تفسير راہنما جلد ۱۰

تفسير راہنما 0%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 945

تفسير راہنما

مؤلف: آيت الله ہاشمى رفسنجاني
زمرہ جات:

صفحے: 945
مشاہدے: 200762
ڈاؤنلوڈ: 2161


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4 جلد 5 جلد 6 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 945 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 200762 / ڈاؤنلوڈ: 2161
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد 10

مؤلف:
اردو

۵_ حضرت عيسي(ع) نے پيدا ہوتے ہى اپنى والدہ حضرت مريم(ع) كو انكے ہاتھ كے نيچے سے چشمہ جارى ہونے كى خوشخبرى دى _فنادى ها قد جعل ربك تحتك سريا

۶_ وضع حمل كے وقت پانى كا نہ ہونا ،حضرت مريم (ع) كيلئے شديد پريشانى كا باعث تھا _ألا تحزنى قد جعل ربك تحتك سري ( قد جعل ) جملہ ( ألا تحزنى ) كيلئے علت ہے يعنى غم نہ كريں كيونكہ الله تعالى نے آپ كے ہاتھ كے نيچے سے پانى جارى كرديا ہے يہيں سے معلوم ہوتاہے كہ مريم كس قدر پانى كيلئے پريشان تھيں اور اس خوشخبرى نے انكى خوشى ميں كتنا كردار ادا كي

۷_ خواتين ،وضع حمل كے بعد بالخصوص وضع حمل كے اوائل ميں ہى پينے كے پانى ،روحانى و نفسياتى سكون اور حزن و غم كے نہ ہونے كى محتاج ہوتى ہيں _ألا تحزنى قدجعل ربك تحتك سريا حضرت مريم(ع) كو غم نہ كرنے كى نصيحت اور جو چيز انہيں خوشحال كرسكتى ہے ( جارى پانى ) اسكے فراہم كرنے كيطرف اشارہ ہے كہ وضع حمل كے بعد اطمينان و سكون خواتين كيلئے كسقدر ضرورى ہے_

۸_شائستہ اور پاكيزہ لوگوں كى امداد كو پہنچنا بالخصوص مشكل ترين حالات ميں الله تعالى كى ربوبيت كا جلوہ ہے _

قد جعل ربّك تحتك سريّا

۹_طبيعى اسباب كا عمل كرنا در حقيقت فعل خدا ہے _قد جعل ربّك تحتك سريّا چشمہ كے جارى ہونے كى نسبت الله تعالى كى طرف يہ نكتہ واضح كررہى ہے كہ چونكہ طبيعى اسباب درحقيقت الہى افعال كے جارى ہونے كے مقامات ہيں لہذا انكافعل خدا كا فعل ہے _

۱۰_ كائنات، الله تعالى كے ارادہ اور مشيت كى تسخير ميں ہے _قد جعل ربك تحتك سريّا بہ بھى ممكن ہے كہ چشمہ جارى كرنے كى نسبت اسيلئے الله تعالى كى طرف ہو كہ طبيعى اسباب سوائے الله تعالى كى اجازت كے كچھ نہيں كر سكتے _

۱۱_حضرت عيسي(ع) كے خا ص صفات انكى ولادت كے پہلے لمحہ سے ہى ظاہر ہوگئيں _فنادى ها من تحتهإلا تحزنى قد جعل ربّك تحتك سريّا كلمہ (من تحتها ) ( انكے نيچے سے ) بتارہاہے كہ حضرت عيسي(ع) نے اس وقت يہ جملہ فرمايا تھا كہ ابھى انكى والدہ نے انہيں اپنى گود ميں زمين پرليا تھا والدہ كے حالات كو سمجھنا اور انكے روحى احساسات كو درك كرنا، حضرت عيسي(ع) كى عميق صلاحتيوں كا ثبوت_

۶۴۱

۱۲_ حضرت مريم(ع) كے وضع حمل كے بعد الہى فرشتہ (جبرئيل ) نے انكے پاؤں كے نيچے سے پانى جارے ہونے كى خبر دى _فنادى ها من تحتها ألا تحزنى قد جعل ربّك تحتك سريّ احتمال ہے كہ ( فنادہا ) ميں فاعلى ضمير الہى فرشتہ كى طرف لوٹ رہى ہے _

۱۳_ ( عن أبى جعفر (ع) : ضرب عيسي(ع) بر جله فظهرت عين ماء تجرى (۱) امام باقر (ع) سے روايت نقل ہوئي ہے كہ ولادت كے وقت حضرت عيسي(ع) نے اپنے پاؤں كوزمين پر مارا تو جارى پانى كا چشمہ ظاہر ہوگيا _

۱۴_قال رسول الله (ص) :و هذا عيسي(ع) من مريم (ع) قال الله _عزوجل_ فيه ( فناداها من تحتها الا تحزنى فكلم الله وقت مولده (۲) رسول خدا(ص) سے روايت ہوئي كہ آپ نے فرمايا : يہ حضرت عيسى بن مريم(ع) تھے كہ جنكے بارے ميں الله تعالى نے فرمايا : (فناداها من تحتها ألا تحزنى ) پس عيسي(ع) نے ولادت كے وقت اپنى والدہ سے كلام كيا_

الله تعالى :الله تعالى كى امداد وں كا پيش خيمہ ۸; الله تعالى كى ربوبيت كى علامات ۸;اللہ تعالى كى مشيت كى حاكميت ۱۰; الله تعالى كے افعال ۴،۹/پاكيز ہ لوگ:پاكيزہ لوگوں كى امداد ۸

پانى :پانى كا چشمہ ۱۳/جبرئيل :جبرئيل اور مريم ۱۲/روايت :۱۳;۱۴/ضروريات :آرام كى ضرورت۷

طبيعى اسباب :طبيعى اسباب كا كردار ۷/طبيعت :طبيعت كى تسخير ۱۰

عيسى (ع) :عيسى (ع) كا حوصلہ دينا ۲; عيسي(ع) كا قصہ ۲;۳; ۱۳ ; ۱۴ ; عيسي(ع) كا معجزہ ۱۳;عيسى (ع) كا لو مولود حالت ميں بات كرنا ۲;۳;۱۴; عيسي(ع) كى بشارتيں ۵ ; عيسى (ع) كى خصوصيات ۱۱;عيسي(ع) كى ولادت ۴ ; عيسى (ع) كى ولادت كى خصوصيات ۱۱; عيسى (ع) كى نصيحتيں ۳

مريم (ع) :مريم (ع) كا غم ۳; مريم (ع) كا قصہ ۲،۳،۵، ۶ ; مريم (ع) كا وضع حمل ۱۲;مريم (ع) كو بشارت ۵;مريم (ع) كوحوصلہ ملنا ۲; مريم (ع) كو نصيحت ۳;مريم (ع) كو وحى ۱۲; مريم (ع) كى پريشانى كے اسباب ۶; مريم (ع) كے قصہ ميں پانى كي

____________________

۱) مجمع البيان ج۶ ص۷۹۰، بحارالانوار ج۱۴ص۲۲۶،

۲) روضة الواعظين ص۸۳بحارالانوارج ۱۴ ص ۲۲۰ ح۳۲

۶۴۲

نہر ۴،۵; مريم (ع) كے قصہ ميں كھجور ۱;مريم (ع) كے وضع حمل كا مكان ۱;وضع حمل كے وقت مريم(ع) كا پانى كے بغير ہونا ۶

وضع حمل :وضع حمل كے دوران آرام وسكون كى اہميت ۷; وضع حمل ميں معنوى ضروريات ۷

آیت ۲۵

( وَهُزِّي إِلَيْكِ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ تُسَاقِطْ عَلَيْكِ رُطَباً جَنِيّاً )

اور خرمے كى شاخ كو اپنى طرف ہلائيں اس سے تازہ تازہ خرمے گرپڑيں گے (۲۵)

