تفسير راہنما جلد ۱۰

تفسير راہنما 0%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 945

تفسير راہنما

مؤلف: آيت الله ہاشمى رفسنجاني
زمرہ جات:

صفحے: 945
مشاہدے: 196296
ڈاؤنلوڈ: 2082


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4 جلد 5 جلد 6 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 945 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 196296 / ڈاؤنلوڈ: 2082
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد 10

مؤلف:
اردو

تھي_واتخذ سبيله فى البحر عجب

۱۱_عن أبى جعفر (ع) وابى عبدالله (ع) قال : إنه لما كان من أمر موسى الذى كان أعطى مكتل فيه حوت مملّح قيل له: هذا يدلك على صاحبك عند عين مجمع البحرين ...فانطلق الفتى يغسل الحوت فى العين فاضطرب الحوت فى يده حتّى خدشه فانفلت ونسيه الفتى (۱) امام باقر (ع) اورامام جعفرصادق (ع) سے روايت ہوئي كر جب حضرت موسى (ع) پر جو كچھ آيا گزر گيا تو انہيں ايك تھيلا ديا گيا كر اس ميں نمك لگى ايك مچھلى تھى اور اسے كہا گيا كر يہ مچھلى آپ كو دو درياوں كے ملنے كى جگہ پر ايك چشمہ كے نزديك آپ كے دوست كے حوالے سے راہنمائي كرے گى پس آپ كاہمراہى جوان، مچھلى كو اس چشمہ ميں دھونے كيلئے گيا تو مچھلى نے اسكے پاتھوں ميں حركت كى اور اسكے ہاتھوں ميں خراش وارد كى اور اسكے چنگل سے نكل گئي اور وہ جوان اس واقعہ كو بھول گيا_

بھولنا :بھولنے كے اسباب ۸

خضر(ع) :قصہ خضر(ع) ۷

روايت:شيطان كا تسلط۹;شيطان كا كردار۷;شيطان كى قدرت ۸;شيطان كے تسلط كے آثار ۶

موسى (ع) :قصہ موسى (ع) ميں مچھلى كا فرار ۲،۳،۱۰،۱۱;مجمع البحرين ميں موسى (ع) ۱;موسى (ع) كا آرام كرنا۱،۴; موسي(ع) كا قصہ ۱،۴،۷،۱۱;موسي(ع) كى خضر سے ملاقات۷;موسى (ع) كى خواہشات ۵;موسى (ع) كى غفلت ۴;موسى (ع) كے قصے ميں مچھلى كى سرنوشت ۴،۵،۶

يوشع (ع) :مجمع البحرين ميں يوشع(ع) ۱يوشع(ع) كا آرام كرنا ۱،۴; يوشع(ع) كا بھولنا ۴،۱۱;يوشع(ع) كاتعجب ۱۰;يوشع(ع) كا علم۹;يوشع (ع) كا قصہ ۱،۳،۴،۱۱;يوشع (ع) كى رائے ۶; يوشع(ع) كے بھولنے كے اسباب ۶

____________________

۱) تفسير عياشى ج۲;ص۳۲۹;ح۴۱;نورالثقلين ج۳;ص۲۷۱;ح۱۲۹_

۴۸۱

آیت ۶۴

( قَالَ ذَلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِ فَارْتَدَّا عَلَى آثَارِهِمَا قَصَصاً )

موسى نے كہا كہ پس وہى جگہ ہے جسے ہم تلاش كر رہے تھے پھر دونوں نشان قدم ديكھتے ہوئے الٹے پاؤں واپس ہوئے (۶۴)

۱_مچھلى كا واقعہ اور اسكى پانى ميں غير عاديحركت، حضرت موسى (ع) اور خضر(ع) كى ملاقات كى جگہ تھى _

قال ذلك ما كنّا نبغ

''بغى ''سے مراد، طلب ہے اور ''ذلك ماكنّا نبغ'' سے مراد، يعنى جوكچھ وقوع پذير ہواہے ہم اسكى طلب وتلاش ميں تھے يہ وہى ...علامت اور نشانى ہے حضرت موسي(ع) كے كلام كے آخر ميں كلمہ ''نبغى '' كى ''يا'' كلام كى تخفيف كى بناء پر حذف ہوگئي ہے_

۲_حضرت موسي، (ع) حضرت خضر (ع) كى جگہ كو تلاش كرنے كے حوالے سے وقوع پذير ہونے والى علامت سے پہلے ہى سے آگاہ تھے _قال ذلك ما كنّا نبغ

۳_حضرت موسي(ع) كاہم سفربا وجود اس كے كہ وہ حضرت خضر(ع) كے سلاتھ ملاقات كى جگہ كى علامات سے آگاہ نہيں تھا پھر بھى موسي(ع) كا ہمراہى اور اس مقصد كا اس مقام تك پہنچناتھا_ذلك فا كنّانبغ

۴_حضرت موسى (ع) اور انكے ہم سفر پہلے والے مقام اور مچھلى كے نكل جانے كى جگہ كو تلاش كرتے ہوئے لوٹ گئے_

فارتدّ اعلى ء اثارهما قصصا

'' إرتداد'' فعل 'إرتد ّا ''كا مصدر ہے يعنى لوٹنا اور ''قص ّا ثرہ قصصاً'' يعنى اسكے پاو ں كے نشان كو دقت سے ڈھونڈا اور ''فارتدا''سے مراد،يہ ہے كہ موسى (ع) اور انكے ہمراہى دقّت سے گزرے ہوئے راستہ سے لوٹ گئے تا كہ اسى جگہ لوٹ جائيں جہان مچھلى درياميں چلى گئي تھي_

۵_مجمع البحرين كو عبور كرنے كے بعد حضرت موسى (ع) كا آنے جانے والا راستہ ،خشكى ميں تھا_

۴۸۲

على ء اثارهم

''اثر''وہ علامت ہے جو زمين ميں پيداہوتى ہے اس علامت كے ذريعے گزرى ہوئي راہ كو ڈھو نڈا جاتا ہے_

خضر (ع) :خضر(ع) سے ملاقات كى جگہ كى علامات۱/۲;خضر(ع) كاقصہ۱،۲

موسي(ع) :موسى كاقصہ۱،۲،۳،۴،۵;موسى كالوٹنا ۴;موسى كى خضر سے ملاقات كى جگہ ۱،۲;موسى كے لوٹنے كى راہ۵;موسى كے قصہ ميں مچھلى كا فرار ۱

يوشع (ع) :يوشع كا قصہ ۴;يوشع كا لوٹنا۴;يوشع كى جہالت ۳; يوشع كى خواہشات ۳

آیت ۶۵

( فَوَجَدَا عَبْداً مِّنْ عِبَادِنَا آتَيْنَاهُ رَحْمَةً مِنْ عِندِنَا وَعَلَّمْنَاهُ مِن لَّدُنَّا عِلْماً )

تو اس جگہ پر ہمارے بندوں ميں ہے ايك ايسے بندے كو پايا جسے ہم نے اپنى طرف سے رحمت عطا كى تھى اور اپنے علم خاص ميں سے ايك خاص علم كى تعليم دى تھى (۶۵)

