تفسير راہنما جلد ۱۰

تفسير راہنما 0%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 945

تفسير راہنما

مؤلف: آيت الله ہاشمى رفسنجاني
زمرہ جات:

صفحے: 945
مشاہدے: 200727
ڈاؤنلوڈ: 2159


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4 جلد 5 جلد 6 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 945 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 200727 / ڈاؤنلوڈ: 2159
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد 10

مؤلف:
اردو

قال أميرالمؤمنين الا مرمن اللّه والحكم ثم تلا هذه الآية: وقضى ربّك ألاّ تعبدوا إلّا إيّاه وبالوالدين إحساناً (۱)

ابن عباس سے روايت ہوئي ہے كہ جب اميرالمؤمنين (ع) جنگ صفين سے واپس پلٹے توايك بوڑھا شخص ان كے پاس اٹھ كھڑا ہوا اور ا س نے كہا : اے اميرالمؤمنين ہم نے جو سفر كيا اس كے بارے ميں بتائيں آيا وہ قضا وقدر الہى كى وجہ سے تھا؟ اميرالمؤمنين (ع) نے فرمايا :

فرمان و حكم الله تعالى كى طرف سے تھا پھر يہ آيت :''وقضى ربك إاّ تعبدوا إلّا إيّاه وبالوالدين إحساناً'' كى تلاوت فرمائي_

۱۹_''عن أبى جعفر(ع) بعث اللّه عزّوجلّ محمداً(ص) وهو بمكة عشر سنين فلم يمت بمكة فى تلك العشرسنين ا حديشهد ا ن لا إله إلّا اللّه وا ن محمد (ص) رسول اللّه إلّا ا دخله اللّه الجنة باقراره وهو إيمان التصديق ولم يعذب اللّه ا حداً إلّا من أشرك بالرحمن وتصديق ذلك ان اللّه عزّوجلّ ا نزل عليه فى سورة بنى إسرائيل بمكة ''وقضى ربّك ا لاّ تعبدوا إلّا إيّاه ...'' أدب وعظة وتعليم ونهى خفيف ولم يعد عليه ولم يتواعد على اجتراح شيء ممّا نهى عنه (۲)

امام باقر(ع) سے روايت ہوئي ہے كہ الله تعالى نے حضرت محمد (ص) كو مبعوث كيا اور وہ دس سال مكہ ميں رہے مكہ ميں ان دس سالوں ميں كوئي بھى نہ تھا كہ جو مرگيا ہو اور الله تعالى كى وحدانيت اور محمد رسول الله (ص) كى نبوت كى گواہى دى ہو مگر يہ كہ الله تعالى نے اسے اس كے اقرار كى وجہ سے جنت ميں داخل كيا ہو اور يہ ايمان تصديق ہے اور الله تعالى كسى كو عذاب نہيں كرتا مگر يہ كہ اس نے الله كے حوالے سے شرك كياہو اور اس بات كى گواہ خود سورہ بنى إسرائيل ہے كيونكہ اس كى آيات كو خدا نے مكہ ميں قلب پيغمبر پر نازل كيا ہے : ''وقضى ربّك الاّ تعبدوا إلّا إيّاہ ...'' اس آيت ميں ادب كرنا، موعظہ، تعليم اور خفيف نہى ہے_ جزا كا وعدہ اور جن چيزوں سے منع كيا گيا ہے ان كے ارتكاب كى صورت ميں عذاب كا بيان نہيں ہوا ہے_

۲۰_وقال الصادق (ع) قوله تعالى : ''وبالوالدين إحساناً'' قال: الوالد محمد (ص) وعلى (ع) _(۱) امام صادق (ع) نے الله تعالى كے اس كلام : ''وبالوالدين إحساناً'' كے حوالے سے فرمايا : والد سے مراد محمد(ص) اور على (ع) ہيں _

۲۱_عن أبى ولاد الحناط قال : سا لت أبا عبداللّه (ع) عن قوله اللّه عزّوجلّ ''وبالوالدين إحساناً'' ما هذا الإحسان؟ فقال : الإ حسان ا ن تحسن صحبتهما وا ن لا تكلفهما ا ن يسا لاك شيئاً ممّا يحتاجان إليه وإن كانا مستغنيين وا مّا

____________________

۱) توحید صدوق ص ۳۸۲، ح ۲۸ ، ب ۶۰، نورالثقلين ج ۳ ، ص ۱۴۸، ح ۱۲۸_۲) كافى ج ۲ ، ص ۲۹، ح ۱، بحارالانوار ج ۶۶، ص ۸۶ ، ح ۳۰_

۶۱

قول اللّه عزّوجلّ :''إمّا يبلغنّ عندك الكبر ا حدهما ا و كلاهما فلا تقل لهما ا فّ ولاتنهرهما '' قال : إن ا ضجراك فلا تقل لهما ا فّ ولا تنهر هما إن ضرباك قال: وقل لهما قولاً كريماً قال: إن ضرباك فقل لهما: غفرالله لكما فذلك منك قول كريم (۲)

ابى ولاد حناط كہتے ہيں كہ امام صادق (ع) سے الله تعالى كے اس كلام ''وبالوالدين احساناً'' كے بارے ميں پوچھا كہ اس آيت ميں احسان سے مراد كيا ہے؟ تو انہوں نے فرمايا : احسان سے مراد ان سے حسن سلوك ہے اور يہ كہ جس كى انہيں ضرورت ہو اس كے بارے ميں تمہيں كہنے كى انہيں زحمت نہ ہو اگرچہ مالى اعتبار سے وہ غنى ہى كيوں نہ ہوں ''_ اس آيت''إمّا يبلغنّ عندك الكبر ا حدهما ا و وكلاهما فلا تقل لهما ا فّ ولا تنهر هما'' كے بارے ميں حضرت نے فرمايا: ''اگر وہ تمہيں پريشان كريں تو انہيں اف نہ كہو اور ان پر نہ چيخو وچلائو اور كسى قسم كى اہانت نہ كرو چاہے وہ تمہيں ماربھى ليں _ الله تعالى نے فرمايا :''وقل لهما قولاً كريما'' تو حضرت فرماتے ہيں اگر وہ تمہيں ماريں تو انہيں كہو الله تمہيں بخشے يہ بات تمہارى طرف سے قول كريم شمار ہوگي''_

احسان:احكام احسان ۴

احكام:۴، ۱۴، ۱۶احكام كا فلسفہ :۳

الله تعالى :الله تعالى كے اوامر ۳;اللہ تعالى كى نواہى ۱، ۲، ۱۹

امام على (ع) :امام على (ع) كا والد ہونا ۲۰

تربيت:تربيت كى اہميت ۸/ترقي:ترقى كا پيش خيمہ ۳/توحيد :توحيد عبادى كى اہميت ۳;توحيد كا فلسفہ ۳

