تفسير راہنما جلد ۸

تفسير راہنما 0%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 971

تفسير راہنما

مؤلف: آيت الله ہاشمى رفسنجاني
زمرہ جات:

صفحے: 971
مشاہدے: 163301
ڈاؤنلوڈ: 2624


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4 جلد 5 جلد 6 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 971 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 163301 / ڈاؤنلوڈ: 2624
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد 8

مؤلف:
اردو

فان لم تأتونى به و لا تقربون

(لا تقربون ) ميں نون مكسورہ ، نون وقايہ ہے اور يأى متكلم محذوف پر دلالت كرتى ہے تو اس صورت ميں ( لا تقربون ...) كا معنى يہ ہوگا : كہ ميرے پاس نہ آنا _

۴_ حضرت يوسفعليه‌السلام نے اپنے مقصود تك پہنچنے كے ليے ترغيب دلانے كے ساتھ ساتھ تہديد سے بھى كام ليا_

الا ترون اوفى الكيل فان لم تأتونى به فلا كيل لكم

۵_ اپنے جائز اور مشروع مقاصد كے ليے اقتصادى پابندوں سے مدد حاصل كرنا جائز ہے _

فان لم تأتونى به فلا كيل لكم عندي

۶_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹے دوبارہ مصرلوٹنے اور خوراك حاصل كرنے كے سلسلہ ميں مصمم تھے_

فان لم تأتونى به فلاكيل لكم عندي

۷_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے خاندان كے ليے قحط كے سالوں ميں اپنى خوراك مہيا كرنے كا واحد راستہ مصر ميں آنا اور حضرت يوسف(ع) كى طرف رجوع كرنے ميں تھا_فان لم تأتونى به فلا كيل لكم عندى و لاتقربون

اگر بردران يوسف(ع) كے پاس خوراك حاصل كرنے كے ليے مصر آنے كے علاوہ بھى كوئي راستہ ہو تا توحضرت يوسف(ع) كى تہديد(فلا كيل لك عندي ) كا كوئي معنى نہيں رہتا اوراس كا كو ئي اثر نہ ہوتا_

۸_ حضرت يوسفعليه‌السلام ، بنيامين كا ديدار كرنے ميں بہت ہى زيادہ شوق ركھتے تھے_

ائتونى بأخ لكم فأن لم تأتونى به فلا كيل لكم عندى و لا تقربون

آل يعقوب :آل يعقوب كى تا مين معاش ۷

احكام :۵

اقتصاد :اقتصادى پابندى كا جائز ہونا ۵;اقتصادى ترقى كى اہميت ۵

برادران يوسف :برادران يوسف اور غلّہ كا دريافت كرنا ۲،۶; برادران يوسف كا ارادہ ۶;برادران يوسف كا حضرت يوسف سے ملاقات ۶

عواطف :بھائي كى عطوفت و محبت ۸

ہدف و وسيلہ : ۵

۵۴۱

يوسفعليه‌السلام :حضرت يوسف(ع) اور بنيامين ۸;حضرت يوسف(ع) اور بنيامين سے ملاقات ۲، ۳;حضرت يوسف(ع) اور غلات كى تعين مقدار۱; حضرت يوسف(ع) اور غلات كى تقسيم ۱;حضرت يوسف(ع) سے ملاقات كے شرائط ۲، ۳; حضرت يوسف(ع) كا بنيامين سے لگاؤ ۸ ;

حضرت يوسف(ع) كا پروگرام ۱;حضرت يوسف(ع) كا ڈرانا ۴;حضرت يوسف(ع) كا شوق دلوانا ۴; حضرت يوسف(ع) كا قصہ ۲، ۳، ۶;حضرت يوسفعليه‌السلام كى اقتصادى سياستيں ۱;حضرت يوسف(ع) كى بھائيوں سے ملاقات ۲، ۳; حضرت يوسف(ع) كے پيش آنے كا طريقہ ۴

آیت ۶۱

( قَالُواْ سَنُرَاوِدُ عَنْهُ أَبَاهُ وَإِنَّا لَفَاعِلُونَ )

ان لوگوں نے كہا كہ ہم اس كے باپ سے بات چيت كريں گے اور ضرور كريں گے (۶۱)

۱_ حضرت يعقوبعليه‌السلام اپنے بيٹے بنيامين سے خصوصى محبت كرتے تھے _قالوا سنراود عنه اباه

۲_ حضرت يعقوبعليه‌السلام ہميشہ بنيامين كو اپنے بھائيوں كے ساتھ سفر كرنے سے منع كرتے تھے_قالوا سنراودعنه اباه

۳_ برادران يوسفعليه‌السلام نے بنيامين كے ہمراہ نہ ہونے كى دليل يہ ذكر كى كہ حضرت يعقوب(ع) ان سے شديد لگاؤ ركھتے ہيں _قالوا سنراود عنه آباه

(ہم اپنے باپ سے بات كريں گے اور كوشش كريں گے كہ اسكو راضى كريں تا كہ بنيامين كو ہمارے ساتھ بھيجے)جو جملہ (سنراودعنہ آباہ) سے معلوم ہوتا ہے_ اس سے يہ بھى اشارہ ملتا ہے كہ بنيامين جو ان كے ہمراہ نہيں تھے دراصل ان كے باپ نے انہيں منع كيا تھا_

۴_ حضرت يعقوب(ع) كے بيٹے بنيامين كو مصر لانے كيلئے حضرت يعقوبعليه‌السلام كى رضايت كو جلب كرنے كے علاوہ كوئي اور راستہ نہيں ركھتے تھے_قالوا سنراود عنه آباه و انا لفاعلون

۵_ حضرت يوسفعليه‌السلام كے بھائيوں نے يہ وعدہ كياكہ دوسرى بار جب وہ آئيں گے تو بنيامين كو آپ كى خدمت ميں لے آئيں گے_سنراود عنه آباه و انا لفاعلون

۶_ برادران يوسف نے ان سے وعدہ كيا كہ وہ اپنے

۵۴۲

باپ حضرت يعقوبعليه‌السلام كو راضى كريں گے كہ بنيامين كو ہمارے ساتھ روانہ كريں _قالوا سنراود عنه آباه و انا لفاعلون

(مراودہ ) (نراود) كا مصدر ہے جسكا معنى نرمى اور پيار و محبت سے درخواست كرنے كا ہے _ اور (عنہ ) كا لفظ جس كے بارے ميں درخواست كى جا رہى ہے اس پر دلالت كرتا ہے _تو اس صورت ميں '' سنراود '' كا معنى يہ ہوا كہ ان كے باپ ( بنيامين كے والد گرامى ) سے نرمى و محبت سے درخواست كريں گے كہ آئندہ كے سفر ميں ان كو ہمارے ساتھ روانہ كريں _

۷_ برادران يوسف(ع) نے اس بات كى تاكيد كى كہ وہ يہ صلاحيت ركھتے ہيں كہ والد گرامى كو راضى كرليں تا كہ بنيامين كو آپ كے پاس لانے كے ليے ہمارے ساتھ روانہ كردے _انالفاعلون

(سنراود عنہ آباہ ) كے جملہ سے يہ ظاہر ہوتا ہے كہ حضرت يوسف كو يہ احتمال بھى تھا كہ ان كے والد گرامى راضى نہ ہوں ( انا لفاعلون ) كے جملے سے ان كے بھائي ان كو اطمينان دلانا چاہتے تھے كہ بغير كسى تشويش كے والد گرامى كى رضايت

