تفسير راہنما جلد ۸

تفسير راہنما 0%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 971

تفسير راہنما

مؤلف: آيت الله ہاشمى رفسنجاني
زمرہ جات:

صفحے: 971
مشاہدے: 166466
ڈاؤنلوڈ: 2772


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4 جلد 5 جلد 6 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 971 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 166466 / ڈاؤنلوڈ: 2772
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد 8

مؤلف:
اردو

آیت ۱۰۸

( قُلْ هَـذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللّهِ عَلَى بَصِيرَةٍ أَنَاْ وَمَنِ اتَّبَعَنِي وَسُبْحَانَ اللّهِ وَمَا أَنَاْ مِنَ الْمُشْرِكِينَ )

آپ كہہ ديجئے كہ يہى ميرا راستہ ہے كہ ميں بصيرت كے ساتھ خدا كى طرف دعوت ديتاہوں اور ميرے ساتھ ميرا اتباع كرنے ۱_ والا بھى ہے اور خدا پاك و بے نياز ہے اور ميں مشركين ميں سے نہيں ہوں (۱۰۸)

۱_ توحيد كا پر چار، قرآن مجيد كى تبليغ اور شرك كے خلاف جہاد كرنا پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ذمہ دارى اور راہ و رسم تھي_

قل هذه سبيلي

(ہذہ ) كا اشارہ ان مطالب كى طرف ہے جو گذشتہ آيت ميں ذكر ہوئے ہيں _ان ميں سے توحيد كا پرچار، شرك كى نفى ، قرآن مجيد كى تبليغ اور وحى كى تعليمات ہيں _

۲_ لوگوں كو خداوند متعال كى طرف بلانا اور اسكى طرف توجہ دلانا، پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ذمہ دارى اور راہ و رسم تھي_

ادعوا الى الله

۳_ہر قسم كے شرك سے پاكيزہ خالص توحيد ، قرآن و وحى پر ايمان اور خداتك پہنچنے كے راستہ ہيں _

و ما اكثر الناس و لو حرصت بمؤمنين و ما يؤمن اكثرهم بالله الّا و هم مشركون قل هذه سبيلى ادعوا الى الله

۴_ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس بات پر مامور تھے كہ اپنى رسالت كے عقائدى پروگرام كا صريح طور پر اعلان كريں _

قل هذه سبيلى ادعوا الى الله ...و ما أنا من المشركين مذكورہ بالا معنى لفظ (قل) سے استفادہ ہوا ہے _

۵_ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے توحيدى عقيدہ اور شرك كى نفى اور اس كے علاوہ لوگوں كو توحيد كى طرف بلانے اور شرك كے خلافجہاد كرنے كے ليے روشن دليل و

۷۰۱

حجّت ركھتے تھے _قل هذه سبيلى أدعوا الى الله على بصيرة انا و من اتبعني

(بصيرة ) كا معنى روشن دليل اور حجت ہے (لسان العرب) مذكورہ آيات اور مورد بحث آيت شريفہ ميں جن بعض چيزوں كو ذكر كيا گيا ہے وہ لفظ( بصيرة ) كے متعلق ہيں _

يہ بات قابل ذكر ہے كہ اسكى تركيب ميں چند احتمالات ديئےئے ہيں _ مثلاً ( على بصيرة ) لفظ (أنا ) كے ليے خبر واقع ہوا ہے _ اور جملہ (من اتبعنى ) لفظ (أنا) پر عطف ہے _ يعنى اصل ميں جملہ يوں ہوگا ( انا و من اتبعنى على بصيرة )_

۶_ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پيرو كار، موّحد اور اپنے توحيدى عقيدے پر دليل و حجّت ركھتے تھے _على بصيرة انا و من اتبعني

۷_ امّتوں اور لوگوں كى بصيرت ان رہبر و رہنما كى بصيرت كى وجہ سے ہے _على بصيرة انا و من اتبعني

(من اتبعنى ) كے جملے ميں ( على بصيرة ) كا تكرار نہ كرنا جب كہ مقصود يہى ہے اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ پيروكاروں كى بصيرت پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم (رہبر و رہنما) كى بصيرت كى وجہ سے ہے _

۸_ اسلامى معاشرے كے رہبر و رہنما اور دينى مبلغين كے ليے ضرورى ہے كہ روشن فكر اور با بصيرت ہونے كے ساتھ اپنے نظريے اور روش پر روشن و واضح دليل و حجت ركھتے ہوں _قل هذه سبيلى ادعوا الى الله على بصيرة ان

۹_ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پيروكار، لوگوں كو توحيد كى طرف بلانے اور شرك كے خلاف جہاد كرنے پر مامور ہيں _

ادعوا الى الله على بصيرة انا و من اتبعني

مذكورہ معنى اس صورت ميں ہے كہ ( على بصيرة ) (أدعوا) كے متعلق ہو تب اس صورت ميں لفظ (أنا) (أدعوا ) كى ضمير كے ليے تاكيد ہے _ اور ( من اتبعنى ) كا جملہ ( أدعوا ) كے فاعل پر عطف ہے توجملہ يوں ہوگا (أنا أدعوا الى الله على بصيرة و من اتبعنى يدعوا الى الله على بصيرة )

۱۰_ دينى عقائد كو حجت اور روشن دليل كى بنياد پر ركھنا ضرورى ہے _على بصيرة انا و من اتبعني

۱۱_ لوگوں كو توحيد كى طرف بلانا اور شرك كے خلاف جہاد كرنا، پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى صداقت كے ساتھ پيروى كرنے كى نشانى ہے _ادعوا الى الله على بصيرة ا نا ومن اتبعني

۱۲_ خداوند عالم ہر قسم كے عيب ونقص اور شريك ركھنے سے منزہ و مبرّہ ہے _

۷۰۲

(سبحان)كا معنى تسبيح (ہر عيب و نقص سے پاك و پاكيزہ ہونا ) ہے اور يہ لفظ ايك محذوف فعل ( اسبح نسبح) كے ليے مفعول مطلق ہے يعنى ( اسبح يا نسبح الله تسبيحاً )مورد نظر بحث ميں يہ عيب و نقص اور شريك ركھنے كے مصاديق ميں سے ہے_ يہ بات بھى قابل ذكر ہے كہ جملہ ( سبحان الله ) (ہذہ سبيلى ) كے جملے پر عطف ہے اور اصل ميں جملہ يوں ہے ( قل سبحان الله ) _

۱۳_ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كبھى بھى مشركين ميں سے نہيں تھے _و ما انا من المشركين

۱۴_ توحيد اور شرك كى نفى كرنا، دين اسلام كى بنياد ہے _قل هذه سبيلى و ما انا من المشركين

