تفسير راہنما جلد ۱۱

تفسير راہنما 0%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 750

تفسير راہنما

مؤلف: آيت الله ہاشمى رفسنجاني
زمرہ جات:

صفحے: 750
مشاہدے: 173811
ڈاؤنلوڈ: 1992


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4 جلد 5 جلد 6 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 750 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 173811 / ڈاؤنلوڈ: 1992
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد 11

مؤلف:
اردو

۲ _ ہدايت كے بعد، لوگوں كا مرتد اور گمراہ ہونا ايسى چيز ہے كہ جس پر غصہ آنا اور غم و اندوہ ميں مبتلا ہونا بجاہے_

و ا ضلّهم السامري_ فرجع موسى إلى قومه غضبانا ا سفا

۳ _ حضرت موسي(ع) پر غصہ اور غم و اندوہ كااثر_غضباناً ا سفا

۴ _ عام انسانوں كے حالات كا انبياء ميں موجود ہونا_غضباناً ا سفا

۵ _ حضرت موسي(ع) كے ميقات كى طرف جانے سے پہلے بنى اسرائيل كو خدا كى طرف سے ايك اچھا وعدہ (تورات كا نزول) ملا تھا_ا لم يعدكم ربكم وعداً حسنا

حضرت موسي(ع) كا بنى اسرائيل سے استفہام تقريرى يا انكارى بتاتا ہے كہ موسي(ع) كے ميقات پر جانے سے پہلے انہيں ايك وعدہ ديا جاچكاتھا بعض نے اس وعدے كا محتوا تورات كا نزول قرار ديا ہے_

۶ _ بنى اسرائيل نے خدا كے وعدے (تورات كا عطا كرنا) كى پروانہ كر كے اپنى گمراہى كا پيش خيمہ فراہم كيا _

و ا ضلهم السامري ا لم يعدكم ربكم وعداً حسنا

۷ _ بنى اسرائيل نے بغير اسكے كہ خداتعالى كے وعدے(تورات عطا كرنا) كے عملى ہونے ميں كوئي تاخير ہوئي ہو گمراہى كو گلے لگاليا_ا لم يعدكم ربكم أفطال عليكم العهد

''أفطال'' كا استفہام انكارى ہے اور ''عہد'' سے مراد وقت ہے (قاموس) اور اس سے مراد اس وعدے كے عملى ہونے كا وقت ہے كہ جس پر ''ا لم يعدكم'' دلالت كر رہا ہے اور ممكن ہے ''عہد'' سے مراد حضرت موسي(ع) كى دورى كا وقت ہو_

۸ _ بنى اسرائيل، خدا تعالى كى عظيم آيات اور معجزات كا مشاہدہ كرنے كے با وجود راسخ ايمان سے عارى تھے_

يا بنى إسرائيل قد ا نجيناكم ا ضلهم السامري ا لم يعدكم ربكم

اس چيز كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ سامرى كے ذريعے بنى اسرائيل كى گمراہى فرعون كے چنگل سے نجات پانے، دريا سے عبور كرنے اور اس پورے عرصے ميں متعدد آيات الہى كا مشاہدہ كرنے كے بعد تھى لگتا ہے كہ وہ كمزور سوچ اور ايمان كے حامل تھے كہ اس طرح سامرى كے گمراہ كرنے سے گمراہوں كى صف ميں جا كھڑے ہوئے_

۹ _ بنى اسرائيل نے سامرى كى پيروى كركے اور وعدہ الہى كى پروانہ كركے اپن ے غضب خداوند ميں گرفتار ہونے كيلئے زمين ہموار كى _و ا ضلّهم السامري ا م اردتم ان يحل عليكم غضب من ربكم

۱۶۱

اس آيت ميں ''ام'' منقطعہ ہے اور ''ا م اردتم'' كا معنى يہ ہے كہ بچھڑا پرستى كى وجہ وعدہ كا مؤخر ہونا نہ تھى بلكہ تم لوگوں نے اس طرح عمل كيا ہے جيسے غضب الہى كا شوق ركھنے والے كرتے ہيں پس جملہ ''ا ردتم ...'' استعارہ ہے كہ جو ان كے كام كى ظاہرى صورت كے بارے ميں بتارہا ہے_

۱۰ _ خداتعالى كے وعدوں پر ايمان لانا اور ان كے بارے ميں بے اعتنائي سے پرہيز كرنا ضرورى ہے_

ا فطال عليكم العهد ا م اردتم ا ن يحل عليكم غضبا

۱۱ _ حضرت موسي(ع) نے ميقات پر جانے سے پہلے بنى اسرائيل كو ضرورى ہدايات جارى كردى تھيں اور ان كے ساتھ ايمان كى حفاظت كيلئے عہد و پيمان باندھ چكے تھے _فا خلفتم موعدي

اس آيت ميں ''موعد'' مصدر اور ''وعدہ'' كے معنى ميں ہے پس ''فأخلفتم'' يعنى تم نے ميرے ساتھ اپنے عہد و پيمان كى مخالفت كى اس جملے سے معلوم ہوتا ہے كہ حضرت موسي(ع) نے ميقات پر جانے سے پہلے اس كى پيشين گوئي كردى تھى چنانچہ اس لحاظ سے انہوں نے بنى اسرائيل پر اتمام حجت كرديا تھا_

۱۲ _ گمراہى كے مقدمات اور لغزش كے مقامات كى پيشين گوئي كرنا اور انكى بادے ميں خبردار كرنا انبياء اور دينى رہنماؤں كى ذمہ داريوں ميں سے ہے_فأخلفتم موعدي

۱۳ _ انبياء كے ساتھ وعدہ خلافى كرنا اور انكے عہد و پيمان كو توڑنا غضب الہى ميں گرفتار ہونے كيلئے زمين ہموار كرتا ہے_

ا م ا ردتم ا ن يحل عليكم غضب من ربكم فاخلفتم موعدي

۱۴ _ حضرت موسي(ع) نے بنى اسرائيل كے بچھڑا پرستوں كو عہد شكنى كرنے والے لوگ قرار ديا اور انہيں خداتعالى كے سخت عذاب كى نسبت خبردار كيا _ا م ا ردتم ا ن يحل عليكم غضب من ربكم

۱۵ _ مرتد ہوجانے والوں اور شرك و بت پرستى كى طرف پلٹ جانے والوں پرغضب الہى اسكى ربوبيت كا تقاضا ہے_ا ضلّهم السامري ا م اردتم ا ن يحل عليكم غضب من ربكم

۱۶ _ ہدايت كے بعد گمراہى اور توحيد كے بعد شرك خداتعالى كے شديد اور دائمى غضب اور اسكى طرف سے سخت اورطولانى عذاب ميں گرفتار ہونے كا سبب ہے _ا ضلّهم السامري ا م اردتم ا ن يحل عليكم غضب من ربّكم

''حلول غضب'' اسكے دائمى ہونے اور ''غضب''كا نكرہ ہونا اسكے عظيم اور شديد ہونے سے كنايہ ہے اور غضب الہى نازل ہونا نزول عذاب سے كنايہ ہے_

۱۶۲

مرتد ہونا:اسكے اثرات ۱۶; اسكى سزا ۱۶

انبيائ(ع) :ان كے ساتھ عہد شكنى كے اثرات ۱۳; انكا بشر ہونا ۴; انكى ذمہ دارى ۱۲

غم و اندوہ:اسكے عوامل ۲ايمان:خداتعالى كے وعدوں پر ايمان ۱۰

بت پرست لوگ:انكا مغضوب ہونا ۱۵

بنى اسرائيل:انكى گمراہى كے اثرات ۱; ان كے بچھڑا پرستوں كو انذار ۱۴; يہ حضرت موسي(ع) كى عدم موجودگى ميں ۱; انكى بے ايمانى ۸; انكى تاريخ ۱، ۵، ۷، ۹، ۱۱، ۱۴; انكو نصيحت ۱۱; انكى گمراہى كا پيش خيمہ ۶; انكى صفات ۸; ان كے مغضوب ہونے كے عوامل ۹; ان كى عہد شكنى ۱۴; انكى گمراہى ۷; انكى ہٹ دھرمى ۸; انكا نقش وكردار ۶; ان كے ساتھ وعدہ ۵، ۷

