تفسير راہنما جلد ۸

تفسير راہنما 0%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 971

تفسير راہنما

مؤلف: آيت الله ہاشمى رفسنجاني
زمرہ جات:

صفحے: 971
مشاہدے: 163311
ڈاؤنلوڈ: 2624


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4 جلد 5 جلد 6 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 971 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 163311 / ڈاؤنلوڈ: 2624
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد 8

مؤلف:
اردو

قديمى مصر :قديمى مصر كى تاريخ ۵

حضرت يعقوبعليه‌السلام :حضرت يعقوبعليه‌السلام ، حضرت يوسف(ع) كى حكومت كے دوران ۴;حضرت يعقوبعليه‌السلام كا بڑ ھا پا۴ ; حضرت يعقوبعليه‌السلام كى بنيامين سے محبت ۸

حضرت يوسفعليه‌السلام :حضرت يوسفعليه‌السلام اور بنيامين ۱ ;حضرت يوسفعليه‌السلام پر احسان كے آثار ۱۱; حضرت يوسفعليه‌السلام كا احسان ۳; حضرت يوسفعليه‌السلام كا اقتدر ۳ ،۹ ، ۱۰; حضرت يوسف كاقصہ ۱ ، ۲ ، ۳ ، ۵، ۶ ،۷، ۸ ، ۹،۱۱ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كا محسنين ميں سے ہونا ۹; حضرت يوسفعليه‌السلام كى شفقت كو ابھارنا ۲ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كى عزيزى ۵; حضرت يوسفعليه‌السلام كى قديمى مصر ميں قحطى كے دوران موجود گي۵;حضرت يوسف(ع) كى وزارت ۹; حضرت يوسفعليه‌السلام كے فضائل ۹ ;حضرت يوسفعليه‌السلام ميں احسان كرنے كى نشانياں ۱۰

آیت ۷۹

( قَالَ مَعَاذَ اللّهِ أَن نَّأْخُذَ إِلاَّ مَن وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِندَهُ إِنَّـا إِذاً لَّظَالِمُونَ )

يوسف نے كہا كہ خدا كى پناہ كہ ہم جس كے پاس اپنا سامان پائيں اس كے علاوہ كسى دوسرے كو گرفت ميں لے ليں اور اس طرح ظالم ہوجائيں (۷۹)

۱ _ حضرت يوسفعليه‌السلام نے فرزندان يعقوبعليه‌السلام كى تجويز ( كہ بنيامين كى بجائے ا ن ميں سے كسى ايك كوگرفتار كرليں )كو قبول نہيں كيا _فخذ ا حدنا مكانه قال معاذ اللّه ا ن نا خذ الا ّ من وجدن

(معاذ) مصدر ميمى اور فعل محذوف كے ليے مفعول مطلق ہے (نعوذ باللّہ معاذاً) اور عبارت (أن نا خذ) ميں ( من ) مقدر اور''مضار اليہ'' كے متعلق ہے _ اس صورت ميں جملہ ( معاذ اللہ ان ناخذ ...) كا معنى يہ ہوگا _ كہ خدا كى پناہ چاہتے ہيں اس بات سے كہ اسكو اپنى گرفت ميں لے ليں (گرفتار كرليں ) مگروہ كہ جس كے ہاں اپنے مال كو پائيں گے _

۲ _ بے گناہ شخص كا مجرموں كى جگہ پر اپنے آپ كو پيش كرنا سبب نہيں بن سكتا كہ اسكو سزا دينا جائز ہے _

فخذ أحدنا مكانه معاذ اللّه ا ن ناخذ الا من وجدنا متاعنا عنده

۳ _ حضرت يوسفعليه‌السلام كے زمانے ميں مصر كے عدالتى قوانين ميں يہ جائزنہيں سمجھا جاتا تھا كہ بے گناہوں كو مجرموں كى جگہ خواہ وہ خودہى اپنے كو پيش كريں سزا دى جائے_معاذ اللّه ا ن ناخذ الا من وجدنا متاعنا عنده

۶۰۱

مذكورہ معنى ضمير متكلم مع الغير كى جگہ ضمير متكلم وحدہ كے استعمال سے حاصل كيا گيا ہے _ يعنى حضرت يوسفعليه‌السلام كا يہ جملہ كہ ( ہم گرفتار نہيں كرتے ) كى جگہ پر ( ميں گرفتار نہيں كرتاہوں ) اس معنى كى طرف اشارہ كرتاہے كہ مصر كے قوانين ميں اس چيز كى مجھے اجازت نہيں ہے كہ بے گناہ شخص كو گنہگار شخص كى جگہ پر گرفتار كروں اگر چہ وہ خود اپنے آپ كو پيش ہى كيوں نہ كردے_

۴ _ حكام كا گناہ كاروں كى جگہ پر بے گناہوں كو سزا دينے سے پرہيز كرنا ضرورى ہے _

قال معاذ اللّه ا ن نا خذ الاّ من وجدنا متاعنا عنده

۵_ حضرت يوسفعليه‌السلام كا بنيامينكى طرف چورى كى نسبت دينے سے اجتناب كرنا _أن نأخذ إلاّ من وجدنا متاعنا عنده

(الا من وجدنا متاعنا عنده ) كے جملہ كو (مگر وہ شخص جس كے پاس ہم نے اپنا مال پايا) (من سرق متاعنا ) (مگر وہ شخص جس نے ہمارا مال چورى كيا ہو) كے جملے كى جگہ پر لانا گويا اس بات پر دلالت ہے كہ حضرت يوسفعليه‌السلام بنيامين كى طرف چورى كى نسبت دينے سے اجتناب كررہے ہيں _

۶_ جب تو ريہ كرنا ممكن ہو تو مصلحتى جھوٹ بولنے سے بھى پرہيز كرنا ضرورى ہے _

معاذ اللّه ا ن نا خذ الا من وجدنا متاعنا عنده

حضرت يوسفعليه‌السلام يہ جانتے تھے كہ بنيامين كى طرف چورى كى نسبت دينے ميں مصلحت ہے ليكن اس كے باوجود بھى جھوٹ بولنے سے پرہيز كيا اس مصلحت كو توريہ كے ذريعے پورا كرديا _

۷_حقيقت و واقعيت كو اس طرح بيان كرنا كہ مخاطب اس كے برخلاف سمجھے اسكو توريہ كہتے ہيں اور يہ كام جائز او ر مشروع ہے _أن ناخذ إلاّ من وجدنا متاعنا عنده

بنيامين كے سامان ميں شاہى پيالے كا پايا جانا واقعيت ركھتا تھا اور صحيح بات تھى ليكن حضرت يوسفعليه‌السلام نے اسكو ايسى شرائط سے بيان كيا كہ فرزندان يعقوبعليه‌السلام نے اسكو چورى خيال كيا_ اسى كو توريہ كہا جاتاہے_

۸_حضرت يوسف(ع) كا ظلم و ستم روا ركھنے پر خداوند متعال كى پناہ طلب كرنا_قال معاذ اللّه ...إنا إذا الظالمون

۹_ خداوند متعال كى پنا ميں جانا، ظلم و ستم سے دور رہنے كے ليے ضرورى ہے_قال معاذ اللّه انا إذا الظالمون

۶۰۲

۱۰_حضرت يوسفعليه‌السلام اور انكے ملازمين نے مصر ميں حكومت اور اقتدرا كے دوران ہر قسم كے ظلم و ستم سے اجتناب كيا _قال معاذ اللّه ا ن إنا إذا الظالمون

ضمير متكلم مع الغير (نا) اور (نحن) جن كو حقائق ميں انہوں نے پيش كيا ( ان ناخذ إنا إذا الظالمون) سے حضرت يوسف كا مقصود خود وہ اور انكے كے ملازمين تھے _

