تفسير راہنما جلد ۸

تفسير راہنما 0%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 971

تفسير راہنما

مؤلف: آيت الله ہاشمى رفسنجاني
زمرہ جات:

صفحے: 971
مشاہدے: 163046
ڈاؤنلوڈ: 2615


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4 جلد 5 جلد 6 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 971 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 163046 / ڈاؤنلوڈ: 2615
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد 8

مؤلف:
اردو

۴_ بادشاہ اور حضرت يوسفعليه‌السلام كى پہلى ملاقات، بادشاہ كے خواب اور حضرت يوسفعليه‌السلام كى تعبير اور ان كا بادشاہ كے مشيرانہ عہدے پر فائز ہونےكے سلسلہ ميں گفتگو ہوئي_و قال الملك ائتونى به استخلصه لنفسى فلما كلمه

اگر چہ آيت شريفہ ميں اس بات كى وضاحت نہيں ہوئي كہ بادشاہ اور حضرت يوسفعليه‌السلام كے مابين كس موضوع پر گفتگو ہوئي ليكن قرائن حاليہ و مقاليہ اس بات كى طرف اشارہ كرتے ہيں كہ بادشاہ كے خواب اور حضرت يوسفعليه‌السلام كى تعبير اور ان كو اپنے مشير كے عہدے پر فائز كرنے كے سلسلہ ميں گفتگو تھي_

۵_ حضرت يوسفعليه‌السلام كى بادشاہ سے پہلى ملاقات نے بادشاہ كے ان پر اعتماداور توجہ كو زيادہ كرديا_

فلما كلّمه قال انك اليوم لدينا مكين امين

ظاہر يہ ہے كہ (كلمہ ) ميں فاعل كى ضمير، حضرت يوسفعليه‌السلام اور مفعول كى ضمير بادشاہ كى طرف لوٹ رہى ہے _(قال انك ...) كا جملہ اس بات كا مؤيد ہے اور كيونكہ بادشاہ نے حضرت يوسفعليه‌السلام سے گفتگو كرنے كے بعد اس بات (إنك اليوم ...) كا اظہار كيا تو اس سے معلوم ہوتا ہے كہ بادشاہ كى حضرت يوسفعليه‌السلام كى طرف توجہ ،پہلے سے زيادہ ہوگئي_

۶_انسان كى كلام، اسكى شخصيت اور منزلتكو بيان كرنے والى ہوتى ہے_فلما كلمه قال انك اليوم لدينا مكين امين

۷_ حضرت يوسف(ع) ، مقتدرو امين اور قابل اعتماد انسان تھے_إنك اليوم لدينا مكين أمين

۸_ بادشاہ مصر نے حضرت يوسفعليه‌السلام سے ملاقات كے دوران جب اس پران كى شخصيت اور ان كا علم و دانش عياں ہوگيا تو اس نے اس بات كا اظہار كيا كہ اپنى حكومت كے معاملے ميں انكے مشورے كو نافذ اور اس كے فرمان كى بجا آورى كرے گا_فلما كلمه قال انك اليوم لدينا مكين آمين

جسكا مقام و منزلت بلند و رفيع ہو اسكو(مكين) كہا جاتاہے نيز (أمين) اس كوكہا جاتاہے جو خيانت سے پرہيز كرے اوراسكى بات ميں صداقت اور كردار و عمل ميں سچائي كے ہونے كااطمينان ہو_بادشاہ كى يہ بات كہ تم ہمارے ہاں بلند مرتبہ ركھنے والے ہو يہ اس بات كى طرف كنايہ ہے _ كہ آپ كے مشوروں كو نافذ العمل ٹھہرائيں گے اور حكومت كے معاملے ميں آپ جو بھى مشورہ ديں گے ہم اسكو قبول كريں گے _

۹_ يوسف كے زمانے ميں بادشاہ مصر ايك صاحب

۵۲۱

حكمت و فراست اور مدبر شخص تھا _و قال الملك ائتونى به استخلصه لنفسى فلما كلمه قال انك اليوم لدينا مكين آمين

۱۰_حضرت يوسفعليه‌السلام كے زمانے ميں مصر كا بادشاہ ، پاكدامن ، دانشمند اور صحيح لوگوں كو دوست ركھنے والا انسان تھا_

فلما كلّمه قال انك اليوم لدينا مكين امين

۱۱_ جو شخص كسى كو منصب و مقام دے رہاہے اسے چاہيئے كہ اس منصب كو لينے والے شخص كى طاقت اور اسكى امانت دارى كا يقين حاصل كرے_قال الملك ائتونى به استخلصه لنفسى مكين آمين

۱۲ _ بادشاہ مصر كے ہاتھوں حضرت يوسفعليه‌السلام كى غلامى كے حكم كو ختم كيا جانا_

ائتونى به استخلصه قال انك اليوم لدينا مكين امين

(استخلصه لنفسي ) كا جملہ نيز حضرت يوسفعليه‌السلام كى غلامى كے قصے كا دوبارہ اس داستان ميں ذكر نہ ہونا مذكورہ بالا تفسير كوبتاتا ہے_

بادشاہ مصر :بادشاہ مصر اور امين لوگ ۱۰; بادشاہ مصر اور علماء ۱۰ ; بادشاہ مصراور عفيف و پاكدامن لوگ۱۰;بادشاہ مصر اور يوسفعليه‌السلام ۱ ، ۲ ;بادشاہ مصر اور يوسفعليه‌السلام كى غلامى ۱۲ ;بادشاہ مصر كا حضرت يوسفعليه‌السلام پر اعتماد ۵ ; بادشاہ مصر كا خواب ۴ ; بادشاہ مصر كا مخصوص مشير ۲، ۴ ;بادشاہ مصر كى حكمت ۹ ;بادشاہ مصركى مديريت ۹ ; بادشاہ مصر كى يوسفعليه‌السلام سے ملاقات ۸ ; بادشاہ مصر كے فضائل ۹ ، ۱۰

حكومت:حكومت كے حكام كى امانتدارى ۱۱ ; حكومت كے حكام كى تعيناتى كے شرائط ۱۱ ; حكومت كے حكام كى قدرت و طاقت ۱۱

شخصيت :شخصيت كى پہچان كا سبب ۶كلام :كلام كا كردار۶

نفسيات كا علم ۶

يوسفعليه‌السلام :يوسفعليه‌السلام دربار مصر ميں ۳ ، ۵ ، ۸;يوسفعليه‌السلام زندان كے بعد ۳ ، ۴ ;يوسفعليه‌السلام سے لگاؤ ۱ ; يوسفعليه‌السلام كا اقتدار۷ ; يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۱ ، ۲ ، ۳ ،۴ ، ۵ ، ۸،۱۲;يوسفعليه‌السلام كو دعوت دينا ۱ ، ۲ ۴; يوسفعليه‌السلام كى امانتدارى ۷ ; يوسفعليه‌السلام كى بادشاہ مصر سے گفتگو ۴ ، ۵;يوسفعليه‌السلام كى بےگناہى ۳;يوسفعليه‌السلام كى بے گناہى كے آثار ۱ ; يوسف كى شخصيت ۸ ;يوسفعليه‌السلام كى عفت كے آثار ۱; يوسفعليه‌السلام كے علم كے آثار ۸ ;يوسف كے فضائل ۷

۵۲۲

آیت ۵۵

( قَالَ اجْعَلْنِي عَلَى خَزَآئِنِ الأَرْضِ إِنِّي حَفِيظٌ عَلِيمٌ )

يوسف نے كہا كہ مجھے زمين كے خزانوں پر مقرر كردوں كہ ميں محافظ بھى ہوں اور صاحب علم بھى (۵۵)