تورات:اس كا نزول ۵

خداتعالى :اسكے وعدوں سے بے اعتنائي كے اثرات ۹; اسكى ربوبيت كے اثرات ۱۵; اسكے وعدوں سے بے اعتنائي ۶; اسكے غضب كا پيش خيم ۹، ۱۳، ۱۶; اسكے وعدے ۵، ۷دينى راہنما:انكى ذمہ دارى ۱۲

سامري:اسكى پيروى كے اثرات ۹

عذاب:اسكے درجے ۱۶; اسكے اسباب ۱۶

غضب:اسكے عوامل ۲گمراہي:اسكى پيش گوئي ۱۲

مرتد ہوجانے والے:انكا مغضوب ہونا ۱۵لوگ:لوگوں كے مرتد ہوجانے كے اثرات ۲; لوگوں كى گمراہى كے اثرات ۲

مشركين:انكا مغضوب ہونا ۱۵خداتعالى كے مغضوبين :۹، ۱۵

موسي(ع) (ع) :انكا غم و اندوہ ۳; انكا انذار ۱۴; انكى بازگشت ۱; انكى نصيحتيں ۱۱; انكے غم و اندوہ كے عوامل ۱; ان كے غضب كے عوامل ۱; انكا بنى اسرائيل كے ساتھ عہد ۱۱; انكا غضب ۳; انكا قصہ ۱، ۱۱، ۱۴

۱۶۳

آیت ۸۷

( قَالُوا مَا أَخْلَفْنَا مَوْعِدَكَ بِمَلْكِنَا وَلَكِنَّا حُمِّلْنَا أَوْزَاراً مِّن زِينَةِ الْقَوْمِ فَقَذَفْنَاهَا فَكَذَلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُّ )

قوم نے كہا كہ ہم نے اپنے اختيار سے آپ كے وعدہ كى مخالفت نہيں كى ہے بلكہ ہم پر قوم كے زيورات كا بوجھ لاد ديا گيا تھا تو ہم نے اسے آگ ميں ڈال ديا اور اس طرح سامرى نے بھى اپنے زيورات كو ڈال ديا (۸۷)

۱ _ بنى اسرائيل نے حضرت موسى (ع) كى جانب سے اپنى بازپرس اور ڈانٹ ڈپٹ كے بعد،-بچھڑا پرستى كے ماجرا ميں اپنے آپ كو بے قصور ظاہر كرنے كى كوشش كى _ألم يعدكم أفطال ا م ا ردتم قالوا ما ا خلفنا موعدك بملكن

جملہ ''ما ا خلفنا'' نيز ''حمّلنا'' يہ سب بنى اسرائيل كى طرف سے بچھڑا پرستى كو قبول كرنے كے سلسلے ميں بہانہ تراشياں تھيں _

۲ _ بنى اسرائيل حضرت موسي(ع) كے ساتھ اپنى پيمان شكنى اور وعدہ خلافى كے معترف تھے _ما ا خلفنا موعدك بملكن

۳ _ اپنے آپ كو بے اختيار قرار دينا،بنى اسرائيل كى طرف سے حضرت موسى (ع) كے ساتھ عہد شكنى كرنے اور اپنے درميان بچھڑا پرستى كو قبول كرنے كا ايك بہانہ_ما ا خلفنا موعدك بملكن

''موعد'' مصدر اور ''وعدہ'' كے معنى ميں ہے اور ''ملك'' بھى مصدر ہے اور بنى اسرائيل كى مراد يہ ہے كہ وہ اپنے امور كے مالك نہيں تھے اس وجہ سے ''ما ا خلفنا'' كا معنى يوں ہوگا ہم نے آپ كے ساتھ كئے گئے عہد و پيمان كى مخالفت اپنے اختيار كے ساتھ نہيں كى _

۴ _ بنى اسرائيل،فرعونيوں كے بہت سارے زيورات اپنے ہمراہ لے آئے تھے_ولكنا حملنا ا وزاراً من زينة القوم

ظاہراً ''القوم'' سے مراد فرعونى ہيں اور ''وزر'' كا معنى ہے بوجھ اور ثقل اسى لئے گناہ كو بھى ''وزر و ثقل'' كہا جاتا ہے كيونكہ اس سے گناہ گار كے كندھوں پر بوجھ آجاتا ہے اس كلمے كا استعمال شايد اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ بنى اسرائيل فرعونيوں كے ان زيورات كو ہمراہ لانا جائز نہيں سمجھتے تھے _

۱۶۴

۵ _ بنى اسرائيل فرعونيوں كے زيورات ہمراہ لانے ميں بھى اپنے آپ كو بے اختيار قرار ديتے تھے _و لكنا حملنا اوزارا من زينة القوم بنى اسرائيل كے اپنے عمل كى بہانہ تراشيوں كے تسلسل ميں ''حملنا'' كے مجہول آنے كا مطلب يہ ہے كہ فرعونيوں كے زيورات اٹھانے ميں بھى ہم نے بادل نخواستہ كام كيا اور ہميں اس پر مجبور كيا گي

۶ _ بنى اسرائيل كا فرعونيوں كے زيورات اپنے ہمراہ لانا اور ان پر قبضہ كرنا،حضرت موسى (ع) كے حكم كے بغير انجام پايا تھاو لكنا حملنا أوزاراً من زينة القوم ''حمّلنا'' كى تعبير اور كلمہ ''وزر'' اس بات سے حكايت كرتے ہيں كہ حضرت موسى (ع) نے اس سلسلے ميں كوئي حكم نہيں ديا تھا اور بنى اسرائيل نے خود سرى كے ساتھ يہ كام انجام ديا تھا _

۷ _ بنى اسرائيل نے حضرت موسى (ع) كى عدم موجودگى اور ان كے ميقات پر جانے كے زمانہ ميں اپنے لوٹے ہوئے زيورات پھينك ديئے تھے_حمّلنا أوزاراً من زينة القوم فقد فنه

''قذف'' كامعنى ہے پھينك دينا جملہ ''حمّلنا ا وزاراً'' كو مد نظر ركھتے ہوئے لگتا ہے بنى اسرائيل نے لوٹے ہوئے زيورات كو اس بنا پر كہ يہ گناہ ہے دور پھينك ديا تھا يا صحرا و بيابان كى زندگى ميں انكے بے قدر و قيمت ہوجانے كى وجہ سے انہوں نے انہيں پھينك دينے كا عزم كيا _

۸ _ بنى اسرائيل كے ہاتھوں زيورات پھينك ديئے جانے كے ماجرے ميں سامرى كا برجستہ كردار تھا _

فقذ فنها فكذلك ا لقى السامري جن لوگوں نے زيورات پھينك ديئے تھے ان ميں سامرى كو مشخص كرنا اس سلسلے ميں اس كے برجستہ كردار كى علامت ہے_

۹ _ بنى اسرائيل اس چيز كے گواہ ہيں كہ فرعونيوں كى رہ جانے والى غنيمتوں كے پھينك دينے ميں سامرى نے بنى اسرائيل كے عمومى اقدام كے مشابہ اقدام كيفقذ فنها فكذلك ا لقى السامري

''كذلك'' يعنى اسكى مانند جو ہم نے انجام ديا تھا _يہ وصف اس چيز كو بيان كر رہا ہے كہ سامرى نے بنى اسرائيل كے حضور ميں اور ان كى مثل عمل كرتے ہوئے چيزوں كو دور پھينك ديا تھا _

۱۰ _ سامرى نے اپنى چيزيں پھينك دينے والا اقدام اس كے بعد كيا كہ بنى اسرائيل نے اپنے ساتھ والى غنيمت كى چيزوں كو پھينك ديا تھا_فكذلك ا لقى السامري

