تفسير راہنما جلد ۸

تفسير راہنما 0%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 971

تفسير راہنما

مؤلف: آيت الله ہاشمى رفسنجاني
زمرہ جات:

صفحے: 971
مشاہدے: 163298
ڈاؤنلوڈ: 2624


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4 جلد 5 جلد 6 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 971 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 163298 / ڈاؤنلوڈ: 2624
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد 8

مؤلف:
اردو

كہ كفار، اسلام و قرآن كى طرف توجہ اور ميلان پيدا كريں _افلم يائس الذين ء امنوا ان لو يشاء الله لهدى النّاس جميعا

خداوند متعال كا مؤمنين پرجملہ''أفلم يأئيس الذين ء امنوا'' كے ذريعہ اعتراض كرنا اس حقيقت كو بيان كرتاہے كہ ہدايت اور ضلالت دست الہى ميں ہے نہ معجزہ دكھانے ميں ، يہ اس بات كو بتاتاہے كہ مؤمنين يہ چاہتے تھے كہ كفار جو معجزات كى خواہش كرتے تھے وہ پورى ہونى چاہيئے ممكن ہے كہ وہ ہدايت حاصل كرليں _

۹_ اس بات پر يقين ركھنا كہ لوگوں كى ہدايت مشيت الہى سے مربوط ہے نہ معجزات دكھانے سے اس سے مؤمنين كى يہ توقع كہ كفار كو معجزہ دكھا يا جائے وہ ختم ہوجاتى ہے _أفلم يا يئس الذين ء امنوا ان لو يشاء الله لهدى الناس جميعا

۱۰_ لوگوں كى ہدايت مشيت الہى سے مربوط ہے يہ ايسے معارف ہيں كہ اہل ايمان كے ليے ضرورى ہے كہ ان كے بارے ميں يقين ركھيں _أفلم يايئس الذين ء امنوا ان لو يشاء الله لهدى الناس جميعا

(ييأس) كے فعل كے اندر ( يعلم ) كا معنى پوشيدہ ہے اور جملہ (أن لو يشاء الله ..) (يعلم) كے فعل كے ليے مفعول ہے اور ''ييأس'' كا متعلق محذوف ہے اس پر قرينہ جملہ ( من اہتداثعم) كا سياق ہے اس صورت ميں جملہ '' افلم ييأس ...'' كا معنى يوں ہوگا : كيا اہل ايمان يہ نہيں جانتے كہ اگر خداوند متعال چاہتا تو تمام انسانوں كو ہدايت كرديتاتو كيا وہ اس سے نااميد نہيں ہوگئے كہ كافر لوگ( جو قرآن مجيد كے ہوتے ہوئے ايمان نہيں لائے) وہ ہدايت حاصل كريں _

۱۱_ عصر بعثت ميں مكہ اور اس كے اطراف كے كفار، سخت اورمٹا دينے والى مصيبتوں ميں مبتلا تھے_

و لايزال الذين كفروا تصيبهم بما قارعة او تحل قريباً من دارهم

(قرع) كا معنى ايك شيء كو دوسرى شيء پر مارناہے اور (قارعة) كا معنى مارنے كے ہے يہ لفظ ايك محذوف موصوف جيسے (مصيبة)كى صفت ہے اور (تحلّ) ميں ضمير ( قارعة) كى طرف پلٹتى ہے اور (لا يزال ...) كے جملے كا سياق قضيہ خارجيہ كے جملے كى حكايت كرتاہے اس وجہ سے (الذين كفروا ) كا جملہ مخصوص كفار كى طرف اشارہ كرتاہے مفسرين كے نزديك وہ كفار مكہ ہيں تو اس لحاظ سے (دار) سے مراد مكہ ہے اور (قريباً من دارهم ...) سے مراد اطراف اورجوار مكہ ہے _

۱۲_ عصر بعثت كے لوگوں كا كفر كو اختيار كرنا اور قرآن مجيد اور پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ان كى مخالفت كرنا ان پر سخت اور تباہ و برباد كردينے والى مصيبتوں كا سبب بنا_

۸۲۱

و لا يزال الذين كفروا تصيبهم بما صنعوا قارعة او تحلّ قريباً من دارهم

مذكورہ بالا معنى حرف باء جو (بما صنعوا ) ہے اسكو سببيت قرار دينے سے حاصل ہوا ہے او رجملہ (ما صنعوا) سے مراد گذشتہ آيات كے قرينہ كى وجہ سے قرآن كا انكار اور پيغمبر اسلام كى رسالت كى مخالفت اور اسطرح كى باتيں ہيں _

۱۳_كسى علاقہ كے اطراف اور اگرد نواح ميں امن كا نہ ہونا، اس علاقے كى سلامتى كے ختم ہونے كا سبب ہے_

او تحل قريباً من دارهم

اطراف اور جوار مكہ ميں ناامنى كا ہونا اس علاقے كے ليے خوف و تہديد كا موجب بنا اس سے مذكورہ معنى كو حاصل كيا گيا ہے _

۱۴_ وہ لوگ جو قرآن مجيد اور پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت كے ساتھ جنگ كرنے پر اتر آتے ہيں ان كے ليے دنياوى عذابوں ميں گرفتار ہونے كا خطرہ ہے_و لا يزال الذين كفروا تصيبهم بما صنعوا قارعة

۱۵_ كفار كى شكست و نابودى اور اہل ايمان كى كاميابى ، خداوند متعال كى طرف سے كفار كے ليے دھمكى اور عصر بعثت كے مؤمنين كے ليے خوشخبرى تھي_حتى ياتى و عدالله

۱۶_ قرآن مجيد كى پيشگوئيوں ميں سے يہ ہے كہ مكہ اور اس كے اطراف كے كفار شكست كھائيں گے _

لا يزال الذين كفرواتصيبهم بما صنعوا قارعة حتى يأتى و عدالله

۱۷_ خداوند متعال كے وعدے قطعى اور تخلف ناپذير ہيں _إ ن الله لا يخلف الميعاد

۱۸_'' عن ابى جعفر عليه‌السلام فى قوله: '' و لا يزال الذين كفروا تصيبهم بما صنعوا قارعة'' و هى النقمة'' او تحل قريباً من دارهم '' فتحل بقوم غيرهم فيرون ذلك و يسمعون به والذين حلت بهم عصاة كفار مثلهم و لا يتعظ بعضهم ببعض و لن يذالوا كذلك '' حتى ياتى وعد الله'' الذى و عد المؤمنين من النصر و يخزى الله الكافرين (۱)

امام باقرعليه‌السلام سے خداوند متعال كے اس قول ( و لا يزال ...) كے بارے ميں روايت ہے كہ (قارعہ ) سے مراد، مصيبت ہے اور جملہ (او تحلّ قريباً من دارہم ) سے مراد يہ ہے (يعني) عقوبت و مصيبت كسى دوسرى قوم پر آئے گى يہ ان كو ديكھيں گے اور سنيں گے _ جو ان كي