جلب كريں گے اور بنيامين كو آپ كے ہاں لے آئيں گے_

برادران يوسف :برادران يوسف اور بنيامين ۴، ۵; برادران يوسف اور رضايت حضرت يعقوبعليه‌السلام ۴، ۶، ۷; برادران يوسف كا وعدہ ۵،۶

بنيامين :بنيامين كا مصر كى طرف سفر ۴، ۵، ۶، ۷;بنيامين كو ساتھ نہ لانے كے دلائل ۳

عواطف :عواطف پدرى ۱

يعقوبعليه‌السلام :حضرت يعقوب(ع) اور بنيامين كى مسافرت ۲; حضرت يعقوب(ع) كا قصہ ۵; حضرت يعقوب(ع) كى بنيامين سے محبت ۱، ۲، ۳

يوسف(ع) :حضرت يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۳، ۴، ۶، ۷;حضرت يوسف(ع) كے ساتھ عہد ۵، ۶

۵۴۳

آیت ۶۲

( وَقَالَ لِفِتْيَانِهِ اجْعَلُواْ بِضَاعَتَهُمْ فِي رِحَالِهِمْ لَعَلَّهُمْ يَعْرِفُونَهَا إِذَا انقَلَبُواْ إِلَى أَهْلِهِمْ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ )

اور يوسف نے اپنے جوانوں سے كہا كہ ان كى پونچى بھى انكے سامان ميں ركھ دو شائد جب گھر پلٹ كر جائيں تو اسے پہچان ليں اور اس طرح شايد دوبارہ پلٹ كر ضرور آئيں (۶۲)

۱_ حضرت يوسفعليه‌السلام لوگوں كے حصے كو انہيں فروخت كرتے اور اس كى قيمت وصول كرتے تھے _

و قال لفتيانه اجعلوا بضاعتهم فى رحالهم

(بضاعة)اس مال كو كہا جاتا ہے جو مال، تجارت اور خريد و فروش كے ليے ہو _ اسى وجہ سے (بضاعتہم) سے وہ مال مراد ہے جو برادران يوسف نے قيمت كے بد لے حاصل كيا تھا_

۲_حضرت يوسف(ع) نے اپنے كا رندوں سے كہا كہ جو قيمت فرزندان يعقوب(ع) نے دى ہے اسے ان كے سامان ميں پنہاں كرديں _و قال لفتيانه اجعلوا لضاعتهم فى رحالهم

۳_ حضرت يوسفعليه‌السلام نے كارندوں سے يہ تاكيد فرمائي كہ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں كے مال كو ان كے سامان ميں اس طرح پوشيدہ كريں كہ اپنے وطن پہنچنے سے پہلے وہ اسكى طرف متوجہ نہ ہو سكيں _

اجعلوا بضاعتهم فى رحالهم لعلم يعرفونها اذا انقلبوا الى اهلهم

۴_ حضرت يوسفعليه‌السلام نے بہت سے غلاموں اور كارندوں كو اپنى خدمت ميں ليا ہوا تھا جو ساز و سامان كا وزن ، تقسيم اور قيمت وصول كرنے پر ما مور تھے_قال لفتيانه اجعلوا بضاعتهم فى رحالهم

(فتيان )جو (فتي) كى جمع ہے غلاموں اور جوانوں كے معنى ميں استعمال ہوتا ہے_

۵_ حضرت يوسفعليه‌السلام يہ اميد ركھتے تھے كہ جو مال اپنے بھائيوں كو واپس لوٹا دياگيا ہے وہ اپنے وطن لوٹ كر اسے پہچان سكيں گے_اجعلوا بضاعتهم فى رحالهم لعلهم يعرفونه

يہ بات واضح ہے كہ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹے جب اپنے ساز و سامان كو كھولتے تو اپنے مال كو جو قيمت كے طور پر ديا تھا اس ميں پاتے ، اسى وجہ سے (لعل) كا ذكر جو ( شايد و ممكن ) كے معنى ميں ہے مناسب نہيں تھا اسى وجہ سے (لعل) كى تفسير ميں چند وجوہ ذكر كى گئي ہيں :

۵۴۴

۱_ (اذا انقلبوا ) كى قيد كے طور پر ذكر ہوا ہو اور اشفاق و ترجّى كے معنى ميں ہو يعنى اميد ہے كہ جب وہ اپنے اہل وعيال كے درميان پہنچيں تو اسكو جان سكيں اور اس سے پہلے متوجہ نہ ہوں _

۲_ يہاں شناخت سے مراد، اپنے حق كى شناخت ہے _ يعنى اس كے حق كو پہچان سكيں يعنى اپنے مال كوپہچان كر ميرى قدر دانى كا اقرار كريں _

۳_ (لعل) (كَي) كے معنى ميں ہو يعنى ( يہاں تك كہ ) اور يہ ترجى و اميدى كے معنى ميں نہ ہو _

۶_ حضرت يوسفعليه‌السلام ، حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں كے مال تجارت كو واپس لوٹا كر ان ميں حق شناسى اور شكرگزارى كى حس ايجاد كرنا چاہتے اورانہيں دوبارہ لوٹنے كاشوق و ترغيب دلانا چاہتے تھے_اجعلوابضاعتهم فى رحالهم لعلهم يعرفونها لعلهم يرجعون مذكورہ بالا معنى دوسرے احتمال كو بتاتا ہے جسكى وضاحت پہلے ذكر ہوچكى ہے_

۷_ حضرت يوسفعليه‌السلام ،بھائيوں كو ڈرانے دھمكانے اور شوق و رغبت نيز ان كے ليے واپس لوٹنے كے تمام اسباب مہيّا كرنے كے باو جودان كے واپس لوٹنے پر اطمينان نہيں ركھتے تھے اور يعقوب(ع) كا بنيامين كو سفر پر نہ بھيجنے كا بھى احتمال ديتے تھے _لعلهم يرجعون

۸_ حضرت يوسف(ع) اپنے بھائي بنيامين كے مصر آنے كا بہت اشتياق اور اميدركھتے تھے_

اجعلوا بضاعتهم فى رحالهم لعلهم يرجعون

۹_حضرت يوسف(ع) كا بنيامين كو كنعان سے مصر كى طرف سفر كرانے كى منصوبہ بندى كرنا،

فان لم تأتونى به فلا كيل لكم ...اجعلوا بضاعتهم فى رحالهم لعلهم يرجعون

۱۰_ حضرت يعقوبعليه‌السلام اور ان كے بيٹے زيادہ مال و منال نہيں ركھتے تھے بلكہ مالى لحاظ سے بہت ہى محدود تھے_

اجعلوا بضاعتهم فى رحالهم لعلهم يرجعون

حضرت يوسف كا اپنے بھائيوں كو سرمايہ لوٹانے كے احتمالات ميں سے ايك احتمال يہ بھى ہوسكتا ہے كہ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے خاندان ميں مال و متاع كى كمى تھى _ اور آيت شريفہ ۶۵ ميں ( ما نبغى ہذہ بضاعتنا نمير اہلنا ) كا جملہ اس پر مؤيد ہے_

۱۱_ حضرت يوسفعليه‌السلام غلات كى تقسيم اور انبار شدہ خورا ك كے سلسلہ ميں مخصوص اختيارات ركھتے تھے_

