تفسير راہنما جلد ۸

تفسير راہنما 0%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 971

تفسير راہنما

مؤلف: آيت الله ہاشمى رفسنجاني
زمرہ جات:

صفحے: 971
مشاہدے: 166934
ڈاؤنلوڈ: 2789


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4 جلد 5 جلد 6 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 971 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 166934 / ڈاؤنلوڈ: 2789
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد 8

مؤلف:
اردو

عورت :اديان الہى ميں عورت ۲۲;عورت كا استقلال ۲۲; عورت كى ذمہ دارى ۲۲

كفار :كفار كے عذاب كا اعلان ۴

قوم لوطعليه‌السلام :سرزمين قوم لوط(ع) سے ہجرت ۱۳، ۱۴، ۱۵;قوم لوط(ع) كا عذاب ۲۴، ۲۷، ۲۸; قوم لوط(ع) كے عذاب كا وقت ۳، ۲۳، ۲۸;قوم لوط(ع) كے عذاب ميں تعجيل ۲۵; قوم لوط(ع) كے گناہ گار ۱۹

لوطعليه‌السلام :لوطعليه‌السلام اور ملائكہ ۲۵، ۲۸; لوطعليه‌السلام پر ايمان لانے والوں كى قلت ۱۲;لوطعليه‌السلام كے اطمينان ۸ ;لوطعليه‌السلام كا قصہ : ۱، ۲، ۳، ۷، ۸، ۱۰، ۱۱، ۱۲، ۱۴، ۱۵، ۱۶، ۱۷، ۱۸، ۱۹، ۲۴ ، ۲۵، ۲۶، ۲۷، ۲۸; لوطعليه‌السلام كا كفر كرنے والے ۱۹; لوط(ع) كا مربى ۶; لوط(ع) كا مقابلہ ۷; لوط(ع) كو وحى ۲; لوط(ع) كى امينت ۸;لوطعليه‌السلام كى جلدى ۲۴;لوطعليه‌السلام كى ذمہ

دارى ۱۴; لوطعليه‌السلام كى رات كو ہجرت ۱۱، ۲۷;لوطعليه‌السلام كى زوجہ كا عذاب ۱۸ ; لوطعليه‌السلام كى زوجہ كا كفر ۱۹; لوطعليه‌السلام كى زوجہ كا گناہ ۱۹ ; لوطعليه‌السلام كى گھر والوں كى ہجرت ۱۳;لوطعليه‌السلام كى مہمان نوازى ۷; لوطعليه‌السلام كى نجات ۱۳; لوطعليه‌السلام كى ہجرت ۱۳، ۱۴ ;لوطعليه‌السلام كى ہمسر كا مقدر ۱۸;لوطعليه‌السلام كى گھر والوں كا ايمان ۱۲; لوطعليه‌السلام كے گھر والوں كا پاك ہونا ۱۲;لوطعليه‌السلام كے مہمانوں كى رسالت ۲; لوطعليه‌السلام كے گھر والوں كى نجات ۱۳، ۲۶، ۲۷;لوطعليه‌السلام كے مہمان ۱;لوط(ع) كے ہمسفران ۱۶،۱۷ ; ہمسر لوط(ع) الہى عذاب كے وقت ۱۶، ۱۷; ہمسر لوطعليه‌السلام كا ہلاك ہونا ۲۸

ملائكہ :ملائكہ اور قوم لوط ۱۰; ملائكہ اور قوم لوط كا عذاب ۳; ملائكہ اور لوطعليه‌السلام ۲، ۸، ۱۱، ۱۵، ۱۶، ۲۴، ۲۶;ملائكہ اور لوطعليه‌السلام كے گھر والے ۱۵;ملائكہ كو نقصان پہنچانا ۹; ملائكہ كى نصيحت ۱۶

مہمان :مہمان سے دفاع كرنا ۷

۲۴۱

آیت ۸۲

( فَلَمَّا جَاء أَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِيَهَا سَافِلَهَا وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهَا حِجَارَةً مِّن سِجِّيلٍ مَّنضُودٍ )

پھر جب ہمارا عذاب آگيا تو ہم نے زمين كوتہ و بالا كرديا اور ان پر مسلسل كھر نجے دار پتھروں كى بارش كردى (۸۲)

۱_ الله تعالى نے ديار قوم لوط كہ تہہ و بالا كر كے ان كو نزول عذاب ميں گرفتار كيا _فلما جاء أمرنا جعلنا عليها و سافله

(عاليہا) (سافلہا) اور'' عليہا ''ميں جو '' ہا '' كى ضمير ہے وہ قريہ يا بہتسى بستيوں كى طرف لوٹتى ہے كہ جسميں قوم لوط زندگى بسر كرتے تھے_ ہر چيز كے عالى اور سافل سے اس كے اوپر اور نيچے والا حصّہ مراد ہے ( لسان العرب )

۲_ الله تعالى نے ديار قوم لوط كو تہہ و بالا كرنے كے ساتھ ساتھ ان پر سجّيل (كھر نجے دار پتھر) برسانے سے ان كو ہلاك كرديا_فلَمّا جاء امرنا أمطرنا عليها حجارة من سجيل

(سجّيل )كالفظ فارسى زبان كا ہے_ عربى زبان ميں استعمال ہو كرمعرب ہوگيا ہے يعني_ (كھرنجے دار پتھر)اور اسكا تلفظ ( سجّيل ) ہے ( لسان العرب )

۳_ قوم لوط دو مقامات پرساكنتھے ايك بلند مقام(پہاڑ كے دامن)اور دوسرے نيچے( ہموار زمين )پر _جعلنا عليها سافله

جملہ ( جعلنا عاليہاسافلہا) كادو طريقوں سے معنى كيا جاسكتا ہے۱_ ديار قوم لوط كے اوپر والے حصے كو ہم نيچے لائےيعنى اس كو تہہ و بالا كرديا ۲_ وہ گھر جو پہاڑ كے دامن ميں تھے انہيں ہموار زمين پر گراديا_ مذكورہ بالا مطلب دوسرے احتمال كى بنا ء پر ہے_

۴_ الله تعالى نے حضرت لوطعليه‌السلام كے مہمان فرشتوں كے ذريعہ ديار قوم لوط كوتباہ اور انہيں ہلاك كرديا _

انا أرسلنا الى قوم لوط انا رسل ربك فلما جاء أمر نا جعلنا عاليها سافله

الله تعالى نے ديارقوم لوط كى تخريب اور ان كے عذاب كے ليے فرشتوں كو بھيجا _ ليكن اس كام اور نزول عذاب كى نسبت اپنى طرف ديتے ہوئے فرمايا :(انا أرسلنا الى قوم لوط ) اور جملہ (جعلنا عالى ها سافلها ) سے يہ ظاہر ہوتا ہے كہ فرشتے نزول عذاب كے ليے وسيلہ تھے اور ان كا كام افعال الہى كا جلوہ تھا_

