تفسير راہنما جلد ۸

تفسير راہنما 0%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 971

تفسير راہنما

مؤلف: آيت الله ہاشمى رفسنجاني
زمرہ جات:

صفحے: 971
مشاہدے: 163041
ڈاؤنلوڈ: 2615


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4 جلد 5 جلد 6 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 971 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 163041 / ڈاؤنلوڈ: 2615
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد 8

مؤلف:
اردو

آیت ۳۶

( وَأُوحِيَ إِلَى نُوحٍ أَنَّهُ لَن يُؤْمِنَ مِن قَوْمِكَ إِلاَّ مَن قَدْ آمَنَ فَلاَ تَبْتَئِسْ بِمَا كَانُواْ يَفْعَلُونَ )

اور نوح كى طرف يہ وحى كى گئي كہ تمھارى قوم ميں سے اب كوئي ايمان نہ لائے گا علاوہ انكے جو ايمان لا چكے لہذا تم ان كے افعال سے رنجيدہ نہ ہو(۳۶)

۱_ قوم نوح كے كچھ افراد ان پر ايمان لائے اور كچھ اسى طرح اپنے كفر اور انكار رسالت پر مصر رہے_

انه لن يؤمن من قومك الا من قد ء امن

۲_حضرت نوح(ع) كى مسلسل اور بے ثمر كو ششوں كے نتيجہ ميں خداوند عالم نے انہيں ان كى قوم كے ايمان لانے كے سلسلہ ميں مايوس كرديا_و اوحى الى نوح انه لن يؤمن من قومك الا من قد ء امن

''لن يؤمن '' كا فاعل كلمہ '' احد'' ہے_ يعنى '' لن يؤمن احد من قومك'' ''الّا'' كا لفظ غير كے معنى ميں ہے_ اور '' احد من قومك'' كےليے صفت ہے نہ يہ كہ ''لن يؤمن ...'' سے استثناء ہے_ كيونكہ مومنين كو جملہ سابق سے استثناء كرنا مناسب بلكہ صحيح نہيں ہے_ اس صورت ميں ''لن يؤمن '' كے جملہ كا معنى يوں ہوگا_

يوں ہوگا_ آپكى قوم ميں سے كوئي بھى غير مومن (كافر) ايمان نہيں لائے گا_

۳_ كفر پر اصرار، پيغمبروں كا انكاراور معارف دين كا منكر ہونا، ايمان اور ہدايت كى شائستگى اور اہليت كو ہاتھ سے دھو دينے كا سبب بنتا ہے _يا نوح قد جادلتنا فا كثرت جادلنا فأتنا بما تعدنا لن يؤمن من قومك

۴_ وحى اور الہى اطلاعات كے ذريعہ پيغمبروں كو امور غيب اورانسانوں كى سرنوشت سے آگا ہ كيا جاتا ہے_

اوحى الى نوح انه لن يؤمن من قومك الا من قد ء امن

۵_وحى ،خدا اور انبياصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے در ميان رابطہ اور انہيں پروگرام

۱۰۱

اور احكام سے مطلع كرنے كا ذريعہ ہے_و اوحى الى نوح انه لن يؤمن فلا تبتئس بما كانوا يفعلون

۶_حضرت نوحعليه‌السلام ہميشہ اپنى قوم كى نامناسب رفتار سے پريشان حال اور ان كے انكار رسالت و كفر كے اصرار پر غم زدہ تھے_فلا تبتئس بما كانوا يفعلون

ابتا س ''تبتئس '' كا مصدر ہے_ اسكا معنى غم زدہ اور پريشان ہونا ہے_ اور جملہ '' ما كانوا يفعلون ''سے مراد شرك اور انكار رسالت پر اصرار كرنا اور دوسرے نامناسب كام ہيں _

۷_ حضرت نوحعليه‌السلام كا اپنى قوم كى ہدايت سے نااميد ہونا اور ان كا ايمان لانے كے لائق نہ ہونے سے آگاہي، ان كے غم و اندوہ كے دور كرنے كا سبب بنا_لن يؤمن من قومك فلا تبتئس بما كانوا يفعلون

مذكور بالا تفسير كا كفار كے ايمان نہ لانے كى خبر دينے پر متفرع جملہ ''لا تبتئس'' سے استفادہ كيا گيا ہے يعنى ابھى جب تم كافروں كے اس حال سے واقف ہوگئے ہو كہ وہ ايمان نہيں لائيں گے_ لہذا اپنى ذمہ دارى كو محسوس نہيں كر رہے_ ليكن يہ كوئي پريشانى كى بات نہيں ہے لہذا آپكو پريشان ہونے كى ضرورت نہيں ہے_

۸_ہٹ دھرم اور معاندين كے كفر اختيار كرنے اور ہدايت قبول نہ كرنے پر افسوس كرنا، بے جا اور نامناسب ہے_

لن يؤمن من قومك الا من قد ء امن فلا تبتئس بما كانوا يفعلون

۹_ دين كے مبلغين جب لوگوں كى ہدايت سے نااميد ہوجائيں تو معارف دين كاابلاغ ان كى ذمہ دارى نہيں ہے_

فلا تبتئس بما كانوا يفعلون

۱۰_ انسان ميں كفر كا راسخ ہوجانا اور ايمان كے نفوذ كے راستوں كا بند ہونا، عذاب كے استحقاق كا سبب بنتا ہے_

لن يؤمن من قومك الا من قد ء امن فلا تبتئس بما كانوا يفعلون

ان كے ايمان نہ لانے پر خداوند عالم كى طرف سے'' اصنع الفلك'' كا حكم دينا جو كہ قوم نوحعليه‌السلام پر عذاب كے نزول كو بتا رہا ہے اس مطلب كو بيان كررہا ہے كہ كيونكہ يہ ايمان كى صلاحيت سے عارى ہيں لہذا يہ عذاب سے دوچار ہوں گے _

انبياء:انبياء اور انسانوں كى سرنوشت ۴; انبياء پر وحى ۴، ۵; انبياء كى تكذيب كے آثار ۳; انبياء كے علم غيبكا سرچشمہ ۴

انسان :انسانوں كا ہدايت قبول نہ كرنے پر غم زدہ ہونا ۸; انسانوں كى ہدايت سے نااميدي۹; انسا نو ں

۱۰۲

كے كفر پر پريشان ہونا ۸

ايمان :ايمان كے موانع ۳

پريشانى :ناپسنديدہ پريشانى ۸

خدا :افعال خدا ۲; خدا كا انبياء سے ارتباط كا طريقہ ۵

دين :دين كو جھٹلانے كے آثار ۳

عذاب :عذاب كے نازل ہونے كے اسباب ۱۰

قوم نوح ۲:ايمان قوم نوح سے نااميدي۲;قوم نوح كا ناپسند عمل ۶; قوم نوح كا نا اہل ہونا ۷;قوم نوح كا ہدايت قبول نہ كرنا ۷; قوم نوح كى تاريخ ۱; قوم نوح كى ہدايت سے نا اميدي۷ ; قوم نوح كے ايمان لانے سے نااميد ہونا ۲; قوم نوح كے كافر۱;

