تفسير راہنما جلد ۱۱

تفسير راہنما 0%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 750

تفسير راہنما

مؤلف: آيت الله ہاشمى رفسنجاني
زمرہ جات:

صفحے: 750
مشاہدے: 173516
ڈاؤنلوڈ: 1990


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4 جلد 5 جلد 6 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 750 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 173516 / ڈاؤنلوڈ: 1990
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد 11

مؤلف:
اردو

آیت ۳۵

( إِنَّكَ كُنتَ بِنَا بَصِيراً )

يقينا تو ہمارے حالات سے بہتر باخبر ہے (۳۵)

۱ _ حضرت موسى (ع) نے اپنے اور اپنے خاندان كى خصوصيات كے بارے ميں خداتعالى كى گہرى آگاہى كو بيان كر كے اپنے آپ كو خداتعالى كى خواہشات كو قبول كرنے والا اور اسكے انتخاب پر راضى قرار ديا _إنّك كنت بنا بصير

''نا'' سے مراد ہے حضرت موسى (ع) اور انكے اہل و عيال ہيں كہ جن ميں حضرت ہارون بھى شامل ہيں _ حضرت موسى ،(ع) جناب ہارون كيلئے وزارت كى تجويز دينے كے بعد عرض كرتے ہيں _ خداوندا تو مجھے اور ميرے خاندان كو خوب جانتا ہے

اور ميرے بھائي ہارون كى خصوصيات سے بھى آگاہ ہے _ يہ ميرى درخواست ہے ليكن تيرا فيصلہ جو بھى ہو مكمل بصيرت اور آگاہى پر مبنى فيصلہ ہوگا _

۲ _ حضرت موسى (ع) نے اپنى رسالت كے امور كے بارے ميں خداتعالى كى بارگاہ ميں درخواست كرنے كے ساتھ ساتھ، خداتعالى كى مكمل آگاہى كا اعتراف كيا اور اسكے فيصلے كو دقيق اور صحيح قرار ديا _و ا شركه فى ا مري إنّك كنت بنا بصيرا

۳ _ حضرت موسى (ع) نے اپنى اور اپنے بھائي ہارون كى خداتعالى كے ذكر اور تسبيح كے ساتھ دائمى محبت كا اظہار كيا اور خداتعالى كو اس پر گواہ بنايا _إنّك كنت بنا بصيرا

ہوسكتا ہے جملہ'' إنّك ...'' ''كى نسبّحك كثيراً '' كى علت كا بيان ہو يعنى خدايا تو خوب جانتا ہے كہ ميرے اور ميرے بھائي ہارون كے كيا جذبات ہيں اور تيرى تسبيح و ذكر كے ساتھ ہميں كتنى محبت ہے پس ہارون كى وزارت كو قبول كركے ہمارے لئے زيادہ تسبيح و ذكر كا راستہ ہموار فرما _

۴ _ خداتعالى اپنے بندوں كے حالات اور انكى خوبيوں اور خاميوں سے آگاہ ہے _إنّك كنت بنابصيرا

۵ _ خداتعالى كے بندوں كے حالات سے آگاہى كے باوجود اسكى بارگاہ ميں دعا كرنا اور اس سے درخواست كرنا ايك پسنديدہ امر ہے _و ا شركه فى ا مري إنّك كنت بنا بصيرا حضرت موسى (ع) نے اپنے اور ہارون كے حالات

۶۱

سے خداتعالى كى آگاہى كو ذكر كرنے كے باوجود اسكى بارگاہ ميں دعا كى اور اپنى خواہشات كو بيان كيا موسى (ع) كا يہ كام بتاتا ہے كہ خداتعالى كے سب چيزوں سے آگاہ ہونے كے باوجود اسك ى بارگاہ ميں دعا كرنا مطلوب اور كارساز ہے _

اقرار:خدا كى بصيرت كا اقرار ۲

ايمان:خدا كى بصيرت پر ايمان۱

خداتعالى :اسكى بصيرت ۴، ۵; اسكى گواہى ۳

دعا:اسكى فضيلت ۵

محبت:خدا كى تسبيح سے محبت ۳; خدا كے ذكر سے محبت ۳

عمل:پسنديدہ عمل ۵

موسى (ع) :آپكا اقرار ۲; آپكا ايمان ۱; آپكى خواہشات ۲; آپكى معنوى محبت ۳ ; آپ كا مقام رضا ۱

ہارون:انكى معنوى محبت ۳

آیت ۳۶

( قَالَ قَدْ أُوتِيتَ سُؤْلَكَ يَا مُوسَى )

ارشاد ہوا موسى نے تمھارى مراد تمھيں ديدى ہے (۳۶)

۱ _ خداتعالى نے حضرت موسى (ع) كى تمام درخواستوں كو قبول كرليا اور انہيں شرح صدر اور روانى سے بولنے كى طاقت عطا فرمائي او رہارون كو انكا وزير قرار ديا _قال ربّ قال قد ا وتيت سؤلك يا موسى

''سؤل'' يعنى ايسى حاجت كہ جسے حاصل كرنے كيلئے انسان كا نفس حريص ہو اور اس كا آرزو سے فرق يہ ہے كہ آرزو انسان كى فكر ميں گزرتى ہے ليكن ''سؤل'' كا پيچھا كيا جاتا ہے گويا'' سؤل'' كا درجہ ہميشہ آرزو كے بعد ہوتا ہے _

۲ _ وادى طوى ميں حضرت موسى (ع) كى دعائيں بہت جلدى قبول ہوئيں _قال ربّ اشرح لى قال قد ا وتيت سؤلك ''ا وتيت'' فعل ماضى مجہول ہے اور اس كا

۶۲

مطلب يہ ہے كہ موسى (ع) كى دعاؤں كى قبوليت وعدے كى صورت ميں اور مستقبل سے مربوط نہيں تھى بلكہ اتنى جلدى ہوئي گويا گذشتہ زمانے ميں _

۳ _ خداتعالى نے وادى طوي( كوہ طور) ميں حضرت موسى كو انكى دعاؤں كى قبوليت سے آگاہ كيا _قد ا وتيت سؤلك

۴ _ مطالبات كے پورا ہونے كيلئے خداتعالى سے دعا اور درخواست مؤثر ہے _قال رب اشرح قال قد ا وتيت سؤلك

حضرت موسى (ع) كے مطالبات كا پورا ہونا انكى بارگاہ خداوندى ميں دعا اور التماس كے بعد تھا اور اس سے خواہشات كے پورا ہونے ميں دعا كے كردار كا پتا چلتا ہے

۵ _ كوہ طور ميں وادى طوى وہ جگہ ہے جہاں حضرت موسى (ع) كو شرح صدر اور روانى سے گفتگو كرنا عطا كيا گيا اور ہارون كو انكا وزير بنايا گيا _قال رب اشرح قال قد ا وتيت سؤلك

۶ _ حضرت ہارون (ع) كو وادى طوى ميں مقام نبوت و رسالت پر فائز كيا گيا _هرون ا خي و ا شركه فى ا مري قد ا وتيت سؤلك اگر ''ا شركہ فى أمري'' سے مراد حضرت ہارون (ع) كيلئے نبوت و رسالت كى دعا ہو تو يہ وادى طوى ميں قبول ہوئي _

۷ _ حضرت موسى (ع) ،عنايات خداوندى كا مركز _ياموسى حضرت موسى (ع) كى دعاؤں كا فوراً قبول ہوجانا اور بار بار ان كے نام كى تصريح سے انكے خداتعالى كے مورد توجہ و عنايت ہونے كا پتا چلتا ہے _

۸ _ ذمہ دار افراد كو ذمہ دارى سپرد كرنے كے ہمراہ انكى ضرورت كے وسائل فراہم كرنا بھى ضرورى ہے_

