تفسير راہنما جلد ۱۰

تفسير راہنما 0%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 945

تفسير راہنما

مؤلف: آيت الله ہاشمى رفسنجاني
زمرہ جات:

صفحے: 945
مشاہدے: 196371
ڈاؤنلوڈ: 2083


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4 جلد 5 جلد 6 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 945 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 196371 / ڈاؤنلوڈ: 2083
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد 10

مؤلف:
اردو

عسى أن يبعثك ربّك مقاماً محمود''مقاماً محموداً''

كو مطلق ذكر كرنا شائد اس لئے ہو كہ مقام محمود ايسا مقام ہے كہ جو تمام مخلوق كے ليے قابل تعريف ہے_

۱۴_پيغمبر (ص) كو بلند معنوى مقا م كو كسب كرنے كى راہنمائي ان كے لئے الہى ربوبيت كا ايك جلوہ ہے_

فتهجّد به عسى أن يبعثك ربّك مقاماً محمودا

۱۵_پيغمبراكرم(ص) بھى اعلى معنوى مقامات كے كسب كرنے كى راہ ميں مناسب اعمال انجام دينے كے محتاج تھے_

فتهجّد به نافلة لك عسى أن يبعثك ربّك مقاماً محمودا

۱۶_مقامات معنوى كے درميان ''مقام محمود'' عظيم اور بلند مقام ہے_عسى أن يبعثك ربك مقاماً محمودا

اگر چہ پيغمبر اكرم (ص) پہلے ہى سے بہت عظےم مقام ومنزلت پر فائز تھے تو الله تعالى كا يہ فرمانا كہ نماز شب پڑھو تاكہ مقام محمود كو پالو _ مندرجہ بالانكتہ سے حكايت كر رہا ہے_

۱۷_پيغمبراكرم (ص) كا روز قيامت قابل ستائش مقام سے تجليّ كرنا _عسى أن يبعثك ربك مقاماً محمودا

مندرجہ بالا مطلب كى بناء يہ احتمال ہے كہ لفظ ''يبعثك'' سے روز قيامت ميں اٹھنے كى طرف اشارہ ہو اور''يبعثك'' كے لئے ''مقاماً '' مصدر ميمى اور مفعول مطلق ہو تو كہ اس صورت ميں آيت كى تركيب يوں ہوگي_''عسى أن يبعثك ربك بعثاً محموداً'' _ الله تعالى تمھيں پسنديدہ انداز سے روز قيامت مبعوث فرمائے گا_

۱۸_عن عمار الساباطى قال: كنا جلوساً عند أبى عبدالله (ع) بمنى فقال له رجل: ما تقول فى النوافل ؟ فقال : فريضة قال : ففزعنا و فزع الرجل ...،فقال : أبوعبدالله (ع) إنما ا عنى صلاة الليل على رسول الله (ص) إن الله يقول : ومن الليل فتهجد به نافلة لك _(۱)

عمار ساباطى روايت كرتے ہيں كہ ہم منى ميں امام صادق (ع) كے قريب بيٹھے ہوئے تھے كہ ايك شخص نے حضرت (ع) سے كہا كہ آپ (ع) نافلہ كے بارے ميں كيا فرماتے ہيں ؟ تو حضرت (ع) نے فرمايا : واجب ہيں _ راوى كہتا ہے كہ ہميں اوراس سائل كو بڑا تعجب ہوا تو حضرت (ع) نے فرمايا : ميرى مراد نماز شب ہے جو كہ رسول الله (ص) پر واجب تھى جيسا كہ پروردگار فرماتا ہے:ومن الليل فتهجد به نافلة لك

۱۹_عن أحدهما قال: فى قوله: عسى أن يبعثك ربك مقاماً محموداً : قال : هى الشفاعة _(۲)

____________________

۱) تہذيب ج ۲، ص ۲۴۲، ح ۲۸، مسلسل ۹۵۹ _ نورالثقلين ج ۳،ص ۲۰۴، ح ۳۸۲_۲) تفسير عياشى ج ۲، ص ۳۱۴، ح ۱۴۸، _ نورالثقلين ج ۳،ص۲۱۱، ح ۴۰۲_

۲۲۱

امام باقر (ع) يا امام صادق(ع) سے الله تعالى كے اس كلام''أن يبعثك ربك مقاماً محموداً'' كے بارے ميں روايت ہوئي ہے كہ انہوں نے فرمايا : يہاں مقام محمود سے مراد شفاعت ہے_

۲۰_قال على بن أبى طالب (ع) : ثم يجتمعون فى موطن آخر يكون فيه مقام محمد (ص) وهو المقام المحمود فيثنى على الله تبارك وتعالى بمالم يثن عليه احد قبله ثم يثنى على الملائكة كلّهم ثم يثنى على الرسل ثم يثنى على كلّ مؤمن ومؤمنة فذلك قوله: عسى أن يبعثك ربك مقاماً محموداً وهذا كلّه قبل الحساب (۱)

حضرت على ابن ابى طالب(ع) فرماتے ہيں : پھر اللہ تعالى (روز قيامت ) لوگوں كو اس جگہ جمع كرے گا كہ مقام محمد (ص) وہاں ہے اور وہ مقام محمود ہے پھر پيغمبر (ص) الله تعالى كى يوں ثناء كريں گے كہ كسى نے پہلے ويسى پروردگار كى ثناء نہ كى ہوگي_ پھر (ترتيب كے ساتھ) تمام ملائكہ انبياء تمام مؤمنين اور مؤمنات پر صلوة بھيجيں گے اور يہ وہى كلام ہے :''عسى أن يبعثك ربك مقاماً محموداً'' اور يہ سب چيزيں حساب لينے سے پہلے ہيں

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) قيامت ميں ۱۷ ، ۲۰;آنحضرت(ص) كا مربى ہونا ۱۴; آنحضرت (ص) كو بشارت ۷; آنحضرت (ص) كى تہجد ۱، ۷; آنحضرت(ص) كى خصوصيات ۲،۱۸; آنحضرت (ص) كى ذمہ دارى ۱، ۲; آنحضرت (ص) كى شفاعت ۱۹;آنحضرت (ص) كى نماز شب ۱، ۲، ۱۸; آنحضرت (ص) كى ہدايت ۴، ۱۴;آنحضرت (ص) كے مقامات اخروى ۱۷،۱۹، ۲۰; آنحضرت (ص) كے مقامات معنوى ۷، ۱۵; آنحضرت (ص) كے واجبات ۲، ۱۸

احكام :۲

الله تعالى :الله تعالى كى امداد كے آثار ۹;اللہ تعالى كى بشارتيں ۷;اللہ تعالى كى توفيقات كے آثار ۹;اللہ تعالى كى ربوبيت كى علامات ۱۴;اللہ تعالى كے ارادہ كے آثار ۱۱;اللہ تعالى كے اوامر ۱

انبياء :انبياء كى ذمہ دارى ۶;انبياء كى عبادات ۶

تہجد:تہجد كا وقت ۱۰;تہجد كى اہميت ۳;تہجد كے آثار ۷، ۸، ۱۱

دينى رہبر:دينى رہبر كى ذمہ دارى ۶;دينى رہبر كى عبادات ۶/ذمہ داري:ذمہ دارى كا پيش خےمہ ۵