قوم نوح كے كفر كے آثار ۶;قوم نوح كے معاشرتى گروہ ۱; قوم نوح كے مؤمنين ۱

كفر:كفر پر اصرار كرنے كے آثار ۳; كفر كے آثار ۱۰

مبلغين :مبلغين اور ہدايت قبول نہ كرنے والے۹; مبلغين كى ذمہ دارى كا دائرہ ۹

نوحعليه‌السلام :حضرت نوحعليه‌السلام اور قوم نوح كا كفر ۶; حضرت نوحعليه‌السلام پر وحى ۲;حضرت نوحعليه‌السلام كا قصہ ۷; حضرت نوحعليه‌السلام كا نااميد ہونا ۲،۷;حضرت نوحعليه‌السلام كو جھٹلانے كے آثار ۶; حضرت نوح(ع) كو جھٹلانے والے ۱;حضرت نوح(ع) كے پريشان ہونے كے اسباب۶;حضرت نوحعليه‌السلام كے غم دور ہونے كا سبب ۷

وحى :وحى كا كردار ۴،۵

ہدايت :ہدايت كے موانع ۳

۱۰۳

آیت ۳۷

( وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا وَلاَ تُخَاطِبْنِي فِي الَّذِينَ ظَلَمُواْ إِنَّهُم مُّغْرَقُونَ )

اور ہمارى نگاہوں كے سامنے ہمارى وحى كى نگرانى ميں كشتى تيار كرو اور ظالموں كے بارے ميں مجھ سے بات نہ كرو كہ يہ سب غرق ہوجانے والے ہيں (۳۷)

۱_ خداوند متعال نے حضرت نوحعليه‌السلام كو يہ خبر دينے كے ساتھ كہ ان كى قوم ايمان لانے والى نہيں ہے كشتى بنانے كا حكم ديا_اوحى الى نوح انه لن يؤمن من قومك واصنع الفلك

۲_ حضرت نوح(ع) كشتى بنانے كا حكم ملنے سے پہلے اس كى كيفيت (اندازے و شكل و غيرہ) سے آگاہ تھے_

و اصنع الفلك

ظاہراً '' الفلك'' پر'' الف لام'' عہد ذہنى ہے_ اور خاص كشتى كى طرف اشارہ ہے جس سے حضرت نوح(ع) آگاہ تھے اس بناء پر خداوند عالم نے انہيں كشتى بنانے سے پہلے اس كى وضع و قطع سے آگاہ كرديا تھا_ كہا جاتا ہے كہ حضرت نوح(ع) نے اس كشتى كو عالم خواب ميں ديكھا تھا_

۳_كشتى بنانے كے سلسلہ ميں حضرت نوح(ع) كو خداوند عالم كى طرف سے مكمل نگرانى و حفاظت حاصل تھي_

و اصنع الفلك بأعنين

''عين ''كا معنى آنكھ ہے ليكن آيت شريفہ ميں يہ مراقبت اور محافظت سے كناية ہے_(اعين ) كا جمع لانا، مبالغہ اور كمال محافظت كے ليے ہے_ اور '' بأعيننا '' فاعل اصنع كے ليے حال ہے لہذا''اصنع الفلك بأعيننا'' كا معنى يوں ہوگا _ كشتى بناؤ درحاليكہ آپ كو خداوند متعال كى مكمل مراقبت اور محافظت حاصل ہے_

۴_ حضرت نوحعليه‌السلام كشتى بنانے ميں وحى كے ذريعہ تعليمات الہى اور خدائي راہنمائي سے بہرہ مند ہوتے تھے_

و اصنع الفلك بأعيننا و وحين

۵_ تاريخ بشر ميں '' كشتي'' بنانا قديم الا يام سے چلا آرہا ہے_و اصنع الفلك بأعيننا و وحين

۶_ حضرت نوحعليه‌السلام كى كشتى خاص خصوصيات كى حامل اور صنعتى اعتبار سے بے مثال اور جديد ماڈل كى تھى _

و اصنع الفلك بأعيننا و وحين

۱۰۴

اس كى وضاحت كرنا كہ كشتى نوح(ع) بنانے كا پروگرام خداوند عالم كى طرف سے تھا اور اس سلسلہ كے تمام امور ہر لحاظ سے اس كى زير نظر انجام پائے ہيں مذكورہ بالا تفسيركو بيان كررہا ہے_

۷_ مشيت الہي، طبيعى اور عادى اسباب كے ذريعہ جارى ہوتى ہے_و اصنع الفلك بأعيننا و و حين

يہ بات واضح ہے كہ خداوند متعال كشتى جيسے سبب كے بغير بھى حضرت نوح(ع) اور ان كے ساتھيوں كو نجات دے سكتا تھا_ پس كشتى بنانے كے حكم ميں دوراز تھے_ ايك يہ كہ خداوند متعال كائنات كے امور كوعام طور پر عادى علل و اسباب سے انجام ديتا ہے اوردوسرا مومنين كے ليے درس ہے كہ وہ اپنے ايمانى مقاصد كى ترقى كے ليے ظاہرى علل و اسباب كو بروئے كا ر لائيں اور ہميشہ غييى مدد كے منتظر نہ رہيں _

۸_ مومنين اور حضرت نوحعليه‌السلام كى نجات ،كشتى بنانے پرموقوف تھى _و اصنع الفلك انهم مغرقون

۹_كفار قوم نوح(ع) كى ہلاكت اور ان كا غرق ہونا، ان كى حتمى سرنوشت تھي_انهم مغرقون

'' انہم مغرقون '' كے جملہكى لفظ انّ كے ذريعہ تاكيد، حضرت نوح(ع) كى كافر قوم كى ہلاكت اور ان پر نزول عذاب كے حتمى ہونے كو بيان كر رہى ہے_

۱۰_ خداوند عالم نے حضرت نوح(ع) كى كافر قوم كى عاقبت (پانى كے طوفان ميں غرق ہونا) سے حضرت نوح(ع) كو خبر داركيا_انهم مغرقون

۱۱_ خداوند متعال نے حضرت نوحعليه‌السلام كو كفاركى شفاعت اور ان كى عذاب سے رہائي كى درخواست كرنے سے منع كرديا تھا_و لا تخاطبنى فى الذين ظلموأنهم مغرقون

'' لا تخاطبنى ...'' ( كہ ستمگر لوگوں كے بارے ميں مجھ سے بات نہ كرو) سے مراد عذاب كو بر طرف كرنے اور پانى كے طوفان سے نجات كى در خواست ہے كيونكہ اس پر دليل بعد والا جملہ (كيونكہ ان كو غرق كرنا حتمى ہے) ہے_

۱۲_ خداوندتعالى كى حتمى قضاميں حتى پيغمبروں كى دعا و شفاعت اثر نہيں ركھتى _و لا تخاطبنى فى الذين ظلموأنهم مغرقون

۱۳_ غير خدا كى عبادت ، پيغمبروں كى رسالت سے انكار

۱۰۵

اور ان كے الہى پيغام كى مخالفت كرنأظلم ہے_و لا تخاطبنى فى الذين ظلموا

'' الذين ظلموا'' سے مراد وہى مشركين اور منكرين رسالت حضرت نوحعليه‌السلام ہيں _

۱۴_ كفار اور ستمگر لوگوں كا دنياوى عذاب ميں گرفتار ہونے كا خطرہ ہے_و لا تخاطبنى فى الذين ظلموأنهم مغرقون

۱۵_(عن المفضل بن عمر قال : قلت (لابى عبدالله ) : جعلت فداك فى كم عمل نوح سفينه حتى فرغ منها؟ قال : فى دورين ؟ قلت : و كم الدورين ؟ قال ثمانين سنة ...(۱) مفضل بن عمر كہتا ہے كہ ميں نے امام جعفر صادق(ع) سے عرض كى ميں آپ پر قربان ہو جاؤں حضرت نوحعليه‌السلام نے كتنى مدت ميں اپنى كشتى كو بنايا اور كب بنا كر فارغ ہوئے؟آپعليه‌السلام نے فرمايا دوا دوار ميں _ ميں نے پھر عرض كى دو دور كتنى مدت ہے؟ فرمايا ۸۰ سال ...''