إذهب إلى ...قال ربّ ...قد ا وتيت سؤلك

حضرت موسى (ع) نے رسالت اور فرعون كى طرف حركت كرنے پر ما مورہونے كے بعد بارگاہ خداوندى ميں اپنى ضروريات اور خواہشات كا تذكرہ كيا_خداتعالى نے بھى اس كا مثبت جواب ديا يہ سب كيلئے درس ہے كہ اگر كسى كو ذمہ دارى دى جائے تو ضرورى ہے كہ اسكى بات سنى جائے، اس كے مطالبے پر توجہ دى جائے اور اسكى ضروريات پورى كى جائيں _خداتعالى :اسكے عطيے۱

دعا:اسكے اثرات ۴ذمہ دار افراد:انكى ضرورت پورى كرنا ۷

كوہ طور:اس كا كردار ۵، ۶لطف خدا:يہ جنكے شامل حال ہے ۷

۶۳

مطالبے:انكے حاصل كرنے كے عوامل۴

موسى (ع) :آپكى دعا كى قبوليت ۱، ۳; آپكى دعا كى جلدى قبوليت ۲; آپكا شرح صدر ۱، ۵; آپكا علم ۳; آپكيفصاحت ۱، ۵; آپ كے فضائل ۷; آپكا قصہ ۱، ۳ ; آپ كوہ طور ميں ۳، ۵

ہارون (ع) :انكے منصوب كرنے كى جگہ ۵; انكے انتخاب كى جگہ ۶; انكى نبوت ۶; انكا كردار ادا كرنا ۱; انكى وزارت ۱، ۵

وادى طوى :اس كا كردار ۵،۶

آیت ۳۷

( وَلَقَدْ مَنَنَّا عَلَيْكَ مَرَّةً أُخْرَى )

اور ہم نے پر ايك اور احسان كيا ہے (۳۷)

۱ _ وادى طوى ميں حضرت موسى (ع) كى در خواستوں كے مطالبات كا پورا ہونا آپ پرخداتعالى كى جانب سے بھارى نعمت تھى _قدا وتيت سؤلك يا موسى و لقد مننا عليك مرة ا خرى

''منّة'' كا معنى ہے بھارى نعمت (مفردات راغب) _

۲ _ وادى طوى ميں قدم ركھنے سے پہلے بھى حضرت موسى (ع) پرخداتعالى كى توجہ و عنايت اور بھارى نعمت كا نزول ہوا تھا _و لقد مننا عليك مرة أخرى

۳ _ حضرت موسى (ع) كا ماضى ميں عظيم نعمت سے بہرہ مندہونا انكے وادى طوى ميں اپنى درخواستوں كي حتمى قبوليت كے اطمينان كا سبب تھا _و لقدمننا عليك مرة ا خرى

''لقد'' كى تعبير قسم كى علامت ہے_ تاكيد كے ساتھ ماضى كے بارے ميں خبر ، مستقل سے مربوط وعدوں كى نسبت اطمينان پيدا كرنے كيلئے (ا وتيت سؤلك) ہے_

۴ _كوہ طور ميں حضرت موسى (ع) كو جو نعمت عطا كى گئي وہ اس گراں قدر نعمت كے ہم پلہ تھى جو سابقہ زمانے ميں انہيں عطا ہوچكى تھى _و لقد مننا عليك مرةا خرى

۵ _ ماضى و حال كى نعمتوں كو ہميشہ خداتعالى كى منشا سے وابستہ سمجھنا ضرورى ہے _و لقدمننا عليك مرة ا خرى

۶۴

خداتعالى :اسكى مشيت كے اثرات ۵

لطف خدا:يہ جنكے شامل حال ہے ۲ ، ۳

موسى (ع) :آپكى دعا كى قبوليت ۱; آپكى دعا كى قبوليت كى وجوہات ۳; آپكے فضائل ۲، ۳، ۴; آپ كوہ طور ميں ۴; آپ كى نعمتيں ۱، ۳، ۴

نعمت:اسكے درجے ۱، ۳، ۴; يہ جنكے شامل حال ہے ۱، ۲، ۳، ۴

يادكرنا:منعم كو يادكرنا ۵۵

آیت ۳۸

( إِذْ أَوْحَيْنَا إِلَى أُمِّكَ مَا يُوحَى )

جب ہم نے تمھارى ماں كى طرف ايك خاص وحى كى (۳۸)

۱ _ حضرت موسى (ع) كى والدہ، خدا كى جانب سے وحى اور پيغام وصول كرتى تھيں _إذ ا وحينا إلى ا مك

ممكن ہے ''وحي'' سے مرادخداتعالى كا حضرت موسى (ع) كى والدہ كے ساتھ بات كرنا ہو اور ممكن ہے اس سے مراد الہام ہو حضرت موسى (ع) كى والدہ كے ساتھ خداتعالى كے بعض وعدے كہ جن كا ذكر سورہ قصص ميں آيا ہے پہلے معنى كے ساتھ زيادہ سازگار ہيں _

۲ _ بچپن سے ہى خداتعالى كى خصوصى عنايات حضرت موسى (ع) كے شامل حال تھيں _إذ ا وحينا إلى ا مك ما يوحى

۳ _ خداتعالى كى طرف سے حضرت موسى (ع) كى والدہ كو وحى اور پيغام اسكى حضرت موسى (ع) پر عظيم نعمتوں ميں سے تھا _و لقد مننا إذ ا وحينا إلى ا مك ما يوحى

''اذ'' ظرف ہے ''مننا'' كيلئے يعنى سابقہ آيت ميں ...مذكور نعمت اس وقت تھى _

۴ _ حضرت موسى (ع) كى والدہ كى ان معلومات تك دسترسى جو ان تك پہنچائي گئيں وحى الہى كے علاوہ كسى اور راستے سے ممكن نہيں تھى _ما يوحى

''مايوحى '' (جو وحى كيا جاتا ہے) سے مراد وہ امور ہيں جنكى قاعدتاً وحى كى جائي ہے ورنہ خود انسان ان تك نہيں پہنچ سكتا_

۶۵

۵ _ بيٹے كى عظمت ماں كے مقام كى بلندى كا سبب ہے_إذ ا وحينا إلى ا مك

حضرت موسى (ع) كى والدہ كو جو كچھ بتايا گيا اسكے محتوا سے پتا چلتا ہے كہ اصلى ہدف حضرت موسى (ع) كى حفاظت تھا اگر چہ فطرى طور پر اس سے حضرت موسى (ع) كى والدہ كو بھى سكون ملا_ پس مادر موسى كى وحى الہى تك دسترسى كا سبب حضرت موسى (ع) كى عظمت ہے _

۶ _ حضرت موسى (ع) كى جان كى حفاظت اور انكى والدہ كى پريشانى كو دور كرنا خداتعالى كى تدبير سے ہوا_

إذ ا وحينا إلى ا مك

خداتعالى :اسكى تدبير ۶

بيٹا:اسكے مقام كا كردار ۵

خداتعالى كا لطف:يہ جنكے شامل حال ہے ۲

والدہ:اسكے مقام كا سرچشمہ ۵

موسى (ع) :آپكى والدہ كى پريشانى كو دوركرنا ۶; آپكے فضائل ۲، ۳; آپكا بچپن ۲; آپكى حفاظت ۶; آپكى نعمتيں ۳; آپكى والدہ كى طرف وحى ۱، ۳، ۴

نعمت :اسكے درجے ۳; يہ جنكے شامل حال ہے ۳

وحي:اس كا كردار ۴

آیت ۳۹

( أَنِ اقْذِفِيهِ فِي التَّابُوتِ فَاقْذِفِيهِ فِي الْيَمِّ فَلْيُلْقِهِ الْيَمُّ بِالسَّاحِلِ يَأْخُذْهُ عَدُوٌّ لِّي وَعَدُوٌّ لَّهُ وَأَلْقَيْتُ عَلَيْكَ مَحَبَّةً مِّنِّي وَلِتُصْنَعَ عَلَى عَيْنِي )