روايت : ۱۸، ۱۹، ۲۰/رہبري:رہبرى كے آثار ۵

____________________

۱) توحيد صدوق ص ۲۶۱ح۵،ب ۶۳_ نورالثقلين ج ۳،ص۲۰۶، ح ۳۹۰_

۲۲۲

شب:شب كے فوائد ۱۰

عمل :پسنديدہ عمل كے آثار ۱۲;عمل كے آثار ۱۵

قرآن :قرآن كى تلاوت كى اہميت ۳، ۴

مقامات معنوى :مقامات معنوى كا پيش خيمہ ۱۱، ۱۲، ۱۵; مقامات معنوى كى اہميت ۱۳، ۱۶;مقام محمود جيسے معنوى مقام كى اہميت ۱۶;مقامات معنوى كى بنياد ۹; مقامات معنوى كے اسباب ۸، ۱۳;

نبوت:نبوت كے آثار ۵

نماز :نماز شب كے آثار ۱۳;نماز شب كے احكام ۲;نماز شب ميں قرآن ۴

آیت ۸۰

( وَقُل رَّبِّ أَدْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ وَأَخْرِجْنِي مُخْرَجَ صِدْقٍ وَاجْعَل لِّي مِن لَّدُنكَ سُلْطَاناً نَّصِيراً )

اور يہ كہئے كہ پروردگار مجھے اچھى طرح سے آبادى ميں داخل كر اور بہترين انداز سے باہر نكال اور ميرے لئے ايك طاقت قرار ديدے جو ميرى مددگار ثابت ہو (۸۰)

۱_الله تعالى كى طرف سے پيغمبر-(ص) كو مانگنے اور دعا مناجات كى تعليم كے طريقہ سكھايا جانا _

وقل ربّ أدخلنى مدخل صدق

۲_دعاء ومناجات كے آداب ميں سے پروردگار كى ربوبيت سے تمسك اور اپنے آپ كوخدا كے تحت تربيت مربوب سمجھتا_وقل رب أدخلنى مدخل صدق

۳_الله تعالى كا پيغمبر (ص) كو نماز اور نوافل كے ساتھ دعا ومناجات كا حكم _

ا قم الصلوة فتهجد به نافلة لك وقل رب أدخلنى مدخل صدق

مندرجہ بالا مطلب اس نكتہ كى بنا ء پر ہے كہ ''وقل رب''، ''فتہجد'' پر عطف تھا اور عام كے بعد خاص كا ذكر ،اعمال ميں سے ايك عمل كو بيان كر رہا ہے كہ جسے تہجد اور نماز شب ميں انجام دينا مناسب ہے _

۴_پروردگار كى بارگاہ ميں اپنى حاجات كو زبان پر لانا ،دعا اور مناجات كے آداب ميں سے ہے_

وقل رب أدخلنى مدخل صدق

۵_پيغمبر (ص) كى ذمہ دارى ہے كہ وہ الله تعالى سے ہر عمل كو آغاز سے انجام تك خالص اور سچى نيت كے ساتھ انجام

۲۲۳

دينے كى توفيق طلب كريں _وقل رب أدخلنى مدخل صدق وأخرجنى مخرج صدق

۶_كاموں كو سچائي كے ساتھ شروع كرنااور صحيح طريقہ سے ان سے عہدہ براہونا، الہى امداد كا محتاج ہے_

وقل رب أدخلنى مدخل صدق وأخرجنى مخرج صدق

۷_نوافل اور نماز شب ميں ا للہ تعالى سے كاموں ميں سچائي سے داخل ہونے اور سچائي سے خارج ہونے كى توفيق طلب كرنا ايك پسنديدہ اور مطلوب عمل ہے _ومن الليل فتهجد به نافلة لك وقل رب أدخلنى مدخل صدق وأخرجنى مخرج صدق

۸_اعمال كى قدروقيمت، سچائي' خلوص اور ريا كارى سے پرہيز كى بناء پر ہے_

أدخلنى مدخل صدق وأخرجنى مخرج صدق

۹_الله تعالى سے رات كے نوافل ميں توفيق، خلوص اور كامل صداقت كى درخواست كا ضرورى ہونا _

ومن الليل فتهجد به وقل رب أدخلنى مدخل صدق وأخرجنى مخرج صدق

يہ جو الله تعالى نے پيغمبر (ص) كو تہجد كى نصيحت كے ساتھ ہر كام ميں اپنى بارگاہ سے خلوص كى درخواست كرنے كے ليے كہا ہے_يہ مندرجہ بالا نكتہ كى طرف اشارہ ہو سكتا ہے _

۱۰_انسان كے اعمال ہميشہ اخلاص سے عارى ہونے كے خطرے ميں ہيں _

رب أدخلنى مدخل صدق وأخرجنى مخرج صدق

يہ جو الله تعالى نے اپنے پيغمبر(ص) كو حكم ديا ہے كہ اخلاص اور صداقت كو كسب كرنے كے لئے الله تعالى سے مدد مانگو _ اس سے معلوم ہوتا ہے كہ انسان كے اعمال ہميشہ ريا ميں مبتلا ہونے كے خطرے ميں ہيں _

۱۱_تمام انسان ،حتى كہ پيغمبراكرم (ص) عمل ميں اخلاص وصداقت ركھنے كے لئے الله تعالى كى خصوصى امداد كے محتاج ہيں _وقل رب أدخلنى مدخل صدق وأخرجنى مخرج صدق

۱۲_صداقت او راخلاص كے ساتھ كام كا آغاز اس بات كا ضامن نہيں ہے كہ كام كاانجام بھى صداقت اور اخلاص پر ہوگا_أدخلنى مدخل صدق وأخرجنى مخرج صدق

۱۳_پيغمبر اكرم(ص) كو اپنى رسالت كو كاميابى سے انجام دينے ميں طاقت وتوانائي حاصل كرنے كے لئے الله تعالى كى بارگاہ ميں دعا ومناجات كرنے كا حكم_

۲۲۴

وقل رب ...واجعل لى من لدنك سلطاناً نصيرا

مندرجہ بالا مطلب اس نكتہ كى بنياد پر ہے كہ ''سلطان'' سے مراد حس طرح بعض مفسرين نے كہا قوى اور برتر طاقت ہو_

۱۴_كاموں كے آغاز سے ا نجام تك صداقت اور سچائي ركھنے ميں الہى طاقت وتوانائي كى ضرورت _

أدخلني ...واجعل لى من لدنك سلطاناً نصيرا

۱۵_پيغمبر (ص) كو اپنى رسالت كے كاميابى سے انجام دينے اور منكرين كا مقابلہ كرنے ميں الله تعالى كى بارگاہ سے حجت اور ضرورى دليل مانگنے كا حكم _وقل ...واجعل لى من لدنك سلطاناً نصيرا

۱۶_حق وحقيقت كے منكرين كا مقابلہ كرنے كے ميدان ميں محكم دليل وحجت اور كاميابى حاصل كرنے كى طاقت الله كى امداد كى صورت ميں ہے_واجعل لى من لدنك سلطاناً نصيرا

۱۷_ خداوند عالم نے طاقت اور توانائي كو اصلاح و تعمير كے ليے طلب كرنے كے ليے كيا ہے نہ كہ فساداور تباہى پھيلانے كے ليے_واجعل لى من لدنك سلطاناً نصيرا

''لي'' ميں لام انتفاع ہے اور اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ ہر قدرت انسان كے فائدہ كے لئے نہيں ہے _ پس اس قوت كى درخواست كرناچاہئے كہ جس سے مصالح بشر پورے ہوں _

