تفسير راہنما جلد ۱۱

تفسير راہنما 0%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 750

تفسير راہنما

مؤلف: آيت الله ہاشمى رفسنجاني
زمرہ جات:

صفحے: 750
مشاہدے: 177585
ڈاؤنلوڈ: 2104


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4 جلد 5 جلد 6 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 750 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 177585 / ڈاؤنلوڈ: 2104
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد 11

مؤلف:
اردو

قضاوت:اسكے شرائط ۵; اس ميں علم ۵

پہاڑ:انكى تسبيح ۶، ۷; انكى تسخير ۶; انكا شعور ۷

خداتعالى كا لطف و كرم:يہ جنكے شامل حال ہے ۳، ۸

موجودات:انكى تسبيح ۱۰

آیت ۸۰

( وَعَلَّمْنَاهُ صَنْعَةَ لَبُوسٍ لَّكُمْ لِتُحْصِنَكُم مِّن بَأْسِكُمْ فَهَلْ أَنتُمْ شَاكِرُونَ )

اور ہم نے انھيں زرہ بنانے كى صنعت تعليم ديدى تا كہ وہ تم كو جنگ كے خطرات سے محفوظ ركھ سكے تو كيا تم ہمارے شكرگذار بندے بنوگے (۸۰)

۱ _ خداتعالى نے حضرت داؤد(ع) كو زرہ سازى كا فن سكھايا_داؤد(ع) و علمنه صنعة لبوس

''لبوس'' در حقيقت اس لباس كو كہتے ہيں جو انسان كو ہر برى چيز سے چھپائے (مفردات راغب) اور''لتحصنكم من بأسكم'' (تا كہ تمہيں جنگ كے خطرات سے محفوظ ركھے) كے قرينے سے اس آيت ميں اس سے مراد زرہ ہوسكتى ہے_ قابل ذكر ہے كہ بعض اہل لغت نے ''لبوس'' كو ''درع'' (زرہ) كے معنى ميں قرار ديا ہے_ (قاموس)

۲ _ خداتعالى نے حضرت داؤد(ع) كو دفاعى اسلحہ بنانے كا فن سكھايداؤد و علمنه صنعة لبوس

''لبوس'' كے موارد استعمال ميں سے ايك مطلق ''اسلحہ'' ہے (لسان العرب) ليكن جملہ ''لتحصنكم من بأسكم'' كو ديكھتے ہوئے اس سے مراد دفاعى اسلحہ ہے كہ جو انسان كو دشمن كے حملوں سے بچائے اور اسے دشمن كى ضرب سے محفوظ ركھے_

۳ _صنعت زرہ سازي، حضرت داؤد(ع) كى ايجاد ہے_داؤد و علمنه صنعة لبوس

اس چيز كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ آيات انبيا(ع) ء كى خصوصيات كو شمار كر رہى ہيں اور حضرت داؤد(ع) پر خداتعالى كے خصوصى لطف و كرم كو بيان كر رہى ہيں _ اس سے معلوم ہوتاہے كہ يہ صنعت پہلے نہيں تھى ورنہ اس كا تذكرہ زيادہ مناسب نہيں ہے_

۴ _ حضرت داؤد(ع) كا فن زرہ سازي، لوگوں كو جنگ كے خطرات اور نتائج سے محفوظ ركھنے كيلئے تھا_داؤد و علمنه صنعة لبوس لكم لتحصنكم من بأسكم

۴۲۱

۵ _ حضرت داؤد(ع) حق كى باطل كے خلاف جنگ كے ميدانوں ميں لڑنے والے اور جنگجو پيغمبر تھے _*داؤد و علمنه صنعة لبوس لكم لتحصنكم من بأسكم خداتعالى كى طرف سے حضرت داؤد(ع) كو صنعت اسلحہ سازى اور زرہ بنانے كا طريقہ سكھانا اس بات سے حكايت كرتا ہے كہ آپ اہل جنگ تھے اور جنگ كے ميدانوں ميں حاضر رہتے تھے_

۶ _ ضرورى ہے كہ صنعت اسلحہ سازى اور اسلحہ بنانا نيك لوگوں كے اختيار ميں اور دينى معاشرے كے رہنماؤں كى زير نظارت ہو_داؤد و علمنه صنعة لبوس لكم لتحصنكم من بأسكم چونكہ خداتعالى نے دشمن كے مقابلے ميں لوگوں كے اپنے مفادات كى حفاظت كيلئے صرف حضرت داؤد(ع) كو اسلحہ سازى كا فن سكھايا اس سے مذكورہ مطلب حاصل كيا جاسكتا ہے_

۷ _ حضرت داؤد(ع) كے ہمراہ زندگى گزارنے والے لوگوں كو دشمن كے فوجى حملوں كا خطرہ رہتا تھا_داؤد و علمنه صنعة لبوس لكم لتحصنكم من بأسكم آيت كريمہ ان لوگوں پر احسان جتلا رہى ہے جو حضرت داؤد(ع) كے ہمراہ زندگى بسر كر رہے تھے كيوكہ ''كم'' كے مخاطب وہى لوگ ہيں اور يہ احسان جتلانا اس وقت صحيح ہے جب وہ دشمن كے حملوں كى زد ميں اور اسكے خطرات سے دوچار ہوں _

۸ _ لوگوں كے مفادات اور منافع كى حفاظت كرنا ،اسلحے كى نوعيت، مقدار اور پھيلاؤ ميں بنيادى معيار اور صنعت اسلحہ سازى ميں دينى معاشرے كى كلى سياست ہے_و علمنه صنعة لبوس لكم لتحصنكم من بأسكم

مذكورہ مطلب ''لكم'' كے لام انتفاع سے حاصل كيا گيا ہے اس طرح كہ حضرت داؤد(ع) كو اسلحہ سازى تعليم لوگوں كے مفادات كى حفاظت كيلئے تھا اور يہى مسئلہ دينى معاشرے ميں اسلحہ سازى اور اسكے پھيلاؤ كى كلى سياست كا معيار ہے_

۹ _ دفاعى اسلحہ تيار كرنا اور اس سے استفادہ كرنا ايك ضرورى اور شائستہ امر ہے_و علمنه صنعة لبوس لكم لتحصنكم من بأسكم

۱۰ _ مظلوم اور دشمن كے تجاوز سے دوچار انسانوں كے مفادات كى خاطر علوم اور ايجادات كو استعمال ميں لانا ضرورى ہے_و علمنه صنعة لبوس لكم لتحصنكم من بأسكم ''لكم'' كا لام انتفاع كيلئے اور ''لتحصنكم'' كا لام علت كيلئے ہے اور علت ہوسكتا ہے حكم كو تعميم دينے والى ہو اس صورت ميں كہا جاسكتا ہے كہ جو چيز بھى لوگوں كے فائدے كيلئے ہو اور انسان كو دوسروں كے ظلم و تجاوز سے بچائے_ چاہے وہ اسلحہ كى تيارى ہو يا كوئي اور چيز_ وہ ضرورى اور لازمى ہے_