۱_موسى (ع) اور انكے ہم سفر نے مجمع البحرين پہنچے كے بعد حضرت خضر سے ملاقات كى _

فارتدّا على ا ثارهما قصصاًفوجدا

۲_حضرت موسى اور انكے ہمراہى كا اپنے اس پر تلاش سفر كامقصد الله تعالى كے خاص بندوں ميں سے ايك بندے كو ڈھونڈناتھا كہ جوعلم لدنى كا حامل تھا _فارتدّا ...فوجدا عبداًمن عبادنا ...وعلّمنه من لدنّا

كلمہ '' وجدا'' بتارہاہے كہ ايسى چيزى ڈھونڈى گئي ہے كہ جسكى تلاش ميں حضرت موسي(ع) اور انكے ہم سفر تھے نہ كہ ايسے ہى اتفاقاملاقات ہوئي ہے ''لدنا'' بتارہاہے كہ حضرت ''خضر(ع) '' كا علم كوئي عام سا اور معمولى علم نہيں تھا بلكہ پروردگا ر كا خاص فيض تھا _

۳_حضرت خضر(ع) الله تعالى كے خاص بندے تھے كہ جو خدا كى خصوصى رحمت اور عنايت كے حامل تھے_

ء اتيناه رحمةمن عندنا

۴_ انسان كى خدا كيلئے عبوديت، الله تعالى كى نظر ميں اسكے ليے شائستہ ترين صفت ہے _

عبداًمن عبادنا

الله تعالى نے حضرت خضر(ع) كى تمام صفات ميں سے انكى صفت عبوديت كو پہلى اور واضح ترين صفت كے طور پر تذكرہ

۴۸۳

كياہے يہ انتخاب بتاتاہے كہ يہ صفت دوسرى تمام صفات پر برترى ركھتى ہے_

۵_حضرت موسي(ع) كے زمانہ ميں دوسرے انسان بھى جيسے حضرت خضر(ع) الله تعالى كى خاص بندگى كے مقام پر فائز تھے وہ بھى ان كى طرح خاص بندگى كے حامل تھے_فوجداعبداًمن عبادنا

اگر ايسا كہا جاتا ہے كہ ''ايك عالم بندہ كو پايا'' تو جملہ مكمل تھا مگر ''من عبادنا'' كا كلام ميں آناا،س نكتہ كو واضح كر رہا ہے كہ فقط خضر(ع) ، الله تعالى كى بندگى كا مقام نہيں ركھتے تھے بلكہ انكے علاوہ اور لوگ بھى حضرت موسي(ع) كے زمانہ ميں زندگى بسر كرتے تھے كہ جو كہ الله تعالى كے خاص بندے تھے_

۶_حضرت خضر(ع) كے پاس، مقام نبوت تھا_ا تيناه رحمة من عندنا

يہ احتمال ہے كہ ''رحمة من عندنا'' سے مراد ،نبوت ہو اور ''عندنا '' ميں جمع كى ضمير كا لانا جو كہ مورد نظر رحمت ميں واسطے كا كام ديتى ہے نيز بعض دوسرى آيات ميں ''رحمت'' كانبوت پر اطلاق، اس احتمال كى تائيد كررہاہے_

۷_اللہ تعالى كى بارگاہ ميں خصوصى عبوديت اور بندگى اسكى خاص رحمت كے شامل حال ہونے كا پيش خيمہ ہے _

عبداً من عبادنإ تيناه رحمة من عندنا

۸_ حضرت خضر(ع) ، مخصوص علم اور الله تعالى كى عطا (علم لدنيّ) كے حامل تھے_و علّمناه من لدنا علما

''من لدنا'' اور'' من عندنا'' ميں معنى كے حوالے سے فرق نہيں ہے دونوں اللہ تعالى كى منشاء كے ركھنے كو بتارہے ہيں _

۹_ حضرت خضر(ع) كاعلم لدنى ان پر الله تعالى كى خاص رحمت كا نمونہ ہے_ا تيناه رحمة من عندنا و علّمنه من لدنّا علم

۱۰_اللہ تعالى كى بارگاہ ميں بندگى الہى ،علم ومعارف كے حامل ہونے كا پيش خيمہ ہے _عبداً من عبادنا ...و علّمنه من لدنا علما

۱۱_علم، انسان كيلئے انتہائي قدر و قيمتكى حامل چيز ہے_علّمنه من لدنّا علما

۱۲_نعمت و علم كى حامل اعلى شخصيات كو بھى چايئےہ الله تعالى كو اپنے تمام كمالات كا سرچشمہ سمجھيں _

ا تيناه رحمة من عندنا و علّمنه من لدناعلما

الله تعالى :الله تعالى كى رحمت كا پيش خيمہ۷;اللہ تعالى كى رحمت كى علامات ۹;اللہ تعالى كى عطائيں ۱۲

الله تعالى كے بندے :موسي(ع) كے زمانہ ميں الله تعالى كے بندے ۵

۴۸۴

خضر (ع) :خضر (ع) كا قصہ۱;خضر كے مقامات ۶;خضر (ع) كا علم لدنى ۲،-۸،۹;خضر(ع) كى عبوديت ۲،۳;خضر(ع) كى فضيلتيں ۳،۸،۹;خضر(ع) كى نبو ت ۶;خضر(ع) كى نعمات ۸;مجمع البحرين ميں خضر(ع)

خوبياں :خوبيوں كامعيار۴،۱۱//دين :دينى تعليمات كا پيش خيمہ۱۰

رحمت :رحمت كے شامل حال لوگ ۳،۹//عبوديت:عبوديت كى قدر وقيمت ۴;عبوديت كے آثار ۷،۱۰

علم :علم كاپيشخيمہ ۱۰;علم كى قدر وقيمت۱۱;علوم كى بنياد۱۲

علماء :علماء كى رائے ۱۲

موسى (ع) :مجمع البحرين ميں موسي(ع) ۱;موسي(ع) كا قصہ ۱،۲; موسي(ع) كا لو ٹنا ۱;موسى (ع) كى خضر سے ملاقات كى جگہ ۱;موسي(ع) كے سفر كے مقاصد۲

نعمت:نعمت كے شامل حال لوگ۸;نعمت كے شامل حال لوگوں كى رائے ۱۲;نعمت كا سرچشمہ ۱۲

يوشع(ع) :مجمع البحرين ميں يوشع(ع) ۱; يوشع(ع) كا قصہ ۲;يوشع(ع) كا لوٹنا۱;يوشع(ع) كى خضر سے ملاقات كى جگہ۱;يوشع(ع) كے سفر كے مقاصد ۲

آیت ۶۶

( قَالَ لَهُ مُوسَى هَلْ أَتَّبِعُكَ عَلَى أَن تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْداً )

موسى نے اس بندے سے كہا كہ كيا ميں آپ كے ساتھ رہ سكتا ہوں كہ آپ مجھے اس علم ميں سے كچھ تعليم كريں جو رہنمائي كا علم آپ كو عطا ہوا ہے (۶۶)

۱_ حضرت موسى (ع) نے حضرت خضر سے انكے ہمراہ ہونے كيلئے اجازت طلب كى _قال له موسى هل اتّبعك

۲_ حضرت موسي(ع) كا حضرت خضر(ع) كے ہمراہ ہونے كا مقصد، انكے راہنمائي دينے والے علم سے بہرہ مند ہوناتھا _

هل اتّبعك على أن تعلّمن ممّا علّمت رشدا

'' رشداً'' اگر مفعول لہ ہوتو آيت كا مطلب يوں ہو گا كہ ميں راہنمائي پانے كيلئے پيروى كرر ہاہوں اور اگر وہ مفعول بہ ہو تو ا س كا مطلب يہ ہے كہ ميں اس ليے آپ كى پيروى كرر ہاہوں كہ جوراہنمائي والى چيز ہے اسے مجھے بھى سكھا ئيں _