۱۸_الله تعالى كے اہداف كو عملى جامعہ پہنانے كے لئے حصول توانائي اور طلب قدرت الله كى رضا اور پسند كے مطابق ہے_واجعل لى من لدنك سلطاناً نصيرا

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) كا معلم ہونا ۱;آحضرت (ص) كو دعا كى تعليم ۱;آنحضرت (ص) كى دعا ۵; آنحضرت(ص) كى ذمہ دارى ۱۵; آنحضرت(ص) كى رسالت ۱۳; آنحضرت (ص) كى شرعى ذمہ داري۳، ۵، ۱۳;آنحضرت (ص) كى ضرورتيں ۱۱، ۱۵/اخلاص:اخلاص كى اہميت۵;اخلاص كى بنياد ۱۱; اخلاص كے آثار ۸;اخلاص كى درخواست ۵، ۹

الله تعالى :الله تعالى سے حجت كى درخواست ۱۵;اللہ تعالى كى امداد كے آثار ۱۶;اللہ تعالى كے اوامر ۳، ۱۷;اللہ تعالى كى تعليمات ۱;اللہ تعالى كى ربوبيت سے تمسك ۲

امداد طلب كرنا:الله تعالى سے امداد طلب كرنے كى اہميت ۶

انسان:انسان كى خطائيں ۱۰;انسان كا مربى ہونا ۲ ; انسان كى معنوى ضروريات ۱۱، ۱۴

اقدار:اقدار كا معيار ۸

۲۲۵

حق :حق كوجھٹلانے والوں پر كاميابى كى اساس ۱۶

دعا :دعا كى اہميت ۳;دعا كے آداب ۲، ۴;اللہ كے حكم پر عمل كرنے كے لئے دعا ۱۳;دعا ميں حاجت كا بيان ۴

ريا:رياكارى كا خطرہ ۱۰

صداقت :صداقت كا پيش خيمہ ۶;صدات كى اہميت ۵، ۷ ;صداقت كى بنياد۱۱;صداقت كى درخواست ۵،۷، ۹;صداقت كے آثار ۸

ضروريات :الله تعالى كى امدادوں كى ضرورت ۶، ۱۱، ۱۴

عمل:پسنديدہ عمل۷; عمل كا آغاز ۵، ۶، ۷; عمل كا انجام ۵،۶ ،۷; عمل كى قيمت كا معيار۸;عمل كے آغاز ميں اخلاص ۱۲; عمل كے اخلاص عوامل ۱۴; عمل كے انجام ميں اخلاص ۱۲;عمل كے انجام ميں صداقت۱۲; عمل ميں اخلاص ۵، ۸، ۱۱;عمل كے آغاز ميں صداقت ۱۲;عمل ميں رياكارى ۱۰; عمل ميں صداقت كے عوامل۱۴

قدرت:پسنديدہ قدرت كى درخواست ۱۷، ۱۸; قدرت كى اساس ۱۶;قدرت كى درخواست ۱۳

نماز:نافلہ نمازميں دعا ۳;نماز شب ميں دعا ۷، ۹ ; نماز شب كے آداب ۹; نماز كے آداب ۳; نماز ميں دعا ۳

آیت ۸۱

( وَقُلْ جَاء الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقاً )

اور كہہ ديجئے كہ حق آگيا اور باطل فنا ہوگيا كہ باطل بہرحال فنا ہونے والا ہے (۸۱)

۱_اللہ تعالى كا پيغمبر (ص) كو مشركين مكہ كے لئے حق كے يقينى غلبہ اور باطل كے يقينى نابود ہونے كے اعلان كا حكم دينا _

وقل جاء الحق وزهق الباطل

۲_دين اسلام اور پيغمبر (ص) كى راہ حق ہے_ اس كے علاوہ ہر راستہ باطل اور نابود ہونے والا ہے_

وقل جاء الحق وزهق الباطل

جيسا كہ مفسرين نے بھى كہا ہے كہ يہ سورہ مكى ہے تو يہاں احتمال ہے كہ حق سے مراد دين اسلام اور شريعت محمدى (ص) ہے جبكہ باطل سے مراد اس زمانہ ميں اس كے مد مقابل عقائد ہيں _

۳_باطل كا خاتمہ اور نابودى تنہا حق كے ظہور اور ميدان ميں انے سے ہى ممكن ہے_وقل جاء الحق وزهق الباطل

۲۲۶

احتمال ہے كہ''جاء الحق'' كا''زهق الباطل'' پر مقدم ہونا اس حوالے سے ہو كہ حق كو ميدان ميں لانے سے باطل كو ختم كردينا چايئےاور يہ جملہ''إن الباطل كان زهوقا'' ( كہ باطل طبيعى طور پر نابود ہونے والا ہے) اسى مندرجہ بالا مطلب كى تائيد ميں ہے_

۴_حق كا تعارف اور حقيقى اقدار پيش كرنا مخالف قوتوں اور باطل مذاہب سے اعلان جنگ ہے_

وقل جاء الحق وزهق الباطل

''جاء الحق'' كو مقدم كرنے سے معلوم ہوتا ہے كہ حق كے ظہور كرنے كى صورت ميں باطل كا رنگ پھيكا پڑجاتا ہے اور اگر درست اور حق راستہ پيش نہ كيا جائے تو باطل اسى طرح ميدان ميں ڈٹا رہے گا_

۵_نابودى اور ناپائدارى ،باطل كى حقيقت وطبيعت ميں پوشيدہ _إن الباطل كان زهوقا

۶_باطل كا پائدار نہ ہونا اور شكست كھاجانا راہ حق كے ظہور كے وقت اور ميدان جنگ ميں آنے كے بعد يقينى فتح كى دليل و علامت ہے_جاء الحق وزهق الباطل إن الباطل كان زهوقا

يہ كہ الله تعالى نے پايدار نہ ہونا اور شكست كھا جانا باطل كى ذات كا حصہ شمار كيا _''إن الباطل كان زهوقا'' اس سے معلوم ہوا كہ اسى پايدارى كا نہ ہونا حق كى فتح پر دليل ہے_

۷_حق كى باطل پر يقينى كاميابى كا اعلان مؤمنين كے لئے اميد كا سرمايہ اور مشركوں اوراہل باطل كے لئے مايوسى كا سبب ہے_وقل جاء الحق وزهق الباطل إن الباطل كان زهوقا

كفار كى پيغمبر (ص) كو مكہ سے نكالنے كى كوششوں كے بعد باطل كى يقينى شكست كا اعلان مؤمنين كى اساس كو روحانى طور پر مضبوط كرنے اور مشركين كے دل ميں مايوسى ڈالنے كا موجب بن سكتا ہے_

۸_باطل مكتب كے پائدار نہ ہونے اور شكست كھانے كا اعلان اور تبليغ لوگوں كو اس طرف بڑھنے سے روكنے اور اس كا مقابلہ كرنے كى كوشش كے لئے ايك طريقہ ہے_وقل جاء الحق وزهق الباطل إن الباطل كان زهوقا

باطل كى يقينى شكست كى وجہ يہ ہے كہ وہ ذاتى طور پر شكست كھانے والاہے' شايد مندرجہ بالا مطلب اسى حوالے سے ہو_

