تفسير راہنما جلد ۱۰

تفسير راہنما 4%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 945

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 945 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 255192 / ڈاؤنلوڈ: 3557
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱۰

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

جملہ''قال كذلك '' يعنى ''قال الله إلامر كما وعدتك'' يا پھر''قال الله الامر كما قلت '' ہے پہلى صورت ميں خداوند عالم اپنے گذشتہ وعدہ كى تاكيد كررہاہے كہ'' اى ذكريا جيسا كے ميں نے كہا ہے ہر صورت ميں تيرے ہاں بيٹے كى ولادت ہوكر رہے گى اور دوسرى صورت ميں خدا ند عالم نے حضرت يحيي(ع) كى ولادت كى ولادت كے موانع كى تصديق كى ہے يعنى حقيقت حال اسى طرح ہے جيسا كہ تو نے كہا ہے يعنى يحيى كى ولادت كے عادى اسباب موجود نہيں ليكن تيرے پروردگار نے كہاہے كہ يہ كام ميرے ليے آسا ن ہے_

۲_ بوڑھے باپ اور بانجھ ماں سے بچے كو پيدا كرنا، خداوند كريم كے ليے انتہائي آسان كام ہے_قال ربك هو عليّ هيّن

۳_ طبعى قوانين اور عادى اسباب، خداوند عالم كى قدرت اور ارادہ كو محدود نہيں كرتے_قال كذلك قال ربك هو على هيّن

۴_ دنياوى حوادث ميں طبعى اسباب ، علت تامہ كى حيثيت نہيں ركھتے_قال كذلك قال ربك هو على هيّن

۵_ طبعى اسباب اور عوامل كو مدنظر ركھنا،خداوندعالم كے ارادہ و تقاضا كے ليے حجاب ہے_أنى يكون غلام هو على هيّن

۶_حضرت يحيى (ع) كى ولادت ايك معجزانہ اور غير معمولى بات تھي_قال كذلك قال ربك هو على هيّن

۷_حضرت زكريا (ع) كى خداوند عالم كى ربوبيت كى طرف توجہ كرنے سے انہيں يہ اطمينان حاصل ہوگيا كہ خداوند عالم كے ارادہ اور تقاضا سے ان كى بانجھ بيوى كے ہاں بچے كى ولادت ہوسكتى ہے_قال ربك هو على هيّن جملہ'' ہو عى ہين'' قال رب كے بغير بھى مكمل طور پر معنى دے رہاہے ليكن اس جملہ كا مزيد اضافہ ہوجانا اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ يہ كسى معمولى انسان كا كلام نہيں ہے كہ اس كے بارے ميں غور و فكر كرنا شروع كرديں بلكہ يہ تيرے پروردگار كا فرمان ہے جس سے تجھے اس وقت خلق كيا ہے جس وقت تو كچھ بھى نہ تھا وہ اس وقت تجھے اور مدد عطاكرنے كى بھى صلاحيت ركھتاہے_

۸_حضرت زكريا (ع) كے ساتھ خداوند عالم كى گفتگو واسطہ كے ذريعے تھى اور براہ راست نہيں تھى _قال كذلك قال ربك هو على هيّن بعض نے كہا ہے كہ ''قال كذلك '' كا فاعل فرشتہ الہى ہے اور اسم ظاہر ''ربك'' كے آنے سے يہ نظريہ سامنے آيا ہے_

۹_خداوند عالم نے حضرت زكريا (ع) كو ان كى اپنى پيدائش كى طرف متوجہ كركے انہيں يہ بتاياہے كہ ان كے اور ان كے بانجھ زوجہ كے ہاں يحيى (ع) كى پيدائش كے سلسلہ ميں مطمئن ہوجائيں _

۶۰۱

هو على هيّن و قد خلقتك من قبل و لم تك شيئا

۱۰_اس بزم ہستى ميں انسان كى پيدائش ، خداوند عالم كے ارادہ سے ہوتى ہے اور وہ پيدائش سے قبل كچھ بھى نہيں ہوتا_

و قد خلقتك من قبل و لم تك شيئا

۱۱_ انسان كى پيدائش خداوند عالم كى قدرت كا ايك كرشمہ ہے_و قد خلقتك من قبل و لم تك شيئا

۱۲_انسان كى پيدائش ميں غور و فكر كرنے سے خداوند عالم كى طبعى اسباب و عوامل پر حاكميت و ارادہ قدرت كے تمام شكوك و شبہات ختم ہوجاتے ہيں _هو على هيّن و قد خلقتك من قبل و لم تك شيئا

۱۳_ خداوند عالم كى جانب سے معدوم مطلق كو خلقت كوجود عطا كرنا اسبات كى علامت ہے كے اس كى قدرت طبعى عوامل و اسباب ميں ہى منحصر نہيں ہے_هو على هيّن و قد خلقتك من قبل و لم تك شيئا

'' لم تك شيئاً'' سے مراد، معدوم مطلق ہے اور اس كى حضرت زكريا (ع) پر تطبيق كرنا كہ جن كى پيدائش حضرت آدم (ع) كى پيدائش پر منتہى ہوتى ہے جو خاك سے معرض وجود ميں آتے ہيں يہ زمانہ كے اعتبار سے ہے يعنى پہلى مخلوق عدم سے وجود ميں آئي ہے_

۱۶_جتنے انسان بھى روئے زمين پر پيدا ہوتے ہيں انہيں گذشتہ زمانے ميں پيدا كيا گيا ہے_و قد خلقتك من قبل و لم تكن شيئ جملہ حاليہ'' و لم تك شيئاً'' ممكن ہے زمانے كى طرف ناظر ہو يعنى انسان پيدا نہيں ہوتے تھے اس صورت ميں جملہ '' خلقتك من قبل'' كا اشارہ عالم زر كى طرف ہوگا يعنى ہم نے آپ كو گذشتہ دور ميں كسى بھى عادى سبب كے خلق كيا ہے_ اب كس طرح حضرت يحيى كى بوڑھے باپ اور بانجھ ماں سے پيدائش ميں شك كررہے ہو_

انسان:_كى خلقت ۱۱; _ كى خلقت كا سرچشمہ ۱۰

بشارت:حضرت يحيي(ع) كى ولادت كى ۱

پيري:_ ميں صاحب اولاد ہونا ۲

تذكر:حضرت زكريا (ع) كى خلقت كا _۹

تفكر:خلقت انسان ميں _ كے آثار ۱۲

خدا:_ كے ارادہ كے آثار ۷; _ كى مشيت كے آثار ۷; _ كا ارادہ مطلق ۳; _ كى بشارتيں ۱; _ كے تذكرات ۹; _ كے ارادہ كى حاكميت ۱۲; _ كى مشيت كى

۶۰۲

حاكميت ۱۲; _ كى قدرت ۲; _ كى قدرت مطلق ۳; _ كى قدرت كى علامات ۱۱; _ كى مطلق قدرت كى علامات ۱۳

ذكر:ربوبيت خدا كے آثار كا _۷; ارادہ خدا كے موانع ۷

زكريا(ع) :_ كا اطمينان ۱،۹; _ كى زوجہ كا حاصلہ ہونا ۷،۹; _ كو بشارت ۱; _ كو تذكر۹;_ كے اطمينان كے اسباب ۷; _ كى خداوند عالم كے ساتھ گفتگو كى خصوصيات ۸

شبہات:رفع شبہات كے اسباب ۱۲

عالم ذرّ:_ ميں خلقت ۱۴

عوامل طبيعي:_ كا كردار ۳،۴،۵،۱۲،۱۳

نظام عليت:۴،۱۳

يحيى (ع) :_ كى ولادت كا معجزہ۶

آیت ۱۰

( قَالَ رَبِّ اجْعَل لِّي آيَةً قَالَ آيَتُكَ أَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلَاثَ لَيَالٍ سَوِيّاً )

انھوں نے كہا كہ پروردگار اس ولادت كى كوئي علامت قرار ديدے ارشاد ہوا كہ تمھارى نشانى يہ ہے كہ تم تين دنوں تك برابر لوگوں سے كلام نہيں كروگے (۱۰)

۱_ حضرت زكريا (ع) نے خداوند عالم سے علامات اور نشانياں اس ليے طلب كى ہيں تا كہ بچہ دار ہونے كے ليے وہ اور ان كى زوجہ اس وقت ميں مناسب طور پر آمادہ ہوسكيں _قال رب اجعل لى ء اية

حضرت زكريا (ع) نے خداوند متعال سے جو نشانى طلب كى ہے اس ميں تين احتمالات پائے جاتے ہيں ۱) يا تو خداوند عالم كى بشارت ميں شك ركھتے تھے اور اس كو دور كرنا چاہتے تھے ۲) زوجہ كے ساتھ ہمبسترى كے ليے آداب كو ملحوظ خاطر ركھنا چاہتے تھے۳) خداوند عالم كا شكريہ بجالانا چاہتے تھے آيت ميں احتمال سوم پر كسى قسم كى كوئي دليل موجود نہيں ہے اور بعض علما نے احتمال اول كو بھى رد كيا ہے كيوں كے انبياء كرام (ع) كسى قسم كا شك نہيں ركھتے لہذا انہوں نے دوسرے احتمال كو صحيح جاتاہے_ مندرجہ بالا معنى بھى اسى احتمال كى بناء پر ہے_

۲_ حضرت زكريا (ع) نے خداوند متعال سے علامات اور نشانياں اس ليے طلب كى ہے تا كہ يقين حاصل كريں كہ حضرت يحيى (ع) كى بشارت خداوند عالم كى جانب سے ہے_قال رب اجعل لى ء اية

۶۰۳

حضرت زكريا (ع) كى جانب سے خداوند متعال سے علامت طلب كرنا ممكن ہے اس وجہ سے ہو كہ وہ اطمينان حاصل كرنا چاہتے تھے كہ جو كچھ انہوں نے دريافت كياہے وہ وحى الہى ہے نہ كہ شيطانى وسوسہ ہے اس جيسے امور ميں انبياء كرام (ع) كا شك كرنے كا امكان اس وجہ سے ہے كہ كيوں كے وہ صرف خداوند عالم كى ہے امداد سے شيطان سے محفوظ رہتے ہيں اور خداوند كريم بھى كبھى انہيں علامات و نشانياں دكھا كر اور كبھى كسى دوسرے طريقہ سے مطمئن كرتاہے_

۳_ خداوند عالم سے زيادہ اطمينان كى خاطر علامت يا نشانى طلب كرنا، شان رسالت كے ساتھ متصادم نہيں ہے_

قال رب اجعل ليء اية قال ء ايتك الاتكلم الناس

۴_حضرت زكريا (ع) نے دعا كرتے وقت ربوبيت الہى كو مدنظر ركھاہے_قال رب

۵_ حضرت زكريا (ع) كى جانب سے تين دن تك لوگوں كے ساتھ گفتگو نہ كرنا، خداوند عالم كى طرف سے اولاد كے پيدا ہونے كى بشارت كى علامت تھي_قال اء يتك ا لا تكلم الناس ثلاث ليال سويا

كلمہ ''سويّا'' يا تو '' ثلاث ليالي'' كے ليے صفت ہے يا پھر'' ألا تكلم الناس'' كے ليے حال ہے دونوں صورتوں ميں اس سے مراد تين دن اور تين راتيں ہيں اور اس بات كى دليل سورة آل عمران كى آيت نمبر ۴۰ بھى ہے_ فعل '' ألاّ تكلم'' فعل نفى ہے اور اس سے مراد يہ نہيں ہے كہ حضرت زكريا (ع) كى شرعى ذمہ دارى سكوت تھا_ بلكہ يہ اس بات كى خبر دے رہاہے كہ حضرت زكريا (ع) نے تين دن تك سكوت اختيار كيا ہے_

۶_ جس وقت حضرت زكريا (ع) لوگوں كے ساتھ گفتگو پر توانائي نہيں ركھتے تھے اس وقت وہ خداوند متعال كى عبادت و نيايش ميں مشغول رہتے تھے_ألا تكلم الناس ثلاث ليال سويّا

كلمہ '' الناس'' يہ بتارہاہے كہ حضرت زكريا (ع) صرف لوگوں كے ساتھ گفتگو كرنے ميں توانائي نہيں ركھتے تھے نہ كہ اصلاً گفتگو ہى نہيں كرسكتے تھے (يعنى عبادت و ذكر الہى كرسكتے تھے)

۷_ حضرت زكريا (ع) كى طرف سے لوگوں كے ساتھ گفتگو كى توانائي نہ ركھنا خداوند عالم كى طرف سے معجزہ تھا نہ يہ كہ وہ كوئي زبانى يا جسمانى نقص ركھتے تھے_قال اء يتك الا تكلم الناس ثلاث ليال سويا '' سوّي'' اس شخص كو كہاجاتاہے جو اخلاق اور خلقت كے لحاظ سے حداعتدال ميں ہو يعنى نہ تو اس ميں كسى چيز كى كمى ہو اور نہ ہى كسى چيز كى زيادتى ہو (مفردات راغب)

۶۰۴

اس مبنا كى بنياد پر '' سويّا'' ''تكلم'' فعل كے فاعل جو حضرت زكريا (ع) ہيں كے ليے حال ہے تو پھر آيت مباركہ كا معنى كچھ يوں ہوگا كہ تو در حالانكہ صحيح و سالم ہے پھر بھى لوگوں كے ساتھ تين دن تك گفتگو كرنے پر قادر نہيں ہے_

۸_اولاد كے ليے ا نعقاد نطفہ كرتے وقت باپ كے ليے ضرورى ہے كہ وہ تزكيہ نفس بھى كيے ہوئے ہو اور روحانى و نفسانى لحاظ سے بعى اعلى منزل پر فائز ہو_قال رب اجعل لى ء اية قال ء اتيك ألا تكلم الناس ثلاث ليال سويا

حضرت زكريا (ع) نے جو نشانياں طلب كى ہيں اگر وہ انعقاد نطفہ كے زمانہ وقت كو مشخص كرنے كے ليے تھيں تو پھر ان نشانيوں كى خاص اہميت ہے اور آپ(ع) چاہتے تھے كہ خاص مسائل كو ملحوظ خاطر ركھيں اور آداب و احترام كا خيال ركھيں اور انعقاد نطفہ كے ليے نفسانى و روحانى لحاظ سے اعلى مقام پر فائز ہوں _

۹_ حضرت زكريا (ع) نے خداوند متعال كے ساتھ گفتگو كى ہے_قال رب قال ء ايتك

۱۰_ گذشتہ اديان ميں سكوت كے روزہ كا موجود ہونا_قال ء ايتك ألا تكلم الناس ثلاث ليال

'' ألا تكلم الناس'' فعل نفى ہے بعض مفسرين نے احتمال ديا ہے كہ تكلم كى نفي، جزاكے مقام انشاء پر ہے اور تكلم و گفتگو كو ترك كرنے خداوند متعال كى طرف سے حضرت زكريا (ع) كے ليے ايك اختيارى فعل اور شرعى ذمہ دارى تھى جو روزہ ركھناہے سے كنايہ ہے_ اور اس زمانہ ميں روزہ كے صحيح ہونے كى ايك شرط سكوت تھا_

۱۱_ انبياء كرام (ع) كے ليے بھى حقائق كو روشن كرنے كے ليے معجزہ سے كام ليا جانا_ء ايتك ألا تكلم الناس ثلاث ليال