۳_ حضرت موسى (ع) حضرت خضر(ع) كے ''علم لدني'' كى احتياج محسوس كررہے تھے _

۴۸۵

هل اتّبعك عل أن تعلّمن ممّا علّمت رشدا

۴_ حضرت موسي(ع) نے حضرت خضر(ع) كے پاس موجود علوم سے اپنى محروميت كا اعتراف كيا اور ا ن كے علمى وعملى مقام كے مقابل، انكسارى سے كام ليا _هل اتّبعك على أن تعلّمن ممّا علّمت

پيروى كيلئے آمادہ ہونے كا اظہار، حضرت موسي(ع) كى حضرت خضر(ع) كے كردار كے در مقابل خضوع كى علامت ہے اور سيكھنے كے ليے مشتاق ہونے كا اظہار، ان كے علم كے سامنے انكسارى كى حكايت كررہا ہے _

۵_حضرت موسى (ع) ،كمال ورشد كے بلند مرتبہ پر پہنچنے كے ليے كسب علوم كے راستے كے ذريعہ كوشش كررہے تھے_

هل اتّبعك على أن تعلّمن ممّا علّمت رشدا

۶_حضرت موسي(ع) كى نگاہ ميں جناب خضر(ع) ، ايك تعليم يافتہ شخص تھے كہ جنہوں نے اپنے مخصوص علم كسب كيے ہوئے تھے_ممّا علمت

۷_حضرت خضر(ع) كى خصوصى معلومات ،الہى تعليمات سے ا خذ ہوئيں تھيں _علّمنه من لدنّاعلماً ...ممّا علّمت رشدا

۸_ حضرت موسي(ع) كى نظر ميں حضرت خضر(ع) ، كے علوم ، انكى پيروى ميں حاصل كيے جاسكتے ہيں _هل اتّبعك على أن تعلّمن

۹_ حضرت خضر (ع) كے علوم لدنى كى حدود وسيع تھيں _تعلمن ممّا علّمت ''ممّا ''ميں '' من ''كا معنى ''تبعيض'' ہے حضرت موسي(ع) اس تعبير كے ساتھ بتارہے ہيں كہ ميں ان وسيع علوم ميں كچھ سيكھنا چاہتا ہوں _

۱۰_راہ كمال كوطے كرنے اور خصوصى الہى معارف تك پہنچنے كيلئے ايك معلم اور راہنماكى احتياج ہے _هل اتّبعك على أن تعلّمن ممّا علّمت رشدا يہ كہ حضرت موسي(ع) كمال تك پہنچنے كيلئے حضرت خضر(ع) كى پيروى ضرورى سمجھتے تھے اور ان سے ملاقات كيلئے سفراور اسكى مشكلات كوبرداشت كيايہ بتاتاہے كہ وہ راہنماكى ضرورت محسوس كرتے تھے_

۱۱_حضرت موسي(ع) نے اپنے ہم سفر كو حضرت خضر(ع) كى ہمراہى اور علوم كو كسب كرنے كے ليے مجبور نہيں كياحضرت خضر(ع) كے ساتھ سفر ميں حضرت موسي(ع) كے ہمراہى كا تذكرہ نہيں ہوا ممكن ہے كہ وہ اس سفر ميں حضرت موسى سے جدا ہوگئے يايہ كر موسى (ع) اور خضر (ع) كى بلند وبالا شخصيت كى بناء پر بعد والى آيات ميں صرف ان دونوں كا ذكر ہواہے گذشتہ آيات ميں

۴۸۶

جملہ''ذلك ماكنّا نبغ'' وسرے احتمال كى تائيد كررہاہے_

۱۲_الہى علماء كے مقابل، انكسارى اور ادب كا لحاظ كرناضرورى ہونا_هل أتّبعك على أن تعلّمن ممّا علّمت رشدا

۱۳_انبياء كا علم محدود اوروسيع ہونے كى قابليت ركھتاہے_هل ا تّبعك على ان تعلّمن ممّا علّمت رشدا

۱۴_علم وكمال سے بہرہ مندہونے ميں پيغمبروں كے مختلف درجات ہيں _هل أتّبعك على أن تعلّمن ممّا علّمت رشدا

مندرجہ بالا مطلب كى بناء يہ ہے كہ خضر(ع) انبياء ميں سے ہوں _

۱۵_علم كے تمام درجات اور آخرى حدتك كمال كا حامل ہونا، نبوت كيلئے شرط نہيں ہے _

هل أتّبعك على أن تعلّمن ممّا علّمت رشدا

۱۶_با ارزش ترين علم وہ علم ہے جوانسان كے معنوى رشد وكمال كى ضمانت دے _تعلّمن ممّا علّمت رشدا

۱۷_الہى علوم، انسان كے رشد وكمال كى ضمانت ديتے ہيں _على أن تعلّمن ممّا علّمت رشدا

۱۸_ عالم كے ساتھ سفر اور علم وكمال كے كسب كرنے كى راہ ميں مصيبتوں كو برداشتكرنا،قابل قدر ہے _

لقد لقينا من سفرناهذانصباً هل اتّبعك على أن تعلّمن ممّا علّمت رشدا

۱۹_عن جعفربن محمد(ع) ان موسى لمّاكلّمه الله تكليماً ...قال فى نفسه: ''ما ا رى أنّ الله عزوجلّ خلق خلقإ علم منّى فا وحى الله عزوجل إلى جبرئيل '' ياجبرئيل ا درك عبدى موسى قبل أن يهلك وقل له: إنّ عند ملتقى البحرين رجلاً عابداًفاتبعه تعلّم منه (۱)

امام صادق (ع) سے روايت ہوئي ہے كہ جب الله تعالى نے موسى (ع) سے كلام كى توموسي(ع) نے اپنے دل ميں كہا: ''ميں نہيں سمجھتاكہ الله تعالى نے كوئي ايسى مخلوق پيداكى ہو جو مجھ سے زيادہ علم ركھے '' الله تعالى نے جبرائيل كو وحى كى : ''اس سے پہلے كہ ميرابندہ ہلاك ہواس تك پہنچو اور كہو : دو درياو ں كے ملنے كى جگہ پر ايك عبادت گزارشخص ہے اسكے ہمراہ جائو اور اس سے علم حاصل كرو''

الله تعالى :الله تعالى كى تعليمات كے آثار ۱۷

انبياء :انبياء كا علم ۱۴; انبياء كا كمال۱۴; انبياء كے درجات ۱۴;انبياء كے علم كا زيادہ ہونا ۱۳ ; انبياء كے علم كى حدود ۱۳

اہميتيں :

۴۸۷

اہميتوں كا معيار۱۶

خضر(ع) :خضر (ع) سے سيكھنا ۲; خضر(ع) سے سيكھنے كا پيش خيمہ ۸; خضر (ع) كا علم لدنى ۳،۴،۶،۷،۹; خضر (ع) كا قصہ ۱ ،۲،۳،۴،۱۱; خضر(ع) كا معلم ہونا۷;خضر(ع) كى پيروى كے آثار ۸;خضر(ع) كے فضائل ۳،۴، ۷، ۹; خضر(ع) كے علم كى وسعت۹