____________________

۱) تفسير قمى ج۱ ص ۳۶۵ ; نورالثقلين ج/ ۲ ص ۵۰۷ ح ۱۴۱_

۸۲۲

طرح كافر اورگنہگار ہيں (ليكن)بعض دوسروں سے كوئي نصيحت حاصل نہيں كرتے اور وہ ہميشہ ايسے ہى رہتے ہيں يہاں تك كہ وعدہ الہى ان تك پہنچ جائے _(و حتى ياتى وعد الله ...) يہ وہى وعدہ ہے جو مؤمنين كو ديا گيا ہے كہ خداوند متعال ان كو كامياب و كامران كرے گا اور كافروں كو ذليل و خوار كرے گا_

اسلام :صدر اسلام كى تاريخ ۱۱

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ساتھ دشمنى كے آثار ۱۲ ، ۱۴

اللہ تعالى :اللہ تعالى كا ہدايت دينا ۴;اللہ تعالى كى دھمكياں ۱۵; اللہ تعالى كى مشيت ۷ ; اللہ تعالى كى مشيت كا حتمى ہونا ۶ ;اللہ تعالى كى مشيت كے آثار ۱ ، ۹ ،۱۰ ;اللہ تعالى كے وعدوں كا حتمى ہونا ۱۷ ;اللہ تعالى كے وعدے ۱۵ ، ۱۸

امور:امور كا منشاء و سبب ۵

ايمان :ايمان كے آثار ۹

توحيد :توحيد افعالى ۵

روايت: ۱۸

عذاب:دنياوى عذاب كے اسباب ۱۴

قارعہ :قارعة سے مراد ۱۸

قرآن مجيد :قرآن مجيد سے دشمنى كے آثار ۱۲ ، ۱۴;قرآن مجيد كا كردار ۳; قرآن مجيد كى پيشگوئي ۱۶ ;قرآن مجيد كى تلاوت كے آثار ۲ ، ۳

كفار:صدر اسلام كے كفار كى شكست ۱۵; صدر اسلام كے كفار كى ہلاكت ۱۵;صدر اسلام كے كفار كے مصائب ۱۱;كفار اور آخرت پر ايمان ۲ ; كفار اور آنحضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۱۲;كفار اور اسلام ۸; كفار اور قرآن مجيد ۸; كفار پر معجزے كا بے اثر ہونا ۱، ۲ ،۳; كفار كا عبرت حاصل نہ كرنا ۱۸;كفار كا ہدايت حاصل نہ كرنا ۱ ، ۲ ۳;كفار كى ذلت ۱۸ ; كفار كى سزا ۱۸

كفر:آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے كفر ۱۲; قرآن مجيد سے كفر ۱۲ كفر كے آثار ۱۲

مؤمنين :

۸۲۳

صدر اسلام كے مؤمنين سے وعدہ ۱۵ ; صدر اسلام كے مؤمنين كى كاميابى ۱۸ ;مؤمنين سے وعدہ ۱۸ ; مؤمنين كى ذمہ دارى ۱۰;مؤمنين كى كاميابى ۱۸

مسلمين :صدر اسلام كے مسلمين كى خواہشات۸

مصيبت :مصيب كے اسباب ۱۲

معجزہ :پہاڑ كو حركت دينے كا معجزہ ۱; زمين كو سوراخ كرنے اور توڑنے كا معجزہ ۱ ; مردوں كاكلام كرنے كا معجزہ۲; مردوں كو زندہ كرنے كا معجزہ۱; معجزہ اقتراحى ۸; معجزہ اقتراحى كے موانع ۹ ; معجزہ كا كردار ۹

مكہ :اطراف مكہ كے كافروں كى شكست ۱۶ ; اطراف مكہ كے كفاروں كى ہلاكت ۱۶ ;اطراف مكہ كے كافروں كے مصائب ۱۱;مكہ كے كافروں كى شكست ۱۶; مكہ كے كافروں كى ہلاكت ۱۶;مكہ كے كافروں كے مصائب ۱۱

نا امني:ناامنى كے اسباب۱۳

آیت ۳۲

( وَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِّن قَبْلِكَ فَأَمْلَيْتُ لِلَّذِينَ كَفَرُواْ ثُمَّ أَخَذْتُهُمْ فَكَيْفَ كَانَ عِقَابِ )

پيغمبر آپ سے پہلے بہت سے رسولوں كا مذاق اڑايا گيا ہے تو ہم نے كافروں كو تھوڑى دير كى مہلت ديدى اور اس كے بعد اپنى گرفت ميں لے ليا تو كيسا سخت عذاب ہوا(۳۲)

۱_ پيغمبر اسلام سے پہلے متعدد انبياء مبعوث بہ رسالت ہوئے_و لقد استهزى برسل من قبلك

۲_ گذشتہ امتوں ميں سے چند گروہ اپنے پيغمبروں كى رسالت كے منكر ہوگئے_فأمليت للذين كفروا

۸۲۴

۳_ گذشتہ امتوں كے كفار اپنے پيغمبروں كا مذاق اور مسخرہ كرتے تھے_و لقد استهزى برسل من قبلك فامليت للذين كفروا

۴_ خداوند عالم، پيغمبروں سے كفر كرنے والوں اور مذاق اڑانے والوں كو مہلت ديتا اور فوراً انكو عذاب نہيں ديتاتھا_

فأمليت للذين كفروا

(املاء) ''امليت'' كا مصدر ہے جو مہلت دينے كے معنى ميں آتاہے اور تاخير ميں ڈالنے اور عمر طولانى كرنے كے معنى ميں بھى استعمال ہوتا ہے _

۵_ خداوند متعال مدتوں كے بعد اور زمانے كے گزرنے كے بعد كفر كرنے والوں اور انبياءعليه‌السلام كا مذاق اڑانے والوں كو اپنى عقوبتوں اور عذاب ميں مبتلا كرديتا تھا_فأمليت ثم أخذتهم فكيف كان عقاب

۶_ كافروں كے عذاب ميں تأخير كرنا، خداوند متعال كى سنتوں و طريقوں ميں سے ہے_

و لقد استهزيء برسل من قبل فامليت للذين كفروا

كيونكہ عذاب كى تأخير تمام كفار كے ليے تھى اس يہ استفادہ (كہ يہ سنت و طريقہ الہى ہے ) ہوتاہے _

۷_ كفار پر بغير كسى مہلت كے ان پر نزول عذاب كى توقع كرنا، نامناسب توقع ہے _

و لقد استهزى برسل من قبلك فأمليت للذين كفروا

۸_ اللہ تعالى كے عذاب سخت اور دردناك ہيں _فكيف كان عقاب

اوپر والے جملہ ميں استفہام تعجب كے ليے ہے اور شدت عقوبت و عذاب كى حكايت كرتاہے اور (عقاب) كي''با'' پركسرہ (ياء متكلم) كے حذف پر دلالت كرتا ہے _ يعنى (عقابي) تھا_

