تفسير راہنما جلد ۱۱

تفسير راہنما 0%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 750

تفسير راہنما

مؤلف: آيت الله ہاشمى رفسنجاني
زمرہ جات:

صفحے: 750
مشاہدے: 173474
ڈاؤنلوڈ: 1988


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4 جلد 5 جلد 6 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 750 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 173474 / ڈاؤنلوڈ: 1988
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد 11

مؤلف:
اردو

۱۲ _ ياد خدا ميں سستى اور اس سے غفلت ،راہ خدا ميں قيام كرنے والوں اور اس ميں چلنے والوں كيلئے ايك قابل توجہ خطرہ _إذهب ا نت ولاتنيا فى ذكري

۱۳ _آيات الہى اور معجزات انبياء كى حوصلہ افزائي كا سبب ہيں _إذهب بآيا تي و لا تنيا فى ذكري

۱۴ _ خداتعالى نے حضرت موسى (ع) كو ہارون (ع) كى طرف حكم رسالت پہچانے پر ما مور كيا اور ان سے چاہا كہ ہارون كو ذكر خدا ميں سستى نہ كرنے كى نصيحت كريں _إذهب ا نت و ا خوك بآيا تي ولاتنيا فى ذكري

موسى (ع) و ہارون (ع) كے مشتركہ فرائض كے سلسلے ميں حضرت موسى (ع) كو مخاطب بنانا تقاضا كرتا ہے كہ حضرت موسى (ع) يہ فرامين ہارون كو پہنچائيں _

۱۵ _ دوسروں كى راہنمائي پر خودسازى كا مقدم ہونا _و اصطنعتك لنفسي إذهب ا نت و ا خوك

آيات خدا:انكا كردار ۱۳

انبياء:انكى حقانيت كے دلائل ۷; انكى حوصلہ افزائي كے عوامل ۱۳

تبليغ:اسكى روش ۴

تزكيہ نفس:اسكى اہميت ۱۵

خداتعالى :اسكى نصيحتيں ۱۰; اس كا كردار ادا كرنا ۸; اسكے وعدے ۶

ذكر :ذكر خدا كى اہميت ۹، ۱۰، ۱۱، ۱۴

غفلت:خدا سے غفلت كا خطرہ ۱۲

معجزہ :اس كا سرچشمہ ۸، اس كا كردار ۷، ۱۳

موسى (ع) :آپ كا بھائي ۱، آپكے معجزوں كا متعدد ہونا ۵; آپكو نصيحت ۱۰; آپكى رسالت كا عالمى ہونا ۳; آپكى رسالت ۲، ۱۴; آپكى رسالت كا شريك ۱; آپكا عصا ۶; آپكا معجزہ ۲، ۶ ; آپ كوہ طور ميں ۶; آپكى سب سے اہم دعوت ۹; آپ كے ساتھ وعدہ ۶; آپكا يد بيضا ۶

ہارون (ع) :انكو رسالت كا پہچانا ۱۴; انكے معجزوں كا متعدد ہونا ۵; انكو نصيحت ۱۰، ۱۴; انكى رسالت كا عالمى ہونا ۳; انكى رسالت ۲; انكا معجزہ ۲; انكى سب سے اہم دعوت ۹; انكا كردار ادا كرنا ۱

ہدايت:اسكى شرائط ۱۵

۸۱

آیت ۴۳

( اذْهَبَا إِلَى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغَى )

تم دونوں فرعون كى طرف جاؤ كہ وہ سركش ہوگيا ہے (۴۳)

۱ _ فرعون، سركش اور خدا ناشناس تھا _إذهبا إلى فرعون إنه طغى

۲ _ موسى وہارون كا فرعون كى طرف حركت كرنا اور اسے سركشى سے روكنا خداتعالى كى طرف سے ان دو كو موكد اور مكرر حكم _إذهب إذهب ا نت و ا خوك إذهبا إلى فرعون

۳ _ فرعون كى ہدايت اور راہنمايى كيلئے موسى (ع) و ہارون (ع) كى مقاومت و پائدارى اور سستى سے پرہيز كرنے كى ضرورت _ولاتنيا فى ذكري إذهبا إلى فرعون انه طغى

۴ _ سركشوں كا مقابلہ كرنے كيلئے مناسب وسائل فراہم كرنے، تيارى كرنے اور ايسے مردوں كى ضرورت ہے جنہوں نے خودسازى كر ركھى ہو _ا وحينا إلى ا مك و اصطنعتك لنفسي إذهبا إلى فرعون إنه طغى