۱ _ حضرت يوسفعليه‌السلام نے بادشاہ سے كہا كہ مجھے مصر كى زراعت كا وزير اور غلات كے سٹور كا ناظر مقرر كردے_

قال اجعلنى على خزائن الارض

حضرت يوسفعليه‌السلام نے بادشاہ كے خواب كى جو تعبير بتائي كہ سات سال زراعت كے كام ميں بہت محنت كرنى چاہيے اور اسكى پيداوار كو ذخيرہ كرنا چاہيے اس بات سے يہ معلوم ہوتاہے كہ حضرت يوسفعليه‌السلام نے ان سے خواہش كى ( كہ مجھے زمين كے خزانے پر مامور كرديں ) يعنى مذكورہ امور كو ميرے سپرد كردے يعنى زراعت كى كاشت اور آمدنى ( وزارت زراعت) اور غلات كے انبار ميرے سپرد كرديئے جائيں _

۲ _ حضرت يوسفعليه‌السلام كا حكومتى منصب كى خواہش كرنے كا مقصد يہ تھا كہ مصر كے لوگوں كے ليئے قحطى و خشكسالى كى وجہ سے جو حادثہ رونما ہونے والا ہے اس سے ان كو بچايا جائے_اجعلنى على خزائن الارض

۳ _ حضرت يوسفعليه‌السلام نے بادشاہ كو مصر كے لوگوں كى خوراك كے امور كو سنبھالنے كى دليل سے آگاہ كيا_

اجعلنى على خزائن الارض انى حفيظ عليم

(انى حفيظ عليم ) كا جملہ (اجعلني ...) كے جملے كے ليے علت ہے_

۴ _ حضرت يوسفعليه‌السلام اس بات كى قدرت ركھتے تھے كہ خوراك كے ذخيرے كو تلف ہونے سے بچا سكيں _

اجعلنى على خزائن الارض انى حفيظ عليم

۵ _ حضرت يوسفعليه‌السلام غلات كى كاشت و كٹائي اور اس كو ذخيرہ اور صحيح تقسيم كرنے سے كامل طور پر واقف تھے_

اجعلنى على خزائن الارض انى حفيظ عليم

۶_حضرت يوسف(ع) اپنى صلاحتيوں كے مطابق كا شت وكٹائي اور غلات كو ذخيرہ اور تقسيم كرنے كى تاكيد كرتے تھے_(انّى حفيظ عليم ) كا جملہ نہ صرف اس پر دلالت كرتاہے كہ حضرت يوسفعليه‌السلام مذكورہ مسائل و امور كا علم ركھتےہيں بلكہ اس كے علاوہ عملى طور پر اسكى انجام دہى كى بھى طاقت ركھتے ہيں اور اس كو كامل طور پر انجام دينے كا وعدہ بھى كرتے ہيں _

۵۲۳

۷_كفر و شرك كى حكومت ميں ، حكومتى كاموں كى ملازمت كا تقاضا كرنے كا جواز _قال اجعلنى على خزائن الأرض

۸_ حكومتى عہدوں پر فائز ہوناحتى كفر و شرك والى حكومتوں ميں ملازمت كرنا جائز رہا ہے _

قال اجعلنى على خزائن الأرض

۹_ كسى دينى اور انسانى ذمہ دارى كو سنبھالنے كيلئے اپنے مثبت خصوصيات كو بيان كرنا جائز اور مناسب ہے _

قال اجعلنى على خزائن الأرض انى حفيظ عليم

۱۰_ ماہر، لائق اور كام كوسمجھنے والے اشخاص كے ليے ضرورى ہے كہ كسى ذمہ دارى سے انكار نہ كريں بلكہ ان امور كے چلانے ميں ذمہ دارى كو قبول كريں _قال اجعلنى على خزائن الأرض انى حفيظ عليم

۱۱_ حكومت كو چاہيے كہ بحرانى حالات ميں اقتصادى امور(پيداوار اور اس كى تقسيم )كينگرانى كرے _

قال اجعلنى على حزائن الأرض انى حفيظ عليم

۱۲_مہتمم ہونے اوروزارت كو چلانے كے ليے ،علم اور قدرت دو بنيادى شرطيں ہيں _اجعلنى انى حفيظ عليم

۱۳_ معاشرے كے مالياتى امور كى سرپرستى كے ليے اسكا صاحب علم اور امين ہونا، شرط ہے _اجعلنى انى حفيظ عليم

۱۴_ مہارت اور علم كے بغير كسى كام كى ذمہ دارى لينا نيز مہارت بغيرذمہ دارى كے كارساز نہيں ہے_

اجعلنى على خزائن الأرض انى حفيظ عليم

۱۵_عن رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : رحم الله اخى يوسف لو لم يقل : اجعلنى على خزائن الأرض لو لّاه من ساعته ولكنّه آخّر ذلك سنة (۱)

رسول اللهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روايت ہے كہ خداوند متعال ميرے بھائي حضرت يوسفعليه‌السلام پر رحمت نازل كرے اگروہ زمين كے خزانوں كى سرپرستى كا تقاضا نہ كرتے تو يہ منصب اسى وقت ان كو مل جاتا (ليكن انكا تقاضا كرنا كہ مجھے سرپرستى دى جائے يہ تقاضا كرنا سبب بنا كہ انہيں ايك سال كى تأخير سے يہ منصب عطا ہو ا_

____________________

۱) مجمع البيان ، ج ۵، ص ۳۷۲; نورالثقلين ج۲، ص ۴۳۲حديث ۹۸_

۵۲۴

۱۶_عن على بن موسى الرضا عليه‌السلام ... انّ يوسف عليه‌السلام ... لما دفعته الضرورة الى تولى خزائن العزيز قال : اجعلنى على خزائن الأرض (۱)

امام رضاعليه‌السلام سے روايت ہے كہ جب يہ ضرورت محسوس ہوئي كہ حضرت يوسفعليه‌السلام عزيز مصر كے خزانوں كى سرپرستى كو قبول كرے تو فرمايا:اجعلنى على خزائن الأض

۱۷_قال سفيان : قلت لأبى عبدالله عليه‌السلام يجوز ان يزكّى الرجل نفسه ؟ قال : نعم اذا اضطرّ اليه اما سمعت قول يوسف : '' ...انى حفيظ عليم ...'' (۲) سفيان كہتا ہے كہ ميں نے امام صادقعليه‌السلام سے عرض كى كہ كيا جائز ہے انسان اپنى تعريف كرے ؟ تو حضرتعليه‌السلام نے فرمايا ہاں جب ضرورت ہو تو، كيا تونے نہيں سنا كہ حضرت يوسفعليه‌السلام نے فرمايا'' ...انّى حفيظ عليم ...''

