تفسير راہنما جلد ۸

تفسير راہنما 0%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 971

تفسير راہنما

مؤلف: آيت الله ہاشمى رفسنجاني
زمرہ جات:

صفحے: 971
مشاہدے: 163374
ڈاؤنلوڈ: 2625


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4 جلد 5 جلد 6 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 971 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 163374 / ڈاؤنلوڈ: 2625
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد 8

مؤلف:
اردو

۱۸_ خداوند متعال پر توكل كرناضرورى ہے _الله ما على ما تقول وكيل

آل يعقوب :آل يعقوب ميں قسم اٹھانا ۱۰

احكام ۷ ،۸

اديان :اديان كى تعليمات ۱۱

اللہ تعالى :اللہ تعالى سے عہد و پيمان ۷ ،۱۱، ۱۳ ; اللہ تعالى كى وكالت ۱۴;اللہ تعالى كے عذاب سے ڈرانا ۱۵

برادران يوسف :برادران يوسف اور بنيامين ۱۳; برادران يوسف اور بنيامين كا سفر كرنا ۱; برادران يوسف كا عہد و پيمان ۲، ۱۳; برادران يوسف كا قسم اٹھانا ۲ ، ۱۳;برادران يوسف كو خبردار كرنا ۱۵;برادران يوسف كى ذمہ دارى كى حدود۳ ، ۵ ، ۶;برادران يوسف كى ضمانت ۲

بنيامين :بنيامين كى محافظت ۳ ، ۵ ، ۶، ۱۳;بنيامين كے سفر پر راضى ہونا ۲

توكل:اللہ تعالى پر توكل كرنے كى اہميت ۱۸

ذكر:اللہ تعالى كى گواہى كا ذكر ۱۷; اللہ تعالى كى نظارت كا ذكر ۱۷

سزا :سزا كے اسباب ۱۶

شرعى ذمہ داري:شرعى ذمہ دارى كو بجالانے كى قدرت۹

عہد :عہد كا اديان ميں ہونا ۱۱; عہد كو وفاء كرنے پر عاجز ہونا ۷ ،۸ ; عہد و پيمان سے وفاكى اہميت ۱۲ ،۱۷;عہد و پيمان كے احكام ۷ ، ۸ ، ۹ ، ۱۲ ; عہد و پيمان سے وفا كے شرائط ۹

عہدشكني:عہد شكنى كا گناہ ۱۶;عہدشكنى كى سزا ۱۵

قسم :اديان ميں قسم كا ہونا ۱۱; اللہ تعالى كى قسم اٹھانا ۱۱ ;اللہ تعالى كى قسم اٹھانے كى اہميت ۱۰ ;قسم اٹھانے كے احكام ۷ ، ۸ ،۹، ۱۱ ، ۱۲; قسم اٹھانے ميں استثناء ۷ ، ۸ ;قسم كو پورا كرنے سے عاجز ہونا ۷ ،۸ ; قسم كو پورا كرنے كى اہميت ۱۱ ، ۱۲ ، ۱۷ ; قسم كو پورا كرنے كے شرائط ۹ ;قسم كو توڑنے كا گنا ہ۱۶;قسم كو توڑنے كى سزا ء ۱۵

۵۶۱

يعقوبعليه‌السلام :حضرت يعقوبعليه‌السلام اور برادران يوسف ۳ ، ۶ ،۱۷ ; حضرت يعقوبعليه‌السلام اور برادران يوسف كا عہد و پيمان ۱۴; حضرت يعقوبعليه‌السلام اور برادران يوسفعليه‌السلام كى اميديں ۱ ; حضرت يعقوبعليه‌السلام اور بنيامين كا سفر ۱ ، ۲ ; حضرت يعقوبعليه‌السلام اور بنيامين كى جدائي ۴; حضرت يعقوب(ع) كا خبردار كرنا ۱۵;حضرت يعقوبعليه‌السلام كا قصہ ۱ ، ۲ ، ۳ ، ۵ ، ۶ ، ۱۴; حضرت يعقوبعليه‌السلام كا وكيل ۱۴; حضرت يعقوبعليه‌السلام كى بنيامين سے محبت ۴;حضرت يعقوبعليه‌السلام كى توقعات ۵;حضرت يعقوبعليه‌السلام كى رضايت ۱ ; حضرت يعقوبعليه‌السلام كى رضايت كے شرائط ۲ ; حضرت يعقوب كى نصيحتيں ۳ ; حضرت يعقوبعليه‌السلام كے پيش آنے كا طريقہ ۱۷; حضرت يعقوبعليه‌السلام كے تقاضے۶; حضرت يعقوبعليه‌السلام كے دين ميں قسم اٹھانا ۱۰ ; حضرت يعقوبعليه‌السلام كے رنج و الم كے اسباب ۴

يوسفعليه‌السلام :حضرت يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۱۳

آیت ۶۷

( وَقَالَ يَا بَنِيَّ لاَ تَدْخُلُواْ مِن بَابٍ وَاحِدٍ وَادْخُلُواْ مِنْ أَبْوَابٍ مُّتَفَرِّقَةٍ وَمَا أُغْنِي عَنكُم مِّنَ اللّهِ مِن شَيْءٍ إِنِ الْحُكْمُ إِلاَّ لِلّهِ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَعَلَيْهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُونَ )

اور پھر كہا كہ ميرے فرزند و ديكھو سب ايك دروازے سے داخل نہ ہونا اور متفرق دروازوں سے داخل ہونا كہ ميں خدا كى طرف سے آنى والى بلائوں ميں تمھارے كام نہيں آسكتا حكم صرف اللہ كے ہاتھ ميں ہے اور اسى پر ميرا اعتماد ہے اور اسى پر سارے توكل كرنے والوں كو بھروسہ كرنا چاہيئے (۶۷)

۱_ حضرت يعقوبعليه‌السلام نے اپنے بيٹوں كو مصر كى طرف سفر كرنے كے سلسلہ ميں معارف الہى سے واقف كيا اور ان كو توحيد كے حقائق كى ياد دہانى اورتعليم فرمائي_قال يا بنى لا تدخلوا و عليه فليتوكل المتوكلون

۲_حضرت يوسفعليه‌السلام كے زمانے ميں مصر كے متعدد دروازے تھے_

لا تدخلوا من باب واحد و ادخلوا من أبواب

۵۶۲

متفرقه

۳ _ حضرت يوسفعليه‌السلام كے دربار ميں آنے جانے والوں كے ليے كئي دروازے تھے_

لا تدخلوا من باب واحد و ادخلوا من أبواب متفرقه

(ادخلوا) كے مفعول سے كيا مرادہے كيا مصر كا شہر ہے يا حضرت يوسفعليه‌السلام كا دربار ہے ؟ اس ميں دو نظريے ہيں مذكورہ معنى دوسرے احتمال كى صورت ميں ہے اور آيت شريفہ ۶۹ ميں ( لما تدخلوا ) كے جملے كا تكرار احتمال اول كى تائيد كرتاہے_

۴_حضرت يعقوبعليه‌السلام ، اپنے بيٹوں كے دوسرى بار مصر جانے ميں ان كيلئے ايك حادثہ محسوس كررہے تھے اور ان كے ليے ناگوار واقعہ پيش آنے سے پريشان تھے_لا تدخلوا من باب واحد ما اغنى عنكم من الله من شيء

۵_ حضرت يعقوبعليه‌السلام اپنے بيٹوں كے ليے مصر ميں داخل ہوتے وقت خطرہ كو محسوس كر رہے تھے_

لا تدخلوا من باب واحد ما اغنى عنكم من اللّه من شيء

۶_ حضرت يعقوبعليه‌السلام ، بنيامين كے ليے مصر كے سفر ميں ناگوار حادثہ پيش آنے كا احتمال دے رہے تھے_

