تفسير راہنما جلد ۱۱

تفسير راہنما 0%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 750

تفسير راہنما

مؤلف: آيت الله ہاشمى رفسنجاني
زمرہ جات:

صفحے: 750
مشاہدے: 173819
ڈاؤنلوڈ: 1993


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4 جلد 5 جلد 6 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 750 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 173819 / ڈاؤنلوڈ: 1993
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد 11

مؤلف:
اردو

۶ _ آدم(ع) و حوا(ع) كے زمين پر اتر نے كا لازمہ پورى نسل انسانى كو اس ميں باقى ركھنا ہے_قال اهبطا بعضكم لبعض عدو فإما يأتينكم ''بعضكم'' اور ''يا تينكم'' كى جمع كى ضميرويں اس نكتے كو بيان كررہى ہيں كہ ہبوط والے حكم كے صادر ہونے كے وقت زمين ميں انسانى زندگى كا مسلسل ہونا قطعى تھا_

۷ _ زمين ميں انسان كى زندگى ہميشہ انسانوں كى آپس ميں دشمنى اور مخالفت كے ہمراہ رہى ہے_اهبطا منها جميعاًبعضكم لبعض عدو ''بعضكم لبعض عدو'' كے بارے ميں دو نظر ہيں ۱_ اس سے مراد شياطين كى انسانوں كے ساتھ دشمنى ہے اس نظريے كے مطابق ''اہبطا'' ابليس اور آدم(ع) كو خطاب ہوگا ۲_ اس سے مراد انسانوں كى آپس كى دشمنى ہے اس نظريہ كى بنياد يہ ہے كہ ''اہبطا'' كے مخاطب آدم(ع) و حوا ہيں _ دونوں صورتوں ميں آدم(ع) اور حوا و ابليس كو مخاطب بنانا انكى اولاد كے لحاظ سے ہوگا _مذكورہ مطلب دوسرے نظريے كى بنياد پر ہے_

۸ _ انسان اور شيطان ايسے دشمن ہيں كہ جن ميں صلح كا امكان نہيں ہے_اهبطا بعضكم لبعض عدو

مذكورہ مطلب ميں ''اہبطا'' آدم(ع) اور ابليس كو خطاب ہے _

۹ _ حضرت آدم(ع) كى بہشت ايسى جگہ تھى كہ جس ميں صلح و آشتى ، اور مكمل ضروريات كى فراہمى تھى اور اسكے باسيوں كے درميان دشمنى نہيں تھى _إن لك ألاّ تجوع اهبطا بعضكم لبعض عدو

چونكہ افراد بشر كى آپس ميں دشمنى كا موضوع، سزا اور ہبوط كے عنوان سے ذكر كيا گيا ہے اس سے لگتا ہے كہ حضرت آدم(ع) كے پہلے گھر (بہشت) ميں يہ چيز نہيں تھى اور ضروريات كى فراہمى كى وجہ سے اس ميں دشمنى كا پيش خيمہ ہى نہيں تھا _

۱۰ _ خداتعالى نے زمين پر انسان كے اترنے كے آغاز سے ہى اسكى زندگى كيلئے رہنمائي اور منصوبہ بندى كرركھى تھي_اهبطا منها فإما ياتينكم منّى هديً ''إما ياتينّكم'' ميں مخاطب صرف انسان ہيں (اگرچہ ''اہبطا'' كے مخاطب آدم(ع) اورو ابليس ہيں ) كيونكہ شياطين كى گمراہى كے حتمى ہونے كے بعد انہيں ہدايت دينا بے سود ہے_

۱۱ _ انسان كو ہدايت سے بہرہ مند كرنا انسان كے پہلے افراد كو خداتعالى كى بشارت _اهبطا فإما ياتينكم منى هديً

''إما ياتينكم'' دو تاكيدوں پر مشتمل ہے_ ۱_''امّا'' (ان ما) ميں مازائدہ _۲_ نون تاكيد اس طرح عبارت كا معنى يہ ہے كہ اگر ميرى طرف سے تمہارے پاس ہدايت آئي_ كہ جو يقينا آئيگي

۲۴۱

۱۲ _ آدم(ع) و حوا(ع) كے ممنوعہ درخت سے كھانے كى وجہ سے انسانوں ميں دشمنى پيدا ہونے كے اسباب فراہم ہوئے _فأكلا بعضكم لبعض عدو

۱۳ _ خداتعالى نے افراد بشر كى آپس كى دشمنى كے بارے ميں آدم(ع) و حوا(ع) كو مطلع كرديا اور انہيں اسكے نتائج سے بچنے كا راستہ بھى دكھا ديا تھا_بعضكم لبعض عدو فمن إتبع هداى فلا يضل و لا يشقى

۱۴ _ خدا تعالى كى ہدايات كى پيروى انسان كو زمين پر رہنے والوں كى باہمى كشمكش اوردشمنى كے برے انجام سے بچاتى ہے _بعضكم لبعض عدو فإما ياتينكم منى هديً

۱۵ _ انسان ہدايت يا گمراہى كے راستے كے انتخاب كے سلسلے ميں با اختيار ہے_فاما ياتينكم منى هديً فمن اتبع هداي

۱۶ _ ہدايت الہى كى پيروى گمراہى اور بدبختى سے مانع ہے_فمن اتّبع هداى فلا يضل و لايشقى

۱۷ _ ہدايات الہى سے روگردانى انسان كى گمراہى اوراسكے رنج و الم ميں گرفتار ہونے كا سبب ہے_فمن اتبع هداى فلا يضل و لا يشقى '' شقاوت'' كا معنى ہے سختى اور دشوارى (قاموس) اور بعد والى آيت قرينہ ہے كہ اس سے مراد زندگى كا دباؤ اور مشكلات ہيں _

۱۸ _ انسان، غلطيوں سے بچنے اور خوش بختى تك پہنچنے كيلئے ہدايت الہى كا محتاج ہے_فمن اتّبع هداى فلا يضل و لا يشقى

آدم (ع) :انكے دھوكہ كھانے كے اثرات ۳; يہ اور ممنوعہ درخت ۱، ۳، ۱۲; انہيں بہشت سے نكالنا ۲، ۳; انكى بہشت ميں امن ۹; انكو بشارت ۱۱; انكى بہشت ميں ضروريات كى فراہمى ۹; انكى بہشت سے نكالنے كا پيش خيمہ ۴; انكے ہبوط كا پيش خيمہ ۴; انكى بہشت ميں صلح ۹; انكى محروميت كے عوامل ۱; انكى بہشت سے محروميت كے عوامل ۱; انكے ہبوط كے عوامل ۳; انكے ھبوط كا فلسفہ ۶; انكا قصہ ۱، ۲; انكا معلم ۱۳; انكى بہشت كى خصوصيات ۹

اطاعت:خداتعالى كى اطاعت كے اثرات ۱۴، ۱۶

انسان:اس كا اختيار ۱۵; زمين ميں اسكى نسل كى بقا۶; اسكے دشمن ۸; اس كى دشمني۷، ۱۳; اس كى دشمنى كا پيش

۲۴۲

خيمہ ۱۲; اسكے انحطاط كے عوامل ۵; اسكى نجات كے عوامل ۱۴; اسكى معنوى ضروريات ۱۸; اسكى ہدايت ۱۰

