تفسير راہنما جلد ۱۰

تفسير راہنما 0%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 945

تفسير راہنما

مؤلف: آيت الله ہاشمى رفسنجاني
زمرہ جات:

صفحے: 945
مشاہدے: 196372
ڈاؤنلوڈ: 2083


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4 جلد 5 جلد 6 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 945 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 196372 / ڈاؤنلوڈ: 2083
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد 10

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

تفسير راہنما (جلددہم)

قرآنى موضوعات اور مفاہيم كے بارے ميں ايك جديد روش

مؤلف: آيت الله ہاشمى رفسنجاني اور

مركز فرہنگ و معارف قرآن كے محققين كى ايك جماعت

۳

۱۷-سورہ الإسراء

آیت ۱

( بسم الله الرحمن الرحیم )

( سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ البَصِيرُ )

بنام خدائے رحمان و رحيم

پاك و پاكيزہ ہے وہ پروردگار جو اپنے بندے كو راتوں رات مسجد الحرام سے اقصى تك لے گيا جس كے اطراف كو ہم نے با بركت بنايا ہے تا كہ ہم اسے اپنى بعض نشانياں دكھلائيں بيشك وہ پروردگار سب كى سننے والا اور سب كچھ ديكھنے والا ہے

۱_پروردگارعالم ہر قسم كے نقص و عيب سے پاك ہے_سبحان الذي

۲_ پروردگار، پيغمبر(ص) كو ايك رات ميں مسجد الحرام سے مسجد الاقصى تك لے گيا _أسرى بعبده ليلاً من المسجد الحرام إلى المسجد الأ قصى ''اسُرى '' لغت ميں رات كى سير اور چلنے كے معنى ميں ہے _

۳_ پيغمبر اكرم (ص) كو ايك رات ميں مسجد الحرام سے مسجد الاقصى تك لے جانا پروردگار كے قدرت مند

ہونے اور ہر قسم كى كمزورى اور عيب سے پاك ہونے كى علامت ہے_

سبحان الذي أسرى بعبده ليلاً من المسجد الحرام إلى المسجد الاقصى

۴_ پيغمبر اكرم (ص) كى معراج ،پروردگار كى قدرت اور اس كى ہر كمى وكاستى سے پاك ہونے كى علامت ہے_

سبحان الذيأسرى بعبده ليلاً من المسجد الحرام إلى المسجد الأقصى

(اكثر مفسرين كے نزديك اس آيت ميں پيغمبر اكرم (ص) كے رات ميں سفر سے مراد آپ (ص) كى معراج ہے اوراس بات كے ثبوت پر بہت سى روايات بھى ہيں )

۵_ پيغمبر اكرم (ص) كى معراج ايك رات ميں انجام پائي _أسرى بعبده ليلا

۶_ پيغمبر اكرم (ص) كى مسجد الحرام سے مسجد الاقصى تك سفر كرنے والى رات بہت بڑى اور عظمت والى رات تھي_

أسرى بعبده ليلا

(البتہ مندرجہ بالا مطلب تب واضح ہوگا جب ''ليلاً'' كا نكرہ ہونا اسكى بڑائي اور عظمت پر دلالت كرتا ہو)_

۴

۷ _پيغمبر اكرم (ص) بلندو بالا رتبہ اور مقام معراج كى طرف عروج كے مراحل طے كرنے كے باوجود الله تعالى كے عبد و بندہ تھے_أسرى بعبده

۸_ انسان كا مقام عبوديت اور بندگى اس كى بلند ترين منزلت ہے_أسرى بعبده ليلا ( پروردگار كا پيغمبر اكرم (ص) كى تمام صفات ميں سے يہاں ''عبد'' كى صفت بيان كرنا اس صفت كى اہميت و عظمت كو واضح كر رہا ہے)_

۹_ پيغمبر (ص) كا مقام معراج كى طرف عروج ،جسمانى تھا_أسرى بعبده ليلا (كيونكہ كلمہ ''عبد'' مطلق بيان كيا گيا ہے جو ''جسم وروح'' دونوں كو واضح كر رہا ہے) _

۱۰_ پيغمبر اكرم (ص) كى الله كى بارگاہ ميں عبوديت آپ (ص) كے لئے اہم ترين اور بلندو بالا صفت شمار ہوتى ہے_

أسرى بعبده ليلاً من المسجد الحرام _ (پروردگار كا پيغمبر اكرم (ص) كى تمام صفات ميں سے يہاں ''عبد'' كى صفت بيان كرنا اس صفت كى اہميت وعظمت كو واضح كررہا ہے)_

۱۱_ مسجد الحرام اور مسجد الاقصى كى سرزمين ايك خاص معنوى اہميت كى حامل ہے _

أسرى بعبده ليلاً من المسجد الحرام إلى المسجد الاقصى

يہ كہ پيغمبر اكرم (ص) كے سفر كى ابتداء وا نتہاء دو عبادت كى خاص جگہيں (مسجد الحرام اور مسجد الاقصى ) قرار پائيں جو مندرجہ بالانكتہ كى حكايت كرتى ہيں )_

۱۲_ مسجدالاقصى خيروبركت سے سرشار سرزمين پر واقع ہے _إلى المسجد الاقصى الذى بركنا حوله

۱۳_زمين اپنے تقدس اور عظمت كے اعتبار سے مختلف ہوتى ہيں _

(پروردگاركى بالخصوص مسجد الاقصى كى سرزمين كى تعريف اس كے دوسرى زمينوں سے فرق كو واضح كر رہى ہے)

۱۴_ پيغمبر اكرم (ص) كو ايك ہى رات ميں مسجد الحرام سے مسجد الاقصى لے جانے كا سبب آپ (ص) كو الله كى بعض اہم نشانيوں كا دكھلانا تھا_أسرى بعبده لنريه من آياتنا

۱۵_ پيغمبر اكرم (ص) كى معراج كا مقصد آپ (ص) كے لئے الله تعالى كى اہم نشانيوں كا ايك گوشہ ظاہر كرنا تھا_

أسرى بعبده ...لنريه من آياتنا

(مندرجہ بالا آيت ميں پيغمبر اكرم (ص) كا مقام معراج كى طرف عروج كا مقصد الله تعالى كى اہم نشانيوں كا ايك گوشہ ظاہر

كرنا بتايا گيا ہے اس بات سے واضح ہوتا ہے كہ يہ نشانياں ابھى تك ان پر اور دوسروں پر مخفى وپوشيدہ تھيں _ پس يقينا وہ

۵

الله تعالى كى اہم اور خاص نشانياں تھيں )_

۱۶_ معراج ،بذات خود پيغمبر اكرم (ص) كے لئے الله تعالى كى اہم نشانيوں ميں سے تھي_اسرى لنريه من آياتنا