۵ _ سركشوں كا مقابلہ كرنا انبياء كے برجستہ ترين پروگراموں ميں سے ہے _اذهبا إنه طغى

۶ _ سركشوں كا مقابلہ كرنااور انكى بيخ كتى كرنا ضرورى ہے_اذهبا إنه طغي

۷ _ دين الہى سركشى كرنے اور دوسروں كى سركشى كے برداشت كرنے كے ساتھ ہم آہنگ نہيں ہے_

اذهبا الى فرعون إنه طغى

۸ _ بڑے اہداف كيلئے بچپن سے ہى مستعد افراد كى شناخت و تربيت اور ان پر مسلسل نظر ركھنا ايك خدائي روش اور مطلوب ہے _إذ ا وحينا إلى ا مك و فتنك فتوناً و اصطنعتك لنفسي اذهبا إلى فرعون إنه طغى

۸۲

آسمانى اديان:انكا كردار ۷

انبياء (ع) :انكى سب سے اہم رسالت ۵

تربيت:اسكى روش ۸

تزكيہ نفس:اسكے اثرات ۴

خداتعالى :اسكے اوامر ۲

سركشي:اسكے موانع ۷

سركش لوگ :انكا مقابلہ كرنے كى اہميت ۵، ۶; انكا مقابلہ كرنے كى شرائط ۴

عمل:پسنديدہ عمل ۸

فرعون:اسكى صفات ۱; اسكى سركشى ۱; اسكى سركشى كو روكنا ۲; اسكى ہدايت ۳

مستعد لوگ:ان پر نظر ركھنا ۸

موسى (ع) :آپكى استقامت ۳; آپكى رسالت ۲

ہارون(ع) :انكى استقامت ۳; انكى رسالت ۲

آیت ۴۴

( فَقُولَا لَهُ قَوْلاً لَّيِّناً لَّعَلَّهُ يَتَذَكَّرُ أَوْ يَخْشَى )

اس سے نرمى سے بات كرنا كہ شايد وہ نصيحت قبول كرلے يا خوفزدہ ہوجائے (۴۴)

۱ _ فرعون كے ساتھ گفتگو كے دوران، حضرت موسى (ع) و ہارون(ع) نرم لہجے ميں بات كرنے اور درشت لہجے سے پرہيز كرنے پر ما مور _فقولا له قولا لين

''لين''،''خَشن'' كى ضد ہے ( مفردات راغب) اور ''لين'' صفت مشبہہ ہے يعنى نرم اور لطيف _

۲ _ حضرت موسى (ع) و ہارون (ع) كى نرم گفتگو نے فرعون كے حقيقت تك پہنچنے يا اسكے اعتقادات كے تزلزل كى وجہ سے اسكے دل ميں خوف و ہر اس كے پيدا ہونے كيلئے زمينہ ہموار كيا _

فقولا له قولاً ليناً لعله يتذكرا و يخشى ''خشية'' اس خوف كو كہتے ہيں جوطرف مقابل كى عظمت كے احساس كے ہمراہ ہو ( مفردات راغب) حرف ''او'' نے فرعون كو دو احتمالى رد عمل كے درميان ترسيم كيا ہے

۸۳

پس جملہ ''لعلہ'' بيان كررہا ہے كہ اميد ہے فرعون حقيقت كو سمجھ كر اس پر يقين كرلے يا كم از كم موسى و ہارون كى صداقت كا احتمال دے اور اسكے نتيجے ميں بڑے خطرے كا احساس كرتے ہوئے اس سے ہراسان ہوجائے

۳ _ ہدايت اور اصلاح، انبيا ء كى رسالت كا اصلى ہدف_فقولا له لعله يتذكر ا و يخشى

باوجود اسكے كہ فرعون سركش اور جھوٹا تھا ليكن موسى و ہارون كو فوج جمع كرنے اور اسكے خلاف جنگ لڑنے كا حكم نہيں ديا گيا بلكہ وہ ما مور تھے كہ آيات الہى كا اظہار كر كے اور نرم گفتگو كے ذريعے اسے ہدايت كريں _

۴ _ لوگوں كو برائيوں سے منع كرنے كيلئے جب تك گفتار كے اثر كرنے كا احتمال ہو اس وقت تك عملى اقدامات اور طاقت كا استعمال نہ كيا جائے _فقولا له قولاً ليناً لعله يتذكر ا و يخشى

''لعلّ'' سے يہ سمجھا جاسكتاہے كہ جب تك نرم گفتگو كے اثر انداز ہونے كى اميد ہو اس وقت تك برائي كو روكنے كيلئے الجھنا اور عملى قدم اٹھانا جائز نہيں ہے_

