تفسير راہنما جلد ۸

تفسير راہنما 0%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 971

تفسير راہنما

مؤلف: آيت الله ہاشمى رفسنجاني
زمرہ جات:

صفحے: 971
مشاہدے: 163299
ڈاؤنلوڈ: 2624


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4 جلد 5 جلد 6 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 971 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 163299 / ڈاؤنلوڈ: 2624
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد 8

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

تفسير راہنما (جلدہشتم)

قرآنى موضوعات اور مفاہيم كے بارے ميں ايك جديد روش

مؤلف: آيت الله ہاشمى رفسنجاني اور

مركز فرہنگ و معارف قرآن كے محققين كى ايك جماعت

۳

۱۱- سورہ ہود

آیت ۱

( بسم الله الرحمن الرحیم )

( الَر كِتَابٌ أُحْكِمَتْ آيَاتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِن لَّدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ )

الر_يہ وہ كتاب ہے جس كى آيتيں محكم بنائي گئي ہيں اور ايك صاحب علم و حكمت كى طرف سے تفصيل كے ساتھ بيان كى گئي ہيں (۱)

۱_قرآن، ايك ايسى باعظمت كتاب ہے _ جسكى آيات كى صورت ميں تقسيم بندى كى گئي ہے _كتبٌ أُحكمت اياته

''كتاب'' مبتداء محذوف (ذلك ) كے ليے خبر ہے اور لفظ (كتاب) كو نكرہ اس ليئے لايا گيا ہے تاكہ اسكى عظمت بيان كى جائے ، اصل ميں عبارت اس طرح ہے _''ذلك الكتاب'' وہ كتاب جو عظيم الشان ہے _

۲_ تمام قرآنى آيات اور اسكى تعليمات متقن اور ہر قسم كے خلل و بطلان سے منزہ ہيں _كتب احكمت اياته

لفظ احكام (حكمت) كا مصدر ہے جو '' اتقان'' كے معنى ميں ہے_ '' احكمت آياتہ'' كا معنى يوں ہوگا ، كہ قرآن كى آيات كو اس طرح مہارت اور مضبوطى كے ساتھ مرتب كيا گيا ہے كہ اسميں كسى قسم كے خلل و نقص كى گنجائش نہيں ہے _

۳ _ تمام قرآنى آيات كو ايسے مترتب كيا گيا ہے كہ وہ واضح و روشن ہيں اور ان ميں كسى قسم كا ابہام و اجمال نہيں ہے_

كتب احكمت آياته ثم فضيلت

لفظ تفصيل فصلت كا مصدر ہے_ جوواضح و روشن كے معنى ميں ہے _ لہذا ''فصلّت '' سے مراد يہ ہے كہ آيات قرآن واضح و روشن ہيں اور اپنا مقصود پہنچانے ميں مجمل اور گنجلك نہيں ہيں _

۴_مطالب كا واضح و روشن ہونا ہر كتاب كى دو مناسب خصوصيات ہيں _لفظ و معنى ميں پائيدارى _

كتب احكمت آياته ثم فصلت

۵_ قرآن مجيد كى نظر ميں ايك كتاب كے مطالب كا روشن و واضح ہونا ،خاص اہميت كا حامل ہے _

كتب احكمت آياته ثم فصّلت

۴

ظاہراً آيت كريمہ ميں جو لفظ (ثم ) ذكر ہوا ہے _ ترتيب اور رتبةً متأخر ہونے كے معنى ميں ہے تأخر زمانى كے معنى ميں نہيں ہے _ تب ( ثم فصّلت) كا معنى يہ ہوگا آيات قرآنى جو اپنے مطالب و معانى ميں روشن و واضح ہيں وہ اپنے معانى ميں استحكام و پائيدارى كے سبب سے خاص خصوصيت ركھتے ہيں _

۶ _ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر قرآن مجيد نازل ہونے كے بعد اسكى كتابت كا كام _كتبٌ أحكمت آياته

قرآن مجيد كو كتاب ( يعنى مكتووب) يا تو اسوجہ سے كہا گيا ہے كہ آيات كے نازل ہونے كے بعد انہيں لكھا گيا ہے يا اس كے بارے ميں خداوند عالم كى جانب سے تاكيد كى گئي ہے كہ اسكو لكھا جائے _ بہر حال دونوں دو صورتوں ميں مذكورہ مفہوم كا استفادہ ہوتاہے_

۷_ قرآن كريم ،خداوند متعال كى طرف سے كتاب ہےكتبٌ من لدن حكيم خبير

'' من لدن ...'' ممكن ہے ، لفظ '' فصلت '' اور ''أحكمت'' كے ليئے اور ''كتاب'' كے ليئے بعى قيد ہو اس بناء پر آيت كريمہ يہ دلالت كررہى ہے_ كہ قرآن مجيد خداوند حكيم اور خبير كى طرف سے اور اس كى آيات كا مستحكم اور واضح ہونا بھى اسى كى طرف سے ہے _

۸_ خداوند متعال حكيم ايسا منتظم اعلى جو كاموں كو مستحكم طريقے سے انجام ديتاہے ( اور خبير ( جاننے والا) ہے _

من لدن حكيم خبير

۹ _ قرآن كا مستحكم اور اسكى آيات كا واضح ہونا ، خداوند متعال كے حكيم اور خبير ہونے كا ايك جلوہ ہے _

كتب احكمتآياته ثم فصلت من لدن حكيم خبير

۱۰_ خود قرآنى آيات ، اس بات پرمستحكم اور روشن دليل ہيں كہ قرآن كتاب الہى اور اسكے حقائق پر صحيح ہيں _