۱۱ _ انسان كى طرف صنعت اور تجرباتى علوم كے منتقل كرنے ميں انبيا(ع) ء كا كردار

۴۲۲

_داؤد و علمنه صنعة لبوس لكم لتحصنكم من بأسكم

۱۲ _ انبيا(ع) ئ، خدا كى طرف سے لوگوں كو خير پہنچانے كا ذريعہ ہيں _داؤد و علمنه صنعة لبوس لكم لتحصنكم من بأسكم

۱۳ _ خداتعالى نے حضرت داؤد(ع) كے زمانے كے لوگوں كو حضرت داؤد(ع) كو اسلحہ سازى كى نعمت عطا كرنے كے مقابلے ميں شكر ادا كرنے كى طرف دعوت دي_و علمنه صنعة لبوس لكم فهل أنتم شكرون جملہ''فهل أنتم شاكرون'' ميں استفہام امر كے معنى پر مشتمل ہے_

۱۴ _ انسان كا دفاعى علوم و صنايع تك دسترسى حاصل كرنا ايسى نعمت ہے جو شكر ادا كرنے كے لائق ہے_

و علمنه صنعة لبوس لكم فهل أنتم شكرون

۱۵ _ ملك كا امن و امان اور ملت كے مفادات كى حفاظت ايسى نعمتيں ہيں جو شكر ادا كرنے كے لائق ہيں _

و علمنه صنعة لبوس لكم فهل أنتم شكرون خداتعالى نے داؤد(ع) كو اسلحہ سازى كى صنعت كى تعليم دينے كى وجہ سے لوگوں كو شكر ادا كرنے كى دعوت دى ليكن چونكہ ضرورى ہے كہ يہ صنعت لوگوں كے مفادات كى حفاظت اور انہيں دشمن كے حملوں سے بچانے كيلئے ہو اس سے معلوم ہوتا ہے كہ لوگوں كے مفادات اور دشمن كے مقابلے ميں ان كا امن و امان اصلى اور آخرى ہدف ہے_

۱۶ _ اسلحہ اور زرہ تيار كرنا، حضرت داؤد(ع) كا معجزہ اور انكى نبوت كى دليل_داؤد ...و علمنه صنعته لبوس لكم فهل أنتم شكرون عام طور پر مفسرين كا خيال يہ ہے كہ يہ آ يت اور اس سے پہلے كى آيات گذشتہ انبيا(ع) ء كے معجزات اوران كى نبوت كے شواہد بيان كر رہى ہيں _

۱۷ _ امام صادق(ع) سے روايت ہے كہ اميرالمؤمنين(ع) نے فرمايا خداتعالى نے لوہے كى طرف وحى كى كہ ميرے بندے داؤد(ع) كيلئے نرم ہوجائے خداتعالى نے ان كيلئے لوہے كو نرم كيا اور وہ ہر روز ايك زرہ تيار كرتے تھے_

اسلحہ:اسكے تيار كرنے كى اہميت ۶; دفاعى اسلحہ تيار كرنے كى اہميت ۹; اسلحہ تيار كرنا ۱۶; اسلحہ تيار كرنے كا معيار ۸

ايجادات:

____________________

۱ ) كافى ج ۵ ص ۷۴ ح۵; نورالثقلين ج۳ ص ۴۴۶ ح ۱۲۲_

۴۲۳

ان سے استفادہ كرنے كا پيش خيمہ ۱۰

انبياء(ع) :ان كا نقش و كردار ۱۱، ۱۲

انسان:اسكى حفاظت كرنا ۱۴

جنگ:داؤد(ع) كے زمانے ميں جنگ كا خطرہ ۷

خداتعالى :اسكى تعليمات ۱، ۲; اسكى دعوت ۱۳

خير:اس كا سرچشمہ ۱۲; اس كا واسطہ ۱۲

داؤد(ع) (ع) :ان كا جنگجو ہونا ۵; ان كے زمانے كے لوگوں كو دعوت ۱۳; انكى نبوت كے دلائل ۱۶; انكى زرہ سازى ۱، ۳،۱۶، ۱۷; انكا دفاعى اسلحہ ۲; انكى صفات ۵; انكى زرہ سازى كا فلسفہ ۴; انكا قصہ ۱، ۴، ۷; ان كا معجزہ ۱۶; انكا معلم ۱، ۲

روايت :۱۷

دينى راہنما:ان كا نقش و كردار ۶

زرہ سازي:اسكى تاريخى ۳

لوہا:اس كا نرم ہونا ۱۷

شكر:نعمت كا شكر ادا كرنے كى دعوت ۱۳; نعمت كا شكر ۱۴، ۱۵

صالحين:ان كا نقش و كردار ۶

صنعت:اسكى تاريخ ۳; اسكے انتقال ميں مؤثر عوامل ۱۱

علم:اس سے استفادہ كا پيش خيمہ ۱۰

تجرباتى علوم:ان كے انتقال ميں مؤثر عوامل ۱۱

مظلومين:ان كے دفاع كى اہميت ۱۰

معاشرتى مفادات:انكى حفاظت كى اہميت ۸

نعمت:امن و امان والى نعمت ۱۵; اسلحہ والى نعمت ۱۳; دفاعى مصنوعات والى نعمت ۱۴; تجرباتى علوم والى نعمت ۱۴

۴۲۴

آیت ۸۱

( وَلِسُلَيْمَانَ الرِّيحَ عَاصِفَةً تَجْرِي بِأَمْرِهِ إِلَى الْأَرْضِ الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا وَكُنَّا بِكُلِّ شَيْءٍ عَالِمِينَ )

اور سليمان كے لئے تيز و تند ہواؤں كو مسخر كرديا جو ان كے حكم سے اس سرزمين كى طرف چلتى تھيں جس ميں ہم نے بركتيں ركھى تھيں اور ہم ہر شے كے جاننے والے ہيں (۸۱)

۱ _ خداتعالى نے حضرت سليمان(ع) كيلئے تند و تيز ہواؤں كو مسخر كيا_و سخرنا مع داؤد الجبال و لسليمان(ع) الريح عاصفة تجرى بأمره

۲ _ تند و تيز ہوائيں ، حضرت سليمان(ع) كے حكم سے چلتى تھيں _و لسليمان(ع) الريح عاصفة تجرى بأمره

۳ _ حضرت سليمان(ع) كے حكم سے تند و تيز ہواؤں كا بركات الہى سے سرشار سرزمين كى طرف حركت كرنا_

تجرى بأمره إلى الأرض التى بركنا فيه

۴ _ تند و تيز ہواؤں كا حضرت سليمان(ع) كے ا ختيار ميں ہونا اور ان پر حضرت سليمان(ع) كى حكمرانى ان كا معجزہ اور انكى رسالت كى دليل ہے_و لسليمان الريح عاصفة

عام طور پر مفسرين كا خيال يہ ہے كہ يہ آيت اور ديگر آيات گذشتہ انبيا(ع) ء كے معجزات اور ان كى نبوت كے دلائل بيان كررہى ہيں _

۵ _ كسى بھى سرزمين كا با بركت ہونا خداتعالى كى عنايت اور ارادے ميں منحصر ہے_إلى الأرض التى بركنا فيه

۶ _ سرزمينوں كى قدر و قيمت، با بركت ہونے اور خداتعالى كى توجہ كا مركز ہونے كے لحاظ سے مختلف ہونا _