اعداد :۸۰ كا عدد ۱۵

انبياء :انبياء سے مخالفت ظلم ہے ۱۳;انبياء كى تكذيب ظلم ہے۱۳

خدا :اوامر الہى ۱; تائيدات الہى ۳; تعليمات الہى ۴; خداوند متعال كى سنتيں ۷; قضاء الہى كا حتمى ہونا ۱۲; مشيت الہى كے جارى ہونے كے مقامات۷; نواھى الہى ۱۱

دعا :دعا اور قضا الہى ۱۲; دعا كى تاثير كے شرائط ۱۲

روايت ۱۵

شرك:عبادت ميں شرك ظلم ہے۱۳

شفاعت :شفاعت اور قضا ء الہى ۱۲;شفاعت كى تاثير كے شرائط۱۲

صنعت :صنعت كى تاريخ ۵

ظالمين :ظالمين اور دنياوى عذاب ۱۴

ظلم :ظلم كے موارد ۱۳

عبادت :

____________________

۱) كافى ج ۸ص ۲۸۰ح ۴۲۱_ تفسير البرہان ج ۲ص ۲۱۷ح ۸_

۱۰۶

غير خدا كى عبادت ظلم ہے ۱۳

عذاب :اہل عذاب ۱۴

عوامل طبيعى :عوامل طبيعى كا كردار ۷

قوم نوح :قوم نوح كا حتما غرق ہونا ۹; قوم نوح كا غرق ہونا ۱۰; قوم نوح كى شفاعت سے ممانعت ۱۱

كافرين:كفار اور دنياوى عذاب ۱۴; كافروں كى شفاعت سے منع كرنا ۱۱

كشتى سازي:كشتى سازى كى تاريخ ۵

نظام عليت :۷

نوحعليه‌السلام :حضرت نوحعليه‌السلام اور قوم نوح كا كفر ۱;حضرت نوحعليه‌السلام اور نجات قوم نوح ۱۱; حضرت نوحعليه‌السلام كا علم ۲; حضرت نوح(ع) كاقصہ۱،۲،۳،۹;حضرت نوح كا معلم ہونا ۴; حضرت نوح كو منع كرنا ۱۱; حضرت نوح كو وحى كرنا ۴،۱۰;حضرت نوح(ع) كى تائيد ۳; حضرت نوح(ع) كى كشتى كى اہميت ۸; حضرت نوحعليه‌السلام كى كشتى سازى ۱،۳،۴; حضرت نوحعليه‌السلام كى كشتى ۲; حضرت نوحعليه‌السلام كى كشتى بنانے كى مدت ۱۵; حضرت نوح(ع) كے پيرو كاروں كى نجات كا ذريعہ كشتى ۲،۳;حضرت نوحعليه‌السلام كى خصوصيات ۶

آیت ۳۸

( وَيَصْنَعُ الْفُلْكَ وَكُلَّمَا مَرَّ عَلَيْهِ مَلأٌ مِّن قَوْمِهِ سَخِرُواْ مِنْهُ قَالَ إِن تَسْخَرُواْ مِنَّا فَإِنَّا نَسْخَرُ مِنكُمْ كَمَا تَسْخَرُونَ )

اور نوح كشتى بنا رہے تھے اور جب بھى قوم كى كسى جماعت كا گذر ہوتا تھا تو ان كا مذاق اڑاتے تھے _ نوح نے كہا كہ اگر تم ہمارا مذاق اڑائو گے توكل ہم اسى طرح تمھارا بھى مذاق اڑائيں گے (۳۸)

۱_ حضرت نوحعليه‌السلام نے خداوند متعال كے حكم سے كشتى بنانا شروع كي_و اصنع الفلك و يصنع الفلك

كلام عرب ميں كبھى فعل مضارع كو فعل ماضى كى

۱۰۷

جگہ پر استعمال كيا جاتا ہے يعنى گذشتہ واقعات كى اس طرح تصوير كشى كرنا كہ گويا وہ مخاطب كے سامنے ابھى رو نما ہوئے ہوں يہى وجہ ہے كہ آيت شريفہ ميں ''يصنع'' كا فعل '' صنع '' كى جگہ پر استعمال ہوا ہے_

۲_حضرت نوحعليه‌السلام كى كشتى بنانے كى جگہ عمومى راستہ كے قريب اور منظر عام پر تھى _و يصنع الفلك و كلما مر عليه ملأ من قومه

۳_ كفار جب حضرت نوحعليه‌السلام كے سامنے آتے تو كشتى بنانے كى وجہ سے ان كا مذاق اڑاتے اور مسخرہ كرتے تھے_

و يصنع الفلك و كلما مر عليه ملا من قومه سخروا منه

۴_ كفارجب گروہ در گروہ اور اجتماعى صورتميں حضرت نوحعليه‌السلام كے سامنے آتے تو كشتى بنانے كى وجہ سے ان كا مذاق اڑاتے تھے_كلما مر عليه ملا من قومه

مذكورہ بالا مطلب كا كلمہ ''ملأ'' سے استفادہ كيا گيا ہے جس كے معنى گروہ اور جماعت كے ہيں _

۵_ حضرت نوحعليه‌السلام كشتى بنانے كے حكم كو خدا سے دريافت كرنے كے بعد ہر وقت اس فرمان كو عملى جامہ پہنانے ميں معروف عمل رہے_و يصنع الفلك و كلما مر عليه ملا من قومه سخروا منه

واضح ہے كہ كفار كا مسخرہ پن،فقط اسوقت نہيں تھا كہ جب حضرت نوحعليه‌السلام كو كشتى بنانے كى جگہ ديكھتے ، بلكہ جہاں بھى ديكھتے مسخرہ كرتے ليكن يہ جملہ بتاتا ہے كہ كفار، حضرت كو اس كشتى سازى كے مكان كے علاوہ كہيں نہيں پاتے تھے يہ اس بات سے حكايت ہے كہ وہ تمام وقت وہاں مصروف عمل رہتے تھے_

۶_ خدا ئي راستے پر چلنے والے اور انبياء كے پيرو كار ہميشہكفار اور دشمنان دين كے تمسخر كا نشانہ بنتے رہے ہيں _

كلما مر عليه ملأ من قومه سخروا منه

۷_ كفار كا مسخرہ پن اور مذاق اڑانا ہرگز حضرت نوحعليه‌السلام اور ان كے پيرو كاروں كو فرمان الہى كے جارى كرنے ميں مانع نہيں ہوا _ويصنع الفلك و كلما مر عليه ملا من قومه سخروا منه

۸_ حق پرستوں كودشمنوں كى اذيت اور مسخرے پن پر صبرو استقامت كى ضرورت تھي_

و يصنع الفلك و كلما مر عليه ملأ من قومه سخروا منه

جملہ ( و يصنع الفلك و كلما مر ...) حضرت نوحعليه‌السلام اور ان كے پيرو كاروں كے صبر اور استقامت كو بتاتا ہے _ اور يہاں ذكر كرنے كا مقصد يہ ہے كہ حق پرستوں كے استقامت كے

۱۰۸

انگيزہ كو مستحكم اور انہيں صبرو استقلال كا درس دينا ہے_

۹_ حضرت نوحعليه‌السلام نے مسخرہ كرنے والوں كے جواب ميں ان كے عنقريب مسخرہ پن ميں مبتلاہونے كى خبر دى ہے _