۱۲_ لوگوں كے ساتھ گفتگو قطع كرنے سے فكرى باليدگى اور جنسى طاقت ميں اضافہ ہوتاہے_ا لا تكلم الناس ثلاث ليال

حضرت زكريا (ع) نے جو نشانياں طلب كى ہيں ان كا حضرت يحيى (ع) كے انعقاد نطفہ كے ساتھ تعلق ہے كيوں كہ حضرت زكريا (ع) كو بڑھاپے كى وجہ سے ايسے كام پر قادر نہ تھے اور تين دن تك سكوت اختيار كرنا ممكن ہے فكرى باليدگى اور جنسى طاقت كو بڑھانے كى خاطر ہو _ تا كہ انعقاد نطفہ ہوسكے _

۱۳_ خداوند عالم كا ارادہ، طبعى اسباب و عوامل پرحاكم ہے_قال رب اجعل ...اء ايتك ا لا تكلم الناس ثلاث ليال

۱۴_ حضرت زكريا (ع) كى داستان ميں ايك معجزہ كو دوسرے معجزہ كے ذريعہ ثابت كيا گيا ہے_

ء ايتك ألا تكلم الناس ثلاث ليال

۶۰۵

حضرت زكريا (ع) كا تين دن تك سكوت خود معجزہ ہے جو حضرت يحيى (ع) كى ولادت كو ثابت كررہاہے وہ بھى معجزہ ہے_

آيات خدا:_كى درخواست ۱،۲،۳

اطمينان:_ كے اسباب ۳

اعداد:تين كا عدد

الله تعالي:_ كے ارادہ كى حاكميت ۱۳

انسان :_ كى خلقت كے مراحل ۸

باپ:_ كے تزكيہ كے آثار ۸

بشارت:حضرت يحيي(ع) كى ولادت كي_ ۲

حقائق:_ كو بيان كرنے كے ا سباب ۱۱

دعا:_كے آداب ۴

ذكر:_ربوبيت خدا كا ۴

روزہ:آسمانى اديان ميں سكوت كا ۱۰

ذكريا (ع) :_ كے قصہ كا معجزہ ہونا ۱۴; _ كى زوجہ كا حاملہ ہونا ۱; _ كو بشارت ۵; _ كے تقاضے ۱،۲; _ كى دعا ۴; _ كا تكلم پر قادر ہونے ميں حيرانگى ۷;_كى عبادات ۶; _ كا گفتگو كرنے سے عاجز ہونا ۵،۶; _ كا قصہ ۱،۵،۶; _كى خداوند متعال كے ساتھ گفتگو ۹; _ كے قصہ كى خصوصيات ۱۴

عزلت:_ كے آثار ۱۲

عوامل طبيعي:_ كا كردار ۱۳

غريزہ جنسي:_ كے قوى كرنے كى راہ ہموار كرنا ۱۲

فكر:_ كو تمركز كے اسباب ۱۲

معجزہ:_ كا كردار ۱۱،۱۴

نبوت:مقام _ اور خداوند عالم كى نشانياں ۳

۶۰۶

نطفہ:_ كے انعقاد كى اہميت ۸

يحيى (ع) :_ كى ولادت ميں آيات الہى ۵

آیت ۱۱

( فَخَرَجَ عَلَى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرَابِ فَأَوْحَى إِلَيْهِمْ أَن سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيّاً )

اس كے بعد زكريا محراب عبادت سے قوم كى طرف نكلے اور انھيں اشارہ كيا كہ صبح و شام اپنے پروردگار كى تسبيح كرتے ہو (۱۱)

۱_ حضرت زكريا(ع) ، اپنے فرزند يحيى كى ولادت كے حوالے سے ديئے گئے وعدہ كے پورے ہونے كے وقت عبادت گاہ ميں تھے _فخر ج على قومه من المحراب

بنى إسرائيل كى محرابيں وہى ان كى مسجد يں تھيں جن ميں وہ نماز كيلئے جمع ہوا كرتے تھے (كتاب العين)

۲_ حضرت زكريا نے جب لوگوں كے ساتھ گفتگو ميں عاجزى كا احساس كيا تو عبادت گا ہ سے نكل كر لوگوں كے پاس آگئے _فخرج على قومه من المحراب

۳_ حضرت زكريا، تين روزہ سكوت كى مدت ميں صبح وشام كى عبادت كا وقت داخل ہونے كا لوگوں كو اشارہ سے اعلان كرتے تھے _فخرج على قومه من المحراب فا وحى إليهم أن سبّحوا بكرة وعشيّا

احتمال ہے كہ لفظ بكرہ ( اور عتيّاَ ) فعل'' خرج'' اور'' اوحي'' كيلئے ظرف ہے اس صورت ميں آيت كا مطلب يہ ہوگا چونكہ حضرت ذكريا عبادت كے وقت ہونے كے اعلان كى ذمہ دارى اپنے دوش پر ليئے ہوئے تھے تو ان تين دنوں ميں جبكہ دہ لوگوں سے بات نہيں كرسكتے تھے _ صبح اور عصر ميں ''سَبحُوا'' كے فرمان كو اشارہ كے ذريعے انہيں سمجھاتے تھے _

۴_ حضرت زكريا كے زمانہ ميں لوگوں نے عبادت كيلئے ايك معين جگہ قراردى تھى _فخرج على قومه من المحراب

۵_ خاص جگہ كا عبادت كيلئے انتخاب، ايك پسنديدہ بات ہے كہ جسكے آثار گذشتہ اديان ميں بھى موجود ہيں _

فخرج على قومه من المحراب

۶_ حضرت زكريا، كے ہم مذہب لوگوں كے معبد كا نام''محراب'' تھا _فخرج على قومه من المحراب

۷_عبادت اور الله تعالى سے رازو نياز، شيطان اور الله تعالى كى راہ ميں دوسرى ركاوٹوں سے نبرد آزما ہونے كا ميدان ہے _

۶۰۷

المحراب ( محراب)كى وجہ تسميّہ يہ بيان كى گئي ہے كہ انسان وہاں شيطان سے جنگ كرتا ہے اسى طرح اپنے اند ر حضور قلب پيدا كرنے كيلئے اپنے نفس سے لڑتا ہے ( مصباح)

۸_حضرت زكريا(ع) نے عبادت گاہ سے نكلنے كے بعد اپنى قوم كو يحيى (ع) كى ولادت كى خوشخبرى كے متحقق ہونے كے وقت كو سمجھا يا _أن سبّحو ظاہر يہ ہے كہ جو كچھ حضرت زكريا(ع) اپنى قوم سے چاہا تھا وہ ہونے والے واقعات سے مربوط ہے يعنى حضرت زكريا نے مسئلہ كو انہيں سمجھا ديا اور اسے مواقع پر الله كى تسبيح اور تنزيہ كى ياد دلائي_

۹_ حضرت زكريا(ع) ،سكوت كے روزوں كے شروع ہونے كے بعد اپنى قوم كو عبادت كے متعلقہ احكام، اشارہ اور رمز كے ذريعے واضح كرتے تھے _فأوحى إليهم أن سبّحو ( ا وحى ) كا فاعل زكريا او ر( إليہم ) كى ضمير، قوم كى طرف لوٹ رہى ہے ہر وہ چيز جو سيكھنے كے قصد كے ساتھ كسى بھى صورت ميں دو سرے كيلئے القاء ہو، اسے وحى كہتے ہيں ( مصباح) اور اس آيت ميں مراد اشارہ ہے_ سورہ آل عمران كى (اكتا سويں ) آيت اسى معنى پر شاہد ہے _

۱۰_حضرت زكريا كى قوم، عبادت كيلئے انكى كى طرف سے پيش كيے جانے والے احكام پر عمل پيرا ہوتى تھى _

فأوحى إليهم أن سبّحوا

۱۱_ حضرت زكريا(ع) ، كى قوم ان سے عبادت كے متعلقہ احكام دريافت كرنے كے ليئے عبادت گاہ كے باہران كے انتظار ميں رہتى تھي_خرج على قومه أن سبّحوا

( خرج عليہ ) اور ( دخل عليہ ) اس وقت كہا جاتا ہے كہ جب كوئي شخص داخل ہوتے يانكلتے وقت كسى اور كاسامنا كرتا ہے حضر ت زكريا سے تسبيح كرنے كا فرمان صادر ہونا بتاتا ہے كہ انكى قوم، عبادت گاہ كے باہر انكے احكام سننے كيلئے آكٹھا ہوتى تھى _

۱۲_ حضرت زكريا نے اشارہ كے ساتھ اپنى قوم سے چاہا كہ وہ صبح و شام الله تعالى كى تسبيح كيا كريں _فأوحى إليهم أن سبّحوا بكرة وعشي ( بكرة ) صبح كى نماز اور سورج طلوع ہونے كے درميان كے فاصلہ كو كہا جاتا ہے ( لسان العرب) ''عشيا ''سے مراد يا تو ظہر سے غروب تك كا وقت ہے يا دن كاآخرى حصہ ہے اور بعض اہل لغت سے دوسرے معانى بھى نقل ہوئے ہيں (لسان العرب)

۱۳_ حضرت زكريا (ع) كى قوم تسبيح و عبادت كرنے والے اورالہى لوگ تھے _فخرج على قومه أن سبّحوا

۱۴_ الله تعالى كے وجود پر عقيدہ اور اسكى عبادت و تسبيح

۶۰۸

بشركى قديم تاريخ ميں گذشتہ زمانے ميں بھى تھى _قومه أن سبحوا بكرة و عشيا

۱۵_ صبح اور آخر روز الله تعالى كى تسبيح كيلئے مناسب وقت ہيں _ان سجوا بكرة وعشيا

۱۶_ الله تعالى بوڑھے والد اور بانجھ والدہ كو فرزند عطا كرنے كے حوالے سے ہر قسم كى ناتوانى سے پاك و منزہ ہے _

أن سبحوا

۱۷_حضرت زكريا (ع) كا بڑھاپے ميں بچےّ والا ہونا بتاتا ہے كہ الله تعالى ہر قسم كے نقص و عجز سے منزہ ہے _

أن سبحوا

اسماو صفات :صفات جلال ۱۶

الله تعالى :الله تعالى اور عجز ۷; الله تعالى اور نقص ۱۷;اللہ تعالى كا منزہ ہونا ۱۶; الله تعالى كى پرسش كى تاريخ ۱۳;۱۴; الله تعالى كے منزہ ہونے كى علامات ۱۷

بانجھ:بانجھ كا بچے والا ہونا ۱۶

بڑھاپا:بڑھاپے ميں بچے والا ہونا ۱۶

تربيت:حضرت يحيى كى ولادت كى بشادت ۸

تسبيح :الله تعالى كى تسبيح ۱۴; الله تعالى كى تسبيح كا وقت ۱۵; الله تعالى كى تسبيح كے آداب ۱۵;صيح ميں تسبيح ۱۲; ۱۵; عصر ميں تسبيح ۱۲;۱۵

زكريا :زكريا حضرت يحيى كى ولادت كے وقت ۱،۲; ۸;زكريا كا اشارہ ۳،۹;زكريا كا خاموشى كا روزہ ۲، ۳، ۹;زكريا كا قصہ ۱،۲،۸،۹، ۱۱، ۱۲; زكريا كا كلام كرنے سے عجز ۲; زكريا كا محراب ۶ ;زكريا كى تعليمات۱۱; زكريا كى تعليمات ۱۰ ; ۱۲; زكريا كى عبادت گاہ ۱، ۱۱;زكريا كى عبادت گاہ كانام ۶;زكريا كے بچے والے ہونے كے آثار ۱۷

زكريا كى قوم :زكريا كى قوم كى تسبيحات ۱۲; زكريا كى قوم كى خدا پرستي۱۳; زكريا كى قوم كى عبادات ۱۱، ۱۳; زكريا كى قوم كى عبادت گاہ ۴، ۶; زكريا كى قوم كى عبادت كى كيفيت ۱۰/شيطان :شيطان سے جنگ كرنے كا مقام ۷

عبادت :الله تعالى كى عبادت ۱۴; صبح ميں عبادت ۳ ; عبادت كے وقت كا اعلان ۳;عصر ميں عبادت ۳

عبادت گاہ :آسمانى اديان ميں عبادت ۵; عبادت كا كردار ۷;عبادت گاہ كى اہميت ۵; عبادت گاہ كى تاريخ ۵

عقيدہ :الله تعالى پر عقيدہ ۱۴;عقيدہ كى تاريخ ۱۳;۱۴

۶۰۹

آیت ۱۲

( يَا يَحْيَى خُذِ الْكِتَابَ بِقُوَّةٍ وَآتَيْنَاهُ الْحُكْمَ صَبِيّاً )

يحيى كتاب كو مضبوطى سے پكڑ لو اور ہم نے انھيں بچپنے ہى ميں نبوت عطا كردى (۱۲)

۱_ حضرت زكريا (ع) كيلئے خداوند عالم كى بشارت اور وعدہ جناب يحيى كى معجزہ نما ولادت كے ذريعہ وقوع پذير ہوا_

نبشرك بغلام اسمه يحيى يا يحيى خذالكتب

۲_ حضرت يحيى وحى دريافت كرنے اور الله تعالى كے نزديك ايك ممتاز شخصيت كے مالك تھے _يا يحيى خذالكتب بقوة

يہ كہ ( يا يحيى ) كى پكار كس جانب سے تھى دو احتمال ہيں ۱_ الله تعالى كى جانب سے فرشتہ وحى كے وسيلہ سے تھى ۲_ حضرت زكريا كى اپنے بيٹے يحيى كو نصيحت _آيت كا ظاہر پہلے احتمال كى تائيد كررہا ہے لہذا مندرجہ بالا مطلب اسى بنا ء پر ہے _

۳_ الله تعالى نے حضرت يحيى كو آسمانى كتاب (تورات) كى ہر طرح سے مكمل سمجھ بوجھ ركھنے اور اس پرحتمى طور پرعمل كا فرمان ديا تھا _يحيى خذالكتب بقوة

( الكتاب) پر (الف و لام ) عہدكا ہے ذور يہاں پر ممكن ہے كہ مرا د وہى توارت ہواسيلے كہ يحيى پر كوئي اور كتاب نازل ہوئي يہ معلوم نہيں ہے الله تعالى كافر مان ( خذ ) سمجھ بوجھ اور مكمل تدبر سے كنايہ ہے اور لفظ ( بقوة ) ''خذ ''كے فاعل كيلئے حال ہے اس سے مراد مقام تحصيل علم اور مقام عمل ميں ہر توانائي سے كام لينا ہے _

۴_ معارف اور الہى شريعت كى حفاظت اور اس كے احكام كا اجرا ئ، سختى اورطاقت كى كا محتاج ہے _

خذالكتب بقوة

۵_ معاشرہ كى ہدايت اور شرعى احكام كے اجراء كيلئے الہى رہبروں كى سختى اور قاطعيت كا ضروى ہونا _

يايحيى خذالكتاب بقوة

۶_ علماء اور دينى رہبروں كى آسمانى كتابوں ميں عميق فكر كرنا اور اسكے مطابق اپنے كردار كو محكم كرنے كى ضرورت ہے_يايحيى خذالكتات بقوة