اسماء وصفات :صفات جلال ۱۲

اسلامى معاشرہ :اسلامى معاشرے كے رہبروں كا دليل كے ساتھ ہونا ۸; اسلامى معاشرے كے رہبروں كى بصيرت ۸

الله تعالى :الله تعالى اور عيب ۱۲;الله تعالى كا پاك و پاكيزہ ہونا ۱۲

امتيں :امتوں كى بصيرت كا پيش خيمہ ۷

ايمان :ايمان كے آثار ۳; قرآن مجيد پر ايمان ۳; وحى الہى پر ايمان ۳

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور مشركين ۱۳;آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا اخلاص ۵;آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا بلانا ۲;آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا پاك و پاكيزہ ہونا۱۳;آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا شرك كے خلاف جہاد۱;آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى پيروى ميں صداقت ۱۱; آنحضرت كى تبليغ ۴; آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى توحيد پرستى ۱۳ ;آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى توحيد پرستى كے دلائل ۵; آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ذمہ دارى ۱، ۲، ۳;آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى سيرت ۱، ۲; آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى وضاحت ۴ ; آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پيروكا ر و ں كا بلا نا ۹;آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پيروكاروں كى توحيد پرستى ۶;آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پيروكاروں كى ذمہ دارى ۹; آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے شرك كے خلاف جہاد پر دلائل ۵

بصيرت :بصيرت كى اہميت ۸

تبليغ :

۷۰۳

تبليغ ميں صراحت و وضاحت كرنا ۴

تقرب :تقرب كا طريقہ ۳

توحيد :توحيد ذاتى ۱۲;توحيد كى اہميت ۹، ۱۴; توحيد كى تبليغ ۱; توحيد كى دعوت دينا ۲، ۵، ۹;توحيد كى دعوت كے آثار ۱۱;توحيد كے آثار ۳; توحيد ميں اخلاص ۳

دين :اصول دين ۱۴

رہبرى :رہبرى كا كردار ۷;رہبرى كى اہميت ۱۷; رہبرى كے شرائط ۸

شرك :شرك كى نفى كرنے كى اہميت ۱۴;شرك كے خلاف بلانے كے آثار ۱۱; شرك كے خلاف جہاد كے ليے بلانا ۵، ۹

عقيدہ :عقيدہ ميں دليل كى اہميت ۱۰; عقيدہ ميں صراحت ۴

قرآن مجيد :قرآن مجيد كى تبليغ ۱

لوگ :لوگوں كو دعوت دينا ۲

مبلّغين :مبلّغين كا استدلال ۸; مبلغين كى بصيرت ۸; مبلغين كے شرائط ۸

مسلمين:مسلمين كا استدلال ۶;مسلمين كى توحيد كے دلائل ۶

معاشرہ :معاشرے كے رہبروں كى بصيرت كے آثار ۷

موحدين :۶

نظريہ كائنات :توحيدى نظريہ كائنات :۱۲

۷۰۴

آیت ۱۰۹

( وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ إِلاَّ رِجَالاً نُّوحِي إِلَيْهِم مِّنْ أَهْلِ الْقُرَى أَفَلَمْ يَسِيرُواْ فِي الأَرْضِ فَيَنظُرُواْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَدَارُ الآخِرَةِ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ اتَّقَواْ أَفَلاَ تَعْقِلُونَ )

اور ہم نے آپ سے پہلے انھيں مردوں كو رسول بنايا ہے جو آباديوں ميں رہنے والے تھے اور ہم نے ان كى طرف وحى بھى كى ہے تو كيا يہ لوگ زمين ميں سير نہيں كرتے كہ ديكھيں كہ ان سے پہلے والوں كا انجام كيا ہوا ہے اور دار آخرت صرف صاحبان تقوى كے لئے بہترين منزل ہے _كيا تم لوگ عقل سے كام نہيں ليتے ہو(۱۰۹)

۱_رسالتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مآب سے پہلے كئي انبياء عليہم السلام رسالت كے ساتھ مبعوث ہوئے_و ما أرسلنا من قبلك ا لّارجال

۲_ خداوند متعال، پيغمبروں كو مبعوث كرنے والا اور رسولوں كو بھيجنے والا ہےوما أرسلنا من قبلك الّا رجال

۳_ تمام انبياء عليہم السلام جنس بشريت او رمردوں كى صنف ميں سے تھے _و ما أرسلنا من قبلك الّا رجال

آيت شريفہ اس تو ہم كو دور كرنے كے درپے ہے كہ پيغمبروں كا فرشتوں سے ہونا ضرورى ہے _

اسى وجہ سے (رجال ) (مرد ) كا لفظ(فرشتوں ) كے مقابلے ميں ذكرہوا ہےليكن لفظ (انا ساً ) وغيرہ كى جگہ پر (رجالاً) كا ذكر كرنا اس حقيقت كى طرف اشارہ ہے كہ انبيا عليہم السلام عورتوں كى صنف سے نہيں تھے _

۴_انبيا عليہم السلام اپنے لوگوں اور اپنے معاشرے سے نبوت كے ليے منتخب ہوئے _و ما أرسلنا من قبلك الّا رجالاً من أ هل القرى

(قرى ) (قرية)كى جمع ہے جو وادى (صحرا وں اور بيابانوں ) كے مقابلے ميں ہے _اس كا شہروں اوربستيوں پراطلاق ہوتا ہے _ (القرى ) ميں الف لام ممكن ہے مضاف اليہ كےمقام پر ہو يعنى جملہ يوں ہوگا (من اہل قرى ہم ) اور يہ بھى احتمال ديا جاسكتا ہے (ال) اسميں عہد حضورى كا ہو يعنى ( ہذہ القرى )ليكن مذكورہ بالا معنى احتمال اول كى صورت ميں ہے _

۷۰۵

۵_ پيغمبروں كو خود انسانوں سے انتخاب كرنا، خداوند متعال كى روش اور سنّتوں ميں سے ہے _

و ما ارسلنا من قبلك الّا رجالاً ...من اهل القرى

۶_ خداوندمتعال كا اپنے پيغمبروں سے ارتباط،وحى كے ذريعے سے تھا_الّا رجالاً نوحى اليهم

۷_ پيغمبروں كو آبادى ميں رہنے والوں ( شہر و بستيوں ) سے چناگيا نہ كہ جنگل، صحرا و بيابانوں ميں رہنے والوں ميں سے _

الّا رجالاً نوحى اليهم من اهل القرى

۸_ گذشتہ انبياءعليه‌السلام كو جھٹلانے والے دنياوى عذابوں ميں گرفتار ہوئے _

أفلميسيروا فى الأرض فينظروا كيف كان عاقبة الذين من قبلهم

(أفلم يسيروا ) كى ضمير سے مراد مشركين اور مخالفين پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہيں اور (الذين من قبلہم) سے مراد، ان سے پہلے والى امتيں ہيں _

