تفسير راہنما جلد ۱۱

تفسير راہنما 0%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 750

تفسير راہنما

مؤلف: آيت الله ہاشمى رفسنجاني
زمرہ جات:

صفحے: 750
مشاہدے: 173611
ڈاؤنلوڈ: 1990


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4 جلد 5 جلد 6 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 750 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 173611 / ڈاؤنلوڈ: 1990
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد 11

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

تفسير راہنما جلد یازدہم

قرآنى موضوعات اور مفاہيم كے بارے ميں ايك جديد روش

مؤلف: آيت الله ہاشمى رفسنجاني اور

مركز فرہنگ و معارف قرآن كے محققين كى ايك جماعت

۳

۲۰-سورہ طہ

آیت ۱

( بسم اللّه الرحمن الرحیم )

( طه )

بنام خدائے رحمان و رحيم

طہ (۱)

۱ _'' عن جعفر بن محمد(ع) ...قال: و ا مّا ''طه'' قاسم من ا سماء النبي(ص) و معناه: ياطالب الحق الهادى اليه; امام صادق (ع) سے روايت ہے كہ آپ(ص) نے فرمايا: ''طہ'' پيغمبر(ص) كے ناموں ميں سے ايك نام ہے اور اس كا معنى ہے: اے طالب حق كہ جو حق كى طرف ہدايت كرنے والا ہے_(۱)

۲ _'' قال جعفر بن محمد الصادق (ع) : قوله عزّوجل: ''طه'' ا ى طهارة ا هل بيت محمد (صلوات الله عليهم) من الرّجس; امام صادق(ع) سے روايت ہے كہ كلام خدا ميں ''طہ'' اہل بيت پيغمبر (ص) كى رجس اور پليدى سے طہارت كى طرف اشارہ ہے_(۲)

۳ _'' عن جعفر بن محمّد (ع) قال: إذا ا تيت مشهد ا مير المؤمنين (ع) قل: السّلام عليك يا طه ; امام صادق(ع) سے روايت ہے كہ (آپ نے محمد بن مسلم كو فرمايا) جب بھى تم حضرت اميرالمؤمنين (ع) كى زيار ت كيلئے جائو تو يہ كہو''السلام عليك يا طه'' (۳)

اہل بيت (ع) :انكى طہارت ۲

حروف مقطعات :۱، ۲، ۳

روايت :۱، ۲، ۳

____________________

۱ ) معانى الاخبار ص ۲۲ ح ۱ نورالثقلين ج ۳ ص ۳۶۷ح۸_

۲ ) تاويل الآيات الظاہرة ص ۳۰۴_ تجارالانوار ج ۲۵ ص ۲۰۹ح ۲۲_

۳ ) بحار الانوار ج ۹۷ ص ۳۷۵ ح ۹_

۴

طہ:اس سے مراد ۱، ۲،۳

محمد(ص) :آپ(ص) كے نام ۱

آیت ۲

( مَا أَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لِتَشْقَى )

ہم نے آپ پر قرآن اس لئے نہيں نازل كيا ہے كہ آپ اپنے كو زحمت ميں ڈال ديں (۲)

۱ _ خدا تعالى نے پيغمبر اكرم(ص) پر قرآن نازل فرمايا _ما ا نزلنا عليك القر ان لشتقى

۲ _ پيغمبر اكرم(ص) پر قرآن كانزول آپ(ص) كے لئے بھارى ذمہ دارى كے احساس كے ہمراہ تھا _ما أنزلنا عليك القر ان لتشقى آيت كريمہ كے شفقت بھرے لب و لہجے سے لگتا ہے كہ نزول قرآن سے پيغمبر اكرم(ص) نے بھارى ذمہ دارى كا احساس كيا اور اسے انجام دينے كيلئے آپ(ص) نے خود كو بہت رنج و الم ميں مبتلا كر ركھا تھا تا كہ ہر ممكن طريقے سے لوگوں كو ہدايت كر پائيں _

۳ _ اپنى رسالت كو انجام دينے كيلئے پيغمبر اكرم(ص) كى كوشش ،اور سنجيدگي، اورسنگين اورطاقت آزما تھى _

ما ا نزلنا عليك القر ان لتشقى ''شقاوت'' كا معنى ہے سختى اور دشوارى (قاموس) خدا تعالى كا پيغمبر اكرم(ص) كو سختى نہ جھيلنے اور اپنے آپ كو زحمت ميں نہ ڈالنے كى نصيحت آپ(ص) كى طرف سے لوگوں كى ہدايت كيلئے طاقت آزما كوشش كى علامت ہے _

۴ _ خدا تعالى نے پيغمبر اكرم(ص) كو قرآن كو ابلاغ كيلئے رنج و الم اور زحمت كا راستہ اختيار كرنے كا حكم نہيں ديا _

۵

ما أنزلنا عليك القر ان لتشقى

۵ _ خدا تعالى بعض لوگوں كے كفر اور ہٹ دھرمى كى وجہ سے انبياء كا مواخذہ نہيں كريگا _ما ا نزلنا عليك القر ان لتشقى