۷_ حضرت يحيى كے زمانہ ميں تورات ايسى كتاب تھى جسميں تحريف نہيں ہوئي تھى بلكہ الله تعالى كى طرف سے تائيد شدہ تھى _يايحيى خذالكتب

۶۱۰

چونكہ امكان ہے كہ يہاں ( الكتاب ) سے مراد تورات ہو تو اس صورت ميں اسكے حصول كيلئے الہى فرمان اس كے مطالب پر صحت كى مہر لگانے كے مترادف ہے

۸_ درست فكر اور حق كى شناخت كى قدرت، الله تعالى كى طرف سے يحيى كو بچپن ميں حاصل ہوئي تھى _

وأتيناه الحكم صبيا

( حكم ) كے ليئے مختلف معانى ذكر ہوئے ہيں بس ايك اسكا معنى ( علم وفہم ) ہے( لسان العرب) مندرجہ بالا مطلب اسى معنى كى بنياد پرہے

۹_اللہ تعالى نے حضرت يحيي(ع) كوبچپن ميں الہى احكام كو اجراء كرنے كى قدرت عطا كى تھى _وأتيناه الحكم صبي

مندرجہ بالا مطلب ميں ( حكم ) سے مراد حاكميت اور قضاوت كا منصب ہے ( قاموس ) ميں آيا ہے كہ حاكم وہ ہے جو حكم جارى كرے _

۱۰_حضرت يحيي(ع) بچپن ميں منصب قضاوت پر فائز تھے _وأتيناه الحكم صبيا

( حكم ) اپنے مختلف معانى ميں سے ايك معنى كے مطابق مصدر اور قضاوت كرنے كے معنى ميں ہے ( لسان العرب)

۱۱_ حضرت يحيى بچپن ميں فوق العادہ استعداد كے حامل تھے _وأتيناه الحكم صبيا

۱۲_ الله تعالى كى طرف سے انسان كو حكمت اور معنوى ومعا شرتى مقام كى عطا، عمر كے كسى خاص حصے سے مشروط نہيں ہے _وأتيناه الحكم صبي

۱۳_ آسمانى كتابوں ميں غورو فكر، حكمت و علم كے حصول كيلئے ايك ضرورى شرط ہے _يا يحيى خذ الكتب بقوة وأتيناه الحكم صبي جملہ '' أتيناہ'' جملہ''خذالكتاب بقوة ''كے ساتھ مرتبط ہے بعيدمعلوم نہيں ہوتا كہ جملہ ''خذالكتاب'' كا جملہ(اتيناه الحكم) كے ليے پيش خيمہ ہو

۱۴_على بن اسباط قال : را يت أباجعفر (ع) فقال يا علّى إن الله إحتج فى الا مامة بمثل ما احتج به فى النبوة فقال : وأتيناه الحكم صبياً ...'' فقد يجوزان يؤتى الحكمة و هوصبى (۱) على بن اسباط كہتے ہيں : ميں نے امام جوادعليہ السلام كو ديكھا انہوں نے

____________________

۱) كافى ج۱ ص۳۸۴ح۷، نوراالثقلين ج۲ ص۳۲۵،ح۳۲_

۶۱۱

...مجھے فرمايا: اے على ابے شك الله تعالى نے امامت كےمقام پر ايسے ہى استدلال كيا ہے جيسے نبوت كے مسئلہ ميں استدلال فرما يا ہے : ''وأتيناه الحكم صبياً '' لہذا يہ ممكن ہے كہ حكمت ايك بچے كو بھى دى جائے _

۱۵_عن النبى (ص) فى قوله ''وأتيناه الحكم صبياً'' قال : اعطى الفهم والعبادة وهو ابن سبع سنين (۱) پيغمبر اكرم (ص) سے الله تعالى كى اس كلام'' وأتيناہ الحكم صبياً'' كے بارے ميں روايت ہوئي كہ آپ نے فرما يا انہيں سات سال كى عمر ميں فہم و عبادت عطا كى گئي _

۱۶_قال رسول الله (ص) قال الله تعالى : ''و أتيناه الحكم صبياً يعنى الزهد فى الدنيا (۲) رسول اكرم(ص) سے روايت ہوئي كہ : الله تعالى نے فرمايا ہے''وأتيناه الحكم صبياً'' يعنى دنيا ميں انہيں زہد ديا _

آسمانى كتب :آسمانى كتب كا كردار ۶; آسمانى كتب ميں تدبر كے آثار ۱۳; آسمانى كتب ميں فكر كى اہميت ۶

الله تعالى :الله تعالى كى بشارت كا محقق ہونا ۱; الله تعالى كى عطا ۸;۹; الله تعالى كے اوامر ۳

امامت :بچپن ميں امامت ۱۴

توريت :توريت كى تاريخ ۷;توريت كى تعليمات پر عمل ۳; توريت كى فہم ۳; توريت ميں تحريف ۷; يحيى كے زمانے ميں تورات ۷

حكمت :بچپن ميں حكمت ۱۴; حكمت كے عطا ء ہونے كى شرائط ۱۲;۱۳

دين :دين پر عمل ۴; دين كى حفاظت ۴

دينى رہبر :دينى رہبروں كا ہدايت دنيا ۵;دينى رہبر وں كى قاطعيت ۵; دينى رہبروں كے عمل كا معيار ۶

روايت :۱۴; ۱۵; ۱۶

زكريا :زكريا كو بشارت ۱/علم :علم كى شرائط ۳

علماء :علماء كے عمل كا معيار ۶/قدرت :قدرت كے آثار ۴

قضاوت :

____________________

۱) الدراالمنشور ج۵ص۴۸۴_

۲) مكارم الاخلاق ص۴۴۷ بحارالانوار ج۷۴ص۹۴ ح۱_

۶۱۲

بچپن ميں قضاوت ۱۰

معنوى مقامات :معنوى مقامات كى شرائط ۱۲

نبوت :بچپن ميں نبوت ۱۴

يحيى :يحيى اور احكام كا اجرا ء ۹;يحيى كا بچپن ۸ ، ۹ ، ۱۰ ، ۱۱ ، ۱۵ ،۱۶; يحيى كا زہد ۱۶; يحيى كے علم كا سرچشمہ ۸;يحيى كو وحى ۲;يحيى كى استعداد ۱۱; يحيى كى خصوصيات ۱۱;يحيى كى شرعى ذمہ دارى ۳ ; يحيى كى عبادات ۱۵;يحيى كى فہم ۱۵; يحيى كى فہم كا سرچشمہ ۸; يحيى كى قاطعيت ۳; يحيى كى قدرت ۹; يحيى كى قضاوت ۱۰; يحيى كى نبوت ۲ ; يحيى كى ولادت كا معجزہ ۱; يحيى كے فضائل ۸; يحيى كے مقامات ۲، ۹،۱۰،۱۵

آیت ۱۳

( وَحَنَاناً مِّن لَّدُنَّا وَزَكَاةً وَكَانَ تَقِيّاً )

اور اپنى طرف سے مہربانى اور پاكيزگى بھى عطا كردى اور وہ خوف خدا ركھنے والے تھے (۱۳)

۱_ الله تعالى نے يحيى كو رحمت ومحبت كى نعمت سے نوازا_ء اتيناه و حنا ناً من لدنا

( حنان ) مصدر ہے اور اسكا مطلب شفقت اور مہربانى ہے ( مصباح) اسكى تنوين تفخيم كيلئے ہے يہ كلمہ گذشتہ آيت ميں ( الحكم ) پر عطف ہے _

۲_ الله تعالي،محبت و شفقت كا منبع ہے اور اسے بعض منتخب بندوں كو عطا كرنے والا ہے _وحناناًمن لدنا

( من لدّنا ) يہ بيان كررہا ہے كہ يحيى كوعطا ہونے والى عطوفت ذات اقدس كى رحمت و عطوفت كے چشمہ سے ہوئي تھى _

۳_ انسان كا دردمند و شفقت كے احساسا ت سے مالامال ہونا اسكى عظمت كا موجب ہے _وحناناً من لدنا

۴_ حضرت يحيى (ع) اللہ تعالى كى بارگاہ ميں مقرب اور اسكے محبوب بندوں ميں سے تھے _وحناناً من لدنّا

حضرت يحيي(ع) كومحبت كے عطا ہونے ميں چار قسم كے تصور ہيں كہ (حناناً من لدنا ) كى صفت ان تمام كے ساتھ سازگا ہے _ الله تعالى يا لوگوں كى يحيى سے محبت اور حضرت يحيي(ع) كى الله تعالى يا لوگوں سے محبت _ مندرجہ بالا مطلب ميں الله تعالى كى ان سے محبت كا ذكر ہے _

۶۱۳

۵_ حضرت يحيى الله تعالى كے ارادہ كے زير سايہ لوگوں كى اپنى نسبت گہرى محبت كے حامل تھے _

وحناناً من لدنا

اس مطلب ميں ( حنانا) سے مراد، لوگوں كى يحيي(ع) كى نسبت محبت ہے _

۶_دوسرے كى نسبت گہرى محبت اور شفقت ايك ضرورى اور پسنديدہ ترين الہى رہبروں كى صفت ہے _

و حنا ناً من لدنا

يہ كہ (أتيناه الحكم ) كے بعد سب سے پہلى صفت(حنانا) آئي ہے مندجہ بالا مطلب اس سے ليا گيا ہے _

۷_ حضرت يحيى (ع) الله تعالى كى عنايات كے زير سايہ اسكے عاشق اور اسكے اشتياق سے سرشار تھے_حناناً من لدن

اس مطلب ميں ( حنانا ) كى صفت اس محبت كو بيان كررہى ہے جو الله تعالى نے يحيى كو اپنى نسبت عطا كى ہے_

۸_حضرت يحيي(ع) ، الله تعالى كى خاص عنايات كے زير سايہ خصوصى صلاحيت ، رشد اور كمال كے حامل تھے_

ئاتينه و زكوة

لفظ'' زكاة'' '' صلاحيت'' '' پاكيزگى '' ''رشد كرنا'' مبارك اور تمجيد و تعريف كے معنى ميں استعمال ہوتاہے _( لسان العرب) ہر مقام پر اسكا مناسب معنى مراد لياجائے گا _

۹_ حضرت يحيي(ع) ، ہميشہ سے باتقوى تھے _وكان تقي ( تقياً) مادہ ( وقى ) سے صفت مشبہ ہے_ يہ راسخ اور ثابت ہونے پر دلالت كرتى ہے _اور لفظ ( كان ) بھى بہت سے مقامات پر اپنے اسم كى حالت كے ثابت ہونے پر دلالت كرتا ہے لہذا ( وكان تقياً) يعنى يحيى ہميشہ پرہيز گا ر تھے_

۱۰_ حضرت يحيي(ع) كا تقوى اور پرہيزگار ى انكى حكمت ،الہى محبت اور معنوى كمال سے بہرہ مند ہونے كا پيش خيمہ تھى _وحناناً من لدنا و زكوة وكان تقيا يہ كہ ( وكان تقيا ً) كا سياق آيت (واتينا ه الحكم ) كى پہلى تعبير سے مختلف ہے كہ يہاں تقوى كو خود يحيى كى طرف نسبت دى گئي ہے حنان اورزكات كو الله تعالى كى طرف نسبت دى گئي ہے يہ چيز واضح كررہى ہے كہ يحيى كا تقوى بعنوان عمل نفسى انكے الہى عطيا ت كے حامل ہونے كا پيش خيمہ تھا _

۱۱_حضرت يحيي(ع) ( اپنى الہى كتاب پر عمل اور الہى احكام كے اجرا ء كى ذمہ دارى ميں معمولى سى كوتاہى برداشت نہيں كرتے تھے _وكان تقيا گذشتہ آيت كے قرينہ كى بناپر ( تقياً) كا متعلق وہ ذمہ دارياں ہيں جو يحيى پرعائد تھيں اور انہوں نے اپنى ذمہ دارى كو اس طرح ادا كيا كہ اپنے ليے اسے الہى عذاب سے حفاظت اور بچاؤ كا ذريعہ قرار ديا _

۶۱۴

۱۲_ الہى تقوى كى رعايت، انسان كے رشد و كمال كا پيش خيمہ ہے _زكوة و كان تقي

۱۳_ عن أبى عبدالله (ع) فى قوله تعالى : (وحناناً من لدنا ) قال :إنّه كان يحيى إذا دعاقال فى دعائة: ''يارب يا الله '' ناداه الله من السماء لبيك يا يحيى سل حاجتك (۱) امام صادق (ع) سے الله تعالى كے كلام (حنانا ً من لدنا ) كے بارے ميں روايت نقل ہوئي ہے كہ بے شك يحيي(ع) جب دعا كيا كرتے تو اپنى دعا ميں كہتے تھے _ اے پروردگار اے خدا تو خداوند عالم آسمان سے انہيں ندا ديتا تھا لبيك اے يحيى اپنى حاجت طلب كرو _

الله تعالي:الله تعالى كے اراد كے آثار ۵; الله تعالى كے عطيات ۱;۲;۸

الله تعالى كے برگزيدہ بندے :الله تعالى كے برگزيدہ بندوں كى مہربانى ۲

الله تعالى كا لطف :الله تعالى كے لطف كے شامل حال افراد۷

الله تعالى كے محب:۷الله تعالى كے محبوب :۴

اہميتں :اہميتوں كا معيار ۳

تقوى :تقوى كے آثار ۱۳

دينى رہبر :دينى رہبروں كى مہربانى ۶; دينى رہبروں كے صفات---۶

روايت :۱۳

كمال :كمال كاپيش خيمہ ۱۲

مہربانى :مہربانى كى عظمت ۳; مہربانى كاسرچشمہ۲

يحيى :يحيى سے محبت كاسرچشمہ ۵; يحيى كا اپنى ذمہ دارى پر عمل ۱۱;ييحيى كا تقرب ۴; يحيى كا كمال ۸;يحيى كى حكمت كا پيش خيمہ ۱۰; يحيى كى دعا ۱۳;يحيى كى محبت ۷; يحيى كى محبوبيت ۴ ; يحيى كى محبوبيت كا پيش خيمہ ۱۰; يحيى كى مہربانى ۱; يحيى كے احساسات ۱;يحيى كے تقوى كے آثار ۱۰;يحيى كے تقوى ميں دوام ۹;يحيى كے فضائل ۵;۸;۹

____________________

۱)محاسن برقى ج۱ص۳۵ح۳۰نورالثقلين ج۳ ص ۳۲۶ح۳۶_

۶۱۵

آیت ۱۴

( وَبَرّاً بِوَالِدَيْهِ وَلَمْ يَكُن جَبَّاراً عَصِيّاً )

اور اپنے ماں باپ كے حق ميں نيك برتاؤ كرنے والے تھے اور سركش اور نافرمان نہيں تھے (۱۴)

۱_ حضرت يحيي(ع) ، اپنے ماں باپ كى نسبت بہت زيادہ نيكى كرنے والے تھے _وبراًبوالديه

لفظ (برا) گذشتہ آيت ميں ( تقيا ً)پرعطف ہے اور كلمہ ( بار ) كا معنى ديتا ہے البتہ چو نكہ ( برّ) ميں مبالغہ ہے لہذا ( برّالوالدين ) سے مراد انكى نسبت بہت زياد ہ نيكى اور احسان كرنا ہے _ (مفردات راغب)