قال لفتيانه اجعلوا بضاعتهم فى رحالهم

۵۴۵

حضرت يوسفعليه‌السلام كا حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں كو خوراك كے حصے سے منع كرنا كہ جب وہ آنے والى نوبت ميں بنيامين كو نہ لائے تو كچھ نہيں ملے گا اس سے مذكورہ بات سامنے آتى ہے اوران كے مال كو انہيں واپس لوٹا دينا يہ ان كے مخصوص اختيارات كى طرف اشارہ ہے_

۱۲_ بحرانى حالات ميں خوراك كى مقدار وسہم معيّنكرنا اور جو سامان ديا جائے اس كے بدلے ميں عوض لينا، بيت المال كى حفاظت و نگہدارى اور اقتصادى امور سے آگاہى كا تقاضا كرتى ہے_اجعلنى على خزائن الارض انى حفيظ عليم اجعلوا بضاعتهم فى رحالهم حضرت يوسفعليه‌السلام كا خزانے كا سر براہ ہونے كے حوالے سے اجناس كى راشن بندى كرنا جب كہ اس كى كمى تھى يہ بات حفيظ اور عليم سے س سمجھى جا رہى ہے _

۱۳_ بحرانى حالا ت اور راشن بندى كے اياّم ميں حكومت كى طرف سے لوگوں كو مفت مال دينا كوئي پسنديدہ سياست نہيں ہے_قال لفتيانه اجعلوا بضاعتهم فى رحالهم

اقتصاد :اقتصادى بحران ميں سياست ۱۲; ناپسنديدہ اقتصادى سياست۱۳

برادران يوسفعليه‌السلام :برادران يوسف(ع) كا فقر ۱۰; برادران يوسف(ع) كو تشويق دلوانا ۷; برادران يوسف(ع) كوڈرانا ۷; برادران يوسف(ع) كے تجارت كے مال كو واپس لوٹانا ۲، ۳، ۵، ۶;برادران يوسف(ع) ميں تشكر كرنے كے مقدمات كو اجاگر كرنا ۶;برادران يوسف(ع) ميں حق و حقيقت كى پہچان كو ابھارنا ۶;برادران يوسفعليه‌السلام ميں مصر آنے كا انگيزہ ايجاد كرنا۶

بيت المال :بيت المال كى حفاظت كا طريقہ ۱۲

خوراك كى راشن بندى :خوراك كى راشن بندى كى اہميت ۱۲

لوگ :لوگوں كو خورد و نوش كا سامان مفت عطا كرنا ۱۳

يعقوب(ع) :يعقوبعليه‌السلام كا فقر ۱۰

يوسفعليه‌السلام :يوسف اور بنيامين كا سفر ۷، ۸،۹;يوسف اور غلات كى تقسيم ۱۱;يوسف اور غلات كى فروخت ۱ ; يوسف كا اقتصادى پروگرام ۱;يوسف(ع) كا اميدوار ہونا ۸; يوسف كا بنيامين سے محبت كرنا ۸ ; يوسف(ع) كا پروگرام ۹; يوسفعليه‌السلام كا ڈرانا ۷;يوسف كا قصہ ۱، ۲، ۳، ۵، ۶،۷، ۱۱;يوسفعليه‌السلام كى تشويق دلوانا ۷;

۵۴۶

يوسفعليه‌السلام كى توقعات ۵; يوسفعليه‌السلام كى نصيحتيں ۳ ; يوسفعليه‌السلام كے اختيارات ۱۱;يوسفعليه‌السلام كے اوامر ۲; يوسف كے پيش آنے كا طريقہ ۶;يوسف كے كارندوں كا كردار ۴; يوسف(ع) كے مقاصد ۶

آیت ۶۳

( فَلَمَّا رَجِعُوا إِلَى أَبِيهِمْ قَالُواْ يَا أَبَانَا مُنِعَ مِنَّا الْكَيْلُ فَأَرْسِلْ مَعَنَا أَخَانَا نَكْتَلْ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ )

اب جو پلٹ كر باپ كى خدمت ميں آئے اور كہا كہ بابا جان آئندہ ہميں غلہ سے روك ديا گيا ہے لہذا ہمارے ساتھ ہمارے بھائي كو بھى بھيج ديجئے تا كہ ہم غلہ حاصل كرليں اور اب ہم اس كى حفاظت كے ذمہ دار ہيں (۶۳)

۱_ حضرت يعقوب كے بيٹوں نے مصر سے واپس لوٹنے كے بعد انہيں اپنے سفر كى رپورٹ دى اور اسكى وضاحت ، بيان كى _فلما رجعوا الى ابيهم قالوا

۲_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں نے اپنے والد گرامى كو يہ رپورٹ دى كہ اگر ہم بنيامين كے بغير گئے تو ہميں اپنے راشن كا حصہ نہيں ملے گا _فان لم تاتونى به فلا كيل لكم فلما رجعوا الى ابيهم قالوا يا ا بانا منع منا الكيل

۳_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں نے اظہار محبت كرتے ہوئے اپنے والد گرامى سے درخواست كى كہ بنيامين كو ہمارے ساتھ مصر روانہ كريں _فأرسل معنا آخان

حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں كا بنيامين كا نام نہ لينا بلكہ اسے ( آخانا ) (ہمارے بھائي) كے جملے سے يادكرنا، اس كے ساتھ اپنى محبت كے اظہار كے ليے ہے_

۴_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں نے مصر كے سفر ميں بنيامين كى حفاظت كرنے كا عہد كيا اور اس پر تاكيد كى _

فأرسل معنا آخانا نكتل و انا له لحافظون

۵_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں كے نزديك، خوراك

۵۴۷

كے معين سہم كا بنيامين كو ہمراہ نہ لانے كى صورت ميں بند ہونا ،ايك اہم بات تھى _ىأبانا منع منا الكيل

حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں كا ساز و سامان سفر كو كھولنے سے پہلے جو عموماً كاروانوں اور مسافرين كا گھر پہنچنے كے بعد پہلا اقدام ہوتا ہے اپنے والد بزرگوار كو خوراك كے راشن كے بند ہونے كى خبر دينا اور اس خبر دينے ميں جلدى كرنا ان كے نزديك اس كى اہميت كو بتاتا ہے _

۶_ حضرت يوسفعليه‌السلام كے زمانہ ميں كنعان ميں جو سات سال قحط و خشكسالى كے تھے اس ميں غلّہ اور خورد و خوراك كا سامان ناياب تھا_قالوا ىأبانا منع منا الكيل فأرسل معنا اخانا نكتل

۷_حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں كے پاس قحط كے سالوں ميں اپنى خوراك مہيا كرنے كے ليے مصر ميں حضرت يوسف كے ہاں حاضر ہونے كے علاوہ اور كوئي راستہ نہيں تھا_ىأبانا منع منا الكيل فأرسل معنا اخان

حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں كے ليے مصر جا نے كے علاوہ كوئي راستہ نہيں تھا ورنہ حضرتعليه‌السلام اپنے بيٹوں كووہ راستہ بتاتے تا كہ بنيامين كو ان كے ساتھ بھيجنے پر مجبور نہ ہوتے_

۸_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كى بنيامين كو سفر سے منع كرنے كى وجہ يہ تھى كہ وہ اس كے ليے خطرہ محسوس كرتے تھے_

