تفسير راہنما جلد ۸

تفسير راہنما 0%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 971

تفسير راہنما

مؤلف: آيت الله ہاشمى رفسنجاني
زمرہ جات:

صفحے: 971
مشاہدے: 166937
ڈاؤنلوڈ: 2789


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4 جلد 5 جلد 6 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 971 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 166937 / ڈاؤنلوڈ: 2789
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد 8

مؤلف:
اردو

۷_ قدرت اور دنياوى نعمتوں سے بہرمند ہونا، خداوند متعال كى عظيم نعمتوں ميں سے ہے _رب قد ء اتيتنى من الملك

چونكہ حضرت يوسفعليه‌السلام الطاف الہى اور اسكى شكر گزارى كے مقام بيان ميں ہيں اس سے معلوم ہوتا ہےكہ جن چيزوں كو انہوں نے ذكر كيا ہے وہ خداوند متعال كى نعمتوں ميں سے ہيں اور خدا كى بے شمار نعمتوں ميں سے چند نعمتوں كو جو ذكر كيا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے وہ بڑى عظمت اور بزرگى والى نعمتيں ہيں _

۸_ حضرت يوسفعليه‌السلام خوابوں كى تعبير اور آنے والے واقعات كے تجزيہ كا علم ركھتے تھے _علمتنى من تأويل الأحاديث

(احاديث) حديث كى جمع ہے صاحب مفردات نے لفظ حديث كے معنى ميں كہا ہے (كہ ہر وہ كلام جو سننے يا وحى كے ذريعہ خواہ بيدارى ميں يا خواب كى حالت ميں انسان تك پہنچے اسكو حديث كہتے ہيں )اسى وجہ سے احاديث سے مراد ممكن ہے خواب ياآئندہ كے واقعات و حوادث ہوں _

۹_ حضرت يوسفعليه‌السلام كا خوابوں كى تعبير و تأويل اور آنے والے واقعات كے تجزيہ كاعلم مطلق اور لا محدود نہيں تھا _

علمتنى من تأويل الأحاديث

مذكورہ معنى ( من ) تبعيض كى وجہ سے كيا گيا ہے

۱۰_ خداوند متعال، حضرت يوسفعليه‌السلام كو خوابوں اور حوادث كى تأويل اور تحليل كى تعليم دينے والا ہے

رب قد علمتنى من تأويل الأحاديث

۱۱_ خوابوں كى تعبير اور حوادث كى تحليل كا علم ، گرانقدر علم اور خداوند متعال كى نعمتوں ميں سے ہے _

و عملتنى من تأويل الأحاديث

۱۲_ خداوند متعال، آسمانوں اور زمين كو خلق كرنے والا ہے _فاطر السموات و الأرض

(فاطر) خلق كرنے اور پيدا كرنے كے معنى ميں آتا ہے _ يہ لفظ آيت كريمہ ميں منادى واقع ہوا ہے اصل ميں جملہ يہ ہے (يا فاطرالسموات )

۱۳_ كائنات كى خلقت،متعدد آسمانوں پر مشتمل ہے _

فاطر السموات

۱۴_ خداوند متعال انسانوں كا ولى اور سرپرست ہے اور ان كے تمام امور اس كے اختيار ميں ہيں _

أنت وليّ فى ا لدينا و الأخرة

۶۸۱

۱۵_ خداوند متعال كى حكمرانى اور سرپرستي، زمان و مكان كے ساتھ محدود نہيں بلكہ دنيا و آخرت ميں نافذ العمل ہے _

أنت وليّ فى الدنيا و الأخرة

۱۶_ كائنات كا خالق ہى حقيقت ميں انسانوں پر سرپرستى اور حكمرانى كرنے كى طاقت اور لياقت ركھتا ہے _

فاطر السموات و الأرض انت وليّ فى الدنيا و الأخرة

حضرت يوسفعليه‌السلام نے خداوند متعال كو آسمانوں اور زمين ( كائنات) كے خالق كى صفت سے متصف كرنے كے بعد اسے اپنا ولّى قرار ديا ہے تا كہ اس حقيقت كى طرف اشارہ كريں كہ كيونكہ وہ كائنات كا خالق ہے لہذا ولّى اور سرپرست بھى ہے _

۱۷_ حضرت يوسفعليه‌السلام كا صاحب قدرت و اختياراور خوابوں كى تعبيرو آئندہ كے حالات كى تحليل كے علم سے بہرہ مند ہونا، خداوند متعال كى ولايت و سرپرستى كے وسيلہ سے تھا _قدء اتيتنى من الملك و علمتنى أنت ولّى فى الدنيا و الأخرة

۱۸_ خداوند متعال اور اس كے احكام تقدير كے مقابلے ميں سر تسليم خم كرنا ضرورى ہے _توفنى مسلم

(اسلام ) (مسلماً) كا مصدر ہے _ جسكا معنى تسليم ہونا اور فرمانبردارى ہے _ يہاں (مسلماً) كے متعلق كو ذكر كر كے اس عموم كا معنى بتلانا مقصود ہے يعنى خداوند متعال جو فرمان دے يا تقدير بنادئے اس كے مقابلے ميں سر تسليم خم كرنا مراد ہے_

۱۹_ حضرت يوسفعليه‌السلام كى خداوند متعال سے درخواست اور يہ دعا تھى كہ تمام زندگى اور مرتے وقت بھى خداوند عالم كے حضور سر تسليم خم ہو_توفّنى مسلم

۲۰_ زندگى كے ختم ہونے تك تسليم خدا ہونا، خداوند متعال كيعظيم نعمتوں ميں سے ہے _توفّنى مسلم

(توفنى مسلماً ) (تسليم كى حالت ميں مجھے موت آئے) كا جملہ اس بات سے كنايہ ہے كہ ميں ہميشہ تيرى ذات اقدس كے سامنے سر تسليم خم رہوں اس طرح كہ جس لحظہ اور حالت ميں ميرى جان جارہى ہو ميں اس صفت كے ساتھمتصف ہوں _

۲۱_ خداوند متعال، انسانوں كو موت ديتا ہے اور ان كى جان و روح كو واپس ليتا ہے _توفنى مسلم

۶۸۲

(توفّي) كامل اور پورے طور پر لينے كے معنى ميں ہے _ اور اس سے مراد موت دينا ہے كيونكہ انسان كو مارنا، اسكى جان و روح كو لينا ہے _

۲۲_ نيك لوگوں كے ساتھ آخرت ميں زندگى بسر كرنا، خداوند متعال كى قابل قدر نعمتوں ميں سے ہے _و ألحقنى بالصالحين

جملہ ( الحقنى ) كا جملہ ( توفنى مسلما ً) كے بعد آنا اس بات كو بتاتا ہے كہ يہاں الحاق اور ملنے سے مراد، قيامت اور آخرت كے ميدان ميں ملنا ہے _

۲۳_بارگاہ الہى ميں حضرت يوسف(ع) نے اپنى دعا و مناجات ميں نيك لوگوں سے ملحق ہونے كى درخواست كى _

