تفسير راہنما جلد ۱۰

تفسير راہنما 0%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 945

تفسير راہنما

مؤلف: آيت الله ہاشمى رفسنجاني
زمرہ جات:

صفحے: 945
مشاہدے: 196397
ڈاؤنلوڈ: 2084


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4 جلد 5 جلد 6 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 945 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 196397 / ڈاؤنلوڈ: 2084
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد 10

مؤلف:
اردو

آیت ۲

( قَيِّماً لِّيُنذِرَ بَأْساً شَدِيداً مِن لَّدُنْهُ وَيُبَشِّرَ الْمُؤْمِنِينَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ أَجْراً حَسَناً )

اسے بالكل ٹھيك ركھا ہے تا كہ اس كى طرف سے آنے والے سخت عذاب سے ڈرائے اور جو مومنين نيك اعمال كرتے ہيں انہيں بشارت ديدے كہ ان كے لئے بہترين اجر ہے(۲)_

۱_قران اور اس كى تعليمات انسانى معاشرہ كو مستحكم كرنے اور اس كى قيادت كرنے كے لئے ہيں _

أنزل على عبده الكتاب ولم يجعل له عوجاً قيّم ''قيم'' مقيم كے معنى ہيں _ يعنى مستحكم كرنے والا اور''قيّم القوم'' سے مراد قوم كے امر كو چلانے والا ہے_(لسان العرب سے اقتباس) يہاں يہ ذكر كرنا ضرورى ہے كہ ''قيّماً'' يا فعل مقدر ''جعل'' كے لئے مفعول ہے _ يعنى جعلہ قيماً يا ''الكتاب' ' كے لئے حا ل ہے_

۲_قران ايسى كتاب ہے كہ جو ہر قسم كے عدم اعتدال اور حق سے انحراف سے پاك ومنزہ ہے _

الحمدللّه الذى أنزل على عبده الكتاب قيّم ''قيّم '' جيسا كہ لسان العرب ميں آيا ہے ممكن ہے ''مستقيم'' كے معنى ميں بھى انحراف سے محفوظ كے معنى ميں ہو_

۳_كفر اختيار كرنے والے اور گناہ گار لوگ عذاب الہى ميں سخت مبتلا ہونگے_لينذر با ساً شديداً من لدنه

''با س'' سے مراد سختى ہے اور اس كے بعد ''يبشر المؤمنين '' كے قرينہ سے معلوم ہوا كہ يہاں وہ عذاب مراد ہے كہ جس سے كفار اور گناہ گاروں كو خبردار كيا گيا ہے_

۴_لوگوں كو شديد الہى عذاب سے ڈرانا قران كے پيغاموں ميں سے ہے_لينذر با ساً شديداً من لدنه

۳۰۱

''ينذر'' اور'' يبشّر'' ميں ضمير كا مرجع ممكن ہے ''الكتاب'' يا ''عبدہ'' ہو تو مندرجہ بالا نكتہ پہلے احتمال كى بناء پر ہوگا_

۵_اچھے كردار كے مؤمنين كو قرآن كى طرف ان كے لائق اور عظيم جزاء كى بشارت_

ويبشرالمؤمنين الذين يعملون الصالحات أنّ لهم أجراً حسنا

''أجراً'' كو عظمت بيان كرنے كے لئے بطور نكرہ لايا گيا ہے_

۶_انذار اور تبشير، پيغمبر (ص) كى شان اور ذمہ دارى ہے_ا نزل على عبده لينذر و يبشر المؤمنين

مندرجہ بالا مطلب كى بناء يہ ہے كہ ''ينذر'' اور ''يبشر'' مےں ضمير عبدہ كى طرف لوٹ رہى ہے_

۷_انسان كى تربيت اور ہدايت ميں خوف اور اميددلانے كا ساتھ ساتھ ہونا بہت ضرورى امر ہے_

لينذر با ساً شديداً ويبشر

۸_انسان، خوبيوں پر قائم رہنے اور انحراف سے بچنے كے لئے انذار اور تبشير كے محتاج ہيں _

لم يجعل له عوجاً قيماً لينذر با ساً شديداً ...و يبّشر

الله تعالى نے قرآن كا دو خوبيوں ''انذار أو تبشير '' كے ساتھ انسانى معاشرے كے لئے بعنوان مستحكم كرنے والا تعارف كروايا ہے تو اس سے معلوم ہوا كہ استحكام ان دو اسباب كے ضمن ميں پيدا ہوتا ہے_

۹_ہدايت پانے كے لئے پائدارى اور انحراف و كجى سے پرہيز لازمى شرط ہے_لم يجعل له عوجاً قيّماً لينذر ويبشر

۱۰_اعمال صالح كے حامل مؤمنين، بہترين جزاء پائيں گے_

ويبشرالمؤمنين الذين يعملون الصالحات أنّ لهم أجراً حسنا

۱۱_ايمان كا ثمرہ لينے كے لئے بہترين عمل كا حامل ہونا شرط ہے_

المؤمنين الذين يعملون الصالحات أن لهم أجراً حسنا

۱۲_سچے مؤمنين ، ہميشہ اعمال صالح ميں مشغول رہتے ہيں _المؤمنين الذين يعملون الصالحات

''يعملون'' فعل مضارع اور ''الصالحات'' كاجمع ''انا'' ہوسكتا ہے كہ مندرجہ بالا مطلب كى طرف اشارہ كر رہے ہوں _ يہاں يہ ذكر كرنا لازمى ہے كہ مندرجہ بالا مطلب ميں ''المؤمنين'' كے لئے ''الذين'' صفت توضےحى كے طور پرلى گئي ہے_

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) كى بشارتيں ۶; آنحضرت (ص) كے ڈراوے ۶;آنحضرت (ص) كى رسالت ۶

الله تعالى :الله تعالى كے عذاب ۴

۳۰۲

انسان:انسان كى معنوى ضروريات ۸

ايمان:ايمان كے اثر كرنے كى شرائط ۱

تربيت:بشارت كى اہميت ۸;جزا كى بشارت ۵

تربيت:تربيت كا طريقہ ۷;تربيت ميں اميد دلانا ۷;تربيت ميں ڈراوا ۷

جزاء:اچھى جزاء ۱۰;جزاء كى شرائط ۱۱

اقدار:اقدار كے بقاء كا باعث ۸

ڈراوا:ڈراوا كى اہميت ۸;عذاب سے ڈراوا ۴

عذاب:اہلعذاب ۳;شديد عذاب ۳، ۴;عذاب كے مراتب ۳، ۴

عمل صالح:عمل صالح كے آثار ۱۱

قرآن:قرآن اور انحراف ۲; قرآن كا كردار ۱; قران كا منزہ ہونا ۲; قرآن كا ہدايت دينا ۱;قرآن كى بشارتيں ۵;قرآن كى خصوصيات۱، ۲; قرآن كے ڈراوے ۴;قرآن ميں اعتدال ۲