ان تسخروا منا فانا نسخر منكم كما تسخرون

۱۰_ مسخرہ كرنے والوں كا استہزاء ،ان كے مسخرہ كرنے كى حد تك جائز ہے_ان تسخروا منا فانا نسخر منكم تسخرون

۱۱_ دشمنان دين كے جواب ميں مقابلہ بمثل كرنا جائز ہے_ان تسخروا منا فانا نسخر منكم كما تسخرون

۱۲_ حضرت نوحعليه‌السلام كے پيرو كار بھى حضرت كے ساتھ كشتى بنانے ميں مشغول تھے_

ان تسخروا منا فانا نسخر منكم

مذكورہ تفسير''منّا'' و ''انّا'' اور ''نسخر'' ميں جمع كى ضمير لانے كى بناء پر ہے_

۱۳_ انبياء كے كاموں كو ہرگز لغو و فضول خيال نہيں كرنا چاہيے اگر چہ ان كے كاموں كى دليل و توجيہ معلوم نہ ہو_

و يصنع الفلك و كلما مر عليه ملا من قومه سخروا منه

حضرت نوح عليہ السلام كى داستان ميں ( كشتى بنانے پر كافروں كا مذاق اڑانے ) كا حصّہ چند نكات كو متضمن ہے _ ان ميں سے ايك يہ ہے كہ پيغمبروں كے كاموں اور فرامين الہى كو عام لوگوں كے كام سے مقايسہ اور ان پر تنقيدنہيں كرنا چاہيے جسطرح اشراف قوم نوح نے يہ ديكھا كہ ہمارے نزديك تو كوئي دريا نہيں ہے اور انكا اپنى زندگى ميں كشتى بنانا ايك لغو اور بے ہودہ كام ہے اور اسكا مذاق اڑاتے تھے_

۱۴_عن ابى عبدالله عليه‌السلام فلما ا تى عليهم تسعماه سنة هَمَّ ا ن يدعو عليهم ...فا مره الله عزوجل ان يغرس النخل فلما ا تى لذلك خمسون سنة و بلغ النخل و استحكم ا مر بقطعه ...فا مره الله ا ن ينحت السفينة و ا مر جبرئيل عليه‌السلام ا ن ينزل عليه و يعلمه كيف يتخذها فقدر طولها فى الا رض ا لفاً و ما تى ذراع و عرضها ثمانمأة ذراع و طولها فى السماء ثمانون ذراعاً (۱)

امام جعفر صادق عليہ السلام سے روايت ہے جب ۹۰۰ نوسو سال قوم نوح كے گزر گئے ( اور حضرت نوح كى تبليغ كا كوئي اثر نہ ہوا ) تب حضرتعليه‌السلام نے ان پر نفرين كى تو انہيں حكم الہى ہوا _ كجھور كا درخت لگاؤ_ اس كے بعد ( ۵۰) پچاس سال گزر گئے درخت كامل اور محكم ہوگيا حضرتعليه‌السلام كو اس كے

____________________

۱) تفسير قمى ج ۱، ص۳۲۵; نور الثقلين ۲;ص۳۵۰_ ح۶۷_

۱۰۹

كاٹنے كا حكم ہواتب يہ حكم ہوا كہ كشتى بناؤ_ جبرائيلعليه‌السلام ، حضرت نوحعليه‌السلام پر نازل ہوئے تا كہ حضرت(ع) كو كشتى بنانا سكھائيں اسوقت جناب جبرائيل(ع) نے كشتى كى لمبائي ايك ہزار دوسو ذراع اور چوڑائي آٹھ سو ذراع اور اونچائي اسّى راع معيّن فرماتي_

۱۵_عن ابى عبدالله عليه‌السلام فى حديث قال بعد ما قرا قوله تعالى كلما مرّا عليه ملأمن قومه سخروا منه ...'' كانوا يسخرون منه و يقولون ينحت سفينة فى البر سخروا منه (۱)

امام صادقعليه‌السلام نے اس مذكورہ آيت كى تلاوت كرنے كے بعد فرمايا: حضرت نوحعليه‌السلام كا ان كى قوم مذاق اڑاتى اور كہتى تھى كہ خشكى پر كشتى بنارہا ہے_

۱۶_عن ابى عبدالله عليه‌السلام قال: بقى نوح فى قومه ثلاثماة سنة يدعوهم الى الله فلم يجيبوه فا مره الله ا ن ينحت السفينة فقال: يا ربّ من يعيننى على اتخاذها؟ فا وحى الله اليه ناد فى قومك من ا عاننى عليها و نجرَ منها شي اً صار ما ينجره ذهباً و فضة فنادى نوح عليه‌السلام فيهم بذلك فا نوه عليها ..(۲)

امام صادق(ع) فرماتے ہيں كہ حضرت نوحعليه‌السلام نے اپنى قوم ميں (۳۰۰) تين سو سال تبليغ كى ليكن وہ ايمان نہ لائے تب خداوند متعال نے كشتى بنانے كا حكم ديا پھر حضرت نوحعليه‌السلام نے عرض كى پروردگا ر كشتى بنانے ميں كون ميرى مدد كرے گا ؟ حكم ہوا اپنى قوم كو بلاؤ اور كہو كشتى بنانے ميں ميرى كون مدد كون كر ے گا؟ لكڑى كاجو تراشہ بچے گا وہ تراشہ سونا و چاندى بن جائے گا نوحعليه‌السلام نے لوگوں كو جب يہ بتايا تو انہوں نے كشتى بنانے ميں حضرتعليه‌السلام كى مدد كى _

۱۷_عن ابى عبدالله عليه‌السلام ( فى حديث) فعمل نوح سفينة فى مسجدالكوفة بيده (۳)

حضرت امام صادق عليہ السلام فرماتے ہيں حضرت نوحعليه‌السلام نے كشتى كو اپنے ہاتھ سے مسجد كوفہ ميں بنايا_

احكام :۱۰،۱۱

استہزاء :استہزاء كے احكام ، ۱۰; جائز استہزاء ،۱۰

____________________

۱) تفسير قمى ج۱، ص ۳۲۶; نور الثقلين ج ۲،ص ۳۵۰ ح ۶۷_

۲) تفسير قمي، ج۱ ص ۳۲۵; نورالثقلين ج۲، ص ۳۵۰ ح ۶۷_

۳) كافى جلد۸، ص۲۸۰، ح ۴۳۱، نورالثقلين ج۲، ص ۳۵۴، ح ۷۴

۱۱۰

استہزاء كرنے والے :استہزاء كرنے والوں كامذاق اڑانا ۱۰; مذاق اڑانے والوں كا برا انجام ،۹; مذاق اڑانے والوں كے ساتھ مقابلہ بمثل كرنا ،۱۰

انبياصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :انبياصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا منزّا ہونا ،۱۳; انبياءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى تعليمات كى اہميت۱۳; انبياصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ء كے پيروكاروں كا استہزاء ،۶; انبياءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے كاموں كى اہميت ،۱۳

حق كے طالب :طالبان حق كى استقامت كى اہميت ،۸

خدا:اوامر الہى ،۱،۵،۱۴

دشمنوں :دشمنوں كى اذيتوں پر استقامت ،۸; دشمنوں كے ساتھ مقابلہ بالمثل كرنا ،۱۱; دشمنوں كے مذاق اڑانے پر استقامت ،۸