۱۱_ حكام كا ظلم و ستم سے پرہيز كرنا ضرورى ہے_قال معاذ اللّه إنا إذا الظالمون

۱۲_ مجرمين كى جگہ بے گناہوں كو سزا دينا، ظلم اور گناہ ہے_قال معاذ اللّه ...إنا إذا الظالمون

احكام :۷سزا كے احكام ۲

برادران يوسفعليه‌السلام :برادران يوسف اور بنيامين كى نجات ۱

بے گناہ لوگ:بے گناہ لوگوں كو سزا دينا ۲ ، ۳ ;بے گناہ لوگوں كو سزا دينے سے اجتناب كرنا ۴ ; بے گناہ لوگوں كو سزا دينے كا گناہ ۱۲;بے گناہ لوگوں كى سزا كا ظلم ہونا ۱۲

پناہ طلب كرنا :اللہ تعالى سے پناہ طلب كرنے كى اہميت ۹;ظلم سے پناہ طلب كرنا ۸ ، ۹ ; گناہ سے پناہ طلب كرنا ۹

توريہ :توريہ كا جواز ۷ ; توريہ كے احكام ۷ ; توريہ كے موارد ۶

جھوٹ :جھوٹ سے اجتناب كى اہميت ۶ ; جھوٹ مصلحتى ۶

حكّام :حكّام اور ظلم ۱۱ ; حكام كى ذمہ دارى ۴ ، ۱۱

سزا :سزاء كا شخص (مجرم ) كے ساتھ مخصوص ہونا ۲ ، ۳ ، ۴ ، ۱۲; سزا كى خصوصيات ۲ ، ۳،۴،۱۲

عدالتى نظام :۲

قديم مصر :قديم مصر ميں اقتدار حكومت ۱۰ ; قديم مصر ميں سزا كے قوانين ۳

حضرت يوسفعليه‌السلام :حضرت يوسفعليه‌السلام اور بنيامين پر تہمت ۵ ; حضرت يوسفعليه‌السلام اور ظلم ۸ ،۱۰; حضرت يوسفعليه‌السلام اور بھائيوں كا مشورہ ۱ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كاپناہ مانگنا ۸ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۱ ، ۵ ، ۱۰ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كے ملازمين اور ظلم ۱۰

۶۰۳

آیت ۸۰

( فَلَمَّا اسْتَيْأَسُواْ مِنْهُ خَلَصُواْ نَجِيّاً قَالَ كَبِيرُهُمْ أَلَمْ تَعْلَمُواْ أَنَّ أَبَاكُمْ قَدْ أَخَذَ عَلَيْكُم مَّوْثِقاً مِّنَ اللّهِ وَمِن قَبْلُ مَا فَرَّطتُمْ فِي يُوسُفَ فَلَنْ أَبْرَحَ الأَرْضَ حَتَّىَ يَأْذَنَ لِي أَبِي أَوْ يَحْكُمَ اللّهُ لِي وَهُوَ خَيْرُ الْحَاكِمِينَ )

اب جب وہ لوگ يوسف كى طرف سے مايوس ہوگئے تو الگ جاكر مشورہ كرنے لگے تو سب سے بڑے نے كہا كہ كيا تمھيں نہيں معلوم كہ تمھارے باپ نے تم سے خدائي عہد ليا ہے اور اس سے پہلے بھى تم يوسف كے بارے ميں كوتاہى كرچكے ہوتو اب ميں تو اس سرزمين كو نہ چھوڑوں گا يہانتك كہ والد محترم اجازت دے ديں يا خدا ميرے حق ميں كوئي فيصلہ كردے كہ وہ بہترين فيصلہ كرنے والا ہے (۸۰)

۱ _ فرزندان يعقوبعليه‌السلام ،حضرت يوسفعليه‌السلام كى رضايت حاصل كرنے ميں كامياب نہيں ہوئے اور بنيامين كى آزادى سے مكمل نااميد ہوگئے _فلما استيئسوا منه

(ياس) اور (استيئاس) نااميد ہونے كے معنى ميں ہے اس فرق كے ساتھ كہ (استيئاس) ميں نااميدى ميں مبالغہ اور شدّت ہے (منہ ) كى ضمير سے مراد، بنيامين يا يوسفعليه‌السلام ہيں _ اس وجہ سے (فلما استيئسوا منہ ...) كا معنى يہ ہوگا اسوقت كہ جب فرزندان يعقوبعليه‌السلام ،حضرت يوسفعليه‌السلام كى (رضايت كو جلب كرنے) يا بنيامين كى (آزادي) سے كامل طور پر نااميد ہوگئے_

۲_فرزندان يعقوبعليه‌السلام نے بنيامين كى آزادى سے نااميد ہوكر يوسفعليه‌السلام اور ان كے ملازمين سے كچھ دور جاكر اس مشكل كى چارہ جوئي كےليے چھپ كر آپس ميں مشورہ كيا_

فلما استيئسوا منه خلصوا نجيب

(اخلاص) كے معانى ميں سے عليحدہ ہونا اور كنارہ گيرى كرناہے ( نجّي)ايك يا كئي اشخاص كو كہا جاتاہے جن سے چھپ كر گفتگوكى جائے يہ جملہ (خلّصوا) كے فاعل كے ليے حال ہے پس (خلصوا نجيئاً) كا معنى يہ ہوا كہ برادران يوسف دوسروں سے جدا ہوكر عليحدگى ميں راز كى باتيں كرنے لگے_

۳ _ فرزندان يعقوبعليه‌السلام نے بنيامين كو مصر كے سفر سے واپس لوٹانے كے ليے اپنے والد گرامى حضرت يعقوبعليه‌السلام سے وعدہ اور قسم اٹھائي تھي_أن اباكم قدأخذ عليكم موثقاً من اللّه

۶۰۴

۴ _ بنيامين كے آزاد ہونے ميں نااميد ہوجانے كے بعد اكثرفرزندان يعقوبعليه‌السلام كا نظر يہ تھا كہ وہ سب كنعان واپس چلے جائيں _قال كبيرهم ا لم تعلموا فلن أبرح الارض

(ألم تعلموا ) ميں استفہام توبيخى ہے حضرت يعقوب كے بڑے بيٹے (لاوي) كى اس بات پر كہ ( فلن أبرح الارض) ميں مصر كى سرزمين سے نہيں جاؤں گا ) سے يہ نتيجہنكلتاہے كہ اس كى اپنے بھائيوں كى توبيخ اور سرزنش كا سبب يہ تھا كہ وہ انہيں واپس لوٹنے پر مصمم ديكھ رہا تھا _

۵_حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بڑےبيٹے نے يہ ارادہ كرليا كہ وہ مصر كى سرزمين پر ٹھہر جائے اور كنعان واپس نہ جائے _

فلن أبرح الارض حتى يأذن لى أبي

''براح'' (أبرح) كا مصدر ہے جسكا معنى جدا اور دور ہونے كا ہے (الارض) ميں ''الف ولام '' عہد حضورى كا ہے اور يہ اس شہر و علاقے كى طرف اشارہ ہے جہاں بنيامين گرفتار كيا گياہے _

۶_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بڑے بيٹے كى اس بات پر پشيمانى و ناراضگى كہ وہ اپنے عہد و پيمان پر پورا نہ اترے (بنيامين كو واپس لے آنے ميں )قال كبيرهم قد أخذعليكم موثقاً فلن أبرح الارض

۷_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بڑے بيٹے كے ہاں بنيامين كے بغير قافلہ كو واپس لے جانا، اپنے اور اپنے بھائيوں كے ليے قسم كى مخالفت اور عہد شكنى تھي_قال كبيرهم ألم تعلموا أن أباكم قد أخذعليكم موثقاً من اللّه

لاوى كا (ألم تعلموا أں أباكم قد أخذ عليكم موثقا ) كے جملہ كو (فلن أبرح ...) پر تفريع اور وضاحت كرنے كا مقصد يہ تھا كہ جو عہد و پيمان ہم نے حضرت يعقوبعليه‌السلام سے كياہے اس كى وجہ سے ہمارے ليئے مناسب نہيں ہے كہ بنيامين كے بغير واپس لوٹيں ( اگر تمہارا ارادہ واپس لوٹنے كا ہے تم جانو) ليكن ميں تو واپس نہيں جاؤں گا_