۵ _ لوگوں كو پند و نصيحت كرنا اور انہيں برے كردار كے انجام كے بارے ميں خبردار كرنا انبياء كى رسالت كا حصہ ہے _

لعله يتذكر ا و يخشى ''تذكر'' ''تذكير'' كا مطاوعہ ہے اور قاموس ميں ''تذكير'' كے بارے ميں لكھا ہے كہ يہ نصيحت كرنے كے معنى ميں ہے _

۶ _ حقيقت سے غافل ہونا اور برے كردار كے انجام سے نہ ڈرنا سركشى ہے_إنه طغى لعله يتذكر ا و يخشى

خداتعالى ، فرعون كو سركشى سے روكنے كيلئے موسى و ہارون كو تذكر اور خشيت پيدا كرنے كى تعليم ديتا ہے اس كا مطلب يہ ہے كہ ان دو خصلتوں كا نہ ہونا فرعون كى سركشى كا سبب تھا _

۷ _ دين كى تبليغ ميں نرم گفتگو كرنا اور محبت آميز روش اپنانا ضرورى ہے حتى كہ سركش ترين لوگوں كے ساتھ بھى _

فقولا له قولاً لين

۸ _ تبليغ ميں مہر و محبت پر مبنى گفتگو زيادہ مؤثر ہے _فقولا له قولًا ليناً لعله يتذكر ا و يخشى

كلام خدا ميں ''لعل'' كا معنى اس كا پر اميد ہونا نہيں ہے بلكہ مراد يہ ہے كہ جو شخص گفتگو كى اس روش كو ديكھے وہ پر اميد ہوگا _

۹ _ تبليغى كام كو مرحلہ بہ مرحلہ انجام دينا اور لوگوں كو ہدايت كرنے كى روش كے انتخاب ميں حالات اور ماحول كى طرف توجہ ركھنا ضرورى ہے _

۸۴

فقولا له قولًا ليناً لعله يتذكر ا و يخشى

۱۰ _ معاشرتى مفاسد كا مقابلہ كرنے كيلئے مبلغين كى روش ميں ہم آہنگى زيادہ كارساز اور كاميابى كى زيادہ نزديك ہے_

اذهبا فقولا له قولاً ليناً لعله يتذكر موسى (ع) و ہارون (ع) دونوں فرعون كا مقابلہ كرنے كيلئے ايك روش اپنانے پر ما مور ہوئے _

۱۱ _'' سفيان بن سعيد قال: سمعت ا با عبدالله جعفر بن محمد الصادق (ع) يقول: يا سفيان ، عليك بالتقية ان الله عزوجل قال لموسى و هارون: ''فقولا له قولاً ليناً لعله يتذكر ا و يخشى '' يقول الله عزوجل: كنياه و قولا له : يا ا با مصعب'' ;سفيان بن سعيد كہتے ہيں ميں نے امام صادق (ع) كو فرماتے ہوئے سنا اے سفيان تقيہ كى رعايت كر خداتعالى نے موسى و ہارون كو فرمايا تھا ''فقولا له قولاً ليناًلعله يتذكرا و يخشى '' خداتعالى كى مراد يہ ہے كہ اسے اسكى كنيتكے ساتھ مخاطب كرنا اور اسے كہنا اے ابومصعب (لوگوں كو كنيت كے ساتھ مخاطب بنانا انكے احترام كى علامت ہے)_(۱)

۱۲ _''عن موسى بن جفعر (ع) : ا مّا قوله: '' لعله يتذكر ا و يخشى '' فإنما قال ليكون ا حرص لموسى على الذهاب'' ;امام موسى كاظم (ع) سے روايت كى گئي ہے خداتعالى نے ''لعلہ يتذكر او يخشى '' اسلئے فرمايا تا كہ حضرت موسى كا(فرعون كى طرف) جانے كا اشتياق بڑھ جائے_(۲)

انبياء (ع) :انكا اصلاح كرنا ۳; انكا انذار ۵; انكى رسالت ۵; انكے مواعظ ۵; انكى سب سے اہم رسالت ۳; انكا ہدايت كرنا ۳

تبليغ:اسكى روش پہچاننے كى اہميت ۹; اس ميں منصوبہ بندى كرنا ۹; اسكى روش ۷، ۹، ۱۰; اس ميں كاميابى كا پيش خيمہ ۱۰; اس ميں مؤثر عوامل ۸; اس ميں نرم گفتگو ۷، ۸