مندرجہ بالا نكتہ كى تشريح يہ ہے كہ پيغمبراكرم (ص) كا مقام معراج كى طرف جانا بذات خود الله تعالى كى نشانى شمار ہوتى ہے اور الله تعالى اپنے پيغمبر (ص) كو مقام معراج كى طرف لے گيا تاكہ آپ (ص) اس ذريعے سے الله تعالى كى قدرت و عظمت كو درك كريں )_

۱۷_ پيغمبر اكرم (ص) كا ايك شب ميں مسجد الحرام سے مسجد الاقصا تك كا سفر آپ (ص) كے لئے الله تعالى كى اہم نشانيوں ميں سے تھا_سبحان الذيأسرى لنريه من آياتنا

۱۸_ پيغمبر اكرم (ص) كى بندگى ہى دراصل آپ (ص) كے الله تعالى كى اہم نشانيوں كو مشاہدہ كرنے كى لياقت كا راز تھي_أسرى بعبدهلنريه من آياتنا (پيغمبر اكرم (ص) كى تمام صفات ميں سے فقط ''عبد'' كى صفت كا آنا اس بات كى وضاحت كر رہاہے كہ آپ (ص) كا معراج كے لئے انتخاب ميں اس صفت كا بنيادى كردار ہے _ يعنى چونكہ آپ (ص) الله تعالى كے خاص بندے تھے _ لہذا يہ لياقت پيدا كرچكے تھے كہ الله تعالى كى خاص نشانيوں كا مشاہدہ كرنے كے لئے مقام معراج كى طرف سفر كريں )_

۱۹_ اس عالم ہستى ميں ايسى خاص آيات اور نشانياں ہيں كہ جنہيں الله تعالى صرف اپنے بعض بندوں كے لئے پيش كرتا ہے _اسرى بعبده لنريه من آياتنا يہ كہ الله تعالى نے پيغمبر اكرم (ص) كو مقام معراج كى طرف لے جانے كا مقصد بعض نشانيوں كو دكھلانا ذكر فرمايا ہے اس سے يہ حقيقت روشن ہوجاتى ہے كہ يہ نشانياں الله تعالى كى ان خاص نشانيوں ميں سے ہيں كہ جنہيں صرف پيغمبر اكرم (ص) جيسے بعض افراد كے لئے پيش كيا جاتا ہے_

۲۰_ الله تعالى 'سميع'' (بہت زيادہ سننے والا) اور ''بصير'' (بہت زيادہ ديكھنے والا) ہے _إنه هو السميع البصير

۲۱_خداوند عالم كا پيغمبر اكرم(ص) كى خواہشات اور لياقت كے بارے ميں وسيع علم و آگاہى ركھنا آنحضرت(ص) كا معراج كے ليے انتخاب كرنے كا سبب تھا_سبحان الذيأسرى إنه هو السميع البصير (يہ جملہ ''إنہ ہو السميع البصير'' پچھلے جملات كے لئے كہ جہاں پيغمبر اكرم (ص) كى معراج كا ذكرہے علت و سبب كى حيثيت ركھتا ہے

يعنى چونكہ پروردگار سميع اور بصير (باتوں كو سننے والا اور صلاحيتوں سے آگاہ) ہے _ لہذا اس نے پيغمبر اكرم (ص) كو معراج

كے لئے منتخب كيا)

۶

۲۲_''عن ثابت بن دينار قال: سا لت زين العابدين عن الله فلم أسرى بنبيّه محمد (ص) إلى السماء ؟ قال: ليريه ملكوت السماوات وما فيها من عجائب صنعه و بدائع خلقه ;(۱)

ثابت بن دينار كہتے ہيں كہ ميں نے امام سجاد (ع) سے پوچھا كہ الله تعالى اپنے پيغمبر حضرت محمد (ص) كو آسمانوں كى طرف كيوں لے گيا؟ تو حضرت (ع) نے فرمايا: اس لئے كہ الله تعالى انہيں آسمانوں كى حكومت اور آسمانوں ميں موجود اپنے تخليقى كرشمے اور انكى شگفت انگيزى انہيں دكھلائے

۲۳_''أبى الربيع قال تلا أبوجعفر(ع) هذه الأية ''سبحان الذى ا سرى بعبده ليلاً من المسجد الحرام إلى المسجد الاقصى الذى باركنا حوله لنريه من آياتنا'' فكان من الآيات التى أراها اللّه تبارك وتعالى محمداً(ص) حيث أسرى به إلى بيت المقدس أن حشراللّه عزّ ذكره الأولين والأخرين من النبيين و المرسلين ;(۲)

ابى ربيع كہتے ہيں كہ امام محمد باقر(ع) نے يہ آية''سبحان الذى أسرى آياتنا'' كيتلاوت كى اور فرمايا كہ جب پروردگار حضرت محمد (ص) كو بيت المقدس لے گيا اور وہ نشانياں جو پروردگار نے آپ(ص) كو دكھلائيں ان ميں ايك يہ تھى كہ الله تعالى نے اولين و آخرين ميں سے تمام انبياء اور رسولوں كو وہاں اكھٹا كيا ...''

۲۴_عن أبى عبداللّه جعفر بن محمد الصادق (ع) قال: لما اسرى برسول اللّه (ص) إلى بيت المقدس حمله جبرائيل على البراق فا تيا بيت المقدس وعرض إليه محاريب الأنبياء وصلى بها وردّه; (۳)

''امام صادق(ع) سے روايت ہوئي ہے كہ آپ (ع) نے فرمايا : جب رسول خدا كو (ص) رات ميں بيت المقدس كى طرف لے جايا جارہا تھا تو جبرائيل نے آپ (ص) كو براق پر سواركيا اور وہ دونوں بيت المقدس ميں تشريف لائے اور جبرائيل نے انبياء عليہم السلام كے محراب آپ (ص) كو دكھلائے اور آپ (ص) نے وہاں نماز پڑھى پھر وہ آپ (ص) كو واپس لے آئے''

۲۵_عن جعفر بن محمد (ع) قال : أتى رجل اميرالمؤمنين(ع) فقال له علي(ع) : إن اللّه عزّوجل يقول فى كتابه'' سبحان الذى أسرى بعبده لنريه من آياتنا '' فكان من آيات اللّه عزوجل التى ا راها محمداً (ص) أنّه ا تاه جبرائيل(ع) فاحتمله من مكة فوافى به بيت المقدس فى ساعة من الليل ثم اتاه بالبراق فرفعه إلى السماء ثم إلى البيت المعمور ;(۴)