روايت : ۱۸، ۱۹، ۲۰، ۲۱

شرك:شرك سے اجتناب ۹;شرك سے نہى ۱۹; شرك عبادى سے نہى ۱، ۲

عبادت :الله تعالى كى عبادت كى اہميت ۵; الله تعالى كى عبادت كى قدروقيمت۵

فرزند: فرزند كى ذمہ دارى ميں مو ثر اسباب ۱۲; فرزند كى ذمہ دارى ۱۰، ۱۱، ۱۵

____________________

۱) روضة الواعظےن (ابن الفارسى قتال نيشابوري، ص ۱۰۵ نورالثقلين ج۳، ص ۱۵۰ ، ح ۱۳۵_

۲) كافى ج ۲، ص ۱۵۷، ح ۱، نورالثقلين ج ۳، ص ۱۴۸، ح ۱۲۹_

۶۲

قضا وقدر: ۱۸

محرمات : ۱۴

محمد -(ص) :محمد (ص) كا والد ہونا ۲۰

مربي:مربى كے حقوق ۸

معاشرت :معاشرت كے آداب ۱۶

موحدين:موحدين كا احسان ۷;موحدين كى علامتيں ۷

واجبات: ۴، ۶

والدين:والدين سے گفتگو كے آداب ۱۶;والدين كا احترام ۱۶;والدين سے احسان ۴،۷ ،۲۰ ; والدين كے احترام كى اہميت ۱۴، ۱۵، ۱۶; والدين كے ساتھ احسان كى اہميت ۵ ;والدين كے حقوق كى اہميت ۶; والدين كے حقوق كا برابر ہونا ۱۷; والدين كا بوڑھا ہونا ۱۵;والدين كى ضرورتوں كا پورا ہونا ۱۵;والدين كى توہين كا حرام ہونا ۱۴ ; والدين كى بے احترامى كا خطرہ ۱۴;والدين كے ساتھ نيكى كے شرائط ۹; والدين سے احسان كى قدروقيمت ۵; والدين سے نيكى كا مطلب ۲۱; والدين كے بڑھاپے كے نتائج ۱۰، ۱۳;والدين كے ساتھ زندگى گزارنے كے نتائج ۱۲; والدين كى نگہبانى ۱۱

آیت ۲۴

( وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيراً )

اور ان كے لئے خاكسارى كے ساتھ اپنے كاندھوں كو جھكادينا اور ان كے حق ميں دعا كرتے رہنا كہ پروردگار ان دونوں پر اسى طرح رحمت نازل فرما جس طرح كہ انھوں نے بچينے ميں مجھے پالا ہے (۲۴)

۱_اولاد كو چاہيے كہ اپنے والدين كے مد مقابل مہربانى اور ترحم سے پورى پورى عاجزى اور انكسارى كا اظہار كريں _

واخفض لهما جناح الذلّ من الرحمة

''من الرحمة'' ميں ''من'' نشويہ ہے_ يعنى ان كے مدمقابل تواضع وعاجزى كا منشاء ،رحمت ومہربانى ہو_

۲_ماں باپ كا بڑھاپا اور ضعف،اولاد كا سركشى ونافرمانى ميں مبتلا ہونے كا پيش خيمہ ہے _

إمّا يبلغنّ عندك الكبر واخفض لهما جناح الذلّ

۶۳

والدين كى بڑھاپے ميں خيال ركھنے كى الہى نصيحت شايد اس لئے ہو كہ والدين كے اس زمانہ زندگى ميں بچوں كى لغزش وسركشى ميں پڑنے كى فضا سازگار ہوتى ہے_

۳_والدين سے مہربانى اور تواضع سے پيش آنا اولاد كى ذمہ دارى ہے_واخفض لهما جناح الذلّ من الرحمة

۴_والدين كے لئے مہربانى اور قلبى محبت كے ساتھ تواضع ،قدروقيمت كى حامل ہے نہ كسى اور انگيزہ كے ساتھ تواضع _

واخفض لهما جناح الذلّ من الرحمة

۵_والدين كے لئے الله تعالى سے دعا اور بے پنا ہ رحمت كى طلب اولاد كى ذمہ دارى ہے_

قل ربّ ارحمهما كما ربيّانى صغيرا

''كما'' ہوسكتا ہے اس حقيقت كى طرف اشارہ ہو رہاہو كہ چونكہ بچوں كے لئے والدين كى رحمت بے پناہ ہوتى ہے پس بچوں كو بھى چاہيے مد مقابل اسى طرح والدين كے لئے رحمت طلب كريں _

۶_ماں باپ كے ذريعے اولاد كى تربيت ،رحمت ومحبت كى بناء پر ہے _ربّ ارحمهما كما ربيّانى صغيرا

''كما ربياني'' مصدر مقدر( رحمت) كى صفت ہے_ اس طرح عبارت يوں ہوگي: ''رب ارحمھما مثل رحمتھما وتربيتھما لي'' (اے پروردگار جس طرح انہوں نے مجھ پر رحم كيا تو بھى ان پر رحم كر)

۷_والدين نے پرورش كے حوالے سے جو مشقتيں برداشت كيں بچے ہميشہ ان پر توجہ ركھيں _

وقل ربّ ارحمهما كما ربيّانى صغيرا

دعاكے وقت والدين كى زحمتوں كو ياد كرنے كا الہى حكم، ہوسكتا ہے مندرجہ بالا حقيقت كى تعليم كى وجہ سے ہو_

۸_انسان كى ا س كے بچپن كے زمانہ ميں والدين كى خدمت اور زحمت كى طرف توجہ كرنے سے ان كے حوالے سے ا س كے احساسات ابھرتے ہيں _وقل ربّ ارحمهما كما ربيّانى صغيرا

۹_الله تعالى سے والدين كے لئے رحمت كى درخواست كرنا ان كى بے پناہ زحمتوں كے كچھ حصے كا حق ادا كرنا ہے_

وقل ربّ ارحمهما كما ربيّانى صغيرا

''كما'' حرف تشبيہ مجازى ہے اور ''لما'' كے معنى ميں ہے يعنى اے پروردگار ان پر رحم كر جس طرح انہوں نے اپنى زحمتوں كے ساتھ ميرى پرورش كي_

۱۰_انسان كو چاہيے اپنے مربّى كى قدردانى كرے اور اس كے لئے الله تعالى سے رحمت طلب كرے _

۶۴

ربّ ارحمهما كما ربيّانى صغيرا

۱۱_ مقام دعا اور مناجات ميں پروردگار كى ربوبيت سے تمسك كرنا ايك بہترين اور پسنديدہ انداز ہے_

قل رب ارحمهما كما ربيّانى صغيرا

۱۲_والدين كے لئے دعا نہايت مو ثر اور الله تعالى كى خصوصى توجہ كا مركز ہے اور يہ دعا كى قبوليت كا مقام ہے_

وقل ربّ ارحمهم

كيوں كہ الله تعالى نے خاص الفاظ كى صورت ميں والدين كے لئے دعا كا حكم ديا ہے _ اس سے معلوم ہوتا ہے الله تعالى كى اس دعا پر خاص عنايت ہے_ لہذا اس ميں قبوليت كا احتمال زيادہ ہے _

۱۳_ماں باپ كے محبت سے معمور دامن ميں اولاد كى تربيت ايك عظےم قابل قدر نعمت ہے اور ان كے بچوں كى طرف سے انكے حق ميں ہر قسم كا احسان واحترام كے استحقاق كى باعث ہے_

وبالوالدين إحساناً واخفض لهما جناح الذلّ من الرحمة وقل رب ارحمهما كما ربيّانى صغيرا

مندرجہ بالا مطلب اس نكتہ سے ليا گيا ہے كہ الله تعالى نے بچوں كو والدين كے حق ميں انداز دعا سكھانے ميں والدين كى تربيت كا مسئلہ ياد ديدياہے(كما ربيانى صغيراً )

۱۴_عن ا بى ولاد الحناط قال: سا لت أباعبدالله (ع) عن قوله الله عزّوجلّ ...''واخفض لهما جناح الذلّ من الرحمة'' قال لا تملا عينيك من النظر إليهما الاُ برحمة ورقة ولا ترفع صوتك فوق ا صواتهما ولا يدك فوق ا يديهما ولا تقدم قد امهما _(۱)