۱_ حضرت عيسي(ع) نے پيدا ہوتے ہى اپنى والدہ مريم(ع) كو كھجور كے درخت كوہلانے اور اسكے پھل كو تناول كرنے كے حوالے سے راہنمائي كى _وهزى إليك بجذع النخلة تساقط عليك رطباً جنيا

( ہز) يعنى دائيں بائيں ہلانا اور قرينہ (إليك) كى مدد سے يہاں كھيچنے كے معنى ميں بھى استعمال ہو اہے _ لہذا ''ھزى إليك ''يعنى درخت كو اپنى طرف كھينچيں اور دائيں بائيں ہلائيں يہ راہنمائي جيساكہ بعد والى آيات سے ظاہر ہورہا ہے كہ حضرت مريم كى غذا كے حوالے سے ضرورت پورى كرنے كيلئے تھى _

۲_ وہ كھجور كا درخت جسكے قريب حضرت مريم كا وضع حمل ہواتھا وہ بغير پھل كے تھا _

وهز ى اليك بجذع النخلة تساقط عليك رطباً جنيا

جملہ (تساقط عليك ) حضرت مريم پر احسان و عنايت كى وضاحت كررہا ہے نہ كہ معمول كے مطابق درخت كے ہلانے كے نتيجہ كى طرف اشارہ كررہا ہے _ كيونكہ ايسى صورت ميں تو راہنمائي كى ضرورت ہى نہتھى _ لہذا درخت كوہلانے كے بعد اسميں كھجور ظاہر ہوئي اور وہ نيچے گرى اس كلام ميں كلمہ جذع كا مضاف ہونا اور تساقط) كى نخلة كى طرف نسبت بتارہى ہے كہ يہ درخت خشك تھا اور كھجور كا گرنا معمول سے ہٹ كرايك معجزہ تھا _

۳_ كھجور كے درخت كا معمول سے ہٹ كر پھل دار ہونا، حضرت مريم كى كوشش اور انكے كھجور كے درخت كو ہلانے جلانے پر موقوف تھا _وهزّ ى إليك تساقط

فعل ( تساقط ) مجزوم ہے يہاں جزم كا سبب شرط مقدر ہے يعنى اگر آپ نے كھجور كے درخت كو ہلايا اور اپنى جانب كھينچا تو آپكے ليے كھجوريں گرائے گا _

۶۴۳

۴_تازہ ، پكى ہوئي اور ظاہرى طور پر سالم، حضرت مريم (ع) پر گرنے دالى كھجور وں كى خصوصيات تھيں _تساقط عليك رطباً جني ( رطب) تاز ى كھجور كو كہتے ہيں ''جنى ''جب وہ پھل كى صفت ہو _ تو اس معنى ميں ہے كہ جب پھل اپنے وقت پر درخت سے توڑا جائے ( معجم مقاييس اللعة)

۵_تازہ كھجور ( رطب) عورت كيلئے وضع حمل كے بعد مناسب ترين غذا ہے _وهزّى تساقط عليك رطباًجنيا

حضرت مريم كو درخت ہلانے اور كھجوركھانے كى نصيحت بتارہى ہے كہ يہ وضع حمل كے بعد عورتوں كيلئے مناسب ترين غذا ہے _

۶_ حضرت مريم الله تعالى كى خصوصى عنايات كى حامل اور صاحب كرامات تھيں _و هزّى إليك تساقط

۷_ درخت كافورى طور پر پھل دار ہوجانا اور حضرت مريم ميں اسكو ہلانے كى طاقت كا ہونا انكى كرامات ميں سے تھا _

وهزى إليك تساقط

۸_عن أميرالمؤمنين (ع) قال :ماتا كل الحامل من شي ولاتتداوى به أفضل من الرطب قال الله _ عزوجل _ لمريم (ع) وهزّى اليك بجذع النخلة تساقط عليك رطباًجنياً فكلى واشربى وقرى عينا ً (۱) اميرالمؤمنين(ع) سے روايت ہوئي ہے كہ آپ نے فرمايا : حاملہ عورت، تازہ كھجور سے بہتر كوئي چيز نہيں كھاتى اور نہ اس سے بہتر كسى چيز سے اپنى دوا كرسكتى ہے _ الله تعالى نے حضرت مريم كو فرمايا :وهزى إليك بجذع النخلة تساقط عليك رطباً جنياً فكلى

۹_عن أميرالمؤمنين قال : قال رسول اللّه(ص) : ليكن أول ماتا كل النفساء الرطب ، لانّ الله تعالى قال لمريم : وهزى إليك بجذع النخلة تساقط عليك رطباً جنياًً فكلى (۲) امير المؤمنين سے روايت ہوئي كہ رسول الله (ص) نے فرمايا : بہتريہى ہے كہ وضع حمل كے بعد عورت سب سے پہلے كھجور كھائے كيونكہ الله تعالى نے حضرت مريم(ع) كو فرمايا : وہزى إليك بجذع النخلة تساقط عليك رطباًجنياً فكلي

۱۰_عن أبى الحسن الرضا (ع) قال : كانت نخلة مريم العجوة، ونزلت فى كانون ونزل مع آدم (ع) من الجنة العتيق والعجوة منهماتفرّق أنواع النخل (۳) امام رضا (ع) سے

____________________

۱)حصال صدوق ص۶۳۷باب اربعمائة ح۱۰ ، نور الثقلين ج۳ ص۳۳۰ح۵۰_۲) كافى ج۶ ص۲۲ ح۴ ، نو ر الثقلين ج۳ ص۳۳۰ ح۵۱

۳) محاسن برقى ج۲ ص۵۳۰ ح۷۷۵، قصص الانبياء راوندى ص۲۶۶ ح۳۰۵

۶۴۴

روايت ہوئي ہے كہ : مريم (ع) والى كھجور، عجوہ تھى جو كہ ماہ كانون ( ايك رومى ميہنہ ) ميں نازل ہوئي حضرت آدم(ع) بہشت سے عتيق ( نر كھجور كا درخت ) اور عجوہ ( كھجور كى ايك قسم كہ جيسے لينہ كہا كيا ہے ) ليكر نازل ہوئے كہ ان دونوں سے كھجور كى مختلف اقسام پھيليں _

حاملہ :حاملہ كى غذا ۸

روايت:۸;۹;۱۰

عيسى :عيسي(ع) كا قصہ ۱; عيسي(ع) كا نو مولودى حالت ميں كلام ۱; عيسي(ع) كا ہدايت دنيا ۱

كھجور :كھجور كے فوائد ۵;۸;۹

لطف الہى :لطف الہى كے شامل حال۶

مريم'س' :مريم 'س' كا قصہ ۲،۳; مريم'س' كى قدرت ۷;مريم كى كرامات ۶، ۷ ; مريم'س' كى كوشش كے آثار ۳; مريم'س' كى ہدايت ۱ ;مريم 'س'كے قصہ ميں كھجور كا تازہ ہونا۴;مريم'س' كے قصہ ميں كھجور كا خشك ہونا ۲;مريم'س'كے قصہ ميں كھجور كى خصوصيات ۱۰;مريم 'س'كے قصہ ميں كھجوركے درخت كا پھل دار ہونا ۳ ; ۷ ; مريم'س' كے قصہ ميں كھجور كے درخت كا پھل دنيا ۳;مريم'س' كے قصہ ميں كھجور كے درخت كو يلايا جانا ۱،۷; مريم 'س' كے مقامات ۶،۷

وضع حمل :وضع حمل كرنے والى كيلئے مناسب غذا ۵;۹

آیت ۲۶

( فَكُلِي وَاشْرَبِي وَقَرِّي عَيْناً فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً فَقُولِي إِنِّي نَذَرْتُ لِلرَّحْمَنِ صَوْماً فَلَنْ أُكَلِّمَ الْيَوْمَ إِنسِيّاً )

پھر اسے كھايئےور پيجئے اور اپنى آنكھوں كو ٹھنڈى ركھئے پھر اس كے بعد كسى انسان كو ديكھئے تو كہہ ديجئے كہ ميں نے رحمان كے لئے روزہ كى نذر كرلى ہے لہذا آج ميں كسى انسان سے بات نہيں كرسكتى (۲۶)