____________________

۱) علل الشرايع ص ۱۳۱،ح۱، ب ۱۱۲، نورالثقلين ج۳، ص ۹۹، ح۹_۲) كافى ج ۸ ،ص ۱۳۱، ح ۹۳، بحارالانوار ج ۱۰، ص ۱۶، ح ۱۳_

۳) امالى الصدوق ص ۳۶۳، ح۱، مجلس ۶۹، بحارالانوار، ج ۱۸، ص ۳۳۶، ح ۳۷_۴) بحارالانوار ج ۲۶، ص ۲۸۶، ح ۴۵_

۷

امام صادق(ع) سے روايت ہوئي ہے كہ آپ (ع) نے فرمايا كہ ايك شخص اميرالمؤمنين(ع) كى خدمت ميں پہنچا تو حضرت نے اس سے فرمايا كہ خداوند عالم قرآن مجيد ميں ارشاد رہاہے ''سبحان الذى أسرى بعبده ...'' كہ اللّہ تعالى نے حضرت محمد (ص) كو جو نشانياں دكھلائيں تھيں تو ان ميں سے ايك نشانى يہ تھى كہ جبرائيل آنحضرت (ص) كے پاس آئے اور آپ (ص) كو مكہ سے اٹھايا اور رات كے كچھ حصے ميں بيت المقدس ميں پہنچايا پھر آپ (ص) كے لئے براق لے كر آئے اور آپ (ص) كو آسمانوں كى طرف اور پھر بيت المعمور كى طرف لے گئے ...''

۲۶_''روى عن على (ع) : أنّه لمّا كان بعد ثلاث سنين من مبعثه (ص) أسرى به إلى بيت المقدس وعرج به منه إلى السماء ليلة المعراج ;(۱) حضرت علي(ع) سے روايت ہوئي ہے كہ آنحضرت (ص) كى بعثت سے تين سال گزرنے كے بعد آپ (ص) ايك رات ميں بيت المقدس اور بيت المقدس سے آسمانوں كى طرف لے جائے گئے

۲۷_''عن أبى عبداللّه (ع) قال: إن رسول اللّه (ص) صلى العشاء الا خرة، وصلّى الفجر فى الليلة التى اسرى به فيها بمكة ...; (۲)

''امام صادق (ع) سے روايت ہوئي كہ آپ (ع) نے فرمايا: رسول الله (ص) كو ايك رات ميں (مكہ سے مسجد الاقصى لے جايا گيا _ آپ (ص) نے نماز عشاء اور نماز فجر مكہ ميں پڑھي''_

اسماء اورصفات:بصير ۲۰، سميع ۲۰

الله :الله تعالى كے افعال ۲;علم۲۱; منزہ ہونا ۱; منزہ ہونے كى علامات ۳، ۴; قدرت كى علامتيں ۳، ۴

الله تعالى كے برگزيدہ :الله تعالى كے برگزيدہ بندوں كے فضائل ۱۹//الله تعالى كى نشانياں :۱۶،۱۷

الله تعالى كيآفاقى نشانياں ۱۹//اہميت : ۸،۱۰//بندگي:بندگى كى اہميت ۱۰; مقام بندگى كى قد رو قيمت ۸

تسبيح :الله تعالى كى تسبيح ۱//روايت : ۲۲، ۲۳، ۲۴، ۲۵، ۲۶، ۲۷

سرزمين :سرزمين ميں بابركت ہونے كے اعتبار سے فرق ۱۲،۱۳

محمد (ص) :حضرت محمد(ع) كو الله تعالى كى نشانيوں كا دكھلانا ۱۴، ۱۵، ۱۸، ۲۳، ۲۵ ;حضرت محمد(ع) كو الله تعالى كى حكومت دكھلانا ۲۲; حضرت محمد(ع) كے انتخاب كا فلسفہ ۲۱ ;حضرت محمد(ع) كى بندگى ۷; بندگى كے آثار

____________________

۱) بحارالانوار ج ۱۸، ص ۳۷۹، ح ۸۵_

۲) تفسير عياشى ج ۲ ،ص ۳۷۹، ح۱۱،بحارالانوار ج۱۸، ص ۳۸۵، ح ۸۹_

۸

۱۸; حضرت محمد(ع) كى بندگى كى قدروقيمت ۱۰; حضرت محمد(ع) كى بندگى كى اہميت ۱۰ ; حضرت محمد(ع) كابيت المقدس كى طرف سفر ۲۴، ۲۶ ; حضرت محمد(ع) كى بيت المقدس ميں نماز ۲۴; حضرت محمد(ع) كو تار يخ ۲، ۵ ;حضرت محمد(ع) كى شب معراج ميں نماز۲۴; حضرت محمد(ع) كيمسجد الحرام سے آغاز سفر ۲، ۳، ۷;حضرت محمد(ع) كا مسجد الاقصى كى طرف سفر ۲، ۳ ، ۱۷، ۲۴; حضرت محمد(ع) كے مسجد الحرام سے آغاز سفر كا فلسفہ ۱۳; حضرت محمد(ع) كى معراج ۲، ۳، ۴، ۶، ۷، ۲۲ ، ۲۵; حضرت محمد(ع) كى معراج كى تاريخ۲۶; معراج كا فلسفہ ۱۵، ۲۱، ۲۲; حضرت محمد(ع) كے معراج كى مدت ۵، ۲۷; حضرت محمد (ص) كى جسماني

معراج۹; حضرت محمد(ع) كے مقامات ۷

مسجدالاقصى :مسجد الاقصى كى اہميت ۱۱; مسجد الاقصى كا با بركت ہونا۱۲; مسجد الاقصى كے خصوصيات ۱۲

مسجد الحرام :مسجد الحرام كى اہميت ۱۱

معراج:معراج الله كى نشانيوں ميں سے ۱۶ ; شب معراج كى فضيلت ۱۶

مقدس مقامات: ۱۱

آیت ۲

( وَآتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَجَعَلْنَاهُ هُدًى لِّبَنِي إِسْرَائِيلَ أَلاَّ تَتَّخِذُواْ مِن دُونِي وَكِيلاً )

اور ہم نے موسى كو كتاب عنايت كى اور اس كتاب كو بنى اسرائيل كے لئے ہدايت بنا ديا كہ خبردار ميرے علاوہ كسى كو اپنا كارساز نہ بنانا (۲)

۱_ الله نے موسى (ع) كو آسمانى كتاب (توريت) عطاكى تا كہ اس كے ذريعے بنى إسرائيل كى ہدايت ہو _

واتينا موسى الكتب وجعلناه هديً لبنى إسرائيل

۲_ بنى إسرائيل حضرت موسى (ع) كى دعوت كا مركز تھے اور انكى ہدايت آپ كا اہم مقصد اور ذمہ دارى تھي_