۹_ خداوند متعال، لوگوں كو اس بات كى دعوت دے رہا ہے كہ زمين كے مختلف مقامات پر سير كرو تا كہ ان لوگوں كى عاقبت اور برے انجام كا مشاہدہ كرو جنہوں نے گذشتہ انبيا ء كو جھٹلايا تھا _

افلم يسيروا فى الأرض فينظروا كيف كان عاقبة الذين من قبلهم

۱۰_ انبياءعليه‌السلام كوجھٹلانے والوں كے باقى ماندہ آثار كا مطالعہ كرنا گويا اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ وہ برى عاقبت اور عذاب الہى ميں گرفتار ہوئے _افلم يسيروا فى الأرض فينظروا كيف كان عاقبة الذين من قبلهم

۱۱_ خداوند متعال نے پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت كا انكار كرنے والوں كو برے انجام اور عذاب استيصال (دنياوى عذاب ) ميں گرفتار ہونے كى دھمكى دى _أفلم يسيروا فى الأرض فينظروا كيف كان عاقبة الذين من قبلهم

۱۲_ گذشتہ لوگوں كى تاريخ كا مطالعہ كرنا اور ان كے انجام سے عبرت حاصل كرنا ضرورى ہے _

أفلم يسيروا فى الأرض فينظروا كيف كان عاقبة الذين من قبلهم

۱۳_ آخرت كامقام، تقوى اختيار كرنے والوں اور

۷۰۶

شرك اور رسالت مآبصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى مخالفت سے پرہيز كرنے والوں كے ليے اچھامقام ہے _ولدار الأخرة خير للذين اتقو

(اتقوا) كا متعلق، گذشتہ آيات كے قرينے كى وجہ سے شرك اور انبياءعليه‌السلام كى مخالفت ہے _

۱۴_ تقوى پر عمل كرنا نيز شرك اور انبياءعليه‌السلام كى مخالفت سے پرہيز كرنا سعادت آخروى كو حاصل كرنے كا وسيلہ ہيں _

ولدار الأخيره للذين اتقوا

۱۵_ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور دوسرے انبياءعليه‌السلام ،لوگوں كو تقوى اختيار كرنے كى دعوت ديتے تھے _

و ما ارسلنا من قبلك الّا رجالاً ...ولدار الأخيره للذين اتقوا

۱۶_ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو بشر ہونے كى حيثيت سے جھٹلانا ان كى بے عقلى ، تاريخ بشر اور گذشتہ انبياءعليه‌السلام اور سنّت و روش الہى سے نا واقفيت كى دليل ہے _و ما ارسلنا من قبلك الّا رجالاً نوحى اليهم من اهل القرى ...أفلا تعقلون

(و ما ارسلنا ...) كے جملے كا لحن و انداز يہ بتاتا ہے كہ يہ جملہ اس وہم واحتمال كا جواب ہے جو يہ خيال كرتے تھے كہ خداوند متعال كى طرف سے بھيجا ہوا نمايندہ انسانوں سے نہيں ہوسكتا بلكہ فرشتوں يا ان جيسوں سے ہوسكتا ہے _

۱۷_ وہ لوگ جو انبياءعليه‌السلام كوجھٹلانے كے انجام كى فكر نہيں كرتے اور تقوى اختيار كرنے والوں كے آخرت كے پاكيزہ مقام كو نہيں سمجھتے وہ اس لائق ہيں كہ ان كى ملامت اور سرزنش كى جائے _أفلم يسيروا أفلا تعقلون

۱۸_ وہ لوگ جو پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى نبوت كو ان كے بشر ہونے كى بناء پر انكار كرتے ہيں وہ لائق ملامت ہيں _

و ما ارسلنا من قبلك الّا رجالاً ...افلا تعقلون

۱۹_دينى معارف كو سمجھنے كے ليے اپنى فكر و انديشہ سے كام لينے كى ضرورت ہے_

و ما ارسلنا من قبلك الّا رجالاً ...أفلا تعقلون

آخرت :آخرت كا اچھا ہونا ۱۳

الله تعالى :الله تعالى كا انبياءعليه‌السلام سے ارتباط كا طريقہ ۶; الله تعالى كا ڈرانا ۱۱;الله تعالى كا كردار۹ دخل ۲;الله تعالى كى دعوت دينا ۹; الله تعالى كى سنتوں اور روش سے جہالت كے دلائل ۱۶;الله تعالى كى سنتيں اور روش ۵

انبياء :

۷۰۷

انبياءعليه‌السلام كا اپنے لوگوں سے ہونا ۴; انبياء پر وحى ہونا ۶; انبياء سے مخالفت كو ترك كرنے كے آثار ۱۴; انبياءعليه‌السلام كا بشر ہونا ۳، ۵; انبياءعليه‌السلام كا شہر نشين ہونا ۷; انبياءعليه‌السلام كا مرد ہونا ۳;انبياءعليه‌السلام كو جھٹلانے والوں كا برا انجام ۱۰، ۱۱;انبياءعليه‌السلام كو جھٹلانے والوں كا عذاب ۸، ۱۰، ۱۱; انبياءعليه‌السلام كو جھٹلانے والوں كو دھمكى دينا ۱۱;انبياءعليه‌السلام كى بعثت كا سبب ۳;انبياءعليه‌السلام كى تاريخ ۱;انبياءعليه‌السلام كى تبليغ ۱۵;انبياءعليه‌السلام كى خصوصيات ۳;انبياءعليه‌السلام كے انتخاب كا مقام ۴، ۵ ، ۷ ;انبياءعليه‌السلام كے جھٹلانے والوں كے برے انجام كا مطالعہ كرنا ۹، ۱۰، ۱۷;انبياءعليه‌السلام ميں انسجام و يك سوئي ۱۵ ;كا حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے پہلے والے انبياءعليه‌السلام ۱;

انجام :برے انجام سے ڈرانا ۱۱

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا بشرہونا ۱۶، ۱۸; آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو جھٹلانے كے آثار ۱۶;آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو جھٹلانے والوں كى سرزنش ۱۸;آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى تبليغ ۱۵