بشارت:ہدايت كى بشارت ۱۱

جبر و اختيار ۱۵

حوا(ع) :انكے دھوكہ كھانے كے اثرات ۳; يہ اور ممنوعہ درخت ۱، ۳، ۱۲; ان كے ھبوط كا پيش خيمہ ۴; انكى محروميت كے عوامل ۱; ان كے ھبوط كے عوامل ۳; ان كے ھبوط كا فلسفہ ۶; انكا معلم ۱۳

خداتعالى :اسكى بشارتيں ۱۱; اسكى تعليمات ۱۳; اسكى راہنمائي ۱۰; اسكى ہدايات ۱۱، ۱۸

ممنوعہ درخت:اس سے كھانے كے اثرات ۱، ۱۲

دشمني:اس سے نجات كے عوامل ۱۴; اس سے نجات ۱۳

زمين:اس ميں دشمنى ۷

سختى :اسكے عوامل ۱۷

سعادت:اسكے عوامل ۱۸

شخصيت:اسكى آسيب شناسى ۵

شقاوت:اسكے موانع ۱۶

شيطان:اسكے دھوكہ دينے كے اثرات ۲، ۴; اسكے وسوسوں كے اثرات ۳، ۴; اسے نكال باہر كرنا ۲; اسكى دشمنى ۸; اس كا نقش و كردار ۴; اس كا ہبوط ۲

نافرماني:خداتعالى كى نافرمانى كے اثرات ۵،۱۷

گمراہي:اس كا پيش خيمہ ۱۵; اسكے عوامل ۱۷، اس كے موانع ۱۶

ضروريات:ہدايت الہى كى ضرورت ۱۸

ہدايت:اس كا پيش خيمہ ۱۵

۲۴۳

آیت ۱۲۴

( وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكاً وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَى )

اور جو ميرے ذكر سے اعراض كرے گا اس كے لئے زندگى كى تنگى بھى ہے اور ہم اسے قيامت كے دن اندھا بھى محشور كريں گے (۱۲۴)

۱ _ہدايت الہى اور اسكى ياد سے روگردانى لئے انسان كے لئے سخت اور مشكلات سے پر زندگى ميں گرفتار ہونے كا سبب ہے_من اتبع هداى و من أعرض عن ذكرى فإن له معيشة ضنك

''معيشة'' يا تو مصدر ميمى ہے اور يا ''ما يعاش بہ'' كے معنى ميں ہے يعنى وہ چيز جسكے ساتھ زندگى گزرتى ہے '' ضنك'' كا معنى ہے تنگى اور سختى (لسان العرب)

۲ _ ہدايت الہى كى پيروى اور خدا كى ياد ميں رہنا زندگى كى آسانى اور مشكلات كے دور ہونے كا سبب ہے_

من اتبع هداي لا يشقى _ و من أعرض عن ذكرى فإن له معيشة ضنك

۳ _ الہى تفكر اور ہدايات كو مدنظر ركھے بغير دنياوى زندگي ايك تنگ اور محدود زندگى ہے_و من أعرض عن ذكرى فان له معيشة ضنك جس طرح خداتعالى نے ديگر آيات ميں دنياوى زندگى كو''متاع قليل'' قرار ديا ہے ممكن ہے اس آيت ميں بھى دنياوى زندگى كو ''تنگ'' زندگى كے طور پر متعارف كرايا ہو يعنى دنيا ہر حد و اندازے اور ہر مقدار ميں اگر ہدايت سے خالى ہو تو يہ ''تنگ زندگي'' كے سوا كچھ نہيں ہوگى كيونكہ بلا مقصد اور آخرت پر اعتقاد كے بغير زندگى تھكا دينے والي، روزمرہ كا تكرار اور فضول زحمت ہے_

۴ _ہدايت الہى كى پيروى اور اسكى طرف توجہ ياد خدا كا جلوہ ہے_من اتبع هداي و من أعرض عن ذكري

اس آيت ميں ''من ا عرض'' سابقہ آيت ميں ''من اتبع'' كے مقابلے ميں ہے مقابلے كا تقاضا يہ تھا كہ فرماتا'' و من لم يتبع هداي'' ليكن اس كے بجائے فرمايا ہے ''و من أعرض عن ذكري'' اس انتخاب كى وجہ يا تو ہدايت ميں ذكر خدا كا كردار ہے اور يا ذكر و ہدايت كا ايك ہوناہے_

۵ _ ہدايت الہى اور ياد خدا سے روگردانى كرنے والے ميدان قيامت ميں اندھے محشور ہوں گے_

و من أعرض عن ذكري و نحشره يوم القيامة ا عمى

۲۴۴

۶ _ ہدايت الہى اور ہميشہ خدا كى ياد ميں رہنا زندگى ميں بصيرت كا سبب ہے _و من أعرض عن ذكرى و نحشره يوم القيامة ا عمى گمراہ لوگوں كا اندھا محشور ہونا دنيا ميں ان كے ہدايت كو ديكھنے اور پانے سے اندھا ہونے كا نتيجہ ہے_ اس خاص سزا سے يہ نتيجہ ليا جاسكتا ہے كہ ہدايت، زندگى كى راہ ميں بصيرت كا سبب ہے_

۷ _ قيامت كے دن حقائق واضح ہوجائيں گے_و نحشره يوم القيامة اعمى

۸ _ قيامت انسانوں كو جمع كرنے اور ان كو حاضر كرنے كا دن ہے _و نحشره يوم القى مة

''حشر'' كا معنى ہے جمع كرنا كہ جس كے ہمراہ پيچھے سے چلانا اور ہانكنا ہو (مقاييس اللغة) يہ كلمہ صرف گروہ كے بارے ميں استعمال ہوتا ہے (مفردات راغب) اور آيت كريمہ ميں ضمائر اگر چہ مفرد كى استعمال كى گئي ہيں ليكن چونكہ ياد خدا سے غافل سب لوگوں كا انجام يہى ہوگا اس لئے ''حشر''كو در حقيقت گروہ كى طرف نسبت دى گئي ہے_

۹ _ قيامت كو برپا كرنا اور اس ميں ياد خدا سے غافل لوگوں كو حاضر كرنا خداتعالى كے اختيار ميں ہے اوروہ اسكے ارادے سے مربوط ہے_و نحشره يوم القيامة اعمى

۱۰ _ مشكل زندگى ياد خدا سے غافل ہونے كا فطرى اثر اور روز قيامت نابينائي اسكى الہى سزا ہے_فإن له معيشة ضنكاً و نحشره يوم القيامة اعمى ''فإن له ...'' اور''نحشره ...'' كى تعبيروں ميں فرق كہ دوسرى كو خداتعالى كى طرف نسبت دى گئي ہے اور پہلى خود عمل پر متفرع ہوئي ہے ممكن ہے مذكورہ مطلب كى طرف اشارہ ہو_

۱۱ _ دنيا ميں سخت زندگى اور قيامت ميں نابينا محشور ہونا انسان كى گمراہى اور بدبختى كے جلوے ہيں _

فمن اتبع هداى فلا يضل و لا يشقى _ و من أعرض عن ذكرى فإن له معيشة ضنكاً و نحشره يوم القيامة ا عمى

مذكورہ مطلب ہدايت يافتہ اور غافلين كے گروہوں كے درميان تقابل كا لازمہ ہے كہ جسے دو آيتيں مجموعى طور پر بيان كر رہى ہيں _