۱_ حضرت عيسي(ع) نے پيدا ہوتے ہى اپنى والدہ حضرت مريم كو تازہ كھجور يں كھا نے اور چشمہ كے پانى پينے

۶۴۵

كى دعوت دىفنادى ها من تحتها تحتك سريّاً رطباً جنياً فكلى واشربي

۲_ تازہ كھجور، ( رطب) وضع حمل كے بعد عورت كيلئے ايك مناسب غذا ہے _فكلي حضرت مريم ،كوتازہ كھجور كھانے كى نصيحت وضع حمل كے بعد خواتيں كيلئے اس غذا كے مناسب ہونے پر دليل ہے _

۳_ حضرت عيسي(ع) كا اپنى والدہ سے تكلم كرنا اور پانى و غذا كى ضرورت معجزاتى طريقہ سے پورا ہونا حضرت مريم كى مسرت اورآنكھوں كى ٹھنڈ ك اور ساتھ ہى آيندہ آنے والے مشكلات كے دور ہونے كا باعث تھا_فناديها فكلى واشربى و قرّى عينا ( عيناً) تميز ہے اور فاعل كى حقيقى مراد كو بيان كررہا ہے ( قرّى ) مادہ (قرار) سے ہے اسكا معنى ( آرام پانا) ہے يا مادہ ( قرّ) سے ہے كہ اس كا معنى سرد ہونا ہے _ اگر پہلا معنى مراد ليں تو مطلب ہے كہ آنكھوں كے ليے پر سكون ہو اور اگردو سرا معنى ليں تو مطلب ہے آنكھوں كو ٹھنڈاكرو ( يعنى آپكى آنكھيں جلتے ہوئے آنسوؤں سے دور رہيں ) بہر حال دونوں صورتيں يہ خوشحالى اور شادمانى سے كنايہ ہيں كہ آنكھيں پريشانى اور اضطراب سے پاك ہوں اور غم و ررنج كے آنسوؤں سے دور رہيں جملہ ( قرّى عينا) كا پچھلے جملات سے رابطہ مندرجہ بالا مطلب كو بيان كررہا ہے _

۴_بچے كا پيدا ہونا، ماں كى آنكھوں كى روشنى اور دل كے سكون كا باعث ہے _وقرّى عين جملہ ( قرّى عيناً) ممكن ہے كہ ايك مستقل جملہ ہو تو اس صورت ميں يہ جملہ اپنے سياق كے مطابق بچے كى ولادت سے مربوط ہوجائے گا_

۵_ بچے كى ولادت كے بعد والدہ كو مبار ك باد اور خوشحالى كى دعا دينا،ايك پسنديدہ كام ہے _وقرّى عين

حضرت مريم كو آنكھوں كى روشن رہنے كا جملہ كہنا جس صورت ميں بھى ہو ماوؤں كو بچوں كى پيدائش كے بعد اس كے ليئے پسنديدہ ہونے پر دلالت كررہا ہے _

۶_ عورت، وضع حمل كے بعد مناسب غذا اور روحى وذہنى حوالے سے آرام وتسلى كى محتاج ہوتى ہے _

فكلى واشربى وقرّى عينا

۷_ حضرت عيسي(ع) نے لوگوں كى تہمتوں كے مقابل اپنى والدہ كے دفاع كى ذمہ داريسنبھالي_فإمّا ترينّ من البشر أحدا ً فقولى إنّى نذرت للرحمن صوما حضرت عيسي(ع) كى جانب سے اپنى والدہ كو سكوت اختيار كرنے كى نصيحت كا مطلب يہ تھا كہ وہ اپنے دفاع كے حوالے سے پريشان نہ ہوں چونكہ يہ كام خود حضرت عيسي(ع) انجام د يں گے _ اور حضرت عيسي(ع) كا ولادت كے بعد اپنى والدہ سے تكلم كرنا حضرت مريم كے ليے اطمينان كا باعث تھا كہ وہ يہ كام بخوبى كرليں گے _

۶۴۶

۸_ حضرت عيسي(ع) نے اپنى والدہ حضرت مريم كو لوگوں سے مقابلہ كرنے كى روش اور انكى تہمتوں كے مقابلہ ميں رد عمل كا طريقہ سكھايا _فإمّا ترينّ من البشرأحداً فقولي

۹_ حضرت مريم وضع حمل كے وقت اوراسكے بعد اپنى قوم كى طرف پلٹنے تك تنہا تھيں _

فحملتة فانتبذت به مكاناً قصيّاًفإمّا ترين من البشرأحدا

جملہ شرطيہ ( فإما ترين )ممكن ہے اس مطلب پر دالالت كررہا ہو كہ وضع حمل اور اسكے بعد وہاں كوئي انسان نہ تھا اگر چہ سياق وسباق كے قرينہ سے كہا جاسكتا ہے يہاں مراد عموى انسان نہيں ہيں بلكہ وہ افراد مراد ہيں كہ جنكے نزديك حضرت مريم كا بچہ دار ہونا سوال انگيز ہو بعض نے (البشر) ميں ال كو عہدى جانا اوراس سے مراد انكى قوم كو جانا ہے_

۱۰_حضرت عيسي(ع) نے اپنى والدہ حضرت مريم(ع) كو لوگوں كا سامنا كرنے كى صورت ميں سكوت كے روزہ كى نذر ماننے كى نصيحت كى _فإما ترين من البشر أحد اً فقولى إنّى نذرت للرحمن صوما

۱۱_حضرت مريم نے اپنى قوم كے سب سے پہلے فرد كا سامنا كرتے ہى سكوت كے روزہ كى نذر مان لى _

فإما ترين من البشر أحداً فقولى إنّى نذرت

( فقولى ) كا ظاہر يہ ہے كہ مريم(ع) نے اپنى نذركو زبان سے بيان كيا ہو تو اسى صورت ميں وہى جملہ ( إنّى نذرت ) صيغہ نذرتھا اور حضرت مريم (ع) كى نذر اسے كہنے سے منعقد ہوگئي _

۱۲_ حضرت مريم(ع) ، كے سكوت كا روزہ ايك دن كا تھا اور يہ وہى وقت تھا كہ جب وہ اپنى قوم كى طرف لوٹ كرگيئں تھيں _إنى نذرت للرحمن صوماً فلن أكلم اليوم إنسيّا ( اليوم ) ميں الف لام عہد حضورى ہے يعنى ''آج '' اس سے مراد وہى اور روز ہے كہ جب وہ اپنے نومولود كے ساتھ اپنى قوم ميں لو ٹ كر گئيں _

۱۳_ حضر ت مريم نے اپنے فرزند كى راہنمائي كى بناپر اپنے روزہ كو الله تعالى كى وسيع رحمت كے حامل ہونے كے ساتھ ربط كا اعلان كيا _إنى نذرت للرحمن صوما

۱۴_ الله تعالى كى وسيع رحمت سے بہرہ مند ہونے كى صورت ميں ردّ عمل كے طور پر روطہ شائستہ عمل ہے_إنى نذرت للرحمن صوم

۱۵_ ( رحمان) الله تعالى كے اسماء اور صفات ميں سے ہے _للرحمن

۱۶_ حضرت مريم(ع) كا جسم و روح الله تعالى كى خصوصى نگرانى كے تحت تھے_فنا دى ها فكلى واشربى فإماترينّ

حضرت مريم كو پكارنے والا جو بھى ہو ،چاہے حضرت عيسي(ع) ہوں يا كوئي فرشتہ، بہر حال الله تعالى

۶۴۷

كى جانب سے تھا اور اسكے فرمان كے مطابق تھا لہذا ہم كہہ سكتے ہيں كہ حضرت مريم ان تمام حالات ميں الله تعالى كى خصوصى نگرانى ميں تھيں _

۱۷_ حضرت مريم(ع) كے دين ميں نذر ،ايك پسنديدہ چيز اور انكے ہم عصر لوگوں ميں يہ معروف چيز تھى _