إلى الأرض التى بركنا فيه

۷ _ پورا عالم، ہستى خداتعالى كے علم لايزال كے زير تسلط ہے_

۴۲۵

و كنا بكل شيء علمين

۸ _ تند و تيز ہواؤں كا مسخر ہونا اور ان كا حضرت سليمان(ع) كے حكم كے تابع ہونا خداتعالى كے وسيع علم اور ارادے كے زير سايہ تھا_و لسليمان(ع) الريح و كنا بكل شى ء علمين

عبارت ''بكل شيء علمين'' بتاتى ہے كہ يہ كام علمى قوانين كى بنياد پر وقوع پذير ہوا اور خداتعالى نے ان قوانين كے سلسلے ميں اپنے وسيع علم كى بنياد پرارادہ كيا تھا كہ تند و تيز ہوائيں حضرت سليمان(ع) كے حكم كے تابع ہوں _

۹ _ تند و تيز ہواؤں كو مسخر كرنا اور انہيں حضرت سليمان(ع) كے حكم كے ما تحت كرنا خداتعالى كى طرف سے ايك عالمانہ اور حكيمانہ كام تھا_و لسليمان(ع) الريح و كنا بكل شى ء علمين

۱۰ _ دوسرں كو وسائل اور اختيارات فراہم كرنے كيلئے ان كے سلسلے ميں مناسب علم و آگاہى كى ضرورت ہے_

و لسليمان(ع) الريح و كنا بكل شى ء علمين

جملہ''و كنا بكل شيء علمين'' بتاتا ہے كہ حضرت سليمان(ع) كو ہواؤں كى تسخير كى قدرت عطا كرنے كا سرچشمہ خداتعالى كا علم و آگاہى تھا_ اس سے اس بات كا استفادہ كيا جاسكتا ہے كہ

دوسروں كو ہر قسم كى قدرت اور وسائل كا عطا كرنا ضرورى ہے كہ بجا اور ان كے سلسلے ميں مناسب علم و آگاہى كى بنياد پر ہو _

مادى وسائل:ان كے عطا كرنے كے شرائط ۱۰

ہوا:اس كا مطيع ہونا ۲

خداتعالى :اسكے ارادے كے اثرات ۸; اسكے علم كے اثرات ۸; اسكے لطف و كرم كے اثرات ۵، ۶; اسكى مشيت كے اثرات ۵; اسكى خصوصيات ۷; اسكے افعال ۱; اسكى حكمت ۹; اس كا علم ۹; اسكے علم كى وسعت ۷

سرزمين:اسكى قدر و قيمت ۶; با بركت سرزمين ۳; اسكى بركت كا سرچشمہ ۵، ۶; اسكے تفاوت كا سرچشمہ ۶

سليمان(ع) (ع) :ان كے اوامر ۳; ان كيلئے ہوا كو مسخر كرنا ۱، ۲، ۳، ۴، ۹; ان كى نبوت كے دلائل ۴; ان كے فضائل ۱، ۲، ۳; ان كا معجزہ ۴; ان كيلئے ہوا كو مسخر كرنے كا سرچشمہ ۸

علم:اس كا كردار ۱۰

۴۲۶

آیت ۸۲

( وَمِنَ الشَّيَاطِينِ مَن يَغُوصُونَ لَهُ وَيَعْمَلُونَ عَمَلاً دُونَ ذَلِكَ وَكُنَّا لَهُمْ حَافِظِينَ )

اور بعض جناب كو بھى مسخر كرديا جو سمندر ميں غوطے لگايا كرتے تھے اور اس كے علاوہ دوسرے كام بھى انجام ديا كرتے تھے اور ہم ان سب كے نگہبان تھے (۸۲)

۱ _بعض شياطين، حضرت سليمان(ع) كے حكم كے ماتحت اور انكى تسخير ميں تھے_و سخرنا و من الشياطين من يغوصون له

۲ _ بعض شياطين، حضرت سليمان(ع) كيلئے غوطہ گرى و غيرہ كا كام كرتے تھے_و من الشياطين من يغوصون له و يعملون عملًا دون ذلك

۳ _ حضرت سليمان(ع) كى حكومت ميں غوطہ گرى اور اس سے حاصل ہونے والے فوائد كى اہميتو من الشياطين من يغوصون له كاموں ميں سے خاص طور پر ''غواصي'' كو ذكر كرنا نيز ''لہ'' كا لام كہ جو انتفاع كيلئے ہے مذكورہ مطلب پر دلالت كرتے ہيں _

۴ _ شياطين، شعور ركھنے والے اور كار آمد موجودات ہيں _و من الشياطين من يغوصون له

مذكورہ مطلب اس نكتے كے پيش نظر حاصل ہوتا ہے كہ حضرت سليمان(ع) كيلئے شياطين كو مسخر كرنا اور ان كا مطيع فرمان بنانے كا لازمہ ان كا باشعور ہونا ہے_

۵ _ شياطين ايسے موجودات ہيں كہ جو انسان كيلئے مسخر ہونے اور اسكے مطيع فرمان ہونے كے قابل ہيں _

و سخرنا و من الشياطين من يغوصون له

۶ _ شياطين، مختلف علوم و فنون سے آشنا ہيں _و من الشياطين من يغوصون له و يعملون عملًا دون ذلك

۷ _ حضرت سليمان(ع) كے تابع فرمان ہونے ميں شياطين پر خداتعالى كى نظارت اور كنٹرول_و من الشياطين و كنا لهم حفظين

۴۲۷

۸ _ شياطين ہميشہ خداتعالى كى نظارت، كنٹرول، اور نگرانى ميں ہيں _من الشياطين و كنا لهم حفظين

۹ _ شياطين كے حكم خداوندى سے سركشى كرنے كا امكان اور ان كے مطيع ہونے كيلئے خداتعالى كى نظارت اور نگرانى كى ضرورت_و كنالهم حفظين

خداتعالى كا ہميشہ كيلئے شياطين كى نگرانى كى ياد دہانى كرانا بتاتا ہے كہ وہ سركش قسم كى مخلوقات ہيں اور انہيں نگرانى كى ضرورت ہے_

خداتعالى :اسكى نظارت ۷، ۸، ۹

سليمان(ع) :ان كيلئے شياطين كو مسخر كرنا ۱، ۲، ۷; ان كے فضائل ۱

شياطين:انہيں مسخر كرنا ۵; انكا شعور۴; انكى صفات ۵; انكى نافرمانى ۹; انكا علم ۶; انكى غواصي۲; ان كى نگرانى ۸، ۹; ان كے عمل كا ناظر ۷، ۸; ان كا نقش و كردار ۴

نافرماني:خدا كى نافرمانى ۹

غواصي:سليمان(ع) كے زمانے ميں اسكى اہميت ۳

آیت ۸۳

( وَأَيُّوبَ إِذْ نَادَى رَبَّهُ أَنِّي مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَأَنتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ )

اور ايوب كو ياد كرو جب انھوں نے اپنے پروردگار كو پكارا كہ مجھے بيمارى نے چھوليا ہے اور تو بہترين رحم كرنے والا ہے (۸۳)

