تفسير راہنما جلد ۱۰

تفسير راہنما 0%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 945

تفسير راہنما

مؤلف: آيت الله ہاشمى رفسنجاني
زمرہ جات:

صفحے: 945
مشاہدے: 195706
ڈاؤنلوڈ: 2080


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4 جلد 5 جلد 6 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 945 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 195706 / ڈاؤنلوڈ: 2080
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد 10

مؤلف:
اردو

آیت ۴۲

( وَأُحِيطَ بِثَمَرِهِ فَأَصْبَحَ يُقَلِّبُ كَفَّيْهِ عَلَى مَا أَنفَقَ فِيهَا وَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلَى عُرُوشِهَا وَيَقُولُ يَا لَيْتَنِي لَمْ أُشْرِكْ بِرَبِّي أَحَداً )

اور پھر اس كے باغ كے پھل آفت ميں گھيردئے گئے تو وہ ان اخراجات پر ہاتھ ملنے لگا جو اس نے باغ كى تيارى پر صرف كئے تھے جب كہ باغ اپنى شاخوں كے بھل الٹا پڑا ہوا تھا اور وہ كہہ دہا تھا كہ اے كاش ميں كسى كو اپنے پروردگار كا شريك نہ بناتا (۴۲)

۱_مغرور مالدار شخص كے ذرائع، الله تعالى كے وسيع عذاب كے نازل ہونے سے تباہ ہوگئے اور باغ وكھيتى كى تمام پيداوار ختم ہوگئي _وا حيط بثمره

'' أحيط بثمره'' محذوف پر عطف ہے يعنى ''وقع العذاب '' اور احاطہ ہونا تباہ ہونے سے كنايہ ہے اور ثمرہ سے مراد مالدار شخص كى باغ اور كھيتى كى تمام تر پيداوار ہے_

۲_تكبر و غرور ميں مبتلاء مالدار شخص پر مؤمن شخص كى نصيحتوں نے اثر نہ كيا تھا _و أحيط بثمره

واضح ہے كہ اگر مالدار شخص، مؤمن شخص كى نصيحتوں كو سنتا تو اس كا مال اور سرمايہ تباہ و برباد نہ ہوتا_

۳_مغرور مالدار شخص كے ذرائع معاش كے تباہ ہونے كے ساتھ ہى مؤمن شخص كى اميد اور آرزو پورى ہوگئي _

فعسى ربّى أن وا ُحيط بثمره

۴_مالدار شخص اپنے باغ كو چھتوں پر گرا پڑا اور تمام پيداوار اور اپنا سرمايہ تباہ شدہ ديكھ كر شديد حسرت كھانے لگا_

و أحيط بثمره فا صبح يقلّب كفيه و هى خاوية على عروشه

''كفّ'' سے مراد ايك ہاتھ اور ''كفيّة '' ا س كا تثنيہ يعنى اس كے دو نوں ہاتھ ''يقلب كفية'' يعنى اپنے دونوں ہاتھ كو ملنے لگا (يعنى كبھى ايك ہتھيلى كو دوسرے ہاتھ كى پشت پر پھيرتا ' كبھى دوسرى ہتھيلى كو پہلے ہاتھ كى پشت پر پھيرتا تھا _ يہحركت انسان كى شديد حسرت اور رنج كا رد عمل ہے_ ''خاوية'' يعنى گرجانا ''عروش'' يعنى چھتيں يا چھترياں كہ جوبعض اوقات پھل دار درختوں پر دى جاتى ہيں _ ''خاوية على عروشھا'' يعنى درخت يا باغ كى عمارتيں اپنى چھتوں پر گر گئيں _

۵_خود پسند مالدار شخص نے ٹھيك پھل اٹھانے اور پيداوار لينے كے وقت اپنے باغ كى تباہى كا سامنا كيا_

۴۲۱

ا حيط بثمره ''احيط بثمره '' اور''ما ا نفق'' كى تعبيرات بتاتى ہيں كہ ابتدائي كام ہوچكا تھا ضرورى حدتك سرمايہ خرچ ہوچكا تھا اور ٹھيك عذاب اسى وقت نازل ہوا كہ جب وہ باغ كا پھل لينے كے لئے تيار ہوا تھا_

۶_اپنے آپ ميں گم اور بدمست مالداروں كے خوشى والے لمحات ميں الہى عذاب، ان كے شكار ميں ہوتا ہے_

وا حيط بثمره فا صبح يقلّب كفيه على مإ نفق فيه

''احےط بثمرہ'' كى تعبير بتا تى ہے كہ پھل چننے اور نتيجہ تك پہنچنے كا زمانہ، تھا كہ يہ زمانہ سرمايہ لگانے والے شخص كا بہت اہم اور بہت پر لطف زمانہ ہوتا ہے_

۷_تمام سرمايہ گذارى اور مادى وسائل تباہ وبرباد ہونے كے خطرہ ميں ہيں _واحيط بثمره فأصبح يقلّب كفّيه على ما أنفق فيه

چنانچہ اگر باغوں كى مثاليں بطور نمونہہوں تو مغرور مالدار شخص ان لوگوں كا نمونہ ہے كہ جو مادى اہداف كے ساتھدنيااور ا س كے مال كو مد نظر ركھتے ہوئے كوشش كرتے ہيں ليكن آخر كار اپنى زحمت اور تكاليف پر افسوس كرتے ہيں چونكہ آخر ميں يہ سب كچھ تباہ وبرباد ہوجاتا ہے_

۸_خود پرست مالدار شخص، اپنے مال و منال كى نابودى كے بعد ہوش ميں آيا اور اپنے شرك آلود اعتقادات پر اظہار افسوس كرنے لگا _ياليتنى لم أشرك بربى احدا

۹_مادى بدمستي، انسان كے اپنے عمل اور عقيدہ كے ٹيڑھے پن كو سمجھنے ميں ايك اہم ركاوٹ ہے_

وا ُحيط بثمره يقول ياليتنى لم ا شرك بربّى احدا

آيت ميں موضوع بحث مالدار مغرور شخص ہے جب اس كا تمام تر مال ومتاع تباہ ہوگيا تو اپنے ٹيڑھے پن كو سمجھا اور اس پر ندامت كا اظہار كيا ليكن اس سے پہلے جو كچھ اس كے پاس تھا اس ميں بدمست تھا_

۱۰_ دنياوى سزائيں ، غافل لوگوں كو بيدار كرنے كے لئے ہيں _و أحيط بثمره يقول ياليتنى لم ا شرك بربّى ا حدا

۱۱_غير خدا پر اعتماد كرنا، شرك اور پشيمان كرنے

۴۲۲

والے انجام كا حاصل ہے_ا كثر منك مالاً ياليتنى لم أشرك بربّى احدا

۱۲_دنيا پرستوں كى الله تعالى كى طرف توجہ، اپنے مادى فائدوں اور طمع كى خاطر ہے _

و أحيط بثمره وهى خاوية على عروشها ويقول يا ليتنى لم ا ُشرك بربّى احدا

يہ بھى احتمال ہے كہ مغرور سرمايہ دار شخص كا اپنے شرك پر افسوس اس لئے نہ ہو كہ اس نے شركت كى حقيقى قباحت كو درك كيا ہو بلكہ اس لئے ہو كہ اس نے كيوں شرك كيا كہ اس كا مال ومتاع اور سرمايہ تباہ و برباد ہوا_