سنراود عنه آباه فأرسل معنا اخانا نكتل و انا له لحافظون

(سنراود عنہ آباہ ...) كے جملے سے معلوم ہوتا ہے كہ حضرت يعقوب(ع) ہميشہ بنيامين كو سفر كرنے سے روكتے تھے ( انا لہ لحافظون ) كا جملہ بتاتا ہے كہ اس كى دليل يہ تھى كہ وہ ان كے ليے خطرہ محسوس كرتے تھے_

۹_ بنيامين ،اپنے والد گرامى حضرت يعقوبعليه‌السلام كى اجازت كے بغير سفر نہيں كرتے تھے_فأرسل معنا اخان

يہ كہ حضرت يوسفعليه‌السلام كے بھائيوں نے بنيامين كو مصر لے جانے كے ليے حضرت يعقوبعليه‌السلام سے بات كى كہ اسكو ہمارے ساتھ مصر جانے كى اجازت ديں (فأرسل معنا اخانا ) كے جملے سے معلوم ہوتا ہے كہ بنيامين اپنے والد گرامى كى اجازت كے بغير سفر نہيں كرتے تھے_

۱۰_حضرت يعقوبعليه‌السلام كا اپنے بيٹوں اور اہل خانہ پر مكمل تسلطّ تھا _يأبانا منع منا الكيل فارسل معنا اخان

۱۱_ والدين، اپنے بيٹوں پر امر و نہى كرنے كا حق ركھتے ہيں _فأرسل معنا اخان

۵۴۸

۱۲_ بيٹوں كے ليے والدين كا كہنا ماننا اور ان كے كہنے پر عمل كرنا، اولاد كى ذمہ دارى اور ان كے ساتھ معاشرت و زندگى كرنے كے آداب ميں سے ہے_فأرسل معنا اخان

اطاعت :والد كى اطاعت ۱۱، ۱۲

اہل خانہ :اہل خانہ كى سرپرستى ۱۰

برادران يوسف(ع) :برادران يوسفعليه‌السلام اور بنيامين كا سفر ۲، ۳، ۴، ۵; برادران يوسف(ع) اور يعقوبعليه‌السلام ۳; برادران يوسف(ع) قحط كے دوران ۷;برادران يوسف(ع) كا زندگى كو چلانے كا طريقہ ۷;برادران يوسف(ع) كا لوٹنا ۱ ; برادران يوسف(ع) كا وعدہ ۴;برادران يوسف(ع) كو غلات سے منع كرنا ۲، ۵;برادران يوسف(ع) كى حضرت يعقوبعليه‌السلام كو رپوٹ دينا ۱، ۲;برادران يوسف(ع) كى خواہشات ۳; برادران يوسف(ع) كے پيش آنے كا طريقہ ۳

بنيامين :بنيامين اور حضرت يعقوب(ع) كى رضايت ۹بنيامين سے محبت ۳;بنيامين كا حضرت يعقوبعليه‌السلام كا احترام كرنا ۹; بنيامين كى حفاظت ۴;بنيامين كے ليے خطرے كا احساس ۸

سرزمين :كنعان كى سرزمين حضرت يوسف كے زمانے ميں ۶;كنعان كى سرزمين كى تاريخ ۶; كنعان كى سرزمين ميں قحط ۶

عواطف :برادرى كى عطوفت

فرزند :فرزند پر حق ۱۱; فرزند كى ذمہ دارى ۱۲

معاشرت :معاشرت كے آداب ۱۲

والد :والد ہ سے پيش آنے كا طريقہ ۱۲;والد كا احترام ۹; والد كے حقوق ۱۱، ۱۲

يعقوب :حضرت يعقوب اور بنيامين كا سفر كرنا ۸;حضرت يعقوب كى سرپرستى ۱۰

يوسف :حضرت يوسف كا قصہ ۱، ۲، ۳، ۴، ۵، ۷، ۸

۵۴۹

آیت ۶۴

( قَالَ هَلْ آمَنُكُمْ عَلَيْهِ إِلاَّ كَمَا أَمِنتُكُمْ عَلَى أَخِيهِ مِن قَبْلُ فَاللّهُ خَيْرٌ حَافِظاً وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ )

يعقوب نے كہا كہ ہم اس كے بارے ميں تمھارے اوپر اسى طرح بھروسہ كريں جس طرح پہلے اس كى بھائي يوسف كے بارے ميں كيا تھا _خير خدا بہترين حفاظت كرنے والا ہے اور وہى سب سے زيادہ رحم كرنے والا ہے (۶۴)

۱_ حضرت يعقوبعليه‌السلام نے اپنے بيٹوں كے مشورے كو قبول نہيں كيا اور بنيامين كو مصر بھيجنے كى مخالفت كى _

قال هل ء امنكم عليه الا كما امنتكم على اخيه من قبل

۲_ حضرت يعقوب، بنيامين كى حفاظت كے ليے اپنے بيٹوں كى تاكيد اور وعدے پر مطمئن نہيں تھے_

قال هل ء امنكم عليه الا كما امنتكم على اخيه من قبل

(ہل ء امنكم ...) ميں استفہام ،انكارى ہے جو نفى كے معنى ميں ہے_'' ا مَنَ '' (ء امن)كا مصدر ہے_ جو اطمينان كرنے اور امين سمجھنے كے معنى ميں ہے _ پس (هل ء امنكم .) كا معنى يہ ہوا كہ ميں تم كو بنيامين كے بارے ميں امين نہيں سمجھتا ہوں اور تمہارے وعدوں پر مجھے اطمينان نہيں ہے_

۳_ برادران يوسف(ع) كى آنحضرتعليه‌السلام كى حفاظت كے سلسلہ ميں بدعہدى كى وجہ سے حضرت يعقوب(ع) كو ۱پنے بيٹوں كى بنيامين كى حفاظت كے سلسلہ ميں عہد پر عدم اطمينان تھا_هل ء امنكم عليه الا كما امنتكم على اخيه من قبل

حضرت يعقوبعليه‌السلام نے بنيامين كى حفاظت كے بارے ميں اپنے بيٹوں كے وعدوں پر اعتماد و اطمينان كو حضرت يوسفعليه‌السلام كى حفاظت كے ساتھ تشبيہ دى _ اس ميں وجہ شبہہ بے فائدہ اور بے نتيجہ ہونا ہے _ پس اس صورت ميں '' ہل امنكم عليہ الا ...'' كا معنى يہ ہوگا كہ ميرا اعتماد آپ لوگوں پر( اگر ميں اعتماد كروں بھى سہي) تو بے ثمر و بے فائدہ ہے _ جس طرح ميں نے يوسفعليه‌السلام كے بارے ميں آپ پر اعتماد كيا تھا_

۵۵۰

۴_حضرت يعقوب(ع) كا بنيامين كو بيٹوں كے ہمراہ نہ بھيجنے كا سبب يہ تھا كہ كہيں يہ بھى يوسف(ع) جيسى مصيبت سے دوچارنہ ہو جائے_الّا كما امنتكم على اخيه من قبل

حضرت يعقوب(ع) نے حضرت يوسفعليه‌السلام كا نام لينے كى بجائے بنيامين كے بھائي كے عنوان سے ان كو ياد كر كے ايك لطيف نكتہ كى طرف اشارہ كيا كہ ان دونوں كا آپس ميں بھائي ہونے كے رشتے نے مجھے ان كى ايك سرنوشت (يعنى باپ سے جدائي اور فراق) كى وجہ سے پريشانى كرديا ہے_