وأتينا موسى الكتب وجعلناه هديً لبنى إسرائيل

(مجموعى طور پر ان آيات سے يہ ظاہر ہوتا ہے كہ حضرت موسى (ع) كى دعوت عالمگير تھى ليكن اس آيت ميں بنى إسرائيل كا بالخصوص ذكر اس لئے كيا گيا كيونكہ وہ حضرت موسى (ع) كى دعوت كا مركز تھے_

۳_ حضرت موسى (ع) صاحب شريعت پيغمبروں ميں سے تھے_أتينا موسى الكتب

۹

(حضرت موسى (ع) كومستقل كتاب عطا ہونا اس بات كى دليل تھى كہ آپ (ع) كے پاس گذشتہ شريعتوں كى نسبت جديد تعليمات اور شريعت تھى اسى سے واضح ہوا كہ آپ (ع) مستقل اور جدا شريعت كے حامل تھے_

۴_ كتاب اور تدوين شدہ اصول انسانوں كى ہدايت اور ترقى ميں اہم كردار ادا كرتے ہيں _

وأتينا موسى الكتب وجعلنه هديً لبنى إسرائيل _

(كتاب اصل ميں صحيفہ اور لكھى چيزوں كا مجموعہ ہے (مفردات راغب) ہدايت كے لئے كتاب كا ذكر مذكورہ نكتہ كى طرف اشارہ ہو سكتاہے_

۵_ توحيد عملى اورخدائے وحدہ لا شريك پر بھروسہ كرنا توريت كا حقيقى پيغام ہے_وأتينا موسى الكتبالأ تتخذوا من دونى وكيل''اَلاّ تتخذوا''' ميں موجود ''اَن'' تفسير وتشريح كے لئے ہے _ اوريہ ان مطالب اور باتوں كى تفسير كر رہا ہے كہ جو لفظ كتاب (توريت) ميں ہيں چونكہ يہاں تمام توريت كے مطالب ميں سے توحيد بيان كى گئي ہے تو اس سے اس كى خصوصى اہميت كا اندازہ ہوتا ہے_

۶_ موحد اور الله تعالى پر بھروسہ كرنے والا انسان ايك ہدايت يافتہ انسان ہے_وجعلنه هديً الأ تتخذوا من دونى وكيلا _

(الأ تتخذوا ميں موجود ''اَن'' اس جملہ''جعلنا هديً لبنى إسرائيل'' كى تشريح كر رہا ہے توحيد اور غير خدا پر بھروسہ نہ كرنے كو ہدايت كا مظہر ومصداق بتارہا ہے_ لہذا موحد شخص ہى ہدايت يافتہ ہے)

۷_ انسان ايك كارساز اور حامى وناصر كا محتاج ہے اور اس كى يہ ضرورت صرف الله تعالى پورى كرنے والا ہے_

ألاّ تتخذوا من دونى وكيل مندرجہ بالا مطلب ہم نے ان دو باتوں سے اخذ كيا ہے :

۱_ ''التوكيل'' لغت ميں غير پر بھروسہ كرنا اور اسے نائب بنانے كے معنى ميں ہے_

۲_ آيت ميں انسان كى كارساز كى طرف احتياج كو مسلّم اور شمار كيا گيا ہے_

پس غير خدا پر بھروسہ كرنے كى نہى سے يہ حقيقت واضح ہوگئي ہے كہ فقط الله تعالى اس ضرورت كو پورا كرنے والا ہے_

انبياء:انبياء اولوالعزم ۳

انسان :انسان كى معنوى ضرورتيں ۷

بنى إسرائيل :بنى إسرائيل كو دعوت دينا ۲; بنى إسرائيل كى ہدايت كے اسباب ۱،۳; بنى إسرائيل كى ہدايت ۲

۱۰

بھروسہ كرنے والے:بھروسہ كرنے والوں كے مقامات ۶ ; بھروسہ كرنے والوں كى ہدايت ۶

ترقى :ترقى كے عوامل ۴

توحيد :توحيد كى اہميت ۵ ; توحيد افعالى ۷

توريت:توريت كى تعليمات ۵;توريت ميں توحید ۵; توريت كا آسمانى كتابوں ميں سے ہونا ۱ ; توريت ميں بھروسہ ۵; توريت كاہدايت دينا ۱

توكل:توكل كى اہميت ۵

ضرورتيں :بھروسہ كى ضرورت ۷; ضرورتوں كو پورا كرنے والا منبع ۷

قانون:قانون كى اہميت ۴

كتاب:كتاب كا كردار ۴

موحدين :موحدين كے مقامات۶ ; موحدين كى ہدايت ۶

موسى (ع) :حضرت موسى كى آسمانى كتاب ۱; حضرت موسى كى ذمہ دارى ۲;حضرت موسى كى دعوت كے مخاطبين۲ ;حضرت موسي(ع) كى نبوت ۳; حضرت موسى كا ہدايت كرنا ۲

ہدايت:ہدايت كے عوامل ۴

آیت ۳

( ذُرِّيَّةَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ إِنَّهُ كَانَ عَبْداً شَكُوراً )

يہ بنى اسرائيل ان كى اولاد مہيں جن كو ہم نے نوح كے ساتھ كشتى ميں اٹھايا تھا جو ہمارے شكرگذار بندے تھے (۳)

۱_ بنى إسرائيل ان لوگوں كى نسل تھى كہ جو حضرت نوح(ع) كے ہمراہ كشتى ميں تھے_هديً لبنى إسرائيل ذرية من حملنا مع نوح

۲_ الله تعالى نے بنى إسرائيل كو انكے اسلاف كا ايمان اور شرافت ياد دلائي ہے _هديً لبنى إسرائيل ذرية من حملنا مع نوح (لفظ ذرية يا مقدرحرف ندا كى وجہ سے منصوب ہے يا مقدر فعل ''اخص'' كى وجہ سے منصوب ہے _ بہرحال دونوں صورتوں ميں ''نوح كے ہمراہ لوگوں كى نسل'' كا عنوان مندرجہ بالا مطالب كو واضح كر رہا ہے''_

۳_ اسلاف كا مؤمن اور موحد ہونا انسان كى ذمہ داريوں كو سنگين كرديتاہے_ذرية من حملنا مع نوح

۱۱

(بنى إسرائيل كو انكے مؤمن وصالح اسلاف كى ياد دلاكر ان كو اپنى ذمہ دارى سے آگاہ كيا گيا ہے)

۴_ بنى إسرائيل كا حضرت نوح(ع) كے ہمراہ لوگوں سے منسوب ہونا باعث ہواكہ وہ اپنى ہدايت كے لئے الله تعالى كى عنايت كے لائق قرار پائے_وأتينا موسى ذرية من حملنا مع نوح