۵_ كائنات ميں فرشتوں كا عمل و دخل، حكم الہى سے اور اس كے افعال كا جلوہ ہے_

انا ارسلنا الى قوم لوط فلما جاء أمر نا جعلنا عالى ها سافله

۲۴۲

۶_ قوم لوط(ع) كے علاقہ كو تہہ و بالا كرنا اور ان پر پتھروں كى بارش كرنا يہ امر الہى سےبھيجا ہوا عذاب تھا_

فلما جاء أمرنا جعلنا عاليها سافلها و امرنا عليها حجارة

(أمرنا ) سے مراد عذاب الہى ہے _''عذاب'' كو امر كہنااس بات كى طرف اشارہ كرتا ہے كہ يہ نازل شدہ عذاب، امر اور فرمان الہى كى وجہ سے تھا_

۷_ قوم لوط پر نازل ہونے والا عذاب، سخت اور خوف ناك تھا_فلما جاء امرنا جعلنا عاليها سافله

(نا ) ضمير متكلم كى طرف لفظ ( امر) كا اضافہ كرنا عذاب كى عظمت اور بزرگى كو بتاتا ہے_

۸_ ظالم قوم لوط پر جو پتھر گرائے گئے وہ مٹى كے تہہ بہ تہہ اور آپس ميں ملے ہوئے پھتر ہوئے تھے_

و أمطرنا عليها حجارة من سجيل منضود

_(منضود ) يعنى ايك دوسرے كے اوپر ركھے گئے يہ لفظ ( سجيل) كى صفت واقع ہوئي ہے اسكا معنى يہ ہے كہ جو پتھر قوم لوط پر برسائے گئے مختلف تہہ ميں لگے ہوئے اور آپس ميں ملے ہوئے تھے_

۹_عن ا بى جعفر(ع) ان جبرئيل قال (لرسول اللّه ) انّى نوديت من تلقاء العرش اهبط الى قرية قوم لوط و ما حوت فاقلعها من تحت سبع ا رضين فهبطت على اهل القرية فاقلعتها ثم عرجت بها فقلّبتها عليهم حتى صار ا سفلها ا علاها فقال له رسول اللّه يا جبرئل و ا ين كانت قريتهم فى البلاد؟فقال جبرئيل كان موضح قريتهم فى موضع بحيرة طبرية اليوم و هى فى نواحى الشام قال له الرسول اللّه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ا رايتك حين قلّبتها عليهم فى ا يّى موضع من الارضين وقعت القرية و ا هلها ؟ فقال يا محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وقعت فيما بين بحرالشام الى مصر فصارت تلولاً فى البحر (۱)

امام محمد باقرعليه‌السلام سے روايت ہے كہ جبرئيل آنحضرتعليه‌السلام كى خدمت ميں حاضر ہوئے اور كہا كہ عرش سے نداء آئي كہ آبادى لوط اور اس كے درميانى حصے كى طرف اتر جاؤ اور اس جگہ كو سات زمينوں كے نيچے سے كھود ڈالو _ اور ميں وہاں گيا اور اس جگہ كو

____________________

۱) علل الشرائع ، ص ۵۵۱، ح ۵، ب ۳۴۰_ نور الثقلين ، ج ۲ ، ص ۳۸۴، ۱۶۶

۲۴۳

كھودا اور اسكو اوپر كى طرف اٹھا يا اور اس كو ان كے اوپر گرا ديايہاں تك كہ وہ تہہ و بالا ہوگئے _ آنحضرتعليه‌السلام نے جبرئيل سے سوال كيا قوم لوط كى آبادى كہاں تھى ؟ جبرئيل نے جواب ديا كہ ان كى آبادى آج جہاں دريا طبريہ واقع ہے وہاں ان كى آبادى تھى كہجو شام كے نواحى علاقہ ميں واقع تھا_ پھر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جبرائيل سے فرمايا :يہ بتاؤ كہ جب ان كى آبادى كو ان پر خراب كرديا تو وہ آبادى اور وہاں كے لوگ زمين كے كس مقام پر گرے_ جبرئيلعليه‌السلام نے عرض كى اے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شام و مصر كے درميان دريا پر گرے اور ايك ٹيلے كى صورت ميں ہوگئے_

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :آنحضرت اور قصہ لوطعليه‌السلام ۹

الله تعالى :افعال الہى كى نشانياں ۵;الله تعالى كے اوامر ۵،۶; الله تعالى كے عذاب ۱،۲، ۴،۶

سرزمين :قوم لوط كى سرزمين كا تہہ و بالا ہونا ۱،۶;قوم لوط كى سرزمين كا جغرافيہ ۳

روايت :۹

عذاب :عذاب استيصال ۱; عذاب سجّيل ۲، ۶، ۸;عذاب كا ذريعہ۲، ۸; عذاب كے مراتب ۷

قوم لوط(ع) :قوم لوط(ع) پر پتھروں كى بارش ۶; قوم لوط(ع) كا سخت عذاب ۷; قوم لوط(ع) كا عذاب ۱، ۲، ۴، ۸; قوم لوط(ع) كى تاريخ ۱، ۲، ۷; قوم لوطعليه‌السلام كى ہلاكت ۲،۴;قوم لوط(ع) كے عذاب كا سبب ۶;قوم لوط(ع) كے عذاب كى كيفيت ۹;قوم لوط(ع) كے عذاب والے پتھروں كى خصوصيات ۸

ملائكہ :افعال ملائكہ كا سبب ۵; ملائكہ كا عذاب ۴; ملائكہ كى قدر ت۴

۲۴۴

آیت ۸۳

( مُّسَوَّمَةً عِندَ رَبِّكَ وَمَا هِيَ مِنَ الظَّالِمِينَ بِبَعِيدٍ )

جن پر خدا كى طرف سے نشان لگے ہوئے تھے اور وہ بستى ان ظالموں سے كچھ دور نہيں ہے (۸۳)

۱_ ظالم قوم لوط پر جو پتھر برسائے گئے ان پرايك مخصوص نشانى تھى جس سے صرف الله تعالى ہى آگاہ تھا_

مسوّمة عند ربك

(سمية) و (سيماء) كا معنى نشانى و علامت ہے اور(تسويم) (مسّومة كا مصدر ہے) جسكا معنى علامت قرار دينا ہے_

يعنى نشانى و علامت ركھنے والى _ مذكورہ بالاتفسير ميں ( عند ربك ) كو (مسوّمة) كے متعلق قرار ديا گيا ہے_

۲_ قوم لوط پر جن پتھروں كو گرايا گيا وہ ايسى جگہ پر تھے كہ الله تعالى كے علاو كوئي بھى اس جگہ پر دسترسينہيں ركھتاتھا_

حجارة من سجيل منضود _ مسوّمة عند ربك

يہ مذكورہ تفسير اس صورت ميں ہوسكتى ہے جب ہم ( عند ربك ...)كو لفظ (مسوّمة) كى طرح لفظ ( حجارة) كے ليے صفت قرار ديں نہ يہ كہ لفظ (مسوّمة) كے ليے متعلق واقع ہو_ اس صورت ميں (عند ربك ...) كا معنى يوں ہوگا كہ وہ پتھر جو نازل ہوئے تھے وہ الله تعالى كے پاس تھے يعنى جس جگہ پر موجود تھے اس جگہ سے الله تعالى ہى آگاہ تھا_