۱۶۵

۱۱ _ بنى اسرائيل نے فرعونيوں كے مال غنيمت كو بچھڑا بنانے كے اخراجات مہيا كرنے كا ذريعہ بتايا اور اپنے آپ كو اسكى ہر قسم كى مالى امداد سے مبرا قرار ديا _ما ا خلفنا موعدك بملكنا ولكنا حملنا أوزار

''ملك'' كے جو معانى بيان كئے گئے ہيں ان ميں سے ايك ''مملوك'' ہے (قاموس) اس معنى كو پيش نظر ركھتے ہوئے آيت كريمہ كا مطلب يہ بنے گا ہم نے اپنے اموال كے ذريعے اپنے آپ كو اس انحراف ميں حصہ دار نہيں بنايا بلكہ جو اموال ہم نے پھينك ديئے تھے ان كے ذريعے سامرى نے يہ فتنہ كھڑا كيا _

بنى اسرائيل:ان كا اقرار ۲; يہ موسى (ع) كى غيبت ميں ۷; انكى تاريخ ۱، ۲، ۴، ۵، ۶، ۷، ۸،۹،۱۰، ۱۱; انكى بہانہ تراشى ۱، ۳; انكى جبرپرستى ۳، ۵; انكا زيورات كو دور پھينكنا ۷، ۸، ۹، ۱۰; ان كے زيورات ۴، ۵، ۶; انكى سرزنش ۱; انكى عہد شكنى ۲، ۳; انكى بچھڑا پرستى ۱، ۳

سامري:اس كا زيورات كو درو پھينكو دينا ۹، ۱۰; اس كا نقش و كردار ۸; اسكے بچھڑے كے اخراجات ۱۱

فرعوني:فرعونيوں كے زيورات ۴، ۵، ۶، ۹، ۱۱

موسى (ع) :انكى طرف سے سرزنش ۱; ان كے ساتھ عہد شكنى كرنے والے۲ ۳; انكا نقش و كردار ۶

آیت ۸۸

( فَأَخْرَجَ لَهُمْ عِجْلاً جَسَداً لَهُ خُوَارٌ فَقَالُوا هَذَا إِلَهُكُمْ وَإِلَهُ مُوسَى فَنَسِيَ )

پھر سامرى نے ان كے لئے ايك مجسمہ گائے كے بچے كا نكالا جس ميں آواز بھى تھى اور كہا كہ يہى تمھارا اور موسى كا خدا ہے جس سے موسى غافل ہوكر اسے طور پر ڈھونڈنے چلے گئے ہيں (۸۸)

۱ _ سامرى نے بنى اسرائيل كے پھينكے ہوئے زيورات سے بچھڑے كى صورت كا پتلا بنا كر پيش كيا _

فأخرج لهم عجلاً جسد ''عجل'' يعنى بچھڑا ''عجل '' كا ''جسد'' كے ساتھ وصف بيان كرنا اس نكتے كو بيان كر رہا ہے كہ بچھڑا ايك پتلے كى صورت ميں تھا نہ واقعى بچھڑا جملہ ''فأخرج لہم ...'' ممكن ہے خداتعالى كا كلام ہو اور يہ بھى احتمال ہے كہ يہ بنى اسرائيل كى گفتگو كا تسلسل ہو دوسرى صورت ميں ''لنا'' كى بجائے ''لہم'' كہنا قرينہ ہے كہ انكى مراد بچھڑے كى پرستش سے اپنے آپ كو برى الذمہ قرار دينا ہے_

۲ _ سامرى نے چھپ كر اور بنى اسرائيل كى آنكھوں سے دور سنہرے رنگ كا بچھڑا بنايا _فأخرج لهم عجلاً جسد

۱۶۶

''ا خرج'' صرف بنى اسرائيل پر بچھڑا پيش كرنے كے مرحلے كى طرف ناظر ہے اور اس سے پہلے كے مراحل (بچھڑے كى ساخت) كا تذكرہ نہ ہونا ان مراحل كے عام لوگوں كى نظروں سے اوجھل ہونے كو بيان كررہا ہے_

۳ _ سامرى كے بچھڑے كے سنہرى پتلے سے بچھڑے كى آواز جيسى آواز نكلتى تھى _فأخرج لهم عجلاً جسداً له خوار

''خوار'' يعنى گائے اور بچھڑے كى بلند آواز (لسان العرب) _

۴ _ سامرى مجسمہ سازى كے فن كا ماہر اور بنى اسرائيل كى فكرى كمزوريوں سے آشنا تھا _فأخرج لهم عجلاً جسداً له خوار يہ تعبير ( اس نے بچھڑا پيش كرديا ) بچھڑے كے مجسمے كے اسكى حقيقى شكل كے ساتھ شدت مشابہت كو بيان كررہى ہے _

۵ _ سامرى كے ہاتھ سے بنے ہوئے پتلے سے بچھڑے كى آواز كا سنا جانا، بنى اسرائيل كے گرويدہ ہونے اور اسے معبود سمجھنے كا سبب بنا _له خوار بچھڑے كے اوصاف ميں سے ہر ايك كا تذكرہ اسكے بنى اسرائيل كے تمايل ميں دخيل ہونے كو بيان كررہا ہے _

۶ _ سامرى نے بچھڑے كے سنہرى پتلے كو بنى اسرائيل اور حضرت موسى (ع) كا ''معبود'' متعارف كرايا _

فأخرج فقالوا هذا إلهكم و إله موسى

۷ _ سنہرى بچھڑے كو معبود كے طور پر متعارف كرانے ميں بنى اسرائيل كا ايك گروہ سامرى كے ساتھ تھا_عجلاً فقالوا هذا إلهكم و إله موسى فعل جمع ''قالوا'' بتاتا ہے كہ كچھ لوگ سامرى كے اردگرد جمع ہوكر اسكے مقصد كى ترويج كررہے تھے يا يہ كہ يہ لوگ پہلے سے ہى عملى اور فكرى لحاظ سے اسكے ہمراہ تھے او رجب بچھڑے كى نمائش كى گئي تو يہ اپنے باطل عقيدے كى ترويج كرنے لگے_

۸ _ بنى اسرائيل سنہرى بچھڑے كو معبود ماننے كيلئے مناسب فكر ركھتے تھے _فقالوا هذا إلهكم و إله موسي

بنى اسرائيل كو بت پرستى ميں مبتلا كرنے كيلئے بچھڑے كى شكل كا انتخاب اور پھر بنى اسرائيل كا جلدى سے گمراہ ہوجانا بالخصوص حضرت موسى (ع) كے معجزات كا مشاہدہ كرنے كے بعد مذكورہ مطلب كو بيان كررہا ہے_

۹ _ سامرى اور اسكے پيروكاروں نے جھوٹا دعوى كيا كہ حضرت موسي(ع) بچھڑے كو معبود كے طور پر متعارف كرانا بھول گئے _هذا إلهكم و إله موسي(ع) فنسي ''نسي'' كى فاعلى ضمير كے مرجع كے بارے ميں دو احتمال ہيں :۱_ يہ كہ موسى (ع) ہوں _

۱۶۷

۲ _ يہ كہ سامرى ہو مذكورہ مطلب پہلے احتمال كى بنا پر ہے

۱۰ _ سامري، اسكے حاميوں اور اسكے مبلغين نے بچھڑے كى پرستش كو حضرت موسى (ع) كے عقائد ميں سے بيان كيا _فقالوا هذا إلهكم و إله موسى فنسي

۱۱ _ منحرف عقائد گھڑنے اور ان كے انبيائ(ع) اور ان كے مكتب كى طرف منسوب كرنے كے مقابلے ميں ہوشيار رہنا ضرورى ہے_هذا الهكم و اله موسى فنسي سامرى اور اسكے پيروكاروں كے حضرت موسي(ع) پر افترا اور اپنے انحرافى عقائد كو حضرت موسي(ع) (ع) كے عقائد كے طور پر پيش كرنے كا تذكرہ كرنا سب كو بالخصوص اديان الہى كے پاسداروں كو خبردار كرنے كيلئے ہے كہ اہم ترين عقائد ميں انبياء الہى پر جھوٹ باندھنے كا خطرہ ہميشہ موجود ہے_