۱۸_عن ابى عبدالله انه قال لقوم مّمن يظهرون الزّهد و يدعون الناس ان يكونوا معهم على مثل الذى هم عليه من التقشّف ...ا خبرونى اين انتم عن يوسف النبى عليه‌السلام حيث قال لملك مصر: ''اجعلنى على خزائن الأرض ...'' فكان من امره الذى كان ان اختار مملكة الملك و ما حولها الى اليمن فلم نجد احداً عاب ذلك عليه (۳) امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كہ آپ(ع) نے ان لوگوں كو مخاطب ہو كر فرمايا جو اپنے زہد كا اظہار كرتے تھے اور لوگوں كو اسكى دعوت ديتے تھے كہ ان كى طرح دنيا كى زندگى كو سختى و مشكلات كے ساتھ گزارو ، تو حضرتعليه‌السلام نے انہيں مخاطب ہوكر فرمايا كہ مجھے بتاؤ كہ حضرت يوسف(ع) كے بارے ميں تمھارى كيا رائے ہے يہ كہ انہوں نے بادشاہ مصر سے فرمايا: (اجعلنى على خزائن الارض ...) پس حضرت يوسف(ع) نے اتنى ترقى كى كہ پورے ملك كا يمن تك بادشاہ بن گئے ليكن كسى ايك نے بھى ان ميں يہ عيب نہيں نكالا كہ وہ بادشاہ كيوں بناہے_

۱۹_عن الرضا عليه‌السلام ...فى قوله تعالى : '' ...انّى حفيظ عليم '' قال: حافظ لما فى يدّى عالم بكلّ لسان (۴) امام رضاعليه‌السلام سے خداوند متعال كے اس قول ...انّى حفيظ عليم كے بارے ميں روايت ہوئي ہے كہ اس سے مراد يہ ہے كہ ميں تمام چيزوں كى حفاظت كرنے والا ہوں جو ميرے كنٹرول ميں ہيں اور تمام زبانوں سے واقف ہوں _

____________________

۱) عيون الاخبار الرضا ، ج ۲،ص ۱۳۹، ح ۲، ب ۴۰ ; نورالثقلين ، ج۲ ص ۴۳۲، ح۹۹_۲) تفسير عياشى ، ج۲، ص ۱۸۱، ح۴۰; نورالثقلين ، ج ۲ ص ۴۳۳، ح۱۰۳_

۳) كافى ج ۵، ص ۷۰، ح ۱ ; نورالثقلين ج ۲، ص ۴۳۴، ح ۱۰۴_۴) علل الشرائع ص ۲۳۸، ح۲) ب۱۷۳; نورالثقلين ج۲، ص ۴۳۲، ح۱۰۰_

۵۲۵

احكام : ۷، ۸، ۹

اقتصاد :اقتصادى امور ميں سرپرستى كے شرائط ۱۳; اقتصادى بحران ميں پيداوار پر نظارت ركھنے كى اہميت ۱۱ ;اقتصادى بحران ميں تقسيم پر نظارت ركھنے كى اہميت ۱۱; اقتصادى بحران ميں سياست ۱۱

انسان :لائق انسانوں كى ذمہ داري۱۰

حكومت :حكومت شرك سے ملازمت كى درخواست ۷; حكومت كفر سے ملازمت كى درخواست۷; حكومت كفر ميں ذمہ دارى كا قبول كرنا ۷، ۸; حكومت كى ذمہ دارى ۱۱

خوداپنى تعريف :اپنى تعريف كا جائز ہونا ۹، ۱۷;اپنى تعريف كے احكام ۹، ۱۷

ذمہ دارى :ذمہ دراى كو قبول كرنے كى اہميت ۱۰

روايت : ۱۵، ۱۶، ۱۷، ۱۸، ۱۹

سرپرستى :سرپرستى كرنے كا علم ۱۲; سرپرستى كرنے كى قدرت ۱۲; سرپرستى كے شرائط ۱۲

ملازمت :ملازمت كا جائز ہونا ۷، ۸;ملازمت كے احكام ۷، ۸

معاشرہ :معاشرے ميں اقتصادى امور كى اہميت ۱۳

وزارت :وزارت سنبھلانے كے شرائط ۱۲

وعدہ:وعدہ اور مہارت۱۴

يوسفعليه‌السلام :يوسفعليه‌السلام اور غذائي امور كى سرپرستى ۳، ۴; يوسفعليه‌السلام اور غلّات كا ذخيرہ كرنا ۶; يوسفعليه‌السلام اور قحطى كى مشكلات كا كنٹرول ۲; يوسفعليه‌السلام اور وزارت زراعت ۱; يوسفعليه‌السلام كا اپنى تعريف كرنا ۱۷; يوسفعليه‌السلام كا علم ۱۹; يوسفعليه‌السلام كا علم اقتصاد ۵;يوسفعليه‌السلام كا قصّہ ۱، ۲، ۳ ، ۴، ۶، ۱۵، ۱۶، ۱۸، ۱۹;يوسفعليه‌السلام كو زراعت كا علم ۵، ۶; يوسفعليه‌السلام كى اقتصادى سياست ۴; يوسفعليه‌السلام كى امانت دارى ۱۹;يوسفعليه‌السلام كى بادشاہ مصر سے گفتگو ۱، ۳، ۱۶، ۱۸; يوسفعليه‌السلام كى خزانہ دارى ۱، ۴، ۵، ۱۶;يوسفعليه‌السلام كى خواہش كے پورا ہونے ميں دير ۱۵;يوسفعليه‌السلام كى خواہشات۱، ۱۶، ۱۸; يوسفعليه‌السلام كى خواہشات كا فلسفہ ۲;يوسفعليه‌السلام كى دور انديشى ۲;يوسفعليه‌السلام كى صلاحيت ۳، ۴، ۶;يوسف(ع) كى مجبورى ۱۶

۵۲۶

آیت ۵۶

( وَكَذَلِكَ مَكَّنِّا لِيُوسُفَ فِي الأَرْضِ يَتَبَوَّأُ مِنْهَا حَيْثُ يَشَاءُ نُصِيبُ بِرَحْمَتِنَا مَن نَّشَاء وَلاَ نُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ )

اور اس طرح ہم نے يوسف كو زمين ميں اختيار دے ديا كہ وہ جہاں چاہيں رہيں _ہم اپنى رحمت سے جس كو بھى چاہتے ہيں مرتبہ ديے ديتے ہيں اور كسى نيك كردار كے اجرا كو ۲_ ضائع نہيں كرتے (۵۶)

۱_ مصر كے بادشاہ نے حضرت يوسفعليه‌السلام كے مشورہ كو قبول كرتے ہوئے كھتى باڑى و زراعت اور اسكى نگہدارى اور تقسيم كو ان كے سپرد كرديا _اجعلنى على خزائن الأرض و كذلك مكّنّا ليوسف فى الأرض

۲_ حضرت يوسفعليه‌السلام مصر كى سرزمين پر بغير كسى متنازع ہونے كے، قدرت اور مقام منزلت كے مالك ہوگئے _

مكّنا ليوسف فى الأرض يتبّوا منها حيث يشاء

''تمكين'' ''مكنّنا'' كا مصدر ہے جو كہ مكان دينے نيز قدرت عطا كرنے كے معنى ميں بھى آتا ہے _ يہاں حكم اور موضوع كى مناسبت اور (فى الأرض) كى قيدلگانے سے ظاہر ہوتا ہے كہ دوسرا معنى مراد ہے _ اسى وجہ سے ''مكنّا ليوسف فى الأرض'' كا معنى يہ ہوا كہ ہم نے مصر كى پورى سرزمين پر حضرت يوسفعليه‌السلام كو قدرت و سلطنت عطا كى اور (حيث يشاء) كا جملہ بتاتا ہے كہ اس كے مقابلے ميں كوئي قدرت و طاقت نہيں تھي_

۳_ حضرت يوسفعليه‌السلام ،مصر كى پورى سرزمين ميں تصرف اور مستقر ہونے كے حوالے سے آزاد اور اختيار ركھتے تھے _

مكنّا ليوسف فى الأرض يتبّوا منها حيث يشاء

(يتبّوا ) كا معنى ٹھہرنا اور رہائش پذير ہونےكے ہيں پس جملہ '' يتبّوا منہا حيث يشاء'' كا معنى يہ ہوا كہ (مصر ميں جس جگہ وہ چاہيں ٹھہر سكتے اور رہائش پذير ہوسكتے تھے) يہ جملہ لفظ (مكنّا) كى تفسير كے مقام پر ہے_يہ جملہ اصل ميں كنايہ

۵۲۷

ہے كہ وہ مصر كى پورى سرزمين ميں تصرف كرنے اور اس پر اقتدار كرنے كى طاقت و قدرت ركھتے تھے _