تاريخ :تاريخ سے جہالت كے دلائل ۱۶;تاريخ كے مطالعہ كى اہميت ۱۲; تاريخ سے عبرت ۱۲

تقوى :تقوى كى اہميت ۱۵; تقوى كى دعوت دينا ۱۵ ; تقوى كے آثار ۱۴

دين :دين كو سمجھنے كا طريقہ ۱۹;دين ميں فكر و غور كرنے كى اہميت ۱۹

سرزنش :سرزنش كے مستحق ۱۷، ۱۸

سعادت :اخروى سعادت كا پيش خيمہ ۱۴

سياحت :سير و سياحت كرنے كا فلسفہ ۹ ;سير و سياحت كرنے كى تشويق ۹

شرك :شرك سے اجتناب كے آثار ۱۴

عبرت :عبرت حاصل كرنے كے اسباب و عوامل ۱۲

عذاب:اہل عذاب ۸، ۱۰; عذاب استيصال سے ڈرانا ۱۱

عقل :بے عقلى كى نشانياں ۱۶

متقين :آخرت ميں متقين ۱۳

وحى :وحى كا كردار۶

۷۰۸

آیت ۱۱۰

( حَتَّى إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ وَظَنُّواْ أَنَّهُمْ قَدْ كُذِبُواْ جَاءهُمْ نَصْرُنَا فَنُجِّيَ مَن نَّشَاء وَلاَ يُرَدُّ بَأْسُنَا عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ )

يہاں تك كہ جب ان كے انكار سے مرسلين مايوس ہونے ۲_ لگے اور ان لوگوں نے سمجھ ليا كہ ان سے جھوٹا وعدہ كيا گيا ہے تو ہمارے مدد مرسلين كے پاس آگئي اور ہم نے جن لوگوں كو چاہا انھيں نجات دے دى اور ہمار اعذاب مجرم قوم سے پلٹا يا نہيں جاسكتاہے (۱۱۰)

۱_ گذشتہ انبياءعليه‌السلام لوگوں كو توحيد پرستى كى طرف مائل كرنے ميں بہت كوشش كرتے تھے اور ان كى ہدايت كرنے ميں كافى مدت صرف كرتے تھے _حتّى اذا استيئس الرسل و ظنوا انهم قد كذبوا

(حتي) كا لفظ جملہ محذوف كے ليے غايت ہے _ اس آيت شريفہ اور اس سے پہلے والى آيت كو ديكھتے ہوئے ممكن ہے وہ محذوف جملہ يہ ہو_ وہ انبياءعليه‌السلام كہ جن كو گذشتہ امتوں كى طرف بھيجا گيا انہوں نے اپنے لوگوں كو توحيد كى دعوت دى ليكن انہوں نے قبول نہيں كيا _ ان كو عذاب كے آنے سے ڈرايا اور اس تبليغ سے وہ منصرف نہيں ہوئے كہ يہاں تك ...يہ بات واضح ہے كہ انبياءعليه‌السلام تھوڑى مدت ميں اگر كام پورا نہ ہو تو نااميد ہوجائيں ايسى بات نہيں ہے اور بغير كسى كوشش و محنت كے نا اميد ہونا بھى معقول بات نہيں ہے اسى وجہ سے يہ جملہ (حتّى اذا استيئس الرسل ) اس بات كى حكايت كرتا ہے كہ بہت طولانى مدت ميں اس كام كے ليے انہوں مسلسل كوشش و محنت كي_

۲_ عام لوگ پيغمبروں كى مخالفت كرتے تھے اور ان كى بات كو قبول كرنے سے انكار كرتے تھے _

حتّى إذا استيئس الرسل

اگر اكثر لوگ ايمان لے آتے تو انبياءعليه‌السلام مايوس نہ ہوتے پس ( استيئس الرسل ) كا جملہ اس بات كى حكايت كرتا ہے كہ اكثر يا تمام لوگ انبياءعليه‌السلام كى دعوت حق كو قبول نہيں كرتے تھے اور جملہ(فنجى من نشاء ) اس بات پر دلالت كرتا ہے كہ بعض لوگ ايمان لائے تھے _

۳_ كفار لوگوں كا انبياء كے جھٹلانے پر اصرار كرنا اور ان سے دشمنى اور لجاجت وھٹ دھرمى سے پيش آنا ، انبياء كى كاميابى اور اپنى قوم كے ايمان لانے پرنا اميدى كا باعث بنا_حتى اذا استئيس الرسل

(استئيس)كا متعلق لوگوں كا ايمان لانا اور انبياء كا كامياب ہو نا ہے _

۷۰۹

۴_ انبياءعليه‌السلام اپنى امت كے كفار كو عذاب الہى كے نازل ہونے سے خبردار كرتے تھے _و ظنوا انهم قد كذبوا

(ظنوا ) ميں جمع كى ضمائر (الذين) جو كہ سابقہ آيت كى طرف پلٹ رہى ہے _

۵_ كفار اور جھٹلانے والى امتوں كو مہلت دينا اور ان پر عذاب كے نازل كرنے ميں تا خير سے كام لينا خداوند متعال كى سنتوں اور روش ميں سے ہے _حتى اذا استئيس الرسل و ظنوا انهم قد كذبوا

جسطرح عذاب ميں تا خير تمام امتوں كے ليے تھى اسى طرح جھٹلانے والے بھى تمام انبياءعليه‌السلام كو جھٹلانے والے تھے كيونكہ (رسل ) جمع بھى ہے اور اس پر جو''الف لام'' تمام انبياء كو شامل ہے_ اس سے معلوم ہوتا ہے كہ جھٹلانے والوں كو مہلت دينا اور ان كے عذاب ميں جلدى نہ كرنا خداوند متعال كى دائمى روش اور سنت ہے _

۶_جھٹلانے والے كفار كے عذاب ميں تاخير اس كے جھوٹے ہونے پر اطمينان كا موجب ہوتى تھيو ظنوا أنهم قد كذبوا

(كذب) جھوٹ بولنے كے معنى ميں ہے (كذبوا) يعنى ان پر جھوٹ بولا گيا _ اب جملہ (فنجّى عن نشاء ) اور جملہ (لا يردّ بأسنا ) اس بات كو بتا تے ہيں كہ كفار جس كے بارے ميں جھوٹ خيال كرتے تھے وہ عذاب الہى كا نزول تھا يہ بات قابل ذكر ہے كہ (قد كذبوا) ميں جو (قد) ہے وہ تاكيد اور تحقيق كے ليے ہے _ جو يہ بتارہا ہے كہ (ظنوا ) كا لفظ اطمينان پيداكرنے كےليے ہے_

۷_ خداوند متعال اپنے پيغمبروں كى مدد كرنے والا اور ان كے مخالفين كى سركوبى كرنے والا ہے _

حتى اذا استيئس الرسل جاء هم نصرنا

۸_ انبياء كو جھٹلانے والوں پر عذاب كا نزول، خداوند متعال كى طرف سے اپنے انبياء و رسل كى مدد كرنے كى ايك جھلك ہے _جاء هم نصرنا فنجى من نشا