۵_افراد كو ذمہ دارى سونپنے سے پہلے افراد كے سابقہ اعتماد پر توجہ ركھنا ضرورى ہے_

هل ء امنكم عليه الا كما امنتكم على اخيه من قبل

۶_ كسى فرد كا برا ماضى ہى اس بات كيلئے كا فى ہے كہ اس فرد سے احتياط كى جائے اور اس كے قول و قرار پر يقين نہ كيا جائے_هل ء أمنكم عليه الا كما امنتكم على اخيه من قبل

۷_ افراد كے سوء سابقہ كى انہيں يادآورى كرانا اور اس پر اثر مرتب كرناجائزہے تا كہ مستقبل ميں ايسے واقعات كى روك تھام كى جاسكے_هل ء امنكم عليه الا كما امنتكم على اخيه من قبل

۸_ گذرے ہوئے حوادث سے عبرت حاصل كرنا ضروى ہے تا كہ آئندہ اس جيسے واقعات سے محفوظ رہا جائے_

هل ء امنكم عليه الا كما امنتكم على اخيه من قبل

۹_حضرت يعقوبعليه‌السلام نے اپنے بيٹوں كے اس وعدے پر كہ وہ حضرت يوسفعليه‌السلام كے حفاظت كريں گے ان پر اطمينان كيا اور ان كى حفاظت كرنے كے سلسلہ ميں دل كو سہارا ديا _كما امنتكم على اخيه من قبل

۱۰_ افراد كو كسى شے يا چيزكى حفاظت كرنے ميں مؤثر جاننا ، شرك كا موجب نہيں بنتا اور يہ توكل الہى اور مقام نبوت كے منافى نہيں ہے_كما امنتكم على اخيه من قبل

اس سورہ ميں آيت كريمہ(۳۸) (ما كان لنا ان نشرك بالله من شيء ) كى دليل كى وجہ سے حضرت يعقوب(ع) ذرہ برابر بھى شرك كى طرف ميلان نہيں ركھتے تھے(كما امنتكم على اخيه ) كا جملہ بتاتا ہے كہ حضرت يعقوبعليه‌السلام اپنے بيٹوں كو امين خيال كرتے تھے اسى وجہ سے يوسفعليه‌السلام كى حفاظت ان كے سپردكردى پس اس سے معلوم ہوا كہ اشخاص كو كسى شے كى حفاظت ميں مؤثر سمجھنا، شرك نہيں اور نبوت كے مقام كے ساتھ بھى ناسازگار نہيں ہے_

۵۵۱

۱۱_ خداوند متعال، بہترين محافظ اور نگہبان ہے _فالله خير حافظ

۱۲_ خداوند متعال، ارحم الراحمين ( تمام مہربانوں سے بہتر مہربان ) ہے _فالله خير حافظاً و هو ارحم الراحمين

۱۳_ خداوند متعال كا اپنے بندوں كى حفاظت و نگہبانى كرنا، اسكى وسيع تر رحمت كى وجہ سے ہے _

فالله خير حافظاً و هو ارحم الراحمين

خداوند عالم كو بہترين حافظ ياد كرنے كے بعد خداوند متعال كى توصيف ( ارحم الراحمين ) سے كرنا گويا اس بات كو بتاتا ہے كہ ان دو صفتوں كے درميان ارتباط ہے _ يعنى كيونكہ وہ ارحم الراحمين ہے اسى وجہ سے بہترين محافظ بھى ہے_

۱۴_ انسانوں كى امانتدارى كرنا اور اس امانت كى حفاظت پر پورا اترناان كے رحم ودلسوزى كے ساتھ مربوط ہے _

فالله خير حافظاً و هو ارحم الراحمين

۱۵_ رحم و دلسوزى كا نہ ہونا، لوگوں سے خيانت كرنے كا سبب بنتا ہے _

قال هل ء امنكم عليه فالله خير حافظاً و هو ارحم الراحمين

۱۶_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كى اپنے بيٹوں سے دورى كرنے كى وجہ يہ تھى كہ ان ميں رحم ودلسوزى نہيں تھى اور وہ حضرت يوسف(ع) اور بنيامينسے مہربانى سے پيش نہيں آتے تھے_

هل ء امنكم عليه الا كما امنتكم على اخيه من قبل فالله خير حافظاً و هو ارحم الراحمين

احتياط:احتياط كرنے كے ضرورى موارد ۶

اسماء و صفات :ارحم الراحمين ۱۲

اعتماد :بے اعتمادى كے اسباب ۶

اللہ تعالى :اللہ تعالى كا محافظ و نگہبان ہونا ۱۱;اللہ تعالى كى رحمت كے آثار ۱۳; اللہ تعالى كے مختصّات ۱۱

امانتدارى :امانتدارى كا پيش خيمہ ۱۴

انسان :انسانوں كى محافظت ۱۳

برادارن يوسفعليه‌السلام :برادران يوسف(ع) اور بنيامين ۱۶; برادران يوسف(ع) اور يوسفعليه‌السلام ۳، ۹، ۱۶; برادران يوسف(ع) پر اعتماد

۵۵۲

۹;برادران يوسف(ع) پر بے اعتمادى ۲، ۳; برادران يوسف(ع) كے مشورے كو رد كرنا ۱

بنيامين :بنيامين كى محافظت ۳; بنيامين كے انجام سے پريشانى ۴

بے رحمى :بے رحمى كے آثار ۱۵

تاريخ :تاريخ سے عبرت حاصل كرنے كى اہميت ۸

توكل:توكل كرنے كى حقيقت ۱۰//حافظ :بہترين حفاظت كرنے والا ۱۱

حوادث :ناگوار حوادث سے بچنے كا طريقہ ۸; ناگوار حوادث كے تكراركے موانع ۷

خيانت :خيانت كا پيش خيمہ ۱۵

ذمہ دارى :ذمہ داريوں كى تقسيم ميں مؤثر عوامل ۵

سابقہ :بُرے سابقہ كے آثار ۶

شرك :شرك كى حقيقت ۱۰

عبرت :عبرت كے اسباب۸

لوگ :لوگوں پر اعتماد اور توكل ۱۰; لوگوں پر اعتماد اور شرك ۱۰; لوگوں كے سابقہ كى اہميت ۵

مہربانى :مہربانى كے آثار ۱۴

يادآورى :بُرے سابقہ كى يادآورى كرنے كا جواز ۷

يعقوبعليه‌السلام :يعقوب(ع) اور برادران يوسف(ع) كا عہد و پيمان ۲; يعقوبعليه‌السلام اور برادران يوسف(ع) كى بے رحمى ۱۶; يعقوبعليه‌السلام اور بنيامين ۴;يعقوب(ع) اور بنيامين كا سفر كرنا ۱ ; يعقوب(ع) كا اعتماد ۹; يعقوب(ع) كا شك ۲;يعقوب(ع) كى بے اعتمادى كے دلائل ۳;يعقوب(ع) كى پريشانى كے اسباب ۴; يعقوب(ع) كى مخالفت اور برادران يوسف(ع) ۱

يوسف :يوسف كا قصہ ۱، ۲، ۳، ۴، ۹، ۱۶; يوسف كى حفاظت۹

آیت ۶۵

( وَلَمَّا فَتَحُواْ مَتَاعَهُمْ وَجَدُواْ بِضَاعَتَهُمْ رُدَّتْ إِلَيْهِمْ قَالُواْ يَا أَبَانَا مَا نَبْغِي هَـذِهِ بِضَاعَتُنَا رُدَّتْ إِلَيْنَا وَنَمِيرُ أَهْلَنَا وَنَحْفَظُ أَخَانَا وَنَزْدَادُ كَيْلَ بَعِيرٍ ذَلِكَ كَيْلٌ يَسِيرٌ )