وألحقنى بالصالحين

۲۴_ انسان كو چاہيے كہ ہميشہ خداوند متعال كے مقابلے ميں سر تسليم خم رہنے، عاقبت با خير ہونے اور آخرت كى زندگى ميں صالحين كے ساتھ رہنے كى دعا اور خداوند متعال كى بارگاہ ميں راز و نياز كرے _توفنى مسلماً و الحقنى بالصالحين

۲۵_ خداوند متعال كى سرپرستى كو قبول كرنا، خدا كے سامنے سر تسليم خم ہونے اور آخرت كى زندگى ميں صالحين كے ساتھ زندگى بسركرنے كى لياقت كا پيش خيمہ ہے _أنت ولّى فى الدنيا و الأخرة توفنى مسلماً و ألحقنى بالصالحين

۲۶_ خداوند متعال كى نعمتوں كو ياد كرنا اور اسكى شائستہ صفات كے ساتھ حمد و ثناء كرنا، خداوند متعال كى درگاہ ميں دعا كرنے كے آداب ميں سے ہے _

ربّ قد ء اتيتنى من الملك فاطرالسموات و الأرض ...توفنى مسلماً وألحقنى بالصالحين

۲۷_ خداوند متعال كى اطاعت اور اس كے سامنے تسليم ہونا، صالحين كے زمرے ميں شامل ہونے كى شرط ہے _

توفنى مسلماً وألحقنى بالصالحين

۲۸_عن ا بى عبدالله عليه‌السلام يقول: بينا رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جالس فى ا هل بيته إذ قال : احبّ يوسف أن يستوثق لنفسه ...لما عزل له عزيز مصر عن مصر خرج الى فلاة من الأرض فصّلى ركعات فلمّا فرغ رفع يده إلى السماء فقال: '' ربّ قد آتيتنى من الملك و علّمتنى من تأويل الأحاديث فاطر السماوات و الأرض أنت وليى فى الدنيا و الأخرة '' قال: فهبط اليه جبرئيل فقال له : يا يوسف ما حاجتك ؟ فقال : رب'' توفنى مسلماً و ألحقنى بالصالحين'' فقال ابو عبدالله عليه‌السلام خشى

۶۸۳

الفتن'' (۱) امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كہ آپعليه‌السلام نے فرمايا: رسالت مآب اپنے اہل بيت كے ساتھ تشريف فرما تھے كہ بغير كسى تمہيد كے فرمايا كہ حضرت يوسفعليه‌السلام چاہتے تھے كہ اپنے كام كو محكم كريں ...جب عزيز مصر ان كے حق ميں اپنى حكمرانى سے بركنار ہوگيا تب حضرت يوسفعليه‌السلام ايك جنگل و بيابان ميں تشريف لے گئے اور وہاں چند ركعت نماز ادا كى اور جب نماز سے فارغ ہوئے تو آسمان كى طرف ہاتھ بلند كيے اور كہا (ربّ قد اتيتنى ...) آنحضرت -صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا كہ اس وقت حضرت جبرئيل نازل ہوئے اور ان سے كہا اے يوسفعليه‌السلام تيرى كيا حاجت ہے ؟ حضرت يوسفعليه‌السلام نے كہا: پرودرگار''توفنى مسلماً و الحقنى بالصالحين '' اس كے بعد امام جعفر صادقعليه‌السلام نے فرمايا حضرت يوسفعليه‌السلام فتنوں سے ڈر گئے تھے_آسمان :آسمان كا متعدد ہونا ۱۳; آسمانوں كا خالق ۱۲

ارواح:ارواح كا قابض ۲۱اسماء و صفات :فاطر ۱۲

اطاعت:خداوند متعال كى اطاعت كے آثار ۲۷

الله تعالى :الله تعالى كا عمل و دخل ۲۱; الله تعالى كى آخرت ميں ولايت و سرپرستى ۱۵;الله تعالى كى بخشش ۵; الله تعالى كى تعليمات ۱۰; الله تعالى كى خالقيت ۱۲; الله تعالى كى خصوصيات ۱۶; الله تعالى كى دنيا ميں ولايت ۱۵; الله تعالى كى مطلق ولايت ۱۵; الله تعالى كى نعمتيں ۱، ۷، ۱۱، ۲۰، ۲۲;الله تعالى كى ولايت و سرپرستى كو قبول كرنے كے آثار ۲۵;الله تعالى كى ولايت و سرپرستى كى خصوصيات ۱۵;الله تعالى كى ولايت و سرپرستى كى نشانياں ۱۷; الله تعالى كے احسان ۱;الله تعالى كے اختيارات۱۴

انجام:اچھے انجام كى اہميت ۲۰،۲۴

انسان :انسانوں كا ولّى وسرپرست ۱۴، ۱۶

تسليم:الله تعالى كے سامنے تسليم ہونے كا پيش خيمہ ۲۵; الله تعالى كے سامنے تسليم ہونے كى اہميت ۱۸، ۲۴ ; الله تعالى كے سامنے تسليم ہونے كے آثار ۲۷; دين كے سامنے تسليم ہونے كى اہميت ۱۸; مقدرات الہى كے سامنے تسليم ہونے كى اہميت ۱۸

تقرب:تقرب الہى كا پيش خيمہ ۱۴

____________________

۱) تفسير عياشى ج ۲ ص ۱۹۹، ح ۸۹; نورالثقلين ، ج ۲، ص۴۷۲، ح ۲۲_

۶۸۴

حمد:حمد الہى ۱، ۲۶

خلقت:خلقت كے خالق كى ولايت ۱۶

دعا :دعا كا پيش خيمہ ۴;دعا كى اہميت ۲۴; دعا كے آداب ۲، ۲۶

ذكر :اسماء و صفات كا ذكر ۴; الله تعالى ربوبيت كا ذكر ۲; الله كى حكمت كو ذكر كرنے كے آثار ۳; الله تعالى كے علم كو ذكر كرنے كے آثار ۳; الله تعالى كى نعمت كا ذكر ۲۶;الله تعالى كى نعمت كو ذكر كرنے كے آثار ۳;الله كى ربوبيت كو ذكر كرنے كے آثار ۳; ذكر كے آثار ۴

روايت ۲۸

زمين :خالق زمين ۱۲

صالحين :صالحين كى ہمنشينى كى شرائط ۱۷; آخرت ميں صالحين كى ہمنشيني۲۲، ۲۳، ۲۴، ۲۵

علم :تعبير خواب كے علم كى اہميت ۱۱;حوادث كى تحليل كے علم كى اہميت ۱۱

موت:موت كا سبب ۲۱

نعمت :آئندہ كے واقعات كى تحليل كے علم كى نعمت ۱۱;حكومت كى نعمت ۷; خداوند متعال كے سامنے تسليم خم ہونے كى نعمت ۲۰; خوابوں كى تعبير كے علم كى نعمت ۱۱; صالحين كے ساتھ رہنے كى نعمت ۲۲; قدرت كى نعمت ۷; نعمت كے مراتب ۷، ۲۰، ۲۲/ولايت :ولايت كا معيار ۱۶

