تفسير راہنما جلد ۱۰

تفسير راہنما 0%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 945

تفسير راہنما

مؤلف: آيت الله ہاشمى رفسنجاني
زمرہ جات:

صفحے: 945
مشاہدے: 196031
ڈاؤنلوڈ: 2081


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4 جلد 5 جلد 6 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 945 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 196031 / ڈاؤنلوڈ: 2081
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد 10

مؤلف:
اردو

جملہ''قال كذلك '' يعنى ''قال الله إلامر كما وعدتك'' يا پھر''قال الله الامر كما قلت '' ہے پہلى صورت ميں خداوند عالم اپنے گذشتہ وعدہ كى تاكيد كررہاہے كہ'' اى ذكريا جيسا كے ميں نے كہا ہے ہر صورت ميں تيرے ہاں بيٹے كى ولادت ہوكر رہے گى اور دوسرى صورت ميں خدا ند عالم نے حضرت يحيي(ع) كى ولادت كى ولادت كے موانع كى تصديق كى ہے يعنى حقيقت حال اسى طرح ہے جيسا كہ تو نے كہا ہے يعنى يحيى كى ولادت كے عادى اسباب موجود نہيں ليكن تيرے پروردگار نے كہاہے كہ يہ كام ميرے ليے آسا ن ہے_

۲_ بوڑھے باپ اور بانجھ ماں سے بچے كو پيدا كرنا، خداوند كريم كے ليے انتہائي آسان كام ہے_قال ربك هو عليّ هيّن

۳_ طبعى قوانين اور عادى اسباب، خداوند عالم كى قدرت اور ارادہ كو محدود نہيں كرتے_قال كذلك قال ربك هو على هيّن

۴_ دنياوى حوادث ميں طبعى اسباب ، علت تامہ كى حيثيت نہيں ركھتے_قال كذلك قال ربك هو على هيّن

۵_ طبعى اسباب اور عوامل كو مدنظر ركھنا،خداوندعالم كے ارادہ و تقاضا كے ليے حجاب ہے_أنى يكون غلام هو على هيّن

۶_حضرت يحيى (ع) كى ولادت ايك معجزانہ اور غير معمولى بات تھي_قال كذلك قال ربك هو على هيّن

۷_حضرت زكريا (ع) كى خداوند عالم كى ربوبيت كى طرف توجہ كرنے سے انہيں يہ اطمينان حاصل ہوگيا كہ خداوند عالم كے ارادہ اور تقاضا سے ان كى بانجھ بيوى كے ہاں بچے كى ولادت ہوسكتى ہے_قال ربك هو على هيّن جملہ'' ہو عى ہين'' قال رب كے بغير بھى مكمل طور پر معنى دے رہاہے ليكن اس جملہ كا مزيد اضافہ ہوجانا اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ يہ كسى معمولى انسان كا كلام نہيں ہے كہ اس كے بارے ميں غور و فكر كرنا شروع كرديں بلكہ يہ تيرے پروردگار كا فرمان ہے جس سے تجھے اس وقت خلق كيا ہے جس وقت تو كچھ بھى نہ تھا وہ اس وقت تجھے اور مدد عطاكرنے كى بھى صلاحيت ركھتاہے_

۸_حضرت زكريا (ع) كے ساتھ خداوند عالم كى گفتگو واسطہ كے ذريعے تھى اور براہ راست نہيں تھى _قال كذلك قال ربك هو على هيّن بعض نے كہا ہے كہ ''قال كذلك '' كا فاعل فرشتہ الہى ہے اور اسم ظاہر ''ربك'' كے آنے سے يہ نظريہ سامنے آيا ہے_

۹_خداوند عالم نے حضرت زكريا (ع) كو ان كى اپنى پيدائش كى طرف متوجہ كركے انہيں يہ بتاياہے كہ ان كے اور ان كے بانجھ زوجہ كے ہاں يحيى (ع) كى پيدائش كے سلسلہ ميں مطمئن ہوجائيں _

۶۰۱

هو على هيّن و قد خلقتك من قبل و لم تك شيئا

۱۰_اس بزم ہستى ميں انسان كى پيدائش ، خداوند عالم كے ارادہ سے ہوتى ہے اور وہ پيدائش سے قبل كچھ بھى نہيں ہوتا_

و قد خلقتك من قبل و لم تك شيئا

۱۱_ انسان كى پيدائش خداوند عالم كى قدرت كا ايك كرشمہ ہے_و قد خلقتك من قبل و لم تك شيئا

۱۲_انسان كى پيدائش ميں غور و فكر كرنے سے خداوند عالم كى طبعى اسباب و عوامل پر حاكميت و ارادہ قدرت كے تمام شكوك و شبہات ختم ہوجاتے ہيں _هو على هيّن و قد خلقتك من قبل و لم تك شيئا

۱۳_ خداوند عالم كى جانب سے معدوم مطلق كو خلقت كوجود عطا كرنا اسبات كى علامت ہے كے اس كى قدرت طبعى عوامل و اسباب ميں ہى منحصر نہيں ہے_هو على هيّن و قد خلقتك من قبل و لم تك شيئا

'' لم تك شيئاً'' سے مراد، معدوم مطلق ہے اور اس كى حضرت زكريا (ع) پر تطبيق كرنا كہ جن كى پيدائش حضرت آدم (ع) كى پيدائش پر منتہى ہوتى ہے جو خاك سے معرض وجود ميں آتے ہيں يہ زمانہ كے اعتبار سے ہے يعنى پہلى مخلوق عدم سے وجود ميں آئي ہے_

۱۶_جتنے انسان بھى روئے زمين پر پيدا ہوتے ہيں انہيں گذشتہ زمانے ميں پيدا كيا گيا ہے_و قد خلقتك من قبل و لم تكن شيئ جملہ حاليہ'' و لم تك شيئاً'' ممكن ہے زمانے كى طرف ناظر ہو يعنى انسان پيدا نہيں ہوتے تھے اس صورت ميں جملہ '' خلقتك من قبل'' كا اشارہ عالم زر كى طرف ہوگا يعنى ہم نے آپ كو گذشتہ دور ميں كسى بھى عادى سبب كے خلق كيا ہے_ اب كس طرح حضرت يحيى كى بوڑھے باپ اور بانجھ ماں سے پيدائش ميں شك كررہے ہو_

انسان:_كى خلقت ۱۱; _ كى خلقت كا سرچشمہ ۱۰

بشارت:حضرت يحيي(ع) كى ولادت كى ۱

پيري:_ ميں صاحب اولاد ہونا ۲

تذكر:حضرت زكريا (ع) كى خلقت كا _۹

تفكر:خلقت انسان ميں _ كے آثار ۱۲

خدا:_ كے ارادہ كے آثار ۷; _ كى مشيت كے آثار ۷; _ كا ارادہ مطلق ۳; _ كى بشارتيں ۱; _ كے تذكرات ۹; _ كے ارادہ كى حاكميت ۱۲; _ كى مشيت كى

۶۰۲

حاكميت ۱۲; _ كى قدرت ۲; _ كى قدرت مطلق ۳; _ كى قدرت كى علامات ۱۱; _ كى مطلق قدرت كى علامات ۱۳

ذكر:ربوبيت خدا كے آثار كا _۷; ارادہ خدا كے موانع ۷

زكريا(ع) :_ كا اطمينان ۱،۹; _ كى زوجہ كا حاصلہ ہونا ۷،۹; _ كو بشارت ۱; _ كو تذكر۹;_ كے اطمينان كے اسباب ۷; _ كى خداوند عالم كے ساتھ گفتگو كى خصوصيات ۸