كتبٌ احكمتآياته ثم فضلت من لدن حكيم خبير

لفظ آيات كا لغوى معنى ''علامات اور نشانياں '' ہيں _ قرآنى جملات كو آيات كا نام دينا يہ صفت لانا كہ يہ خدائے حكيم و دانا كى طرف سے ہيں اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ آيات قرآنى ، الہى حكيمانہ اور عالمانہ ہيں _ لہذامذكورہ آيت كا اس طرح معنى كيا جاسكتاہے كہ قرآن مجيد خدا ئے حكيم و خبير كى طرف سے ہے اور اسكى ايك ايك آيت اس مدعى پر دليل ہے_ اور يہ دلالت مستحكم بھى ہے اور روشن بھى ہے_

۱۱_'' عن سفيان بن سعيد الثورى قال: قلت لجعفر بن محمد(ع) يابن رسول الله

۵

معنى قول الله عزوجل ''الر ...'' قال: الر فمعناه أنا الله الرؤوف (۱) _

سفيان بن سعيد ثورى نقل كرتے ہيں كہ ميں نے امام جعفر صادقعليه‌السلام سے عرض كى :يابن رسول الله ; خداوند عزوجّل كے قول '' ...الر ...'' كا كيا معنى ہے _ فرمايا الر كا معنى أنا الله الرؤوف ، ميں الله رؤوف و مہربان ہوں ( يعنى الف سے ا نا اور لام سے الله اور راء سے رؤوف مراد ہے )_

۱۲ _'' عن ابى جعفر عليه‌السلام قال: إن حُيى بن أخطب و أخاه أبا ياسر بن أخطب و نفراً من اليهود من أهل نجران أتوا رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : فقالوا له : أليس فيما تذكر فيما أنزل اليك '' الم'' ؟ قال: بلى ثم قال (حيي) لرسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : هل مع هذا غيره ؟ قال: نعم قال: هات قال: ''الر''قا ل: ...الألف واحد واللام ثلاثون و الراء مأتان فقال أبوجعفر(ع) : ان هذه الايات أنزلت منهن ّ آيات محكمات هنّ ام الكتاب و اخر متشابهات و هى تجرى فى وجوه اخر على غير ما تأول به حيى و ابو ياسر و اصحابه (۲) امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے _ حيى بن اخطب اور اس كے بھائي ابوياسر اور نجران كے چند يہودى رسالت مآبصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں حاضر ہوئے اور عرض كى جو آپ نزول آيات كا دعوى كرتے ہيں _ كيا ان ميں ''الم'' نہيں ہے _پھر حيى نے كہا: كيا الم كے علاوہ اور بھى كچھ ہے ؟ فرمايا :ہاں تو اس نے كہا كہ بيان كريں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا''الر''_ الف (ايك ) لام ( تيئس) را ( دو سو) ...امام باقرعليه‌السلام فرماتے ہيں : آيات قرآنى ميں كچھ آيات محكمات ہيں جو قرآن كى اساس ہيں _ اور كچھ متشابہات ہيں جن كى تاويل ہوسكتى ہے _ ليكن اس تاويل كے علاوہ جو حيى وابوياسر اور ان كے دوستوں نے كى ہے_

اسماء اور صفات :حكيم ۸ ، ۹ ; خبير ۸ ، ۹

حروف مقطعہ :حروف مقطعہ سے مراد ۱۱ ،اور ۱۲ ہيں

خداوند متعال:خداوند متعال كى حكمت كى نشانياں ۹ ، خداوند متعال كے خبير ہونے كى علامتيں ۹

روايت : ۱۱ ، ۱۲

قرآن كريم :آيات قرآنى آيات كا نقص و عيب سے پاك ہونا ۲; آيات كا مستحكم ہونا۲،۹; عظمت قرآن كريم ۱ ;

____________________

۱) معانى الاخبار ص ۲۲، ح۱;نورالثقلين ج۲ص۲۹۰ ح۲_

۲)تفسير قمى ج۱ص۲۲۳;بحار الانوار ج۸۹;ص۳۷۵ ح۲_

۶

قرآن اوردلائل وحى ۲;قرآنى آيات كى خصوصيات ۲،۳;قرآن كريم كا مكتوب ہونا۶ ; قرآن كى خصوصيات ۱،۷;قرآن كريم كى حقانيت كے دلائل ۱۰; قرآن كريم ميں محكمات كا ہونا ۱۲ ;قرآن كريم ميں متشابہات كا ہونا ۱۲ ; قرآنى آيات۱; قرآنى آيات كى حقانيت۲ ; آيات كا واضح اور روشن ہونا۳،۹;قرآنى آيات كے اثرات ۱۰;قرآنى تعليمات كى حقانيت ۲; نزول قرآن كريم ۶; قرآن كريم كا جملات ميں

كتاب:كتاب الہى كا مستحكم ہونا ۴ ، ۵ ; كتاب الہى كا واضح ہونا۴،۵ ; كتاب الہى كى خصوصيات ۴

آسمانى كتابيں :۷

آیت ۲

( أَلاَّ تَعْبُدُواْ إِلاَّ اللّهَ إِنَّنِي لَكُم مِّنْهُ نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ )

كہ اللہ كے علاوہ كسى كى عبادت نہ كرو_ ميں اسى كى طرف سے ڈرانے والا اور بشارت دينے والا ہوں (۲)

۱_خداوند عالم كى عبارت كرنا ضرورى ہے اور غير الله كى عبارت سے بچنا بھى ضرورى ہے_الا تعبدوا الاّ الله

۲ _ توحيد اور وحدہ لا شريك كى عبادت ،قرآن كريم كى روشن و مستحكم اوربنيادى تعليم ہے _

كتب أحكمت آياته ثم فصلت ا لا تعبدوا الاّ الله

''ا لاّ'' كا لفظ ''ا ن'' تفسيريہ اور '' لا'' ناہيہ سے مركب ہے اورجملہ_ ( لا تعبدوا ...) ''كتاب احكمت آياتہ ثم فصّلت '' كى تفسير ہے يعنى غير خدا كى عبادت سے منع كرنا ، قرآن كريم كى مستحكم اور واضح تعليم ہے_