دين :دين سيكھنے كے شرائط۱۰

دينى علماء :دينى علماء كااحترام ۱۲;دينى علماء كى شخصيت كى اہميت۱۲;دينى علماء كے در مقابل انكسارى ۱۲

روايت:۱۹

علم:اہم ترين علم ۱۶;علم كے آثار۵،۱۵;علم كے حصول ميں مصيبتوں كے برداشت كرنے كى اہميت ۱۸

علماء :علماء كے ساتھ سفر كرنے كى اہميت۱۸

كمال :كمال كے اسباب ۱۶'۱۷; كمال كے شرائط ۱۰

معلم :معلم كا كردار۱۰

موسى (ع) :الله تعالى كا موسي(ع) سے كلام كرنا ۱۹; خضر(ع) كے ساتھ موسي(ع) كى ہمراہى ۱،۲; موسي(ع) كا اجازت لينا ۱; موسي(ع) كا اقرار ۴; موسي(ع) كا قصہ ۱،۲، ۳،۴ ،۵،۱۱;موسي(ع) كى انكساري۴; موسي(ع) كے اہداف ۲;موسي(ع) كى تعليم۱۹ ; موسي(ع) كى خضر(ع) سے ملاقات كا فلسفہ۱۹; موسي(ع) كى رائے ۶،۸ ; موسي(ع) كى كوشش۵;موسي(ع) كى معنوى ضروريات ۳; موسي(ع) كے علم كا محدود ہونا۴ ، ۱۹; موسي(ع) كے كمال كے اسباب ۵;موسي(ع) كے ہمسفر۱۱

نبوت :نبوت كے شرائط۱۵

ہدايت كرنے والے :ہدايت كرنے والوں كاكردار۱۰

____________________

۱) علل الشرائع ص۵۹ ح۱ ب۵۴ تفسير برہان ج ۲ ص۴۷۲ح ۱_

۴۸۸

آیت ۶۷

( قَالَ إِنَّكَ لَن تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْراً )

اس بندہ نے كہا كہ آپ ميرے ساتھ صبر نہ كرسكيں گے (۶۷)

۱_ حضرت خضر(ع) نے خصوصى علوم كے حصول كيلئے حضرت موسي(ع) كواپنى ہمراہى پر عاجز پايا _

هل ا تّبعك ...قال إنّك لن تستيطع معى صبرا

۲_ حضرت خضر (ع) نے حضرت موسي(ع) كو نصيحت كى كہ حوصلہ نہ ركھنے كى بناء پر انكى ہمراہى كا ارادہ ترك كرديں _

إنّك لن تستيطع معى صبرا

۳_ حضرت خضر(ع) كے كام دوسروں كيلئے يہاں تك كہ حضرت موسي(ع) جيسى ہستى كيلئے نا قابل تحمل اور مبہم تھے_

قال إنّك لن تستيطع معى صبرا

''معى '' پر تاكيدكرنا بتاتا ہے كہ فقط علوم كى تعليم مشكل پيدا نہيں كرتى تھى بلكہ خود حضر ت خضر(ع) كى ہمراہى كہ جس كا نتيجہ انكے علوم كى بناپر انكے كردار كامشاہدہ كرناتھا يہ حضرت موسى (ع) كيلئے قابل تحمل نہ تھي_

۴_ حضرت خضر (ع) پہلے سے ہى حضرت موسى (ع) كى باطنى صفات سے آگاہ تھے_قال إنّك لن تستيطع معى صبرا

حضر ت خضر(ع) كى جانب سے حضرت موسي(ع) كے تحمل نہ كرنے كى پيشگوئي دو وجود ہات ميں سے ايك وجہ ہو سكتى ہے (۱) حضرت خضر (ع) كا حضرت موسى (ع) كى فكرى اور روحى خصوصيات سے مطلع ہونا (۲) يہ كہ اصولى طور پر ايسے علوم كا تحمل كرنا حضرت خضر كے علاوہ كسى اور كيلئے ممكن نہ تھا_ مندرجہ بالا مطلب كى بناء پہلا احتمال ہے _

۵_حضرت خضر(ع) اور الله تعالى كے خاص بندوں كے علم سے ايك جرعہ لينے كيلئے بہت سے صبر اور تحمل كى ضرورت ہے _قال إنّك لن تستيطع معى صبرا

حضرت خضر(ع) كا حضرت موسي(ع) كو خبردار كرنا، در حقيقت اس نكتہ كو بيان كررہاہے كہ حضرت خضر(ع) كى ہمراہى اور اس سے علوم كا كسب بہت سے صبر كا محتاج ہے_

۶_حضرت خضر(ع) كا حضرت موسى (ع) سے بلند مرتبہ تھا_إنّك لن تستيطع معى صبرا

۷_ ايك معلم اور مربيّ كو چاہيے كہ وہ لوگوں كى استعداد وصلاحيت كو مد نظر ركھے اور نئے سيكھنے والوں كو تعليم

۴۸۹

كى دشواريوں سے آگاہ كريں _إنّك لن تستيطع معى صبرا

اسے پہلے كہ حضرت خضر(ع) ،حضرت موسي(ع) كى اپنے ساتھ ہمراہى كوقبول كريں انہيں اس راہ كى مشكلات سے آگاہ كررہے ہيں ساتھ ہى ان كے تحمل نہ كرنے پرزوردے رہے ہيں _اس آيت سے اہل علم ودانش كيلئے ايك پيغا م لياجا سكتاہے اور وہ يہ كہ طالب علم كے تحمل كو ديكھے اور اسے اس راہ كى دشواريوں سے آگاہ كرے_

استعداد :استعدادكا كردار۷

انبياء:انبياء كے درجات۶

تعليم :تعليم كى روش ۷

خضر(ع) :خضر كا علم ۴; خضر(ع) كا قصہ ۱،۲،۳،۴; خضر(ع) كى رائے ۱; خضر(ع) كى طرف سے سيكھنے كى شرائط۵ ; خضر(ع) كى نصيحتيں ۲; خضر(ع) كے درجات ۶;خضر(ع) كے عمل كا تعجب خيز ہونا ۳

علم :علم كے حصول ميں صبر كى اہميت ۵

معلم :معلم كا كردار۷

موسي(ع) :موسي(ع) كا عجزا ۱،۲،موسي(ع) كا قصہ ۱،۲،۳،۴ ; موسى كو نصحيت۲;موسي(ع) كى بے صبرى ۲;موسي(ع) كى باطنى صفات ۴;موسي(ع) كى خضر كے ساتھ ہمراہى ۱،۲; موسي(ع) كى خصوصيات ۴; موسي(ع) كے درجات ۶

آیت ۶۷

( وَكَيْفَ تَصْبِرُ عَلَى مَا لَمْ تُحِطْ بِهِ خُبْراً )

اور اس بات پر كيسے صبر كريں گے جس كى آپ كو اطلاع نہيں ہے (۶۸)

۱_ حضرت موسي(ع) ، حضرت خضر(ع) كى زندگى اور افعال ميں پوشيدہ اسرار اورانكى جھات سے زيادہ مطلع نہ تھے _

وكيف تصبر على ما لم تحط به خبرا

'' إحاطة '' فعل ''لم تحط'' كا مصدر ہے يعنى ''كسى چيز پر احاط ركھنا اور اس سے كامل طور پر

۴۹۰

واقف ہونا''موردبحث آيت ميں كلمہ '' خبراً'' جو كہ ''علماً '' كا معنى ديتاہے اور ''احاطہ '' كيلئے تميز ہے اسى سے مراد ،كامل طور علمى احاطہ ہے _