۳_ الله تعالى كى ربوبيت كا تقاضا يہ ہے كہ انسانوں كے نظام كو منظم كرنے كے ليے گنہگاروں اور ظالموں كو سزا دے_

مسوّ مة عند ربّك

۴_ قوم لوط(ع) ، لواط جيسے برے عمل ميں آلودہ ہونے كى وجہ سے خداوند عالم كى بارگاہ ميں ظالم لوگ شمار ہوتے تھے _

وماهى من الظالمين ببعيد

۵_ قوم لوط كيبستي،مكہ كى سرزمين سے كچھ زيادہ فاصلہ نہيں ركھتى تھى _ما هى عن الظالمين ببعيد

مذكورہ معنى اسى صورت ميں ہے كہ جب (ہي) كى ضمير كو قوم لوط كى بستييا بستيوں كى طرف لوٹائيں ، اور ( الظالمين ) سے مراد كفار و مشركين مكہ ہوں _

۶_ الله تعالى نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا انكاركرنے والوں اور مشركين كو دنياوى عذاب اور پتھروں كے نازل ہونے كے عذاب سے ڈرايا_و ما هى من الظالمين ببعيد

۲۴۵

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو مخاطب(عند ربّك) قرار دينے كے بعد جملہ ( و ما ہى ...) كا ذكرممكن ہے اس بات پر قرينہ ہو كہ ان (الظالمين ) سے مراد عصر بعثت كے كافر و مشرك ہيں _

۷_ ستمگر معاشرے، دنياوى سزاؤں اور پتھروں والے عذاب ميں گرفتار ہونے والے ہيں _وماهى من الظالمين ببعيد

سياق كلام سے يہ ظاہر ہوتا ہے كہ (ہي) كى ضمير ممكن ہے (قرية) يعنيبستى يا بستيوں كى طرف لوٹے، ياپہلے والى آيت ميں لفظ ( حجارة) كى طرف پلٹ رہى ہو _تو دوسرى صورت ميں آيت كا معنى يہ ہوگا كہ فلاں پتھر ظالموں سے دور نہيں ہے ، يعنى ظالم اس عذاب ميں گرفتار ہونے والے ہيں اور ان كے ليے اس طرح كے پتھر آمادہ ہيں _

۷_ ہمجنس بازى كرنأظلم ہے اور جو معاشرہ جو اس مرض ميں مبتلا ہے وہ دنياوى عذاب ميں گرفتار ہونے والا ہے_

و ما هى من الظالمين ببعيد

مذكورہ آيات كى روشنى ميں (الظالمين) سے مراد لواط كرنے والے لوگ ہيں _

۸_ الله تعالى ، انسانوں كو گزرے ہوئے لوگوں كے واقعات اور ظالموں كے برے انجام سے عبرت حاصل كرنے كى دعوت ديتا ہے_و ما هى من الظالمين ببعيد

مذكورہ تفسير اس صورت ميں ہے جب ہم ( ہى ) كى ضمير سے مراد قوم لوط كى آبادى ليں تو (ما ہى ...) كا جملہ لوگوں كو اس بات كى ترغيب ديتا ہے كہ قوم لوط كى آبادى كى طرف نگاہ كرو اور عذب الہى كے آثار كا مشاہدہ كرو تا كہ تم اس سے عبرت حاصل كرسكو_

۱۰_عن ا بى جعفر عليه‌السلام ... قال اللّه عزوجل لمحمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : '' و ما هى من الظالمين ببعيد'' من ظالمى امتك ان عملوا ما عمل قوم لوط ... (۱)

امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے: كہ الله تعالى آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو مخاطب ہو كر فرما رہا ہے : اگر تيرى امت نے قوم لوط والے عمل كو انجام ديا ، تو وہ پتھر ظالموں سے دور نہيں ہيں _

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :

____________________

۱) كافى ، ج ۵ ، ص ۵۴۶، ح ۵; نورالثقلين ، ج ۲ ، ص ۳۷۷، ح ۱۵۵_

۲۴۶

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے منكرين كى سزا ۶

انسان :انسانوں كودعوت ۹; انسانوں كا مدبّر ۳

الله تعالى :الله تعالى كا خوف دلوانا ۶;الله تعالى كا علم ۱۰;الله تعالى كى ربوبيت كے آثار ۳; الله تعالى كى دعوتيں ۹

پتھر :پتھر كى بارش سے ڈرانا ۶

سرزمين :قوم لوط كى سرزمين اور مكہ ۵;قوم لوط كى سرزمين كا جغرافيہ۵

سزا :دنياوى سزاؤں سے ڈرانا ۶

ظالمين :ظالموں پر پتھروں كى بارش ۷;ظالموں كى دنياوى سزا ۷; ظالموں كى سزا ۳; ظالموں كے انجام سے عبرت ۹; ظالموں كے انجام كا مطالعہ ۹; ظالموں كے عذاب كا نزديك ہونا ۱۰

ظلم :ظلم كے موارد ۴، ۸

عبرت :عبرت كے اسباب ۹

عذاب :سجيل ( چھوٹے نوكيلے پتھر) كا عذاب ۱، ۷;عذاب سے ڈرانا ۶

قوم لوط :قوم لوط كأظلم ۲;قوم لوط كے عذاب والے پتھروں كى جگہ ۲;قوم لوط كے عذاب والے پتھروں كى نشانى ۱; قوم لوط ميں لواط ۴

كفار :كفار كے موارد ۶

گنہگار :گنہگاروں كى سزا ۳

لواط :لواط كأظلم ۷

مشركين :مشركين كو ڈرانا ۶

ہم جنس باز لوگ :ہم جنس باز لوگوں كا دنيا ميں عذاب ۸

ہمجنس بازى :ہمجنس بازى كأظلم ، ۸

۲۴۷

آیت ۸۴

( وَإِلَى مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْباً قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُواْ اللّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَـهٍ غَيْرُهُ وَلاَ تَنقُصُواْ الْمِكْيَالَ وَالْمِيزَانَ إِنِّيَ أَرَاكُم بِخَيْرٍ وَإِنِّيَ أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ مُّحِيطٍ )

اور ہم نے مدين كى طرف ان كى بھائي شعيب كو بھيجا تو انھوں نے كہا كہ اے قوم اللہ كى عبادت كركہ اس كے علاوہ تيرا كوئي خدا نہيں ہے اور خبردار ناپ تول ميں كمى نہ كرنا كہ ميں تمھيں بھلائي ميں ديكھ رہا ہوں اور ميں تمھارے بارے ميں اس دن كے عذاب سے ڈرتا ہوں جو سب كو احاطہ كرلے گا(۸۴)

۱_ حضرت شعيبعليه‌السلام ،انبياء اور رسل الہى ميں سے تھے_و الى مدين أخاهم شعيب

۲_ حضرت شعيبعليه‌السلام كى رسالت، مدائن كے لوگوں تك محدو د تھى _و الى مدين اخاهم شعيب