۶ _ دينى راہنماؤں كى يہ ذمہ د ارى نہيں ہے كہ وہ كفر پر ڈٹے ہوئے لوگوں كى ہدايت كيلئے اصرار كريں _

ما ا نزلنا عليك القر ان لتشقى

۷ _ دينى ذمہ داريوں كى انجام دہى ميں رنج و مشقت كو برداشت كرنا ضرورى نہيں ہے _ما ا نزلنا عليك القر ان لتشقى

''لتشقى '' كا اطلاق شرعى ذمہ داريوں كى انجام دہى ميں مشقت كو بھى شامل ہے اگر چہ آيت كريمہ كا مورد دوسروں تك معارف قرآن پہچانے ميں مشقت ہے_

انبياء:انكى ذمہ دارى كا دائرہ ۵

شرعى ذمہ داري:اس كا نظام ۷; سخت شرعى ذمہ دارى كى نفى ۷

خداتعالى :اسكے ا فعال ۱

دينى راہنما:انكى ذمہ دارى كا دائرہ ۶

قرآن كريم:اسكے نزول كے اثرات ۲; اس كا سرچشمہ ۱; اس كا وحى ہونا ۱

قواعد فقہيہ:قاعدہ نفى عسرو حرج ۷

كفر:اسكى سزا ۵

سزا :اس كا شخصى ہونا ۵

ہدايت:اس پر اصرار ۶

۶

آیت ۳

( إِلَّا تَذْكِرَةً لِّمَن يَخْشَى )

يہ تو ان لوگوں كى ياد دہانى كے لئے ہے جن كے دلوں ميں خوف خدا ہے (۳)

۱ _ پيغمبر اكرم (ص) پر قرآن مجيد نازل كرنے كے مقصد لوگوں كو خبردار كرنا،ان متوجہ كرنا اور انہيں نصيحت كرناہے_

ما ا نزلنا إلا تذكرة لمن يخشى

''إلا تذكرة'' ميں استثنا منقطع اور ''تذكرة'' مفعول لہ ہے يعنى'' لكن ا نزلنا ه لتذكرة'' ''تذكرة'' معنى راہنمائي'' سے وسيع تر ہے اور يہ ہر اس چيز كو شامل ہے جو مورد توجہ ہو (مفردات راغب) اور يہ ''وعظ'' كے معنى ميں بھى آتاہے (مصباح قاموس)

۲ _ پيغمبر اكرم(ص) كى ذمہ دارى قرآن مجيد كا ابلاغ اور لوگوں كو ياد دہانى كراناہے_ اور وہ اس كے نتيجہ كے ذمہدار نہيں ہيں _ما أنزلنا عليك إلا تذكرة لمن يخشى

۳ _ قرآن مجيد كى تعليمات، فقط ان لوگوں كے ليے مؤثر ہيں كہ جن كے دلوں ميں خداوند عالم كى عظمت نے خوف بٹھايا ہو_إلا تذكرةً لمن يخشى

''خشية'' ايسا خوف كہ جو عظمت كے احساس كے ساتھ مخلوط ہو ( مفردات غلط) اوريہ (يخشى ) كے متعلق ہے اور اس پر قرينہ بعد والى آيت ہے كہ جو قرآن كريم كو نازل كرنے و الى ذات الہى كو عظمت كو بيان كررہى ہے_

۴ _قرآن مجيد كى تعليم ، خوف الہى ركھنے والوں كے ليے آسان ہے اور وہ ہر قسم كے رنج و مشقت كو

۷

برداشت كرنے سے بے نياز ہے_ما ا نزلنا لتشقى إلا تذكرةً لمن يخشى

۵ _ قرآنى پيغامات سے بے اعتنائي كرنے والوں كا انجام خوف ناك اور ہولناك ہے_إلا تذكرةً لمن يخشى

خداوند عالم سے خوف اور خشيت سے مراد يہ ہے كہ قرآنى تذكرات كى مخالفت كى صورت ميں اس كى طرف سے سزا اور عذاب ملتاہے_

۶ _قرآنى تعليمات كى مخالفت كے انجام سے خوف زدہ ہونا ضرورى ہے_إلا تذكرة ً لمن يخشى

۷ _قرآنى پيغام، انسانى فطرت اور اس كو بيدار كرنے كے ساتھ سازگار ہے_إلا تذكرةً لمن يخشى

''تذكرة'' كا مطلب جيسا كہ ''لسان العرب'' ميں ذكر ہوا ہےبھولى ہوئي چيزوں كى ياد دہانى ہے قرآن مجيد كى ياد دہانى كرانے سے مراد يہ ہے كہ وہ انسانوں كو اس چيز كى ياد دہانى كراتاہے كے جو چيز اس كى فطرت ميں مضمر ہے اور وہ اس سے غافل ہے_

