تفسير راہنما جلد ۸

تفسير راہنما 0%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 971

تفسير راہنما

مؤلف: آيت الله ہاشمى رفسنجاني
زمرہ جات:

صفحے: 971
مشاہدے: 163215
ڈاؤنلوڈ: 2619


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4 جلد 5 جلد 6 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 971 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 163215 / ڈاؤنلوڈ: 2619
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد 8

مؤلف:
اردو

آیت ۷۵

( إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُّنِيبٌ )

بيشك ابراہيم بہت ہى دردمند اور خدا كى طرف رجوع كرنے والے تھے (۷۵)

۱_ حضرت ابراہيمعليه‌السلام بردبار پيغمبر تھے جو ہرگز گناہگاروں كے عذاب ميں جلدى كرنے والے نہيں تھے_

ان ابراهيم لحليم

۲_ حضرت ابراہيمعليه‌السلام لوگوں كو مشكلات ميں ديكھ كر متأثر ہونے والے اور ان كى دلسوزى كرنے والے تھے_

ان ابراهيم اوّاة

(أوّاہ )اس شخص كوكہتے ہيں جو زيادہ (آہ) كرنے والا اور افسوس كرنے والا ہو جملہ (يجادلنا) كے بعد جملہ (اوّاہ) كا آنا يہ بتاتا ہے كہ حضرت ابراہيمعليه‌السلام لوگوں كى مشكلات و پريشانى كى وجہ سے بہت متأثر اور اظہار افسوس كرتے تھے_

۳_ حضرت ابراہيمعليه‌السلام ، ہميشہ خدا سے لگاؤ ركھتے اور اپنى حاجات كو اس سے طلب كرتے تھے_ان ابراهيم منيب

خداوند عالم كى بارگاہ ميں انا بہ سے مراد ، اس كي طرف رجوع كرنا ہے_

۴_ حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا قوم لوط كے بارے ميں طلب شفاعت كرنے كا سبب، ان كى بردبارى اور لوگوں كى مشكلات ميں اظہار افسوس كرنا اور خداوند متعال كے بارے ميں اعتقاد راسخ ركھنا ہے_يجادلنا فى قوم لوط، ان ابراهيم لحليم اوّاه منيب

(ان ابراہيم ) كا جملہ ابراہيمعليه‌السلام كا قوم لوط كے بارے ميں مجادلہ و بحث كرنے كا سبب اور ان كے دفاع كى وجہ كو بتاتا ہے_

۵_ بردبارى ، لوگوں كى مشكلات سے متأثر اور اظہار افسوس كرنا اور خدا كى طرف لگاؤ ركھنا اور اسى سے اپنى حاجات كو طلب كرنا يہ اچھى صفات اور پسنديدہ عادات ہيں _ان ابراهيم لحليم اوّاه منيب

۲۲۱

۶_عن جعفر بن محمد عليه‌السلام ... (الاوّاه ) الدّعاء (۱)

امام جعفر صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كہ (اوّاہ) جو آيت شريفہ ميں ہے اسكا معني، زيادہ دعا كرنے والا ہے_

ابراہيمعليه‌السلام :ابراہيمعليه‌السلام اور خطا كرنے والے ۱; ابراہيمعليه‌السلام اور ذكر الہى ۳; ابراہيم اورقوم لوط ۴; ابراہيمعليه‌السلام كا حلم ۱;ابراہيمعليه‌السلام كا غم ۲،۴;ابراہيمعليه‌السلام كى دعا ۳; ابراہيمعليه‌السلام كى سيرت ۳; ابراہيمعليه‌السلام كى شفاعت كے اسباب ۴; ابراہيمعليه‌السلام كى مہربانى ۲;ابراہيمعليه‌السلام كے حليم ہونے كے آثار ۴; ابراہيمعليه‌السلام كے فضائل ۱

انگيزہ :انگيزہ كے اسباب ۴

اوّاہ :اوّاہ سے مراد ۶

حلم :حلم كى اہميت ۵

دعا :دعا كى اہميت ۵

ذكر:ذكر خدا كى اہميت ۵

روايت :۶

صفات :پسنديدہ صفات ۵

قوم لوط :قوم لوط كى شفاعت ۴

لوگ :لوگوں كى مشكلات پر تأسف كا اظہار كرنا ۲،۴،۵

____________________

۱) دعائم الاسلام ، ج۱، ص ۱۶۶; بحار الانوار ج۸۲،ص۳۲۵،ح۲۰_

۲۲۲

آیت ۷۶

( يَا إِبْرَاهِيمُ أَعْرِضْ عَنْ هَذَا إِنَّهُ قَدْ جَاء أَمْرُ رَبِّكَ وَإِنَّهُمْ آتِيهِمْ عَذَابٌ غَيْرُ مَرْدُودٍ )

ابراہيم اس بات سے اعراض كرو _ اب حكم خدا آچكا ہے اوران لوگوں تك وہ عذاب آنے والا ہے جو پلٹايا انہيں جا سكتا (۷۶)

۱_ حضرت ابر اہيم(ع) كى قوم لوط كے بارے ميں شفاعت (كہ ان سے عذاب ٹل جائے) خداوند متعال كے ہاں مورد قبول واقع نہ ہوئي _يجادلنا فى قوم لوط يا ابراهيم اعرض عن هذ

۲_ فرشتوں نے جناب ابراہيمعليه‌السلام سے خواہش كى كہ قوم لوط كے بارے ميں شفاعت سے صرف نظر كريں اور اس پر اصرار نہ كريں _يا ابراهيم اعرض عن هذ

(ہذا ) كا اشارہ (جدال ) كى طرف ہے جو ماقبل آيت ميں موجود(يجادلنا ) سے استفادہ ہوا ہے_

۳_قوم لوط كا مقدر شدہ عذاب حتمى تھا اور اس ميں كسى تغيّر و تبديلى كى گنجائش نہ تھي_

انه قد جاء امرربك و انهم ء اتيهم عذاب غير مردود

(اتى )اتيان سے اسم فاعل ہے يعنى (آنا)اور (ردّ) پلٹانے كے معنى ميں ہے _لہذا ( انہم ء اتيہم ) يعنى وہى عذاب ان پر آئے گا جو ٹلنے والا نہيں ہے_

۴_ كائنات ميں خداوند متعال كا حكم حتمى ہے _ اس ميں كوئي تخلف يا كمى واقعى نہيں ہوتى _انه قد جاء امر ربك

ظاہر يہ تھا كہ فرشتے، عذاب كے آنے كى خبر كو فعل مضارع سے بيان كرتے _ كيونكہ ابراہيمعليه‌السلام كى گفتگو كے دوران ابھى قوم لوط پر عذاب نازل نہيں ہوا تھا_ اسى وجہ سے فعل مضارع (يجي) كى جگہ فعل ماضى (جائ) كألانا اور حرف (قد ) كے ذريعے تاكيد كرنا اس حكم الہى كے حتمى طور پرواقع ہونے كو بتاتا ہے_

۲۲۳

۵_ پيغمبروں كى شفاعت ودر خواست كاخدا كى بارگاہ ميں قبول نہ ہونا بھى ممكن ہے_يا ابراهيم اعرض عن هذا

۶_ قوم لوط پر عذاب كا قطعى ہونا اور قابل تغيير نہ ہونا حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى ان كے بارے ميں شفاعت كے قبول نہ ہونے كى دليل ہے_يا ابراهيم اعرض عن هذا انه قد جاء امر ربك