شبہات:رفع شبہات كے اسباب ۱۲

عالم ذرّ:_ ميں خلقت ۱۴

عوامل طبيعي:_ كا كردار ۳،۴،۵،۱۲،۱۳

نظام عليت:۴،۱۳

يحيى (ع) :_ كى ولادت كا معجزہ۶

آیت ۱۰

( قَالَ رَبِّ اجْعَل لِّي آيَةً قَالَ آيَتُكَ أَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلَاثَ لَيَالٍ سَوِيّاً )

انھوں نے كہا كہ پروردگار اس ولادت كى كوئي علامت قرار ديدے ارشاد ہوا كہ تمھارى نشانى يہ ہے كہ تم تين دنوں تك برابر لوگوں سے كلام نہيں كروگے (۱۰)

۱_ حضرت زكريا (ع) نے خداوند عالم سے علامات اور نشانياں اس ليے طلب كى ہيں تا كہ بچہ دار ہونے كے ليے وہ اور ان كى زوجہ اس وقت ميں مناسب طور پر آمادہ ہوسكيں _قال رب اجعل لى ء اية

حضرت زكريا (ع) نے خداوند متعال سے جو نشانى طلب كى ہے اس ميں تين احتمالات پائے جاتے ہيں ۱) يا تو خداوند عالم كى بشارت ميں شك ركھتے تھے اور اس كو دور كرنا چاہتے تھے ۲) زوجہ كے ساتھ ہمبسترى كے ليے آداب كو ملحوظ خاطر ركھنا چاہتے تھے۳) خداوند عالم كا شكريہ بجالانا چاہتے تھے آيت ميں احتمال سوم پر كسى قسم كى كوئي دليل موجود نہيں ہے اور بعض علما نے احتمال اول كو بھى رد كيا ہے كيوں كے انبياء كرام (ع) كسى قسم كا شك نہيں ركھتے لہذا انہوں نے دوسرے احتمال كو صحيح جاتاہے_ مندرجہ بالا معنى بھى اسى احتمال كى بناء پر ہے_

۲_ حضرت زكريا (ع) نے خداوند متعال سے علامات اور نشانياں اس ليے طلب كى ہے تا كہ يقين حاصل كريں كہ حضرت يحيى (ع) كى بشارت خداوند عالم كى جانب سے ہے_قال رب اجعل لى ء اية

۶۰۳

حضرت زكريا (ع) كى جانب سے خداوند متعال سے علامت طلب كرنا ممكن ہے اس وجہ سے ہو كہ وہ اطمينان حاصل كرنا چاہتے تھے كہ جو كچھ انہوں نے دريافت كياہے وہ وحى الہى ہے نہ كہ شيطانى وسوسہ ہے اس جيسے امور ميں انبياء كرام (ع) كا شك كرنے كا امكان اس وجہ سے ہے كہ كيوں كے وہ صرف خداوند عالم كى ہے امداد سے شيطان سے محفوظ رہتے ہيں اور خداوند كريم بھى كبھى انہيں علامات و نشانياں دكھا كر اور كبھى كسى دوسرے طريقہ سے مطمئن كرتاہے_

۳_ خداوند عالم سے زيادہ اطمينان كى خاطر علامت يا نشانى طلب كرنا، شان رسالت كے ساتھ متصادم نہيں ہے_

قال رب اجعل ليء اية قال ء ايتك الاتكلم الناس

۴_حضرت زكريا (ع) نے دعا كرتے وقت ربوبيت الہى كو مدنظر ركھاہے_قال رب

۵_ حضرت زكريا (ع) كى جانب سے تين دن تك لوگوں كے ساتھ گفتگو نہ كرنا، خداوند عالم كى طرف سے اولاد كے پيدا ہونے كى بشارت كى علامت تھي_قال اء يتك ا لا تكلم الناس ثلاث ليال سويا

كلمہ ''سويّا'' يا تو '' ثلاث ليالي'' كے ليے صفت ہے يا پھر'' ألا تكلم الناس'' كے ليے حال ہے دونوں صورتوں ميں اس سے مراد تين دن اور تين راتيں ہيں اور اس بات كى دليل سورة آل عمران كى آيت نمبر ۴۰ بھى ہے_ فعل '' ألاّ تكلم'' فعل نفى ہے اور اس سے مراد يہ نہيں ہے كہ حضرت زكريا (ع) كى شرعى ذمہ دارى سكوت تھا_ بلكہ يہ اس بات كى خبر دے رہاہے كہ حضرت زكريا (ع) نے تين دن تك سكوت اختيار كيا ہے_

۶_ جس وقت حضرت زكريا (ع) لوگوں كے ساتھ گفتگو پر توانائي نہيں ركھتے تھے اس وقت وہ خداوند متعال كى عبادت و نيايش ميں مشغول رہتے تھے_ألا تكلم الناس ثلاث ليال سويّا

كلمہ '' الناس'' يہ بتارہاہے كہ حضرت زكريا (ع) صرف لوگوں كے ساتھ گفتگو كرنے ميں توانائي نہيں ركھتے تھے نہ كہ اصلاً گفتگو ہى نہيں كرسكتے تھے (يعنى عبادت و ذكر الہى كرسكتے تھے)

۷_ حضرت زكريا (ع) كى طرف سے لوگوں كے ساتھ گفتگو كى توانائي نہ ركھنا خداوند عالم كى طرف سے معجزہ تھا نہ يہ كہ وہ كوئي زبانى يا جسمانى نقص ركھتے تھے_قال اء يتك الا تكلم الناس ثلاث ليال سويا '' سوّي'' اس شخص كو كہاجاتاہے جو اخلاق اور خلقت كے لحاظ سے حداعتدال ميں ہو يعنى نہ تو اس ميں كسى چيز كى كمى ہو اور نہ ہى كسى چيز كى زيادتى ہو (مفردات راغب)

۶۰۴

اس مبنا كى بنياد پر '' سويّا'' ''تكلم'' فعل كے فاعل جو حضرت زكريا (ع) ہيں كے ليے حال ہے تو پھر آيت مباركہ كا معنى كچھ يوں ہوگا كہ تو در حالانكہ صحيح و سالم ہے پھر بھى لوگوں كے ساتھ تين دن تك گفتگو كرنے پر قادر نہيں ہے_

۸_اولاد كے ليے ا نعقاد نطفہ كرتے وقت باپ كے ليے ضرورى ہے كہ وہ تزكيہ نفس بھى كيے ہوئے ہو اور روحانى و نفسانى لحاظ سے بعى اعلى منزل پر فائز ہو_قال رب اجعل لى ء اية قال ء اتيك ألا تكلم الناس ثلاث ليال سويا

حضرت زكريا (ع) نے جو نشانياں طلب كى ہيں اگر وہ انعقاد نطفہ كے زمانہ وقت كو مشخص كرنے كے ليے تھيں تو پھر ان نشانيوں كى خاص اہميت ہے اور آپ(ع) چاہتے تھے كہ خاص مسائل كو ملحوظ خاطر ركھيں اور آداب و احترام كا خيال ركھيں اور انعقاد نطفہ كے ليے نفسانى و روحانى لحاظ سے اعلى مقام پر فائز ہوں _

۹_ حضرت زكريا (ع) نے خداوند متعال كے ساتھ گفتگو كى ہے_قال رب قال ء ايتك

۱۰_ گذشتہ اديان ميں سكوت كے روزہ كا موجود ہونا_قال ء ايتك ألا تكلم الناس ثلاث ليال