۹_ انبياءعليه‌السلام كا مذاق اڑانے والوں اور ان كى رسالت كا انكار كرنے والوں پر عذاب، خداوند متعال كى سنتوں ميں سے ہے _ثم اخذتهم فكيف كان عقاب

۱۰_ خداوند متعال كى پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور اسكے مؤمنين كو دلدارى اور تسلى دينا _

و لقد استهزى برسل من قبلك ثم اخذتهم فكيف كان عقاب

گذشتہ امتوں كے مزاق اڑانے اور ان كو سزا دينے كے بيان كرنے كا مقصد اس قرينے كے ساتھ كہ مخاطب پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہيں حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو تسلى دينا مقصود ہے _

۸۲۵

۱۱_ گذشتہ امتوں كے مذاق اڑانے والے اور كفر اختيار كرنے والوں پر عقوبتوں اور عذابوں كا نازل ہونا يہ دليل ہے كہ وہ كفار خداوند متعال كے وعدہ اور وعيدوں و دھمكيوں كى مخالفت اور بے پروائي ميں بہت آگے بڑھ گئے تھے_

إن الله لا يخلف الميعاد و لقد استهزى برسل من قبل ثم اخذتهم

(ثم أخذتم ) كى آيت جو مورد بحث ہے وہ (حتى يأتى و عد الله إن الله لا يخلف الميعاد ) كے ليے دليل ہے_

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو تسلى دينا ۱۰

اللہ تعالي:اللہ تعالى كى دھمكيوں كا حتمى ہونا۱۱ ; اللہ تعالى كى سزاؤں كى خصوصيات ۸; اللہ تعالى كى سزائيں ۵; اللہ تعالى كى سنتيں ۶،۹ ; اللہ تعالى كى مہلت دينا۴

اللہ تعالى ى سنتيں اور عادتيں :مہلت دينے كى سنت :۶

انبياءعليه‌السلام :آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے پہلے انبياء عليہم السلام كا ہونا ۱ ; انبياء عليہم السلام كا مزاق اڑانا ۳ ;انبياءعليه‌السلام كا مذاق اڑانے والوں پر عذاب ۹ ;انبياء(ع) كا مذاق اڑانے والوں كو مہلت دينا ۴ ، ۵; انبياءعليه‌السلام كا مذاق اڑانے والوں كى سزا ۵ ; انبياءعليه‌السلام كى تاريخ ۱

بے جا توقعات : ۷

سزا :سزا كے مراتب ۸

عذاب:عذاب ميں تأخير ۴ ، ۵ ، ۶ ، ۷

كفار :كفار پر عذاب ۹ ; كفار پر عذاب كى درخواست ۷ ;كفار كو مہلت ۴ ، ۵ ، ۶; كفار كى سزا ۵

گذشتہ امتيں :گذشتہ امتوں كى تاريخ ۲ ، ۳ ; گذشتہ امتوں كے كفار ۲;گذشتہ امتوں كے كفار كا مذاق اڑانا ۳ ; گذشتہ ميں سے كے كفار كى سزا ۱۱ ; گذشتہ امتوں كے مذاق اڑانے والوں كى سزا ۱۱

مؤمنين :مؤمنين كو تسلى اور دلدارى دينا ۱۰

۸۲۶

آیت ۳۳

( أَفَمَنْ هُوَ قَآئِمٌ عَلَى كُلِّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ وَجَعَلُواْ لِلّهِ شُرَكَاء قُلْ سَمُّوهُمْ أَمْ تُنَبِّئُونَهُ بِمَا لاَ يَعْلَمُ فِي الأَرْضِ أَم بِظَاهِرٍ مِّنَ الْقَوْلِ بَلْ زُيِّنَ لِلَّذِينَ كَفَرُواْ مَكْرُهُمْ وَصُدُّواْ عَنِ السَّبِيلِ وَمَن يُضْلِلِ اللّهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ )

كيا وہ ذات جو ہر نفس كے اعمال كے نگران ہے اور انھوں نے اس كے لئے شريك فرض كرلئے ہيں تو كہئے كہ ذرا شركاء كے نام تو بتائو تم خدا كو ان شركا كى خبر دے۳_رہے ہو جن كى سارى زمين ميں اسے بھى خبر نہيں ہے يا فقط يہ ظاہرى الفاظ ہيں اور سچ تو يہ ہے كہ كافروں كے لئے ان كا مكر آراستہ ہوگياہے اور انھيں راہ حق سے روك ديا گيا ہے اور جسے خدا ہدايت نہ دے اس كا كوئي ہدايت كرنے والا نہيں ہے (۳۳)

۱_ انسانوں كا موجود ہونا اور ان كى دستاويزات اور ان كے امور كا نظم و ضبط خداوند متعال كے ہاتھ ميں ہے_

أفمن كان هو قائم على كل نفس بما كسبت

(كسى پر قائم ہونے) كے معنى يہ ہيں كہ ان كى زندگى كے تمام امور اختيار ميں ركھنا امور ميں تدبير ، نظم و ضبط دينا ہے اور (بمالسبت ) ميں باء (مع) كے معنى ميں ہے اور (من ہو ...) سے مراد، خداوند متعال ہے اس صورت ميں (من ہو قائم ...) سے مراد يہ ہے كہ خداوند متعال انسانوں كوخلق و قائم كرنے والا ہے اور وہ چيز جو انہوں نے حاصل كى ہے _ اور ان كے ہاتھ

۲_ كوئي شيء اور كوئي شخص(اہل شرك و غيرہ كے معبودوں ميں سے) خداوند متعال كے ہم پلہ نہيں ہے اور انسانوں كے امور ميں نظم و ضبط دينے اور انكوقائم كرنے اور چلانے كى قدرت نہيں ركھتا_أفمن هو قائم على كل نفس بما كسبت

(أفمن ہو) ميں ''من'' مبتدا ہے اور اسكى خبر شبہہ جملہ جيسے( كمن ليس كذلك) ہے _

۳_ مشركين اس بات كا اعتراف كرنے كے باوجودكہ لوگوں كے امور كو چلانے والا خداوند متعال ہے پھر بھى اس كے متعدد شركاء كے قائل ہوگئے _أفمن هو قائم على كل نفس بما كسبت و جعلوا اللّه شركاء

۸۲۷

۴_ لوگوں كے امور ميں نظم و ضبط دينا اور ان كو چلانا پرستش اور عبادت كے علائق معبود كى خصوصيات ميں سے ہے_

أفمن هو قائم على كل نفس بما كسبت و جعلوا اللّه شركاء

۵_اہل شرك كے معبود، عبادت و پرستش كى شائستگى اور خدائي خصوصيات سے خالى ہيں _قل سموهم

(سموا) كا مصدر (تسمية) ہے جسكا معنى نام ركھنا يا نام لينا ہے اور خيالى معبودوں كے نام لينے سے مراد خداوند عالم كى خصوصيات كو بيان كرنے كے قرينے كے مقابلہ ميں يہ ہے كے ان كى صفات بيان كى جائيں صرف نام لينا كا فى نہيں ہے كہ يہ كہا جائے كہ فلاں بت كا نام لات يا عزى و غيرہ ہے _