(انّہ قد جاء ...) كا جملہ (اعرض عن ہذا) كے جملے كے ليے علت ہے_

۷_ حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا قوم لوط كے عذاب كے بارے ميں فرشتوں سے جر و بحث كرنا اس عذاب كے قطعى ہونے كى اطلاع سے پہلے تھا_يجادلنافى قوم لوط يا ابراهيم اعرض عن هذا انه قد جاء امر ربك

۸_ مفسد اقوام پر عذاب الہى كا نازل ہونا، خداوند متعال كى ربوبيتكا تقاضا ہے_انه قد جاء امر ربك

۹_ پيغمبروں كى شفاعت كا مورد قبول ہونا اس شرط پر ہے كہ جس امر كى شفاعت كررہے ہيں وہ خدا كے ہاں حتمى نہ ہو چكا ہو_يجادلنا فى قوم لوط يا ابراهيم اعرض عن هذا انه قد جاء امر ربك

۱۰_ قوم لوط پر عذاب كے نزول كے وقت،حضرت ابراہيمعليه‌السلام بوڑھے اور سن رسيدہ تھے_

و هذا بعلى شيخاً ىا ابراهيم اعرض عن هذا انه قد جاء امر ربك

۱۱_عن ابى عبداللّه عليه‌السلام : فقال اللّه تعالى : يا ابراهيم ا عرض عن هذا انه قد جاء امر ربك و انهم آتاهم عذابى بعد طلوع الشمس من يومك محتوماً غير مردود ;(۱)

امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كہ خداوند متعال نے فرمايا: اے ابراہيمعليه‌السلام اس بات كو چھوڑ دو (اے ابراہيم ) فرمان الہى آپہنچا ہے آج طلوع آفتاب كے بعد ان كے ليے ميرا عذاب آجائے گا اور يہ حتمى ٹلنے والا نہيں ہے_

ابراہيمعليه‌السلام :ابراہيمعليه‌السلام اور قوم لوط ۲;ابراہيمعليه‌السلام اور قوم لوط كا عذاب ۷;ابراہيمعليه‌السلام قوم لوط كے عذاب پر آنے كے وقت ۱۰;ابراہيمعليه‌السلام كى شفاعت۷; ابراہيمعليه‌السلام كى شفاعت ۰۱، ۱۱;ابراہيمعليه‌السلام كى شفاعت كے قبول نہ ہونے كے دلائل ۶; ابرہيم(ع) كى جرو بحث۷ ; قصہ ابراہيم(ع) ۷

انبياءعليه‌السلام :ابنياءعليه‌السلام كى شفاعت كے رد ہونے كا امكان ۵; انبياءعليه‌السلام كى شفاعت قبول ہونے كے شرائط ۹

____________________

۱) تفسير عياشى ، ج ۲ ، ص ۱۵۲، ح ۴۵ ، تفسير برہان ج ۲ ، ص ۲۲۹، ح ۱۱_

۲۲۴

خدا:اوامر الہى كا حتمى ہونا ۴; خداوند متعال كى ربوبيت كى نشانياں ۸

روايت :۱۱

شفاعت :حتمى چيزوں ميں شفاعت ۹

قوم لوط :قوم لوط سے شفاعت كا رد ہونا ۱،۲; قوم لوط كي

تاريخ ۳;قوم لوط كى شفاعت ۷;قوم لوط كے بارے ميں شفاعت كے رد ہونے كے دلائل ۶; قوم لوط كے عذاب كا حتمى ہونا ۳،۶،۷،۱۱;قوم لوط كے عذاب كا وقت ۱۰

مفسدين :مفسدين كے عذاب كا سبب ۸

ملائكہ :ملائكہ اور ابراہيمعليه‌السلام ۲;ملائكہ كى تمنائيں ۲

آیت ۷۷

( وَلَمَّا جَاءتْ رُسُلُنَا لُوطاً سِيءَ بِهِمْ وَضَاقَ بِهِمْ ذَرْعاً وَقَالَ هَـذَا يَوْمٌ عَصِيبٌ )

اور جب ہمارے فرستادے لوط كے پاس پہنچنے تو وہ ان كے خيال سے رنجيدہ ہوئے اور تنگ دل ہوگئے اور كہا كہ يہ بڑا سخت دن ہے (۷۷)

۱_ فرشتے، حضرت ابراہيمعليه‌السلام سے گفتگو كرنے كے بعد قوم لوط كے ديار ميں پہنچ گئے اور حضرت لوط(ع) كے پاس تشريف لائے_و لما جاء ت رسلنا لوط

۲_ فرشتے، انسانوں كى شكل و صورت ميں حضرت لوطعليه‌السلام كے ہاں حاضر ہوئے_و لما جاء ت رسلنا لوطاً سيء بهم

۳_ حضرت لوط(ع) ، اپنے مہمانوں كيحقيقت( انكے فرشتے ہونے )سے بے خبر اور ان كى ذمہ دارى سے ناآگاہ تھے_

و لمَّا جاء ت رسلنا لوطاً سيء بهم و قال هذا يوم عصيب

۲۲۵

۴_ حضرت لوطعليه‌السلام ، نے فرشتوں كے آنے سے حالات كو اپنے ليے پريشان كن ديكھااور غم و پريشانى نے انہيں گھير ليا _

و لما جاء ت رسلنا لوطاً سيء بهم و ضاق بهم ذرعا

(ذرعاً) ہاتھ كى كہنيوں كے كھينچنےكے معنى ميں آتا ہے يہ تميز واقع ہوا ہے جو فاعل سے مبدل ہے لہذا (ضاق بہم ذرعاً) كا معنى يوں ہوگا ( ضاق ذرعہ) اس كے ہاتھ كى كہنياں ان پر تنگ ہوگئيں _كسى كى طرف كہينوں كا تنگ ہونا يہ ضرب المثل ہے اس كے ليے كہ جو كام كو انجام دينے پر قدرت نہ ركھتااور اس تك كى دسترسى نہ ہو (سيئ) ساء سے كافعل مجہول ہے (اسكو ناراحت كيا) كے معنى ميں ہے _اور ''بہم'' ميں ''باء'' سببيت كيلئے ہے لہذا''سي بہم '' كا معنى يہ ہو گا ان كا آنا حضرت لوطعليه‌السلام كے ليے ناراحتى كا سبب بنا_

۵_ حضرت لوطعليه‌السلام ، اپنے آپكو مہمانوں كى حفاظت كا ذمہ دار سمجھتے تھے_و لما جاء ت رسلنا قال هذا يوم عصيب

۶_ حضرت لوطعليه‌السلام نے فرشتوں كے آنے والے دن كو سخت اور مشكل و دشوار حالات والا دن قرار ديا _

و قال هذا يوم عصيب

''عصيب'' دشوارى اور سختى كے معنى ميں ہے اور اسكى اصل (عَصب) ہے جو باندھنے كے معنى ميں آتا ہے ''اسى وجہ سے اس سخت دن كو گويا (يوم عصيب)'' كہتے ہيں كہ اس دن ايك دوسرے كا شرّ اور دشوارى ايك دوسرے سے لپٹى ہوئي ہے_(مجمع البيان سے يہ مطلب اخذ كيا گيا ہے)_

۷_عن ابى جعف(ع) ر : و كان لوط ابن خالة ابراهيم و كانت امراة ابراهيم ساره اخت لوط و كان لوط و ابراهيم نبيين مرسلين منذرين و كان لوط رجلاً سخياً كريماً يقرى الضيف إذا نزل به و يخّذّرهم قومه (۱)

امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے كہ حضرت لوط(ع) حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى خالہ كے بيٹے تھے اور سارہ جو حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى بيوى تھى وہ لوط(ع) كى بہن تھيں حضرت لوط(ع) اور ابراہيمعليه‌السلام دونوں نبى مرسل اور ڈرانے والے تھے_ حضرت لوطعليه‌السلام سخى و كريم انسان تھے جو مہمان ان كے پاس آتے تھے وہ ان كى خدمتگزارى كرتے تھے اور اپنى قوم كے شر سے انہيں محفوظ ركھتے تھے_

۸_عن ا بى جعفر عليه‌السلام عن رسول اللّه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قال جبرئيل :ان قوم لوط كانوا اهل قرية لا يتنظفون من الغائط و لا يتطهرون من الجنابة بخلاء اشحّاء على الطعام و ان لوطاً لبث فيهم ثلاثين سنة و انّما كان

____________________

۱) علل الشرائع ص ۵۴۹ ; ح ۴ ، ب ۳۴۰_ نور الثقلين ، ج ۲ ، ص ۳۸۲، ح ۶۵_

۲۲۶

نازلاً عليهم و لم يكن منهم (۱) امام باقرعليه‌السلام ، رسول اللهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روايت نقل كرتے ہوئے فرماتے ہيں كہ قوم لوط ديہاتيعلاقے كے رہنے والے تھے جو خود كوپا خانہ سے پاك نہيں ركھتے تھے اور جنابت كے ليے غسل بھى نہيں كرتے تھے_ بخيل اور پر خور اشخاص تھے _حضرت لوطعليه‌السلام نے تيس ۳۰ سال ان كے ساتھ زندگى بسر كى اور وہ باہر سے ان كے پاس آئے تھے ان كى قوم ميں سے نہيں تھے

۹_عن ابى عبداللّه عليه‌السلام قال : ان اللّه تعالى بعث اربعة ا ملاك فى اهلاك قوم لوط فأتوا لوطاً و هو فى زراعة له قرب المدينه ...(۲)

امام جعفر صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كہ خداوند متعال نے قوم لوط كو ہلاك كرنے كے ليے چار فرشتوں كو بھيجا پس وہ حضرت لوطعليه‌السلام كے پاس گئے جبكہ وہ اس وقت اپنے كھيت ميں تھے جو شہر كے قريب تھا

ابراہيمعليه‌السلام :حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا قصہ ۱

روايت :۷،۸،۹

قوم لوط :قوم لوط پر عذاب ۹; قوم لوط كابخل ۸: قوم لوط كى پستى ۸; قوم لوط كے رذائل ۸

لوطعليه‌السلام :حضرت لوطعليه‌السلام اور ملائكہ ۳،۴; حضرت لوط(ع) كا سمجھنا ۶; حضر ت لوط(ع) كا غم و غصہ ۴; حضرت لوطعليه‌السلام كا قصہ ۱،۲، ۳،۴،۶،۹;حضرت لوطعليه‌السلام كى پريشانى ۴;حضرت لوطعليه‌السلام كى ذمہ دارى ۵;حضرت لوطعليه‌السلام كى سخاوت ۷; حضرت لوطعليه‌السلام كى مہمان نوازى ۵،۷; حضرت لوطعليه‌السلام كے سخت دن ۶; حضرت لوطعليه‌السلام كے علم كا محدود ہونا ۳; حضرت لوطعليه‌السلام كے فضائل ۷;حضرت لوطعليه‌السلام كے ليے مہمانوں كى ذمہ دارى ۳

ملائكہ :ملائكہ اور حضرت ابراہيمعليه‌السلام ۱; ملائكہ اور حضرت لوط(ع) ۱،۲;ملائكہ كا جسم ركھنا ۲; ملائكہ ، قوم لوط(ع) كى سرزمين پر ۱; ملائكہ عذاب ۹

مہمان :مہمانوں كا دفاع كرنے كى اہميت ۵

____________________

۱)علل الشرايع،ص۰۵۵ ح۵، ب ۳۴۰;نورالثقلين ج۲،ص ۳۸۴ح ۱۶۶_

۲) كافى ، ج ۸، ص ۳۲۸، ح ۵۰۵_ نور الثقلين ، ج ۲ ، ص ۳۷۸ ، ح ۱۵۶_

۲۲۷

آیت ۷۸

( وَجَاءهُ قَوْمُهُ يُهْرَعُونَ إِلَيْهِ وَمِن قَبْلُ كَانُواْ يَعْمَلُونَ السَّيِّئَاتِ قَالَ يَا قَوْمِ هَـؤُلاء بَنَاتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ فَاتَّقُواْ اللّهَ وَلاَ تُخْزُونِ فِي ضَيْفِي أَلَيْسَ مِنكُمْ رَجُلٌ رَّشِيدٌ )

اور ان كى قوم دوڑتى ہوئي آگئي اور اس كے پہلے بھى يہ لوگ ايسے برے كام كررہے تھے _ لوط نے كہا كہ ا ے قوم يہ ہمارى لڑكياں تمھارے لئے زيادہ پاكيزہ ہيں خدا سے ڈرد اور مہمانوں كے بارے ميں مجھے شرمندہ نہ كرو كيا تم ميں كوئي سمجھدار آدمى نہيں ہے (۷۸)

۱_ قوم لوط كے ايك گروہ نے حضرت لوطعليه‌السلام كے مہمانوں (فرشتوں ) پر تجاوز كرنے كے ليے جلدى سے ان كے گھر كو گھير ليا_و جائه قومه يهرعون اليه

اگر چہ حضرت لوطعليه‌السلام پردھا و ابولنے والوں كى نسبت پورى قوم كى طر ف دى گئي ہے ( وجاء قومہ) ليكن چند قرائن كى بناء پر قوم كے بعض لوگ مراد ہيں _ جملہ (هولاء بناتى ...) ان قرائن ميں سے ايك ہے _ كيونكہ حقيقت اور شريعت ميں يہ ممكن نہيں تھا كہ حضرت لوطعليه‌السلام كى لڑكياں تمام قوم يا اكثر افراد قوم كى بيوياں بن سكيں _قابل ذكر بات يہ ہے كہ بعض افراد كو قوم كى طرف نسبت دينے ك

مطلب يہ تھا كہ اگر تمام قوم لوط ا س بات پر مطلع ہوگئي ہوتيكہ مہمان حضرت لوط(ع) كے ہاں آئے ہيں اورانكے ليئے ممكن بھى ہوتا تو وہ بھى ہجوم كرنے والوں كى طرح عمل كرتے_

۲_ قوم لوط ،فسادى لوگ اور لواط جيسے برے عمل ( ہم جنس بازى )ميں مبتلائتھے_و من قبل كانوا يعملون السيئات

مقام كى مناسبت سے( السيئات ) كے لفظ كا بارذ مصداق لواط اور ہم جنس بازى ہے_

۳_ قو م لوط(ع) ، لواط كے علاوہ دوسرے بہت سے گناہوں سے آلودہ تھے_

۲۲۸

و من قبل كانوا يعملون السيئات

مذكورہ بالا معنى اس صورت ميں ہے كہ جب (السيئات )پر الف لام جنس كا ہو جمع كے صيغہ پر الف ولام جنس كا داخل ہوتو وہ عموم كا معنى ديتا ہے اور بعض اوقات كثرت پر دلالت كرتا ہے_