تقسيم ہونا ۱ ; قرآنى آيات وحى الہى سے ۷،

۳_ غير خدا كى عبادت، برے انجام اور عذاب الہى كا سبب ہے _الاّ تعبدوا الاّ الله اننى لكم منه نذير

جملہ'' الاّ تعبدوا الا الله '' كے دو معنى ہيں _ ۱_ غير خدا كى عبادت سے منع كرنا _۲_خدا كى عبادت كو ضرورى قرار دينا (انذار) جو كہ برے انجام سے ڈرانے كے معنى ميں ہے وہ پہلے معنى سے مربوط ہے اور بشارت جو كہ خوشخبرى كے معنى ميں ہے وہ دوسرے معنى سے مربوط ہے_''لكم'' ميں جو لام ہے وہ تقويت كے ليے ہے اور ''نذيرو بشير'' كے متعلق ہے _

۴ _خداوند وحدہ لا شريك كى عبادت كا انجام نيك اور

۷

اچھاہے_اننى لكم منه بشير

۵ _مشركين كو ان كے برے انجام سے ڈرانا ،پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ذمہ دارى ہے _الاّ تعبدوا الا الله اننى لكم منه نذير

۶ _ موحدين كو اچھے انجام كى خوشخبرى دينا ،پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ذمہ دارى ہے _الا تعبدوا الا الله اننى لكم منه ...بشير

۷_ حضرت محمد مصطفىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، خداوند متعال كى طرف سے پيغمبر ہيں _

۸_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت ،قرآن كا مستحكم ، واضح ا ور بنيادى پيغام ہے_

كتب ا حكمتآياته ثم فصلت اننى لكم منه نذير و بشير

جملہ''انّنى لكم منه'' ''لا تعبدوا '' كى طرح '' كتاب احكمت'' كى تفسير ہے ، يعنى اس كتاب الہى كے پيغامات ميں سے ايك پيغام ، پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت و نبوت ہے _

انبياء الہىعليه‌السلام : ۷

بشارت :نيك انجام كى بشارت ۶

توحيد :توحيد كا مستحكم عبادت ہونا ۲ ; توحيد عبادى ۲ ; توحيد كا وضاحت سے ذكر ہونا ۲; عبادت ميں توحيد كا ہونا خوشخبرى ہے ۴ ;عبادت ميں توحيد كى اہميت ۱ ، ۲ :

شرك:عبادت ميں شرك سے پرہيز ۱; عبادت ميں شرك كا انجام ۳

عبادت:خدا كے نزديك عبادت كى اہميت ۱ ; غير خدا كى عبادت كرنے والے كى عاقبت ۳

عاقبت :اچھے كاموں كى عاقبت ۴ ;برى عاقبت سے ڈرانا ۵ ; برے كاموں كى عاقبت ۳

قرآن:قرآن كى اہم ترين تعليمات ۲،۸

محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور مشركين ۵ ;حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور موحدين ۶ ;پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى نبوت كى اہميت ۸ ; حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور نبوت ۷ ;قرآن ميں حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا ذكر ۸ ; حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ذمہ دارياں ۵ ، ۶ ; حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى

۸

نبوت كى وضاحت ۸; حضرت محمد مصطفىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خوشخبرياں ۶ ;حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے مقامات ۸; رسالت مآبصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا ڈرانا ۵

مشركين :مشركين كو ڈرانا ۵

موحدين :موحدين كو خوشخبرى دينا ۶

آیت ۳

( وَأَنِ اسْتَغْفِرُواْ رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُواْ إِلَيْهِ يُمَتِّعْكُم مَّتَاعاً حَسَناً إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ وَإِن تَوَلَّوْاْ فَإِنِّيَ أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ كَبِيرٍ )

اور اپنے رب سے استغفار كرو پھر اس كى طرف متوجہ ہوجائووہ تم كو مقررہ مدت ميں بہترين فائدہ عطا كرے گا اور صاحب فضل كو اس كے فضل كا حق دے گا اور ميں تمھارے بارے ميں ايك بڑے دن كے عذاب سے خوفزدہ ہوں (۳)

۱ _ خدا كى بارگاہ ميں اپنے گناہوں كى توبہ اور استغفار كرنا ضرورى ہے_و ان استغفروا ربكم

۲_گناہوں (غير خدا كى عبادت و ...) سے توبہ و استغفار كرنا ضرورى ہے_ يہ قرآن مجيد كا مستحكم، روشن اور بنيادى پيغام ہے_و ان استغفروا ربكم

مذكورہ جملہ ميں ''ا ن'' تفسير يہ ہے لہذا''ا ستغفروا ربكم'' '' و لا تعبدوا '' كى طرح ''كتاب احكمت ...'' كى تفسير ہے_

۳ _ گناہوں كا معاف كرنا ،خداوندعالم كى ربوبيت كا پرتو ہے_استغفروا ربكم

۴ _ خداوند عالم كى طرف توجہ اور قرب الہى حاصل كرنا ضرورى ہے_استغفروا ربكم ثم توبوا

مفسرين نے '' توبوا اليہ'' كو '' استغفروا ربكم'' پر عطف كيا ہے ظاہرى طور پر اسى پر متفق ہيں اوراس كى چندتوجيہيں بيان كيں ہيں ان ميں سے جو ہمارے نزديك بہتر ہے وہ يہ

۹

ہے كہ يہاں توبہ سے مراد خدا كى طرف رجوع اور اس كے راستے گامزن ہوناہے _ نہ يہ كہ گناہوں سے توبہ كرنا ،خدا كى راہ پر گامزن كا معنى يہ ہے كہ اسكے اوامر كى اطاعت اور اسكے نواہى سے اجتناب كياجائے_

