر سے مربوط ہے ، اس طرف اشارہ ہے کہ یوسف (علیه السلام) نے حکم دیا تھا کہ وہاں خیمے نصب کئے جائیں اور ماں باپاور بھائیوں کی پہلے پہل وہاں پذیرائی کی جائے ۔

جب وہ بارگاہ ِ یوسف (علیه السلام) میں پہنچے ” تو اس نے اپنے ماں باپ کو تخت پر بٹھایا “( وَرَفَعَ اٴَبَوَیْهِ عَلَی الْعَرْشِ ) ۔

نعمت الٰہی کی اس عظمت اور پر وردگار کے لطف کی اس گہرائی اور وسعت نے بھائیوں اور ماں باپ کو اتنا متاثر کیا کہ وہ ” سب کے سب اس کے سامنے سجدے میں گر گئے“( وَخَرُّوا لَهُ سُجَّدًا ) ۔

اس موقع پر یوسف (علیه السلام) نے باپ کی طرف رخ کیا ” اور اعتراض کیا : اباجان ! یہ اسی خواب کی تعبیر ہے جومیں نے بچپن میں دیکھا تھا“( وَقَالَ یَااٴَبَتِ هَذَا تَاٴْوِیلُ رُؤْیَای مِنْ قَبْلُ ) ۔کیا ایسا ہی نہیں کہ میں نے خواب مین دیکھا تھا کہ سورج ، چاند اور گایرہ ستارے میرے سامنے سجدہ کررہے ہیں ۔ دیکھئے ! جیسا کہ آپ نے پیش گوئی کی تھی ” خدا نے اس خواب کو واقعیت میں بدل دیا ہے “( قَدْ جَعَلهَا رَبِّی حَقًّا ) ۔” اور پر وردگار نے مجھ پرلطف و احسان کیا ہے کہ اس نے مجھے زندان سے نکالا ہے “( وَقَدْ اٴَحْسَنَ بِی إِذْ اٴَخْرَجَنِی مِن السِّجْنِ ) ۔

یہ بات قابل توجہ ہے کہ حضرت یوسف (علیه السلام) نے اپنی زندگی کی مشکلات میں صرف زندانِ مصر کے بارے میں گفتگو کی ہے لیکن میرے بھائیوں کی وجہ سے کنعان کے کنوئیں کی بات نہیں کی۔

اس کے بعد مزید کہا : خدا نے مجھ پر کس قدر لطف کیاکہ آپ کو کنعان کے اس بیابان سے یہاں لے آیا جب جب کہ شیطان میرے اور میرے بھائی کے درمیان فساد انگیزی کر چکاتھا( وَجَاءَ بِکُمْ مِنْ الْبَدْوِ مِنْ بَعْدِ اٴَنْ نَزَغَ الشَّیْطَانُ بَیْنِی وَبَیْنَ إِخْوَتِی ) ۔

یہاں یوسف (علیه السلام) ایک مرتبہ اپنی وسعت قلبی اور عظمت کا ایک نمونہ پیش کرتے ہیں ۔ یہ نہیں کہتے کہ کوتاہی کس شکس نے کی صرف سر بستہ او راجمالی طور پر کہتے ہیں کہ شیطان نے اس کام میں دخل اندازی کی او روہ فساد کا باعث بنا کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ بھائیوں کا گزشتہ خطاؤں کا گلہ کریں ۔

سر زمین کنعان کو” بدو“ یعنی ” بیا بان“ کہنا بھی جاذب نظر ہے ۔ اس طرح سے مصر اور کنعان ک اتمدنی فرق واضح کیا گیا ہے ۔

آخر میں یوسف (علیه السلام) کہتے ہیں : یہ سب نعمات و عنایات خدا کی طرف سے ہیں کیونکہ میرا پر وردگار مرکزِ لطف و کرم ہے اور جس امر میں چاہتا ہے لطف کرتا ہے ، وہ بندوں کے کاموں کی تدبیر کرتا ہے اور ان مشکلات کو آسان کرتا ہے( إِنَّ رَبِّی لَطِیفٌ لِمَا یَشَاءُ ) ۔

وہ جانتا ہے کہ کون ھاجت مند ہیں اور کون اہل ہیں کیونکہ ” وہ علیم و حکیم ہے “( إِنَّه هُوَ الْعَلِیمُ الْحَکِیم ) ۔

اس کے بعد یوسف (علیه السلام) حقیقی مالک الملک اور دائمی ولی ِ نعمت کی طرف رخ کرتے ہیں اور شکر اور تقاضے کے طو رپر کہتے ہیں :