انسان:انسانوں كو متوجہ كرنے كى اہميت۱

تذكر:انسانوں كو تذكر دينے كى اہميت ۲

خوف:خوف كے اسباب ۶

خوف الہى ركھنے والے:اور قرآن ۴

خشيت:اس كے آثار ۳; اس كى اہميت ۶

فطرت:متنبہ كرنے كے عوامل ۷

قرآن:اس كى تبليغ كى اہميت ۲; اس كى تاثير كا زمينہ ۳ ; اس كى تعليم كى سہولت ۴; اس كے انجام سے احراز ۶; اس سے احراز كا برا انجام ۵; اس كى تعليمات كا فطرى ہونا ۷; اس كے نزول كا فلسفہ ۱; اس كى خصوصيات ۷

محمد(ص) :ان كى ذمہ دارى كا دائرہ كار ۲

موعظہ:اس كى اہميت ۱

۸

آیت ۴

( تَنزِيلاً مِّمَّنْ خَلَقَ الْأَرْضَ وَالسَّمَاوَاتِ الْعُلَى )

يہ اس خدا كى طرف سے نازل ہوا ہے جس نے زمين اور بلندترين آسمانوں كو پيدا كيا ہے (۴)

۱ _ قرآن ، خالق زمين و آسمان كى طرف سے بھيجا ہوا ايك پيغام ہے __تنزيلاً ممن خلق الا رض و السموات

'' تنزيلاً'' مصدر اسم مفعول كے معنى ميں اور ''القرآن'' سے حال ہے جو سابقہ آيات ميں تھا_

۲ _ خداتعالى ، بلند و بالا آسمانوں اور زمين كا خالق ہے _خلق الا رض و السموات العلى

''عُلى '' (علياء كى جمع ) اسم تفصيل ہے آسمانوں كى يہ صفت بيان كرنا كہ وہ زمين سے بلند تر ہيں اس مقام و مرتبے كى عظمت كے بيان كيلئے ہے كہ جہاں سے قرآن زمين پر نازل ہوا ہے_

۳ _ اس ذات كى طرف توجہ كرنا كہ جس كى طرف سے قرآن نازل ہوا ہے قرآن سے نصيحت حاصل كرنے اور اسكى نصيحت كو قبول كرنے كا پيش خيمہ ہے _تذكرة لمن يخشى تنزيلاً ممن خلق الا رض و السموات العلى

بعض اوقات علت كو بيان كرنے كيلئے حال سے استفادہ كيا جاتا ہے ''تنزيلا'' جو ''قرآن'' كيلئے حال ہے قرآن كے صاحب نصيحت ہونے كى علت كو بيان كر رہا ہے يعنى چونكہ قرآن، خداتعالى كى طرف سے نازل ہوا ہے لہذا يہ مكمل طورپر نصيحت كرنے كے لائق ہے _

۴ _ خداتعالى كا زمين اور بلند آسمانوں كى خلقت پر قادر ہونا اسكے انسان كو وعظ و نصيحت كرنے كيلئے ايك مناسب كتاب كے بھيجنے پر قدرت ركھنے كى علامت ہے_تذكرة ...ممن خلق الارض و السموات العلى

۵ _ آسمان :متعدد ہيں اور وہ بلندى اور عظمت كے حامل ہيں _و السموات العلى

۹

آسمان:انكا متعدد ہونا۵; ان كا خالق ۱، ۲، ۴; انكى بلندى ۵; انكى عظمت ۵

نصيحت حاصل كرنا:اس كا پيش خيمہ ۳; اسكے عوامل ۴

خدامجيد:اس كا خالق ہونا ۲، ۳; اسكى قدرت كى نشانياں ۴

ياد كرنا:نزول قرآن كے سرچشمے كو يادكرنا ۳

زمين:اس كا خالق ۱، ۲، ۴

عبرت :اس كا پيش خيمہ ۳

قرآن مجيد:اس كا نزول ۱، ۴; اس كا وحى ہونا ۱

آیت ۵

( الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى )

وہ رحمان عرش پر اختيار و اقتدار ركھنے والا ہے (۵)

۱ _ خداتعالى پورے عالم وجود كا مدبرہے _الرحمن على العرش استوى

''استوائ'' جب ''على '' كے ساتھ متعدى ہو تو اس كا معنى ہوتا ہے ''مستقر ہونا'' (مصباح) اور ''عرش'' يعنى ''تخت فرمانروائي'' (مقاييس اللغة) خداتعالى كا تخت فرمانروائي پر مستقر ہونا عالم كے نظام كى تدبير اور اسكے چلانے سے كنايہ ہے _

۲ _ عرش آسمانوں او رزمين كى تدبير، انكے كنٹرول كا مركز اور خداتعالى كے زيرتسلط ہے _