كہ اپنے بچہ كو صندوق ميں ركھ دو اور پھر صندوق كو دريا كے حوالے كردو مو جيس اسے ساحل پر ڈال ديں گى اور ايك ايسا شخص سے اٹھالے گا جو ميرا بھى دشمن ہے اور موسى كا بھى دشمن ہے اور ہم نے ت پر اپنى محبت كا عكس ڈال ديا تا كہ تمھيں ہمارى نگرانى ميں پالاجائے (۳۹)

۱ _ پيدائش كے وقت اور بچپن سے ہى فرعونيوں كى طرف سے حضرت موسى (ع) كى جان كو خطرہ تھا _

ا ن اقذفيه فى التابوت فاقذفيه فى اليمّ

حضرت موسى (ع) كى والدہ كا اپنے بيٹے كو سمندر ميں پھينكنے كا حكم وصول كرنا اس زمانے كے حالات كے سخت ہونے

۶۶

اور حضرت موسى (ع) كى جان كو لاحق خطرے كى علامت ہے_

۲ _ خداتعالى نے حضرت موسى (ع) كى والدہ كو حكم ديا كہ وہ موسى (ع) كو صندوق ميں ڈال كر دريائے نيل ميں پھينك ديں _ا ن اقدفيه فى التابوت فاقذفيه فى اليّم ''قذف'' كا معنى ہے پھينكنا (مقاييس اللغة) اور ''اقذفيہ'' جو موسى (ع) كو صندوق ميں ڈالنے ميں بھى استعمال ہوا ہے اور پھر صندوق كو پانى ميں پھينكنےميں بھى بتاتا ہے كہ موسى (ع) كو اس طرح صندوق ميں قرار دينا اور پھر پانى ميں پھينكنا ضرورى ہے كہ ہر ديكھنے والا يہ سمجھے كہ اسے دور پھينك ديا گياہے ''تابوت'' يعنى صندوق (نہايہ ابن اثير) ''يمّ'' يعنى سمندر اور آيت ميں اس سے مراد دريائے نيل ہے (لسان العرب) _

۳ _ فرعون كى حكومت ميں بنى اسرائيل كى زندگى بہت دشوار تھى اور انكے لڑكوں كى جان خطرے سے دوچار تھى _

ا ن اقذفيه فى التابوت فاقذفيه فى اليّم

۴ _ خداتعالى نے حضرت موسى (ع) كى والدہ كو اطمينان دلايا كہ دريائے نيل كا جوش مارتا پانى حضرت موسى (ع) كے صندوق كو ساحل پرپھينك ديگا _فليلقه اليمّ بالساحل دريا كو حكم دياگياكہ وہ صندوق كو ساحل پر پھينك دے مجاز اور اس بات ميں مبالغہ كيلئے ہے كہ پانى كى لہروں كے ہمراہ صندوق كا ساحل تك آنا اور پھر اس كا خشكى پرپھينكا جانا يقينى ہے_

۵ _ حضرت موسى (ع) كى والدہ گرامي، خداتعالى كے پيغام پر ايمان ركھتى تھيں اور انہيں خدا كى جانب سے حضرت موسى (ع) كى حفاظت كا اطمينان تھا _إذ ا وحينا ا ن اقذفيه ...يا خذه عدو بعد والى آيت (إذتمشى ا ختك فرجعناك إلى ا مك ) كے قرينے سے پتا چلتا ہے كہ حضرت موسى (ع) كى والدہ نے وحى الہى كے محتوا پر عمل كيا اور حضرت موسى (ع) كو دريائے نيل كے سپردكرديا_ يہ كام حضرت موسى (ع) كى والدہ كے اس اطمينان كى گواہى ديتا ہے كہ موصولہ پيغام، وحى الہى تھا نيز يہ يہ اس پر انكے مكمل ايمان كى علامت ہے_

۶ _ دريائے نيل،خداتعالى كى جانب سے حضرت موسى (ع) كے صندوق كو ساحل پر پھينكنے پر ما مور تھا _فليلقه اليّم بالساحل جملہ''فليلقه اليّم '' جس طرح مادرموسى (ع) كو سمجھا رہا ہے كہ موسى (ع) كا ساحل پر پھينكا جانا قطعى ہے اس حقيقت كو بھى بيان كررہا ہے كہ پانى امر تكوينى كے ساتھ اس كام كو انجام دينے پرما مور تھا _

۷ _ حقيقى عوامل، خداتعالى كى حكمرانى ميں ہيں اوروہ اسكے فرامين كو عملى كرنے والے ہيں _فليلقه اليم بالساحل

۸ _ جناب موسى (ع) كو پانى ميں پھينكنے سے پہلے آپ كى والدہ كو خداتعالى كى طرف سے يہ اطلاع ہوچكى تھى كہ ايك دشمن كے ذريعے حضرت موسى (ع) كو نجات حاصل ہوگى _ا وحينا يا خذه عدولى و عدوله

۶۷

۹ _ فرعون،خداتعالى اور حضرت موسى (ع) كا دشمن تھا اور موسى (ع) كو پہنچان كرا نہيں نابود كرنے كے درپے تھا _

يا خذه عدولى و عدوله فرعون كى حضرت موسى (ع) كے ساتھ دشمنى وہ بھى انكى خصوصيات كے حامل بچے كى پيدائش سے پہلے بتاتى ہے كہ فوعون نے حضرت موسى (ع) كو پہچاننے كى صورت ميں انہيں قتل كرنے كا عزم كرركھا تھا_

۱۰ _ خداتعالى نے مادر موسى (ع) كى طرف جو وحى كى اس ميں خدا اور انكے بچے كے دشمن كو اس بچے كا نجات دہندہ اور اسكى كفالت كرنے والا متعارف كرايا _يا خذه عدولى و عدوله

۱۱ _ ممكن ہے دشمنان خدا بھى با دل نخواستہ خدا كے محبوب بندوں كے فائدے كيلئے كام كريں _يا خذه عدولى و عدوله

۱۲ _حضرت موسى (ع) كے زمانے ميں دريائے نيل پانى سے پر تھا اور فرعون كى رہائش گاہ سے زيادہ دور نہيں تھا _

فليقه اليّم بالساحل يا خذه عدولي ''يَمّ'' كا معنى ہے سمندر اور دريا كو سمندر كہنا اس ميں پانى كى كثرت سے حكايت كرتا ہے _

۱۳ _ خداتعالى نے اپنى جانب سے حضرت موسى (ع) كو خصوص محبوبيت عطا فرما كر انہيں ہر ديكھنے والے كى نظر ميں محبوب بناديا _وا لقيت عليك محبة منّي ''ا لقيت'' كا ''ا وحينا'' پر عطف ہے كہ جو سابقہ آيت ميں تھا اور پھر ''محبة'' كو نكرہ لانا، جبكہ مقام مدح ہے اسكے خصوصى ہونے كو بيان كرنے كيلئے ہے اور ''مني'' حضرت موسى (ع) كى محبوبيت كے سرچشمے كو بيان كررہا ہے او رسمجھا رہا ہے كہ موسى (ع) كو عطا كردہ محبوبيت كا سرچشمہ ذات بارى تعالى تھى _

۱۴ _ فرعون اور اسكے حاشيہ نشين، موسى (ع) سے بہت محبت كرتے تھے اور انہيں دوست ركھتے تھے _والقيت عليك محبة مني

۱۵ _ خداتعالى مہر و محبت كا سرچشمہ اور اس كا عطا كرنے والا ہے _وا لقيت عليك محبة منّي

۱۶ _ دلوں ميں محبوب ہونا،خداتعالى كى عنايت اور مہربانى ہے _وا لقيت عليك محبة منّي

