تفسير راہنما جلد ۱۰

تفسير راہنما 0%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 945

تفسير راہنما

مؤلف: آيت الله ہاشمى رفسنجاني
زمرہ جات:

صفحے: 945
مشاہدے: 196378
ڈاؤنلوڈ: 2083


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4 جلد 5 جلد 6 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 945 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 196378 / ڈاؤنلوڈ: 2083
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد 10

مؤلف:
اردو

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) كا انفاق ۱۲;آنحضرت (ص) كى ذمہ دارى ۴

استعمال :استعمال كے آداب ۱،;استعمال ميں اعتدال ۱

اعتدال :اعتدال كى اہميت ۱

افراط وتفريط :افراط وتفريط سے اجتناب كى اہميت ۷

انسان :انسان كى ذمہ دارى ۸،انسان كى طبيعت۹

انفاق :انفاق كے آداب ۱، ۴; انفاق ميں اعتدال ۱، ۴;انفاق كى روش ۱۲;انفاق ميں افراط كے نتائج ۵،۶

اہم ومہم : ۵

بخل:بخل سے اجتناب ۲;بخل كے نتائج ۶

حسرت:حسرت كے اسباب ۶;حسرت كا پيش خيمہ ۸; حسرت كا پسند ہونا ۹

دورانديشي:دورانديشى كى اہميت ۱۱

ذكر:ناپسنديدہ عمل كے انجام كے ذكر كے نتائج ۱۰

رشتہ دار:رشتہ دار كے حقوق كى ادائيگى ۲

روايت : ۱۲، ۱۳، ۱۴

زندگي:زندگى ميں تدبير كى اہميت ۱۱

عمل :ناپسنديدہ عمل سے اجتناب ۸;ناپسنديدہ عمل ۷; ناپسنديدہ عمل كے موانع ۱۰

فقرائ:فقراء كے حقوق كى ادائيگى ۲

قرانى تشبيہات :بخيل لوگوں كى تشبيہ ۳;گردن سے ہاتھ بندھے لوگوں كى تشبيہ ۳

مؤمنين :مؤمنين كى ذمہ دارى ۱، ۲

محسور:محسور كامفہوم ۱۳، ۱۴

معاش:معاش كو پورا كرنے ميں اعتدال كى اہميت۷

۸۱

آیت ۳۰

( إِنَّ رَبَّكَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاءُ وَيَقْدِرُ إِنَّهُ كَانَ بِعِبَادِهِ خَبِيراً بَصِيراً )

تمہارا پروردگار جس كے لئے چاہتاہے رزق كو وسيع يا تنگ بنا ديتاہے وہ اپنے بندوں كے حالات كو خوب جاننے والا اور ديكھنے والا ہے(۳۰)

۱_انسانوں كے رزق ميں كمى وبيشى فقط پروردگار كى مرضى ومنشاء پر موقوف ہے_إنّ ربّك يبسط الرزق لمن يشاء ويقدر

''يقدر'' سے مراد اگر چہ اندازہ ہے ليكن قرينہ ''يبسط'' (وسعت ديتا ہے) كى وجہ سے اس كا معنى كم كرنا، ہے _

۲_انسانوں كے لئے الہى رزق اس كى ربوبيت اور خدائي كاجلوہ ہے _إنّ ربّك يبسط الرزق

۳_لوگوں كے لئے روزى ميں فرق،پروردگار كى ربوبيت كا تقاضا ہے _إنّ ربك يبسط الرزق لمن يشاء ويقدر

۴_انسانوں ميں روزى كا فرق انكى پرورش اور ترقى كے حوالے سے ايك الہى تدبير ہے_إنّ ربّك يبسط الرزق لمن يشاء ويقدر ''يبسط'' اور ''يقدر'' كے حوالے سے ربوبيت

الہى كى تاكيد سے معلوم ہوتا ہے كہ اس كمى وبيشى كا سرچشمہ اس كى ربوبيت ہے (تاكہ زندگى كى گاڑى چلے اور تمام انسان اسى فرق كے حوالے سے امتحان ديں اور ترقى كريں )

۵_انسانوں كى اپنى روزى ميں الله تعالى كى مشيت اور تقدير كے كردار پر توجہ اپنے مال ومتاع سے انفاق ميں افراط اور بخل كے اجتناب كا موجب بنى ہے_ولاتجعل يدك مغلولة إلى عنقك إنّ ربك يسبط الرزق لمن يشائ

جملہ ''إنّ ربّك '' در اصل جملہ''ولا تجعل يدك ...'' كى علت بيان كر رہا ہے تو اس صورت ميں آيت كا مفہوم يہ ہوگا_ الله تعالى روزى دينے والا ہے _ لہذافقر كے خوف سے بخل كيا جائے اور نہ انفاق سے دورى كى جائے_

۶_الله تعالى اپنے بندوں كے حالات سے مكمل طور پر آگاہ ہے اور ہر حوالے سے آگاہى ركھتا ہے_

إنّه كان بعباده خبيراً بصيرا

۸۲

۷_انسانوں كى روزى ميں فرق الله تعالى كى انسانوں كے بارے ميں گہرى آگاہى كى بناء پر ہے _

يبسط الرزق و يقدر إنه كان بعباده خبيراً بصيرا

۸_الله تعالى كى مشيت كا دارومدار علم وآگاہى كى بنياد پر ہے _يبسط الرزق لمن يشاء ويقدر إنه كان بعباده خبيراً بصيرا

اسماء وصفات :بصير ۶; خبير ۶

الله تعالى :الله تعالى كى تقديريں ۳;اللہ تعالى كا علم ۷ ، ۸; الله تعالى كا علم غيب ۶;اللہ تعالى كى ربوبيت كى علامتيں ۲;اللہ تعالى كى مشيت كا قانون كے مطابق ہونا ۸; الله تعالى كى تقديروں كا كردار ۱، ۵;اللہ تعالى كى مشيت كا كردار ۵;اللہ تعالى كى ربوبيت كے نتائج ۳، ۴; الله تعالى كى مشيت كےنتائج ۱

انسان :انسانوں كى روزى اور تقدير ۵;انسانوں كى روزى ۲، ۳، ۴، ۷;انسانوں كى روزى ميں اختلاف كا قانون كے مطابق ہونا ۷

انفاق :انفاق ميں افراط سے بچنے كا پيش خيمہ ۵

بخل:بخل سے بچنے كا پيش خيمہ ۵

ذكر:الله تعالى كى ربوبيت كا ذكر كرنے كے نتائج۵;روزى كے سرچشمہ ى ذكر ۵

روزي:روزى ميں اختلاف كا فلسفہ ۴;روزى ميں اضافہ كا منشاء ۱;روزى ميں اختلاف كا منشاء ۳;روزى ميں نقصان كا منشاء ۱

كمال:كمال كا پيش خيمہ ۴

۸۳

آیت ۳۱

( تَقْتُلُواْ أَوْلادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلاقٍ نَّحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُم إنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْءاً كَبِيراً )

اور خبر دار اپنى اولاد كو فاقہ كے خوف سے قتل نہ كرنا كہ ہم انہيں بھى رزق ديتے ہيں اور تمہيں بھى رزق ديتے ہيں بيشك ان كا قتل كردينا بہت بڑا گناہ ہے(۳۱)

۱_اولاد كو فقر اور تنگدستى كے خوف سے قتل كرنا ممنوع اور حرام ہے_ولا تقتلوا أولادكم خشية إملاق:

۲_فقر اور نادارى كا خوف جاہل عربوں كے ہاتھوں اپنى اولاد كے قتل كرنے كا موجب بنا _ولا تقتلوا أولاد كم خشية أملاق