۱ _ حضرت ايوب(ع) كا قصہ اور ان كى خداتعالى كے ساتھ مناجات سبق آموز اور ياد ركھنے اور ياد كرانے كے قابل ہے_

و أيوب إذ نادى ربه مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''ايّوب'' كى نصب مقدر عامل جيسے ''اذكر'' يا ''اذكروا'' كے ذريعے ہو_

۲ _ حضرت ايوب(ع) مختلف قسم كى مشكلات، تكاليف، فقر اور بيمارى ميں مبتلا تھے _أنى مسنى الضر

''الضر'' اسم مصدر ہے اور اس كا معنى ہے بدحالي، فقر اور جسمانى تكليف نيز ہر وہ چيز جو فائدے كى ضد ہو (لسان العرب)

۳ _ حضرت ايوب نے بلند اور واضح آواز كے ساتھ اپنے لئے دعا كى اور خداتعالى سے مختلف قسم كى مشكلات، جسمانى تكاليف اور فقر سے نجات كے خواہاں ہوئےو أيوب اذ نادى أنى مسنى الضر ''ندا'' كا معنى ہے بلند اور واضح آوا ز

۴۲۸

۴ _ رنج و الم اور مشكلات كے وقت انسان كے بارگاہ خداوندى كى طرف متوجہ ہونے كا شائستہ ہونا_

و أيوب اذ نادى ربه أنى مسنى الضر

۵ _ خداتعالى كو ''ربّ'' كے نام سے پكارنا دعا اور مناجات كے آداب ميں سے ہے_و أيوب إذ نادى ربه أنى مسنى الضر

۶ _ تمام انسان حتى كہ انبيا(ع) ء بھى دنيا ميں مختلف قسم كے رنج و الم تكاليف اور مشكلات كا شكار ہيں _

و أيوب أنى مسنى الضر

۷ _ لوگوں كا رنج و الم، تكاليف اور مشكلات ميں گرفتار ہونا ان كے برا اور فاسد ہونے كى دليل نہيں ہے_

و أيوب إذ نادى ربه أنى مسنى الضر مذكورہ مطلب اس نكتے كے پيش نظر ہے كہ حضرت ايوب(ع) جيسا صاحب فضيلت نبى بھى رنج و الم اور مصيبت ميں مبتلاء تھا_

۸ _ ربوبيت الہى كا تقاضا يہ ہے كہ انسان رنج و الم اور ضرورت كے وقت بارگاہ خداوندى كى طرف متوجہ رہے_

و أيوب إذ نادى ربه أنى مسنى الضر

۹ _ حضرت ايوب(ع) كا خداتعالى كے لطف و كرم اور عنايات كو حاصل كرنے كيلئے اسكى وسيع رحمت كو وسيلہ بنانا اور اسكى پناہ لينا_و أيوب و أنت أرحم الراحمين

۱۰ _ خداتعالى سب مہربانوں سے زيادہ مہربان ہے_و أنت أرحم الراحمين

۱۱ _ خداتعالى كى وسيع رحمت بے مثل و بے مثال رحمت ہے_و أنت أرحم الراحمين

خداتعالى كے ''ارحم الراحمين'' (سب مہربانوں سے زيادہ مہربان) كے ساتھ توصيف اسكے مہربانى ميں بے مثل ہونے كى دليل ہے كيونكہ ہر صفت ميں برترين صرف ايك ہوسكتا ہے _

۱۲ _ دعا اور حاجت روائي كى درخواست كے وقت انسان كا رحمت الہى كى پناہ لينا دعا كے آداب ميں سے ہے_

و أيوب إذ نادى ربه و أنت أرحم الراحمين

۱۳ _ خداتعالى كى وسيع رحمت اور بے مثال مہربانى اسكى جانب سے بندوں كى دعا كى قبوليت كا تقاضا كرتى ہے_و أيوب إذ نادى ربه و أنت أرحم الراحمين چونكہ حضرت ايوب نے اپنى مشكلات كو بيان كرنے كے بعد خداتعالى كو ''أرحم الراحمين'' كى صفت كے ساتھ ياد كيا ہے اس سے مذكورہ مطلب حاصل كيا جاسكتا ہے_

اسما و صفات:ارحم الراحمين ۱۰

۴۲۹

انبياء(ع) :انكى دنيوى مشكلات ۶

انسان:اسكى دنيوى مشكلات ۶

ايوب:ان كا پناہ لينا ۹; انكى بيمارى ۲; انكى دعا ۱، ۳; انكى شفا ۳; انكے قصے سے عبرت ۱; انكا فقر۲; انكى تكليف ۲; انكى مشكلات ۲بلائ:اس كا فلسفہ ۷

خداتعالى :اسكى ربوبيت كے اثرات ۸; اسكى رحمت كے اثرات ۱۳; اسكى خصوصيات ۱۱; اسكى پناہ لينا ۹، ۱۲; اسكى رحمت كا بے نظير ہونا ۱۱; اسكى رحمت ۱۲; اسكے لطف و كرم كا پيش خيمہ ۹

دعا:اسكے آداب ۵، ۱۲; اس ميں پناہ لينا ۱۲; يہ سختى كے وقت ۴، ۸; اسكى قبوليت كا پيش خيمہ ۱۳; اس كا پيش خيمہ ۸

ذكر:ربوبيت خدا كا ذكر ۵; قصہ ايوب كا ذكر ۱

رنج و الم:اس كا فلسفہ ۷

سختي:اس سے نجات كى درخواست ۳; اس كا فلسفہ ۷

عبرت:اسكے عوامل ۱

فقر:اس سے نجات كى درخواست ۳

آیت ۸۴

( فَاسْتَجَبْنَا لَهُ فَكَشَفْنَا مَا بِهِ مِن ضُرٍّ وَآتَيْنَاهُ أَهْلَهُ وَمِثْلَهُم مَّعَهُمْ رَحْمَةً مِّنْ عِندِنَا وَذِكْرَى لِلْعَابِدِينَ )

تو ہم نے ان كى دعا كو قبول كرليا اور ان كى بيمارى كو دور كرديا اور انھيں ان كے اہل و عيال ديدئے اور ويسے ہى اور بھى ديدئے كہ يہ ہمارى طرف سے خاص مہربانى تھى اور يہ عبادت گذار بندوں كے لئے ايك ياد دہانى ہے (۸۴)

۱ _ خداتعالى نے حضرت ايوب(ع) كى دعا اور درخواست كو قبول فرمايا_و أيوب إذ نادى ربه فاستجبناله

۲ _ خداتعالى نے ايوب(ع) كى مشكلات كو حل كرديا اور غم و اندوہ كو ان كے جسم و جان سے دور كرديا_و أيوب فكشفنا ما به من ضر

۳ _ خداتعالى كو پكارنے اور اسكى بارگاہ ميں دعا اور درخواست كرنے كا نتيجہ اسكى طرف سے قبوليت اور جواب كا آنا ہے_

إذ نادى ربه فاستجبناله فكشفنا ما به من ضر يہ آيت كريمہ _ جيسے كہ جملہ''رحمة من عندنا و ذكري ''