اعتماد :غير خدا پر اعتماد كا انجام ۱۱;غير خدا پر اعتماد كرنے كے آثار ۱۱;غير خدا پر اعتماد كى ندامت ۱۱

الله تعالى :الله تعالى كى سزائيں ۶

دنيا پرست :دنيا پرستوں كا نظريہ ۱۲; دنيا پرستوں كى عبادت كى كيفيت ۱۲;دنيا پرستوں كى مفاد پرستى ۱۲

دنيا پرستى :دنيا پرستى كے آثار ۹

سرمايہ لگانا :مادى سرمايہ لگانے كا پايدار نہ ہونا ۷

سزائيں :دنياوى سزائوں سے عبرت ۱۰;دنياوى سزائوں كے آثار ۱۰

شرك :شرك كے موارد ۱۱

عبرت :عبرت كے اسباب ۱۰

عذاب :عذاب كے اہل ۱

غافلين :غافلين كو متوجہ كرنے كے اسباب ۱۰

مالدار لوگ :مغرور مالدار لوگوں كو سزا ۶

مغرور باغ والے :مغرور باغ والے كا شرك ۸; مغرور باغ والے كا غفلت ميں شكار ہونا ۵; مغرور باغ والے كا قصہ ۱،۲،۳،۴،۵،۸ ;مغرور باغ والے كو عذاب ۱;مغرور باغ والے كى بيدارى ۸;مغرور باغ والے كى حسرت ۴;مغرور باغ والے كى دولت كى نابودى ۳; مغرور باغ والے كے اموال كى نابودى ۸; مغرور باغ والے كے باغ كى تباہى ۴;مغرور باغ والے كے باغ كى نابودى ۱،۵;مغرور باغ والے كے ہم نشين كے آرزو كا پورا ہونا۳;مغرور باغ والے كے ہم نشين كى نصيحتوں كا بے اثر ہونا ۲//ہدايت :ہدايت سے ركاوٹيں ۹

۴۲۳

آیت ۴۳

( وَلَمْ تَكُن لَّهُ فِئَةٌ يَنصُرُونَهُ مِن دُونِ اللَّهِ وَمَا كَانَ مُنتَصِراً )

اور اب اس كے پاس وہ گروہ بھى نہيں تھا جو خدا كے مقابلہ ميں اس كى مدد كرتا اور وہ بدلہ بھى نہيں لے سكتا تھا (۴۳)

۱_ساتھيوں كى كثرت پرمغروروالا سرمايہ دار، عذاب كے ذريعے اپنے سرمايہ كى تباہى كے وقت اكيلا اور بے يارو مددگار تھا_

ا نا أكثر منك مالاً وا عزّ نفراً لم تكن له فئة ينصرونه من دون اللّه

۲_اموال اور ساتھيوں كى تعداد كا الله تعالى كے عذاب اور سزا كو روكنے كے حوالے سے كوئي زور اور اثر نہيں ہوتا ہے_

وهى خاوية على عروشها و لم تكن له فئة ينصرونه من دون الله

۳_الہى عذاب كے نزول كے وقت صرف الله تعالى ہى اسے روكنے پر قادر ہے_ولم تكن له فئة ينصرونه من دون الله

۴_غير خداپر بھروسہ اور اعتماد كرنے كاانجام شكست اور محروميت ہے _

أنا أكثر منك مالاً أو أعزّنفراً ولم تكن له فئة ينصرونه من دون الله

''فئة '' سے مراد لوگوں كا ايك گروہ اور جماعت ہے جملہ '' ولم تكن ...'' مال اور ساتھيوں پر غرور كرنے ولا مالدار شخص كے خيالات كاجواب ہے جو پچھلى آيت ميں بيان ہواتھا_ اس آيت ميں ايسى اعتماد والى جگہوں كے الله تعالى كے ارادہ كے مد مقابل بے فيض ہونے پرتاكيد كى گئي ہے_

۵_آسائش اور قدرت كے زمانہ كے دوست ،مشكل اور فقر كے زمانہ ميں غائب ہوجاتے ہيں _

و أحيط بثمره ولم تكن له فئة ينصرونه من دون الله

آيت ميں مالدار شخص كے ساتھيوں كے نابود ہونے كى بات نہيں آئي ' اسى لئے ممكن ہے كہ عبارت ''لم تكن لہ فئة'' كا يہ معنى ہو كہ اس كے ساتھى اپنے مالك كے اموال كى تباہى ديكھ كر اس سے دور ہوگئے تھے اور انہوں نے اسكى مدد نہ كى _

۴۲۴

۶_مشرك شخص، اپنے سے عذاب دور كرنے ميں عاجز تھا_وماكان منتصرا

''انتصار'' سے مراد'' ظلم و تجاوز ميں اپنى حفاظت'' ہے_ (لسان العرب)اس آيت ميں مراد عذاب سے اپنے آپ كو محفوظ كرنا ہے_ يعنى مغرور مالدار شخص جس مشكل ميں پھنس گيا تھا اس سے چھٹكارے اور عذاب كو دور كرنے ميں كوئي راہ نہيں پا رہا تھا _

آسائش پسند :آسائش پسند دوستوں كى بے وفائي ۵

اعتماد:غير خدا پر اعتماد كا انجام ۵

الله تعالى :الله تعالى كى قدرت ۳;اللہ تعالى كے ساتھ خاص ۳

تعداد :تعداد كى كثرت كا كردار ۲

شكست:شكست كے اسباب ۴

عذاب :عذاب سے نجات ۲;عذاب كو روكنے سے عاجزى ۶;عذاب كو روكنے كا سرچشمہ ۳

فقر:فقر كے آثار ۵//مال :مال كا كردار ۲

مغرور باغ والا :مغرور باغ والے كا بے يارو مددگار ہونا ۱; مغرور باغ والے كا عجز ۶;مغرور باغ والے كا عذاب ۱;مغرور باغ والے كا قصہ ۱،۶ ; مغرور باغ والے كے اموال كى نابودى ۱

آیت ۴۴

( هُنَالِكَ الْوَلَايَةُ لِلَّهِ الْحَقِّ هُوَ خَيْرٌ ثَوَاباً وَخَيْرٌ عُقْباً )

اس وقت ثابت ہوا كہ قيامت كى نصرت صرف خدائے برحق كے لئے ہے وہى بہترين ثواب دينے والا ہے اور وہى انجام بخير كرنے والا ہے (۴۴)

۱_انسان، مشكلات كى گھڑى ميں انجام امور پر خداوند عالم كى ولايت قدرت مطلق كى طرف متوجہ ہو جاتا ہے_ولم تكن له فئة ينصرونه ...هنالك الولاية للّه الحق