۱۷ _ فرعونيوں كے دلوں ميں حضرت موسى (ع) كى محبوبيت انكے خداتعالى كى مكمل نگرانى كے ساتھ رشد و تكامل كا پيش خيمہ _ولتصنع على عيني ''لتصنع'' اس چيز كى علت كو بيان كررہا ہے جو كلام كے سياق سے حاصل ہو رہى ہے يعنى''ولتصنع على عينى فعلت ذلك'' جو كچھ ميں نے انجام ديا ہے وہ اسلئے تھا كہ تو ميرى

۶۸

مكمل نگرانى كے ساتھ پروان چڑھے ''صنيع''اور'' صنيعہ''(لتصنع كامادہ اشتقاق ) اس شخص كو كہا جاتا ہے جو كسى دوسرے كا تربيت يافتہ ہو اسى طرح يہ عطا، سخاوت اور احسان كے معنى ميں بھى آيا ہے ( لسان العرب)_

۱۸ _ حضرت موسى (ع) كا دلوں اور دربار فرعون ميں محبوب ہونا انكے لئے احترام اور بڑى خدمت كا سبب بنا _و ا لقيت عليك محبة منى و لتصنع على عيني اگر ''صنيعہ'' ( لتصنع كا مادہ اشتقاق) نيكى كرنے اور كرامت كے معنى ميں ہو تو ''لتصنع'' كا مطلب يہ بنے گا ميں نے تيرى محبت دوسرں كے دلوں ميں قرار دى ہے تاكہ تو ميرى مكمل نگرانى كے ساتھ ان كا مورد احترام و اكرام قرار پائے _

۱۹ _ خداتعالى حضرت موسى (ع) كى زندگى كے آغاز سے ہى ان پر دقيق نظارت ركھتا تھا اور اس نے انكى تربيت اور رشد و تكامل كے ذرائع فراہم كرركھے تھے _ولتصنع على عيني

''على عيني'' ميں ''عين'' سے مراد اس كا مجازى معنى يعنى نگرانى ہے اور ''علي'' دلالت كرتا ہے كہ نظارت الہى ايسى بنياد ہے كہ جس پر حضرت موسى (ع) كى تربيت اور احترام استوار تھے_

۲۰ _ حضرت موسى (ع) كى زندگى خداتعالى كى طرف سے انبياء كى زندگى كے آغاز سے ہى انكى پرورش پر نظارت كا ايك نمونہ _و لتصنع على عيني

۲۱ _ بچپن ہى ميں حضرت موسى (ع) كو پانى ميں پھينك كر انكى جان بچانا، فرعونيوں كے دلوں ميں انكى محبت ڈالنا اور انكى تربيت اور نشو و نماپر نظارت،خداتعالى كى طرف سے حضرت موسى (ع) پر گراں بہا نعمتيں _

مننا عليك مرة ا خرى ا ن اقذفيه و لتصنع على عيني

۲۲ _'' عن ا بى جعفر (ع) قال: ا نزل الله على موسى التابوت و نوديت ا مه ضعيه فى التابوت فاقذفيه فى اليم و هو البحر; امام محمد باقر(ع) سے روايت كى گئي ہے كہ آپ (ع) نے فرمايا خداتعالى نے حضرت موسى (ع) پر تابوت نازل كيا

۶۹

اور انكى والدہ كو ندا دى كہ انہيں تابوت ميں ركھ كردريا ميں ڈال ديں _(۱)

۲۳ _'' عن ا بى جعفر (ع) قال: كان موسى لا يراه ا حد إلا ا حبه و هو قول الله : '' و ا لقيت عليك محبّة منّى ...'' ;امام باقر(ع) سے روايت كى گئي ہے كہ حضرت موسى (ع) اس طرح تھے كہ انہيں كوئي نہيں ديكھتا تھا مگر يہ كہ ان سے محبت كرنے لگتا تھا اور خداتعالى كے فرمان ''والقيت عليك محبة مني'' سے مراد يہى ہے_(۲)

انبياء:انكى تربيت ۲۰//بنى اسرائيل:يہ فرعون كے زمانے ميں ۳; انكى تاريخ ۳; انكى معاشرتيمشكلات ۳جھكاؤ:حضرت موسى (ع) كے طرف جھكاؤ ۱۴

خداتعالى :اسكے اوامر ۲; اسكى تعليمات۰ ۱; اسكے دشمن ۹، ۱۰، ۱۱; اسكے اوامر كو اجرا كرنے والے ۷; اسكى نظارت ۱۹، ۲۰; اس كا كردار ادا كرنا ۱۵ظخدا كا لطف:يہ جنكے شامل حال ہے ۱۶

خدا كے محبوب لوگ:انكے مفادات۱۱ظدريائے نيل:اس كا مطيع ہونا ۶; اسكى تاريخ ۱۲; يہ موسى كے زمانے ميں ۱۲; اس كا جغرافيائي محل وقوع ۱۲

روايت :۲۲، ۲۳ظقدرتيعوامل:انكا كردار ۷

فرعون:اسكى دشمنى ۱، ۹; اس كا ظلم ۳; اسكى محبت ۱۴فرعون كے حاشيہ نشين لوگ:انكى محبت ۱۴

محبت:اس كا سرچشمہ ۱۵، ۱۶موسى (ع) :آپكى محبوبيت كے اثرات ۱۷، ۱۸; آپكى والدہ كا اطمينان ۴،۵; آپكا دريائے نيل ميں امن ۴; آپكى والدہ كا ايمان ۵; آپكى تربيت ۲۱; آپكى كفالت ۱۰; آپكى والدہ كى شرعى ذمہ دارى ۲; آپكے دشمن ۱، ۸، ۹، ۱۰; آپكى نشو و نما كا پيش خيمہ ۱۷، ۱۹; آپكا صندوق ۶; آپكى ماں كا علم ۸; آپكے احترام كے عوامل ۱۸; آپكے فضائل ۱۷، ۱۹، ۲۱، ۲۳; آپكا قصہ ۱، ۲، ۴، ۵، ۶، ۸، ۹، ۱۸، ۲۰، ۲۲; آپكى نگرانى ۴، ۵، ۱۷، ۱۹، ۲۱; آپكى محبوبيت ۲۱، ۲۳; آپكا تربيت كرنے والا ۱۹; آپكى محبوبيت كا سرچشمہ ۱۳; آپ ساحل نيل پر۴، ۶; آپ نيل ميں ۲; آپكو نجات دينے والا ۱۰; آپكى نجات ۸; آپكے صندوق كا نازل ہونا ۲۲; آپكى نعمتيں ۲۱; آپكى والدہ كو وحى ۱۰، ۲۲

نعمت :اسكے درجے ۲۱

وحي:اس پر ايمان لانے والے ۵

____________________

۱ ) تفسيرقمى ج ۲ ص ۱۳۵_ نورالثقلين ج ۴ ص ۱۱۲ ح ۱۷ _ظ ۲ ) تفسير قمى ج ۲ ص ۱۳۵_ نورالثقلين ج ۴ ص ۱۱۲ ح ۱۷_

۷۰

آیت ۴۰

( إِذْ تَمْشِي أُخْتُكَ فَتَقُولُ هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَى مَن يَكْفُلُهُ فَرَجَعْنَاكَ إِلَى أُمِّكَ كَيْ تَقَرَّ عَيْنُهَا وَلَا تَحْزَنَ وَقَتَلْتَ نَفْساً فَنَجَّيْنَاكَ مِنَ الْغَمِّ وَفَتَنَّاكَ فُتُوناً فَلَبِثْتَ سِنِينَ فِي أَهْلِ مَدْيَنَ ثُمَّ جِئْتَ عَلَى قَدَرٍ يَا مُوسَى )

اس وقت كو ياد كرو جب تمھارى بہن جارى تھيں كہ فرعون سے كہيں كہ كيا ميں كسى ايسے كاپتہ بتاؤں جو اس كى كفالت كرسكے اور اس طرح ہم نے تم كو تمھارى ماں كى طرف پلٹاديا تا كہ ان كى آنكھيں ٹھنڈى ہوجائيں اور رنجيدہ نہ ہوں اورتم نے ايك شخص كو قتل كرديا تو ہم نے تمھيں غم سے نجات دے دى او رتمھارا باقاعدہ امتحان لے ليا پھر تم اہل مدين ميں كئي برس تك رہے اس كے بعد تم ايك منزل پر آگئے اے موسى (۴۰)