۲_حضرت خضر(ع) حضرت موسي(ع) كے اپنے كردار كى جہات سے اطلاع نہ ركھنے كو حضرت موسي(ع) كے صبر نہ كرنے كى دليل جانتے تھے_إنّك لن تستيطع ...وكيف تصبر على مالم تحط به خبرا

۳_ حضرت خضر(ع) كے افعال،حضرت موسي(ع) جيسے شخص تك كيلئے ظاہراً معمول سے ہٹ كر اور بہت مجہول پہلوؤں پر مشتمل تھے _وكيف تصبر على ما لم تحط به خبرا

۴_بہت سارے مسائل ميں انسان كا بے صبر ہونا اس كا ان اسرار اور حقيقت حال سے جاہل ہونے كى بناء پر ہے _

وكيف تصبر على ما لم تحط به خبرا

۵_علم وآگاہى صبر اورتحمل كا پيش خيمہ ہے _وكيف تصبر على ما لم تحط به خبرا

جلد بازى :جلدبازى كے اسباب ۴

جہالت :جہالت كے آثار ۴

خضر (ع) :خضر(ع) كا قصہ۲،۳;خضر(ع) كى فكر ۲;خضر(ع) كے عمل كا تعجب خيز ہونا ۳; خضر(ع) كے عمل كا راز ۱،۲

صبر:صبركا باعث۵

علم :علم كے آثار ۵

موسى :موسى كا قصہ۲،۳;وسى كے عجز كے دلائل ۲;موسى كے علم كى حدود ۱،۲

آیت ۶۹

( قَالَ سَتَجِدُنِي إِن شَاء اللَّهُ صَابِراً وَلَا أَعْصِي لَكَ أَمْراً )

موسى نے كہا كہ آپ انشاء اللہ مجھے صابر پائيں گے اور ميں آپ كے كسى حكم كى مخالفت نہ كروں گا (۶۹)

۱_ حضرت موسى (ع) نے حضرت خضر(ع) كے افعال اور جو ان سے سيكھنا تھا انكے در مقابل صبر وتحمل اختيار كرنے كا وعدہ ديا _قال ستجدنى إن شاء الله صابراً ولا أعصى لك ا مرا

جملہ ''ستجدنى ...'' (آپ مجھے صابر پائيں گے) اس سے حكايت كررہاہے كہ حضرت موسى (ع) ايسے صبركى خبر دے رہے تھے

۴۹۱

كہ جسكے آثار واضح ہونگے يہ تعبير ''سا صبر''يااس كى ما نند د وسر ے كلمات كے ساتھ مقائسہ كريں توان كى نسبت زيادہ تاكيد ليے ہوئے ہے_

۲_ حضرت موسي(ع) نے حضرت خضر(ع) كى مكمل اطاعت اور ان كے فرامين سے نافرمانى نہ كرنے پر تاكيد كى _

ستجدنى إن شاء الله صابراً ولا أعصى لك أمرا

۳_ حضر ت موسى (ع) ، حضرت خضر(ع) كو وعدہ ديتے ہوئے الله تعالى كى ياد اور كاموں ميں الہى مشيت كے كردار سے غافل نہ تھے _ستجدنى إن شاء اللّه صابرا

۴_حضرت موسى (ع) نے اپنے معلم حضرت خضر(ع) كے مقابل مكمل ادب اورمتانت كا اظہار كيا _

هل ا تّبعك ...ستجدنى ...ولا أعصي حضرت موسي(ع) كے كلام ميں ادب ومتانت كے بہت سے موارد موجود ہيں (الف) :اپنى در خواست كو استفہام سے شروع كيا(ھل ا تّبعك) (ب): حضرت خضر كے علم كے سرچشمہ كوعزت واحترام كى خاطر صيغہ مجہول كى صورت ميں ''عُلّمت ''بيان كيا(ج) :انكے علم كو كمال لانے والا جانا (رشداً)(د): ان كے كچھ علم كوچاہا (مماعملت )(ھ):صبر كاواضح طورپر وعدہ نہيں ديابلكہ ''ستجدنى إن شاء الله '' كى صورت ميں ذكر كيا اور انكى نصيحتوں كو امر كے عنوان سے ليا اور وعدہ ديا كہ انكے كسى حكم كى نافرمانى نہ كريں گے (الميزان ج۱۳)

۵_ حضرت موسي(ع) ، حضرت خضر(ع) كے علوم كے حصول كيلئے بہت مشتاق تھے_

قال ستجدنى إن شا ء الله صابراًولا أعصى لك أمرا

۶_وعدوں اور آئندہ كاموں كے انجام دينے ميں ضمانت دينے پر، ہميشہ الہى مشيت كو ياد ركھنا چاہيے_

ستجدنى إن شاء الله صابراً و لإ عصى لك أمرا

۷_صابرہونااور استاد كى اطاعت، علم سيكھنے كاادب اور شرط ہے _ولإعصى لك أمرا

۸_عن جعفر بن محمد(ع) قال موسى '' ستجدنى ان شاء الله صابراً ولإعصى لك أمراً''فلما استثنى المشيته قبله (۱) امام صادق(ع) سے روايت ہوئي ہے كہ موسي(ع) نے خضر(ع) سے كہا '' ستجدنى إن شاء الله صابراً ...'' پس چونكہ انہوں نے مشيت الہى كاذكر كيا (يعنى انشاء الله كہا) خضر(ع) نے انہيں قبول كرليا

____________________

۱)علل الشرايع ص۶ح۱ ب۵۴، نورالثقلين ج۳ص۲۸۱ج۱۵۴_

۴۹۲

اشتياق :علم حاصل كرنے كا اشتياق۵

اطاعت:خضر كى اطاعت ۲،معلم كى اطاعت ۷

خضر :خضر كا احترام۴ ، خضر كا علم ۵،خضر كا قصہ ۱،۲،۴،۵

ذكر:الہى مشيت كا ذكر۳; الہى مشيت كے ذكر كى اہميت ۶;مشيت الہى كے ذكر كرنے كے آثار ۸

ذكر كرنے والے :۳روايت:۸

علم حاصل كرنا:علم حاصل كرنے كى شرائط۷;علم حاصل كرنے كے آداب ۷; علم حاصل كرنے ميں صبر۷

معلم :معلم كا احترام۴

موسى (ع) :موسي(ع) كا ادب ۴;موسي(ع) كا اشتياق ۵; موسي(ع) كا صبر ۱،۸; موسي(ع) كا علم حاصل كرنا ۱،۵; موسي(ع) كا قصہ۱،۲،۴،۵;موسي(ع) كا معلم ۵; موسى (ع) كا وعدہ ۱،۲،۳

وعدہ:وعدہ كے آداب۶

آیت ۷۰

( قَالَ فَإِنِ اتَّبَعْتَنِي فَلَا تَسْأَلْنِي عَن شَيْءٍ حَتَّى أُحْدِثَ لَكَ مِنْهُ ذِكْراً )

اس بندہ نے كہا كہ اگر آپ كو ميرے ساتھ رہنا ہے تو بس كسى بات كے بارے ميں اس وقت تك سوال نہ كريں جب تك ميں خود اس كا ذكر نہ شروع كردوں (۷۰)

۱_حضرت خضر (ع) نے حضرت موسي(ع) كى اپنى ہمراہى كے حوالے سے در خواست پر مشروط موافقت كى _