فإما ترينّ من البشر أحداً فقولى إنّى نذرت للرحمن

۱۸_ سكوت كے روزہ كا پسنديدہ ہونا او ر اسكے ساتھ نذركا تعلق حضرت مريم(ع) كے دينى احكام ميں سے تھا ( دين يہود )

إنى نذرت للرحمن صوما

۱۹_ روزہ كى مدت ميں انسانوں سے كلام كا ترك كرنا، حضرت مريم(ع) كے دين ميں روزہ كے احكام ميں سے تھا _إنى نذرت للرحمن صوماً فلق أكلم اليوم إنسيا وہ روزہ جو حضرت مريم(ع) نے ركھا تھا دو صورتوں ميں نقل ہوا ہے (۱) كھانے اور بات كرنے سے پرہيز _ چونكہ اس زمانہ كى شريعت ميں روزہ دار كيلئے ضرورى تھا كہ وہ كلام سے بھى اجتناب كرے(۲) سكوت كى صورت ميں روزہ كہ روزہ دار صرف كلام كرنے سے پرہيز كرتا تھا ظاہر آيت پہلى صورت كے ساتھ مناسب ہے كيونكہ انہوں نے مطلقا روزہ كرنے كى نذر كى تھى اور اسكے ضمن ميں ترك كلام كيا تھا _

۲۰_ حضرت مريم(ع) كے دين ( دين يہود ) ميں روزہ دار، انسانوں كے علاوہ دوسروں سے كلام اور ذكر خدا كر سكتا تھا _إنى نذرت للرحمن صوماً فلن أكلم اليوم إنسيا (إنسي) يعنى ايك انسان ( قاموس) جملہ (لن أكلم اليوم إنسيا ) جملہ( إنى نذرت) كى فرع ہے لہذا يعنى چونكہ ميں نے روزہ كى نذركى ہے كسى انسان سے كلام نہيں كرسكتى اس فرع سے يوں ظاہر ہوتا ہے كہ يہود كے دين ميں روزہ دار كے ليے ضرورى ہے كہ وہ كسى انسان سے تكلم نہ كرے _ ليكن ذكر كرنا، الله تعالى سے مناجات كرنا ممنوع نہيں تھا _

۲۱_ جوان عورت كا اجنبى مرد سے بات كرنا جائز ہے_فلن أكلم اليوم إنسيا اگر عورت كا نامحرم سے بات كرنا، سرے سے حرام ہوتا تو يہاں عذ ر شرعى پيدا كرنے اور خاموشى كے روزہ كى نذر كرنے كى ضرورت ہى نہ تھى _ كہا جاتا ہے كہ يہ آيت روزہ سكوت كے مورد سے ہٹ كر قابل تمسك ہے چونكہ روزہ سكوت كے نسخ پر خاص نص وارد ہوئي ہے _

۲۲_نذر كى پابندى واجب ہے _إنى نذرت للرحمن فلن أكلم اليوم إنسيا اگر مريم(ع) نذر كے با وجود بات كرنے كا حق ركھتيں انكى نذر، لوگوں كے نزديك سكوت كے حوالے قطعى عذر نہيں ہوسكتى تھي_

۲۳_وہ عورت جس كا شوہر نہ ہو وہ نذر كرنے ميں آزاد ہے _

۶۴۸

فقولى إنى نذرت

۲۴_ نذر ميں قصد قربت لازم ہے _إنى نذرت للرحمن

۲۵_قربت كى نيت معاشر تى غير مناسب رويوں سے نجات كى نيت كے ساتھ منافى نہيں ہے _إنى نذرت للرحمن صوماً فلن أكلم اليوم إنسيا حضرت مريم(ع) نے لوگوں كے نز ديك اپنے سكوت كا عذ ر پيدا كرنے كيلئے روزہ كى نذركى ليكن جملہ (إنى نذرت للرحمان ) كے ساتھ اپنى نذر كو تقرب خدا كا وسيلہ قرارديا _

۲۶_نذر كرنے والے كيلئے ضرورى ہے كہ نذر كے صيغہ كا تلفظ ادا كرے _فقولى إنى نذرت

۲۷_نذركے صيغہ ميں ضرورى ہے كہ الله تعالى كے نام كا ذكر كرے _إنى إنى نذرت للرحمن

۲۸_(رحمان ) صفت كا ذكر، نذر كے صحيح ہونے كيلئے كافى ہے _إنى نذرت للرحمن

۲۹_ نذر تبرعى ( يعنى نذر كا كسى شرط پر معلق نہ ہونام صيحح ہے _إنى نذرت للرحمن صوما

۳۰_معاشرتى مشكلات سے فرار ہونے كيلئے نذر سے فائدہ اٹھانا جائزہے _إنى نذرت فلن أكلم اليوم إنسيا

۳۱_عن أبى عبدالله (ع) قال : إن الصيام ليس من الطعام والشراب وحده قالت مريم : إنى نذرت للرحمان صوماً أى صوماً حمتاً (۱) امام صادق عليہ السلام سے روايت ہوئي كہ آپ نے فرمايا : روزہ صرف كھانے پينے سے پرہيز نہيں ہے _ مريم نے كہا تھا :''إنى نذرت للرحمان صوماً ''يعنى سكوت كا روزہ _

آرام :آرام كے اسباب۴

آنكھ كى روشنى :آنكھ كى روشنى كے اسباب ۴

احكام :۲۱;۲۲;۲۳;۲۴;۲۶;۲۷;۲۸;۲۹;۳۰

اخلاص :اخلاص اور معاشرتى مشكلات سے رہائي و نجات ۲۵

اسماء و صفات :رحمان ۱۵

الله تعالى :الله تعالى كى حمايتں ۱۶

بچہ دارہونا :بچہ دار ہونے كے آثار ۴

____________________

۱)كافى ج۴ ص۸۷ج۳، نورالثفلين ج۳ص۲ ۳۳ ح۵۸_

۶۴۹

خوشى :خوشى كے اسباب ۴

ذكر :روزہ ميں الله تعالى كا ذكر ۲

رحمت :رحمت كے شامل حال لوگوں كى ذمہ دارى ۱۴; رحمت كے شامل حال ۱۳

روايت :۳۱روزہ :روزہ كا كردا ر ۱۴; روزہ كے احكام ۱۹،۲۰; سكوت كا روزہ ۱۹;۲۰; يہوديت ميں روزہ ۱۹ ، ۲۰ ; يہوديت ميں سكوت كا روزہ ۱۸

عمل :پسنديدہ عمل ۵/عورت :عورت كى نذر ۲۳

عيسي(ع) :عيسي(ع) كا قصہ ۱;۳ك۷;۸; عيسي(ع) كا كردار ۷; عيسي(ع) كا نو مولود حالت مين تكلّم ۱;۳;۷;عيسى كا ہدايت دنيا ۱۳عيسى كى تعليمات ۸; عيسي(ع) كى نصحتيں ۱۰;/كھجور :كھجور كے فوائد ۲

مريم :مريم پر زنا كى تہمت ۷،۸;مريم كا بچہ پيدا كرنا۹; مريم كا پانى پينا ۱;مريم كا دفاع ۷; مريم كا سكوت كاروزہ ۱۰،۱۱،۱۲،۳۱; مريم كا قصہ ۱،۳، ۷، ۸،۹، ۱۰ ، ۱۱ ،۱۲،۱۶; مريم كا كھجور كھانا ۱; مريم كا معلم ۸;مريم كو ہدايت ۱۳ ; مريم كى آنكھ ميں روشنى كا باعث ۳;مريم كى پانى كى ضرورت پورى ہونا ۳;مريم كى پريشانى كے دور ہونے كے اسباب ۳; مريم كى تنہائي ۹; مريم كى حفاظت ۱۶; مريم كى غذا كى ضرورت پورى ہونا ۳; مريم كى ملاقات كے حوالے سے روش۸;مريم كى نذر ۱۰،۱۱،۳۱; مريم كے زمانہ ميں نذر ۱۷; مريم كے سرور كا باعث ۳; نصيحت مريم كو كرنا۱۰