۸_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كا بڑا بيٹا، دوسرے بھائيوں كى نسبت اپنے عہد و پيمان پر زيادہ كاربند تھا_

۶۰۵

قال كبيرهم ألم تعلموا أن ا باكم قد ا خذ عليكم موثقاً من اللّه فلن أبرح الأرض

۹_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بڑے بيٹے نے بھائيوں كے حضرت يوسفعليه‌السلام پر ظلم و ستم كو ياد كركے باپ كے پاس بغيربنيامين كے جانے كو نامناسب سمجھا_ألم تعلموا من قبل ما فرطتم فى يوسف

(ما) (مافرّطتم ) ميں مصدريہ ہے اور (من قبل ما فرطتم ) كى عبارت كا عطف ( أن أباكم ...) پر ہے _ يعنى (ألم تعلموا تفريطكم فى يوسف من قبل ) تفريط كا معنى كسى شى كے نابود ہونے تك كوتاہى كرنا يا چھوڑ دينا ہے (لسان العرب)

۱۰_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بڑے بيٹے نے اپنے بھائيوں كے حضرت يوسفعليه‌السلام كے ساتھ برتاؤكى مذمت كى _

قال كبيرہم و من قبل ما فرطتم فى يوسف

۱۱_حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بڑے بيٹے نے بنيامين كے بغير مصر واپس لوٹنے كے ليے يہ شرط لگائي كہ حضرت يعقوبعليه‌السلام كى طرف سے اجازت كا پيغام آئے يا خداوند متعال كى طرف سے كوئي حكم آئے_

فلن أبرح الا رض حتى يأذن لى أبى او يحكم اللّه لي

لاوى كى يہ بات كہنا كہ (حتى يأذن لى أبي ) اس معنى كو بتاتاہے كہ ان كے باپ حضرت يعقوبعليه‌السلام اس بات پر اطمينان كريں كہ ہم نے بنيامين كى حفاظت ميں كوتاہى نہيں كى بلكہ جو كچھ كہہ كر آئے تھے (الاّ ان يحاط بكم ) اس پر عمل پيرا ہوئے ہيں _ يا اگر ان كو ہمارى اس بات پر اطمينان نہ آئے اور اپنے وعدہ سے چشم پوشى كرلے تو اس صورت ميں ہميں اجازت ديں كہ ہم واپس لوٹ آئيں _ اور ممكن ہے كہ (يحكم اللّہ ) كا معنى يہ ہو كہ خدا كوئي سبب پيدا كرے كہ ميں بنيامين كو عزيز مصر كے ہاتھوں سے آزاد كركے واپس لوٹا سكوں _

۱۲_ خداوند متعال، بہترين فيصلہ اور حكم كرنے والا ہے_وهو خير ا لحاكمين

۱۳_ لاوي، خداوند متعال كے بہترين قضاوت و حكم كرنے پر اعتقاد ركھتا تھا_قال او يحكم اللّه لى و هو خير الحاكمين

۱۴ _ ''عن أبى الحسن الهادى عليه‌السلام : قال (لاوى ) : لن أبرح الا رض حتى يا ذن لى أبى (۱) امام ہادىعليه‌السلام سے روايت ہے: كہ (لاوي) نے كہا :ميں اس سرزمين سے دور نہيں جاؤں گا جب تك مجھے ميرا باپ اجازت نہ دے _

____________________

۱)تفسير قمى ج۱ ص ۳۵۶; نورالثقلين ج۲ ص ۴۶۸ح ۲۰۹_

۶۰۶

اسماو صفات:خير الحاكمين ۱۲

اللہ تعالى :اللہ تعالى كى خصوصيات ۱۲ ; اللہ تعالى كى قضاوت ۱۲

برادران يوسف :برادران يوسفعليه‌السلام اور بنيامين ۳ ; برادران يوسفعليه‌السلام اور بنيامين كى نجات ۱ ، ۲ ;برادران يوسف اور يعقوبعليه‌السلام ۳ ;برادران يوسفعليه‌السلام اور يوسفعليه‌السلام كى رضايت ۱۰ ; برادران يوسفعليه‌السلام كا عہد ۳;برادران يوسفعليه‌السلام كا قسم ياد كرنا ۳ ;برادران يوسفعليه‌السلام كا كنعان كى طرف لوٹنا ۴;برادران يوسفعليه‌السلام كى سرزنش ۱۰ ;برادران يوسف(ع) كى سرگوشياں ۲;برادران يوسف كى مشورت۲ ; برادران يوسف(ع) كى نااميد ۲ ، ۴ ; برادران يوسفعليه‌السلام كے ملنے كا طريقہ ۱۰

روايت : ۱۴

عقيدہ :اللہ تعالى كى قضاوت پر عقيدہ ۱۳

قاضى :بہترين قاضى ۱۲

لاوى :لاوى اور اللہ تعالى كى تقديرات ۱۱ ; لاوى اور برادران يوسفعليه‌السلام كا ظلم ۹ ; لاوى اور بنيامين كى نجات ۶ ;لاوى اور حضرت يعقوبعليه‌السلام كى اجازت ۱۱ ، ۱۴ ;لاوى اور كنعان كى طرف لوٹنا ۹ ، ۱۱ ;لاوى كا ارادہ كرنا ۵ ; لاوى كا بنيامين كو واپس لوٹانے كى كوشش كرنا ۷ ; لاوى كا سرزمين مصر ميں ہونا ۵ ; لاوى كا عقيدہ ۱۳ ;لاوى كا غمگين ہونا ۶ ;لاوى كا قسم كو پورا كرنے كى كوشش كرنا ۷; لاوى كاو عدہ كرنا پورا كرنے كى كوشش كرنا۷ ،۸; لاوى كى سرزنش كرنا ۱۰ ;لاوى كى فكر ۷،۹،۱۱

حضرت يوسفعليه‌السلام :حضرت يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۱ ، ۲ ، ۳ ، ۴ ،۵ ، ۶ ، ۷ ، ۹ ،۱۰ ، ۱۱

۶۰۷

آیت ۸۱

( ارْجِعُواْ إِلَى أَبِيكُمْ فَقُولُواْ يَا أَبَانَا إِنَّ ابْنَكَ سَرَقَ وَمَا شَهِدْنَا إِلاَّ بِمَا عَلِمْنَا وَمَا كُنَّا لِلْغَيْبِ حَافِظِينَ )

ہاں تم لوگ باپ كى خدمت ميں جائو اور عرض كرو كہ آپ كے فرزند نے چورى كى ہے اور ہم اسى بات كى گواہى دے رہے ہيں جس كا ہميں علم ہيں اور ہم غيب كى حفاظت كرنے والے نہيں ہيں (۸۱)

۱_ لاوى نے اپنے بھائيوں كے كنعان واپس جانے پر رضايت كا اظہار كرتے ہوئے انہيں بنيامين كى چورى كى رپورٹ بيان كرنے كا طريقہ تعليم ديا_قال كبيرهم ارجعوا الى إبيكم فقولوا ى ابانا إن ابنك سرق

۲_ لاوى نے اپنے بھائيوں كو تاكيد كى كہ وہ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے سامنے بنيامين كے چورى كرنے كى گواہى پر تاكيد كريں _إن ابنك سرق

۳_ لاوى نے اپنے بھائيوں سے كہا كہ اپنے بابا كو يہ يقين دلوائيں كہ بنيامين نے چورى كى ہے اسكى رپوٹ اور گواہى ہم يقين كے ساتھ دے رہے ہيں _إن ابنك سرق و ما شهد نا إلاّ بما علمن