۵۵۳

پھر جب ان لوگوں نے اپنا سامان كھولا تو ديكھا كہ ان كى بضاعت (قيمت)واپس كردى گئي ہے تو كہنے لگا بابا جان اب ہم كيا چاہتے ہيں يہ ہمارى پونجى بھى واپس كردى گئي ہے اب ہم اپنے گھر والوں كے لئے غلہ ضرور لائيں گے اور اپنے بھائي كى حفاظت بھى كريں گے اور ايك اونٹ كا بار اور بڑھواليں گے كہ يہ بات اس كى موجودگى ميں آسان ہے (۶۵)

۱_ حضرت يعقوب(ع) كے بيٹوں نے سفر كى رپورٹ دينے كے بعد، مصر سے خريدارى كيئے ہوئے سامان كو كھولنا شروع كر ديا _و لما فتحوا متاعهم

۲_حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں نے جب اپنے سامان كو كھولا تو مصر سے خريدارى كيئے ہوئے غلات كے درميان اسكى قيمت كو پايا_و لما فتحوا متاعهم وجدوا بضاعتهم ردت اليهم

۳_حضرت يعقوب(ع) كے بيٹوں نے جب اداشدہ قيمت كو واپس پايا تو خوش ہوگئے اور حضرت يعقوب كو رپوٹ دى _

قالوا ىأبانا ما نبغى هذه بضاعتنا ردّت الينا

(ما نبغي) ميں (ما) استفہاميہ اور نبغى كا مفعول ہے _ (بغي) كا معنى چاہنا اور طلب كرنا ہے (ما نبغى ) يعنى اس سے زيادہ ہم كيا چاہتے ہيں ؟

۴_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹے اس بات پر اطمينان ركھتے

تھے كہ ان كے سرمايہ كو جان بوجھ كر واپس لوٹا ديا گيا ہے اور اس سلسلہ ميں يوسفعليه‌السلام كے كارمندوں نے كوئي بھول نہيں كيوجدوا بضاعتهم ردّت اليهم ...هذه بضاعتنا ردّت الينا

(ردّت الينا )كا جملہ اس بات پر دلالت كرتا ہے كہ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹے مطمئن تھے كہ ان كى پونجى ان كى طرف لوٹا دى گئي ہے _ يعنى يہ گمان بھى نہيں تھا كہ انہوں نے غلطى سے ركھ ديا ہو تا كہ اسكو واپس لوٹا نے كواپنے ليئے ضرورى سمجھيں _

۵۵۴

۵_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں نے ان كو اس بات كى يقين دہانى كرائي كہ عزيز مصر (يوسفعليه‌السلام ) نے ان كى پونجى كو بغير كسى كمترين منت و سماجت اور ہميں خبر ديئےغير واپس لوٹا دياہے _هذه بضاعتنا ردّت الينا

(ردّت) كے فعل كو مجہول لانا اورفاعل كاذكر نہ كرنا ، اس معنى كو بتا رہا ہے كہ مال كا كا واپس لوٹانا اس طرح تھا كہ ہميں كوئي خبر نہ ہوتا كہ ہميں كسى قسم كى شرمندگى كا احساس نہ ہو _

۶_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹے اپنے باپ كے ساتھ اور ان كى سرپرستى ميں زندگى بسر كرتے تھے _

و لما فتحوا متاعهم ...قالوا يابانا ما نبغى هذه بضاعتنا ردّت الينا

۷_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں نے جب اپنے سرمايہ كو واپس اپنے پاس ديكھا تو دوبارہ كوشش شروع كردى تا كہ والد بزگوار كو راضى كريں كہ وہ بنيامين كو ہمارے ساتھ روانہ كريں _

قال هل أمنكم ىأ بانا ما نبغى هذه بضاعتنا ردّت الينا و نمير اهلنا و نحفظ أخانا

حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں كا يہ جملہ ( ما نبغى ہذہ بضاعتنا ...) كوقرينہ مخاطب (يابانا) كے ساتھ ديكھيں تو كہ ان كا مقصود حضرتعليه‌السلام كى رضايت كو جلب كرنا ہے تا كہ وہ بنيامين كو ہمارے ساتھ بھيجيں _

۸_ حضرت يوسفعليه‌السلام كا يہ اندازہ (اپنے بھائيوں كو ان كى پونجى واپس لوٹا ديں تو دوبارہ مصر آنے ميں ميلان پيدا كريں گے) اور ان كا حدس لگانا مناسب و صحيح تھا_

لعلهم يعرفونها لعلهم يرجعون ما نبغى هذه بضاعتنا ردّت الينا و نمير اهلنا

۹_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں كے ليے اپنے خاندان كے نان و نفقہ كو مہيا كرنے كے ليے تنہا راستہ مصر كا سفر تھا _

و نمير اهلنا

(ميرة ) طعام كے معنى ميں ہے اور (مير)'' نمير'' كا مصدر ہے جسكا معنى طعام كو فراہم اور مہيا كرنا ہے _

۱۰_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں كى بنيامين كو مصر ہمراہ لے جانے كے ليے باپ كى رضايت كو جلب كرنے كے دلائل ميں سے خورد و خوراك كے مہيا كرنے كى ضرورت اور اسكو آمادہ كرنے كے ليے سرمايہ كا ضرورى نہ ہونا اور دربار مصر كى فرزندان يعقوب(ع) پر خاص عنايت و غيرہ تھے _

ما نبغى هذه بضاعتنا ردّت الينا و نمير اهلنا

۵۵۵

حضرت يعقوب(ع) كے بيٹوں كا يہ جملہ (يا ابانا هذه ...) بنيامين كو سفر ميں ہمراہ لے جانے ميں حضرتعليه‌السلام كى رضايت كو جلب كرنا مقصود ہے _ اور ان كا ہر جملہ ان ميں سے ايك دليل ہے كہ ان كو سفر پر بھيجنا ضرورى ہے _ اور حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹے (ما نبغى ...) كے جملے سے يہ بيان كرنا چاہتے ہيں كہ ہم پر عزيز مصر نے بہت لطف و مہربانى كى ہے اسى وجہ سے ہمارے ليے مناسب نہيں ہے كہ انكى اس خواہش (بنيامين كو ہمراہ لائيں ) كو پورا نہ كريں انہوں نے جملہ (نمير اہلنا ) كو ايك مقدر جملہ مثل (نستظہر بہا ) (يعنى اس لوٹائي ہؤئي پونچى سے مدد حاصل كريں گے ) پر عطف كيا ہے _ اس سے يہ بيان كرنا چاہتے ہيں كہ خوراك كو خريدنے ميں كسى مشكل سے دوچار نہيں ہيں اور (نحفظ اخانا) كا جملہ اس بات كو بتارہا ہے كہ عزيز مصر كے مثبت جواب اور خوراك كے حصول كے ليے اپنے بھائي كى حفاظت لازمى كريں گے اور (ذلك كيل يسير) اس كو بتارہا ہے كہ ہم طعام لانے كے ليے بہت محتاج ہيں _

۱۱_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں نے بنيامين كو مصر كے سفر پر لے جانے كے ليے دوبارہ محبت بھرا عہد كيا _