۱۲ _'' عن ا مير المؤمنين (ع) : و إن المعيشة الضنك التى حذر الله منها عدوه ه عذاب القبر، انّه يسلط على الكافر فى قبره تسعة و تسعين تنينا فينهشن لحمه و يكسرن عظمه و يترددن عليه كذلك إلى يوم يبعث ; اميرالمؤمنين(ع) سے روايت كى گئي ہے''معيشة ضنك'' كہ جس سے خداتعالى نے اپنے دشمنوں كو ڈرايا ہے عذاب قبر ہے

۲۴۵

خداتعالى كافر پر اسكى قبر ميں ۹۹ سانپ مسلط كرتا ہے كو جو اسكے گوشت كو ڈستے ہيں اور اسكى ہڈى كو توڑتے ہيں اور اسى طرح اس پر آتے جاتے رہتے ہيں اس دن تك كہ اسے اٹھايا جائے _(۱)

۱۳ _'' معاوية بن عمار عن ا بى عبدالله (ع) قال: سا لته عن رجل لم يحج قط و له مال قال: هو ممّن قال الله : '' و نحشره يوم القيامة ا عمى '' قلت : سبحان الله ا عمي؟ قال: ا عماه الله عن طريق الجنة; معاويہ بن عمار كہتے ہيں ميں نے امام صادق(ع) سے اس شخص كے بارے ميں سوال كيا جسكے پاس مال تھا ليكن اس نے حج نہ كيا تو آپ (ع) نے فرمايا يہ ان لوگوں ميں سے ہے جنكے بارے ميں خداتعالى نے فرمايا ہے '' و نحشرہ يوم القيامة ا عمى '' ميں نے كہا سبحان الله نابينا؟ فرمايا خداتعالى نے اسے بہشت كا راستہ (ديكھنے) سے نابينا كرديا ہے(۲) _

اطاعت:خدا كى اطاعت كے اثرات ۲، ۴

انسان:اس كا محشور ہونا ۸; اسكى شقاوت كى نشانياں ۱۱; اسكى گمراہى كى نشانياں ۱۱

بصيرت:اسكے عوامل ۶

حج:تاركين حج قيامت ميں ۱۳; تاركين حج كا آخرت ميں اندہھاپن ۱۳

خداتعالى :اس سے روگردانى كے اثرات ۱۰; اسكى ہدايت كے اثرات ۳، ۶; اس كا ارادہ ۹; اسكے افعال ۹; اس سے غفلت كرنے والوں كا آخرت ميں اندھاپن ۱۰; اس سے روگردانى كى سزا ۱۰

ذكر:ذكر خدا كے اثرات ۲،۶; ذكر خدا كى نشانياں ۴

روايت: ۱۲، ۱۳

زندگي:اسكى سختى ۱۱; اسے آسان كرنے كے عوامل۱; اسكى سختى كے عوامل ۱، ۳، ۱۰; سخت زندگى سے مراد ۱۲

سختي:اسے دور كرنے كے عوامل ۲

نافرماني:خدا كى نافرمانى كے ا ثرات ۱

غافلين:ان كا آخرت ميں اندھاپن۵; ان كے محشورہونا كا سرچشمہ ۹

غفلت:خدا سے غفلت كے اثرات ۱/قيامت:

____________________

۱ ) امالى شيخ طوسى ج۱، ص۲۷; تفسير برہان ج۳، ص ۴۸، ح۹_ ۲ ) تفسير قمى ج۲، ص ۶۶_ نورالثقلين ج۳، ص ۴۰۶، ح ۱۷۳_

۲۴۶

اس ميں حقائق كا ظہور۷; اس ميں اندھاہونے كے عوامل ۱۰; اس ميں اندھا ہونا۱۱; اس ميں محشور ہونے كا سرچشمہ ۹

كفار:انكا عذاب قبر ۱۲

گمراہ لوگ:ان كا آخرت ميں اندھاپن ۵

خدا سے اعراض كرنے والے:ان كا آخرت ميں اندھاپن ۵، ۱۰

آیت ۱۲۵

( قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِي أَعْمَى وَقَدْ كُنتُ بَصِيراً )

وہ كہے گا كہ پروردگار يہ تونے مجھے اندھا كيوں محشور كيا ہے جب كہ ميں دار دنيا ميں صاحب بصارت تھا (۱۲۵)

۱ _ ہدايت اور ياد الہى سے روگردانى كرنے والے روز قيامت نابينا محشور ہوں گے _قال رب لم حشرتنى أعمى

۲ _ ياد خدا سے غافل لوگ روز قيامت تعجب كے ساتھ اور شكايت كے انداز ميں خداتعالى سے اپنے اندھے ين كى علت كے بارے ميں سوال كريں گے_قال رب لم حشرتنى أعمى

۳ _ ياد خدا سے غافل لوگ روز قيامت محشور ہونے كے بعد اپنى نجات كے راستے كى شناخت سے ناتوان ہوں گے_ *

قال رب لم حشرتنى أعمى ممكن ہے اندھے پن سے مراد قيامت كے ماحول اور اسكى مشكلات سے نجات كا راستہ پانے سے آگاہ نہ ہونا ہو اس بناپر ''قد كنت بصيراً'' كہنے والے اپنے آپ كو اس طرح سمجھتے ہيں كہ جو دنيا ميں سب چيزوں كو خوب سمجھتے تھے اور عميق فكر ركھتے تھے_

۴ _ روز قيامت انسان كو خداتعالى سے سوال پوچھنے كى اجازت ہے _قال رب لم حشرتنى أعمى

''قال'' كے ظاہر سے يوں لگتا ہے كہ يہ سوال لفظوں ميں ہوگا اور نابيناؤں كى طرف سے روز قيامت كيا جائيگا _

۵ _ قيامت كے دن انسان اپنے نقائص كو درك اور محسوس كريگا _قال رب لم حشرتنى أعمى

۶ _ ياد خدا سے اعراض كرنے والے ميدان قيامت ميں

۲۴۷

حاضر ہوكر خداتعالى كى ربوبيت كا اعتراف كريں گے _قال رب

۷ _ بصيرت و بينائي كو عطا كرنا اور اس كا چھيں لينا خداتعالى كى ربوبيت كے جلوے ہيں _قال رب لم حشرتنى أعمى

۸ _ حاضرين قيامت خداتعالى كو انسانوں كا محشور كرنے والا او رفہم و درك كى قوتوں كا اختيار ركھنے والا سمجھتے ہيں _

لم حشرتنى أعمى

۹ _ ياد خدا سے غافل لوگ قيامت ميں حاضر ہونے كے وقت اپنى دنياوى زندگى كو ہوشمندانہ قرار ديكر فہم و درك كے راستے كے بند ہونے سے تعجب كريں گے_*قال رب لم حشرتنى أعمى و قد كنت بصيرا

مذكورہ مطلب بالا اس بنا پر ہے كہ ''ا عمى '' سے مراد''دل كا اندھا'' ہو_

۱۰ _ قيامت كے دن انسان دنيا ميں زندگى كے حالات اور اس ميں اپنى جسمانى خصوصيات سے آگاہ ہوگا_

قال رب لم حشرتنى أعمى و قد كنت بصير

۱۱ _ حاضرين قيامت كى نظر ميں ضرورى ہے كہ انسان كا وہاں كا جسم اسكے دنياوى بدن جيسا ہو _لم حشرتنى أعمى و قد كنت بصير