۱ _ حضرت موسى (ع) كى پيدائش كے وقت انكى ايك بڑى اور رشيدہ بھى تھيں _إذ تمشى ا ختك فتقول هل ا دلكم

موسى (ع) كا پيچھا كرنا، دربار ميں نفوذ اور دايہ كى پيشكش ان سب سے پتا چلتا ہے كہ حضرت موسى (ع) كى بہن اس عمر ميں تھيں كہ ان كاموں اور حيلوں كے سلسلے ميں نہ صرف وہ جسمانى اور فكري

توانمندى سے بہرہ مند تھيں بلكہ انكى بات جاتى سنى اور قبول كى جاتى تھى _

۲ _ حضرت موسى (ع) كى بہن اپنے چھوٹے بھائي كے دريائے نيل ميں پھينكے جانے سے مطلع اور اس كى وجہ سے پريشان تھيں اور قدم بقدم انكے صندوق كا پيچھا كررہى تھيں _

إذ تمشى ا ختك فتقول

حضرت موسى (ع) كى بہن كا انكے پيچھے پيچھے حركت كرنا بتاتا ہے كہ وہ حضرت موسى (ع) كے واقعے ، انكے پانى ميں پھينكے جانے اور مستقبل ميں پيش آنے والے واقعات سے اجمالى طور پر مطلع تھيں _

۷۱

۳ _ حضرت موسى (ع) كى بہن نے اس وقت تك انكا پيچھا كيا جب تك انہيں پانى سے نجات نہ ملى اور جب تك اس نے فرعون كے درباريوں كو موسى (ع) كيلئے دايہ تلاش كرنے كيلئے انكى كوشش كا مشاہدہ نہيں كيا_إذ تمشى ا ختك فتقول هل ا دلكم ''هل ا دلكم'' كا ظاہر يہ ہے كہ حضرت موسى (ع) كى بہن نے فرعونيوں كو موسى اخذ كرتے ہوئے ديكھا اور درباريوں كے پاس جاكر بدون واسطہ انہيں اور جو لوگ دايہ كى تلاش ميں تھے اپنى پيشكش سے آگاہ كيا _

۴ _ فرعون نے حضرت موسى (ع) كى حفاظت اور نگہداشت كاعزم كرليا_هل ا دلكم على من يكفله

دايہ كيلئے تلاش اور كوشش سے پتا چلتا ہے كہ فرعون نے حضرت موسى (ع) كى نگہدارى كا عزم كرليا _

۵ _ حضرت موسى (ع) كى نگہداشت ، خوراك اور ديكھ بھال كے سلسلے ميں دربار فرعون مشكل سے دوچار ہوا _

هل ا دلكم على من يكفله ''هل ا دلكم'' سے پتا چلتا ہے كہ دربار فرعون حضرت موسى (ع) كيلئے دايہ اور سرپرست كى تلاش ميں تھا_ حضرت موسى (ع) كى بہن كى پيشكش كو قبول كرنا بتاتا ہے كہ كسى دربارى كو اس سلسلے ميں كاميابى نہيں ہوئي تھى اور وہ حضرت موسى (ع) كى نگہداشت اور خوراك كے سلسلے ميں پريشان تھے_

۶ _ حضرت موسى (ع) كى بہن نے فرعونيوں كے سامنے اظہار كيا كہ وہ مناسب دايہ متعارف كرانے كيلئے آمادہ ہيں _

هل ا دلكم على من يكفله ''كافل'' اسے كہاجاتا ہے جو كسى كے امور كى انجام دہى كو اپنے ذمے لے (مقاييس اللغة) _

۷ _ حضرت موسى (ع) كى بہن نے فرعونيوں كو مناسب دايہ متعارف كرانے كيلئے اپنى آمادگى كا مكرر اظہار كيا _

فتقول هل ا دلكم فعل مضارع ''تقول'' گذشتہ زمانے ميں كام كے استمرار پر دلالت كررہا ہے _

۸ _ حضرت موسى (ع) كى بہن نے جس دايہ كى پيشكش كى تھى درباريوں نے اسے قبول كرليا _

هل ا دلكم على من يكفله فرجعنك إلى ا مك ''فرجعناك'' ميں ''فا'' فصيحہ ہے يعنى ان محذوف جملوں سے حكايت كرتى ہے كہ جو حضرت موسى كى بہن كى پيشكش كو قبول كرنے پر دلالت كرتے ہيں _

۹ _حضرت موسى كى بہن زيرك اور راز دار تھيں _هل ا دلكم على من يكفله

۱۰ _ فرعونيوں نے حضرت موسى (ع) كو انكى والدہ كے سپرد كيا اور وہ انہيں اپنے گھر لے گئيں _فرجعناك إلى ا مك

موسى (ع) كا اپنى ماں كے پاس واپس آنااس طرح ہے كہ انكى والدہ انہيں اپنے ہمراہ لے گئي ہوں نہ اس طرح كہ انكى نگہداشت كيلئے دربار ميں گئي ہوں _

۷۲

۱۱ _ حضرت موسى (ع) بچين سے ہى اپنى والدہ كے زير كفالت تھے _على من يكفله

۱۲ _ حضرت موسى (ع) كى بہن كا انہيں انكى والدہ كى طرف پلٹا نے ميں مؤثر كردار تھا _إذ تمشى ا ختك فرجعنك إلى ا مك حضرت موسى (ع) كى بہن اور انكى كوشش كو ياد كرنا انكے حضرت موسى (ع) كو اپنى والدہ كى طرف پلٹا نے ميں مؤثر اور كارساز كردارسے حكايت كرتا ہے_

۱۳ _ حضرت موسى (ع) كى والدہ اپنے بيٹے كے نامعلوم انجام پر نظريں لگائے ان كى دورى كى وجہ سے پريشان تھيں _

كى تقرعينها ولا تحزن آنكھ كا سكون اس شديد غم كے دور ہونے سے كنايہ ہے كہ جو آنكھ كو ايك طرف خيرہ كرديتا ہے يا اسے مسلسل دائيں بائيں پھيرتا ہے _

۱۴ _ موسى (ع) كے دوبارہ ديدار نے انكى والدہ كى آنكھوں كو نور اور سكون بخشااور انكے غم و اندوہ كو دور كرديا _

فرجعنك إلى ا مك كى تقر عينها و لا تحزن ''قرة العين'' يا تو ''قرار''سے مشتق ہے كہ جس كا معنى ہے سكون پكڑنا اور يا ''قرّ'' سے مشتق ہے كہ جس كا معنى ہے ٹھنڈاہونا كہ جو گرم آنسوؤں كے ركنے كا نتيجہ ہوتا ہے بہرحال يہ تعبير اس شادمانى سے كنايہ ہے جو آنكھ كو پريشان ہونے اور اسے دائيں بائيں پھرنے سے دور ركھتى ہے اور غم و اندوہ كے جلا دينے والے آنسوؤں كو روكتى ہے _

۱۵ _ حضرت موسى (ع) كى والدہ خداتعالى كے ہاں خاص مقام و مرتبہ ركھتى ہيں _فرجعنك إلى ا مك كى تقرعينها و لا تحزن

۱۶ _ ماں كى سرپرستى بچے كى تربيت كيلئے مناسب ترين حالات فراہم كرتى ہے _ولتصنع على عينيإذ تمشى فرجعنك إلى ا مك