لا تدخلوا من باب واحد ما اغنى عنكم من الله من شيء

حضرت يعقوبعليه‌السلام اپنے بيٹوں كے ليے نہ پہلے سفر ميں اور نہ ہى تيسرے سفر ميں كسى پريشانى كو محسو س نہيں كررہے تھے كيونكہ بنيامين ان كے ہمراہ نہيں تھے (اذهبوا فتحسوا من يوسف و اخيه آيت ۸۷) اور انہوں نے كوئي خاص تاكيد بھى نہيں كى اس سے معلوم ہوتاہے كہ اس سفر ميں بنيامين كے ليے كوئي خطر كو محسوس كررہے تھے_

۷_ حضرت يعقوبعليه‌السلام ،نے اپنے بيٹوں كو مصر كى طرف عازم سفر ہونے كے دوران تاكيد كى كہ جب اس شہر ميں داخل ہوں تو ايك دروزے سے داخل نہ ہونا بلكہ مختلف دروازوں سے داخل ہوں _

يا بنى لا تدخلوا من باب واحد و ادخلوا من ابواب متفرقه

۸_حضرت يعقوبعليه‌السلام جو خطرہ محسوس كررہے تھے اس سے محفوظ رہنے كے ليے وہ اپنے بيٹوں ، كى مختلف دروازوں سے داخل ہونے ميں نجات سمجھتے تھے_و ادخلوا من ابواب متفرقة و ما اغنى عنكم من اللّه من شيء

۹_ حضرت يعقوبعليه‌السلام اس بات سے پريشان تھے كہ اگر ميرے بيٹے مصر كے ايك دروازے سے داخل ہوں گے تو وہ نظر بد اور حسادت كا شكار ہوجائيں گے_لا تدخلوا من باب واحد و ما اغنى عنكم من اللّه من شيء

۵۶۳

آيت شريفہ ميں يہ بيان نہيں ہوا كہ حضرت يعقوبعليه‌السلام اپنے بيٹوں يا بنيامين كے ليے كس خطرے كا احساس كررہے تھے ليكن اكثر مفسرّين نے يہ خيال ظاہر كيا ہے كہ انہوں نے ان كو مختلف دروازوں سے داخل ہونے كا حكم ديا تھا اس سے اندازہ ہوتاہے كہ وہ نظر بد يا اس كى مانند دوسرى جيسى چيزوں سے ہراساں تھے_

۱۰_ اپنے بچوں كى سلامتى كے ليے سوچنا اور اس كے ليے راستے كو اختيار كرنا ضرورى ہے_يا بنى لا تدخلوا من باب واحد

۱۱_ كوئي شخص ، كوئي شے اور كوئي منصوبہ، خداوند متعال كى تقدير و مشيت اور احكام تكوينى كے سامنے ركاوٹ نہيں بن سكتا ہے_ما اغنى عنكم من الله من شيء ان الحكم الا الله (اغناء) (مصدر اغنى ) ہے اور يہ غنا سے ہے _ جو كفايت كرنے اور منع كرنے كے معنى ميں آتاہے (لسان العرب) ( من شيء) كا جملہ ( ما اغني) كے ليے مفعول اور ( من اللہ) حال ہے (شيء) كے ليے اس صورت ميں (ما اغنى عنكم ...) كا معنى يوں ہوگا كہ ميں اپنے ذہن اور منصوبے سے اس (بلا و مصيبت ) كہ جو خداوند متعال كى طرف سے (مقدر) ہے اسے نہيں روك سكتااور، اس سے كفايت نہيں كرسكتاہوں _

۱۲ _ حضرت يعقوبعليه‌السلام كى طرف سے اپنے بيٹوں كى تعليمات ميں سے يہ تھا كہ خداوند متعال كى كائنات ہستى پر حاكميت ہے اور خداوند متعال كى ذات پر توكل كرنا اور توكل كرنے اور اسباب و علل كے مہيا كرنے ميں كوئي منافات نہيں ہے _

و ادخلوا من ابواب متفرقه و ما اغنى عنكم من الله من شيء

۱۳_تمام كائنات ہستى اور علل و اسباب پر خداوند متعال كى حاكميت اور تمام چيزيں حكم و تقدير الہى كے سامنے تسليم خم ہيں _وادخلوا من ابواب متفرقه و ما اغنى عنكم من الله من شيء ان الحكم الا الله

۱۴_انسان كے ليے اسباب كى تلاش، خداوند عالم كى حاكميت مطلق سے غفلت كا سبب نہيں بننى چاہيے _ادخلوا من ابواب متفرقه و ما اغنى عنكم من الله من شيء الا الحكم الا الله حضرت يعقوبعليه‌السلام ، اپنے بيٹوں كيلئے ناگوار حادثے سے بچانے كى تدبير ذكركرنے كے بعد اس بات كو بيان فرماتے ہيں كہ اس كے باوجود بھى ہم مقدرات الہى سے دامن نہيں بچاسكتے كيونكہ حكم و فرمان فقط اس ذات خداوند ى كے ساتھ مخصوص ہے _البتہ اس بات كى طرف توجہ ضرورى ہے كہ تمام علل و اسباب اسكى مشيت اور حكومت كے دائرے ميں عمل كرتے ہيں _

۱۵_ خداوند متعال پر توكل اور اللہ تعالى كى حاكميت مطلق پر اعتقاد ركھنا اس بات كا سبب نہيں بننا چاہيے كہ اسباب و علل طبيعى كو ترك كرديا جائے_ادخلوا من ابواب متفرقة ان الحكم الا الله

۵۶۴

على توكلت

حضرت يعقوبعليه‌السلام كے خداوند متعال پر توكل كرنے (عليہ توكلت) انہيں اسباب كى تلاش و كوشش سے نہيں روكا (لا تدخلوا من باب واحد) يہ درس تمام لوگوں كے ليے ہے_يہ بات نہيں كہ فقط اسباب كو جمع كرنے كى كوشش توكل الہى سے منافات ركھتى ہے بلكہ اسباب و علل كو فراہم كيا جائے اور خداوند متعال پر بھى توكل كيا جائے_

۱۶_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كى توحيد، خداوند متعال پر توكل كرنا تھا_عليه توكلت

(عليہ )كا لفظ (توكلت) پر مقدم ہونا، اس كا فائدہ دے رہا ہے_

۱۷_فقط خداوند متعال كى كائنات ہستى پر حاكميت توكل كا موجب اور اس كے غير پر بھروسہ نہ كرنے كا سبب ہے _

ان الحكم الا الله عليه توكلت و عليه فليتوكل المتوكلون

(إن الحكم الا اللہ) كى تفريع ( عليہ فليتوكل) فاء كے ذريعے بيان ہونا مذكورہ بالا معنى كو بتاتى ہے _

۱۸_ فقط خداوند متعال ہى اس كے لائق ہے كہ اس پر توكل اور بھروسہ كيا جائے_و عليه فليتوكل المتوكلون

(المتوكلون) توكل كا ارادہ كرنے والے سے مراد يا تو وہ لوگ ہيں جو غير خدا پر توكل كرتے ہيں پس اس صورت ميں (و عليہ فليتوكل المتوكلون) كا معنى يوں ہوگا كہ وہ جو توكل كرنا چاہتے ہيں ان كو چاہيے كہ فقط خداوند متعال پر توكل كريں يا وہ لو گ جو غير خدا پر توكل كرتے ہيں ( تو غير اللہ سے اميد كو توڑ ديں ) فقط خداوند متعال پر توكل كريں _