۴_ حضرت يوسفعليه‌السلام ، خداوند متعال كى طرف سے مصر كى تمام سرزمين ميں تصرف كرنے كى ولايت ركھتے تھے _

و كذلك مكنّا ليوسف فى الأرض يتبّوا منها حيث يشاء

(مكنّا ليوسف ...) كا جملہ اقتدار تكوينى كے ساتھ ساتھ اقتدار تشريعى كوبھى شامل ہے_ يعنى خداوند متعال نے ان كو مصر كى تمام سرزمين پر دخل اندازى اور تصرّف كرنے كى اجازت عطا فرمائي ہے _

۵_ حضرت يوسفعليه‌السلام كى داستان ( كنعان كے كنويں سے نجات پاكر وزارت اور قدرت تك پہنچنا) يہ ارادہ خداوندى اور اس كى تدبير كے مطابق تھي_و كذلك مكنّا ليوسف فى الأرض

۶_ اسباب اور علل كو پيدا اور جارى كرنا، خداوند متعال كے اختيار اور ہاتھ ميں ہے _و كذلك مكنّا ليوسف فى الأرض

۷_ تاريخ كے حوادث اور اس كے جريان ميں ارادہ الہى حاكم ہے _و كذلك مكنّا ليوسف فى الأرض

۸_ مملكت كى بحرانى صورت ميں حكومتوں كو اختيار ہے كہ لوگوں كو ان كے اپنے اموال و املاك ميں تصرّف كى آزادى محدود كرديں اور انہيں عمومى مصالح كى طرف لے جائيں _

اجعلنى على خزائن الأرض كذلك مكنّا ليوسف فى الأرض يتبّوا منها حيث يشاء

۹_ خداوند متعال، جسكو بھى چاہے اپنى رحمت خاصّہ عطا كرتا ہے _نصيب برحمتنا من نشاء

۱۰_ مصر ميں حضرت يوسفعليه‌السلام كا بلامنازع اور مطلق اقتدار ،خداوند متعال كى ان پر رحمت خاصّہ كا ايك جلوہ تھا _

كذلك مكنّا ليوسف ...نصيب برحمتنا من نشاء

۱۱_ حضرت يوسفعليه‌السلام كا غلامى اور زندان ميں اسارت كے بعد قدرت و حكومت حاصل كرنا ، تمام علل و اسباب پر خداوند عالم كى مشيّت كى حاكميت كى محكم دليل ہے_كذلك مكنّا ليوسف فى الأرض يتبّوا منها حيث يشاء نصيب برحمتنا من نشاء

(خداوند متعال ) كا يہ جملہ ( كہ جسكو چاہيں ہم اپنى رحمت ميں شامل كر ليتے ہيں اور اسكو قدرت عطا كرتے ہيں ) جو (نصيب برحمتنا) كے جملے سے سمجھا جاتا ہے يہ جملہ دعوى كے مقام پر

۵۲۸

ہے جسكو (كذلك مكنّا) سے استدلال كيا گيا ہے _

يعنى خداوند متعال نے ايك غلام كو جس كے پاس اپنا اختيار بھى نہيں تھا تمام لوگوں كے اختيار كو اسكے ہاتھ ميں دے ديا اور يہ روشن و واضح دليل ہے كہ الله تعالى ، مطلق حاكم ہے _

۱۲_ مشيت الہى كى حاكميت اور اس كے ارادے كا نافذ ہونا _نصيب برحمتنا من نشاء

۱۳_ نيك كام كرنے والے دانشورحضرات كى قدرت و اختيار، ان پر خداوند متعال كى نعمت و رحمت ہے _

انّى حفيظ عليم وكذلك مكنّا يوسفعليه‌السلام نصيبٌ رحمتنا من نش

رحمت الہى كے مصداق ''رحمتنا'' (مكنّا ليوسف فى ا لأرض) كے قرينے كى وجہ سے حضرت يوسفعليه‌السلام جيسے كا انسانوں كاقدرت و اختيار تك پہنچانا ہے_

۱۴_ خداوند متعال، نيك كام كرنے والوں كو دنيا ميں اپنى جزاء و عطا سے نوازتا ہے _ولا نضيع اجر المحسنين

بعد والى آيت كے قرينے سے معلوم ہوتا ہے كہ يہاں (اجر ) سے مراد ، دنيا ميں اجر دينا ہے _

۱۵_ خداوند متعال نيك لوگوں كو اجر كى نوازش كرنے ميں ذرہ برابر بھى ان سےكم نہيں كرتا_ولا نضيع اجر المحسنين

۱۶_ حضرت يوسفعليه‌السلام ان لوگوں ميں سے تھے جن پر احسان كيا گيا تھا_ولا نضيع اجر المحسنين

۱۷_ حضرت يوسفعليه‌السلام كا مصر كى سرزمين پر قدرت حاصل كرنا اور الہى رحمت خاصّہ سے بہرہ مند ہونا، ان كے نيك كاموں كى جزا تھى _كذلك مكنّا ...نصيب برحمتنا ...ولا نضيع اجر المحسنين

۱۸_ حضرت يوسفعليه‌السلام كا مصر كى سرزمين پر قدرت حاصل كرنا، يہ واضح و روشن دليلہے كہ خداوند متعال كى طرف سے نيك كام كرنے والوں كا اجر ضائع نہيں ہوتا ہے_

۱۹_ عفت ، پاكدامنى ، امانت، صداقت ،وحدہ لاشريك كى پرستش كرنا ، اپنے علم كو نہ چھپانا اورذمہ دارى كو قبول كرنا، نيك كاموں كے مصاديق شمار ہوتے ہيں _ولا نضيع اجر المحسنين

(المحسنين ) كے مورد نظر مصاديق ميں سے حضرت يوسفعليه‌السلام ہيں اسى وجہ سے جن اوصاف اور خصوصيات كو ان كے ليے ذكر كيا گيا ہے وہ قرآن مجيد كى نظر ميں احسان كرنے اور نيك كاموں كے موارد ہيں _

۵۲۹

۲۰_ محسنين لوگوں كا دنيا ميں الہى رحمت خاصّہ كا حامل ہونا مشيت اور تقاضائے الہى ہے _

نصيب برحمتنا من نشاء و لانضيع اجر المحسنين

۲۱_ مشيت الہي، منظم اور قانون كے ساتھ ہے _نصيب برحمتنا من نشاء و لانضيع اجر المحسنين

(لا نضيع ...) كا جملہ اور (لأجر الأخرة ...) كا جملہ جو(من نشاء ...) كے بعد بيان ہوا ہے بہ بتاتا ہے كہ خداوند متعا ل يہ چاہتا ہے كہ اپنى رحمت كو مؤمن اور باتقوى محسنين كو عطا فرمائے _ يعنى رحمت كا عطاء كرنا بغير دليل اور قابليت كے نہيں ہے_

آزادى :آزادى ميں محدو ديت كے شرائط ۸

احسان :احسان كى اہميت ۲۰، احسان كے موارد ۱۹

احكام :حكومت كے احكام ۸

الله تعالى :الله تعالى كا ارادہ ۵; الله تعالى كا دنيا ميں عطا كرنا ۱۴; الله تعالى كى بخشش ۱۵; الله تعالى كى جزاء ۱۵، ۱۸;الله تعالى كى رحمت كى نشانياں ۱۰;الله تعالى كى عدالت ۱۵، ۱۸;الله تعالى كى عدالت كے دلائل ۱۸;الله تعالى كى مشيت ۹، ۲۰; الله تعالى كى مشيت كى حاكميت ۱۱، ۱۲;الله تعالى كى مشيت ميں قانون كا ہونا ۲۱;الله تعالى كے اختيارات ۶; الله تعالى كے ارادے كى حاكميت ۷، ۱۲