۱۷ _ حضرت موسى (ع) كا آغوش مادر ميں پلٹ آنا خداتعالى كى دقيق نظارت ميں انكى پرورش اور نشو ونما كا مناسب ذريعہ _و لتصنع على عينى إذ تمشى ...فرجعنك ''اذ تمشي'' ميں ''اذ'' ممكن ہے ''لتصنع'' كيلئے ظرف ہو اس صورت ميں ''اذ'' كے بعد والے جملے موسى (ع) كے بارے ميں صنع الہى كے وقوع پذير ہونے كے ظرف كو بيان كررہے ہيں _

۱۸ _ حضرت موسى (ع) نے كوہ طور ميں وحى كو دريافت كرنے اور مقام رسالت پر فائز ہونے سے پہلے ايك شخص كو قتل كيا تھا _وقتلت نفس يہ آيت كريمہ مصر ميں ايك قبطى شخص كے قتل كو بيان كررہى ہے كہ جو حضرت موسى (ع) كے ہم مذہب شخص كے ساتھ جھگڑ رہا تھا اور حضرت موسى (ع) نے اسے قتل كرديا تھا ليكن اسكے رد عمل كى فكر آپ كو

۷۳

آسودہ خاطر نہيں ہونے دے رہى تھى يہاں تك كہ آپ مصر سے بھاگ نكلے اور مدين پہنچ كر آپ سے خطرہ ٹلا اور غم و اندوہ دور ہوئے _

۱۹ _ قتل كا ارتكاب، حضرت موسى (ع) كى پريشانى اور ان كے غم و اندوہ ميں مبتلا ہونے كا سبب بنا _

و قتلت نفسا فنجينك من الغم حضرت موسى (ع) كا غم واندوہ ان كے واقعہ قتل اور فرعونيوں كى طرف سے خطرہ محسوس كرنے كے بارے ميں پريشانى اور اضطراب كى وجہ سے تھا _

۲۰ _ قتل كى وجہ سے حضرت موسي(ع) كو فرعونيوں كے ہاں امن نہيں تھا _فنجينك من الغم

۲۱ _ فرعونيوں كى نظر ميں قبطيوں پر بنى ا سرائيل ترجيح ركھتے تھے حتى كہ اپنے پرورش يافتہ اور محبوب جوان پر بھى _

فنجينك من الغم

۲۲ _ خداتعالى نے حضرت موسى (ع) كو قتل كى پريشانى سے نجات بخشي_و قتلت نفسا فنجينك من الغم

۲۳ _ حضرت موسى (ع) كا قتل كے خطرناك نتائج سے رہائي پانا،خداتعالى كى جانب سے آپ پر ايك عظيم نعمت_

و قتلت نفساً فنجينك من الغم ''قتلت'' كا ''لقد مننا'' پر عطف ہے كہ جو سابقہ آيات ميں تھا اور حضرت موسى (ع) پر ولادت كى مشكلات سے رہائي والى نعمت كو ذكر كرنے كے بعد ايك اور نعمت اور احسان كو بيان كررہا ہے _

۲۴ _ انسان كا غم و اندوہ سے نجات پانا، خداتعالى كے ہاتھ ميں ہے _فنجينك من الغم

۲۵ _ خداتعالى نے حضرت موسى (ع) كو مدين ميں داخل ہونے سے پہلے ايك سخت آزمائش ميں مبتلا كيا _و فتنّك فتوناً فلبثت سنين فى ا هل مدين ''فتنہ''كا معنى ہے امتحان اور آزمائش (مصباح) ''فتون'' مصدر اور مفعول مطلق ہے اور كلام كى تاكيد كيلئے لايا گيا ہے اور جملہ ''فتناك فتوناً '' يعنى ہم نے تجھے خوب آزمايا_

۲۶ _ حضرت موسى (ع) كے مصر ميں ايك قبطى شخص كو قتل كرنے نے انكے خداتعالى كى سخت آزمائش ميں مبتلا ہونے كا راستہ ہموار كيا _و قتلت نفسا فنجينك من الغم و فتّنك فتون اگر ''فتناك'' كا عطف ''نجيناك'' پر ہو تو آزمائش الہى ميں حضرت موسى (ع) كا سختى جھيلنا انكے قتل كا نتيجہ تھا _

۲۷ _ مدين ميں وارد ہونے سے پہلے خداتعالى نے حضرت موسى (ع) سے متعدد آزمائشيں ليں _و فتنك فتون

ہوسكتا ہے كلمہ'' فتون'' فتنہ كى جمع ہو جيسا كہ ''كشاف'' اور ''البحر المحيط'' ميں ہے _

۲۸ _ حضرت موسى (ع) كو اپنى زندگى ميں بہت سارى سختيوں كا سامنا ہوا _وفتنّك فتون جيسا كہ بعض نے كہا ہے

۷۴

''فتون'' فتنہ كى جمع ہے اور ''فتنہ'' كا استعمال زيادہ تر شدائد اور سختيوں ميں ہوتا ہے ( مفردات راغب) _

۲۹ _ حضرت موسى (ع) كى آزمائش اور زندگى كى سختياں ان پر خداتعالى كى نعمتوں ميں سے تھيں _

چونكہ يہ آيات حضرت موسى (ع) پر خداتعالى كى نعمتوں كو شمار كررہى ہيں اور اسى كے ضمن ميں حضرت موسى كا ( آزمائش يا سختي) ميں مبتلا ہونا ذكر ہوا ہے_اس سے لگتا ہے كہ اس قسم كى سختياں اور آزمائشيں بھى خداتعالى كى نعمتوں ميں سے ہيں _

۳۰ _ زندگى كى بعض سختياں ، انسان پر خداتعالى كى نعمت اورلطف كى علامت ہيں _و لقد مننا و فتنّك فتون

۳۱ _ زندگى كے واقعات اور مشكلات خداتعالى سے مربوط اور اسكى طرف منسوب ہيں _و فتنّك

۳۲ _ فرعونيوں كے چنگل سے آزاد ہونے كے بعد حضرت موسى (ع) سختى كے ساتھ مدين پہنچے اور چند سال تك وہيں قيام پذير رہے _وفتنك فتوناً فلبثت سنين فى ا هل مدين

۳۳ _ حضرت موسى (ع) كا مدين كے لوگوں كے درميان چند سال قيام كرنا انكى آزمائش اور امتحان كا دوسرا مرحلہ تھا _

و فتنّك فتوناً فلبثت سنين فى ا هل مدين ''فلبثت'' كى فاء ممكن ہے مفصل كے مجمل پر عطف كيلئے ہو اس صورت ميں حضرت موسى (ع) كا مدين ميں قيام ''فتنة'' (سختى يا آزمائش) كا مصداق ہوگا _

۳۴ _ حضرت موسى (ع) كى زندگى كى سختياں اور ان سے خداتعالى كى آزمائش اسلئے تھيں كہ وہ رسالت الہى كا بوجھ اٹھانے كے لئے شائستہ مرتبے پر فائز ہوسكيں _و فتّنك فتوناً ثم جئت على قدر يا موسى

''قدر '' يعنى مطلوب حد_ يہ كلمہ اور ''مقدار'' ايك ہى معنى ميں ہيں _(لسان العرب) ''على قدر'' ''جئت'' كے فاعل كيلئے حال ہے يعنى اے موسى جب تو شائستگى اور استوارى كى لازمى حد كو پہنچ گيا تو تونے اس وادى ميں قدم ركھا _

۳۵ _ حضرت موسى (ع) كو اس وقت كوہ طور ميں خداتعالى كے ساتھ مناجات اور حكم رسالت كے د ريافت كى توفيق حاصل ہوئي جب آپ نے آزمائش الہى اور سختيوں كو جھيلنے كے مرحلے سے گزر كر لازمى لياقت كو پاليا _و فتنّك فتوناً ثم جئت على قدر يا موسى

۳۶ _حضرت موسى (ع) كى عمر كے كئي سالوں كا مدين ميں بسر ہونا اور رسالت كيلئے لازمى لياقت كو حاصل كرلينا آپ كيلئے نعمات الہى تھيں _ولقد مننا عليك مرة ا خرى إذ تمشى ا ختك