۴۳۰

صراحت كے ساتھ بيان كرر ہا ہے_ پيغمبر اكرم (ص) اور مؤمنين كو تسلى دينے نيز سبق سكھانے كيلئے ہے اس لحاظ سے يہ آيت حضرت ايوب(ع) كے ساتھ مختص نہيں ہے_

۴ _ خداتعالى نے حضرت ايوب كى فوت ہوجانے والى فيملى (بيوى اور اولاد) كو زندہ كر كے انہيں واپس پلٹاديا _و أتينه أهله اس سلسلے ميں كہ ايوب(ع) كى فيملى ايوب(ع) كو دينے سے كيا مراد ہے دورائے ہيں ۱_ ان كے فوت شدہ بيوى بچوں كو زندہ كر كے دوبارہ انكے پاس پلٹانا ۲_ فوت شدہ بيوى بچوں كے بجائے انہيں دوسرے بيوى بچے عطا كرنا_ مذكورہ مطلب پہلے نظريئے كے مطابق ہے_

۵ _ خداتعالى نے حضرت ايوب(ع) كى فوت شدہ بيوى بچوں كى جگہ انہيں دوسرے بيوى بچے عطا كئے_و أتينه أهله

۶ _ حضرت ايوب(ع) سے بيماري، غم و اندوہ اور مشكلات كو دور كرنااور انہيں انكى فيملى واپس پلٹانا خداتعالى كى جانب سے ان پر رحمت تھي_فكشفنا ما به رحمة من عندن

۷ _ خداتعالى نے حضرت ايوب(ع) كو بيوى بچے واپس پلٹانے كے علاوہ انہيں اسى جيسى دوسرى فيملى بھى عطا كي_

و أتينه أهله و مثلهم معهم

۸ _ ايوب(ع) اپنى فيملى كے فراق اور چلے جانے كى مصيبت ميں مبتلا ء تھے_و أتينه أهله

۹ _ فيملى (بيوى بچوں ) كا دنيا سے چلاجانا حضرت ايوب(ع) كى سب سے بڑى تكليف اور مشكل تھي_

أنّى مسنى الضر فكشفنا ما به من ضر و أتينه أهله و مثلهم معهم

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ جملہ ''آتيناہ أہلہ ...'' كا ''فكشفنا ...'' پر عطف ہو اس صورت ميں ''آتيناہ أہلہ'' كا ذكر كرنا عام كے بعد خاص كا ذكر كرنا ہوگا اور يہ اہميت كا فائدہ ديگا كيونكہ فيملى كا دنيا سے چلاجانا خود ''ضرّ'' ہے_

۱۰ _ فيملى ( بيوى بچوں ) كا دنيا سے چلاجانا انسان كى سب سے بڑى تكليف اور رنج ہے_فكشفنا ما به من ضرّ و أتينه أهله و مثلهم معهم

۱۱ _ ايوب (ع) كا اپنى تمنا سے زيادہ عطا سے بہرہ مند ہونا_أنى مسنى الضرّ فكشفنا ما به من ضرّ و أتينه أهله و مثلهم معهم

۴۳۱

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''آتيناہ ...'' كا عطف ''فاستجبنا'' پر ہو اسكى بناپر جس كى ايوب(ع) نے درخواست كى تھى وہ بيمارى اور رنج و الم (ضرّ) كا دور ہونا تھا اور خداتعالى نے اسكے علاوہ انہيں بيوى بچے بھى واپس پلٹا ديئے_

۱۲ _ دعا كى قبوليت اور مشكلات كا دور كرنا، خداتعالى كى بے كراں رحمت كا ايك جلوہ ہے_

و أنت أرحم الرحمين_ فاستجبناله رحمة من عندن

۱۳ _ خداتعالى كا انسان كو اسكى آرزو سے زيادہ عطا كرنا خداتعالى كى طرف سے اس پر خاص رحمت كا ايك جلوہ ہے_

و أنت أرحم الرحمين و أتيناه أهله و مثلهم معهم رحمة من عندن

۱۴ _ ايوب(ع) ، كى دعا كى قبوليت اور انكى مشكلات اور رنج و الم كو دور كرنا خدا پرستوں كى بيدارى اور نصيحت حاصل كرنے كا ذريعہ ہے_فاستجبناله و أتينه رحمة من عندنا و ذكرى للعبدين

۱۵ _ ايوب(ع) ،عابدين ميں سے اور ان كيلئے عبرت آميز نمونہ ہيں _و ذكرى للعبدين

حضرت ايوب(ع) كے ماجرا كا عابدين كيلئے نمونہ ہونا اس وقت ہوسكتاہے جب آپ خود ان ميں شامل ہوں اور پھر ان پر خدا كى رحمت دوسرے عابدين كيلئے نصيحت بنے_

۱۶ _ مشكلات و مصائب نيز ان كا دور ہونا متوجہ ہونے اور نصيحت حاصل كرنے كا ذريعہ ہے_فاستجبناله ذكرى للعبدين

۱۷ _ خدا كى پرستش كرنے والے اسكى نصيحتوں اور خبردار كرنے سے بہرہ مند ہيں _ذكرى للعبدين

۱۸ _ خداتعالى كى عبادت ،نصحيت كو قبول كرنے اور حق كو سننے كے اسباب فراہم كرتى ہے_ذكرى للعبدين

۱۹ _ سب انسانوں حتى كہ عبادت كرنے والوں كو بھى نصيحت اور ياد دہانى كرانے كى ضرورت ہے_ذكرى للعبدين

۲۰ _ امام صادق(ع) سے روايت كى گئي ہے كہ خداتعالى نے حضرت ايوب(ع) كو انكى فيملى كہ جو فوت ہوچكى تھى واپس كردى اور ان جيسے اور بھى انہيں عطا كئے اور اسى طرح خداتعالى نے انكے اپنے اموال اور چوپائے واپس پلٹا ديئے اور ان جيسے اور بھى اتنى ہى مقدار ميں انہيں عطا كئے(۱)

اولاد:اسكى موت كا سخت ہونا ۱۰

انسان:اس پر فضل كرنا ۱۳; اس كا سب سے اہم رنج ۱۰;اسكى معنوى ضروريات ۱۹

۴۳۲

ايوب(ع) :انكى دعا كى قبوليت كے اثرات ۱۴; انكى مشكلات كے دور كرنے كے اثرات ۱۴; انكى دعا كى قبوليت ۱; انكى فيملى كا زندہ كرنا ۲۰; ان كے بچوں كا زندہ كرنا ۴; انكى بيوى كا زندہ كرنا ۴; انہيں فيملى عطا كرنا ۲۰; انہيں اولاد عطا كرنا ۵، ۶، ۷; انہيں مال عطا كرنا ۲۰; انہيں بيوى عطا كرنا ۵، ۶، ۷; ان پر فضل كرنا ۱۱،۲۰; ان كا نمونہ بننا ۱۵ ; ان كا عابدين ميں سے ہونا ۱۵،۹; ان پر رحمت ۶; ان كے غم كا دور كرنا ۲، ۶; انكى مشكلات كا دور كرنا ۲، ۶; انكى بيمارى كى شفا ۲، ۶; انكى فيملى سے جدائيء ۸; انكا قصہ ۱، ۲، ۴، ۵، ۷، ۸، ۱۱; انكى تكليف۸; ان كى اولاد كى موت ۹; انكى بيوى كى موت ۹; انكا سب سے بڑا رنج ۹