'' ألا تكلم الناس'' فعل نفى ہے بعض مفسرين نے احتمال ديا ہے كہ تكلم كى نفي، جزاكے مقام انشاء پر ہے اور تكلم و گفتگو كو ترك كرنے خداوند متعال كى طرف سے حضرت زكريا (ع) كے ليے ايك اختيارى فعل اور شرعى ذمہ دارى تھى جو روزہ ركھناہے سے كنايہ ہے_ اور اس زمانہ ميں روزہ كے صحيح ہونے كى ايك شرط سكوت تھا_

۱۱_ انبياء كرام (ع) كے ليے بھى حقائق كو روشن كرنے كے ليے معجزہ سے كام ليا جانا_ء ايتك ألا تكلم الناس ثلاث ليال

۱۲_ لوگوں كے ساتھ گفتگو قطع كرنے سے فكرى باليدگى اور جنسى طاقت ميں اضافہ ہوتاہے_ا لا تكلم الناس ثلاث ليال

حضرت زكريا (ع) نے جو نشانياں طلب كى ہيں ان كا حضرت يحيى (ع) كے انعقاد نطفہ كے ساتھ تعلق ہے كيوں كہ حضرت زكريا (ع) كو بڑھاپے كى وجہ سے ايسے كام پر قادر نہ تھے اور تين دن تك سكوت اختيار كرنا ممكن ہے فكرى باليدگى اور جنسى طاقت كو بڑھانے كى خاطر ہو _ تا كہ انعقاد نطفہ ہوسكے _

۱۳_ خداوند عالم كا ارادہ، طبعى اسباب و عوامل پرحاكم ہے_قال رب اجعل ...اء ايتك ا لا تكلم الناس ثلاث ليال

۱۴_ حضرت زكريا (ع) كى داستان ميں ايك معجزہ كو دوسرے معجزہ كے ذريعہ ثابت كيا گيا ہے_

ء ايتك ألا تكلم الناس ثلاث ليال

۶۰۵

حضرت زكريا (ع) كا تين دن تك سكوت خود معجزہ ہے جو حضرت يحيى (ع) كى ولادت كو ثابت كررہاہے وہ بھى معجزہ ہے_

آيات خدا:_كى درخواست ۱،۲،۳

اطمينان:_ كے اسباب ۳

اعداد:تين كا عدد

الله تعالي:_ كے ارادہ كى حاكميت ۱۳

انسان :_ كى خلقت كے مراحل ۸

باپ:_ كے تزكيہ كے آثار ۸

بشارت:حضرت يحيي(ع) كى ولادت كي_ ۲

حقائق:_ كو بيان كرنے كے ا سباب ۱۱

دعا:_كے آداب ۴

ذكر:_ربوبيت خدا كا ۴

روزہ:آسمانى اديان ميں سكوت كا ۱۰

ذكريا (ع) :_ كے قصہ كا معجزہ ہونا ۱۴; _ كى زوجہ كا حاملہ ہونا ۱; _ كو بشارت ۵; _ كے تقاضے ۱،۲; _ كى دعا ۴; _ كا تكلم پر قادر ہونے ميں حيرانگى ۷;_كى عبادات ۶; _ كا گفتگو كرنے سے عاجز ہونا ۵،۶; _ كا قصہ ۱،۵،۶; _كى خداوند متعال كے ساتھ گفتگو ۹; _ كے قصہ كى خصوصيات ۱۴

عزلت:_ كے آثار ۱۲

عوامل طبيعي:_ كا كردار ۱۳

غريزہ جنسي:_ كے قوى كرنے كى راہ ہموار كرنا ۱۲

فكر:_ كو تمركز كے اسباب ۱۲

معجزہ:_ كا كردار ۱۱،۱۴

نبوت:مقام _ اور خداوند عالم كى نشانياں ۳

۶۰۶

نطفہ:_ كے انعقاد كى اہميت ۸

يحيى (ع) :_ كى ولادت ميں آيات الہى ۵

آیت ۱۱

( فَخَرَجَ عَلَى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرَابِ فَأَوْحَى إِلَيْهِمْ أَن سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيّاً )

اس كے بعد زكريا محراب عبادت سے قوم كى طرف نكلے اور انھيں اشارہ كيا كہ صبح و شام اپنے پروردگار كى تسبيح كرتے ہو (۱۱)

۱_ حضرت زكريا(ع) ، اپنے فرزند يحيى كى ولادت كے حوالے سے ديئے گئے وعدہ كے پورے ہونے كے وقت عبادت گاہ ميں تھے _فخر ج على قومه من المحراب

بنى إسرائيل كى محرابيں وہى ان كى مسجد يں تھيں جن ميں وہ نماز كيلئے جمع ہوا كرتے تھے (كتاب العين)

۲_ حضرت زكريا نے جب لوگوں كے ساتھ گفتگو ميں عاجزى كا احساس كيا تو عبادت گا ہ سے نكل كر لوگوں كے پاس آگئے _فخرج على قومه من المحراب

۳_ حضرت زكريا، تين روزہ سكوت كى مدت ميں صبح وشام كى عبادت كا وقت داخل ہونے كا لوگوں كو اشارہ سے اعلان كرتے تھے _فخرج على قومه من المحراب فا وحى إليهم أن سبّحوا بكرة وعشيّا

احتمال ہے كہ لفظ بكرہ ( اور عتيّاَ ) فعل'' خرج'' اور'' اوحي'' كيلئے ظرف ہے اس صورت ميں آيت كا مطلب يہ ہوگا چونكہ حضرت ذكريا عبادت كے وقت ہونے كے اعلان كى ذمہ دارى اپنے دوش پر ليئے ہوئے تھے تو ان تين دنوں ميں جبكہ دہ لوگوں سے بات نہيں كرسكتے تھے _ صبح اور عصر ميں ''سَبحُوا'' كے فرمان كو اشارہ كے ذريعے انہيں سمجھاتے تھے _

۴_ حضرت زكريا كے زمانہ ميں لوگوں نے عبادت كيلئے ايك معين جگہ قراردى تھى _فخرج على قومه من المحراب

۵_ خاص جگہ كا عبادت كيلئے انتخاب، ايك پسنديدہ بات ہے كہ جسكے آثار گذشتہ اديان ميں بھى موجود ہيں _

فخرج على قومه من المحراب

۶_ حضرت زكريا، كے ہم مذہب لوگوں كے معبد كا نام''محراب'' تھا _فخرج على قومه من المحراب

۷_عبادت اور الله تعالى سے رازو نياز، شيطان اور الله تعالى كى راہ ميں دوسرى ركاوٹوں سے نبرد آزما ہونے كا ميدان ہے _

۶۰۷

المحراب ( محراب)كى وجہ تسميّہ يہ بيان كى گئي ہے كہ انسان وہاں شيطان سے جنگ كرتا ہے اسى طرح اپنے اند ر حضور قلب پيدا كرنے كيلئے اپنے نفس سے لڑتا ہے ( مصباح)

۸_حضرت زكريا(ع) نے عبادت گاہ سے نكلنے كے بعد اپنى قوم كو يحيى (ع) كى ولادت كى خوشخبرى كے متحقق ہونے كے وقت كو سمجھا يا _أن سبّحو ظاہر يہ ہے كہ جو كچھ حضرت زكريا(ع) اپنى قوم سے چاہا تھا وہ ہونے والے واقعات سے مربوط ہے يعنى حضرت زكريا نے مسئلہ كو انہيں سمجھا ديا اور اسے مواقع پر الله كى تسبيح اور تنزيہ كى ياد دلائي_