” پروردگارا ! تونے ایک وسیع حکومت کا ایک حصہ مجھے مرحمت فرمایا ہے “( رَبِّ قَدْ آتَیْتَنِی مِنْ الْمُلْکِ ) ۔” اور تونےمجھے تعبیر خواب کے علم کی تعلیم دی ہے “( وَعَلَّمْتَنِی مِنْ تَاٴْوِیلِ الْاٴَحَادِیث ) ۔اور اسی علم نے جو ظاہرا ً سادہ اور عام ہے میری زندگی اور تیرے بندوں کی ایک بڑی جماعت کی زندگی میں کس قسم کا انقلاب پیدا کردیا ہے اور یہ علم کس قدر پر برکت ہے ۔

” تو وہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو ایجاد کیا ہے “( فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ ) ۔اور اسی بناء پر تمام چیزیں تیری قدرت کے سامنے سر تسلیم خم کئے ہوئے ہیں ۔ ” پروردگارا! دنیا و آخرت میں تو میرا ولی ، ناصر ، مدبر اور محافظ ہے “( اٴَنْتَ وَلِیِّ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ ) ۔” مجھے اس جہان سے مسلمان اور اپنے فرمان کے سامنے سر تسلیم خم کئے ہوئے لے جا “( تَوَفَّنِی مُسْلِمًا ) ۔اور مجھے صالحین سے ملحق کردے “( وَاٴَلْحِقْنِی بِالصَّالِحِینَ ) ۔

یعنی میں تجھ سے ملک کے دوام اور اپنی مادی حکومت اور زندگی کی بقاء کا تقاضا نہیں کرتا کیونکہ یہ تو سب فانی ہیں اور صرف دیکھنے میں دل انگیز ہیں بلکہ میں یہ چاہتا ہوں کہ میری عاقبت اور انجام کا ر بخیر ہو او رمیں راہ ایمان و تسلیم کے ساتھ رہوں اور تیرے لئے جان دو ں اور صالحین اور تیرے باخلوص دوستوں کی صف میں قرار پاؤ ں ، میرے لئے یہ چیزیں اہم ہیں ۔

چند اہم نکات

۱ ۔ کیا غیر خد اکے لئے سجدہ جائز ہے ؟

جیساکہ ہم پہلی جلد ( جلد اوّل ص ۱۶۱ ( اردو ترجمہ ) میں فرشتوں کے آدم (علیه السلام) کو سجدہ کرنے کی بحث میں کہہ چکے ہیں کہ پرستش و عبادت کے معنی میں سجدہ خدا کے ساتھ مخصوص ہے اور کسی مذہب میں کسی شخص کے لئے پرستش جائز نہیں ہے اور تو حید عبادت جو مسئلہ توحید کا اہم حصہ ہے او رجس کی تمام پیغمبروں نے دعوت دی ہے ، کایہی مفہوم ہے ۔

لہٰذا یوسف (علیه السلام) کہ جو خد اکے پیغمبر تھے نہ وہ ا س کی اجازت دے سکتے تھے کہ انہیں سجدہ کیا جائے اور ان کی عبادت کیا جائے اور نہ ہی یعقوب (علیه السلام) جیسے عظیم پیغمبر ایسا کام کرسکتے تھے او رنہ ہی قرآن اسے ایک اچھے یا کم از کم جائز و مباح کا م کے طور پر یاد کرسکتا تھا ۔

اس بناء پر مذکورہ سجدہ یا خدا کے لئے “ سجدہ شکر “ کے طور پر تھا ۔ اسی خدا کے لئے سجدہ شکر جس نے یہ تمام عنایات و نعمات اور مقام عظیم یوسف (علیه السلام) کو دیا تھا اور جس نے خاندان یعقوب (علیه السلام) کی مشکلوں اور مصیبتوں ک ودور کیا تھا ۔ اس صورت میں اگر چہ سجدہ خدا کے لئے تھا لیکن چونکہ یوسف(علیه السلام) کو عطا کی گی نعمت کی عظمت کے لئے تھا خود یوسف (علیه السلام) کا احترام بھی اس سے ظاہر ہوتا تھا اور اس لحاظ سے ” لہ “ کی ضمیر جو مسلماً یوسف (علیه السلام) کی طرف لوٹتی ہے اس معنی کے ساتھ پوری طرح مناسب ہو گی ۔