( ما شہدنا) ميں شہادت سے مرادكيا ہے اس ميں كئي احتمال ديئے گئے ہيں : ان ميں سے ايك يہ ہے كہ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے سامنے برادران يوسف كى يہ گواہى كہ آپكے بيٹے بنيامين نے چورى كى ہے (إن ابنك سرق) كى اساس جملہ ( ما شہدنا ...) ہے جس كا معنى يہ ہوگا كہ ابھى جو ہم آپ كے سامنے كہہ رہے ہيں كہ ( ان ابنك سرق) يہ ايسى گواہى ہے كہ علم و يقين كے ساتھ ہم مطمئن ہوكر دے رہے ہيں _

۴_ لاوى نے اپنے بھائيوں سے درخواست كى كہ اكٹھے ہوكر باپ كى خدمت ميں حاضر ہوں اور بنيامين كے چورى كرنے پر گواہى ديں

_ارجعوا إلى ابيكم فقولوا ما ش هدنا الابم علمن

لاوى كا جمع كے صيغوں كو لانا ( قولوا) و (ما شہدنا) و (علمنا) مذكورہ معنى كو بتاتاہے_

۵_ لاوى نے اپنے بھائيوں سے يہ چاہا كہ بنيامين كا چورى كرنا اور سفر كى رپورٹ كو محبت آميز لہجہ ميں باپ كے سامنے بيان كريں _يأ بان

لاوى كا يہ وضاحت كرنا كہ باپ سے گفتگو شروع كرتے وقت جملہ ( يأبانا ) سے مخاطب ہونا اس بات كو بتاتاہے كہ ايسے لہجے ميں بات كرےں كہجس سے انكى شفقت كو جلب كرسكو_

۶۰۸

۶_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كو بنيامين كے چورى كرنے كى رپورٹ ديتے وقت بھائيوں كا اپنے دل ميں موجود كينہ كا اظہار كرنا _

إن ابنك سرق

جملہ (إن ابنك سرق) (يقيناً آپ كے بيٹے نے چورى كى ہے )كو جس انداز ميں ذكر كيا گيا ہے اس سے معلوم ہوتاہے كہ بنيامين كے بھائي اپنے بغض و كينہ كا اظہار كررہے تھے_

۷_لاوى نے اپنے بھائيوں سے يہ درخواست كى كہ اپنے والد گرامى كو يہ بتائيں كہ بنيامين نے ہمارى آنكھوں سے پنہاں ہو كر چورى كى ہے _و ما كناّ للغيب حافظين

( و ما كنا ...) كے جملے ميں كئي احتمال ديئے گئے ہيں اس پر توجہ كرتے ہوئے كہ برادران يوسفعليه‌السلام بنيامين كے چور ہونے پر اطمينان ركھتے تھے (إن ابنك سرق) يہ اس بات كو بتاتاہے كہ جو كام ہمارى نظروں سے غيب ہوكر انجام ديا جائے اس كى ذمہ دارى ہم نہيں لے سكتے يعنى بنيامين نے چھپ كر چورى كى ہے اسى وجہ سے اسكو ہم نہيں روك سكتے تھے_

۸_بنيامين كا چھپ كر چورى كرنا اور ان كے بھائيوں كے ليے يہ عذر و بہانہبنانا كہ وہ اسكو روك نہيں سكتے تھے جس كى وجہ سے وہ اس كو حضرت يعقوبعليه‌السلام كے پاس واپس نہيں لا سكے_ارجعوا إلى إبيكم فقولوا و ما كنا للغيب حافظين

( و ما كنّا ...) كا جملہ اصل ميں ايك سوال كا جواب ہے كہ لاوي، حضرت يعقوبعليه‌السلام سے جسكا منتظر تھا_ يہ صحيح ہے كہ بنيامين نے چورى كى ہے ليكن تم نے اسے كيوں نہيں روكا تا كہ كام يہاں تك نہ پہنچ جاتا_

۹_ اگر فرزندان يعقوبعليه‌السلام يہ جانتے كہ شاہى پيالہ بنيامين كے سامان ميں ہے تو اپنے دين كے مطابق چور كى سزا كوبيان نہ كرتے_ما شهدنا الا بما علمنا و ما كنا للغيب حافظين

مذكورہ بالا معنى اس صورت ميں ہے كہ(ما شهدنا ) ميں شہادت و گواہى سے مراد ،آيت شريفہ (۷۵) (جزاؤه من وجد فى رحله ) چورى كرنے والے كا جو حكم بيان ہوا وہ ہو اس بناء پر (ما شهدنا الا بما علمنا و ما كن

۶۰۹

للغيب حافظين) كا معنى يوں ہو گا وہ جو كچھ ہم جانتے تھے ( كہ چور كى سزا اسكا غلامى ميں آنا ہے) ( اسكى گواہى دى ہے ليكن ہم يہ نہيں جانتے تھے كہ شاہى پيالہ بنيامين كے پاس ہے تا كہ اس حكم كو بيان نہ كرتے تو اس صورت ميں (حافظين) سے مراد (عالمين ) ہوگا_

۱۰_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے سامنے چور كى سزا بيان كرنے كے ليے (بنيامين) كے بھائيوں نے يہ عذر پيش كيا كہ وہ پنہانى امورسے بے خبر ہيں _ما شهدنا الا بما علمنا و ما كنا للغيب حافظين

برادران يوسف(ع) :برادران يوسف اور بنيامين كى چورى ۳ ، ۴ ، ۵ ،۹; برادران يوسف اور يعقوبعليه‌السلام ۸ ، ۱۰ ;برادران يوسفعليه‌السلام كا اطمينان ۳ ;برادران يوسفعليه‌السلام كا بہانہ تلاش كرنا ۸ ، ۱۰ ;برادران يوسفعليه‌السلام كى حضرت يعقوبعليه‌السلام كو رپورٹ دينا ۱ ، ۴ ،۵ ، ۶ ، ۷ ،۸ ; برادران يوسفعليه‌السلام كا كنعان كى طرف لوٹنا ۱ ; برادران يوسف كى تہمتيں ۸ ; برادران يوسف كى گواہى دينا ۲ ، ۳ ، ۴ ; برادران يوسف كے علم كا محدود ہونا ۱۰;برادران يوسفعليه‌السلام كے كينہ كا اظہار ۶

بنيامين :بنيامين پر چورى كى تہمت ۸ ;بنيامين پر چورى كى تہمت كے آثار ۶;بنيامين پر چورى كى گواہى ۲ ، ۳ ، ۴; بنيامين كى چورى كے گواہ ۶; بنيامين كے دشمن ۶

لاوى :لاوى اور برادران يوسف ۲ ، ۳ ،۵ ، ۷ ; لاوى اور بنيامين پر چورى كى تہمت ۷ ; لاوى اور بنيامين كا چورى كرنا ۱;لاوى كا تعليم دينا ۱ ، ۲ ; لاوى كى خواہشات و اميديں ۳ ، ۴ ، ۵ ، ۷ ; لاوى كى نصيحتيں ۲

جناب يوسفعليه‌السلام :جناب يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۱ ، ۲ ، ۳ ، ۴ ، ۵ ،۶، ۷ ، ۹ ،۱۰

آیت ۸۲

( وَاسْأَلِ الْقَرْيَةَ الَّتِي كُنَّا فِيهَا وَالْعِيْرَ الَّتِي أَقْبَلْنَا فِيهَا وَإِنَّا لَصَادِقُونَ )

آپ اس سستى سے دريافت كرليں جس ميں ہم تھے اور اس قافلے سے پوچھ ليں جس ميں ہم آئے ہيں اور ہم بالكل سچے ہيں (۸۲)

۱_ جہاں حضرت يوسفعليه‌السلام رہائش پذير (مصر)تھے وہاں لوگوں كے درميان بنيامين كى چورى كى خبر مشہور