۱۹_تمام امور ميں خداوند متعال پر توكل كرنے كى ضرورت ہے _عليه فليتوكل المتوكلون

(فليتوكل) كے متعلق كو حذف كرنا اور اس بات كو بيان نہ كرنا كہ كس ميں يا كن چيزوں پر توكل كيا جائے اس بات كو بتاتاہے كہ اسكا متعلق عام ہے جو (تمام امور) كو شامل ہے _

اللہ تعالى :اللہ تعالى كى تقدير كا حتمى ہونا ۱۱ ، ۱۳; اللہ تعالى كى حاكميت ۱۲ ، ۱۳; اللہ تعالى كى حاكميت كى اہميت ۱۴; اللہ تعالى كى خصوصيات ۱۳،۱۷،۱۸; اللہ تعالى كے اوامر كا حتمى ہونا ۱۱; اللہ تعالى كى قدرت ۱۱; اللہ تعالى كى مشيت كا حتمى ہونا ۱۱

انسان :انسانوں كا عجز۱۱

ايمان :ايمان كے آثار ۱۷; اللہ تعالى كى حاكميت پر ايمان ۱۷

۵۶۵

برادران يوسف :برادران يوسف كو تاكيد و نصيحت كرنا ۷; برادران يوسف كا دوسرى بار مصر كى طرف سفر كرنا۴ ،۷; برادران يوسف كا مصر ميں داخل ہونا ۵ ، ۸ ; برادران يوسف كے ساتھ حسد كرنا ۹; برادران يوسف كے ليے نظربد كا ہونا ۹

توحيد :توحيد افعالى ۱۳ ،۱۷; توحيد كى تعليم ۱۰

توكل:اللہ تعالى اور مادى اسباب ۱۲ ، ۱۵; اللہ تعالى پر توكل ۱۲ ، ۱۵، ۱۶،۱۸; اللہ تعالى پر توكل كى اہميت ۱۹; اللہ تعالى پر توكل كے اسباب ۱۷ ; غير اللہ پر توكل كرنے كا ممنوع ہونا ۱۷

دين :دين كى تبليغ ۱

عقيدہ :اللہ تعالى كى حاكميت كا عقيدہ۱۵

عواطف:پدرى عواطف ۴

غفلت :اللہ تعالى سے غفلت كے اسباب ۱۴

فرزند:فرزند كى سلامتى كى اہميت ۱۰

مادى اسباب :مادى اسباب اور غفلت ۱۴; مادى اسباب كے كردار كى اہميت ۱۵;مادى اسباب كا خدا كى قدرت ميں ہونا ۱۳

مصر قديم :مصر قديم كى تاريخ ۲; مصر قديم كے متعدد دروازے ۲; مصرد قديم ميں شہر كى تعمير و ترقى ۲

نظريہ كائنات:توحيدى نظريہ كائنات۱۳،۱۸; نظريہ كائنات اور ايڈيالوجي۱۷

يعقوبعليه‌السلام :حضرت يعقوب اور برادران يوسف ۱ ، ۱۲; حضرت يعقوبعليه‌السلام اور بنيامين كا فر كرنا۶ ; حضرت يعقو بعليه‌السلام كا توكل ۱۶ ; حضرت يعقوبعليه‌السلام كا قصہ ۱ ، ۴ ، ۵ ، ۶ ،۷; حضرت يعقوبعليه‌السلام كى پريشانى ۴ ، ۵ ،۶ ، ۸; حضرت يعقوبعليه‌السلام كى پريشانى كا فلسفہ ۹ ; حضرت يعقوبعليه‌السلام كى دور انديشى ۴ ، ۵ ، ۶،۸ ; حضرت يعقوبعليه‌السلام كى تبليغ ۱; حضرت يعقوبعليه‌السلام كى تعليمات ۱ ، ۱۲ ; حضرت يعقوبعليه‌السلام كى توحيد ۱۶; حضرت يعقوبعليه‌السلام كى نصيحتيں ۷

يوسفعليه‌السلام :حضرت يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۴ ، ۵ ، ۶ ،۷،۸; حضرت يوسفعليه‌السلام كے محل كى خصوصيات ۳; حضرت يوسفعليه‌السلام كے محل كے متعدد دروازے ۳

۵۶۶

آیت ۶۸

( وَلَمَّا دَخَلُواْ مِنْ حَيْثُ أَمَرَهُمْ أَبُوهُم مَّا كَانَ يُغْنِي عَنْهُم مِّنَ اللّهِ مِن شَيْءٍ إِلاَّ حَاجَةً فِي نَفْسِ يَعْقُوبَ قَضَاهَا وَإِنَّهُ لَذُو عِلْمٍ لِّمَا عَلَّمْنَاهُ وَلَـكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لاَ يَعْلَمُونَ )

اور جب وہ لوگ اسى طرح داخل ہوئے جس طرح ان كے والد نے كہا تھا اگر چہ وہ خدائي بلا كو ٹال نہيں سكتے تھے ليكن يہ ايك خواہش ٹہى جو يعقوب كے دل ميں پيدا ہوئي جسے انھوں نے پورا كرليا اور وہ ہمارے دئے ہوئے علم كى بنا پر صاحب علم بھى تھے اگر چہ اكثر لوگ اس حقيقت سے بھى نا واقف ہيں (۶۸)

۱ _ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹے دوسرى بار مصر ميں داخل ہوئے_

و جاء اخوة يوسف و لما دخلوا من حيث امرهم ابوهم

۲ _ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹے حضرتعليه‌السلام كے فرمان كے مطابق مصر ميں داخل ہونے سے پہلے متفرق اور اس شہر كے مختلف دروازوں سے داخل ہوئے_و ادخلوا من أبواب متفرقة و لما دخلوا من حيث امرهم ابوهم

(حيث ) اسم مكان ہے جو جگہ اور مكان كے معنى ميں آياہے_

۳_حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں نے اپنے باپ كى اطاعت كي_و لما دخلوا من حيث امرهم ابوهم

۴_ والدين كے فرمان پر كان دھرنا، اولاد كى ذمہ داريوں اور معاشرت و زندگى كے آداب ميں سے ہے _

و لما دخلوا من حيث امرهم ابوهم

۵_ خداوند متعال، فرزندان يعقوبعليه‌السلام كے ليے مصر ميں ناگوار و اقعہ كو مقدر بناچكا تھا_

ما كان يغنى عنهم من اللّه من شيء

اس سے پہلى آيت كے شمارہ ۱۱ كے ذيل ( ما كان يغني ...) ميں جو ذكر ہوا ہے _ اس سے مذكورہ بات معلوم ہوتى ہے _

۶_حضرت يعقوبعليه‌السلام كيتدبير ( كہ ان كے بيٹے مختلف دروازوں سے مصر ميں داخل ہوں ) خداوند متعال نے ان كے ليے جو كچھ مقدر ميں لكھا تھا اس كو نہ روك سكي_ما كان يغنى عنهم من اللّه من شيء

(يغني) ميں ضمير حضرت يعقوبعليه‌السلام كى طرف يا ان كے منصوبے كى طرف جو جملہ (ادخلوا من ابواب متفرقہ) سے معلوم ہوتاہے لوٹتى ہے بہرحال دو احتمال ايك ہى معنى ميں ہيں _

۵۶۷

۷_تقدير و مشيت الہي، بندگان الہى كى تدبير پر حاكم ہے _و لما دخلوا من حيث امرهم ابوهم ما كان يغنى عنهم من الله من شيء

۸_حضرت يعقوبعليه‌السلام كى اپنے بيٹوں كو يہ نصيحت ( كہ مصر ميں داخل ہونے كے ليے مختلف دروازوں كو اختيار كرنا ) سوائے اپنے بيٹوں كى سلامتى كے كوئي اور اثر نہيں ركھتى تھي_ما كان يغنى عنهم من الله من شيء الا حاجة فى نفس يعقوب قضيه