ابى ولاد حناط كہتے ہيں كہ امام صادق _ سے الله تعالى كے اس كلام'' واخفض لهما جناح الذلّ من الرحمة'' كے بارے ميں پوچھا تو حضرت (ع) نے فرمايا : والدين كى طرف سوائے محبت وپيار كے نہ ديكھ اور اپنى آواز ان كى آواز سے بلند نہ كر اور اپنے ہاتھ كو ان كے ہاتھوں سے بلند نہ كر اور (راہ چلتے ہوئے) ان سے سبقت نہ كر_

احساسات:فيملى كے احساسات ۸/ابھارنا:ابھارنے كے اسباب ۸

اہميتيں : ۴تربيت :تربيت كا انداز ۶/توسل :الله تعالى كى ربوبيت سے توسل ۱۱

دعا :دعا كے آداب ۱۱;دعا كى قبوليت كا پيش خيمہ ۱۲

____________________

۱) كافى ج ۲، ص ۱۵۸، ح۱، نورالثقلين ج۳، ص ۱۴۸، ح ۱۲۹_

۶۵

ذكر:والدين كى زحمتوں كا ذكر ۷، ۸;بچپن كى ضرورتوں كا ذكر ۸

روايت: ۱۴شكر:نعمت كا شكر ۱۳عمل :پسنديدہ عمل ۱۱

فرزند:فرزند كى سركشى كا پيش خيمہ ۲;فرزند كے غرور كا پيش خيمہ ۲;فرزند كى ذمہ دارى ۱، ۳، ۵، ۷، ۱۳;فرزند كى تربيت ميں مہربانى ۶; فرزند كى تربيت كے نتائج ۱۳;فرزند كى دعا كے نتائج ۱۲

مربي:مربى كے لئے رحمت كى درخواست ۱۰; مربى كے لئے دعا ۱۰;مربى كا شكريہ ۱۰

معاشرت:معاشرت كے آداب ۱۰

نعمت:نعمت كے موارد ۱۳

نفسيات :تربيتى نفسيات ۶

والدين:والدين كااحترام ۱، ۳، ۱۴;والدين كے احترام كى اہميت ۱۳;والدين كے ساتھ احسان كى اہميت ۱۳;والدين كے لئے تواضع ۱;والدين كے لئے احساسات كا پيش خيمہ۸;والدين كے لئے رحمت كى درخواست۵;والدين كے لئے دعا ۵، ۹، ۱۲; والدين كى زحمتوں كا شكريہ ۹; والدين كا شكريہ۷; والدين سے ميل جول كا طريقہ ۱۴;والدين كے احترام كى قدرو قيمت ۴; والدين كے لئے تواضع كى قدرو قيمت ۴;والدين كے ساتھ مہربانى كى قدروقيمت ۴;والدين كے ساتھ مہربانى ۱، ۳، ۱۴;والدين كے بڑھاپے كے نتائج ۲

آیت ۲۵

( رَّبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَا فِي نُفُوسِكُمْ إِن تَكُونُواْ صَالِحِينَ فَإِنَّهُ كَانَ لِلأَوَّابِينَ غَفُوراً )

تمھارا پروردگار تمھارے دلوں كے حالات سے خوب باخبر ہے اور اگر تم صالح اور نيك كردار ہو تو وہ توبہ كرنے والوں كے لئے بہت بخشنے والا بھى ہے (۲۵)

۱_پروردگار انسانوں كے باطن سے مكمل آگاہى ركھتاہے_ربكم أعلم بما فى نفوسكم

۲_پروردگار كى ربوبيت كا تقاضا ہے كہ وہ انسانوں كے باطنى حالات سے مكمل آگاہى اور علم ركھے_ربكم أعلم بما فى نفوسكم

۳_عبادت اور والدين كے ساتھ احسان ميں انسان كى نيتوں ، انگيزوں اور اس كے خيالات پر الله تعالى كى مكمل نگرانى ہے_وقضى ربّك ا لاّ تعبدوا إلّا إيّاه وبالوالدين إحساناً واخفض لهما جناح الذلّ ربّكم أعلم بما فى نفوسكم

۶۶

۴_خود انسان كى نسبت اس كے باطنى حالات اور خيالات سے الله تعالى زيادہ آگاہ ہے_ربكمأعلم بما فى نفوسكم

مندرجہ بالا مطلب كى بناء يہ ہے كہ ''أعلم'' كا مفضل عليہ ''منكم'' ہے يعنى الله تعالى كى تمہارے باطن سے آگاہى خود تم سے زيادہ ہے_

۵_انسانى عمل كے پركھنے ميں اس كى نيت واضح كردار كى حامل ہے _ربكم إعلم بما فى نفوسكم _انسان كے دل ميں سوائے اس كى نيتوں ' خيالات اور اس كے تخيلّات وغيرہ كے علاوہ كچھ نہيں ہوتا الله تعالى نے صالحين كى توبہ قبول كرنے كى خوشخبرى دينے سے پہلے انسان كے باطنى انگيزوں كى اہميت اور اس كى قبوليت توبہ ميں واضح كردار كى طرف اشارہ كيا ہے_

۶_اصلاح ايك باطنى اور قلبى چيز ہے نہ كہ ظاہرى اور دعوى كى حد تكربكم ا علم بما فى نفوسكم إن تكونوا صالحين

''صلاح''گويا قبوليت توبہ كى ايك شرط بن رہى ہے_يہاں صلاح وتوبہ كے بيان سے پہلے خبردار كيا گيا ہے كہ الله تعالى تمہارے باطن سے آگاہى ركھتا ہے_ اس طرح كہ تنبيہ ممكن ہے اس نكتہ كى طرف اشارہ كر رہى ہو كہ اصلاح ايك باطنى چيز ہے_

۷_الله تعالى بچوں كى والدين كے حق ميں قلبى انكسارى اور مہربانى چاہتا ہے نہ صرف ظاہرى حد تك _

واخفض لهما جناح الذلّ من الرحمة ربّكم أعلم بمافى نفوسكم _

الله تعالى نے پچھلى آيات ميں حكم ديا ہے كہ والدين كے ساتھ احسان اور انكسارى سے برتائو كريں اور اس آيت ميں فرما رہا ہے كہ تمہارى باطنى نيتوں سے آگاہ ہوں _ پچھلے حكم كے بعد نيتوں سے آگاہى والى بات ممكن ہے اس لئے ہو كہ ان كے ساتھ قلبى طور پر انكسارى ہو نہ كہ ظاہرى حد تك_

۸_اصلاح اورگناہوں سے توبہ كرنا بخشے جانے اور معاف ہونے كا پيش خيمہ ہے _إن تكونوا صالحين فإنه كان للا وّ بين غفورا

۹_الله تعالى كے عفو اور بخشش كى ضرورى شرائط ميں سے ہے كہ پہلے صالح ہو _إن تكونوا صالحين فإنه كان للاوّ بين غفورا

۱۰_انسان بلكہ صالحين بھى والدين كے حقوق كے حوالے سے غلطى اور كوتاہى كے خطرے ميں ہيں

۶۷

_واخفض لهما جناح الذلّ ربّكم ا علم ...إن تكونوا صالحين فإنه كان للاوّبين غفورا

۱۱_توبہ كرنے والے اور وہ جو غلطيوں كو چھوڑ كر الله تعالى كى طرف لوٹ آئے پروردگار كى بخشش اور معافى كے حامل ہيں _فإنه كان لا وّبين غفورا