( مندرجہ بالا مطلب كى اساس يہ ہے كہ ذرية ''فعل اخص'' كى بناپر منصوب ہے اور يہ پورا جملہ ''ذرية من حعلنا '' ما قبل آيت ''واتينا موسى ...'' كى علت قرار پايا_ يعنى ہم نے توريت نازل كركے چاہا كہ بنى إسرائيل ہدايت پائيں كيونكہ وہ حضرت نوح (ع) كے ہمراہيوں كى اولاد تھے)_

۵_ اسلاف كا كردار انكى نسل كے ہدايت يافتہ ہونے اور الہى نعمات پانے ميں تا ثير ركھتا ہے_وأتينا موسى الكتب ذرية من حملنا مع نوح مندرجہ بالا مطلب كى بنياد يہ ہے كہ جملہ ''ذرية من'' پچھلى آيت ''واتينا موسى الكتاب '' كے لئے علت قرار پايا ہے_ يعنى چونكہ بنى إسرائيل حضرت نوح (ع) كے كشتى ميں سوار ساتھيوں كى اولاد تھے لہذا انہيں آسمانى كتاب توريت كى ہدايت سے بہرہ مند ہونے كا اعزاز حاصل ہوا_

۶_ توريت كا بنى إسرائيل كو ان كى رشتہ دارى اور جذبات كے ذريعے ہدايت اور توحيد كى طرف مائل كرنا_

وأتينا موسى ذرية من حملنا مع نوح مذكورہ مطلب دو نكات پر استوار ہے _

۱_''ذرية'' محذوف حرف ندا كى وجہ سے منصوب ہے اور پچھلى آيت سے توريت كى بات كو آگے بڑھا رہا ہے _

(وأتينا موسى الكتاب ألا تتخذو ا يا ذرية من حملنا مع نوح )

۲_ آيت بنى إسرائيل كو توحيد كى دعوت دينے كے ساتھ ہى انہيں ياد دلا رہى ہے كہ وہ نوح كے ہمراہ نجات يافتہ لوگوں كى نسل ہے تا كہ اس ذريعے ان ميں دعوت توحيد كو قبول كرنے كا جذبہ ابھاراجائے_

۷_ رشتوں كے احساسات سے استفادہ كركے لوگوں كى ہدايت كرنا قرآن كى ہدايت دينے كى روشوں ميں سے ايك روش ہے _ألا تتخذوا من دونى وكيلا_ ذرية من حملنا مع نوح

مذكورہ مطلب اس صورت ميں درست ہے اگر ہم قائل ہوں كہ جملہ ''ذرية من حملنا '' قرآن كا كلام ہے نہ كہ توريت كى تعليم )

۸_ بندگي، بہت زيادہ شكر گزارى اور ہميشہ بارگاہ الہى سے وابستگى حضرت نوح _ كى اہم خصوصيات ميں سے تھيں _إنه كان عبداً شكور (حضرت نوح _ كے گوناگوں اوصاف ميں سے فقط بندگى اور شكر گزارى كو ياد كيا گيا ہے

۱۲

اور يہ دونوں ان كى نماياں صفات تھيں قابل ذكر كہ بندگى اور شكر گزارى ميں ہميشگى كامعنى جملہ اسميہ ''انہ كان ...'' سمجھا جاتا ہے كيونكہ جملہ اسميہ ہميشگى اور دوام پردلالت كرتا ہے)

۹_ حضرت نوح _ كى بندگى اور دائمى شكر گزارى كى جزاء انكى اور انكے ہمراہيوں كى نجات تھي_ذرية من حملنا مع نوح إنه كان عبداً شكورا ''ذرية ...''سے حضرت نوح(ع) كے ہمراہيوں كى غرق سے نجات كى طرف اشارہ ہے اور جملہ ''إنہ كان عبداً شكوراً'' انكى نجات كى علت ہوگا_ يعنى چونكہ حضرت نوح (ع) شكر گزار بندے تھے لہذا انہيں اور ان كے ساتھيوں كو نجات بخشي_

۱۰_ بندگى اور بارگاہ الہى ميں شكر گزارى بہت اہميت اور قدروقيمت كى حامل ہے _إنه كان عبداً شكورا مندرجہ بالا آيت حضرت نوح _ كى تعريف ميں ہے اور اس ميں صرف دو صفتيں بيان ہوئي ہيں _ اس سے ان دو صفتوں كى اہميت اور قدروقيمت كا علم ہوتا ہے_

۱۱_وعن أبى جعفر (ع) : ...وليس كل من فى الأرض من بنى آدم من ولد نوح قال الله فى كتابه :'' ...ذرية من حملنا مع نوح'' (۱) امام محمدباقر(ع) سے روايت ہوئي ہے كہ: ايسا نہيں ہے كہ زمين پر تمام لوگ حضرت نوح (ع) كى اولاد ہوں _ الله تعالى نے اپنى كتاب ميں فرمايا ہے :''ذرية من حملنا مع نوح'' _

۱۲_''عن أبى حمزه عن أبى جعفر (ع) قال: قلت: فما عنى بقوله فى نوح ''إنه كان عبداً شكوراً'' قال: كلمات بالغ فيهنّ قلت: وما هنّ؟ قال كان إذا أصبح قال : أصبحت أشهدك ما أصبحت بى من نعمة أو عافية فى دين أو دنيا فانها منك وحدك لاشريك لك فلك الحمد على ذلك ولك الشكر كثيراً كان يقولها إذا أصبح ثلاثاً وإذا ا مسى ثلاثا ...'' (۲) ابوحمزہ كہتے ہيں ميں نے امام باقر(ع) سے پوچھا: پروردگار كى حضرت نوح(ع) كے بارے ميں اس جملے ''انہ كان عبداً شكوراً'' سے كيا مراد ہے ؟ امام (ع) نے فرمايا : يہاں مراد وہ كلمات تھے كہ جو حضرت نوح(ع) اكثر كہا كرتے تھے_ ميں نے عرض كيا وہ كون سے كلمات ہيں ؟ امام (ع) نے فرمايا : جب صبح ہوتى تھى وہ كہا كرتے تھے''اصبحت اشهدك ما اصبحت بى من نعمة او عافية'' حضرت نوح _ ہر صبح و شام ان كلمات كو تين مرتبہ كہا كرتے تھے_

۱۳_وعن أبى فاطمة أن النبى (ص) قال :

____________________

۱) تفسيرقمى ج ۳، ص ۲۲۳، نورالثقلين ، ج۳، ص ۱۳۶، ح ۶۸_۲) كافى ، ج ۲، ص ۵۳۵،ح ۳۸، نورالثقلين ج ۳، ص۱۳۶، ح ۷۱_