۹_ حضرت زكريا(ع) ،سكوت كے روزوں كے شروع ہونے كے بعد اپنى قوم كو عبادت كے متعلقہ احكام، اشارہ اور رمز كے ذريعے واضح كرتے تھے _فأوحى إليهم أن سبّحو ( ا وحى ) كا فاعل زكريا او ر( إليہم ) كى ضمير، قوم كى طرف لوٹ رہى ہے ہر وہ چيز جو سيكھنے كے قصد كے ساتھ كسى بھى صورت ميں دو سرے كيلئے القاء ہو، اسے وحى كہتے ہيں ( مصباح) اور اس آيت ميں مراد اشارہ ہے_ سورہ آل عمران كى (اكتا سويں ) آيت اسى معنى پر شاہد ہے _

۱۰_حضرت زكريا كى قوم، عبادت كيلئے انكى كى طرف سے پيش كيے جانے والے احكام پر عمل پيرا ہوتى تھى _

فأوحى إليهم أن سبّحوا

۱۱_ حضرت زكريا(ع) ، كى قوم ان سے عبادت كے متعلقہ احكام دريافت كرنے كے ليئے عبادت گاہ كے باہران كے انتظار ميں رہتى تھي_خرج على قومه أن سبّحوا

( خرج عليہ ) اور ( دخل عليہ ) اس وقت كہا جاتا ہے كہ جب كوئي شخص داخل ہوتے يانكلتے وقت كسى اور كاسامنا كرتا ہے حضر ت زكريا سے تسبيح كرنے كا فرمان صادر ہونا بتاتا ہے كہ انكى قوم، عبادت گاہ كے باہر انكے احكام سننے كيلئے آكٹھا ہوتى تھى _

۱۲_ حضرت زكريا نے اشارہ كے ساتھ اپنى قوم سے چاہا كہ وہ صبح و شام الله تعالى كى تسبيح كيا كريں _فأوحى إليهم أن سبّحوا بكرة وعشي ( بكرة ) صبح كى نماز اور سورج طلوع ہونے كے درميان كے فاصلہ كو كہا جاتا ہے ( لسان العرب) ''عشيا ''سے مراد يا تو ظہر سے غروب تك كا وقت ہے يا دن كاآخرى حصہ ہے اور بعض اہل لغت سے دوسرے معانى بھى نقل ہوئے ہيں (لسان العرب)

۱۳_ حضرت زكريا (ع) كى قوم تسبيح و عبادت كرنے والے اورالہى لوگ تھے _فخرج على قومه أن سبّحوا

۱۴_ الله تعالى كے وجود پر عقيدہ اور اسكى عبادت و تسبيح

۶۰۸

بشركى قديم تاريخ ميں گذشتہ زمانے ميں بھى تھى _قومه أن سبحوا بكرة و عشيا

۱۵_ صبح اور آخر روز الله تعالى كى تسبيح كيلئے مناسب وقت ہيں _ان سجوا بكرة وعشيا

۱۶_ الله تعالى بوڑھے والد اور بانجھ والدہ كو فرزند عطا كرنے كے حوالے سے ہر قسم كى ناتوانى سے پاك و منزہ ہے _

أن سبحوا

۱۷_حضرت زكريا (ع) كا بڑھاپے ميں بچےّ والا ہونا بتاتا ہے كہ الله تعالى ہر قسم كے نقص و عجز سے منزہ ہے _

أن سبحوا

اسماو صفات :صفات جلال ۱۶

الله تعالى :الله تعالى اور عجز ۷; الله تعالى اور نقص ۱۷;اللہ تعالى كا منزہ ہونا ۱۶; الله تعالى كى پرسش كى تاريخ ۱۳;۱۴; الله تعالى كے منزہ ہونے كى علامات ۱۷

بانجھ:بانجھ كا بچے والا ہونا ۱۶

بڑھاپا:بڑھاپے ميں بچے والا ہونا ۱۶

تربيت:حضرت يحيى كى ولادت كى بشادت ۸

تسبيح :الله تعالى كى تسبيح ۱۴; الله تعالى كى تسبيح كا وقت ۱۵; الله تعالى كى تسبيح كے آداب ۱۵;صيح ميں تسبيح ۱۲; ۱۵; عصر ميں تسبيح ۱۲;۱۵

زكريا :زكريا حضرت يحيى كى ولادت كے وقت ۱،۲; ۸;زكريا كا اشارہ ۳،۹;زكريا كا خاموشى كا روزہ ۲، ۳، ۹;زكريا كا قصہ ۱،۲،۸،۹، ۱۱، ۱۲; زكريا كا كلام كرنے سے عجز ۲; زكريا كا محراب ۶ ;زكريا كى تعليمات۱۱; زكريا كى تعليمات ۱۰ ; ۱۲; زكريا كى عبادت گاہ ۱، ۱۱;زكريا كى عبادت گاہ كانام ۶;زكريا كے بچے والے ہونے كے آثار ۱۷

زكريا كى قوم :زكريا كى قوم كى تسبيحات ۱۲; زكريا كى قوم كى خدا پرستي۱۳; زكريا كى قوم كى عبادات ۱۱، ۱۳; زكريا كى قوم كى عبادت گاہ ۴، ۶; زكريا كى قوم كى عبادت كى كيفيت ۱۰/شيطان :شيطان سے جنگ كرنے كا مقام ۷

عبادت :الله تعالى كى عبادت ۱۴; صبح ميں عبادت ۳ ; عبادت كے وقت كا اعلان ۳;عصر ميں عبادت ۳

عبادت گاہ :آسمانى اديان ميں عبادت ۵; عبادت كا كردار ۷;عبادت گاہ كى اہميت ۵; عبادت گاہ كى تاريخ ۵

عقيدہ :الله تعالى پر عقيدہ ۱۴;عقيدہ كى تاريخ ۱۳;۱۴

۶۰۹

آیت ۱۲

( يَا يَحْيَى خُذِ الْكِتَابَ بِقُوَّةٍ وَآتَيْنَاهُ الْحُكْمَ صَبِيّاً )

يحيى كتاب كو مضبوطى سے پكڑ لو اور ہم نے انھيں بچپنے ہى ميں نبوت عطا كردى (۱۲)

۱_ حضرت زكريا (ع) كيلئے خداوند عالم كى بشارت اور وعدہ جناب يحيى كى معجزہ نما ولادت كے ذريعہ وقوع پذير ہوا_

نبشرك بغلام اسمه يحيى يا يحيى خذالكتب

۲_ حضرت يحيى وحى دريافت كرنے اور الله تعالى كے نزديك ايك ممتاز شخصيت كے مالك تھے _يا يحيى خذالكتب بقوة

يہ كہ ( يا يحيى ) كى پكار كس جانب سے تھى دو احتمال ہيں ۱_ الله تعالى كى جانب سے فرشتہ وحى كے وسيلہ سے تھى ۲_ حضرت زكريا كى اپنے بيٹے يحيى كو نصيحت _آيت كا ظاہر پہلے احتمال كى تائيد كررہا ہے لہذا مندرجہ بالا مطلب اسى بنا ء پر ہے _

۳_ الله تعالى نے حضرت يحيى كو آسمانى كتاب (تورات) كى ہر طرح سے مكمل سمجھ بوجھ ركھنے اور اس پرحتمى طور پرعمل كا فرمان ديا تھا _يحيى خذالكتب بقوة