(جاء هم نصرنا ) خداوند متعال كى مدد سے مراد (فنجى من نشأ )كے قرينہ كے سبب، نزول عذاب ہے _ اسى وجہ سے نزول عذاب سے الله تعالى كى امداد كامراد لينا، مذكورہ بالا معنى كى تفسير ہے_

۹_ انبياء كا لوگوں كے ہدايت حاصل كرنے سے نا اميد

۷۱۰

ہوجانا اپنى امتوں پر نزول عذاب كے ليے شرط تھي_حتى اذا استيئس الرسل جاء هم نصرنا فنجى من نشاء

۱۰_ لوگوں سے ہدايت پانے كى قابليت و صلاحيت كا ختم ہو جانا ان پر عذاب الہى كے نزول كى شرائط ميں سے ہے_

حتى اذا إستيئس الرسل جاء هم نصرنا

۱۱_ خداوند متعال نے پيغمبروں اور ان كے پيرو كاروں كو استصيال كے عذابوں سے نجات عطا فرما ئي _

جاء هم نصرنا فنجى من نشاء

(نجى ) ماضى مجہول اور (من ) اس كا نائب فاعل ہے (نشاء) كا مفعول (نجاتہ) لفظ كى طرح ہے جس كا (نجى ) كے لفظ سے استفادہ كيا جارہا ہے _ اسى وجہ سے(فنجى من نشاء) كا معنى يہ ہوا كہ جسكى نجات كو ہم چاہتے تھے پس اسكى نجات ہوگئي اور (من نشاء) كے مصاديق جو مورد نظر ہيں وہ انبياءعليه‌السلام اور ان كے پيرو كار ہيں _

۱۲_ خداوند متعال، تقوى اختيار كرنے والوں اور نيك كام كرنے والوں كو استيصال كے عذابوں سے نجات عطا فرماتا ہے _فنجى من نشاء

( من نشاء) كے مصاديق ميں پيغمبروں كے علاوہ تقوى اختيار كرنے والے اور نيك لوگ بھى ہيں _ اس بات پر پہلے والى آيات (أفلم يسيروا و لدار الاخرة خير للذين اتقوا ) اور مورد بحث آيت كے آخرى الفاظ (ولا يردّ بأسنا عن القوم المجرمين ) قرينہ ہيں _

۱۳_ عذاب كے نازل ہونے كے بعد گنہكار مجرم لوگ اپنى نجات كا كوئي راستہنہ پاسكيں گے _و لا يردّ بأسنا عن القوم المجرمين

(بأس ) عذاب كے معنى ميں ہے_ (ردّ) (لايردّ) كا مصدر ہے جو واپس لوٹا نے كے معنى ميں ہے_

۱۴_ الله تعالى كى مشيتيں نافذ ہونے والى اورتخلّف ناپذير ہيں _فنجى من نشاء

۱۵_ الله تعالى كى مشيتيں قانون كے ساتھ ہوتى ہيں _فنجى من نشاء ولا يردّ باسنا عن القوم المجرمين

جب خداوند متعال نے بعض لوگوں كى نجات كو اپنى مشيت كے ساتھ وابستہ كرديا تو جملہ(فنجى من نشاء) اور جملہ ( و لا يرّد بأسنا) اس بات كو بتاتے ہيں كہ مجرم لوگ عذاب ميں گرفتار ہوں گے _يہ حقيقت ميں اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ مشيّت الہى بغير قانون اور دليل كے نہيں ہوتى _

۱۶_انبياءعليه‌السلام الہى كى تكذيب، جرم اور گناہ ہے اور ان كو

۷۱۱

جھٹلانے والے مجرم اور گنہگار ہيں _و لا يرّد بأسنا عن القوم المجرمين

۱۷_ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو جھٹلانے والے اور گنہگار لوگ دنيا كے عذابوں ميں گرفتار ہونے كے خطرے سے دوچار ہيں _

و لا يرّد بأسنا عن القوم المجرمين

۱۸_قال المأمون يا ابا الحسن عليه‌السلام فاخبرنى عن قول الله عزوجل : '' حتى اذا استيأس الرسل و ظنّوا انّهم قد كذبوا جائهم نصرنا '' قال الرضا عليه‌السلام يقول الله عزوجل '' حتى اذا استيأس الرسل'' من قومهم و ظنّ قومهم ان الرسل قد كذبوا جاء الرسل نصرنا (۱)

مامون نے امام رضاعليه‌السلام سے اس آيت كريمہ''حتى اذا استيأس الرسل و ظنّوا انهم قد كذبوا جائهم نصرنا '' كے بارے ميں پو چھاتوامام رضاعليه‌السلام نے فرمايا كہ خداوند متعال فرماتا ہے: جب انبياءعليه‌السلام اپنى قوموں سے نااميد ہوگئے اور ان كى قوموں نے يہ گمان كيا كہ انبياءعليه‌السلام جھوٹ بولتے ہيں تو ہمارى مدد پيغمبروں كے ليے پہنچ گئي_

اللہ تعالى :اللہ تعالى كا نجات عطا كرنا ۱۱، ۱۲; اللہ تعالى كى امداد ۷;اللہ تعالى كى سنتيں اور طريقے ۵;اللہ تعالى كى مدد كى علامتيں ۸;اللہ تعالى كى مشيت كا حتمى ہونا ۱۴;اللہ تعالى كى مشيت كا قانون كے ساتھ ہونا ۱۵

اللہ تعالى كى سنتيں اور روش :مہلت دينے كى سنّت ۵

اكثريت :اكثريت كى نافرمانى ۲

امم:امم پر عذاب كے شرائط ۹; كافر امم كو مہلت دينا ۵

انبياء :انبياء سے دشمنى كے آثار ۳;نبياء كا اقوام كے ايمان سے نااميد ہونا ۱۸;انبياء كا خبردار كرنا ۴; انبياء كا نااميد ہونا ۱۸;انبياء كا ہم آہنگ ہونا ۴;انبياء كا ہدايت كرنا ۱;انبياء كا ياور و مددگار ۷;انبياء كو جھٹلانے كا گناہ ۱۶;انبياء كو جھٹلانے والوں سے نااميد ہونا ۳;انبياء كو جھٹلانے والوں كا اصرار ۳; انبياءعليه‌السلام كو جھٹلانے والوں كى دشمنى ۳;انبياءعليه‌السلام كو جھٹلانے انبياءعليه‌السلام كى امداد ۸; انبياءعليه‌السلام كى تبليغ ۱ ;انبياءعليه‌السلام كى دعوتيں ۱ ;انبياءعليه‌السلام كى نااميدى كے آثار ۹ ; انبياء كى نااميدى كے اسباب ۳;انبياء كي نجات ۱۱;انبياء كے پيروكاروں كى نجات ۱۱; انبياء كے جھٹلانے والوں كا عذاب ۸; انبياء كے جھٹلانے والوں كى لجاجت ۳; انبياء كے مخالفين ۲; انبياءعليه‌السلام كے مخالفين كى سركوبى ۷