اس ميں كسى قسم كے شك كى گنجائش نہيں ہے كہ خداوند عالم كى ولايت ( خواہ حاكميت و تدبير كے معنى ميں ہو يا نفر ت كے معنى ميں ہو) حاكم اور نافذ ہے لہذا ''ہنالك'' كے ساتھ كسى خاص مكان و واقعہ كى طرف اشارہ اس ليے ہے كہ انسان

۴۲۵

اس موقع ہر اس نكلتہ كى طرف متوجہ ہوجاتا ہے_

۲_جب سارے ظاہرى اسباب در ميان سے ختم ہو جائيں تو صرف خداوند عالم كى ہى ذلت ہے جو امداد پہنچانے پر قادر ہے_هنالك الولاية لله الحق

اہل لغت نے ''ولايت'' كے مابين فرق كو بيان كيا ہے ''ولايت '' كا معنى نصرت اور''ولايت'' كا معنى سرپرستى اور تدبير ہے اگر چہ بعض مفسرين نے اس فرق كا انكار كيا ہے_(ر_ك الميزان)

ليكن اسى قسم كى ددسرى آيات اور ما قبل آيت جو كہ نصرت كے معنى ميں ہے كى طرف توجہ كرتے ہوتے ايسى معنى بيان بھى معلوم ہوتا ہے_

۳_ خداوند عالم كى جملہ خصوصيات ميں سے حقانيت اور ثبات ہيں _لله الحق

۴_ عذاب اور مشكلات كے وقت،قابل بھروسہ مددگا ر صرف خدواند عالم ہى ہے _هنالك الولاية لله الحق

'' أحيط بثمرہ'' كى دلالت كى وجہ سے ''ہنالك'' كا اشارہ عذاب كے زمانہ كى طرف ہے اس ليے يہاں يہ مراد ہے كہ نزول عذاب كے وقت انسان كے تمام اسباب منقطع ہو جاتے ہيں اور صرف اميد كى كرن خدا'' وحدہ لا شريك'' كى نصرت ہوتى ہے_

۵_ بزم ہستى ميں شرك كا عقيدہ ،كسى قسم كا مددگار نہيں ركھتا_يا ليتنى لم اشرك بربّى احداً ...هنالك الولاية لله الحق

گذشتہ آيات ميں شرك كرنے كے سنگين انجام كو بيان كرنے كے بعد ''اللہ '' كو ''الحق'' كے ساتھ بيان كرنا ، اس نكتے كى طرف اشارہ ہے كہ شرك اپنى تمام تر انواع واقسام سميت حقانيّت سے خالى ہے اور وہ ہستى جو كہ حقّ محض ہے اور واقعيّت و حقيقت ركھتى ہے وہ صرف ذات الہى ہے_

۶_ الله تعالي، بہترين جزائيں اور بلند ترين عاقبت عطا كرنے والا ہے _هو خير ثواباً و خير عقبا

ثواب سے مراد'' اجر اور جزا'' ہے جبكہ (عقب ) يعنى عاقبت اور انجام ہے_

۷_ الله تعالى كى ولايت اور حقانيت، بہترين جزا ؤں اور عاقبتوں كے عطا كرنے كى ضامن ہے _

هنالك الولاية للّه الحقّ هو خير ثواباً و خير عقبا

۸_ فضول، لا حاصل اوربر ا انجام، شرك اور دنيا پرستى كا نتيجہ ہے _

ولم تكن له فئة ينصرونه من دون الله هو خير ثواباً وخير عقبا

۴۲۶

مالدا ر شخص كى كہا نى كا بيان اور اسكا خسارت ولاحاصل انجام اور پھريہ ياد دلانا كر الله تعالى بندوں كو بہترين جزاء اور نيك عاقبت عطا كرنے والا ہے سے يہ نتيجہ نكلتا ہے كہ دنيا پرستى اور شرك كا نتيجہ بد عاقبتى اور لاحاصلى ہے _

۹_اشياء كى قدرو قيمت ميں ، اہم معيار اچھى عاقبت اور بہترين انجام ہے _خير عقب

اعتماد :الله پر اعتماد ۴

انجام :اچھے انجام كا سرچشمہ ۶;اچھے انجام كى قدر و قيمت ۹;اچھے انجام كے اسباب۷;برے انجام كے اسباب ۸; بہترين انجام ۶،۷

انسان:انسانوں كا مدد گار ۲

الله تعالى :الله تعالى كى جزائيں ۶; الله تعالى كى حاكميت ۱; الله تعالى كى حقانيت ۳; الله تعالى كى حقانيت كے آثار ۷;اللہ تعالى كى ولايت ۱; الله تعالى كى ولايت كے آثار ۷; الله تعالى كے عطيات ۶; الله تعالى كے ساتھ خاص ۲

جزاء :بہترين جزاء ۶; ۷; جزاء كا سرچشمہ ۶; جزاء كى ضمانت ۷

دنيا پرستى :دنيا پرستى كا انجام ۸; دنيا پرستى كا فضول ہونا ۸

سختى :سختى كے آثار ۱; سختى ميں امداد ۲

شرك :شرك كا انجام ۸; شرك كاباطل ہونا ۵،۸

عذاب:عذا ب ميں مبتلا كے مدد گار ۴

علم :علم كا پيش خيمہ ۱

قدرو قيمت :قدرو قيمت كا معيار ۹

نظر يہ كا ئنات :توحيدى نظريہ كائنات ۲

۴۲۷

آیت ۴۵

( وَاضْرِبْ لَهُم مَّثَلَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا كَمَاء أَنزَلْنَاهُ مِنَ السَّمَاءِ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَبَاتُ الْأَرْضِ فَأَصْبَحَ هَشِيماً تَذْرُوهُ الرِّيَاحُ وَكَانَ اللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ مُّقْتَدِراً )

اور انھيں زندگانى دنيا كى مثال اس پانى كى بتايئےسے ہم نے آسمان سے نازل كيا تو زمين كى روئيدگى اس سے مل جل گئي پھر آخر ميں وہ ريزہ ريزہ ہوگئي جسے ہوائيں اڑاديتى ہيں اور اللہ ہر شے پرقدرت ركھنے والا ہے (۴۵)

۱_ پيغمبر پردنياوى زندگى كى حقيقت اور اسكى نا پا ئيد ا ر ى كو بيان كرنے كيلئے مثال سے استفادہ كرنے كى ذمہ دارى ڈالى گئي _واضرب لهم مثل الحياة الدنيا

۲_ تبليغ ميں مثال دينے سے استفادہ كرنا، اور لوگوں كيلئے اہم ترين مفاہيم كو محسوس شكل ميں بيان كرنا، قران ميں استعمال شدہ روشوں ميں سے ہے _واضرب لهم مثل الحياة الدنيا كمائ