كفار :كفار كا عذاب ۳

گمراہي:گمراہى سے پرہيز ۹;گمراہى سے پرہيز كا پيش خيمہ ۸

گناہ گار افراد:گناہ كار وں كا عذاب ۳

معاشرہ :معاشرہ كے استحكام كے اسباب ۱

مؤمنين :صالح مؤمنين كا دائمى عمل ۱۲;صالح مؤمنين كو بشارت ۵;صالح مؤمنين كى جزاء ۵;مؤمنين كى خصوصيات ۱۲

ہدايت:ہدايت كى روش ۷;ہدايت كے لئے شرائط ۹

۳۰۳

آیت ۳

( مَاكِثِينَ فِيهِ أَبَداً )

وہ اس ميں ہميشہ رہنے والے ہيں (۳)

۱_نيك كردار مؤمنين جنت ميں ہونگے اور ان كى نعمتيں جاودانى ہيں _أن لهم أجراً حسناً مكثين فيه ا بدا

''فيہ'' كى ضمير كا مرجع كلمہ''اجر'' ہے ''ماكثين'' كے قرينہ سے ''اجر'' سے مراد جنت ہے _

۲_الله تعالى كى آخرت ميں نعمتيں اور جزاء زائل نہيں ہونے والى ہيں _أنّ لهم أجراً حسناً ماكثين فيه ا بدا

۳_مؤمنين كے دائمى اعمال صالح كا نتيجہ ان كا جنت ميں جاودانى ہونا ہے_يعملون الصالحات مكثين فيه أ بدا

جملہ ''يعملون الصالحات'' كے بعد ''ماكثين فيہ أبداً'' كا ذكر استمرار پر دلالت كرتا ہے تو اس سے يہ بھى معلوم ہوتا ہے كہ ان كا بہشت ميں جاوداں ہونا ان كے دائمى نيك اعمال كا نتيجہ ہے_

۴_قرآن كا انسان كو معنوى خوبيوں كى طرف ترغيب دلانے ميں اس كے ميلانات سے فائدہ اٹھانا_

يبشرالمؤمنين الذين يعملون الصالحات أنّ لهم أجراً حسناً_ ماكثين فيه أبدا

يہ بات واضح ہے كہ انسان كے وجود ميں جاودانى كا ميلان ہے تو قرآن نے اسے خوبيوں كى طرف ترغيب دينے كے لئے اسى ميلان سے فائدہ اٹھايا ہے_

۵_جاودانى جزاء ايك بہترين اجر ہے_أجراً حسناً _ ماكثين فيه أبدا

الله تعالى :الله تعالى كى جزاء كا جاودانى ہونا ۲

انسان :انسان كے ميلانات ۴

تربيت :تربيت كى روش ۴

جزاء :اچھى جزاء ۵;جاودانى جزاء ۵

جنت:جنت ميں جاودانيت كے اسباب ۳;جنت ميں

۳۰۴

ہميشہ رہنے والے ۱

خوبياں :خوبيوں كى طرف ترغيب ۴

عمل صالح:عمل صالح پر دوام كے آثار ۳

ميلانات:جاودانيت كى طرف ميلانات ۴

مؤمنين :مؤمنين بہشت ميں ۳;مؤمنين صالح بہشت ميں ۱

نعمت:اخروى نعمتوں ميں جاودانيت

آیت ۴

( وَيُنذِرَ الَّذِينَ قَالُوا اتَّخَذَ اللَّهُ وَلَداً )

اور پھر ان لوگوں كو عذاب الہى سے ڈرائے جو يہ كہتے ہيں كہ اللہ نے كسى كو اپنا فرزند بنايا ہے (۴)

۱_الله تعالى كے بيٹے كا عقيدہ ركھنا قرآن كے نازل ہونے كے زمانہ ميں عام تھا_

لينذربا ساً شديداً وينذر الذين قالوا اتخذالله ولدا

وہ تمام لوگ كہ جنہيں قرآن نے انذاز كيا ہے ان ميں سے خدا كے ليے بيٹے كا عقيدہ ركھنے والوں كا ذكر كيا ہے اس سے مندرجہ بالا مطلب ثابت ہوتا ہے_

۲_الله تعالى كے بارے ميں بيٹا ركھنے كا عقيدہ ايك غلط خيال ہونے كے ساتھ ساتھ شديد عذاب كا بھى موجب ہے_

لينذربا ساً شديداً وينذر الذين قالوا اتخذالله ولدا

گذشتہ آيت نے قران كے ايك پيغام كو الله تعالى كے شديد عذاب سے ڈرانا بيان كيا جبكہ اس آيت نے اس عذاب كے مستحق كے مورد كو بيان كيا ہے_

۳_وہ جو الله كے بارے ميں بيٹا ركھنے كے وہم ميں مبتلا ہيں انہيں خوف دلانا قرآن اور پيغمبر (ص) كى ذمہ دارى ہے_

وينذر الذين قالوا اتخذالله ولدا

۴_الله تعالى كے بارے ميں انسان كے عقيدہ كو صحيح كرنا قران كے اہم اہداف ميں سے ہے_

أنزل على عبده الكتاب ...وينذر الذين قالوا اتخذالله ولدا

۳۰۵

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) كے انذار ۳;آنحضرت (ص) كى رسالت ۳

الله پر افتراء باندمنے والے :الله پر افتراء باندھنے والوں كو انذار۳

جاہليت :زمانہ جاہليت كے لوگوں كا عقيدہ ۱

عذاب :عذاب كے اسباب ۲;عذاب كے درجات ۲

عقيدہ:الله كے بارے ميں عقيدہ ۴;اللہ كے اولاد ركھنے كے بارے ميں عقيدہ ۱;اللہ كے بارے ميں اولادركھنے كا عقيدہ كے آثار ۲;باطل عقيدہ ۲; عقيدہ كو صحيح كرنے كى اہميت ۴

قران:قرآن كے اہداف ۴;قرآن كے ڈراوے ۳

آیت ۵

( مَّا لَهُم بِهِ مِنْ عِلْمٍ وَلَا لِآبَائِهِمْ كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ إِن يَقُولُونَ إِلَّا كَذِباً )

اس سلسلہ ميں نہ انھيں كوئي علم ہے اور نہ ان كے باپ دادا كو _ يہ بہت بڑى بات ہے جو ان كے منھ سے نكل رہى ہے كہ يہ جھوٹ كے علاوہ كوئي بات ہى نہيں كرتے (۵)

۱_اللہ تعالى كے فرزند كے بارے ميں عقيدہ ايك جاہلانہ عقيدہ ہے كہ جو معمولى سى علمى دليل سے بھى خالى ہے_

مالهم به من علم

''من علم'' ميں زائد اور عام كى تاكيد كے لئے ہے _اور ''بہ'' ميں ضمير قول (نصيحت) كى طرف لوٹ رہى ہے كہ جو ''قالوا'' سے استفادہ ہوتا ہے يعنى لوگوں كے الله كے بارے ميں فرزند ركھنے كے وہم ميں ہر كسى قسم كى آگاہى اور علم موجود نہيں ہے_