معاشرت :معاشرت كے آداب ۵

نامحرم :نامحرم كے احكام ۲۱; نامحرم سے گفتگو۲۱

نذر:معاشر تى مشكلات سے نجات كيلئے نذر ۳۰; نذر تبرعى ۲۹; نذر سے وفا كا وجوب ۲۲;نذر كا صيغہ ۲۶،۲۷، ۲۸; نذر كى تاريخ ۱۷; نذر كے احكام ۲۲،۲۳، ۲۴،۲۶،۲۷،۲۸،۲۹ ،۳۰ ; نذر كے صحيح ہونے كے شرائط ۲۸;نذر ميں اخلاص ۲۴;نذر ميں نيت ۲۴; يہوديت ميں نذر ۱۷،۱۸

واجبات :۲۲

وضع حمل :وضع حمل كرنے والى كو حوصلہ دينا ۶; وضع حمل كرنے والى كيلئے آرام ۶; وضع حمل كے بعد مادى ضروريات ۶;وضع حمل كے بعد مباركباد ۵; وضع حمل كے بعد نفيساتى ضروريات ۶; وضع حمل كيلئے غذا ۲،۶

۶۵۰

آیت ۲۷

( فَأَتَتْ بِهِ قَوْمَهَا تَحْمِلُهُ قَالُوا يَا مَرْيَمُ لَقَدْ جِئْتِ شَيْئاً فَرِيّاً )

اس كے بعد مريم بچہ كو اٹھائے ہوئے قوم كے پاس آئيں تو لوگوں نے كہا كہ مريم يہ تم نے بہت برا كام كيا ہے (۲۷)

۱_ حضرت مريم نے اپنے نو مولود عيسي(ع) سے راہنمائي لينے كے بعد اسے اعلانيہ اپنى گود ميں ليا اور اپنى قوم كى طرف گئيں _فا تت به قومها تحمله

۲_ حضر ت مريم لوگوں كى طرف لوٹنے كے وقت ہر قسم كے خوف اور پريشانى سے خالى تھيں _

فكلى واشربى فإماتريّن من البشر فا تت به قومها تحمله

اگر چہ جملہ ( أتت بہ قومہا ) عيسي(ع) كا اپنى والدہ كے ذريعے واضح اظہار كيلئے مكمل تھا ليكن يہا ں جملہ حاليہ ( تحملہ ) كا بھى اضافہ ہوا ہے تا كہ مريم كے اپنے فرزند كو اٹھانے پر دلالت ہو گويا حضرت مريم ميں اپنے فرزند كو پنہان كرنے كا كوئي ارادہ ہى نہ رہا ہو بلكہ اعلانيہ انہيں گود ميں ليا اور لوگوں ميں چلى آئيں _

۳_لوگوں نے مريم كو اپنے بچے كے ہمراہ ديكھتے ہى بغير سوال وجواب كے ان پر زنا كى تہمت لگائي _

فا تت به قومها تحمله قالوايا مريم لقد جئت شئياً فريّا

( فريّا ) صفت شبہ ہے اس سے مراد سنگين، بڑا عجيب اورايسا كام ہے جو پہلے كبھى نہ ہوا ہو يہ لفظ مادہ ( فرى ) سے بنا ہے كہ جس كا معنى قطع يعنى توڑنا ہے يعنى ايسے عمل نے گذشتہ سنت كو توڑ ديا ہے بھرحال جنہوں نے بھى يہ لفظ كہا انكى مراد حضرت مريم پر زنا كى تہمت تھى _

۴_ حضرت مريم اپنى قوم ميں ماضى ميں بھى صحيح و سالم اورہر قسم كى بد نامى سے پاكيزہ تھيں _

قالو يا مريم لقد جئت شيئاً فريّا

( فرياً) بتا رہا ہے كہ لوگوں نے ايك فضول تصور كى بناء حضرت مريم كو خطا كا رجانا اور اس كام سے وہ حيران رہ گئے اسكو گذشتہ سنت كے مخالف جانا لہذا معلوم ہوا انكے نزديك مريم كا كردارانتہائي اچھااور پاكيزہ تھا _

۵_ حضرت مريم كے زمانہ ميں بيت المقدس كے لوگ ،اخلاقى اور جنسى انحرافات كے مقابل بہت حساس

۶۵۱

تھے _لقد جئت شياً فريّا

۶_ عن أبى جعفر (ع) قال : لما قالت العواتق لمريم لقد جئت شياً فريّا أنطق الله تعالى عيسي(ع) عند ذلك (۱)

امام باقر (ع) سے روايت ہوئي ہے كہ جب نور س كى بہنوں نے مريم سے كہا :'' لقد جئت شيئاً فرياً ''اللہ تعالى نے اسى وقتعيسى (ع) كى زبان كو گفتگو كرنے كيلئے كھول ديا _

احساسات :ماں كے احساسات ۱

روايت :۶

عيسى :عيسى كا نومولود حالت ميں بولنا ۶; عيسي(ع) كا قصہ ۱;۶

مريم :مريم پرزنا كى تہمت ۳،۶; مريم كا اچھا سابقہ ۴;مريم كا قصہ ۱،۲،۶; مريم كا لوٹنا ۱;۲ مريم كى پريشانى دور ہونا ۲;مريم كى عفت ۴; مريم كے احساسات ۱

يہود :زمانہ مريم ميں يہود اور جنسى انحرافات ۵;زما نہ مريم ميں يہود كى تہمتيں ۳; زمانہ مريم ميں يہو د كى صفات ۵

آیت ۲۸

( يَا أُخْتَ هَارُونَ مَا كَانَ أَبُوكِ امْرَأَ سَوْءٍ وَمَا كَانَتْ أُمُّكِ بَغِيّاً )

ہارون كى بہن نہ تمھارا باپ برا آدمى تھا اور نہ تمھارى ماں بدكردرا تھى (۲۸)

۱_ حضرت مريم كى قوم نے انكے والدين كى عفت و پاكيزگى بيان كرتے ہوئے انہيں بغير نكاح كے بچہ دار ہونے پر سرزنش كى _ماكان أبوك امرا سوء وماكانت أمّك بغيّا

۲_ حضرت مريم حضرت ہارون كى نسل ميں سے تھيں _يا أخت هارون

جو قبيلہ جس شخص كى نسل سے تشكيل پائے اسے اسى شخص كے نام سے پكارا جاتا ہے اور اس قبيلہ كے افراد اخ يا اخت سے ايك دوسرے پكارتے تھے لہذا يہاں حضرت مريم اخت ہارون ہيں كا اطلاق اس حوالے سے تھا كہ وہ ہارون كى نسل ميں سے تھيں _

۳_ حضرت مريم كى قوم كے درميان ہارون ايسى صالح شخصيت تھى كہ پاكيزہ افراد كو انكى طرف منسوب كيا جاتا تھا_

____________________

۱) قصص الانبياء راوندى ص۲۶۵، ح۳۰۴ ، بحارالانوار ج۱۴ ص۲۱۵ ح۱۵_

۶۵۲

يا خت هارون

بعض مفسرين نے مريم كا ہارون كى طرف منسوب كيے جانا كا مقصد نسبى تعلق نہيں جانا بلكہ ہارون چونكہ حضرت مريم كى قوم ميں ايك برجستہ ترين شخص تھے كہ زہد و تقوى كے حامل اشخاص كو لوگ انكى طرف منسوب كيا كرتے تھے لہذا ان مفسرين نے اس نسبت كو اس حوالے سے جانا ہے _

۴_ مريم كے ايك پاك سيرت بھائي ،ہارون تھے _يا خت هارون

يہ بھى امكان ہے كہ حضرت مريم كى قوم نے اس ليئے انہيں اخت ہارون كہا كہ ان كا اس نام كا ايك بھائي تھا چونكہ اس كا ذكر خير مريم كے والدين كى پاكيزہ گى كى مانند لوگوں كى زبانوں پر رہاتھا _ اس قسم كے شائستہ لوگوں سے مريم كا تعلق لوگوں كے نزديك انكے گناہ كے بدترين ہونے كى وجہ تھي_