الله تعالى كا اجر :اجر الہى كے شامل حال افراد۱۴

امانتداري:امانتدارى كى اہميت ۱۹

تاريخ:تاريخ ميں تحولات كا سبب ۷، ۱۱

توحيد :توحيد عبادى كى اہميت ۱۹

حكومت :بحرانى حالات ميں حكومت ۸;حكومت كے اختيارات ۸

رحمت :رحمت خاصّہ كے مستحقين ۲۰;رحمت كے مستحقين ۹، ۱۰،۱۳، ۱۷

صداقت :صداقت كى اہميت ۱۹

۵۳۰

ظاہرى اسباب و عوامل :ظاہرى اسباب و عوامل كا كردار ۶

عفت:عفت كى اہميت ۱۹

علم :علم كے اظہار كى اہميت ۱۹

علماء:محسن علماء كى قدرت ۱۳

عمومى مصلحتيں :عمومى مصلحتوں كى اہميت ۸

مال :اموال ميں تصرّف كرنے كى محدوديت ۸

محسنين :محسنين پر رحمت ۲۰;محسنين كا دنيا ميں اجر ۱۴; محسنين كى جزاء ۱۵

مصر كا بادشاہ :مصر كا بادشاہ اور حضرت يوسفعليه‌السلام كى فرمائشات ۱

نعمت :نعمت كے مستحقين ۱۳

يوسفعليه‌السلام :حضرت يوسف(ع) اور وزير زراعت ۱;حضرت يوسف(ع) پر رحمت ۱۷;حضرت يوسف(ع) كا اجر ۱۷ ; حضرت يوسف(ع) كا احسان ۱۷; حضرت يوسف(ع) كا اقتدار ۲، ۳، ۱۰;حضرت يوسف(ع) كا خزانہ دار ہونا ۱; حضرت يوسف(ع) كا قصہ ۱، ۲، ۳، ۵، ۱۱; حضرت يوسف(ع) كا محسنين ميں سے ہونا ۱۶;حضرت يوسف(ع) كى تشريعى ولايت ۴; حضرت يوسف(ع) كى تكوينى ولايت ۴; حضرت يوسف(ع) كى قدرت كا سبب ۵، ۱۱ ، ۱۷، ۱۸; حضرت يوسف(ع) كى نجات كا سبب ۵; حضرت يوسف(ع) كے فضائل ۱۰;حضرت يوسف(ع) كے مقامات ۲;حضرت يوسف(ع) مصر ميں ۲، ۳، ۴

آیت ۵۷

( وَلَأَجْرُ الآخِرَةِ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ آمَنُواْ وَكَانُواْ يَتَّقُونَ )

اور آخرت كا اجر تو ان لوگوں كے لئے بہترين ہے جو صاحبان ايمان ہيں اور خدا سے ڈرنے والے ہيں (۵۷)

۱_ آخرت كا اجر، دنيا كے اجر سے بہتر اور برتر ہے _لا نضيع اجر المحسنين و لاجر الاخرة خير

۲_ نيك كام انجام دينے والے، دنيا كى زندگى ميں اجر سے بہرہ مند ہونے كے علاوہ آخرت ميں بھى بہترين اور برتر اجر پائيں گے_

۵۳۱

لا نضيع اجر المحسنين و لاجر الاخره خيرٌ

۳_ دنيا كى زندگى كا محدود ہونا اوراس ميں گنجائش كى محدويت، نيك لوگوں كے اجرو پاداش كے ليے مناسب نہيں ہے_

لا نضيع اجر المحسنين و لاجر الاخرة خير للذين و كانوا يتّقون

۴_ آخرت كا اجر ، رحمت الہى كا ايك نمونہ ہے _نصيب برحمتنا من نشاء و لاجر الاخرة خير

۵_ زمين پر سلطنت اور اقتدار كا ہاتھ ميں آنا، آخرت كى جزاء كے مقابلے ميں نا چيز ہے _

كذلك مكّنّا ليوسف فى الارض و لاجر الاخرة خير

۶_ اخروى اجر سے بہرہ مندى كى شرط، ايمان اور تقوى سے ملتزم ہونا ہے _

و لاجر الاخرة خير للذين ء امنوا و كانوا يتقون

(كان) كا لفظ اور اس طرح كے دوسرے الفاظ اگر فعل مضارع كے ساتھ استعمال ہوں تو گذرے ہوئے زمانہ ميں استمرار كو بتاتے ہيں _ اسى وجہ سے تقوى كے ساتھ ملتزم رہنا مذكورہ عبارت سے استفادہ كيا گيا ہے _

۷_ ايمان تقوى كے بغير اور تقوى بغير ايمان كے آخرت كى نعمتوں سے بہرمند ہونے كے ليے كام نہيں آسكتا _

للذين ء امنوا و كانوا يتّقون

۸_ اخروى نعمتوں تك رسائي كے ليے قيامت اور ميدان محشر پر ايمان اور گناہوں سے پرہيز كرنا ضرورى ہے _

و لاجر الاخرة خير للذين ء امنوا و كانوا يتقون

آيت شريفہ ميں يہ بيان نہيں ہوا كہ ايمان (آمنوا )تقوى (يتقون ) كا متعلّقكياہے _ (لاجرالاخرة ) كے قرينے سے يہ معلوم ہوتا ہے كہ يہاں ايمان سے مراد آخرت پر ايمان ہے اور تقوى سے مراد ان امور سے پرہيز كرنا ہے جو آخرت كى نعمتوں سے محروم كر ديتے ہيں _

۹_ حضرت يوسف(ع) ، متقى مومنين اور آخرت پر يقين ركھنے والوں كا واضح اور روشن نمونہ تھے_

و لاجر الاخرة خير للذين ء امنوا و كانوا يتقون

(الذين آمنوا ) كا مصداق، مذكورہ آيا ت كے قرينہ سے معلوم ہوتا ہے كہ حضرت يوسفعليه‌السلام تھے_

۱۰_ حضرت يوسفعليه‌السلام دنيا كے اجر سے بہتر، قيامت و آخرت ميں اجر پائيں گے_

و كذلك مكّنّا ليوسف فى الارض و لا نضيع اجر المحسنين و لاجر الاخرة خير

۵۳۲

.. و كانوا يتقون

۱۱_ حضرت يوسفعليه‌السلام كا دنيا و آ۱خرت ميں اجر پانے كا سبب، ايمان اور تقوى و پرہيزگارى كو برقرار ركھنا تھا_

و كذلك مكّنا ليوسف و لاجر الاخرة خير للذين ء امنوا و كانوا يتقون

آخرت :آخرت پر ايمان لانے والے : ۹

احسان :احسان كى اہميت ۲

ايمان :آخرت پر ايمان كے آثار ۸;ايمان كا اجر ۱۱; ايمان بغير تقوى كے ۷; ايمان كى اہميت ۶

اجر :آخرت كا اجر ۴;آخرت كے اجر كى اہميت ۱، ۵; آخرت كے اجر كے شرائط ۶; دنيا كے اجر كى ارزش ۱

اللہ تعالى كا اجر :اللہ تعالى كے اجر كے شامل حال لوگ۲

اللہ تعالى :اللہ تعالى كى رحمت كى نشانياں ۴

تقوى :بغير ايمان كے تقو ى ۷;تقوى كى اہميت ۶; تقوى كى جزاء ۱۱

حكومت :حكومت كى اہميت ۵

زندگى :دنياوى زندگى كى محدوديت ۳

قدرت :قدرت كى اہميت ۵

گناہ :گناہ كو ترك كرنے كے آثار ۸

مؤمنين : ۹

متقين : ۹

محسنين:محسنين اور دنياوى پاداش ۳;محسنين كا اجر آخرت ۲; محسنين كا دنيا ميں اجر ۲; محسنين كى جزاء ۳; محسنين كى دنيا ميں زندگى ۲