(الا حاجة ...) عبارت ميں يہ استثناء منقطع ہے ليكن ظاہر يہ ہے كہ (قضاہا) ميں جو فاعل كى ضمير ہے وہ حضرت يعقوبعليه‌السلام كى طرف لوٹتى ہے _ اس صورت ميں ( ما كان يغني الا حاجة فى نفسى يعقوب قضاہا) اس آيت كا معنى يہ ہوگا كہ حضرت يعقوبعليه‌السلام كا منصوبہ، خداوند متعال كى تقدير ميں كوئي اثر نہ كرسكا ، ليكن حضرت يعقوبعليه‌السلام جو كچھ چاہتے تھے انہوں نے اپنے دستور ( ادخلوا من ابواب متفرقہ ) سے اس كو عملى جامہ پہنايا_ پس انكى خواہش (حاجة) اپنى ذمہ دارى كو بجالانا تھا اور وہ اپنے بيٹوں كى راہنمائي تھى كہ احتمالى خطرہ سے ان كو نجات دلوانا تھي_

۹_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كا اپنے بيٹوں كو يہ فرمان دينا كہ وہ مختلف دروازوں سے داخل ہوں سوائے اپنى ذمہ دارى (خطرے سے بچنے كا منصوبہ ) كے انجام دينے كے سواء اور كچھ نہيں تھا_

ما كا ن يغنى عنهم من الله من شيء الا حاجة فى نفس يعقوب قضيه

حضرت يعقوبعليه‌السلام اس اعتقاد كے ساتھ كہ ميرے بيٹوں كى سلامتى پر خداوند متعال كا ارادہ حاكم ہے اور يہ سب اسى كے ہاتھ ميں اور اس كے اختيار سے خارج نہيں ہے ليكن انكى يہ توجہ كہ مشيت الہى كے ساتھ اسباب و علل كى تلاش و كوشش كرنا بھى ضرورى ہے اس چارہ انديشى يہ اسے آمادہ كيا ليكن نتيجہ خدا پرچھوڑ ديا تھا_ اسى وجہ سے حضرت (ع)

۵۶۸

كى خواہش اور حاجت اپنى ذمہ دارى كو جو بيٹوں كى راہنما ئي تھى انجام دينے كے علاوہ اور كچھ نہيں تھي_

۱۰_ حضرت يعقوبعليه‌السلام نے اپنے بيٹوں كى سلامتى برقرار ركھنےكے سلسلہ ميں ذمہ دارى كو انجام ديا _

الا حاجة فى نفس يعقوب قضيه

۱۱ _ والدين كو چاہيے كہ اپنى اولاد كى سلامتى كے ليے كوشش كريں _الا حاجة فى نفس يعقوب قضيه

۱۲ _ خداوند متعال نے حضرت يعقوبعليه‌السلام كى خواہش (كہ ان كے بيٹے) متعدد دروازوں سے داخل ہوں )كو پورا كيا _

الا حاجة فى نفس يعقوب قضيه

مذكورہ معنى اس صورت ميں ہے كہ (قضاہا) كے فاعل كى ضمير اللہ تعالى كى طرف لوٹے اس صورت ميں ( و لما دخلوا) سے (قضاہا) تك كا معنى يہ ہوگا اگر چہ حضرت يعقوبعليه‌السلام كى نصيحتيں مؤثر نہيں ہوئيں ليكن خداوند متعال نے ان كى خواہش و آرزو كو پورا كيا _

۱۳ _ فرزندان يعقوبعليه‌السلام كا اپنے باپ كى اطاعت كرتے ہوئے متعدد دروازوں سے داخل ہونا، توفيق الہى تھا_

و لمادخلوا من حيث امرهم ابوهم الا حاجة فى نفس يعقوب قضيه

ايك لحاظ سے حضرت يعقوبعليه‌السلام كى آرزو كا پورا ہونا ( كہ بيٹے مختلف دروازوں سے داخل ہوں ) (و لما دخلوا من حيث امرہم) كو ان طرف نسبت دى گئي ہے اور دوسرى طرف يہ بيان ہوا ہے كہ خداوند عالم نے ان كى خواہش كو پورا كيا_

ان دو بيانات سے ظاہر ہوتاہے كہ ارادہ الہى اور اسكى توفيق سبب بنى كہ فرزندان يعقوبعليه‌السلام اس كے انجام دينے ميں كامياب ہوئے جو ان كے والد گرامى چاہتے تھے_

۱۴ _ حضرت يعقوبعليه‌السلام خاص علم كے حامل تھے_و إنه لذو علم لما علمناه

( علم ) كے لفظ كا نكرہ لانا، اسكى خصوصيت كو بتاتاہے_

۱۵_ خداوند متعال، حضرت يعقوبعليه‌السلام كو علم خاص سكھانے والا اور عطا كرنے والا ہے _و انه لذو علم علمناه

(لام ) كا حرف (لما علمناہ) ميں تعليل كے ليے ہے اور اسميں (ما) مصدريہ ہے _

۱۶_ اسباب و علل پر اللہ تعالى كے ارادہ كا حاكم ہونا،خداوند تعالى كى حضرت يعقوبعليه‌السلام كو تعليمات تھيں _

ادخلوا من أبواب متفرقة و ما اغنى عنكم من الله من شيء و انه ذو علم لما علمناه

۵۶۹

۱۷_ زندگى كے امور ميں تدبير اور منصوبہ بندى سے كام لينا، ارادہ الہى كے حاكم ہونے كے ساتھ منافات نہيں ركھتا يہ ايك ايسى بات تھى جو خداوند عالم نے حضرت يعقوب(ع) كو تعليم دى تھي_

و ادخلوا من ابواب متفرقة و ما اغنى عنكم من الله من شيء انه لذو علم علمناه

۱۸_حضرت يعقوبعليه‌السلام كا اپنے بيٹوں كو يہ نصيحتيں (خداوندن متعال پر توكل كرنا اور اسكو اسباب و علل ميں بروكار لانا) اس كے خاص علم كا جلوہ تھيں _ادخلوا من ابواب متفرقه و عليه فليتوكل المتوكلون إنه لذو علم لما علمناه

۱۹_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كا بيٹوں كے مصر ميں دوسرى بار جانے پر پيش بينى اور خطرے كا احساس كرنا اس خصوصى علم كا جلوہ تھا جو حضرتعليه‌السلام كے پاس تھا_لاتدخلوا من باب واحد انه لذو علم لما علمناه

۲۰_ اللہ كے ارادہ كى حاكميت اور نظام علل و اسباب كے درميان ارتباط كو كشف كرنے كے ليے خصوصى علم جو بلند مرتبے والا ہو تو بس اسى كا كام ہے _ادخلوا من ابواب متفرقة و ما أغنى عنكم من الله من شيء و إنه ذو علم لما علمناه

۲۱_ اكثر لوگ اسباب و علل پر آنكھ جمائے ہوئے ہيں اور ارادہ الہى كى حاكميت اور توكل الہى كے ضرورى ہونے سے ناواقف ہيں _و لكن اكثر الناس لا يعلمون

اسباب و علل كا نظام:اسباب و علل كا نظام اور حاكميت الہى ۲۰

اطاعت:حضرت يعقوبعليه‌السلام كى اطاعت ۲ ، ۳ ، ۱۳;والد كى اطاعت ۴

اكثريت:اكثريت كى جہالت ۲۱

اللہ تعالى :ارادہ الہى اور امور ميں نظم و ترتيب ۱۷; ارادہ الہى اور مادى اسباب ۱۶;ارادہ الہى كى حاكميت ۱۶ ، ۲۱ ; اللہ تعالى كى تعليمات ۱۵،۱۶،۱۷; اللہ تعالى كى توفيقات ۱۳; اللہ تعالى كى عطايا ۱۵; مشيت الہى كى حاكميت ۷;مقدرات الہى ۵; مقدرات الہى كى حاكميت ۷ ; مقدرات الہى كا حتمى ہونا ۶