۱۳

كان نوح (ع) لايحمل شيئاً صغيراً ولا كبيراً إلّا قال بسم اللّه والحمدللّهفسماّه اللّه عبداً شكوراً _(۱)

ابى فاطمہ سے روايت ہوئي ہے كہ پيغمبر اكرم (ص) نے فرمايا : حضرت نوح(ع) جب بھى كسى بڑى يا چھوٹى چيز كو اٹھاتے تھے تو كہا كرتے تھے: بسم اللّہ و الحمد لله تو الله تعالى نے انہيں عبد شكور كا نام ديا _

احساس :كردار ۷//الله :الله كى عنايت كى لياقت ۴; خدا كى ياد دہانى ۲

انسان:گذرے ہوئے لوگ۱۱

اہميت : ۱۰بندگى :بندگى كى اہميت ۱۰; بندگى كى قدروقيمت ۱۰

بنى إسرائيل :بنى إسرائيل كے احساسات كى اہميت ۶; بنى إسرائيل كے خونى تعلق كى اہميت ۶; بنى إسرائيل كى عنايت كى لياقت ۴ ;بنى إسرائيل كے گذشتگان ۱، ۴; بنى إسرائيل كے گذشتگان كا ايمان ۲;بنى إسرائيل كے گذشتگان كے فضائل ۲; بنى إسرائيل كى ہدايت كى لياقت ۴; بنى إسرائيل كو ياد دلانا ۲

توحيد:توحيد كى طرف ہدايت ۶

توريت:توريت كى ہدايت دينے كى روش ۶

رشتہ :خونى رشتہ كى اہميت ۷

روايت: ۱۱، ۱۲، ۱۳//ذمہ دارى :ذمہ دارى ميں مؤثر اسباب ۳

شكر:اہميت ۱۰; قدروقيمت ۱۰/اسلاف:اسلاف كے عمل كے آثار ۵; مسلم مؤمنين كى اہميت ۳

نعمت:نعمت كى استعداد ۵

نوح:حضرت نوح (ع) كى بندگى كى جزاء ۹ ; حضرت نوح (ع) كيخصوصيات ۸; حضرت نوح (ع) كى دائمى شكر گزارى ۸; حضرت نوح (ع) كى دائمى بندگى ۸; حضرت نوح (ع) كى شكر گزارى ۱۲ ; حضرت نوح (ع) كيشكر گزارى كى جزاء ۹; حضرت نوح (ع) كيفضيلتيں ۸; حضرت نوح (ع) كى نسل ۱۱;حضرت نوح (ع) كى نجات كے اسباب ۹; حضرت نوح (ع) كى ہمراہيوں كى نجات كے اسباب ۹ ; حضرت نوح (ع) كى ہمراہيوں كى نسل ۱، ۴

ہدايت :ہدايت كے اسباب ۵، ۷; ہدايت كا طريقہ

____________________

۱) الدر المنشور، ج۵، ص ۲۳۶_

۱۴

آیت ۴

( وَقَضَيْنَا إِلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ فِي الْكِتَابِ لَتُفْسِدُنَّ فِي الأَرْضِ مَرَّتَيْنِ وَلَتَعْلُنَّ عُلُوّاً كَبِيراً )

اور ہم نے بنى اسرائيل كو كتاب ميں يہ اطلاع بھى ديدى تھى كہ تم زمين ميں دومرتبہ فساد كروگے اور خوب بلندى حاصل كروگے (۴)

۱_ الله تعالى كا بنى إسرائيل كو آنے والے دنوں ميں ان كے دو دفعہ قطعى فسادكرنے پر خبردار كرنا _

وقضينا إلى بنى إسرائيل فى الكتب لتفسدن فى الأرض مرتين

(اللہ تعالى ۴ سے ۸ تك آيات ميں بنى إسرائيل كے فساد اور انكے سركوب ہونے كى خبر دى ہے اب يہ كہ يہ فساد دوبار اب تك متحقق ہوچكا ہے يا نہيں اس ميں مفسرين كى مختلف ابحاث اور آراء ہيں _ آيات سے يا كسى اور مقام سے ہمارے پاس كوئي يقينى اور قطعى دليل نہيں ہے كہ جو يہ ثابت كرے كہ يہ دو فساد واقع ہوچكے ہيں يا نہيں _ لہذا آيات ميں يہ مطلب پيشيں گوئي كى صورت ميں بيان ہوا ہے كہ جو ان دو احتمالوں كے ساتھ مطابقت ركھتا ہے _ كہا گيا ہے كہ ''قضائ'' فيصلہ كرنے كے معنى ميں ہے اورجب يہ الى كے ذريعے متعدى ہوتا ہے تو يہ بتانے اور اعلان كرنے كے معنى ميں ہوتا ہے جس طرح كہ بعد ميں بھى آرہا ہے كہ يہ آيت مباركہ خبردار كر رہى ہے)_

۲_ توريت آسمانى كتاب ہے كہ جو الله تعالى كى طرف سے نازل ہوئي ہے _و قضينإلى بنى إسرائيل فى الكتب _

(مذكورہ مطلب كى اساس يہ ہے كہ ''الكتاب'' سے مقصود توريت ہے كيونكہ يہاں ''ال'' عہد ذكرى قرينہ ہے)

۳_ توريت كى بنى إسرائيل كے دو اہم فسادوں كے حوالے سے پيشن گوئي_

وقضينإالى بنى إسرائيل فى الكتب لتفسدن فى الأرض مرتين

۴_ الله تعالى كا بنى إسرائيل كو ان كى سركشى اور بڑى بزرگى چاہنے پر خبردار كرنا _وقضينا إلى بنى إ سرائيل ولتعلن علوّاً كبيراً _

(قرينہ''لتفسدن فى الارض'' اور دوسرا قرينہ جو كہ بعد ميں آرہا ہے ان دونوں قرينوں كى بدولت ''لتعلن'' سے مراد بنى إسرائيل كى بڑائي طلبى ہے نہ يہ كہ ان كا معاشرتى حوالے سے بلند ہونا ہے)_

۵_ توريت كا بنى إسرائيل كى زمين ميں قطعى سركشى او بڑائي طلبى كے حوالے سے پيشين گوئي كرنا _

وقضينا إلى بنى إسرائيل فى الكتب ولتعلن علوَّا كبيرا

۶_ بنى إسرائيل كا بڑائي طلبى اور متجاوز روح كا حامل ہوناوقضينا إلى بنى إسرائيل فى الكتب لتفسدن فى الأرض مرّتين ولتعلن علوّا كبيرا

۱۵

الله تعالى كا بنى إسرائيل كو ان كى فتنہ پسندى اور بڑائي طلبى پربُرے نتائج ميں گرفتار ہونے پر خبردار كرنا اس بات كى دليل ہے كہ وہ متجاوز روح ركھتے تھے_