۶۱۰

ہوگئي تھي_و سئل القرية التى كنا فيه

(قرية) زندگى گذارنے اور انسانوں كے اجتماع (شہر و ديہات )كى جگہ كو كہا جاتاہے اسى وجہ سے مذكورہ تفسير ميں اسكوآبادى سے تعبير كيا گيا ہے _ (آبادى سے سوال كرنا جبكہ سوال سے مقصود آبادى كے لوگ ہيں )_ يہ اس بات كو بتاتا ہے كہ بنيامين كى چورى كى خبر پورے شہر ميں پھيل گئي تھى اور تمام لوگ اس سے مطلع ہوگئے تھے_

۲_ فرزندان يعقوبعليه‌السلام كے ہمراہ قافلے والے بنيامين كى چورى كے واقعہ سے واقف تھے_و سئل العير التى ا قبلنا فيه

۳ _ فرزندان يعقوبعليه‌السلام كا يہ گمان تھاكہ ان كے والد گرامى بنيامين كى چورى كے واقعہ كى تصديق نہيں كريں گے _

و سئل القرية و العير التى ا قبلنا فيه

۴ _ لاوى نے اپنے بھائيوں سے استدعا كى كہ حضرت يعقوب(ع) سے اس بات كا تقاضا كريں كہ وہ اہل مصر اور ان كے ہمسفر قافلے والوں سے بھى بنيامين كى چورى كے بارے ميں پوچھ گچھ كريں _

فقولوا ىأ بانا و سئل القرية والعير التى ا قبلنا فيه

(اقبال ) (أقبلنا) كا مصدر ہے جو سامنے آناكے معنى ميں آتاہے اور اس كا متعلق (اليك) اور اسكى مثل ہے جو وضاحت كى وجہ سے كلام ميں ذكر نہيں ہوا اور( فيہا)(أقبلنا ) كى ضمير كے ليے حال ہے _ اس صورت ميں جملہ ( و سئل العير التي ...) كا مطلب يہ ہے اس قافلے والوں سے پوچھيں كہ جس كے ساتھ ہم آپكے پاس پہنچے ہيں _ يہ بات قابل ذكر ہے كہ يہ آيت گذشتہ آيت كى طرح لاوى كى ان نصيحتوں كے بارے ميں ہے جو اس نے اپنے بھائيوں كو كى تھيں _

۵_ فرزندان يعقوبعليه‌السلام ،مصر سے كنعانى قافلے كے ساتھ اپنے ديار كى طرف روانہ ہوئے_والعير التى ا قبلنا فيه

۶_ لاوى نے اپنے بھائيوں سے چاہا كہ والد گرامى كے سامنے اپنى اس سچائي پر كہ بنيامين نے چورى كى ہے تاكيد كريں _

و إنا لصادقون

۷_ عينى گواہوں كى گواہى دينا، مدّعى كو ثابت كرنے كا معتبر طريقہ ہے _و سئل القرية و العير التى اقبلنا فيه

احكام : ۷

برادران يوسف :برادران يوسف اوريعقوبعليه‌السلام ۳،۴ ; برادران يوسفعليه‌السلام كا كنعان كى طرف لوٹنا ۵ ; برادران

۶۱۱

يوسفعليه‌السلام كا گمان ۳;برادران يوسفعليه‌السلام كى اميديں ۴; برادران يوسفعليه‌السلام كى صداقت ۶

بنيامين :بنيامين پر چورى كى تہمت ۶ ; بنيامين كى چورى اور تجارتى قافلہ ۲; بنيامين كى چورى كى شہرت ۱ ،۲; بنيامين كى چورى كے بارے ميں چھان بين كرنا ۴

دعوى :دعوى كو ثابت كرنے كى دليليں ۷

گواہى :گواہى كے آثار ۷ ; گواہى كے احكام ۷

لاوى :لاوى اور برادران يوسفعليه‌السلام ۶ ;لاوى كى خواہشات ۶;لاوى كى نصيحتيں ۴

جناب يوسفعليه‌السلام :جناب يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۱ ، ۲ ، ۳،۴ ، ۵ ، ۶

آیت ۸۳

( قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ أَنفُسُكُمْ أَمْراً فَصَبْرٌ جَمِيلٌ عَسَى اللّهُ أَن يَأْتِيَنِي بِهِمْ جَمِيعاً إِنَّهُ هُوَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ )

يعقوب نے كہا كہ يہ تمھارے۱_دل نے ايك نئي بات گڑھ لى ہے ميں پھر بھى صبر جميل اختيار ركروں گا كہ شاہد خدا ان سب كو لے آئے كہ وہ ہر شى كے جاننے والا اور صاحب حكمت ہے (۸۳)

۱ _ فرزندان يعقوب(ع) ، كنعان واپس لوٹ آئے اور اپنے سفرنامہ كا حال اپنے والد گرامى كے سامنے اس طرح بيان كيا كہ جس طرح لاوى نے تاكيد كى تھي_ارجعوا إلى ابيكم فقولوا ى ابانا قال بل سولت لكم ا نفسكم امر

آيت ۸۱ ، اور ۸۲ كے مطالب كہ جسميں لاوى كى مصر ميں ہونے والى باتيں ہيں اور (بل سوّلت ...) كا جملہ حضرت يعقوبعليه‌السلام كى طرف سے ان كى باتوں كا جواب ہے _ اس سے معلوم ہوتاہے كہ پہلى بات تو يہ ہے كہ واقعہ كا كچھ حصہ اختصار كے طور پر بيان نہيں كيا گيا اوروہ يہ ہے(فرجعوا إلى ابيهم و قالوا كذا و كذا ...) دوسرى بات يہ ہے كہ جسطرح لاوى نے فرزندان يعقوبعليه‌السلام كو داستان بيان كرنے كى تاكيد تھى اسى طرح انہوں نے والد گرامى كے سامنے بيان كى _

۲ _ حضرت يعقوبعليه‌السلام نے بنيامين كى چورى كے واقعہ كوخود ساختہ داستانسمجھا اور اپنے بيٹوں كى بات پر يقين نہيں كيا _

قال بل سولت لكم أنفسكم أمر

كلمہ ( بل) اس بات پر دلالت كرتاہے كہ حضرت يعقوبعليه‌السلام نے اپنى بيٹوں كى بات كو قبول نہيں كيا _

۶۱۲

۳_ حضرت يعقوبعليه‌السلام ،بنيامين كى گرفتارى اور اسكے واپس نہ لوٹنے ميں اپنے بيٹوں كو قصور وار سمجھتے تھے_

قال بل سولت لكم انفسكم امر

۴ _ حضرت يعقوب(ع) ، گہرى فكر كے مالك اور حوادث كا تجزيہ كے سلسلہ ميں خاص ذہانت سے بہرہ مند نيز جلد يقين كرنے والے نہ تھے_قال بل سولت لكم أنفسكم امر

۵ _ حضرت يعقوب(ع) نے بنيامين كى گرفتار ى كو اپنے بيٹوں كى نفسانى خواہشات كے سبب سازش كا ايك نتيجہ قرار ديا _

قال بل سؤلت لكم انفسكم امر

جملہ ( سولت لكم ...) يعنى تمہارے نفس نے تمہارے غلط كام كو خوبصورت بناكر پيش كيا ہے اور اس كے مرتكب ہونے پر تمہيں آمادہ كيا اس جملے سے يہ ظاہر ہوتاہے كہ حضرت يعقوبعليه‌السلام اپنے بيٹوں كى سازش پر اطمينان ركھتے تھے_

۶_حضرت يعقوبعليه‌السلام يہ سمجھتے تھے كہ بنيامين كى گرفتارى كى بنياد ان كے بيٹوں ( يوسف ،بنيامين يا دوسرے بھائي ) كى سازش و مكر ہے_قال بل سوّلت لكم ا نفسكم ا مر