۱۲ _ معاشرے كى محبوب شخصيات سے استفادہ كرنا اور اپنے عقائد و افكار كو ان سے وابستہ ظاہر كرنا گمراہى كے راہبروں كے ہتھكنڈوں ميں سے ہے_فقالوا هذا اله موسي(ع) فنسي

۱۳ _ سامرى اور اسكے پيروكاروں كى نظر اور پروپيگنڈے ميں حضرت موسي(ع) ايك ايسے راہبر تھے جو حتى كہ سب سے اہم اعتقادى مسائل ميں بھى فراموشى كا شكار ہوجاتے تھے_فقالوا هذا الهكم و اله موسى فنسي

۱۴ _ سامري، خداتعالى كى نعمتوں كے مقابلے ميں ناشكرا اور اسكى خاص امداد اور لطف و كرم سے بے پروائي كرنے والا تھا _فنسي اگر ''نسي'' كى فاعلى ضمير كا مرجع سامرى ہو تو سامرى كے بھولنے سے مراد اس كا فرعونيوں سے نجات، من و سلوى كے نزول اور اس جيسے ديگر كاموں كے سلسلے ميں عنايات الہى كى پروانہ كرنا ہوگا _

آسمانى اديان:ان پر تہمت لگانے كا خطرہ ۱۱

انبيائ(ع) :ان پرتہمت لگانے كا خطرہ ۱۱

بنى اسرائيل:انكے بچھڑے كى ساخت كا مخفى ہونا ۲; انكى تاريخ ۱، ۲، ۶، ۷، ۸، ۹، ۱۰، ۱۳; انكى بچھڑا پرستى كا پيش خيمہ ۸; انكى كمزورى ۴; انكا عقيدہ ۷; انكى گمراہى كے عوامل ۵; انكے بچھڑا پرست لوگ ۷; انكے معبود ۶، ۹

معاشرہ:معاشرتى آسيب شناسى ۱۲

راہبر:گمراہى كے راہبروں كے ساتھ نمٹنے كى روش ۱۲

۱۶۸

سامري:اسكے پيروكاروں كى سوچ ۱۳; اسكى سوچ ۱۳; اسكے پيروكار ۷; اسكے پيروكاروں كى تہمتيں ۹، ۱۰; اسكى تہمتيں ۹، ۱۰; اسكے بچھڑے كى نوع ۱، ۲; اسكے بچھڑے كى نوعيت ۱; اسكے پيروكاروں كى دروغگوئي ۹; اسكى دروغ گوئي ۹; اسكى نفسيات شناسي۴; اسكى شخصيت ۴; اسكے بچھڑے كى آواز ۳; اسكى غفلت ۱۴; اس كى ناشكرى ۱۴; اس كا بچھڑا ۶; اسكى مجسمہ سازى ۱، ۴; اسكى مہارت ۴; اسكے بچھڑ كى آواز كا كردار ۵

بچھڑا:اس كامجسمہ ۱، ۳، ۶

محبوبين:ان سے سوء استفادہ كرنا ۱۲

موسي(ع) :ان پر فراموشى كى تہمت ۹، ۱۳; ان پر بچھڑا پرستى كى تہمت ۱۰

آیت ۸۹

( أَفَلَا يَرَوْنَ أَلَّا يَرْجِعُ إِلَيْهِمْ قَوْلاً وَلَا يَمْلِكُ لَهُمْ ضَرّاً وَلَا نَفْعاً )

كيا يہ لوگ اتنا بھى نہيں ديكھتے كہ يہ نہ انكى بات كا جواب دے سكتا ہے اور نہ ان كے كسى نقصان يا فائدہ كا اختيار ركھتا ہے (۸۹)

۱ _ سامرى كا بچھڑا ايك ايسا پيكر تھاجو جواب دينے سے عاجز اور نفع و نقصان پہچانے سے ناتوان تھا_ا فلا يرون إلا يرجع إليهم قولًا و لا يملك لهم ضرّا ولا نفع فصيح عربى ميں ''رجوع'' متعدى كے طور پر بھى استعمال ہوتاہے(مصباح)اور''لا يرجع ...'' يعنى بچھڑا كسى بات كو انكى طرف نہيں پلٹا تا اور انہيں جواب نہيں ديتا اور ''لايملك ...'' يعنى بچھڑا انكے نفع و نقصان كا مالك نہيں ہے_

۲ _ سوچ اور فكر، حقيقى معبود كو خيالى اور تصوراتى معبودوں سے پہچاننے كى بنياد ہے _ا فلا يرون ا لّا يرجع إليهم قول

لغت ميں ''رؤيت'' كے دو معنے ہيں ۱_ آنكھ كے ساتھ ديكھنا ۲_ علم و درك ''إلا يرجع'' ميں ''أن'' مخففہ كا وجود دوسرے معنى كے مراد ہونے كا قرينہ ہے _

۳ _ سامرى كے بچھڑے كے معبود ہونے كے اندھے اور غير منطقى عقيدے كى وجہ سے خداتعالى كى

۱۶۹

طرف سے بنى اسرائيل كى توبيخ اور سرزنش _ا فلا يرون ا لّا يرجع إليهم قول

''ا فلا يرون'' ميں استفہام انكار توبيخى كيلئے ہے

۴ _ جواب دينے اور خواہشات كو قبول كرنے كى قدرت اور نفع و ضرر پہچانے كى توان حقيقى معبود كى لازمى خصوصيات ميں سے ہے_ا فلا يرون ا لّا يرجع إليهم قولا و لا يملك لهم ضرّاً و لا نفعا

''قول كو واپس پلٹانا'' ايسا مفہوم ہے جو دعا قبول كرنے كو بھى شامل ہے_

۵ _ بنى اسرائيل كے بچھڑا پرست ،ايسے لوگ تھے جو جاہل اور فكر سے دور تھے _ا فلا يرون ا لّا يرجع إليهم قول

۶ _ سامرى كے بچھڑے سے نكلنے والى آواز ہر قسم كے لفظى مفہوم سے خالى تھى _له خوار ا فلا يرون ا لا يرجع إليهم قول

بنى اسرائيل:ان كے بچھڑا پرستوں كا بے عقل ہونا ۵; انكے بچھڑا پرستوں كى جہالت ۵; ان كى سرزنش ۳; انكا باطل عقيدہ ۳; ان كى بچھڑا پرستى ۳

تعقل:اسكے اثرات ۲

تقليد:اندھى تقليد ۳

خداتعالى :اسكى طرف سے سرزنش ۳; خداشناسى كے مبانى ۲

سامري:اسكے بچھڑے كى آواز ۶; اسكے بچھڑے كا عاجز ہونا ۱

حقيقى معبود:انكا نقصان پہچانا۴; ان كا نفع پہچانا ۴; انكى خصوصيات ۴

۱۷۰

آیت ۹۰

( وَلَقَدْ قَالَ لَهُمْ هَارُونُ مِن قَبْلُ يَا قَوْمِ إِنَّمَا فُتِنتُم بِهِ وَإِنَّ رَبَّكُمُ الرَّحْمَنُ فَاتَّبِعُونِي وَأَطِيعُوا أَمْرِي )

اورہارون نے ان لوگوں سے پہلے ہى كہہ ديا كہ اے قوم اس طرح تمھارا امتحان ليا گيا ہے اور تمھارا رب رحمان ہى ہے لہذا ميرا اتباع كرو اور ميرے امر كى اطاعت كرو(۹۰)

۱ _ حضرت موسى (ع) كى عدم موجودگى ميں بنى اسرائيل كا انحراف اور بچھڑا پرستى حضرت ہارون(ع) كے خبردار كرنے كے باوجود انجام پايا _و لقد قال لهم هرون من قبل