۶_ اہل شرك كے خداؤں كى صفات كى طرف توجہ كرتے ہوئے انسان كے اطمينان كے ليے كافى ہے كہ وہ خداوند متعال كے شريك نہيں ہيں اور لائق عبادت و پرستش نہيں ہيں _قل سموهم

جملہ ( قل سموہم) ان سے كہو كہ اپنے خيالى خداؤں كى صفات بيان كريں اصل ميں يہ استدلال ہے كہ شرك كے تصور كى كوئي بنياد نہيں ہے _ يعنى تم خود ہى بتوں كى خصوصيات كو شمار كرو اوريہى كافى ہے _ كہ سمجھ لو كہ وہ الوہيت اور ربوبيت كے لائق نہيں ہيں اور وہ شريك خدا بننے كى صلاحيت نہيں ركھتے _

۷_ خداوند متعال اپنے كسى شريك كے بارے ميں بے اطلاع ہے_ام تنبؤنه بما لا يعلم فى الارض

(تنبيي) (تنبؤنہ) كا مصدر ہے جو خبر دينے اور اطلاع دينے كے معنى ميں آتاہے(فى الارض) ( ما ) كے ليے قيد ہے اور دوسرے لفظوں ميں ضمير محذوفى كے ليے حال ہے جو لفظ (ما) كى طرف لوٹتى ہے اسى وجہ سے(أم تنبؤنه ...) كا معنى يہ ہوگا كہ كيا خداوند متعال كو اسكى خبر ديتے ہو جسكے بارے ميں وہ نہيں جانتا _ خداوند متعال كا كسى شيء كے بارے ميں اطلاع نہ ركھنا يہ كنايہ ہے كہ وہ شيء وجود نہيں ركھتي_

۸_ اسكى طرف توجہ كرتے ہوئے كہ خداوند متعال كسى كو اپنے شريك ہونے كى حيثيت سے نہيں جانتا يہ بات انسان كو توحيد كى طرف ميلان اور شرك كى طرف جھكنے سے روكتى ہے _ام تنبؤنه بما لا يعلم فى الارض

۹_ مشركين كا يہ دعوى كہ خداوند متعال كے ليے شريك ہے يہ دعوى حقيقت سے خالى اورباطل پر مبنى ہے _

ام يظهر من القول

۸۲۸

(ظاهر من القول ) يعنى ايسى كلام جو واقعيت نہيں ركھتى اور حقيقت سے خالى ہے (بظاہر) ايك فعل محذوف كے متعلق ہے اسكى كلام يا تقدير ميں يوں ہوگا (قل ...ام تسمونهم شركاء بظاهر من القول )كہہ دو بلكہ اس ظاہرى گفتگو سے جو كہ واقعيت سے خالى ہے ان كو خدا كے شريك قرار ديتے ہو_

۱۰_ اہل شرك كا عقيدہ جب كہ يہ واضع ہے كہ وہ باطل ہے اور اس كے ليے كوئي دليل نہيں ہے تب بھى ايسا عقيدہ تھا جو ان كے ليے مزين و ظاہرى سجاوٹ كے ساتھ تھا_بل زين للذين كفروا مكرهم

(مكرہم ) سے مراد عقيدہ مشركين ہے يعنى خداوند متعال كے ليے شريك قرار دينا ، اور ان شريكوں كى پرستش كرنا ہے كيونكہ يہ ايسى شيء ہے جو ان كے ليے زينت دى گئي ہے اور بناوٹ اور سنوار كرمزّين كى گئي ہے _

۱۱ _ خداوند متعال كے ليے شريك خيال كرنا اور جھوٹے معبودوں كى پرستش يہ ايسا عقيدہ تھا جو مكر و حيلہ سے پرورش پايا ہواتھا _بل زين للذين كفروا مكرهم

شرك كرنے كو مكر و حيلہ سے توصيف كرنا اور نام دينا اس نكتے كى طرف اشارہ كرتاہے كہ شرك اور غير اللہ كى پرستش و عبادت كى اساس و بنياد مكر و حيلہ ہے_

۱۲ _مشركين اپنے جھوٹے خداؤں كى عبادت و پرستش ميں اپنے آپ كو دھوكا ديے ہوئے تھے_بل زيّن للذين كفروا مكرهم

يہ كہ (زين) كا فاعل محذوف كيا ہے ؟ اسميں چند احتمالات ہيں ۱ _ شيطان ۲ _ كفرو شرك كرنے والوں كے سردار ۳_ خود كفار مذكورہ بالا معنى اس بنيادپر ہے كہ تيسرا احتمال ہو_ تو اس صورت ميں معنى يوں ہوگا '' زين الكافرون لانفسہم مكرہم '' اسكا معنى يہ ہے كہ كفار اپنے شرك كو بے بنياد دليلوں سے توجيہ كرتے اور پھر آہستہ آہستہ ان كو زيبا اور خوبصورت ديكھتے ہيں _

۱۳ _ انسان كا جھكاؤ خوبصورت چيزوں كى طرف ہوتاہے_بل زين للذين كفروا مكرهم

۴ ۱_مشركين صحيح اور و منطقى راستے ( توحيد ) كے راستے سے ہٹ گئے تھے_و صدّوا عن السبيل

۱۵_ مشركين كا خود كو فريب دينا اور شرك كے خيالى تصور كو مزين ديكھنا ان كو توحيد كى طرف جھكاؤ سے روكتاہے _

و صدوا عن السبيل

۸۲۹

(صدّ) (صدّوا) كا مصدر ہے جسكا معنى لوٹاناہے اور ظاہراً يہ ہے كہ (صدوا ) كا فاعل محذوف ہے جو مكر و حيلہ ہے جو اصل ميں مشركين كے شرك اختيار كرنے كا سبب ہے_

۱۶_ خداوند متعال، مشركين كو گمراہ كرنے والا ہے _و من يضلل الله فما له من هاد

۱۷_ جسكو خداوند متعال گمراہ كرتاہے كوئي بھى اسكى ہدايت نہيں كرسكتا_و من يضلل الله فما له من هاد

۱۸_ انسان كى ہدايت و گمراہى خداوند متعال كے دست قدرت اور اختيار ميں ہے _و من يضلل الله فماله من هاد

۱۹_جھوٹے خداؤں كو انتخاب كرنے ميں مشركين كا فريب اور حيلہ سبب بنا ہے كہ خداوند عالم كا ارادہ ان كى گمراہى كے متعلق ہوجائے_بل زين للذين كفروا مكرهم و من يضلل الله فماله من هاد

قرآن مجيد ايك اعتبار سے حيلہ و مكر كو مشركين كى گمراہى كا سبب سمجھتاہے اور دوسرس طرف سے خداوند متعال كو ان كى گمراہى كا سبب شمار كرتا ہے _