____________________

۱) عيون اخبار الرضا ، ج ۱ ، ص ۲۰۲ ، ح ۱; نور الثقلين ، ج ۲ ، ص ۴۷۹، ح ۲۵۱_

۷۱۲

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو جھٹلانے والوں پر دنيا كا عذاب ۱۷

توحيد :توحيد پرستى كى دعوت كى اہميت ۱

جرائم :موارد جرم ۱۶

روايت : ۱۸

صالحين :صالحين كى نجات ۱۲

عذاب :اہل عذاب ۱۷;عذاب استيصال سے نجات ۱۱، ۱۲; عذاب سے نجات ۱۳; عذاب كو جھٹلانے كے اسباب ۶; عذاب ميں مہلت ۵; نزول عذاب كے شرائط ۱۰

كفار :كفار پر عذاب ۴; كفار پر عذاب ميں تاخير ۶;

كفار كو ڈرانا ۴; كفار كى فكر۶; كفار كے ايمان لانے سے نااميدى ۹

كفر :كفر پر اصرار كے آثار ۳

گناہ :گناہ كے موارد ۱۶

گنہگار : ۱۶

گنہگاروں پر دنياوى عذاب ۱۷;گنہگاروں پر عذاب كا حتمى ہونا ۱۳

متقين :متقين كى نجات ۱۲

مجرمين : ۱۶

نافرمانى :انبياءعليه‌السلام سے نافرمانى ۲

ہدايت :ہدايت كو قبول نہ كرنے كے آثار ۱۰

۷۱۳

آیت ۱۱۱

( لَقَدْ كَانَ فِي قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِّأُوْلِي الأَلْبَابِ مَا كَانَ حَدِيثاً يُفْتَرَى وَلَـكِن تَصْدِيقَ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَتَفْصِيلَ كُلَّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ )

يقينا ان كے واقعات ميں صاحبان عقل كے لئے سامان عبرت۳_ہے اور يہ كوئي ايسى بات نہيں ہے جسے گڑھ ليا جائے يہ قرآن پہلے كى تمام كتابوں كى تصديق كرنے والا ہے اور اس ميں ہر شے كى تفصيل ہے اور يہ صاحب ايمان قوم كے لئے ہدايت اور رحمت بھى ہے (۱۱۱)

۱_ پيغمبروں اور ان كى امتوں كے واقعات مايہ عبرت اور وعظ و نصيحت پر مشتمل ہيں _لقد كان فى قصصهم عبرة

''قصص'' داستان كے معنى ميں ہے اور ''قصصہم '' كى ضمير'' رسل'' اور ''امم '' جو كہ گذشتہ آيت '' من نشاء'' '' القوم المجرمين'' سے سمجھے جا ر ہے ہيں كى طرف لوٹ رہى ہے _

۲_ فقط عقل مند انسان ہى انبياءعليه‌السلام كے واقعات سے وعظ و نصيحت اور عبرت كا سبق ليتے ہيں _

لقد كان فى قصصهم عبرة لاولى الالباب

يہ بات واضح ہے كہ انبياءعليه‌السلام كے واقعات تمام لوگوں كے ليے باعث عبرت ہيں _ ليكن ان كو عقل مندوں كے ساتھ مختص كرنے كا مقصد يہى ہے كہ يہ لوگ انبياءعليه‌السلام كى داستانوں سے درس حاصل كرتے ہيں اور دوسرے لوگ اس سے محروم ہيں _

۳_ حضرت يوسفعليه‌السلام اور ان كے بھائيوں كى داستان، مايہ عبرت اور سبق حاصل كرنے كى داستا ن ہے_

لقد كان فى قصصهم عبرة

يہ احتمال بھى ديا جاسكتا ہے كہ ( قصصہم ) ميں ضمير، جناب يوسفعليه‌السلام اور ان كے بھائيوں اور وہ سب لوگ جو حضرت يوسفعليه‌السلام كى داستان ميں ذكر ہوئے ہيں _ مثلاً زليخا كا كردار و غيرہ ان سب كى طرف پلٹ رہى ہے _ اس صورت ميں جملہ(لقد كان ) كى دلالت مذكورہ بالا معنى پر صريح اور واضح تر ہے _

۴_ داستان كا عبرت انگيز ہونا اس كے شرائط حسن ميں سے ہے _نحن نقص عليك احسن القصص لقد كان فى قصصهم عبرة

۷۱۴

خداوند متعال نے جناب يوسفعليه‌السلام كى داستان كے ابتداء ميں اس بات كو بيان كياہے كہ يہ داستان بہت اچھى داستان ہے _ اور اس كے آخر ميں اسكا ہدف و مقصد، عبرت او وعظ و نصيحت كو بتايا پس قرآن مجيد ميں اچھى داستان و واقعہ وہ ہو تا ہے جس ميں عبرت و نصيحت ہو_

۵_قرآن مجيد كى كلام جھوٹى اور گھڑى ہوئي نہيں تھى بلكہ سچى اور صحيح كلام تھى _ما كان حديثاً يفترى

(كان ) كى ضمير سے مراد، قرآن مجيد ہے _ آيت كريمہ ( و لكن تصديق ...) ميں جو اوصاف بيان ہوئے ہيں اسى معنى كو بتاتے ہيں _

۶_ قرآن مجيد اس سے بالاتر ہے كہ بشركا بنايا اور گھڑا ہوا ہو _ما كان حديثاً يفترى

۷_ فقط وہ كلام جو سچى اور صحيح ہو اور جھوٹ پر مبنى نہ ہو وہى مايہ عبرت اور سبق سيكھنے كے قابل ہے_

لقد كان فى قصصهم عبرة ما كان حديثاً يفترى

(ماكان ) كا جملہ (لقد كان ) كے جملے كے ليے علت كے مقام پر ہے _ يعنى كيونكہ قرآن مجيد سچا اور صحيح كلام ہے اسى وجہ سے اس كے واقعات سے عبرت حاصلكى جاسكتى ہے _

۸_ قرآن مجيد، گذشتہ آسمانى كتابوں كى تائيد و تصديق كرنے والا ہے _و لكن تصديق الذى بين يديه

(تصديق) مصدر ہے اور اسم فاعل ( تصديق كرنے والا ) كے معنى ميں ہے اور يہ لفظ (لكن) كے ذريعے لفظ ( حديثاً) پر عطف ہوا ہے _

۹_ آسمانى كتابيں آپس ميں ارتباط ركھنے والى اور ايك دوسرے كے ساتھ منسلك ہيں _و لكن تصديق الذى بين يديه