۳_فقر اور تنگدستى انسان كے ضمير كو كمزور كرنے ميں اور اولاد سے محبت كرنے جيسے قوى ترين احساسات كو ختم كرنے ميں تاثير گذارہے _ولا تقتلوا أولاد كم خشية إملاق

۴_اس بناء پر بچوں كن نقل كرنا كہ ان كى وجہ سے كس تنگدستى ميں نہ گھر جائيں ممنوع ،حرام اور برے نتائج كا حامل ہے _

مندرجہ بالا مطلب كى بناء يہ ہے كہ ''املاق'' سے مراد ماں باپ كا اپنے اور بچوں كے بارے ميں فقر كا خوف ہے_

۵_فقر اور تنگدستى كا خوف، اولاد كے قتل كا جواز فراہم نہيں كرتا _ولا تقتلوا أولادكم خشية إملاق

۶_ضرر اور نقصان كے محض خوف كى بناء پر اس سے بچنے كے لئے گناہ اور برائي جائز نہيں ہوتى _

ولا تقتلوا أولادكم خشية إملاق

۷_تمام انسانوں (والدين اور انكے بچوں ) كى روزى كا ضامن الله تعالى ہے _نحن نرزقهم وايّاكم _

۸_الله تعالى كى طرف سے تمام لوگوں كى روزى كى ضمانت كى طرف توجہ ،اپنے يا بچوں كے مستقبل ميں فقر كے خوف سے مانع ہے _ولا تقتلوا أولادكم خشية إملاق نحن نرزقهم وإيّاكم

۹_والدين خود كو اولاد كا رازق تصور نہ كريں _نحن نرزقهم وإيّاكم

فقر كے خوف سے بچوں كے قتل سے پرہيز كا حكم اور يہ اعلان كہ الله تعالى والدين اور بچوں كو روزى دينے والا ہے _ يہ دونوں چيزيں مندرجہ بالا مطلب كو واضح كررہى ہيں _

۸۴

۱۰_بچوں كا ہونا فقر اور تنگدستى كا موجب نہيں ہے_ولا تقتلوا ا ولادكم خشية أملاق نحن نرزقهم وايّاكم

آيت سے معلوم ہوتا ہے كہ ہر انسان كى اپنى روزى ہے ايسا نہيں ہے كہ ايك كے آنے سے دوسرے كى روزى كم پڑجائے _ لہذا اگر فقر ہے تو اس كے كچھ اور كوئي اور اسباب ہيں نہ كہ بچوں كا وجود _

۱۱_توحيد كے عقيدے ميں بشريت كى آيندہ مادى زندگى اور اقتصادى حوالے سے پريشانى اور اضطراب كى كوئي گنجائش نہيں ہے_ولاتقتلوا نحن نرزقهم وايّاكم

يہ كہ الله تعالى بچوں كے فقر كے خوف سے قتل كو ممنوع كرنے كے بعد تمام انسانوں كى روزى كى اپنى طرف سے ضمانت ديتا ہے _ اس سے معلوم ہوتا ہے كہ مستقبل ميں اقتصادى وضعيت كے حوالے سے پريشانى كى ضرورت نہيں ہے _

۱۲_بچوں كا قتل بہت بڑى خطا اور جنايت ہے كہ اسے تمام زمانوں ميں اور گزشتہ صديوں ميں مذموم جاناگيا ہے_

إن قتلهم كان خطئاً كبيرا

''خطئاً'' كا لغوى معنى ''اصلى اور حقيقى جہت سے پھرنا'' ہے اور يہ كلمہ وہاں استعمال ہوتا ہے جب كوئي شخص غلط كام كرنے پر ارادہ كرلے اور اسے انجام دے _ (مفردات راغب)

۱۳_عن أبى جعفر قال بعث الله محمداً(ص) و ا نزل عليه فى سورة بنى إسرائيل بمكة وا نزل نهياً عن ا شياء حذر عليها ولم يغلظ فيها ولم يتواعد عليها وقال: ''ولا تقتلوا ا ولادكم خشية إملاق نحن نرزقهم وإيّاكم إن قتلهم كان خطئاً كبيراً (۱)

امام محمد باقر(ع) سے روايت ہوئي كہ آپ (ع) نے فرمايا : الله تعالى نے حضرت محمد(ص) كو مبعوث فرمايا ان پر مكہ ميں سورہ بنى إسرائيل كى آيات نازل فرمائيں كہ (ان آيات ميں ) ايسى چيزوں سے منع فرمايا كہ جن سے پرہيز كرنا لازم ہے _ ليكن اس منع كرنے ميں سختى اور شدت نہيں ہے اور نہ ان كے ارتكاب پر وعدہ عذاب ديا گيا ہے_ فرمايا ہے كہ''ولا تقتلوا أولادكم خشية إملاق نحن نرزقهم وإيّاكم إن قتلهم كان خطائً كبيراً'' _

احساسات :احساسات كو ضعيف كرنے والے اسباب ۳احكام: ۱، ۴، ۵

اقتصاد :مستقبل كے اقتصاد كے بارے ميں پريشانى ۱۱

____________________

۱) كافى ج ۲، ص ۳۰، ح ۱_بحارالانوار ج۶۶، ص ۸۷ ، ح ۳۰_

۸۵

الله تعالى :الله تعالى كى رازقيت ۷;اللہ تعالى ممنوعات ۱۳

ايمان :توحيد كے ساتھ ايمان كے نتائج ۱۱

تعلقات :فرزند كے ساتھ تعلق ۳

جاہليت :جاہليت ميں بچوں كا قتل ۲;جاہليت كى رسوم ۲

خوف:فقر سے خوف ۵ ;نقصان سے خوف ;فقر سے خوف كے موانع ۸;خوف كے نتائج ۶;فقر سے خوف كے نتائج ۶، ۲

ذكر:روزى كى ضمانت كے ذكر كے نتائج ۸

روايت : ۱۳/روزي:روزى كا ضامن ۷

فرزند:فرزند كا كردار ۱۰;فرزند كى روزى كا سرچشمہ ۹فرزند كا قتل :فرزند كے قتل كا جرم ۱۲;فرزند كے قتل كى حرمت ۱،۴;فرزند كے قتل پر سرزنش ۱۲ ; تاريخ ميں فرزند كا قتل ۱۲;فقر ميں فرزند كا قتل ۱، ۴، ۵; فرزند كے قتل سے نہى ۱۳

فقر:فقر كے اسباب ۱۰ ;فقر كے نتائج ۳، ۵

قتل :قتل كے احكام ۱، ۴، ۵

گناہ كبيرہ :۱۲ممنوعات :۱، ۴

نقصان:نقصان سے بچنا ۶

والدين :والدين كى ذمہ دارى ۹

وجدان :وجدان كو كمزور كرنے كے اسباب ۳

آیت ۳۲

( وَلاَ تَقْرَبُواْ الزِّنَى إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاء سَبِيلاً )

اور ديكھو زنا كے قريب بھى نہ جانا كہ يہ بدكارى ہے اور بہت برا راستہ ہے (۳۲)

۱_زنا ممنوع اور حرام ہے _ولا تقربوا الزّنى

۲_ہر وہ كام كہ جوانسان كو زنا كے قريب لے جاتا ہے اس سے بچنا لازم اور واجب ہے_ولا تقربوالزّنى

يہ كہ الله تعالى نے ''لا تزنوا'' (يعنى زنا نہ كريں ) كى جگہ فرمايا ہے:''لا تقربوا الزّني'' (زنا ے قريب نہ ہوں ) ہوسكتا ہے اس نكتہ