۲_ ماں باپ كے ساتھ نيكى اور احسان، الله تعالى كے نزديك انتہائي عظمت كا حامل ہے _و برّاًبوالديه

۳_ والدين كے ساتھ احسان كرنا، تقوى كا واضح نمونہ اور اس كا لازمہ ہے _وكان تقياً _ و برًا بوالديه

۴_ والدين كے ساتھ نيكى كرنا، انسان كے رشد اور معنوى كمال كيلئے پيش خيمہ ہے _وزكوة وبرًاً بوالديه

جس طرح جملہ (وكان تقيّاَ)جملہ (حنا ناً من لدنا ) كيلئے علت تھا جملہ (''برًا بوالديه'' بھى كان ) پر عطف ہے اور يہى مقام ركھتا ہے _

۵_ حضرت يحيي(ع) لوگوں كے ساتھ اكڑنے، بڑائي كا اظہار كرنے ، بلا وجہ رعب جمانے اور لوگوں كى حاجات سے منہ پھير نے جيسى خصلتوں سے پاك تھے_و لم يكن جباراً عصيا

''جبار''مبالغہ كا صيغہ ہے جس كے معنى اكٹر نے كے ہے كہ جس ميں انسان دوسرے كے حق كا لحاظ نہيں كرتا (لسان العرب )اور اسى طرح ماحول پر مسلّط ہونے اور جھوٹى بڑائي كا دعوى كرنے والے كے معنى ميں بھى آيا ہے_ (مفردات راغب ) ( عصي) بھى صيغہ مبالغہ ہے تو لوگوں سے مربوط'' برًا'' اور'' جبا راً'' كے قرينہ كى بناء پر عصى سے مراد لوگوں كى حاجات كو پورانہ كرنے والااور انكے مقابل ميں انكسارى سے كام نہ لينے والاہے، كلام منفى ميں صيغہ مبالغہ كا استعمال گويا نفى ميں مبالغہ كا معنى دے رہا ہے _

۶_ حضرت يحيي، اپنے والدين سے نيكى كرنے كے علاوہ كبھى انكے ساتھ زبردستى سے كام نہيں ليتے تھے اور نہ ہى انكے فرمان كے خلاف سراٹھا تے تھے _وبرابوالديه ولم يكن جباراً عصيا

چونكہ گذشتہ جملات، حضرت يحيي(ع) كے بارے ميں محبت اور شفقت كوبيان كررہے تھے اور انكے واضح صفات ميں

۶۱۶

سے انكى والدين كے ساتھ نيكى كى طرف اشارہ كيا گيا ہے لہذا احتمال ہے كہ يہاں جباريت اور عصيان كى نفى كا تعلق بھى انكے والدين كے ساتھ مربوط ہو لہذا كہا جاسكتا ہے كہ حضرت يحيى اپنے والدين كے سامنے نہايت خاضع اور ان كے فرمان كے مطيع تھے_

۷_ حضرت يحيى ، الله تعالى كے سامنے گناہ سے پاك تھے_

يہ بھى كہا جاسكتا ہے كہ جملہ''و لم يكن عصيا'' مطلق سركشى اور گناہ ( لوگوں كى حاجات كو رد كرنايا الله كے حضور معصيت ہو ) كى نفى پر دلالت كررہا ہے _

۸_ حضرت يحيى الله تعالى ، والدين اور معاشرہ كے مقابلے ميں ايك وظيفہ شناس اور ذمہ دار انسان تھے _

و كان تقياً وبرًا بوالديه ولم يكن جباراً عصيا

''تقياً'' حضرت يحيى كا خدا سے رابطہ كى نشانى ، ''براًبوالديہ'' والدين كے ساتھ اور لم يكن جباراً لوگوں اور معاشرہ كے ساتھ رابطہ كى نشانى ہے _

۹_تكبر، تسلّط كى خواہش اور سركشى جيسى صفات ، انسان كے رشد اور كمال كيلئے ركاوٹيں ہيں _

و ء اتينه ...زكوة وكان ...و لم يكن جباراً عصيا

جملہ ''لم يكن ''گذشتہ آيت ميں جملہ كان پرعطف ہے اور جملہ''أتيناه الحكم وزكاة ''كيلئے ايك اور علت بيان كررہا ہے _

۱۰_غرور اور سلطہ طلبى عصيان اور گناہ كا پيش خيمہ ہے _ولم يكن جبّاراً عصيّا

۱۱_ حضرت يحيى (ع) ، حضرت زكريا (ع) كى آرزو كے مطابق فرزند تھے كہ جنكا اخلاق و كردا ر انكى رضايت كے عين مطابق تھا _و كان تقيّا وبرًا بوالديه و لم يكن جبّاراً عصيّا

حضرت زكريا (ع) كى دعا (واجعله ربّ رضيّاً ) كے بعد حضرت يحيي(ع) كے اوصاف كا بيان ہونا حضرت يحيى كے اوصاف كى حضرت زكريا كے دعا سے مطابقت واضح كررہا ہے _

بڑائي كا اظہار :بڑائي كے اظہار كے اسباب ۹//تقوى :تقوى كى علامات ۳

تكبر :تكبر كے آثار ۱۰//زكريا (ع) :زكريا (ع) كى تمنائيں ۱۱; زكريا كے بيٹے ۱۱

۶۱۷

سلطہ طلبى :سلطہ طلبى كے آثار ۹;۱۰

عصيان:عصيان كا پيش خيمہ ۱۰; عصيان كے آثار ۹

عظمتيں :۲

كمال:كمال كا باعث ۴; كمال كيلئے ركاوئيں ۹

گناہ :گناہ كا باعث ۱۰

والدين :والدين سے نيكى ۱،۳،۶;والدين سے نيكى كى اہميت ۲; والدين سے نيكى كے آثار ۴

يحيى :يحيى كے فضائل ۵،۶،۸،۱۱;يحيى اور سلطہ طلبى ۵; يحيى اور گناہ ۷; يحيى اور والدين كے ساتھ زبردستى ۶; يحيى سے رضايت ۱۱;يحيى كا اپنى شرعى ذمہ دارى پر عمل ۸;يحيى كا ذمہ دارى لينا ۸;يحيى كى پاكيزكي۵،۷; يحيى كى عصمت ۷; يحيى كى نيكى ۱،۷;يحيى كے اخلاق ۱۱;يحيى كے مقامات ۷

آیت ۱۵

( وَسَلَامٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوتُ وَيَوْمَ يُبْعَثُ حَيّاً )

ان پر ہمارا سلام جس دن پيدا ہوئے اور جس دن انھيں موت آئي اور جس دن وہ دوبارہ زندہ اٹھائے جائيں گے (۱۵)

۱_ حضرت يحيى (ع) اپنى ولادت ، وفات اور حشر پر الله تعالى كے خصوصى سلام ميں شامل ہيں _

وسلم عليه بوم ولد و يوم يموت ويوم يبعث حيا

۲_ حضرت يحيى (ع) اپنى ولاد ت كے موقع پر ہر قسم كے گزند اور نقص سے امان ميں تھے اور رشد و كمال كيلئے تمام ضرورى اسباب و شرائط ان ميں مہيا تھيں _وسلم عليه يوم ولد

سلام كے چند معانى ہيں ايك معنى ہرقسم كے گزند اور آفت سے سلامتى ہے _ البتہ الله تعالى كى طرف سے سلام ،تكوينى حيثيت كا ہے اورحوادث كے حوالے سے ايك خبر ہے پس (سلام عليہ ) يعنى الله تعالى كى طرف سے حضرت يحيى (ع) ہر قسم كے جسمى ضرراور عقيدہ كے حوالے سے انحراف سے ضمانت شدہ ہيں _

۳_حضرت يحيى (ع) ، اپنى موت اور روز قيامت ہر قسم كے رنج اور عذاب سے محفوظ ہيں _

وسلم عليه يوم يموت و يوم يبعث حيا ً

( ولد ) فعل ماضى ہے اور'' يموت '' فعل مضارع ہے تو سياق ميں يہ تبديلى بتاتى ہے كہ آيت كا مطلب حضرت يحيى كى

۶۱۸

زندگى كا زمانہ منعكس كررہا ہے كہ الله تعالى نے اس زمانہ ميں انكى ولادت كى عافيت كى خبردى اور انكى موت اور روز قيامت كے حشر كى بھى ضمانت اور خوشخبر ى دى ہے _

۴_حضرت يحيى (ع) ، الله تعالى كے حضور خصوصى كرامت و عظمت كے حامل تھے _وسلم عليه يوم ولد و يوم يموت ويوم يبعث حيا

۵_ انسان كے لي ے ولادت كا زمانہ ، موت كے لمحات، اور روزقيامتتين حساس اور تقدير ساز مرحلے ہيں _

وسلم عليه يوم ولد و يوم يموت و يوم يبعث حيا

۶_ انسان، موت كے لمحات ميں بھى ( ولادت اور قيامت كے زمانوں كى مانند ) الله تعالى كى جانب سے خصوصى سلامتى اور امان كا محتاج ہے_و سلم عليه يوم ولد و يوم يموت و يوم يبعث حيا

( سلام )كا نكرہ ہونا ان كے ممتاز ہونے كو بيان كررہا ہے، موت كے وقت سلامتى سے مراد وحشت اضطراب اور نااميدى جيسے رنج دينے والے اسباب كا سامنا كرنے كى صورت ميں امان ميں ہونا ہے_

۷_ تقوى ،والدين كے ساتھ احسان ، تسلطّ كى خواہش اور عصيان سے پرہيز، مكمل سلامتى اور امان سے سرشار انجام كا باعث ہيں _و كان تقياً _ وبراًبوالديه و لم يكن جباراً عصياً و سلم عليه يوم ولد ويوم يموت و يوم يبعث حيا

۸_ انسان، روز قيامت دوبارہ زندہ ہونگے _يوم يموت و يوم يبعث حيا ً

( حياً) حال ہے ( يوم يموت ) ميں انسان كى موت كے بعد اسكى بعث سے مقصود يہ ہے كہ حشر كے روز تمام انسان دوبارہ زندہ ہونگے _

۹_ حضرت يحيى كى آخرت ميں خصوصى زندگى ہوگى _و يوم يبعث حي فعل (يبعث )زندہ ہونے پر بھى دلالت كرتا ہے_ بعد ميں (حياً) كى تصريح ممكن ہے اس ليے ہو كہ ذوسرے انسانوں كے مقابلے ميں حضرت يحيى كى ايك خصوصى زندگى ہے _

۱۰_عن أبى الحسن الرضا (ع) : إن أوحش ما يكون هذا الخلق فى ثلاثه مواطن يوم ولد ويوم يموت و يوم يبعث وقد سلّم الله عزوجل على يحيى فى هذه الثلاثه المواطن وآمن روعته فقال : وسلام عليه يوم ولد ويوم يموت ويوم يبعث حياً (۱) امام رضا(ع) سے روايت نقل ہوئي ہے كہ مخلوق كيلئے تين وحشتناك ترين مقام ہيں

____________________

۱)عيون اخبار الرضا ج۱ص۲۵۷ب۲۶ح۱۱، نورالثقلين ج۳ص۳۲۷ح۳۸_

۶۱۹

:جس دن وہ پيداہواور جس دن وہ فوت ہو اور جس دن وہ اٹھا يا جائے گا اور الله تعالى نے حضرت يحيى ان تينوں مقامات كے لحاظ سے سلام بھيجا اور ان مقامات كى وحشت سے انہيں امان دى اور فرمايا :وسلام عليہ يوم ولد ويوم يموت ويوم يبعث حياً _

الله تعالي:الله تعالى كا سلام ۱

امان :امان كا باعث ۷; امان كا سرچشمہ ۶; ولادت كے وقت امان ۶

انجام :اچھے انجام كا پيش خيمہ ۷/انسان :انسان كى احتياج ۶

تقدير :تقدير ميں تاثير ركھتے والے اسباب ۵

تقوى :تقوى كے آثار ۷

روايت :۱۰

سلامتى :سلامتى كا پيش خيمہ ۷; سلامتى كا سرچشمہ ۶;/ولادت كے وقت سلامتى ۶

سلطہ طلبى :سلطہ طلبى سے بچنے كے آثار ۷/ضرورتيں :امان كى ضرورت ۶; سلامتى كى ضرورت ۶

عصيان :عصيان سے بچنے كے آثار ۷

قيامت :قيامت كے وقت امان ۶; قيامت كى اہميت ۵; قيامت كا خوف ۱۰ ; قيامت كے وقت سلامتى ۶

مردے :مردوں كاآخرت ميں زندہ ہونا ۸

موت :موت كے وقت كى اہميت ۵; موت كا خوف ۱۰

والدين :والدين سے نيكى كے آثار ۷

ولادت :ولادت كے وقت كى اہميت ۵; ولادت كا خوف ۱۰

يحيى (ع) :قيامت ميں يحيى (ع) ۱;۳;۱۰;يحيى (ع) پر سلام ۱; ۱۰ ; يحيى (ع) پر سلامتى ۱;۲;۳;يحيي(ع) كى اخروى زندگى كى خصوصيات ۹ ;يحيى (ع) كى موت ۱;۳;۱۰; يحيى (ع) كى ولادت ۱; ۲;۱۰; يحيى (ع) كے فضائل ۲;۳; ۹ ; يحيى (ع) كے كمال كا باعث ۲;يحيى (ع) كے ليے امان ۲; ۳

۶۲۰

آیت ۱۶

( وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ مَرْيَمَ إِذِ انتَبَذَتْ مِنْ أَهْلِهَا مَكَاناً شَرْقِيّاً )

اور پيغمبر اپنى كتاب ميں مريم كا ذكر كرو كہ جب وہ اپنے گھروالوں سے الگ مشرقى سمت كى طرف چلى گئيں (۱۶)

۱_ حضرت مريم(ع) كى داستان كے بارے ميں آيات پر خصوصى توجہ اور قران ميں حضرتعيسي(ع) كى ولادت كى داستان كى وضاحت، پيغمبر كے كندھوں پر ايك الہى ذمہ دارى ہے _واذكرفى الكتب مريم

( اذكر ) پيغمبر كى طرف خطاب ہے اگر چہ آپ بغير كسى حكم خاص كے بھى قران ميں نازل شدہ آيات بيان كياكرتے تھے ليكن ان آيات كے بيان پر تاكيد سے مقصود حضرت مريم كے حضرتعيسي(ع) كے حوالے سے حاملہ ہونے كے واقعہ كى اہميت اور اس چيز كے اس معاشرہ پر گہرے اثرات كا بيان تھا _

۲_ قرآن، رسول خدا (ص) كے زمانہ ميں ايك تدوين شدہ مجموعہ تھا _واذكر فى الكتب

( الكتاب ) ميں ''الف و لام'' عہد حضورى ہے اور مو جو وہ كتاب پر دلالت كررہا ہے _

۳_حضرت مريم نے اپنےگھر والوں سے جدا ہوكر مسجد الاقصى كے شرقى جانب بسيرا كرليا _

واذكر مريم إذا انتبذت من أهلها مكانا شرقيا

(انتباذ ) كا مادہ ( نبذ ہے كہ جسكا معنى دور ہونا ہے (مكاناً شرقياً ) يعنى شرق كى جانب جگہ چونكہ حضرت مريم (مسجدالاقصى ) معبد كيلئے وقف تھيں تو يہاں مسجد الاقصى كے مشرق ميں مكان مقصود ہے _