انسان :انسانوں كا عاجز ہونا ۷

برادران يوسف :برادران يوسف اور يعقوبعليه‌السلام ۲ ، ۳ ، ۱۳; برادران يوسف كا دو سرا سفر ۱ ، ۱۹ ; برادران يوسف كا مصر

۵۷۰

ميں داخل ہونا ۱ ، ۲ ، ۶ ، ۱۲ ، ۱۳; برادران يوسف كو نصيحتيں كرنا ۷ ، ۸ ،۱۸ ; برادران يوسف كى اطاعت ۲ ، ۳ ، ۱۳; برادران يوسف كى توفيق ۱۳; برادران يوسف كى سلامتى ۸ ; برادران يوسف كے ليے ناگوار حادثہ ۵ ،۶

توكل:اللہ تعالى پر توكل اور مادى وسائل ۱۸; اللہ تعالى پر توكل كرنے كى اہميت ۲۱

شفقت:پدرى شفقت ۸ ، ۱۰

علم :بہترين علم

فرزند:فرزند كى ذمہ دارى ۴; فرزند كى سلامتى كى ذمہ دارى ۱۱

قديم مصر:قديم مصر كے دروازے ۲ ، ۱۲ ، ۱۳

مادى اسباب:مادى اسباب كا كردار ۲۱

معاشرت :معاشرت كے آداب ۴

يعقوبعليه‌السلام :حضرت يعقوب(ع) اور اولاد ۱۹; حضرت يعقوبعليه‌السلام اور اولاد كى سلامتى ۱۰; حضرت يعقوبعليه‌السلام كا توكل پر اعتماد ۱۸; حضرت يعقوبعليه‌السلام كا دينى ذمہ دارى پر عمل كرنا ۹; حضرت يعقوبعليه‌السلام كا علم لدنى ۱۵ ، ۱۷; حضرت يعقوبعليه‌السلام كا قصہ ۱۰; حضرت يعقوبعليه‌السلام كا معلم ۱۵ ، ۱۶; حضرت يعقوبعليه‌السلام كا منصوبہ ۶ ، ۱۰ ; حضرت يعقوبعليه‌السلام كى دعا كا قبول ہونا ۱۲; حضرت يعقوبعليه‌السلام كى دور انديشى ۱۹ ; حضرت يعقوبعليه‌السلام كى نصيحتوں كا فلسفہ ۹ ;حضرت يعقوبعليه‌السلام كى نصيحتوں كے آثار ۸ ; حضرت يعقوب(ع) كى نصيحتيں ۱۸ ; حضرت يعقوبعليه‌السلام كے فضائل ۱۴ ، ۱۹

يوسفعليه‌السلام :حضرت يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۱ ، ۲ ، ۶ ، ۸

۵۷۱

آیت ۶۹

( وَلَمَّا دَخَلُواْ عَلَى يُوسُفَ آوَى إِلَيْهِ أَخَاهُ قَالَ إِنِّي أَنَاْ أَخُوكَ فَلاَ تَبْتَئِسْ بِمَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ )

اور جب وہ لوگ يوسف كے سامنے حاضر ہوئے تو انھوں نے اپنے بھائي كو اپنے پاس پناہ دى اور كہا كہ ميں تمھارا بھائي ''يوسف''ہوں لہذا جو برتائو يہ لوگ كرتے رہے ہيں اب اس كى طرف سے رنج نہ كرنا(۶۹)

۱ _ حضرت يعقوبعليه‌السلام كى اولاد، بنيامين كے ہمراہ حضرت يوسفعليه‌السلام كے مكان پر آئے اور حضرتعليه‌السلام كى خدمت ميں حاضر ہوئے_و لما دخلوا على يوسف ء اوى اليه اخاه

۲ _ حضرت يوسف(ع) نے اپنے بھائيوں كى ملاقات ميں بنيامين كو نزديك بلاكر اپنے پاس بٹھايا _

و لما دخلوا اؤى اليه اخاه

۳ _ حضرت يوسفعليه‌السلام جب بھائيوں سے دورہوكر بنيامين كےساتھ اكيلے بيٹھے ہوئے تھے تو انہوں نے اپنى كى شناخت كرائي _قال إنى انا اخوك

مذكورہ اور بعد والى آيات سے معلوم ہوتاہے كہ يوسفعليه‌السلام اس سے پرہيز كرتے تھے كہ ميرے بھائي مجھے پہچان ليں اسى وجہ سے اپنے بھائيوں سے چھپ كر بنيامين كو اپنى شناخت كروائي _ جملہ (قال ...) كا پہلے والے جملے سے فاصلہ اس بات كى طرف اشارہ كرتاہے كہ حضرت يوسفعليه‌السلام كى (بنيامين ) سے گفتگو اس جگہ پر تھى جہاں ان كے بھائي موجود نہيں تھے_

۴_ بنيامين كو يہ يقين نہيں تھا كہ وہ بھائي ( يوسف)جو گم ہوگيا ہے وہ عزيز مصر ہو_إنى أنا أخوك

جملہ (إنّى أنا اخوك) كو اسميہ لانے كے ساتھ حرف تاكيد (إن) كے ساتھ ذكر كرنا اور (أنا) مميز كا لانا س بات كو بتاتاہے كہ بنيامين اس ميں شك و ترديد ركھتے تھے كہ اسكا بھائي عزيز مصر ہوسكتاہے_

۵۷۲

۵ _ حضرت يوسفعليه‌السلام نے اپنے بھائيوں كے ساتھ جو واقعات (كنعان كے كنويں ميں انہيں ركھنے و غيرہ ...) گزرے تھے بنيامين كو بتائے_قال إنى أنا اخوك فلا قبتئس بما كانوا يعملون

(كانوا ) اور (يعملون ) كى ضمير برادران يوسف كى طرف لوٹتى ہے جملہ (إنى أنا اخوك) كے بعد ( لا تبتئش) (غمگين نہ ہو افسوس نہ كرو) ذكر كرنا اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ اپنى شناخت كروانے كے بعد كنعان كے كنويں كا واقعہ بنيامين كے ليے بيان كيا وگرنہ صرف اپنى شناخت كرانے سے تو بنيامين كا غم زدہ ہونا اور پريشان ہونا معنى نہيں ركھتا_

۶_بنيامين ، حضرت يوسفعليه‌السلام كے گم ہونے والے واقعہ كے سلسلہ ميں اپنے بھائيوں كے كردار سے غم زدہ اور متأسف ہوئے_فلا تبتش بما كانوا يعملون

۷_ حضرت يوسفعليه‌السلام نے اپنے بھائي بنيامين سے درخواست كى كہ بھائيوں كے گذشتہ برے سلوك كو بھول جائيں اور فراموش كرديں تا كہ اس غم كو دوبارہ دل ميں نہ لائيں _فلاتبتئش بما كانوا يعملون

۸_ حضرت يوسفعليه‌السلام ،بنيامين كى راز دارى پر اطمينان ركھتے تھے_إنى أنا اخوك

۹_ حضرت يوسفعليه‌السلام كى نيك خصلتوں ميں سے بزرگوارى كرنا ، كينہ ركھنے سے دورى كرنا اور قدرت ركھتے ہوئے انتقام نہ لينا تھيں _

۱۰_ عزيز مصر كے مقام پر فائز حضرت يوسفعليه‌السلام كى اپنے بھائي بنيامين كے ساتھ ملاقاتسبب تھى كہ اپنے بھائيوں كى گذشتہ بدرفتارى كى وجہ سے جو ان كے درميان تلخياں آگئيں تھيں ان كو دل سے نكال ديا جائے_