۸۶

كى طرف توجہ دلا رہا ہو نہ كہ صرف عمل زنا ممنوع ہے بلكہ ہر وہ عمل جو زنا پر ختم ہوچونكہ وہ بدكارى كى طرف لے جانے والا عمل ہے اس سے پرہيز كرنا چاہئے_

۳_فحاشى ،بہت قبيح اور برے انجام والے گناہوں ميں مبتلاء كرنے والے عمل سے انسان كا اجتناب _

ولاتقربوا الزّنى إنه كان فاحشة وساء سبيلا

جملہ ''إنہ كان فاحشة و ...'' جملہ ''لا تقربوا'' كى علت بيان كر رہا ہے يعنى چونكہ زنا فحاشى اور برے انجام والا عمل ہے اسى ليے اس سے بچنا ضرورى ہے _ لہذا ہر فحاشى اور وہ گناہ كہ جس كا انجام برا ہو اس سے پرہيز كرناچايئے

۴_اپنے جنسى جذبات كى تسكين كے لئے زنا انتہائي قبيح وپليد عمل ہے اور باطل راستہ ہے _إنه كان فاحشة وساء سبيلا

''فاحشة'' اس بات اور عمل كو كہتے ہيں كہ جسكى قباحت بہت زيادہ ہو _(مفردات راغب)_

۵_اسلام سے قبل زمانہ جاہليت ميں عربوں ميں زنا معمول كے مطابق رائج عمل تھا _

ولا تقربوا الزّنى إنه كان فاحشة وساء سبيلا

۶_پورى تاريخ ميں انسانوں كے ضمير ميں زنا كى قباحت وپليدگى موجود ہے _إنه كان فاحشة وساء سبيلا

جملہ اسميہ ''انہ كان فاحشة وساء سبيلاً''سے ہميشہ اور ثابت رہنے والے معنى پر دلالت ہو رہى ہے اور ساتھ يہ الہى نہى''لاتقربوا الزّني'' كے لئے بھى علت ہے _اس علت سے لا تقربوا كے عمل كے ليے لوگوں كو ابھارنا ہے اور يہ بات اس وقت مؤثر ہے جب لوگ بذات خود زنا كى قباحت كو سمجھيں اور علت كا اطلاق يہ واضع كر رہا ہے كہ زنا لوگوں كے درميان قبيح تھا

۷_زنا جيسے غير مناسب عمل كا فرد ومعاشرہ كے لئے برا اور ناگوار انجام _وساء سبيلا

برى راہوں ميں سے ايك راہ ايسى ہے كہ جو برے انجام پر ختم ہوتى ہے _ لہذا ''ساء سبيلا'' اس معنى كو بيان كررہا ہے كہ زنا ،نہ فقط فحش عمل ہے بلكہ ايسا برا راستہ ہے كہ جس كا انجام فرد ومعاشرہ كے لئے بھى برا ہے_

۸_دين كے محرمات اور ممنوعات كى بنياد يہ ہے كہ انسان سے مفاسد كو دور كياجائے _إنه كان فاحشة وساء سبيلا

حرام شدہ عمل كى علتيں اور مفاسد بيان كرنا اس نكتہ كو واضح كر رہے ہيں كہ الله تعالى كے ممنوعات اور محرمات مفاسد كے تابع ہيں _

۹_زنا كى بدى اور قباحت اور جنسى خواہشات كو مٹانے كے لئے اس كا ايك برا طريقہ ہونا اس كى حرمت كا ملاك ہے _

۸۷

ولا تقربوا الزّنى إنه كا فاحشة وساء سبيلا

جملہ ''إنہ كان فاحشة وساء سبيلا'' نہى كے لئے علت كى مانند ہے اور ممكن ہے مندرجہ بالا مطلب واضح كرے _

۱۰_ناپسنديدہ عمل كے برے اثرات سے آگاہ كرنا اور اس سے دوررہنے يعنى جدائي كى نہى كرنا قرآن كى تبليغى وہدايتى روشوں ميں سے ايك روش ہے_ولا تقربوا الزّنى إنه كان فاحشة وساء سبيلا

۱۱_عن ا بى جعفر (ع) ، قال: بعث الله محمداً(ص) و ا نزل عليه فى سورة بنى إسرائيل بمكة وا نزل نهياً عن اشياء حذر عليها ولم يغلظ فيها ولم يتواعد عليها وقال: ''ولا تقربوا الزنا انه كان فاحشة وساء سبيلاً ...'' (۱)

امام باقر (ع) سے روايت ہوئي كہ آپ (ع) نے فرمايا: الله تعالى نے حضرت محمد(ص) كو مبعوث فرمايا اور ان پر سورہ بنى إسرائيل كى آيات مكہ ميں نازل كيں ...(كہ ان آيات ميں )ايسى چيزيں ہيں كہ جن سے پرہيز لازم ہے_ ليكن ان ممنوعات ميں سختى وشدت نہيں ہے اوران كے ارتكاب پر عذاب كا وعدہ نہيں كيااور فرمايا:''ولا تقربوا الزنا إنه كان فاحشة وساء سبيلاً'' _

۱۲_عن ا بى جعفر (ع) فى قوله :''ولا تقربوا الزنا إنه كان فاحشة '' يقول : معصية ومقتاً فإن الله يمقته ويبغضه قال: وساء سبيلاً هو أشدالناس عذاباً والزنا من ا كبر الكبائر (۲)

امام باقر (ع) اس آيت''ولا تقربوا الزنا انه كان فاحشة '' كے بارے ميں فرماتے ہيں كہ الله تعالى فرما رہا ہے : ''زنا''گناہ اور نفرت انگيز ہے'' كيونكہ بہت زيادہ الله تعالى اس سے اظہار نفرت وغضب كرتا ہے( اور اس آيت ) ''ساء سبيلا'' كے بارے ميں فرماتا ہے:زنا كار كا عذاب سب سے زيادہ شديد ہے اور سب سے بڑے گناہوں ميں سے ہے_

احكام:احكام ۱، ۲احكام كا فلسفہ :۸، ۹

الله تعالى :الله تعالى كے ممنوعات ۱۱

انسان :انسان كى فطرت ۶/تبليغ:تبليغ كى روش ۱۰/جاہليت :جاہليت كى رسوم ۵;جاہليت ميں زنا ۵

جنسى انحراف :جنسى انحراف كے موارد ۴، ۹جنسى خواہشات:

____________________

۱) كافى ج۲، ص ۳۰، ح ۱_ بحارالانوار ج ۶۶، ص ۸۷ ، ح۳۰_

۲) نورالثقلين ج ۳، ص ۱۶۱، ح ۱۸۸_ بحارالانوار ج ۷۶، ص ۱۹، ح ۵_

۸۸

جنسى خواہشات كو مٹانا ۴

دين :دينى تعليمات ۸

روايت : ۱۱ ، ۱۲

زنا:زنا كے احكام ۱، ۲;زنا ميں مبتلا كرنے والى چيزوں سے اجتناب ۲;زنا كا برا انجام۷;زناكى بدى ۴،۶;زنا كى حرمت ۱;زنا كى بدى كا فطرى ہونا ۶;زنا كى حرمت كا فلسفہ ۹;زنا كا گناہ ۱۲ ;زنا كى بدى كے نتائج ۹;زنا كا فردى نقصان ۷ ; زنا كا معاشرتى نقصان ۷;زناسے ۱۱