۷_ بنى إسرائيل كا فتنہ و فساد بہت وسيع اورعالمگير ہے_لتفسدن فى الأرض مرّتين

(مذكورہ مطلب كى بنياد يہ ہے كہ ''ارض'' سے مراد تمام زمين ہے جوكہ ان كے وسيع پيمانے پر فساد كا كنايہ ہے)

۸_ بنى إسرائيل كے زمين پر دو فساد، ان كے تاريخى انقلابات اور بڑے حوادث ميں سے ہيں _

لتفسدن فى الأرض مرّتين ولتعلنّ علوّا كبيرا

۹_وعن أميرالمو منين _: والقضاء على أربعة ا وجه والرابع قضاء العلم و هو قوله: ''قضينا إلى بنى إسرائيل'' معناه علمنا من بنى إسرائيل; (۱)

اميرالمؤمنين _ سے روايت ہوئي ہے كہ ''قضائ'' كى چارصورتيں ہيں اس كى چوتھى صورت يہ ہے كہ قضاء علم كے معنى ميں ہے اور الله تعالى كا كلام ہے_ ''قضينا إلى بنى إسرائيل'' يعنى ہم بنى إسرائيل كے كاموں كو جانتے تھے

۱۰_ عن على بن أبى طالب (ع) فى قوله ''لتفسدنّ فى الأرض مرّتين'' قال: الاولى قتل زكريا عليه الصلوة والسلام والاخرى قتل يحيى _ ;(۲) امام على بن ابى طالب _ سے الله تعالى كى اس كلام ''لتفسدن فى الأرض مرّتين'' كے بارے ميں روايت ہوئي ہے كہ آپ (ع) نے فرمايا: انہوں نے پہلى دفعہ حضرت زكريا _ كو قتل كيا تھا اور دوسرى دفعہ حضرت يحيى _ كو قتل كيا تھا_

اللہ:الله كى خبر ۴; الله كاعلم ۹

بنى إسرائيل :بنى إسرائيل كى بڑائي طلبى ۴; بنى إسرائيل كى تاريخ۸; بنى إسرائيل كاتكبر۵;بنى إسرائيل كوخبردار كرنا ۱ تا ۴; بنى إسرائيل كى روح متجاوز۶; بنى إسرائيل كى روح متكبر ۶;بنى إسرائيل كى سركشى ۴، ۵ ;بنى إسرائيل كا فساد كرنا ۱، ۳; بنى

۱۶

إسرائيل كے فساد كرنے كى تعداد ۸; فساد كا وسيع پيمانے پر ہونا ۷

توريت:توريت كا آسمانى كتاب ہونا۲ ; توريت كى پيشيں

گوئي ۳،۵ ;توريت كا نزول ۲

روايت : ۹، ۱۰

قضا:قضا كى مراد ۹

آیت ۵

( فَإِذَا جَاء وَعْدُ أُولاهُمَا بَعَثْنَا عَلَيْكُمْ عِبَاداً لَّنَا أُوْلِي بَأْسٍ شَدِيدٍ فَجَاسُواْ خِلاَلَ الدِّيَارِ وَكَانَ وَعْداً مَّفْعُولاً )

اس كے بعد جب پہلے وعدہ كا وقت آگيا تو ہم نے تمھارے اوپر اپنے ان بندوں كو مسلط كرديا جو بہت سخت قسم كے جنگجو تھے اور انھوں نے تمھارے ديار ميں چن چن كر تمھيں مارا اور يہ ہمارا ہونے والا وعدہ تھا (۵)

۱_ الله تعالى كا بنى إسرائيل كے پہلے فساد كے بعد ان سے طاقتور اور جنگجو لوگوں كے ذريعے انتقام لينا_

فإذا جاء وعد أولهما بعثنا عليكم عباداً لنا أولى بأس شديد _

(لغت ميں ''با س'' سے مراد جنگ ميں سختى ہے اور ''أولى باس'' سے مراد طاقتور جنگجو ) ہے _

۲_ الله تعالى طبيعى اسباب اور اپنے بندوں كے ذريعے زمين كے سركش عوام كو سركوب كرتا ہے_

بعثنا عليكم عباداً لنا أولى بأس شديد_

۳_ بنى إسرائيل كے پہلے فساد كو ختم كرنے والے طاقتور اور جنگجو لوگ تھے _بعثنا عليكم عباداً لنا أولى بأس شديد

۴_ بنى إسرائيل كا اپنے فساد كے پہلے مرحلے ميں طاقتور اور جنگجو ہونا _بعثنا عليكم عباداً لنا أولى بأس شديد

بنى إسرائيل كو سركوب كرنے كےلئے انتہائي طاقتور لشكر كا جانا اس بات كى دليل ہے كہ وہ بھى بہت بڑے جنگجو تھے_

۵_ الله تعالى انسانوں كو ان كے تجاوز اور سركشى كے بعد كيفر كردار تك پہنچاتا ہے_

وقضينا إلى بنى إسرائيل فى الكتب لتفسدنّ فى الأرض مرّتين فإذا جاء وعداولهم بعثنا عليكم عبادالنا اولى باس شديد_

۱۷

۶_ دشمنوں كى سركوبى كے لئے ضرورى قدرت وطاقت ناگزير امر ہے_بعثنا أولى بأس شديد_

۷_ طاقتور جنگجووں كا سرزمين بنى إسرائيل پر وارد ہونے كے بعد انكى سركوبى كے لئے گھر گھر جستجو كرنا_

بعثنا فجاسوا خلل الديار

الجوس (جاسوا كا مصدر) سے مراد آمد و رفت ہے (لسان العرب) يہ لفظ عموماً كسى چيز كا پتہ چلانے اور خبر لينے كے لئے استعمال ہوتا ہے)_

۸_فتنہ و فساد برپا كرنے كے بعد بنى إسرائيل كا اپنے گھر ميں بھى ناامن ہونا اور جنگجؤوں كى طرف سے مورد تعاقب قرار پانا_

فجاسوا خلل الديار

۹_ بنى إسرائيل كا فتنہ وفساد اور پھرطاقتور جنگجووں كے ہاتھوں سركوب ہونا الله تعالى كا قطعى اور تبديل نہ ہونے والا وعدہ ہے_بعثنا عليكم وكان وعداً مفعولا

۱۰_بڑائي طلب اور مفسد لوگوں كو دبانا ضرورى ہے چاہے اس كام كے ليے طاقت كا استعمال اور ان كى سلامتيكو ختم كرنا پڑے_بعثنا عليكم عباداً لنا أولى بأس شديد فجاسوا خلال الديار