قال فإن اتبعتنى فلاتسئلنى عن شيئ

۲_حضرت خضر(ع) كى حضرت موسي(ع) كى ہمراہى كے حوالے سے يہ شرط تھى كہ وہ انكى وضاحت دينے سے پہلے خود كسى چيز كے بارے ميں سوال نہ كريں _فلاتسئلنى عن شى حتّى ا حدث لك منه ذكرا

۳_ حضرت خضر (ع) چاہتے تھے كر حضرت موسي(ع) اسرار ورموز كو سمجھنے ميں عجلت سے كام نہ ليں اور ان پر بلا چوں چرا اپنى اتباع لازم نہيں كى _

۴۹۳

حتى ا حدث لك منه ذكرا

۴_حضرت خضر(ع) نے حضرت موسي(ع) كو آگاہ فرمايا كہ وہ جوانجام ديں گے دليل وحكمت سے خالى نہيں ہوگا_

حتى ا حدث لك منه ذكرا

۵_ حضرت خضر(ع) نے حضرت موسي(ع) كووعدہ ديا كہ آخر ميں اپنے كام كے كچھ رموز، ان پر واضح كريں گے_

ا حدث لك منه ذكرا

''منہ '' ميں ''من'' تبعيض كيلئے ہے اور يہ بتارہاہے كہ حضرت خضر(ع) نے اپنے عمل كى خصوصيات ميں سے كچھ بيان كرنے كا وعدہ دياتھا_

۶_ آگاہى كے زمينہ فراہم ہونے سے پہلے سوال كرنے ميں عجلت، علم حاصل كرنے كے آداب سے نہيں ہے _

فلا تسئلنى عن شيء حتّى ا حدث لك

خضر (ع) :خضر(ع) كے عمل كا راز بيان ہونا ۴،۵،خضر(ع) كى پيروى ۳،خضر(ع) كے تقاضے۳، خضر (ع) كى تعليمات ۴، خضر(ع) كا قصہ ۱،۲،۳،۵،خضر(ع) كے وعدے۵

سوال:سوال ميں عجلت۶

علم حاصل كرنا:علم حاصل كرنے كے آداب۶

موسي(ع) :موسي(ع) كى پيروى ۳، موسي(ع) كے تقاضے۱،موسي(ع) كاصبر ۳ ، موسي(ع) كا قصہ ۱،۲،۳،۵،موسي(ع) كو وعدہ ۵،موسي(ع) كى خضر (ع) كے ساتھ ہمراہي۱،۲

آیت ۷۱

( فَانطَلَقَا حَتَّى إِذَا رَكِبَا فِي السَّفِينَةِ خَرَقَهَا قَالَ أَخَرَقْتَهَا لِتُغْرِقَ أَهْلَهَا لَقَدْ جِئْتَ شَيْئاً إِمْراً )

پس دونوں چلے يہاں تك كہ جب كشتى ميں سوار ہوئے تو اس بندہ خدا نے اس ميں سوراخ كرديا موسى نے كہا كہ كيا آپ نے اس لئے سوراخ كيا ہے كہ سواريوں كو ڈبوديں يہ تو بڑى عجيب و غريب بات ہے (۷۱)

۱ _ حضرت موسي(ع) ،حضرت خضر(ع) كى شرط قبول كرتے ہوئے انكے ہمراہ چل پڑے _فا نطلقا حتّى إذا ركبا فى السفينة'' انطلاق '' يعنى روانہ ہونا اور چلنا'' فانطلقا '' ميں ''فاء '' دلالت كررہى ہے كر موسي(ع) نے خضر(ع) كى شرائط قبول كى اور انہوں نے موسي(ع) كو ہمراہى كى اجازت دي_

۴۹۴

۲_ حضرت موسي(ع) اورخضر(ع) اپنى ہمراہى كے پہلے مرحلے ميں ايك كشتى ميں سوار ہوئے_فانطلقا حتّى إذا ركبا فى السفينة

۳_ حضر ت موسى (ع) كے ہمسفر (يوشع(ع) ) حضرت موسى (ع) اور خضر(ع) كے سفر كے شروع ميں ہى ان سے جدا ہوگئے_فانطلقا حتّى إذا ركبافى السفينة اس آيت ميں حضرت موسي(ع) كے پہلے ہمسفر ''يوشع(ع) '' كا نام نہيں ليا گيا ممكن ہے كہا جائے كہ بعد والے سفر ميں وہ نہيں تھے اور انہيں اجازت نہيں ملى تھى'' فانطلقا '' او ر'' ركبا'' ميں تثنيہ كى ضمير اس بات پر روشن گواہ ہے _

۴_حضرت خضر(ع) نے كشتى پر سوار ہونے كے بعد اس ميں سوراخ كيا كہ كشتى والے غرق ہونے كے خطرہ ميں پڑ گئے _حتى إذا ركبا فى السفينة خرقه '' خرق '' يعنى اور سوراخ كرنا اورتوڑنا

۵_ حضرت موسي(ع) حضرت خضر(ع) كے كشتى توڑنے كے عمل پر حيران رہ گئے اور ان پر اعتراض كيا _

قال ا خر قتها لتغرق أهله

۶_ حضر ت خضر (ع) نے كشتى ميں سوراخ، دوسرے كشتى سوار لوگوں كى نگاہوں سے ہٹ كر كيا تھا_

خرقها قال ا خرقتهالتغرق أهله

واضح سى بات ہے كہ اگر لوگوں كى نگاہوں كے سامنے سوراخ ہوتاتوسب ان پر اعتراض كرتے اور انہيں ايساكرنے سے روك ديتے يہ كہ صرف موسي(ع) نے اعتراض اس سے يہمعلوم ہو اكہ يہ كام دوسروں كى نگاہوں ہے ہٹ كر تھا _

۷_ حضرت خضر كے عمل پر حضرت موسي(ع) كے اعتراض كى وجہ، كشتى والوں كا غرق ہونے كے خطرے ميں پڑنا تھا_قال ا خرقتها لتغرق اهله

۸_حضرت موسى (ع) كى نظر ميں حضرت خضر(ع) كا كشتى كو نقصان پہنچا نا، ايك غلط اورناقابل توجيہكام تھا _

لقد جئت شيئا إمرا

'' إمر '' سے مراد'' بہت برا'' او ر'''بہت عجيب '' ہے ''لسان العرب''

۹_ لوگوں كى جان كو خطرے ميں ڈالنا ،ايك مذموم او ر غلط كام ہے _أخرقتها لتغرق اهلها لقد جئت شيئا إمرا

۱۰_حضرت خضر(ع) كے ہاتھوں سوراخ ہونے والى كشتى ميں مسافر موجود تھے _ا خرقتها لتغرق اهله

۱۱_ حضرت موسى (ع) نے حضرت خضر(ع) سے بے گناہ انسانوں كو غرق كرنے جيسى غلطيوں كى نفى نہيں كى _

ا خرقتها لتغرق اهلها لقد جئت شيئاً إمرا

۴۹۵

۱۲_ لوگوں كو ضرور پہنچا نے والے مسائل سے بے اعتنائي كى اور غلط كا موں كے مقابل سكوت ، حضرت موسي(ع) كى طبيعت اور منش سے بعيد تھا_اخرقتها لتغرق اهلها لقد جئت شيئا إمرا