یا یہ کہ یہاں ” سجدہ “ ک اوسیع مفہوم مراد ہے یعنی خضوع اور انکساری ، کیونکہ سجدہ ہمیشہ اپنے مشہور معنی میں استعمال نہیں ہوتا بلکہ ہر قسم کی انکساری اور تواضع کے معنی میں بھی استعمال ہوجاتا ہے لہٰذا بعض مفسرین نے کہا کہ اس زمانے میں خم ہ وکر انکساری اور تواضع ک ااظہار کرتے تھے اور تعظیم و احترام بجالانے کا یہ طریقہ رائج تھا ۔ان مفسرین کے نزدیک مندرجہ بالا آیت میں ” سجداً“ سے مراد یہی ہے ۔

لیکن ” خروا“ کا مفہوم ہے ” زمین پر گر پڑنا “۔ اس لفظ کی طرف توجہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا سجدہ خم ہونے اور سر نیچا کرنے کے معنی میں نہیں تھا ۔

بعض دیگر عظیم مفسرین نے کہاہے کہ حضرت یعقوب (علیه السلام) ، بھائیوں اور ان کی والدہ کا سجدہ خدا کے لئے تھا لیکن یوسف (علیه السلام) خانہ کعبہ کی طرح ان کے قبلہ تھے اسی لئے عربوں کی تعبیرات میں بعض اوقات کہا جاتا ہے :

فلان صلی للقبله

یعنی فلاں شخص نے قبلہ کی طرف نماز پڑھی ۔(۱)

البتہ پہلا معنی زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے بالخصوص جب کہ آئمہ اہل بیت علیہم السلام سے اس سلسلے میں متعدد روایات بھی موجود ہیں ۔ فرمایا:کان سجودهم لله

یعنی ..کا سجدہ خدا کے لئے تھا ۔

یہ بھی الفاظ ہیں :کان سجودهم عباده لله

ان کا سجدہ اللہ کی عبادت کے طور تھا ۔(۲)

نیز کچھ اور احادیث میں ہے :کان طاعة لله و تحیة لیوسف

یہ سجدہ اللہ کی اطاعت کے عنوان سے اور یوسف (علیه السلام) کے احترام کے لئے تھا ۔ ۳

جیسا کہ حضرت آدم (علیه السلام) کے واقعہ میں بھی سجدہ اس خدائے بزرگ و برتر کے لئے تھا کہ جس نے ایسی بدیع اور عجیب و غریب مخلوق پید اکی تھی ۔ وہ سجدہ عبادت ِ خدا کے ساتھ ساتھ حضرت آدم (علیه السلام) کے احترام اور عظمت مقام کی دلیل بھی تھا ۔ یہ بالکل اس طرح ہے کہ ایک شخص کوئی بہت ہی اچھا اہم کام انجام دیتا ہے اور ہم اس کام کی بنا ء پر خدا کے لئے سجدہ کریں کہ جس نے ایسا بندہ پیدا یا ہے تویہ سجدہ خدا کے لئے بھی ہے اور اس شخص کے احترام کے لئے بھی ۔

۲ ۔ شیطانی وسوسے:

” نزع الشیطان بینی و بین اخوتی “ میں لفظ ” نزع“ کسی کام میں فساد و افساد کے ارادے سے داخل ہونے کے معنی میں ہے ۔ یہ اس امر کی دلیل ہے کہ ایسے معاملات مین شیطانی وسوسے ہمیشہ بہت اثر رکھتے ہیں ۔ لیکن ہم اس سے پہلے بھی کہہ چکے ہیں صرف اس قسم کے وسوسوں سے کچھ بھی نہیں ہوسکتا ۔ اٹل فیصلہ اور آخری مصمم ارادہ خود انسان کو کرنا ہوتا ہے بلکہ وہی اپنے دل کا دریچہ شیطان کے لئے کھولتا ہے اور اسے اندر داخل ہونے کی اجازت دیتا ہے لہٰذا مندرجہ بالا آیت سے اختیار و ارادہ کی آزادی کے برخلاف کوئی مفہوم نہیں نکلتا ۔

البتہ حضرت یوسف (علیه السلام) اپنی عظمت وبزرگواری ، وسعت ، ظرف اور کشادہ دلی کی وجہ سے نہیں چاہتے تھے کہ بھائیوں کو اس معاملے میں زیادہ شرمندہ کریں کہ جو خود ہی بہت شرمندہ تھے ۔ اس لئے آخری ارادہ کرنے والے کی طرف اشارہ نہیں کیا اور صرف شیطانی وسوسوں کا ذکر کیا ہے جو دوسرے درجے کے عامل ہیں ۔