۱۲_اللہ تعالى ،صالح انسانوں كو ان كى والدين كے حقوق كے حوالے سے نہ چاہتے ہوئے غلطيوں كى بخشش كى خوشخبرى دينے والاہے _ربّكم أعلم بما فى نفوسكم إن تكونوا صالحين فإنه كان للاوّإبين غفورا

۱۳_والدين كى اہانت اور انكے حقوق كى مراعات ميں كوتاہى كا گناہ ،توبہ كا محتاج ہے _واخفض لهما فإنه كان للاوّبين غفور

۱۴_گناہوں سے لوٹنے اور توبہ پر ڈٹے رہنا الله تعالى كى بخشش كو حاصل كرنے كے اسباب ميں سے ہے_

فانه كان للاوّبين غفورا

''اوّاب'' مبالغہ كا صيغہ ہے اور اس سے مراد بہت توبہ كرنے والا شخص ہے _ لہذا تائب كى جگہ يہ صيغہ آنا، ممكن ہے مندرجہ بالا مطلب كى طرف اشارہ ہو_

۱۵_اللہ تعالى كى طرف سے گناہ گار توبہ كرنے والوں كى بخشش انكى تربيت وتكامل كے حوالے سے ہے_ربكم كان للاوّبين غفورا مندرجہ بالا مطلب ميں ''رب'' سے مراد تربيت كرنے والا ليا گيا ہے جو كہ اس كا اصل معنى ہے (مفردات راغب) يعنى گناہ گاروں كى بخشش الله تعالى كے مقام مربى وربوبيت كا تقاضا ہے_

۱۶_صالحین ،توبہ كى صلاحيت كے حامل ہيں _إن تكونوا صالحين فإنه كان للاوّبين غفورا

شرط كے جواب ميں جملہ ''انہ كان صالحین'' كى جگہ''إنه كان للاوّبين'' آيا ہے_ يعنى ''الاوّبين'' ''صالحین ''كى جگہ پر آيا ہے_ اس سے مندرجہ بالا معنى پيدا ہو رہا ہے_

۱۷_الله تعالى ''غفور'' (بہت زيادہ معاف كرنے والا) ہے _فإنه كان غفورا

۱۸_عن أبى بصير قال: سمعت ا با عبدالله (ع) يقول فى قوله تعالى :''إنه كان للاوّبين غفوراً''قال: هم التوابون المتعبدون'' _(۱) ابى بصير كہتے ہيں كہ امام صادق _ سے سنا كہ آپ الله تعالى كے اس كلام:''إنه كان للاوّبين'' كے حوالے سے فرمارہے تھے كہ توبہ كرنے والوں سے مراد متعبد (تقرب الہى كى چاہت ركھنے والے) ہيں _

اسما وصفات:غفور ۱۷

۶۸

الله تعالى :الله تعالى اور نيتيں ۳;اللہ تعالى كے احكام ۷; الله تعالى كى بخشش ۹; الله تعالى كى بشارتيں ۱۲;اللہ تعالى كے عفو كى شرائط ۹; الله تعالى كا علم غيب ۱، ۲، ۴ ;اللہ تعالى كى ربوبيت كے نتائج ۲;اللہ تعالى كى نگرانى ۳

انسان:انسان كے انگيزے ۳;انسان كے باطنى حالات ۲،۴;انسان كے خيالات ۳، ۴;انسانوں كے راز ۱;انسان كى عبادت ۳;انسان كى غلطياں ۱۰

بخشش :بخشش كے اسباب ۱۴;بخشش كا پيش خيمہ ۸; بخشش كے شامل حال ۱۱;بخشش كى شرائط ۹

بشارت:بخشش كى بشارت ۱۲

تربيت:تربيت كا پيش خيمہ ۱۵

تكامل :تكامل كا پيش خيمہ ۱۵

توبہ:توبہ پر ڈٹے رہنے كے نتائج ۱۴

توبہ كرنے والے :توبہ كرنے والوں كى بخشش ۱۱، ۱۵، ۱۸;توبہ كرنے

والوں كى بخشش كا پيش خيمہ ۸

روايت : ۱۸

صالحین :صالحین كو بشارت ۱۲;صالحين كى بخشش كا پيش خيمہ ۸;صالحين كى غلطى كا پيش خيمہ ۱۰; صالحين كى توبہ ۱۶

صالح ہونا:صالح ہونے كى حقيقت ۶;صالح ہونے كے نتائج ۹

عمل:عمل كے تجزيہ كا معيار ۵

فرزند:فرزند كى ذمہ دارى ۷

گناہ:گناہ كے موارد ۱۳

نيت :نيت كے نتائج ۵

والدين :والدين كے لئے انكسارى ۷;والدين كى بے احترامى سے توبہ ۱۳;والدين كے حقوق ميں كوتاہى ۱۰;والدين كى بے احترامى كا گناہ ۱۳; والدين سے مہربانى ۷

____________________

۱) تفسير عياشي، ج ۲، ص ۳۲۸۶،ح ۴۲_ نورالثقلين ج۳، ص ۱۵۳، ح ۱۵۱

۶۹

آیت ۲۶

( وَآتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَلاَ تُبَذِّرْ تَبْذِيراً )

اورديكھو قرابتداروں كو اور مسكين كو اور مسافر غربت زدہ كو اس كا حق دے اور خبردار اسراف سے كام نہ لينا(۲۶)

۱_رشتہ داروں كا حق ادا كرنا واجب اور لازم ہے_وء ات ذإلقربى حقّه

۲_پيغمبر (ص) پر فضول خرچى سے بچتے ہوئے اعتدال كے ساتھ''رشتہ داروں '' مساكين اور مسافروں كا حق ادا كرنے كى ذمہ دارى ہے_وء ات ذإلقربى حقّه والمسكين وابن السبيل ولاتبذّر تبذيرا

مندرجہ بالا مطلب كى بنياديہ ہے كہ اس آيت ميں مخاطب پيغمبر (ص) ہيں _ اگرچہ يہ حكم دوسروں كو بھى شامل ہے_

۳_رشتہ دارى كا تعلق انسانوں ميں خاص قسم كے حقوق پيدا كرنے كا موجب ہے_وء ات ذإلقربى حقّه

۴_والدين كے حقوق كى ادائيگى كے بعد رشتہ داروں كے حقوق كى رعايت ديگر معاشرتى حقوق پر ترجيح ركھتى ہے_

وبالوالدين إحساناً وء ات ذإلقربى حقهّ والمسكين

آيت ميں ''ذاالقربي'' اور دوسرے دونوں بعد والے مقامات كے درميان ''حقہ'' كا فاصلہ پھر اس كا ان دونوں پر تقدم ممكن ہے''ذى القربى '' دونوں پر امتياز اور الويت ركھتاہو_

۵_دوسروں كے حقوق ادا كرنے كے حوالے سے دين كے احكام انسان كے طبيعى احساسات كے ساتھ سازگار ہيں _

وبالوالدين إحساناً وء ات ذى القربى حقّه

والدين اور رشتہ داروں كے حقوق كو ترجيح دينا اور انكى مشكلات ميں انكى مدد كرنا، انسان كے طبيعى ميلانات ميں سے ہے اور الله تعالى نے بھى اسى كى تائيد كى ہے_