۳_ حضرت شعيبعليه‌السلام اور مدائن كے لوگوں كے درميان رشتہ دارى اور حسب و نسب تھا_

و الى مدين اخاهم شعيب

(أخاہم)كا جملہ يہ بتاتا ہے كہ حضرت شعيبعليه‌السلام اہل مدائن ميں سے تھے اور ان كے رشتہ دار تھے يا يہ كہ ان كے ليے درد دل ركھنے والے تھے_ مذكورہ معنى احتمال اول كى صورت ميں بيان كيا گيا ہے_

۴_ حضرت شعيب،عليه‌السلام مقام رسالت پر فائز ہونے سے پہلے بھى مدائن كے لوگوں سے محبت اوران كے دكھ ميں شريك تھے_و الى مدين اخاهم شعيب

۵_ حضرت شعيبعليه‌السلام نے لوگوں كے نفسياتى پہلو كواجا گر

۲۴۸

كرتے ہوئے اپنى دعوت كا آغاز كيا_قال يا قوم اعبدوا اللّه

(يا قوم ) كے جملے سے خطاب كرنا، نفسياتى پہلو كو اجا گر كرنا ہے_

۶_ حضرت شعيبعليه‌السلام كا مدائن كے لوگوں كو پہلا پيغام، خدائے وحدہ لاشريك كى عبادت كرنے كى دعوت دينا تھا_

قال يا قوم اعبدوا اللّه

۷_ مدائن كے لوگ ،الله تعالى كے وجود پر اعتقاد ركھتے تھے_قال يا قوم اعبدوا الله ما لكم من اله غيره

۸_ الله تعالى كے وجود پر يقين ركھنا ،تاريخ بشر ميں بہت بنيادى اعتقاد ہے_قال يا قوم اعبدوا اللّه ما لكم من اله غيره

۹_ حضرت شعيبعليه‌السلام كى قوم ،مشرك اور عبادت الہى سے منہ موڑنے والى تھي_اعبدوا اللّه ما لكم من اله غيره

۱۰_ انسان، قديم ايام سے ہى معبود كى عبادت اور اسكى طرف جھكاؤ ركھتا ہے_اعبدو ا اللّه ما لكم من اله غيره

۱۱_ الله تعالى كى عبادت ضرورى ہے اور اس كے علاوہ كوئي بھى عبادت كى لائق نہيں ہے_

اعبدوا اللّه ما لكم من اله غيره

۱۲_ توحيد عملى كى بنياد، توحيد نظرى ہے_اعبدوا اللّه مالكم من اله غيره

۱۳_صرف الله تعالى ہى حقيقت ميں لائق عبادت ہے_اعبدوا اللّه ما لكم من اله غيره

۱۴_ حضرت شعيبعليه‌السلام كى اصلى ذمہ داري، شرك كا مقابلہ كرنا تھا_قال يا قوم ما لكم من اله غيره

۱۵_ حضرت شعيبعليه‌السلام نے اپنى قوم كو يہ بتايا كہ الله تعالى كے علاوہ كوئي معبود نہيں ہے اور ان كو توحيد پرستى اور شرك سے دور رہنے كى دعوت دى _قال يا قوم اعبدوا اللّه ما لكم من اله غيره

۱۶_ حضرت شعيب(ع) نے اپنى قوم سے چاہا كہ ترازو ميں دھو كا اور ناپ تول ميں كمى نہ كريں _

و لا تنقصوا المكيال و الميزان

(مكيال ) پيمانہ كے معنى ميں ہے_ كم كرنے كا معنى يا تو متعارف حجم سے كم يامتعارف مقدار كے پيمانہ كو پورا نہ بھرنا ہے ( ميزان) بھى ترازو كے معنى ميں ہے_ترازو كو كم ركھنے كا معنى يا تو يہ ہے كہ متعارف مقدار سے كم اس ميں وزن كيا جائے يا جو تولنے كى مقدار ہے اس كو كم كرناہے كہ وہ مقدار معين سے كم ہو_

۱۷_ حضرت شعيبعليه‌السلام كى قوم كے درميان كا روبارى امور ميں كم فروشى اور بے عدالتى كا پايا جانا_

و لا تنقصوا المكيال و الميزان

۲۴۹

۱۸_ حضرت شعيبعليه‌السلام كى قوم ،الله تعالى كى نعمتوں ، روزى اور مال و منال سے بہرہ مند تھے_انى ارى كم بخير

(ارى ) كا مصدر (رؤيت) ہے جو ديكھنے اور مشاہدہ كرنے كے معنى ميں آتا ہے_ ( بخير) ميں باء ملابست ہے يہاں ( خير ) سے مراد پہلے والى آيت ( لا تنقصوا ...) كے قرينہ كى وجہ سے روزى اور مال و ثروت ہے _ تو آيت كا معنى يوں ہوگا كہ تم تو مال و ثروت ركھنے والے لوگ ہوتمھارے ليےيہ بات صحيح نہيں ہے كہ تم كم تولنے كا بہانہ بناؤ_

۱۹_ حضرت شعيبعليه‌السلام كى قوم نے اپنى زندگى ميں روزى اور مال و ثروت فراواں ركھنے كے باوجود بھى دھو كہ دہى اور كم تولنا شروع كرديا تھا_لا تنقصوا ان ارى كم بخير

۲۰_ لوگوں كا غنى و ثروت مند ہونا، كوئي بنيادى دليل نہيں بن سكتى كہ وہ تجارت ميں دھو كہ دہى نہ كرے_

لا تنقصوا المكيال و الميزان انى ارى كم بخير

۲۱_ حضرت شعيبعليه‌السلام كى قوم ،فہم و ذكاوت سے بہرہ مند تھي_انّى ارى كم بخير

( انى اراكم بخير ) كے جملے كو (اعبدوا اللّہ ...) كے ليے علت قرار دے سكتے ہيں تو اس صورت ميں ( خير) سے مراد ہوش و ذكاوت ہوگى كيونكہ وحدہ لا شريك كى عبادت كى طرف توجہ ہونا عقل و فہم كے ساتھ سازگار ہے _ تو اس صورت ميں ( اعبدوا اللّہ انى ارى كم بخير) كا معنى يوں ہوگا كہ تم لوگ عقل و فہم ركھتے ہو لہذاو حدہ لاشريك كى عبادت كرو _تم سے بعيد ہے كہ اس كے ساتھ شريك قراردو_

۲۲_ حضرت شعيبعليه‌السلام اپنى قوم كے گنہگار اور مشركين كے مستقبل كے بارے ميں پريشان تھے_

انّى ا خاف عليكم عذاب يوم محيط

۲۳_ غير الله كى عبادت، عبادت ميں شرك اور ظلم كرنا نيز تجاوز كرنے ميں جلدى كرنا ،قيامتكے عذاب كا سببہے_

اعبدوا اللّه ولا تنقصوا المكيال انى ا خاف عليكم عذاب يوم محيط

۲۴_ قيامت كے دن كا عذاب، ايسا عذاب ہے جو تمام گنہگاروں اور كافروں كو شامل ہوگا _انّى أخاف عليكم عذاب يوم محيط