۳ ۔ امن و امان خدا کی عظیم نعمت :

حضرت یوسف (علیه السلام) نے مصر کی تمام تر نعمات میں سے امن و امان کا ذکر کیا ہے اور ماں باپ اور بھائیوں سے کہا کہ مصر میں داخل ہوجاؤ انشاء اللہ امن و امان میں رہو گے ۔ یہ امر نشاندہی کرتا ہے کہ امن و امان کی نعمت تمام نعمتوں کی جڑ ہے اور حقیقت میں ایسا ہی ہے کیونکہ جب امن و امان ختم ہو جائے تو تمام رفاہی امور او رمادی و روحانی نعمتیں مظرے میں پڑجاتی ہیں ۔ بے امنی کے ماحول میں نہ اطاعت ِ خدا مقدور میں رہتی ہے او رنہ ندگی میں سر بلندی اور آسودگئی فکر باقی رہتی ہے او رنہ ہی سعی و کوشش اور اجتماعی مقاصد کی پیش رفت کے لئے جہاد ہوسکتا ہے ۔

ہوسکتا ہے یہ جملہ ضمناً اس نکتے کی طرف اشارہ ہو کہ یوسف (علیه السلام) چاہتے ہیں کہ یہ بتائیں کہ مصر میری حکومت و سلطنت میں کل کے فراعنہ کی سی سر زمین نہیں ہے ۔ وہ خود غرضیاں ، خود پرستیاں ، مظالم، لوٹ مار، گھٹن اور شکنجے سب کے سب ختم ہو گئے ہیں ۔ ایک مکمل امن و امان کا ماحول ہے ۔

۴ ۔مقام علم کی اہمیت : حضرت یوسف (علیه السلام) آخر میں ایک مرتبہ پھر علم تعبیر خواب کا ذکر کرتے ہیں اور اس عظیم اور بغر نزاع کے حکومت کی بنیاد اس ظاہراً آسان اور سادہ علم کو قرار دیتے ہیں ۔ یہ امر در اصل علم و دانش کی اہمیت و تاثیر پر زیادہ سے زیادہ تاکید کرنے کے لئے ہے ۔ چاہے وہ علم سادہ اور عام قسم کا ہی کیون نہ ہو.. لہٰذا کہتے ہیں :

( رب قد اٰتیتنی من الملک و علمتنی من تاٴویل الاحادیث )

۵ ۔ اختتام خیر :

ہو سکتا ہے انسان کی زندگی میں بہت سی تبدیلیاں آئیں لیکن مسلم ہے کہ اس کی زندگی کے آخری لمحات اس کی ساری زندگی اور سر نوشت سے زیادہ اصلاحی اور تعمیری ہیں کیونکہ عمر کا دفتر ان کے ساتھ بند ہو جاتا ہے اور آخری فیصلہ زندگی کے انہین آخری صفحات وابستہ ہے ۔ اسی لئے صاحب ایمان اور سمجھدار لوگ ہمیشہ خد اسے دعا کرتے ہیں کہ ان کی عمر کے یہ لحظے نورانی اور درخشاں ہوں ۔ یوسف (علیه السلام) بھی اس مقام پر خدا سے یہی چاہتے ہیں او رکہتے ہیں :

( توفنی مسلماً و الحقنی بالصالحین )

مجھے دنیا سے ایمان کے ساتھ لے جا اور میرا شمار صالحین کے زمرے میں کر ۔

یہ گفتگو خد اسے موت کا تقاضا کرنے کے لئے نہیں جیسا کہ ابن عباس نے گمان کیا ہے اور کہا ہے :

یوسف (علیه السلام) کے سوا کسی پیغمبر نے خدا سے موت کا تقاضا نہیں کیا ۔ ان کے پاس اپنی حکومت کے تمام اسباب و وسائل موجود تھے لیکن ان کی روح میں عشق ِ الٰہی کا شعلہ بھڑک اٹھا او رانہوں نے لقائے الٰہی کی آرزو کی ۔

لیکن یوسف (علیه السلام) کا تقاضا شرط اور حالت کا تقاضا تھا یعنی انہوں نے یہ تقاضا کیا تھا کہ موت کے وقت وہ ایمان و اسلام کے حامل ہوں جیسا کہ ابراہیم (علیه السلام) اور یعقوب (علیه السلام) نے بھی اپنی اولاد کو یہ وصیت کی تھی ۔( فلا تموتن الا و انتم مسلمون )