خلق الا رض و السموات العلى الرحمن على العرش استوى

۳ _ خداتعالى ،وسيع اور ہمہ گير رحمت والا ہے_الرحمن

''رحمان'' رحمت ميں مبالغہ پر دلالت كرتا ہے _

۴ _ نظام خلقت ميں رحمت الہى كى حكمرانى اور اس كا اصل ہونا _الرحمن على العرش استوى

خداتعالى كا يہ وصف بيان كرتے وقت كہ وہ كائنات كا حكمران ہے ''رحمان'' كے عنوان كا انتخاب اس نكتے كو بيان كر رہا ہے كہ امور كائنات كى تدبير رحمت الہى كى بنياد پر ہے_

۱۰

۵ _ نزول قرآن، خداتعالى كے رحمان ہونے اور اسكے عرش اور تدبير امور پر قادر ہونے كا ايك جلوہ ہے_تنزيلاً الرحمن على العرش استوى

اگر چہ جملہ '' الرحمان على ...'' گذشتہ آيت سے مستقل اور عليحدہ جملے كى صورت ميں ہے ليكن قرآن كے اوصاف بيان كرنے كے بعد كائنات پر خداتعالى كى حكمرانى كا بيان كرنا اور اسكى ''رحمان'' كے ساتھ صفت ذكر كرنا دلالت كرتا ہے كہ نزول قرآن ان صفات الہى كا جلوہ ہے _

۶ _''عن أبى عبداللّه (ع) :(فى قوله تعالى ) ''الرحمن على العرش استوى '' يقول: على الملك احتوي ; خداتعالى كے فرمان''الرحمن على العرش استوى '' كے بارے ميں امام صادق(ع) سے روايت ہے (اس سے) مراد يہ ہے كہ خداتعالى ملك پر احاطہ ركھتا ہے _(۱)

۷ _عن على (ع) قال: و ليس العرش كما تظنّ كهيئة السّرير، و لكنه شيء محدود مخلوق مدبر، و ربّك عزوجل مالكه، لا انّه عيله ككون الشيء على الشيء ; حضرت اميرالمؤمنين(ع) سے روايت ہے كہ آپ(ع) نے فرمايا عرش جيسے تو گمان كرتے ہے (بادشاہوں كے ) تخت جيسا نہيں ہے بلكہ يہ پيدا كيا ہوا اور ايسا محدود وجود ہے كہ جو (خداتعالى كى ) تدبير كے تحت ہے اور تيرا پروردگار اس كا مالك ہے نہ يہ كہ خداتعالى اسكے اوپر ہو جيسے چيزيں ايك دوسرے كے اوپر ہوتى ہيں _(۲)

۸ _'' عن محمد بن مارد: ا نّ ا باعبدالله (ع) سئل عن قول الله عزوجل: ''الرحمن على العرش استوى '' فقال: استوى من كل شيء فليس شيء ا قرب إليه من شيء ;محمد بن مارد سے منقول ہے كہ امام صادق (ع) سے خداتعالى كے فرمان'' الرحمن على العرش استوى '' كے بارے ميں سوال كيا گيا تو آپ(ع) نے فرمايا (آيت سے مراد يہ ہے كہ ) خداتعالى كى سب چيزوں كى طرف يكساں نسبت ہے پس كوئي چيز دوسرى چيز كى نسبت خداكے زيادہ قريب نہيں ہے_(۳)

____________________

۱ ) توحيد صدوق ص ۳۲۱ ب ۵۰ ح ۱_ نورالثقلين ج ۳ ص ۳۷۰ ح ۲۴_

۲ ) توحيد صدوق ص ۳۱۶ ب ۴۸ ج۳_ نورالثقلين ج ۳ ص ۳۶۹ ح ۱۷_

۳ ) كافى ج ۱ ص ۱۲۸ ح ۷_ نورالثقلين ج ۳ ص ۳۶۹ ح ۱۸_

۱۱

۹ _'' عن ا بى الحسن موسى (ع) و سئل عن معنى قول الله '' الرحمن على العرش استوى '' فقال: استولى على ما دقّ و جلّ; امام موسى كاظم (ع) سے روايت ہے كہ آپ (ع) نے خداتعالى كے فرمان''الرحمن على العرش استوى '' كے معنى كے بارے ميں سوال كے جواب ميں فرمايا:خداتعالى چھوٹے بڑے سب موجودات پر تسلط ركھتا ہے_(۱)

آسمان :آسمانوں كى تدبير كا مركز: ۲

عالم خلقت:اس كا مدبر ۱

اسما و صفات :رحمان:۰ ۳

خداتعالى :اس كا احاطہ ۶; اس كا عرش پراستوا ۶، ۷، ۸، ۹; اسكى تدبير ۱; اسكى رحمت كا مقدم ہونا ۴; اسكى حاكميت ۴، ۹; اسكى تدبير كى نشانياں ۵; اسكے رحمان ہونے كى نشانياں ۵; اسكى رحمت كا وسيع ہونا ۳