كلمة( محيط) كا معنى (احاطہ كرنے والا اور تمام كو شامل ہونے والا) ہے ظاہراً يہ ( يوم ) كے لفظ كے ليے صفت واقع ہوا ہے_اصل ميں عذاب كى صفت كو بيان كر رہا ہے يعني'' محيط عذابہ ''

۲۵۰

۲۵_ قيامت كے دن كے عذاب ميں گرفتار ہونے والوں كا فرار ناممكن ہے_انّى ا خاف عليكم عذاب يوم محيط

(عذاب ) كى جو صفت '' تمام كو شامل ہونے والا'' بيان ہوئي ہے اس سے مراد وہ لوگ ہيں جو عذاب كے مستحق ہيں _ تمام لوگوں كو شامل ہوگا كسى سے نہيں ٹلے گا _ يعنى جو مستحق عذاب ہيں ان سے ٹلنے والا نہيں ہے _ يعنى گنہگاروں پر ہر طرف سے اس طرح عذاب آجائے گا كہ وہ كسى صورت ميں فرار نہيں كر سكيں گے_

۲۶_عن ا بى عبداللّه عليه‌السلام : لم يبعث اللّه عزوجل من العرب الا خمسة انبياء : هوداً و صالحاً و اسماعيلً و شعيباً و محمداً خاتم النبيين صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ،وكان شعيب بكاء (۱)

امام صادق(ع) سے روايت ہے كہ الله تعالى نے عربوں ميں سے صرف پانچ انبياءعليه‌السلام كو مبعوث رسالت فرمايا ہے حضرت ہودعليه‌السلام ،حضرت صالحعليه‌السلام ، حضرت اسماعيلعليه‌السلام ، حضرت شعيبعليه‌السلام اور خاتم المرسلينصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ليكن حضرت شعيبعليه‌السلام ان ميں سے سب سے زيادہ گريہ كرنے والے تھے_

۲۷_عن على بن الحسين عليه‌السلام قال : ان اوّل من عمل المكيال و الميزان شعيب النبى عليه‌السلام عمله بيده ..(۲)

امام على بن الحسين زين العابدين(ع) فرماتے ہيں : پيمانہ اور ترازو كوسب سے پہلے بنانے والے حضرت شعيب نبىعليه‌السلام تھے ، جسكو انہوں نے اپنے ہاتھوں سے بنايا _

۲۸_عن ابى جعفر عليه‌السلام ( فى حديث طويل) و ا ما شعيب فانه ا رسل الى مدين و هى لا تكمل اربعين بيتاً (۳)

امام باقرعليه‌السلام سے ايك بہت طولانى روايت ہے اسميں حضرتعليه‌السلام فرماتے ہيں جب حضرت شعيبعليه‌السلام كو مدائن ميں نبى بنا كر بھيجا گيا تو اسوقت مدائن ميں چاليس گھر نہيں تھے_

۲۹_عن أبى عبداللّه عليه‌السلام فى قول اللّه : ''انى اراكم بخير '' قال : كان سعرهم رخيصاً (۴)

امام جعفر صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كہ ( انى اراكم بخير) سے مراد آيت ميں يہ ہے كہ ان كے درميان چيزوں كى قيمت كم تھى _

اقتصاد :اقتصاد ميں خلاف ورزى كے آثار۲۳

____________________

۱)قصص الانبياء رواندى ، ص ۱۴۵، ح ۱۵۷; بحار الانوار ، ج ۱۲ ص ۳۸۵ ، ح ۱۱_۲)قصص الانبياء رواندى ، ص ۱۴۲، ح ۱۵۳; بحار الانوار ، ج ۱۲، ص ۳۸۲، ح ۶_

۳)كمال الدين صدوق ، ص ۲۲۰ ، ح ۲، ب ۲۲; بحار الانوار ، ج ۱۱، ص ۵۱، ح ۴۹_۴) تفسير عياشى ، ج ۲ ، ص ۱۵۹ ، ح ۶۱; نور الثقلين ، ج ۲ ، ص ۳۹۰، ح ۱۸۸_

۲۵۱

انبياء :انبياء سے رشتہ دارى ۳; عرب كے انبياءعليه‌السلام ۲; علاقائي انبياءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۲

انسان :انسان كا جھكاؤ ۱۰

اہل مدائن :اہل مدائن كا انجام ۲۲;اہل مدائن كا شرك ۹; اہل مدائن كا عقيدہ ۷; اہل مدائن كا فہم ۲۱; اہل مدائن كا فہم و درك ۲۱; اہل مدائن كا كفر ۹;اہل مدائن كو الله كى پہچان ۷; اہل مدائن كو دعوت ۶، ۱۵، ۱۶;اہل مدائن كى اقتصادى خلاف ورزياں ۱۷، ۱۹; اہل مدائن كى تاريخ ۹، ۱۵، ۱۷، ۱۸، ۱۹;اہل مدائن كى ثروتمندى ۱۸، ۱۹; اہل مدائن كى كم فروشى ۱۷، ۱۹; اہل مدائن كى نعمتيں ۱۸، ۲۱;اہل مدائن كے تعداد ميں كمى ۲۸;اہل مدائن كے پيغمبر ۲;اہل مدائن ميں اشياء كا كم قيمت ہونا ۲۹; اہل مدائن ميں بے عدالتى ۱۷

الله تعالى :الله تعالى كى خصوصيات ۱۳; الله تعالى كى معرفتكى تاريخ ۷، ۸

الله كے رسول : ۱

ايمان :الله تعالى پر ايمان لانا ۸; توحيد پر ايمان لانے كى اہميت ۱۱

تبليغ :تبليغ ميں احساسات كو ابھارنا ۵

توحيد :توحيد عبادى ۱۳;توحيد عبادى كى اہميت ۶،۱۱; توحيد عبادى كى طرف دعوت ۶،۱۵; توحيد عملى كا پيش خيمہ ۱۲; توحيد نظرى كى اہميت ۱۲/ثروت :ثروت اور اقتصادى خلاف ورزياں ۲۰

جھكاؤ:عبادت كى طرف جھكاؤ ۱۰; معبود كى طرف جھكاؤ ۱۰

روايت : ۲۶، ۲۷، ۲۸، ۲۹

شرك :شرك سے اجتناب كى دعوت ۱۵;شرك عبادى كے آثار ۲۳

شعيبعليه‌السلام :حضرت شعيبعليه‌السلام اور اہل مدائن ۳; حضرت شعيبعليه‌السلام اور ترازو ۲۷; حضرت شعيبعليه‌السلام اور كثرت گريہ ۲۶; حضرت شعيبعليه‌السلام اور گنہگار ۲۲; حضرت شعيبعليه‌السلام اور مشركين ۲۲; حضرت شعيبعليه‌السلام اور نا پنے كا پيمانہ ۲۷; حضرت شعيب كا شرك سے مقابلہ ۱۴; حضرت شعيبعليه‌السلام كا مہربان ہونا ۴; حضرت شعيبعليه‌السلام كى پريشانى ۲۲;حضرت شعيبعليه‌السلام كى تبليغ ۱۵; حضرت شعيبعليه‌السلام كى تبليغ كا طريقہ ۵; حضرت شعيبعليه‌السلام كى تعليمات ۶; حضرت شعيبعليه‌السلام كى دعوت دينا ۵، ۱۵، ۱۶; حضرت شعيبعليه‌السلام كى رسالت ۱۴; حضرت