إنى انا اخوك فلا تبتش بما كانوا يعملون

(فلا تبتش ...) كے جملہ ميں فاتفريع جو (انى أنا اخوك ) كى وضاحت كرتى ہے _ اس دليل كو بيان كرتى ہے كہ اپنے بھائيوں كى گذشتہ بدرفتارى كے غم و غصے كو دل سے نكال ديا ہے _ يعنى حضرت يوسف(ع) اس فاتفريع كے ذريعے اس بات كو بيان كر رہے ہيں كہ اگر چہ ان كى بدرفتارى كى وجہ سے جتنى مشكلات ميں نے اٹھائي ہيں اسى كے صدقے ميں اس مقام و مرتبے تك پہنچا ہوں پس اسى وجہ سے نہ ميں اور نہ ہى تم ان كے برے كاموں سے محزون و غمگين نہ ہوں _

برادران يوسف:برادران يوسف كى حضرت يوسف(ع)سے ملاقات ۱; برادران يوسف كى گذشتہ بدرفتارى كا فراموش كرنا ۷//بنيامين :بنيامين اور برادران يوسف كے پيش آنے كا

۵۷۳

طريقہ ۶; بنيامين اور حضرت يوسفعليه‌السلام ۴; بنيامين اور حضرت يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۶ ; بنيامين اور غم زدہ ہونا ۷ ; بنيامين كا شك ۴; بنيامين كا غم زدہ ہونا ۶; بنيامين كو دعوت دينا ۲ ; بنيامين كى حضرت يوسفعليه‌السلام سے ملاقات ۱ ، ۳ ۵; بنيامين كى رازدارى ۴ ; بنيامين كے دكھ درد كے دور ہونے كے اسباب ۱۰

عفو:قدرت ركھتے وقت معافى دينا ۹//محبت :بھائي كى محبت ۲

يوسفعليه‌السلام :حضرت يوسفعليه‌السلام اور بنيامين ۲ ، ۷ ; حضرت يوسفعليه‌السلام اور كينہ ركھنا ۹ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كا اطمينان ۸ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كا بنيامين كو اپنى شناخت كروانا ۳ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كا سزا و بدرى سے دور ركھنا ۹ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كا عزيز مصر ہونا ۱۰ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۱ ، ۲ ، ۳ ، ۴ ، ۵ ، ۶،۷ ، ۱۰ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كى بنيامين سے ملاقات كے آثار ۱۰ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كى تمنائيں ۷ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كى جوانمردى ۹ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كى دعوت ۲ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كے دكھ و درد كے دور ہونے كے اسباب ۱۰ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كے فضائل ۹

آیت ۷۰

( فَلَمَّا جَهَّزَهُم بِجَهَازِهِمْ جَعَلَ السِّقَايَةَ فِي رَحْلِ أَخِيهِ ثُمَّ أَذَّنَ مُؤَذِّنٌ أَيَّتُهَا الْعِيرُ إِنَّكُمْ لَسَارِقُونَ )

اس كے بعد جب يوسف نے ان كا سامان تيار كراديا تو پيالہ كو اپنے بھائي كے سامان ميں ركھو اديا ۱_اس كے بعد منادى نے آواز دى كہ قافلے والو تم سب چور ہو(۷۰)

۱ _ حضرت يوسفعليه‌السلام كا بنيامين كو اپنے پاس ركھنے كا منصوبہ_فلما جهزهم بجهازهم جعل السقاية فى رحل أخيه

۲ _حضرت يوسفعليه‌السلام نے بذات خود اپنے بھائيوں كے سامان كو مہيا و آمادہ كيا _فلما جهزهم بجهازهم

۳ _ حضرت يوسفعليه‌السلام نے اپنے بھائيوں كے سامان كو تيار كرتے وقت اپنے پانى پينے كے مخصوص برتن كو بنيامين كے سامان ميں چھپاديا_فلما جهزهم بحهازهم جعل السقاية فى رحل اخيه

(سقاية) اس برتن كو كہا جاتاہے جو پانى پينے كے ليے استعمال ہوتاہے ( ال ) معرفہ كا جو اس پر داخل ہوا ہے _ اس سے معلوم ہوتاہے كہ وہ مخصوص برتن تھا_

۴_ حضرت يوسفعليه‌السلام كے ملازمين بنيامين كو واپس جانے سے روكنے كے منصوبے ( بنيامين كے سامان ميں برتن كو چھپا دينا ) سے ناواقف تھے_جعل السقاية فى رحل اخيه ثم أذن مؤذن

۵۷۴

كيونكہ اگر حضرت يوسفعليه‌السلام كے ملازمين اس منصوبے سے آگاہ ہوتے تو وہ فرزندان يعقوب كو واضح طور پر اورتاكيد كركے چور نہ كہتے ( إنكم لسارقون) اس سے معلوم ہوا كہ حضرت يوسفعليه‌السلام نے بذات خود بنيامين كے سامان ميں پيالہ ركھ ديا تھا_اور وہ چاہتے تھے كہ دوسروں كو اس منصوبے كا علم نہ ہو _

۵ _ حضرت يوسفعليه‌السلام كے ملازمين جب پانى پينے كے مخصوص پيالے كو تلاش نہ كرسكے تو فرزندان يعقوب پر چورى كى تہمت لگائي_جعل السقاية فى رحل اخيه ثم اذّن مؤذن ايتها العير إنكم لسارقون

۶_ حضرت يوسفعليه‌السلام كے ملازمين ميں سے ايك نے فرزندان يعقوب كے قافلے كو مخاطب ہوكر ان چورى كى تہمت لگائي_ثم اذّن مؤذن ايتها العيرء انكم لسارقون

(مير) قافلے كے تمام افراد اور ان اونٹوں كو كہا جاتاہے جو ان كے سامان كو اٹھاتے ہيں يہ بھى كہا گيا ہے كہ فارسى زبان ميں يہ كلمہ كاروان اور قافلے كے مترادف ہے اور (تاذين) (اذن) كامصدر ہے_ اذان كا معنى اعلان كرنے كا ہے جسكا معنى كثرت سے اعلان كرنا ہے اور پس (أذن مؤذن ...) يعنى اعلان كرنے والے نے كئي بار اعلان كيا _

۷_ فرزندان يعقوب پر چورى كا الزام اس وقت لگا جب وہ سامان باندھنے كى جگہ سے چلے گئے اور سفر كے ليے آمادہ ہوگئے تھے_ثم إذن مؤذن ايتها العير إنكم لسارقون

(ثم )كا حرف اور جملہ (اقبلوا عليم ) جو بعد والى آيت ميں ذكر ہوا ہے ممكن ہے مذكورہ معنى كا مفہوم ادا كرے_

۸_ بنيامين كے سامان ميں جو پيالہ چھپا ديا گيا وہ قيمتى تھا_جعل السقاية اذن مؤذن ايتها العير إنكم لسارقون

يہ بات كہ فرزندان يعقوب كو چور كہا گيا نہ يہ كہ تم نے چورى كى ہے اور يہ كہ اعلان كرنے والے نے علانيہ طور پر اعلان اور اسكا تكرار كيا اور جس كى وجہ سے جناب يوسفعليه‌السلام پيالے كے چور كو اپنا غلام بنا سكتے تھے ان سب باتوں سے معلوم ہوتاہے وہ كوئي قيمتى پيالہ تھا_

۹_'' عن ابى عبدالله عليه‌السلام ... قال: انهم سرقوا يوسف من أبيه ألا ترى أنه قال لهم حين قالوا: ماذا تفقدون؟ قالوا نفقد صواع الملك و لم يقولوا: سرقتم صواع الملك، انّما عنى أنكم سرقتم يوسف من أبيه (۱)