۵ _ خداوند عالم كى عبادت، شرك سے بيزارى ، حضرت محمد مصطفى كى رسالت كا اعتقاد اور گناہوں سے استغفار ، يہ سب خدا كى طرف متوجہ ہونے اور تقرب الہى كے ليے پيش خيمہ ہيں _الا تعبدوا الا الله و ان استغفروا ربكم ثم توبوا اليه

ظاہرى اعتبارى سے ''توبوا اليه ''كا مذكورہ جملوں ''الا تعبدوا '' ، ''انّنى لكم منه '' اور''اناستغفروا '' پر عطف ہے_

۶_خداوندعالم، انسانوں كو بہترين متاع زندگى عطا كرنے والا ہے_ليمتعكم متعاً حسنا

'' تمتيع '' (مصدر يمتع) ہے _ جو بہرہ مند كرنے كے معنى ميں ہے اور متاع اس شے كو كہتے ہيں جس سے فائدہ اٹھايا جاتاہے جيسے (وسائل زندگي)_

۷_ وحدہ لا شريك ذات كى پرستش، حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت پر ايمان ، شرك اور گناہوں سے استغفار اور خداوند عزوجل كى طرف توجہ كرنا ، يہ سب خدا كى عنايت اور دنيا ميں اچھى زندگى حاصل كرنے كا ذريعہ ہيں _

الا تعبدوا الا الله و ان استغفروا ربكم ثم توبوا اليه يمتتعكم متاعاً حسنا

۸_انسان كو دنيا ميں اچھى زندگى عطا كرنا ، قرآن كريم اور اديان الہى كے اہداف ميں سے ہے_

الا تعبدوا الا الله و ان استغفروا ربكم ثم توبوا اليه يمتعكم متعاً حسنا

۹_ دنيا ميں انسان كى زندگى محدود اورمقررہ مدت تك ہے _ليمتعكم متعاً حسناً الى اجل مسمي

يہاں (مسمّي) سے مراد معين اور محدود ہے _

۱۰ _ انسان،زندگانى بشر كے خاتمے اور اپنى موت كے وقت كو معلوم كرنے سے عاجز ہے_يمتعكم متعاً حسناً الى أجل مسمّي

لفظ اجل كو نكرہ لايا گياہے جو اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ انسان كى زندگى كا وقت معين اور مقرر ہے ليكن وہ معينہ وقت ان كے ليے نامعلوم ہى رہيگا اور اسے جاننے كا كوئي راستہ بھى نہيں ہے قابل ذكر ہے كہ اجل سے مراد ہر انسان كى زندگى كا اختتام اگر چہ يہ بھى احتمال پايا جاتاہے كہ اس سے مراد دينا ميں تمام انسانوں كى زندگى كا خاتمہ ہو _

۱۱_ جس كے نيك اعمال زيادہ ہوں گے _ تو وہ خدا سے زيادہ اجر پائے گا _

۱۰

يہا ں (فضل) سے مراد دوسروں سے عمل خير كا زيادہ ہونا ہے ( فضلہ ) كى ضمير ''كل'' كى طرف لوٹتى ہے_

۱۲_ آخرت ميں اجر الہى كا استحقاق، خداوند وحدہ لاشريك كى پرستش ، شرك سے دورى ، حضرت محمد مصطفىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - كى رسالت پر ايمان اور گناہوں سے استغفار پر موقوف ہے_ا لا تعبدوا الاّ الله ..يؤت كل ذى فضل فضله

آيت سے مذكورہ مطلب كا استفادہ اس احتمال كى بنياد پر ہے كہ جملہ ''يوت ...''اخروى اجر كو بيان كررہا ہو اور جملہ ما قبل ميں '' الى اجل'' كا ہونا اور اس جملے ميں ''ا لى اجل '' كا نہ ہونا بھى اسى مطلب كى تائيد كرتاہے_

۱۳_ پاداش اخروى عدالت خدا كے مطابق ہوگى _و يؤت كل ذى فضلً فضل

۱۴ _ غير خدا كى پرستش اور عبادت ميں شرك كرنا ، قيامت كے عذاب كا سبب ہے _

الا تعبدوا الا الله و ان تولوا فانى أخاف عليكم عذاب يوم كبير

''تولّوا'' فعل مضارع ہے _ اصل ميں (تتولّوا) تھا _ تولّى اعراض كرنے كے معنى ميں ہے اس كا متعلق گذشتہ احكام سے سمجھا جاسكتاہے اس بناپر ''ان تولوا ...'' يعنى اگر وحدہ لا شريك كى عبارت و غيرہ سے اعراض كيا

۱۵ _گناہوں كو استغفار كے ذريعہ محو نہ كرنا اور خدا كى طرف متوجہ نہ ہونا، عذاب قيامت ميں گرفتار ہونے كا سبب ہے_

و ا ن استغفروا ربكم ثم توبوا اليه و ان تولوا فانى أخاف عليكم عذاب يوم كبير

۱۶_ قيامت كا دن، بڑا دن ، اوراس كاعذاب خوفناك ہے _فانى أخاف عليكم عذاب يوم كبير

ظاہرى طور پر كلہ ''كبير '' يوم كے ليے صفت ليكن حقيقت ميں اس دن كے عذاب كى بندگى كو بيان كررہاہے اسى ليے اسے خوفناك عذاب سے تعبير كيا گياہے_

۱۷_ حضرت محمد مصطفى ،صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لوگوں كے خير خواہ پيغمبر اور مشركين و گناہگار لوگوں پر آنے والے عذاب سے پريشان تھے _فانى أخاف عليكم عذاب يوم كبير

اجل:اجل مسمى (وقت معين ) ۹; موت كے وقت سے لاعلمى ۱۰

اديان :اہداف اديان الہى ۸;مختلف اديان اور اچھى زندگى ۸

۱۱

استغفار:استغفار كى اہميت ۱ ; استغفار كى اہميت كى وضاحت ۲; استغفار كے آثار ۵ ، ۷ ، ۱۲ ; ترك استغفار كے آثار ۱۵ ; شرك سے ا ستغفار ۲ ، ۷ ; غير خدا كى عبادت سے استغفار ۲ ; گناہوں سے استغفار ۱ ، ۲ ، ۵، ۷ ، ۱۲ ، ۱۵ ;