روايت : ۶، ۷، ۸، ۹

زمين:اسكى تدبير كا مركز ۲

عرش:اسكى حقيقت ۷، اس كا كردار ۲

قرآن :اسكے نزول كے اثرات ۵

____________________

۱ ) محاسن برقى ج ۱ ص ۲۳۸ ح ۱۲_ نور الثقلين ج ۳ ص ۳۷۱ ح ۲۷_

۱۲

آیت ۶

( لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا وَمَا تَحْتَ الثَّرَى )

اس كے لئے وہ سب كچھ ہے جو آسمانوں ميں ہے يا زمين ميں ہے يا دونوں كے درميان ہے اور زمينوں كى تہ ميں ہے (۶)

۱ _ خداتعالى آسمانوں اور زمين كا تنہا مالك ہے _له ما فى السموات و ما فى الا رض

''لا''كا مقد م ہوناحصر پر دلالت كرتا ہے _

۲ _ آسمانوں اور زمين كے درميان موجودات كا وجود _و ما بينهم

۳ _ زمين اور آسمانوں كے درميان موجود سب چيزوں كا مالك صرف خداتعالى ہے _له ...ما بينهم

۴ _ جہان خلقت ميں متعدد آسمان ہيں _له ما فى السموات

۵ _ جو كچھ كائنات كى نمناك خاك كے نيچے ہے خداتعالى كى ملكيت ہے _له ...و ما تحت الثرى

''ثرى '' نمناك مٹى كے معنى ميں ہے (مصباح) اور ''الثرى '' كا ''ال'' ظاہراً جنس كا معنى دے رہا ہے_ لذا ہر نمناك خاك كو شامل ہوجائيگا چاہے زمين ميں ہو يا كسى دوسرے كرہ ميں بلكہ چونكہ آيت ميں ''ما فى الا رض'' مذكور ہے اسلئے احتمال ہے كہ''ما تحت الثرى '' غير زمين سے مربوط ہو _

۶ _ خاك كى رطوبت اسكے نيچے قيمتى چيزوں اور منابع كے وجود كى علامت ہے _*له و ما تحت الثرى

۱۳

با وجوداس كہ جو كچھ خشك مٹى كے نيچے ہے وہ بھى خداتعالى كى ملكيت ہے خاك كے لئے نمناك ہونے كا وصف اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ تر خاك كے نيچے جو چيزيں موجود ہيں وہ خشك مٹى كے نيچے كى چيزوں كى نسبت زيادہ اہم ہيں _

۷ _ پورا عالم ہستى اور سب موجودات چاہے آشكار ہوں يا پنہاں خدائے يكتا كى ملكيت ہيں _

له ما فى السموات و ما فى الا رض و ما تحت الثرى

''آسمانوں ، زمين اورجو كچھ ان كے درميان ہے'' كى تعبير پورى كائنات سے كنايہ ہے _

۸ _ پورى كائنات كى ملكيت كا خداتعالى كے ساتھ منحصر ہونا اسكے كائنات پر محيط ہونے اور اس كا مدبرہونے كى دليل ہے _على العرش استوى له ما فى السموات و ما تحت الثرى

يہ آيت كريمہ سابقہ آيت كى علت بيان كررہى ہے اسى لئے اسكے ارتباط كيلئے حرف عطف سے استفادہ نہيں كيا گيا _

۹ _ اس بات كى طرف توجہ كہ قرآن اس خالق كى طرف سے نازل ہوا ہے جو پورى كائنات كا مدبر و مالك ہے قرآن كى نصيحت كو قبول كرنے كيلئے انسان كى حوصلہ افزائي كا سبب ہے _تذكرة ممن خلق الا رض استوى _ له ما فى السموات و ما تحت الثرى

آسمان :انكا متعدد ہونا۴; انكے موجودات ۱

جہان خلقت:اس كا مالك ۷

خاك:اسكى رطوبت كے اثرات ۶; تر خاك ۵

خداتعالى :اسكى خصوصيات ۳، ۸; اسكى حاكميت ۵; اسكے محيط ہونے كے دلائل ۸; اسكى تدبير كے دلائل ۸; اسكى مالكيت ۱، ۵، ۷، ۸

يادكرنا:قرآن كے وحى ہونے كو ياد كرنے كے اثرات ۹

حوصلہ:حوصلہ افزائي كے عوامل ۹

عبرت:اسكے عوامل ۹

فضا:اسكے موجوات ۲، ۳

قرآن مجيد:اس سے عبرت حاصل كرنا ۹

موجودات:انكا مالك : ۱، ۳، ۵، ۷

۱۴

آیت ۷

( وَإِن تَجْهَرْ بِالْقَوْلِ فَإِنَّهُ يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفَى )

اگر تم بلند آواز سے بھى بات كرو تو وہ راز سے بھى مخفى تر باتوں كو جاننے والا ہے (۷)

۱ _ جو انسان كہتا ہے اور اظہار كرتا ہے خداتعالى اس سے آگاہ ہے _و إن تجهر بالقول فإنّه يعلم السرّ