نعمت :آخرت كى نعمت كے اسباب ۷،۸

يوسف(ع) :حضرت يوسفعليه‌السلام كا ايمان ۹، ۱۱; حضرت يوسفعليه‌السلام كا تقوى ۹،۱۱; حضرت يوسف(ع) كا دنيا ميں اجر ۱۰، ۱۱; حضرت يوسف(ع) كى آخرت كى جزاء ۱۰، ۱۱; حضرت يوسفعليه‌السلام كے فضائل ۹

۵۳۳

آیت ۵۸

( وَجَاء إِخْوَةُ يُوسُفَ فَدَخَلُواْ عَلَيْهِ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنكِرُونَ )

اور جب يوسف كے بھائي مصر آئے اور يوسف كے پاس پہنچنے تو انھوں نے سب كو پہچان ليا اور وہ لوگ نہيں پہچان سكے(۵۸)

۱_ حضرت يوسف كى پيشگوئي جو بادشاہ كے خواب كى بنا ء پر بتائي تھى اس نے حقيقت كا روپ دھارليا اور قحط و خشكسالى نے مصر اور اطراف مصر ( كنعان و غيرہ ) كو اپنى لپيٹ ميں لے ليا _و جاء اخوة يوسف قد خلوا عليه

آيت ۶۳ميں (منع منا الكيل ) كا جملہ اس بات كى حكايت كرتا ہے كہ مصر اور اطراف و نواح مصر ميں قحط پڑگيا اور كنعان سے برادران يوسف كا آنا اور خوراك كے بارے ميں سوال كرنا اس چيز كو بتاتا ہے كہ وہاں خوراك نہيں تھى _

۲_ حضرت يوسفعليه‌السلام پيداوار و زراعت كے سات سال كے دوران قحط كے زمانے كے ليے غلات كى پيداوار ذخيرہ كرنے ميں مكمل طور پر كا مياب رہے_و جاء اخوة يوسف

۳_ حضرت يوسف(ع) كے زمانے ميں كنعان كى سرزمين، مصر كى حكومت ميں نہيں تھى _و جاء اخوة يوسف

يہ بات بعيد نظر آتى ہے كہ حضرت يوسف نے مصر كے تمام مقامات سے غلات كو جمع كر كے مركز ميں اكھٹا كيا ہو _ كيونكہ ہر علاقے كے غلات كو منتقل كرنا خصوصاً اس زمانے ميں جب حمل و نقل ايك دشوار امر تھا_ لہذا طبيعى چيز يہى تھى كہ غلات كواسى مقام پر جمع كيا جاتا اور اگر كنعان كا علاقہ مصر كى حكومت كے قلمرو ميں ہوتا تو لازمى طور پر وہاں پر بھى ايك انبار بنايا جاتا تا كہ وہاں غلات كو جمع كيا جائے تو اس صورت ميں كنعان كے لوگوں كو مصر آنے كى ضرورت نہيں تھى _

۴_ غلات كى لگا تار كاشتكارى اور اسكى قحطى كے سالوں كے ليے ذخيرہ اندوزى كا منصوبہ صرف مصر كى حكومت كى حدود ميں انجام پايا_و جاء اخوة يوسف

۵_ مصر كى سرزمين حضرت يوسف كى مدبرانہ اور عالمانہ فكر اور دور انديشى سے قحط كے برے انجام سے نجات پاگئي _

و جاء اخوة يوسف

۶_ مصر ميں غلات و خوراك كے انبار و ذخيرہ كرنے كى خبر مصر اور اس كے اطراف كے شہروں تك پھيل گئي_

و جاء اخوة يوسف

۵۳۴

۷_ مصر و كنعان جغرافيائي اعتبار سے ايك ہى علاقے ميں تھے اورايك جيسى آب و ہوا ركھتےتھے_و جاء اخوة يوسف

۸_ حضرت يوسفعليه‌السلام كے زمانہ ميں قحط كے سات سالوں ميں مصر كے اطراف كے لوگ اپنے نان و نفقہ كے ليے مركز، مصر كى طرف رجوع كرتے تھے_و جاء اخوة يوسف و لما جهزهم بجهازهم

۹_ سوائے بنيامين كے حضرت يوسفعليه‌السلام كے بھائي كنعان سے مصر خورا ك مہيّا كرنے كى خاطر حضرت يوسفعليه‌السلام كى خدمت ميں حاضر ہوئے_و جاء اخوة يوسف فدخلوا عليه

بعد والى آيت (ائتونى باخ لكم ) اپنے پدرى بھائي كو ميرے پاس لاؤ) يہ بتانا چاہتى ہے كہ يہاں ( اخوة ) سے مراد ،برادران يوسف ہيں اور بنيامين ان ميں نہيں تھا_ اوربعد والى آيت ( و لما جہزہم ...) كا جملہ يہ بتانا چاہتا ہے كہ ان كا مصر ميں آنے كا كيا مقصد تھا_

۱۰_ حضرت يوسفعليه‌السلام نے اپنے بھائيوں كو ديكھتے ہى پہچان ليا حالانكہ كئي سال گذر چكے تھے_فدخلوا عليه فعرفهم

(فاء) جو ( فعرفہم ) ميں ہے اس بات كى حكايت كرتى ہے كہ حضرت يوسفعليه‌السلام نے بغير كسى سوال و جواب اور چھان بين كے جونہى بھائيوں كو ديكھا تو انہيں پہچان ليا_

۱۱_ حضرت يوسفعليه‌السلام سے لوگوں كى ملاقات حتى ان كيلئے جو مصر كے نہيں تھے بہت سہل و آسان تھي_

و جاء اخوة يوسف فدخلوا عليه

(فاء) جو (فدخلوا عليہ) ميں ہے اس بات كو بيان كرتى ہے كہ حضرت يوسفعليه‌السلام اور ان كے بھائيوں كے آنے كے بعد ان كى ملاقات ميں كوئي فاصلہ نہيں تھا اور (عرفہم ) كا جملہ بھى اس بات پر دلالت كرتا ہے كہ كوئي نگہبان بھى نہيں تھا جو ملاقات كرنے والوں كے حسب و نسب كے بارے ميں سوال كرے اور حضرت يوسفعليه‌السلام كو اس كے بارے ميں خبر دے اور ان سے ملاقات كرنے كى اجازت طلب كرے اس سے يہ واضح ہوتا ہے كہ حضرت يوسفعليه‌السلام سے ملاقات كرنا آسان تھى حتى كہ ان لوگوں كے ليے بھى جو مصر كے رہنے والے نہيں تھے_

۱۲_ حكومت كے عہدہ داروں كو ايسا قانون بنانا چاہيے كہ لوگوں كى ان سے ملاقات آسانى سے ہو سكے_

و جاء اخوة يوسف فدخلوا عليه فعرفهم

۱۳_ حضرت يوسفعليه‌السلام كى بھائيوں سے ملاقات كرنے كے دوران كسى نے بھى انہيں نہيں پہچانا_

فدخلوا عليه فعرفهم و هم له منكرون

۵۳۵

۱۴_ مصر كے عام لوگ، حضرت يوسفعليه‌السلام كا حسب و نسب نہيں جانتے تھے _فعرفهم و هم له منكرون

اگر مصر كے عام لوگوں كے درميان حضرت يوسفعليه‌السلام كا حسب و نسب اورقبيلہ و قوم واضح ہوتى تو يہ فطرى بات ہے كہ حضرت كے بھائيوں كے كانوں تك يہ بات پہنچ جاتى اور حضرت يوسف(ع) ان كے ليے ناشناختہ نہ رہ جاتے_