يوسفعليه‌السلام :حضرت يوسفعليه‌السلام اور صالحين ۲۳;حضرت يوسفعليه‌السلام اور يعقوبعليه‌السلام ۱;حضرت يوسفعليه‌السلام اللہ تعالى كے حضور ميں ۳;حضرت يوسفعليه‌السلام پر احسان ۱; حضرت يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۱; حضرت يوسف(ع) كا ولى و سرپرست ۱۷;حضرت يوسفعليه‌السلام كو آيندہ كے واقعات كى تحليل كا علم ۸،۹،۱۰، ۱۷;حضرت يوسفعليه‌السلام كو خوابوں كى تعبير كا علم ۸، ۹،۱۰، ۱۷;حضرت يوسفعليه‌السلام كى عاجزى ۱۹;حضرت يوسفعليه‌السلام كى حكومت ۱۷; حضرت يوسفعليه‌السلام كى حكومت كى حدود ۶;حضرت يوسفعليه‌السلام كى دعا ۱، ۱۹، ۲۳، ۲۸;حضرت يوسفعليه‌السلام كى شكر گزارى ۱;حضرت يوسفعليه‌السلام كى قدرت كا سبب ۱۷;حضرت يوسفعليه‌السلام كى نعمتيں ۱;حضرت يوسفعليه‌السلام كے تقرب الہى كا سبب ۳;حضرت يوسفعليه‌السلام كے علم كا محدود ہونا ۹;حضرت يوسفعليه‌السلام كے فضائل ۵، ۸

۶۸۵

آیت ۱۰۲

( ذَلِكَ مِنْ أَنبَاء الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ وَمَا كُنتَ لَدَيْهِمْ إِذْ أَجْمَعُواْ أَمْرَهُمْ وَهُمْ يَمْكُرُونَ )

پيغمبر يہ سب غيب كى خبريں ہيں جنھيں ہم وحى كے ذريعہ آپ تك پہنچارہے ہيں ور نہ آپ تو اس وقت۴_نہ تھے جب وہ لوگ اپنے كام پر اتفاق كررہے تھے اور يوسف كے بارے ميں برى تدبيريں كررہے تھے(۱۰۲)

۱_ گذشتہ تاريخ كے كافى اہم واقعات اور قصّے انسانوں پر مخفى اور پوشيدہ رہ گئے ہيں _ذلك من أبناء الغيب

''انباء'' نبأ كى جمع ہے _ (نبأ) جسطرح مفردات راغب ميں آيا ہے ايسى خبر كوكہا جاتا ہے جو بہت بڑا فائدہ ركھتى ہو _ '' غيب '' يعنى وہ شے جو لوگوں كى نظر اور حواس سے پنہاں ہواور اس كے بارے ميں كوئي اطلاع نہ ركھتے ہوں اور(من ابناء الغيب ) ''من'' تبعيض كے معنى ميں ہے _ پس (ذلك من انباء الغيب ) سے مراد يہ ہے كہ جو باتيں ذكر ہوئيں ہيں وہ ايسى باتيں تھيں جو لوگوں كى نظروں سے پوشيدہ تھيں _

۲_ حضرت يوسفعليه‌السلام كا قصّہ، تاريخ بشريّت ميں بہت اہم واقعہ تھا جو بعثت پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے پہلے لوگوں پر مخفى رہ گيا تھا _ذلك من انبا الغيب

(ذلك) حضرت يوسفعليه‌السلام كے قصّہ اور حضرتعليه‌السلام كے زمانے ميں جو واقعات رونما ہوئے ہيں اسكى طرف اشارہ ہے يعنى (ذلك النبأ من انباء الغيب ) سے يادكيا گيا ہے _

۳_ خداوند متعال نے حضرت يوسف(ع) كے واقعہ كى پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر وحيكے ذريعہ تشريح كى _

ذلك من انباء الغيب نوحيه اليك

۴_ قرآن مجيد، تاريخ بشريت سے آشنا ئي اور اہم تاريخى و مخفى ماند ہ واقعات كى شناخت كا سرچشمہ ہے_

ذلك من انباء الغيب نوحيه اليك

۵_ پيغمبر اسلام، نزول قرآن سے پہلے حضرت يوسفعليه‌السلام كى داستان كے حقائق اور خصوصيات سے واقف نہيں تھے _و ما كنت لديهم اذ أجمعوا أمرهم

(ما كنت لديہم ) ( كہ تو ان كے درميان نہيں تھا) كا جملہ كنايہ ہے كہ رسالتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حضرت يوسفعليه‌السلام كى داستان سے واقف نہيں تھے _

۶۸۶

۶_ رسالت مآبصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا حضرت يوسفعليه‌السلام كے قصّہ سے نزول قرآن مجيد سے پہلے آگاہ نہ ہونا، قرآن مجيد كے الہيہونے پر روشن دليل ہے _ذلك من أنباء الغيب نوحيه اليك و ما كنت لديهم

(ما كنت لديهم ) جملہ حاليہ ہے اور جملہ (نوحيہ اليك ) كے ليے بمنزلہ علت ہے _ يعنى قرآن مجيد كا وحى الہى ہونے كى حقيقت پر روشن دليل يہ ہے كہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حضرت يوسفعليه‌السلام كے قصّہ سے بے خبر تھے _ ليكن اسكو اچھے انداز ميں بيان كيا گيا ہے اوريہ سوائے وحى كے ممكن نہيں تھا_

۷_ برادران يوسفعليه‌السلام كا حضرتعليه‌السلام كے خلاف مكر و حيلہ اور سازش كرنے كا عزم و ارادہ _

اذأ جمعوا أمرهم و هم يمكرون

''اجماع'' (اجمعوا) كا مصدر ہے جو ارادہ اوركسى كام كے ليے آمادہ ہونے كے معنى ميں ہے_ اور''اجمعو''ميں ضمائر جمع سے مراد برادران يوسف ہيں ليكن يہ احتمال بھى بعيد نظر نہيں آتا كہ ان ضمائر سے مراد برادران يوسفعليه‌السلام كے علاوہ زليخا ، اور مصر كے حكمران ہوں _

۸ _ حضرت يوسفعليه‌السلام كے بھائيوں كا وہ اجتماع جسميں انہوں نے حضرتعليه‌السلام كے خلاف مكر و حيلہ اور سازش كا پروگرام بنايا تھا نزول قرآن مجيد سے پہلے، داستان يوسفعليه‌السلام كا يہ مخفى ترين حصہ تھا_إذ أجمعوا أمرهم و هم يمكرون

حضرت يوسفعليه‌السلام كى داستان كے اس حصّہ (بھائيوں كا ان كے خلاف مكر و حيلہ و سازش كى ميٹنگ كرنا ) كى ياد آورى اس بات كو بيان كرنے كے بعد كہ حضرت يوسفعليه‌السلام كا واقعہ غيبى باتوں ميں سے تھا اس بات كى طرف اشارہ ہوسكتا ہے كہ يہ داستان كا مخفى ترين حصہ ہے_

۹_ قرآن مجيد كا برادران يوسفعليه‌السلام ، زليخا اور مصر پر حكمران كميٹى كے مكر و حيلہ اور سازش كو بيان كرنا، اس كے وحى اور الہى ہونے پر روشن و واضح دليل ہے _ما كنت لديهم إذ أجمعوا أمرهم و هم يمكرون