۲۵۲

شعيبعليه‌السلام كى رسالت كا محدود ہونا ۲; حضرت شعيبعليه‌السلام كى قوميت ۲۶; حضرت شعيبعليه‌السلام كى نبوت ۱; حضرت شعيبعليه‌السلام كے پيش آنے كا طريقہ ۴; حضر شعيبعليه‌السلام كے رشتہ دار۳; حضرت شعيبعليه‌السلام كے فضائل۴; حضرت شعيبعليه‌السلام نبوت سے پہلے ۴

ظلم :ظلم كے آثار ۱۳

عذاب :آخرت كے عذاب كا حتمى ہونا ۱۵; آخرت كے عذاب كا عمومى ہونا ۲۴;آخرت كے عذاب كى خصوصيات ۲۴; آخرت كے عذاب كے اسباب ۲۳

عقيدہ :الله تعالى پر عقيدہ ۷; عقيدہ كى تاريخ ۷، ۸

كفار :كفار پر آخرت ميں عذاب ۲۴

كم فروشى :كم فروشى سے منع كرنا ۱۶

گنہگار :گنہگاروں پر آخرت كا عذاب ۲۴

مشركين : ۹

نظريہ كائنا ت:توحيدينظريہ كائنات ۱۲، ۱۳; نظريہ كائنات اور عقيدہ ۱۱

آیت ۸۵

( وَيَا قَوْمِ أَوْفُواْ الْمِكْيَالَ وَالْمِيزَانَ بِالْقِسْطِ وَلاَ تَبْخَسُواْ النَّاسَ أَشْيَاءهُمْ وَلاَ تَعْثَوْاْ فِي الأَرْضِ مُفْسِدِينَ )

اے قوم ناپ تول ميں انصاف سے كام لو اور لوگوں كو كم چيزيں مت دو اور روئے زمين ميں فساد مت پھيلا تے پھرو (۸۵)

۱_ حضرت شعيب(ع) نے اپنے لوگوں سے تقاضا كيا كہ چيزوں كى خريد و فروخت كے ناپ و تول ميں كمى نہ كريں _

و يا قوم اوفوا المكيال و الميزان بالقسط

( مكيال) كا معنى پيمانہ ہے_ اسكو پورا بھر كے دينے كا معنى يہ ہے كہ جو پيمانہ بازار ميں چل رہ

۲۵۳

ہے اس سے كم نہ ہويعنى معمول كے مطابق پر كيا جائے_ ناپ و تول كے پورا كرنے كا معنى يہ ہے جس چيز كو ديا جارہا ہے اسكے وزن كى مقدار معمول بازار كے مطابق ہو اس سے كم نہ ہو_

۲_ حضرت شعيبعليه‌السلام اپنے لوگوں كو ان كے معاملات ميں عدل و انصاف كرنے كى دعوت دينے والے تھے_

و يا قوم اوفوا المكيال و الميزان بالقسط

۳_ قوم شعيبعليه‌السلام ميں اقتصادى امور ميں بے عدالتى اور ناپ تول ميں كمى كرنا، واضح ترين اقتصادى انحراف تھا_

و يا قوم اوفوا المكيال و الميزان بالقسط

۴_ حضرت شعيبعليه‌السلام نے اپنى قوم سے كہا كہ لوگوں كى چيزوں كو خريدتے وقت ان كى مقدار ميں كمى نہ كريں اوران كى قيمت واقعى سے كم ظاہر نہ كرے_لا تبخسوألناس ا شياء هم

( نخس) يعنى كم كرنا اور عيب دار بيان كرنا (المصباح المنير)

۵_ انبياء كے پروگرام، عبادت، عقائد ، معاشرتى اور اقتصاد ى مسائل كو شامل ہوتے ہيں _

يا قوم اعبدوا اللّه و لا تبخسوا الناس أشياء هم

۶_ حضرت شعيبعليه‌السلام نے اپنے لوگوں كو پورى سرزمين پر فساد كرنے سے منع كيا _و لا تعثوا فى ألارض مفسدين

(عَثو) ( لا تعثوا) كا مصدر ہے جو فساد كرنے كے معنى ميں آتا ہے_

۷_ فساد پھيلانا اور فساد كرنا، حرام او رناپسنديدہ كام ہے_و لا تعثوا فى ألارض مفسدين

(مفسدين ) كالفظ حال كى تاكيد ہے يعنى نہي''لا تعثوألا تفسدوا ''كى تاكيد كے ليے آيا ہے_

۸_ كم تولنا اورلوگوں كيچيزكو بے ارزش و كم قيمت جلوہ دينا، حرام اور زمين پر فساد پھيلانا ہے_

أوفوا المكيال و الميزان و لا تعثوا فى الارض مفسدين

۹_ فساد اور فساد پھيلانے كا مقابلہ كرنا، انبياء كے اہم مقاصدميں سے ہے_و لا تعثوا فى ألارض مفسدين

۱۰_ خوشحال معاشرے تمام سرزمين پر ظلم و ستم كو پھيلانے اوراقتصادى انحرافات كے خطرہ سے دو چار ہيں _

ان ارى كم بخير أوفوا المكيال و لا تعثوا فى الارض مفسدين

۲۵۴

احكام: ۷، ۸

اقتصاد :اقتصاد ميں عدالت كرنے كى دعوت ۲، ۴; اقتصادى خلاف ورزيوں كا سبب ۱۰;اقتصادى ضرر كى پہچان ۳، ۸

انبياءعليه‌السلام :انبياءعليه‌السلام كا جہاد ۹;انبياءعليه‌السلام كى تعليمات كے پہلو ۵;انبياءعليه‌السلام كى عبادى تعليمات ۵; انبياءعليه‌السلام كى معاشرتى تعليمات ۵;انبياءعليه‌السلام كے اہداف ۹

اہل مدائن :اہل مدائن كا فتنہ برپا كرنا ۶; اہل مدائن كو دعوت ۱، ۲; اہل مدائن كى اقتصادى خلاف ورزياں ۳، ۴; اہل مدائن كى كم فروشى ۱، ۳

امراء :امراء اور اقتصادى خلاف ورزياں ۱۰; امراء اور ظلم كى وسعت۱۰

شعيبعليه‌السلام :حضر ت شعيبعليه‌السلام كى تعليمات ۱، ۲، ۴; حضرت شعيبعليه‌السلام كى دعوت ۱،۲،۴; حضرت شعيبعليه‌السلام كے انذار ۶

ظلم :ظلم كا پيش خيمہ ۱۰

فتنہ برپاكرنا :فتنہ برپا كرنے كا ممنوع ہونا ۶;فتنہ برپا كرنے كا ناپسند ہونا ۷;فتنہ برپا كرنے كى حرمت ۷; فتنہ برپا كرنے كے احكام ۷;فتنہ برپا كرنے كے ساتھ مقابلہ ۹; فتنہ برپا كرنے كے موارد ۸