۱۵_ حضرت يوسفعليه‌السلام كى اپنے بھائيوں كے ساتھ آخرى ملاقات اور بھائيوں كى اس ملاقات كے ما بين كم از كم بيس سال كا فاصلہ تھا_يرتع و يلعب و لمّا بلغ اشدّه فلبث فى السجن بضع سنين تزرعون سبع و جاء اخوة يوسف

اگر حضرت يوسفعليه‌السلام كى مصر ميں زندگى كى تحقيق جائے تو تقريباً ۲۰ بيس سال كاعرصہ معلوم ہوتا ہے كيونكہ بچپن كا زمانہ دس سال كا تھاجب قافلے والوں كے ہاتھ لگے_ اور جملہ ( يرتع و يلعب ...) اور ( اخاف ان ياكلہ الذئب) بھى اس بات پر دلالت كرتا ہے اور زليخا ہى كے گھرميں جوانى اور بلوغ كى عمر ميں پہنچے تھے ( لما بلغ اشدّة) اوريہ فاصلہ آٹھ سے دس سال كا ہوتا ہے اور (بضع سنين ) كا جملہ بتاتا ہے كہ تين سال سے كچھ زيادہ زندان ميں رہے اور زندان سے رہائي كے بعد سات سال تك وزارت كے عہدہ پر فائز رہے اور يہ فطرى و طبيعى بات ہے كہ قحط كے ايك سال بعد ہى حضرت سے بھائيوں كى ملاقات ہوئي تقريبا يہ فاصلہ بيس سال كا عرصہ بنتا ہے_

۱۶_عن ابى جعفر(عليه السلام) '' فعرفهم يوسف و لم يعرفه اخوته لهيبة الملك و عزّتة ...'' (۱)

امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے كہ آپ(ع) فرماتے ہيں حضرت نے اپنے بھائيوں كو پہچان ليا ليكن ان كے بھائيوں نے ان كى شاہى ھيبت و عظمت و جلال كى وجہ سے انہيں نہيں پہچانا_

برادران يوسف :برادران يوسف اور حضرت يوسفعليه‌السلام ۹، ۱۶; برادران يوسف كى حضرت يوسفعليه‌السلام سے ملاقات ۱۰، ۱۳;برادران يوسف كے سفركرنے كا مقصد ۹

حكام :حكام سے لوگوں كى ملاقات ۱۲;حكام سے ملاقات كى سہولت ۱۲; حكام كى ذمہ دارى ۱۲

روايت: ۱۶

____________________

۱ )تفسير عياشى ، ج ۲ ، ص ۱۸۱، ح ۴۲; نور الثقلين ، ج ۲ ، ص ۲۳۸، ح ۱۱۲_

۵۳۶

سرزمين :سرزمين كنعان حضرت يوسفعليه‌السلام كے زمانے ميں ۳; سرزمين كنعان كى آب و ہوا ۷;سرزمين كنعان كى جغرافيائي موقعيت ۷; سرزمين كنعان ميں قحط ۱

قديمى مصر :قديمى مصر حضرت يوسف كے زمانہ ميں ۸; قديمى مصر كى آب و ہوا ۷;قديمى مصر كى تاريخ ۴، ۵، ۶، ۸;قديمى مصر كى جغرافيائي حالت ۷; قديمى مصر كى حكومت كى حدود ۳;قديمى مصر كى قحط سے نجات ۵;قديمى مصر كى مركزيت ۸;قديمى مصر ميں زراعت ۴; قديمى مصر ميں غلات كو انبار كرنا ۴، ۶; قديمى مصر ميں قحط ۱، ۴

قديم مصر كے لوگ:قديم مصر كے لوگ اور حضرت يوسفعليه‌السلام كے اسلاف ۱۴

مصر كا بادشاہ :بادشاہ مصر كے خواب كى تعبير ۱

يوسفعليه‌السلام :حضرت يوسفعليه‌السلام اور ان كے بھائي ۱۶; حضرت يوسفعليه‌السلام اور غلات كو انبار كرنا ۲;حضرت يوسف سے ملاقات كى سہولت ۱۱;حضرت يوسفعليه‌السلام كا شناخت كرنا ۱۶;حضرت يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۲، ۹، ۱۰، ۱۱، ۱۳، ۱۵، ۱۶;حضرت يوسف كا كامياب ہونا ۲;حضرت يوسفعليه‌السلام كى پيشگوئي ۱;حضرت يوسف كى جدائي كى مدت ۱۵;حضرت يوسفعليه‌السلام كى دور انديشى كے آثار ۵; حضرت يوسفعليه‌السلام كے خوابوں كى تعبير كا صحيح ہونا ۱;حضرت يوسفعليه‌السلام كے عظمت و جلالت ۱۶

آیت ۵۹

( وَلَمَّا جَهَّزَهُم بِجَهَازِهِمْ قَالَ ائْتُونِي بِأَخٍ لَّكُم مِّنْ أَبِيكُمْ أَلاَ تَرَوْنَ أَنِّي أُوفِي الْكَيْلَ وَأَنَاْ خَيْرُ الْمُنزِلِينَ )

پھر جب ان كا سامان كرديا تو ان سے كہا كہ تمھارا ايك ۳_ بھائي اور بھى ہے اسے بھى لے آئو كيا تم نہيں ديكھتے ہو كہ ميں سامان كى ناپ تول بھى برابر ركھتا ہوں اور مہمان نوازى بھى كرنے والا ہوں (۵۹)

۱_ حضرت يوسفعليه‌السلام ،مصر ميں جمع كئے ہوئے غلات كي تقسيم پر خود نظارت كرتے تھے_

و جاء اخوة يوسف و لما جهزهم بجهازهم

۲_ حضرت يوسفعليه‌السلام نے اپنے بھائيوں كى خوراك كے سامان اور غذائي مواد كو خود مرتب كيا_و لما جهزهم بجهازهم

(تجہيز) (جہز)كا مصدر ہے جومہيا كرنے اور آمادہ كرنے كے معنى ميں آتا ہے_ (جہاز) زاد و توشہ ہے(جہز) ميں فاعل كى ضمير حضرت يوسفعليه‌السلام كى طرف لوٹتى ہے

۵۳۷

پس جملہ(لما جہزہم ) كا معنى يہ ہوا كہ حضرت يوسفعليه‌السلام نے اپنے بھائيوں كے ساز و سامان اور زاد و توشہ كو آمادہ كيا _ البتہ يہ بھى احتمال ديا جاسكتا ہے كہ (جہز) كى ضمير حضرت يوسفعليه‌السلام كى طرف مجازاہو اس ليے كہ اكثر اوقات ايسا ہى ہوتا ہے كہ كام كرنے والوں كے كام كو كام كرانے اور حكم دينے والے كى طرف نسبت دى جاتى ہے_

۳_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹے جب حضرت يوسفعليه‌السلام كے سامنے اپنى شناخت كرا رہے تھے اور اپنى تعداد كا بھى ذكر كيا تو ان كے سامنے انہوں نے اس بات كا بھى ذكر كيا كہ ايك ہمارا پدرى بھائي بھى ہے_

قال ائتونى بأخ لكم من ابيكم

۴_ حضرت يوسفعليه‌السلام كے بھائي جب پہلى بار خورد و خوراك كے ليے حضرت يوسف(ع) كى خدمت ميں حاضر ہوئے تو ان كے ساتھ بنيامين نہيں تھے_قال ائتونى بأخ لكم من ابيكم