يہ دو حقيقتيں ان نكات كى طرف اشارہ كرتى ہيں كہ يہ صحيح ہے خداوند متعال گمراہ كرنے والا ہے ليكن اسكا سبب انسان خود فراہم كرتاہے او رحقيقت ميں ان كو گمراہ بنانے ميں ان كے خود اپنے عقيدے كى سزا ہے _

۲۰_ انسان اپنى ہدايت اور گمراہى ميں مناسب كردار ادا كرتاہے_بل زين للذين كفروا مكرهم و من يضلل الله فماله من هاد

۲۱_'' عن ابى الحسن الرضا عليه‌السلام قال إ علم إن الله تبارك و تعالى قائم ليس على معنا انتصاب و قيام على ساق فى كبد كما قامت الاشياء و لكن '' قائم'' يخبر أنه حافظ و الله هو القائم على كل نفس بما كسبت (۱)

امام رضاعليه‌السلام سے روايت ہے كہ حضرتعليه‌السلام نے فرمايا يہ جان لو كہ خداوند تبارك و تعالى قائم ہے اسكا معنى يہ نہيں كہ وہ كھڑا ہے اور آسمان كے درميان اپنے پاؤں كے ساتھ كھڑا ہوا ہے جسطرح چيزيں كھڑى ہوتى ہيں اور قيام ميں ہوتى ہيں بلكہ (خداوند متعال) قائم ہے اس معنى كے ساتھ كہ وہ حافظ و محافظ ہے فقط خداوند متعال كى ذات ہے جو ہر انسان كى محافظ ہے اور جو اس نے كما ياہے اور حاصل كيا ہے اسكا بھى محافظ ہے _

____________________

۱) كافى ج۱ ص ۱۲۱ ح۲ ; نورالثقلين ج۲ ص ۵۰۸ ح ۱۴۲_

۸۳۰

اللہ تعالى :اللہ تعالى كا بے مثل و مثال ہونا ۲ ، ۷ ; اللہ تعالى كا پاك و پاكيزہ ہونا ۷ ; اللہ تعالى كا ہدايت دينا اللہ ۱۸; تعالى كى خالقيت ۱ ; اللہ تعالى كى خصوصيات ۲ ;اللہ تعالى كى ربوبيت ۱ ; اللہ تعالى كى قدرت۲ ;اللہ تعالى كى گمراہى ۱۶،۱۷ ;اللہ تعالى كے قيام سے مراد ۲۱ ;اللہ تعالى كے گمراہ كرنے كا سبب ۱۹ ;اللہ تعالى كے گمراہ كرنے كى خصوصيات ۱۷

ايمان :توحيد پر ايمان لانے كا سبب ۶

توحيد :توحيد ربوبى ۱ ، ۲

جھكاؤ :توحيد كى طرف جھكاؤ كا سبب ۸ ; توحيد كى طرف جھكاؤ كے موانع ۱۵;زيبائي اور خوبصورتى كى طرف جھكاؤ ۱۳

خود :خود اپنے ساتھ ساتھ مكر ۱۲ ;خود اپنے ساتھ ساتھ مكر كے آثار ۱۵ ، ۱۹

ذكر :ذكر كے آثار ۸

روايت : ۲۱

شرك :شرك كا باطل و بے دليل ہونا ۹ ; شرك كا بے منطق و دليل ہونا۱۰; شرك كا سبب۱۱; شر ك كو مزين كرنا ۱۰ ;شرك كے باطل ہونے كاہونے كى وضاحت ۱۰;شرك كے مزين كرنے كے آثار ۱۵; شرك كے موانع ۸

گمراہ لوگ :گمراہ لوگوں كا ہدايت كو قبول نہ كرنا ۱۷

گمراہى :گمراہى كا پيش خيمہ ۲۰ ; گمراہى كا منشا وسبب ۱۸

مشركين :مشركين اور توحيد ۱۴; مشركين كا اقرار ۳ ; مشركين كا شرك عبادى ۱۲; مشركين كا عقيدہ ۳ ، ۱۰;مشركين كا محروم ہونا ۱۴; مشركين كا مكر ۱۲ ، ۱۵; مشركين كى گمراہى كا سبب۱۶; مشركين كى ہٹ دھرمى ۳ ; مشركين كے معبودوں كا باطل ہونا ۹ ; مشركين كے معبودوں ميں صلاحيت كا نہ ہونا ۵ ، ۶; مشر كين كے مكر كے آثار ۱۹

معبود :معبود كى ربوبيت ۴

معبوديت :معبوديت كا معيار۴

مكر:مكر كے آثار ۱۱

۸۳۱

موجودات:موجودات كا عاجز ہونا ۲

نظريہ كائنات :توحيدى نظريہ كائنات ۱ ، ۲

ہدايت :ہدايت سے محروم ۱۴ ;ہدايت كا پيش خيمہ ۲۰ ; ہدايت كا منشا و سبب ۱۸

آیت ۳۴

( لَّهُمْ عَذَابٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَلَعَذَابُ الآخِرَةِ أَشَقُّ وَمَا لَهُم مِّنَ اللّهِ مِن وَاقٍ )

ان كے لئے زندگانى دنيا ميں بھى عذاب ہے اور آخرت كا عذاب تو اور زيادہ سخت ہے اور پھر اللہ سے بچانے والا كوئي نہيں ہے (۳۴)

۱_ كفار،مشركين، گمراہ لوگ اور وہ جو انبياء عليہم السلام كا مسخرہ اڑاتے ہيں دنيا و آخرت كے سخت عذابوں ميں گرفتار ہوں گے_لهم عذاب فى الحى وة الدنيا ولعذاب الآخرة اشق

(لہم) كى ضمير سے مراد آيت ۳۱،۳۲كے قرينے كى وجہ سے كفار،مشركين ،مذاق اڑانے والے اور گمراہ لوگ ہيں _

۲_آخرت كے عذاب، دنيا كے عذابوں كى نسبت بہت سخت اور خطرناك ہيں _و لعذاب الآخرة اشق

''أشق'' اسم تفضيل ہے (شقّ ) كے مصدر سے ہے _ اور اشق كا معنى سخت اور دشوار ہوناہے_

۳_عذاب الہى كے نازل ہونے ميں كوئي بھى ركاوٹ نہيں بن سكتا_و ما لهم من الله من واق

(واق ) (وقاية)كے مصدر سے اسم فاعل ہے جسكا معنى محفوظ ركھنا اور محافظت كرنے كے ہے اور (من اللہ) سے مراد اس سے پہلے والے جملات كو مدنظر ركھتے ہوئے(من عذاب اللہ) ہے_

۸۳۲

۴_ اہل شرك كے معبود، ان كو اللہ كے عذابوں سے نجات دينے پر قادر نہيں ہيں _و ما لهم من الله من واق

كيونكہ گفتگو مشركين كے بارے ميں ہورہى ہے اس وجہ سے (واق) كا مصداق جو مورد نظر ہے و ہ اہل شرك كے معبود ہيں _