آنحضرت (ص) :آنحضرت(ص) كى رسالت ۱

۲۲۷

اسلام :اسلام كى حقانيت ۲

اقدار:اقدار كى شناخت كے آثار ۴;اقدار كے مخالفوں سے جنگ كا طريقہ ۴

الله :الله كے اوامر ۱

باطل :باطل سے جنگ كا طريقہ ۴، ۸;باطل كا زوال ۲، ۵;باطل كى حقيقت ۵;باطل كى شكست كا اعلان ۱، ۸;باطل كى شكست كى تبليغ ۸;باطل كى شكست كے اعلان كے آثار ۷;باطل كے زوال كا يقينى ہونا ۱;باطل كے زوال كے آثار ۶;باطل كے زوال كے اسباب۳

حق:حق كا معيار ۲;حق كى شناخت كے آثار ۴; حق كى فتح كا اعلان ۱;حق كى فتح كا يقينى ہونا ۱;حق كى فتح كے اعلان كے آثار۷;حق كى فتح كے دلائل ۶;حق كے ظہور كے آثار ۳

مشركين :مشركين كى مايوسى كے اسباب ۷

مؤمنين :مؤمنين كے اميدركھنے كے اسباب ۷

آیت ۸۲

( وَنُنَزِّلُ مِنَ القرآن مَا هُوَ شِفَاء وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ وَلاَ يَزِيدُ الظَّالِمِينَ إَلاَّ خَسَاراً )

اور ہم قرآن ميں وہ سب كچھ نازل كر رہے ہيں جو صاحبان ايمان كے لئے شفا اور رحمت ہے اور ظالمين كے لئے خسارہ ميں اضافہ كے علاوہ كچھ نہ ہوگا (۸۲)

۱_الله تعالى كى طرف سے قرآنى آيات كانزول ،جلوہ حق اور باطل كى نابودى كا سبب ہے_

وقل جاء الحق وزهق الباطل وننزل من القرآن

حق كى فتح اور باطل كى شكست كے اعلان كے بعد''ننزول من القرآن'' كا ذكر ممكن ہے مندرجہ بالا نكتہ بناء پر ہو_

۲_الله تعالى كى طرف سے قرآنى آيات كا نزول انسانوں كى روحى اور فكرى بيماريوں كو شفا بخشنے كے لئے ہے_

وننزّل من القرآن ما هو شفاء ورحمة

۲۲۸

يہ كہ قرآن كتاب ہدايت ہے اور اس ميں معنويت كا عنصر غالب ہے تو اس كا شفاء ہونا فكرى اور روحى مشكلات كو رفع كرنے كا باعث ہوسكتا ہے_

۳_قرآنى آيات كے تدريجى نزول كا انسانوں كى بيماريوں كے دور كرنے ميں كردار _

وننزل من القرآن ماهو شفاء ورحمة بعض اہل لغت كا يہ نظريہ ہے كہ باب تفعيل ميں مادہ ''نزل'' سے مراد نزول تدريجى ہے_پس قران كے تدريجى نزول كا ذكر اور اس كے ہدف شفاء كا ذكر مندرجہ بالا مطلب حقيقت كو بيان كر رہاہے _

۴_قرآن، انسانوں ميں پائي جانے والى ہر بيمارى كے لئے شفاء ہے _وننزل من القرآن ما هو شفائ

۵_انسان، وحى كى ہدايت كے بغير ايك طرح كى فكري، روحى اور اخلاقى بيمارى ميں مبتلا ہے_

وننزّل من القرآن ما هو شفاء ورحمة يہ كہ قرآن مجيد كے نزول كو شفاء دينے كے عنوان سے تعارف كروايا گيا ہے يہ حكايت كررہا ہے كہ وحى كے بغير انسان روحانى لاعلاج امراض ميں مبتلاء ہے_

۶_قرآنى آيات، الله تعالى كى طرف سے اہل ايمان كے لئے بہت بڑى رحمت ہيں _وننزلّ رحمة للمو منين

۷_فقط اہل ايمان اور حق قبول كرنے والے قرآنى شفا اور رحمت كے حامل ہيں _

وننزل من القرآن ما هو شفاء ورحمة للمؤمنين

۸_روحى ، فكرى اور اخلاقى بيماريوں كے لئے قرآنى شفا، رحمت، شفقت اور مہربانى كے ساتھ ہے_

وننزل من القرآن ما هو شفاء ورحمة للمؤمنين

قرآن كے لئے دونوں صفات ''شفائ'' اور ''رحمت '' كا با ہمى ذكر ممكن ہے ' مندرجہ بالا معنى كے لئے ہو _

۹_مؤمنين ميں بعض فكرى ، روحى اور اخلاقى بيماريوں كا پيدا ہونا اور انہيں كى قرآنى علاج كى ضرورت _

وننزل من القرآن ما هو شفاء ورحمة للمؤمنين

۱۰_ظالم، نہ صرف قرآنى رحمت اور شفاء سے كچھ حاصل نہيں كرسكتے بلكہ وہ ان كے لئے محض خسارہ اور نقصان ہے_

ولا يزيد الظلمين الا خسارا

۱۱_حق كے منكر كفار ،ظالم ہيں اور قرآنى رحمت اور شفا جيسى نعمت ان كے لئے خسارت اور نقصان ميں اضافہ كا موجب ہے_شفاء ورحمة للمؤمنين ولا يزيد الظلمين الاخسارا

مندرجہ بالا نكتہ كى اساس يہ ہے كہ ''ظالمين'' سے مراد ''مؤمنين '' كے مقابلہ كے قرينہ سے كفار ہو _

۲۲۹

۱۲_قرانى ہدايت سے فائدہ لينے يا محروم ہونے ميں انسانوں كا اپنا اصلى كردار ہے_

من القرآن ما هو شفاء ورحمة للمؤمنين ولا يزيد الظالمين الاّ خسارا

''مؤمنين'' اور ''ظالمين'' كى صفت علت اور سبب بيان كرنے كے لئے ہے يعنى مؤمنين ميں حق قبول كرنے كا جذبہ قرآنى رحمت وشفاء سے فائدہ لينے كا باعث ہے جبكہ ظالموں ميں حق قبول نہ كرنے كى خصلت قرآن سے محروميت كا سبب ہے_

۱۳_عن أبى عبدالله (ع) : إنما الشفاء فى علم القرآن لقوله: ''وننزل من القرآن ما هو شفاء ورحمة للمؤمنين'' _(۱)

امام صادق (ع) سے روايت ہوئي ہے كہ بلا شبہ شفائ، علم قرآن ميں ہے _ كيونكہ الله تعالى فرماتا ہے:''وننزل من القرآن ما هو شفاء ورحمة للمؤمنين ''

۱۴_قال أبوعبدالله (ع) : ما اشتكى ا حد من المؤمنين شكاية قطّ وقال إيخلاص نية ومسح موضع العلة ويقول :''وننزل من القرآن '' الاّ عوفى من تلك العلة أيّة علة كانت (۱)

امام صادق (ع) سے روايت ہوئي ہے كہ آپ (ع) نے فرمايا :بيمارے نہ ہونے والا مؤمن كى بيمارى والى جگہ پر ہاتھ پھيرتے ہوئے خالص نيت سے كہے: ''و ننزل من القرآن '' مگريہ كہ بيمارى سے شفاياب ہوجائے گا_

انحراف :انحراف اخلاقى كا پيش خيمہ ۵;انحراف فكرى كا پيش خيمہ ۵;انحراف فكرى كے موانع

انسان:انسانوں كا كردار ۱۲/باطل :باطل كى شكست كے اسباب ۱

بيماري:بيمارى كے علاج كے اسباب ۳، ۴، ۹;روحى بيمارى كا پيش خيمہ ۵;روحى بيمارى كا علاج ۹;روحى بيمارى كى شفا ۸