۵_ حضرت مريم كے والدين، اپنے زمانہ كے لوگوں ميں پاكيز گى اور نيك نامى كے حوالے سے مشہور تھے _

ما كان أبوك امرأ سوء وما كانت أمّك بغيا

۶_ بيت المقدس كے لوگوں نے حضرت مريم پر زنا كى تہمت لگائي _وما كانت أمّك بغيا

( بغي) يعنى بد كار عورت ( قاموس) لوگوں نے اگرچہ مريم پر واضح طور پر زنا كى تہمت نہيں لگائي ليكن كنايہ كے ساتھ يہ سب كچھ كہا جملہ ( و ما كا نت ) تمہارى ماں بد كارنہ تھى ) يعنى تم ايسى ہو_

۷_خاندان بالخصوص باپ كا بچوں كے اخلاقى رشد يا انحطاط ميں موثر كردار ہے _ما كان أبوك امرا سوء وما كانت امك بغي وہ تعبير جو حضرت مريم كى قوم نے انكے والدكے حوالے سے استعمال كى ہے اسميں تمام برائيوں كى نفى تھى _ يہ تعبير حكايت كررہى ہے كہ والدكى برائياں جيسى بھى ہوں ،بچوں كے فاسد ہونے ميں اہم كردار ركھتى ہيں البتہ والدہ كاكردار اتنى وسعت سے موثر نہيں ہے _

۸_ دوسرے كى نسبت صالح والدين كى اولاد سے كہ جس كہ رشتہ دار بھى عظيم ہوں اگر برے افعال صادر ہوں تو وہ زيادہ مذمت اور شرم كے قابل ہيں _ياأخت هارون ماكان أبوك امرا سوء و ماكانت امك بغيا

۹_ حضرت مريم اورانكا خاندان اپنے زمانہ ميں لوگوں كے درميان مشہورومعروف تھا _

يا خت هارون ماكان أبوك امرا سوء و ماكانت أمّك بغيا

۱۰_روى عن النبى (ص) أنه قال : هارون

۶۵۳

الذى ذكروه ( فى قوله تعالى : ى أخت هارون ) هو هارون أخوموسى (ع) (۱)

رسول خدا سے روايت نقل ہوئي كہ آپ(ص) نے فرمايا : ہارون جس كا مريم كى قوم نے تذكرہ كيا تھا وہ وہى حضرت موسى (ع) كے بھائي تھے_

۱۱_عن المغيرة بن شعبه قال : بعثنى رسول الله (ص) إلى أهل نجران فقالوا: ا را يت ما تقرا ون ؟ ( ى أخت هارون ) و موسى قبل عيسي(ع) بكذا وكذا قال : فرجعت فذكرت ذلك لرسول الله (ص) فقال : ألا اخبرتهم أنهم كانوا يسمّون بالا نبياء والصالحين قبلهم (۲)

مغيرہ بن شعبہ كہتے ہيں :پيغمبر اكرم (ص) نے مجھے اہل نجران كى طرف بھيجا انہوں نے مجھ سے پوچھا ہميں بتاؤيہ جو تم كہتے ہو ( يا اخت ہارون ) اس سے مراد كيا ہے حالانكہ حضرت موسى (ع) عيسى (ع) سے مدتوں پہلے تھے ( اورہارون ان كے بھائي تھے )

مغيرہ نے كہا ميں لوٹ آيا اور سب ماجرا رسول خدا (ص) كى خدمت ميں عرض كيا :انہوں نے فرمايا : كيوں نہيں ، انہيں بتايا كہ اس زمانے والے اپنے سے پہلے انبياء اور صالحين كا نام ركھا كرتے تھے _

باپ:باپ كے كردار كى اہميت ۷

صالحين :صالحين كے بچوں كا ناپسنديدہ عمل ۸; صالحين كے رشتہ داروں كا ناپسنديدہ عمل ۸

فرزند :فرزند كے انحطاط كے اسباب ۷; فرزند كے كمال كے اسباب ۷

فيملى :فيملى كا كردار ۷

مريم :مريم كى سرزنش ۱; مريم كا قصہ ۱،۶;مريم پر زنا كى تحمت ۶; يہودميں مريم كى شخصيت ۹; مريم كے آباؤ اجداد ۳; مريم كے بھائي ۴; مريم كے والدين كا بہترين سابقہ۵;مريم كے والدين كى عفت ۱; يہود ميں مريم كے آباؤاجداد كى شخصيت ۹

ہارون :ہارون اور مريم ۱۰;۱۱; ہارون كا احترام ۲; ہارون كى طرف نسبت كا معيار ۲; ہارون كى نسل ۳;يہود ميں ہارون ۲

يہودي:مريم كے زمانہ يہوديوں كى تہمتيں ۶; مريم كے زمانہ ميں يہو ديوں كى سرزنش ۱

____________________

۱)امالى سيد مرتضى ج۴ ص۱۰۶، تفسير برہان ج۳ ص۱۰ ح۲_

۲)الدرالمنشور ج۵ ص۵۰۷، نورالثقلين ج۳ ص۳۳۳ ح۶۳_

۶۵۴

آیت ۲۹

( فَأَشَارَتْ إِلَيْهِ قَالُوا كَيْفَ نُكَلِّمُ مَن كَانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيّاً )

انھوں نے اس بچہ كى طرف اشارہ كرديا تو قوم نے كہا كہ ہم اس سے كيسے بات كريں جو گہوارے ميں بچہ ہے (۲۹)

۱_ حضرت مريم (ع) نے اپنے نو مولو د ( حضرت عيسى (ع) ) كى طرف اشارہ كرتے ہوئے اپنے او پر لگائي تہمت كے جواب كى ذمہ دارى انكے حوالے كي_و ماكانت أمّك بغياً _ فا شارت إليه

۲_ حضرت مريم (ع) اپنى قوم كى تہمتوں كا سامناكرتے وقت روزہ سے تھيں اور بات نہيں كررہى تھيں _

فا شارت إليه

۳_ حضرت مريم (ع) اپنے نو مولود فرزند حضرت عيسى (ع) ميں كلام كرنے اور تہمتوں كو دور كرنے كى قدرت پر يقين ركھتى تھيں _فا شارت إليه

حضرت مريم (ع) كا اپنى قوم ميں آنا اور اعلانيہ طور پر اپنے فرزند كولانا او رتہمتوں كے جواب دينے كے بجائے انكى طرف اشارہ كرنا، انكے يقين كو واضح كررہا ہے_

۴_ حضرت مريم(ع) اپنے نو مولود عيسى (ع) كے ساتھ اپنى قوم كي طرف دن كے وقت لوٹ كرآئي تھيں _

فلن أكلم اليوم إنسياً فأشارت إليه

۵_ لوگوں نے جب ديكھا كہ حضرت مريم (ع) نے تہمتوں كے جواب كى ذمہ دارى اپنے نو مولود حضرت عيسي(ع) كے كندھوں پر ڈال دى ہے تو وہ حيران رہ گئے انہوں نے اس چيز كو تسليم نہ كيا _

فأشارت إليه قالو كيف نكلّم من كان فى المهد صبيا

آيت ميں استفہام انكار ہے اور اس انكار كے ہمراہ بہت سى تاكيد بھى ہے_(۱) فعل ميں استفہام كہ جو ان موارد ميں ماضى پردلالت نہيں كررہا بلكہ قرار اور ثبات كوسمجھا رہا ہے (۲) ( فى المہد) كى قيد حضرت عيسي(ع) كى ہر قسم كى حركت سے عاجزى كى علامت ہے (۳) (صبيّا) قيدكى ( فى المہد ) كے ہوتے ہوئے ضرورت نہ تھى ليكن اسے كہنے دالوں نے اپنے انكار اور تعجب ميں اضافہ كر نے كيلئے كہا _