اللہ تعالى :اللہ تعالى كے عذابوں سے نجات ۴;اللہ تعالى كے عذابوں كا حتمى ہونا ۳

انبياء:انبياءعليه‌السلام كا مذاق اڑانے والوں كا عذاب ۱

انسان:انسانوں كا عاجز ہونا ۳

عذاب :اخروى عذاب كى سختى ۲; اخروى عذاب كى شدت ۱ ; اخروى عذاب كے مستحق ۱; دنياوى عذاب كى سختى ۱ ; دنياوى عذاب كے مستحق ۱ ; عذاب كے مراتب ۱ ، ۲

كفار:كفار كا عذاب ۱

گمراہ لوگ:گمراہ لوگوں كا عذاب ۱

مشركين :مشركين كا عذاب ۱;مشركين كے معبودوں كا عاجز ہونا ۴

آیت ۳۵

( مَّثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِي وُعِدَ الْمُتَّقُونَ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الأَنْهَارُ أُكُلُهَا دَآئِمٌ وِظِلُّهَا تِلْكَ عُقْبَى الَّذِينَ اتَّقَواْ وَّعُقْبَى الْكَافِرِينَ النَّارُ )

جس جنت كا صاحبان تقوى سے وعدہ كيا گيا ہے اس كى مثال يہ ہے كہ اس كے نيچے نہريں جارى ہوں گى اور اس كى پھل دائمى ہوں گے اور سايہ بھى ہميشہ رہے گا_يہ صاحبان تقوى كى عاقبت ہے اور كفار كا انجام كار بہرحال جہنم ہے (۳۵)

۱_ تقوى اختيار كرنے والوں كے ليے خداوند متعال كي طرف سے بہشت كا وعدہ و خوشخبرى ہے _

مثل الجنّة التى وعد المتقون

۲_ وہ لوگ جوشرك سے دور رہتے ہيں اور انبياءعليه‌السلام كا مذاق اڑانے اور ان سے كفر كرنے سے ڈرتے ہيں وہ بہشت ميں جائيں گے_مثل الجنّة التى وعد المتقون تلك عقبى الذين اتقوا

(متقون) اور (الذين اتقوا) كے اولين مصداق، آيات گذشتہ كى روشنى ميں وہ لوگ ہيں جو شرك اور انبياء كا مذاق اڑانے اور ان سے كفر كرنے سے ڈرتے ہيں _

۳_ بہشت ميں بہت زيادہ نہريں ہيں _مثل الجنّة ...تجرى من تحتها الانهار

۸۳۳

مذكورہ بالا معنى لفظ(انہار) كے جمع ہونے سے استفادہ ہوتاہے_يہ بات قابل ذكر ہے كہ (مثل) كے معانى ميں سے ايك معنى صفت اور خصوصيت ہے_

۴ _بہشت كى نہريں درختوں كے نيچے سے جارى ہوں گي_تجرى من تحتها الانهار

۵_بہشت اپنے اندر ميوے اور مختلف كھانے والى چيزيں اور دل پسند ہوا ركھنے والى ہے _أكلها دائم و ظله

(أكَل) ثمر اور ميوہ كے معنى ميں ہے ، كبھى عام خوراك اور كھانے والى چيزوں پر بھيبولا جاتا ہے (ظلّ) سايہ كے معنى ميں ہے اور آيت شريفہ ميں دل پسند آب و ہوا ہونے كے ليے كنايہ ہے_

۶_ بہشت كے ميوے اور كھانے والى چيزيں اور اسكى دل پسند آب و ہوا ہميشہ اور ختم ہونے والى نہيں ہے_

اكلها دائم و ظله

(ظلہا ) مبتداء ہے اور اسكى خبر (دائم) ہے جو تقدير ميں ہے_

۷_ انسان، دنيا كى زندگى ميں بہشت كا صحيح تصور اور اسكى خصوصيات كو درك كرنے سے قاصر ہيں _

مثل الجنة التى وعد المتقون

بعض مفسرين اس كے قائل ہيں كہ(مثل) كا لفظ آيت شريفہ ميں شبيہ اورمانند كے معنى ميں آياہے اور اس نكتہ كى طرف اشارہ كرتاہے وہ چيزيں جو بہشت كے عنوان سے بيان ہوتى ہيں وہ مشابہ كے عنوان سے ہيں _ وگرنہ واقعيت اور حقيقت اس كے علاوہ ہے كہ جسكى توصيف بيان كرنا ممكن نہيں كيونكہ انسان كے ليے اس دنيا كى مختصر و تنگ زندگى ميں اسكا درك كرنا اسكى قدرت و توان ميں نہيں ہے_

۸_ بہشت، تقوى اختيار كرنے والى كى جزاء ہے_تلك عقبى الّذين اتقو

۹_ جہنم كى آگ كافروں كى سزا ء ہے_و عقبى الكافرين النار

۱۰_ مشركين، كافروں كے گروہ اور موحدين تقوى اختيار كرنے والوں ميں سے ہيں _

۸۳۴

تلك عقبى الذين اتقوا و عقبى الكافرين النار

۱۱_'' قال ابوعبدالله عليه‌السلام : إن ناركم هذه جزؤ من سبعين جزء اً من نار جهنم و قد أطفئت سبعين مرة بالماء ثم التهبت (۱)

امام جعفر صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كہ حضرتعليه‌السلام فرماتے ہيں بے شك يہ تمہارى آگ (دنيا كي) جہنم كى آگ كے ستر درجوں ميں سے ايك درجہ ہے كہ جس كو ستر مرتبہ پانى سے خاموش كيا گيا ہے پھر وہ شعلہ ورہوگئي ہے _

اللہ تعالى :اللہ تعالى كى بشارتيں ۱; اللہ تعالى كے وعدے۱

انبياء :انبياءعليه‌السلام كا مذاق اڑانے سے اجتناب كرنے كے آثار ۲

انسان:انسانوں كا عاجز ہونا۷

بہشت:بہشت كو درك كرنے سے عاجز ہونا ۷; بہشت كے اسباب ۲;بہشت كى آب و ہوا كا ہميشہ ہونا۶ ; بہشت كى خصوصيات ۳ ، ۴ ، ۵ ، ۶;بہشتى كھانے والى چيزوں كا ہميشہ ہونا۶;بہشتى كھانے والى چيزيں ۵;بہشتى ميوے۵ ;بہشتى ميووں كا ہميشہ ہونا ۶ ; بہشى نعمتوں كا ہميشہ ہونا۶ ;بہشتى نعمتيں ۳ ، ۵ ;بہشتى نہريں ۳ ، ۴; بہشتى ہوا كا دل نشين ہونا ۵ ، ۶