حق:حق قبول كرنے والوں پر رحمت ۷;حق قبول كرنے والوں كى شفا ۷;حق قبول كرنے والوں كے فضائل ۷;حق قبول نہ كرنے والوں كا ظلم ۱۱;حق قبول نہ كرنے والوں كے نقصان كے اسباب ۱۱;حق كى علامات ۱

روايت : ۱۳، ۱۴/ظالم لوگ : ۱۱/ظالموں كے نقصان كے اسباب ۱۰

قرآن:قرآن سے محروميت كا پيش خيمہ ۱۲;قرآن كا شفا دينا۲،۳، ۴، ۷، ۹،۱۱; قرآن كا كردار ۴، ۱۰;قرآن كى رحمت ۶;قرآن كى رحمت سے محروميت ۱۰، ۱۱;قرآن كى رحمت كے شامل حال ۷;قرآن كے تدريجى نزول كے آثار ۳;

____________________

۱) نورالثقلين ج ۳، ص ۲۱۳، ح ۴۱۵ _ بحارالانوار ج ۹۲، ص ۵۴، ح ۱۸_

۲۳۰

قرآن كے شفا دينے ميں رحمت ۸; قرآن كے شفا دينے كى خصوصيات ۸; قرآن كے شفا دينے ميں مہربانى ۸; قرآن كے نزول كے آثار ۱;قرآن كے نزول كے روحى آثار ۲;قرآن كے ہدايت دينے كا پيش خيمہ ۱۲

كفار :كفار كا ظلم ۱۱;كفار كے نقصان كے اسباب ۱۱

مؤمنين :مؤمنين پر رحمت ۶، ۷;مؤمنين كى روحانى بيمارى كا علاج ۹;مؤمنين كى شفا ۷;:مؤمنين كى معنوى ضروريات ۹;مؤمنين كے فضائل ۷

وحى :وحى كا ہدايت دينا ۵

آیت ۸۳

( وَإِذَا أَنْعَمْنَا عَلَى الإِنسَانِ أَعْرَضَ وَنَأَى بِجَانِبِهِ وَإِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ كَانَ يَؤُوساً )

اور ہم جب انسان پر كوئي نعمت نازل كرتے ہيں تو وہ پہلو بچا كر كنارہ كش ہوجاتا ہے اور جب تكليف ہوتى ہے تو مايوس ہوجاتا ہے (۸۳)

۱_انسان آسائش اور الہى نعمات كو پانے كے بعدناشكرى اور خدا سے دورى كى طرف مائل ہوجاتا ہے_

وإذا أنعمنا على الإنسان ا عرض ونا بجانبه

''نا '' سے مراد''بعد'' يعنى دور ہونا ہے اور ''أعرض ونا بجانبہ''(يعنى منہ پھيرا اور كنارے ہوگيا) ناشكرى اور الله تعالى سے دورى كا كنايہ ہے_

۲_مادى وسائل اور الله كى نعمات كو پانے كے بعد مغروررانہ احساسات كا پيدا ہونا ناقابل نفرت اوراللہ تعالى كى طرف سے مذموم ہے_وإذا أنعمنا على الإنسان ا عرض ونا بجانبه

۳_آسائش اور نعمتوں كو پانے كے بعد انسان، حق قبول نہ كرنے والى بيمارى كے خطرے ميں ہے _

وإذا أنعمنا على الإنسان ا عرض ونا بجانبه

۴_قرآن، الله تعالى كى انسان كے لئے واضح ترين نعمتوں ميں سے ہے_

وننزل من القرآن وإذا أنعمنا على الإنسان ا عرض

نعمت كے مصاديق ميں سے ايك مصداق، پچھلى آيت (وننزل من القرآن) كے قرينہ سے ، قرآن بھى ہے _

۵_نعتموں كے حصول كا تقاضا ہے كہ انسان نعمتوں كے خالق كى طرف توجہ پيدا كرے اور اس كا شكر يہ و حمد بجالے

۲۳۱

لائے نہ كہ اس سے منہ موڑ لے_وإذا أنعمنا على الإنسان ا عرض ونا بجانبه

نعمتوں كو حاصل كرنے والے انسان كے حالات كو مذمت كے انداز سے بيان كرنا، ايك حكايت نہيں ہے بلكہ انسانوں كو منعم كے حق ادا كرنے كى ترغيب ہے_

۶_انسان، معمولى سى مصيبت اور ناگوارى كا سامنا كرنے سے شديد مايوسى اور بے چارگى كا شكار ہوجاتا ہے_

وإذا مسّه الشرّ كان يو س ''مسّه الشرّ'' (يعنى مصيبت اسے چھوئے) كے ذريعے اس كے مصيبت ميں مبتلا ہونے كى تعبير معمولى سى ناگوارى كو بيان كر رہى ہے _

۷_ آسائش كے وقت خدا كى ناشكرى كرنے والے جب سختيوں كا سامنا كرتے ہيں تو ان ميں ضعف اوور ناتوانى زيادہ ہو جاتى ہے_وإذا أنعمنا على الإنسان ا عرض ونا بجانبه وإذا مسّه الشرّكان يو سا

۸_آسائش كى حالت ميں الله سے دورى اور مصيبتوں كے آنے ميں مايوس ہونا، قرآنى ہدايت سے محروم لوگوں كى بيمارى ہے_وننزّل شفاء ورحمة للمؤمنين ولا يزيد الظلمين الاّ خساراً_ وإذا أنعمنا على الإنسان كا ن يو سا

۹_الله تعالى ،انسانوں كو صرف خير ونعمت عطا كرتا ہے_إذا أنعمنا على الإنسان وإذا مسّه الشرّ

يہ كہ اس آيت ميں الله تعالى كو نعمتيں دينے والا بتايا گيا جبكہ مصيبتوں كى نسبت اس كى طرف نہيں دى گئي_ اس سے مندرجہ بالا نكتہ حاصل ہوتا ہے_

۱۰_انسان كى مذموم ' ناپسنديدہ خصلتوں كہ جن كى الله نے مذمت كى ہے ان ميں سے ايك اس كا مايوس ہونا ہے_

وإذا مسّه الشرّ كان يو سا

۱۱_انسان سے نعمت كا سلب ہونا، مصيبت اور اس كى مايوسى كا باعث ہے_وإذا أنعمنا على الإنسان وإذا مسّه الشرّ ''مسّہ الشرّ'' كا ''أنعمنا '' كے مقابل ميں آنے كے قرينہ سے احتمال پيدا ہوتا ہے كہ انسان كا سختى سے دوچار ہوناگويا اس كا نعمات كو كھو دينا ہے_

آسائش:آسائش كے آثار ۱، ۲، ۳;آسائش ميں الله سے دورى ۸

آسائش پسند لوگ :آسائش پسند لوگوں كا حق قبول نہ كرنا ۳; آسائش پسند لوگوں كى كمزورى ۷;سختى كے وقت آسائش پسند لوگ ۷

۲۳۲

الله تعالى :الله تعالى كى بخششيں ۹;اللہ تعالى كى مذمتيں ۲، ۱۰;اللہ تعالى كى نعمات ۴