كم فروشى :كم فروشى كى حرمت ۸; كم فروشى سے روكنا ۱

مال:دوسرے كے اموال كو بے قيمت جلوہ دينا ۴، ۸

محرمات : ۷

معاملہ :معاملہ كرنے كے احكام ۸

۲۵۵

آیت ۸۶

( بَقِيَّةُ اللّهِ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ وَمَا أَنَاْ عَلَيْكُم بِحَفِيظٍ )

اللہ كى طرف كا ذخيرہ تمھارے حق ميں بہت بہتر ہے اگر تم صاحب ايمان ہو اور اور ميں تمھارے معاملات كا نگران اور ذمہ دار نہيں ہوں (۸۶)

۱_عادلانہ طريقے والى تجارت وكاروبار سےجو نفع حاصل ہوتا ہے وہ نفع حلال اور پاك ہے_بقيت اللّه خير لكم

لين دين كے بارے ميں گفتگو اورمعاملات و تجارت ميں انصاف كرنا ممكن ہے يہ قرينہ ہو كہ (بقيت) (جو باقى رہ گيا ہے) اس سے مراد عادلانہ تجارت و لين دين سے فروخت كرنے والوں كا نفع ہے_

۲_ شرعى طريقے سے تجارت جو ظلم و ستم سے خالى ہو اسميں جو حلال منافع حاصل ہوتے ہيں وہ الله تعالى كى عطا ہے_

بقيّت اللّه خير لكم

مذكورہ بالامعني، لفظ ( بقيت ) كو (اللّہ) كى طرف اضافت دينے سے حاصل ہوا ہے_

۳_ صرف اہل ايمان، حلال اور انصاف كے ساتھ منافع حاصل ہونے كو اچھا سمجھتے ہيں اور حرام سے نفع حاصل كرنے كو ظالمانہ اور ناپسند خيال كرتے ہيں _بقيّت اللّه خير لكم ان كنتم مؤمنين

حلال اور انصاف سے حاصل ہونے والا منافع فقط اہل ايمان والوں كے ليے خير و بھلائي نہيں ہے بلكہ خواہ معاشرہ مومن ہو يا نہ ہو، عدل و انصاف دونوں كے ليے خير و بھلائي ہے ليكن ( ان كنتم مؤمنين ) ميں يقين كرنے اور سمجھنے كى شرط مومن ہونا ہے يعنى اگر تم ايمان والے ہو تو تمھيں يقين ہوگا كہ منافع حلال خير ہے ور نہ تمھيں يقين نہيں ہوگا _

۴_ حضرت شعيب(ع) نے اپنے لوگوں كو جو تعليمات ديں ان ميں سے تجارت كو عادلانہ اور احكام الہى كے سعادت مند ہونے اور منافع حلال ميں خير و بھلائي كا ہونا تھا_

۲۵۶

يا قوم بقيّت اللّه خير لكم

۵_ امت كى سعادت اور بھلائي، معارف الہى پر يقين اور ايمان لانے اور احكام دين پر عمل كرنے ميں ہے_

بقيّت اللّه خير لكم

بعض مفسّرين نے( بقيّت اللّہ ) سے مراد اطاعت الہى كو ليا ہے اور بعض نے احكام اور معارف الہى كو قرار ديا ہے ، مذكورہ معنى اسى نظريے كى بنياد پر ہے_

۶_ حضرت شعيبعليه‌السلام نے مدائن كے لوگوں كو بتايا كہ وہ اپنى ان تعليمات كو قبول كرنے پر انہيں مجبور نہيں كرنا چاہتے _

و ما أنا عليكم بحفيظ

(حفيظ) مراقب اور نگہبان كے معنى ميں ہے_ كيونكہ( على ) كے ساتھ متعدى ہوا ہے تو تسلّط كا معنى بھى دے گا تو اس صورت ميں ( و ما انا ...) كا معنى يہ ہوگا كہ ميں تمھيں تمھارے غلط اعمال سے مجبوراً روكنے اور نيك اعمال كى طرف لے جانے پرمامور نہيں ہوں _

۷_ انبياءعليه‌السلام ، لوگوں كو معارف اور احكام الہى كو قبول كرنے ميں جبر كرنے پر مامور نہيں تھے_و ما انا عليكم بحفيظ

۸_عن الباقر عليه‌السلام ... نحن و اللّه بقية اللّه فى ارضه (۱)

امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے كہ الله كى قسم ہم زمين پر ( بقية الله ) ہيں _

احكام : ۱انبياءعليه‌السلام :انبياءعليه‌السلام كى ذمہ داريوں كى حدود ۷

ايمان :ايمان كے آثار ۵; دين كى تعليمات پر ايمان ۵

الله تعالى :الله تعالى كى بخشيش۲/ائمہعليه‌السلام :ائمہعليه‌السلام كے درجات ۸

بقية الله :بقية الله سے مراد ۸

تجارت :تجارت كے احكام ۱; تجارت كے منافع ۲; تجارت كے منافع كا حلال ہونا ۱; تجارت ميں عدالت ۱، ۲;حلال تجارت ميں خير و بھلائي ۴

حلال :۱

____________________

۱) بحار الانوار ، ج ۶۹،ص ۱۸۸، ح ۹; بحار الانوار ، ج ۲۶، ص ۳۱۲، ح ۱_

۲۵۷

خير و بھلائي :خير و بھلائي كے عوامل ۵

دين :تعليمات دينى ميں خير و بھلائي ۴; دين ميں اكراہ و جبر كى نفى ۶، ۷

روايت : ۸

سعادت :سعادت كے اسباب ۴، ۵

شرعى فريضہ :شرعى فريضہ پر عمل كرنے كے آثار ۵

شعيبعليه‌السلام :حضرت شعيبعليه‌السلام كى تعليمات ۴، ۶;حضرت شعيبعليه‌السلام كى شريعت ميں آزادى ۶

مومنين :مومنين اور اقتصادى خلاف ورزياں ۳;مؤمنين كا ادراك كرنا ۳; مومنين كا عقيدہ ۳ ; مومنين كے فضائل ۳

منافع:حرام منافع ميں بھلائي كا نہ ہونا ۳; حلال منافع ۱،۲; حلال منافع ميں خير و بھلائي ہونا ۳، ۴

آیت ۸۷

( قَالُواْ يَا شُعَيْبُ أَصَلاَتُكَ تَأْمُرُكَ أَن نَّتْرُكَ مَا يَعْبُدُ آبَاؤُنَا أَوْ أَن نَّفْعَلَ فِي أَمْوَالِنَا مَا نَشَاء إِنَّكَ لَأَنتَ الْحَلِيمُ الرَّشِيدُ )

ان لوگوں نے طنز كيا كہ شعيب كيا تمھارى نماز تمھيں يہ حكم ديتى ہے كہ ہم اپنے بزرگوں كے معبودوں كو چھوڑديں يا اپنے اموال ميں اپنى مرضى كے مطابق تصرف نہ كريں تم تو بڑے بردبار اور سمجھ دار معلوم ہوتے ہو(۸۷)