۲_زمانہ بعثت كے مشركين اور ان كے آبائو اجداد الله تعالى كے بيٹا ركھنے كے بارے ميں عقيدہ ركھتے تھے_

قالوا اتخذالله ولداً_ مالهم به من علم ولا لا بائهم

۳_اللہ تعالى كے بيٹے كے موجود ہونے كا عقيدہ زمانہ بعثت كے مشركين كى اپنے آبائو اجداد كى اندھى تقليد كا نتيجہ تھا_

قالوا اتخذالله ولداً_ مالهم به من علم ول لا بائهم

۴_ہر نسل كے عقائد ميں والدين، اجداد اور گھر ومعاشرہ كے ماحول كا گہرا اثر پڑتا ہے _

قالوا اتخذالله ولداً_ مالهم به من علم ولا لا بائهم

۳۰۶

''لأبائہم'' كے ذكر كرنے سے زمانہ بعثت كے لوگوں كے عقائد اور ميلانات كے ايك سبب كى طرف اشارہ ہو رہا ہے كہ جسے آبائو اجداد كى تقليد كہاجاتا ہے_

۵_انسان كے دينى عقائد اور معارف الہى كا علم و آگاہى پر استوارى ہونا ضرورى ہے _مالهم به من علم ولا لا بائهم

يہ كہ الله تعالى نے كفار كو ان كے اس عقائد كے بارے ميں كہ جن ميں انہيں علم نہ تھا مذمت كى ہے_ معلوم ہوتا ہے كہ عقائد اور اصول دين ميں صرف علم ويقين پر اعتماد كرنا چاہئے _

۶_علم ودانش كا فقدان، لوگوں اور معاشروں كے غلط اور اندھى تقليد ميں مبتلاء ہونے كا موجب بنتا ہے_

وقالو اتخذالله ولداً مالهم به من علم ولا لأبائهم

كلمہ ''لأبائہم'' سے اس بات كى طرف اشارہ ہو رہا ہے كہ مشركين كے عقائد تقليدى بناء پر تھے اور جملہ ''مالہم بہ من علم و ...'' بتا رہا ہے كہ مشركين اپنے عقائد ميں كوئي علمى اساس نہيں ركھتے تھے تو ان دونوں چيزوں سے معلوم ہوا كہ ''جہالت'' درحقيقت لوگوں اور معاشروں كے اندھى تقليد ميں مبتلا ہونے ميں اہم كردار ادا كرتى ہے_

۷_كسى بات كى قدروقيمت اس وقت ہوتى ہے جب اس كى بنياد علم و آگاہى كى بناء پر ہو _

مالهم به من علم كبرت كلمة تخرج من أفواههم

۸_الله تعالى كے بارے ميں بيٹے كا عقيدہ بہت عجيب اور ناقابل قبول اثرات اور نتائج كا حامل ہے_

قالوإتخذ الله ولداً كبرت كلمة تخرج من أفواههم

فعل ماضى ''كبرت'' ميں عين فعل كا مضموم ہونا تعجب كو بيان كر رہا ہے اور واضح ہے كہ جملہ ''كبرت كلمة ...'' اپنى بڑائي كى وجہ سے كسى ''بات'' كے بارے ميں نہيں ہے بلكہ غلط نتائج يادورى اور ياحقيقت كے بارے ميں ہے_

۹_الله تعالى كى طرف فرزند كى نسبت محض فضول اور جھوٹ ہے_

قالوإتخذ الله ولداً كبرت كلمة تخرج من أفواههم ان يقولون إلّا كذبا

۱۰_بے بنياد عقائد كى طرف مائل ہونے اور حقيقت و واقعيت سے دورى كى وجہ جاہلانہ روشوں پر اعتماد ہے_

مالهم به من علم ولا لأبائهم إن يقولون إلّا كذبا ً

كلمہ ''لأبائہم '' اس معنى پر اشارہ كر رہا ہے كہ ان لوگوں كى تقليد كہ جن كا عقيدہ علم ودانش كى بناء پر نہيں ہے بلكہ عقائد دينى

۳۰۷

تك پہنچنے كے لئے ايك غلط روش ہے اور آيت كے ذيل سے اس كا نتيجہ غلط اور حقيقت سے دور عقيدے كو بيان كيا جارہا ہے اس سے معلوم ہوا كہ جاہلانہ روشيں حقيقت اور واقعيت سے دور ہونے كا خطرہ ركھتى ہيں _

۱۱_الله پر افتراء باندھنا بہت بڑا گناہ ہے_قالوا اتخذالله ولداً كبرت كلمة إن يقولون إلّا كذبا

اجداد:اجداد كا كردار ۴

افترائ:الله پر افتراء باندھنا ۹;اللہ پر افتراء باندھنے كا گناہ ۱۱

اہميتں :اہميتوں كا معيار ۷

بات:بات كى قدروقيمت ۷

تقليد:اندھى تقليد كا موجب ۶

جہالت:جھالت كے آثار ۶، ۱۰

جھوٹ:جھوٹ كے موارد ۹

خاندان :خاندان كا كردار ۴

شخصيت :شخصيت كے حوالے سے آفات كى پہچانا ۶

عقيدہ:الله كى اولادكا باطل عقيدہ ۸; الله كى اولاد كے بارے ميں كا عقيدہ ۲;اللہ كى اولاد كے بارے ميں عقيدہ كا بے منطق ہونا ۱، ۹; الله كى اولاد كے عقيدہ كے آثار;اللہ كے بارے ميں اولادكے عقيدہ كا سرچشمہ ۳;اللہ كے بارے ميں اولادكے عقيدے كا تعجب انگيز ہونا ۸;باطل عقيدہ ۱;باطل عقيدہ كا پيش خيمہ ۱۰;عقيدہ كى بنياديں ۵;عقيدہ ميں علم ۵;عقيدہ ميں مو ثر اسباب ۴

علم:علم كى اہميت ۵، ۷

گناہ كبيرہ : ۱۱

مشركين :صدر اسلام كے مشركين كا عقيدہ ۲;صدر اسلام كے مشركين كى اندھى تقليد كا نتيجہ ۳;صدر اسلام كے مشركين كے آبائو اجداد كا عقيدہ ۲;صدر اسلام كے مشركين كے عقيدہ كا سرچشمہ ۳

معاشرہ:معاشرتى خطرات كو پہچاننا ۶;معاشرہ كا كردار ۴

۳۰۸

آیت ۶

( فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلَى آثَارِهِمْ إِن لَّمْ يُؤْمِنُوا بِهَذَا الْحَدِيثِ أَسَفاً )

تو كيا آپ شدت افسوس سے ان كے پيچھے اپنى جان خطرہ ميں ڈال ديں گے اگر يہ لوگ اس بات پر ايمان نہ لائے (۶)

۱_قرآن كے مد مقابل كفار كا ايمان نہ لانا اور احمقانہ محاذ قائم كرنا، پيغمبر (ص) كے حزن و ملال كا موجب تھا_