انسان:انسان كى صفات ۱، ۶;انسان كى ناشكرى ۱

استكبار:استكبار كى مذمت ۲

حق :حق قبول نہ كرنے كا پيش خيمہ ۳

خير:خير كا سرچشمہ ۹

ذكر :منعم كے ذكر كا پيش خيمہ ۵

شكر:نعمت كے شكر كا پيش خيمہ ۵

قرآن:قران سے محروم لوگوں كى بيمارى ۸; قرآن كى ہدايت سے محروميت ۸

گمراہ لوگ:گمراہ لوگوں كا اعراض كرنا۸;گمراہ لوگوں كا مايوس ہونا ۸

مايوسي:مايوسى كى مذمت ۱۰;مايوسى كے اسباب ۱۱

شر :شركے موارد ۱۱

ناشكري:نعمت كى ناشكرى كا پيش خيمہ ۱

ناشكرى كرنے والے:ناشكرى كرنے والوں كى كمزورى ۷; مصيبت ميں ناشكرى ۷

نعمت :نعمت قرآن ۴;نعمت كا سرچشمہ ۹;نعمت كے آثار ۵; نعمت كے سلب كے آثار ۱۱

مشكلات :مشكلات كے آثار ۶; مشكلات ميں مايوسى ۶، ۸

آیت ۸۴

( قُلْ كُلٌّ يَعْمَلُ عَلَى شَاكِلَتِهِ فَرَبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَنْ هُوَ أَهْدَى سَبِيلاً )

آپ كہہ ديجئے كہ ہر ايك اپنے طريقہ پر عمل كرتا ہے تو تمھارا پروردگار بھى خوب جانتا ہے كہ كون سب سے زيادہ سيدھے راستہ پر ہے (۸۴)

۱_پيغمبر (ص) پر قرآن كے مختلف انسانوں پر دو قسم كے اثرات كے پيش خيمہ كے حوالے سے ابہام دور كرنے كى ذمہ داري_وننزل من القرآن قل كل يعمل على شاكلته

۲۳۳

مندرجہ بالا مطلب كى بناء يہ نكتہ ہے كہ يہ آيت پچھلى آيت ميں ايك مخفى سوال كا جواب ہے اور وہ سوال يہ ہے كہ كيسے مختلف لوگ قرآن سے مختلف فائدہ حاصل كرتے ہيں ؟ تو يہ آيت جواب ديتى ہے كہ اس مختلف قسم كے فائدہ لينے كى وجہ ان كى اپنى روحى حالت اور عادات كا رد عمل ہے_

۲_انسان كے اعمال اورفيصلے، اس كى اندرونى خصلتوں ' انگيزوں اور روحى حالات كا نتيجہ ہيں _

كل يعمل على شاكلته

۳_بعض انسانوں كا قرآن سے اچھا فائدہ اٹھانااور دوسرے گروہ كا صحيح فائدہ نہ اٹھاناان كى خصلتوں اور روحى حالات كا نتيجہ ہے_وننزل من القرآن ماهو شفاء ورحمة للمؤمنين ولايزيد الظلمين الاّ خساراً قل كل يعمل على شاكلته

۴_انسان، اپنى روحانى صفات اور راسخ نفسانى عادات اور باطنى اعتقادات كے حصار ميں جكڑا ہوا ہے _

قل كل يعمل على شاكلته ''شاكلتہ'' لغت ميں نفسانى راسخ عادتوں كے معنى ميں ہے اور ايسى روش اور طريقہ كے معنى ميں بھى ہے كہ جسے انسان نے اپنا يا ہو _ (قاموس المحيط) بہرحال يہ اس حقيقت كو بتارہى ہے كہ آدمى اپنى روحى حالات اور اعتقادات ميں گھرا ہوا ہے_

۵_انسان كے روحى معاملات اور راسخ نفسانى عادات كى شكل بننے ميں اس كے انتخاب اور اختيار كا كردار ہے _

وننزل من القرآن كل يعمل على شاكلته

پچھلى آيات ميں مؤمنين كى تعريف كى گئي اور ظالموں كى مذمت كى گئي_ اس آيت ميں مؤمنين اورظالموں دونوں كے متضاد اعمال كى وجہ، ان كى نفسانى راسخ عادات كا متفاوت ہونا بيان كى گئي ہے _ اب انسان كى اس كى نفسانى راسخ عادات كى بناء پر مدح ومذمت اس صورت ميں صحيح ہے كہ وہ اپنى عادات بنانے ميں موثراور اختيار ركھتا ہو_

۶_انسان كے ليے اپنى عادات كے بنانے اور اپنے بنيادى اعتقادات ميں دقت كا كرنا ضرورى ہے_

قل كل يعمل على شاكلته

''شاكلتہ'' كے دو معانى ہيں : ايك ذاتى شخصيت اور اخلاق اور دوسرا كسب ہونے والى عادات واخلاق _ مندرجہ بالا مطلب پچھلى آيت كے قرينہ سے دوسرے معنى كى بنياد پرہے_ تو گويا يہاں انسانوں كو خبر دار كيا گيا ہے كہ اپنى شخصيت كى تشكيل ميں وقت سے كام ليں _

۷_انسانى نفوس، شكل وصورت ميں مختلف ھيں _قل كل يعمل على شاكلته

۸_انسانوں كو پالنے والا الله تعالى ، دوسروں كى نسبت انسانوں كى راسخ عادتوں اور انكے روحى حالات

۲۳۴

سے زيادہ باخبر _فربكم أعلم بمن هو أهدى سبيلا

۹_الہى ربوبيت كا تقاضا ہے كہ وہ گذشتہ ہدايت لينے والوں اور ان كے دوسروں سے امتياز سے گہرائي تك واقف ہو _

فربكم أعلم لمن هو أهدى سبيلا

دوسرى صفات يا اسم الله كى جگہ، صفت رب كا ذكر الله كى انسانى گروہوں سے آگاہ ہونے كو بيان كررہا ہے اورمندرجہ بالا مطلب كو واضح كر رہا ہے_

۱۰_ہدايت كے اسباب پانے كے لئے انسانوں ميں فرق _بمن هو اهدى سبيلا

''اہدي'' كہ افعل تفضيل ہے _ ہدايت كے مختلف درجات پر دلالت كر رہا ہے_

۱۱_ہدايت ميں كمال ونقص كے درجات ہيں _بمن هو أهدى سبيلا

۱۲_زيادہ علم وآگاہى مربى افراد كى لياقت كى پہچان اور ان كے انتخاب كا معيار ہے _فربّكم أعلم

۱۳_عن أبى عبدالله (ع) فى قول الله عزّوجلّ ''قل كل يعمل على شاكلته'' يعنى على نيته (۱)

امام صادق (ع) سے الله تعالى كے اس كلام :''قل كل يعمل على شاكلته'' كے بارے ميں روايت ہوئي ہے كہ يہاں مراديہ ہے كہ ہر كوئي اپنى نيت پر عمل كرتا ہے_

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) كى ذمہ دارى ۱

اختيار:اختيار كے آثار ۵

الله تعالى :الله تعالى كا علم ۹;اللہ تعالى كا علم غيب ۸;اللہ تعالى كى روبوبيت كے آثار ۹

انسان :انسانوں پر تسلط۴;انسانوں كا اختيار ۵; انسان كى خصلتوں كا تسلط۴; انسان كى خصلتوں كى اہميت ۶;انسان كى خصلتوں كے آثار ۲، ۳; انسان كى خصلتيں ۵;انسان كے عمل كى محدوديت ۴; انسان كے مربى حضرات ۸; انسانوں ميں فرق ۷، ۹ ۱۰