۱۲ _ روز قيامت انسان كا محشور ہونا جسمانى خصوصيات كے ہمراہ ہوگا _قال رب لم حشرتنى أعمى و قد كنت بصير

۱۳ _ ہدايت الہى كى پيروى روز قيامت بصيرت اور بينائي كا سبب ہے _فمن اتبع هداي و من اعرض لم حشرتنى أعمى

۱۴ _ خدا سے غفلت كے ہوتے ہوئے گہرى فكر بھى در حقيقت اندھاپن اور بے بصيرتى ہے_لم حشرتنى أعمى و قد كنت بصير قيامت ميں اندھاپن دنيا ميں انسان كى حقيقت كا جلوہ ہے يعنى اگر چہ وہ اپنے آپ كو با بصيرت سمجھتا ہے ليكن در حقيقت بصيرت سے عارى ہے_

اطاعت:خدا كى اطاعت كے اثرات ۱۳

اقرار:ربوبيت خدا كا اقرار ۶/اندھاپن:اس كا سرچشمہ ۷

انسان:اسكى اخروى سوچ ۸، ۱۱; اس كا اخروى تنبہ ۱۰; اسكے محشورہونے كا سرچشمہ ۸; اسكے درك كا سرچشمہ ۸; اسكے محشور ہونے كى خصوصيات ۱۲

بصيرت:اخروى بصيرت كے عوامل ۱۳; اس كا سرچشمہ ۷

۲۴۸

خداتعالى :اسكے افعال ۸; اس سے سوال ۲، ۴; اسكى ربوبيت كى نشانياں ۷

خدا سے اعراض كرنے والے:انكا اخروى اقرار ۶; انكا اخروى تعجب ۹; انكا محشور ہونا۱، ۳; انكا عجز ۳; انكا اخروى اندھاپن ۱; انكى دنيوى ہوشيارى ۹

غافلين:انكا اخروى اقرار۶; انكا اخروى سوال ۲; انكا اخروى تعجب ۲، ۹; انكا محشور ہونا ۳; انكا عجز ۳; انكا اخروى اندھاپن ۱، ۲; انكا اندھاپن ۱۴; انكا اخروى گلہ ۲

غفلت:خداتعالى سے غفلت كے اثرات ۱۴

قيامت:اس ميں سوال ۴; اس ميں نقائص كا درك ۵; اس ميں حقائق كا ظہور ۵، ۱۰

گمراہ لوگ:ان كا محشور ہونا۱; ان كا اخروى اندھاپن ۱

معاد:معاد جسمانى ۱۱، ۱۲

آیت ۱۲۶

( الَ كَذَلِكَ أَتَتْكَ آيَاتُنَا فَنَسِيتَهَا وَكَذَلِكَ الْيَوْمَ تُنسَى )

ارشاد ہوگا كہ اسى طرح ہمارى آيتيں تيرے پاس آئے اور تونے انھيں بھلاديا تو آج تو بھى نظر انداز كرديا جائے گا (۱۲۶)

۱ _ خداتعالى نے بشر كى ہدايت اور اسے ياد دہانى كرانے كيلئے متعدد آيات بھيجى ہيں _قال كذلك ا تتك ء اتين

۲ _ آيات اور ہدايت الہى كو فراموش كرنا اوران سے غافل ہونا روز قيامت نابينا محشور ہونے كا سبب ہے _

لم حشرتنى ا عمى قال كذلك ا تتك و ء آيا تنا فنسيته

۳ _ خداتعالى فرائض كے بيان كرنے اور انہيں بندوں تك پہچائے بغير انہيں سزا نہيں ديتا_قال كذلك ء اتيتك ء اى تن

روز قيامت غافلين كو كہا جائيگا''اتتك ء اياتنا'' يعنى تيرے پاس ہمارى آيات آئيں تھيں نہ يہ كہ ہم نے آيات بھيجيں تھيں آپ تك پہنچى ہوں يا نہ لہذا خداتعالى نے مواخذے كا معيار آيات كے ابلاغ كو قرار ديا ہے _

۴ _ مجرمين كا خداتعالى سے سوال اور اس كا جواب وصول كرنا ميدان قيامت كے واقعات ميں سے _

رب لم حشرتني قال كذلك ا تتك اى تن

''قال كذلك'' كے ظاہر سے يوں محسوس ہوتا ہے كہ ''لم حشرتني'' كے سوال كا جواب بھى الفاظ كے ساتھ بيان ہوگا نہ كہ صرف نفس ميں ايك حالت پيدا ہوگى

۲۴۹

اگر چہ ممكن ہے يہ جواب بلاواسطہ نہ ہو بلكہ فرشتوں و غيرہ كے ذريعے انجام پائے _

۵ _ خداتعالى كى طرف سے پہنچائي گئي ہدايات اسكى آيات ہيں _إما يا تينكم منى هديً فمن اتبع هداي قال كذلك ا تتك أى تن گذشتہ آيات ميں ''ہدايت'' كلام كامحور تھا اس آيت ميں ''ہدايات الہى ''كہ جن كا ''ہديً'' اور ''ہداي'' كے ساتھ تذكرہ كيا گيا ہے_كو ''آياتنا'' كے ساتھ تعبير كيا گيا ہے تا كہ اس حقيقت كو بيان كرے كہ ہدايات الہى وہى اسكى آيات ہيں _

۶ _ روز قيامت خداتعالى آيات اور معارف الہى كى اعتناء نہ كرنے والے افراد سے روگردانى كرے گا اور انكى اعتنا نہيں كريگا_أتتك آيا تنا فنسيتها و كذلك اليوم تنسى فعل ''تنسى '' ميں اگر چہ فاعل نامعلوم ہے ليكن (گذشتہ آيت ميں ) ''رب لم حشرتني'' كے قرينے سے كہاجاسكتا ہے كہ فاعل خداتعالى ہے_ نسيان دو معنوں كے درميان مشترك ہے ۱_ غفلت كى وجہ سے ترك كرنا ۲_ جان بوجھ كر ترك كرنا (مصباح) گذشتہ آيات قرينہ ہيں كہ اس آيت ميں دوسرا معنى مراد ہے_

۷ _ آيات اور ہدايات الہى سے غفلت اور انہيں فراموش كردينا روز قيامت انسان كے خداتعالى كى توجہات و عنايات سے محروم ہونے كا ايك عامل ہے_أتتك آيا تنا فنسيتها و كذلك اليوم تنسى

(گذشتہ آيات ميں مذكور) ''من أعرض عن ذكري'' قرينہ كہ ہے ''نسيتہا'' ميں نسيان سے مراد آيات الہى سے روگردانى اور بے اعتنائي ہے اور اس كا ''تنسى '' كے ساتھ تقابل اس نكتے كو بيان كررہا ہے كہ اس كلمے ميں بھى نسيان كا معنى روگردانى اور ترك كرنا ہے_

۸ _ روز قيامت نابينائي اوردرك انسان كے راستے كا مسدود ہونا اسكے خداتعالى كى توجہ اور عنايات سے محروم ہونے كا مظہر ہے_لم حشرتنى ا عمى كذلك اليوم تنسى