(و ما كنت لديهم ) كا جملہ (ذلك من أبنا الغيب ) كے ليے علت كے مقام پر ہے_

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور قصہ يوسفعليه‌السلام ۳، ۵، ۶; آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى طرف وحى ۳ ; آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے علم كا محدود ہونا ۵، ۶

برادران يوسفعليه‌السلام :

۶۸۷

برادران يوسفعليه‌السلام كا مكر ۷، ۸، ۹

تاريخ :تاريخ كے مخفى حصّے ۱، ۲; تاريخ كے مصادر۴

زليخا :زليخا كا مكر ۹

شناخت :شناخت كے مصادر۴

قرآن مجيد:قرآن مجيد اور يوسفعليه‌السلام كا قصّہ ۸، ۹ ; قرآن مجيد كى اہميت ۴، ۵،۸;قرآن مجيد كے وحى ہونے كے دلائل ۶، ۹

قديمى مصر:قديمى مصر كے حكمرانوں كا مكر و حيلہ ۹

يوسفعليه‌السلام :يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۷;يوسفعليه‌السلام كے ساتھ مكر و حيلہ ۷، ۸، ۹ ;يوسفعليه‌السلام كے قصہ سے ناوافقيت ۲; يوسف(ع) كے قصہ كا آنحضرت سے پہلے ہونا ۲،۵; يوسفعليه‌السلام كے قصہ كے چھپے ہوئے پہلو ۸

آیت ۱۰۳

( وَمَا أَكْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِينَ )

اور آپ كسى قدر كيوں نہ چاہيں انسانوں كى اكثريت ايمان لانے والى نہيں ہے (۱۰۳)

۱_ اكثر لوگ قرآن مجيد اور وحى الہى پر ايمان لانے والے نہيں ہيں _و ما أكثر الناس بمؤمنين

(مؤمنين ) كا متعلق آيت قبل ( نوحيہ اليك) اور بعد والى آيت ( ان ہو ...)كے قرينہ كى بناء پر قرآن و وحى الہى ہے_

۲_ پيغمبر اسلام كا لوگوں كے اطمينان لانے كے سلسلہ ميں بہت حريص اور ان كى اكثريت ميں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى فراوان كو شش كا بے اثر ہونا _و ما اكثر الناس و لو حرصت بمؤمنين

''حرص'' كا معنى كسى شے سے بہت زيادہ لگاؤ اور اس كى دستيابى كيلئے كوشش كرنا ہے _

۳_اكثر لوگوں كا ايمان نہ لانے كا سبب ان كاحق قبول كرنے سے انكار ہے نہ كہ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى تبليغ ميں

۶۸۸

كوئي كمى تھى اور نہ ہى قرآن كى حقانيت كى دليل ميں كوئي نقص تھا_ذلك من ا نبا الغيب و ما أكثر الناس و لو حرصت بمؤمنين

اس سے پہلے والى آيت شريفہ ميں يہ بيان ہوچكا ہے كہ قرآن مجيد كى حقانيت اور اسكا خدا كى طرف سے ہونا روشن اور واضح بات ہے _ اور (و لو حرصت) كا جملہ يہ بتاتا ہے كہ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دين كى تبليغ ميں مستمر كوشش كى ہے _ يہ دو حقيقت اس بات كو بيان كرتى ہيں كہ لوگوں پر حجت اور دليل كا كام مكمل ہوگيا ہے _ اور ان كا ايمان نہ لانا ان كے حق كو قبول نہ كرنے كى وجہ سے ہے _

۴_خداوند متعال نے حضرت يوسف(ع) كے خلاف ان كے بھائيوں كے مكر و فريب كو بيان كر كے رسالت مآب كو تسلى دى ہے كہ لوگوں كى مخالفت كى فكر نہ كريں _إذ أجمعوا أمرهم و هم يمكرون و ما أكثر الناس و لو حرصت بمؤمنين

مذكورہ بالا معنى جملہ ( ما اكثر الناس ...) كابرادران يوسف(ع) كا حضرت يوسف(ع) كے خلاف مكرو سازش ( و ہم يمكرون) كے ساتھ كے خصوص ربط كا تقاضا ہے اور يہ اس نكتہ كى طرف اشارہ كرتا ہے كہ اے پيغمبر گرامي وہ تو فرزندان يعقوب تھے انہوں نے اپنے بھائي اور والد گرامى كے ساتھ كيا برتاؤ كيا _ اور تمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لوگوں كے ايمان نہ لانے كى وجہ سے غمگين نہ ہونا اور خود كو قصور وار خيال نہ كرو كيونكہ اكثر لوگ حق كو قبول نہيں كرتے_

۵_ لوگوں كا تكبر اورخود پسندي، پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور قرآن مجيد پر ايمان نہ لانے كا سرچشمہ ہے_

و ما أكثر الناس و لو حرصت بمؤمنين

مذكورہ آيت كريمہ ميں ممكن ہے حضرت يوسفعليه‌السلام اور ان كے بھائيوں كے قصہ كے كچھ نتائج كى طرف اشارہ ہو _ اس واقعہ ميں يہ بيان ہوا ہے كہ يوسفعليه‌السلام كے بھائيوں كا ان سے برتاؤ كا ايك سبب غرور اور خود كو بڑا سمجھنا تھا ، ( و نحن عصبة) اسى وجہ سے جملہ ( ما اكثر الناس ...) پورے واقعہ كو نقل كرنے كے بعد اس معنى كى طرف اشارہ ہے كہ اہل مكہ كا پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ايمان نہ لانے كى ايك وجہ ان كا غرور اور خود كو بڑا خيال كرنا تھا_

۶_ اہل مكہ كا پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ايمان نہ لانے كا ايك سببب انكى حسادت تھي_و ما اكثر الناس و لو حرصت بمؤمنين

مذكورہ بالا معنى گذشتہ توضيح سے معلوم ہوسكتا ہے_

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے حسد كرنا ۶; آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا لگاؤ ۲;

۶۸۹

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو تسلى دينا ۴;آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى كوشش ۳; آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى كوشش كابے اثر ہونا ۲

اكثريت :اكثريت پر حجت كا تمام كرنا ۳; اكثريت كا بے ايمان ہونا ۱

ايمان :آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ايمان نہ لانا ۱،۵; بے ايمانى كا سبب ۳، ۵، ۶; قرآن مجيد پر ايمان نہ لانا ۱، ۵; وحى پر ايمان نہ لانا ۱

برادران يوسف :برادران يوسف كا مكر ۴

حسد :حسد كے آثار

حق:حق قبول نہ كرنے كے آثار ۳

دين :دين كو نقصان پہنچانے والے اسباب كى شناخت ۵،۶

عجب :عجب كے آثار ۵

علايق :انسانوں كا ايمان كے ساتھ علاقہ و رابطہ ۲

قرآن مجيد :قرآن مجيد كى حقانيت ۳; قرآن مجيد كے قصوں كا فلسفہ ۴

كفر :آنحضرت كاانكار كرنے كا سبب ۶

مكہ :اہل مكہ كى حسادت ۶

يوسف :حضرت يوسف(ع) كا قصہ بيان كرنے كا فلسفہ ۴; حضرت يوسف(ع) كے ساتھ مكر و فريب ۴