نمير اهلنا و نحفظ اخانا

۱۲_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كو بنيامين كے ہمراہ بھيجنے كے ليے جو دلائل دے گے ان ميں خوراك كے حصّے كى ممنوعيت كاختم ہونا، اور ايك اونٹ كے سامان كا زيادہ ہونا شامل تھا _و نزداد كيل بعير ذلك كيل يسير

(ازدياد) (نزداد ) كا مصدر ہے جو كہ باب افتعال سے ہے جسكا معنى زيادہ اور اضافہ كى درخواست كرنا ہے _ (كيل بعير) سے مراد اتنا وزن ہے جو ايك اونٹ اٹھا سكتا ہے اور جملہ (فان لم تأتونى بہ فلاكيل لكم ...) اور جملہ (منع منا الكيل ) اس بات پر دلالت كرتا ہے كہ حضرت يوسفعليه‌السلام نے حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں كے ليے ان كى خوراك كے حصے پر پابندى لگادى جب تك وہ بنيامين كو ہمراہ نہيں لائيں گے اسى وجہ سے ( نزاد كيل بعير) سے مراد يہ ہے كہ بنيامين كو ساتھ لے جائيں گے تو خوراك كى پابندى ختم ہونے كے ساتھ ساتھ ہم ايك اونٹ كے وزن كى اضافى خوراك كا بھى تقاضا كريں گے _

۱۳_ حضرت يوسفعليه‌السلام نے قحط كے سات سال ميں غلات كى تقسيم كے ليے راشن بندى كا ايك قانون بنايا _

نزداد كيل بعير

كيونكہ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں كے ساتھ بنيامين كے آنے سے ايك اونٹ كے وزن كى اضافى خوراك ان كو مل جاتى اس بات سے چند

۵۵۶

نكات كا اشارہ ملتا ہے : ۱_ خوراك كا حصہ ہر ايك كے ليے مخصوص تھا _۲_ اور يہ خوراك كا حصہ ہر ايك اونٹ كا وزن تھا اس سے زيادہ نہيں تھا_

۱۴_ حضرت يوسف(ع) ہر مرحلہ ميں ہر شخص كے ليے ايك اونٹ كے وزن كا غلّہ فروخت كرتے تھے_

نزداد كيل بعير

۱۵_ حضرت يوسفعليه‌السلام كى طرف سے قحط كے سات سالوں ميں غلات كى تقسيم كے ليے يہ قانون تھا كہ جو شخص غلّہ كا تقاضا كر تا سہميہ بھى اسى كوديا جاتا_نزداد كيل بعير

اگر كوئي شخص دوسرے كا حصّہ لے سكتا تو (نزاد كيل بعير ) (بنيامين كے آنے سے ايك اونٹ كے وزن كى خوراك كو دريافت كرسكتے ہيں ) يہ بات بنيامين كو مصر لے جانے كے ليے ايك مستقل دليل كے عنوان سےبيان نہ كى جاتى _

۱۶_ اونٹ ،مصر اور قديمى كنعان ميں سامان منتقل كرنے كے سلسلہ ميں ايك رائج وسيلہ تھا _و نزداد كيل بعير

۱۷_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں نے پہلے سفر ميں جو غلّہ حاصل كيا تھا اسے قحط كے ليے كافى نہيں سمجھتے تھے لہذا وہ دوسرے حصے كو حاصل كرنے كے ليے مصر كى طرف سفر كرنے كو ضرورى سمجھتے تھے _ذلك كيل يسير

(ذلك) كا اشارہ متاع اور خوراك كى طرف ہے جسكو حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں نے پہلے سفر ميں حاصل كيا تھا اور ''يسير'' كا معنى كم اور تھوڑا ہے_ يہ بات واضح ہے كہ قحط كے سالوں كے ليے يہ بہت ہى كم تھا_

۱۸_ خوراك مہيا كرنا ضرورى ہے اور اپنى معاش و زندگى كو چلانے ميں سستى و غفلت سے پرہيز كرنا چاہيے_

نمير اهلنا ...ذلك كيل يسير

۱۹_ قحط اور خوراك كى كمى كے دوران اپنى ذاتى ضرورت كے ليے خوراك كو ذخيرہ كرنے كا جائز ہونا_

نمير اهلنا ...ذلك كيل يسير

آل يعقوب:آل يعقوب كا معاش مہيا كرنا ۹

احكام : ۹

برادران يوسفعليه‌السلام :برادران يوسفعليه‌السلام اور بنيامين كا سفر ۷، ۱۰، ۱۱، ۱۲;برادران يوسفعليه‌السلام اور حضرت يعقوبعليه‌السلام ۵، ۶، ۷ ; برادران يوسفعليه‌السلام اور حضرت يعقوبعليه‌السلام كى رضايت ۱۰، ۱۲;برادران يوسفعليه‌السلام اور غلات كى كمى ۱۷; برادران يوسفعليه‌السلام اور مصر كا سفر ۱۷;برادران يوسفعليه‌السلام كا اطمينان ۴;برادران يوسفعليه‌السلام كا عہد و پيمان ۱۱;

۵۵۷

برادران يوسفعليه‌السلام كا كردار ۹;برادران يوسفعليه‌السلام كا مال تجارت ۱;برادران يوسفعليه‌السلام كى خوشحالى ۳;برادران يوسفعليه‌السلام كى زندگى كرنے كى جگہ ۶; برادران يوسفعليه‌السلام كى كوشش ۷; برادران يوسفعليه‌السلام كے تجارت كے مال كا واپس ہونا ۲، ۳، ۴، ۵، ۷;برادران يوسفعليه‌السلام كے سفر كرنے كے دلائل ۱۰، ۱۲

بنيامين :بنيامين كى محافظت۱۱//شتر :شتر كے فوائد ۱۶

غلّات :حضرت يوسفعليه‌السلام كے زمانے ميں غلات كا سہم معين ہونا ۱۳، ۱۴، ۱۵

قحط :قحط كے دوران ميں خوراك كا ذخيرہ كرنا ۱۹

قديمى مصر:قديمى مصر ميں اونٹ ۱۶; قديمى مصر ميں سامان كو حمل و نقل كرنے كے و سائل ۱۶

معاش:معاش كو مہيا كرنے كى اہميت ۱۸

يعقوبعليه‌السلام :يعقوبعليه‌السلام كو راضى كرنے كا پيش خيمہ۷

يوسف(ع) :حضرت يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۱، ۲، ۳، ۴، ۷، ۸، ۱۱، ۱۲، ۱۳ ، ۱۷; حضرت يوسفعليه‌السلام اور منت سماجت ۵; حضرت يوسف(ع) كى اقتصادى سياست ۱۳ ، ۱۴ ،۱۵;حضرت يوسف(ع) كى دورانديشى كا متحقق ہونا۸

آیت ۶۶

( قَالَ لَنْ أُرْسِلَهُ مَعَكُمْ حَتَّى تُؤْتُونِ مَوْثِقاً مِّنَ اللّهِ لَتَأْتُنَّنِي بِهِ إِلاَّ أَن يُحَاطَ بِكُمْ فَلَمَّا آتَوْهُ مَوْثِقَهُمْ قَالَ اللّهُ عَلَى مَا نَقُولُ وَكِيلٌ )