دين :دشمنان دين كا مذاق اڑانا ۶; دشمنان دين كے ساتھ پيش آنے كا طريقہ ۱۱

روايت :۱۴، ۱۵، ۱۶، ۱۷

سالكان:سالكان كا مذاق اڑانا ۶

قوم نوح :قوم نوح كا برا انجام ۹; قوم نوحعليه‌السلام كا مذاق اڑانا ۳،۴،۱۵

كافرين:كافروں كا مذاق اڑانا۶

مسجد كوفہ :۱۷

مقابلہ بہ مثل:مقابلہ بہ مثلكا جائز ہونا۱۱

نوح(ع) :حضرت نوحعليه‌السلام اور مذاق اڑانے والے ۹; حضرت نوح(ع) اور قوم نوح كا مذاق اڑانے والے ۷; حضرت نوح(ع) كا اپنى ذمہ دارى كونبھانا۵،۷; حضرت نوحعليه‌السلام كا قصّہ:۱،۲،۳،۴،۵،۷،۱۲،۱۴،۱۵، ۱۶;حضرت نوحعليه‌السلام كا كشتى بنانا ۱،۳،۴،۵، ۱۲، ۱۴، ۱۵،۱۶;حضرت نوح(ع) كا مذاق اڑايا جانا ۳،۴،۱۵ ; حضرت نوح(ع) كى پيش گوئي ۹;حضرت نوحعليه‌السلام كى ذمہ دارى ۱۴; حضرت نوح(ع) كى كشتى بنانے كى جگہ ۲، ۱۷; حضرت نوحعليه‌السلام كے پيرو كار اور قوم نوح كا مذاق اڑانا ۷;حضرت نوحعليه‌السلام كے پيروكاروں كا كشتى بنانا۱۲

۱۱۱

آیت ۳۹

( فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ مَن يَأْتِيهِ عَذَابٌ يُخْزِيهِ وَيَحِلُّ عَلَيْهِ عَذَابٌ مُّقِيمٌ )

پھر عنقريب تمھيں معلوم ہوجائے گا كہ جس كے پاس عذاب آتا ہے اسے رسوا كرديا جاتا ہے اور پھر وہ عذاب دائمى ہى ہوجاتا ہے (۳۹)

۱_ حضرت نوحعليه‌السلام نے اپنى قوم كے كفار كو دنيا اور آخرت كے عذاب ميں گرفتار ہونے كى خبر دي_

فسوف تعلمون من يا تيه عذاب يخزيه و يحّل عليه عذاب مقيم

اس پر توجہ كرتے ہوئے كہ كلمہ ( عذاب ) كا تكرار اور دوسرے عذاب ميں ہميشگى كى صفت كا ذكر ہوا ہے اس سے يہ معلوم ہے كہ ( عذاب يخزيہ) سے دنيا وى عذاب مراد ہے اور ''عذاب مقيم'' سے جہنم كى آگ مراد ہے_

۲_قوم نوح كے كفار كا دنياوى عذاب ان كو ذليل و خوار اور ہلاك كرنے والا تھا _من يا تيه عذاب يخزيه

( اخزاء) (يخزيہ) كا مصدر ہےجو ذليل و خوار اور ہلاك كرنے كے معنى ميں آتا ہے _

۳_كفار كااخروى عذاب، دائمى اور ہميشہ رہنے والا ہے_

حلول ( يحلّ) كا مصدر ہے جو نيچے آنے كے معنى ميں ہے _ ( مقيم) (اقام بالمكان )سے ليا گيا ہے جسكا معنى آيا اور ہميشہ كے ليے رہ گيا ہے پس عذاب مقيم كا معنى باقى رہنے والا اور زوال ناپذير عذاب ہے_

۴_ كفار لوگ، حضرت نوحعليه‌السلام اوران كے پيروكاروں كے كشتى بنانے كو بے جااور تحميل شدہ عذاب اور باعث شرمسارى سمجھتے تھے _يصنع الفلك ...فسوف تعلمون من يا تيه عذاب يخزيه

عذاب:آخرت كے عذاب كى خصوصيات ۳ ; ذلت آميز عذاب ۲; عذاب آخرت كا دائمى ہونا ۳; عذاب كا وعدہ ۱; عذاب كے درجات۲

قوم نوح(ع) :

۱۱۲

قوم نوح اور كشتى نوحعليه‌السلام ۴; عذاب قوم نوح كى خصوصيات ۲; قوم نوح كا اخروى عذاب ۱; قوم نوح كا دنياوى عذاب ۱،۲; قوم نوح كى ہلاكت ۲

كافر:كافروں كا اْخروى عذاب ۳

حضرت نوحعليه‌السلام :حضرت نوحعليه‌السلام كى پيشگوئي ۱

آیت ۴۰

( حَتَّى إِذَا جَاء أَمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّورُ قُلْنَا احْمِلْ فِيهَا مِن كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَأَهْلَكَ إِلاَّ مَن سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ وَمَنْ آمَنَ وَمَا آمَنَ مَعَهُ إِلاَّ قَلِيلٌ )

يہاں تك كہ جب ہمارا حكم آگيا اور تنور سے پانى ابلنے لگا تو ہم نے كہا كہ نوح اپنے ساتھ ہر جوڑے ميں سے دو كولے لو اور اپنے اہل كو بھى لے لو علاوہ ان كے جن كے بارے ميں ہلاكت كا فيصلہ ہوچكا ہے اور صاحبان ايمان كو بھى لے لو اور ان كے ساتھ ايمان والے بہت ہى كم تھے _(۴۰)

۱_ طوفان كے آنے تك كشتى نوح(ع) كى بناوٹ اور كفار سے لفظى جنگ جارى رہى _

يصنع الفلك و كلّما مرّ عليه حتى اذا جاء امرنا

(حتى ) كا لفظ گزارشات اور حقائق كى غايت كے ليئے استعمال ہوا ہے لہذا اس سے پہلے والى آيت ميں (كشتى كابنانا، كافروں كا مسخرہ كرنا، اور حضرت نوحعليه‌السلام كا جواب دينا يہ سلسلہ جارى و سارى رہا كہ يہاں تك

۲_ طوفان نوحعليه‌السلام كا واقعہ بہتہى عظيم اور حكم خداوندى سے وجود ميں آيا تھا_حتى اذا جاء ا مرنا

(أمر) سے مراد عذاب ہے _ اور ا س كا (نا) كى طرف اضافہ اس عذاب ( طوفان) كى عظمت كو بيان كررہا ہے لفظ ( امر) كا عذاب كى جگہ پر لانا يہ بتاتا ہے كہ يہ عذاب، فرمان الہى كے سبب تھا _

۳_ خداوند متعال نے كشتى ميں سوار ہونے اور مال كو

۱۱۳

لادنے كا وقت معين فرمايا_حتى اذا جاء امرنا و فار التّنور قلنا احمل فيه

۴_ حكم خدا سے نزول عذاب كے وقت پانى كا شدت كے ساتھ مخصوص تنور سے جوش مارنا _

حتى اذا جاء ا مرنا و فار التّنور

فارسى زبان ميں ( تنور) كا لفظ بغير شد كے تلفظ ہوتا ہے _ تنور اس جگہ كو كہتے ہيں جہاں روٹى پكائي جاتى ہے _(فوران) فار كا مصدر ہے _ اسكا معنى باہر آنا اور پھوٹنا ہے _ تولفظ تنور كو (پھوٹنے ) كے ساتھ نسبت مثل ( جرى الميزاب) كے ہےيہ شدت سے پانى كے نكلنے كو بتاتا ہے( التّنور) كا الف لام عہد ذہنى ہے اور اس سے ايك مخصوص تنور كا ارادہ كياگيا ہے _