۹ _ روز قيامت انسان كو محشور كرنے اور اسكے اعمال كى جزا كى كيفيت اسكے دنياوى كردار كے ساتھ متناسب ہوگي_

فنسيتها تنسى

۱۰ _ روز قيامت انسان كى سزا اسكے دنياوى كردار سے نشأت پكڑتى ہے_فنسيتها اليوم تنسى

آيات خدا:

۲۵۰

انكى فراموشى كے اثرات ۲، ۷; ان سے اعراض كرنے والوں سے بے اعتنائي ۶; ان سے اعراض كرنے والے قيامت ميں ۶; ان كا كردار ۱; انكا ہدايت كرنا ۱، ۵

انسان:اسكے اخروى اندھے پن كا سرچشمہ ۸

پاداش:اس كا عمل كے ساتھ متناسب ہونا ۹; اخروى پاداش كے عوامل ۱۰

محشور ہونا:اسكى كيفيت ۹

خداتعالى :اسكے لطف و كرم سے محروميت كے اثرات ۸; اس سے سوال ۴; اس كے لطف و كرم سے محروميت كے عوامل ۷; اسكى ہدايات ۱، ۵

عمل:اسكے اثرات ۹، ۱۰; اسكى اخروى پاداش ۹; اسكى اخروى سزا ۹

غفلت:آيات الہى سے غفلت كے اثرات ۷; خداتعالى سے غفلت كے اثرات ۲، ۷

قواعد فقہيہ: ۳

قاعدہ عقاب بلا بيان ۳

قيامت:اس ميں سوال و جواب۴; اسكى خصوصيات ۴

اندھاپن:اخروى اندھے پن كے عوامل ۲

سزا:اس كا گناہ كے ساتھ متناسب ہونا ۹; اخروى سزا كے عوامل ۱۰

گناہ گار لوگ:ان كا اخروى جواب۴; ان كا اخروى سوال ۴

جزا كا نظام :۹

سزا كا نظام ۳

ہدايت:اسكى اہميت ۱

۲۵۱

آیت ۱۲۷

( وَكَذَلِكَ نَجْزِي مَنْ أَسْرَفَ وَلَمْ يُؤْمِن بِآيَاتِ رَبِّهِ وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِ أَشَدُّ وَأَبْقَى )

اور ہم زيادتى كرنے والے اور اپنے رب كى نشانيوں پر ايمان نہ لانے والوں كو اسى طرح سزا ديتے ہيں اور آخرت كا عذاب يقينا سخت ترين اور ہميشہ باقى رہنے والا ہے (۱۲۷)

۱ _ دنيا ميں سخت اور تنگ زندگى اور قيامت ميں اندھاپن اور خداتعالى كى سرد مہرى ميں گرفتار ہونا اسراف كرنے والوں كى سزا ہے _معيشة ضنكاً و نحشر يوم القيامة ا عمى و كذلك نجزى من ا سرف

اسراف يعنى حد اعتدال سے تجاوز كرنا (مصباح) ''من اتبع ہداي'' كے قرينے سے اس آيت ميں اس سے مراد ہدايات الہى سے تجاوز كرنا ہے اور ''كذلك'' ميں ''ذلك'' ان سزاؤں كى طرف اشارہ ہے كہ جو گذشتہ آيات ميں ياد خدا سے روگردانى كرنے والوں كيلئے بيان ہوچكى ہيں _

۲ _آيات اور ہدايات الہى سے روگردانى كرنے والے اسراف كرنے والوں كا كامل اور بارز مصداق ہيں

و من أعرض عن ذكري و كذلك نجزي من أسرف

اگر''كذلك نجزي ...'' كا گذشتہ آيت پر عطف ہو اور يہ خداتعالى كى ياد الہى سے غافل لوگوں كے ساتھ گفتگو كا تسلسل ہو تو ''من ا سرف'' غافلين كيلئے دوسرا عنوان ہوگا_

۳ _ اسراف كرنے والے اور آيات الہى پر ايمان لانے سے روگردانى كرنے والے روز قيامت خداتعالى كى توجہ اور عنايات سے محروم ہوں گے_و كذلك اليوم تنسى و كذلك نجزى من أسرف و لم يؤمن بأيات ربه

۴ _ انسان كى ہدايت كيلئے آيات پيش كرنا ربوبيت الہى كا ايك جلوہ ہے _بآى ت ربه

۲۵۲

۵ _ خداتعالى مستحقين عذاب كو سزا دينے كے نظام كا حاكم ہے_نجزي

۶ _ دنيوى سزاؤں كى نسيت اخروى عذاب زيادہ سخت اور ديرپا ہوگا_و لعذاب الأخرة أشد و ا بقى

۷ _ اسراف كرنے والوں اور آيات الہى پر ايمان نہ لانے والوں كو دنياوى سزا اور روز قيامت اندھا ہونے كے علاوہ آخرت ميں زيادہ سخت اور ديرپا عذاب كا سامنا ہوگا _و لعذاب الأخرة ا شد و ا بقى

''كذلك'' بتاتا ہے كہ دنيا ميں سخت زندگى اور قيامت كا اندھاپن غافلين كے علاوہ بے ايمان اسراف كرنے والوں كيلئے بھى خطرہ ہے اور جملہ ''لعذاب الآخرة ...'' اس كے علاوہ مزيد عذاب سے حكايت كررہا ہے كہ جو روز قيامت كے ختم ہونے كے بعدشروع ہوگا اور دنياوى اور روز قيامت كے عذاب سے زيادہ سخت اور ديرپا ہوگا _

۸ _ آيات اور ہدايات الہى پر ايمان دنيا و آخرت ميں عذاب الہى سے محفوظ رہنے كى شرط ہے_و كذلك نجزي لم يؤمن ا شد و ا بقى

اسراف كرنے والے: ۲انكے عذاب كا دائمى ہونا۷; انكى زندگى كا سخت ہونا۱; انكا اخروى عذاب ۷; انكا اخروى اندھاپن ۱; انكى سزا ۱، ۷; انكى اخروى محروميت ۳

آيات خدا:ان سے روگردانى كرنے والوں كا اسراف۲; ان سے اعراض كرنے والوں كا اخروى عذاب ۷; ان سے اعراض كرنے والوں كى سزا ۷; ان سے اعراض كرنے والوں كى اخروى محروميت ۳; ان كا كردار ۴

ايمان:آيات الہى پر ايمان كے اثرات ۸; خداتعالى پر ايمان كے اثرات ۸

خداتعالى :اسكى حاكميت ۵; اسكى ربوبيت كى نشانياں ۴

عذاب:اخروى عذاب كى شدت ۶; اس سے بچنے كے شرائط ۸; دنيوى عذاب ۶; اسكے درجے ۶; اخروى عذاب كے درجے ۷

خدا كا لطف و كرم:اس سے محروم لوگ ۳

سزا كا نظام:اس كا حاكم۵

ہدايت:اسكے عوامل ۴

۲۵۳

آیت ۱۲۸

( أَفَلَمْ يَهْدِ لَهُمْ كَمْ أَهْلَكْنَا قَبْلَهُم مِّنَ الْقُرُونِ يَمْشُونَ فِي مَسَاكِنِهِمْ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِّأُوْلِي النُّهَى )