۴_ لواط اور ہم جنس بازي، گناہ كبيرہ اور بہت سے گناہوں كے قائم مقام ہے_و قبل كانوا يعملون السيئات

مذكورہ بالا تفسير اس صورت ميں ہے جب ہم (السيئات ) كے الف لام كو عہد ذكرى فرض كريں اس صورت ميں (السيئات) سے مراد لواط كاعمل اور (سيئات) كا ايك گناہ پر جمع كى صورت ميں اطلاق، مذكورہ مطلب كى طرف اشارہ ہے_

۵_ قوم لوط كا فساد ميں سابقہ اور لواط كے برے عمل كى عادت نے انہيں حضرت لوط(ع) كے گھر كى جانب ان كے مہانوں پر تجاوز كى خاطر دھكيل ديا _و جاء ه قومه يهرعون اليه و من قبل كانوا يعملون السيئات

(و من قبل كانوا ...) كا جملہ جو كہ قوم لوط(ع) كے درميان بدكارى كے رواج اور فساد ميں سابقہ ركھنے كو بتاتا ہے (يہرعون) كے فاعل كے محذوف ہونے كو بتاتا ہے _ يعنى قوم لوط كا لوط(ع) كے گھر پر ہجوم كرنےكا سبب اسكا برائي ميں سابقہ اور بد كارى كى عادت تھا_

۶_ حضرت لوط،عليه‌السلام متعدد لڑكياں ركھتے تھے جو سن ازدواج پر پہنچى ہوئي تھيں _هولا بناتى هنّ اطهرلكم

۷_ حضرت لوطعليه‌السلام كا حملہ كرنے والوں كو اپنى لڑكيوں سے شادى كى دعوت دينے كا مقصد يہ تھا كہ وہ اس لواط كے برے عمل اور ان كے مہمانوں سے جھگڑنے سے رك جائيں _يا قوم هولاء بناتى هن اطهر لكم

۸_ شہوت جنسى كو مٹانے كے ليے پليدگى سے پاك اور تنہاصحيح طريقہ، جنس مخالف سے ازدواج كرنا ہے_

هولاء بناتى هنّ اطهر لكم

(اطہر ) كا لفظ افعل تفضيل ہے اور اسميں برترى كا معنى نہيں پايا جاتا بلكہ طاہر و پاك كے معنى ميں آيا ہے اس طرح كا استعمال كہ اسم فاعل كى جگہ پر افعل تفضيل كا استعمال كرنا يہ تاكيد اور مبالغہ كے ليے ہوتا ہے_

۹_ لواط اور ہم جنسى بازى كا عمل،جنسى شہوت كو مٹانے كے ليے ناپاك اور بيہودہ طريقہ ہے _

هوء لاء بناتى هن اطهرلكم

۱۰_شادى كرنا اور زوجہ اپنا نا، جنسى فسادات سے روكنے كا طريقہ ہے_هوء لاء بناتى هنّ اطهر لكم

۱۱_ حضرت لوطعليه‌السلام كى شريعت ميں كافر لوگوں كا مؤمن عورتوں سے ازدواج كا جائز ہونا _

۲۲۹

هولاء بناتى هن اطهر لكم

جملہ ( فأسر با ہلك الا امرا تك ) اس بات كى حكايت كرتا ہے كہ حضرت لوطعليه‌السلام كى لڑكياں ان پر ايمان ركھتى تھيں _

۱۲_ حضرت لوط(ع) نے حملہ آوروں كے عواطف جنسى كو متحرّك كرنے اور ان پر شفقت كے اظہاركے ذريعہ انہيں اپنے مہمانوں سے متعرّض ہونے سے روكا_قال يا قوم فاتقوا اللّه و لا تخزون فى ضيفى ا ليس منكم رجل رشيد

۱۳_ حضرت لوطعليه‌السلام كا اپنى قوم سے مہربانيسے پيش آنا حتى اس وقت جب ان كى طرف سے وہ بہت سختى اور اذيت ميں تھے_قال هذا يوم عصيب قال يا قوم هولاء بناتي

حضرت لوطعليه‌السلام كا يہ كہنا (يا قوم) اے ميرى قوم اور انہيں اپنى لڑكيوں سے شادى كى دعوت دينا، قوم پر ان كے لطف اور مہربانى كو ظاہر كرتا ہے _ يہ اس وقت ہوا جس وقت كو حضرت لوطعليه‌السلام نے بہت دشوار اور سخت وقت سے ياد كيا ہے_

۱۴_ حضرت لوطعليه‌السلام نے حملہ آوروں سے يہ تقاضا كيا كہ وہ خدا سے خوف كريں اور ان كے مہمانوں پر حملہ نہ كريں _

فاتقوا اللّه

۱۵_ ازدواج اور زوجہ كے انتخاب كے علاوہ دوسرے راستے سے جنسى شہوت كو پورا كرنا، تقوى اور خوف خدا كے خلاف ہے_فاتقوا الله

۱۶_ جنسى فساد، خدا كے عذاب كا موجب بنتا ہے _هؤلاء بناتى هن اطهرلكم فاتقوا اللّه

۱۷_ حضرت لوط(ع) نے فسادى حملہ آوروں سے كہاكہ ميرے مہمانوں سے متعرض نہ ہوں اور ان كے سامنے انہيں رسوااور خوار نہ كريں _و لا تخزون فى ضيفي/ اخزاء (لا تخزون) كا مصدر ہے جو خوار اور رسوا كرنے كے معنى ميں آتا ہے

۱۸_ لوگوں كے درميان كسى كو رسوا كرنا، تقوا اور خوف خدا كے خلاف ہے_فاتقوا اللّه و لا تخزون فى ضيفي

۱۹_ كسى كى عزت و آبرو كو گرانے سے پرہيز كرنا، لازمى ہے_و لا تخزون فى ضيفي

۲۰ _ قوم لوط(ع) ميں ايك شخص بھى سمجھدار اور خوف خدا ركھنے والا اور غيرت مندنہيں تھا_

فاتقوا اللّه و لا تخزون فى ضيفى اليس منكم رجل رشيد

(رشيد) كا معنى راستہ پانے والا ہے جملہ

۲۳۰

(اتقوا الله ) اور(لا تخزون فى ضيفي ) راستہ پانے والا خوف خدا، غيرت اور معيشت كا مصداق ہے_

۲۱_ ہم جنس بازى ، تقوى ، خدا ترسي، رشيداور سمجھدار ى كے مخالف ہے_فاتقوا اللّه ا ليس منكم رجل رشيد

۲۲_ مہمانوں كى محافظت كرنا اور حملہ آوروں سے ان كو بچانا ضرورى ہے_

يا قوم هؤلاء بناتى ا ليس منكم رجل رشيد

۲۳_عن ا بى عبداللّه عليه‌السلام قال : ان اللّه تعالى بعث اربعة ا ملاك فى اهلاك قوم لوط فأتوا لوطاً فسلّموا عليه فقال لهم : المنزل ؟ فقالوا: نعم ثم مشى فلما بلغ باب المدينه دخل و دخلوا معه حتى دخل منزله فلما را تهم امراته صعدت فوق السطح و صفقت فلم يسمعوا فدخنت فلما را وا الدخان ا قبلوا الى الباب يهرعون (۱)