جملہ'' فإنّه يعلم ...'' '' إن تجهر'' كے جواب كا قائم مقام ہے اور آيت كريمہ كا معنى يہ ہے كہ اگر ظاہربات كريں ( تو خدا جانتا ہے) كيونكہ وہ راز اور اس سے بھى زيادہ مخفى شے كو بھى جانتا ہے ايسے موارد ميں علت كا بيان كرنا جواب شرط كى تصريح سے بے نياز كرديتا ہے _

۲ _ لوگوں كے وہ اسرار اور راز جنہيں وہ ظاہر نہيں كرتے اور انكى نيتيں خداتعالى كيلئے آشكار ہيں اور وہ ان سے مكمل طور پر آگاہ ہے _فإنّه يعلم السرّ ''سرّ'' يعنى وہ جو دوسروں سے چھپايا جاتا ہے (لسان العرب)

۳ _ انسان ايسے ضميركا حامل ہے جو اپنے آپ سے آگاہ نہيں ہے اور ايسى معلومات ركھتا ہے كہ جنہيں غفلت نے ڈھانپ ركھا ہے _فإنه يعلم السرّ و أخفى ''أخفى '' اسم تفصيل ہے اور از سے بھى زيادہ مخفى وہ چيز ہے كہ جسے انسان نے نہ صرف دوسروں سے مخفى ركھا ہوا ہے بلكہ خود بھى اسكى طرف متوجہ نہيں ہے ليكن يہ اسكے ذہن ميں نقش ہے_

۴ _ خداتعالى انسان كے بھولے ہوئے رازوں اور اسكے مخفى ترين اسرار سے آگاہ ہے_فإنّه يعلم ...أخفى

۵ _ خداتعالى علم مطلق ركھتا ہے اور غيب و ظاہر سے آگاہ ہے _فإنه يعلم السرّ و أخفى

۶ _ قرآن ا ور اسكى نصيحتوں كا سرچشمہ خداتعالى كا مطلق

۱۵

علم ہے _تذكرة فإنّه يعلم السرّ و أخفى

۷ _ خداتعالى كا انسان كے مخفى و آشكار سے آگاہ ہونا اسكى پورى كائنات اور اسكے اجزا پر مطلق حكمرانى اور ملكيت كا ايك جلوہ ہے_على العرش استوى _ له ما فى السموات فإنّه يعلم السرّ و أخفى

اس آيت كريمہ كا سابقہ آيات كے ساتھ ارتباط اس چيز كو بيان كر رہا ہے كہ چونكہ خداتعالى پورے عالم وجود پر حكمرانى كرتا ہے اور كائنات كا حقيقى مالك ہے پس وہ ہر چيز سے مطلع ہے اگر چہ وہ راز يا اس سے بھى زيادہ مخفى ہو _

۸ _ انسان تين درجے كے معلومات كا حامل ہے اظہار شدہ، راز، راز سے زيادہ مخفى _فإن تجهر بالقول فإنّه يعلم السرّو أخفى

۹ _ خداتعالى كے مخفى ترين افكار و گفتار سے آگاہ ہونے كى طرف توجہ ،انسان كو ناروا بات كرنے سے روكتى ہے_ *

و إن تجهر بالقول فإنّه يعلم السرّ و ا خفى جملہ ''فإنّہ ...'' كسى قسم كى فكر اور بات كے خدا تعالى سے پوشيدہ نہ ہونے كى دھمكى ہے اور اس دھمكى كو''إن تجهر بالقول'' پر متفرع كرنا اس چيز كا بيان ہے كہ ''القول'' سے مراد ايسى بات ہے كہ جسے نہ صرف زبان پر لانا ناروا ہے بلكہ ضرورى ہے كہ فكر بھى اسكے محتوا سے پاك ہو _

۱۰ _'' محمد بن مسلم قال: سا لت ا باعبدالله (ع) عن قول الله عزوجل: '' يعلم السرّ و ا خفى '' قال: ''السرّ'' ما كتمته فى نفسك، و ''ا خفي'' ما خطر ببالك ثم ا نسيته; محمد بن مسلم كہتے ہيں : ميں نے امام صادق (ع) سے خداتعالى كے فرمان ''يعلم السرّ و ا خفى '' كے متعلق سوال كيا تو آپ (ع) نے فرمايا : ''سر'' وہ ہے كہ جسے تو نے اپنے اندر پنہان كيا ہو اور '' ا خفى '' وہ ہے جو تيرے دل ميں خطور كرے اور پھر تيرے دل سے محو ہوجائے(۱) _

جہان خلقت :اس كا حاكم ۷

انسان:اسكے مختلف پہلو ۳; اسكے راز ۲، ۴، ۱۰; اسكى سخن ۱; اس كا ناخودآگاہ ضمير اسكے معلومات كے درجے ۳

خداتعالى :اسكے علم كے اثرات ۶; اس كا علم غيب ۱، ۲، ۴، ۵، ۷; اسكى حاكميت كى نشانياں ۷; اسكى مالكيت كى نشانياں ۷