۱_ حضرت شعيبعليه‌السلام كے دين ميں نماز ايك روشن ترين نمونہ تھا_قالوا يا شعيب عليه‌السلام ا صلاتك تأمرك

مدائن كے لوگ حضرت شعيبعليه‌السلام كے دينى كاموں ميں انكينماز كا نام ليتے تھے اس سے معلوم ہوتا ہے كہ نماز انكے دينى امور ميں ايك واضح اور اہم امر تھا_

۲_ گذشتہ اديان ميں نماز، ايك شرعى حكم تھا_

قالوا ياشعيب ا صلاتك تأمرك

۳_ مدائن كے لوگ ،حضرت شعيبعليه‌السلام كى عبادت اور نماز كا مذاق اڑاتے تھے_ا صلاتك تأمرك ان نترك ما يعبد ء اباؤن

جملة(اصلاتك ) ميں استفہام، استہزاء اور مذاق اڑانے كو بتاتا ہے_

۴_ قوم شعيبعليه‌السلام اور ان كے ا باء اجداد، مشرك اور خدائے وحدہ لا شريك كے غير كى عبادت كرتے تھے _

ان نترك ما يعبد آباؤنا

۲۵۸

۵_ حضرت شعيبعليه‌السلام ، لوگوں كو غير الله كى عبادت ترك كرنے كى دعوت ديتےتھے اور اپنى قوم كى شرك پرستى كے ساتھ مقابلہ كرتے تھے_أصلاتك تأمرك ان نترك ما يعبد آباؤنا

۶_ قوم شعيب كى اپنے باپ دادا اور بزرگوں كے آداب و رسوم كى پابندى كرنا ، انكى جھوٹے خداؤں كى پرستش كرنے كا سبب ودليل تھى _أن نترك ما يعبد آباؤنا

(ما يعبد ...) ميں ''ما ''كے لفظ سے مراد بت اور معبود ہيں _ اور ان كى صفت جملہ ( يعبد آباؤنا ) كے ساتھ لانا يہ دليل ہے كہ وہ بت پرستى پر اصرار كرتے تھے_ تو اس صورت ميں ( ان نترك ...) كا معنى يوں ہوگا كہ ہم بتوں كى پوچا كو نہيں چھوڑتے كيونكہ ہمارے آباؤ اجداد ان كى عبادت كرتے تھے اور ہم بھى ان كى طرح ان كى پرستش كو جارى ركھيں گے_

۷_ قومى تعصب، اندھى تقليد و بے جا پيروى كرنے كا سبب بنتا ہے_أن نترك ما يعبد آباؤنا

۸_ معاشروں كا گذشتہ اقوام كے باطل آداب و رسوم كا پابند ہونا،ان كى افكار اور ان ميں حق كے پرچاركے لئے مانع ہے_

أن نترك ما يعبد آباؤنا

۹_حضرت شعيب(ع) كے معارف الہى كى تبليغ كے اصلى مخاطب، نوجوان اور درميانى عمر كے لوگ تھے_

أن نترك ما يعبد آباؤنا

(يعبد) جو فعل مضارع ہے اس سے يہ معلوم ہوتا ہے كہ ( آباؤنا ) سے مراد كہ فقط گذشتہ نسل مخاطب نہيں ہے_ بلكہ ان كے موجودہ آباؤ اجداد بھى مورد نظر ہيں تو اس صورت ميں طبيعى طور پر مخاطب، جوان اور درميانى عمر كے لوگ ہوں گے_

۱۰_ حضرت شعيب(ع) كى تعليمات ميں مالكوں كے ليے اپنے اموال ميں تصرف كرنے كے ليے خاص قواعد و ضوابط تھے_أصلاتك تأمرك ان نترك ما يعبد ء اباؤنا او ان نفعل فى اموالنا ما نشاؤ

( ان نفعل )كا ( ما يعبد) پر عطف ہے اسى وجہ سے ( ان نفعل ) (ان نترك ) كے ليے مفعول ہے_

۱۱_ اديان الہى ميں مالكوں كے ليے اپنے مال ميں

۲۵۹

تصرف كرنے كے ليےبے قيد و شرط اور مطلق آزادى درست نہيں ہے_اصلاتك تأمرك ان نترك ان نفعل فى اموالنا ما نَشَاؤ

۱۲_ مالكوں كو اپنے مال كے تصرف ميں كوئي قيد و شرط لگائے بغير آزادى دينا ، لين دين ميں بے عدالتى اور نا انصافى كا موجب ہوتى ہے_أوفوا المكيال و الميزان بالقسط ا و ان نفعل فى اموالنا ما نشاؤ

۱۳_ قوم شعيب نے مالك كو اپنے اموال كے دخل وتصرف ميں اسكى مرضى پر چھوڑ ديا اور اس كے ليے كو ئي قانون و ضابطہ قرار دينے كو مناسب نہيں سمجھتے تھے _أو أن نفعل فى ا موالنا ما نشاؤ

۱۴_حضرت شعيبعليه‌السلام حتى اپنى قوم كے كفار كے نزديك بھى تجربہ كا راور با فہم شخصيت تھے_

انك لا نت الحليم الرشيد

(حلم) كے معانى عقل و فہم كے ہيں حليم اوپر والى آيت ميں اسى سے مشتق ہے _(الرشيد )كا معنى تجربہ كار اور ہدايت يافتہ ہے _يہ بات قابل ذكر ہے كہ حضرت شعيبعليه‌السلام كا ہدايت يافتہ ہونےسے مدائن كے لوگوں كى مراد اخلاقى او رمعاشرتى امور و غيرہ تھے _

۱۵_حضرت شعيبعليه‌السلام اپنى قوم كے كافروں كے در ميان بھى نيك اخلاق ركھنے والے مشہور تھے _

انك لا نت الحليم الرشيد

مذكورہ بالا تفسير ميں (حليم )سے مراد بردبار شخص ليا گيا ہے _انسان كا بردبار ہونا اس كے نيك اخلاق ہونے كو بتاتا ہے_

۱۶_الله تعالى پيغمبروں كو مشہور نيك انسانوں ميں سے انتخاب كرتا ہے _انك لا نت الحليم الرشيد

۱۷_مدائن كے لوگ، اہل شرك كے معبودوں كے ساتھ حضرت شعيب(ع) كے جہاد كو ان كے رشد و فہم كے خلاف سمجھتے تھے _أصلاتك تا مرك ا ن نترك ما يعبد ء اباؤُنا ...انك لا نت الحليم الرشيد

۱۸_قوم شعيب كے لوگ، مالكوں كواپنے اموال كے تصرف كى آزادى ميں محدود كرنے كو نامعقول اور صحيح خيال نہيں كرتے تھے_أو أن نفعل فى اموالنا ما نَشَؤا انك لأنت الحليم الرشيد

اقتصاد :اقتصاد ميں ضرر كى پہچان ۱۲; اقتصادى خلاف ورزى كا سبب ۱۲

انبياءعليه‌السلام :

۲۶۰