انگيزہ :انگيزہ كا كردار ۲//اہميتيں :اہميتوں كا كردار ۲

روايت : ۱۳//شخصيت :شخصيت كى تشكيل ميں اسباب ۵

____________________

۱) كافى ج ۲، ص ۱۶،ح ۴_ نورالثقلين ج ۳، ص ۲۱۴، ح۴۱۷_

۲۳۵

عقيدہ :عقيدہ ميں دقت كرنے كى اہميت ۶

علم :علم كى اہميت ۱۲

قرآن :قرآن سے درست فائدہ اٹھانے كے اسباب ۳;قرآن سے غلط فائدہ اٹھانے كے اسباب ۳; قرآن كا ابہامات كو دور كرنا ۱قرآن كى تاثير ميں اختلاف ۱

كردار :كردار كى جڑيں ۲، ۴، ۱۳

مربي:مربى كے انتخاب كا معيار ۱۲

موقعيت لينا :موقعيت لينے ميں موثر اسباب ۲

نيت :نيت كے آثار ۱۳

ہدايت:ہدايت كے درجات ۱۰، ۱۱

ہدايت لينے والے:ہدايت لينے والوں كو مشخص كرنا ۹

آیت ۸۵

( وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُم مِّن الْعِلْمِ إِلاَّ قَلِيلاً )

اور پيغمبر يہ آپ سے روح كے بارے ميں دريافت كرتے ہيں تو كہہ ديجئے كہ يہ ميرے پروردگار كا ايك امر ہے اور تمھيں بہت تھوڑا سا علم ديا گيا ہے (۸۵)

۱_لوگوں كا پيغمبر (ص) سے روح كى حقيقت كے بارے ميں سوال كرنا _ويسئلونك عن الروح

۲_روح كى حقيقت ،ايك مبہم چيز ہے اور پيغمبر (ص) كے زمانے كے لوگوں كے لئے مورد سوال تھي_

ويسئلونك عن الروح

۳_انسانى روح كى حقيقت'، ايك مجہول اور مورد سوال چيز ہے_

ويسئلونك عن الروح

يہ كہ ''الروح'' سے مراد فقط روح انسانى ہو جيسا كہ ذہن ميں تبادر بھى اس كا ہى ہے_تومندرجہ بالا مطلب سامنے آتا ہے_

۴_بشر ، پورى علمى تاريخ ميں روح كى حقيقت كے حوالے سے تمام جہات سے يقينى شناخت تك نہ پہنچ سكا _

ويسئلونك عن الروح _

۲۳۶

يہ كہ الله تعالى نے حقيقت روح كے بارے ميں سوال كے جواب ميں اس كى وضاحت كى بجائے يہ فرمايا: روح ميراامر ہے_ يہ ممكن ہے اس لئے ہو كہ بشر كے لئے روح كى حقيقت كبھى واضح ہونے والى نہيں ہے_

۵_بعثت كے زمانے كے لوگ روح كى مانند مجہولات اور پر اسرار مسائل ميں جواب دينے كے حوالے سے پيغمبر (ص) كى علمى قدرت پر اعتماد ركھتے تھے_يسئلونك عن الروح

۶_روح، ايك ايسى حقيقت ہے كہ اس كا علم الله تعالى كے ساتھ خاص ہے اور وہ اس كى ربوبيت كا ايك جلوہ ہے _

قل الروح من أمر ربّي

''امر'' كى ''رب'' كى طرف نسبت لام اختصاص كے معنى ميں ہے اور سوال كرنے والوں كے قرينہ كے مطابق يہاں علم ميں اختصاص مراد ہے_

۷_پيغمبر،(ص) لوگوں كے سوالوں كے جواب ميں جو كچھ ان پر وحى ہوئي ہے اسى كے مطابق جواب دينے كے ذمہ دار ہيں _يسئلونك عن الروح قل الروح من أمر ربّي

۸_روح، خلقت اور وجود ميں آنے ميں خلقت كے اسباب اور وسيلے سے بے نيازہے_قل الروح من أمر ربي

مندرجہ بالا مطلب كى بناء يہ نكتہ ہے كہ ''امر'' سے مراد كلمہ ''ايجاد ہے كہ ''كن'' كا معنى دے رہا ہے_ لہذااسے خلقت كے وسيلے كى ضرورت نہيں ہے_

۹_روح، ايك نفيس حقيقت اور بلند وبالا مقام ركھتى ہے_قل الروح من أمر ربي

مندرجہ بالا مطلب كى بناء يہ ہے كہ ''امر'' كى ''ربي'' كى طرف نسبت ، اضافہ تشريف ہو_

۱۰_پيغمبر (ص) ،اللہ تعالى كى خاص ربوبيت اور مخصوص عنايت كے تحت ہيں _من أمر ربي

۱۱_روح، كى حقيقت كے حوالے سے بشر كى علمى تحقيقات ہميشہ كم اور ناچيز رھيں گى _وما أوتيتم من العلم إلاّ قليلا

مندرجہ بالا مطلب كى بناء يہ ہے كہ ''اوتيتم'' كے مخاطب تمام انسان ہو_

۱۲_كائنات ميں روح كى مانند پوشيدہ اسرار اور حقائق كے بارے ميں بشر كا علم ،بہت كم اور ناچيز ہے_

يسئلونك قل ومإوتيتم من العلم إلّا قليلا

يہ كہ ''العلم''سے مراد مطلق علم ہو _نہ بالخصوص روح كى حقيقت كے بارے ميں شناخت ہو تو مندرجہ بالا مطلب سامنے آتا ہے_

۲۳۷

۱۳_بشر ميں پائے جانے والے تمام علوم كا سرچشمہ، الله تعالى ہے_ومإوتيتم من العلم إلّا قليلا

''اوتيتم'' (ديا گيا ) كى تعبير اور علم كے طور پر كشف نہ دينے كى انسان كى طرف نسبت اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ انسان، برتر ارادہ كے مد مقابل مجبور ہے_

۱۴_جہان كى فراوان معلومات كے مد مقابل انسان كى معلومات نہايت كم ہيں _وما أوتيتم من العلم الاّ قليلا

يہ كہ ''العلم'' سے مراد مطلق علم ہو تو مندرجہ بالا نكتہ واضح ہوتا ہے_

۱۵_روح كى حقيقت كے حوالے سے زمانہ بعثت پيغمبر (ص) ميں لوگوں كى علمى معلومات بہت كم اور معمولى تھيں _

قل الروح من أمر ربى وما أوتيتم من العلم الاّ قليلا

يہ كہ آيت كے مخاطب زمانہ بعثت كے لوگ ہوں نہ كہ تمام زمانوں ميں تمام لوگ تومندرجہ بالا مطلب سامنے آتا ہے_

۱۶_زمانہ بعثت پيغمبر (ص) ميں لوگوں كى معلومات نہايت كم اور محدود تھيں _وما أوتيتم من العلم الاّ قليلا

مندرجہ بالا مطلب كى بناء يہ احتمال ہے كہ''و ما أوتيتم من العلم'' كے مخاطب زمانہ پيغمبر(ص) كے لوگ ہوں اور ''العلم'' سے مراد مطلق علم ہو_

۱۷_عن أبى بصير قال : سمعت أبا عبدالله(ع) يقول:''يسئلونك عن الروح قل الروح من أمر ربّي'' قال : خلق أعظم من جبرائيل وميكائيل' لم يكن مع أحد ممن مضى غير محمد(ص) وهو مع الآئمة يسدّدهم ..(۱)