۶_ گہوارے ميں ليٹے ہوئے بچے كا زبان كھو لنا اور اپنى

۶۵۵

ولادت كے ماجرا كى وضاحت كرنا ، حضرت مريم كى قوم كيلئے قابل تصور نہ تھا _كيف نكلم من كان فى المهد صبيا

( مہد ) گہوارہ يا ہر وہ جگہ جو چھوٹے بچوں كے آرام كيلئے ہوتى ہے _

۷_ حضرت مريم پر بہت سے لوگوں نے زناكى تہمت لگائي تھى _قالوا يا مريم قالوا كيف نكلم

۸_دين يہود ميں مرد كا اجنبى عورت سے كلام كرنا جائز تھا _قالوا يا مريم قالو كيف نكلم

وہ جو مريم كى طرف آئے اور ان سے گفتگو كى _ وہ دين دارى كا ادعا ركھتے تھے اسى وجہ سے جزيات كو ابھارتے ہوئے مريم پر اعتراض كيا واضح سى بات ہے اگر يہ چيز انكے مذہب ميں جائز نہ ہوتى تو كوئي اور راہ اختيار كرتے _

۹_ نامحرم كى باتيں سننا اور اس سے گفتگو كرنا جائز ہے _قالوا يا مريم قالوا كيف نكلّم

حضرت مريم سے انكے ہم مذہب افراد كى گفتگو اور قران كا اس چيز كو رد نہ كرنا اور اس پر اعتراض نہ كرنااسكے شرعى ہونے پر د ليل ہے _احكام :۹

عيسى :عيسي(ع) كا قصہ ۳;۵; حضرت عيى كا نومولوى حالت ميں كلام كرنا ۳;حضرت عيسي(ع) كے نو مولودى حالت ميں كلام كا عجيب و غريب ہونا ۵

مريم :حضرت مريم پرزنا كى تہمت ۱;۷; حضرت مريم سے دفاع ۱،۳;حضرت مريم كا اشارہ ۱; حضرت مريم كا روزہ سكوت ۲; حضرت كا مريم كا قصہ ۱،۲،۳،۴،۵،۷; حضرت مريم كا يقين۳;حضرت مريم كے لوٹنے كا وقت ۴

نامحرم :نامحرم سے گفتگو ۹;نامحرم كے احكام ۸،۹; يہوديت ميں نامحرم سے گفتگو ۸

نومولود:نومولود كے كلام كا عجيب ہونا ۶

يہود :حضرت مريم كے زمانہ ميں يہود كا تعجب ۵;۶

آیت ۳۰

( قَالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتَانِيَ الْكِتَابَ وَجَعَلَنِي نَبِيّاً )

بچہ نے آواز دى كہ ميں اللہ كا بندہ ہوں اس نے مجھے كتاب دى ہے اور مجھے نبى بنايا ہے (۳۰)

۱_حضرت مريم كے نومولود نے اپنى والدہ كے اشارہ كے ساتھ ہى لوگوں كے مجمع ميں بات كر نى شروع كى _

فأشارت إليه قال إنى عبدالله

۲_ الله تعالى كى بند گى حضرت عيسي(ع) كا پہلا اعتراف اور ان كى نگاہ ميں سب سے بڑا مقام ہے_قال إنى عبدالله

۶۵۶

نبوت اور آسمانى كتاب كے حامل ہونے پر بھى صفت بندگي، كا مقدم ہونا اس بات كى علامت ہے كہ حضرت عيسي(ع) كى نظر ميں يہ صفت، تمام مقامات سے بلند تھى _

۳_ حضرت عيسي(ع) نومولودى كے زمانہ ميں الہى كتاب اورمقام نبوت كے حامل تھے_ء اتينى الكتب و جعلنى نبيا

۴_حضرت عيسي(ع) نے بچپن ميں اپنا الله تعالى كا بندہ ہونا،آسمانى كتاب كا حامل اور الہى پيغمبر ہونے كى حيثيت سے تعارف كروايا _قال إنى عبداللّه ء اتينى الكتب وجعلنى نبيّا

۵_حضرت عيسي(ع) كا گہوارے ميں كلام كرنا اور اپنا تعارف كروانا ان كے معجزات ميں ہونے كے ساتھ ساتھ حضرت مريم كى پاكيزہ ہونے اور لوگوں كى تہمتوں سے برى الذمہ ہونے پر كفايت كرنے والى برہان تھى _

فاشارت إليه قال إنى عبداللّه

۶_ آسمانى كتاب اور مقام نبوت كى عطا، الله تعالى كے ہاتھ ميں ہے _ء اتينى الكتب و جعلنى نبيا

۷_ مقام نبوت اور آسمانى كتاب كے حامل ہونے كيلئے كسى خاص عمر كى قيد نہيں ہے _

كيف نكلم من كان فى المهد قال انى عبدالله ء اتينى الكتب و جعلنى نبيا

۸_ مقام نبوت كے اثبات كيلئے ولادت ميں پاكيزگى من جملہ شرائط ميں سے ہے _قال وجعلنى نبيا

اگر چہ حضرت عيسي(ع) كا خود بات كرنا ہى حضرت مريم كى پاكيزگى كے اثبات كيلئے معجزہ تھا _

ليكن جملات ميں ايك قسم كا استدلال موجود ہے كہ ميں چونكہ پيغمبر ہوں اور پيغمبر كى ولادت حرام سے نہيں ہوسكتى پس ميں حلال زادہ ہوں _

۹_ مقام نبوت پانے كيلئے عملى تربيت، استعداد اور صلاحيتوں كا حصول ضرورى نہيں ہے _

قال إنى عبداللّه ء ا تينى الكتب وجعلنى نبيًا

حضرت عيسي(ع) نے گہوارہ ميں اپنا پيغمبر اور حامل كتاب ہونے كى حيثيت سے تعارف كروايااس سے معلوم ہوتا ہے كہ مقام نبوت پانے كيلئے كسى صلاحيت اور شخصى زحمت كرنے كى ضرورت نہيں ہے _

۱۰_'' عن يزيد الكناس قال : سا لت ا با جعفر (ع) ا كان عيسى ابن مريم حين تكلم فى المهد حجة الله على أهل زمانه؟ فقال : كان يومئذ نبيًا حجة الله غير مرسل أما تسمع لقوله حين قال إنى عبدالله آتا نى الكتاب وجعلنى نبياً'' فلمّا بلغ عيسي(ع) سبع سنين تكلم بالنبوة

۶۵۷

والرسالة حين أوحى الله تعالى وإليه (۱)

يزيد كناسى سے روايت ہوئي كہ اس نے امام باقر (ع) سے سوال كيا كہ كيا حضرت عيسى ابن مريم جب گہوارہ ميں تھے تواسى وقت اپنے زمانہ والوں پر حجت خدا تھے؟تو آپ(ع) نے فرمايا: حضرت عيسي(ع) اسى زمانہ ميں پيغمبر اور حجت خدا تھے ليكن رسالت كى ذمہ دارى نہيں ركھتے تھے_كيا انكى بات آپ نے نہيں سنى كہ انہوں نے فرمايا :''و جعلنى نبيًا'' پس جب سات سال كے ہوئے تو نبوت و رسالت كا اظہار كيا اسى زمانہ ميں ان پر الله تعالى كى طرف سے وحى ہوئي _

۱۱_( عن رسول الله (ص) : و هذا عيسى ابن مريم (ع) حين اشارت إليه قال : إنى عبداللّه آتانى الكتاب'' ...اعطى كتاب النبوةوا وصى بالصلاة والزكاة فى ثلاثة أيام من مولده و كلمهم فى اليوم الثانى من مولده (۲) رسول اكرم(ص) _ سے روايت ہوئي ہے كہ انہوں نے فرمايا :يہ حضرت عيسى ابن مريم ہيں كہ جب مريم نے ان كے طرف اشارہ كيا تو انہوں نے كہا :''إنى عبداللّه آتا نى الكتاب '' نبوت كى كتاب انہيں دى گئي ہے اور نماز و زكوة كى تاكيد كى گئي يہ سب كچھ انكى ولادت كے تين دن بعد ہوا اور انہوں نے اپنى ولادت كے دوسرے دن لوگوں سے كلام كيا_