يعقوب نے كہا كہ ميں اسے ہر گر تمھارے ساتھ نہ بھيجوں گا جب تك كہ خدا كى طرف سے عہد نہ كرو گے كہ اسے واپس ضرور لائو گے مگر يہ كہ تمھيں كو گھير ليا جائے _اس كے بعد جب ان لوگوں نے عہد كرليا تو يعقوب نے كہا كہ اللہ ہم لوگوں كے قول و قرار كا نگراں اور ضامن ہے (۶۶)

۱_ حضرت يعقوبعليه‌السلام بالآخر بنيامين كو اپنے بيٹوں كے ہمراہ مصر بھيجنے پر رضامند ہوگئے _

قال لن ارسله معكم حتى تؤتون موثقا

۲_ حضرت يعقوب(ع) نے اپنے بيٹوں كے ہمراہ بنيامين كو مصر بھيجنے كے ليے خدا متعال كے ساتھ عہد و پيمان باندھنے كے ساتھ مشروط كرديا ( خداوند متعال كے ساتھ عہد و پيمان باندھيں اور اس كے نام كى قسم اٹھائيں )

لن ارسله معكم حتّى تؤتون موثقاً من الله

۵۵۸

(موثق) كا معنى عہد و پيمان ہے (لام) جو (لتأتنّنى ) پر داخل ہوا ہے يہ لام قسم ہے يعنى ايسا وعدہ جو قسم خداوندى كے ساتھ ہو (من الله ) كا جملہ اس بات كو بتاتا ہے كہ قسم بھى خداوند متعال كے نام سے اور عہد و پيمان بھى اسى كے ساتھ ہو (حتى تؤتون موثقا ) يعنى قسم اٹھانا اور وعدہ كرنا_

۳_ حضرت يعقوبعليه‌السلام نے بنيامين كى حفاظت كے سلسلہ ميں اپنے بيٹوں كو تاكيد كى كہ ان سے كوئي عذر و حيلہ قبول نہيں كيا جائے گا مگر يہ كہ تم پر كوئي غالب آجائے اور تم بے بس ہوجاؤ_حتى تؤتون موثقا من الله لتأتنّنى به الّا ان يحاط بكم

۴_ حضرت يعقوبعليه‌السلام بنيامين اور اس كى سلامتى سے بہت زيادہ محبت كرتے تھے اس كى جدائي ان كے ليے رنج و دكھ كا موجب تھى _لتأتنّنى به

جملہ(انا له لحافظون ) اورگذشتہ آيت ميں (فالله خير حافظاً ) اس بات پر دلالت كرتے ہيں كہ حضرت يعقوبعليه‌السلام ،بنيامين كو كسى دكھ و مصيبت ميں نہيں ديكھنا چاہتے تھے _ اور جملہ (لتأتنّنى بہ) (اسكو ميرے پاس لاؤ) اس بات كى حكايت كرتا ہے كہ اسكى جدائي حضرتعليه‌السلام كے ليے مشكل تھى اور وہ اسكو اپنے پاس ہى ديكھنا چاہتے تھے_

۵_ حضرت يعقوبعليه‌السلام اپنے بيٹوں سے اس بات كى توقع نہيں ركھتے تھےكہ وہ بنيامين كى حفاظت كے سلسلہ ميں اپنے آپ كو خطرے ميں ڈاليں اور اسكو واپس لوٹا نے ميں كوشش كريں _الّا ان يحاط بكم

احاطة (يحاط) كا مصدر ہے جو كسى شے كو اس كے تمام اطراف سے گرفت ميں لينے كو كہتے ہيں _ آيت شريفہ ميں مغلوب ہونے كے معنى كے ليے كناية استعمال ہوا ہے _ يعنى تمام راستوں اور اميدوں كا ختم ہوجانا _

۶_ حضرت يعقوبعليه‌السلام نے اپنے بيٹوں سے كہا كہ بنيامين كى حفاظت اور واپس لوٹانے كى قسم سے ناتوانى اور عذر كو مستثنى قرار ديں _لتأتنّنى به الّا ان يحاط بكم

ظاہر عبارت يہ ہے كہ جملہ (الّا ان يحاط بكم ) قسم (لتأتنّنى بہ ) سے استثناء ہے اسى وجہ حضرت يعقوبعليه‌السلام اپنے بيٹوں كو تاكيد كر رہے تھے كہ قسم اٹھاتے وقت مجبورى اور عذر كو استثناء كريں اور اس طرح كہيں (والله لناتينك بہ الّا ان يحاط بنا) (خدا كى قسم بنيامين كو آپ كى

۵۵۹

طرف واپس لائيں گے مگر يہ كہ ہم مجبور و مغلوب ہوجائيں اور تمام راستے ہمارے ليے بند ہوجائيں ) _

۷_ خدا كى قسم اٹھاتے وقت اور اس سے عہد و پيمان كرتے وقت مناسب يہ ہے كہ اپنى ناتوانى كو اس سے استثناء كيا جائے _لتأتنّنى به الّا ان يحاط بكم

۸_ عذر اور ناتوانى كى وجہ سے عہد و قسم كو پورا نہ كرنے كى صورت ميں (عقوبت و كفارہ) ضرورى نہيں ہوتاہے_

لتأتنّنى به الّا ان يحاط بكم قال الله على ما نقول وكيل

۹_ الہى ذمہ داريوں و قسم اور عہد كو پورا كرنے كى شرط ، استطاعت ہے _الّا ان يحاط بكم

۱۰_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے آئين اور ان كے خاندان كے نزديك ،خدا كى قسم اٹھانا اور اس سے عہد و پيمان كى خاص اہميت تھي_حتى تؤتون موثقاً من اللّه ...الاّ ان يحاط بكم

۱۲_ عہد و قسم كى پابندى اور اس كے تقاضے كے مطابق عمل كرنا ضرورى ہوتاہے _حتى توتون موثقاً من الله لتاتنّنى به

۱۳_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں نے قسم اٹھائي اور خداوند متعال سے عہد و پيمان باندھا كہ جتنا بھى ممكن ہو بنيامين كى حفاظت كريں گے اور اسكو باپ كے پاس واپس لوٹا ئيں گے_حتى توتون موثقا فلما اتوه موثقهم

۱۴_ حضرت يعقوب(ع) نے خداوند متعال كو اپنے بيٹوں كے قول و قرار پر اپنا وكيل قرار ديا _

قال الله على ما نقول وكيل

۱۵_حضرت يعقوبعليه‌السلام نے اپنے بيٹوں كو قسم اور اپنے عہد و پيمان كے توڑنے پر خدا كے عذاب سے ڈرايا_

قال الله على ما نقول وكيل

سياق آيت دلالت كرتى ہے كہحضرت يعقوبعليه‌السلام كااپنے بيٹوں كے قول و قرار پر خداوند متعال كو وكيل قرار دينے كا مقصد يہ تھا كہ وہ ان كو عذاب الہى سے ڈرائے_

۱۶_خداوند متعال كى قسم كو توڑنا اور اس كے عہد و پيمان پر عمل نہ كرنا، خداوند متعال كے عذاب كا سبب بنتاہے_

الله على ما نقول وكيل

۱۷_ حضرت يعقوبعليه‌السلام نے اپنے بيٹوں كو قسم اور عہد و پيمان پر عمل كرنے كے ليے انہيں خداوند متعال كى نظارت اور گواہى كى طرف متوجہ كيا _الله على ما نقول وكيل

(اللہ ...) والے جملے كو اگر جملہ خبرى فرض كريں تو مذكورہ معنى حاصل ہوتاہے _

۵۶۰