۳۷ _ نبوت اور رسالت الہى ان لوگوں كيلئے مخصوص ہے جو اسكے لائق ہوں _ثم جئت على قدر يا موسى

۷۵

۳۸ _ حضرت موسى (ع) كى مدين سے واپسى اور كو ہ طور ميں وادى طوى ميں آنا خداتعالى كى طرف سے ترتيب ديئے گئے پروگرام كے مطابق تھا_فلبثت سنين فى ا هل مدين ثم جئت على قدر يا موسى ''قدر'' كا ايك معنى ،الہى تقدير ہے كہا گيا ہے كہ يہ كلمہ ''قدر'' كا اسم مصدر اور تقدير بنانے كے معنى ميں ہے (لسان العرب) راغب بھى كہتاہے ''قدر'' ہر چيز كا معين وقت اور جگہ ہے_

۳۹ _ انبياء كى بعثت كا وقت معين اور خداتعالى كى طرف سے ترتيب ديا گيا ہے_ثم جئت على قدر يا موسى

۴۰ _ مدين ميں حضرت موسى (ع) كى لمبى عمر كا انكے رسالت كے لائق بننے كيلئے بڑا كردار تھا_فلبثت سنين فى ا هل مدين ثم جئت على قدر يا موسى ''ثم'' تراخى كيلئے ہے اور يہ دلالت كرتاہے كہ موسى كا كوہ طور پر آنا ان كى مدين ميں رہائش كے آغاز كافى وقت بعد تھا_

۴۱ _ خداتعالى نے كوہ طور ميں نرمى اور مہربانى كے ساتھ حضرت موسى (ع) سے بات كى _يموسى

سخن كے دوران بار بار حضرت موسى (ع) كا نام لينا خداتعالى كى آپ كے ساتھ مہربانى پر دلالت كرتا ہے _

۴۲ _'' عن محمد بن مسلم:قلت لا بى جعفر(ع) : فكم مكث موسى غائباً عن ا مه حتى ردّه الله عليها؟ قال: ثلاثة ا يام; محمد بن مسلم كہتے ہيں : ميں نے امام باقر (ع) سے عرض كيا حضرت موسى (ع) كتنى مدت اپنى والدہ سے غائب رہے يہاں تك كہ خداتعالى نے ا نہيں انكے پاس لوٹادياتو آپ نے فرمايا تين دن(۱)

۴۳ _'' روى عن النبى (ص) ا نه قال: رحم الله ا خى موسى قتل رجلاًخطاً و كان ابن إثنتى عشرة سنة ; پيغمبر اكرم(ص) سے روايت كى گئي ہے كہ آپ (ص) نے فرمايا خداتعالى ميرے بھائي موسي(ع) پر رحم كرے انہوں نے ايك مرد كو اس وقت غلطى سے قتل كيا جب انكى عمر بارہ سال تھى(۲) _

انبياء (ع) :انكى بعثت كا قانون مند ہونا ۳۹ // بيٹا:اسكى تربيت ۱۶

خداتعالى :اسكى حضرت موسى (ع) كے ساتھ گفتگو ۴۱_ اسكى تقدير ۳۸; اسكى مہربانى ۴۱; اس كا نجات دينا ۲۲; اسكى مہربانى كى نشانياں ۳۰; اسكى نعمتيں ۳۰; اس كا كردار ادا كرنا ۲۴روايت: ۴۲، ۴۳

غم و اندوہ:اسكے دور كرنے كا سرچشمہ ۲۴

____________________

۱ ) تفسير قمى ج ۲ ص ۱۳۶ نورالثقلين ج ۳ ص ۳۸۰ ح ۶۶_ /۲ ) مجمع البيان ج ۷ ص ۱۹ نورالثقلين ج ۳ ص ۳۸۰ ح ۶۷_

۷۶

فرعون:فرعون اور موسى ۴; اس كا قصہ ۵

فرعونى لوگ:انكا نسلى امتياز ۲۱; يہ اور موسى (ع) ۱۰، ۲۰; انكى مشكلات ۵

قبطي:انہيں بنى اسرائيل پر ترجيح دينا ۲۱

ماں :اس كا كردار ادا كرنا ۱۶

مشكلات:انكا سرچشمہ ۳۱

موسى (ع) :انكے امتحان كے اثرات ۳۵; انكى واپسى كے اثرات ۱۴، ۱۷; انكے قتل كے اثرات ۱۹، ۲۰، ۲۶; انكى مشكلات كے اثرات ۳۵; انكا احساس نا امنى ۲۰; انكا امتحان ۲۵، ۲۹، ۳۳; انكى ماں كا غم و اندوہ ۱۳; انكا غم و اندوہ ۲۲; انكى واپسى ۱۰، ۳۸; انكے امتحان كا متعدد ہونا ۲۷; انكا پيچھا كرنا ۳; انكى كفالت ۱۰، ۱۱; انكى خطا ۴۳; انكى بہن ۱، ۶; انكى بہن اور فرعون كے دربارى ۷; انكى بہن كى راز دارى ۹; انكے امتحان كا پيش خيمہ ۲۶; انكى تربيت

كا پيش خيمہ ۱۷;ان كے رشد و تكامل كا پيش خيمہ ۱۷;انكى مناجات كا پيش خيمہ ۳۵; انكى نبوت كا پيش خيمہ ۳۴، ۳۵، ۴۰; انكى بہن كى صفات ۹; انكى بہن كا علم ۲; انكے غم و اندوہ كے عوامل ۱۹; انكى واپسى كے عوامل ۱۲; انكى ماں كے غم و اندوہ كے دور ہونے كے عوامل۱۴; انكى پريشانى كے عوامل ۱۹; انكے فضائل ۳۶; انكے امتحان كا فلسفہ ۳۴; انكى مشكلات كا فلسفہ ۳۴; انكى بہن كى پيشكش كا قبول ہونا ۸; انكا قتل كرنا ۱۸، ۲۲، ۴۳; انكا قصہ ۱، ۲، ۳، ۴، ۶، ۷، ۸، ۱۰، ۱۱، ۱۲، ۱۳،۱۴، ۱۸، ۲۰، ۲۵، ۲۷، ۲۸، ۳۲، ۳۳، ۴۰، ۴۲، ۴۳; انكا بچپن ۱۱; انكى نگرانى ۴; انكى جدائي كى مدت ۴۲; انكى نگرانى كى مشكلات ۵; انكى مشكلات ۲۸، ۲۹; انكى دايہ كى پہچان كرانا ۶، ۷، ۸; انكى ماں كا مقام ۱۵; آپ كوہ طور ميں ۳۵، ۳۸، ۴۱; آپ مدين ميں ۳۲، ۳۳، ۳۶، ۴۰; آپ نيل ميں ۲; آپكے ساتھ مہربانى ۴۱; آپكى نبوت ۳۶; آپكى نجات ۲۲، ۲۳، ۳۲; آپكى نعمتيں ۲۳، ۲۹; آپكى بہن كا كردار ادا كرنا ۱۲; آپكى ماں كا كردار ادا كرنا ۱۰، ۱۱; آپكى بہن كى پريشانى ۲، ۳; آپكى پريشانى ۲۲; آپكى بہن كى ہوشيارى ۹

نبوت:اسكے شرائط ۳۷

نعمت:اسكے درجے ۲۳; اسكى مشكلات ۳۰

۷۷

آیت ۴۱

( وَاصْطَنَعْتُكَ لِنَفْسِي )

اور ہم نے تم كو اپنے لئے منتخب كرليا (۴۱)

۱ _ حضرت موسي،(ع) خداتعالى كے پرورش يافتہ _اصطنعتك

''اصطناع'' يعنى تربيت كرنا اور با ادب بنانا (قاموس) اور لائق بنانے ميں مبالغے پر دلالت كرتا ہے (مفردات راغب) _