بيوي:اسكى موت كا سخت ہونا ۱۰

حق:اسے قبول كرنے كا پيش خيمہ ۱۸

خداتعالى :اسكے عطيے ۵، ۷; اسكى رحمت كى نشانياں ۱۲، ۱۳

دعا:اسكے اثرات ۳; اسكى قبوليت ۳، ۱۳; اسكى قبوليت كا سرچشمہ ۱۲

رحمت:يہ جنكے شامل حال ہے ۶/روايت :۲۰

سختي:اسے دور كرنے كا سرچشمہ ۱۲

عابدين:انكا نمونہ۱۵; انكا خبردار ہونا ۱۷; انكا عبرت لينا ۱۷; ان كے خبردار ہونے كے عوامل ۱۴; انكى معنوى ضروريات ۱۹/عبادت:عبادت خدا كے اثرات ۱۸/عبرت:اس كا پيش خيمہ ۱۸

فضل خدا:يہ جنكے شامل حال ہے ۲۰/مردے:انہيں زندہ كرنا ۴

مشكلات:ان كا كردار ۱۶/مصائب:ان كا كردار ۱۶

ضروريات:نصيحت كى ضرورت ۱۹

نصيحت:اسكے عوامل ۱۶; عابدين كو نصيحت كے عوامل ۱۴

فيملي:اسكى اہميت ۱۰

____________________

۱ ) مجمع البيان ج ۷ ص ۹۴ _ بحارالانوار ج ۱۲ ص ۳۴۶

۴۳۳

آیت ۷۵

( وَإِسْمَاعِيلَ وَإِدْرِيسَ وَذَا الْكِفْلِ كُلٌّ مِّنَ الصَّابِرِينَ )

اور اسماعيل و ادريس و ذوالكفل كو ياد كرو كہ يہ سب صبر كروالوں ميں سے تھے (۸۵)

۱ _ اسماعيل، ادريس اور ذوالكفل صابر اور بردبار لوگوں ميں سے تھے_و إسماعيل كل من الصبرين

۲ _ اسماعيل(ع) اور ادريس(ع) اور ذولكفل(ع) كا قصہ اور انكى صبرو شكيبايى سبق آموز اور ياد ركھنے اور ياد كرانے كے قابل ہے_و إسماعيل كل من الصبرين مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''اسماعيل'' كى نصب ''اذكر'' يا ''اذكروا'' جيسے مقدر عامل كى وجہ سے ہو_

۳ _ اسماعيل(ع) ، ادريس(ع) اور ذوالكفل(ع) صبرو شكيبائي ميں لوگوں كيلئے نمونہ ہيں _و إسماعيل و إدريس و ذوالكفل كل من الصبرين مذكورہ مطلب اس نكتے كو پيش نظر ركھنے سے حاصل ہوتا ہے كہ خداتعالى نے عصر بعثت كے لوگوں كى تربيت اور انہيں ہدايت كرنے كے مقام ميں ان تينوں انبيا(ع) ء كو ''صابرين'' كى صفت كے ساتھ متعارف كرايا ہے_

۴ _ بارگاہ خداوندى ميں صبر كا قابل قدر ہونا اور صابرين كا بلند مقامو إسماعيل كل من الصبرين

ادريس(ع) :ان كا صبر، ۱، ۲ ، ۳; ان كے قصے سے عبرت لينا ۲; انكے فضائل ۱، ۳

اقدار ۴:اسماعيل(ع) :ان كا صبر، ۱،۲،۳; ان كے قصے سے عبرت لينا ۲; ان كے فضائل ۱،۳

نمونہ بنانا:

۴۳۴

ادريس(ع) كو نمونہ بنانا ۳; اسماعيل(ع) كو نمونہ بنانا ۳; ذوالكفل(ع) كو نمونہ بنانا ۳

ذكر:ادريس كے قصے كا ذكر ۲; اسماعيل كے قصے كا ذكر ۲; ذوالكفل كے قصے كا ذكر ۲

ذوالكفل:انكا صبر، ۱، ۲، ۳; ان كے قصے سے عبرت لينا ۲;

ان كے فضائل ۱، ۳

صابرين:ان كے فضائل ۴

صبر:اسكى فضيلت ۴

عبرت:اسكے عوامل ۲

آیت ۸۶

( وَأَدْخَلْنَاهُمْ فِي رَحْمَتِنَا إِنَّهُم مِّنَ الصَّالِحِينَ )

اور سب كو ہم نے اپنى رحمت ميں داخل كرليا تھا اور يقينا يہ سب ہمارے نيك كردا ربندوں ميں سے تھے (۸۶)

۱ _ اسماعيل(ع) ، ادريس(ع) اور ذوالكفل(ع) خداتعالى كى خاص رحمت سے بہرہ مند تھے_

و اسماعيل و إدخلنهم فى رحمتن

اسماعيل، ادريس اور ذوالكفل كے رحمت الہى سے بہرہ مند ہونے كو خاص طور پر ذكر كرنے سے مذكورہ مطلب حاصل ہوتا ہے كيونكہ خداتعالى كى رحمت تو سب موجودات كو شامل ہے اور سب كسى نہ كسى طرح سے اسكى رحمت سے بہرہ مند ہيں _

۲ _ اسماعيل(ع) ، ادريس(ع) اور ذوالكفل(ع) كا مقام صبر ان كے خاص رحمت الہى سے بہرہ مند ہونے كا سبب بنا_و إسماعيل ...كل من الصبرين و أدخلنهم فى رحمتن

۳ _ صبر انسان كے خاص رحمت الہى سے بہرہ مند ہونے كا ذريعہ ہے_من الصبرين و أدخلنهم فى رحمتن

۴ _ اسماعيل(ع) ، ادريس(ع) اور ذوالكفل(ع) صالحين ميں سے ہيں _و أدخلنهم فى رحمتنا إنهم من الصلحين

۵ _ اسماعيل(ع) ، ادريس(ع) اور ذوالكفل(ع) كا صالح ہونا ان

۴۳۵

كے خاص رحمت الہى سے بہرہ مند ہونے كا سبب بنا_و إسماعيل و أدخلنهم فى رحمتنا إنهم من الصلحين

مذكورہ مطلب اس نكتے كے پيش نظر ہے كہ جملہ ''إنہم من الصالحين'' سابقہ جملے كيلئے تعليل ہے يعنى چونكہ صالحين ميں سے تھے اسلئے انہيں اپنى بے كراں رحمت ميں قرار ديا_

۶ _ عمل صالح، خاص رحمت الہى كے حاصل كرنے كا ذريعہ ہے_و أدخلنهم فى رحمتنا إنهم من الصالحين

۷ _ صبر كرنے والے شائستہ انسان اور صالحين ميں شامل ہيں _و أدخلنهم فى رحمتنا إنهم من الصالحين

خداتعالى نے گذشتہ آيت ميں _ كہ جو بعض انبياء كى توصيف كر رہى تھي_ انہيں صابرين ميں سے متعارف كرايا ہے اور اس آيت ميں انہيں صالحين ميں سے قرار ديا ہے دو آيتوں كے مجموعے سے معلوم ہوتا ہے كہ صبر كرنے والے لوگ صالحين ميں سے ہيں _