میرے بچو!کوشش کرو کہ دنیا سے جاتے وقت باایمان اور فرمان ِ خدا کے سامنے سر تسلیم خد اکئے ہوئے ہو ( بقرہ ۔ ۱۳۲) ۔بہت سے مفسرین نے بی یہی معنی انتخاب کیا ہے ۔

۶ ۔ کیایوسف (علیه السلام) کی والدہ مصر آئی تھیں ؟

مندرجہ بالا آیات کے ظاہری معنی سے اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف (علیه السلام) کی والدہ اس وقت زندہ وسلامت تھیں اور وہ اپنے شوہر اور بیٹوں کے ساتھ مصر آئی تھیں اور اس نعمت کے شکرانے کے طور پر انہوں نے بھی سجدہ کیا تھا لیکن بعض مفسرین کا اصرارہے کہ ان کی والدہ ” راحیل “ فوت ہو چکی تھیں اور یہ حضرت یوسف (علیه السلام) کی خالہ تھیں جو مصر آئی تھیں اور وہ ماں کی جگہ شمار ہوتی تھیں موجودہ تورات کے سفر تکوین کی فصل ۳۵ اور جملہ ۱۸ میں ہے :

بنیامین کے پیدا ہونے کے بعد راحیل فوت ہو گئیں ۔

بعض روایات جو وہب بن منیہ سے اور کعب الاحبار سے نقل ہوئی ہیں ان میں بھی یہی بات مذکور ہے لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے انہوں نے یہ بات تورات سے لی ہے ۔

بہر حال ہم قرآن کے ظاہری مفہوم سے بغیر کسی یقینی مدرک کے آنکھیں بند کرکے اس کی توجیہ و تاویل نہیں کرسکتے اور ظاہرِ قرآن یہی ہے کہ اس وقت یوسف(علیه السلام) کی ماں زندہ تھیں ۔

۷ ۔ باپ کو سر گزشت نہ سنانا:

امام صادق علیہ السلام سے مروی ایک روایت میں ہے :

جس وقت یعقوب (علیه السلام) یوسف سے ملاقات کے لئے پہنچے تو ان سے کہا: میرے بیٹے دل چاہتا ہے کہ میں پوری تفصیل جانون کہ بھائیوں نے تم سے کیا سلوک کیا ۔

حضرت یوسف (علیه السلام) نے باپ سے تقاضا کیا کہ وہ اس معاملے کو جانے دیں لیکن یعقوب (علیه السلام) نے انہیں قسم دے کہا کہ بیان کریں ۔

یوسف (علیه السلام)نے واقعات کا کچھ حصہ بیان کیا ، یہاں تک کہ بتا یا: بھائیوں نے مجھے پکڑ لیا اور کنویں میں بٹھا یا ۔ مجھے حکم د یا کہ کرتا اتاردوں تو میں نے ان سے کہا : میں تمہیں اپنے باپ (علیه السلام) یعقوب (علیه السلام) کے احترام کی قسم دیتا ہوں کہ میرے بدن سے کرتا نہ اتارو او رمجھے برہنہ نہ کرو ۔ ان میں سے ایک پاس چھری تھی اس نے وہ چھری نکال اور چلا کر کہا : کرتا اتاررو۔

یہ جملہ سنتے ہی یعقوب (علیه السلام) کی طاقت جواب دے گئی ، انہوں نے چیخ ماری اور ے ہوش ہوگئے ۔ جب ہوش میں آئے تو بیٹے سے چاہا کہ اپنی بات جاری رکھے لیکن یوسف (علیه السلام) نے کہا : آپ (علیه السلام) کو ابراہیم ،(علیه السلام) اسماعیل اور اسحاق (علیه السلام) کے خدا کی قسم مجھے اس کام سے معاف رکھیں ۔

جب یعقوب (علیه السلام) نے یہ سنا تو اس معاملے سے صرفِ نظر کرلیا ۔(۴)

یہ امر نشاندہی کرتا ہے کہ یوسف (علیه السلام) ہر گز نہیں چاہتے تھے کہ ماضی کے تلخ واقعات اپنے دل میں لائیں یاباپ کے سامنے انہیں دھرائیں اگر چہ حضرت یعقوب (علیه السلام) کی جستجو کی حس ّ انہیں مجبور کرتی تھی ۔

____________________

۱-تفسیرالمیزان و تفسیر فخر رازی زیر بحث آیت کے ذیل میں ۔

۲۔ تفسیر نور الثقلین جلد ۲ ص ۴۶۷۔

۳۔ تفسیر نور الثقلین جلد ص۴۶۸۔

۴ مجمع البیان جلد ۵ ص ۲۶۵۔