۳_ آسمان ( بادل )، زمين كيلئے پانى پيداكرنے كا منبع ہے _كماء ا نزلنا ه من السمائ

۴_ بارش زمين ميں نباتات كى زندگى كے اصلى عناصر ميں سے ہے _كما ا نزلنا ه من السماء فاختلط به نبات الأرض

اگرجملہ ( فاختلط بہ ) ميں باء متعدى كى ہو توجملہ (فاختلط به نبات الارض ) مبالغہ والا معنى دے گا يعنى پانى كا كردار اتنا اہم ہے كہ كہنا چاہيے كہ زمين كى نباتات پانى سے مخلوط ہو چكى ہيں _

۵_ طبيعى اسباب و عوامل الله تعالى كے ارادہ كے تحت ہيں _كماء ا نزلنا ه من السمائ

۶_ دنيا وى زندگي، اس بارش كى مانندہے كہ جو زمين پر بہت سى نباتات كے اگنے كا باعث ہوتى ہے ليكن وہ جلد ہى خشك اور خاك ميں بدل جاتى ہے اور جب بھى ہو اچلے توبكھرجاتى ہيں _

واضرب لهم مثل الحياة الدنيا كماء ا نزلناه من السمائ هشيماً تذروه الريح

( ہشيم ) يعنى و ہ نباتات جو خشك ہو كر ٹوٹ پھوٹ جائيں اور(ذروہ) (تذروہ) كيلئے مصدر ہے يعنيبكھرنا اور پراكندہ كرنا (تذروہ الرياح ) يعنى ہوائيں انہيں بكھير ديتى ہيں _ اور جدا جدا كرديتى ہيں جملہ (فاختلط بہ نبات الارض) اگر باء استعانت كيلئے ہو تو معنى يہ ہوگا كہ بارش كى وجہ سےبناتات در ہم بر ہم ہو جاتے ہيں اور اور شاخيں باہم مخلوط ہو جاتے ہيں _

۴۲۸

۷_ بارش كے نازل ہونے سے كثرت كے ساتھ نباتات كى نشو ونما اور موسم خزاں كے آنے سے انكا جلدہى زوال، دنياوى زندگى كى ناپائيدار جہات كا نمونہ ہے _

مثل الحياة الدنيا كماء ا نزلنا من السماء فاختلط به نبا ت ال ارض فا صبح هشيماً تذروه الريح

۸_ دنيا كى زندگى كے جلدزوال پذير ہونے كى طرف توجہ، آسائش پسندو ں اور دنيا پرستوں كيلئے تنبيہ اور عبرت ہے _

واضرب لهم مثل الحياة الدنيا كما ء ا نزلنه تذروه الريح

اس آيت كا پچھلى آيات جو كہ مغرور آسائش پسندوں كى افكار اور ان كے برے انجام و بيان كرنے كے اسباب كے بارے ميں تھيں كے ساتھ ربط سے مذكورہ نكتہ واضح ہوتا ہے_

۹_ دنياوى اور مادى زندگي، ہوا كى راہ ميں پڑى خس و خاشاك كى مانند ہے_مثل الحياة الدنيا فا صبح هشيماً تذروه الريح

۱۰_كائنات ميں فكر موجودات كى زندگى كى خصوصيات كو سمجھنے كا باعث بنتى ہے _

واضرب لهم مثل الحياة الدنيا كماء ا نزلنه من السمائ

۱۱_ مادى اور محسوس جہان و عالم طبيعت ميں موجودات كے اسرا ر اور مجہول مقامات كو جاننے كيلئے علامات موجود ہيں _

مثل الحياة الدنيا كما ء ا نزلنا ه فا صبح هشيماً تذروه الريح

بعض حقائق كا درك مثلا موت ، زندگى اور انكى حقيقتچونكہ كافى حدتك انسان كيلئے محسوسات ميں سے نہيں ہے لہذا وہ انہيں سمجھنے كيلئے محتاج ہے كہ عالم محسوس سے مثاليں اسكے لئے پيشجائيں تو الله تعالى نے نباتات كے اگنے اور ختم ہونےسے عالم طبيعت كو ايسى رہنما وں پر مشتمل قرار ديا ہے _

۱۲_دنياوى زندگي، ناقابل اعتماد اور ہميشہ حادثات كے خطرے ميں ہے _كما ء ا نزلناه من السماء فا صبح

۴۲۹

هشيماتذرو ة الريح

۱۳_ ا لله تعالي، ہر چيز و كام پر لا زوال حكومت اور تسلط ركھتا ہے _وكان الله على كلّ شي مقتدرا

الله تعالى كےبارے ہيں ( مقتدر) اور (قدر) كا ايك معنى ہے (مفردات راغب)

۱۴_زمين پر زندگى كا نمودار ہونا، الله تعالى كى لا زوال قدرت كا ايك جلوہ ہے _

واضرب لهم مثل الحياة الدنيا وكان الله على كلّ شي مقتدرا

۱۵_كائنا ت ميں تغيرو تبدل اور دنيا وى زندگى كا زوال، الله تعالى كى مطلق قدرت كا ايك جلوہ ہے_

مثل الحياة الدنيا كماء ا نزلناه تذروه الريح و كان الله على كلّ شي مقتدرا

آسائش مندلوگ :آسائش مند لوگو ں كيلئے عبرت ۸

آنحضرت :انحضرت كى ذمہ دارى ۱

الله تعالى :الله تعالى كى حاكميت كى ہميشگى ۱۳; الله تعالى كى قدرت كى علامات ۱۴; الله تعالى كى قدرت كى ہميشگى ۱۳،۱۴;اللہ تعالى كے اردہ كى حكومت ۵; الله تعالى كے مختصّات ۱۳

بادل :بادلوں كا كردار ۳

بارش :بارش كے فوائد ۴،۷

پانى :پانى كے منابع ۳

حقائق :حقائق كى و ضاحت كى روش ۱

دنيا :دنيا كى خصوصيات ۷; دنيا كى ناپائيدارى ۱

دنيا پرست :دنيا پرست لوگوں كيلئے عبرت ۸

ذكر :ذكر كے آثار۸;دنياوى زندگى كى ناپائيدارى كا ذكر۸

زندگى :دنياوى زندگى كى خصوصيات ۷; دنياوى زندگى كى خلقت ۱۴;دنياوى زندگى كى ناپائيدارى ۷، ۸ ، ۱۲، ۱۵

طبيعى اسباب :طبيعى اسباب كا مسخر ہونا۵

عبرت :عبرت كے اسباب ۸

قرآن :قرآنى تعليمات كى روش ۲; قرآنى مثالوں كے فوائد ۲; قرآنى مثاليں ۶،۹

۴۳۰

قرآنى تشبيہات :محسوست كے ساتھ تشبيہ دنيا ۲

قرآنى مثاليں :خاك كے غباركے ساتھ مثال ۹;دنياوى زندگى كى مثال ۱، ۶،۹

كائنا ت :كائنات كے اسرار كو جاننے كا باعث۱۱; كائنات كے تغير و تبدل ۱۵;كائنات ميں مطالعہ كے آثار ۱۰