امام جعفر صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كہ خداوند متعال نے قوم لوط كو ہلاك كرنے كے ليے چار فرشتوں كو بھيجا ...وہ حضرت لوطعليه‌السلام كے پاس آئے اور انہيں اس پر سلام كيا ..._ حضرت لوطعليه‌السلام نے ان كو گھر ميں آنے كى دعوت دى وہ راضى ہوگئے ، اور وہ چلے يہاں تك كہ شہر كے دورازے تك پہنچ گئے ..._ وہ فرشتوں كے ساتھ شہر ميں داخل ہوئے يہاں تك كہ وہ گھر پہنچ گئے _ جب لوطعليه‌السلام كى بيوى نے ان كو ديكھا ...تو چھت پر چڑھ گئي اور تالى بجائي ، ليكن قوم لوط متوجہ نہ ہوئي ، پھر اس نے دھواں اڑايا جب قوم نے دھويں كو ديكھا تو جلدى سے حضرت لوطعليه‌السلام كے گھر كى طرف دوڑے ..._

۲۴_عن ا بى جعفر عليه‌السلام ان قرية قوم لوط كانت على طريق السيّارة الى الشام و مصر فكانت السيّارة تنزل بهم فيضيّفونهم فدعا هم البخل الى ان كانوا اذا نزل بهم الضيف فضحوه ...وانّما كانوا يفعلون ذلك بالضيف حتى ينكل النازل عنهم فأورثم البخل بلاء لا يستطيعون دفعه عن ا نفسهم حتى صاروا يطلبونه من الرجال فى البلاد و يعطونهم عليه الجعل (۲)

امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے كہ قوم لوط كى آبادى ان مسافروں كے راستے ميں تھى جہاں سے مسافر شام و مصر جاتے تھے _ كارواں اس قوم كے پاس آتے اور ان كے مہمان بنتے تھے _ ان كا بخل اس حد تك پہنچ گيا تھا كہ جب كوئي مہمان ان كے پاس آتا ( تو اپنے اس برے كام كى وجہ سے) اسے رسوا كركے چھوڑتے تھے اس كام كو اس وجہ سے

انجام ديتے تھے تا كہ مہمان ان كے پاس نہ آئيں

____________________

۱) كافى ، ج ۵، ص ۵۴۷، ح ۶ _ نورالثقلين ، ج ۲ ، ص ۳۷۹، ح ۱۵۶ _

۲)علل الشرائع ، ص ۵۴۸، ح ۴ ، ب ۳۴۰_ نور الثقلين ، ج ۲ص ۳۸۲ ، ح ۱۶۵_

۲۳۱

اور واپس لوٹ جائيں پس ان كا بخل سبب بنا كہ وہ جس بلاء و مصيبت ميں گرفتار ہوگے(مرض ابنہ ) اس بيمارى كو اپنے سے دور كرنے كى قدرت نہيں ركھتے تھے يہاں تك كہ دوسرے شہروں كے لوگوں سے اگريہ چاہتے كہ ہمارے ساتھ يہ برا فعل انجام دو تو ان كو اجرت دينا پڑتى تھى _

۲۵_عن ابى عبداللّه(ع) فى قول لوط'' هؤلاء بناتى هن اطهرلكم'' قال عرض عليهم التزويج (۱)

امام جعفر صادقعليه‌السلام سے حضرت لوط(ع) كے اس قول (كہ ميرى بيٹياں تمہارے ليے پاكيزہ تر ہيں ) كے بارے ميں روايت ہے كہ آپ نے فرمايا: حضرت لوط(ع) نے انہيں ازدواج كرنے كى پيشكش كى تھي_

آبرو :حفظ آبرو كى اہميت ۱۹; ہتك آبرو سے اجتناب ۱۹

ازدواج :ازدواج كى اہميت ۱۵;ازدواج كے آثار ۸،۱۰; كافر سے ازدواج ۱۱

انحراف جنسى :انحراف جنسى كو روكنے كا طريقہ ۱۰; انحراف جنسى كى سزا ۱۶;انحراف جنسى كے آثار ۱۵

تقوا :تقوى اختيار كرنے كى دعوت ۱۴; تقوى نہ ہونے كى نشانياں ۲۱;تقوى نہ ہونے كے موارد ۱۵، ۱۸

خدا :خدا كى سزائيں ۱۶

رشد :رشد كرنے كے موانع ۲۱

روايت :۲۳، ۲۴، ۲۵

عذاب :عذاب كے اسباب ۱۶

غريزہ جنسى :غريزہ جنسيكى تسكين كا طريقہ ۸،۱۵

قوم لوطعليه‌السلام :قوم لوط(ع) اور حضرت لوطعليه‌السلام كے مہمان ۱،۵; قوم لوط(ع) اور مہمان ۲۴;قوم لوط(ع) كا بخل ۲۴;قوم لوط(ع) كا حملہ ۱;قوم لوط(ع) كى اذتيں ۱۳; قوم لوط(ع) كى برائي كرنا ۲;قوم لوط(ع) كى بے عقلى ۲۰ ; قوم لوط(ع) كى بے غيرتى ۲۰ ; قوم لوط(ع) كى تاريخ ۱،۲،۳،۵،۲۴; قوم لوط(ع) كى خصوصيات ۲۰ ; قوم لوط(ع) كى ہم جنس بازى ۲;قوم لوط(ع) كے رذائل ۲۴;قوم لوط(ع) كے فاسد ہونے كے آثار ۵; قوم لوط(ع) كے گناہ ۳; قوم لوط(ع) ميں تقوى كا نہ ہونا ۲۰ ; قوم لوط(ع) ميں لواط(ع) ۲،۳، ۲۴;قوم لوط(ع) ميں لواط(ع) كے آثار ۵

____________________

۱) كافى ، ج ۵ ص ۵۴۸، ح ۷ _ نور الثقلين ، ج ۲ ، ص ۳۷۹ ، ح ۱۵۷_

۲۳۲

گناہ كبيرہ :۴لواط :لواط كا گناہ ۴; لواط كى پليدى ۹

لوطعليه‌السلام :لوطعليه‌السلام اور خوارى ۱۷; لوطعليه‌السلام اور قوم لوط ۱۲، ۱۴، ۱۷، ۲۵ ; لوطعليه‌السلام اور مہمان نوازى ۱۴۷، ۱۷; لوطعليه‌السلام كا قصہ ۷، ۱۲، ۱۳، ۱۴، ۲۳، ۲۵;لوطعليه‌السلام كا منع كرنا ۷; لوط(ع) كو اذيت۱۳; لوطعليه‌السلام كى بيٹيوں سے شادى ۷ ، ۲۵; لوطعليه‌السلام كى پيشكش ۲۵;۱۳; لوطعليه‌السلام كى خواہشات ۷، ۱۷; لوطعليه‌السلام كى دعوتيں ۱۴; لوطعليه‌السلام كى لڑكيوں كا بالغ ہونا ۶; لوطعليه‌السلام كى متعدد بيٹياں ۶;لوطعليه‌السلام كى مہربانى ۱۲، ۱۳ ; لوطعليه‌السلام كى ہمسر كى جاسوسى ۲۳;لوطعليه‌السلام كے دين ميں ازدواج ۱۱;لوط(ع) كے ملنے كا طريقہ ۱۲،۱۳; لوط(ع) كے مہمان ۲

لوگ:لوگوں كى آبروريزى ۱۸

ملائكہ :ملائكہ عذاب اور لوطعليه‌السلام ۲۳

مہمان :مہمان سے دفاع ۷، ۱۲، ۱۴;مہمان سے دفاع كى اہميت ۲۲

ہم جنس بازى :ہم جنس بازى كا گناہ ۴; ہم جنس بازى كى پليدى ۹;ہم جنس بازى كے آثار ۲۱