حضرت امام جعفر صادقعليه‌السلام سے روايت ہے( ايك شخص كے سوال كے جواب ميں كہ اس نے سوال كيا''انكم لسارقون'' سے كيا مراد ہے) : فرمايا ان لوگوں نے جناب يوسفعليه‌السلام كو اپنے باپ سے چورى كيا تھا پھر فرمايااس بات پر كيوں توجہ نہيں كرتے ہو كہ جب برادران يوسف نے كہا كہ تم نے كيا چيز گم كى ہے _

۵۷۵

تو حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ملازمين نے ان سے كہا ( بادشاہ كا پيالہ گم ہوگيا ہے ) يہ نہيں كہا كہ تم نے بادشاہ كے پيالے كو چورى كيا ہے پس اس كے علاوہ اور كوئي بات نہيں تھى كہ تم نے جناب يوسف(ع) كو ان كے والد گرامى سے چورى كيا ہے _

۱۰_عن ابى جعفر عليه‌السلام ... و ارتحل القوم (إخوة يوسف ) مع الرفقة فمضوا، فلحقهم يوسف وفتيته فنادوا فيهم قال : '' ايتها العير إنكم لسارقون (۲)

امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے كہ برادران يوسف قافلے والوں كے ساتھ نكلے اور چلے گئے اس كے بعد جناب يوسفعليه‌السلام اور ان كے ملازمين ان سے جاكر ملے اسوقت ان كے درميان آواز لگاكر منادى نے اس طرح كہا'' ايتها العيرء انّكم لسارقون''

۱۱ _عن أبى عبداللّه عليه‌السلام قال: التقية من دين الله لقد قال يوسف '' ايتّها العير إنكم لسارقون'' و الله ما كانوا سرقوا شيئاً (۳) امام جعفر صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كہ تقيہ، دين الہى ميں سے ہے بے شك جناب يوسفعليه‌السلام نے فرمايا : ايتھا العير إنكم لسارقون(ليكن) خدا كى قسم انہوں نے كسى چيز كى چورى انہيں كى تھي_

۱۲ _(عن ابى عبدالله عليه‌السلام ; قال رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : لا كذب على مصلح ثم تلا: ايتّها العير إنكم لسارقون) ثم قال: والله ما سرقوا و ما كذب (۴)

امام جعفر صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كہ رسالت مآب نے فرمايا: جھوٹا وہ ہے جو اصلا ح كرنے كا قصد نہ ركھتا ہو_ اسوقت ان آيات كى تلاوت فرمائي'' ايتها العير إنكم لسارقون'' اس كے بعد فرمايا: خدا كى قسم قافلے والوں نے چورى نہيں كى تھي( اعلان كرنے والے) نے بھى جھوٹ نہيں بولا_

برادران يوسف :برادران يوسف پر چورى كى تہميت ۵ ، ۶،۱۰ ; برادران يوسف اور جناب يوسفعليه‌السلام ۹; برادران يوسف كى چورى كرنا ۹ ; برادران يوسف پر چوري

____________________

۱) ملل الشرائع، ص ۵۲ ب ۴۳، ح۴، نورالثقلين، ج۲، ص۴۴۴، ح ۱۳۴_

۲) تفسير عياشي، ج۲، ص ۱۸۲، ح۴۳، نورالثقلين، ج۲ ص ۴۳۹، ح۱۱۲_

۳)كافى ج۲ص ۲۱۷، ح۳ ; نورالثقلين ج۲، ص ۴۴۳; ح ۱۲۷_

۴)كافى ج۲ ص ۳۴۳ ح ۲۲ ;نورالثلين ج/۲ ص ۴۴۴ ح ۱۲۹_

۵۷۶

كے الزام كا وقت ۷ ; برادران يوسف كا تجارتى كاروان ۶; برادران يوسف كا تجارتى مال ۲،۳

بنيامين:بنيامين كى حفاظت ۱

بادشاہ مصر:بادشاہ مصر كے پانى پينے كا برتن ۳; بادشاہ مصر كے پانى پينے كے برتن كى قيمت ۸; بادشاہ مصر كے پانى پينے كے برتن كا گم ہونا ۹

تقيہ :تقيہ كے احكام۱۱

جھوٹ:جھوٹ كا جائز ہونا ۱۲ ; جھوٹ كے احكام ۱۲ ; مصلحتى جھوٹ ۱۲

دين :دين كى تعليمات۱۱

روايت: ۹ ، ۱۰،۱۱ ،۱۲

حضرت يوسفعليه‌السلام :حضرت يوسفعليه‌السلام اور برادران يوسف۲ ، ۱۰ ;حضرت يوسفعليه‌السلام اور بنيامين ۱; حضرت يوسفعليه‌السلام كا تقيہ ۱۱ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۱ ، ۲ ، ۳، ۴ ، ۵ ، ۶ ، ۷،۹،۱۰; حضرت يوسفعليه‌السلام كى تدبير ۱ ، ۳;حضرت يوسفعليه‌السلام كى تدبير اور ان كے ملازمين ۴; حضرت يوسفعليه‌السلام كے قصے كى تعليمات ۱۱ ، ۱۲ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كے ملازمين كى تہمتيں ۵ ، ۶

آیت ۷۱

( قَالُواْ وَأَقْبَلُواْ عَلَيْهِم مَّاذَا تَفْقِدُونَ )

ان لوگوں نے مڑ كر ديكھا اور كہا كہ آخر تمھارى كيا چيز گم ہوگئي ہے(۷۱)

۱_ فرزندان يعقوب، حضرت يوسفعليه‌السلام اور ان كے ملازمين كى طرف سے چورى كى تہمت كو سن كر واپس آگئے_

قالوا و اقبلوا عليهم

(قالوا) اور (أقبلوا) ميں جو ضمير ہے وہ ( العير) كى طرف لوٹ رہى ہے جو اس سے پہلى والى آيت ہے _ اور جملہ (و أقبلوا عليہم) (قالوا) كى ضمير كے ليے حال ہے_

۵۷۷

۲_ فرزندان يعقوب نے جناب يوسفعليه‌السلام كے ملازمين سے پوچھا : تمہارى كونسى چيز گم ہوگئي ہے _

قالوا ماذا تفقدون

۳ _ فرزندان يعقوب نے چورى كى تہمت سن كر تعجب كيا_قالوا ماذا تفقدون

آيت كے الفاظ اور فرزندان يعقوب كا سوال يہ نہيں تھا( ماذا سرقنا) اس بات سے معلوم ہوتاہے كہ ان كو يقين نہيں تھا اور حيرت زدہ تھے_

برادران يوسف :برادران يوسف اور يوسفعليه‌السلام ۱; برادران يوسف پر چورى كا الزام ۱ ،۳ ; برادران يوسف كا پوچھنا ۲ ; برادران يوسف كا تعجب ۳ ; برادران يوسف كا لوٹنا ۱

يوسفعليه‌السلام :يوسفعليه‌السلام كے ملازمين كا پوچھنا ، يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۱،۲،۳

آیت ۷۲

( قَالُواْ نَفْقِدُ صُوَاعَ الْمَلِكِ وَلِمَن جَاء بِهِ حِمْلُ بَعِيرٍ وَأَنَاْ بِهِ زَعِيمٌ )

ملا زمين نے كہا كہ بادشاہ كا پيالہ نہيں مل رہاہے اور جو اسے لے كر آئے گا اسے ايك دونٹ كا بار غلہ انعام ملے گا اور ميں اس كا ذمہ دار ہوں (۷۲)

۱_ بادشاہ كے پانى پينے والے پيالے كے گم ہونے كى وجہ فرزندان يعقوب كو ٹھہرانا اور انكى تلاشى لينا تھا _ماذا تفقدون _ قالوا نفقد صواع الملك (صواع) كا معنى ناپ تول كا برتن هے _