مثال :مثال كے فوائد ۱

موجودات :موجودات كى زندگى كو جاننے كا پيش خيمہ ۱۰

نباتات :نباتات كا پيداہونا ۷;نباتات كى خزان ۷; نباتات كے پيداہونے كے اسباب ۴

آیت ۴۶

( الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِينَةُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَالْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ خَيْرٌ عِندَ رَبِّكَ ثَوَاباً وَخَيْرٌ أَمَلاً )

مال اور اولاد زندگانى دنيا كى زينت ہيں اور باقى رہ جانے والى نيكياں پروردگار كے نزديك ثواب اور اميددونوں كے اعتبار سے بہتر ہيں (۴۶)

۱_ مال اور اولاد، دنيا كى ناپائيد زندگى كا جلوہ اور زينت ہيںالمال و البنون زينة الحياة الدنيا (بنون) اگر چہ ( ابن ) كى جمع ہے ليكن غالب طور پر مذكر و مونث ہر دو جنس كو شامل ہونگے جيسا بنى آدم اور انكى مانند كلمات سے صرف مذكر اولاد آدم مقصود نہيں ہے بلكہ تمام اولاد مراد ہے _

۲_ مال اور اولاد، دنياوى زندگى كى محكم كشش ركھنے واليچيزيں ہيں _المال و البنون زينة الحياة الدنيا

۳_اچھے كاموں كو بقا ء اور استحكام حاصل ہے _والباقيات الصالحات خير

طبعاً ( الباقيات ) كلمہ ( الصاحات ) كيلئے صفت ہو ناچاہيے كيونكہ اعمال صالحہ ايسے اعمال ہيں كہ جہنيں بقاء حاصل ہے ليكن يہاں تعبير مختلف ہے اسكى و جہ پچھلى آيات كے مطالب سے مناسبت اور دنياوى زندگى اور اسكى زينتوں كے زوال كے مدّ مقابل اعمال صالحہ كى بقاء پر اعتماد كرنا ہے_

۴_ باقى رہنے والے اعمال صالحہ، الله تعالى كے نزديك بہت اہميت كے حامل ہيں _

والباقيات الصالحات خير عند ربّك

۴۳۱

۵_ہميشہ رہے والے اعمال صالحہ كے مدّمقابل ، مال اولاد اور دنياوى زندگى كى اہميت بہت كم اور محدود ہے_

المال والبنوں زينة الحياة الدنيا والباقيات الصالحات خير

۶_ الله تعالى كى طرف سے عمل صالحہ كى جزاء كى ضمانت دى گئي ہے _والباقيات الصاحات خير عند ربّك

۷_ باقى رہنے والى معنوى اقداراور نتيجہ ميں ملنے والى الہى جزائيں ، اس لائق ہيں كہ انسان ان سے دل باندھے اور اميد ركھے _خير عند ربّك ثواباً وخير املا

۸_ نيك كردار كے مقابل الہى جزائ، اسكى ربوبيت كا ايك جلوہ ہے _والباقيت الصالحات خير عندربّك ثواب

۹_ہدايت اور تربيت كيلئے اميد اور آرزو كے انگيزہ سے فائدہ لينا، قرآنى روشوں ميں سے ايك روش ہے _

والباقيات الصالحا ت خير عند ربّك ثواباً و خير ا ملا

( ا مل ) سے مراد آرزو اور اميد ہے جبكہ (ا ملاً) خير كيلئے تميز ہے يعنى ''الباقيات الصالحات'' كے نتيجہ كے حوالے سے اميد ركھنا دنيا كى زندگى اور اسكى زينتوں سے اميد ركھنے سے بہتر ہے_

۱۰_مال اور اولاد كے بارے ميں اميدركھنا، فضول اور بے نتيجہ ہے _المال والبنوں زينة ولباقيات الصالحات خيرا ملا

۱۱_عن رسول الله (ص) (انه قال: ) يا ابن مسعود عليك بذكر الله والعمل الصالح; فانّ الله تعالى يقول : (والباقيات الصالحات خير عند ربّك ثواباً وخير املاً ) (۱)

رسول خدا(ص) سے نقل ہوا كہ آپ(ص) نے فرمايا : اے ابن مسعود تم پر ضرورى ہے ذكر خدا اور عمل صالحہ انجام دو كيونكہ الله تعالى نے فرمايا ہےوالباقيات الصالحات خير

۱۲_عن إدريس القمى قال : سا لت ا باعبدالله عن الباقيات الصالحات ؟فقال:هى الصلاة (۲) ادريس قمى كہتے ہيں كہ ميں نے امام صادق (ع) سے'' الباقيات الصالحات'' كامعنى پوچھا تو انہوں نے فرمايا: (وہ نمازہے)_

____________________

۱) مكارم الاخلاق ص۴۵۷ 'بحارالانوارج ۷۴ ص ۱۰۸ح ۱

۲)تفسير عياشى ج۲ ص۳۲۷ح۳۱ تفسير برہان ج۲ص۴۷۰ج ۴

۴۳۲

عن أبى عبدالله (أنه قال ) يا حصين لا تستصخرَنّ مودتنا فانها من الباقيات الصالحات ; امام صادق (ع) سے روايت ہوئي كہ آپ نے ''حصين بن عبدالرحمان ''سے فرمايا : اے حصين كبھى بھى ہم ( اہل بيت ) كى دوستى كو معمولى نہ سمجھ كيونكہ يہ باقيات صالحات ہے _

آرزو:آرزوكے آثار۹

اقدار۴،۵

الله تعالى :الله تعالى كى جزائيں ۶،۸;اللہ تعالى كى ربوبيت كى علاما ت ۸

اميد ركھنا :اميد كا كردار ۹;بے جااميد ركھنا ۱۰ ; فرزند پر اميد ركھنا ۱۰;مال پراميدركھنا۰ ۱;معنوى چيزوں پر اميد ركھنا ۷

اولاد:اولاد كى بے وقصتي۵; اولاد ى كشش۲; اولاد كى زينت۱

اہل بيت :اہل بيت كے ساتھ دوستى ۱۳

باقيات الصالحات :باقيات الصالحات سے مراد ۱۱،۱۲،۱۳

تربيت :تربيت كى روش ۹

جزاء:جزائكے اسباب۷;جزاء كى ضمانت۶

ذكر :الله كے ذكر كى اہميت۱۱

روايت : ۱۱،۱۲،۱۳

روش :روش كى بنياديں ۹

زندگى :دنياوى زندگى كا غير اہم ہونا ۵; دنياوى زندگى كى زينتيں ۱;دنياوى زندگى كى كشش ۲; دنيا و ى زندگى كى ناپائيدارى ۱

عمل صالح :عمل صالح كى اہميت ۱۱; عمل صالح كى جزاء ۶،۸; عمل صالح كى قدرو قيمت ۴;عمل صالح كى ہميشگى ۳