۶_مساكين اور مسافرين كے حقوق كى ادائيگى واجب اور لازم ہے_

وء ات والمسكين وابن السبيل

۷_فقر اور مسافر ہونا ، فقراء اور مسافروں كے لئے خاص قسم كے حقوق پيدا كرنے كا موجب ہے _

وء ات والمسكين وابن السبيل

۸_مسلمان اپنے معاشرے كے مسائل اور ضروريات كے مد مقابل ذمہ دار ہيں _وء ات والمسكين وابن السبيل

۷۰

۹_رشتہ داروں كى مشكلات دور كرنا اگر چہ وہ فقراء يا مسافروں كے زمرہ ميں نہ ہى آتے ہوں ' لازم اور واجب ہيں _

وء ات ذإلقربى حقّه والمسكين وابن السبيل ''ذاالقربى '' كا جدا ذكر ہونا ہوسكتا ہے مندرجہ بالا مطلب كى طرف اشارہ ہو _

۱۰_فضول خرچى (بے جا خرچ كرنا) حرام ہے اوراللہ تعالى كى طرف سے منع كيا گيا ہے _ولا تبذّر تبذيرا

اہل لغت نے اسراف اور تبذير ميں يہ فرق بيان كيا ہے كہ تبذير سے مراد مال كسى ايسى جگہ خرچ كرنا ہے كہ جہاں خرچ نہيں كرنا چاہئے تھا_(فروق اللغة)

۱۱_انسان اپنے اموال كے خرچ كرنے ميں مطلق آزاد نہيں ہے بلكہ محدوديت ركھتاہے_وء ات ولا تبذّر تبذيرا

۱۲_انفاق ميں زيادتى سے پرہيز اور اعتدال ركھنا ضرورى اور واجب ہے _وء ات ولا تبذّر تبذيرا

مندرجہ بالا مطلب كى بناء يہ ہے كہ يہاں ''تبذير'' سے مراد آيت كے موضوع كے مطابق ''رشتہ داروں اور مساكين پر انفاق ميں زيادہ روي'' ہے_ جيسا كہ ذاتى اموال كے خرچ كے حوالے اور دوسروں پر انفاق كے حوالے سے آيت ۲۹ ميں بھى ايسا حكم صادر ہوا ہے _

۱۳_''عن أبى عبدالله (ع) : ...''وء ات ذا القربى حقّه '' فكان على (ع) وكان حقّه الوصية التى جعلت له والإسم الأكبر وميراث العلم وآثار علم النبوة'' (۱)

الله تعالى كے اس كلام''وء ات ذاالقربى حقّہ'' كے بارے ميں امام صادق(ع) سے روايت ہوئي ہے كہ آپ (ع) نے فرمايا : ذاالقربى سے مراد على (ع) ہيں اور ان كے حق سے مراد ان كى پيغمبر اسلام (ص) كى جانشينى ہے كہ جو انكے لئے تقرر ہوئي تھى اور علم كى ميراث اور علم نبوت كے نتائج ہيں _

۱۴_''عن على بن الحسين (ع) فى قوله تعالي: '' وء ات ذإلقربى حقّه '' قال : نحن أولئك الذين ا مرالله ''عزّوجلّ'' نبيه (ص) ا ن يو تيهم حقّهم ...'' _(۲)

امام سجاد(ع) سے اس كلام الہى ''وء ات ذاالقربى حقّہ'' كے بارے ميں روايت ہوئي ہے كہ آپ (ع) نے فرمايا : ''ہم اہل بيت (ع) وہى ہيں كہ جن كے

____________________

۱) كافى ج ۱، ص ۲۹۴، ح ۳_ نورالثقلين ج ۳،ص ۱۵۳، ح ۱۵۷_

۲) احتجاج طبرسى ، ج۲، ص ۳۳، نورالثقلين ج۳، ص ۱۵۵، ح ۱۶۰_

۷۱

بارے ميں الله تعالى نے اپنے پيغمبر اكرم (ص) كو حكم ديا كہ ان كا حق ان كو دو''_

۱۵_''عن أبى الحسن موسى (ع) : ان الله تبارك وتعالى لمّا فتح على نبيه (ص) فدك ...فا نزل الله على نبيه (ص) ''وء ات ذا القربى حقّه'' فلم يدر رسول الله (ص) من هم فا وحى الله إليه ا ن ادفع فدك إلى فاطمة (ع) ..(۱)

ابوالحسن موسى بن جعفر (ع) سے روايت ہوئي ہے كہ جب الله تعالى نے فدك كو پيغمبر اكرم (ص) كے لئے فتح فرمايا تھا تو اس وقت ا س كے لئے يہ آيت نازل ہوئي ''و ا ت ذاالقربى حقّہ'' تو رسول الله (ص) نہيں جانتے تھے كہ انكے اقرباء كون ہيں تو الله تعالى نے انہيں وحى كى كہ فدك كو حضرت فاطمہ س كے حوالے كرديں _

۱۶_'' عبدالرحمان بن الحجاج قال: سا لت أبا عبدالله (ع) عن قوله : ''ولا تبذّر تبذيراً'' قال : من ا نفق شيئاً فى غير طاعة الله فهو مبذر .(۲)

عبدالرحمن بن حجاج كہتا ہے كہ امام صادق (ع) سے اس كلام الہى ''ولاتبذّر تبذيراً'' كے بارے ميں سوال كيا تو حضرت (ع) نے فرمايا : جو بھى كوئي چيز غير خدا كى اطاعت ميں خرچ كرتا ہے وہ اسراف كرنے والا ہے _

۱۷_أبى بصير قال : سا لت أبا عبدالله (ع) فى قوله''ولاتبذّر تبذيراً'' قال : بذل الرجل ماله ويقعده ليس له مال قال : فيكون تبذير فى حلال؟ قال : نعم _(۳)

ابوبصير كہتے ہيں كہ امام صادق(ع) سے كلام الہي:'' ولاتبذّرتبذيراً'' كے بارے ميں سوال كيا تو حضرت نے جواب ميں فرمايا: كہ كسى كا يوں مال كا انفاق كرنا كہ اس كے لئے كچھ نہ بچے اور وہ خانہ نشين ہوجائے_ تو سوال كرنے والے نے پوچھا: پس حلال كے خرچ ميں بھى اسراف ہے؟ تو حضرت (ع) نے جواب ديا : ہاں

ابن السبيل:ابن السبيل كے حقوق كى ادائيگى ۲، ۶;ابن سبيل كے حقوق كا سرچشمہ ۷

احكام: ۱، ۶، ۹ ، ۱۰، ۱۲اسراف:اسراف كے احكام ۱۰;اسراف سے پرہيز ۲;اسراف كا حرام ہونا ۱۰;اسراف سے مراد ۱۷;اسراف سے نہى ۱۰اسراف كرنے والے : ۱۶

الله تعالى :الله تعالى كى طرف سے ممنوعات ۱۰

امام على (ع) :امام على (ع) كے فضائل ۱۳

____________________

۱) كافى ج ۱، ۵۴۳، ح ۵_ نورالثقلين ج ۳، ص ۱۵۴، ح ۱۵۸_۲و۳) تفسير عياشى ج ۲، ص ۲۸۸، ح ۵۴_نورالثقلين ج ۳، ص ۱۵۶، ح ۱۶۹_

۷۲

انسان :انسان كے اختيارات كے حدود ۱۱

انفاق :انفاق كے احكام ۱۲;انفاق ميں ميانہ روى ۱۲

اہل بيت (ع) :اہل بيت(ع) كے فضايل ۱۴

حرام چيزيں : ۱۰

حقوق :حقو كى ادائيگى ميں احساسات ۵;حقوق كى ادائيگى ميں اعتدال ۲;حقوق ميں ترجيحات ۴;حقوق كے پيدائش كا سرچشمہ ۳