ياد كرنا:خدا كے علم غيب كو ياد كرنے كے اثرات ۹

روايت :۱۰

____________________

۱ ) معانى الاخبار ص ۱۴۳ ح ۱_ نورالثقلين ج ۳۰ ص ۳۷۳ ح ۳۷_

۱۶

سخن:ناپسنديدہ سخن كے موانع ۹

غفلت :اسكے اثرات ۳

قرآن مجيد:اس كا سرچشمہ ۶

آیت ۸

( اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ لَهُ الْأَسْمَاء الْحُسْنَى )

وہ اللہ ہے جس كے علاوہ كوئي خدا نہيں ہے اس كے لئے بہترين نام ہيں (۸)

۱ _ خدا تعالى كے علاوہ كوئي معبود لائق عبادت نہيں ہے _الله لا إله إلا هو

۲ _ جو ذات عالم وجود كى خالق اور مدبر و مالك نہ ہو اور اسكى سب چيزوں كو نہ جانتى ہو وہ لائق عبادت نہيں ہے _

الله لا إله إلا هو

مندرجہ بالا نكتہ اس آيت كے سابقہ آيات كے ساتھ ارتباط سے حاصل ہوتا ہے كہ جن ميں خالقيت، فرمانروائي ، كائنات كى مالكيت اور علم مطلق كو خداتعالى كے ساتھ منحصر كيا گيا ہے _

۳ _ بہترين نام اور اوصاف خدائے يكتا و جميل كيلئے ہيں _له الا سماء الحسنى

''الا سمائ'' جمع معرف با لام ہے جو مفيد عموم ہے اور '' الحسنى '' اسم تفصيل ہے اور آيت كريمہ كا مطلب يہ ہے كہ سب بہتر اور خوبصورت نام خداتعالى سے مختص ہيں _ ناموں كى حسن و خوبى كے ساتھ توصيف اس چيز كو بيان كر رہى ہے كہ مقصود وہ نام ہيں جنہيں صرفى اصطلاح ميں صفت كہا جاتا ہے جسے رازق، شكور، رحيم كيونكہ جس نام كا وصف والا معنى نہيں ہوتا وہ صرف ذات پر دلالت كرتا ہے اور اسكے بارے ميں خوبصورتى اور بدصورتى معنى نہيں ركھتي_

۴ _ خداتعالى سب كمالات كا حامل اور ہر نقص و عيب سے منزہ ہے _

۱۷

له الا سماء الحسنى جو نام نقص و عيب كو بيان كررہا ہو وہ ''اسماء حسنى '' كا مصداق نہيں ہے اور خداتعالى پر صدق نہيں كرتا لذا وہ ہر عيب سے پاك ہے_

۵ _ خداتعالى كے علاوہ ہر چيز نقص و عيب ركھتى ہے اور كمال مطلق سے عارى ہے _له الا سماء الحسنى

''لہ '' كا مقدم كرنا حصر پر دلالت كرتا ہے يعنى جو تمام اسماء حسنى ركھتا ہے وہ صرف خداتعالى ہے_

۶ _ صرف وہ معبود لائق عبادت ہے جو بہترين اوصاف كمال ركھتا ہو_الله لا إله إلا هو له الا سماء الحسنى

اسماء و صفات:اسمائ حسنى ۳; صفات جلال۴; صفات جمال ۴

توحيد:توحيد عبادى ۱

نظريہ كائنات:توحيدى نظريہ كائنات۱

خداتعالى :اسكى تنزيہ ۴; اس كا كمال ۴

صفات:بہترين صفات ۳

حقيقى معبود:اسكى تدبير۲; اس كا خالق ہونا۲; اسكى شرائط ۲، ۶; اس كا علم۲; اس كا كمال ۶; اس كا مالك ہونا۲

نام:بہترين نام ۳

نقص:غير خدا ميں نقص ۵

آیت ۹

( وَهَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ مُوسَى )

كيا تمھارے پاس موسى كى داستان آئي ہے (۹)

۱ _ حضرت موسى كى داستان ايك اہم باب ہے اوروہ پيغمبر اكرم(ص) كيلئے قابل فكر و پيروى ہے_

۱۸

و هل ا تى ك حديث موسى

۲ _ حضرت موسى (ع) كى زندگى كى تاريخ اور واقعات، دينى راہنماؤں اور مبلغين كيلئے سبق آموز، قابل توجہ اور قابل غور و فكر ہيں _و هل ا تى ك حديث موسى

۳ _ مخاطب كو گفتار ميں دقت كرنے پر آمادہ كرنا اور اسے گفتگوسننے كى تشويق دلانا اطلاع پہچانے كى ايك اچھى روش ہے_