بہشتى لوگ : ۱ ،۲ ، ۸

جہنم :جہنم كى آگ ۹ ; جہنم كى آگ كى شدت ۱۱

جہنمى لوگ:۹

روايت : ۱۱

شرك :شرك سے اجتناب كے آثار ۲

كفار : ۱۰كفار كا انجام۹

كفر :كفر سے اجتناب كے آثار ۲

متقى و پرہيزگار لوگ:متقى لوگوں كو بشارت ۱;متقى و پرہيزگار لوگوں كا انجام ۸;متقى و پرہيزگار لوگوں كو بہشت كا وعدہ ۱

مشركين :مشركين كا كفر ۱

موحدين :موحدين لوگوں كا تقوى ۱۰

۸۳۵

آیت ۳۶

( وَالَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَفْرَحُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمِنَ الأَحْزَابِ مَن يُنكِرُ بَعْضَهُ قُلْ إِنَّمَا أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ اللّهَ وَلا أُشْرِكَ بِهِ إِلَيْهِ أَدْعُو وَإِلَيْهِ مَآبِ )

اور جن لوگوں كو ہم ۱_ نے كتاب دى ہے وہ اس تنزيل سے خوش ہيں اور بعض گروہ وہ ہيں جو بعض باتوں كا انكار كرتے ہيں تو آپ كہہ ديجئے كہ مجھے يہ حكم ديا گيا ہے كہ ميں اللہ كى عبادت كروں اور كسى كو اس كا شريك نہ بنائوں ميں اسى كى طرف دعوت ديتا ہوں اور اسى كى طرف سب كى بازگشت ہے (۳۶)

۱_ يہود اور نصارى آسمانى كتاب(توريت و انجيل) كے حامل تھے_والذين آيتناهم الكتاب

(الذين ) سے مراد كون لوگ ہيں اسميں چند اقوال ہيں ۱_ يہود و نصارى ۲_ يہود و نصارى اور مجوسى ۳_ مسلمين

۲_قرآن مجيد پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نازل ہونے والى كتاب ہے _بما أنزل إليك

۳_ عصر پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ميں يہود ونصارى مختلف گروہوں اور فرقوں ميں بٹے ہوئے تھے_

والذين ء اتيناهم الكتاب يفرحون و من الاحزاب من ينكر بعضه

(حزب)(لسان العرب) كے نزديك ان لوگوں كو كہا جاتاہے جو كردار اور فكر كے اعتبار سے مشابہت ركھتے ہوں (الأحزاب) ميں الف لام عہد ذكرى ہے اور (الذين ...) كا اشارہ ( يہود و نصارى )كى طرف ہے_ پس اس صورت ميں معنى يہ ہوگا كہ عصر بعثت ميں يہ لوگ چند گروہوں

۸۳۶

ميں تقسيم ہوگئے تھے جو عقائد و فكر كے اعتبار سے مختلف تھے_

۴_ قرآن مجيد كا پيغمبر اسلام پر نازل ہونا يہود و نصارى كے بعض گروہوں كے ليے خوشى اور شادمانى كا موجب بنا _

و الذين اتيناهم الكتاب يفرحون بما انزل اليك

(و من الاحزاب ...) كے جملے كا معنى يہ ہے كہ ( بعض يہود اور نصارى قرآن مجيد كے كچھ حصے كو قبول نہيں كرتے تھے) يہ اس بات كو بتاتا ہے كہ (الذين ...يفرحون ) كے جملے سے مراد تمام يہود اور نصارى نہيں ہيں اسى وجہ سے سرور اور خوشى كى نسبت بھى انہى گروہوں كى طرف دى گئي ہے _

۵_ اہل كتاب كے بعض گروہ قرآن مجيد كے كچھ حصوں كو قبول نہيں كرتے تھے اور اسكى حقانيت كا انكار كرتے تھے _

و من الاحزاب من ينكر بعضه

۶_ پيغمبر اسلام كو خداوند متعال كى طرف سے حكم تھا كہ فقط اسى ہى كى عبارت كريں اور اس كے ليے شريك قرار نہ ديں _

قل إنما امرت أن أعبد اللہ و لا اشرك بہ

۷_ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو خداوند متعال كى طرف سے حكم تھا كہ وحدہ لا شريك كى پرستش اور شرك سے دورى كا اعلان كريں _قل إنما امرت

۸_ خداوند متعال كى پرستش اور عبادت ميں شرك سے پرہيز كا ضرورى ہونا_قل إنما امرت أن اعبد الله و لا اشرك به

۹_ يہود و نصارى كے بعض گروہ شرك آلود عقيدہ ركھتے تھے_

و من الاحزاب من ينكر بعضه قل إنما أمرت ان أعبد الله و لا اشرك به

كيونكہ (قل إنما أمرت ..) كا جملہ توحيد اور يكتاپرستى كى حكايت كرتاہے اور يہود و نصارى كے گروہوں كے جواب ميں يہ جملہ واقع ہواہے اس سے معلوم ہوتاہے كہ يہ گروہ غير اللہ كى پرستش اور عبادت ميں شرك كرتے تھے_

۱۰_قرآن مجيد كے توحيدى حقائق اور وحدہ لا شريك كى طرف دعوت دينا اورشرك كى نفى كرنا، بعض يہود و نصارى كى مخالفت كا باعث بنا_و من الاحزاب من ينكر بعضه قل إنما امرت ان اعبدالله

توحيد اور وحدہ لا شريك لہ كى عبادت كے مسئلہ كو (من ينكر بعضہ ...) كے بعد ذكر كرنا گويا اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ قرآن مجيد كا توحيد اور شر ك كى نفى پر اصرار بعض گروہوں كا قرآن مجيد كا انكار كرنے كے دلائل ميں تھا _

۱۱_ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لوگوں كو خداوندوحدہ لا شريك كى طرف

۸۳۷

پكارتے تھے اوراسكى پرستش كرنے كو كہتے تھے_اليه أدعو

(إليہ) كا (ادعوا) پر مقدم كرنا اس كے حصر پر دلالت كرتاہے_

۱۲_پيغمبر اسلام اور دوسرے لوگ بھى صرف خداوند متعال كى طرف پلٹنے والے ہيں _و إليه مئاب

(مئاب) كا معنى لوٹناہے اور (مئاب) پرجو كسرہ ہے وہ ياء متكلم كے حذف پر دلالت كرتاہے تو اصل ميں (مئاب) مئابى تھا_

اسلام :صدر اسلام كى تاريخ ۳

اللہ تعالى كى طرف لوٹنا :۱۲

آنحضرت:آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور شرك عبادى ۶ ،۷ ; آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر وحى كا آنا۴;آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا اعلان برائت ۷; آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا انجام ۱۲;آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى آسمانى كتاب ۲; آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى تبليغ ۱۱ ;آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى توحيد عبادى ۶ ،۷ ;آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ذمہ دارى ۶ ،۷ ; آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى طرف سے توحيد كا اعلان ۷