عمل :ناپسنديدہ عمل ۷;ناپسنديدہ عمل كا نقصان ۱۰

برائياں :برائي سے اجتناب كى اہميت ۳

قرآن مجيد:قرآن مجيد كا ہدايت دينا ۱۰

گناہ :گناہ سے اجتناب كى اہميت ۳; گناہ ميں مبتلا كرنے والى چيزوں سے اجتناب كى اہميت ۳

گناہ كبيرہ: ۱۲

حرام اشياء : ۱

حرام چيزوں كا معيار ۹

مفسدات:مفسدات كو دور كرنے كى اہميت ۸

معاشرہ:معاشرہ كے لئے خطرات كو جاننا ۷

واجبات : ۲ہدايت:ہدايت كى روش ۱۰

آیت ۳۳

( وَلاَ تَقْتُلُواْ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللّهُ إِلاَّ بِالحَقِّ وَمَن قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِيِّهِ سُلْطَاناً فَلاَ يُسْرِف فِّي الْقَتْلِ إِنَّهُ كَانَ مَنْصُوراً )

اور كسى نفس كو جس كو خدا نے محترم بناياہے بغير حق كے قتل بھى نہ كرنا كہ جو مظلوم قتل ہوتاہے ہم اس كے دلى كو بدلہ كا اختيار دے ديتے ہيں ليكن اسے بھى چاہئے كہ قتل ميں حد سے آگے نہ بڑھ جائے كہ اس كى بہر حال مدد كى جائے گي(۳۳)

۱_بے گناہ اور بے قصور شخص كا قتل ممنوع اور حرام ہے_ولا تقتلوالنفس التى حرّم الله _

۸۹

۲_بعض انسانوں كى جان محترم نہيں ہے _ لہذا انہيں قتل كياجاسكتا ہے_ولا تقتلوا النفس التى حرّم الله إلّا بالحقّ

۳_ چند وضاحت شدہ مقامات كے علاوہ باقى تمام حقوق اور قوانين الہى ميں قتل كى حرمت كا قانون جارى ہے_

ولا تقتلوا النفس التى حرّم الله إلّا بالحقّ

۴_انسان كے قتل كى ممنوعيت اس كى خصوصيات ميں سے ہے_ولا تقتلوا النفس التى حرّم الله إلّا بالحقّ

يہ عبارت''التى حرّم الله'' دليل استثناء'' إلّا بالحق'' كى بناء پر ''النفس'' كے لئے صفت تشريحى سے _ لہذا انسان كے قتل كى حرمت اس كى صفات ميں سے شمار ہوگي_

۵_الله تعالى كے احكام ،حق و عدل كے اجراء اور مظلوم كے دفاع كى خاطر ہيں _

ولا تقتلوا إلّا بالحقّ ومن قتل مظلوماً فقد جعلنا لوليّه سلطانا

۶_الله تعالى نے ناحق اور مظلومانہ قتل ہونے والے كے ولى كو قاتل پر غلبہ عطا كيا ہے_

ومن قتل مظلوماً فقد جعلنا لوليّه سلطانا

۷_حق(الہى قانون) كے مطابق قتل ہونے والے كے ولى كو كسى قسم كا اختيار حاصل نہيں ہے_

ولا تقتلوا إلّا بالحقّ ومن قتل مظلوماً فقد جعلنا لوليّه سلطانا

۸_قاتل كے بارے ميں فيصلہ كرنے كا حق مقتول كے وارثوں كو ہے اور اس ميں ان كے فائدہ كو مد نظر ركھنا چاہئے _

فقد جعلنا لوليّه سلطانا

مندرجہ بالا مطلب ''لوليّہ'' كى لام سے ليا گيا ہے كہ يہ فائدہ كے خاص ہونے كو بيان كر رہا ہے_

ولا تقتلوا ...إلّا بالحقّ ومن قتل مظلوماً فقدجعلنا لوليّه سلطانا

۱۰_مقتول كے وارثوں كے لئے قاتل سے انتقام لينے ميں حد سے بڑھنا حرام اور ممنوع ہے_فلا يسرف فى القتل

۱۱_قاتل كا قتل وقصاص مقتول كے وارثوں كا حق ہے_جعلنا لوليّه سلطاناً فلا يسرف فى القتل

۱۲_قاتل پر مقتول كے ورثاء كااختيار لغزش اور اپنے دائرہ اختيار سے تجاوز كا باعث بنتاہے_

جعلنا لوليّه سلطاناً فلا يسرف فى القتل

الله تعالى كا روكنا ايك قسم كا خبردار كرنا ہے اور يہ خبردار كرنا لغزش كے امكان كى وجہ سے ہے اور ''فلا يسرف'' ميں فاء نتيجہ كے لئے ہے اور مندرجہ بالا مطلب پر ايك اور تائيد ہے_

۱۳_حق وعدل كى رعايت كا خيال حتّى كہ لوگوں كى جان سے كھيلنے والے كے حق ميں بھي_

۹۰

جعلنا لوليّه سلطاناً فلا يسرف فى القتل

۱۴_مقتول كے وارث كى الله تعالى كى طرف سے حمايت پر توجہ اسے قصاص ميں حد سے بڑھنے پر روكنے والى ہے_

جعلنا لوليّه سلطاناً فلا يسرف فى القتلإنه كان منصورا

۱۵_مظلوم كى حمايت اور مدد الہى سنت _ومن قتل مظلوماً إنه كان منصورا مندرجہ بالا مطلب كى بنياد يہ ہے كہ ''إنہ'' كى ضمير مقتول مظلوم كى طرف لوٹتى ہے اور جملہ ''انہ '' كا اسميہ ہونا اور فعل ''كان'' كا آنا (جو استمرار كا معنى پيدا كرتا ہے) ممكن ہے يہ نكتہ واضح كرے كہ مقتول مظلوم كى حمايت ہميشہ الله تعالى كى جانب سے ہوتى رہى ہے_

۱۶_حق قصاص كا الہى حكم اور مقتول كے ورثاء كو اختيار ہى الله تعالى كى ان كى حمايت ہے _ومن قتل مظلوماً فقد جعلنا لوليّه سلطاناً إنه كان منصورا مندرجہ بالا مطلب اس نكتہ كى بناء پر ہے كہ ''انہ '' كى ضمير مقتول كے وارث كى طرف لوٹتى ہو _

۱۷_ظلم سے قتل ہونے والے كى حمايت تمام انسانى معاشروں ميں ايك عقلى اور فطرى چيز ہے _ومن قتل مظلوماً ...إنه كان منصورا مندرجہ بالا مطلب اس احتمال كى بناء پر ہے كہ ''مقتول كى مدد كى جانا '' (منصوراً) الله تعالى كى طرف سے نہ ہو بلكہ يہ وہ قانون ہو كہ جو تمام لوگوں ميں رائج ہے اور جملہ ''إنہ كان منصوراً'' ايك معاشرتى حقيقت سے حكايت كررہاہو_

۱۸_''عن أبى عبدالله (ع) قال: إذا اجتمعت العدة على قتل رجل واحد حكم الوالى أن يقتل ا يهم شاو وا وليس لهم ا ن يقتلوا ا كثرمن واحد إن الله عزّوجلّ يقول: ومن قتل مظلوماً فقد جعلنا لوليّه سلطاناً فلا يسرف فى القتل'' (۱) امام صادق (ع) سے روايت ہوئي ہے كہ آپ (ع) نے فرمايا :_ جب ايك گروہ ايك شخص كو قتل كرے اور قاضى حكم دے كہ مقتول كے و ارث ان قاتلوں ميں سے جسے چاہيں قتل كرسكتے ہيں تو وہ حق نہيں ركھتے كہ ايك شخص سے زيادہ قتل كريں بے شك الله تعالى فرما رہا ہے :ومن قتل مظلوماً فقد جعلنا لوليّه سلطاناً فلا يسرف فى القتل