ابى بصير كہتے ہيں كہ امام صادق (ع) سے سنا كہ وہ الله تعالى كے اس كلام:''يسئلونك عن الروح قل الروح من أمر ربي'' كے بارے ميں فرما رہے تھے: روح جبرائيل اور ميكائيل سے برتر مخلوق ہے وہ گذشتہ كسى بھى انبياء كے ساتھ نہ تھى _ ليكن حضرت محمد (ص) اور تمام آئمہ كے ساتھ ہے اور ان كى مدد كرتى ہے_

۱۸_عن أبى بصير عن أحمدهما قال : سا لته عن قوله: ''ويسئلونك عن الروح قل الروح من أمر ربّي'' ما الروح؟ قال: ''التى فى الدواب والناس ...'' _(۱)

ابى بصير كہتے ہے كہ نے امام باقر(ع) يا امام صادق(ع) سے الله تعالى كے كلام :'' و يسئلونك عن الروح قل الروح من أمر ربّي'' كے بارے ميں سوال كيا اور عرض كى كہ يہ روح كس قسم كى روح ہے؟ تو انہوں (ع) نے جواب ميں فرمايا: يہ وہ چيز ہے كہ جو جانوروں اور انسانوں ميں موجود ہوتى ہے_

____________________

۱) كافى ج ۱ ص ۲۷۳، ح ۴_نورالثقلين ج۳، ص ۲۱۵، ح۴۲۴_

۲۳۸

۱۹_عن أبى جعفر (ع) فى قوله اللّه :''وما اوتيتم من العلم الاّ قليلاً'' قال : تفسيرهافى الباطن انه ::لم يؤت العلم إاّ ا ناس يسير فقال: وما أوتيتم من العلم إلّا قليلاً منكم _(۲)

امام باقر(ع) سے الله تعالى كے كلام''وما أوتيتم من العلم الاّ قليلاً'' كے بارے ميں روايت ہوئي ہے كہ انہوں (ع) نے فرمايا : كہ اس آيت كى تفسير يوں ہے كہ لوگوں ميں سے صرف كم تعداد والوں كو علم ديا گيا ہے پس الله تعالى نے فرمايا :'' وما أوتيتم من العلم الاّ قليلاً'' يعنى تم ميں سے كم لوگوں كو علم ديا گيا ہے_

آنحضرت(ص) :آنحضرت (ص) اور روح كى حقيقت ۵; آنحضرت (ص) سے سوال ۱;آنحضرت (ص) كا علمى احاطہ ۵; آنحضرت (ص) كى ذمہ دارى كا دائرہ كار۷; آنحضرت (ص) كے فضايل ۱۷;آنحضرت (ص) مربى ۱۰

الله تعالى :الله تعالى كا كردار۱۳;اللہ تعالى كى ربوبيت ۱۰; الله تعالى كى ربوبيت كى علامات ۶;اللہ تعالى كے مختصّات۶

امام على (ع) :امام على (ع) كے فضائل ۱۷

انسان:انسان كے علم كا سرچشمہ ۱۳;انسان كے علم كى محدوديت ۴، ۱۱، ۱۲، ۱۴

روايت : ۱۷، ۱۸، ۱۹

خلقت :خلقت كے رازوں كاعلم ۱۲

روح:روح سے مراد ۱۷، ۸;روح كى تخليق كى خصوصيات ۸;روح كى اہميت ۹;روح كى حقيقت ۲،۳، ۶،۱۱ ;روح كے بارے ميں ابہام ۲، ۳، ۴، ۱۱،۱۵;روح كے بارے ميں سوال ۱، ۲، ۳

علمائ:علماء كا كم ہونا ۱۹

لطف الہى :لطف الہى كے شامل حال ۱۰

لوگ:زمانہ بعثت كے لوگ اور روح ۱۵;زمانہ بعثت كے لوگوں كے سوال ۲;زمانہ بعثت كے لوگوں كے عقائد ۵;زمانہ بعثت كے لوگوں كے علم كا محدود ہونا۱۵،۱۶;لوگوں كے شبھات كا جواب ۷

وحي:وحى كا كردار ۷

____________________

۱) تفسير عياشى ج ۲، ص ۳۱۷، ح ۱۶۳_ نورالثقلين ج ۳، ص ۲۱۶، ح ۴۲۸_

۲) تفسير عياشى ج۲، ص ۳۱۷، ح ۱۶۴_ نورالثقلين ج۳، ص ۲۱۹، ح ۴۳۸_

۲۳۹

آیت ۸۶

( وَلَئِن شِئْنَا لَنَذْهَبَنَّ بِالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ ثُمَّ لاَ تَجِدُ لَكَ بِهِ عَلَيْنَا وَكِيلاً )

اور اگر ہم چاہيں تو جو كچھ آپ كو وحى كے ذريعہ ديا گيا ہے اسے اٹھاليں اور اس كے بعد ہمارے مقابلہ ميں كوئي سازگار اور ذمہ دار نہ ملے (۸۶)

۱_الله تعالى ،جو معارف اور حقائق پيغمبر (ص) پر وحى كئے ان تمام كو محو اور زائل كرنے پر قادر ہے_

ولئن شئنا لنذهبنّ بالذى أوحينا إليك

۲_پيغمبر اسلام (ص) وہ شخصيت ہيں كہ جنہيں الله تعالى كى طرف سے وحى ہوتى ہے _ولئن شئنا لنذهبنّ بالذى أوحينا إليك

۳_الله تعالى كا ارادہ اور مشيت حتمى ہے اور اس ميں كوئي تبديلى پيدا نہيں ہوسكتي_ولئن شئنا لنذهبنّ بالذى أوحينا إليك

۴_انسان كو عطا ہونے والے الہى علوم كى بقاء اور زوال حتّى كہ پيغمبر (ص) كے ذريعے آنے والى وحى بھى الله تعالى كى مشيت سے مربوط ہے_وما أوتيتم من العلم الا قليلاً_ ولئن شئنا لنذهبنّ بالذى أوحينا إليك

۵_وہ تمام علوم ا ور معارف الہى كہ جو پيغمبر (ص) پر وحى ہوئے كائنات ميں پوشيدہ اسرار' حقائق اور علم الہى كے مد مقابل نہايت كم ہيں _وما أوتيتم من العلم الاّ قليلاً و لئن شئنا لنذهبن بالذى أوحينا اليك

۶_انسان پر ضرورى ہے كہ وہ اپنے وسائل اور ذرائع كو الہى سمجھنے اور ان كو جاودان شمار نہ كرنے پر توجہ كرے_

ولئن شئنا لنذهبن بالذى أوحينا اليك

مندرجہ بالا مطلب كو آيت كے مفہوم اولويت سے ليا گيا ہے _ چونكہ اگر وحى پيغمبر (ص) سے سلب ہوسكتى ہے تو بدرجہ اولى تمام نعمات دوسرے لوگوں سے سلب ہوسكتى ہيں _

۷_انسانوں كے لئے وحى اور معارف الہى (قرآن) كا نزول نعمت الہى ہے اور اس كا شكر ادا كرنا چاہئے_لنذهبن بالذى اوحينا اليك

آيت وحى اور آسمان معارف كے حوالے سے خبردار كر رہى ہے_ تو اس سے معلوم ہوا كہ يہ الہى عطيات ہيں ان كا شكر يہ ادا كرنا چاہئے _

۲۴۰