فلعلّك باخع نفسك على ء اثارهم إن لم يؤمنوا بهذا الحديث ا سفا

''باخٌ نفسك'' اسے كہتے ہيں كہ جو ہيجان اور غم كى شدت سے خود كو ہلاكت ميں ڈال دے ''مقاييس اللغة'' ميں آيا ہے كہ اس وقت كہا جاتا ہے''بَخع الرجل نفسہ'' كہ وہ سخت غصہ اور شديد ہيجان كى بناء پر اپنے آپ كو ہلاك كرڈالے_

۲_پيغمبر(ص) لوگوں كى ہدايت اور ان كے قرآن پر ايمان كے حوالے سے بہت اشتياق اور حرص ركھتے تھے _

فلعلّك باخع نفسك على ء اثارهم إن لم يؤمنوا بهذا الحديث أسفا

۳_وہ لوگ جو پيغمبر(ص) سے دور تھے آپ (ص) انہيں الہي پيغاموں كے پہنچانے اور بار بار دعوت كرنے ميں جان فشانى سے بھى دريغ نہيں كر رہے تھے_فلعلك باخع نفسك على ء اثارهم إن لم يؤمنوا

''آثار'' يعنى كسى چيز سے باقى رہنے والے نشان تو جملہ ''لعلك باخع على آثارہم'' سے مراد يہ ہے كہ اے پيغمبر (ص) آپ منہ موڑنے والوں كے پيچھے جاتے ہو اور انہيں الہى دعوتيں پہنچانے كے قصد سے ان كے پيچھے جاكر اپنے آپ كو ہلاكت ميں ڈال رہے ہو_

۴_پيغمبر (ص) ، كفار كے مقدر اور بد انجام كى بناء پر گہرے رنج اور افسوس ميں تھے_

فلعلّك باخع نفسك على ء اثارهم إن لم يؤمنوا بهذا الحديث ا سفا

''آثار'' سے مراد قرآن پر ايمان نہ لانے كا نتيجہ اور عاقبت مراد ہوسكتى ہے_(إن لم يؤمنوا بهذا الحديث ) تو اس صورت ميں''باخع نفسك على آثارهم'' يعنى اے پيغمبر (ص) اپنے آپ كو ان غلط نتائج كہ جو ان كے كفر كى بناء پر ہيں ' رنج ومشقت ميں قرار نہ ديں _

۵_الله تعالى پيغمبروں (ع) كو كفار كے كفر پر باقى رہنے اور ہٹ دھرمى كى بناء پر مورد مواخذہ قرار نہيں دے گا_

فلعلك باخع نفسك على ء اثارهم إن لم يؤمنوا

۳۰۹

۶_قرآن، بشر كے لئے ايس جديد پيغام ہے كہ جس كى پہلے كوئي مثال نہيں ملتي_لم يؤمنوا بهذالحديث

''حديث'' سے مراد''نيا اور جديد'' ہے _ تو يہاں احتمال ہے كہ يہ قديم كے مقابلے ميں حادث كے معنى ميں بھى ہو ہو، مندرجہ بالا مطلب پہلے معنى كى بناء پر ہے_

۷_قرآن وہ كلام ہے كہ جو حادث اور الله تعالى كى طرف سے وجود ميں آنے والا ہے _إن لم يؤمنوا بهذا الحديث

''حديث '' كا خواہ معنى جديد ہو خواہ قديم كے 'مقابل معنى ہو وہ قرآن كے حادث ہونے پر دلالت كر رہا ہے_

۸_اللہ تعالى كى بارگاہ ميں كفار كے حال پر پيغمبر (ص) كا غمگين ہونا ايك قابل تعريف اور توقع سے بڑھ كر حالت تھي_

فلعلك باخع نفسك على ء اثارهم إن لم يؤمنوا بهذا الحديث ا سفا

يہ آيت اگر چہ پيغمبر (ص) كو رنج وغم كے سبب ہلاكت ومشقت ميں ڈالنے سے خبردار كر رہى ہے ليكن ايك لطيف سى عنايت كے ساتھ اس بات كى تعريف بھى كى ہے كيونكہ خود افسوس كرنا مذموم نہيں ہے جبكہ اس كے بعض مرحلہ كو غير ضرورى قرار ديا ہے _فلعلك باخع نفسك على ء اثارهم ...ا سفا

۹_ كفار كے حال اور ان كى بد عاقبتى پر افسوس كرنا قابل تحسين ہے _فلعلك باخع نفسك على آثار هم اسفا

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) كا ايثار ۳;آنحضرت (ص) كا غم۴، ۸; آنحضرت (ص) كا نيك عمل ۸;آنحضرت (ص) كا ہدايت دينا ۲;آنحضرت(ص) كى تبليغ ۳; آنحضرت (ص) كى تعريف ۸;آنحضرت (ص) كى چاہت ۲;آنحضرت (ص) كى كوشش ۳;آنحضرت (ص) كے رنج ۴;آنحضرت (ص) كے رنج كے اسباب ۱; آنحضرت (ص) كے غم كے اسباب ۱

الله تعالى :الله تعالى كا كلام ۷

انبياء:انبياء كى كا دائرہ كار ذمہ دارى ۵

انجام:بُرا انجام ۹

انسان :انسان كى ہدايت كى اہميت ۲

ايمان:قرآن پر ايمان كى اہميت ۲

سزا:ذاتى بناء پر سزا ۵

سزا كا نظام : ۵

۳۱۰

عمل:پسنديدہ عمل ۹

قرآن :قرآن كاحدوث۷;قرآن كا سرچشمہ ۷; قران كا نيا پن ۶;قرآن كى خصوصيات ۶

كفار:كفار پر غم ۸، ۹;كفار كا انجام ۹;كفار كا برا انجام ۴;كفار كى ھٹ دھرمى ۵

كفر :قرآن كے كفر كے آثار ۱

آیت ۷

( إِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الْأَرْضِ زِينَةً لَّهَا لِنَبْلُوَهُمْ أَيُّهُمْ أَحْسَنُ عَمَلاً )

بيشك ہم نے روئے زمين كى ہر چيز كو زمين كى زينت قرار ديديا ہے تا كہ ان لوگوں كا امتحان ليں كہ ان ميں عمل كے اعتبار سے سب سے بہتر كون ہے (۷)

۱_زمين پر موجودات اور طبيعت كے مظاہر ،اللہ تعالى كى مخلوق اور زمين كے لئے زينت كا سامان ہيں _

إنا جعلنا ما على الأرض زينة له

۲_مظاہر طبيعت كا جلوہ اور خوبصورتى لوگوں كى آزمائش كا باعث ہے_زينة لها لنبلوهم أيّهم أحسن عملا

۳_انسان كو آزمانے كا ہدف، نيك كردار لوگوں كو دوسروں سے ممتاز كرنا ہے_لنبلوهم أيهم أحسن عملا

۴_انسان كى تخليق اور اس كے حوالے سے الله كي عنايات كا فلسفہ ،بہترين عمل اور بلندترين عامل كا موجود ميں آنا ہے_