۴_ حضرت مريم كے رشتہ دار مسجد الاقصى كى مشرقى جانب سے ہٹ كر مقيم تھے _انتبذت من أهلها مكاناً شرقي

۵_ حضرت مريم حاملہ ہونے سے پہلے مسجد الاقصى كے قريب ساكن رہنے والے رشتہ داروں كے پاس آيا كرتى تھيں _

إذا انتبذت من أهلها مكاناً شرقيا

بائيسويں آيت ميں قرينہ (مكاناً قصبا ) جو كہ حضرت مريم كے دوسرے انتخاب شدہ مكان كے بارے ميں بتا رہاہے كہ معلوم ہوتا ہے كہ مسجد الاقصى كا مشرقى حصہ لوگوں كے رہائشى علاقہ كے قريب تھا _

۶_ حضرت مريم كے قانون شريعت ميں گھر كا مشرقى حصّہ يا معبد عبادت كيلئے بہتر مقام تھا _إذانتبذت من أهلها مكانا ً شرقيا ً

۶۲۱

حضرت مريم كے گوشہ نشين ہونے كى وجہ واضح نہيں ہے اور آيت ميں اس حوالے سے كوئي شاہد نہيں ديكھا گيا _ بعض كے بقول : انہوں نے مكان كا انتخاب عبادت ميں خلوت كى بناء پر كيا تھا _اور مسجد الاقصى كا مشرقى حصہ انتخاب كرنے كى وجہ مشرقى حصہ كا عبادت كے لےئے بہتر ہونا تھا بعض نے حضرت مريم كے اس اقدام كو خواتين سے متعلقہ امور سے جانا ہے كہ جس كى بنا ء پر قرآن ميں عمدا ً اس بارے ميں كچھ نہيں كہا گيا تو اس صورت ميں مشرقى جانب كا انتخاب، صرف اپنے مقاصد كے بہتر ہونے كى بناء پر تھانہ كہ شرعا ً بہتر تھا _

۷_حضرت مريم نے اپنى عبادت كيلئے اس مكان كا انتخاب كيا كہ جس كا رخ مشرق كى جانب تھا _

إذانتبذت من أهلها مكاناً شرقيا ( شرقي) يعنى مشرق كى طرف ( لسان العرب )

۸_ حضرت مريم نے اپنے وجود ميں كسى چيز كى بناء پررنجيدہ ہو كر گوشہ نشينى اور لوگوں كى نگاہوں سے دور جگہ كا انتخاب كيا _إذ انتبذت من أهله ( نبذ) يعنى كسى چيز كو بے پرواہى كى بناء پر دورپھينكنا اور ( انتباذ) يعنى اس شخص كا گوشہ نشين ہونا كہ جو لوگوں ميں اپنے آپ كو كمتر اورنا چيز سمجھے ( مفردات راغب ) بعض احتمالات كہ جو حضرت مريم كے گوشہ نشيں ہونے كى وضاحت ميں بيان ہوئے ہيں مثلاماہوارى كے ايام و غيرہ گزارنے كيلئے كہ وہ اس معنى كے ساتھ مناسب ہيں _

آنحضرت (ص) :آنحضرت(ص) كى ذمہ دارى ۱; آنحضرت(ص) كے زمانہ ميں قران ۲

ذكر :عيسي(ع) كے قصہ كا ذكر۱;مريم كے قصہ كا ذكر ۱

عبادت :عبادت كے آداب ۶;مشرق كى جانب عبادت ۷; عبادت كے مكان كا كردار۶; مشرقى مكان ميں عبادت ۶

عبادتگاہ :عبادتگاہ كے مشرقى جانب عبادت ۶

عيسى :عيسي(ع) كى ولادت ۱;عيسي(ع) كے قصہ كى وضاحت ۱

قران :قران كا جمع ہونا ۲; قران كى تاريخ ۲

مريم(ع) :مريم كى سكونت ۵; مريم كا قصہ ۳;۵;۸; مريم كى

۶۲۲

پناہ گاہ ۳; مريم كى عبادتگاہ كى سمت۷;مريم كى گوشہ نشينى كے اسباب ۸;مريم كے رشتہ داروں كى سكونت ۴;۵;مريم كے قصہ كى وضاحت ۱; مسجدالاقصى كے قريب مريم۴، ۵; مسجدالاقصي كے قريب مريم كے رشتہ دار ۴;۵

مسجد الاقصى :مسجدالاقصى كى مشرق سمت ۳

ـآیت ۱۷

( فَاتَّخَذَتْ مِن دُونِهِمْ حِجَاباً فَأَرْسَلْنَا إِلَيْهَا رُوحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَراً سَوِيّاً )

اور لوگوں كى طرف پردہ ڈال ديا تو ہم نے اپنى روح كو بھيجا جو ان كے سامنے ايك اچھا خاصا آدمى بن كر پيش ہوا (۱۷)

۱_حضرت مريم نے مسجدالاقصى كى مشرقى جانب لوگوں كى نگاہوں سے دورايك مكان منتخب كيا اور خود كو لوگوں سے پنہاں كيا _فاتخذت من دونهم حجاب

حجاب سے مراد ساتر، يا ايسى چيز جو پردے كا كام د ے _ تو ( اتخذت ...حجابا ً) سے مراد پردہ ڈالنا يا ايسى جگہ جانا جو طبيعى طور پر پردے كا كام دے مثلا ديوار يا پہاڑ غيرہ كى مانند ہوں _

۲_ وہ مكان كہ جہاں مريم(ع) لوگوں كى نگاہوں سے پنہاں ہو جاتى تھيں وہ لوگوں كے رہائشى علاقہ كے قريب تھا _

من دونهم كلمہ ( دون) كبھى قريب اور كبھى حقارت كيلئے استعمال ہوتا ہے ( العين )

۳_ حضرت مريم كا شرقى سمت ايك پنہاں مكان ميں رہنے كے بعد الله تعالى نے ايك انتہائي مكرم فرشتہ انكيجانب بھيجا _

فاتخذت من دونهم حجاباً فأرسلنا إليها روحنا

بعد والى آيات ميں اس فرشتہ كى جو صفات ذكر ہوئيں ہيں انكى بناء پر يہاں ''روحنا'' سے مراداللہ تعالى كى بارگاہ ميں ايك انتہائي مكرم اور عظيم المنزمت فرشتہ ہے كہ جسے الله تعالى كى طرف نسبت دى گئي ہے وہ آيات جوحضرت جبرئيل كو'' روح الامين'' او ر''روح القدس'' كے نام سے يا د كرتى ہيں انہيں ديكھتے ہوئے ہم كہہ سكتے ہيں كہ يہ فرشتہ جبرئيل ہے _

۴_حضرت مريم كا اپنے فرزند حضرتعيسي(ع) سے حاملہ ہونے كيلئے ضرورى تھا كہ وہ لوگوں كى نگاہوں سے دور ايك خلوت والى جگہ پرہوں _فاتخذت من دونهم حجاباً فأرسلنا إليها روحنا ( فأرسلنا ) ميں ( فائ) تفريع كيلئے ہے _اور يہ بتاتى ہے كہ حضرت مريم كے گذشتہ كام انكے حضرتعيسي(ع) كى والدہ كا مقام پانے اور الہى فرشتہ كے نزول كا پيش خيمہ ہيں _

۵_حضرت مريم كا الله تعالى كى بارگاہ ميں عظيم وبلند مقام_فا رسلنا إليهاروحنا

۶۲۳

۶_عبادت كے وقت، جسمانى نمائش سے پرہيز اور اپنے آپ كو با پردہ ركھنا خواتين كى اہم خصوصيت ہے _

فاتخذت من دونهم حجابا فأرسلنا إليها روحنا

حضرت مريم ايسے مكان كى طرف جارہى تھيں جو لوگوں كى نگاہوں سے دورہو اور عبادت كے وقت انہيں نامحرم كا سامنا نہ كرنا پڑے _

۷_ حضرت جبرائيل (ع) جسما نيتسے منزہ اور شرف ومنزلت پر فائز موجود كا نام ہے_فا رسلنا إليها روحنا

( روح ) كا ( نا) كى طرف اضافہ تشريفى ہے روح كوبھيجنے كا مطلب يہ ہے كہ وہ روح ايك مستقل موجود كہ جو الله تعالى كا مطيع تھا اور سفير كے فرائض انجام دينے كى قابليت ركھتا تھااور اسے اپنى رسالت كے مفاہيم سے آشنائي تھى بشر ى صورت ميں اپنے آپ كو مجسّم كرنا اس بات كى دليل ہے كہ وہ اس كام كو انجام دينے پر قادر اور جسمانى شكل اختيار كرنے كے ليے ساز گار تھے چونكہ يہ سب خصوصيات حضرت جبرئيل(ع) پر تطبيق كررہى ہيں جسكى وجہ سے بعض مفسرين نے كہا كہ وہ فرشتہ جو حضرت مريم، پرنازل ہوا وہ حضرت جبر(ع) ئيل تھے _

۸_ الله تعالى كا خصوصى نمائندہ، ايك عا م ا نسان كى مانند تمام جسمانى خصوصيات كے ساتھ حضرت مريم كے سامنے نمودار ہوا _فتمثل لها بشراً سوي

( تمثيل ) يعنى شكل بناتا اور ايك چيز كى صورت ميں نمود ار ہونا _ يہاں ( بشراً)'' تمثل'' كے فاعل كيلئے حال ہے اس سے مراد بعد والى آيت كے قرينہ كى رو سے مردہے ( سويا ً) يعنى معتدل ( بشراً) سويا يعنى انسان معتدل جوكہ جسمانى خصوصيات ميں افراط تفريط سے منزہ ہو _

۹_الہى فرشتہ كا حضرت مريم(ع) كيلئے جو چہرہ جلوہ گر ہوا وہ انكے ليے نا آشنا اور انكے ہم و طنوں اور رشتہ داروں جيسا بھى نہ تھا _بشراً سويا

( بشراً) اسم نكرہ ہے اور كسى كے نا آشنا ہونے پر دلالت كرتاہے _

۱۰_فرشتوں كا مادى صورتيں اختيار كرنا اور ان صورتوں ميں جلوہ گر ہونا، ايك ممكن اور محقق شدہ مسئلہ ہے _

فأرسلنا إليها روحنا فتمثل لها بشراً سويا

۱۱_ فرشتوں كوديكھنا اور ان سے گفتگو كرنا، صرف پيغمبروں كے ساتھ منحصر نہيں ہے _

فأرسلنا إليها روحنا فتمثل لها بشرا ً سويا

۶۲۴

چونكہ حضرت مريم مقام نبوت پر فائز نہ تھيں ليكن اسكے با وجود انہوں نے فرشتہ كا مشاہدہ كيا اور اس سے كلام كيا اس سے ثابت ہوا كہ يہ مسئلہ صرف پيغمبر وں كے ساتھ منحصر نہيں ہے _

۱۲_ عورت ميں معنويت كے بلند ترين درجات تك پہنچنے اور فرشتوں سے گفتگو اور ملاقات كرنے كى لياقت موجود ہے _

فأرسلنا إليها روحنا فتمثل لها بشراً سويا

۱۳_عن الأصبغ بن نباتة قال علي(ع) جبرئيل من الملائكةوالروح غير جبرائيل قال ( الله ) لمريم ( فأرسلنا إليها روحنا فتمثل لها بشراًسوياً ...) (۱) اصبغ بن نبانہ سے روايت نقل ہوئي ہے كہ حضرت علي(ع) نے فرمايا : جبرئيل فرشتوں ميں سے ہے جب كہ روح جبرئيل كے علاوہ ہے الله تعالى نے

حضرت مريم كے بارے ميں فرمايا ہے :فإرسلنا إليها روحنا فتمثل لها بشراً سويا ً

۱۴_قال الباقر(ع) : إنها ( مريم) بشرت بعيسى فبيناهى فى المحراب إذ تمثل لها الروح الا مين بشراًسويا ً امام باقر (ع) نے فرمايا : حضر ت مريم(ع) كو حضرت عيسي(ع) كى ولادت كى بشادت دى گئي تھى جب وہ محراب ميں تھيں تو اچانك روح الامين انسان كا مل كى شكل ميں ان پر ظاہر ہوئے _

تربيت:حضرت عيسي(ع) كى ولادت كى بشارت ۱۴//پردہ :پردہ كى رعايت كى اہميت ۶

جبرئيل(ع) :جبرائيل سے مراد ۱۳; جبرائيل كا مجسم ہونا ۱۴ ; جبرائيل كى حقيقت ۷ ;جبرائيل كے مجسم ہونے كى خصوصيات ۸; جبرائيل كےمقامات ۷

روايت : ۱۳;۱۴

روح :روح سے مراد ۱۳//عبادت :عبادت كے آداب ۶; عبادت ميں پردہ ۶

عمل :پسنديدہ عمل ۶//عورت :عورت كا كمال ۱۲;عورت كے مقامات ۱۲

مريم 'س':

____________________

۱)الغاراتج۱ص۱۸۴،بحارالاانوار ج۴ ۹ص۵ ح ۷ _

۲)قصص الانبياء راوندى ص۲۶۴ح۳۰۳ بحارالاانوار ج۱۴ص۲۱۵ح۱۴_

۶۲۵

مريم'س' پر جبرائيل كا نزول ۳،۸; مريم'س' كا تقرب۵; مريم'س' كا قصہ ۱،۲،۳، ۴،۸، ۹ ، ۱۴ ;مريم'س' كو بشادت ۱۴; مريم'س' كى پناہ گاہ ۱،۲;مريم'س' كى گوشہ نشينى ۱،۴; مريم'س' كے حمل كا پيش خيمہ ۴ ;مريم'س' كے مقامات۵

مسجدالاقصى :مسجدالاقصى كى مشرقى سمت ۱

ملائكہ :ملائكہ سے گفتگو۱۱;۱۲;ملائكہ كا ديكھا جانا ۱۱;۱۲; ملائكہ كا مجسم ہونا ۹;۱۰

آیت ۱۸

( قَالَتْ إِنِّي أَعُوذُ بِالرَّحْمَن مِنكَ إِن كُنتَ تَقِيّاً )

انھوں نے كہا كہ اگر تو خوف خدا ركھتا ہے تو ميں تجھ سے خدا كى پناہ مانگتى ہوں (۱۸)

۱_ ايك اجنبى شخص ميں تقوى كا احساس اور خوف خدا ابھارنا يہ حضرت مريم كا اسے اپنى خلوت گاہ ميں ديكھنے كے بعد اعتراض آميز ردّ عمل تھا _قالت إنى أعوذبالرحمن منك إن كنت تقيا

جملہ ( إن كنت تقيا ً) جملہ شرطيہ كے قالب ميں تقوى كى طرف دعوت ہے آيت كا مطلب يہ ہے كہ اگر متقى ہو ،كہ ہونا چاہيے------_-- مجھ سے دور ہوجا اوراپنے آپ كو الہى غضب ميں مبتلا ء نہ كرو ميں نے اپنے آپ كو اسكى پناہ ميں ديا ہوا ہے اور تيرے ضرركا دفع اس سے چاہتى ہوں _

۲_ حضرت مريم اپنے قريب ايك اجنبى شخص كو پاكر وحشت ذرہ ہوگئيں اور خدا كى پناہ لى اور اسے الہى غضب سے ڈرايا _