انسان :انسانوں كا عاجز ہونا ۱۰

ايمان :ايمان كے آثار ۵،۷،۱۲; حضرت محمد مصطفىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ايمان كے آثار ۵ ، ۷ ، ۱۲

اجر:اجر كے شرائط ۱۲ ; اخروى اجر ۱۲;اجر دينے ميں عدالت ۱۳ ; اجر كثرت كے عوامل ۱۱

تبرّى :شرك سے تبرى كے آثار ۵

تقرب :تقرب الہى كى اہميت ۴;تقرب الہى كے آثار ۷; تقرب الہى كے اسباب ۵

توحيد :توحيد عبادى ۷ ، ۱۲;توحيد كے آثار ۷ ، ۱۲

خدا :خداكى ربوبيت كى نشانياں ۳; خدا كى نعمتوں كا پيش خيمہ ۷ ; خداوند متعال كى نعمتيں ۶; عدالت الہى ۱۳

خدا كى طرف لوٹنا : ۱۵

خدا كى طرف پلٹنے كى آمادگي۵۰; خدا كى طرف پلٹنے كے آثار ۷ ; خدا كى طرف لوٹ جانے كى اہميت ۴

زندگى :دنياوى زندگى كا محدود ہونا ۹

شرك :شرك سے اجتناب كے آثار ۱۲ ،شرك كے آثار ۱۲;عبادت ميں شرك ۱۴

صالحين:نيك لوگوں كا اجر زيادہ ہونا ۱۱

عبادت :خدا كى عبادت كے آثار ۵;خدا كى عبادت ۵; عبادت كے آثار ۱۴; غير خدا كى عبادت ۱۴

عذاب:آخرت كا عذاب ۱۴،۱۵; آخرت كے عذاب كى خصوصيات ۱۶;عذا ب كے اسباب ۱۴ ، ۱۵

عمل صالح :نيك اعمال كے آثار ۱۱

قرآن :

۱۲

قرآن اور اچھى زندگى ۸ ; قرآن كى اہم ترين تعليمات ۲;قرآن مجيد كے اہداف ۸

قيامت :قيامت كى خصوصيات ۱۶ ;قيامت كى سختياں ۱۶ ; قيامت كى عظمت ۱۶

گناہ :گناہ كى بخشش۳

محمد مصطفىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور مشركين ۱۷ ; پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا مہربان ہونا ۱۷ ;رسالت مآب اور گناہگار افراد ۱۷ ; رسالت مآبصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى پريشاني

معاش:اچھى زندگى كى اہميت ۸ ;اچھى زندگى كے اسباب ۷; اچھى زندگى كے حصول كا سبب ۶

آیت ۴

( إِلَى اللّهِ مَرْجِعُكُمْ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ )

تم سب كى بازگشت خدا ہى كى طرف ہے اور وہ ہرشے پر قدرت ركھنے والا ہے (۴)

۱ _ تمام انسان خدا كى طرف سے ہيں _ اور اس كى طرف لوٹ كر جاناہے _الى الله مرجعكم

رجوع اسى چيز كى طرف لوٹنے كو كہتے ہيں جہاں سے آغاز ہوا ہو(مفردات راغب)_

۲ _ قيامت كا دن انسانوں كا خداوند عالم كى بارگاہ پلٹنے ميں دن ہے _فانى ا خاف عليكم عذاب يوم كبير _ الى الله مرجعكم

۳ _ اگرانسان اس طرف متوجہ ہوجائے كہ يقينا اسے خدا ہى كى طرف پلٹنا ہے تو وہ وحدہ لا شريك كى عبادت كرے گا اور غير خدا كى عبادت سے خوفزدہ بھى ہوگا_فانّى أخاف عليكم عذاب يوم كبير ، الى الله مرجعكم

''الى الله مرجعكم'' كا جملہ ''و ان تولوا فانى أخاف ...'' كى تعليل كے قائم مقام يعنى پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مشركين كے ليے اس وجہ سے پريشان ہيں كہ وہ لوگ خدا ہى كى طرف پلٹيں گے

۱۳

اور شرك كيوجہ سے عذاب ميں گرفتار ہوں گے لہذا جو بھى اس حقيقت كو قبول كرے كہ بازگشت خدا ہى كى طرف ہے تو وہ الله كے علاوہ نہ كسى كى بندگى كريگا اور نہ ہى كسى كو اس كا شريك ٹھہرائے گا_

۴ _ خداوند، عالم ہر كام كے انجام دينے پر قدرت ركھتاہے_و هو على كل شيء قدير

۵ _ معاد كا وجو د اور قيامت كا بر پا ہونا، خداوند عالم كے قادرمطلق ہونے كى بنيا دپر ہے _

فانى اخاف عليكم عذاب يوم كبير ، الى الله مرجعكم و هو على كل شيء قدير

۶ _ خداوند عزوجل كى قدرت مطلق پر يقين اور اسكى طرف متوجہ ہونا، معاد اور روز قيامت كے بارے ميں ہرقسم كے شك و شبہہ كو دور كرديتاہے_الى الله مرجعكم و هو على كل شى ء قدير

مسئلہ معاد اور روز قيامت كو بيان كرنے كے بعد خدا كى قدرت كا تذكرہ اس ليے كيا گيا ہے كہ لوگوں كو خدا كى قدرت مطلق كى طرف متوجہ كياجائے تا كہ وہ روز قيامت (جس پر نوع بشر كا عقيدہ ركھنا مشكل ہے)كے بارے ميں شك نہ كريں _