كيا انھيں اس بات نے رہنمائي نہيں دى كہ ہم نے ان سے پہلے كتنى نسلوں كو ہلاك كرديا جو اپنے علاقہ ميں نہايت اطمينان سے چل پھر رہے تھے بيشك اس ميں صاحبان عقل كے لئے بڑى نشانياں ہيں (۱۲۸)

۱ _ خداتعالى نے طول تاريخ ميں بہت سارے معاشروں اور امتوں كو ہلاك اور نابود كيا ہے_كم ائهلكنا قبلهم من القرون ''قرن'' كا معنى ہے قوم اور وہ لوگ جو ايك زمانے ميں زندگى گزار رہے ہوں (مفردات راغب)

۲ _ آيات اور ہدايات الہى كے بارے ميں كفر طول تاريخ ميں بہت سارى امتوں كى نابودى كا سبب بنا_و كذلك نجزى من أسرف و لم يؤمن كم ا هلكنا قبلهم من القرون گذشتہ آيات قرينہ ہيں كہ سابقہ امتوں كى ہلاكت ان كے آيات و ہدايات الہى كے مقابلے ميں كفر اختيار كرنے كى وجہ سے ہوتى تھي_

۳ _ گذشتہ اقوام كى عذاب الہى كے ساتھ ہلاكت خداتعالى كى دھمكيوں كے سنجيدہ ہونے كے واضح نمونے ہيں اور عصر بعثت كے مشركين كيلئے كفايت كرنے والا رہنما _ا فلم يهد لهم كم ا هلكنا قبلهم من القرون

۴ _تاريخ اور گذشتہ امتوں كى ہلاكت سے سبق حاصل نہ كرنا توبيخ اور مذمت كے قابل ہے _أفلم يهد لهم كم ا هلكنا قبلهم ''أفلم ...'' ميں استفہام انكار توبيخى كيلئے ہے اور '' لم يہد'' كا فاعل ''اہلاك'' ہے كہ جو ''كم ا ہلكنا'' سے سمجھ آرھا ہے اور ''لم يہد'' حرف لام كے ساتھ متعدى ہونے كى وجہ سے اس ميں تبيين كا معنى بھى تضمين كيا گيا ہے اور جملے كا معنى يہ ہے كہ كيا بہت سارى گذشتہ امتوں كو نابود كرنے سے مشركين كيلئے واضح نہيں ہوا كہ وہ ان جيسا عمل نہ كريں _

۵ _ عصر پيغمبر(ص) كے كفار بہت سارى گذشتہ امتوں كى ہلاكت سے آگاہ تھے اور ان كے باقى رہ جانے والے آثار قديمہ سے آشنا تھے_ا فلم يهد لهم كم ا هلكنا يمشون فى مسكنهم جملہ ''يمشون ...'' ''ہم'' كيلئے حال ہے اور سياق آيت قرينہ ہے كہ اس سے مراد صدر اسلام كے مشركين ہيں ان كا عاد، ثمود، لوط اور كے گھروں سے عبور كرنا كہ جو جملہ ''يمشون ...'' كا معنى ہے ان كے گذشتہ امتوں كے مرگبار واقعات سے آگاہى كا سبب ہے ہمزہ استفہام سے مستفاد توبيخ بھى ان كى آگاہى پر متفرع ہے_

۲۵۴

۶ _ گذشتہ امتوں ميں سے بہت سے لوگ جب عذاب الہى ميں گرفتار ہوئے اس وقت اپنے شہر اور گھروں ميں معمول كے مطابق رفت و آمد ميں مصروف تھے_*كم ا هلكنا قبلهم من القرون يمشون فى مسكنهم ممكن ہے جملہ ''يمشون ...'' ''القرون'' كيلئے حال ہو_

۷ _ تاريخ كا تغير و تبدل خداتعالى كے ارادے سے وابستہ ہے_كم ا هلكنا قبلهم

۸ _ نابود شدہ اقوام كے باقى رہ جانے والے آثار قديمہ سے سبق حاصل كرنے اور عبرت لينے كيلئے بہت سارى چيزويں ہيں _أفلم يهدلهم كم ا هلكنا إن فى ذلك لأيات

۹ _ گذشتہ امتوں كے باقى رہ جانے والے عبرت آموز آثار كا مطالعہ اور تحقيق اور انكى ہلاكت كے اسباب معلوم كرنا ضرورى ہے_كم ا هلكنا إن فى ذلك لأيات

گذشتہ امتوں كى تاريخ اور ان كے آثار كے آيت ہونے كا تقاضا يہ ہے كہ وہ انسان كو مہم اور قيمتى ہدايات اور عبرتوں كى طرف رہنمائي كرنے كے قابل ہيں _

۱۰ _ گذشتہ امتوں كے باقى رہ جانے والے آثار قديمہ كے مطالعے سے صرف صاحبان عقل بہرہ مند ہوتے ہيں اور عبرت حاصل كرتے ہيں _كم ا هلكنا قبلهم إن فى ذلك لأيات لا ولى النهي

آيات كا نشانى اور آيت ہونا عبرت حاصل كرنے والے كے موجود ہونے كے ساتھ مختص نہيں ہے بلكہ ايك ثابت صفت ہے لہذا اس كا ''ا ولى النہى '' كے ساتھ مختص ہونا صرف صاحبان عقل كے آيات سے بہرہ مند ہونے كى طرف ناظر ہے يعنى اگرچہ آيات اور نشانياں موجود ہيں ليكن بے عقل لوگ اس سے بہرہ مند نہيں ہوتے_

۱۱ _ عقل اور دانايى ايك قيمتى جوہر ہيں اور انسان كو ناروا كاموں سے روكتے ہے_ان فى ذلك لآيات لاولى النهى

''نُہى '' يا تو ''نہية'' (عقل) كى جمع ہے اور يا يہ مفرد لفظ ہے عقل كے معنى ميں (قاموس) اور اس لئے عقل كو يہ نام ديا گيا ہے كہ يہ انسان كو برائيوں سے نہى كرتى ہے_

۲۵۵

۱۲ _ جو لوگ گذشتہ اقوام كے انجام سے عبرت نہيں ليتے وہ عقل و خرد سے بے بہرہ ہيں _إن فى ذلك لأيات لا ولى النهى

۱۳ _ خداتعالى انسان كو عقل سے استفادہ كرنے اور اسے استعمال كرنے كى ترغيب دلاتا ہے _أفلم يهد إن فى ذلك لأيات لا ولى النهى اس آيت كا ذيل كہ جو صاحبان عقل كى تعريف كر رہا ہے مذكورہ مطلب كو بيان كررہا ہے نيز اسكے شروع ميں فاء عاطفہ اس مقدر پر عطف كر رہى ہے كہ جسے آيت كا ذيل بيان كررہا ہے در حقيقت اس پر استفہام توبيخى داخل ہوا ہے اور ''لم يہد'' اس پر تفريع ہے اور اصل ميں كلام يوں تھا ''ا فلم يتفكروا فلم يهد ...'' كيا انہوں نے سوچا نہيں گذشتہ اقوام كے انجام كا مطالعہ انكى ہدايت كا سبب نہيں بنا؟