( الكتاب) پر (الف و لام ) عہدكا ہے ذور يہاں پر ممكن ہے كہ مرا د وہى توارت ہواسيلے كہ يحيى پر كوئي اور كتاب نازل ہوئي يہ معلوم نہيں ہے الله تعالى كافر مان ( خذ ) سمجھ بوجھ اور مكمل تدبر سے كنايہ ہے اور لفظ ( بقوة ) ''خذ ''كے فاعل كيلئے حال ہے اس سے مراد مقام تحصيل علم اور مقام عمل ميں ہر توانائي سے كام لينا ہے _

۴_ معارف اور الہى شريعت كى حفاظت اور اس كے احكام كا اجرا ئ، سختى اورطاقت كى كا محتاج ہے _

خذالكتب بقوة

۵_ معاشرہ كى ہدايت اور شرعى احكام كے اجراء كيلئے الہى رہبروں كى سختى اور قاطعيت كا ضروى ہونا _

يايحيى خذالكتاب بقوة

۶_ علماء اور دينى رہبروں كى آسمانى كتابوں ميں عميق فكر كرنا اور اسكے مطابق اپنے كردار كو محكم كرنے كى ضرورت ہے_يايحيى خذالكتات بقوة

۷_ حضرت يحيى كے زمانہ ميں تورات ايسى كتاب تھى جسميں تحريف نہيں ہوئي تھى بلكہ الله تعالى كى طرف سے تائيد شدہ تھى _يايحيى خذالكتب

۶۱۰

چونكہ امكان ہے كہ يہاں ( الكتاب ) سے مراد تورات ہو تو اس صورت ميں اسكے حصول كيلئے الہى فرمان اس كے مطالب پر صحت كى مہر لگانے كے مترادف ہے

۸_ درست فكر اور حق كى شناخت كى قدرت، الله تعالى كى طرف سے يحيى كو بچپن ميں حاصل ہوئي تھى _

وأتيناه الحكم صبيا

( حكم ) كے ليئے مختلف معانى ذكر ہوئے ہيں بس ايك اسكا معنى ( علم وفہم ) ہے( لسان العرب) مندرجہ بالا مطلب اسى معنى كى بنياد پرہے

۹_اللہ تعالى نے حضرت يحيي(ع) كوبچپن ميں الہى احكام كو اجراء كرنے كى قدرت عطا كى تھى _وأتيناه الحكم صبي

مندرجہ بالا مطلب ميں ( حكم ) سے مراد حاكميت اور قضاوت كا منصب ہے ( قاموس ) ميں آيا ہے كہ حاكم وہ ہے جو حكم جارى كرے _

۱۰_حضرت يحيي(ع) بچپن ميں منصب قضاوت پر فائز تھے _وأتيناه الحكم صبيا

( حكم ) اپنے مختلف معانى ميں سے ايك معنى كے مطابق مصدر اور قضاوت كرنے كے معنى ميں ہے ( لسان العرب)

۱۱_ حضرت يحيى بچپن ميں فوق العادہ استعداد كے حامل تھے _وأتيناه الحكم صبيا

۱۲_ الله تعالى كى طرف سے انسان كو حكمت اور معنوى ومعا شرتى مقام كى عطا، عمر كے كسى خاص حصے سے مشروط نہيں ہے _وأتيناه الحكم صبي

۱۳_ آسمانى كتابوں ميں غورو فكر، حكمت و علم كے حصول كيلئے ايك ضرورى شرط ہے _يا يحيى خذ الكتب بقوة وأتيناه الحكم صبي جملہ '' أتيناہ'' جملہ''خذالكتاب بقوة ''كے ساتھ مرتبط ہے بعيدمعلوم نہيں ہوتا كہ جملہ ''خذالكتاب'' كا جملہ(اتيناه الحكم) كے ليے پيش خيمہ ہو

۱۴_على بن اسباط قال : را يت أباجعفر (ع) فقال يا علّى إن الله إحتج فى الا مامة بمثل ما احتج به فى النبوة فقال : وأتيناه الحكم صبياً ...'' فقد يجوزان يؤتى الحكمة و هوصبى (۱) على بن اسباط كہتے ہيں : ميں نے امام جوادعليہ السلام كو ديكھا انہوں نے

____________________

۱) كافى ج۱ ص۳۸۴ح۷، نوراالثقلين ج۲ ص۳۲۵،ح۳۲_

۶۱۱

...مجھے فرمايا: اے على ابے شك الله تعالى نے امامت كےمقام پر ايسے ہى استدلال كيا ہے جيسے نبوت كے مسئلہ ميں استدلال فرما يا ہے : ''وأتيناه الحكم صبياً '' لہذا يہ ممكن ہے كہ حكمت ايك بچے كو بھى دى جائے _

۱۵_عن النبى (ص) فى قوله ''وأتيناه الحكم صبياً'' قال : اعطى الفهم والعبادة وهو ابن سبع سنين (۱) پيغمبر اكرم (ص) سے الله تعالى كى اس كلام'' وأتيناہ الحكم صبياً'' كے بارے ميں روايت ہوئي كہ آپ نے فرما يا انہيں سات سال كى عمر ميں فہم و عبادت عطا كى گئي _

۱۶_قال رسول الله (ص) قال الله تعالى : ''و أتيناه الحكم صبياً يعنى الزهد فى الدنيا (۲) رسول اكرم(ص) سے روايت ہوئي كہ : الله تعالى نے فرمايا ہے''وأتيناه الحكم صبياً'' يعنى دنيا ميں انہيں زہد ديا _

آسمانى كتب :آسمانى كتب كا كردار ۶; آسمانى كتب ميں تدبر كے آثار ۱۳; آسمانى كتب ميں فكر كى اہميت ۶

الله تعالى :الله تعالى كى بشارت كا محقق ہونا ۱; الله تعالى كى عطا ۸;۹; الله تعالى كے اوامر ۳

امامت :بچپن ميں امامت ۱۴

توريت :توريت كى تاريخ ۷;توريت كى تعليمات پر عمل ۳; توريت كى فہم ۳; توريت ميں تحريف ۷; يحيى كے زمانے ميں تورات ۷

حكمت :بچپن ميں حكمت ۱۴; حكمت كے عطا ء ہونے كى شرائط ۱۲;۱۳

دين :دين پر عمل ۴; دين كى حفاظت ۴

دينى رہبر :دينى رہبروں كا ہدايت دنيا ۵;دينى رہبر وں كى قاطعيت ۵; دينى رہبروں كے عمل كا معيار ۶

روايت :۱۴; ۱۵; ۱۶

زكريا :زكريا كو بشارت ۱/علم :علم كى شرائط ۳

علماء :علماء كے عمل كا معيار ۶/قدرت :قدرت كے آثار ۴

قضاوت :

____________________

۱) الدراالمنشور ج۵ص۴۸۴_

۲) مكارم الاخلاق ص۴۴۷ بحارالانوار ج۷۴ص۹۴ ح۱_

۶۱۲

بچپن ميں قضاوت ۱۰

معنوى مقامات :معنوى مقامات كى شرائط ۱۲

نبوت :بچپن ميں نبوت ۱۴

يحيى :يحيى اور احكام كا اجرا ء ۹;يحيى كا بچپن ۸ ، ۹ ، ۱۰ ، ۱۱ ، ۱۵ ،۱۶; يحيى كا زہد ۱۶; يحيى كے علم كا سرچشمہ ۸;يحيى كو وحى ۲;يحيى كى استعداد ۱۱; يحيى كى خصوصيات ۱۱;يحيى كى شرعى ذمہ دارى ۳ ; يحيى كى عبادات ۱۵;يحيى كى فہم ۱۵; يحيى كى فہم كا سرچشمہ ۸; يحيى كى قاطعيت ۳; يحيى كى قدرت ۹; يحيى كى قضاوت ۱۰; يحيى كى نبوت ۲ ; يحيى كى ولادت كا معجزہ ۱; يحيى كے فضائل ۸; يحيى كے مقامات ۲، ۹،۱۰،۱۵