۷_ خداوند متعال ،موحدين كو اجر اور مشركين و غير خدا كى پرستش كرنے والوں كو عذاب دينے پر قادر ہے_

يمتعكم متعاً حسناً و ان تولّوا فانى أخاف عليكم عذاب يوم كبير و هو على كل شيء قدير

مذكورہ مطلب ميں جملہ ''و ہو ...''كے معني''يمتعكم متاعاً ''و''اخاف عليكم '' كے ذيل ميں بيان ہوچكے ہيں _

ا سما ء و صفات:قدير۴

انسان:انسانوں كا انجام ۱ ; انسانوں كا آغاز۱

ايمان :ايمان كے آثار ۳ ، ۶ ، خداوند عزوجل كى طرف لوٹنے پر ايمان ركھنا ۳ ; قدرت خدا پر ايمان ركھنا ۶ ; قيامت پر ايمان كے اسباب ۶ ; معاد پر ايمان كے اسباب ۶

توحيد :توحيد كى آمادگى ۳;توحيد عبادى ۳

خدا:خداوند عزوجل كى خصوصيات ۱ ; خداوند متعال كى قدرت ۴ ، ۷ ;خداوند عزوجل كى قدرت كے آثار۵

۱۴

خداوند عزوجل كى طرف لوٹنا : ۱خداوند متعال كى طرف لوٹنے كا وقت ۲

ذكر:آثار ذكر ۶ ; قدرت خداوندى كا ذكر۶

شبھہ:شبھہ كو دور كرنے كے عوامل ۶

شرك :شرك عبادى كے موانع۳

قيامت :قيامت كا حتمى طور پر واقع ہونا ۵ ; قيامت كى خصوصيات ۲

مشركين :مشركين كا عذاب ۷

معاد:معاد كا حتماً واقع ہونا۵

موحدين :موحدين كى دنيا ميں اچھى زندگى ۷

آیت ۵

( أَلا إِنَّهُمْ يَثْنُونَ صُدُورَهُمْ لِيَسْتَخْفُواْ مِنْهُ أَلا حِينَ يَسْتَغْشُونَ ثِيَابَهُمْ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّونَ وَمَا يُعْلِنُونَ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ )

آگاہ ہوجائو كہ يہ لوگ اپنے سينوں كو دہرائے لے رہے ہيں كہ اس طرح پيغمبر سے چھپ جائيں تو آگاہ رہيں كہ يہ جب اپنے كپڑوں كو خوب لپيٹ ليتے ہيں تو اس وقت بھى وہ ان كے ظاہر و باطن دونوں كو جانتا ہے كہ وہ تمام سينوں كے رازوں كا جاننے والا ہے (۵)

۱ _زمانہ بعثت كے مشركين، پروردگار سے اپنى بات چھپانے كے ليے اپنا سرگريبان ميں ڈال ليتے تھے اور پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے خلاف كى گئي سازشوں كے بارے ميں كانا پھوسى كے ذريعہ تبادلہ خيال كيا كرتے تھے_الا انهم يثنون صدورهم ليستخفوا منه

ثنّى ( مصدر يثنون ہے ) اس كے معانى ميں ايك معنى لپٹنا اور جھكاناہے''استخفائ'' كا معنى اپنے آپكو مخفى كرنا ہے اور '' منہ''كى ضمير''الله '' كى طرف لوٹ رہى ہے _ كيونكہ مشركين كا سينوں كو خم كرنے ( سركو گريبان ميں ڈالنے) كا مقصد اپنے آپكو خدا سے مخفى ركھنا تھا ( اس سے پتہ چلتاہے كہ اس انداز سے وہ پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے خلاف باتيں كرتے اور كى گئي سازشوں كے بارے ميں تبادلہ خيال كرتے تھے_

۱۵

۲ _عصر بعثت كے مشركين كى يہ خام خيالى تھى كہ خداوند عالم ہمارى باتوں اور مخفى امور سے آگاہ نہيں ہے_

الا انهم يثنون صدورهم يستغفوا منه

۳ _ بعثت كے زمانہ ميں مشركين مكہ ،پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور اسلام كے خلاف مخفى ميٹنگوں كے ذريعہ سازشيں بناتے تھے_

الا حين يستغشون ثيابهم يعلم ما يسرون و ما يعلنون

'' استغشى ثبابہ'' يعنى اپنے لباس سے اپنے كو مخفى كرنا تا كہ ديكھا ئي نہ دے( لسان العرب) ''حين ''، '' يعلم '' كے متعلق ہے _ لہذا جملہ '' الا حين يستغشون ثيابہم يعلم ...'' كا معنى يوں ہوگا _ كہ جب مشركين اپنے آپ كو چھپا تے تھے تو وہ مسائل كو بھى اپنے درميان بيان كرتے تھے_ ان ميں سے بعض كو چھپاتے تھے ( ما يسرون) اور بعض كو ظاہر كرتے تھے ( و ما يعلنون) گويا اس آيت كا معنى يہ ہوا كہ مشركين فقط اپنے آپ كو مخفى نہيں كرتے تھے _ بلكہ اپنے مخفى پروگراموں ميں پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے خلاف سازش كرتے تھے_

۴ _ مشركين مكہ كى پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى على الاعلان مخالفت اور خفيہ سازشيں _

الا حين يستغشون ثيابهم يعلم ما يسرون و ما يعلنون

۵ _پروردگار عالم كى مشركين كى مخفى سازشوں اور ظاہرى محاذ آرائي سے آگاہي_الا حين يستغشون ثيابهم يعلم ما يسرون و ما يعلنون