آثار قديمہ:يہ صدر اسلام ميں ۵; ان سے عبرت لينا ۸، ۹، ۱۰

آيات خدا:انہيں جھٹلانے كے اثرات ۱۲

آثار قديمہ شناسي:اسكى اہميت ۹

گذشتہ اقوام:ان كے آثار قديمہ ۵; انكى تاريخ ۱، ۲، ۶; ان سے عبرت لينا ۹; ان سے عبرت حاصل نہ كرنا ۱۲; انكى ہلاكت كے عوامل ۲; ان كے عذاب كى كيفيت ۶ ; انكى ہلاكت ۱، ۳، ۵

تاريخ:اسكے مطالعے كى اہميت ۹; اس سے عبرت لينا ۴، ۸; اسكے تحولات كا سرچشمہ ۷

تعقل:اسكى تشويق ۱۳

خداتعالى :اسكے ارادے كے اثرات ۷; اسكے افعال ۱; اسكى تشويق ۱۳; اسكى دھمكيوں كا حتمى ہونا ۳

عقلا:يہ اور آثار قديمہ ۱۰/عبرت:عبرت نہ لينے والوں كى بے عقلى ۱۲; عبرت نہ لينے كى مذمت ۴; اسكے عوامل ۸، ۱۰

عذاب:اہل عذاب سے عبرت حاصل كرنا ۴

عقل:اسكى قدر و قيمت ۱۱; بے عقل لوگ ۱۲; اس كا كردار ۱۱

عمل:ناپسنديدہ عمل كے موانع ۱۱

كفار:صدر اسلام كے كفار كا علم ۵

مشركين:صدر اسلام كے مشركين كو دھمكى ۳

۲۵۶

آیت ۱۲۹

( وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِن رَّبِّكَ لَكَانَ لِزَاماً وَأَجَلٌ مُسَمًّى )

اور اگر آپ كے رب كے طرف سے بات طے نہ ہوچكى ہوتى اور وقت مقرر نہ ہوتا تو عذاب لازمى طور پر آچكا ہوتا (۱۲۹)

۱ _ خداتعالى نے معاشروں اور امتوں كے امور كى تدبير كيلئے محكم و ثابت قوانين اور سنتيں قرار دے ركھى ہيں _

و لو لا كلمة سبقت من ربك اس مناسبت سے كہ بحث معاشروں اور انہيں مہلت دينے كے بارے ميں ہے اس آيت ميں ''كلمة '' سے مراد تاريخ اور معاشروں پر حاكم قوانين الہى اور سنتيں ہيں _

۲ _ كافر امتوں كے انجام اور انكى ہلاكت و بقا كيلئے معين سنن و قوانين اور مشخص اوقات ہيں _

كم اهلكنا قبلهم و لو لا كلمة سبقت من ربك لكان لزام گذشتہ آيت كہ جو كافر معاشروں كى ہلاكت كے بارے ميں ہے قرينہ ہے كہ ''لو لا كلمة ...'' كا معنى يہ ہے خداتعالى نے كفار كے عذاب كا وقت اور اسكے ديگر معيارات كو پہلے سے مشخص و معين كر ركھا ہے_

۳ _ كفار پر الہى سنتوں كا حاكم ہونا ان كے عذاب الہى كے ساتھ جلدى نابود ہونے سے مانع ہے_و لو لا كلمة سبقت من ربك لكان لزام

۴ _ آيات اور ہدايات الہى كے بارے ميں كفر كرنے والے دنيا ميں سزا اور عذاب كے مستحق ہيں _و لو لا كلمة سبقت من ربك لكان لزام لفظ'' لزاماً'' باب مفاعلہ كا مصدر ہے اور مصدر كا خبر واقع ہونا مبالغہ پر دلالت كرتاہے، اس بناپر جملہ''كان لزاماً'' كا مفاد يوں ہوگا(اگر خدا كى طرف سے مجرمين كو مہلت دينے كى سنت نہ ہوتي)عذاب الہى مخالفت كرنے والوں كے ساتھ ساتھ ہوتا (يہاں تك كہ مختصر سى مدت كے ليے بھي) ان سے الگ نہ ہوتا_

۵ _ خداوند متعال ہرگز اپنى سنتوں (طى شدہ باتوں ) سے پيچھے نہيں رہے گا_و لو لاكلمة سبقت من ربك لكان لزام

۲۵۷

۶ _آيات الہى كا انكار كرنااور اللہ تعالى كى ياد سے منہ پھير لينا ناقابل معاف گناہ ہيں _

و من أعرض عن ذكري و لم يؤمن بأيات ربه لو لا كلمة سبقت من ربك لكان لزام

۷ _بعثت كے دوران بسنے والے كافروں اور مشركوں كو مہلت دينا، خداوند عالم كى طرف سے رسول اكرم(ص) پر خصوصى عنايت كى وجہ سے تھي_رَبّك

''ربّ'' كے مقدس نام كارسول خدا كى ضمير خطاب كى طرف اضافہ ہوناكافروں پر عذاب نازل كرنے ميں تاخير اور ان كو مہلت دينا خدا كى طرف سے رسول اكرم(ص) پر خصوصى عنايت ہونے كى طرف اشارہ ہوسكتاہے _ جيسا كہ ايك اور سورے ميں فرماتا ہے:''و ما كان الله ليعذبهم و ا نت فيهم''

۸ _انسانيت سے متعلق مصلحتيں اور خداوند كى طرف سے قوموں كے معاملات كى تدبير كرنا دنيا ميں مخالفين كو جلدى سزا نہ دينے كى دليل ہے_ربَّك

۹ _روى زمين پر انسانى زندگى كو معين مدت تك كے ليے جارى ركھنے كى سنت (طى شدہ قانون) حق كى مخالفت كرنے والوں كو فوراً نابود كرنے كے ساتھ سازگار نہيں ہے_و لو لا كلمة سبقت من ربّك لكان لزاماً و اجل مسميً

(ا جل) كا معنى پورى مدت يا آخرى وقت ہے (لسان العرب) اور ''ا جل مسميً'' ''كلمة'' پر عطف ہوا ہے يعنى '' لو لا كلمة وا جل مسميً ...'' يہاں كلمہ اور اجل سے مراد دو مستقل چيز يں ہيں يا دونوں ايك حقيقت كى دو تعبير ہے اس بارے ميں علماء نے مختلف بيانات ديئےيں _ان ميں سے ايك احتمال يہ ہے كہ ''كلمہ'' سے مراد اللہ تعالى كا وہ كلام ہے جو آدم (ع) كو بہشت سے نكل كرزمين پر آتے وقت فرمايا''لكم فى الا رض مستقر و متاع إلى حين'' (بقرہ ۳۶) اور ''ا جل'' سے مراد اس احتمال كى بناپر دنيا كى آخرى عمر ہے مذكورہ نظريہ اس احتمال كى بناپر ہے_

۱۰ _ اللہ تعالى نے دنيوى زندگى كو تمام كافروں كو جلد مؤاخذہ كرنے كى جگہ قرار نہيں دى ہے _و لو لا ا جل مسميً

اللہ تعالى كى سنت ( اور روش) كى جس پر'' لو لا كلمة ...'' دلالت كرتاہے يہ نہيں ہے كہ اللہ تعالى دنيا ميں كسى بھى مختلف كرنے والے پر عذاب نازل نہيں كرتا بلكہ اسكى سنت يہ ہے كہ سارى مخالفين كو تباہ نہيں كرے گا كيونكہ اگر ہر كافر كو نابود كرنا منشا ہوتا تو انسانى نسل ختم ہونے كا خطرہ تھا( اس صورت ميں ) اجل مسمى تك نسل بشر باقى نہ رہتى _