آیت ۱۳

( وَحَنَاناً مِّن لَّدُنَّا وَزَكَاةً وَكَانَ تَقِيّاً )

اور اپنى طرف سے مہربانى اور پاكيزگى بھى عطا كردى اور وہ خوف خدا ركھنے والے تھے (۱۳)

۱_ الله تعالى نے يحيى كو رحمت ومحبت كى نعمت سے نوازا_ء اتيناه و حنا ناً من لدنا

( حنان ) مصدر ہے اور اسكا مطلب شفقت اور مہربانى ہے ( مصباح) اسكى تنوين تفخيم كيلئے ہے يہ كلمہ گذشتہ آيت ميں ( الحكم ) پر عطف ہے _

۲_ الله تعالي،محبت و شفقت كا منبع ہے اور اسے بعض منتخب بندوں كو عطا كرنے والا ہے _وحناناًمن لدنا

( من لدّنا ) يہ بيان كررہا ہے كہ يحيى كوعطا ہونے والى عطوفت ذات اقدس كى رحمت و عطوفت كے چشمہ سے ہوئي تھى _

۳_ انسان كا دردمند و شفقت كے احساسا ت سے مالامال ہونا اسكى عظمت كا موجب ہے _وحناناً من لدنا

۴_ حضرت يحيى (ع) اللہ تعالى كى بارگاہ ميں مقرب اور اسكے محبوب بندوں ميں سے تھے _وحناناً من لدنّا

حضرت يحيي(ع) كومحبت كے عطا ہونے ميں چار قسم كے تصور ہيں كہ (حناناً من لدنا ) كى صفت ان تمام كے ساتھ سازگا ہے _ الله تعالى يا لوگوں كى يحيى سے محبت اور حضرت يحيي(ع) كى الله تعالى يا لوگوں سے محبت _ مندرجہ بالا مطلب ميں الله تعالى كى ان سے محبت كا ذكر ہے _

۶۱۳

۵_ حضرت يحيى الله تعالى كے ارادہ كے زير سايہ لوگوں كى اپنى نسبت گہرى محبت كے حامل تھے _

وحناناً من لدنا

اس مطلب ميں ( حنانا) سے مراد، لوگوں كى يحيي(ع) كى نسبت محبت ہے _

۶_دوسرے كى نسبت گہرى محبت اور شفقت ايك ضرورى اور پسنديدہ ترين الہى رہبروں كى صفت ہے _

و حنا ناً من لدنا

يہ كہ (أتيناه الحكم ) كے بعد سب سے پہلى صفت(حنانا) آئي ہے مندجہ بالا مطلب اس سے ليا گيا ہے _

۷_ حضرت يحيى (ع) الله تعالى كى عنايات كے زير سايہ اسكے عاشق اور اسكے اشتياق سے سرشار تھے_حناناً من لدن

اس مطلب ميں ( حنانا ) كى صفت اس محبت كو بيان كررہى ہے جو الله تعالى نے يحيى كو اپنى نسبت عطا كى ہے_

۸_حضرت يحيي(ع) ، الله تعالى كى خاص عنايات كے زير سايہ خصوصى صلاحيت ، رشد اور كمال كے حامل تھے_

ئاتينه و زكوة

لفظ'' زكاة'' '' صلاحيت'' '' پاكيزگى '' ''رشد كرنا'' مبارك اور تمجيد و تعريف كے معنى ميں استعمال ہوتاہے _( لسان العرب) ہر مقام پر اسكا مناسب معنى مراد لياجائے گا _

۹_ حضرت يحيي(ع) ، ہميشہ سے باتقوى تھے _وكان تقي ( تقياً) مادہ ( وقى ) سے صفت مشبہ ہے_ يہ راسخ اور ثابت ہونے پر دلالت كرتى ہے _اور لفظ ( كان ) بھى بہت سے مقامات پر اپنے اسم كى حالت كے ثابت ہونے پر دلالت كرتا ہے لہذا ( وكان تقياً) يعنى يحيى ہميشہ پرہيز گا ر تھے_

۱۰_ حضرت يحيي(ع) كا تقوى اور پرہيزگار ى انكى حكمت ،الہى محبت اور معنوى كمال سے بہرہ مند ہونے كا پيش خيمہ تھى _وحناناً من لدنا و زكوة وكان تقيا يہ كہ ( وكان تقيا ً) كا سياق آيت (واتينا ه الحكم ) كى پہلى تعبير سے مختلف ہے كہ يہاں تقوى كو خود يحيى كى طرف نسبت دى گئي ہے حنان اورزكات كو الله تعالى كى طرف نسبت دى گئي ہے يہ چيز واضح كررہى ہے كہ يحيى كا تقوى بعنوان عمل نفسى انكے الہى عطيا ت كے حامل ہونے كا پيش خيمہ تھا _

۱۱_حضرت يحيي(ع) ( اپنى الہى كتاب پر عمل اور الہى احكام كے اجرا ء كى ذمہ دارى ميں معمولى سى كوتاہى برداشت نہيں كرتے تھے _وكان تقيا گذشتہ آيت كے قرينہ كى بناپر ( تقياً) كا متعلق وہ ذمہ دارياں ہيں جو يحيى پرعائد تھيں اور انہوں نے اپنى ذمہ دارى كو اس طرح ادا كيا كہ اپنے ليے اسے الہى عذاب سے حفاظت اور بچاؤ كا ذريعہ قرار ديا _

۶۱۴

۱۲_ الہى تقوى كى رعايت، انسان كے رشد و كمال كا پيش خيمہ ہے _زكوة و كان تقي

۱۳_ عن أبى عبدالله (ع) فى قوله تعالى : (وحناناً من لدنا ) قال :إنّه كان يحيى إذا دعاقال فى دعائة: ''يارب يا الله '' ناداه الله من السماء لبيك يا يحيى سل حاجتك (۱) امام صادق (ع) سے الله تعالى كے كلام (حنانا ً من لدنا ) كے بارے ميں روايت نقل ہوئي ہے كہ بے شك يحيي(ع) جب دعا كيا كرتے تو اپنى دعا ميں كہتے تھے _ اے پروردگار اے خدا تو خداوند عالم آسمان سے انہيں ندا ديتا تھا لبيك اے يحيى اپنى حاجت طلب كرو _

الله تعالي:الله تعالى كے اراد كے آثار ۵; الله تعالى كے عطيات ۱;۲;۸

الله تعالى كے برگزيدہ بندے :الله تعالى كے برگزيدہ بندوں كى مہربانى ۲

الله تعالى كا لطف :الله تعالى كے لطف كے شامل حال افراد۷

الله تعالى كے محب:۷الله تعالى كے محبوب :۴

اہميتں :اہميتوں كا معيار ۳

تقوى :تقوى كے آثار ۱۳

دينى رہبر :دينى رہبروں كى مہربانى ۶; دينى رہبروں كے صفات---۶

روايت :۱۳

كمال :كمال كاپيش خيمہ ۱۲

مہربانى :مہربانى كى عظمت ۳; مہربانى كاسرچشمہ۲

يحيى :يحيى سے محبت كاسرچشمہ ۵; يحيى كا اپنى ذمہ دارى پر عمل ۱۱;ييحيى كا تقرب ۴; يحيى كا كمال ۸;يحيى كى حكمت كا پيش خيمہ ۱۰; يحيى كى دعا ۱۳;يحيى كى محبت ۷; يحيى كى محبوبيت ۴ ; يحيى كى محبوبيت كا پيش خيمہ ۱۰; يحيى كى مہربانى ۱; يحيى كے احساسات ۱;يحيى كے تقوى كے آثار ۱۰;يحيى كے تقوى ميں دوام ۹;يحيى كے فضائل ۵;۸;۹