۱۹_عن اسحاق بن عمار قال: قلت لأبى الحسن(ع) إن الله عزّوجلّ يقول فى كتابه: فلا يسرف فى القتل إنه كان منصوراً '' فما هذإلاسراف الذى نهى الله عزّوجلّ عنه قال: نهى ا ن يقتل غيرقاتله ا ويمثل بالقاتل قلت : فما معنى قوله : إنه كان منصوراً قال: وا يّ نصرة ا عظم من ا ن يدفع القاتل إلى أولياء المقتول فيقتله ولا تبعة تلزمه من قتله فى دين ولا دينا (۲) اسحاق بن عمار كہتے ہيں كہ امام موسى بن جعفر(ع) كي

____________________

۱) كافى ج۷، ص ۲۸۵، ح۹_ نورالثقلين ج۳، ص ۱۶۲، ح ۱۹۷۲) كافى ج۷، ص ۳۷۰، ح۷_ نورالثقلين ج۳، ص ۱۶۲،ح۱۹۸

۹۱

خدمت ميں عرض كي: الله تعالى اپنى كتاب ميں فرما رہا ہے :''فلا يسرف فى القتل انه كان منصوراً'' يہ كون سا اسراف ہے كہ جس سے الله تعالى نے منع فرمايا ہے؟ تو حضرت (ع) نے فرمايا : الله تعالى نے غير قاتل كو قتل كرنے اور قاتل كا مثلہ كرنے سے منع فرمايا ہے_ تو رواى كہتا ہے كہ ميں نے عرض كيا : تو اس كلام خدا :''انہ كان منصوراً'' سے مراد كيا ہے؟ آپ (ع) نے فرمايا: ''اس سے بڑھ كر اور نصرت كيا ہوسكتى ہے كہ قاتل مقتول كے ورثاء كے حوالے كياجاتا ہے كہ وہ قاتل كو قتل كرتے ہيں اور قتل كے دينى اور دنياوى اثرات سے محفوظ رہتے ہيں _

۲۰_عن أبى العباس قال: سا لت أبا عبدالله (ع) عن رجلين قتلا رجلاً فقال: يخيّر وليّه ا ن يقتل ا يهما شاء وكذلك إن قتل رجل إمرا ة إن قبلوا دية المرا ه فذاك، وإن ا بى ا وليائها إلّا قتل قاتلها غرموا نصف دية الرجل و قتلوه وهو قول الله : فقد جعلنا لوليّه سلطاناً فلا يسرف فى القتل'' (۱) ابى عباس روايت كرتے ہيں كہ ميں نے امام صادق (ع) سے ان دو مردوں كے بارے ميں پوچھا كہ ان دونوں نے ايك مرد كو قتل كيا تو حضرت(ع) نے جواب ميں فرمايا كہ مقتول كا وارث مختار ہے ان دونوں ميں سے جسے چاہے قتل كردے _ اسى طرح اگر كوئي مرد كسى عورت كو قتل كردے اگر اس كے وارث عورت كى ديت قبول كريں تو وہى حكم ہے_ اور اگر ديت قبول نہ كريں فقط قاتل كو قتل كرنا چاہيں توايك مرد كى آدھى ديت ادا كريں پھر اسے قتل كرديں اور يہ الله تعالى كى كلام ہے_''فقد جعلنا لوليّه سلطاناً فلا يصرف فى القتل '' _

۲۱_عن أبى جعفر(ع) فى قوله :''ومن قتل مظلوماً فقد جعلنا لوليّه سلطاناً فلا يسرف فى القتل إنّه كان''منصوراً''قال: هو الحسين بن على (ع) قتل مظلوماً ونحن أولياء والقائم منّا إذا قام طلب بثار الحسين ''إنه كان منصوراً'' فإنه لا يذهب من الدنيا حتّى ينتصر برجل من آل رسول الله (ص) يملأ الأرض قسطاً وعدلاً كماملئت جوراً وظلماً'' _(۱) الله تعالى كے كلام''من قتل مظلوماً فقد جعلنا لوليه سلطاناً فلا يسرف فى القتل إنه كان منصوراً'' كے بارے ميں امام باقر (ع) سے روايت ہوئي ہے كہ آپ (ع) نے فرمايا : يہاں مراد حضرت حسين بن على (ع) ہيں كہ مظلومانہ قتل ہوئے ہيں اور ہم آئمہ ان كے ورثاء ہيں اور جب بھى ہمارے قائم كا ظہور ہوگا تو وہ حسين بن على (ع) كا انتقام ليں گے_ اور ''إنہ كان منصوراً'' كے بارے ميں فرمايا : كچھ دير نہيں كہ آل رسول (ص) كے ذريعے مدد ہوگى اوروہ زمين عدل و انصاف كے ساتھ پر كرديں گے جس طرح ظلم و ستم سے پر ہوگي_

۲۲_عن أبى جعفر (ع) قال: بعث الله

____________________

۱) تفسير عياشى ج ۲ ، ص ۲۹۱، ح ۶۸_ نورالثقلين ج ۳، ص ۱۶۳، ح ۲۰۲۲) تفسير عياشى ج۲، ص ۲۹۰، ح ۶۷_ نورالثقلين ج ۳، ص ۱۶۳، ح ۲۰۱

۹۲

محمداً و ا نزل عليه فى سورة بنى إسرائيل بمكة وانزل نهيا عن ا شياء حذّر عليها ولم يغلّظ فيها ولم يتوا عد عليها وقال:'' ...ولا تقتلوا النفس التى حرّم الله إلّا بالحق و من قتل مظلوماً فقد جعلنا لوليّه سلطاناً فلا يسرف فى القتل إنه كا ن منصوراً'' (۱)

امام باقر(ع) سے روايت ہوئي ہے كہ الله تعالى نے حضرت محمد (ص) كو مبعوث كيا اور ان پر مكہ ميں سورہ بنى إسرائيل سے چند آيات نازل كيں ان آيات ميں ان چيزوں سے منع كيا كہ جن سے پرہيز لازمى ہے ليكن ان ممنوعات ميں سختى نہيں دكھائي گئي اور ان ممنوعات كے ارتكاب كرنے پر وعدہ عذاب نہيں ديا گيا اور فرمايا:''ولا تقتلوا النفس التى حرّم الله الاّ بالحقّ ...''