۶۹۰

آیت ۱۰۴

( وَمَا تَسْأَلُهُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ إِنْ هُوَ إِلاَّ ذِكْرٌ لِّلْعَالَمِينَ )

اور آپ ان سے تبليغ رسالت كى اجرت تو نہيں مانگتے ہيں يہ قرآن تو عالمين كے لئے ايك ذكر اور نصيحت ہے (۱۰۴)

۱_ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قرآن مجيد اور وحى كى تعليم و تبليغ كرنے كے بدلے ذرہ برابر اجرت طلب نہيں كى كرتے تھے _

و ما تسئلهم عليه من اجر

لفظ ( سؤال) اور جو اس سے الفاظ سے مشتق ہوئے ہيں جب بغير حرف ( عن ) كے متعدى ہوتے ہيں ، جيسا كہ آيت شريفہ ميں ہے تو مطالبہ اور درخواست كرنے كے معنى ميں آتے ہيں _ اور لفظ ( اجر) نكرہ ہے جو نفى كے بعد واقع ہوا ہے اسى وجہ سے عموم پر دلالت كرتا ہے اور تھوڑى سى اجرت كو بھى شامل ہوگا_ اور (من) زائدہ بھى اسى معنى كى تاكيد كرتا ہے _

۲_كفاركے پاس قرآن مجيد اور پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ايمان نہ لانے كا كوئي عذر و بہانہ نہيں تھا_

و ما أكثر الناس و لو حرصت بمؤمنين و ما تسئلهم عليه من أجر

(۱۰۲)نمبر آيت كريمہ، نے قرآن مجيد اور رسالت مآب كى حقانيت كو ثابتكياہے اور (۱۰۳) نمبر آيت كريمہ كا اشارہ اسى معنى كى طرف ہے كہ رسالت مآب كے توسط سے قرآن مجيد اور تعليمات وحى لوگوں تك پہنچ گئي ہيں اور مورد گفتگو آيت اس مطلب كو بيان كررہى ہے كہ اس كے ان سے كوئي اجرت طلب نہيں كى گئي _ يعنى كافروں كے ايمان نہ لانے كا ہر عذر اور بہانہ بنانے كا راستہ بند كر ديا گيا ہے _

۳_ دينى مبلّغين كوقرآن كريم كى تعليم اورابلاغ دين كى اجرت لينے سے پرہيز كرنا چاہيے _و ما تسئلهم عليه من أجر

۴_اسلام اور قرآن مجيد كى تعليمات عالمگير اور كسى زمان و مكان اور گروہ كے ساتھ مخصوص نہيں ہيں _

ان هو إلاّ ذكر للعالمين

۵_ قرآن مجيد كے معارف اور ان كے احكام ايسے حقائق ہيں كہجہنيں سيكھا ارو ہميشہ ذہن نشين كرنا ضرورى ہے _ان هو الّا ذكر للعالمين (ذكر) ايسے علم و معرفت كو كہا جاتا ہے كہ ذہن ميں حاضر ہو اور اس سے غفلت نہ برتى جائے _ قرآن مجيد كو ذكر كى صفت سے ياد كرنا ،اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ اس كے حقائق كو سيكھا جائے اور انكو بھولنا اور ان سے غافل بھى نہيں ہونا چاہيے_

۶۹۱

۶_ قرآن مجيد كى تبليغ، مادى وسائل كى در آمد كا وسيلہ قرار نہ پائے_و ما تسئلهم عليه من أجر ان هو الاّ ذكر للعالمين

(ان ہو ...) كے جملے ميں حصر ، حصر اضافى و نسبى ہے اور جملہ ( و ما تسئلہم ) كے قرينہ سے يہ كہا جاسكتا ہے كہ اس سے مقصود يہ ہے كہ قرآن مجيد كو خداوند متعال نے پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نازل فرمايا تا كہ لوگوں كواسكے حقائق بتائيں اور اسكى تبليغ كريں نہ يہ كہ اسكو اپنى معاش اور زندگى چلانے كا ذريعہ قرار ديں اور پيغمبر گرامىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھى ايسے ہى كيا (ما تسئلهم )

۷_ قرآن مجيد كا زمانہ بعثت كے لوگوں سے خاص نہ ہونا يہ ايك مناسب دليل ہے كہ اسكى تبليغ كے بدلے ميں ان سے كوئي بھى اجرت نہيں مانگى گئي_و ما تسئلهم عليه من اجر ان هو الا ذكر للعالمين

مذكورہ بالا معنى اجر رسالت كو طلب نہ كرنے اور قرآن مجيد كا تمام عالم كے ليے ہونے كے درميان باہمى ارتباط كا تقاضا ہے _ يعنى چونكہ قرآن مجيد تمام لوگوں اور تمام زمانوں كے ليے ہے اس وجہ سے مناسب نہيں ہے كہ ايك گروہ و طائفہ خاص سے اسكى اجرت طلب كى جائے_

۸_ كسى وقت لوگوں كے خاص گروہ يا حتى اكثريت كا ايمان نہ لانا، دينى مبلغين كے ليے مايوسى اور نااميدى كا سبب نہيں بننا چاہيے_و ما أكثر الناس و لو حرصت بمومنين ان هو الّا ذكر للعالمين

(ان هو الا ذكر للعالمين ) كا جملہ، قرآن مجيد اور اسلام كے عالمگير ہونے پر دلالت كرتا ہے اور اسكو بعثت كے زمانے اور اہل مكہ سے خاص ہونے كى نفى كرتاہے_ يہ اس بات كى طرف اشارہ كرتا ہے كہ اے پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ كو مكہ كى اكثريت كے ايمان نہ لے آنے پر پريشان اور مايوس نہيں ہونا چاہئے كيونكہ قرآن مجيد فقط ان لوگوں كے ساتھ مخصوص نہيں ہے بلكہ پورى كائنات كے ليے ہے اگر يہ ايمان نہيں لاتے تو دوسروں كى طرف چلے جائيں _

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :آنحضرت اور قرآن مجيد كى تبليغ ۱;آنحضرت كى صفت تبليغ ۱۱

اسلام :

۶۹۲

اسلام كا پورى كائنات كے ليے ہونا ۴; اسلام كى خصوصيات ۴

ايمان :آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ايمان نہ لانا ۲;آنحضرت كى صفت تبليغ ۱۱

تبليغ :تبليغ ميں نقصان دينے والے اموركى شناخت ۳،۶،۸

ذكر :قرآن مجيد كے ذكر كى اہميت ۵

قرآن محيد :كا پورى كائنات كو شامل ہونا ۴; قرآن مجيد كا تقدسى ۶; قرآن مجيد كا تمام كائنات كے ليے ہونے كے آثار ۷; قرآن مجيد كى اہميت ۶; قرآن مجيد كى تبليغ كى اجرت۳، ۶، ۷; قرآن مجيد كى تعليم كى اہميت ۵; قرآن محيد كى خصوصيات ۴

كفر :كفر كا بے منطق و بے دليل ہونا ۲

مبلغين :مبلغين اور تبليغ كى اجرت ۳; مبلغين اور لوگوں كا كفر ۸; مبلغين كى ذمہ دارى ۳،۸;مبلغين كے اميدوار ہونے كى اہميت ۸