۶_ خداوند متعال،تمام افكار اور خيالات سے آگاہ ہے_انه عليم بذات الصدور

۷_عن ابى جعفر عليه‌السلام قال: أخبرنى جابر بن عبدالله ان المشركين كانوا اذا مروا برسو ل الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حول البيت طأطأ أحدهم ظهره و رأسه هكذا و غطى راسه بثوبه لا يراه رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فأنزل الله عزوجل : ''ألا انهم يثنون صدورهم ليستخفوا منه ا لا حين يستغشون ثيابهم يعلم ما يسرون و ما يعلنون'' (۱) امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے كہ جابر ابن عبدالله نے مجھے بتايا جب كعبہ كے اطراف ميں مشركين، رسالت مآب كے قريب سے گذرتے تھے_ توكچھ ان ميں سے اپنے سر اور پيٹھ كو خم كرليتے تھے (خود جابر نے بھى ايسا كركے دكھايا)_

____________________

۱)كافى ج/۸ ، ص ۱۴۴ ، ح ۱۱۵ ; نورالثقلين ج/۲ ص ۳۳۵ ، ح ۶_

۱۶

اور اپنے سركولباس ميں چھپاليتے تھے تا كہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان كو نہ ديكھ سكيں ، تب خداوند متعال نے اس آيت كو نازل فرمايا :'' الا انهم يثنون صدورهم يستخفط منه الا حين يستغثون ثيابهم ...''

اسلام :صدر اسلام كى تاريخ ۱ ، ۴

اسماء و صفات :صفات جلال ۲ ; عليم ۶

انسان :افكار انسانى ۶

خدا:خداوند متعال او رجہل ۲ : خداوند متعال و علم غيب ۵ ، ۶

روايت : ۷

مشركين :صدر اسلام كے مشركين اور حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مصطفىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۱ ; صدر اسلام كے مشركين كى غلط فكر۲ صدر اسلام ميں مشركين كى سازش ۱ ; مشركين اور رسالت مآبصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۷ ; مشركين كا محاذ بنانا ۵ ;مشركين كى سازش ۵ ;مشركين كى صد ر اسلام ميں كانا پھوسى مشركين كے پيش آنے كا طريقہ ۷

مشركين مكہ :مشركين مكہ اور حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مصطفىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۳ ، ۴ ;مشركين مكہ كى سازش ۳ ، ۴ ; مشركين مكہ كى محاذ آرائي ۴; مشركين كى مخفى ميٹنگيں ۳

آیت ۶

( وَمَا مِن دَآبَّةٍ فِي الأَرْضِ إِلاَّ عَلَى اللّهِ رِزْقُهَا وَيَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَمُسْتَوْدَعَهَا كُلٌّ فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ )

اور زمين پر چلنے والى كوئي مخلوق ايسى نہيں ہے جس كا رزق خدا كے ذمہ نہ ہو _ وہ ہر ايك كے سونپے جانے كى جگہ اور اس كے قرار كى منزل كو جانتا ہے اور سب كچھ كتاب مبين ميں محفوظ ہے (۶)

۱ _خداوند عالم ،زمين پر چلنے والى ہر مخلوق كے رزق كا ذمہ دار ہے_

و ما من دابة فى الارض الاّ على الله رزقها

۲ _ ہر جاندار شے اپنى زندگى كے دوران ، غذا كے حصول كا حق ركھتى ہے _و ما من دابة فى الارض الا على الله رزقها

۳ _ ہر زندہ شے كو روزى دينا ،خدا كے ذمہ ہے_و ما من دابة فى الارض الاّ على الله رزقها

۱۷

۴ _ خداوند متعال ہر جاندار شے كى دائمى اور عارضى رہنے والى جگہ سے واقف ہے _يعلم مستقرها و مستودعها

'' مستقر '' استقرار كا اسم مكان ہے _جو قرار پانے كى جگہ كے معنى ميں ہے _پس (مستقرہا)

اس جگہ كو كہتے ہيں جسے جاندار شے نے اپنے ليئے قرار ديا ہو اب وہ چاہے دائمى منزل ہو يا غالبى (مستودع) اسم مكان ہے استيداع سے (يعنى امانت ركھنا يا امانت لينا ) اور چونكہ امانت دائمى طور سے كہيں نہيں ركھى جاتى بلكہ عارضى طور پر ركھى جاتى ہے لہذا يہ كہا جاسكتاہے كہ (مستودعہا) سے مراد وہ جگہ ہے جہاں جاندار شے عارضى طور پر رہتى ہے_

۵ _ خداوند عالم كاتمام اشياء سے متعلق كامل علم، موجودات كو روزى پہنچانا اور ان كے امور كى تدبير كى بنياد ہے_

و ما من دآبة فى الارض الاّ على الله رزقها و يعلم مستقرهاو مستودعها

(على الله رزقہا ) كے بعد موجودات كے بارے ميں علم خدا كا تذكرہ اس ليے كيا گيا ہے تا كہ اس نكتہ كى طرف متوجہ كيا جائے كہ موجودات كو روزى پہنچانے اور ان كے امور كى تدبير كے ليے وسيع علم كى ضرورت ہے جو خدا كے پاس موجود ہے_

۶_ ہر جاندار كا نام و پتہ،كتنى اور كونسى روزى كس جگہ اسے دينى چاہيے يہ سب كچھ كتاب ميں لكھا ہوا ہے_

و ما من دآبة كل فى كتب

لفظ '' كل'' كا مضاف اليہ محذوف ہے _ اور گذشتہ جملات سے گويا يوں ظاہر ہوتاہے كہ آيت كا معنى اس طرح ہے '' كل دابة و ما يتعلق بہا فى كتاب مبين '' ہر زمين پر چلنے والى شے اور اس سے متعلق امور كتاب روشن ميں موجود ہيں _

۷_ وہ كتاب جسميں خداوند متعال نے موجودات كے احوال كو درج كيا ہے '' وہ روشن كتا ب ہے اور اس ميں كچھ جو لكھا گيا ہے اسميں كوئي ابہا م نہيں ہے _كل فى كتب مبين