احكام : ۱، ۲، ۷، ۸، ۱۰، ۱۱

الله تعالى :الله تعالى كى حمايتےں ۱۶;اللہ تعالى كى سنتيں ۱۵;الله تعالى كى مدد ۱۹;اللہ تعالى كے ممنوعات ۲۲

الله تعالى كى سنتيں :الله تعاليمظلوم كى امداد كرنے كى سنت ۱۵

امام حسين(ع) :امام حسين (ع) كى مظلوميت ۲۱;امام حسين (ع) كى نصرت ۲۱

امام مہدى (عج) :امام مہدى (ع) كى ذمہ دارى ۲۱

انسان:انسان كى خصوصيات ۴;انسان كى خطائيں ۱۲; انسان كے فطرى امور ۱۷

حقوق:قصاص كا حق ۱۱، ۱۶/ذكر:الله تعالى كى حمايت كے ذكر كے نتائج ۱۴

روايت : ۱۸، ۱۹، ۲۰، ۲۱، ۲۲/عدالت:عدالت كى اہميت ۵ ،۱۳

قاتل :قاتل كے مثلہ كرنے سے نہى ۱۹

قتل :جائز قتل ۲، ۹; جائز قتل كے نتائج ۷; قتل كے احكام ۱ ، ۲، ۳، ۷;قتل ميں اسر ا ف ۱۸;قتل كى حرمت ۱، ۳ ، ۴;قتل ميں اسراف سے مراد ۱۹، ۰ ۲; قتل كے مستحقين ۲; قتل سے منع ۲۲

قصاص:قصاص كے احكام ۸، ۱۰، ۱۱، ۱۸، ۲۰; قصاص كے احكام كى شرعى خثيت ۱۶;قصاص ميں افراط كى حرمت ۱۰; قصاص ميں عدالت ۱۳;قصاص

____________________

۱) كافى ج۲، ص ۳۰، ح۱_بحارالانوار ج۶۶، ص ۸۷، ح۳۰_

۹۳

ميں افراط سے مانع ۱۴

محرمات : ۱، ۱۰

مظلوم:مظلوم كى حقوق كى اہميت ۶;مظلوم كى حمايت كى اہميت ۵;مظلوم مقتول كى حمايت ۱۷;مظلوم كى حمايت كا عقلى ہونا ۱۷;مظلوم كى حمايت كا فطرى ہونا ۱۷

مقتول:مقتول كے ورثاء كے اختيارات ۸، ۱۲; مقتول كے ورثاء كى خطاء كا پيش خيمہ ۱۲; مقتول كے ورثاء كے حقوق ۶، ۷، ۸، ۱۰، ۱۱ ; مقتول كے ورثاء كى حمايت ۱۴، ۱۶; مقتول كے ورثاء كے اختيارات كے حدود ۱۸;مقتول كے ورثاء كے منافع ۸; مقتول كے ورثاء كى نصرت ۱۹

آیت ۳۴

( وَلاَ تَقْرَبُواْ مَالَ الْيَتِيمِ إِلاَّ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ حَتَّى يَبْلُغَ أَشُدَّهُ وَأَوْفُواْ بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْؤُولاً )

اور يتيم كے مال كے قريب بھى نہ جانامگر اس طرح جو بہترين طريقہ ہے يہاں تك كہ وہ تواناہوجائے اور اپنے عہدوں كو پورا كرنا كہ عہد كے بارے ميں سوال كيا جائے گا(۳۴)

۱_يتيموں كے مال ميں بلاوجہ تصرف ،ممنوع اور حرام ہے_ولا تقربوا مال اليتيم إلّا بالّتى هى ا حسن

۲_مال يتيم خود انسان كے لئے اس ميں ناحق تصرف كى غلطى كا پيش خيمہ اور وسوسہ پيدا كرنے والا ہے_

ولا تقربوا مال اليتيم إلّا بالّتى هى أحسن

''لا تاكلو اور لا تصرفوا'' (نہ كھائو اور نہ تصرف كرو) كى جگہ كلمہ '' لاتقربوا'' (قريب نہ جائو) كا استعمال ممكن ہے _اس ليے ہوكہ يتيموں كے اموال معمولاً سنجيدہ حامى كے بغير ہوتے ہيں _ لہذا انكے ناحق استعمال اور ضائع ہونے كا خطرہ رہتا ہے_

۳_ہر وہ كام كہ جس سے مال يتيم كے ضائع ہونے اور ناحق استعمال ہونے كا امكان ہو اس سے پرہيز كرنا ضرورى اور واجب ہے_

ولا تقربوا مال اليتيم إلّا بالّتى هى ا حسن

۴_اسلام كى طرف سے يتيموں اور بے سہارا گناہ كمزور لوگوں كے اموال اور منافع كى حمايت كا اہتمام كيا گيا ہے_

ولا تقربوا مال اليتيم إلّا بالّتى هى أحسن

۵_نابالغ بچوں كے لئے مالكيت كے حق كا ثبوت_ولا تقربوا مال اليتيم حتّى يبلغ أشدّه

۹۴

لغت ميں ''يتيم '' اس بچے كو كہا جاتا ہے كہ جس كا باپ اس كے بالغ ہونے سے پہلے فوت ہوجائے_(مفردات راغب)

۶_بغير كسى كام كے مالكيت كا امكان موجود ہے _ولا تقربوا مال اليتيم

چونكہ يتيم وہ بچہ ہے كہ جس كا باپ فوت ہوچكا ہے اور زندگى كے اس حصے ميں اس كے لئے كام كرنے كا امكان موجود نہيں ہے_ تو اس كے لئے ايك طبيعى راستہ مالك بننے كے لئے ارث ہے كہ جو كام كرنے سے حاصل نہيں ہوتا_ اس نكتہ پر توجہ كرتے ہوئے مندرجہ بالا آيت سے اس مطلب استناد ہوسكتا ہے_

۷_يتيموں كے اموال ميں ان كے منافع كو ملحوظ خاطر ركھتے ہوئے تصرف كرنا جائز اور مشروع ہے_

ولا تقربوا مال اليتيم إلّا بالتى هى أحسن

۸_ يتيم كے مال ميں تصرف اس وقت جائز ہے جب ان اس كے عالى ترين مصالح كى مراعات كر سكتا ہو_

ولا تقربوا مال اليتيم إلّا بالتى هى أحسن

۹_يتيموں كے اموال ميں ناحق اور فضول تصرف زمانہ جاہليت كے عربوں ميں رائج تھا_ولا تقربوا مال اليتيم

۱۰_يتيم كے مال كے ذمہ دار لوگوں پر فرض ہے كہ اس كے مال كى حفاظت كے لئے فائدہ مندترين طريقہ اختيار كريں _

ولا تقربوا مال اليتيم إلّا بالّتى هى ا حسن

مندرجہ بالا مطلب كى بنياد يہ ہے كہ يہاں آيت كے مخاطب يتيموں كے ذمہ دار لوگ ہيں كہ الله تعالى انہيں حكم دے رہا ہے كہ سوائے انكے منافع كى رعايت كے باقى ہر قسم كا فضول تصرف نہ كريں _ لہذا ''التى ہى ا حسن'' سے مراد فائدہ مند ترين اور مفيد تصرف ہے_

۱۱_يتيم كا اپنے مال ميں تصرف جب تك وہ بالغ وعاقل نہ ہوجائے ممنوع ہے _حتى يبلغ أشدّه

''حتى يبلغ أشدّه'' يتيم كى كفالت كى انتہاء ہے يعنى اے يتيموں كى كفالت كرنے والوں ان كے اموال كى نگہدارى كرو اور اس ميں ناحق تصرف نہ كرو يہاں تك كہ عقلى طور پر رشيد ہوجائيں _ تو اس سے معلوم ہوتا ہے كہ يتيم رشيد ہونے سے پہلے اپنے اموال ميں تصرف كا حق نہيں ركھتا _

۱۲_يتيم كے بالغ وعاقل ہونے كے بعد دوسروں كے لئے اس كے مال ميں تصرف كا ناجائز ہونا_ولا تقربوا حتّى يبلغ أشدّه كيونكہ آيت ميں يتيم كى منفعت كے محفوظ كرنے كا پيغام ہے اور بديہى ہے كہ صرف جسم اور عمر كے

۹۵

اعتبار سے بالغ ہونا' بغير عقلى واقتصادى بلوغ كے' انكے منافع ومصالح كے لئے ضمانت فراہم نہيں كرتا يہاں ''حتى يبلغ أشدّہ'' اس مال كے ذمہ داروں كے تصرف كے لئے غايت ہے كہ تم اس وقت جائز تصرف كا حق ركھتے ہو جب تك وہ عقلى وجسمى طور پر بالغ نہ ہوجائيں اور ان كے بالغ ہونے كے بعد تمہيں تصرف كا حق نہيں ہے_