يہ كہ الله تعالى نے فرمايا ہے كہ :'' بنى إسرائيل كے فتنہ كو خاموش كرنے كے لئے ہم طاقتور لشكر بھيجيں گے''سے معلوم ہوا فساد كرنا مذموم و منفور كام ہے كہ جسے ختم كرنا درست اور پسنديدہ كام ہے

الله :الله كے وعدہ كا قطعى ہونا ۹; الله كاانتقام ۱; الله كى سزائيں ۵

بنى إسرائيل :بنى إسرائيل سے انتقام لياجانا ۱ ;بنى إسرائيل كى تاريخ ۱، ۳; بنى إسرائيل كى تعاقب ۸ ; بنى إسرائيل كى سركوبى ، ۹; بنى إسرائيل كى سركوبى كرنے والوں كى طاقت ۳; بنى إسرائيل كى طاقت ۴; بنى إسرائيل كافساد كرنا ۴،۹; بنى إسرائيل كے فساد كرنے كے نتائج ۱، ۸; بنى إسرائيل كى انانيت ۸

پروردگار كے كام كرنے والے : ۱

تجاوز :تجاوز كى سزا ۵

تكبر كرنے والے :سركوب كرنےكى اہميت۱۰

دشمن :دشمن كو سركوب كرنے كى طاقت ۶

سزا كا نظام ۵

۱۸

فوجى آمادگى :فوجى آمادگى كى اہميت ۶

طبيعى اسباب:طبيعى اسباب كى اہميت كردار ۲

طاقت :اہميت ۶

فساد كرنے والے :فساد كرنے والوں كو سركوب كرنے كى قدر ۱۰

نافرماني:نافرمانى كى سزا ۵

نافرمانى كرنے والے :نافرمانوں كو سركوب كرنے كے ذرائع ۲

آیت ۶

( ثُمَّ رَدَدْنَا لَكُمُ الْكَرَّةَ عَلَيْهِمْ وَأَمْدَدْنَاكُم بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَجَعَلْنَاكُمْ أَكْثَرَ نَفِيراً )

اس كے بعد ہم نے تمھيں دوبارہ ان پر غلبہ ديا اور اموال و اولاد سے تمھارى مدد كى اور تمھيں بڑے گروہ والا بناديا (۶)

۱_ بنى إسرائيل كا پہلى شكست كے بعد الله تعالى كى مشيت سے دوبارہ طاقتور ہونا _ثم رددنا لكم الكرّة عليهم

(كرّہ كا لغوى معنى واپس لوٹناہے، حكومت اور مخلوق كے تباہ اور برباد ہونے كے بعد دوبارہ بننا بہرحال يہاں كرّہ سے مراد قوت وطاقت كا واپس آنا ہے)

۲_ پہلى شكست كے بعد الله تعالى كے ارادہ سے بنى إسرائيل كا اپنے جنگجو دشمنوں پر فتح پانا _ثم رددنا لكم الكرّة عليهم

۳_ تاريخى تبديلياں (امتوں كى فتح و شكست) الله تعالى كے ارادہ كے تحت ہيں _بعثنا عليكم عباداً ثم رددنا لكم الكرّة

۴_ بنى إسرائيل كى پہلى شكست اور فتح كے درميان فاصلہ كا ہونا _ثم رددنا لكم الكرّة عليهم

(''ثم'' زمانى فاصلہ كو بيان كررہا ہے )

۵_ پہلى شكست كے بعد الله تعالى كى امداد سے بنى إسرائيل كانئے سرے سے اقتصادى اور افرادى قوت كا بننا _

ثم رددنا لكم الكرّة عليهم و ا مددنكم با موال وبنين _

۶_ پہلى شكست كے بعدبنى إسرائيل كا اپنے دشمنوں پردوبارہ غلبہ الله تعالى كى دى گئي اقتصادى اور افرادى طاقت پر قائم ہوا_

۱۹

وأمددناكم بأموال و بنين

۷_ اقتصادى اور افرادى قوت كا بڑھنا اور ان دونوں ميں توازن امتوں كے مقدر ميں اہم كردار ادا كرتا ہے_

وا مددناكم با موال و بنين

(مال اور بيٹوں كا ايك دوسرے كے ساتھ ذكر ہونا واضح كر رہا ہے كہ ان دونوں كا ايك دوسرے كے قريب ہونا امتوں كا اپنے دشمنوں پر غلبہ پانے ميں كار سا ز ہے_

۸_ بنى إسرائيل كى تاريخ سخت نشيب و فراز كى حامل ہے_بعثنا عليكم عباداً لنا أولى با س شديد ثم رددنا لكم الكرّة عليهم وا مددناكم بأموال و بنين

۹_ پہلى شكست كے بعد دشمن كى تعداد پر بنى إسرائيل ميں افرادى قوت اور جنگى سپاہيوں كا بڑھنا _وجعلنكم أكثر نفير

۱۰_ دشمن كى افرادى اور اقتصادى طاقت پر برترى اور غلبہ پانے كے لئے اقتصادى ترقى اور آبادى بڑھانا ايك شائستہ اور ضرورى سياست ہے _وا مددنكم با موال وبنين وجعلنكم أكثر نفير

جملہ''جعلناكم '' و''أمددناكم '' والے جملے كے لئے نتيجہ كى مانند ہے كيونكہ لغت ميں ''نفير'' لوگوں كے اس گروہ كو كہتے ہيں كہ جنكے پاس ايك ساتھ كوچ كرنے كے لئے ضرورى آمادگى ہو (مفردات راغب) تو يہاں ہم يہ نكتہ اس سے ليں گے كہ الله تعالى تے مال اور بيٹوں كى مددسے تمہيں يہ طاقت دى كہ تم اپنے دشمنوں پر غلبہ پالو_

۱۱_ الله تعالى اجتماعى تبديليوں كو اپنى مشيت سے طبعى اسباب كے ذريعہ انجام ديتاہے_

وا مددنكم بأموال وبنين وجعلنكم أكثرا نفير

۱۲_ بنى إسرائيل كا اپنے فتنہ و فساد كى سزا بھگتنے اور جنگجو لوگوں سے شكست قبول كرنے كے بعد كلى طور پر بہتر اور مفيد قدم اٹھانا _لتفسدن فى الأرض بعثنا عليكم عباداً لنا أولى با س شديد ثم رددنالكم الكرّة عليهم وامددنكم با موال وبنين و جعلنكم أكثر نفيراً_

بعد والى دو آيت''إن عدتم عدنا'' اس بات پرقرينہ ہے كہ بنى إسرائيل اپنى شكست كے بعد تنبيہ پاچكے تھے اسى لئے الله تعالى نے ان كى مدد فرمائي _

۲۰