''من قبل''يعنى حضرت موسى (ع) كے ميقات سے واپس پلٹنے سے پہلے _

۲ _ سامرى كا بچھڑا بنى اسرائيل كى آزمائش كا ذريعہ تھا _إنما فتنتم به

۳ _ سامرى كے سنہرے بچھڑے كا آزمائش ہونا ان چيزوں ميں سے تھا كہ جن كے بارے ميں حضرت ہارون(ع) نے بنى اسرائيل كو خبردار كيا _و لقد قال لهم هرون إنما فتنتم به

۴ _ حضرت ہارون(ع) نے توحيد اور ربوبيت خدا كے ايمان پر ثابت قدم رہنے كو آزمائش الہى ميں كاميابى كي شرط قرار ديا_إنما فتنتم به وإن ربكم الرحمن

۵ _ حضرت ہارون(ع) نے بنى اسرائيل كے سامنے خدا تعالى كى وسيع رحمت كا تذكرہ كر كے انہيں شرك و ارتداد سے واپس پلٹنے كيلئے راستہ كھلا ہونے كى ياد دہانى كرائي_إنما فتنتم به وإن ربكم الرحمن

بنى اسرائيل كى نافرمانى اور بچھڑا پرستى كو مد نظر ركھتے ہوئے حضر ت ہارون(ع) كے كلام ميں خداتعالى كى ''الرحمان'' كے ساتھ توصيف، شرك سے توبہ كى صورت ميں ان كے ساتھ رحمت الہى كے وعدہ پر مشتمل ہے _

۶ _ منحرفين اور خطاكاروں كو رحمت اور مغفرت الہى سے اميدوار ركھنا ضرورى ہے _إنما فتنتم به وإن ربكم الرحمن

۷ _ خداوند رحمن (وسيع رحمت والا) سب لوگوں كا پروردگار ہے _وإن ربكم الرحمن

۸ _ رحمن ہونا، معبود ہونے كى لازمى خصوصيات ميں سے ہے _فقالوا هذا إلهكم وإله موسي وإن ربكم الرحمن

حضرت ہارون(ع) نے سامرى كے بچھڑے كے مبعود ہونے كو رد كرنے كے مقام ميں حقيقى معبود كى بعض خصوصيات بيان كى ہيں كہ جن ميں سے اس كا ''رحمان'' ہونا ہے _

۱۷۱

۹ _ رحمان ہونا، ربوبيت كى شرط ہے _وإن ربكم الرحمن

۱۰ _ حضرت موسي(ع) كى عدم موجودگى ميں حضرت ہارون(ع) بنى اسرائيل كى رہنمائي اور ہدايت كے ذمہ دار _

و لقد قال لهم هرون من قبل

۱۱ _ حضرت ہارون(ع) كى بنى اسرائيل كے بچھڑا پرستوں كے ساتھ گفتگو محبت آميز اور رہنمائي و ہدايت كے ہمراہ تھى _ياقوم إنما فتنتم به بنى اسرائيل كو ''اے ميرى قوم'' كہہ كر اپنى طرف منسوب كرنا محبت كا اظہار ہے اور سامرى كے ماجرا كو آزمائش كہہ كر اسكى وجوہات تلاش كرنا واضح اور رہنمائي كرنا ہے_

۱۲ _ گمراہ لوگوں كے ساتھ اظہار مہر و محبت انكى ہدايت كے سلسلے ميں ايك پسنديدہ روش ہے _ياقوم إنما فتنتم به وإن ربكم الرحمن

۱۳ _ گمراہ لوگوں كو فكرى اور نفسياتى طور پر آمادہ كرنا اور زمينہ ہموار كرنا انكى رہنمائي اور ہدايت ميں انبياء كى ايك روش _

ى قوم إنما فتنتم به وإن ربكم الرحمن

۱۴ _ حضرت موسى (ع) كى عدم موجودگى ميں حضرت ہارون(ع) بنى اسرائيل پر ولايت و اطاعت كا حق ركھتے تھے _

و لقد قال لهم هرون فاتبعونى و اطيعوا ا مري حضرت ہارون(ع) كا لوگوں كو اپنى پيروى اور اطاعت كا حكم دينا اس بات سے حكايت كرتا ہے كہ وہ بنى اسرائيل پر ولايت و اطاعت كا حق ركھتے تھے _

۱۵ _ حضرت موسى (ع) كى عدم موجودگى ميں حضرت ہارون(ع) نے لوگوں كو سامرى كى پيروى ترك كر كے اپنى اطاعت كا حكم ديا _لقد قال لهم هرون من قبل فاتبعونى و ا طيعوا ا مري

۱۶ _ حضرت موسي(ع) كى عدم موجودگى ميں حضرت ہارون(ع) نے رہنمائي، خبردار كرنا، امربالمعروف اور نہى از منكر كا فريضہ پورى طرح انجام ديا _و لقد قال لهم هرون من قبل ياقوم فاتبعونى و ا طيعوا ا مري

۱۷ _بچھڑا پرستى كا مقابلہ كرنے اور بنى اسرائيل ميں توحيد كو زندہ كرنے كيلئے حضرت ہارون(ع) كے پاس مشخص پروگرام تھا _ا طيعوا ا مري

۱۷۲

''إتبعوني'' كے حكم كے بعد حضرت ہارون(ع) كا بنى اسرائيل كو اپنے اوامر كى اطاعت كا حكم دينا اس بات كى حكايت كرتا ہے كہ انہوں نے بنى اسرائيل كيلئے انكى طرف سے اپنى پيروى كى صورت ميں اوامر كا انتظام كر ركھا تھا _

۱۸ _ فتنوں ميں محفوظ رہنے كيلئے انبياء الہى كے اوامر اور ہدايات كى اطاعت اورپيروى كرنا ضرورى ہے _

إنما فتنتم به فاتبعونى و ا طيعوا ا مري

اسما و صفات:رحمان ۷

اطاعت:انبيا كى اطاعت كے اثرات ۱۸; ہاورن (ع) كى اطاعت ۱۴، ۱۵

آزمائش:اس كا ذريعہ ۲; سامرى كے بچھڑے كے ذريعے آزمائش ۳

اميدوار ہونا:بخشش كا اميدوار ہونا ۶; رحمت خدا كا اميدوار ہونا ۶

انبيائ(ع) :انكى سيرت ۱۳; ان كا ہدايت كرنا ۱۳

ريمان:توحيد پر ايمان ۴; ربوبيت خدا پر ايمان ۴

بنى اسرائيل:انكے امتحان كا ذريعہ ۲; ان ميں توحيد كا احيا ۲; انكو انذار ۱; يہ موسي(ع) كى عدم موجودگى ميں ۱۰; انكى تاريخ ۱، ۳، ۵، ۱۰، ۱۱، ۱۴، ۱۵; انكو نصيحت ۵; انكو دعوت ۱۵; ان كے بچھڑا پرستوں كے ساتھ نمٹنے كى روش۱۱; انكى گمراہى ۱; انكى بچھڑا پرستى ۱; ان پر ولايت ۱۴; انكى ہدايت ۱۰، ۱۱; انكو خبردار كرنا ۳

ياددہانى كرانا:رحمت خدا كى ياد دہانى كرانا ۵

توبہ:مرتد ہونے سے توبہ ۵; شرك سے توبہ ۵

خداتعالى :اسكى ربوبيت ۷; اسكى رحمانيت ۷; اسكى آزمائشوں ميں كاميابى كے شرائط ۴

ربوبيت:اس ميں رحمان ہونا۹; اسكے شرائط ۹

سامري:اس سے منہ موڑنا ۱۵; اسكے بچھڑے كا كردار ۲

گمراہ لوگ:انكو اميد دلانے كى اہميت ۶; انكى محبت ۱۲

گمراہي:اسكے موانع ۱۸//بچھڑا پرستي:اس كا مقابلہ ۱۷

سچے معبود:ان كا رحمن ہونا ۸; انكى خصوصيات ۸

ہارون(ع) :