۸_'' قال رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لا تهتم للرزق فان الله تعالى يقول: ( و ما من دابة فى الارض الا على الله رزقها ...'' (۱)

رسول اللهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روايت نقل ہوئي ہے كہ رزق و روزى كے ليے پريشان نہ ہوں كيونكہ خداوند عالم كا ارشاد ہے كہ زمين پر كوئي بھى جاندار ايسا نہيں ہے كہ جس كى روزى خدا كے ذمہ نہ ہو_

____________________

۱)مكارم الاخلاق ص ۴۵۵; بحارالانوار ج۷۴ ص ۱۰۶ ، ح۱_

۱۸

امور:امور كى تدبير كا سرچشمہ ۵

جاندار:جانداروں كى روزى روشن كتاب ميں ۶; جانداروں كى روزى كا بند و بست ۳ ، ۵ ; جانداروں كى روزى كاسبب ۱;جانداروں كى روزى كا لكھا جانا ۶ ; جانداروں كى روزى كى جگہ ۶ ; جانداروں كى عارضى جگہ ۴ ; جانداروں كى مادى ضروريات ۲; جانداروں كى ہميشہ والى جگہ ۴ ; جانداروں كے حقوق ۲ ، ۳

حقوق:خداوند متعال پر حق ركھنا ۳

خدا:خدا كا علم ۵ ; خدا كا علم غيب ۴ ;خدا كى رزاقيت ۱ ، ۳ ; خدا كى قدرت كا سہارا ۵

روايت : ۸

روزى :روزى كا حتمى ہونا ۸ ; روزى كا سبب۸

كتاب مبين :روشن كتاب كى خصوصيات ۷

آیت ۷

( وَهُوَ الَّذِي خَلَق السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاء لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلاً وَلَئِن قُلْتَ إِنَّكُم مَّبْعُوثُونَ مِن بَعْدِ الْمَوْتِ لَيَقُولَنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ إِنْ هَـذَا إِلاَّ سِحْرٌ مُّبِينٌ )

اور وہى وہ ہے جس نے آسمانوں اور زمين كو چھ دونوں ميں پيدا كيا ہے اور اس كا تخت اقتدار پانى پر تھاتا كہ تمھيں آزمائے كہ تم ميں سب سے بہتر عمل كرنے والا كون ہے اور اگر آپ كہيں گے كہ تم لوگ موت كے بعد پھر اٹھائے جانے والے ہوتو يہ كافر كہيں گے كہ يہ تو صرف ايك كھلا ہوا جادو ہے (۷)

۱ _ خداوند متعال ، زمين اور آسمانوں كو خلق كرنے والا ہے _

۱۹

هو الذى خلق السموات والارض

۲ _ زمين اور آسمانوں كى خلقت ،تدريجى طور پر انجام پائي اور چھ دنوں (چھ ادوار) ميں انجام پائي ہے_

خلق السموات والا رض فى ستة ا يام

آيت شريفہ ميں (ايام ) سے مراد معمولا جو معنى ليا جاتاہے وہ نہيں ہے-(يعنى ون يا دن و رات)بلكہ اس سے مراد ،ادوار او ر مراحل ہيں اس ليے كہ دن اپنے رائج اور متعارف معنى ميں زمين كى خلقت كے بعد ہى قابل فرض ہے_

۳ _ كائنات كى خلقت، اپنے اندر متعدد آسمانوں كو ركھتى ہے _

۴ _ زمين و آسمانوں كى خلقت سے قبل كائنات كا وجود پانى ميں منحصر تھا_و كا ن عرشه على الماء

'' عرش'' بادشاہ كے تخت كو كہتے ہيں ليكن آيت كريمہ ميں اس سے مراد سلطنت اور حكومت ہے او ر جملہ '' و كان عرش على المائ'' ''كان'' كى وجہ سے اس معنى ميں ہے كہ قبل اس كے كہ خداوند عالم زمين و آسمان كو خلق كرتا اسكى حكومت و سلطنت پانى پر تھى اور يہ معنى بھى سمجھتا جاسكتاہے كہ زمين و آسمان كى خلقت سے پہلے كائنات كى تشكيل پانى سے تھي_

۵ _ زمين اور آسمانوں كى پيدائش كا اصلى مواد پانى ہے _خلق السموات والارض فى ستة ايام و كان عرشه على الماء

مندرجہ بالا معنى و جملوں يعنى '' خلق السموات ...'' (و كان عرشه على السماء ) كے ارتباط سے حاصل كيا گيا ہے _ يعنى زمين و آسمانوں كى خلقت سے پہلے ہستى كا وجود پانى ميں منحصرتھا_اور خداوند متعال اس پر حكومت اور تسلط ركھتا تھا يہ اس كى طرف بھى اشارہ ہوسكتا ہے كہ خداوند عالم نے گذشتہ تمام پانى كو يا اس كے بعض حصہ كو زمين و آسمان ميں تبديل كرديا_

۶_ خداوند عالم كائنات كا حاكم اور فرمان دينے والا ہے_وكان عرشه على الماء

۷_ خداوند متعال انسانوں كو آزماتاہے_ليبلوكم ايكم احسن عملا

۸_ خداوند متعال كے آزمانے كا مقصد نيك عمل كرنے والوں ( كامل انسانوں ) كو وجود ميں لاناہے_

ليبلوكم ايّكم احسن عملا

بلاء (يبلوا) كا مصدر ہے _ جوآزمانے كے معنى ميں ہے _ لوگوں كو خداوند متعال كا آزمانا اسوجہ سے نہيں ہے كہ ان پر اطلاع حاصل كرے لہذا امتحان سے مراد در حقيقت اس چيز كو ظاہر كرتاہے جو امتحان كا مقصد ہے پس ليبلوكم كے يہ معنى ہوں گے كہ تمہيں آزمائے اور آزمائش كا مقصد يہ ہے كہ نيك اور اچھے افراد ظاہر اور آشكار ہوں _

۲۰