آسمانى كتب:آسمانى كتب كا سرچشمہ ۶;آسمانى كتب كے نازل ہونے كى شرائط ۷

الله تعالى :لله تعالى كے افعال ۶

انبياء:انبياء كا حلال زادہ ہونا ۸

روايت :۱۰;۱۱

عيسى :حضرت عيسي(ع) كا قصہ ۱،۱۱ ; حضرت عيسي(ع) كا معجزہ ۵; حضرت عيسي(ع) كے مقامات ۲،۳;حضرت عيسي(ع) كانومولود حالت ميں كلام كرنا ۱،۵،۱۱; حضرت عيسي(ع) كى نومولو د ۳،۴;حضرت عيسي(ع) كى آسمانى كتاب ۳، ۴; حضرت عيسي(ع) كى رسالت ۱۰; حضرت عيسي(ع) كى عبوديت ۲،۴;حضرت عيسي(ع) كى نبوت ۳،۴،۱۰،۱۱; حضرت عيسي(ع) كا نظرہونا ۲

مريم :حضرت مريم كا اشارہ ۱; حضرت مريم كا قصہ ۱ حضرت مريم كى پاكيزگى كے دلائل ۵ حضرت مريم كى عفت كے دلائل۵

نبوت :نبوت كا رسالت سے فرق ۱۰; بچپن ميں نبوت ۳،۴،۱۰،۱۱; نبوت كا سرچشمہ ۶; نبوت كى شرائط ۷،۸،۹

____________________

۱)كافى ج۱ ص۳۸۲ ح۱ نور الثقلين ج۳ ص۳۳۳ح۶۶_

۶۵۸

آیت ۳۱

( وَجَعَلَنِي مُبَارَكاً أَيْنَ مَا كُنتُ وَأَوْصَانِي بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ مَا دُمْتُ حَيّاً )

اور جہاں بھى رہوں با بركت قرار ديا ہے اور جب تك زندہ رہوں نماز اور زكوة كى وصيت كى ہے (۳۱)

۱_ الله تعالى نے حضرت عيسي(ع) كو متبرك پيغمبر خوش قدم اور خير و بركت كابا عث قرار ديا _وجعلنى مباركاً أين ماكنت

( بركة) زيادہ ہونا اور فراوان ہونا ( مصباح) (مبارك ) بہت سے خير كا سرچشمہ (لسان العرب) اور (اين ماكنت) كى تعبير حضرت عيسي(ع) كى خوش قدمى سے حكايت كررہى ہے _ اسطرح كہ وہ جس جگہ بھى ٹھہريں اسى جگہ خير وبركت بڑھے گي_

۲_ حضرت عيسي(ع) نے بچپن ميں اپنے ميں خير و خوبى كے فراوان ہونے اور بڑھنے كو الله تعالى كى طرف سے عطا شدہ صفات شمار كيا _و جعلنى مباركاً أين ماكنت

۳_ حضرت عيسي(ع) كے وجود كى خير و بركت كسى خاص مكان يا خاص لوگوں تك محدودنہيں ہے_

وجعلنى مباركاً أين ما كنت

۴_ موجودات كو خير و بركت عطا كرنا، الله تعالى كے اختيار ميں ہے اور اسكى منشاء كے مطابق ہے _وجعلنى مبارك

۵_ سارى زندگى نماز قائم كرنا اور زكواة ادا كرنا ،اللہ تعالى كى حضرت عيسي(ع) كوانكى زندگى كے ابتدائي دنوں ميں نصيحت تھي_وا وصنى بالصلوة والزكوة مادمت حيا

۶_حضرت عيسي(ع) نے لوگوں كو اپنے تعارف كے ضمن ميں نماز اور زكواة كے حوالے سے الہى فرمان حاصل كرنا ،اپنى خصوصيات ميں سے شمار كيا ہے _وا وصنى بالصلوة والزكوة مادمت حيًا

۷_ نماز اور زكواة حضرت عيسي(ع) كى شريعت ميں دينى ذمہ داريوں ميں تھيں _وا وصنى بالصلوة والزكوة

انبياء جن تكاليف كے ليے اپنے آپ كومكلف سمجھتے ہيں اور دوسروں كے سامنے انكا اظہار كرتے ہيں سوائے چند موارد كہ جن پر دليل ہے باقى انكے پيرو كاروں كے ليے بھى ہيں ورنہ دوسروں كيلئے انہيں بيان كرنے كى ضرورت ہى نہ تھى _

۸_حضرت مريم كے زمانہ كے لوگ نماز اور زكواة كے مفاہيم سے آشنا ئي ركھتے تھے _وا وصنى بالصلوة والزكو ة حضرت عيسي(ع) نے گہوارہ ميں لوگوں كيلئے نماز اور زكواة كى بات كى لہذا معلوم ہوا كہ وہ پہلے سے ہى انكے مفاہيم سے آشناتھے_

۶۵۹

۹_ نماز اور زكواة ( بندگى كا اظہار اور انفاق ) الہى تكاليف ميں خصوصى اہميت كى حامل ہيں _وا وصنى بالصلوة والزكوة

الله تعالى كى نماز و زكواة كے بارے ميں براہ راست سفارش كرنا دونوں كے كمال تك پہنچے ميں اہم كردار او راہميت كو واضع كررہى ہے _

۱۰_ الله تعالى كى طرف حضور پيدا كرنے كے ساتھ ساتھ لوگوں كى طرف توجہ بھى لازم ہے _وا وصنى بالصلوة والزكوة مادمت حيًّا

نماز ميں صرف الله تعالى كى طرف توجہ بيان ہوئي ہے جب كہ زكواة كى بنياد يہ ہے كہ دوسروں كى مال وغيرہ سے مدد كى جائے_

۱۱_الہى تكاليف، انسان كى دنيا دى زندگى تك محدود ہيں _مادمت حيًا

۱۲_ نماز اور زكواة كسى صورت ميں بھى ترك نہيں ہونى چاہيے _وا وصنى بالصلوة والزكوة مادمت حيًا

اگرچہ ( مادمت حيًا) والا جملہ حضرت عيسي(ع) كے ساتھ مربوط ہے _ ليكن تكاليف كے مشترك ہونے كى بناء پر دوسرے مسيحى بھى اسكے مكلف ہيں اور جب بھى قرآن گذشتہ اديان سے كوئي حكم نقل كرے اوراسكے نسخ ہونے كونہ بتلائے تو مسلمانوں پر بھى وہ حكم و اجب الا تباع ہوتا ہے _

۱۳_'' عن أبى عبداللّه (ع) قال فى قول الله _ عزوجل _وجعلنى مباركاً أين ماكنت قال نفّا عاًّ؟ (۱)

امام صادق (ع) سے حضرت عيسي(ع) كى زبان سے ادا ہونے والى كلام الہى ( وجعلنى مباركاً) كے حوالے سے روايت ہوئي ہے كہ : ''مبارك ''سے مراد، بہت زيادہ نفع پہچانے والاہے _

۱۴_عن'' النبى (ص) : وجعلنى مباركاً أين ماكنت'' قال : معلماً ومو دباً (۲)

رسول خدا سے روايت ہوئي ہے كہ آپ(ص) نے فرمايا: ''جعلنى مباركاً'' يعنى الله تعالى نے مجھے تعليم دينے والا اور ادب سكھانے والابنايا ہے_

۱۵_''معاوية بن وهب قال: سا لت أبا عبداللّه (ع) عن أفضل ما يتقرّب به العباد إلى ربّهم وا حب ذلك إلى الله عزّوجلّ ما هو؟

____________________

۱) كافى ج۲ ص۱۶۵ح۱۱ نورالثقلين ج۳ ص۳۳۳ح۶۴

۲) الدر المنشور ج۵ ص۵۰۹

۶۶۰