۲ _ حضرت موسى (ع) كا وجود راہ خدا كيلئے وقف _لنفسي ''تجھے ميں نے اپنے لئے بنايا'' مخاطب كو اپنے لئے خالص كرنے سے كنايہ ہے _

۳ _ خداتعالى كى طرف سے حضرت موسى (ع) كى سرپرستى اور نگرانى انسانوں كے درميان احكام الہى كو عملى كرنے كيلئے تھا _واصطنعتك لنفسي ''لنفسي'' كى قيد بتائي ہے كہ خداتعالى نے حضرت موسى (ع) كى اپنے اہداف كيلئے پرورش كى تھى اور اسے اپنے آسمانى احكام كو عملى كرنے كيلئے طاقتور بنايا تھا بعد والى آيت كريمہ كہ جو فرعون كى طرف جانے كا حكم دے رہى ہے اس معنى كى شاہد ہے _

۴ _ حضرت موسى (ع) ، كو بارگاہ خداوندى ميں بلند مقام حاصل تھا اور آپ مكمل طور پر خدا تعالى كيلئے مخلص تھے _

و اصطنعتك لنفسي

۵ _ خداتعالى انبياء كى پرورش اور تربيت كرنے والا ہے_واصطنعتك لنفسي

۶ _ رسالت و نبوت كے لائق ہونا،خداتعالى كيلئے مكمل خلوص كے ساتھ مربوط ہے_و اصطنعتك لنفسي

يہ آيت كريمہ سابقہ آيت كے آخرى حصے كى تفسير ہے اور اس قد راور ميزان كو بيان كررہى ہے كہ جس كا انبياء كيلئے حاصل ہونا ضرورى ہے اور حضرت موسى (ع) اس مقام و مرتبے پر فائز ہوكر كوہ طور پر آئے تھے_

۷ _ حضرت موسى (ع) كا كامل اخلاص ان پر خداتعالى كى ايك نعمت _و اصطنعتك لنفسي

۷۸

ہوسكتا ہے اس آيت كريمہ كا عطف '' قتلت نفساً'' جيسے جملوں پر ہو كہ جو خداتعالى كى نعمتوں او راحسانات كو بيان كرر ہے ہيں _

اخلاص:اسكے اثرات ۶

انبياء (ع) :انكا تربيت كرنے والا ۵

خداتعالى :اسكى ربوبيت ۱، ۵

شرعى ذمہ داري:اس پر عمل كرنے كى اہميت ۳

موسى (ع) ;انكا اخلاص ۴، ۷; انكى شخصيت ۲; انكے فضائل ۲، ۷; انكى تربيت كا فلسفہ ۳; انكى نگرانى كا فلسفہ ۳; انكى تربيت كرنے و الا ۱; انكا مقام ۴; انكى نعمتيں ۷_

نبوت:اسكى شرائط ۶

نعمت:اخلاص والى نعمت ۷

آیت ۴۳

( اذْهَبْ أَنتَ وَأَخُوكَ بِآيَاتِي وَلَا تَنِيَا فِي ذِكْرِي )

اب تم اپنے بھائي كے ساتھ ميرى نشانياں لے كر جاؤ اور ميرى ياد ميں سستى نہ كرنا (۴۲)

۱ _ ہارون، حضرت موسى (ع) كے بھائي اور رسالت الہى كى انجام دہى ميں انكے شريك _

هرون ا خي إذهب ا نت و ا خوك

۲ _ حضرت موسى (ع) اور حضرت ہارون(ع) معجزات و آيات الہى كے ساتھ اپنى رسالت كى انجام دہى كيلئے حركت كرنے پر ما مور _اذهب انت و اخوك بآيا تي

۳ _ حضرت موسى (ع) و ہارون (ع) كا دين عالمى تھا اور كسى ايك گروہ كے ساتھ مخصوص نہيں تھا_

پہلى اور بعد والى آيات ميں فرعون كى طرف جانے كا تذكرہ ہے ليكن چونكہ اس آيت كريمہ نے رسالت كى تبليغ كيلئے كوئي خاص مورد معين نہيں كيا اس سے احتمال ہوتا ہے كہ حضرت موسى (ع) سب كيلئے ما مور تھے اور فرعون پيغام كے پہچانے كيلئے نقطہ آغاز تھا _

۷۹

۴ _ لوگوں كى طرف حركت كرنا اور ان ميں جانا تبليغ اور رسالت كيلئے لازمى ہے _إذهب إلي إذهب ا نت و ا خوك

ان چند آيات ميں كہ جو مورد بحث ہيں فعل ''اذہب'' كا تين دفعہ تكرار ہوا ہے_ خداتعالى كے اس حكم او رتاكيد سے پتا چلتا ہے كہ تبليغ دين كيلئے بيٹھنا اور لوگوں كے جمع ہونے كا انتظار كرنا كافى نہيں ہے بلكہ ضرورى ہے كہ ان كے درميان جاكر دعوت الہى كا پرچم بلند كيا جائے_

۵ _ حضرت موسى (ع) اور حضرت ہارون(ع) اپنى دعوت كو انجام دينے كيلئے متعدد معجزات كے حامل تھے _اذهب ...بآيا تي ''آيات''كو جمع كى صورت ميں لانا موسى (ع) و ہارون (ع) كو عطا كئے گئے معجزات و آيات كے متعدد ہونے كى نشانى ہے_ اس تعدد كى توجيہ ميں دو احتمال ہيں _ ۱_ عصا اور يد بيضا والے معجزے اگرچہ بطور كلى دو معجزے تھے ليكن يہ متعدد معجزوں پر مشتمل تھے كيونكہ عصا كا سانپ بننا، اس كا حركت كرنا اور پھر سانپ كا عصا بننا ہر ايك الگ سے معجزہ ہے ۲_ خداتعالى نے اس تعبير كے ساتھ حضرت موسى (ع) كو وعدہ ديا ہے كہ اس كے بعد بھى انہيں معجزات عطا كريگا_

۶ _ عصا اور يد بيضا والے معجزوں كے ہمراہ حضرت موسى (ع) كو ديگر معجزات عطا كرنا خداتعالى كا كوہ طور ميں ان كے ساتھ وعدہ _*بآيا تي باوجود اس كے كہ اس وقت تك حضرت موسى (ع) كو صرف دو معجزے عطا ہوئے تھے ''آيات'' كو جمع لانا ہوسكتا ہے خداتعالى كى طرف حضرت موسى (ع) كے ساتھ ديگر معجزات عطا كرنے كا ضمنى وعدہ ہو _

۷ _ معجزہ انبيا كى نبوت و رسالت كى حقانيت كو ثابت كرنے كاايك طريقہ_إذهب ا نت و ا خوك بآيا تي

۸ _ رسالت انبياء كى نشانياں اور معجزات،خداتعالى كى طرف سے ہيں _بآيا تي

۹ _ خداتعالى كو ياد كرنا اور اسكى بات كرنا موسى (ع) و ہارون (ع) كى دعوت كا محور اور نعرہ_ولاتنيا فى ذكري

۱۰ _ ياد خدا ،رسالت كى انجام د ہى اور پيغام پہنچانے ميں سستى نہ كرنا،خداتعالى كى طرف سے موسى (ع) و ہارون (ع) كو نصيحت _ولاتنيا فى ذكري ''وني'' كا معنى ہے سستى اور كوتاہى كرنا (مصباح) ''لاتينا'' يعنى اے موسى اور ہارون ميرى ياد ميں سستى اور كوتاہى مت كرنا_ اور خداتعالى كى ياد كا لازمہ ان ذمہ داريوں كى طرف توجہ ہے جو خداتعالى كى طرف سے انكے سپردكى گئي ہيں _

۱۱ _ ياد خدا ميں سنجيدگي، اسكى طرف سے سپردكى گئي ذمہ داريوں كى طرف مسلسل توجہ اور اس ميں سستى نہ كرنے كا لازمى ہونا_ولاتنيا فى ذكري

۸۰