دين :دين اور احساسات ۵;دينى تعليمات كى خصوصيات ۵

رشتہ دار:رشہ داروں كے حقوق كى ادئيگى ۱، ۲;رشتہ داروں كے حقوق كى اہميت ۴;رشتہ داروں كى مشكلات دور كرنا ۹

رشتہ داري:رشتہ دارى كے حقوق ۳;رشتہ دارى كے اثرات۳

روايت : ۱۳، ۱۴، ۱۵، ۱۶ ، ۱۷

غربت:غربت كے نتائج ۷

غربائ:غرباء كے حقوق كا سرچشمہ ۷

فدك:قصہ فدك ۱۵

مال:مال ميں تصرف كاحدود ۱۱

محمد (ص) :محمد (ص) كے رشتہ داروں كے حقوق ۲، ۱۵;محمد (ص) كى ذمہ دارى ۲;محمد (ص) كے رشتہ داروں سے مراد ۱۳، ۱۴

مساكين :مساكين كے حقوق كى ادائيگى ۲، ۶

مسلمان :مسلمانوں كى معاشرتى ذمہ دارى ۸

معاشرہ:معاشرہ كى ضرورتوں كو پورا كرنا۸

واجبات : ۱، ۶، ۹، ۱۲

والدين :والدين كے حقوق كى اہميت ۴

۷۳

آیت ۲۷

( إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُواْ إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُوراً )

اسراف كرنے والے شياطين كے بھائي بند ہيں اور شيطان تو اپنے پروردگار كا بہت بڑا انكار كرنے والا ہے (۲۷)

۱_فضول خرچى كرنے والے( الله تعالى كى نعمتوں اور وسائل كو ضايع كرنے والے) شياطين كے بھائي ہيں _

إنّ المبذرين كانوا إخوان الشياطين

۲_وسائل كو ضائع كرنا شيطانى كام ہے_إنّ المنذرّين كانوا إخوان الشياطين

۳_شيطان الله تعالى كى نعمتوں كا انكار كرنے والا ہے _وكان الشيطان لربّه كفورا

۴_شيطان، الہى نعمتوں كے اسراف كا مظہر ہے_إن المبذرين كانوا إخوان الشيطين وكان الشيطان لربّه كفورا

۵_فضول خرچى (وسائل كو ضائع كرنا) الہى نعمتوں كى ناشكرى ہے_

إنّ المبذرين كانوا إخوان الشياطين وكان الشيطان لربّه كفورا

۶_الله تعالى كى نعمتوں ميں فضول خرچى اور ناشكرى ايك مذموم اور ناپسنديدہ عمل ہے_إنّ المبذرين لربّه كفورا

۷_پروردگار كے الطاف كے مد مقابل ناشكرى ،شيطانى روش ہے _وكان الشيطان لربّه كفورا

شيطان:شيطان كے بھائي۱;شيطان كى فضول خرچى ۴;شيطان كى ناشكرى ۳

عمل :شيطانى عمل ۲، ۷;ناپسنديدہ عمل ۶

فضول خرچى :فضول خرچى كى حقيقت ۵;فضول خرچى كى مذمت ۲ ، ۶;فضول خرچى كرنے والے ۱، ۴

۷۴

ناشكري:نعمتوں كى ناشكرى پر سرزنش ۷;پروردگار كي نسبت ناشكرى ۷;نعمتوں كى ناشكرى ۳، ۵ ، ۷

ناشكرى كرنے والے : ۳

آیت ۲۸

( وَإِمَّا تُعْرِضَنَّ عَنْهُمُ ابْتِغَاء رَحْمَةٍ مِّن رَّبِّكَ تَرْجُوهَا فَقُل لَّهُمْ قَوْلاً مَّيْسُوراً )

اگر تم كو اپنے رب كى رحمت كے انتظار ميں جس كے تم اميدوار ہو ان افراد سے كنارہ كش بھى ہونا پڑے تو ان سے نرم انداز سے گفتگو كرنا(۲۸)

۱_پيغمبر اسلام (ص) كى ذمہ دارى ہے كہ جب ان سے رشتہ دار، مساكين اور مسافر كسى مال كى درخواست كريں تو مال كے نہ ہونے كى وجہ سے نہ دے سكيں تو ان سے نرم اور جاذب انداز سے رويّہ كا مظاہرہ كريں _

وء ات ذإلقربى حقّه وإمّا تعرضنّ عنهم ابتغاء رحمة من ربك ترجوه

عبادت''ابتغا رحمة من ربك'' (اپنے پروردگار كى رحمت چاہتے ہو ) اور تاريخى شواہد حاكى ہيں كہ پيغمبر اسلام (ص) كا ان (مندرجہ بالا افرادكى مدد نہ كرنے كى وجہ انكے پاس مال كا نہ ہونا تھا_

۲_اپنى مالى كمزورى كى بناء پر ضرورت مندوں كى مدد نہ كرنے كى صورت ميں نرمى اور مناسب معذرت خواہانہ رويّہ اختيار كرنا چايئےإما تعرضنَّ عنهم فقل لهم قولاً ميسورا

۳_جو لوگ كسى اہم كام مثلاً عبادت كى وجہ سے ضرورت مندوں كى امدادنہ كرسكيں تو ضرورى ہے كہ ان سے نرم لہجہ سے بات كريں اور معذرت كريں _وإما تعرضنّ عنهم ابتغاء رحمة من ربّك ترجوها فقل لهم قولاً ميسورا

مندرجہ بالا مطلب كى بناء يہ احتمال ہے كہ پروردگار كى رحمت كى طلب سے مراد اس كى بارگاہ ميں عبادت ہو _ اس صورت ميں آيت كا معنى يوں ہوگا:''اگر ضرورت مندوں كى مدد عبادت كى وجہ سے نہ كرسكو تو ان سے معذرت كرو اور انہيں مناسب جواب دو_

۴_جب رشتہ داروں ، مساكين اور مسافروں كا حق ادا نہ كرسكو تو ان سے نرم و جاذب انداز ميں بات كرتے ہوئے احسن طريقے سے معذرت كرليں _وء ات ذإلقربى وإمّا تعرضنّ عنهم فقل لهم قولاً ميسورا

۵_پروردگار كى طلب رحمت جيسے اہم كام ميں مصروفيت كى بناء پر مستحقين كى امداد سے معذرت كے ساتھ كنارہ كشى جائز

۷۵

ہے_إمّا تعرضنّ عنهم ابتغاء رحمة من ربّك ترجوها فقل لهم قولاً ميسورا

۶_مؤمن ،رشتہ داروں اور معاشرہ كے مستحقين كى مدد كے ليے وسائل كا آرزومند ہے_

وإمّا تعرضنَّ عنهم ابتغاء رحمة من ربّك ترجوه

۷_رشتہ داروں اور مساكين كے حق ميں مالى ضعف اور مناسب وسائل نہ ہونے كى بناپر انفاق كا ترك كرنا صحےح اور قابل قبول عذر ہے_وء ات ذإلقربى حقّه وإمّا تعرضنّ عنهم ابتغاء رحمة من ربّك ترجوه

۸_پروردگار كى رحمت پر اميد ، محنت وسعى كے ساتھ ہونى چاہئے_ابتغاء رحمة من ربّك ترجوه