آیت ۱۰۵

( وَكَأَيِّن مِّن آيَةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ يَمُرُّونَ عَلَيْهَا وَهُمْ عَنْهَا مُعْرِضُونَ )

اور زمين و آسمان ميں بہت سى نشانياں ہيں جن سے لوگ گذر جاتے ہيں اور كنارہ كش ہى رہتے ہيں (۱۰۵)

۱_ زمين اور آسمان خداوند متعال كى توحيد اور وحدانيت كى بے شمار نشانيوں اور آيات پر مشتمل ہيں _

و كأيّن من آية فى السموات و الأرض

(كأيّن ) عدد كے ليے كنايہ ہے اور كثرت پرقرآن دلالت كرتا ہے _ يہ لفظ مبتداء اور جملہ (فى السموات و الأرض ) اسكى خبر ہے _ اور ( من آية) اسكى تميز ہے _ اور اس لفظ ( آية) سے مرادبعد والى آيت ميں ( و ما يومن اكثر ہم

۶۹۳

باللّہ ) كے قرينے كى وجہ توحيد و وحدانيت كى نشانى ہے _

۲_ كائنات ميں توحيد و احديت الہى كى نشانياں ، ہميشہ انسانوں كے سامنے اور منظر عام پر ہيں _

و كايّن من آية فى السموات و الارض يمرون عليه

(مرور) كا معنى گذرنے كاہے اور لوگوں كا آيات اور اللہ كى نشانيوں سے گزرنا، ان كے ديكھنے كو مستلزم ہے _ جيسے كہا جاتا ہے كہ انسان آسمانى آيات سے عبور نہيں كرتاہے اسى طرح (يمرون عليہا ) كا جملہ ان آيات كے بارے ميں كنايہ ہے كہ''وہ مشاہدہ كرتے ہيں ''

۳_ كفر اختيار كرنے والے، توحيد كى آيات اور نشانيوں ميں غور و فكر نہيں كرتے اورتوحيد پر انكى دلالت كو نہيں پاتے_

يمرون عليها و هم عنها معرضون

''اعراض'' (معرضون) كا مصدر ہے جو منہ پھير لينے كے معنى ميں ہے _ توحيد كى نشانيوں سے منہ پھير لينے كا معنى يہ ہے كہ اسميں غور و فكر نہيں كرتے اور اس كو درك نہيں كرتے كہ يہ خداوند متعال كى وحدانيت كے گواہ و دلائل ہيں _

۴_ وہ لوگ جو آسمانوں اور زمين ( كائنات ) ميں موجود نشانيوں سے خداوند متعال كى توحيد اور وحدانيت كو درك نہيں كر پاتے وہ اس لائق ہيں كہ انكى مذمت اور سرزنش كى جائے_وكأيّن من آية فى السموات و ال ارض يمرون عليها و هم عنها معرضون

آيت شريفہ كا انداز، مذمت اور سرزنش كو بتاتا ہے_

۵_ زمين متحرّك ہے اور انسانوں كو آيا ت آسمانى سے عبور كرواتى ہے _

كايّن من آية فى السموات و الارض يمرون عليه

اگر (يمرون عليہا ) كے جملے كا كنايہ ( مشاہدہ كرنا) معنى نہ كريں بلكہ حقيق معنيمراد ليں تو (زمين كى حركت كرنا)اس كا معنى ہوگا _كيونكہ آيات آسمانى پر عبوراس معنى كے ساتھ مناسب ہے كہ زمين حركت كرتى ہو اور اس حركت كے سبب انسان آيات الہى سے عبور كرتا ہے _ (تفسير الميزان سے يہ معنى ليا گيا ہے )_

۶_كائنات ،متعدد آسمانوں پر مشتمل ہے _كأيّن من ءاية فى السموات

آسمان :آسمانوں كا متعدد ہونا ۶;آسمانوں ميں آيات الہى كا ہونا ۱، ۴، ۵

آيات الہى :آيات آفاقى ۱، ۴; آيات الہى سے منہموڑنے والے ۳آيات الہى سے منہ موڑنے والوں كى

۶۹۴

سرزنش ۴; آيات كائنات كا مشاہدہ ۲

توحيد :توحيد كے دلائل ۱، ۲

زمين :زمين كى حركت ۵;زمين ميں آيات الہى كا ہونا ۱، ۴

سرزنش :سرزنش كے مستحقين ۴

كائنات:كائنات ميں خدا كى نشانيان ۴

كفار :كفار كا منہ پھيرنا ۳; كفار كى خصوصيات ۳

آیت ۱۰۶

( وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللّهِ إِلاَّ وَهُم مُّشْرِكُونَ )

او ران ميں كى اكثريت خدا پر ايمان بھى لاتى ہے تو شرك كے ساتھ (۱۰۶)

۱_ اكثر ايمان كا دعوى اور وجود الہى كا اعتراف كرنے والے، اسكا شريك خيال كرتے ہيں _

و ما يؤمن أكثر هم باللّه إلّا و هم مشركون

۲_ اكثر توحيد پرست توحيد كو كسى نہ كسى طريقہ سے شرك كے ساتھ مخلوط كر ديتے ہيں _و ما يؤمن أكثر هم باللّه إلاّ و هم مشركون

۳_ خالص توحيد پرست كہ جنكى توحيد،ہر قسم كے شرك سے منزہ ہے بہت كم ہيں _و ما يؤمن أكثر هم باللّه إلاّ و هم مشركون

۴_ توحيدى عقيدہ كو ہر قسم كے شرك سے دور ركھنے كي كوشش كرنا بہت ضرورى ہے _و ما يؤمن أكثر هم باللّه و هم مشركون

۵_عن ابى عبدالله عليه‌السلام (فى قول تعالى ) :'' و ما يؤمن اكثر هم بالله و هم مشركو ن'' انها نزلت فى مشركى العرب اذ سئلوا من خلق السماوات و الارض و ينزل المطر؟ قالوا : الله ثم هم يشركون و كانوا يقولون فى تلبيتهم : لبيك لا شريك لك الا شريكا هو انك تملكه و ما ملك (۱)

____________________

۱) مجمع البيان ج ۵ ; ص ۴۱۰; نور الثقلين ج ۲ ص ۴۷۶ ; ح ۲۳۷_

۶۹۵

امام جعفر صادقعليه‌السلام سے اللہ تعالى كے اس قول '' ما يؤمن اكثر ہم باللہ الا و ہم مشركون '' كے بارے ميں روايت ہے كہ يہ آيت كريمہ مشركين عرب كے بارے ميں نازل ہوئي ہے _ جب ان سے سوال ہوا كہ آسمانوں اور زمين كا خالق كون ہے اور بارش كون برساتا ہے ؟ تو جواب ميں كہتے ہيں خداوند متعال : ليكن اس كے باوجود بھى شرك كرتے تھے اور تلبيہ (يعنى اس كے حضور زبان سے اظہار كرنا ) كے وقت كہتے تھے لبيك _ تيرى ذات كا كوئي شريك نہيں سوائے اس شريك كے جو تجھ سے ہے اور تو اسكا مالك ہے اور جس كا وہ مالك ہے تو اس كا بھى مالك ہے_