قرآن :قرآن كا ہدايت كرنا ۹

مال :مال كا غير اہم ہونا ۵;مال كى زينت ۱;مال كى كشش۲

معنويات :معنويات كى جزاء ۷;معنويات كا ہميشہ ہونا ۷

نماز :نماز كى اہميت ۱۲

۴۳۳

آیت ۴۷

( وَيَوْمَ نُسَيِّرُ الْجِبَالَ وَتَرَى الْأَرْضَ بَارِزَةً وَحَشَرْنَاهُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْهُمْ أَحَداً )

اور قيامت كا دن وہ ہوگا جب ہم پہاڑوں كو حركت ميں لائيں گے اور تم زمين كو بالكل كھلا ہوا ديكھوگے اور ہم سب كو اس طرح جمع كريں گے كہ كسى ايك كو بھى نہيں چھوڑيں گے (۴۷)

۱_دنيا كى ناپائيدار زندگى سے دل نہ باندھنے كيلئے آخرت كے مسائل كى ياد دپانى ضرورى ہيں _

المال و البنون زينة الحياة الدينا و يوم نسيّر الجبال

( يوم ) فعل مقدر (اذكر ) كا مفعول ہے يعنى اس دن كو يا د كرو كہ

۲_قيامت كے دن، پہاڑ جگہ تبديل كريں گے اور سطح زمين ہموار ہو جائيگى _ويو م نسيّر الجبال و ترى الأرض بارزة

(نسيّر) ( سير ) كے ما دہ سے ہے يعنى ہم چلا ئے گئے اور ''بارزة ''سے مرادظاہرور واضح ہونا ہے چونكہ قيامت كے دن پہاڑ اپنى جگہ سے اكھاڑ ديئےائيں گے زمين كى نا ہموارى ختم ہو جائيگى اور اسكى تمام جگہ ديكھى جائيگى اور آنكھوں كے سامنے كوئي ركارٹ نہ ہو گى _

۳_ روزقيامت اور انسان كے محشور ہونے كے وقت زمين كى زندگى كا اور جغرافيائي نظام تبديل ہو جائيگا_

و يوم نسيّر الجبال و ترى الا رض بارزة و حشرناهم

ظاہر ہے كہ پہاڑوں كے چلنے اور زمين كى سطح ہموار ہونے سے نئي حالت پيدا ہو جائے گى اور پرانى حالت ختم ہو جائيگى _

۴_روزقيامت سب انسان الله تعالى كے ارادہ سے جمع اور اكھٹے ہو نگے _و حشر نا هم

(حشر) يعنى روزقيامت لوگوں كا جمع كرنا ہے ( لسان العرب ) اور ( حشرنا ) كو ماضى ميں لانا (حشر ) كے يقينى ہونے كو بتارہاہے _

۵_ميدان قيامت ميں كسى كو پيشى سے معافى نہيں ہوگي_

و حشرنهم فلم نغادر منهم احدا

''عذر'' كا معني'' ترك كرنا ''ہے_

۶_ بغير كسى استثناء كے سب انسانوں كا محشور ہونا، مشركين اور دنيا پرستوں كو خبردار كرناہے_وحشرنهم فلم نغادر منهم احد

۴۳۴

ما قبل آيات جو كہ مشرك صفت دنيا پرستوں كے بارے ميں تھيں كو مدّ نظر ركھتے ہوئے حشر سے كسى كا استثناء نہ ہونا ان لوگوں كيلئے تصريح ہے جنہوں نے دنيا سے دل لگا پائے اور آخرت كو اہميت نہيں ديتے_

الله تعالى :الله تعالى كے ارادے كے آثار ۴

انسان :انسانوں كا حشر ۵،۶; انسانوں كے حشر كا سرچشمہ ۴

پہاڑ :پہاڑوں كا حركت كرنا ۲

حشر :حشر كا عام ہونا ۵،۶

دنيا پرست :دنيا پرستوں كو خبرداركرنا ۶

دنيا پرستى :دنيا پرستى كے ليے ركاوئيں ۱

ذكر:قيامت كے ذكر كى اہميت ۱

زمين :زمين كا ہموار ہونا ۲

قيامت :قيامت كى علامتيں ۲; ۳قيامت ميں پہاڑ ۲; قيامت ميں جمع ہونا ۴; قيامت ميں زمين ۲; ۳

مشركين :مشركين كو خبردار كيا جانا ۶

آیت ۴۸

( وَعُرِضُوا عَلَى رَبِّكَ صَفّاً لَّقَدْ جِئْتُمُونَا كَمَا خَلَقْنَاكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ بَلْ زَعَمْتُمْ أَلَّن نَّجْعَلَ لَكُم مَّوْعِداً )

اور سب تمھارے پروردگار كے سامنے صف بستہ پيش كئے جائيں گے اور ارشاد ہوگا كہ تم آج اسى طرح آئے ہوجس طرح ہم نے پہلى مرتبہ تمھيں پيدا كيا تھا ليكن تمھارا خيال تھا كہ ہم تمھارے لئے كوئي وعدہ گا نہيں قرار ديں گے (۴۸)

۱_قيامت كے دن تمام انسان_ خواہ وہ نہ بھى چاہيں _ الله تعالى كے حضو رپيش ہونگے _

وعرضوا على ربك صف

( عُرضوا) كا مجہول آنا بتاتاہے كہ انسانوں كا الله تعالى كے حضور پيشہونا ناگزير ہے اوروہ اپنا كوئي اختيار نہيں ركھتے _

۲_قيامت كے دن انسان، منظم و مرتّب صف باندھے حاضر ہونگے_و عرضواعلى ربّك صفا

كلمہ ( صفاً ) فعل (عرضو ا) كے نائب فاعل كا حال ہے (مصفوفين) يعنى انسان صف باندھے حاضر ہونگے اس سے معلوم

۴۳۵

ہوتا ہے كہ لوگوں ميں نظم اور طبقہ بندى ہوگى _ البتہ دوسرى آيات كے قرينہ سے واضح ہوتا ہے كہ ان صفوں ميں اكھٹے لوگ مخلوط نہيں ہونگے بلكہ ہر گروہ اور ہر مكتب كے پيروكا رجدا جدا شكل ميں ميدان قيامت ميں حاضر ہونگے_

۳_ روز قيامت، انسانوں كے دنيا وى مراتب اور امتيازات ختم ہوجائينگے _وعرضو ا على ربّك صفا

اگر ( صفاً) سے يہ مراد ہو كہ سب كے سب ايك صف ميں محشور ہونگے تو جملہ (عرضوا)كہ اس بات كى طرف اشارہ ہے اسكے با وجو كہ دنيا دالے مال و متاع اور دوسرے مادى دنيا كے معيارات كو امتياز سمجھا كرتے تھے ليكن اسوقت ايك صف ميں محشور ہونگے مالدار شحص اور اسكے ساتھى كى داستان والى آيات كى طرف توجہ كرنے سے يہ نكتہ بخوبى واضح ہوجاتاہے _