إنا جعلنا لنبلوهم أيهم أحسن عملا

عبارت ''لنبلوہم'' زمين پر الله كى عنايات كى تخليق كے فلسفہ اور سبب كى وضاحت ميں دو چيزوں كے تحقق كے پيش خيمہ كى طرف اشارہ كر رہى ہے:۱_ انسانوں ميں بہترين عمل كرنے والا۲_ اعمال ميں سے بہترين عمل _

۵_زمين كى زيبائياں اور جلوے ،انسانى حركت (ترقي) اور اس كے عمل كے ظاہر ہونے كا پيش خيمہ ہيں _

انا جعلنا ما على الأرض زينة لهالنبلوهم أيهم أحسن عملا

۶_انسانوں كى لياقت اور صلاحيتوں كو ظاہر كرنے كے لئے اشتياق اور كوشش كا پيش خيمہ فراہم كرنا ايك ضرورى قدم ہے_جعلنا زينة لها لنبلوهم

اس آيت ميں زمين سے نكلنے والى چيزوں كى زينت اور خوبصورتي، آزمائش اور امتحان كا پيش خيمہ ہے اسى كى وضاحت اس طرح ہے، خوبصورتى اور جلوے اس ميں انگيزہ پيدا كرتے ھيں اور اسے حركت ميں لاتے ہيں اور يہ حركت وكوشش

۳۱۱

اس كى آزمائش كا پيش خيمہ فراہم كرتى ہے _ اس رابطہ سے مطلب سامنے آتا ہے كہ لوگوں كو حركت ميں لانے كے لئے برانگيختہ كئے بغير ان كى صلاحيتوں كے ظاہر كرنے كا پيش خيمہ فراہم نہيں ہوتا_

۷_پيغمبر (ص) اور الہى رہبروں كا وظيفہ يہ ہے كہ وہ راہ ہدايت كو ہموار كريں اور حق انتخاب خود لوگوں كو ديں _

فلعلك باخع نفسك إنا جعلنا ما على الأرض زينة لهالنبلوهم

زمين كے فريب دينے اور وہاں مقام امتحان ہونا يہ سب كچھ پيغمبر (ص) كى رسالت كے اختيار، انذارو تبشير محدود بيان كرنے كے بعد اس مطلب كو بيان كر رہا ہے كہ دينى رہبروں كا وظيفہ ہدايت ہے _ اپنا راستہ منتخب كرنا لوگوں كا كام ہے_

۸_دنيا ميں انسان كا عمل اس كے الله كى آزمائش ميں فتح يا شكست كو معين كرتا ہے_لنبلوهم أيهم أحسن عملا

۹_قرآن كے انسان كو پيش كئے گئے اہداف ميں سے اس كا اپنے اختيار اور علم كى بناء پر راہ كا انتخاب اور زمين پر زندگى گزارنے كے لئے مناسب وسائل پيدا كرنا ہے_لم يؤمنوا بهذإلحديث ...جعلنا ما على الأرض زينة لهالنبلوهم

گذشتہ آيت ميں الله تعالى نے پيغمبر (ص) كو لوگوں كے قرآن پر ايمان لانے ميں بہت زيادہ زور دينے سے منع كيا اور اس آيت ميں بيان ہو اہے كہ دنيا اور اسكے جلوے انسانوں كى آزمائش كے لئے بپا ہوئے ہيں _ لہذا اگر چہ الله نے قرآن كو انسان كے لئے علم وآگاہى كا سرمايہ قرارديا ہے _ ليكن وہ نہيں چاہتا ہے كہ اسے قبول كرنے كے لئے اس پر جبر كرے بلكہ وہ چاہتاہے كہ وہ اپنى كامل آگاہى اور اختيار سے اس آزمائش ميں شركت كرے_

۱۰_لوگوں كو ايمان لانے پر مجبور كرنا ،خلقت كے ہدف اور امتحان سے سازگار نہيں ہے_فلعلك باخع نفسك إنا جعلنا ما على الأرض ...لنبلوهم زمين اور اس كى نعمات كى تخليق كا فلسفہ ، انسانوں كا امتحان بتانا شايد اس نكتہ كى طرف اشارہ كر رہا ہو كہ اس ہدف اور فلسفہ كى بناء پر لوگوں كو ايمان پر مجبور نہيں كيا جاسكتا اور نہ وہ يہ توقع ركھيں كہ وہ سب كے سب پيغمبروں اور ہدايت كے مناديوں كى دعوت پر سر تسليم خم كرديں گے_

۱۱_كفار كا قرآن كى جديد خوبيوں سے منہ پھيرنا ان كى دنيا طلبى كا نتيجہ ہے_لم يؤمنوا بهذا الحديث ما على الأرض زينة لها لنبلوهم جملہ''إنّا جعلنا ما على الأرض زينة لها'' ہوسكتا ہے كہ كفار كے منہ پھيرنے كى علت بيان كر رہا ہو يعنى دنيا كى خوبصورتى باعث بنى كہ وہ اس ميں مست رہيں اور قرآن پر ايمان نہ لائيں _

۳۱۲

۱۲_دنيا كے مادى جلووں پر فريفتہ ہونا،نيك كردار ركھنے كا اصلى مانع ہے_ما على الأرض زينة لها لنبلوهم أيهم أحسن عملا

۱۳_انسانوں كى فطرت ميں خوبصورتى كى طرف ميلان موجود ہے_جعلناما على الأرض زينة لها لنبلوهم

انسان كو آزمانے كے لئے خوبصورتى كى تخليق اس وقت معنى دے گى كہ خوبصورتى كى طرف ميلان وجود انسان ميں ڈالا گيا ہو_

۱۴_عن على بن الحسين (ع) ان الله عزّوجلّ إنما خلق الدنيا وخلق أهلها ليبلوهم أيهم أحسن عملاً لآخرته _(۱)

امام سجاد (ع) سے روايت ہوئي كہ انہوں نے فرمايا : بے شك الله تعالى نے دنيا اور اسكے رہنے والوں كو فقط اس لئے خلق كيا تاكہ انہيں آزمائے كہ ان ميں سے كون اپنى آخرت كے لئے بہترين عمل كرتا ہے_

۱۵_عن أبن عمر قال: تلا رسول الله (ص) هذه الآية : ''لنبلوهم ايّهم أحسن عملاً'' فقلت: ما معنى ذلك يا رسول الله (ص) ؟ قال : ليبلوكم ايكم أحسن عقلاً و اورع عن محارم الله وا سرعكم فى طاعة الله _(۲)

ابن عمر كہتے ہيں كہ رسول الله (ص) نے يہ آيت تلاوت فرمائي:'' لنلبوهم أيهم أحسن عملاً'' تو ميں نے عرض كيا : اے رسول الله (ص) اس بات كا مطلب كيا ہے ؟ انہوں (ص) نے فرمايا: (اس كا مطلب يہ ہے كہ) تاكہ الله تعالى تمھارا امتحان لے كہ تم ميں كسى كى عقل بہتر ہے اور كون زيادہ حرام سے پرہيز كرتا ہے اور كون اطاعت كرنے ميں جلدى كرتا ہے _