۲_ان تہمت زدہ افراد كو روكنا اور ان كى تلاش لينا جائز ہے جن كے درميان مجرم موجود ہو_

إنكم لسارقون قالوا نفقد صواع الملك و لمن جاء به حمل بعير

۳ _ مصر ميں سات سال كى قحطى كے دوران سے افراد كے سہم كو معين كرنے كا پيمانہ شاہى پيالہ تھا_حبل السقاية فى رحل أخيه نفقد صواع الملك گمشدہ پيالے كو (سقايہ) پيالے (صواع) ناپ تول كا پيمانہ سے تعبير كرنے كا مقصد يہ تھا كہ

اس سے افراد كےمعين شدہ حصّہ كو ناپاجاتا تھأ اور اس ظرف كو حضرت يوسفعليه‌السلام كے پاس آنے سے پہلے بادشاہ پانى پينے كے ليےاستعمال كيا كرتا تھا_

۴ _ حضرت يوسفعليه‌السلام كے زمانے ميں مصر ميں وزن اور ناپ تول كا رسمى نظام اور قانونى طريقہ رائج تھا_

قالوا نفقد صواع الملك

۵۷۸

(صواع) كا لفظ(الملك) كى طرف اضافہ (بادشاہ كا پيمانہ) يہ بتاتاہے كہ اس پيمانے كو بادشاہ نے معين و مشخص كيا تھا_ خواہ تجارت ميں وہ تمام چيزيں جو ناپ كے ذريعے سے ہوں يا قطحى كے زمانے ميں افراد كے حصوں كو معين و مشخص كرنے كے ليے ہوں _

۵_ حضرت يوسفعليه‌السلام كى طرف سے شاہى پيالہ لانے والے كو غلہ سے لدا ہوا ايك اونٹ انعام دينے كا اعلان كيا گيا _

و لمن جاء به حمل بعير

۶_گم ہونے والا پيمانہ، حضرت يوسفعليه‌السلام كے نزديك بہت زيادہ ارزش و قيمت ركھتا تھا_

نفقد صواع الملك و لمن جاء به حمل بعير

اس پيمانے كو پانے والے كے ليے قحطى اور راشن بندى كے زمانہ ميں غلہ سے لدا ہوا ايك اونٹ انعام قرار دينا سے معلوم ہوتاہے كہ وہ پيمانہ قيمتى اور ارزشمند برتن تھا_

۷_حضرت يوسفعليه‌السلام بذات خود اس گم شدہ پيالے كو لانے والے كے ليے انعام دينے كے پابند ہوئے_

و لمن جاء حمل بعير و انا به زعيم

(انا بہ زعيم) ميں (أنا) سے مراد يا تو خود جناب يوسفعليه‌السلام ہيں يا ملازمين كا سربراہ مراد ہے ليكن پہلے والے احتمال كى بناء پر مذكورہ معنى كيا گيا ہے _

۸_ انعام كو مقرر كركے رقابت اور مقابلے كو ايجاد كرنا جائز ہے _و لمن جاء به حمل بعير

۹_ جرم كو كشف اور پہچان كرنے اور مجرم كو گرفتار كرنے كے ليے انعام كا معين كرنا جائز ہے _

نفقد صواع الملك و لمن جاء به حمل بعير

۱۰_ جعالہ ( گم شدہ شيء كى تلاش كے ليے انعام مقرر كرنا) مشروع اور قانونى ہے _و لمن جاء به حمل بعير و أنا به زعيم

(جعالہ ) اصطلاح ميں كام كو انجام دينے پر اس كے مقابلے عوض ادا كرنے كے ليے اپنے آپ كو متعہد و ملزم كرنا اسى وجہ سے يہ جملہ ( لمن جاء ...) جعالہ كى قرار داد ہے _ اسمين قرار داد ذمہ دار كو (جاعل) انجام دينے والے كو (عامل) اور اجرت كو (جعل) كياجاتاہے_

۱۱_جعالہ كا صحيح ہونا عامل كے مشخص و معين ہونے كے ساتھ مشروط نہيں ہے _

۱۲ _ كام كو انجام دينے كے ليے جعالہ كے صحيح ہونے ميں

۵۷۹

مدت كا معين كرنا ضرورى نہيں ہے _و لمن جاء به حمل بعير

كيونكہ حضرت يوسفعليه‌السلام كے ملازمين نے جعالہ كى قرار داد ميں (شاہى پيالے كو پانے ميں )مدت كو معين نہيں كيا كے يہ كام (خاص مدت يا مخصوص زمانے ميں ) انجام پذير ہو اسى سے مذكورہ معنى حاصل ہوتاہے _

۱۳ _ جعالہ كے صحيح ہونے ميں كام انجام دينے كى مقدار جو جعالہ ميں ضرورى ہے وہ شرط نہيں ہے _و لمن جاء به حمل بعير يہ معلوم نہيں تھا گمشدہ پيالے كو تلاش كرنے ميں كتنا كام انجام دينا ہوگا اس وجہ سے ہم كہہ سكتے ہيں كہ (جعالہ) كى قرار داد ميں كام كى مقدار كا مجہول ہونا اس كے صحيح ہونے ميں كوئي ضرر نہيں پہنچاتا_

۱۴ _ ضمان و كفالت جائز قرار داديں اور قانونى اعتبار سے معتبر ہيں _و أنا به زعيم

(ضمان) اصطلاح ميں طلبگار كا ادا كرنے والے شخص سے مطالبہ كرنے كى صورت ميں مال كو ادا كرنے پر ملزم ہونے كو كہتے ہيں _ ضمانت كو قبول كرنے والے كو (ضامن) جس سے مال لينا ہے اسكو (مضمون عليہ ) جس نے مال وصول كرنا ہے اسكو( مضمون لہ ) كہا جاتاہے_(كفالت ) اصطلاح ميں اس شخص كے حاضر كرنے كو كہتے ہيں جو كسى شخص كى گردن پر حق ركھتاہے_ اس كفالت كو قبول كرنے والے كو كفيل كہتے ہيں _ كيونكہ(أنا بہ زعيم ) ميں جو غائب كى ضمير ہے وہ (حمل بعير) كى طرف لوٹتى ہے (زعيم ) سے مراد ضامن ہے اور اگر (بہ ) كى ضمير ( لمن جاء ...) كے جملے كو ادا كرنے والے كى طرف لوٹائيں (يعنى جاعل) تو اس صورت ميں زعيم سے مراد كفيل ہوگا_

۱۵_جعل كے ليے ضمانت (جعالہ كى اجرت ) جعالہ كے كام كو انجام دينے سے پہلے دنيا بھى جائز ہے اور قانونى اعتبار سے بھى صحيح ہے _و أنا به زعيم

(و انا به زعيم ) كا جملہ كہنے والا جو (حمل بعير) كى اجرت كا ضامن ہوا ہے _ يہ عامل كے كام يعنى پيالے كو پانے سے پہلے اسكى اجرت كا ضامن ہوا ہے _

۱۶_ اگر چہ مال كى ضمانت، ادا كرنے والے شخص كے اوپر لازم نہيں ہوئي پھر بھى ضمانت دينا جائز ہے اور قانونى ہے _

و أنا به زعيم

۱۷_ ضمان كے صحيح ہونے ميں طلب كرنے والے كى شناخت و پہچان كرنا معتبر اور شرط نہيں ہے _و انا به زعيم

اگر چہ يہ بات پہلے گذرچكى ہے كہ جملہ (انا بہ زعيم ) قرار داد اور ضمانت كو بتاتاہے اور اس قرار داد ميں (مضمون لہ ) (يعنى وہ جو شاہى پيالے كو پائے گا ) معلوم نہيں كون ہوگا اسى وجہ

۵۸۰