انجيل:انجيل كا آسمانى كتابوں سے ہونا۱

انسان :انسانوں كا انجام ۱۲

اہل كتاب: ۱اہل كتاب اور قرآن مجيد ۵

توحيد:توحيد عبادى كى دعوت ۱۱;توحيد عبادى كى دعوت كے آثار ۱۰

توريت:توريت كا آسمانى كتابوں سے ہونا۱

جھكاؤ:شرك كى طرف جھكاؤ۹شرك:شرك سے اجتناب كرنے كى دعوت كے آثار ۱۰; شرك عبادى سے اجتناب ۸

عبادت:عباد ت الہى كى اہميت ۸

عيسائي:صدر اسلام كے عيسائيوں كى معاشرتى زندگى كى بنياد ۳; عيسائي اور قرآن مجيد ۱۰; عيسائيوں كا جھكاؤ۹; عيسائيوں كا شرك۱۹; عيسائيوں كى خوشى كے اسباب۴;عيسائيوں كى آسمانى كتاب۱; عيسائيوں كى خوشى كے اسباب۴;عيسائيوں كى مخالفت كے اسباب۱۰

۸۳۸

مشركين : ۹

يہود:صدر اسلام كے يہوديوں كى معاشرتى زندگى كي بنياد ۲; يہودى اور قرآن مجيد ۱۰;يہوديوں كا جھكاؤ۹ ; يہوديوں كا شرك ۹ ; يہوديوں كى آسمانى كتاب ۱;يہوديوں كى خوشى كے اسباب ۴; يہوديوں كى مخالفت كے اسباب ۱۰

آیت ۳۷

( وَكَذَلِكَ أَنزَلْنَاهُ حُكْماً عَرَبِيّاً وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءهُم بَعْدَ مَا جَاءكَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَكَ مِنَ اللّهِ مِن وَلِيٍّ وَلاَ وَاقٍ )

اور اسى طرح ہم نے اس قرآن كو عربى زبان كا فرمان بنا كر نازل كياہے اور اگر آپ علم كے آجانے كے بعد ان كے خواہشات كا اتباع كرليں گے تو اللہ كے مقابلے ميں كوئي كسى كا سرپرست اور بچانے والا نہ ہوگا (۳۷)

۱_ خداوند متعال ہى قرآن مجيد كو نازل كرنے والا ہے_و كذلك انزلناه

(أنزلناہ) كى ضمير (ما انزل اليك) جو گذشتہ آيات ميں ہے جس سے مراد (قرآن مجيد) ہے كى طرف پلٹ رہى ہيں _

۲_ قرآن مجيد قانون الہى اور اسكا حكم ہے اور دينى معارف اور حقائق كى شناخت كا منبع و مركز ہے _و كذلك أنزلناه حكم

كسى شيء كے بارے ميں حكم كرنے كا معنى يہ ہے كہ اس كے بارے ميں فيصلہ ديں اور اعلان كريں كہ وہ شيء اس طرح كى ہے يا اسطرح كي نہيں ہے( مفردات راغب) اسى بنياد پر ''قرآن مجيد حكم'' ہے_ يعنى فيصلہ كرتاہے اور بيان كرتاہے كہ كون سى شيء كس طرح ہے _ يا اسطرح نہيں ہے تو يہ معنى تمام حقائق و قوانين اور معارف دينى كو شامل ہے_ جسكو خداوند متعال نے قرآن مجيد ميں ثابت يا نفى كے طور پر بيان كيا ہے اور اس كے بارے ميں قضاوت و فيصلہ كيا ہے مثلاً خداوند متعال كا كوئي شريك نہيں ہے ،قيامت بر حق ہے يا روزہ تم پر فرض كيا گيا ہے _

۳_ خداوند متعال نے قرآن مجيد كو عربى زبان كے قالب ميں نازل فرمايا ہے _

و كذلك انزلناه حكماً عربي

(عربياً ) كا لفظ ممكن ہے (حكما ً) كے ليے صفت ہو اور ممكن ہے (انزلناه ) ميں جو( ہ) ضمير ہے اس كے ليے حال ہو ليكن مذكورہ بالا معنى دوسرے احتمال كى صورت ميں ہے_

۸۳۹

۴_قرآن مجيد كے احكام اور قوانين لوگوں كے ليے قابل فہم اور سمجھ ميں آنے والے ہيں _و كذلك انزلناه حكماً عربي

(عربي)كے لفظ كا معنى فصيح اور روشن ہے _ لغت عرب كو اسى وجہ سے عربى زبان كہا جاتاہے تو (أنزلناه عربياً ) يعنى قرآن مجيد كو عربى زبان ميں نازل كيا گيا ہے يعنى وہى لغت جو قابل فہم و تفہيم اور وسيع ہے اور اسكا لازمہ اور نتيجہ يہ ہے كہ يہ قابل فہم ہے _

۵_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے زمانے ميں يہود و نصارى كے جو عقائد و نظريات تھے وہ انكى خواہشات نفسانى كا اثر تھے_

و لئن اتبعت اهواهم

''أہواء'' (جمع ہوى ) جسكا معنى نفسانى خواہشات اور ميلان ہے اس آيت شريفہ ميں اسكا معني، احكام قرآن كے قرينے كى وجہ سے جو اس كے مقابلے ميں ذكر ہواہے وہ قوانين و عقائد اور نظريات ہيں جو نفس پرستى كے ميلان كى وجہ سے پيدا ہوتے ہيں _

۶_خداوند متعال نے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو يہود و نصارى كے عقائدو نظريات كى پيروى كرنے سے منع فرمايا ہے_

و لئن اتبعت اهواء هم مالك من الله من وليّ و لا واق

۷_قرآن مجيد كے قوانين و احكام و معارف اور عالمانہ حقائق يہ صلاحيت ركھتے ہيں كہ ان كو قبول كيا جائے اور اسكى پيروى كى جائے_و كذلك انزلناه حكماً عربياً بعد ما جاء ك من العلم

۸_ ايسے معارف اور قوانين شائستہ ہيں اور پيروى كے لائق ہيں جو ہواى نفس سے بالاتر اور علم كى بنيادپر ہوں _

و لئن اتبعت اهواء هم بعد ما جائك من العلم

۹_ خداوند متعال نے پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو يہود و نصارى كى پيروى كرنے كى صورت ميں ان كى حفاظت اور مدد كرنے سے محروم ہونے كى دھمكى دي_لئن اتبعت أهواء هم مالك من الله من ولى و لا واق

(ولّي) كا معنى مدد گار ہے (واق) (وقاية) سے اسم فاعل ہے جو حفاظت كرنے كے معنى ميں آتاہے (من اللہ) ممكن ہے كہ اسكا متعلق محذوف ہواور لفظ (ولي) اور (واق) كے ليے حال ہو اور اسى بناء پر جملہ (مالك ...) كا معنى يوں ہوگا كہ تيرے ليے خداوند متعال كى طرف سے كوئي مددگار اور محافظ نہيں ہوگا يعنى خداوند متعال كى مدد تمھيں نہ پہنچ سكے گى _

۱۰_ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو ہميشہ خداوند متعال كى حمايت و مدد

۸۴۰