هل ا تى ك حديث موسى

''ہل ا تاك ...'' كا استفہام مجازى اور توجہ سے سننے كى تشويق دلانے كيلئے ہے _

تبليغ:اسكى روش ۳

تفكر:حضرت موسى (ع) كے قصے ميں تفكر ۱

يادكرنا:حضرت موسى (ع) كے قصے كو ياد كرنا ۲

دينى راہنما:انكى عبرت ۲

عبرت:اسكے عوامل ۲

مبلغين:انكى عبرت ۲

موسى (ع) :انكے قصے كى اہميت ۱; انكے قصے سے عبرت حاصل كرنا ۲

آیت ۱۰

( إِذْ رَأَى نَاراً فَقَالَ لِأَهْلِهِ امْكُثُوا إِنِّي آنَسْتُ نَاراً لَّعَلِّي آتِيكُم مِّنْهَا بِقَبَسٍ أَوْ أَجِدُ عَلَى النَّارِ هُدًى )

جب انھوں نے آگ كو ديكھا اور اپنے اہل سے كہا كہ تم اسى مقام پر ٹھہرو ميں نے آگ كو ديكھا ہے شايد ميں اس ميں سے كوئي انگارہ لے آؤں يا اس منزل پر كوئي رہنمائي حاصل كرلوں (۱۰)

۱ _ حضرت موسى (ع) اور انكى فيملى رات كے وقت بيابان ميں چلتے ہوئے سرگردان ہوگئے اور راستہ گم كر بيٹھے _

إذ رء ا ناراً بقبس ا و ا جد على النّار هدى ًجمله''أجد على النّارهديً'' دلالت كر رہا ہے كہ حضرت موسى (ع) اور انكے ہمراہى راستہ گم كر بيٹھے تھے اور آگ كے نہ ہونے سے پتا چلتا ہے كہ يہ لوگ بيابان ميں سرگردان تھے_ اور نسبتاً دور سے آگ كو ديكھنا اور آگ كے وجود كے احتمال كے با وجود مل كر اسكى طرف حركت كا ارادہ نہ كرنا اس سے رات ہونے اور علاقہ كے تاريك ہونے كا پتا چلتا ہے_

۱۹

۲ _ حضرت موسى (ع) اپنے سفر ميں اپنى بيوى كے علاوہ اپنے گھركے ديگر افراد كو بھى اپنے ہمراہ ركھتے تھے_

فقال لا هله امكثو فعل ''امكثوا' ' كہ جو جمع كى صورت ميں ہے مندرجہ بالا نكتہ پر دلالت كرتا ہے _

۳ _ حضرت موسى (ع) نے بيابان ميں سرگردانى كے دوران آگ ديكھى اور اپنى فيملى كو اسكى بشارت دى _

إذ رء اناراً فقال إنى ء انست نار ا

(ء انست كا مصدر) ''ايناس'' احساس كرنے، ديكھنے، جاننے اور سننے كے معنوں ميں استعمال ہوتا ہے( لسان العرب) مورد آيت كى مناسبت سے يہاں ديكھنا مراد ہے_

۴ _ حضرت موسى (ع) كے خاندان اور انكے ہمراہيوں نے اس آگ كو نہيں ديكھا جس كا حضرت موسى (ع) نے مشاہدہ كيا تھا _*فقال لا هله امكثو إنى ء انست نارا

حضرت موسى (ع) كا يہ كہنا كہ ''ميں نے آگ ديكھى ہے '' اس سے يہ احتمال دياجاسكتا ہے كہ آپ كے ہمراہ ديگر افراد نے وہ آگ نہيں ديكھى تھى ورنہ حضرت موسى (ع) ديكھنے كو اپنے ساتھ مختص نہ كرتے _

۵ _ حضرت موسى (ع) نے آگ جلا كرنے يا كوئي راہنما تلاش كرنے كى خاطر آگ لانے كيلئے آگ كى جگہ تك جانے كا عزم كيا_لعلى ء اتيكم منها بقبس ا و ا جد على النّار هديً

''قبس'' يعنى انگارہ اور وہ آگ لگى لكڑى كہ جسے دوسرى آگ جلا كرنے كيلئے آگ سے نكالا جائے (لسان العرب)''ہديً''مصدر ليكن اسم فاعل ''ہادي'' كے معنى ميں ہے اور حرف ''ا و'' دو ميں سے ايك كام كو معين كرنے كيلئے ہے يعنى حضرت موسى كا خيال يہ تھا كہ اگر كوئي راہنما مل گيا تو سفر جارى ركھيں گے ورنہ آگ لاكر آگ سينكيں گے_

۶ _ حضرت موسى (ع) نے اپنے گھروالوں سے كہا كہ وہ وہيں انتظار كريں اور آگ كى جگہ تك ان كے ہمراہ نہ آئيں _

فقال لا هله امكثوا إنى ء انست نارا ''مكث'' كا معنى ہے انتظار كرنا (قاموس) _

۷ _ بيوى بچوں كى خدمت اور انكى ضروريات پورى كرنے كيلئے كوشش كرنا ايك پسنديدہ كام ہے _

۲۰