حضرت يعقوبعليه‌السلام نے اپنے بيٹوں كى بات پر كيوں يقين نہيں كيا حالانكہ وہ تو عينى گواہ ركھتے تھے جسميں شك كى گنجائش بھى نہيں تھى اس كے باوجود بھى ان پر سازش كا الزام لگايا _ اس بارے ميں جوابات دہيے گئے ہيں ۱ _ حضرت يعقوبعليه‌السلام اپنى خاص ذہانت و فراست كے سبب بنيامين كے صحيح ہونے پر اطمينان ركھتے تھے جس كى وجہ سے ان باتوں كو حقيقت سے دور سمجھتے تھے_۲ _ بنيامين كو گرفتار كرنے كے ليے كوئي سازش بنائي گئي تھى _ فارسى ميں مثل مشہور ہے كہ كاسہ زير نيم كاسہ بودہ_۳ _ يا يہ ايسى سازش تھى جوان كے بيٹوں نےتيار كى تھى اور يہ ايسى حقيقت تھى كہ حضرت يعقوبعليه‌السلام اپنى ذہانت اور فراست سے جسے جان چكے تھے ليكن يہ بات انكے ليے مخفى تھى اور جس پر وہ متوجہ نہ ہوئے كہ اس سازش كے بنانے والے خود بنيامين اور حضرت يوسفعليه‌السلام تھے_

۷_ انسان كا نفس برے اور ناروا كاموں كو خوبصورت جلوہ دينے اور ا سكے ارتكاب پر آمادہ كرنے پر قدرت ركھتاہے _

قال بل سولت لكم انفسكم امر

۸_ حضرت يعقوبعليه‌السلام نے اپنے بيٹوں (يوسفعليه‌السلام ،بنيامين اور لاوي) كے فراق ميں ہر قسم كى جزع و فزع اور شكوہ كرنے سے پرہيز اور صبر كرنے كو بہتر سمجھا_فصبر جميل

۶۱۳

( صبر جميل ) ايسا صبر ہے كہ جسميں جزع نہ ہو اور آنے والى مصيبت كا ذكر لوگوں سے نہ كرے (مجمع البيان)

۹_حضرت يعقوبعليه‌السلام ، صبر و بردبارى ركھنے والے بنى تھے_فصبر جميل

۱۰_ مشكلات اور تلخ ترين حوادث كے مقابلے ميں صبر و شكيبائي اختيار كرنا اچھى خصلت ہے _

مذكورہ معنى اس صورت ميں ہے كہ (صبر) مبتداء ہے اور (جميل) اسكى خبر ہے اور (فصبر جميل ) كى تركيب ميں دوسرا احتمال يہ ہے كہ (صبر) مبتداء محذوف كے ليے اور (جميل) (صبر) كے ليے خبر ہواگر صفت ہو تو معنى يوں ہوگا (امري) صبرجميل يا (صبر) صبر جميل و غيرہ

۱۱ _ حضرت يعقوبعليه‌السلام ،حضرت يوسفعليه‌السلام ، بنيامين اور لاوى كے زندہ ہونے پر يقين ركھتے تھے_

عسى اللّه أن يا تينى بهم جميع

(بہم ) كى جمع والى ضمير سے مراد حضرت يوسفعليه‌السلام بنيامين اور لاوى ہيں _

۱۲ _ حضرت يعقوبعليه‌السلام ،اپنے تينوں بيٹوں يوسف(ع) ، بنيامين اور لاوى كے واپس آنے اور ان كى ملاقات پر اميد ركھتے تھے_عسى اللّه ا ن يا تينى بهم جميع

۱۳ _حضرت يعقوبعليه‌السلام اپنے بيٹوں كے واپس لوٹنے ميں خداوند متعال كى مدد پر دل لگائے ہوئے اور اس كى امداد پراميد ركھتے تھے_عسى اللّه أن يأتينى بهم جميع

۱۴ _ حضرت يعقوبعليه‌السلام نے بنيامين پر چورى كى تہمت لگانے والے قصہسے صبركے ساتھ چشم پوشى كرلى اور اللہ تعالى كى مددسے دل لگاليا_فصبر جميل عسى اللّه أن يا تينى بهم جميع

۱۵_حضرت يعقو ب(ع) صبر و بردبارى كو مشكلات كے حل كرنے ميں خداوند متعال كى مدد كا پيش خيمہ سمجھتے تھے_

فصبر جميل عسى اللّه أن يا تينى بهم جميع

۱۶_ امداد الہى پر اميد ركھنے والے صابر اور ثابت قدم انسان ہيں _فصبر جميل عسى اللّه أن يا تينى بهم جميع

۱۷_ انسانوں كے امور كى تدبير، خداوند متعال كے اختيار ميں ہے _عسى اللّه أن يا تينى بهم جميع

۱۸_مشكلات و پريشانيوں سے نجات حاصل كرنے اور

۶۱۴

اپنى تمناؤں كو پانے كے ليے خداوند متعال پر توكل اور اس پر اميد ركھنا ضرورى ہے _عسى اللّه أن يأتينى بهم جميع

۱۹_ فقط خداوند متعال عليم اور حكيم ہے _إنه هو العليم الحكيم

ضمير فعل (ہو) اور اسكى خبر كا معرفہ ہونا، حصر پر دلالت كرتاہے _

۲۰_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كا خداوند متعال كے علم و حكمت پريقين و اعتقاد سبب تھا كہ حضرت يعقوبعليه‌السلام خداوند متعال كى مدد اور سہارے پر اطمينان ركھتے تھے_عسى اللّه أن يأتينى بهم جميعاً إنه هو العليم الحكيم

(إنہ ہو ...) كا جملہ ( عسى اللّہ ...)كے جملے كے ليے علت واقع ہوا ہے _

۲۱ _ علم خداوند ى اور اسكے حكيمانہ افعال پر يقين ركھنا اس پر بھروسہ كرنے اور اميد ركھنے كا پيش خيمہ ہے _

عسى اللّه أن يأتينى بهم جميعاً إنه هو العليم الحكيم

۲۲_ علم و حكمت كو خداوند متعال كى ذات ميں منحصر سمجھنے پر يقين ركھنا ،غير اللہ سے قطع اميد كا پيش خيمہ ہے _

عسى اللّه أن يا تينى بهم جميعاً انه هو العليم الحكيم

اگرچہ ( عسى اللّہ ...) كا جملہ حصر كا معنى نہيں ديتا ليكن يہ كہہ سكتے ہيں كہ (إنہ ہو ...) جو علت واقع ہوا ہے اس جملہ كى حصر اسميں سرايت كررہى ہے_ اس صورت ميں (عسى اللّہ ...) كا معنى يوں ہوگا كہ ميں فقط خداوند متعال پر اميد ركھتاہوں اس كے غير پر اميد نہيں ركھتا كيونكہ فقط وہ ذات دانا اور حكيم مطلق ہے _

۲۳ _ خداوند متعال كى مدد و حمايت پر اميد كا اظہار كرنے كے بعد اسكى حمد و ثناء كرنا، نيك اور پسنديدہ طريقوں ميں سے ہے _عسى اللّه أن يا تينى بهم جميعا ً

۲۴ _ حضرت يعقوبعليه‌السلام كا خداوند متعال كے علم و حكمت پر يقين ركھنا ان كے صبر و شكيبائي سے بہرہ مند ہونے كاسبب تھا_فصبر جميل إنه هو العليم الحكيم

جملہ (إنہ ہو ...) علاوہ اس كے كہ ( عسى اللّہ ...) كے ليے تعليل واقع ہوا ہے ممكن ہے (فصبر جميل) كے ليے بھى علت كو بيان كررہا ہو مذكورہ بالا معنى اسى احتمال كو بيان كرتاہے _

۲۵_حضرت يعقوبعليه‌السلام اپنے بيٹوں (يوسف(ع) ، بنيامين اور لاوى ) كے فراق و جدائي ميں گرفتار ہونے كو حكمت و مصلحت الہى سمجھتے تھے_فصبر جميل إنه هو العليم الحكيم