۴_لوگوں كا محشور ہونا اور پروردگار كے حضور پيش ہونا، ربوبيت الہى كا تقاضا ہے _و حشرنا هم و عرضواعلى ربّك صف

۵_مشرك اور دنيا پرست لوگ قيامت ميں الله تعالى كے لطف و رحمت كى نظر سے محروم ہونگے _

و عرضوا على ربّك صفا

اگر ( عرضوا) كا نائب فاعل مشرك اوردنيا پرست ہوں كہ پچھلى آيات ميں انكا تذكرہ رہا ہے تو اس فعل كا مجہول آنا اور ''ربّك '' كى جگہ'' ربّك'' كا انا جو كہ پيغمبر كو خطاب ہے ان كے حقير ہونے كو بتارہاہے _

۶_ميدان قيامت اور مشركين كے محشور ہونے كے بارے ميں الله تعالى كى خبر دينا، انكى سركشى اور دنيا پرستى كےمقابلے ميں پيغمبر(ص) كو تسلى اور حوصلہ دينا ہے_والباقيات الصالحات خير عندربّك ...وترى الارض ...على ربّك

( ربّك ) اور( ترى )ميں خطاب پيغمبر(ص) كو ہے مشركين كى قيامت سے متعلق آيات ميں اس طرح كا خطاب انكى سركشى كے مقابلے ميں پيغمبر كو ايك تسلى دينا ہے _

۷_قيامت كے ر وز انسان، زمانہ پيدائش كى مانند مال و اولااور ہر قسم كےعنوان و امتياز سےعاريپيش ہونگے _

لقد جئتمونا كما خلقنا كم ا وّل مرّة

انسانوں كے روز قيامت حاضر ہونے كو انكے زمانہ پيدائش سے مشابہ قرار دينے كى وجہ ممكن ہے يہہو كہ انكے پاس كوئي مادى وسائل نہ ہونگے اور وہ ہر قسم كے امتياز اور معيار سے خالى ہونگے _

۸_اللہ تعالى كے ہا تھوں انسانوں كى سب سے پہلى خلقت، موت كے بعد انكى دوبارہ خلقت پر الله تعالى كے قادر ہونے كى دليل ہے_لقد جئتمونا كما خلقنكم أول مرّة

۴۳۶

لوگوں كے قيامت ميں حاضر ہونے كو انكى دنياوى پيدائش سے تشبيہ دينے كى وجہ شائد معاد كو بعيد شمار كرنے كے شبہہ كو دور كرنا اور مشركين كى معاد كے انكارپرسرزنش ہويعنى وہ پہلى خلقت آيا معاد كو قبول كرنے اور اس پر الله تعالى كے قادر ہونے كيلئے كافى ووافى دليل نہيں تھى ؟

۹_ انسان كى معاد، جسمانى معاد اور اسكے دنياوى بدن والى خصوصيات ركھتى ہے _لقد جئتمونا كما خلقنكم أول مرّة

انسانوں كے روز قيامت پيش ہونے كو انكى دنيا ميں پہلى خلقت سے تشبيہ دينے كاتقاضا ہے كہ اہم خصوصيات مثلا حسبمانى ہونا ميں يہ دونوں مشابہہ ہيں _

۱۰_ قيامت سے غفلت اور اسكے بر پا نہ ہونے كا تصور، ايسى آفت ہے كہ جس نے تمام مشركوں كو اپنے گھيرے ميں ليا ہو اہے _بل زعمتم ا لن نجعل لكم موعدا

۱۱_معاد كى نفى ،محض ايك گمان ہے كہ جو علمى حيثيت اور يقين سے خالى ہے _بل زعمتم ا لن نجعل لكم موعدا

( زعم) ايسا عقيدہ يابات ہے كہ جو گمان پر قائم ہو ( مو عداً) اسم زمان ہے جو مقرر شدہ وقت كو كہتے ہيں اس آيت ميں (د وعداً) سے مراد قيامت ہے_

۱۲_معاد كے منكرين، ميدان قيامت ميں اپنے آپ كو موجود يكھ كر اپنے زعم باطل كى غلطى كو گہرائي سے درك كريں گے _بل زعمتم ا لن نجعل لكم موعد (بل زعمتم )كى تعبير در حقيقت ايسے شخص كى حالت كو بيان كررہى ہے جو اپنے يقين كے بر عكساپنے آپ كو ميدان قيامت ميں ديكھتا ہے اور اس حوالے سے شرمندہ ہے _

۱۳_دنياوى زندگى كا ايك انجام اور مقصد ہے جو آخرت ميں متحقق ہوگا _بل زعمتم ا لن نجعل لكم موعدا

۱۴_قيامت، الله تعالى كے وعدوں كے پورے ہونے كا زمانہ ہے _بل زعمتم ا لن نجعل لكم موعدا

۱۵_قيامت، الله تعالى كى قدرت اور اسكے ارادہ كے ساتھ برپا ہوگى _بل زعمتم ا لن نجعل لكم موعدا

۱۶_دنياوى زندگى سے دل باندھنے كى نسبت معاد كا انكا ر، بدتر اور شرك پيدا ہونے ميں موثر ترين كردا ر كرنے والاہے _

لقد جئتمونا كما خلقنا كم أول مرّة بل زعمتم ا لن نجعل لكم موعدا

حر ف (بل) اضراب كيلئے اور ما قبل و ما بعد كے مساوى نہ ہونے كو بتانے كيلئے آتا ہے _ تو اس مطلب ميں (كما خلقنا كم ) كى تشبيہ كى وجہ انسان كا آغاز خلقت اور معاد كے وقت مال اور

۴۳۷

اولادكانہ ہونا ہے _

آنحضرت (ص) :انحضرت(ص) كو جھٹلانے والے ۶; آنحضرت(ص) كى حوصلہ افزائي كرنا ۶

الله تعالى :الله تعالى كى اخروى رحمت سے محروم لوگ ۵; الله تعالى كى ربوبيت كے آثار ۴; الله تعالى كى قدرت كى دليليں ۸;اللہ تعالى كے ارادہ كے آثار ۱۵;اللہ تعالى كے اخروى لطف سے محروم لوگ ۵ ;اللہ تعالى كے وعدوں ۱۵; كے پورے ہونے كا زمانہ ۱۴

انسان :آغاز خلقت ميں انسان ۷; انسان كى خلقت كے آثار ۸;انسانوں كا حشر ۱،۲،۴;قيامت ميں انسان ۱،۲

حشر:حشر كا پيش خيمہ ۴; حشر كا عام ہونا ; حشر كا يقينى ہونا ۱; حشر كى خصوصيات ۲

دنيا پرست :قيامت ميں دنيا پرست ۵

دنيا پرستى :دنيا پرستى كى مذمت ۱۶

زندگى :دنياوى زندگى كا انجام ۱۳

شرك :شرك كے اسباب ۱۶

قرآن :قران كى تشبيہات ۷

قرآنى تشبيہات :آغاز خلقت سے تشبيہ ۷;ولادت سے تشبيہ ۷; معادكى تشبيہ ۷;