۸ _ انبيا(ع) ء كے عمل صالح اور نيك كردار كا ان كسى خاص رحمت خداوندى اور برتر مقام و مرتبے تك دسترسى ميں كردار _و إسماعيل كل من الصبرين و أدخلنهم فى رحمتنا إنهم من الصالحين

۹ _ خداتعالى كى خاص عنايات سے بہرہ مند ہونے كيلئے خود انسان كے اپنے عمل اور كوشش كى ضرورت ہے_

كل من الصبرين و أدخلنهم فى رحمتنا إنهم من الصالحين

ادريس(ع) :ان كے صبر كے اثرات ۲; ان كے صالح ہونے كے اثرات ۵; يہ صالحين ميں سے ۴; ان كے فضائل ۱، ۴

اسماعيل(ع) :ان كے صبر كے اثرات ۲; ان كے صالح ہونے كے اثرات ۵; يہ صالحين ميں سے ۴; ان كے فضائل ۱، ۴

انبياء(ع) :ان كے عمل صالح كے اثرات ۸; ان كے تكامل كے عوامل ۸

خداتعالى :اسكى رحمت ۱، ۳; اسكے لطف و كرم كا پيش خيمہ ۹

ذوالكفل(ع) :ان كے صبر كے اثرات ۲; ان كے صالح ہونے كے اثرات ۵; يہ صالحين ميں سے ۴; ان كے فضائل۱، ۴

رحمت:اس كا پيش خيمہ ۲، ۳، ۵، ۶، ۸; يہ جنكے شامل حال ہے ۱، ۲، ۵، ۸

صابرين:يہ صالحين ميں سے ۷; ان كے فضائل ۷

۴۳۶

صبر:اسكے اثرات ۳

عمل:اسكے اثرات ۹

عمل صالح:اسكے اثرات ۶

آیت ۸۷

( وَذَا النُّونِ إِذ ذَّهَبَ مُغَاضِباً فَظَنَّ أَن لَّن نَّقْدِرَ عَلَيْهِ فَنَادَى فِي الظُّلُمَاتِ أَن لَّا إِلَهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ )

اور يونس كو ياد كرو كہ جب وہ غصہ ميں آكر چلے اور يہ خيال كيا كہ ہم ان پرروزى تنگ نہ كريں گے اور پھر تاريكيوں ميں جاكر آواز دى كہ پروردگار تيرے علاوہ كوئي خدا نہيں ہے تو پاك و بے نياز ہے اور ميں اپنے نفس پر ظلم كرنے والوں ميں سے تھا (۸۷)

۱ _ ذا النون (يونس(ع) ) كا ماجرا سبق آموز اور ياد ركھنے اور ياد كرانے كے قابل ہے _و ذا النون إذ ذهب

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''ذالنون'' كا نصب ''اذكر'' يا ''اذكروا'' جيسے مقدر عامل كى وجہ سے ہو قابل ذكر ہے كہ ''النون'' كا معنى ہے مچھلى اور ''ذا النون'' حضرت يونس(ع) كا لقب ہے اس وجہ سے كہ وہ ايك مدت تك مچھلى كے پيٹ ميں تھے_

۲ _ حضرت يونس (ع) غصے كى حالت ميں اپنى قوم ميں سے نكلے اور كسى دوسرى سرزمين كى طرف ہجرت كر گئے_

إذ ذهب مغاضب جو كچھ مفسرين اور مورخين كى رائے سے معلوم ہوتا ہے وہ يہ ہے كہ حضرت يونس (ع) اپنى قوم كے ايمان نہ لانے كى وجہ سے غصے كى حالت ميں ان ميں سے نكلے اور كسى دوسرى جگہ كى طرف ہجرت كر گئے اور آيت كريمہ اسى داستان كى طرف ناظر ہے_

۳ _ قوم يونس كى رفتار و كردار نے حضرت يونس(ع) كے شديد غصے كو بھڑ كاديا اور انہيں ناخوش كرديا_

إذ ذهب مغاضب

۴ _ انبيا(ع) ء بھى انسانى عادات كے حامل ہيں _إذ ذهب مغاضب

۵ _ حضرت يونس(ع) كا يہ گمان كہ اپنى قوم كو چھوڑنے پر خداتعالى ان پر سختى نہيں كريگا_إذ ذهب مغاضباً فظن أن لن نقدر عليه

۴۳۷

''قدر'' كا ايك معنى سختى اور تنگى كرنا (ضيق) ہے (مفردات راغب) مذكورہ مطلب اسى معنى پر مبتنى ہے_

۶ _ حضرت يونس(ع) كا يہ گمان كہ اپنى قوم ميں سے نكل كر كسى اور سرزمين كى طرف ہجرت كرنے پر انہيں خدا تعالى كى جانب سے پاداش نہيں ملے گى _فظن أن لن نقدر عليه

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''قدر'' ''قضاوت اور فيصلے'' كے معنى ميں ہو قابل ذكر ہے كہ آيت كا ذيل (إنى كنت من الظالمين) اسى مطلب كا مؤيد ہے_

۷ _ حضرت يونس (ع) اپنى كافر قوم ميں سے نكلنے اور كسى دوسرى سرزمين كى طرف ہجرت كرنے كے سلسلے ميں بے جا غصے اور نادرست گمان كا شكار ہوئے_ *إذ ذهب مغاضباً فظن أن لن نقدر عليه

۸ _ انبيا(ع) ء كے ناروا غصے اور نادرست گمان ميں مبتلا ہونے كا امكان _ *إذ ذهب مغاضباً فظن أن لن نقدر عليه

مذكورہ مطلب حضرت يونس (ع) سے الغاء خصوصيت كرنے سے حاصل ہوتا ہے_

۹ _ حضرت يونس (ع) كا اپنے بارے ميں تمام تقديرات الہى سے مكمل طور پر آگاہ نہ ہونا_و ذاالنون فظن أن لن نقدر عليه

۱۰ _ مقام نبوت كا اپنے بارے ميں تقديرات الہى سے آگاہ نہ ہونے كے منافى نہ ہونا _فظن أن لن نقدر عليه

۱۱ _ انبيا(ع) ء آخرى مرحلے تك تبليغ كے راستے ميں ثابت قدم رہنے اور اپنے معاشرے ميں اور لوگوں كے درميان رہنے پر مأمورو ذاالنون إذ ذهب مغاضباً فظن أن لن نقدر عليه

اپنى قوم كو ترك كرنے كى وجہ سے_ قبل اس كے كہ اس سلسلے ميں خدا كى جانب سے كوئي حكم آئے_ حضرت يونس(ع) كى توبيخ اس نكتے پر دلالت كرتى ہے كہ ا نبيا(ع) ء خدا كى جانب سے اجازت ملنے اور اسكے حكم كے آنے سے پہلے اپنى ڈيوٹى اور لوگوں كو ترك كرنے كے مجاز نہيں ہيں _

۱۲ _ حضرت يونس(ع) كا دريا ميں اور مچھلى كے پيٹ ميں گرفتار ہوجانا انكى غصے كى حالت ميں اپنى قوم كو ترك كرنے كى سزا _و ذاالنون إذ ذهب مغاضباً فظن فنادى فى الظلمت