۲۶_ انسان كا افعال الہى كو حكيمانہ اور عالمانہ سمجھنا اسے دشوار حوادث اور مشكلات ميں صبر و شكيبائي اختيار

۶۱۵

كرنے پر اكساتاہے_فصبر جميل إنه هو العليم الحكيم

۲۷_'' عن الصادق عليه‌السلام فى قوله عزوجل فى قول يعقوب عليه‌السلام '' فصبر جميل'' قال : بلا شكوى (۱) امام جعفر صادقعليه‌السلام اس قول كے بارے ميں جو خداوند متعال حضرت يعقوبعليه‌السلام سے نقل فرمارہاہے (فصبر جميل) روايت ہے كہ اس صبر سے مراد ايسا صبر ہے جو بغير كسى گلہ و شكوہ كے ہو_

آداب:پسنديدہ آداب ۲۳

اسماء و صفات :حكيم ۱۹ ; عليم ۱۹

اللہ تعالى :اللہ تعالى كى حكمت ۲۵ ; اللہ تعالى كى خصوصيات ۱۹ ; اللہ تعالى كے اختيارات ۱۷ ;امداد الہى كا پيش خيمہ ۱۵

امداد الہى :امداد الہى پر اميد ركھنے والے ۱۶

اميد ركھنا :اللہ تعالى پر اميد ركھنا ۲۱ ; اللہ تعالى پر اميد ركھنے كى اہميت ۱۸; امداد الہى پر اميد ركھنا ۱۳ ، ۱۴ ، ۲۰ ، ۲۳ ; اميد ركھنے كے اسباب ۲۰ ، ۲۱

انسان :انسان كے اختيار ۷ ; انسان كے نفس كى قدرت ۷ ; انسانوں كا مدبر ہونا ۱۷

ايمان :اللہ تعالى كى حكمت پر ايمان ۲۰ ، ۲۱ ، ۲۲ ، ۲۴ ، ۲۶ ; اللہ تعالى كى خصوصيات پر ايمان ركھنا ۲۲ ; اللہ تعالى كے علم پر ايمان ۲۰ ، ۲۱ ، ۲۲ ، ۲۴ ، ۲۶;ايمان كے آثار ۲۰ ، ۲۱ ، ۲۲ ، ۲۴ ، ۲۶

برادران يوسفعليه‌السلام :برادران يوسفعليه‌السلام كا قصور ۳;برادران يوسفعليه‌السلام كا كنعان كى طرف لوٹنا ۱ ; برادران يوسفعليه‌السلام كا مكر ۶ ; برادران يوسفعليه‌السلام كى حضرت يعقوب(ع) كو رپورٹ ۱ ; برادران يوسفعليه‌السلام كى سازش كے آثار ۵ ;برادران يوسفعليه‌السلام كى نفس پرستى ۵

بنيامين :بنيامين كے فراق و جدائي كى حكمت ۲۵ ; بنيامين كے گرفتار ہونے كا سبب ۵ ،۶

توسل :اللہ تعالى پر توسل كرنے كى اہميت ۱۸

توكل: اللہ تعالى پر توكل كا پيش خيمہ ۲۱ ; اللہ تعالى پر توكل كرنے كے اسباب ۲۰ ;اللہ تعالى پر توكل كى اہميت ۱۸

____________________

۱) ا مالى شيخ طوسى ج۱ ص ۳۰ ; نورالثقلين ج۲ ص ۴۵۲، ح ۱۴۷_

۶۱۶

تمنائيں :تمناؤوں كے حصول كا پيش خيمہ ۱۸

حمد:اللہ تعالى كى حمد ۲۳

ذكر:ذكر الہى كى حكمت ۲۶ ; علم الہى كا ذكر ۲۶

روايت: ۲۷

سختى :سختى سے نجات كا پيش خيمہ ۱۸ ; سختى ميں صبر ۱۰ ، ۲۶;صبر ميں سختى كے آثار ۱۵

صابرين : ۱۶

صبر:صبر جميل سے مراد ۲۷;صبر كے عوامل ۲۴ ، ۲۶

صفات:پسنديدہ صفات ۱۰

عمل :ناپسنديدہ عمل كو زينت دينا ۷

لاوى :لاوى كے فراق ميں حكمت ۲۵

نااميدى :غير اللہ سے نااميدى كا پيش خيمہ ۲۲

يعقوبعليه‌السلام :يعقوب اور برا دان يوسف ۳۲;يعقوبعليه‌السلام اور بنيامين پر چورى كى تہمت ۲ ، ۱۴ ;يعقوبعليه‌السلام اور بنيامين سے ملاقات ۱۲ ;يعقوبعليه‌السلام اور بنيامين كا زندہ ہونا ۱۱ ;يعقوبعليه‌السلام اور بنيامين كا لوٹنا ۱۲;يعقوب اور بنيامين كى گرفتارى ۱۲; يعقوبعليه‌السلام اور لاوى سے ملاقات ۱۲ ; يعقوبعليه‌السلام اور يوسفعليه‌السلام سے ملاقات ۲ ۱ ; يعقوبعليه‌السلام اور لاوى كا زندہ ہونا ۱۱ ; يعقوبعليه‌السلام اور يوسفعليه‌السلام كا زندہ ہونا ۱۱;يعقوبعليه‌السلام كا آگاہ ہونا ۶ ; يعقوبعليه‌السلام كا ارادہ ۸ ;يعقوب(ع) كا اطمينان ۱۱ ; يعقوبعليه‌السلام كا اميد ركھنا ۱۲ ، ۱۳ ، ۱۴،۲۰;يعقوبعليه‌السلام كا ايمان ۲۰ ، ۲۴;يعقوبعليه‌السلام كا بنيامين كے فراق ميں ہونا ۸ ;يعقوبعليه‌السلام كا توكل ۲۰ ;يعقوبعليه‌السلام كا صبر ۸ ، ۹ ، ۱۴ ، ۲۴ ;يعقوبعليه‌السلام كا صبر كرنے كا اہتمام كرنا ۱۵ ; يعقوبعليه‌السلام كا قصہ ۱۱ ، ۱۲ ، ۱۴ ;يعقوبعليه‌السلام كا لاوى كے فراق ميں ہونا ۸ ; يعقوبعليه‌السلام كا يوسفعليه‌السلام كے فراق ميں ہونا ۸ ;يعقوبعليه‌السلام كو حوادث كى تحليل كرنے كا علم ۴;يعقوبعليه‌السلام كى فكر ۵، ۱۵،۲۵;يعقوبعليه‌السلام كى ہوشيارى ۴ ;يعقوبعليه‌السلام كے فضائل ۴ ، ۹

يوسفعليه‌السلام :يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۱ ، ۲ ، ۳ ، ۵ ، ۶;يوسفعليه‌السلام كے فراق و جدائي كى حكمت ۲۵

۶۱۷

آیت ۸۴

( وَتَوَلَّى عَنْهُمْ وَقَالَ يَا أَسَفَى عَلَى يُوسُفَ وَابْيَضَّتْ عَيْنَاهُ مِنَ الْحُزْنِ فَهُوَ كَظِيمٌ )

يہ كہہ كر انھوں نے سب سے منھ پھير ليا اور كہا كہ افسوس ہے يوسف كے حال پر اور اتنا روئے كہ آنكھيں سفيد ہوگئيں اور غم كے گھونٹ پيتے رہے (۸۴)

۱ _ حضرت يعقوب(ع) نے بنيامين كى گرفتارى كى خبر سن كر اپنے بيٹوں كو قصور وار سمجھ كر غصّہ سے ان سے منہ پھير ليا_و تولى عنهم

(تولى ) كا معنى منہ پھيرنا ہے_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كا اپنےبيٹوں سے منہ پھيرنا (فہو كظيم ) كے قرينے كى وجہ سے پتا چلتاہے كہ ايساكرنا غضب و غصہ كى وجہ سے تھے_