قالت إنى أعوذبالرحمن منك ان كنت تقيا ً

حضرت مريم نے بجائے (اللهم إنى أعوذ بك ) كے اجنبى شخص كو مخاطب بناياتا كہ اسكے دل ميں الہى غضب كا خوف پيدا كريں _ ''تقوي'' يعنى ہر خوفناك چيز سے بچتے ہوئے اپنے آپ كو محفوظ جگہ ميں ركھنا ( مفردات راغب )'' تقياً'' يعنى خطرے سے پرہيز كرنے والا حضرت مريم كے كلام ميں قرينہ ديكھتے ہوئے كہ انہوں نے اپنے مخاطب كو الله تعالى سے ڈرايا خطرے سے مراد خداوند عالم كا غضب ہے _

۳_اللہ تعالي، مشكل اوقات ميں انسان كى پناہ گاہ ہے _إنى أعوذ بالرحمن

۴_اللہ تعالى كى وسيع رحمت، مصيبت زدہ اوربے سہار لوگوں كو پناہ دينے كا اقتضا كرتى ہے _إنى أعوذ بالرحمن منك

( رحمان ) مبالغہ كا صيغہ ہے اوراسكا مطلب بہت زيادہ مہربان ہونا ہے حضرت مريم (ع) كا الله تعالى كے تمام ناموں ميں

۶۲۶

سے صرف اس نام كا سہا را لينا خدا كے تمام اوصاف ميں سے اس وصف كى خصوصيت پردلالت كر رہا ہے اور پناہ كے مقام كے ساتھ اسكى مناسبت كوبيان كررہا ہے_

۵_مصيبتوں اور عفت كے منافى كاموں كے اسباب مہياہونے كى صورت ميں ضرورى ہے كہ الله تعالى كى پناہ لى جائي _

قالت إنى أعوذبالرحمن منك

۶_ رحمان ،اللہ تعالى كے اسماء اور اوصاف ميں سے ہے_أعوذبالرحمن

۷_ حضر ت مريم، تقوى اور پاكيزگى كے كمال پر فائز خاتون تھيں _قالت إنى أعوذ بالرحمن منك إن كنت تقيا

پاكيزہ ،مريم(ع) نے اجنبى مرد كو اپنى خلوت گاہ ميں ديكھتے ہى اسے مسلسل نصيحت كرنا اور الله تعالى كى پناہ ميں جانے كى بات شروع كى يہ ردّ عمل ان ميں پاكيزگى كے راسخ ہونے كى علامت ہے _

۸_انسان كو گناہ سے محفوظ ركھنے ميں تقوى ايك اہم ترين سبب ہے _أعوذبالرحمن منك إن كنت تقيا

۹_ عورت اور نامحرم مرد كا اكھٹا ہونا يہاں تك كہ متقى لوگوں ميں بھى ايك خطرناك جال اور گناہ كى كھائي ميں گرنے كا موجب ہے _إنى أعوذبالرحمن منك إن كنت تقيا (إن كنت )كا جواب شرط محذوف ہے بعض نے يہاں جملہ شرطيہ كو تقوى كى طرف ترغيب دلانا مرادليا ہے جبكہ بعض نے يہاں شرط حقيقى مراد ليا ہے _تو دوسرى صورت ميں آيت سے مراد يہ ہے كہ اگر تو متقى ہے تويہ مناسب ہے كہ ميں الله تعالى سے پناہ مانگوں (اور يہ كہ تو متقى نہ ہو ) لہذا يہاں نكتہ شرط يہ ہے كہ يہ صورت تو متقى لوگوں كيلئے بھى خطرنا ك ہے كہاں يہ كہ غير متقى ہوں _

۱۰_ تنہائي ميں نامحرم سے پرہيز كرنا، ضرورى ہے _قالت إنى أعوذبالرحمن منك إن كنت تقيا

حالا نكہ اجنبى شخص نے كوئي ايسى حركت نہيں كى تھى كہ جو اسكى كسى غرض كو ظاہر كرے _ ليكن حضرت مريم محض اسكے ساتھ تنہائي سے پريشان ہوئيں اور الله تعالى كى پناہ لى اور اسكے ليے زبان نصيحت كھولى تواس سے يہ نتيجہ نكلتا ہے كہ نامحرم كے ساتھ تنہائي ميں رہنا ہى تقوى كے خلاف كام ہے _

۱۱_روى عن على (ع) انه قال : علمت ان التقى ينهاه التقى عن المعصية ، حضرت على (ع) سے روايت ہوئي ہے كہ آپ نے فرمايا : حضرت مريم يہ جانتى تھيں كہ پرہيز گار انسان ، اپنے تقوى كوگناہ سے بچاتا ہے _

اسماء صفات: رحمان۶

۶۲۷

الله تعالى :الله تعالى كى رحمت كے آثار ۴

انسان :انسان كى پناہ گاہ ۳;۴

تقوى :تقوى كے آثار ۸،۱۱;تقوى كى طرف دعوت ۱

پناہ مانگنا:الله تعالى سے پناہ مانگنے كى اہميت ۵; الله تعالى سے پناہ مانگنے كا باعث ۴; الله تعالى سے پناہ مانگنا ۲;۳

ڈرانا :الله تعالى كے غضب سے ڈرانا ۲

روايت :۱۱

گناہ :گناہ سے مانع ۸،۱۱; گناہ كا باعث ۹; گناہ كا مقابلہ كرنے كى روش ۵

مريم 'س':مريم'س' كا اعتراض ۱;مريم'س' كا پناہ مانگناہ۲; مريم 'س'كا خوف ۲; مريم'س' كا قصہ ۱،۲;مريم'س' كا كى پرہيز گارى ۷; مريم'س' كى پناہ گاہ ۱; مريم'س' كى رائے ۱۱; مريم'س' كى عفت ۷; مريم'س' كے فضائل ۷

مشكل :مشكل كا مقابلہ كرنے كى صورت ۵

نامحرم:نامحرم سے تنہائي كرنے سے پرہيز۱۰ ;نامحرم سے تنہائي كرنے كے آثار ۹

آیت ۱۹

( قَالَ إِنَّمَا أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلَاماً زَكِيّاً )

اس نے كہا كہ ميں آپ كے رب كے فرستادہ ہوں كہ آپ كو ايك پاكيزہ فرزند عطا كردوں (۱۹)

۱_ حضرت جبرئيل نے حضرت مريم'س' كى پريشانى دور كرنے كيلئے اپناتعارف كروايا اور انہيں بتايا كہ وہ الله تعالى كى طرف سے بھيجے ہوئے ہيں _قالت إنى أعوذقال إنما أنا رسول ربك

۲_ حضرت جبرئيل نے حضرت مريم كو بچےّ كى بشارت دينے كے ساتھ ا نہيں پاك و پاكيزہ بيٹاعطاكرنے كے حوالے سے الہى نمائندہ ہونے كا تعارف كروايا_

قال إنما أنا رسول ربك لا هب لك غلماً زكيا

بيٹاعطا كرنے كى نسبت، حضرت جبرئيل كى طرف انكے اس الہى بخشش ميں وسيلہ ہونے كى بناء پرہے _ ( زكي) مادہ ''زكائ'' سے ہے اسكا معنى (صلاح) ہے'' مصباح'' '' تزكيہ '' اور ''زكاة ''طہارت '' پرورش ، بركت اور مدح كے معانى ميں

۶۲۸

استعمال ہوتے ہيں ہر اور مقام پر اسكا مناسب معنى مراد ہے بچے كى طہارت اور پاكيزگى اسكى ذاتى صلاحتيوں كے حوالے سے ہے_

۳_ حضرت مريم كو لائق اور پاكيزہ بچے كى عطا انكے رشد و كمال كا موجب اور الله تعالى كى ربوبيت كا ايك جلوہ ہے _

قال إنّما أنا رسول ربّك لا هب لك غلما زكياً ...قال ربّك هو

كلمہ'' رب ''مندرجہ بالا مطلب كو بيان كرسكتا ہے _

۴_ حضرت عيسي(ع) ،اللہ تعالى كى جانب سے حضرت مريم كيلئے خصوصى عطا تھے _إنّما أنا رسول ربّك لا هب لك غلماً زكي اگرچہ حضرت عيسى (ع) كى روح، حضرت مريم كو ديگر ذرائع سے بھى القاء كى جاسكتى تھى ليكن جبرئيل كا بھيجاجانا، مريم كو بشارت دينا اوراس عنايت كى خصوصيات شمار كرنا يہ سب كے سب اس عطاكے خصوصى ہونے پردلالت كررہے ہيں _

۵_-حضرت عيسي(ع) كى پاكيزگى اور معنوى كمال ، انكى ولادت سے قبل الله تعالى كى جانب سے ضمانت شدہ تھے----_إنما أنا رسول ربك لأهب لك غلما

۶_صالح اور پاكيزہ فرزند، الہى عنايت ہے _لأهب لك غلماً زكبا

۷_عن الباقر (ع)( فى قصة مريم ) : تمثل لها الروح الأمين قال إنما أنا رسول ربك لا هب لك غلاماً زكياً فتفل فى جيبها فحملت بعيسى (ع) (۱)

امام باقر (ع) سے حضرت مريم كى داستان كے حوالے سے نقل ہواہے كہ روح الامين ان پر ظاہر ہوئے اور كہا :'' إنما انا رسول ربك لا ہب لك غلاماً زكيا''پھراپنے منہ كا لعاب انكے گريبان ميں ڈالاتو وہ عيسي(ع) سے حاملہ ہوگئيں _

الله تعالى :الله تعالى كى ربوبيت كى علامات ۳; الله تعالى كى عطا ء ۲،۴،۶

الله تعالى كے نمائندے: ۱/تربيت:عيسى كى ولادت كى بشار ب۲

جبرئيل :جبرئيل كى بشارتيں ۲; جبرئيل كى ذمہ دارى ۲; جبرئيل كى شناخت اور مريم ۱

روايت :۷

____________________

۱)قصص الانبياء رواندى ص۲۶۴، ج۳۰۳ ، بحارالانوار ج۱۴ ص۲۱۵ح۱۴_

۶۲۹

عيسى (ع) :عيسى كا كمال ۵;عيسى كى پاكيزگى كى ضمانت ۵; عيسي(ع) كے فضائل ۵;

مريم(ع) :مريم(ع) ميں بيٹا ہونے كے آثار ۳; مريم(ع) كے كمال كے اسباب ۳; مريم(ع) كى پريشانى ۱; مريم(ع) پر جبرائيل كا نزول ۷; مريم(ع) پر نعمات ۴; مريم(ع) كا حاملہ ہونا ۷; مريم (ع) كا قصہ ۱،۴،۷

نعمت :فرزند صالح كى نعمت ۶; نعمت عيسي(ع) ۴

آیت ۲۰

( قَالَتْ أَنَّى يَكُونُ لِي غُلَامٌ وَلَمْ يَمْسَسْنِي بَشَرٌ وَلَمْ أَكُ بَغِيّاً )

انھوں نے كہا كہ ميرے يہاں فرزند كس طرح ہوگا جب كہ مجھے كسى بشر نے چھوا بھى نہيں ہے اور ميں كوئي بد كردار نہيں ہوں (۲۰)

۱_ حضرت مريم (ع) بغير كسى بشر كے لمس كے بچہ دار ہونے كى خبرسن كر حيرت زدہ ہوگئيں _

قالت أنّى يكون لى غلم ولم يمسنى بشر

( انيّ ) حرو ف استفہام ميں سے ہے اور اسكا معنى ''كيف ''يعنى كس طرح ہے يا'' من ا ين'' يعنى كہاں سے ہے دونوں صورتوں ميں تعجب كا معنى دے رہا ہے _

۲_ حضرت مريم (ع) حضرت عيسي(ع) كى بشارت سنے كے بعد زنا كى تہمت كے خوف سے پريشان تھيں _

أنيّ يكون ولم أك بغيّا

اگر چہ جملہ ( لم يمسنى بشر ) حاملہ ہونے كے معمول كے مطابق ذرائع كى نفى كيلئے كا فى تھا ليكن جملہ ( ولم أك بغياً ) بھى مريم سے صادر ہو ا ہے بعض نے اسے اس طرح قرينہ قرار ديا ہے كہ جملہ ( لم يمسنى ) ميں صرف شرعى نكاح كى بات ہوئي ہے جب كہ ( ولم اك بغيا ) ميں _غير شرعى كا م كى نفى ہوئي ہے اور احتمال يہ بھى ہے كہ جملہ ( لم يمسنى ) سے مرادمطلقاً ہمبسترى ہواور جملہ ( لم اك بغياً ) كا اضافہ اس ليے ہو كہ مريم نے سمجھا حاملہ ہونے كى صورت ميں زنا كى تہمت لگے گى تويہ سب كہہ كر انہوں نے ظاہر كرديا كہ اس تہمت كو برداشت كرنا ہمارے ليے سخت ہے _

۳_ حضرت مريم (ع) نے جبرئيل، سے چاہا كہ وہ انہيں بتائے كہ كيسے بغير باپ كے بيٹا پيدا ہوگا _قالت أنّى يكون لى غلم ولم يمسنى بشر ولم أك بغيا

۴_ حضرت مريم (ع) كا ماضى درخشاں اور تقدس و پاكيزگى كى راہ پر ہر قسم كے انحراف سے پاك تھا _

۶۳۰

قالت أنّى يكون لى غلم ولم أك بغيا

( بغى ) اس عورت كو كہا جاتا ہے كہ جو نا محرم لوگوں سے غير شرعى تعلق ركھے _

۵_ حضرت مريم (ع) ،حضرت جبرئيل كا سامنا كرتے وقت، ايك باكرہ اور غير شادى شدہ لڑكى تھيں _

قالت انيّ يكون لى غلم ولم يمسنى بشرا

۶_ حضرت مريم(ع) ، حضرت عيسي(ع) كى ولادت كى بشارت سننے كے وقت حمل كيلئے مناسب عمر اور صحيح و سالم جسم كى مالك تھيں _ولم يمسنى بشر ولم أك بغيا

حضرت مريم (ع) كے كلام ميں جو كچھ حضرت عيسي(ع) كى پيدا ئش ميں مانع بيان ہوا ہے وہ سب باپ كے نہ ہونے كے بارے ميں ہے انہوں جسمانى حوالے سے عاجزى كا اظہار نہيں كيا لہذا اس حوالے سے كوئي مشكل نہيں تھى _

۷_زنا، تمام الہى اديان ميں ايك غير شرعى اورقابل نفرت كام ہے _ولم أك بغي

۸_اللہ تعالى كے برگزيدہ لوگ، دنيا دى كاموں ميں الہى ارادہ كے متحقق ہونے كے سلسلے ميں معجزہ كے منتظر نہيں ہوتے بلكہ اسكے ليے طبيعى راہوں سے جستجو كرتے تھے _قالت أنّى يكون لى غلم ولم يمسنى بشرا

حضرت مريم (ع) اگر چہ الہى قدت پر ايمان ركھتى تھيں ليكن جب انہوں نے بچے كى خوشخبرى سنى تو طبيعى راہ كے حوالے سے كسى صورت ميں نتيجہ پر نہ پہنچى اور اس جملہ (أنّى يكون لى غلام ) كے ساتھ اس ولادت كى كيفيت پوچھى معلوم ہوا كہ اس حوالے سے طبيعى اسباب انكى نگاہوں سے دور نہيں تھے _