۱۷۳

ان كا امر بالمعروف ۱۶; انكا ڈرانا ۱، ۱۶; انكى منصوبہ بندى ۱۷; انكى تبليغ ۱۰; انكى نصيحتيں ۵; انكى دعوت ۱۵; انكى تبليغ كى روش ۱۷; انكى شرك دشمنى ۱۷; انكا عقيدہ ۴; انكا شرعى ذمہ دارى پر عمل كرنا ۱۶; انكا قصہ ۱۴، ۱۵، ۱۶، ۱۷; انكى ذمہ دارى ۱۰; انكا مقام و مرتبہ ۱۴; انكى مہربانى ۱۱; ان كا نہى از منكر ۱۶; انكى ولايت ۱۴;انكى مينيجمنٹ كى خصوصيات ۱۷; يہ حضرت موسى (ع) كى عدم موجودگى ميں ۱۴، ۱۶; انكا ہدايت كرنا ۱۱، ۱۶; انكا خبردار كرنا ۳

ہدايت:اسكے لئے مقدمات فراہم كرنا ۱۳; اسكى روش ۱۲، ۱۳

آیت ۹۱

( قَالُوا لَن نَّبْرَحَ عَلَيْهِ عَاكِفِينَ حَتَّى يَرْجِعَ إِلَيْنَا مُوسَى )

ان لوگوں نے كہا كہ ہم اس كے گرد جمع رہيں گے يہاں تك كہ موسى ہمارے درميان واپس آجائيں (۹۱)

۱ _ بنى اسرائيل،حضرت ہارون(ع) كے احكام كو قبول كرنے اور بچھڑا پرستى سے توبہ كرنے كيلئے تيار نہ ہوئے _

فاتبعونى و ا طيعوا ا مري قالوا لن نبرح عليه عكفين ''لن نبرح'' يعنى''لا نزال'' ( ثابت قدم رہيں گے) ''عاكف'' اسے كہتے ہيں جو كسى چيز كى طرف توجہ كرے اور اپنے آپ كو اسكى تعظيم پر مجبور كرے (مفردات راغب)

۲ _ بنى اسرائيل كے بچھڑا پرستوں كى طرف سے حضرت موسى (ع) كے ميقات سے واپس آنے اور ذمہ دارى كے تعين تك سامرى كے بچھڑے كى پرستش كا فيصلہ_لن نبرح عليه عكفين حتى يرجع إلينا موسى

۳ _ بنى اسرائيل نے سامرى كے بچھڑے كے ٹھہرنے كى جگہ كو اپنى عبادت گاہ بناليا اور بہت سارى گھڑياں اسكى عبادت كيلئے مختص كرديں _لن نبرح عليه عكفين تسلسل اور دوام ''عكفين'' كے لفظ سے حاصل ہوتا ہے _

۴ _ بنى اسرائيل شخصيت پرست لوگ تھے نہ حقيقت طلب _لن نبرح حتى يرجع الينا موسي

بنى اسرائيل كے بچھڑا پرستوں نے حضرت ہارون(ع) كى باتوں ميں غور كرنے اور حقيقت كو پہچاننے كى بجائے انہيں صرف يہ جواب ديا كہ انہوں نے حضرت موسى (ع) كے ميقات سے واپس پلٹنے كو اپنے عقائد ميں نظر ثانى كى شرط قرار ديا ہے جبكہ معقول يہ تھا كہ وہ اپنے كام

۱۷۴

اور حضرت ہارون(ع) كى باتوں ميں صحيح طور پر غور و فكر كرتے _

۵ _ بنى اسرائيل كى نظر ميں حضرت موسى (ع) كى شخصيت حضرت ہارون(ع) كى شخصيت سے زيادہ برجستہ تھى _

ولقد قال لهم هرون قالوا لن نبرح عليه عكفين حتى يرجع الينا موسى

حضرت ہارون(ع) كى باتوں سے بے اعتنائي اورحضرت موسي(ع) كے لوٹنے كو مؤثر سمجھنا بنى اسرائيل كى نظر ميں ان دو كى شخصيت كے مختلف ہونے سے حكايت كرتا ہے_

بنى اسرائيل:انكى سوچ۵; انكى تاريخ ۱، ۲، ۳; انكا حق كو قبول نہ كرنا ۴; انكى شخصيت پرستى ۴; انكى صفات ۴; انكى عبادت گاہ ۳; انكى نافرمانى ۱; انكى بچھڑاپرستى ۱; انكى ہٹ دھرمى ۱، ۲; انكى بچھڑا پرستى كى مدت ۲; انكى بچھراپرستى كى جگہ ۳

نافرماني:حضرت ہاورن (ع) كى نافرمانى ۱

موسى (ع) :انكى ہارون(ع) پر برترى ۵; انكا قصہ۲

ہارون(ع) :انكا قصہ ۱

آیت ۹۲

( قَالَ يَا هَارُونُ مَا مَنَعَكَ إِذْ رَأَيْتَهُمْ ضَلُّوا )

موسى نے ہارون سے خطاب كر كے كہا كہ جب تم نے ديكھ لياتھا كہ يہ قوم گمراہ ہوگئي ہے تو تمھيں كون سى بات آڑے آگئي تھى (۹۲)

۱ _ حضرت موسى (ع) نے ميقات سے واپس پلٹنے كے بعد حضرت ہارون(ع) سے انكے بنى اسرائيل كے بچھڑا پرستوں كے مقابلے ميں رد عمل كے سلسلے ميں بازپرس اور توبيخ كى _ياهرون ما منعك اذ رأيتهم ضلّو

۲ _ بنى اسرائيل كو گمراہى اور انحراف سے روكنا حضرت موسي(ع) كى عدم موجودگى ميں حضرت ہارون(ع) كى ذمہ دارى تھي_ياهرون ما منعك إذ رأيتهم ضلّو

۳ _ حضرت موسي(ع) نے بنى اسرائيل كے انحراف اور ان كے بچھڑا پرستى كى طرف مائل ہو

۱۷۵

نے ميں اپنے بھائي ہارون(ع) كو قصور وار ٹھہرايا _قال ياهرون ما منعك إذ رأيتهم ضلّوا

''ما منعك ...'' استفہام انكارى ہے اور ہارون(ع) پر حضرت موسي(ع) كے اعتراض كو بيان كر رہا ہے_

۴ _ دينى رہنما، رشتہ دارى كى بنا پر قصور واروں كا مواخذہ كرنے سے چشم پوشى نہ كريں _قال ياهرون ما منعك

۵ _ دينى معاشروں كے ذمہ دار لوگوں كيلئے ضرورى ہے كہ وہ ولوگوں كے اعتقادى انحرافات كے سلسلے ميں حساس ہوں اور اپنے رد عمل كا اظہار كريں _ياهرون ما منعك

۶ _ بنى اسرائيل كو انحراف اور گمراہى سے روكنا حضرت موسي(ع) كى عدم موجودگى ميں حضرت ہارون(ع) كى ذمہ دارى تھي_ياهرون ما منعك اذ رايتهم ضلوا

بنى اسرائيل:انكى تاريخ ۱، ۲، ۳، ۶; انكى گمراہى كے عوامل ۳; انكى بچھڑا پرستى كے عوامل ۳; انكى بچھڑا پرستى ۱; انكى گمراہى كو روكنا ۲، ۶

دينى راہنما:ان كے رشتہ داروں كى سزا ۴; انكى ذمہ دارى ۴، ۵

گمراہي:اسكو روكنا۵

موسى (ع) :انكى سوچ ۳، انكى طرف سے سرزنش ۱; انكا قصہ ۱، ۳

ہارون(ع) :انكا قصہ ۱، ۳، ۶; ان كا مؤاخذہ ۱; انكى ذمہ دارى ۲، ۶; انكا نقش وكردار ۳; يہ موسي(ع) كى عدم موجودگى ميں ۲، ۶

آیت ۹۳

( أَلَّا تَتَّبِعَنِ أَفَعَصَيْتَ أَمْرِي )

كہ تم نے ميرا اتباع نہيں كيا كيا تم نے ميرے امر كى مخالفت كى ہے (۹۳)