آیت ۷۹

( قَالُواْ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا لَنَا فِي بَنَاتِكَ مِنْ حَقٍّ وَإِنَّكَ لَتَعْلَمُ مَا نُرِيدُ )

ان لوگوں نے كہا كہ آپ جانتے ہيں كہ ہميں آپ كى لڑكيوں ميں كوئي دلچسپى نہيں ہے اور آپ كو معلوم ہے كہ ہم كيا چاہتے ہيں (۷۹)

۱_ قوم لوط كے مفسدين نے ان كى پيشكش ( كہ ميرى لڑكيوں سے شادى كرلو اور مہمانوں سے تجاوز نہ كرو) كو قبول نہيں كيا _هؤلاء بناتى هنّ ا طهر لكم قالوا لقد علمت ما لنا فى بناتك من حق

۲_ ازدواج ترك كرنا ، غريزہ جنسى كو لواط كے طريقے سے پورا كرنا ، قوم لوط كے درميان ايك سنت اور معاشرتى اخلاق كے طور پر رائج ہوگيا تھا_قالوا لقد علمت ما لنا فى بناتك من حق و ء انك لتعلم ما نريد

۲۳۳

جب قوم لوط نے حضرت لوط(ع) كى لڑكيوں سے شادى كرنے كو اپنے خيال ميں بے جا سمجھا تو اس سے معلوم ہوتا ہے كہ وہ عورتوں سے شادى كرنے كو ممنوع خيال كرتے تھے يا يہ كہ ان كا جنسى اخلاق اس حد تك ، طبيعى راستہ سے خارج ہو چكا تھا كہ جنس مخالف كى طرف ان كا ميلان ختم ہوچكا تھا_

۳_ قوم لوط كا لواط اور ہم جنس بازى كى طرف ميلان اورعورتوں كى طرف شوق نہ ركھناسبب بناكہ انہوں نے حضرت لوطعليه‌السلام كى پيشكش ( ان كى لڑكيوں سے شادى كرلو اور ان كے مہمانوں كے ساتھ تجاوز نہ كرو) كو ٹھكرا ديا _

قالوا لقد علمت ما لنا فى بناتك من حق و انك لتعلم ما نريد

۴_ حضرت لوطعليه‌السلام متعدد بيٹياں ركھتے تھے _ما لنا فى بناتك من حق

۵_ حضرت لوطعليه‌السلام اپنى قوم ميں اس بداخلاق اور برى عادت ہم جنس بازى كے راسخ ہونے سے آگاہ تھے_

و انك لتعلم ما نريد

قوم لوط(ع) :قوم لوط(ع) اور مہمان لوطعليه‌السلام ۱،۳;قوم لوط(ع) كا جھكاؤ ۳; قوم لوط(ع) كى رسومات ۲،۵;قوم لوط(ع) كى ہم جنس بازى ۲، ۳، ۵; قوم لوط(ع) ميں ازدواج ۲; قوم لوط(ع) ميں لواط(ع) ۲،۳

لوطعليه‌السلام :لوطعليه‌السلام كا قصہ ۱، ۳;لوطعليه‌السلام كى آگاہى ۵; لوطعليه‌السلام كى بيٹيوں سے ازدواج كو ردّ كرنا ۳; لوطعليه‌السلام كى پيشكش كو ردّ كرنا ۱، ۳; لوطعليه‌السلام كى متعدد بيٹياں ۴

آیت ۸۰

( قَالَ لَوْ أَنَّ لِي بِكُمْ قُوَّةً أَوْ آوِي إِلَى رُكْنٍ شَدِيدٍ )

لوط نے كہا كاش ميرے پاس قوت ہوتى يا ميں كسى مضبوط قلعہ ميں پناہ لے سكتا (۸۰)

۱_حضرت لوطعليه‌السلام نے اپنے آپ كو فسادى حملہ آوروں كے درميان ناتوان اور بے يار مدد گار خيال كيا _

قال لو ا ن لى بكم قوّة ا و ء اوى الى ركن شديد

۲_ حضرت لوطعليه‌السلام كى يہ آرزو تھى كہ ان ظالموں كے مقابلے ميں وہ قدرت ركھتے اور اپنے مہمانوں كو بچا سكتے _

۲۳۴

قال لو اُن لى بكم قوة

''لو'' كا لفظ آيت ميں حرف تمنا اور ليت كے معنى ميں ہے يعنى ( اے كاش)

۳_ حضرت لوطعليه‌السلام كى يہ آرزو كہ ايك مطمئنپناہ گاہ ہوتيجسميں اپنے مہمانوں كو پناہ ديتے اور ان ظالموں كے تجاوز سے انہيں بچاتے_قال لو أو ء اوى الى ركن شديد

۴_ مہمانوں كو ظالموں كے تجاوز سے بچانے كى ضرورت _لو ان لى بكم قوة

۵_ مفسدين اور ظالموں كے ساتھ مقابلہ كى ضرورت _لوان لى بكم قوة

۶_ ظلم اور ظالموں كے خلاف مقابلہ كرنے كى قدرت ركھنے كى آرزو كرنا، ايك مناسب اور پسنديدہ عمل ہے_

لو ان لى بكم قوة او ء اوى الى ركن شديد

آرزو :پسنديدہ آرزويں ۶; قدرت كى آرزو ۲، ۶; مقابلہ كرنے كے امكانات كى آرزو ۶

فساد :فساد سے مقابلہ ۶

قوم لوط :قوم لوط سے مقابلہ ۲

لوطعليه‌السلام :لوطعليه‌السلام كابے يار و مدد گار ہونا ۱; لوطعليه‌السلام كا قصہ ۱، ۲، ۳;لوطعليه‌السلام كى آرزو ۲،۳; لوطعليه‌السلام كى مہمان نوازى ۲، ۳ ; لوطعليه‌السلام كى پناہگاہ كى تلاش ۳

مفسدين :مفسدين سے مقابلہ ۲، ۶;مفسدين سے مقابلہ كى اہميت ۵

مہمان :مہمان كے دفاع كى اہميت ۴

۲۳۵

آیت ۸۱

( قَالُواْ يَا لُوطُ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَن يَصِلُواْ إِلَيْكَ فَأَسْرِ بِأَهْلِكَ بِقِطْعٍ مِّنَ اللَّيْلِ وَلاَ يَلْتَفِتْ مِنكُمْ أَحَدٌ إِلاَّ امْرَأَتَكَ إِنَّهُ مُصِيبُهَا مَا أَصَابَهُمْ إِنَّ مَوْعِدَهُمُ الصُّبْحُ أَلَيْسَ الصُّبْحُ بِقَرِيبٍ )

تو فرشتوں نے كہا كہ ہم آپ كے پروردگار كے نمائندے ہيں يہ ظالم آپ تك ہر گز نہيں پہنچ سكتے ہيں _ آپ اپنے گھر والوں كو لے رات كے كسى حصے ميں چلے جايئےور كوئي شخص كسى كى طرف مڑكربھى نہ ديكھے سوائے آپ كى زوجہ كے كہ اس تك وہى عذاب آنے والا ہے جو قوم تك آنے والا ہے ان كا وقت مقرر ہنگام صبح ہے اور كيا صبح قريب نہيں ہے (۸۱)

۱_ حضرت لوطعليه‌السلام كے مہمانوں نے حملہ آوروں كے مقابلے ميں ان كى بے كسى ديكھ كر اپنى حقيقت (فرشتہ ہونا) كو حضرت لوطعليه‌السلام كے ليے ظاہر كرديا _قال لو ان لى بكم قوّة قالوا یا لوط انا رسل ربك