____________________

۱)محاسن برقى ج۱ص۳۵ح۳۰نورالثقلين ج۳ ص ۳۲۶ح۳۶_

۶۱۵

آیت ۱۴

( وَبَرّاً بِوَالِدَيْهِ وَلَمْ يَكُن جَبَّاراً عَصِيّاً )

اور اپنے ماں باپ كے حق ميں نيك برتاؤ كرنے والے تھے اور سركش اور نافرمان نہيں تھے (۱۴)

۱_ حضرت يحيي(ع) ، اپنے ماں باپ كى نسبت بہت زيادہ نيكى كرنے والے تھے _وبراًبوالديه

لفظ (برا) گذشتہ آيت ميں ( تقيا ً)پرعطف ہے اور كلمہ ( بار ) كا معنى ديتا ہے البتہ چو نكہ ( برّ) ميں مبالغہ ہے لہذا ( برّالوالدين ) سے مراد انكى نسبت بہت زياد ہ نيكى اور احسان كرنا ہے _ (مفردات راغب)

۲_ ماں باپ كے ساتھ نيكى اور احسان، الله تعالى كے نزديك انتہائي عظمت كا حامل ہے _و برّاًبوالديه

۳_ والدين كے ساتھ احسان كرنا، تقوى كا واضح نمونہ اور اس كا لازمہ ہے _وكان تقياً _ و برًا بوالديه

۴_ والدين كے ساتھ نيكى كرنا، انسان كے رشد اور معنوى كمال كيلئے پيش خيمہ ہے _وزكوة وبرًاً بوالديه

جس طرح جملہ (وكان تقيّاَ)جملہ (حنا ناً من لدنا ) كيلئے علت تھا جملہ (''برًا بوالديه'' بھى كان ) پر عطف ہے اور يہى مقام ركھتا ہے _

۵_ حضرت يحيي(ع) لوگوں كے ساتھ اكڑنے، بڑائي كا اظہار كرنے ، بلا وجہ رعب جمانے اور لوگوں كى حاجات سے منہ پھير نے جيسى خصلتوں سے پاك تھے_و لم يكن جباراً عصيا

''جبار''مبالغہ كا صيغہ ہے جس كے معنى اكٹر نے كے ہے كہ جس ميں انسان دوسرے كے حق كا لحاظ نہيں كرتا (لسان العرب )اور اسى طرح ماحول پر مسلّط ہونے اور جھوٹى بڑائي كا دعوى كرنے والے كے معنى ميں بھى آيا ہے_ (مفردات راغب ) ( عصي) بھى صيغہ مبالغہ ہے تو لوگوں سے مربوط'' برًا'' اور'' جبا راً'' كے قرينہ كى بناء پر عصى سے مراد لوگوں كى حاجات كو پورانہ كرنے والااور انكے مقابل ميں انكسارى سے كام نہ لينے والاہے، كلام منفى ميں صيغہ مبالغہ كا استعمال گويا نفى ميں مبالغہ كا معنى دے رہا ہے _

۶_ حضرت يحيي، اپنے والدين سے نيكى كرنے كے علاوہ كبھى انكے ساتھ زبردستى سے كام نہيں ليتے تھے اور نہ ہى انكے فرمان كے خلاف سراٹھا تے تھے _وبرابوالديه ولم يكن جباراً عصيا

چونكہ گذشتہ جملات، حضرت يحيي(ع) كے بارے ميں محبت اور شفقت كوبيان كررہے تھے اور انكے واضح صفات ميں

۶۱۶

سے انكى والدين كے ساتھ نيكى كى طرف اشارہ كيا گيا ہے لہذا احتمال ہے كہ يہاں جباريت اور عصيان كى نفى كا تعلق بھى انكے والدين كے ساتھ مربوط ہو لہذا كہا جاسكتا ہے كہ حضرت يحيى اپنے والدين كے سامنے نہايت خاضع اور ان كے فرمان كے مطيع تھے_

۷_ حضرت يحيى ، الله تعالى كے سامنے گناہ سے پاك تھے_

يہ بھى كہا جاسكتا ہے كہ جملہ''و لم يكن عصيا'' مطلق سركشى اور گناہ ( لوگوں كى حاجات كو رد كرنايا الله كے حضور معصيت ہو ) كى نفى پر دلالت كررہا ہے _

۸_ حضرت يحيى الله تعالى ، والدين اور معاشرہ كے مقابلے ميں ايك وظيفہ شناس اور ذمہ دار انسان تھے _

و كان تقياً وبرًا بوالديه ولم يكن جباراً عصيا

''تقياً'' حضرت يحيى كا خدا سے رابطہ كى نشانى ، ''براًبوالديہ'' والدين كے ساتھ اور لم يكن جباراً لوگوں اور معاشرہ كے ساتھ رابطہ كى نشانى ہے _

۹_تكبر، تسلّط كى خواہش اور سركشى جيسى صفات ، انسان كے رشد اور كمال كيلئے ركاوٹيں ہيں _

و ء اتينه ...زكوة وكان ...و لم يكن جباراً عصيا

جملہ ''لم يكن ''گذشتہ آيت ميں جملہ كان پرعطف ہے اور جملہ''أتيناه الحكم وزكاة ''كيلئے ايك اور علت بيان كررہا ہے _

۱۰_غرور اور سلطہ طلبى عصيان اور گناہ كا پيش خيمہ ہے _ولم يكن جبّاراً عصيّا

۱۱_ حضرت يحيى (ع) ، حضرت زكريا (ع) كى آرزو كے مطابق فرزند تھے كہ جنكا اخلاق و كردا ر انكى رضايت كے عين مطابق تھا _و كان تقيّا وبرًا بوالديه و لم يكن جبّاراً عصيّا

حضرت زكريا (ع) كى دعا (واجعله ربّ رضيّاً ) كے بعد حضرت يحيي(ع) كے اوصاف كا بيان ہونا حضرت يحيى كے اوصاف كى حضرت زكريا كے دعا سے مطابقت واضح كررہا ہے _

بڑائي كا اظہار :بڑائي كے اظہار كے اسباب ۹//تقوى :تقوى كى علامات ۳

تكبر :تكبر كے آثار ۱۰//زكريا (ع) :زكريا (ع) كى تمنائيں ۱۱; زكريا كے بيٹے ۱۱

۶۱۷

سلطہ طلبى :سلطہ طلبى كے آثار ۹;۱۰

عصيان:عصيان كا پيش خيمہ ۱۰; عصيان كے آثار ۹

عظمتيں :۲

كمال:كمال كا باعث ۴; كمال كيلئے ركاوئيں ۹

گناہ :گناہ كا باعث ۱۰

والدين :والدين سے نيكى ۱،۳،۶;والدين سے نيكى كى اہميت ۲; والدين سے نيكى كے آثار ۴

يحيى :يحيى كے فضائل ۵،۶،۸،۱۱;يحيى اور سلطہ طلبى ۵; يحيى اور گناہ ۷; يحيى اور والدين كے ساتھ زبردستى ۶; يحيى سے رضايت ۱۱;يحيى كا اپنى شرعى ذمہ دارى پر عمل ۸;يحيى كا ذمہ دارى لينا ۸;يحيى كى پاكيزكي۵،۷; يحيى كى عصمت ۷; يحيى كى نيكى ۱،۷;يحيى كے اخلاق ۱۱;يحيى كے مقامات ۷