۱۰_ قرآن مجيد، گذشتہ آسمانى كتابوں كے ليے سچى اور صحيح دليل ہے _و لكن تصديق الذى بين يديه

قرآن مجيد كا گذشتہ آسمانى كتابوں كى تصديق كرنے كا معنى ممكن ہے يہ ہوسكتا ہے كہ قرآن مجيد كا نزول سبب بنا ہے كہ ان گذشتہ آسمانى كتابوں كى پيشگوئياں كہ قرآن آنے والا ہے سچ ثابت ہوں _ اسى وجہ سے خود قرآن مجيد كا نزول اس بات كو ثابت كرنے كے دليل ہوسكتا ہے كہ وہ كتابيں سچى اور حقيقت پر مبنى تھيں _

۱۱_ قرآن مجيد نے ہر اس شيء كو واضح طور پر بيان كيا ہے

۷۱۵

جس كے ليے لوگ دنيا و آخرت كى سعادت كو حاصل كرنے كے ليے محتاج ہيں _و لكن تفصيل كل شيء

قرآن مجيد كو ( رحمت ) اور ( ہدايت) سے ياد كرنا خصوصا ( لكن تفصيل كل شيء ...) كے بيان كے بعد اس بات كو بتاتا ہے كہ ( ہر شيء) سے مراد تمام ہدايت كے طريقے اورہر وہ چيز جو رحمت كا سبب بنے اور بشر كے ليے سعادت اور خوشبختى كا موجب ہو اس كتاب ميں اسكا ذكر موجود ہے_

۱۲_ قرآن مجيد، ہدايت دينے والى كتاب ہے_لكن هدى

۱۳_ قرآن مجيد كى ہدايات ہرقسم كى گمراہى سے منزّہ اور ذرّہ برابر گمراہى كے پيغام سے پاكيزہ ہيں _ولكن هديً

(ہدى ) مصدر ہے ليكن يہاں اسم فاعل كے معنى ميں ذكر ہوا ہے ( ہدايت كرنے والا) اسم فاعل كى جگہ پر مصدر كا استعمال كرنا اس حقيقت كو بتاتا ہے_ كہ اسكا موصوف ( قرآن مجيد ) محض ہدايت ہے _ يعنى اسكى راہنمائيوں ميں كسى قسم كى گمراہى و ضلالت نہيں ہے _

۱۴_ قرآن مجيد، لوگوں كے ليے رحمت برسانے والا ہے_و لكن هديً و رحمة

۱۵_ فقط مؤمنين ہى قرآن مجيد سے ہدايت و راہنمائي اور اسكى رحمت كى بارش سے فيض ياب ہوسكتے ہيں _

و لكن هديً و رحمة لقوم يؤمنون

مذكورہ معنى كى دليل وہ كلام ہے جس كى اسى آيت كے نمبر ۲ ميں وضاحت بيان كى گئي ہے_

آسمانى كتابيں :آسمانى كتابوں كى تصديق ۸; آسمانى كتابوں كى صداقت كے دلائل ۱۰; آسمانى كتابوں كى آپس ميں ہم آہنگى ۹

امتيں :امتوں كى سرنوشت سے عبرت لينا ۱

انبياءعليه‌السلام :انبياءعليه‌السلام كے قصے سے عبرت حاصل كرنا ۱،۲

انسان :انسان كى معنوى و روحانى ضروريات ۱۱

تاريخ :تاريخ سے عبرت حاصل كرنا ۱، ۲

سچ بولنا :سچے بولنے كے آثار ۷

سعادت :سعادت اخروى كے اسباب ۱۱; سعادت دنياوى

۷۱۶

كے اسباب ۱۱

صاحبان عقل و دانش :صاحبان عقل و دانش كا عبرت حاصل كرنا ۲; صاحبان عقل و دانش كى خصوصيات ۲

صداقت :صداقت كے آثار ۷

عبرت :عبرت كا پيش خيمہ ۷; عبرت كے اسباب ۱، ۲، ۳

قرآن مجيد :قرآن مجيد اور آسمانى كتابيں ۸; قرآن مجيد كا رحمت ہونا ۱۴; قرآن مجيد كا كردار ۸، ۱۰; قرآن مجيد كامنزّہ ہونا۵، ۱۳; قرآن مجيدكا وحى ہونا ۶; قرآن مجيد كا ہدايت كرنا ۱۲، ۱۵;قرآن مجيد كى تعليمات ۱۱;قرآن مجيد كى خصوصيات ۵، ۶، ۱۲، ۱۴;۱;قرآن مجيد كى رحمت كے شامل حال ۱۵; قرآن مجيد كى صداقت ۵; قرآن مجيد كى فضيلت ۶;قرآن مجيد كے ہدايت كرنے كى خصوصيات ۱۳

قصہ :اچھے قصے كے شرائط ۴; قصّہ سے عبرت حاصل كرنا ۴

مؤمنين :مؤمنين كا ہدايت كو قبول كرنا ۱۵;مؤمنين كى خصوصيات ۱۵; مؤمنين كے فضائل ۱۵

حضرت يوسفعليه‌السلام :حضرت يوسفعليه‌السلام كے قصے سے عبرت حاصل كرنا ۳

۷۱۷

۱ ۳ ۔ سورہ رعد

آیت ۱

( بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِِ )

( المر تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ وَالَّذِيَ أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ الْحَقُّ وَلَـكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لاَ يُؤْمِنُونَ )

المر_يہ كتاب خدا كى آيتيں ہيں اور جو كچھ بھى آپ كے پروردگار كى طرف سے نازل كيا گيا ہے وہ سب برحق ہے ليكن لوگوں كى اكثريت ايمان لانے والى نہيں ہے(۱)

۱_'' الف ، لام ،ميم،ر'' قرآن مجيد كے رموز ميں سے ہيں _المر

۲_ سورہ رعد كى آيات، قرآن مجيد كا جزء ہيں _تلك آيات الكتاب

(تلك ) اشارہ سے مراد، سورہ رعد كى آيات ہيں پس (تلك آيات ) سے مراد وہ آيات ہيں جو تمہارے سامنے ہيں وہ اس كتاب ( قرآن مجيد) كى آيات ہيں _

۳_ سورہ رعد كى آيات بلند مرتبہ اور عظمت والى ہيں _تلك آيات الكتاب

(تلك ) دور كے ليے اشارہ ہے اگر اسكو نزديك كے مشارٌ اليہ كے ليے استعمال كيا جائے تو يہ بتاتا ہے كہ متكلم كے نزديك اسكى عظمت ہے_

۴_ پيغمبر گرامىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے زمانے ہى ميں قرآن مجيد كى كتابت ہوئي _تلك آيات الكتاب