''ابتغائ'' سے مراد اپنى آرزئوں كو پانے كےلئے محنت وكوشش كرنا ہے _ (مفردات راغب)

۹_الطاف الہى پر ضرور اميد ركھنا اور صرف اپنى زحمت وكوشش پر اكتفاء نہ كرنا _ابتغاء رحمة من ربّك ترجوه

''ابتغائ'' كا ''ترجوھا'' كے ہمراہ آنا بتارہا ہے كہ انسان كے اپنے ضرورى وسائل كو پانے كے لئے يہ دونوں عناصر ہونا چاہئے نہ كوشش كے بغير اميد اور نہ اميد كے بغير كوشش _

۱۰_مادى وسائل ،اللہ كى رحمت ہيں _وإماتعرضنّ عنهم ابتغاء رحمة من ربّك

۱۱_مادى وسائل اور الہى نعمتيں الله كى ربوبيت كا مظہر اور انسانى ترقى وكمال كے لئے ہيں _ابتغاء رحمة من ربك ترجوه

۱۲_مؤمنين كو چايئےہ وہ دنياوى وسائل اور نعمتوں كو پروردگار كى جانب سے رحمت سمجھيں _

وإمّا تعرضنّ عنهم ابتغاء رحمة من ربّك ترجوه

پيغمبر اسلام (ص) يا مؤمنين كرام كو مستحقين كى مدد كے امكان نہ ہونے كى صورت ميں ان سے اچھے انداز سے رويّہ ركھنے كى نصےحت جو كہ''ابتغاء رحمة من ربك ترجوها'' كى تعبير كے ساتھ آئي ہے' ہوسكتا ہے يہ نكتہ بيان كر رہى ہو كہ مؤمنين ہميشہ وسائل كو الله كى طرف سے سمجھيں _

۱۳_رشتہ داروں اور مساكين كے احساسات كى طرف توجہ اور انہيں رنجيدہ كرنے سے پرہيز ايك ضر ورى اور مناسب اخلاق ہے_وإمّا تعرضنّ فقل لهم قولاً ميسورا

۱۴_جو لوگ مالى ضعف كى بناپر رشتہ داروں ، مساكين

۷۶

اور مسافروں كى مدد نہيں كرسكتے تو انہيں اس طرح وعدہ يا اميد بھى نہيں دلانى چايئےہ پھر مشكل سے دوچارہوں _

وإما تعرضن ابتغاء رحمة من ربك ترجوها فقل لهم قولاً ميسورا

مندرجہ بالا مطلب كى بنياد يہ ہے كہ يہ جملہ'' قل لهم قولاً ميسوراً'' سے مراد يہ ہے كہ اب جب تم انكى ضرورت كو پورا نہيں كرسكتے تو انہيں ايسا وعدہ دو كہ پھر تمہارے لئے مشكل اور پريشانى نہ كھڑى ہو_

آرزو:مادى وسائل كى آرزو ۶

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) كى ذمہ د ارى ۱;آنحضرت (ص) اور رشتہ دار ۱;آنحضرت (ص) كا ضعف مالى ۱; آنحضرت(ص) ا ورمسافر۱;آنحضرت(ص) اور مسا كين ۱

احكام : ۷الله تعالى :الله تعالى كى رحمت كى اہميت ۵;اللہ كى رحمت چاہنا ۵; الله تعالى كى رحمت ۱۲; الله تعالى كى رحمت كے موارد ۱۰; الله تعالى كى نعمتيں ۱۲; الله تعالى كى ربوبيت كے نتائج ۱۱

اميد ركھنا:اميد ركھنے كى اہميت ۹;اللہ تعالى كى رحمت پر اميد ركھنا ۹;اللہ تعالى كى رحمت پر اميد ركھنے كى شرائط ۸;اميد ركھنے ميں كوشش ۸

انفاق:انفاق كے احكام ۷

رشتہ دار:رشتہ داروں كى امداد۶;رشتہ داروں پر انفاق ۱۴;رشتہ داروں كے احساسات كى طرف توجہ كى اہميت ۱۳;رشتہ داروں كى ضرورت پورى كرنے سے پرہيز ۷;رشتہ داروں سے ملنے كى طريقہ كا طريقہ ۴;رشتہ داروں سے معذرت ۴

عبادت كرنے والے:عبادت كرنے والوں كى ذمہ دارى ۳

عذر:قابل قبول عذر ۷

فقر:فقر كے نتائج ۷

فقرائ:فقراء كى امداد ۶;فقراء پر انفاق ۱۴; فقراء كے جذبات كى رعايت كى اہميت ۱۳ ; فقراء كى ضرورت پورى كرنے سے اعراض ۱، ۲، ۵ ، ۷;فقراء سے رويّہ كا طريقہ ۲، ۳، ۵;فقراء سے معذرت خواہى ۲،۳، ۵

كمال :كمال كا پيش خيمہ ۱۱

كوشش:كوشش كى اہميت ۸

مادى وسايل :مادى وسائل كا سرچشمہ۱۰ ،۱۱،۱۲

۷۷

مسافر :مسافر پر انفاق ۱۴;مسافر سے اپنانے كا انداز ۱، ۴;مسافر سے معذرت خواہى ۴

مساكين :مساكين سے اپنانے كا انداز ۴;مساكين سے معذرت خواہى ۴

معاشرت:معاشرت كے آداب

مؤمنين :مؤمنين كى آرزو ۶;مؤمنين كى ذمہ دارى ۱۲

نعمت:نعمت كا سرچشمہ ۱۱

آیت ۲۹

( وَلاَ تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُولَةً إِلَى عُنُقِكَ وَلاَ تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوماً مَّحْسُوراً )

اور خبر دار نہ اپنے ہاتھوں كو گردنوں سے بندھا ہوا قرار دو اور نہ بالكل پھيلادو كہ آخر ميں قابل ملامت ور خالى ہاتھ بيٹھے رہ جاؤ(۲۹)

۱_مؤمنين كا وظيفہ ہے كہ وہ دوسروں پر انفاق اور اپنى ذاتى زندگى ميں مال ومتاع كے استعمال ميں اعتدال اور ميانہ روى اختيار كريں _ولا تجعل يدك مغلولة إلى عنقك ولا تبسطلها كلّ السبط

۲_مؤمنين كوچاہئے كہ وہ بخل،رشتہ داروں اور مساكين كے حقوق كى عدم ادئيگى سے پرہيز كرےں _

وء ات ذإلقربى حقّه ولاتجعل يدك مغلولة إلى عنقك

۳_كنجوس انسان اس شخص كى مانند ہے كہ جسكے ہاتھ گردن سے بندھے ہوئے ہوں _ولا تجعل يدك مغلولة إلى عنقك

''ولا تجعل يدك مغلولةإلى عنقك'' انفاق سے پرہيز يعنى كنجوسى سے كنايہ ہے يعنى ''كنجوسى تمہارے ہاتھوں كو گردن سے نہ باندھ دے''_ كى تعبير سے معلوم ہوتا ہے كہ كنجوس شخص ہاتھ بندھے ہوئے شخص كى مانند ہے_

۴_پيغمبر اسلام (ص) اپنى ذاتى زندگى ميں انفاق كے حوالے سے اعتدال كى رعايت اور حد سے زيادہ دينے سے پرہيز كرنے ميں ذمہ دارہيں _ولا تجعل يدك مغلولة إلى عنقك ولا تبسطها كل السبط فتقعدملوماً محسورا