۱۳_حق مالكيت كا حق تصرف سے جدا ہونے كا امكان_ولا تقربوا مال اليتيم حتّى يبلغ أشده

چونكہ يتيم مالك ہونے كے باوجود بلوغ سے پہلے حق تصرف نہيں ركھتا جبكہ اس كے ولى اور نگہبان مالك نہ ہونے كے باوجود حق تصرف ركھتے ہيں _ اس سے معلوم ہوتا ہے كہ مالكيت اور تصرف كا جواز ايك دوسرے سے جدا ہوسكتا ہے_

۱۴_چھوٹا ہونا، عقلى رشد اور اقتصاديات كى فہم سے عارى ہونا يہ دو عامل انسان كے اپنے مال ميں تصرف كو روك ديتے ہيں _حتى يبلغ أشدّه يتيم كے حق تصرف كى ممنوعيت كے زمانہ كى غايت بيان كرنا اس كے مال ميں حق تصرف كے معيار كو واضح كر رہا ہے اور وہ معيار بالغ ہونا اور اقتصادى رشد ہے_ لہذا محض يتيم ہونا اس حكم كى وجہ نہيں ہے_

۱۵_عہدوپيمان سے وفا لازم اور واجب ہے _وا وفوا بالعهد

۱۶_انسان اپنے عہدوپيمان كے مد مقابل جواب دہ ہے_إن العهد كان مسئول

۱۷_يتيم كے اموال كى سرپرستى قبول كرنا ايك ذمہ دارانہ عہد ہے_ولا تقربوا مال اليتيم وا وفوبالعهد إن العهد كان مسئول چونكہ ''ا وفوا'' جملہ ''لا تقربوا مال اليتيم'' كے بعد ميں آيا ہے _شايد ''خاص كے بعد عام كا ذكر'' ہو _ لہذا ممكن ہے يتيموں كے اموال كى كفالت عہد والے معاملوں ميں سے ہو_

۱۸_انسان كا اپنے عہدوں كے مقابلہ ميں پوچھ گچھ كى طرف توجہ كرنا موجب بنتا ہے كہ وہ اپنے عہدوں كى وفا پر زيادہ توجہ كرتا ہے_وا وفوا بالعهد إن العهد كان مسئول

يہ كہ الله تعالى نے عہد كى وفا كے حكم كے بعد فرمايا انسانوں كى ان عہدوں كے حوالے سے پوچھ گچھ ہوگى تو اس نكتہ كى طرف توجہ كرنے سے اس كے اندر ان كى رعايت كرنے كا انگيزہ پيدا ہوگا_

۱۹_عن ا بى جعفر(ع) قال بعث الله محمداً و ا نزل عليه فى سورة بنى إسرائيل بمكة وا نزل نهياً عن ا شياء حذّر عليها و لم يغلظّ فيها ولم يتواعد عليها وقال : ...''ولا تقربوا مال اليتيم إلّا بالتى هى ا حسن حتّى يبلغ ا شدّه وا وفوابالعهد إن العهد كان مسئولاً'' (۱)

____________________

۱) كافى ج۳، ص ۳۰، ح۱_ بحارالانوار ج۶۶، ص ۸۷، ح ۳۰_

۹۶

امام باقر (ع) نے فرمايا: ...''اللہ تعالى نے رسول اكرم (ص) (ص) كو مبعوث فرمايا اور ان پر سورہ بنى إسرائيل كى آيات مكہ ميں نازل كيں (كہ ان آيات ميں ) ايسى چيزوں سے منع كيا كہ جن سے پرہيز كرنا ضرورى ہے ليكن ان منع كرنے ميں سختى اور شدت نہيں دكھائي دى اور ان كے ارتكاب كرنے پر وعدہ عذاب بھى نہيں ديا گيا اور فرمايا :... ولاتقربوا مال اليتيم إلّا بالتى هى أحسن حتّى يبلغ أشدّه وا وفوا بالعهدإن العهد كان مسئولاً'' _

۲۰_عن عبدالله بن سنان عن أبى عبدالله (ع) قال: سا له ا بى وا نا حاضر عن اليتيم حتّى يجوز ا مره ؟قال:حتى يبلغ اشدّه'' قال: وما ا شدّه ؟ قال: الإحتلام (۱) عبداللہ بن سنان كہتے ہيں كہ ميں اپنے والد كے ہمراہ تھا كہ اس نے يتيم كے حوالے سے سوال كيا كہ كب اس كى بات نافذ ہوگى تو آپ (ع) نے فرمايا: حتّى يبلغ أشدّہ_ تو ميرے والد نے پوچھا كہ ''اشدّہ'' سے كيا مرادہے؟ تو حضرت (ع) نے جواب ديا : اس كا محتلم ہونا

۲۱_عن أبى عبدالله (ع) قال:إذا بلغ الغلام أشدّه ثلاث عشرة سنة ودخل فى الأربع عشرة سنة وجب عليه ما وجب على المحتلمين احتلم ا م لم يحتلم جاز له كلّ شي من ماله إلّا ا ن يكون ضعيفاً ا و سفيهاً (۲)

امام صادق (ع) سے روايت ہوئي كہ آپ (ع) نے فرمايا : جب لڑكا زمانہ رشد تك پہنچ جائے يعنى تيرہ سال كا ہوجائے اور چودہويں سال ميں داخل ہوجائے تو اس پر وہى كچھ واجب ہے جومحتلم پر واجب ہے چاہے اسے احتلام آئے يا نہ آئے اگر وہ كمزور يا احمق نہ ہو تو اس كے لئے اپنے تمام اموال ميں تصرف كرنا جائز ہے_

۲۲_عن أبى الحسن موسى بن جعفر (ع) عن أبيه فى قول الله عزّوجلّ: وا وفوا بالعهد إن العهد كان مسئولا _قال: العهد ما ا خذ النبي(ص) على الناس فى مودتنا وطاعة ا ميرالمؤمنين (ع) ا ن لايخالفوه ولا يستقدموه ولا يقطعوا رحمه وا علمهم انهم مسئولون عنه .(۳)

امام موسى بن جعفر (ع) نے اپنے والد محترم امام صادق(ع) سے اس آيت : '' واوفو بالعہد ان العہد كان مسئولاً'' كے بارے ميں روايت كى كہ انہوں نے فرمايا : كہ يہاں عہد وپيمان سے مراد وہ عہد وپيمان ہے كہ جو پيغمبر اسلام (ص) نے لوگوں ،سے ہمارى محبت ودوستى اور اميرالمؤمنين كى اطاعت كے حوالے سے ليا ہے كہ اس كى خلاف ورزى نہ كريں اور پيغمبر اسلام (ص) نے يہ بھى اعلان كياكہ لوگوں سے اس عہد كے بارے ميں سوال كياجائے گا_

۲۳_عن أبى بصير قال : قال أبوعبدالله (ع)

____________________

۱) خصال صدوق ص ۴۹۵، ح۳_ أبواب ثلاثة عشر_ نورالثقلين ج۱، ص ۷۷۸، ح ۳۴۰

۲) خصال صدوق ص ۴۹۵، ح۴_ ابواب ثلاثة عشر_ نورالثقلين ج۳، ص ۱۶۴، ح ۳۰۴۳) بحارالانوار ج ۲۴ ص ۱۸۷، ح۱