خضر(ع) :خضر(ع) پر اعتراض ۵; خضر(ع) پر اعتراض كا فلسفہ ۷; خضر(ع) كا سفر ۱،۲،۳;خضر(ع) كا قصد ۱،۲،۳،۴ ، ۵ ،۶ ،۷،۸،۱۰،۱۱; خضر(ع) كى عصمت ۱۱; خضر(ع) كے تقاضوں كاقبول ہونا۱;خضر(ع) كے عمل پر تعجب ۵; خضر(ع) كے عمل كاناپسند يدہ ہونا۸; خضر(ع) كے قصے ميں كشتى كے مسافر ۷،۱۰;خضر(ع) كے قصّہ ميں كشتى ميں سوراخ ۵،۶،۸;كشتى ميں خضر(ع) ۲،۴،۶

عمل :ناپسنديدہ عمل ۹

لوگ:لوگوں كوضررپہنچا نے كاناپسنديدہ ہونا۹

موسى (ع) :موسى (ع) كا اعتراض ۵; موسى كا تعجب ۵; موسى (ع) كا ذمہ دارى لينا۱۲; موسى (ع) كا سفر ۱،۲،۳; موسى (ع) كا قصہ۱،۲،۳،۴،۵،۶،۷،۸،۱۱;موسى (ع) كشتى ميں ۲ ; موسى (ع) كى خضر كے ساتھ ہمراہي۱،۲;موسى (ع) كى رائے ۸،۱۱;موسى (ع) كى سيرت ۱۲;موسى (ع) كے اعتراض كا فلسفہ ۷

نہى عن المنكر:نہى عن المنكر كى اہميت ۱۲

يوشع (ع) :يوشع(ع) اور موسى (ع) كى جدائي ۳

آیت ۷۲

( قَالَ أَلَمْ أَقُلْ إِنَّكَ لَن تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْراً )

اس بندہ خدا نے كہا كہ ميں نے نہ كہا تھا آپ ميرے ساتھ صبر نہ كرسكيں گے (۷۲)

۱_حضرت خضر(ع) نے حضرت موسى (ع) كے اعتراض كو ا ن كے صبر نہ كرنے پر اپنى پيش گوئي كے صحيح ہونے پر دليل شمار كيا اور اپنى پيش گوئي انہيں ياددلائي _قال ا لم أقل إنك لن تستطع معى صبرا

۲_ اولياء خدا اور خصوصى الہى علوم كے حامل لوگو ں سے بہرہ مند ہونے كيلئے انكى صحبت ميں صبر وتحمل ضرورى شرط ہے _ا لم أقل إنك لن تستيطع معى صبرا

۴۹۶

يہ بات مسلّم ہے كہ حضرت موسى (ع) حصول علم كى خاطر حضرت خضر(ع) كے ہمراہ ہوئے تھے اور انہو ں نے صبر اور سوال كرنے ميں عجلت نہ كرنے كو لازمى شرط قرارديا تھا اس آيت ميں دوبارہ اس ضرور ى شرط پر تاكيد كى ہے_

۳_ حضرت خضر(ع) نے حضرت موسى (ع) كو كشتى ميں عيب ڈالنے كے راز سے آگاہ نہ ہونے كى بناء پراس كام ميں ان كے خيال كوغلط قراديا_أخرقتها لتغرق اهلها ...ألم أقل إنّك لن تستيطع معى صبرا

اولياء الله :اولياء الله سے بہرہ مند ہونے كے شرائط ۲; اوليائ الله كى ہم نشينى كے آداب ۲;اولياء الله كى ہم نشينى ميں صبر۲

خضر(ع) :خضر(ع) كا قصّہ ۱،۳;خضر(ع) كى پيش گوئي ۱; خضر(ع) كے قصّہ ميں كشتى ميں سوراخ۳

علماء :علماء سے بہرہ مند ہونے كے شرائط ۲;علماء كے ساتھ ہم نشينى كے آداب ۲; علماء كے ساتھ ہم نشينى ميں صبر۲

موسي(ع) :موسى (ع) كااعتراض ۱;موسى (ع) كا قصہ۱،۳; موسى (ع) كى بے صبرى ۱; موسى (ع) كى غلطى كرنا۳;موسى (ع) كے علم كامحدودہونا۳

آیت ۷۳

( قَالَ لَا تُؤَاخِذْنِي بِمَا نَسِيتُ وَلَا تُرْهِقْنِي مِنْ أَمْرِي عُسْراً )

موسى نے كہا كہ خير جو فروگذاشت ہوگئي اس كا مواخذہ نہ كريں اور معاملات ميں اتنى سختى سے كام نہ ليں (۷۳)

۱_ حضرت موسى (ع) اپنى بے صبرى كے حوالے سے حضرت خضر(ع) كى بات يادآنے پر،اپنے اعتراض كى غلطى سمجھ گئے_قال لا تؤاخذنى بما نسيت

۲_ حضر ت موسى (ع) نے حضرت خضر(ع) كى ہمراہى كى شرط كى پابند ى نہ كرنے اور ان پرغلط اعتراض كرنے كى بناء پر اپنے آپ كو گرفت كے لائق سمجھا اور حضرت خضر(ع) سے تقاضا كيا كہ وہ چشم پوشى فرمائيں _

قال لا تؤاخذنى بما نسيت

۳_ حضرت موسى (ع) نے حضرت خضر(ع) سے كيے ہوئے اپنے عہد سے رو گرداني، بھولنے كى وجہ سے كى _

قال لا تؤاخدنى بما نسيت

۴_ بھول چوك ايك قابل قبول عذر ہے_لا تؤاخذنى بما نسيت

۴۹۷

۵_اولياء الله اور كا مل ترين انسان، بھولنے كى صورت ميں بھى اپنى خطاء پر بھى خود كو گرفت ومواخذہ كا مستحق سمجھتے ہيں _لا تؤاخذنى بما نسيت

حضرت موسى (ع) كى حضرت خضر(ع) سے گرفت نہ كرنے كى درخواست بتارہى ہے كہ بھولنے كى صورت ميں بھى خطاء قابل گرفت ہے _

۶_نبوت كى حدود سے ہٹ كر ذاتى امور ميں انبياء پر بھول چوك كا عارض ہونا، ممكن ہے _

قال لا تؤاخذنى بما نسيت

۷_ حضرت موسى (ع) نے اپنى بھول اور عہد كى پابندى نہ كرنے كى بناء پر حضرت خضر(ع) سے در گزر كرنے اور سختى نہ كرنے كا تقاضا كيا _قال لا تؤاخذنى بما نسيت ولا ترهقنى من أمرى عسرا

''ارہاق'' سے مراد'' كسى كو سخت كام پر لگانا '' (قاموس) ''لا ترہقنى ''كا مطلب يہ ہے كہ دشوار كام ( مثلاجدا ہونا اور ہمراہى كى اجازت ختم كرنا ) مجھ سے نہ ليں اور مجھے زحمت ميں نہ ڈاليں يہ ذكر كرنا ضرورى ہے كہ ''عسراً''لا ترہقنى كا دوسرا مفعول ہے _

۸_حضرت خضر(ع) سے جدائي اور ان كے علوم كے حصول سے محروم رہ جانا حضرت موسى (ع) كے ليے ايك دشوار كام تھا _لاتؤاخذنى بما نسيت ولا ترهقنى من أمرى عسرا