۱ _ انبياء (ع) اور ان كے جانشين اپنى توان كى حد تك لوگوں كو گمراہ اور منحرف ہونے سے بچانے كے ذمہ دار ہيں _

ما منعك إذ رأيتهم ضلّوا ا لّا تَتّبعن ہارون(ع) كى طرف سے موسي(ع) كے اتباع سے مراد كہ جسے ''ما منعك الّا تتبعن'' كا جملہ بيان كررہا ہے_ يہ ہے كہ حضرت ہارون(ع) كيلئے ضرورى تھا كہ حضرت كى عدم موجودگى ميں ان جيسا عمل كرتے اور انحراف كے سلسلے ميں لوگوں كے ساتھ سختى سے پيش آنے اور يا يہ كہ حضرت موسي(ع) كى ہدايات اور نصيحتوں (اصلح و لا تتبع سبيل المفسدين) لانے بعض نے كہا ہے_

۱۷۶

۲ _ حضرت موسي(ع) كى عدم موجودگى ميں حضرت ہارون(ع) بنى اسرائيل كى ہدايت اور راہنمائي كے ذمہ دار تھے_

ى هرون ما منعك الّا تتّبعن

۳ _ حضرت موسى (ع) نے اپنى عدم موجودگى ميں ہاورن كيلئے ان كى ذمہ داريوں كو معين كرديا تھا _ما منعك الا تتبعن افعصيت امري ''الّا تتبعن'' ميں ''لا'' اس نفى كى تاكيد كيلئے ہے جو ''منعك'' سے حاصل ہو رہى ہے اور در اصل مراديہ تھى ''ما منعك ان تتبعن'' بعض نے كہا ہے ''لا'' زائدہ نہيں ہے بلكہ مراد يہ ہے كہ ''ما الذى صدك و حملك على الّا تتبعن'' يعنى كس چيز نے تجھے روكا اور ميرى پيروى نہ كرنے پر مجبور كيا (مفردات راغب)

۴ _ بنى اسرائيل كے انحراف كے مقابلے ميں خاموش رہنے اور كسى رد عمل كے اظہار نہ كرنے كى وجہ سے حضرت ہارون(ع) پر حضرت موسي(ع) كے اوامر كى مخالفت كا الزام _ما منعك افعصيت امري ''افعصيت ...'' حضرت موسى (ع) كا حضرت ہارون(ع) كو خطاب ہے آيت كے ظاہر كوديكھ كر يوں لگتا ہے كہ حضرت موسي(ع) كى طرف سے حضرت ہارون كا ان كے فرامين كى مخالفت كرنا كم از كم ايك الزام كى صورت ميں سامنے آيا تھا _

۵ _ لوگوں كى گمراہى اور انحراف كے مقابلے ميں ذمہ دار لوگوں كا خاموش رہنا اور كسى رد عمل كا اظہار نہ كرنا توبيخ اور بازپرس كے مقابل ہے_مامنعك اذ رايتهم ضلّوا افعصيت امري

۶ _ذمہ دار لوگ حتى كہ معاشرے كے بالاترين مقام پر فائز حضرات كيلئے ضرورى ہے كہ وہ اپنى ذمہ دارى كے دائرے ميں رہتے ہوئے انحرافات كے مقابلے ميں جواب دہ ہوں _ما منعك الّا تتبعن افعصيت امري

حضرت موسى (ع) نے ميقات سے واپس آنے كے بعد حضرت ہارون(ع) سے انكى ذمہ دارى كے سلسلے ميں بازپرس اور توبيخ كى اور بچھڑاپرستوں كے ساتھ انكے نمٹنے كى روش اور اسكے علل و اسباب كے بارے ميں جستجو كي_ اس چيز كے پيش نظر كہ حضرت ہارون(ع) پيغمبر تھے اور اس كے باوجود ان سے بازپرس ہوئي اس سے ذمہ دار لوگوں كى خصوصى ذمہ دارى اور اسكے مقابلے ميں لازمى طور پر ان كا جوابدہ ہونا واضح ہوتا ہے_

۷ _ ہارون(ع) مقام نبوت كے حامل ہونے كے باوجود حضرت موسي(ع) اور ان كے فرامين كى پيروى كرنے پر مأمور تھے _ما منعك الّا تتبعن افعصيت امري ''ألّا تتبعن'' حضرت ہارون(ع) كو خطاب اور اس نكتہ پر دال ہے كہ آپ نبى ہونے كے باوجود حضرت موسى (ع) كے فرامين كى پيروى كرنے پر مأمور تھے_

۸ _ معاشرے ميں ايك راہبر كى پيروى ہونا ضرور ى ہےما منعك ا لا تتبعن ا فعصيت ا مري

۱۷۷

۹ _ الہى ذمہ داريوں ميں كلمہ ''امر'' وجوب ميں ظہور ركھتا ہے _ا فعصيت ا مري امر كى مخالفت پر عصيان كا صدق كرنا مذكورہ نكتے پر دلالت كر رہا ہے _

اطاعت:موسى (ع) كى اطاعت ۷; راہبر كى اطاعت كى اہميت ۸

امر:صيغہ امر كا معنى ۹/انبياء (ع) :انكى ذمہ دراى كا دائرہ ۱; انكے جانشينوں كى ذمہ دارى كا دائرہ ۱

بنى اسرائيل:انكى تاريخ ۲، ۳، ۴; انكى گمراہى كے عوامل ۴; انكى ہدايت ۲

راہبر:اسكے جوابدہ ہونے كى اہميت ۶; ان كے رد عمل ظاہر نہ كرنے كى سرزنش ۵; انكى ذمہ دارى ۶

نافرماني:حضرت موسى (ع) كى نافرمانى ۴/لوگ:لوگوں كى ہدايت كى اہميت ۱; لوگوں كو گمراہى سے بچانا ۱

موسي(ع) :ان كے اوامر ۳، ۴; انكا قصہ ۲، ۳، ۴

ہارون(ع) :انكى شرعى ذمہ دارى ۷; انكى راہبرى ۲; انكا قصہ ۲، ۳، ۴; انكى ذمہ دارى كا دائرہ ۳; انكى ذمہ دارى ۲; انكا مقام و مرتبہ ۷; انكى نبوت ۷; انكا كردار و تاثير ۴; يہ موسي(ع) كى عدم موجودگى ميں ۲، ۳

آیت ۹۴

( قَالَ يَا ابْنَ أُمَّ لَا تَأْخُذْ بِلِحْيَتِي وَلَا بِرَأْسِي إِنِّي خَشِيتُ أَن تَقُولَ فَرَّقْتَ بَيْنَ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَلَمْ تَرْقُبْ قَوْلِي )

ہارون نے كہ كہ بھيّا آپ ميرى ڈاڑھى اور ميرا سر نہ پكڑيں مجھے تو يہ خوف تھا كہ كہيں آپ يہ نہ كہيں كہ تم نے بنى اسرائيل ميں اختلاف پيدا كرديا ہے اور ميرى بات كا انتظار نہيں كيا ہے (۹۴)

۱ _ حضرت موسى (ع) ميقات سے واپس آنے كے بعد بنى اسرائيل كى بچھڑا پرستى كو ديكھ كر سخت ناراض ہوئے_يبنئوم لا تا خذ بلحيتى و لا برأسي ہارون(ع) كا سر اور داڑھى پكڑنا بنى اسرائيل كے انحراف كے سلسلے ميں حضرت موسى (ع) كے سخت غصے كى علامت ہے _

۲ _ حضرت موسى (ع) نے حضرت ہارون(ع) كا سر اور داڑھى پكڑ كر ان سے اپنى عدم موجودگى ميں بنى اسرائيل كے بچھڑا پرست ہونے كے سلسلے ميں بازپرس كى _ياهرون ما منعك لا تأخذ بلحيتى ولا برأسي