۹_اللہ تعالى كے برگزيدہ بندوں كاعظيم مقام، انكے الہى فرشتوں كى ذمہ داريوں ميں تعجب اور جستجواور الہى افعال كے حوالے سے مزيد معلومات حاصل كرنے ميں مانع نہيں ہے _قالت أنّى يكون لى غلم ولم يمسنى بشرا

الله تعالى :الله تعالى كے ارادہ كے جارے ہونے كے مقامات ۸

الله تعالى كے برگزيدہ :الله تعالى كے برگزيدہبندوں كا انتظار ۸; الله تعالى كے برگزيدہ بندوں كے مقامات ۹;اللہ تعالى كے برگزيدہ بندے اور فرشتوں كى ذمہ دارى ۹

جبرائيل :جبرائيل سے سوال ۳

زنا :

۶۳۱

آسمان اديان ميں زنا كى پليدگى ۷

مريم :مريم كا باكرہ ہونا ۵; مريم كا بچہ ہونے كے حوالے سے سوال ۳; مريم كا بہترين ماضى ۴; مريم كا تعجب ۱ ; مريم كا حاملہ ہونا ۶;مريم كا قصہ ۱،۲،۳،۵،۶ ; مريم كو بشارت ۱;مريم كو زنا كى تہمت لگانا ۲;مريم كى پريشانى ۲;مريم كى سلامتى ۶;مريم كى عفت ۴ ; مريم كى طلب ۳;مريم كے حاملہ ہونے كى خصوصيات ۱;مريم كے فضائل ۴

آیت ۲۱

( قَالَ كَذَلِكِ قَالَ رَبُّكِ هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ وَلِنَجْعَلَهُ آيَةً لِلنَّاسِ وَرَحْمَةً مِّنَّا وَكَانَ أَمْراً مَّقْضِيّاً )

اس نے كہا كہ اسى طرح آپ كے پروردگار كا ارشاد ہے كہ ميرے لئے يہ كام آسان ہے اور اس لئے كہ ميں اسے لوگوں كے لئے نشانى بنادوں اور اپنى طرف سے رحمت قرار ديدوں اور يہ بات طے شدہ ہے (۲۱)

۱_ حضرت جبرئيل نے حضرت مريم (ع) كے تعجبكو بجاجانا اور انكى عفت و پاكيزگى پر گواہى دى _قال كذالك

(كذالك ) مبتدا محذوف كى خبر ہے اور حرف تشبيہ اور اسم اشارہ كا مركب ہے _ اسكا مشاراليہ ممكن ہے گفتار مريم ہو، اس صورت ميں آيت كا مطلب يہ ہو گا كہ اگر چہ بات وہى ہے جو آپ نے كہى ہے ليكن الله تعالى كے ليے يہ كام مشكل نہيں ہے _

۲_ حضرت جبرئيل نے حضرت مريم (ع) كے سوال اور پريشانى كے جواب ميں الہى وعدہ كے حتمى ہونے اور انكے حضرت عيسى (ع) كا حمل اٹھانے پر تاكيد فرمائي_قال كذالك

اگر ( كذالك ) كا مشاراليہ خود حضرت جبرئيل كى رسالت كا مضمون ہو تو اس صورت ميں بشارت كے حتمى واقع ہونے پر تاكيد ہے يعنى بات وہى ہے جوميں نے كہي_

۳_ بغير باپ كے بيٹے كى عطا، الله تعالى كيلئے نہايت آسان سى بات ہے _هو عليّ هيّن

(ہيّن) صفت مشبہ ہے جس كا مادہہ''ہون'' ہے يعنى آسان اور راحت _

۴_ حضرت عيسي(ع) كى ولادت غير معمولى اور معجزاتى تھي_قال ربك هو عليّ هيّن

۵_ معمول كے مطابق علل و اسباب اور طبيعى راستے الله تعالى كے ارادے اور قدرت ميں محدويت پيدا نہيں كر سكتے _

قال ربّك هو عليّ هيّن

۶۳۲

بغير باپ كے بچہ كى ولادت كے حوالے سے جو مشكل تصورہو سكتى ہے وہ بعض طبيعى اسباب كا فقدان ہے ليكن الله تعالى نے اس راہ سے ہٹ كر كام كونہايت آسان اور سادہ شمار كيا ہے تويہ مسئلہ در حقيقت الله تعالى كى طبيعى علل و اسباب پر حاكميت كو بيان كررہا ہے _

۶_كائنات ميں ہونے والے واقعات كے علل و اسباب، صرف طبيعى نہيں ہيں _قال ربّك هو عليّ هيّن

۷_ كرامات اورغير معمولى اشياء كا وقوع، صرف پيغمبروں كے ساتھ مخصوص نہيں ہے _قال ربك هو عليّ هيّن

۸_ صرف طبيعى علل واسباب پر نظر جمانا درحقيقت الہى ارادہ و منشاء پر متوجہ ہونے سے مانع ہے _أنى يكون لى غلم هو عليّ هيّن

۹_ حضرت مريم كى الله تعالى كى ربوبيت كى طرف توجہ نے انہيں حضرت عيسي(ع) كے حمل كى آسانى اور ممكن ہونے كے حوالے سے مطمئن كيا _قال ربّك

۱۰_ حضرت عيسي(ع) كى باپ اور معمول كے مطابق ذرائع كے بغير ولادت با مقصد اور بہت زيادہ فوائد پر مشتمل تھى _

هو عليّ هيّن ولنجعله ء اية للناس

احتمال ہے كہ عبارت ( لنجعلہ ) علت محذوف پر عطف ہو يعنى''خلقناه من غير أب لا غراض لا مجال لذكرها و لنجعله'' تواس حذف كا فائدہ ( ابہام ) قرار پاپا يعنى اس كا ہدف اس قدر عظيم اور وسيع ہے كہ جو كلام ميں نہيں سماسكتا ہے _

۱۱_ حضرت عيسي(ع) اور انكى بغير باپ كے ولادت ، لوگوں كے ليے الہى قدرت سے آشنا ہونے كيلئے بہت بڑى نشانى ہے _ولنجعله ء اية للناس ( لنجعلہ ) ميں مفعول كى ضمير، حضرت عيسي(ع) كى طرف لوٹ رہى ہے _ آيت ميں تنوين تفخيم كا فائدہ د ے رہى ہے يعنى اس ليے عيسي(ع) كو تجھے عطا كيا كہ اسے لوگوں كيلئے عظيم نشانى قراردو _

۱۲_حضرت عيسي(ع) ، الله تعالى كى جانب سے لوگوں كيلئے عظيم رحمت كا جلوہ ہيں _ولنجعله و رحمة منّ

( رحمة ) كے ( اية للناس ) پر عطف كے قرينہ كى بنا ء و پر مراد، لوگوں پر رحمت ہے _

۱۳_ حضرت عيسي(ع) كى بغير باپ كے ولادت اور انكا الہى قدرت و رحمت كى نشانى ہونا، الله تعالى كى طرف سے طے شدہ امور تھے كہ جن ميں كسى قسم كى تبديلى كى گنجائش نہيں تھى _كذالك و لنجعلهء اية للناس و رحمة منّا و كان أمراً مقضيا

۶۳۳

جملہ (كان أمراً مقضياً )ممكن ہے صرف حضرت عيسي(ع) كى ولادت كے بارے ميں ہو اور ممكن ہے آيت ميں مذكور تينوں موضوعات كے بارے ميں ہو ( مقضياً) مادہ ''قضا'' سے اسم مفعول ہے يعنى وہ جو حتمى ہے اور فيصلہ ہو چكاہے_ لفظ (امر) فرمان اور واقعہ كے معنى ميں استعمال ہوتا ہے يہاں كلمہ مقضيا ً دوسرے معنى كے مراد ہونے پر قرينہ ہے_

۱۴_ الہى طے شدہ امر، تبديل نہيں ہوسكتا _وكان أمراًمقضيا

الله تعالى :الله تعالى كى رحمت كى علامات ۱۲، ۱۳; الله تعالى كى قدرت كى حاكميت ۵;اللہ تعالى كى قدرت كى علامات ۱۱;اللہ تعالى كى قضا ء كا حتمى ہونا ۱۴;اللہ تعالى كے ارادہ كى حاكميت ۵;اللہ تعالى كے افعال ۳;اللہ تعالى كے طے شدہ امور ۱۳;اللہ تعالى كے وعدوں كا حتمى ہونا ۲

تربيت:حضرت عيسي(ع) كى ولادت كى بشارت ۲

حمل :بغير شوہر كے حمل ۳

جبرائيل :جبرائيل سے سوال۲; جبرائيل كى گواہى ۱

ذكر :الله تعالى كى ربوبيت كے ذكر كے آثار ۹; الله تعالى كى مشيت كے ذكر سے مانع ۸;اللہ تعالى كے ارادہ كے ذكر سے مانع ۸

طبيعى اسباب :طبيعى اسباب كا كردار ۵;۶;۸

عيسي(ع) :الله تعالى كى آيات ميں سے عيسي(ع) كا ہونا۱۱; ۱۳ ; عيسي(ع) كا رحمت ہونا ۱۲;۱۳;عيسى كى ولادت كا حتمى ہونا ۱۳; عيسي(ع) كى ولادت كا فلسفہ ۱۰;عيسى كى ولادت كا معجزہ ہونا ۴،۱۱،۱۳;عيسى كى ولادت ميں عظيم فوائد ہونا ۱۰ ;عيسى كى معجزانہ ولادت ۴; ۱۱; ۱۳

كرامات :غير انبياء كى كرامات ۷

مريم (ع) :مريم(ع) كے اطمينان كے اسباب ۹; مريم(ع) كى پريشانى ۲; مريم(ع) كا تعجب ۱; مريم(ع) كا حمل ۹; مريم(ع) كا قصہ ۱;۲;۹; مريم(ع) كى پاكيزگى پر گواہ لوگ ۱

نظام اسباب:۵;۶

واقعات :واقعات كا سرچشمہ ۷

۶۳۴

آیت ۲۲

( فَحَمَلَتْهُ فَانتَبَذَتْ بِهِ مَكَاناً قَصِيّاً )

پھر وہ حاملہ ہوگئيں اور لوگوں سے دور ايك جگہ چلى گئيں (۲۲)

۱_ حضرت مريم(ع) ، الله تعالى كے ارادہ اور حكم كى بناء پر بغير كسيسے جنسى آميزش حاملہ ہوگئيں _فحملته

۲_ حضرت مريم (ع) نے حضرت عيسى (ع) كا حمل اٹھا نے كے بعد اپنے عزيز واقرباء كے علاقہ سے الگ ہو كر دور كسى جگہ پر بسيرا كيا _فحملته فانتبذت به ومكا ناً قضيا

( انتباذ) كا مادہ ( نبذ) ہے اسكا معنى دورى اختيار كرنا ہے اور ( بہ ) ميں (با) ہمراہى يا سبب كيلئے ہے يعنى مريم حمل كے ساتھ يا اسكى وجہ سے دور گئيں ( قصى ) صفت مشبہ ہے اور اسكا معنى دور ہے _

۳_ حضرت مريم(ع) ، حمل كى وجہ سے كافى پريشانيوں ميں گھر گئيں _فحملته فانتبذت به مكاناً قصيا

محل سكونت چھو ڑكر دور كسى جگہ چلے جانا بتا تا ہے كہ مريم(ع) لوگوں كا سامنا كرنے اور انہيں جواب دينے سے پريشان تھيں ( انتباذ ) كا لغوى معنى (كسى ايسے آدمى كا گوشہ نشينى اختيار كرنا جو لوگوں ميں اپنے حاضر ہونے كى اہميت نہيں ديكھتا ) يہ معنى بھى اسى مطلب كى تائيد ميں ہے _

۴_عن الرضا (ع) قال : ليلة خمس و عشرين من ذى القعدة ولد فيها عيسي(ع) بن مريم(ع) (۱) امام رضا (ع) سے روايت نقل ہوئي ہے كہ ذى القعدہ كى پچسويں شب ميں حضرت عيسي(ع) ، كى ولادت ہوئي _

۵_عن سليمان الجعفرى قال: قال أبوالحسن الرضا (ع) : أتدرى مما حملت مريم (س) ؟ فقلت : لا الاّ ان تخبر نى فقال : من تمر الصرفان نزل بها جبرئيل ، فا طعمها فحملت (۲) سليمان جعفرى سے روايت ہوئي ہے كہ امام رضا(ع) نے فرمايا كيا تمہيں معلوم ہے كہ مريم (ع) كس چيزسے

____________________

۱) من لا يحضرہ الفقيہ ج۲ ص۵۴ ح۱۵ ، مسلسل ۲۳۸ ، بحارالاانوار ج۱۴ص۲۱۴ح۱۳

۲)محاسن برقى ج۲ص۵۳۷ب۱۱۰ح ۸۱۱ ، بحارالانوار ج۱۴ ص۲۱۷ ح۱۸_

۶۳۵

حاملہ ہوئيں ميں نے كہا نہيں ليكن آپ بتائيں تو انہوں فرمايا: صرفان(۱) كى كھجور سے جو كہ ان كيلئے حضرت جبرئيل لائے تھے وہ انہيں كھلا ئيں تو وہ حاملہ ہوئيں _

۶_عن ا بى الحسن موسى (ع) ...اليوم الذى حملت فيه مريم (س) يوم الجمعة للزوال (۲) امام كاظم (ع) سے روايت ہوئي كہ وہ دن كہ مريم حاملہ ہوئيں و ہ جمعہ كا دن زوال كے قريب وقت تھا _

۷_عن أبى عبدالله (ع) قال إنّ مريم (ع) حملته سبع ساعات (۳) امام صادق (ع) سے روايت ہوئي كہ بلاشبہ مريم سات گھنٹے تك حضرت عيسي سے حاملہ رہى ہيں _

الله تعالى :الله تعالى كى مشيت ۱; الله تعالى كے وادار۱

روايت :۴;۵;۶;۷

عيسى (ع):حضرتعيسى كى تاريخ ولادت ۴

مريم :مريم كا حمل ۲; مريم كے حمل كا سرچشمہ ۱; مريم كا قصہ ۱،۲،۷; مريم كى پريشانى كے اسباب ۳;مريم كى گوشہ نشينى ۲; مريم كے حمل كا وقت ۶;مريم كے حمل كى كيفيت ۵;مريم كے حمل كى مدت ۷;مريم كے حمل كے آثار ۳

آیت ۲۳

( فَأَجَاءهَا الْمَخَاضُ إِلَى جِذْعِ النَّخْلَةِ قَالَتْ يَا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هَذَا وَكُنتُ نَسْياً مَّنسِيّاً )

پھر وضع حمل كا وقت انھيں ايك كھجور كى شاخ كے قريب لے آيا تو انھوں نے كہا كہ اے كاش ميں اس سے پہلے ہى مرگئي ہوتى اور بالكل فراموش كردينے كے قابل ہوگئي ہوتى (۲۳)

۱_ بچے كى ولادت كا در د، حضرت مريم (س) كو كھجور كے درخت كے تنے كے پاس لے گيا _

فأجا ء ها المخاض إلى جذع النخلة كلمہ (ا جائ) فعل ( جائ) كا متعدى ہے يعنى لے گيا اور( مخاض )يعنى بچے كى ولادت كا در د _