''من أمري'' ميں امر سے مراد حضرت خضر كى اتباع اور ان سے علم كا حصول ہے _آيت كے اس حصہ سے مراد يہ ہے كہ ہمراہى كى اجازت ختم كرتے ہوئے مجھے ميرے كام اور مقصد ميں مشكل اور زحمت ميں نہ ڈاليں _

۹_حضرت موسى (ع) ،حضرت خضر(ع) كى ہمراہى پر بہت اصرار كيے ہوئے تھے _

لا تؤاخذنى ...ولا تر هقنى من أمرى عسرا

انبياء :انبياء كى عصمت ۶;انبياء كے بھولنے كى حدود ۶

انسان :انسان كامل، كى نظر ۵

اولياء الله :اوليا ء الله كا بھولنا ۵; اولياء الله كى خطا ء كے آثار ۵;اولياء الله كى گرفت كے اسباب ۵; اولياء الله كى نظر ۵

بھولنا :

۴۹۸

بھولنے كا عذر ۴

خضر :خضر سے معذرت خواہى ۲،۷;خضر كا قصہ ۱،۲ ،۳ ،۷

خود :خود پر سرزنش ۵

عذر :قابل قبول عذر ۴

موسى (ع) :موسى (ع) كا اعتراض رد ہونا ۱; موسى (ع) كا بھولنا ۷; موسى (ع) كا علم حاصل كرنا ۸; موسى (ع) كا عہد اورخضر (ع) ۳;موسى (ع) كا قصہ ۱،۲،۳،۷; موسى (ع) كى بے صبرى ۱; موسى (ع) كى خضر(ع) سے جدائي ۸;موسى (ع) كى خضر(ع) كے ساتھ ہمراہى ۹;موسى (ع) كى عہد شكنى ۲، ۳;موسى (ع) كى فراموشى كے آثار ۳;موسى (ع) كى مشكلات ۸;موسى (ع) كى معذرت طلبي۲،۷ موسى (ع) كے تقاضے ۹

آیت ۷۴

( فَانطَلَقَا حَتَّى إِذَا لَقِيَا غُلَاماً فَقَتَلَهُ قَالَ أَقَتَلْتَ نَفْساً زَكِيَّةً بِغَيْرِ نَفْسٍ لَّقَدْ جِئْتَ شَيْئاً نُّكْراً )

پھر دونوں آگے بڑھے يہاں تك كہ ايك نوجوان نظر آيا اور اس بندہ خدا نے اسے قتل كرديا موسى نے كہا كہ كيا آپ نے ايك پاكيزہ نفس كو بغير كسى نفس كے قتل كرديا ہے يہ تو بڑى عجيب سى بات ہے (۷۴)

۱_حضرت خضر(ع) نے حضرت موسى (ع) كى معذرت كو قبول كيا اور انہيں اپنى ہمراہى كى اجازت دى _فانطلق

''فانطلقا'' ميں ''فائ'' فصيحہ ہے جو كہ كچھ جملات كے حذف ہونے كو بيان كررہى ہے مشلاً يہ كہ خضر(ع) نے موسى (ع) كى معذرت كو قبول كيا اوراسے اپنى ہمراہى كى اجازت دى وہ دونوں كشتى سے اتر گئے اور چل پڑے _

۲_ حضرت موسى (ع) اور خضر(ع) كشتى كے واقعہ كے بعد اس سے اتر گئے اور خشكى والى جگہ پر انہوں نے ايك نوجوان سے ملاقات كى _فانطلقا حتّى إذا لقيا غلام

''غلام''يعنى وہ كہ جسكى مونچھيں تازہ ہى نكلى ہوں (معجم مقاييس اللغة)

۳_ خطا كا ر لوگوں كى معذرت قبول كرنا اور انكى معافى اور در گزر كرنے كى درخواست قبول كرنا ، اولياء الله كى صفات ميں سے ہے _لا تؤاخذنى بما نسيت ...فانطلقا

۴_ حضرت خضر(ع) نے نوجوان كو ديكھتے ہى اسے قتل كرديا_حتى إذا لقيا علماً فقتله

۴۹۹

''فقتله'' ميں ''فاء ''پر عطف سے ظاہر يہ ہے كہ حضرت خضر نے بغير كسى تمہيد و مقدّمے كے نوجوان سے ملتے ہى اسے قتل كرديا _

۵_ حضرت موسى (ع) نے اس مقتول نوجوان كوبے گناہ جانا اور خضرسے اسكے قتل كرنے پر شديد اعتراض كيا _قال أقتلت نفساً زكية بغير نفس لقد جئت شيئا ً نكرا ''زكوة'' سے مراد طہارة اور '' صلاحيت ' ' نمو ، بركت اور مدح ہے ( لسان العرب) آيت ميں ''زكيہ '' سے مراد، نوجوان كے گناہ سے طاہر اور پاك ہونے كى توصيف كرنا ہے _

۶_جرم كے ثابت ہونے سے پہلے، قانون يہ ہے كہ مجرم نہيں ہے _ا قتلت نفساً زكية بغير نفس

موسى (ع) نے مقتول نوجوان كو پاك و پاكيزہ سمجھا_ يہ كہ حضر ت موسى (ع) كو كہا ں سے معلوم تھا كہ اس نوجوان نے كسى كو قتل نہيں كيا ہے كہ اس سے قصاص ليا جائے دو احتمال ہيں (۱) جرم ثابت ہونے سے پہلے قانون برائت ہے _(۲) حقيقت سے غيبى علم كے ذريعہ مطلع ہونا _مندرجہ بالا مطلب پہلے احتمال كى بناء پر ہے _

۷_حضرت موسى (ع) بعض، پوشيدہ امور سے آگاہ تھے _ا قتلت نفساً زكية بغير نفس

حضرت موسى (ع) كا مقتول نوجوان كے قاتل نہ ہونے سے آگاہى ممكن ہے انكے غيبى علوم كى بناء پر ہو_

۸_حضرت موسي(ع)، غلط اورخلاف شرع افعال كے حوالے سے شديد حساس تھے _قال ا قتلت نفساً زكيةبغير نفس

پہلے سے وعد ہ اور عہد كے باوجود، حضرت موسى (ع) (ع) كا حضرت خضر(ع) پر اعتراض بتارہا ہے كہ ان چيزوں كے حوالے سے حضرت موسي(ع) اس قدر حساس تھے كہ ان كى وجہ سے ياتو اپنا وعدہ اور عہد بھول گئے يا اسے نظر انداز كرديا تھا _

۹_ قاتل سے قصاص لينا اوراسے قتل كے جرم ميں قتل كرنا، حضرت موسي(ع) كى شريعت ميں جائز تھا_

ا قتلت نفساً زكية بغير نفس

''بغير نفس '' كے مفہوم سے معلوم ہوتا ہے كہ اگر كسى كو قصاص كى بناء پر قتل كيا جائے تو حضرت موسى (ع) كى نگاہ ميں قابل قبول تھا اور وہ اس صورت ميں حضرت خضر(ع) پر اعتراض نہ كرتے_

۱۰_بے گناہ شخص كو قتل كرنا، برا اور غلط كام ہے''لَقَد جئت شياً نكراً''

''نكراً'' صفت مشبہ ہے اور ''منكر '' كا معنى ديتى ہے يعنى قبيح ،ناپسنديدہ اور غلط كام _

۱۱_عن أبى عبداللّه(ع) ...بينما العالم يمشى مع موسى (ع) إذا هم بغلام يلعب قال

۵۰۰