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) كى ذمہ دارى ۷

احسان:احسان كے موانع ۱۲

استعداد :استعداد كے ظاہر ہونے كا پيش خيمہ ۶

الله تعالى :الله تعالى كى خالقيت ۱;اللہ تعالى كے امتحان ۸

امتحان :امتحان كا پيش خيمہ ۲;امتحان كا فلسفہ ۱۰; امتحان ميں شكست كے اسباب ۸;امتحان ميں كاميابى كے اسباب ۸

____________________

۱) كافى ج۸، ص ۷۵، ح ۲۹، نورالثقلين ج۳، ص ۲۴۳، ح ۱۴_

۳۱۳

انسان :انسان كا اختيار ۷، ۹;انسان كى خلقت كا فلسفہ ۴، ۱۴;انسان كى فطرتى چيزيں ۱۳;انسان كے امتحانات ۲، ۱۴;انسان كے امتحان كا فلسفہ ۳; انسان كے ميلانات ۱۳;انسان ميں خوبصورتى كى چاہت ۱۳;

انگيزہ :انگيزہ كے پيش خيمہ كى اہميت ۶

ايمان :ايمان ميں جبر كى نفى ۱۰

جبرواختيار : ۹

جبر كا باطل ہونا ۱۰

دنياوى چاہت :دنياوى چاہت كے آثار ۱۲

دينى رہبر:دينى رہبروں كى ذمہ دارى ۷

روايت : ۱۴، ۱۵

زمين :زمين كى زينتيں ۱

طبيعت:طبيعت كا خالق طبيعت ;طبيعت كى خوبصورتيوں كا كردار ۵;كى خوبصورتيں ۱،۲

عمل :بہترين عمل كا تحقق ۴; عمل كا پيش خيمہ ۵عمل كے آثار ۸

قرآن :قرآن سے منہ پھيرنے كے اسباب ۱۱; قرآن سے منہ پھير نے والے ۱۱;قرآن كا فلسفہ ۹

كفار:كفار كى دنياوى چاہت كے آثار ۱۱

كوشش:كوشش كے پيش خيمہ كى اہميت ۶

لوگ:لوگوں كى ہدايت كى اہميت ۷

مخلوق:مخلوق كا فلسفہ ۱۰، ۱۴

موجودات :موجودات كا خالق ۱

ميلانات:خوبصورتى كى طرف ميلانات ۱۳

نعمت :نعمت كا فلسفہ ۴

نيكى كرنے والے:نيكى كرنے والوں سے مراد ۱۵;نيكى كرنے والوں كى تشخيص ۳

۳۱۴

آیت ۸

( وَإِنَّا لَجَاعِلُونَ مَا عَلَيْهَا صَعِيداً جُرُزاً )

اور ہم آخر كار روئے زمين كى ہر چيز كو چيٹل ميدان بنادينے والے ہيں (۸)

۱_الله تعالى زمين كى تمام نعمات اور مخلوقات كو بنجر مٹى ميں تبديل كردے گا_

إنا جعلنا ما على الأرض ولنا لجاعلون ما عليها صعيداً جرزا

''صعيد '' يعنى خاك اور ''جرز'' اس زمين كو كہتے ہيں كہ جو ہر قسم كى نباتا ت پيدا كرنے كى صلاحيت سے محروم ہو_

۲_زمين كے تمام موجودات اور اس كے ظاہرى جلوے بالآخر فنا اور نابودى كے حكم ميں آجائيں گے_

وإنا لجاعلون ما عليها صعيداً جرزا

۳_زمين كى دلكشياں اور مادى جلوے، عارضى ' ناپائدار اور ناقابل بھروسہ امور ميں سے ہيں _

زينة لها وإنّا لجاعلون ما عليها صعيداً جرزا

۴_زمين آخر كار لا حاصل اور نباتات سے خالى بنجر مٹى ميں تبديل ہوجائيگى _وإنا لجاعلون ماعليها صعيداً جرزا

۵_زمين كے مواہب اور دلكشيوں كے ناپائدار ہونے پر توجہ، انسان كا مظاہر دنيا كى طرف ميلان پيدا نہ كرنے كا موجب ہے_إنا جعلنا ما على الأرض زينة وإنّا لجاعلون ما عليها صعيداً جرزا

آزمائش كے مسئلہ كو بيان كرنے كے بعد زمين كے انجام بيان كرنے اور لوگوں كو اس كے مواھب كے ناپائدار ہونے كى طرف توجہ دلانے كا ہدف يہ ہے كہ دنيا كى دلكشيوں كو اپنے دل ميں نہ بساليں اور ان تك پہنچنا اپنا ہدف نہ بناليں _

الله تعالى :الله تعالى كے افعال۱

دنياوى چاہت:دنياوى چاہت سے مانع ۵

ذكر:مادى دلكشيوں كے ناپائيدار ہونے كا ذكر۵

زمين:

۳۱۵

زمين كا چٹيل ميدان ميں تبديل ہونا ۴; زمين كى عاقبت ۴

طبيعت :طبيعت كى دلكشيوں كا انجام ۲; طبيعت كى دلكشيوں كا ناپائيدار ہونا ۲،۳

مٹى :لاحاصل مٹى ميں تبديل ہونا ۱

موجودات:موجودات كا انجام ۲;موجودات كا مٹى ميں تبديل ہونا ۱;موجودات كى ناپائيدار ى ۲

آیت ۹

( أَمْ حَسِبْتَ أَنَّ أَصْحَابَ الْكَهْفِ وَالرَّقِيمِ كَانُوا مِنْ آيَاتِنَا عَجَباً )

كياتمھارا خيال يہ ہے كہ كہف و رقيم والے ہمارى نشانيوں ميں سے كوئي تعجب خير نشانى تھے (۹)

۱_اصحاب كہف كا قصہ، الله تعالى كى آيات اور نشانيوں ميں سے ہے_

ام حسبت إن أصحاب الكهف والرقيم كانوا من ء اياتنا

۲_''اصحاب كہف ''كا دوسرا نام'' اصحاب رقيم'' ہے_أصحاب الكهف والرقيم

چونكہ اس سورہ كى آيات ميں '' اصحاب رقيم'' كے حوالے سے كوئي بات (جدا) ذكر نہيں ہوئي تو احتمال ہے كہ'' اصحاب كہف ''كا ہى دوسرا نام اور وصف ''اصحاب رقيم ''ہے_ اور چونكہ ''رقيم'' سے مراد لكھا ہوا ہے تو بعض نے كہا كہ اس لئے اصحاب كہف كو اصحاب رقيم كہا گيا ہے كہ ان كے حالات غار كى ديوار يا كسى او رجگہ پتھر پر لكھے ہوئے تھے_

۳_اگر الله تعالى كى قدرت اور ارادے پر توجہ كى جائے تو اصحاب كہف كا ماجراحيرت انگيز نہيں ہے_

ام حسبت أنّ أصحاب الكهف كانوا من ء اياتنا عجبا

آيت كى ابتداء ميں ''ام'' ام منقطعہ ہے _ استفہام اور ا نكار كے ساتھ جو كہ بيان ہونے كا معنى ديتا ہے لہذا عبارت سے يوں مراد ہوگى '' آيا آپ نے يوں گمان كيا كہ اصحاب كہف ...''