۱۱ _قوموں كے خاتمے ليئے ايك معين اور طى شدہ مدت ہے_و لو لا كلمة سبقت من ربك لكان لزاماً ا جل مسميً

۲۵۸

آیت ۱۳۰

( فَاصْبِرْ عَلَى مَا يَقُولُونَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا وَمِنْ آنَاء اللَّيْلِ فَسَبِّحْ وَأَطْرَافَ النَّهَارِ لَعَلَّكَ تَرْضَى )

لہذا آپ ان كى باتوں پر صبر كريں اور آفتاب نكلنے سے پہلے اور اسكے ڈوبنے كے بعد اپنے رب كى تسبيح كرتے رہيں اور رات كے اوقات ميں اور دن كے اطراف ميں بھى تسبيح پروردگار كريں كہ شايد آپ اس طرح راضى اور خوش ہوجائيں (۱۳۰)

۱ _ كفار رسول خد ا (ص) كو اپنى ( بے بنياد) باتوں كے ذريعے روحى طور پر اذيت پہنچاتے تھے_فاصبر على ما يقولون

خدا كى طرف سے رسول(ص) كى صبر كى تلقين اس بات كى حكايت كرتاہے كہ آنحضرت (ص) كافروں كى باتيں سننے سے رنجيدہ خاطر ہوتے تھے_

۲ _ كفار عذاب ميں تاخير ہونے اور فورى طورپر عذاب نازل نہ ہونے كو بہانہ بناكر رسول خدا كو روحى فشار ميں ركھتے اور انكے خلاف سخت پروپيگنڈا كرتے تھے_فاصبر على ما يقولون ما قبل والى آيت كے قرينے سے ''ما يقولون'' سے مراد كافروں كى وہ باتيں ہيں جو عذاب نازل نہ ہونے اور رسول (ص) خدا كے وعدوں كا مذاق اڑانے كے ليے اظہار كرتے تھے

۳ _خدا كى طرف سے رسول اكرم (ص) كو كافروں كى بے بنياد باتوں اور انكى طرف سے نفسياتى اذيت پہنچانے كے لئے پروپگينڈاكرنے پر صبر و تحمل كرنے كى وصيت_فاصبر على ما يقولون

۴ _ كافروں كو مہلت دينے كى حكمت كے بارے ميں خدا كى طرف سے آيات كا نزول كافروں كى طرف سے كى جانے والى تبليغات پر رسول اكرم(ص) كے تحمل اور صبر كا موجب بنا_لو لا كلمة سبقت فاصبر على ما يقولون

''فا صبر'' ما قبل والى آيت پر عطف اور تفريع ہے يعنى چونكہ كافروں كو عذاب دينے ميں تا خير سہل انگارى كى وجہ سے نہيں بلكہ ايك قانون اور سنت كى وجہ سے ہے پس ان سختيوں كو برداشت كريں ان آيات ميں خداوند عالم نے مخالفين كو مہلت دينے كى علت اور تاريخ (بشريت) پر حكم فرما روشن اور سنت كو بيان فرما كر رسول خدا(ص) اور اہل ايمان كى نسل ہونے كا زمينہ فراہم كرديا ہے_

۵ _ سنت الہى پرسے آگاہ ہونا اور اسكى علت كو سمجھنا سختيوں اور پريشانيوں ميں صبر و تحمل كرنے كے لئے پيش خيمہ_

و لو لا كلمة فاصبر على ما يقولون

۶ _ رسول خدا(ص) اور اہل ايمان لوگوں كو سورج طلوع كرنے اور ڈوبنے سے پہلے اللہ تعالى كى تسبيح كرتے رہنا چاہيئے _

و سبح بحمد ربك قبل طلوع الشمس و قبل غروبه

۲۵۹

''بحمد ربّكَ'' ميں باء يا مصاحبت كے لئے ہے يا استعانت كے لئے بہر حال اللہ تعالى كى حمد اور تسبيح كرنے كا حكم ايك ساتھ آيا ہے_ تسبيح كرنے كا خطاب اگر چہ بظاہر رسول اكرم(ص) كے متعلق ہے ليكن بعد والى آيتوں كے قرينہ سے معلوم ہوتاہے كہ يہ حكم رسول اكرم(ص) كے لئے مختص نہيں ہے (بلكہ تمام اہل ايمان بھى اس حكم كا مخاطب ہيں )

۷ _ رسول خدا (ص) اور اہل ايمان كسى يہ ذمہ دارى ہے كہ رات كے كچھ حصے اور دن كے دونوں فوں ميں اللہ تعالى كى حمد اور تسبيح كيا كريں _و من ء اناء الليل فسبح و اطراف النهار

''ء انائ'' كا معنى اوقات ہے اور ''من'' يہاں تبعيض كے ليے آياہے_لہذا ''من آناء الليل'' سے مراد يہ ہے كہ رات كے كچھ اوقات حمد اور تسبيح ميں مشغول رہيں اور آيت كے شروع ميں ''بحمدك'' آنا اس بات كا قرينہ ہے كہ يہ تسبيح بھى حمد كے ساتھ ہونى چاہيے_

۸ _ تمام اوقات ميں اللہ تعالى كى حمد اور تسبيح اور ذكر لازمى ہے_فسبح قبل طلوع آناء الليل اطراف النهار

اگرچہ اس آيت كريمہ ميں اللہ تعالى كى تسبيح كرنے كے ليے كچھ اوقات معين كيا گيا ہے ليكن ان موارد كى كثرت سے ايسا لگتاہے كہ ہدف يہ ہے كہ تماما فرصت كے موقعوں پر اللہ تعالى كو ياد كرنا اول اسكى تسبيح كرتے رہنا چاہيے_

۹ _انسان سخت شرائط نہيں آنے كى صورت ميں زيادہ صبر اور تحمل حاصل كرنے كے ليے اللہ تعالى كو ياد كرنے اور اسكى تسبيح كرنے كى طرف محتاج ہے_فاصبر على ما يقولون و سبّح بحمد ربّك

صبر كرنے كا دستور دينے كے بعد تسبيح كا دستور آنا اس بات كى نشاندہى كرتاہے كہ صبر كرنے كى طاقت حاصل كرنے كے لئے تسبيح كو دخل ہے_

۱۰ _ خدا اور دين كے خلاف كافروں كى طرف سے ہونے والے پراپگنڈوں كے ساتھ مقابلہ كرنے كے راستوں ميں سے ايك اللہ تعالى كى تسبيح اور حمد كرنا ہے_و سبح بحمد ربك قبل طلوع الشمس و قبل غروبه

۱۲ _رات كے كچھ حصوں ، صبح كے قريب اور سورچ غروب كرنے كے بعد اللہ تعالى كى حمد اور تسبيح كرنا خصوصى نتائج كے حامل ہيں _و من ء اناء الليل فسبح و اطراف النهار

''اطراف نہار'' سے مراد دن كا آغاز اور اختتام ہے_ اور اس لفظ ''اطراف نہار'' كو جمع كى صورت ميں ذكر كرنے كى وجہ يہ ہے چونكہ آناء الليل كے ساتھ آياہے اسكے ساتھ لفظى موافقت كى خاطر جمع لاياہے يا دن كے آغاز اور اختتام كے متعدد

۲۶۰