۶_ عن ابى عبداللهعليه‌السلام (فى قوله تعالى ) _ ''و مايؤمن اكثر هم بالله و الا و هم مشركون''انهم اهل الكتاب آمنوا بالله و اليوم الاخر و التوراة و النجيل ثم اشركو بانكار القرآن و انكار نبوة نبيا محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم _(۱)

امام جعفر صادق عليہ السلام سے اللہ تعالى كے اس قول (و ما يؤمن اكثرهم با لله الا و هم مشركون ) كے بارے ميں روايت ہے كہ بے شك وہ اہل كتاب ہيں جو خداوند متعال اور روز قيامت اور تورايت و انجيل پر ايمان لائے ہيں _ پھر قرآن مجيد اور پيغمبر گرامى حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى نبوت كا انكار كركے مشرك بن گئے _

۷_عن ابى الحسن الرضا(ع) (فى قوله تعالى ) : ''و ما يؤمن اكثرهم بالله الا و هم مشركون '' قال : انه شرك لا يبلغ به الكفر _

'' و ما يؤمن اكثرهم بالله و هم مشركون '' كے بارے ميں امام رضا(ع) سے روايت ہے آپعليه‌السلام كہ اس بارے ميں فرماتے ہيں اس شرك سے مراد ايسا شرك ہے كہ جو بھى ايسا شرك ركھتا ہے ليكن وہ كفر كى حدتك نہيں پہنچتا _

۸_عن ابى جعفر صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : فى قوله الله تبارك و تعالى ''و ما يؤمن اكثرهم بالله الا و هم مشركون '' قال : شرك طاعة و ليس شرك عبادة و المعاصى التى يرتكبون شرك طاعة اطاعوا فيها الشيطان فاشركوا بالله فى الطاعة لغيره (۳)

امام محمد باقرعليه‌السلام سے اللہ تعالى كے اس قول ''ما يومن اكثر ہم باللہ الاّ ہم مشركون'' كے بارے ميں روايت نقل ہوئي ہے كہ آپ نے فرمايا كہ يہاں شرك سے مراد اطاعت ميں شرك ہے نہ كہ عبادت ميں شرك وہ ايسے گناہوں كا ارتكاب كرتے ہيں جس ميں اطاعت ميں شرك ہے نہ كہ شيطان كى اطاعت كرتے ہيں _ پس غير الله كى اطاعت كرنے سے وہ خداوند متعال كے يے شريك قرار ديتے ہيں _

____________________

۱)مجمع البيان ج۵ ص ۴۱۰ ; نور الثقلين ج ۲ ; ص۴۷۶ ج ۲۳۷ _۲)مجمع البيان ج ۵ ص ۴۱۰ بحار الانوار ج ص ۱۰۶_۳) تفسير قمى ، ج ۱ ص ۳۵۸; نور االثقلين ، ج ۲ ص ۴۷۵_ ج ۲۳۱_

۶۹۶

۹_عن ابى عبدالله عليه‌السلام ''و ما يؤمن اكثرهم بالله الا و هم مشركون '' فهم الذين يلحدون فى اسمائه بغير علم فيضعونها غير مواضها (۱)

امام جعفر صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كہآپ(ع) اللہ تعالى كے اس قول (و مايؤمن اكثرهم بالله و الّا و هم مشركون ) كے بارے ميں فرماتے ہيں كہ يہاں ايسے لوگ مراد ہيں جو اسماء الہى كے سلسلہ ميں جہالت كى بناء پر كجروى كرتے ہيں اور ان اسماء كو غير اللہ ميں استعمال كرتے ہيں _

۱۰_عن ابى عبدالله عليه‌السلام فى قوله :''و ما يؤمن اكثرهم بالله الا و هم مشركون '' قال : هو الرجل يقول : لولا فلان لهلكت ولو لا فلان ل اصبت كذاوكذا و لو فلان لضاع عيالي (۲)

اما م جعفر صادقعليه‌السلام سے قول خداوند متعال كے اس قول(و مايؤمن اكثرهم بالله والّا و هم مشركون ) كے بار ے ميں روايت ہے كہ اس سے مراد وہ شخص ہے كہ جو يہ كہے كہ اگر فلاں نہ ہوتا تو ميں ہلاك ہوجاتا ، اگر فلاں نہ ہوتا تو ميرے سر پر يہ گذرجاتى ، اگر فلاں نہ ہوتا تو ميرے اہل و عيال برباد ہوجاتے

۱۱_عن يعقوب بن شعيب قال : سألت ابا عبدالله '' وما يؤمن اكثرهم بالله الّا و هم مشركون'' قال : كانوا يقولون: نمطر بنو كذا و نبوّء كذا و منها انهم كانوا يأتون الكها ان فيصدّ قونهم فيما يقولون (۴) يعقوب ابن شعيب نقل كرتے ہيں كہ ميں نے امام جعفر صادقعليه‌السلام سے آيت كريمہ'' و ما يؤمن اكثرہم بالله الّا و ہم مشركون '' كے بارے ميں سوال كيا تو انہوں نے فرمايا كہ اس آيت سے مراد وہ لوگ ہيں جو يہ عقيدہ ركھتے ہيں كہ بارش كا برسنا اس ستارے كے سبب سے ہے يا اس كى فلانى حالت ميں آنے كے سبب سے ہے اور وہ لوگ كاہنوں اور جادوگروں كے پاس آتے اور ان كى باتوں كو قبول كرتے ہيں _

اعراب :اعراب كا شرك ۵

اكثريت :اكثريت كا شرك ۱; اكثريت كے شرك سے مراد ۷، ۸، ۹، ۱۰،۱۱

اہل كتاب :اہل كتاب كا شرك ۶

____________________

۱) توحيد صدوق ص ۳۲۴ح ۱ : نورالثقلين ، ج ۴۷۵ ، ج ۲۲۹ _۲)تفسيرعياشي،ج۲،ص ۲۰۰;ح ۹۶ ;نور الثقلين،ج ۲;ص ۴۷۶ ;ح ۲۳۵_

۳) (نو) كے لفظ سے مراد يا تو ستارہ ہيں يا ان كے مختلف حالات ہيں _۴) بحار الانوار ج ۶۹، ص۹۹ ح ۲۲; بحارالانوار ج۲،ص ۲۱۳، ح ۱۲

۶۹۷

الله تعالى :اسماء الہيہ ميں شرك الحاد كرنا ۹

ايمان :ايمان كے دعوے داروں كا شرك ۱

توحيد:شرك و توحيد كو ملانا ۲

روايت :روايت ۵، ۶، ۷، ۸، ۹، ۱۰، ۱۱

شرك:شرك افعالى ۵، ۸، ۱۰، ۱۱;شرك سے دورى كرنے كى اہميت ۴; شرك كے مراتب ۷

مؤمنين :مؤمنين كى كمى ۳

موحدين :موحدين اور شرك ۲;موحدين كى كمى ۳

آیت ۱۰۷

( أَفَأَمِنُواْ أَن تَأْتِيَهُمْ غَاشِيَةٌ مِّنْ عَذَابِ اللّهِ أَوْ تَأْتِيَهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً وَهُمْ لاَ يَشْعُرُونَ )