قيامت :قيامت سے غافل لوگ ۱۰;قيامت كى خصوصيا ت ۳;۱۴;قيامت كے برپا ہونے كا سرچشمہ ۱۵; قيامت ميں حقائق كا ظاہر ہونا ۱۲; قيامت ميں دنياوى امتيازات ۳

مشركين :مشركين كا حشر ۶;مشركين كا عقيدہ ۱۰; مشركين كى دنيا پرستى ۶; مشركين كى غفلت ۱; قيامت ميں مشركين ۵،۶

معاد :جسمانى معاد ۹;روزقيامت معاد كے جھٹلا نے والے ۱۲; معاد كو جھٹلا نے پر سرزنش ۱۶; معاد كو جھٹلا نے كا غير منطقى ہونا ۱۲;معاد كو جھٹلانے كے آثار ۱۶;معاد كى خصوصيا ت ۹; معاد كے دلائل ۸; معاد كے ردكا غير منطقى ہونا ۱۱

۴۳۸

آیت ۴۹

( وَوُضِعَ الْكِتَابُ فَتَرَى الْمُجْرِمِينَ مُشْفِقِينَ مِمَّا فِيهِ وَيَقُولُونَ يَا وَيْلَتَنَا مَالِ هَذَا الْكِتَابِ لَا يُغَادِرُ صَغِيرَةً وَلَا كَبِيرَةً إِلَّا أَحْصَاهَا وَوَجَدُوا مَا عَمِلُوا حَاضِراً وَلَا يَظْلِمُ رَبُّكَ أَحَداً )

اور جب نامہ اعمال سامنے ركھا جائے گا تو ديكھو گے كہ مجرمين اس كے مندرجات كو ديكھ كر خوفزدہ ہوں گے او ركہيں گے كہ ہائے افسوس اس كتاب نے تو چھوٹا بڑا كچھ نہيں چھوڑا ہے اور سب كو جمع كرليا ہے اور سب اپنے اعمال كو بالكل حاضر پائيں گے اور تمھارا پروردگار كسى ايك پر بھى ظلم نہيں كرتا ہے (۴۹)

۱_ روز قيامت، ہر شخص كا نامہ اعمال اسكى آنكھوں كے سامنے ركھا جائيگا اور وہ اسكا مشاہدہ كرے گا _

ووضع الكتاب ويقولون ى ويلتنا مال هذا الكتاب

بعدو الے جملات كے قرينہ كى بناء پر (الكتاب) سے مراد وہ نوشتہ ہے كہ جس ميں لوگوں كے تمام ا عمال تحرير ہوئے ہيں (وضع الكتاب ) ميں (الف و لا) كا حرف افراد كے حوالے سے عموميت پر دلالت كرتا ہے يعنى ''كل كتاب''كہ تمام كتابيں ہرہر فرد كے سامنے ركھى جائيں گى اورہر شخص اپنى اپنى كتاب كا مشاہدہ كرے گا _

۲_ تمام انسانوں كے اعمال، ايك جامع كتاب ميں درج ہوتے ہيں _

ووضع الكتاب فترى المجرمين مشفقين ممّا فيه

اگر ( الكتاب ) سے مراد كتاب كى جنس و ماہيت ہو تو ممكن ہے كہ ( وضع الكتاب ) كا جملہ دلالت كررہا ہے كہ لوگوں كے تمام تر اعمال ايك كتاب ميں درج ہونگے اور روز قيامت انكو دكھائي جائيگى مندرجہ بالا مطلب اس احتمال كى بناء پرہے _

۳_ روزقيامت گنا ہ كار، نامہ اعمال كا مشاہدہ كرتے وقت اپنے كردار سے وحشت اور خو فزدہ ہو جائينگے_

فترى المجرمين مشفقين ممّافيه

۴۳۹

۴_روز قيامت، گناہ گاروں كے چہرے پر خوف و ہراس اور وحشت واضح طور پر دكھائي دے گي_

فترى المجرمين مشفيقن ممّا فيه

''اشفاق'' ايسى توجہ كو كہتے ميں كہ جو خوف كے ساتھ ملى جلى ہو او رجب ( من) كے ساتھ متعدى ہو تو اس سے مراد واضح طور پر خوف اور وحشت ہے ( مفردات راغب) تو عبارت ( مشفقين ممّافيہ) دلالت كررہى كہ جب گناہ گار لوگ اپنے نامہ اعمال كو ديكھيں گے تو خوف و وحشت ميں مبتلا ہو جائيں گے اورفعل'' تري'' كے قرينہ سے خوف انكے چہرے پرنماياں ہوگا _

۵_دنيا كے آسائشمند او ر جرى گناہ گا ر، روز قيامت وحشت زدہ ہونگے _فترى المجرمين مشفقين ممّافيه

اس چيز پر تو جہ كرتے ہونے كہگذشتہآيات مغرور آسائش مند شخص كے بارے ميں تھيں توخوف زدہ مجرمين كا واضح مصداق ان آيات ميں مغرور دنيا پرست ہوگا _

۶_شرك، دنيا پرستى اور مال و اولاد پر مغرور ہو نا ، آخرت ميں خوف و ہرا س اور وحشت كى صورت ميں سا منے آئيگا_

فترى المجرمين مشفقين مما فيه

پچھلى آيات ، دنيا پرستي، اور شرك كے بار ے ميں تھيں لہذا گناہگاروں كا مقصود مصداق يہاں دنيا وى سہوليت ميں مست مشرك ہيں _

۷_ جرم و گناہ سے پرہيز كرنے والے روز قيا مت اپنا اعمال نامہ ديكھتے وقت كوئي خوف وہراس محسوس نہيں كريں گے _

ووضع الكتاب فترى المجرمين مشفقين مما فيه

جملہ'' وضع الكتاب ''كتاب كے ركھنے اور مشاہدہ كوصرف گناہ گاروں سے خاص نہيں كرر ہا ليكن جملہ ''فترى المجرمين'' فقط گناہ گاروں كے خوف كو بتا رہا ہے لہذا دوسرے لوگ اپنے اعمال نامہ كو ديكھتے وقت يہ اضطرابى كيفيت نہيں پائيگے_

۸_گناہ، انسان كے روز قيامت ڈرنے اور پريشان ہونے كا با عث ہے _فترى المجرمين مشفقين مما فيه

۹_ معاد پر عقيدہ نہ ركھنا، گناہ كرنے كا اہم سبب اور سب سے بڑى بنياد ہے _

وعرضوا على ربك ...و وضع الكتاب فترى المجرمين

(وضع الكتاب ) پچھلى آيت ميں ''عرضوا'' پر عطف ہے تو ان دونوں آيتوں ميں ربط بتا رہا ہے كہ يہاں گناہگاروں سے مراد وہى منكرين معاد ہيں كہ جنكا پچھلى آيت ميں تذكرہ ہوا ہے _

۴۴۰