۴_الله تعالى كے پاس اصحاب كہف سے كہيں زيادہ حيرت انگيز نشانياں ہيں _

أم حسبت أن أصحاب الكهف كانو من ء ايتنا عجبا

واقعہ اصحاب كہف كا لوگوں كى نظر ميں حيرت انگيز ہونے كے باوجود اس واقعہ سے حيرت و تعجب كى نفى اس مطلب پر گواہ ہے كہ الله تعالى نے اس واقعہ سے كہيں زيادہ عجيب نشانياں خلق فرمائي ہيں _

۵_قرآن كے نازل ہونے سے پہلے بھى لوگوں كے درميان اصحاب كہف كى داستان موجود تھي_

ام حسبت أن أصحاب الكهف والرقيم كانوا من ء اياتنا عجبا

۳۱۶

آيت كے سياق اور انداز بيان سے معلوم ہورہا ہے كہ زمانہ بعثت كے لوگ اصحاب كہف كے واقعہ كے حوالے سے معلومات اگر چہ ناقص ہى كيوں نہ ہوں ركھتے تھے اور اسے عجيب شمار كرتے تھے_

۶_اصحاب كہف كى داستان بيان كرنے كے مقاصد ميں سے ايك پيغمبر اكرم (ص) كو تسلى دينا اور ان كا رنج وغم برطرف كرنا ہے_من حسبت أن أصحاب الكهف والرقيم كانوا من ء اياتنا عجبا

''حسبت'' پيغمبر (ص) كو خطاب ہے _ آيات كا سياق و سباق بتارہا ہے كہ يہ آيت گذشتہ آيات بالخصوص''لعلك باخع نفسك'' سے ربط ركھتى ہے _ ايك احتمالى وجہ يہ بھى ہے كہ اصحاب كہف كى داستان اور انكى صفات ، بيان كرنے كا مقصد يہ پيغام دينا بھى ہوسكتا ہے كہ حقيقى مؤمنين اگرچہ كم ہيں ليكن بہت اہميت كے حامل ہيں ان كا كفار كى اكثريت كے مد مقابل آنا ايك قسم كى دلى طور پر تسلى ہے_

۷_''عن أبى عبدالله (ع) فى قوله : '' ام حسبت أن أصحاب الكهف والرقيم '' قال : هم قوم فرّوا وكتب ملك ذلك الزمان بأسمائهم وأسماء آبائهم وعشائرهم فى صحف من رصاص'' _(۱)

امام صادق (ع) سے الله تعالى كے اس كلام : ''ام حسبت أن أصحاب الكہف و الرقيم ...'' كے بارے ميں روايت ہوئي ہے كہ آپ (ع) نے فرمايا : يہ وہ لوگ تھے كہ جو فرار ہوئے تھے اور اس زمانے كے بادشاہ نے ان كے نام ان كے آبائو اجداد اور ان كے قبيلے ناموں كو سيسے كى چندالواح پر لكھے ہوئے تھے_ ( اس ليے اصحاب كہف كو اصحاب رقيم بھى كيا جا تا ہے )_

۸_عن نعمان بن بشير انّه سمع رسول الله يحدث عن أصحاب الرقيم : انّ ثلاثة نفر دخلوا إلى الكهف فوقع من الجبل حجرعلى الكهف فا وصد عليهم ففرج الله عنهم وخرجوا إلى أهليهم راجعين _(۲)

نعمان بن بشير سے نقل ہواكہ اس نے رسول الله (ص) سے سنا كہ آپ (ص) نے اصحاب رقيم كے بارے ميں فرمايا : وہ تين افراد تھے كہ جو غار ميں داخل ہوئے اور ايك پتھر پہاڑ سے غار پر گرا اور غار كو ان پر بند كرديا پس الله تعالى نے ان كے امر ميں گشائش پيدا كى (اور وہ غار سے آزاد ہوئے) اوراپنے گھر والوں كى طرف پلٹ گئے _

۹_عن أبى عبدالله (ع) قال : إنّ أصحاب

____________________

۱) تفسير عياشى ج ۲، ص ۳۲۱ ،ح۵ _ نورالثقلين ، ج ۳، ص ۲۴۴، ح۲۱_۲) الدرالمنشور، ج ۵،ص ۳۶۳_

۳۱۷

الكهف ا سرّوا الإيمان وأظهروا الكفر (۱)

امام صادق (ع) سے روايت نقل ہوئي ہے كہ آپ (ع) نے فرمايا : اصحاب كہف نے اپنے ايمان كو مخفى ركھا اوركفر كا اظہار كرتے تھے _

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) كو تسلى دينا ۶

اصحاب رقيم :اصحاب رقيم سے مراد ۲

اصحاب كہف:اصحاب كہف كا تقيہ ۹; اصحاب كہف كا قصہ ۱

،۳،۴ ،۷، ۸،۹ ; اصحاب كہف كى تعداد ۸; اصحاب كہف كے قصہ كا فلسفہ۶ ;اصحاب كہف كے قصہ كى تاريخ ۵; اصحاب كہف كے نام ۲

الله تعالى :الله تعالى كى قدرت كى عظمت ۳;اللہ تعالى كے ارادہ كى عظمت ۳

الله تعالى كى نشانياں :الله تعالى كى نشانيوں كى عظمت ۳

روايت: ۷ ، ۸،۹

قرآن مجيد:قرآن مجيد كے قصوں كا فلسفہ ۶

آیت ۱۰

( إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ فَقَالُوا رَبَّنَا آتِنَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةً وَهَيِّئْ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَداً )

جب كہ كچھ جوانوں نے غار ميں پناہ لى اور يہ دعا كى كہ پروردگار ہم كو اپنى رحمت عطا فرما اور ہمارے لئے ہمارے كام ميں كاميابى كا سامان فراہم كردے (۱۰)

۱_اصحاب كہف وہ گروہ تھا كہ جو كفر و منحرف معاشرہ سے خطرہ كى بناء پر پہار كى طرف پناہ لينے كے لئے بھاگ نكلے تھے_

اذ ا وى الفتية إلى الكهف

''ا وى إلى كذا'' يعنى اس جگہ كى طرف بڑھا اوراسے اپنى پناہ گاہ اور جائے سكونت قرار ديا_

۲_اصحاب كہف كى غار كى طرف حركت جوانمردى اور عظمت كى تلاش كى بناء پر تھي_

إذا وى الفتيةإلى الكهف فقالوا ربّنا

''فتية'' ،''فتى '' كى جمع ہے كہ جس كا معنى جوان ہے_ اس كلمہ كا اصحاب كہف كے بارے ميں استعمال، ممكن ہے اس