آيت كريمہ ميں ''ظلمات'' سے مراد مچھلى كا پيٹ ہے اور اس كا جمع آنا تاريكى كى شدت كو بيان كرنے كيلئے ہے_

۱۳ _ تاريكيوں (مچھلى كے پيٹ)ميں گرفتار ہونے كے بعد حضرت يونس(ع) كا بارگاہ خداوندى ميں دعا اور تضرع و زارى كرنا_فنادى فى الظلمت أن لا إله إلّا أنت

۴۳۸

۱۴ _ حضرت يونس(ع) كا مچھلى كے پيٹ ميں اپنى خصوصى دعا ميں خداتعالى كى تہليل و تنزيہ كى طرف متوجہ ہونا_

فنادى فى الظلمت أن لا إله إلّا أنت سبحنك

۱۵ _ ''لا إلہ إلا أنت سبحانك إنى كنت من الظالمين'' مچھلى كے پيٹ كى تاريكى ميں گرفتار ہونے كے وقت حضرت يونس(ع) كى دعا_فنادى فى الظلمت أن لا إله إلّا أنت سبحنك إنى كنت من الظالمين

۱۶ _ تكاليف و مشكلات انسان كے خداتعالى كى طرف متوجہ ہونے كے اسباب فراہم كرتى ہيں _

فنادى فى الظلمت أن لا إله إلّا أنت سبحنك

۱۷ _ حضرت يونس (ع) كا بارگاہ الہى ميں خاضع ہونا اور ان كا اپنى عجولانہ رفتار كے نادرست اور ظلم ہونے كا اعتراف _فنادى إنى كنت من الظالمين

۱۸ _ حضرت يونس(ع) كى نظر ميں خداتعالى كى اجازت كے بغير اپنى قوم كے درميان سے نكل جانا خود اپنے اوپر ظلم تھا_

إذ ذهب مغاضباً إنى كنت من الظالمين

۱۹ _ خداتعالى كى تہليل و تنزيہ اور اپنے گناہ و كوتاہى كا اعتراف دعا كے آداب ميں سے ہے_

فنادى فى الظلمت أن لا إله إلّا انت سبحنك إنى كنت من الظالمين

۲۰ _ خداتعالى كى طرف سے سزا اور دنياوى مشكلات ميں گرفتار ہونے ميں خود انسان كا كردار_

إذ ذهب مغاضبا إنى كنت من الظالمين

۲۱ _ ( روايت ميں آيا ہے كہ) مامون نے امام رضا(ع) سے كہا مجھے خداتعالى كے فرمان''و ذا النون إذ ذهب مغاضباً فظن أن لن نقدر عليه'' كے بارے ميں بتايئےو آپ(ع) نے فرمايا وہ يونس بن متى تھے جو اپنى قوم پر غضب ناك ہونے كى حالت ميں ان ميں سے نكل كر چلے گئے اور الله تعالى كے كلام ميں ''ظن'' كا مطلب ہے ''استيقن'' اور ''لن نقدر عليہ'' كا معنى ہے ''لن نضيق عليہ رزقہ ...''''فنادى فى الظلمات'' يعنى (تين تاريكيوں ميں ) شب كى تاريكي، سمندر كى تاريكى اور مچھلى كے پيٹ كى تاريكي_ انہوں نے ند ا دى '' سبحانك إنى كنت من الظالمين'' يعنى ميں ستم كار لوگوں ميں سے ہوں كيونكہ ماضى ميں ميں نے ايسى عبادت كو ترك كيا تھا كہ جس كيلئے اس وقت مجھے مچھلى كے پيٹ ميں تو نے فارغ ركھا ہے(۱) _

____________________

۱ ) عيون اخبار الرضا ۱ ص ۲۰۱ ب ۱۵ ح ۱; نورالثقلين ج ۳ ص ۴۴۹ ح ۱۳۷_

۴۳۹

۲۲ _ الله تعالى كے فرمان''و ذا النون إذ ذهب مغاضباً'' كے بارے ميں امام باقر(ع) سے روايت ہے كہ حضرت يونس(ع) كا غضب اپنى قوم كے اعمال كى وجہ سے تھا (اور)''فظن ان لن نقدر عليه'' (كے معنى كے بارے ميں ) فرمايا يونس كا خيال يہ تھا كہ اس نے جو كچھ انجام ديا ہے اس كے مقابلے ميں اسے سزا نہيں دى جائيگى(۱)

اقرار:ظلم كا اقرار ۱۷; گناہ كا اقرار ۱۹

ابنيا(ع) ئ:ان كا بشر ہونا ۴; انكى تبليغ ۱۱; انكى دعوت ۱۱; ان كا صبر ۱۱; انكى صفات ۴; ان كا غضب ۸; انكى ذمہ دارى ۱۱/انسان:اس كا نقش و كردار ۲۰

تبليغ:اس ميں صبر، ۱۱/خداتعالى :اسكى تنزيہ ۱۴، ۱۹; اسكى تقديرات كا علم ۹; اسكى اجازت كا نقش و كردار ۱۸

خود:خود پر ظلم ۱۸

دعا:اسكے آداب ۱۹; اس ميں تسبيح ۱۹; اس ميں تہليل ۱۹

ذكر:حضرت يونس(ع) كے قصے كا ذكر۱; ذكر يونس(ع) ۱۵; ذكر خدا كا پيش خيمہ ۱۶

روايت ۲۱، ۲۲سختي:اسكے اثرات ۱۶; اس كا پيش خيمہ ۲۰/سزا:اس كا پيش خيمہ ۲۰

عبرت:اسكے عوامل ۱

غضب:بے جا غضب ۷، ۸

قوم يونس:اسكے سلوك كے اثرات ۳; اس پر غضب ۲۲

نبوت:يہ اور تقديرات سے جاہل ہونا ۱۰

يونس (ع) :انكى خطا ۷; انكا اقرار ۱۷، ۲۱; انكى سوچ ۱۸; انكى تہليل ۱۴، ۱۵; انكا خضوع ۱۷; انكى دعا ۱۳، ۱۴، ۱۵; انكى روزى ۲۱; انكا ظلم ۱۷، ۱۸، ۲۱; انكا گمان ۵، ۶، ۲۲; ان كے قصے سے عبرت ۱; انكى جلدبازى ۱۷; ان كے غضب كے عوامل ۳، ۲۲; ان كا غضب ۲، ۵، ۷، ۲۱; انكا قصہ ۲، ۳، ۵، ۷، ۱۲، ۱۳، ۱۴، ۱۵، ۱۷، ۲۱; انكے غضب كى سزا ۱۲; انكى سزا ۶; انكى تكليف ۱۲، ۱۳; ان كے علم كا دائرہ ۹; انكى ہجرت ۲، ۵، ۶، ۷; انكا يقين ۲۱; يہ مچھلى كے پيٹ ميں ۱۲، ۱۳، ۱۴، ۱۵، ۲۱

____________________

۱ ) تفسير قمى ج ۲ ص ۷۵_ نورالثقلين ج ۳ ص ۴۵۱ ح ۱۴۱_

۴۴۰