۵_ حضرت يوسفعليه‌السلام كے بھائيوں نے اس حكم كى پابندى كرنے پر خود كو آمادہ كيا كہ اگلے سفر ميں بنيامين كو اپنے ہمراہ لائيں گے_قال ائتونى بأخ لكم من ابيكم

۶_ حضرت يوسفعليه‌السلام نے افراد كى معين شدہ خوراك كو عادلانہ طور پر بغير كسى كمى كے دے ديا_الا ترون انى اوفى الكيل

(كيل) (تولنا) يہ مصدر ہے ليكن آيت شريفہ ميں اسم مفعول (مكيل) كے معنى ميں آيا ہے اور اس سے مراد،خوراك اور غلات ہيں _(ايفاء) ''اوفي'' كا مصدر ہے جسكا معنى كامل طور پر بغير كسى كمى و زيادى كے ادا كرنے كے ہے _(اوفى ) فعل مضارع كا فعل ماضى (وفيت) كى جگہ پر لانے كا مقصد يہ ہے كہحضرت يوسف(ع) ہميشہ تولنے ميں عادلانہ روش ركھتے تھے_

۷_ حضرت يوسفعليه‌السلام مہمانوں اور ان لوگوں كو جو خورد و خوراك اور اپنى معين شدہ خوراك حاصل كرنے كے ليے ان كى خدمت ميں حاضر ہوتے ان كى اچھى طرح سے مہمان نوازى كرتے تھے_الا ترون انا خير المنزلين

(نزول) طعام يا اس طرح كى چيزيں جو مہمانوں كے ليے مہيا كى جاتى ہيں كو كہا جاتا ہے اور (نزيل) مہمان كے معنى ميں ہے _(منزلين) اس آيت شريفہ ميں اسى سے ليا گيا ہے _ جو ميزبانوں اور مہمان نوازوں كے معنى ميں استعمال ہوا ہے _

۵۳۸

۸_ حضرت يوسفعليه‌السلام نے بھائيوں سے نيكى كى اور ان كے خورد و خوراك كے حصے كو كامل طور پر ادا كيا _

الا ترون انّى اوفى الكيل و انا خير المنزلين

۹_ حضرت يوسفعليه‌السلام نے اپنے بھائيوں كو اپنى عدالت اور مہمانوں سے نيك سلوك كى طرف توجہ مبذول كرا كر انہيں بنيامين كو لانے كى ترغيب دلائي _ائتونى بأخ لكم من ابيكم الا ترون انى اوفى الكيل و انا خير المنزلين

(الا ترون ) كا جملہ ( كيا تم اس بات كى طرف متوجہ نہيں ہوتے ) جو ( ائتونى بأخ لكم ) كے بعد ذكر ہوا ہے حضرت يوسفعليه‌السلام كے مقصد كو بيان كرتا ہے جو بنيامين كو لانے كى ترغيب كى طرف اشارہ كرتا ہےكہ انہوں نے اپنے بھائيوں كو اپنى مہمان نوازى اور معاملہ ميں عادلانہ رويہ كو ذكركركے بيان كيا ہے_

۱۰_ بحرانى حالات اور اشياء كى كمى كى صورت ميں عدالت كرنا ،ايك نيك اور قابل قدر بات ہے _الا ترون انى اوفى الكيل

آيت شريفہ ۶۲ (اجعلوا بضاعتہم ) سے معلوم ہوتا ہے كہ حضرت يوسف ،(ع) افراد كے حصے كو اسكى قيمت كے مقابلے ميں ادا كرتے تھے اسى وجہ سے اسكو معاملے اور كا ر و بار سے ياد كيا گيا ہے _

۱۱_ مہمان نوازى ،اچھى اور قابل قدرخصلت اورعادت ہے_الا ترون انا خير المنزلين

۱۲_ حضرت يوسف(ع) نے اپنے بھائيوں كو يہ وعدہ ديا كہ اگر وہ بعد والے سفر ميں بنيامين كو ساتھ لائيں گے تو پھربھى انكى اچھى خدمت كى جائے گى _الا ترون اناخير المنزلين

اقتصاد :اقتصادى بحران ميں عدالت كرنا ۱۰

برادران يوسف(ع) :برادران يوسفعليه‌السلام اور حضرت يوسفعليه‌السلام ۳;برادران يوسفعليه‌السلام كا پہلا سفر ۴; برادران يوسف(ع) كا مال تجارت ۲;برادران يوسف(ع) كو وعدہ ۱۲; برادران يوسف(ع) كى تشويق كرنا ۹; برادران يوسف(ع) كى حضرت يوسفعليه‌السلام سے ملاقات ۵

بنيامين :بنيامين كا مصر سفر كرنا ۵;بنيامين كو لانے كى تشويق ۹

تجارت :تجارت ميں عدالت ۱۰

صفات :پسنديدہ صفات ۱۱

عمل:

۵۳۹

پسنديدہ عمل ۱۰

قابل قدر چيزيں :۱۱

مہمان نوازى :مہمان نوازى كى قدر و منزلت ۱۱

يوسفعليه‌السلام :حضرت يوسف(ع) اور ان كے بھائي ۲، ۸; حضرت يوسف(ع) اور بنيامين سے ملاقات ۹، ۱۲; حضرت يوسف(ع) اور غلات كى تقسيم ۱;حضرت يوسف(ع) كا قصہ ۱، ۲، ۳، ۴، ۵، ۶، ۸، ۹، ۱۲; حضرت يوسف(ع) كى تشويقات ۹; حضرت يوسف(ع) كى عدالت ۶، ۸، ۹;حضرت يوسف(ع) كى مہمان نوازى ۷، ۸، ۹، ۱۲; حضرت يوسف(ع) كى نظارت ۱;حضرت يوسف(ع) كے فضائل ۶،۷،۸;حضرت يوسف(ع) كے وعدے ۱۲

آیت ۶۰

( فَإِن لَّمْ تَأْتُونِي بِهِ فَلاَ كَيْلَ لَكُمْ عِندِي وَلاَ تَقْرَبُونِ )

اب اگر اسے نے لے آئے تو آئندہ تمھيں بھى غلہ نہ دوں گا اور نہ ميرے پاس آنے پائو گے (۶۰)

۱_ حضرت يوسف(ع) نے قحط كے سالوں ميں لوگوں كى معين شدہ خوراك كو وقت معين ميں متعدد مرتبہ تحويل ميں ديا_

و لما جهزهم بجهازهم فان لم تاتونى به فلا كيل لكم

(كيل) يہاں اسم مفعول (مكيل) كے معنى ہے_ جو طعام اور غلات كے معنى ميں ہے_ غلّہ كو كيل سے اس وجہ سے تعبير كيا گيا ہے كيونكہ اس كو تحويل ديتے وقت پيمانہ كركے ديتے تھے_اور يہى چيز ان كى راشن بندى پر دلالت كرتى ہے _ اور يہ جملہ ( فان لم تأتونى بہ ...) (يعنى اگر تم بعد والے سفر ميں بنيامين كو ميرے پاس ساتھ نہ لائے) اس بات پر دلالت كرتا ہے كہ غلّہ كو متعدد بار اور مخصوص زمان بندى ميں تحويل ديا گيا_

۲_ حضرت يوسفعليه‌السلام نے بھائيوں كے ذہن ميں يہ بات ڈال دى كہ خوراك كے بعد والے حصے كو صرف اس صورت ميں دريافت كرسكتے ہو جب تم بنيامين كو ساتھ لاؤ گے_فان لم تأتونى به فلاكيل لكم عندي

۳_ حضرت يوسفعليه‌السلام نے اپنے بھائيوں كو يہ بتاديا كہ اگر دوسرى بار وہ بنيامين كو ساتھ نہ لائے تو ميرے ہاں نہ آئيں _

۵۴۰