۵_ تنور سے پانى كاجوش مارنا ،طوفان نوح(ع) كے حادثہ كى علامات اور ابتداء تھي_

حتى إذا جاء ا مرنا و فار التّنور قلنا احمل

۶_ مختلف حيوانات كو كشتى ميں سوار كركے انہيں غرق ہونے سے نجات دينا ، عذاب طوفان كى ابتداء ميں ہى حضرت نوح(ع) كا وظيفہ تھا_قلنا احمل فيها من كل زوجين اثنين

۷_ حضرت نوحعليه‌السلام كى ذمہ دارى تھى كہ ہر قسم كے حيوانات ميں سے ايك جوڑا ( نر و مادہ ) كو كشتى ميں سوار كريں _

قلنا احمل فيها من كل زوجين اثنين

لفظ'' كل'' كا مضاف اليہ كلمہ'' حيوان ''ہے يعنى كلمہ ( اثنين) زوجين كے ليے تاكيد ہے اس معنى كى طرف اشارہ كرتا ہے كہ ہر كشتى ميں حيوانات ميں سے ايك جوڑے سے زيادہ سوارنہ كيا جائے _

۸_ حيوانات كو نابود ى اور ختم ہونے سے بچانا ضرورى ہے _قلنا احمل فيها من كل زوجين اثنين

مذكورہ معنى اس بات كى تصريح ہے كہ حضرت نوحعليه‌السلام كے ليے ضرورى تھا كہ حيوان كا ايك جوڑا ( نر و مادہ) اپنے ساتھ لے چليں ، ظاہراً اس كے علاوہ اس كا كوئي مقصد نہيں تھاكہ نسل حيوانات باقى اور نابود نہ ہو _

۹_ حضرت نوحعليه‌السلام كى كشتى غير معمولى طور پر عظيم اور بڑى تھى _قلنا احمل فيها من كل زوجين اثنين

كشتى پر ہر حيوان كے ايك جوڑ ے كے سوار ہونے كى گنجائش سے معلوم ہوتا ہے كہ وہ كشتى غيرمعمولى طور پر عظيم اور بڑى تھي_

۱۰_ حضرت نوحعليه‌السلام كے زمانے كا طوفان، بہت وسيع اور عالمگير تھا _قلنا احمل فيها من كل زوجين اثنين

اگر حضرت نوحعليه‌السلام كا طوفان ايك مخصوص علاقہ كے ليے ہوتا تو ضرورى نہيں تھا كہ ہر قسم كے حيوان كو

۱۱۴

كشتى ميں سوار كيا جاتا تا كہ ان كى نسل منقرض اور نابودى سے بچ جائے كيونكہ اكثر حيوانات مختلف علاقوں ميں پائے جاتے ہيں _ اس بناء پر كم از كم طوفان نوح(ع) بر اعظم ايشاء كے بہت بڑے حصّہ كو گھيرے ہوئے تھا_

۱۱_حضرت نوحعليه‌السلام خدا كى طرف سے اپنےخاندان كو نجات دينے اور ان كو كشتى پر سوار كرنے كے پابند تھے_

قلنا احمل فيها اهلك -( أہل) كا لفظ ( أہلك ) ميں ( زوجين) پر عطف ہے اور حقيقت ميں ( احمل) كا مفعول ہے _

۱۲_ حضرت نوحعليه‌السلام كے گھر كے كچھ افراد ( زوجہ اور بيٹا ) كافر اور رسالت كو جھٹلانے والے تھے _

و ا هلك الّا من سبق عليه القول -( القول)ميں الف لام ،عہد ذكرى يا عہد ذہنى ہے اور يہ جملہ (لاتخاطبنى فى الذين ظلموأنهم مغرقون /۳۷) كى طرف اشارہ كرتا ہے اس بناء پر(الّا من ...) ( مگر وہ لوگ كہ جن كے كفر و ظلم كے وجہ سے ہم نے انكو غرق كرنے كا حكم جارى كيا) كے بارے ميں مفسرين قائل ہيں كہ ''من سبق'' سے مراد حضرت نوح(ع) كى زوجہ (واعلہ) اور ان كا بيٹاكنعان تھا_

۱۳_ خداوند متعال نے حضرت نوحعليه‌السلام كو اپنے كافر اہل و عيال كو كشتى نجات پر سوار كرنے سے منع فرمايا _

احمل فيها اهلك الا من سبق عليه القول

۱۴_ حضرت نوح(ع) كے خاندان كے بعض افراد كى ہلاكت اور ان كاغرق ہونا تقديرالہى تھا_

و اهلك الا من سبق عليه القول

۱۵_ انبياء كے ساتھ خاندانى رشتہ دارى ( نسبى يا سببى ) عذاب الہى سے نجات ميں مؤثر نہيں ہوتى ہے_

و اهلك الا من سبق عليه القول

۱۶_ دين اسلام ميں مقرّر شدہ حدود اور سزاؤں كے سلسلہ ميں انسانوں كے حسب و نسب كا لحاظ كرنے سے اجتناب كرنا ضرورى ہے_و اهلك الا من سبق عليه القول

جملہ ''احمل فيہا اہلك الا من سبق عليہ القول '' حضرت نوحعليه‌السلام كى داستان كا يہ حصّہ اس پيغام كا حامل ہے كہ صاحب منصب حتى انبياء كواپنےقريبى داشتہ داروں كو سزا دينے سے چشم پوشى نہيں كرنى چاہے_

۱۷_ حضرت نوح،عليه‌السلام مومنين كو كشتى پر سوار كرنے اور ان كو طوفان سے نجات دينے پر مامور تھے_و ما امن معه الا قليل-- لفظ '' قليل'' مؤمنين كى كم تعدا د ہونے كو بتاتا ہے قرآن ميں لفظ '' منہم '' سے مؤمنين كو مشخصنہ كرنا اس نكتہ كى طرف اشارہ ہے كہ مومنين كى ذاتى اعتبار سے تعداد كم تھى نہ كہ كفار سے نسبت ديتے ہوئے اسى وجہ سے لفظبہت( زيادہ) كے ذريعہ مومنين كى قلت پر تاكيد بيان ہوئي ہے_

۱۱۵

۱۸_قوم نوحعليه‌السلام ميں سے بہت ہى كم تعداد خدا كى وحدانيت پر ايمان لائي اور اس نے رسالت نوحعليه‌السلام كو قبول كيا_

واهلك الا من سبق عليه القول

۱۹_عن ابى عبدالله عليه‌السلام قال : لما اراد الله عزوجل هلاك قوم نوح عقم ارحام النساء اربعين سنة فلم يولد فيهم مولود فلما فرغ نوح من اتخاذ السفينة امره الله ان ينادى بالسريانيه لا يبقى بهيمة و لا حيوان الا حضر(الى ان قال) فصاحت امراته لما فارالتنور فجاء نوح الى التنور فوضع عليها طينا و ختمه حتى ادخل جميع الحيوان السفينه ثم جاء الى التنور ففضّ الخاتم و رفع الطين (۱)

امام جعفر صادق(ع) سے روايت ہے جب خداوند متعال نے قوم نوح(ع) كو ہلاك كرنے كا ارادہ كيا تو چاليس سال تك ان كى عورتوں كو عقيم ركھاجس كے نتيجہ ميں ان سے كوئي اولاد نہ ہوئي_ جب حضرت نوحعليه‌السلام كشتى بناچكے تو حكم خدا ہوا كہ سريانى زبان ميں يہ آواز ديں كہ كوئي چوپائے حيوان ميں سے باقى نہ رہے_مگر ہر چوپايا حاضر ہوجائے جب تنور سے پانى پھوٹنے لگا تو نوح(ع) كى زوجہ نے فرياد بلند كى تب حضرت نوحعليه‌السلام تنور كے قريب آئے اور تنور كو مٹى سے سر بمہر كرديا تا كہحيوانات كو كشتى ميں سوار كر سكيں پھرتنور كى طرف آئے اور مہر كو ختم كرنے كے بعد اس سے مٹى كو اٹھاليا_