كتاب يعنى ( لكھى ہوئي ، مرتب شدہ ) كا قرآن مجيد پر اطلاق كرنا اس وجہ سے ہے كہ قرآن مجيد كے نازل ہونے كے بعد اس كو لكھا جاتا تھا يا يہ احتمال ديا جاسكتا ہے كہ خداوند متعال كى طرف سے يہ تاكيد ہو كہ اسكو كتاب اور لكھائي كى صورت ميں لايا جائے جو بھى احتمال ديا جائے دونوں صورت ميں مذكورہ معنى حاصل ہوسكتا ہے _

۵_ قرآن مجيد اور اسكى آيات، خداوند متعال كى نشانياں ہيں _تلك آيات الكتاب

(آيات ) كے لفظ سے مراد، نشانياں و علامات ہيں اور قرآن مجيد كى آيات كو اس وجہ سے آيات كہا جاتا ہے كہ نازل كرنے والے كى خصوصيات كو بيان كرتى ہيں _

۷۱۸

۶_قرآن مجيد ايسى كتاب ہے جو شروع سے آخر تك حق ہے اور ہر نقص و عيب سے خالى ہےنيز ہر قسم كے باطل و نامناسب شيء سےمنزّہ ہے _والذى أنزل اليك من ربك الحق

(الحق ) ميں ''الف لام'' استغراق كا ہے جو تمام خصائق كو شامل ہے پس اس صورت ميں (الحق) سے مراد، حق كامل ہے كہ جسميں كم ترين باطل كى بھى جگہ نہيں _

۷_ قرآن مجيد، خداوند متعال كى طرف سے كتاب ہے اور پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نازل ہوئي ہے_

و الذى انزل اليك من ربك الحق

۸_ قرآن مجيد، ربوبيت خداوندى كا جلوہ ہے _و الذى انزل اليك من ربك

۹_ قرآن مجيد كى آيات عظيم الشان آيات ہيں كہ جن ميں تعليمات كا مواد عظيم اور بلند مرتبہ والا ہے _

تلك آيات الكتاب

۱۰_ قرآن مجيد كا پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نزول خداوند متعال اور ان كے درميان واسطہ و رابطہ كا ذريعہ ہے _

و الذى انزل اليك من ربك الحق

(انزل ) كا فاعل عبارت ميں خداوند متعال نہيں ہوسكتا كيونكہ اگر ايسا ہو تو عبارت يوں ہوگى '' و الذى انزل ربك اليك الحق '' يا يوں ہونى چايئے (الذى انزل اليك الحق ) يعنى جہاں فاعل كو حذف كر كے فعل مجہول ذكر كيا جائے تو عبارت ميں فاعل كى طرف اشارہ نہيں كيا جاسكتا _ اسى وجہ سے انزل كا فاعل''جبريلعليه‌السلام يا ...'' كوئي اور ہوگا_

۱۱_ قرآن مجيد پر ايمان ، اس كا الہى ہونا اور اس كو ہر قسم كے باطل سے منزّہ جاننا ضرورى ہے _

و الذى أنزل اليك من ربك الحقّ و لكنّ اكثر الناس لا يؤمنون

۱۲_ اكثر لوگ، قرآن مجيد پر ايمان نہيں لاتے اور اسكى پورى حقانيت پر يقين نہيں ركھتے _

و الذى انزل اليك من ربك الحق و لكن اكثر الناس لا يؤمنون

(لايؤمنون ...) كے متعلق ميں مطالب ہيں جو (و الذى انزل ) سے معلوم ہوتے ہيں ان ميں سے قرآن مجيد اور اس كا حق ميں كامل درجے پر ہونا ہے_

۱۳_ اكثر لوگ قرآن مجيد كے الہيہونے اور اس كے خداوند متعال كى طرف سے نازل ہونے پر ايمان

۷۱۹

نہيں ركھتے _الذى من ربك الحق و لكن اكثر الناس لا يؤمنون

جملہ ( الذى انزل ) ميں جو حقائق ہيں ان ميں سے قرآن مجيد كا خداوند متعال كى طرف سے ہونا ہے_ اسى وجہ سے ( من ربك )كى حقيقت بھى ( لا يؤمنون) كے متعلق ہے يعنى جملہ يوں ہے ( لا يومنون بأن القر۱ن من ربك)_

۱۴_ اكثر يا سب لوگوں كا قرآن مجيد پر ايمان نہ لے آنا خلاف توقعہے _و الذى انزل اليك من ربك الحق و لكن اكثر الناس لا يؤمنون

مذكورہ بالا معنى حرف ( لكن ) جو استدراك كے معنى ميں ہے سے حاصل ہوتا ہے _ كيونكہ جب مخاطب اس حقيقت كو سن لے كہ قرآن مجيد سراپا حق ہے تو اس سے يہ توقع كرتا ہے كہ تمام لوگ ايمان لے آئے ہيں ليكن لفظ (لكن ) اس فكر كو ختم كرتے ہوئے كہہ رہا ہے كہ ايسے نہيں ہوا بلكہ اكثر لوگ ايمان نہيں لائے _

۱۵_ اكثر لوگوں كا كسى طرفجھكاؤ ہونا يا نہ ہونا اسكى حقانيت اور عدم حقانيت كى دليل نہيں ہے_و لكنّ اكثر الناس لا يؤمنون

۱۶_'' عن سفيان الثورى ، قال : قلت لجعفر بن محمد يا بن رسول الله ما معنى قول الله عزوجل '' المر'' قال(ع) فمعناة: انا الله المحى المميت الرازق '' (۱)

سفيان ثورى سے روايت ہے كہ ميں نے جعفر ابن محمد ( اما م صادقعليه‌السلام ) سے عرض كى اے فرزند رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ تعالى كے اس قول (المر) سے كيا مراد ہے _ حضرت نے فرمايا ...اس سے مراد يہ ہے ( ميں اللہ زندہ كرنے والا اور مارنے والا،روزى دينے والا ہوں ) روايت سے يہ مراد ہے كہ ( الف ) (انا) كا رمز ہے (ل) سے اللہ تعالى مراد ہے _ (م ) رمز ہے ''محيى اور مميت '' كا اور ( ر ) رمز ہے'' رزّاق ''كا _

آيات الہى : ۵

اللہ تعالى :اللہ تعالى كا زندگى عطا كرنا ۱۶; اللہ تعالى كا رازق ہونا ۱۶; اللہ تعالى كى ربوبيت كى نشانياں ۸

اكثريت :اكثريت كا بے ايمان ہونا ۱۲، ۱۳، ۱۴; اكثريت كا كردار ۱۵

امور :تعجب آور امور ۱۴

____________________

۱) معانى الاخبار ، ص ۲۲، ح ۱ ; نور الثقلين ،ج ۲ ، ص ۴۸۰ ، ح ۳ _

۷۲۰