تو كيا يہ لوگ اس بات كى طرف سے مطمئن ہوگئے ہيں كہ كہيں ان پر عذاب الہى آكر چھا جائے يا اچانك قيامت آجائے اور يہ غافل ہى رہ جائيں (۱۰۷)

۱_ قرآن مجيد اور پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت كا انكار كرنے والے دنيا كے )عذاب ( عذاب استيصال) اور آخرت كے عذابوں ميں گرفتار ہونے كے خطرے ميں ہيں _أفأمنوا ان تاتيهم غاشية من عذاب الله او تاتيهم الساعة

(افامنوا) كى ضمير ممكن ہے ( اكثر الناس) كى طرف لوٹے جو آيت ۱۰۳ ميں ہے _ اس صورتميں اس ضمير سے مراد وہ لوگ ہيں جو قرآن مجيد و وحى الہى اور رسالت پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا انكار كرتے ہيں اور اس كے بارے ميں كافر ہوگئے ہيں _

۲_ مشركين،دنيا اور آخرت كے عذابوں ميں گرفتار ہونے كے خطرے سے دوچار ہيں _

افأمنوا ان تأتيهم غاشية من عذاب الله او تأتيهم الساعة

مذكورہ بالا معنى اس صورت ميں ہے كہ ( افامنوا) كى ضمير سے مراد وہ مشركين ہوں جو اس سے پہلے والى آيت ميں بيان ہوچكے ہيں _

۶۹۸

۳_ الله كے عذاب عالمگير عذاب ہيں اور اپنے مستحقين كو گھير لينے والے ہيں _افأمنوا ان تأتيهم غاشية من عذاب الله

(غاشيہ ) كا معنى تمام كو شامل ہونے والا ہے يہ لفظ ايك محذوف موصوف كے ليے صفت واقع ہوا ہے _ جو كہ ( عذاب الله ) كے قرينے كى وجہ سے ( عقوبة ) يا اسكى مثل الفاظ ہوسكتے ہيں _ اور (من ) كا حرف ممكن ہے يہاں تبعيض كے ليے واقع ہوا ہو _ اور يہ بھى احتمال ہے كہ (من ) بيانيہ ہو اگر دوسرا احتمال ليا جائے تو اس صورت ميں اس آيت كريمہ سے مذكورہ بالا معنى كو حاصل كرنا روشن اور بغير كسى ابہام كے ہے _

۴_ مشركين اور كفار، عذاب الہى سے فرار نہيں كرسكتے اور اپنے آپ كو اس سے نہيں بچاسكتے _

أن تأتيهم غاشية من عذاب الله

عذاب الہى كوعالمگير اور تمام كو شامل ہونے كى صفت سے ذكر كرنے كا مقصد يہ ہے كہ اس سے فرار ممكن نہيں اور پنے آپ كو اس كے دكھ و رنج سے محفوظ نہيں ركھا جا سكتا _

۵_ كفار اور مشركن كا دنيا و آخرت كے عذاب الہى سے محفوظ رہنے كا احساس تعجب آور اور نامناسب بات ہے _

أفأمنوا ان تأتيهم غاشية من عذاب الله و تأتيهم الساعة

(افأمنوا) ميں ہمزہ استفہام ممكن ہے توبيخى ہو يا تعجب كو بيان كرنے كے ليے ذكر ہوا ہو _يعنى يہ تعجب آور بات ہے كہ خداوند متعال كے عذاب سے اپنے آپ كو امن و امان ميں محسوس كر رہے ہيں _ حالانكہ توحيد اور رسالت پر واضح و روشن دليل و برہان ہوتے ہوئے بھى توحيد و رسالت كو قبول كرنے سے گريزاں ہيں _

۶_ قيامت ناگہانى اور انسانوں كى بے علمى و لا علمى ميں واقع ہوگى _أو تأتيهم الساعة بغته و هم لا يشعرون

(بغتة ) كا معنى ناگہانى طور پر اور پہلے اطلاع ديے بغير واقع ہونا ہے اور (وہم لا يشعرون) كا جملہ حال مؤكدہ ہے _ پس ان كا متوجہ نہ ہونا (بغتة ) كے لفظ سے معلوم ہوتا ہے_

۷_ بشريت كى تحقيق و علم قيامت كے برپا ہونے كے وقت كو معين كرنے حتى احتمال دينے سے بھى قاصر ہے _

أو تأتيهم الساعة بغتة و هم لا يشعرون

اس صورت ميں يہ كہہ سكتے ہيں كہ شيء ناگہانى اور اچانك واقع ہوئي ہے _ كہ انسان اس كے واقع ہونے كے زمانے كو احتمال و حدس كى صورت ميں بھى معين نہ كر سكتا ہو _

۸_ توحيد، قرآن مجيد اور رسالت پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے وجود پر روشن و واضح دلائل و حقانيت كا ہونا ان كے انكار

۶۹۹

كے ليے ہر قسم كے بہانہ كو ختم كرديتا ہے اور كفار كو عذاب الہى كا مستحق بنانے كا موجب بنتا ہے_

و ما اكثر الناس بمومنين و ما يؤمن اكثرهم بالله و الّا و هم مشركون أفأمنو

آيت ( ذلك من ابنا الغيب ...) جو حقانيت قرآن مجيد اور رسالت پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى حقانيت كى دليل پر مشتمل ہے _ اور آيت كريمہ (و كأيّن من آية ...) كہ جسميں توحيد كى دليل ہے _ اس پر فأ كا حرف جو (أفأمنوا) ميں ہے اس نے عذاب كے استحقاق كو مترتب كيا ہے يعنى كيونكہ اتمام حجت ہوگئي ہے اس ليے كسى بہانہ و عذركى ضرورت نہيں ہے اور كفار عذاب كے مستحق ہيں _

الله تعالى :الله تعالى كے عذابوں كا احاطہ كرنا ۳

امور:شگفت و تعجب آور امور ۵

انسان:انسانوں كے علم كا محدود ہونا ۷

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو جھٹلانے والوں كا آخرت ميں عذاب ۱; آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو جھٹلانے والوں كا دنيا ميں عذاب ۱; آنحضرت كى حقانيت كى وضاحت ۸

توحيد :توحيد كے واضح دلائل ۸

عذاب :اہل عذاب ۱، ۲; عذاب استيصال ۱; عذاب سے محفوظ رہنا ۵; عذاب كے اسباب ۸_

قرآن مجيد :قرآن مجيد كى حقانيت كى وضاحت ۸;قرآن مجيد كے جھٹلانے والوں كا آخرت ميں عذاب ۱; قرآن مجيد كے جھٹلانے والوں كا دنيا ميں عذاب ۱

قيامت :قيامت كا ناگہانى ہونا ۶; قيامت كا وقت ۷; قيامت كے بر پا ہونے كے خصوصيات ۶

كفار :كفار پر اتمام حجت كرنا۸; كفار پر عذاب۸; كفار پر عذاب كا حتمى ہونا ۴،۵

مشركين:مشركين پر آخرت كا عذاب ۲;مشركين پر اتمام حجت ۸; مشركين پر دنيا كا عذاب ۲; مشركين پر عذاب كا حتمى ہونا ۴،۵; مشركين كا عذاب ۸

۷۰۰