۲۰_عن الى جعفر عليه‌السلام قال ( فى وصف مسجد الكوفه) و منه فار التنور (۲)

جب امام باقرعليه‌السلام سے مسجد كوفہ كے اوصاف كے بارے ميں پوچھا گيا تو فرمايا كہ مسجد كوفہ كى ايك فضيلت يہ بھى ہے كہ تنور اس مسجد سے پھوٹا_

۲۱_عن ابى عبدالله عليه‌السلام فقال جائت امرئة نوح اليه و هو يعمل السفينة فقالت له : ان التنور قد خرج منه ماء فقام اليه مسرعاً حتى جعل الطبق عليه فختمه بخاتمه فقالم الماء ،فلمافرغ نوح من السفينة جاء الى خاتمه ففضّه و كشف الطبق ففار الماء (۳)

امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے جب حضرت نوحعليه‌السلام كشتى بنانے ميں مشغول تھے تو ان كى بيوى ان كے پاس آئي اور كہا تنور سے تو پانى نكل رہا ہے_ تو حضرت نوح(ع) جلدى سے تنور كے سرے پر تشريف لے گئے اور اس كے اوپر ڈھكنا ركھا اور اپنى مخصوص مہر سے اس پر مہر لگا دى اس وقت پانى رك گيا _ جب كشتى بناچكے تو اپنى مہر كوتوڑ د يا اور

____________________

۱) تفسير قمى ج۱ص۳۲۶، بحار الانوار ج ۱۱ص ۳۱۲ح۶_۲) كافى ج ۳ص ۴۹۳ح۹، تفسير عياشى ج۲ص ۱۴۷ح۲۳

۳) تفسير عياشى ج۲ ص ۱۴۷،ح ۲۲_ نور الثقلين ج۲ص ۳۵۶ح۸۳_

۱۱۶

تنور كے سرسے ڈھكنے كو ہٹاديا پھر پانى جوش مارنے لگا _

۲۲_عن الى عبدالله عليه‌السلام قال : حمل نوح عليه‌السلام فى السفينه الا زواج الثمانيه التى قال الله عزوجل :( ثمانية ازواج من الضان اثنين و من المعز اثنين و من الابل اثنين و من البقر اثنين ) فكان من الضان اثنين زوج داجنة يربيها الناس و الزوج الاخر الضان التى تكون فى الجبال الوحشية و من المعز اثنين زوج داجنة و الزوج الا الظبى التى تكون فى المفاوز و من الابل اثنين البخاتى و العراب و من البقر اثنين زوج داجنة للناس والزوج الاخر البقر الوحشية

امام جعفر صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كہ حضرت نوحعليه‌السلام نے آٹھ جوڑوں كو خد ا كے حكم كے مطابق كشتى ميں سوار كيا ''ثمانيہ ازواج من الضان اثنين ...'' پھينس كا جوڑا ، اور ايك وحشى جوڑا تھا جو پہاڑوں ميں ہوتے ہيں بكرى كے بھى دو جوڑے تھے_ ايك پالتو جوڑا اور ايك جنگلى جوڑا ، اور ايك جوڑا ہرن كا جو بيابان ميں زندگى گزارتا ہے_ اور اونٹ كے بھى دو جوڑے ايك بخاتى نسل كا(خراسانى اونٹ جو عربى اونٹ اور فالج اونٹ سے وجود ميں آئے)ہے اور ايك عربى اونٹ كا جوڑا اور گائے كے بھى دو جوڑے ايك پالتو اور دوسرا وحشى جوڑا_(۱)

۲۳_عن ابى عبدالله عليه‌السلام لما اراد الله عزّوجل هلاك قوم نوح كان الذين آمنوا به من جميع الدنيا ثمانين رجلاً فقال الله عزوجل ( و ما آمن معه الا قليل ...) (۲)

امام جعفر صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كے جب خداوند عزوجل نے قوم نوح كو ہلاك كرنے كا ارادہ كيا تو پورى دنيا ميں ان پر ايمان لانے والے (۸۰) مرد تھے_ پس خداوند عزوجل نے فرمايا(... و ما آمن معه الا قليل )

۲۴_عن ابى عبدالله عليه‌السلام ... و كانت لنوح ابنة ركبت معه فى السفينه (۳)

امام جعفر صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كہ حضرت نوحعليه‌السلام كى ايك لڑكى تھى جو حضرت كے ساتھ كشتى ميں سوار ہوئي _

اعداد :آٹھ كا عدد۲۲; اسى كا عدد ۲۳

انبياء :

____________________

۱) كافى ج ۸ص ۲۸۴ح۴۲۷_ نور الثقلين ج ۲ص ۳۵۸ح۹۱_

۲) تفسير قمى ج ۱ص ۳۲۷_ نور الثقلين ج ۲ ص ۳۵۷ح ۸۵_

۳) تفسير قمى ج ۱ ص۳۲۸_ نور الثقلين ج ۲ص۳۷۰ ح۱۴۳_

۱۱۷

انبياء كے ساتھ رشتہ دارى ۱۵

پانى :پانى كا تنور سے پھوٹنا ۴،۵

جزاء :جزا ء ميں عدالت كرنا ۱۶

حيوانات :حيوانوں كا جوڑا ۷; حيوانات كى حفاظت كرنے كى اہميت۸; حيوانات كى نسل كى بقائ۸

خدا :اوامرالہى ۲،۳،۴;مقدرات الہى ۱۴; نواہى پروردگار ۱۳

دين :دين كى تعليمات ۱۶

رشتہ دارى :رشتہ دارى اورسزا ۱۶; رشتہ دارى اورمجازات ۱۶

روايت :۱۹،۲۰،۲۲،۲۳،۲۴

سزا:سزا كا قانون ۱۶; سزا ميں عدالت كرنا ۱۶

عذاب :عذاب سے نجات كے اسباب ۱۵

قوم نوح :قوم نوح كا عذاب ۴،۱۹;قوم نوح كے ساتھ مجادلہ ۱; قوم نوح كے مؤمنين كى نجات ۱۷; قوم نوح ميں موحدين كى كمى ۱۸//كفار : ۱۲//مسجد كوفہ :۲۰