____________________

۱)صرفان كى كھجور وہ ہے كہ جو گرميوں ميں پيدا ہوتى ہے ليكن مقوى ہونے كى بنا ء پر سرديوں ميں استعمال ہوتى ہے _

۲) كافى ج۱ص۴۸۰ح۴بحارالانوار ج۱۴ ص ۲۱۳ ح۱۱

۳) قصص الانبياء ص۲۶۶ح۳۰۵ فصل ۱ بحارالانوار ج۱۴ ص۲۱۶ح۱۷،

۶۳۶

۲_بچے كى ولادت كے وقت، حضرت مريم بغير كسى خوف كے رہا ئشى علاقہ سے دور تنہا رہ رہى تھيں _

مكاناً قصيا ً فا جاء ها المخاض إلى جذع النخلة جملہ (أجاء ها المخاض ) ميں مريم كو درخت كے پاس لانے كى نسبت دردزہ كى طرف دى گئي ہے اور بعد و الى آيات ميں بتا ياگيا ہے كہ مولود نے انہيں پانى كى طرف راہنمائي كى _ اور مريم نے كھجور كھانے كيلئے خود درخت كو ہلا يا يہ سب قرائن بتاتے ہيں كہ حضرت مريم بچے كى ولادت كے وقت تنہا تھيں _

۳_حضرت مريم(ع) كا وضع حمل ايسے علاقہ ميں ہو ا كہ جہاں آب و ہوا گرم تھى اور كھجوروں كے درخت تھے _

فأجا ء ها المخاض إلى جذع النخلة ( نخل) يعنى كھجور ايسى زمين ميں پيدا ہوتى ہے كہ جہاں آب و ہوا گرم ہو _

۴_ وہ كھجور كا درخت كہ جسكے پاس حضرت مريم نے پناہ لى ايك معين اور خشك درخت تھا _

فأجاء ها المخاض إلى جذع النخلة _ ( النخلة) معرفہ ہے اور اس پر (الف و لام ) ہو سكتا ہے عہد ذ ہنى ہو يعنى وہ عہد جو الله تعالى اور مريم كے درميان يا وہ عہد جو الله تعالى اور رسول اكرم (ص) كے درميان ہوا تھا اور يہ نہيں كہا گيا ( إلى النخلة) اس سے معلوم ہو تا ہے كہ جس درخت كے قريب حضرت مريم نے پناہ لى تھى وہ سوا ئے درخت كے تنہ كے كچھ نہيں تھا بعد والى آيات كہ جس ميں بتايا گيا كہ حضرت كو پانى كى موجود گى اور كھجور كھانے كيلئے درخت كو حركت دينے كے بارے ميں آگاہ كيا گيا يہ آيات بھى بتا تى ہيں يہاں معمول سے ہٹ كر معجزانہ طريقہ سے پانى اور كھچور حاصل ہوئي ہيں ورنہ مريم ان دونوں چيزوں كو جاننے كيلئے كسى راہنمائي كى محتاج نہيں تھيں _

۵_ حضرت مريم نے وضع حمل كے وقت آرزوكى كاش وہ حاملہ ہونے سے پہلے مرچكى ہوتى اور انكى يا دہى باقى نہ رہتى _

فأجاء ها المخاض قالت ياليتنى مت قبل هذا و كنت نسياً منسيّا

جملہ (وكنت نسياً منسيّاً ) بتاتا ہے كہ حضرت مريم كى موت كى آرزوكرنے كى وجہ لوگوں كى زبانوں كے زخموں سے بچناتھا اگر چہ (ألا تحزنى قد جعل ...) كے قرينہ سے معلوم ہوتا ہے كہ پانى اور غذا كے نہ ہونے نے بھى انہيں غمگين كيا ہوا تھا ليكن يہ سارے نتائج اسى زبان كے زخموں سے بچنے كى وجہ سے ہيں كہ ميں حاملہ ہونے سے پہلے كاش مرجاتى كہ لوگوں كى زبانوں كے زخموں سے بچنے كيلئے يوں سرگرداں نہ ہوتى _

۶_ حضرت مريم كا دكھ اورروحى پريشاني،حضرت عيسي(ع) كى ولادت كے وقت قابل بيان نہيں تھا _فا جا ء ها المخاض إلى جذع النخلة قالت ياليتنى مت ّقبل هذا و كنت نسياً منسيّا

۶۳۷

حضرت مريم (ع) جو كہ الله تعالى كى خاص عنايات كى حامل تھيں ان سے موت كى آرزو يقيناً ايسے شرائط ميں ہوئي ہوگى كہ جب حالات انكى برداشت اور طاقت سے باہر ہوگئے ہونگے_ بعد والى آيات كے قرينہ سے يہ حالت تہمت لگنے كے احتمال اور سرگردان ہونے سے اندرونى دباؤ كى بنا ء پرتھي_

۷_ حاملہ ہونے كى حالت ميں يا وضع حمل كے بعد موت حضرت مريم كى پريشانيوں كو ختم نہيں كرسكتى تھى _ياليتنى متّ قبل هذ حضرت مريم كے كلام ميں ( ہذا ) اصل حمل كيطرف اشارہ ہے _ نہ كہ سرگرداں ہونے يا وضع حمل كى تكليف اور تنہائي چونكہ يہ سب چيزيں حضرت مريم(ع) نے لوگوں كى زبانوں كے زخموں سے بچنے كى خاطر قبول كى تھيں وہ تواپنے ليے زنا كى تہمت لگنے سے حتّى ّ كہ موت كے بعد بھى خوفزدہ تھيں لہذا اس تہمت سے پچنے كى صورت انكے ليے حاملہ ہونے سے پہلے مرنے كى صورت ميں تھى _

۸_ حضرت مريم(ع) نے اپنے حاملہ ہونے كو مكمل طور پر لوگوں سے چھپا يا ہوا تھا _

مكاناً قصياً فاجا ء ها المخاض ياليتنى متّ قبل هذا و كنت نسياً مسيا

لوگوں سے دور چلے جانا اور وضع حمل كے وقت تنہائي اور بغير سرپرست كے ہونا يہ چيزبتاتا ہے كہ اس وقت تك حضرت مريم(ع) نے اپنے حاملہ ہونے كو لوگوں سے چھپا يا ہوا تھا _

۹_ بعض صورتوں ميں موت كى خواہش جائز اور پسنديدہ ہے _ياليتنى متّ قبل هذا

۱۰_انسان كى آبرو اور شخصيت، اسكى مادى زندگى سے اہم ہے ياليتنىمتّ قبل هذ

يہ جو حضرت مريم(ع) نے بغير آبرو كى زندگى كو موت پر ترجيح دى ہے اس سے مذكورہ حقيقت كا استفادہ ہوتا ہے

۱۱_حضرت مريم(ع) انسانى حالات اور احساسات كى حامل تھيں _ياليتنى متّ قبل هذا

حضرت مريم(ع) كا اپنے اندر غير عادى امور كے ظاہر ہونے سے رنجيدہ اور بھوك وپياس سے متاثر ہونا، اسى طرح ديگر طبيعى اسباب و غيرہ بتاتے ہيں كہ حضرت مريم(ع) بشرى صفات كى مالك انسان تھيں اور بعض عيسائيوں كى طرف سے انكے بارے ميں الوہيت كے خيالات كے باطل ہونے پر دليل ہے _

۱۲_حضرت مريم (س) لوگوں ميں انتہائي معروف اوراہم شخصيت كى مالك تھيں _ياليتنى كنت نسياً نسيا

۱۳_ لوگوں ميں حضرت مريم(ع) كى عفت و پاكيزگى كے حوالے سے شہرت ان ميں حضرت عيسي(ع) كى ولادت كے حوالے سے لوگوں كے ذہن ميں منفى ردعمل كے حوالے سے پريشانى بڑھارہى تھى _

۶۳۸

ياليتنى متّ قبل هذا و كنت نسياً منسيا

( نسى ) ايسى چيزہے كہ جسكى خاص اہميت نہيں ہے اگر چہ وہ الہى لوگوں كى ياد سے محو نہ ہو (مفردات راغب ) اس كلمہ كى (منسياً) سے توصيف ( يعنى فراموش شدہ ) بتارہى ہے كہ حضرت مريم نے صرف فراموش شدہ ہونے كى صلاحيت كى آرزونہيں كى بلكہ حقيقى طور پر فراموش ہونے كى آرزو كي_ حضرت مريم(ع) كى يہ آرز و بتاتى ہے وہ اس سے پہلے معاشرہ ميں ايك باعزت شخصيت تھيں چونكہ واقعہ لوگوں ميں منفى رد عمل پيدا كرسكتا تھا لہذا اس حوالے سے پريشان تھيں _

۱۴_روى عن الصاد ق(ع) فى قول مريم ( يا ليتنى متّ قبل ہذا : لا نہا لم ترفى قومہا رشيدا ً ذافراسة ينزہہا من السوء (۱)امام صادق (ع) سے حضر ت مريم(ع) كا حضرت عيسي(ع) كى ولادت كے وقت موت كى آرزو كے قول كے حوالے سے روايت نقل ہوئي ہے كہ آپ نے فرمايا : يہ اس ليے تھا كہ ان كو اپنى قوم ميں كوئي ايسا با شعور شخص نظر نہيں آتا تھا كہ جو انہيں زنا كى تہمت سے برى قرار ديتا _

۱۵_عن الصادق (ع) ( فى قصة مريم ) إن زكريا و خالتها أقبلا يقصان أثرها حتّى هجما عليها و قد وضعت ما فى بطنها و هى تقول : ''يا ليتنى متّ قبل هذا و كنت نسياً منسياً'' (۲) ( حضرت مريم(ع) كى داستان كے حوالے سے ) امام صادق (ع) سے روايت ہوئي كہ حضرت زكريا(ع) اور حضرت مريم(ع) كى خالہ انكى تلاش ميں تھے كہ ايك دم وہ مل گئيں اس حال ميں كہ حضرت عيسى (ع) دنيا ميں قدم ركھ چكے تھے اور وہ كہہ رہى تھيں _ياليتنى متّ قبل هذ

آبرو :آبرو كى اہميت ۱۰

آرزو :موت كى آرزو ۵;۱۴;۱۵; موت كى آرزو كا جائز ہونا ۹

احكام :۹//روايت :۱۴;۱۵//زندگى :زندگى كى اہميت ۱۰

عيسى (ع) :عيسى (ع) كى ولادت كے آثار ۱۳

مريم (ع) :مريم(ع) كا احترام ۱۲; مريم (ع) كا بشر ہونا ۱۱ ; مريم(ع) كا حمل چھپا نا ۸; مريم (ع) كاغم ۶ ;مريم(ع) كا قصہ ۲،۳ ،۴ ،۵ ، ۶ ، ۷ ،۸، ۱۴،۱۵;مريم (ع) كا وضع حمل ۵،۶ ; مريم(ع) كى آرزو ۵،۱۵;مريم(ع) كى آرزو كا فلسفہ ۱۴; مريم (ع) كى پريشانى ۶،۷;مريم(ع) كى پريشانى كے اسباب ۱۳;

____________________

۱ ) مجمع البيان ج۶ص۷۹۰، نور الثقلين ج۳ ص۳۳۰ح۴۶_

۲)كمال الدين صدوق ج۱ ، ص۱۵۸ ب۷ ح۱۷ ، بحارالانوار ج۱۳ص۴۴۹ح۱۰_

۶۳۹

مريم 'س'كى پناہ گاہ ۱،۲; مريم(ع) كى پناہ گاہ كى موقعيت ۳; مريم (ع) كى تنہائي ۲;مريم (ع) كى شہرت ۱۳ ; مريم(ع) كى عفت ۱۳; مريم(ع) كى فراموشى ۵; مريم (ع) كى معاشر تى موقعيت ۱۲; مريم (ع) كى دعوت۷; مريم(ع) كے احساسات ۱۱ ;مريم (ع) كے قصہ ميں كھجور كے گذشتہ آيات ميں ( فحملتہ فانتبذت بہ )

درخت كى خصوصيات ۴;مريم (ع) ے قصہ ميں نخل ۱; مريم(ع) كے وضع حمل كى خصوصيات ۲;مريم (ع) كے وضع حمل والا مقام ۳;مريم(ع) ميں وضع حمل كے درد كے آثار ۱

آیت ۲۴

( فَنَادَاهَا مِن تَحْتِهَا أَلَّا تَحْزَنِي قَدْ جَعَلَ رَبُّكِ تَحْتَكِ سَرِيّاً )

تو اس نے نيچے سے آواز دى كہ آپ پريشان نہ ہوں خدا نے آپ كے قدموں ميں چشمہ جارى كرديا ہے (۲۴)

۱_ حضرت مريم(ع) كا كھجور كے درخت كے قريب، وضع حمل ہوا اور حضرت عيسي(ع) نے دنيا ميں قدم ركھا _

فا جا ء ها المخاض إلى جذع النخلة فنادى ها

(فناداها ) ميں فاء فصيحہ ہے اور اپنے سے پہلے ايك محذوف جملہ كى حكايت كررہى ہے اور جملہ كا مطلب حضرت عيسى كى كھجور كے درخت كے قريب ولادت ہے _

۲_ حضرت عيسي(ع) نے وضع حمل كے بعد اپنى والدہ سے انكے روحى و جسمانى حوالے سے سخت ترين حالات ميں ان سے كلام كيا اور انہيں حوصلہ ديا_فحملته فنادى ها من تحتها ألاتخزني

كى ضميروں كے قرينہ سے ( نادى ) ميں فاعلى ضمير سے مراد حضرت عيسي(ع) ہيں اور فناداھا كى ضمير كى مانند ( من تحتہا ) كى ضمير سے بھى مراد حضرت مريم ہيں بعض نے ( نادى ) كا فاعل حضرت جبرئيل كو جانا اور ( من تحتہا ) كى ضمير كو نخلة يا حضرت مريم كى طرف لوٹا يا ہے ليكن جو كچھ كہا گيا ہے وہ سياق وسباق آيات سے زيادہ مناسب ہے _

۳_ حضر ت عيسي(ع) نے پيدا ہوتے ہى اپنى والدہ حضرت مريم(ع) كو غم نہ كرنے كى نصيحت كى _

فنادى ها من تحتها ألا تحزني

۴_ الله تعالى نے حضرت عيسي(ع) كى ولادت كے ساتھ ہى حضرت مريم كے ٹھہر نے كى جگہ كے نيچے سے چشمہ جارى كيا _فنادى ها من تحتها ألا تحزنى قد جعل ربّك تحتك سريا

( سري) سے مراد چھوٹا ساپانى كا نالہ اور يہ (رفيع) كے معنى ميں بھى استعمال ہوا ہے ليكن بعد والى آيات ميں جملہ'' اشربي'' '' پہلے معنى پرہى قرينہ ہے ''

۶۴۰

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863

864

865

866

867

868

869

870

871

872

873

874

875

876

877

878

879

880

881

882

883

884

885

886

887

888

889

890

891

892

893

894

895

896

897

898

899

900

901

902

903

904

905

906

907

908

909

910

911

912

913

914

915

916

917

918

919

920

921

922

923

924

925

926

927

928

929

930

931

932

933

934

935

936

937

938

939

940

941

942

943

944

945