۲_ حضرت لوط(ع) كے پاس جو فرشتے مہمان بن كر آئے تھے وہ ان كے ليے خداوند متعال سے پيغام لائے تھے_

قالو يا لوط انا رسل ربك

مذكورہ بالا معنى اس سے حاصل ہوتا ہے كہ فرشتوں نے اپنے آپ كو خدا كى طرف سے پيغام لانے والا (رسل ربك ) بتايا _

۳_ فرشتوں نے عذاب آنے كے وقت اور قوم لوط(ع) كى سزاسے حضرت لوط كو آگاہ كيا_

انا رسل ربك لن يصلوا اليك فأسر اليس الصبح بقريب

۴_ خداوند متعال، كفر اختيار كرنے والى اقوام كے عذاب كى اطلاع اس قوم كے پيغمبر كو ديتا ہے_

انا ارسلنا الى قوم لوط و لما جاء ت رسلنا لوطاً قالوا يا لوط انا رسل ربك

۵_ پيغمبروں كے علم و آگاہى كا محدود ہونا _قالوا يا لوط انا رسل ربك

۶_ حضرت لوط(ع) ، خداوند متعال كے تحت تربيت اور ان كى حمايت كے حامل تھے _انا رسل ربلك

مذكورہ معنى لفظ ( ربّك ) (تيرا مربّى و مدّبر) سےحاصل ہوتا ہے_

۷_ لوط(ع) اپنے مہمانوں (جو گھر ميں فرشتے تھے) كا دفاع كرنے اور ان حملہ آور ظالموں سے لڑنے كے ليے تيار تھے_

لن يصلوا اليك

۲۳۶

مذكورہ آيات سے يہ ظاہر ہوتا ہے كہ حملہ آور ، فرشتوں پر تجاوز كرنے كا ارادہ ركھتے تھے _ اسى وجہ سے ظاہراً فرشتے كہہ رہے تھے ( لن يصلوا الينا) وہ ہم تك نہيں پہنچ پائيں گے _ يہ بات دو مطلب كى طرف اشارہ كرتى ہے _ مہمان پر تجاوز، ميزبان پر تجاوز كے برابر ہے_۲ حضرت لوطعليه‌السلام جتنى قدرت ركھتے تھے حملہ آوروں كامقابلہ كرنے كيلئے تيار تھے_

۸_ عذاب پر مامورفرشتوں نے حضرت لوطعليه‌السلام كو اطمينان دلوايا كہ حملہ آور، ان كا كچھ نہيں بگاڑ سكتے اور انہيں كوئي نقصان نہيں پہنچ سكتا_قالوا يا لوط انا رسل ربك لن يصلو ا اليك

۹ _ انسان، فرشتوں كو كوئي نقصان نہيں پہچا سكتے اگر چہ وہ انسانوں كى شكل ميں كيوں نہ ہوں _

يا لوط انا رسل ربك لن يصلوا اليك

۱۰_ فرشتوں نے ظالموں كى حضرت لوطعليه‌السلام كے گھر تك رسائي كو روك ديا _انا رسل ربك لن يصلوا اليك فأسر بأهلك

۱۱_ فرشتوں نے حضرت لوطعليه‌السلام سے چاہا كہ اپنے گھر والوں كو رات كے وقت اپنى قوم كے علاقے سے لے جائيں _

فأسر بأهلك بقطع من الليل

''اسراء'' ''ا سر'' كا مصدر ہے جسكا معنى رات كو كوچ كرناہے _ (بأہلك) ميں ''باء متعدى '' كے ليے ہے اور (الليل ) ميں ''الف لام '' حضورى ہے پس (فأسر ) كے جملے كا معنى يوں ہوگا:(اے لوطعليه‌السلام ) اپنے گھر والوں كو اس رات كے كسى حصے ميں كوچ كراديں _

۱۲_ قوم لوط ميں صرف ان كے اہل خانہ ايمان لائے تھے اوروہ ان كى قوم كے ظلم و گناہوں سے پاك تھے _

كانوا يعملون السيئات فأسر بأهلك بقطع من الليل الاّ امرا تك

۱۳_ حضرت لوط(ع) اور ان كے گھر والوں كى نجات اسميں تھى كہ وہ ديار قوم لوط سے نكل جائيں _

فأسر بأهلك بقطع من الليل

۱۴_ حضرت لوطعليه‌السلام كو اس بات كا پابند كيا گيا تھا كہ عذاب كے نازل ہونے سے پہلے مخفى طوراپنى قوم كو بتلائے

بغير ان كى سرزمين سے نكل جائيں _فأسر بأهلك بقطع من الليل

فرشتوں كا يہ اصرار كہ حضرت لوطعليه‌السلام رات كو يہاں سے كوچ كريں مذكورہ بالا تفسير كى تائيد كرتا ہے او ر قابل ذكر ہے كہ يہ احتمال اس وقت ديا جاسكتا ہے جب فرشتوں كا حضرت لوطعليه‌السلام كو يہ كہنا ( فأسر ) عذاب نازل ہونے والى رات كونہ ہوبلكہ ايك دن پہلے ان كو بتايا گيا ہو_

۲۳۷

۱۵_ فرشتوں نے حضرت لوطعليه‌السلام اور ان كے اہل خانہ سے يہ چاہا كہ اپنے ديار سے نكلتے وقت نہ ركيں اور پھر اپنے گھر واپس بھى نہ لوٹيں _و لايلتفت منكم احد

۱۶_ فرشتوں نے حضرت لوطعليه‌السلام كو تاكيد كى كہ اپنى زوجہ كو عذاب سے بچانے كے ليے ساتھ نہ لے جائيں _

فأسر بأهلك بقطع من الليل الاّ امرا تك

مذكورہ معنى اسوقت ليا جاسكتا ہے كہ جب (امرا تك) ( اہلك ) سے استثناء ہو_

۱۷_ حضرت لوطعليه‌السلام كے گھر والوں ميں سے صرف انكى اہليہ نے رات كے وقت گھر سے كوچ نہيں كيااور ديار قوم لوط ميں واپس لوٹ آئي_و لا يلتفت منكم احد الاّ أمراتك

مذكورہ بالا معنياس احتمال كى بناء پر ہے جب( الا امراتك ) كا جملہ ( لا يلتفت ...) سے استثناء كيا گيا ہے_ پس جملہ ( لا يلتفت انہ مصيبہا ما اصابہم ) كا يہ معنى ہوگا كہ كوئي بھى تم ميں سے جانے سے نہيں ركنا چاہيے اورگھر واپس نہ لوٹے ليكن تمہارى اہليہ اسكى نافرمانى كرے گى اور واپس لوٹے گى كيونكہ اسے عذاب الہى ميں گرفتار ہونا ہے_

۱۸_ حضرت لوطعليه‌السلام كى زوجہ، كو ضرور قوم لوط(ع) كے مقدر شدہ عذاب ميں گرفتار ہونا تھا_

انه مصيبها ما اصابهم

(انہ) ميں ضمير ، ضمير شان ہے جو تاكيدسے حكايت ہے_

۱۹_ حضرت لوطعليه‌السلام كى زوجہ ان پر ايمان نہيں لائي اور قوم لوط كے گناہ ميں برابر كى شريك تھى _