۲_ بنيامين كے واقعہ نے حضرت يعقوبعليه‌السلام كے ليے حضرت يوسف كى ياد كو تازہ كرديا اور يوسفعليه‌السلام كى جدائي پر ان كے شديد افسوس كے اظہار كا سبب بنا_و قال ىا سفى على يوسف

(اسفى ) كے آخر ميں ''الف'' ياء متكلم سے تبديل ہوكر الف بناہے اس صورت ميں (ياسفى ) يعنى اے ميرى حسرت و اميد_

۳_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كى حضرت يوسفعليه‌السلام سے شديداور لافانيمحبت تھي_

قال ياسفى على يوسف و ابيضت عيناه من الحزن

۴_حضرت يعقوبعليه‌السلام كا حضرت يوسفعليه‌السلام كے ساتھ دلى لگاؤ بنيامين اور اس كے دوسرے بھائيوں كى نسبت بہت زيادہ تھا_عسى اللّه أن يأتينى بهم جميعاً و قال يا سفى على يوسف

۵_ حضر ت يعقوبعليه‌السلام كا حضرت يوسفعليه‌السلام كے فراق ميں بہت زيادہ گريہ و زارى كرنا ،ان كى دونوں آنكھوں كى نا بينائي كا موجب بنا_و ابيضت عيناه من الحزن

(ابيضاض) مادہ ''بيض'' باب افعلال كا مصدر

۶۱۸

ہےجو سفيد ہونے كے معنى ميں ہے چشم كا سفيد ہونا نابيناہونے كے معنى سے كنايہ ہے _

۶_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كى بينائي كا چلاجانا ان كے بڑھاپے اور بنيامين كے گرفتار ہونے كے زمانے ميں تھا_

عسى اللّه ان يأتينى بهم جميعاً و ابيضت عيناه من الحزن

۷_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كا حضرت يوسف(ع) كے فراق ميں بہت زيادہ گريہ كرنا_و ابيضت عيناه من الحزن

(من الحزن) ميں (من ) تعليلى ہے اور اس بات كو بتاتاہے كہ حضرت يعقوبعليه‌السلام كا غم و حزن بينائي كے جانے كا سببتھا ليكن حزن و غم نے حضرت يعقوب(ع) كى آنكھوں پر اثر كيا نہ كہ دوسرے حواس پر اس سے معلوم ہوتاہے كہ حضرتعليه‌السلام كا بہت زيادہ رونا اور آنكھوں سے بہت زيادہ پانى كا چلا جانا ان كى بينائي كے جانے كا سبب تھا _

۸_ دوستوں كے فراق اور افسوس ميں غمگين ہونا اور رونا مقام نبوت كے منافى نہيں ہے _

قال يا سفى على يوسف و ابيضت عيناه من الحزن

۹_دوستوں كے فراق و جدائي ميں غم و اندوہ ميں مبتلا ہونا اور آنسو بہانا جائز ہے _

و قال يأسفى على يوسف و ابيضت عيناه من الحزن

۱۰_ غمگين ہونا اور آنسو بہانا، بردبارى اور صبر و شكيبائي كے ساتھ منافات نہيں ركھتا_

فصبر جميل و قال ياسفى على يوسف و ابيضت عيناه من الحزن

۱۱_ بہت زيادہ غم و اندوہ اوررونا،آنكھ كى سياہى كو سفيد كرنے اور نابينائي كا سبب ہے _و ابيضت عيناه من الحزن

۱۲_ حضرت يعقوب(ع) ، حضرت يوسفعليه‌السلام كے فراق ميں اندرونى طور پر بہت غم زدہ تھے اور حزن و اندوہ سے انكا دل لبريز تھا_و ابيضت عيناه من الحزن فهو كظيم

(كظيم) يہاں اسم مفعول (مكظوم) كے معنى ميں ہے يعنى جو اندرونى طور پر غم زدہ يا غيض و غضب سے بھرا ہوا ہو_

۱۳_حضرت يوسف(ع) و بنيامين كے بارے ميں اپنے بيٹوں كے سلوك سے حضرت يعقوب(ع) بہت غضبناك تھے اور ہميشہ اپنے غصہ كو كنڑول ميں ركھتے اور اس كا اظہار نہيں كرتے تھے _و تولّى عنهم فهو كظيم

(كظيم) اسم فاعل ( كاظم) كے معنى ميں بھى ہو سكتاہے يعنى وہ شخص جو اپنے غم و اندوہ يا غيض و غضب كو پى جائے اور اسكو ظاہر كرنے سے گريز كرے_

۱۴_حضرت يعقوبعليه‌السلام كا اپنے بيٹوں كو فراق يوسفعليه‌السلام اور بنيامين ميں قصور وار ٹھہرانے كے باوجود بھى پورے طور

۶۱۹

پر خاموش رہ جانا اس بات كو بتاتاہے كہ وہ اپنے غيض وغضب كو چھپانے پر قادر تھے _و تولى عنهم فهو كظيم

مذكورہ بالا معنى كااستفادہ ( ہو كظيم) كو حرف فاء كے ذريعہ جملہ (تولّى عنہم ) پر تفريح كى بناء پر ہے _

۱۵_ انسان كا اپنے غم و غصّے كو چھپانا اوراسكا اظہار نہ كرنا اس كے جسم و جان پر منفى اثرات مرتب كرتاہے _

و ابيضت عيناه من الحزن فهو كظيم

مذكورہ بالا معنى ( ہو كظيم ) كى تفريع و وضاحت جو حرف فاء كے ذريعے ( ابيضت عيناہ من الحزن) پر ہوئي ہے سے حاصل ہوتاہے_ يعنى حضرت يعقوب(ع) كى آنكھيں غم و اندوہ كے سبب بے آب ہوگئيں اور ان كا غم و الم ان كے دل ميں چھپا رہ گيا اور وہ اس كے اظہار كرنے سے پرہيز كرتے تھے_

۱۶_''عن أبى عبداللّه عليه‌السلام : قيل له كيف يحزن يعقوب عليه‌السلام على يوسف عليه‌السلام و قد اخبره جبرئيل أنه لم يمت و أنه سيرجع اليه فقال : إنه نسى ذلك (۱)

امام جعفر صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كہ آپ سے كہا گيا كہ كس طرح حضرت يعقوب(ع) ، حضرت يوسفعليه‌السلام كے ليے غمگين ہوتے تھے حالانكہ جبرئيلعليه‌السلام نے ان كو خبر دى تھى كہ حضرت يوسفعليه‌السلام زندہ ہيں اور جلد ہى آپ كى طرف پلٹ كر آئيں گے ؟امامعليه‌السلام نے فرمايا: حضرت يعقوبعليه‌السلام جبرائيل كى بات كو بھول گئے تھے_

۱۷_''سئل أبوعبداللّه عليه‌السلام ما بلغ من حزن يعقوب عليه‌السلام على يوسف عليه‌السلام ؟ قال : حزن سبعين ثكلى بأولادها (۲)

امام جعفر صادقعليه‌السلام سے پوچھا گيا كہ حضرت يعقوب(ع) ، حضرت يوسفعليه‌السلام كے بارے ميں كس قدر غمزدہ تھے تو حضرتعليه‌السلام نے جواب ديا كہ جس طرح ستر عورتيں اپنے جوان بيٹوں كى موت پر غم زدہ ہوں تو( ان ستر بيٹوں ) جتنا غم تھا_

احكام : ۹

انسان :انسان كى ضعيفى كے اسباب ۱۵

حزن و الم :

____________________

۱) تفسير عياشى ج۲ ص ۱۸۸، ح ۵۹ ; نورالثقلين ج۲ ص ۴۵۲ ; ح ۱۵۱_

۲) تفسير قمى ج۱ ص ۳۵۰ ; نورالثقلين ج۲ ص ۴۵۲_

۶۲۰