مندرجہ بالا مطلب كى بناء يہ ہے كہ آيت كا مخاطب پيغمبر اسلام (ص) ہوں اگر چہ دوسرے لوگوں كو بھى شامل ہے_

۵_انفاق ميں حد سے زيادہ بڑھنے سے انسان اپنے ضرورى كاموں سے رہ جاتا ہے _ فتقعد ملوماً محسوراً آيت ميں مادہ ''قعود'' كا استعمال ہونا ہوسكتا ہے اسى مطلب كى طرف اشارہ ہو كہ اپنے كاموں سے پيچھے رہ جاتا ہے تو اس صورت حال ميں انسان كى دوسرے ملامت بھى كرتے ہيں اور وہ حسرت زدہ بھى ہوجاتا ہے _

۷۸

۶_كنجوسى ،ملامت كى باعث ہے اور انفاق ميں حد سے بڑھنا انسان كى زندگى ميں ضعف وحسرت كا باعث ہے_

ولاتجعل يدك ولا تبسطها كلّ البسط فتقعد ملوماً محسوراً _

مندرجہ بالا مطلب كى بناء يہ ہے كہ''ملوماً'' كا تعلق'' لا تجعل يدك مغلولة ''اور''محسوراً'' كا تعلق '' لاتبسطہا'' سے ہے _ اور اس حوالے سے بھى كہ ''محسورا'' كا معنى يہ ہے كہ انسان اپنے وسائل سے يوں جدا ہوجائے كہ وہ اس كى حسرت كا باعث ہوں _

۷_اقتصادى محورپراور زندگى كى ضروريات پورى كرنے ميں اعتدال كى رعايت اور افراط وتفريط سے پرہيز كرنا ايك ضرورى اور پسنديدہ چيز ہے_لاتجعل يدك مغلولة ولا تبسطها كل البسط

۸_انسان كو ايسے عمل كا مرتكب نہيں ہونا چاہئے كہ جس پر اس كى مذمت ہو اور وہ اپنے كئے پر پشيمان ہو اور حسرت كرے _ولا تجعل يدك فتقعد ملوماًمحسورا

۹_ہاتھوں سے گئي چيزوں پر سرزنش اور حسرت كرنا ان چيزوں ميں سے ہيں كہ جو انسانوں كو رنج ديتى ہيں اور ان كى طبع سے ناساز گار ہيں _فتقعد ملوماً محسورا

يہ كہ الله تعالى نے انفاق ميں افراط و تفريط كے انجام پر مذمت اور حسرت كرنے كا ذكر فرمايا ہے تاكہ انسان ايسے انجام سے بچنے كےلئے افراط و تفريط سے پرہيز كرے _ اس سے ثابت ہوتا ہے كہ يہ حالتيں انسان كےلئے رنجيدگى كا باعث ہيں _

۱۰_انسان كے ناپسنديدہ عمل كے ناگوار انجام پر توجہ دينا بذات خود اس كے ارتكاب سے روكنے والے اسباب ميں سے ہے_ولا تجعل يدك مغلولة إلى عنقك ولاتبسطها كل السبط فتقعد ملوماً محسوراً _

يہ كہ الله تعالى نے انفاق ميں افراط وتفريط سے روكتے ہوئے اس كا ناگوار انجام بھى ذكر كيا ہے_ اس سے مندرجہ بالا مطلب ثابت ہوتا ہے_

۱۱_انسانى زندگى كے راستہ كو صحيح طريقہ سے منظم كرنے ميں ''آئندہ حالات كو پيش نظر ركھنا اور تدبير سے كام لينا'' اہم قوانين ہيں _

ولاتجعل يدك مغلولة ولا تبسطها فتقعد ملوماً محسوراً_

جملہ ''فتقعد ملوماً محسوراً ميں چونكہ ''فا'' نتيجہ اور انجام بتانے كے لئے ہے تو اس سے مدد ليتے ہوئے ہم ديكھتے ہيں كہ الله تعالى ،

۷۹

آئندہ حالات كو پيش نظر ركھنے كے قانون كى بناء پر انسان كو انفاق ميں افراط و تفريط سے منع فرمارہاہے_

۱۲_عن أبى عبدالله (ع) ...علم الله عزّوجلّ نبيّه كيف ينفق، وذلك انه كانت عنده ا وقية من الذهب فكره ا ن يبيت عنده فتصدق بها فا صبح وليس عنده شي وجاء ه من يسا له فلم يكن عنده ما يعطيه فلامه السائل وا غتم هو حيث لم يكن عنده ما يعطيه وكان رحيماً رقيقاً فا دب الله تعالى نبيّه (ص )، با مره فقال: ولاتجعل يدك مغلولة إلى عنقك ولاتبسطها كلّ البسط فتقعد ملوماً محسوراً '' يقول : إن الناس قد يسا لونك ولا يعذرونك فإذا ا عطيت جميع ما عندك من المال كنت قد حسرت من المال (۱)

امام صادق (ع) سے روايت نقل ہوئي ہے كہ آپ(ع) نے فرمايا : الله تعالى نے اپنے پيغمبر اكرم (ص) كو سكھايا ہے كہ كس طرح انفاق كرنا چاہئے _ اور واقعہ اس طرح سے ہے كہ حضرت (ص) كے پاس كچھ سونا تھا آپ (ص) اسے صبح تك اپنے پاس نہيں ركھنا چاہتے تھے تو آپ (ص) نے اسے انفاق كيا اور صبح آپ (ص) كے پاس كوئي چيز نہ رہى ايك شخص آپ (ص) كے پاس آيا اور آپ(ص) سے كچھ مانگا' آپ (ص) كے پاس بھى اسے دينے كے لئے كچھ نہ تھا تو اس شخص نے آپ (ص) پر ملامت كى اور آپ (ص) بھى كچھ نہ ہونے كى بناء پر كہ اسے دے سكيں غمگين ہوئے چونكہ آپ (ص) بہت مہربان اور دل كے انتہائي نرم تھے تو الله تعالى نے اپنے پيغمبر (ص) كو ايك فرمان كے ساتھ تعليم دى اور فرمايا :''ولا تجعل يدك مغلولة إلى عنقك ولا تبسطها كل البسط فتقعد ملوماً محسوراً '' يعنى الله تعالى فرما رہا ہے : لوگ تجھ سے مانگتے ہيں اور تمھارا عذرقبول نہيں كرتے تو اگر سب كچھ انفاق كردو گے تو تنگى ميں پڑوگے_

۱۳_عن ا بى عبدالله (ع) ، فى قول الله عزّوجلّ ''فتقعد ملوماً محسوراً'' قال : الإحسار الفاقة (۱)

امام صادق (ع) سے اس كلام الہى''فتقعد ملوماً محسوراً'' كے بارے ميں روايت ہوئي ہے كہ آپ (ع) نے فرمايا : يہاں ''احسار'' سے مراد فقر اور تنگدستى ہے_

۱۴_فقال الصادق (ع) : المحسور العريان (۲) امام صادق (ع) سے روايت ہوئي ہے كہ محسور سے مراد عريان ہے _

____________________

۱) كافى ج ۵، ص ۶۷، ح ۱_ نورالثقلين ج ۳، ص ۱۵۸ ، ح ۱۷۸_

۲) كافى ج ۴، ص۵۵، ح۶_ نورالثقلين ج ۳، ص ۱۵۷ ، ح ۱۷۵_

۳) تفسير قمى ج ۲، ص ۱۹_

۸۰