۹۷

إذا بلغ العبد ثلاثاً وثلاثين سنة فقد بلغ ا شدّه (۱)

ابوبصير روايت كرتے ہيں كہ امام صادق (ع) نے فرمايا : جب انسان تينتيس سال كى عمر ميں پہنچ جائے تو وہ عقلى رشد تك پہنچا ہے (اور يہ اس آيت بلغ اشدّہ سے مراد ہے)

آئمہ:آئمہ سے محبت ۲۲

احتلام:احتلام كے نتائج ۲۰

احكام : ۱، ۳، ۵، ۷،۸، ۱۰، ۱۱، ۱۲، ۱۴، ۱۵

احمق :احمق كو روكنا ۱۴

اطاعت :امام على _ كى اطاعت ۲۲

الله تعالى :الله تعالى كى نواہى ۱۹

انسان:انسان كى خطائيں ۲;انسان كى ذمہ دارى ۱۶; انسان كى رشد و الى عمر ۲۳

بچہ:بچے كو روكنا ۱۴;بچے كى مالكيت ۵

بلوغ:بلوغ كے احكام ۲۱;بلوغ كى عمر ۲۱; بلوغ كے نتائج ۱۱

جاہليت:جاہليت كى رسوم ۹;جاہليت ميں مال يتيم كا غصب ہونا ۹

حقوق:حق تصرف ۱۳;حق مالكيت ۱۳

حماقت:حماقت كے نتائج ۱۴

ذكر :وعدہ كے بارے ميں سوال كے ذكر كے نتائج ۱۸

ذمہ داري:ذمہ دارى ميں مو ثر اسباب ۱۷

روايت: ۱۹، ۲۰، ۲۱، ۲۲، ۲۳

ضعفائ:ضعفاء كے منافع كے رعايت كى اہميت ۴;ضعفاء كے مال كى حفاظت كى اہميت ۴

عہد:عہد كے احكام ۱۵;عہد سے وفا كرنے كى اہميت ۱۶;عہد سے وفا كرنے كا پيش خيمہ ۱۸;عہد سے وفا كا وجوب ۱۵

گناہ:گناہ كا پيش خيمہ ۲

____________________

۱) خصال صدوق ص ۵۴۵، ح۲۳_ تفسير برہان ج۲، ص ۴۱۹، ح ۲_

۹۸

مال ميں تصرف سے روكے جانا:مال ميں تصرف سے روكے جانے كے احكام اور اسباب ۱۴

مالكيت :مالكيت كے احكام ۵، ۶، ۱۳، ۱۴;مالكيت كے اسباب ۶

محرمات: ۱

واجبات:۳، ۱۵

وسوسہ:وسوسہ كا پيش خيمہ ۲

يتيم:يتيم كے احكام ۱۲، ۲۰; يتيم كے مال كے احكام ۱، ۳، ۷، ۸، ۱۰، ۱۱، ۱۲;يتيم كے منافع كى رعايت كى اہميت ۴;يتيم كے مال كى حفاظت كى اہميت ۴ ; يتيم كا بلوغ ۱۱،۲۰;يتيم كے تصرفات ۱۱;يتيم كے مال ميں تصرف كى حرمت ۱;يتيم كے مال كى حفاظت ۱۰;ہتيم كے مال ميں تصرف كا خطرہ ۲;يتيم كے ورثاء كى ذمہ دارى ۱۰;يتيم كا اقتصادى رشد ۱۲; يتيم كے منافع كى رعايت ۷ ، ۸; يتيم كے مال ميں تصرف كے شرائط ۷، ۸;يتيم كے مال ميں تصرف كى محدوديت ۱۲;يتيم كے مال كے غصب كى نہى ۱۹;يتيم كے مال كى حفاظت كا وجوب ۳;يتيم كے مال كا كردار۲

آیت ۳۵

( وَأَوْفُوا الْكَيْلَ إِذا كِلْتُمْ وَزِنُواْ بِالقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِيمِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلاً )

اور جب ناپوتو پورا ناپوور جب تولو تو صحيح ترازو سے تو لو كہ يہى بہترى اور بہترين انجام كا ذريعہ ہے(۳۵)

۱_پيمائش كے معاملات ميں پيمائش كا پورا كرنا اور اس سے كم نہ كرنا_وأوفوا الكيل إذاكلتم

۲_عمدہ ترازو كا استعمال اور چيزوں كے وزن كرنے ميں مكمل توجہ _وزنو ابالقسطاس المستقيم

''قسطاس'' كا معنى ميزان ہے اس كا واضح اورروشن مصداق چيزوں كے وزن كے لئے ترازو ہے_

۳_انسان اور معاشرہ كى بہترى اور حقيقى مصلحت كم فروشى اور اقتصادى خيانت سے اجتناب ميں ہے_

وأوفوا الكيل وزنوبالقسطاس المستقيم

۹۹

ذلك خير

۴_اقتصادى عدل وانصاف كى رعايت خوبصورت انجام كى حامل ہے _ذلك خيروأحسن تاويل

''تاويل '' ''اول'' كا مصدر ہے جس كے معنى اصل كى طرف لوٹنا ہے اس سے مراد وہ انتہا ہے كہ جس كا قصد كيا گيا تھا_

۵_زيادہ منافع كى خاطر كم فروشى اور اقتصادى خيانت بدعاقبت اور نقصان دہ عمل ہے_

وا وفوا الكيل وزنوا بالقسطاس المستقيم ذلك خيرو ا حسن تا ويلا

۶_كسى چيز كى قدروقيمت كا معيار اس كے انجام كى طرف توجہ ہے_وا وفوا الكيل وزنوا بالقسطاس المستقيم ذلك خيرو ا حسن تا ويلا

۷_ہر كام كى عاقبت اور انجام كى طرف توجہ كا لازم ہونا_وأوفوا الكيل وا حسن تاويلا

۸_ ذاتى مال ركھنے سے قيمتى چيز درست اقتصادى عمل ہے_ذلك خير وا حسن تاويلا

ممكن ہے كہ ''خير'' كا مفضل عليہ چيزوں كى پيمائش ميں خيانت اور كم فروشى اور اس طريقے سے حاصل ہونے والا نفع ہو يعنى عدل وانصاف كى رعايت اور صحيح ترازوں كا استعمال اور اس سے حاصل ہونے والا نفع كم فروشى اور اس سے آنے والے نفع سے بہتر ہے_

۹_عن الصادق (ع) فى قول الله عزّوجلّ: '' ...وزنوبالقسطاس المستقيم'' قال : أمّا القسطاس المستقيم فهو الإمام وهوالعدل من الخلق ا جمعين وهو حكم الائمة ...'' (۱)

امام صادق (ع) سے الله تعالى كے اس كلام :''وزنو ا بالقسطاس المستقيم '' كے بارے ميں روايت ہوئي كہ انہوں نے فرمايا: ...كہ قسطاس مستقيم سے مراد امام ہے اور وہ تمام مخلوقات ميں مظہر عدل ہے اور آئمہ كى قضاوت اس اساس پر ہے_

احكام : ۱اقتصاد :اقتصادى خطرات كى پہچان ۵;اقتصادى عدالت كے نتائج ۴

انجام :اچھے انجام كے اسباب ۴;برے انجام كے اسباب ۵

ثروت:ثروت كى قيمت ۸ذكر :انجام عمل كے ذكر كى اہميت ۷;ذكر انجام كے نتائج ۶

روايت : ۹

____________________

۱) بحارالانوار ج ۲۴، ص ۱۸۷، ح ۱_

۱۰۰