نوحعليه‌السلام :تنور نوحعليه‌السلام كا قصہ ۴،۵،۲۰،۲۱;حضرت نوح(ع) پر ايمان لانے والوں كى كمى ۱۸ ، ۲۳; حضرت نوح(ع) كا قصہ ۱،۳،۷،۱۱ ،۱۳، ۱۴ ، ۱۷ ،۱۹، ۲۱، ۲۲، ۲۳; حضرت نوح(ع) كا مناظرہ ۱;حضرت نوح(ع) كو جھٹلانے والے ۱۲; حضرت نوح(ع) كو منع كرنا ۱۳; حضرت نوح(ع) كى كشتى ميں حيوانات ۶،۷،۲۲ ; حضرت نوح(ع) كى لڑكى ۲۴;حضرت نوح(ع) كى ذمہ دارى ۶،۷،۱۱،۱۷; حضرت نوح(ع) كى زوجہ كا كفر ۱۲; حضرت نوح(ع) كى عموميت ۱۰; حضرت نوح(ع) كى كشتى ميں سوار ہونے كا وقت ۳; حضرت نوح(ع) كے بيٹے كا كفر ۱۲ ; حضرت نوح(ع) پيروكاروں كى كمى ۱۸; حضرت نوح(ع) كے خاندان كى نجات۱۱،۱۳; حضرت نوح(ع) كے طوفان كا عظيم ہونا ۲; نوح(ع) كے لڑكے غرق ہونا ۱۴; زوجہ نوح(ع) اور حضرت نوح(ع) ۲۱; طوفان حضرت نوح(ع) ۱۹; طوفان نوح(ع) كى خصوصيات ۲ ،۱۰; طوفان نوح(ع) كى نشانياں ۵،۶; كشتى نوحعليه‌السلام كا عظيم ہونا۹; كشتى نوح(ع) كى خصوصيات ۹; كشتى ميں حضرت نوحعليه‌السلام كے گھر والے ۱۱; نوح(ع) اور حيوانات ۶; نوح(ع) اور قوم نوح(ع) ۱; نوح(ع) اور كافروں كى نجات ۱۳; نوح(ع) كى بيوى كى ہلاكت ۱۴; نوح(ع) كے بيٹے كى ہلاكت۱۴; ہمسر حضرت نوح(ع) كا كا غرق ہونا ۱۴

۱۱۸

آیت ۴۱

( وَقَالَ ارْكَبُواْ فِيهَا بِسْمِ اللّهِ مَجْرَاهَا وَمُرْسَاهَا إِنَّ رَبِّي لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ )

نوح نے كہا كہ اب تم سب كشتى ميں سوار ہوجائو خدا كے نام كے سہارے اس كا بہائو بھى ہے اور ٹھہرائو بھى اوربيشك ميرا پروردگار بڑا بخشنے والا مہربان ہے (۴۱)

۱_ حضرت نوحعليه‌السلام نے طوفان كے شروع ہونے اور حركت كرنے كے ابتدائي مراحل انجام دينے كے بعداپنے پيروكاروں اور گھر والوں سے چاہا كہ وہ كشتى پر سوار ہوجائيں _و قال اركبوا فيه

ايسا لگتا ہےكہ جملہ '' قال اركبوا ...'' كا كچھ ايسے جملات پر عطف ہے جو مقدر ہيں اور جملات كا اس نقل قصہ كے مقصود سے مربوط نہ ہونے كى وجہ سے ان كو بيان نہيں كيا گيا _ يعنى :''قلنا احمل فيها ففعل كذا و كذا و قال اركبوا فيها لہذا مذكورہ مطلب ميں (حركت كرنے كے ابتدائي مراحل كے انجام) كو بيان كيا گيا ہے_

۲_ حضرت نوح(ع) كى كشتى ،نام خدا كے ساتھ حركت اور نام خدا ہى سے ٹھہرتى تھي_بسم الله مجرى ها و مرسى ه

لفظ '' مجرى '' اور '' مرسى '' مصدر ميمى ہيں اور كلام ميں مبتداء واقع ہوئے ہيں _ اسى ترتيب كے ساتھ لفظ '' جرى '' كا معنى ( حركت كرنا ) اور '' ارساء '' كا معنى ( حركت سے روك دينا ہے) بسم الله ميں جوباء ہے وہ استعانت ومدد كے ليے ہے_ اور ''بسم الله '' لفظ ''مجرى ہا'' كے ليے خبر ہے_ اس صورت ميں جملہ '' بسم الله مجرى ہا ...'' كايوں معنى ہوگا كہ (حضرت نوحعليه‌السلام نے فرمايا ) اس كشتى كا چلنا اور اس كشتى كا چلنے سے ركنا بھى ، خدا كے نام سے متحقق ہوتا ہے_

۳_ خداوند متعال غفور ( بہت بخشنے والا) اور رحيم (مہربان ) ہے_ان ربى لغفور رحيم

۴_ حضرت نوحعليه‌السلام كى اپنے پيروكاروں كو تاكيد تھى كہ طوفان كے حادثے سے نجات كے ليے انہوں نے خدا كى مغفرت اور رحمت پر بھروسہ كرنا ہے_قال اركبوا فيها ان ربى لغفور رحيم

حضرت نوحعليه‌السلام كاكشتى پر سوار ہونے كے حكم كے بعد خداوند متعال كى مغفرت اور رحمت كى ياد آورى كرنے كا مقصد اس حقيقت كو بيان كرنا تھا كہ كشتى تو فقط ايك وسيلہ ہے در حقيقتنجات مہيا كرنے كا سبب مغفرت و رحمت الہى كا شامل حال ہونا ہے_

۱۱۹

۵_ حضرت نوحعليه‌السلام كے پيروكار، كشتى نجات پرسوار ہونے كے وقت اپنے گناہوں اور وعدہ خلافيوں كى وجہ سے پريشان تھے_قال اركبوا فيها ان ربى لغفور رحيم

۶_ حضرت نوحعليه‌السلام كے پيروكاروں كى حادثہ طوفان سے نجات، مغفرت اور رحمت الہيكا ايك جلوہ تھا_

قال اركبوا فيها ان ربى لغفور رحيم

۷_ حضرت نوحعليه‌السلام ،مؤمنين اور اپنے پيروكاروں كے ليے مغفرت و رحمت الہى كے شامل حال ہونے كا وسيلہ تھے_

ان ربى لغفور رحيم

اس دليل كى بناء پر كہ '' اركبوا'' نوحعليه‌السلام كے پيروكاروں كو خطاب ہے _ اور ''غفور'' ''رحيم'' كا متعلق بھى حضرت(ع) كے پيروكار ہيں ، يعنى يوں ہوگا'' ان ربى لغفورٌ لكم رحيم بكم ...'' ( خداوند متعال تم كوبخشنے والا اور تم پر رحمت نازل كرنے والا ہے) اس كلام كألازمہ يہ تھا كہ حضرت نوح(ع) فرما رہے تھے'' ربكم'' يعنى تمہارے پروردگار يہ نہيں كہا '' ربي'' يہ اس نكتہ كى طرف اشارہ كرتا ہے كہ خداوند متعال نے حضرت نوحعليه‌السلام كے پيروكاروں كو جو اپنى مغفرت اور رحمت كے سائے ميں ركھا ہے وہ حضرت نوح(ع) كے وسيلہ كے سبب تھا_

۸_ بندگان الہى كى بخشش اور ان پر رحمت الہى كا سايہ ہونا، ربوبيت خداوندى كا جلوہ ہے_ان ربى لغفور رحيم

۹_عن ابى عبدالله عليه‌السلام : ان نوحاً عليه‌السلام ركب السفينه اقل يوم من رجب (۱)

امام جعفر صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كہ حضرت نوحعليه‌السلام يكم رجب المرجب كو كشتى پر سوار ہوئے_

۱۰_عن ابى عبدالله عليه‌السلام قال : جاء رجلٌ الى امير المؤمنين عليه‌السلام و هو فى مسجد الكوفة فقال(ع) صل فى هذا المسجد منه سارت سفينة نوح ...(۲)

امام جعفر صادق(ع) سے روايت ہے كہ اميرالمؤمنينعليه‌السلام مسجد كوفہ ميں تشريف فرما تھے كہ ايك شخص حضرت

____________________

۱) خصال صدوق ،ج ۲ص۵۰۳ح۶ب۱۵_ نور الثقلين ج۲ص۳۶۰ح ۱۰۱_

۲) كافى ج ۳ص۲۹۲ح۲_ نور الثقلين ج ۲ ص ۳۶۱ح ۱۰۶_

۱۲۰