۳۱۸

حوالے سے ہو كہ وہ عمر كے اعتبار سے جوان ہوں اور يہ بھى امكان ہے كہ يہاں انكى جوانمردى جيسى صفت كى طرف اشارہ كيا گيا ہو_ بہرحال مندرجہ بالا مطلب دوسرے احتمال كى بناء پر ہے _

۳_جوانى ميں ايمان اور عمل، بہت اہم اور قابل قدر ہے_اذ ا وى الفتية إلى الكهف

آےت شريفہ كااصحاب كہف كے بارے ميں جوان ہونے كى وضاحت (اس بناء پر كہ يہاں عمر كے اعتبار سے جوان كہا گيا ہے) جوانى ميں ايمان و عمل كى قدر وقيمت بيان كر رہى ہے كيونكہ قرآن مجيد اپنے قصوں ميں كسى كے ذاتى اور عمر كے اعتبار سے صفات سے اس وقت تك بات نہيں كرتا جب تك ان ميں كوئي پيغام اور نكتہ موجود نہ ہو_

۴_اپنے ايمان كو محفوظ ركھنے كے لئے گھر اور كاشانہ چھوڑنا، جوانمردى اور بہت بڑى اہميت كا حامل ہے_إذا وى الفتية إلى الكهف فقالوا ربّنا جن لوگوں نے اپنے گھر كو ايمان كى حفاظت كى خاطر چھوڑ ديا انہيں ''الفتية '' (جوانمردى ) كے عنوان سے ياد كرنا اگر چہ وہاں ضمير كو بھى لايا جاسكتا تھا اس حقيقت كو واضح كر رہا ہے كہ گھر اور كاشانہ كو چھوڑنا جوانمردى اور اہميت كے قابل ہے_

۵_ايمان اور اقدار كى حفاظت كے لئے ہجرت اور فاسد ماحول سے دور ہونا، جوانمردى كا كام ہے اور الله تعالى كے، نزديك قابل تعريف ہے_إذا وى الفتية إلى الكهف

۶_اصحاب كہف، ايك موحد گروہ اور ايك خدا كى ربوبيت كى معرفت ركھنے والے تھے_فقالوا ربّنا ء اتنا من لدنك رحمة

۷_اصحاب كہف نے الہى ربوبيت سے تمسك كرتے ہوئے اس كى رحمت وحمايت كو طلب كيا _

فقالوا ربنا ء اتنا من لدنك رحمة و هيّى لنا

۸_الله تعالى كى ربوبيت سے تمسك كرنا، دعا اور مناجات كے آداب ميں سے ہے_فقالوا ربنا ء اتنا

۹_اصحاب كہف حق كى تلاش ميں قدم اٹھانے والے اور الله تعالى كى امداد پر بھروسہ ركھنے والے تھے _

إذا وى الفتية إلى الكهف فقالوا ربّنا ء اتنا من لدنك رحمة

۱۰_عمل اور تلاش كے ساتھ ساتھ دعا ايك شائستہ ا ور عظيم كام ہے_

إذا وى الفتية فقالوا ربّنا ء اتنا من لدنك رحمة

''فقالوا'' ميں حرف '' فائ'' بتا رہا ہے كہ اصحاب كہف نے جب اپنے گھر اور شہر كو چھوڑا اور اپنے ايمان كى حفاظت كے لئے غار ميں پناہ لى تو دعا كے لئے ہاتھ اٹھائے اور الله تعالى سے رحمت،

راہنمائي اور مصيبت سے رہائي طلب كي،نہ كہ وہ كوئي عمل كيے بغير ہى الله سے كمال كے طلب ہوئے_

۳۱۹

۱۱_ايمان كى حفاظت كى خاطر قدم اٹھانا، الله تعالى كى رحمت حاصل كرنے كا باعث ہے_

اذ أوى الفتية إلى الكهف فقالوا ربنا ء اتنا من لدنك رحمة

۱۲_اصحاب كہف وہ توحید پرست تھے كہ جنہوں نے غير خدا سے اميد ختم كرلى تھى صرف اس كى ذات كے محتاج تھے اور اس كى رحمت كے اميدوار تھے _فقالوا ربنا ء اتنا من لدنك رحمة كلمہ''من لدنك'' ہوسكتا ہے اس نكتہ سے حكايت كر رہا ہو كہ وہ غير خدا سے اميد ختم كرچكے تھے اور فقط رحمت الہى كے طلبگار تھے _

۱۳_اصحاب كہف نے الله تعالى سے يہ چاہا تھا كہ انكى تمام حركت و كوشش فقط راہ ہدايت پر ہو اور اسميں كسى قسم كى گمراہى كا شائبہ نہ ہو_وهيّى ء لنا من ا مرنا رشدا

''رشد'' كا معنى '' اہتدائ'' ہے اور ''امرنا'' سے مراد ۱۳ اور ۱۴آيات كے قرينہ كى وجہ سے جو كہ اصحاب كہف كى داستان كى تفصيل بيان كر رہى ہيں ا ن كى شرك كے خلاف كوشش اور حركت ہے_

۱۴_اصحاب كہف، الله تعالى سے شرك اور اس كے غير كى پرستش كے خلاف اپنى كوشش اور قيام سے پيدا ہونے والى مصيبتوں اور مشكلات سے نجات پانے كے لئے امداد چاہتے تھے_وهيّيء لنا من أمرنا رشدا

ان كا غار ميں ٹھہرنا بتا تا ہے كہ اصحاب كہف كى يہ تحريك اور قيام ان كے لئے مشكلات او ر مصيبتوں كا موجب بنا اس لئے كہا جاسكتا ہے كہ ان كا ہدايت چاہنے سے مراد اپنے بعد والے عزائم ميں راہنمائي پانا اور وہ جو مصيبتيں اور مشكلات ان پر آنے والى تھيں ان سے نجات كا راستہ پانا تھا_

۱۵_انسان ،اللہ كى رحمت كے ضمن ميں ہدايت سے فائدہ اٹھاسكتا ہے_ء اتنا رحمة وهيّيء لنا من أمرنا رشدا

جملہ '' وہيّ ...'' كا پہلے والے جملہ پر عطف ہوسكتا ہے _ مسبب كا سبب پر عطف ہو يعنى رحمت كا آنا ہدايت وراہنمائي كے لئے سبب اور پيش خيمہ ہے_

۱۶_اصحاب كہف كا ايمان كى حفاظت كى خاطر جوانمردى پر مشتمل كوشش، بلندترين پسنديدہ اعمال كا ايك نمونہ ہے_

ايّهم أحسن عملاً إذا وى الفتية إلى الكهف

گذشتہ آيات ميں واضح ہوا كہ ''احسن عملاً'' زمين كى نعمات كى تخليق كا ہدف قرار پايا ہے تواس غرض وغايت اور فلسفہ كے بيان كے بعد اصحاب كہف كا ذكر گويا''احسن عملاً'' كے ايك مصداق كا ذكر ہے_

۱۷_اصحاب كہف نے زندگى كى ناپائدار زينتوں كو ترك كيا اور الہى امتحان ميں كامياب ہوئے_

۳۲۰