۳ _ حضرت موسى (ع) كى نظر ميں حضرت ہارون (ع) بنى اسرائيل كے گمراہ ہونے اور ان كى بچھڑاپرستى كے مقابلے ميں ذمہ دار تھے_ياهرون ما منعك لاتأخذ بلحيتى ولا برأسي

۴ _ انحرافات اور گمراہى كو ديكھ كر غضب ناك ہونا قابل تعريف ہے _لا تأخذ بلحيتى و لا برأسي

۱۷۸

حضرت موسي(ع) كے غضب كے ماجرا كو جو انكے اپنے بھائي كا سر اور داڑھى كے بال پكڑنے ميں كى صورت ميں ظاہر ہوا انكى مذمت كے بغير نقل كرنا دينى امور ميں اس حالت كے پسنديدہ ہونے پر دلالت كرتا ہے_

۵ _ حضرت ہارون(ع) نے حضرت موسى (ع) كا غضب ديكھ كر اسے ٹھنڈا كرنے، ان كى محبت حاصل كرنے اور ان كے جذبات كو جگانے كى كوشش كى _حضرت موسى (ع) كو'' ياابن ام'' كہہ كر پكارنا اس نكتے كو بيان كررہا ہے كہ حضرت ہارون(ع) نے موسى (ع) كے جذبات كو بھڑكا كر ان كا غصہ ٹھنڈا كرنے كى كوشش كى اور اسكے بعد اپنى وضاحت پيش كي_ كلمہ ''ام'' كے مفتوح ہونے كے بارے ميں متعدد توجيہات پيش كى گئي ہيں ان ميں سے ايك يہ ہے كہ يہ اصل ميں ''يابن اماہ'' تھا اور تخفيف كى وجہ سے اس طرح ہوگيا _

۶ _ انبياء كى مختلف روشوں ميں جذبات كى تأثير _قال يبنؤم

۷ _ موسي(ع) اور ہارون(ع) دونوں مادرى بھائي تھے _*قال ياين اُمَّ

حضرت موسى (ع) كا حضرت ہارون(ع) كى طرف سے ''يابن ام'' (ماں كا بيٹا) كى تعبير كے ساتھ مخاطب قرار پانا ممكن ہے اس وجہ سے ہو كہ موسى (ع) و ہارون(ع) دونوں مادرى بھائي تھے اور يہ بھى ممكن ہے كہ كلمہ ''ماں ''كا تذكرہ صرف حضرت موسى (ع) كے احساسات اور جذبات كو جذب كرنے كيلئے ہو _

۸ _ حضرت ہارون(ع) نے بچھڑا پرستوں كے ساتھ اپنے سلوك كى علل و اسباب كى وضاحت كرنے كيلئے حضرت موسي(ع) سے مہلت طلب كى _لا تأخذ بلحيتى و لا برأسى إنّى خشيت

۹ _ ملزمين كو اپنے دفاع كا موقع دينا ضرورى ہے _لا تأخذ بلحيتى و لا برأسى إنى خشيت

۱۰ _ انبياء كا علم محدود ہے _ما منعك لا تأخذ بلحيتى إنى خشيت

۱۱ _ حضرت ہارون(ع) كى طرف سے بچھڑا پرستوں كا مقابلہ كرنے كيلئے عملى اور سنجيدہ قدم اٹھانے كى صورت ميں بنى اسرائيل كو انتشار و افتراق كا خطرہ _إنى خشيت ا ن تقول فرّقت بين بنى إسرائيل

۱۲ _ وحدت كو بچانا اور افتراق كو روكنا بنى اسرائيل كے بچھڑا پرستوں كے خلاف عملى اقدام نہ كرنے كے سلسلے ميں حضرت ہارون (ع) كا عذر _إنى خشيت ا ن تقول فرّقت بين بنى إسرائيل

۱۳ _ بنى اسرائيل كى وحدت اور يكجہتى كى حفاظت كرنا حضرت موسي(ع) كى حضرت ہارون(ع) كو ايك سفارش _فرقت بين بنى إسرائيل و لم ترقب قولي ''ترقب'' كا معنى ہے ''تحفظ'' اور ''لم ترقب''كے ''فرقّت'' پر عطف كو مد نظر ركھتے ہوئے

۱۷۹

جملہ'' انى خشيت ...'' كا معنى يہ ہے كہ ميں اس چيز سے پريشان تھا كہ مبادا آپ مجھے كہيں تو نے بنى اسرائيل كو متفرق كرديا ہے اور ميرى بات كا خيال نہيں ركھا اور حضرت ہارون(ع) كا يہ كہنا اس بات پر دلالت كرتا ہے كہ حضرت موسي(ع) نے ميقات پر جانے سے پہلے بنى اسرائيل كے اتحاد كو بچانے كے سلسلے ميں انہيں ضرورى ہدايات دے دى تھيں _

۱۴ _ معاشرے كى وحدت كى حفاظت كرنے اور اسے انتشار و افتراق سے بچانے كى مصلحت اسكے افراد كے ايك گروہ كے انحراف كے خطرے سے زيادہ ہے اگر از سر نو انكى ہدايت كا امكان باقى رھے_إنى خشيت ا ن تقول فرقت بين بنى إسرائيل حضرت ہارون (ع) نے ''حتى يرجع إلينا موسى (ع) '' كا جملہ سننے كے بعد بچھڑا پرستوں كى از سر نو ہدايت كو منتفى نہ سمجھا اور مؤمنين اور كفاركو با ہم دست و گريبان كرنے اور بنى اسرائيل كى وحدت كى حفاظت كرنے ميں سے دوسرى صورت كا انتخاب كيا حضرت موسى (ع) كى طرف سے اس انتخاب كاقبول ہونا اور قرآن كا اس پر كوئي تنقيد نہ كرنا ايسے حالات ميں ايسے موقف كے صحيح ہونے كى علامت ہے_

۱۵ _ عملى ميدان ميں تمام معياروں كى طرف توجہ كرنا، انكى درجہ بندى كرنا اور اہم و مہم كو مشخص كرنا ضرورى ہے_ما منعك إنى خشيت ا ن تقول فرقت بين بنى إسرائيل حضرت ہارون(ع) نے حضرت موسي(ع) كے فرامين پر عمل كے سلسلے ميں صرف ايك جہت كو مد نظر نہيں ركھا تھا بلكہ انہوں نے تمام معياروں كا آپس ميں مقابلہ كرنے كے بعد ايك راستے كا انتخاب كيا تھا ان كا يہ عمل سب كيلئے نمونہ ہے كہ ميدان عمل ميں صرف ايك جہت كو نظر ميں نہ ركھيں بلكہ سب جہات كو مد نظر ركھيں اور معياروں كى جانچ پڑتال كرنے كے بعد دينى احكام كو ايك مجموعہ كى صورت ميں ديكھيں _

۱۶ _ فرائض پر عمل كے سلسلے ميں ايك جہت كو مد نظر ركھنے اور جمود سے پرہيز كرنا ضرورى ہے_

ما منعك إنى خشيت ا ن تقول فرقت بين بنى إسرائيل

۱۷ _ بچھڑا پرست لوگ حضرت موسي(ع) كى عدم موجودگى ميں بنى اسرائيل كى عمومى صورتحال پر غالب تھے _

إنى خشيت ا ن تقول فرقت بين بنى إسرائيل

بنى اسرائيل كے اتحاد و يگانگت كا منظر ان كے ارتداد كے زمانے ميں ، مرتد اور بچھڑا پرستوں كى حكمرانى كو بيان كررہا ہے_

۱۸ _ حضرت ہارون (ع) حضرت موسي(ع) كى عدم موجودگى اور ان كے ميقات پر رہنے كى پورى مدت ميں ان كے فرامين كو دقيق طور پر عملى كرنا چاہتے تھے اور ان كے معياروں سے ہٹنا نہيں چاہتے تھے_إنى خشيت ا ن تقول و لم ترقب قولي

۱۹ _ حضرت ہارون(ع) كى نظر ميں حضرت موسى (ع) معاشرے كے انتشار و افتراق كے مقابلے ميں ايك حساس اور

۱۸۰