آیت ۱۵

( وَسَلَامٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوتُ وَيَوْمَ يُبْعَثُ حَيّاً )

ان پر ہمارا سلام جس دن پيدا ہوئے اور جس دن انھيں موت آئي اور جس دن وہ دوبارہ زندہ اٹھائے جائيں گے (۱۵)

۱_ حضرت يحيى (ع) اپنى ولادت ، وفات اور حشر پر الله تعالى كے خصوصى سلام ميں شامل ہيں _

وسلم عليه بوم ولد و يوم يموت ويوم يبعث حيا

۲_ حضرت يحيى (ع) اپنى ولاد ت كے موقع پر ہر قسم كے گزند اور نقص سے امان ميں تھے اور رشد و كمال كيلئے تمام ضرورى اسباب و شرائط ان ميں مہيا تھيں _وسلم عليه يوم ولد

سلام كے چند معانى ہيں ايك معنى ہرقسم كے گزند اور آفت سے سلامتى ہے _ البتہ الله تعالى كى طرف سے سلام ،تكوينى حيثيت كا ہے اورحوادث كے حوالے سے ايك خبر ہے پس (سلام عليہ ) يعنى الله تعالى كى طرف سے حضرت يحيى (ع) ہر قسم كے جسمى ضرراور عقيدہ كے حوالے سے انحراف سے ضمانت شدہ ہيں _

۳_حضرت يحيى (ع) ، اپنى موت اور روز قيامت ہر قسم كے رنج اور عذاب سے محفوظ ہيں _

وسلم عليه يوم يموت و يوم يبعث حيا ً

( ولد ) فعل ماضى ہے اور'' يموت '' فعل مضارع ہے تو سياق ميں يہ تبديلى بتاتى ہے كہ آيت كا مطلب حضرت يحيى كى

۶۱۸

زندگى كا زمانہ منعكس كررہا ہے كہ الله تعالى نے اس زمانہ ميں انكى ولادت كى عافيت كى خبردى اور انكى موت اور روز قيامت كے حشر كى بھى ضمانت اور خوشخبر ى دى ہے _

۴_حضرت يحيى (ع) ، الله تعالى كے حضور خصوصى كرامت و عظمت كے حامل تھے _وسلم عليه يوم ولد و يوم يموت ويوم يبعث حيا

۵_ انسان كے لي ے ولادت كا زمانہ ، موت كے لمحات، اور روزقيامتتين حساس اور تقدير ساز مرحلے ہيں _

وسلم عليه يوم ولد و يوم يموت و يوم يبعث حيا

۶_ انسان، موت كے لمحات ميں بھى ( ولادت اور قيامت كے زمانوں كى مانند ) الله تعالى كى جانب سے خصوصى سلامتى اور امان كا محتاج ہے_و سلم عليه يوم ولد و يوم يموت و يوم يبعث حيا

( سلام )كا نكرہ ہونا ان كے ممتاز ہونے كو بيان كررہا ہے، موت كے وقت سلامتى سے مراد وحشت اضطراب اور نااميدى جيسے رنج دينے والے اسباب كا سامنا كرنے كى صورت ميں امان ميں ہونا ہے_

۷_ تقوى ،والدين كے ساتھ احسان ، تسلطّ كى خواہش اور عصيان سے پرہيز، مكمل سلامتى اور امان سے سرشار انجام كا باعث ہيں _و كان تقياً _ وبراًبوالديه و لم يكن جباراً عصياً و سلم عليه يوم ولد ويوم يموت و يوم يبعث حيا

۸_ انسان، روز قيامت دوبارہ زندہ ہونگے _يوم يموت و يوم يبعث حيا ً

( حياً) حال ہے ( يوم يموت ) ميں انسان كى موت كے بعد اسكى بعث سے مقصود يہ ہے كہ حشر كے روز تمام انسان دوبارہ زندہ ہونگے _

۹_ حضرت يحيى كى آخرت ميں خصوصى زندگى ہوگى _و يوم يبعث حي فعل (يبعث )زندہ ہونے پر بھى دلالت كرتا ہے_ بعد ميں (حياً) كى تصريح ممكن ہے اس ليے ہو كہ ذوسرے انسانوں كے مقابلے ميں حضرت يحيى كى ايك خصوصى زندگى ہے _

۱۰_عن أبى الحسن الرضا (ع) : إن أوحش ما يكون هذا الخلق فى ثلاثه مواطن يوم ولد ويوم يموت و يوم يبعث وقد سلّم الله عزوجل على يحيى فى هذه الثلاثه المواطن وآمن روعته فقال : وسلام عليه يوم ولد ويوم يموت ويوم يبعث حياً (۱) امام رضا(ع) سے روايت نقل ہوئي ہے كہ مخلوق كيلئے تين وحشتناك ترين مقام ہيں

____________________

۱)عيون اخبار الرضا ج۱ص۲۵۷ب۲۶ح۱۱، نورالثقلين ج۳ص۳۲۷ح۳۸_

۶۱۹

:جس دن وہ پيداہواور جس دن وہ فوت ہو اور جس دن وہ اٹھا يا جائے گا اور الله تعالى نے حضرت يحيى ان تينوں مقامات كے لحاظ سے سلام بھيجا اور ان مقامات كى وحشت سے انہيں امان دى اور فرمايا :وسلام عليہ يوم ولد ويوم يموت ويوم يبعث حياً _

الله تعالي:الله تعالى كا سلام ۱

امان :امان كا باعث ۷; امان كا سرچشمہ ۶; ولادت كے وقت امان ۶

انجام :اچھے انجام كا پيش خيمہ ۷/انسان :انسان كى احتياج ۶

تقدير :تقدير ميں تاثير ركھتے والے اسباب ۵

تقوى :تقوى كے آثار ۷

روايت :۱۰

سلامتى :سلامتى كا پيش خيمہ ۷; سلامتى كا سرچشمہ ۶;/ولادت كے وقت سلامتى ۶

سلطہ طلبى :سلطہ طلبى سے بچنے كے آثار ۷/ضرورتيں :امان كى ضرورت ۶; سلامتى كى ضرورت ۶

عصيان :عصيان سے بچنے كے آثار ۷

قيامت :قيامت كے وقت امان ۶; قيامت كى اہميت ۵; قيامت كا خوف ۱۰ ; قيامت كے وقت سلامتى ۶

مردے :مردوں كاآخرت ميں زندہ ہونا ۸

موت :موت كے وقت كى اہميت ۵; موت كا خوف ۱۰

والدين :والدين سے نيكى كے آثار ۷

ولادت :ولادت كے وقت كى اہميت ۵; ولادت كا خوف ۱۰

يحيى (ع) :قيامت ميں يحيى (ع) ۱;۳;۱۰;يحيى (ع) پر سلام ۱; ۱۰ ; يحيى (ع) پر سلامتى ۱;۲;۳;يحيي(ع) كى اخروى زندگى كى خصوصيات ۹ ;يحيى (ع) كى موت ۱;۳;۱۰; يحيى (ع) كى ولادت ۱; ۲;۱۰; يحيى (ع) كے فضائل ۲;۳; ۹ ; يحيى (ع) كے كمال كا باعث ۲;يحيى (ع) كے ليے امان ۲; ۳

۶۲۰