فأسر فأهلك الّا أمراتك انه مصيبها ما اصابهم

(انه مصيبها ما اصابهم ) كا جملہ يہ بتاتا ہے كہ حضرت لوطعليه‌السلام كى بيوي، قوم لوط كى سزا ميں برابر كيشريك تھى يہ اس بات كو بتاتا ہے كہ اس كا گناہ بھى قوم لوط كے گناہ كى طرح تھا_گويا كہ وہ اس كے كاموں پر راضى تھى ياجيسا كہ بعض روايات ميں يہ بھى ذكر ہوا ہے كہ گناہ كرنے ميں وہ ان كى مدد كرتى تھي_

۲۰_انبياء كرام سے رشتہ داري، عذاب الہى سے نجات دينے ميں مؤثر نہيں ہے_الّا امراتك انه مصيبها ما ا صابهم

۲۱_ گنہگاروں كيلئے مقدر شدہ سزاؤں كو جارى كرنے ميں ان كے حسب و نسب كا لحاظ نہيں كرنا چاہيے_الاّ أمراتك انه مصيبها ما أصابهم

۲۲_ اديان الہى كى نگاہ ميں عورت ايك مستقل فكر و عقيدہ كى مالك اور اپنے اعمال كى خود ہى جوا ب وہ ہے_

فأسر فأهلك بقطع من الليل الّا امرا تك انه مصيبها ما أصابهم

۲۳۸

۲۳_ فرشتوں كا ديار قوم لوط ميں اول صبح كو آنا اس قوم پر نزول عذاب كا مقرر وقت تھا_ان موعدهم الصبح

''الصبح''ميں ''الف ولام'' مضاف اليہ كى جگہ پر ہے پس ( ان موعد ہم الصبح) كا معنى يوں ہوگا كہ آج رات كى سحر كو قوم لوط پر عذاب موعود كا وقت ہے_

۲۴_ فرشتوں نے حضرت لوطعليه‌السلام سے چاہا كہ اپنے جانے ميں دير نہ كريں كيونكہ عذاب الہى كا وقت قريب ہے_

فأسر بأهلك ان موعدهم الصبح اليس الصبح بقريب

جملہ ''ان موعد ہم الصبح ...'' جملہ''فاسر فاهلك '' كى علّت كے قائم مقام ہے_

۲۵ _ حضرت لوطعليه‌السلام نے فرشتوں سے چاہا كہ اسكى قوم كو عذاب دينے ميں جلدى كريں _

ان موعدهم الصبح ا ليس الصبح بقريب

( اليس ) ميں استفہام تقريرى ہے اور اس كا مقصد يہہے كہ مخاطب، مضمون جملہ كا اعتراف و اقرار كر رہا ہے كہ اس كے بعد وہ واقع ہو_ اور حضرت لوطعليه‌السلام سے يہ اقرار و اعتراف لينا كہ انكى قوم كا عذاب نزديك ہےيہ اس بات كى طرف اشارہ كرتاہے كہ وہ اپنى قوم پر عذاب ميں تعجيل كے خواہاں تھے_

۲۶_عن ا بى جعفر عليه‌السلام ... ''فلّما جاء آل لوط المرسلون قالوا: (فأسر بأهلك ) يا لوط اذا مضى لك من يومك هذا سبعة ايام و ليا ليها '' بقطع من الليل'' اذا مضى نصف الليل (۱)

امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے جب الله تعالى كے فرشتے خاندان لوطعليه‌السلام كے پاس آئے تو انہوں نے كہا اے لوط(ع) اس تاريخ سے سات رات و دن گذرنے كے بعد آدھى رات كو اپنے اہل خانہ كو اس سرزمين سے باہر لے جائيں ۲۷_عن ا بى جعفر عليه‌السلام ... ان اللّه تعالى لما ا راد عذابهم ( قوم لوط ) بعث اليهم ملائكة و قالوا للوط : ا سر بأهلك من هذا القرية الليلة فلَمّاانتصف الليل سار لوط ببناته (۲)

____________________

۱)علل اشرائع ، ص ۵۴۹، ح ۴ ، ب ۳۴۰ _ نور الثقلين ج ۲ ص ۳۸۳ ، ح ۱۶۵_

۲) علل اشرائع ، ص ۵۵۰، ح ۵ ، ب ۳۴۰_ نور الثقلين ، ج ۲ ص ۳۸۴ ، ح ۱۶۶_

۲۳۹

امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے كہ الله تعالى نے جب قوم لوط پر عذاب نازل كرنے كا ارادہ فرماياتو فرشتوں كو ان كى طرف بھيجا انہوں نے حضرت لوطعليه‌السلام سے كہا كہ آج رات اس آبادى سے اپنے گھر والوں كو دور لے جا ئے جب آدھى رات ہوئي تو حضرت لوطعليه‌السلام اپنى بيٹيوں كو آبادى سے دور لے گئے

۲۸_عن ا بى بصير و غيره عن احدهما عليها السّلام لما قال جبرئيل : '' انا رسل ربك '' قال له لوط(ع) : نعم قال: يا جبرئيل عجّل ، قال : يا جبرئيل عجّل ، قال : ( ان موعدهم الصبح ا ليس الصبح بقريب'' فأدخل جناحه تحتها حتّى اذا استعلت قلّبها عليهم و رمى جدران المدينه بحجار من سجّيل و سمعت امرا ة لوط الهَدّة فهلكت منها (۱)

ابو بصير اور ان كے علاوہ دوسرے افراد امام باقرعليه‌السلام يا امام جعفر صادقعليه‌السلام سے روايت كرتے ہيں كہ جب حضرت جبرئيل نے حضرت لوطعليه‌السلام سے كہا كہ ہم الله تعالى كے بھيجے ہوئے فرشتے ہيں _ توحضرت لوطعليه‌السلام نے كہا جلدى كرو جناب جبرئيل نے كہا ٹھيك ہے پھر حضرت لوطعليه‌السلام نے كہا جلدى كرو حضرت جبرئيل نے كہا ان كے عذاب كا وقت صبح ہے كيا صبح نزديك نہيں ہے؟ پھر اس ( جبرئيل ) نے اپنے پروں كو اس علاقہ كى زمين كے اندر داخل كيا پھر جب آبادى اوپر كى طرف گئي تو اس نے اوپر سے ان كو نيچے گراديا اور اس شہر كى ديواروں كو سجيل ( مٹى كے پتھروں ) سے سنگ بارى كى ، لوطعليه‌السلام كى زوجہ نے ديواروں كے گرنے كى سخت آواز كو سنا اور اسى آواز كے سبب ہلاك ہوگئي_

انبياء :انبياء اور كافروں كا عذاب ۴; انبياء كے ساتھ رشتہ دارى ۲۰; انبياءعليه‌السلام كے علم كا احاطہ ۵

انسان :انسان اور ملائكہ ۹; انسانوں كا عاجز ہونا ۹

الله تعالى :الله تعالى كى امداد ۶; الله تعالى كى ربوبيت ۶

پيغمبر الہى : ۲روايت : ۲۶، ۲۷، ۲۸سزا :سزا دينے ميں عدالت كرنا ۲۱

سزا كا قانون : ۲۱

عذاب :اہل عذاب ۱۸; سجيل كے ساتھ عذاب ۲۸; صبح كو عذاب ۲۳، ۲۸; عذاب سے نجات ۲۰;عذاب كا اظہار ۲۸

____________________

۱) علل اشرائع ، ص ۵۵۲، ح ۶، ب ۳۴۰; تفسير عياشى ج ۲ ص ۱۵۶، ح ۵۴_

۲۴۰