ڈرانا:ناپسنديدہ عمل كے انجام سے ڈرانا ۵

سركشي:اسكے عوامل ۶//عمل:ناپسنديدہ عمل كا انجام ۶

غفلت :اسكے اثرات ۶//فرعون:اس كا مقابلہ كرنے كى روش ۱۱; اسكے خوف كا پيش خيمہ ۲; اسكى حق شناسى كا پيش خيمہ ۲ ; اسكى كنيت ۱۱//گفتگو:نرم گفتگو كے اثرات ۸

____________________

۱ ) معانى الاخبار ص ۳۸۶ح ۲۰باب نوادر المعانى _ تفسير برہان ج ۳ ص ۳۷ ح ۴_ ۲ ) علل الشرائع ص ۶۷ باب ۵۶ ح ۱_ نورالثقلين ج ۳ ص ۳۸۰ ح ۶۹_

۸۵

معاشرتى مفاسد:انكا مقابلہ كرنے كى روش ۱۰

موسى (ع) :آپكى نرم گفتگو كے اثرات ۲; آپكو متحرك كرنے كے عوامل ۱۲; آپكى ذمہ دارى ۱; آپكى نرم گفتگو ۱

نہى از منكر:اسكے احكام ۴; اسكے درجے ۴

ہارون (ع) :انكى نرم گفتگو كے اثرات ۲; انكى ذمہ دارى ۱; انكى نرم گفتگو ۱

آیت ۴۵

( قَالَا رَبَّنَا إِنَّنَا نَخَافُ أَن يَفْرُطَ عَلَيْنَا أَوْ أَن يَطْغَى )

ان دونوں نے كہا كہ پروردگار ہميں يہ خوف ہے كہ كہيں وہ ہم پر زيارتى نہ كرے يا اور سركش نہ ہوجائے (۴۵)

۱ _ حضرت موسى (ع) و ہارون (ع) نے فرعون كى طرف جانے سے پہلے آپس ميں ملاقات كى اور اسكى راہنمائي كے احتمالى موانع كے بارے ميں غور كيا _قالا ربنا إننا نخاف

حضرت موسى (ع) كے قصے كے بعض حصے جيسے آپ كا اپنے اہل و عيال كے پاس واپس جانا، راہ مصر كو پالينا، اور اپنے بھائي ہارون سے ملاقات كرنا _ چونكہ انكا فرعون كا مقابلہ كرنے ميں كوئي خاص دخل نہيں ہے اسلئے يہ ان آيات ميں نہيں آئے_ يہ احتمال بھى ہے كہ آيت نمبر ۴۲ ( اذہب ا نت و ا خوك) ميں خداتعالى كا موسى و ہارون كے ساتھ كلام ان دونوں كى ملاقات كے بعد ہو _

۲ _ موسى (ع) و ہارون (ع) نے بارگاہ الہى ميں مناجات كر كے اور اپنے اقدام كے احتمالى موانع كو شمار كر كے خداتعالى سے كسى چارے كى درخواست كى _قالا ربنا إننا نخاف ا ن يفرط علين

۳ _ موسى (ع) و ہارون(ع) معجزے كے اظہار اور حقيقت كے بيان كى فرصت ملنے سے پہلے ہى فرعون كى طرف سے انہيں فورى سزا دينے كے عجولانہ اقدام سے خوف زدہ تھےقالا ربنا إننا نخاف ا ن يفرط علين

''فَرَطَ'' يعنى افراط و تفريط كے بغير آگے نكلنا (مفردات راغب) موسى (ع) و ہارون(ع) كى مراد فرعون

۸۶

كى طرف سے ايسے اقدام كا احتمال ہے جو انہيں پيام الہى كے ابلاغ كى فرصت نہ دے _

۴ _ موسى (ع) و ہارون (ع) فرعون كى طرف سے اسے دعوت الہى كے ابلاغ كے بعد، زيادہ سركشى كے احتمال سے پريشان تھے _ا و ا ن يطغى

خداتعالى نے موسى (ع) كے ساتھ كلام كرتے ہوئے فرعون كى سركشى كى تصريح كى تھى _پس اس بات سے موسى (ع) و ہارون (ع) كى مراد سركشى كا اس قدرزيادہ ہونا ہے كہ جس سے اسكے دعوت كو قبول كرنے امكان بالكل ختم ہوجائے_

۵ _ حضرت موسى (ع) و ہارون (ع) كو فرعون تك پيغام الہى كے پہچانے ميں ناكامى كى پريشانى _

إننا نخاف ا ن يفرط علينا ا و ا ن يطغى

۶ _ موسى (ع) و ہارون (ع) كى نظر ميں فرعون ايك ڈكٹيٹر اور حقيقت كو سركوب كرنے والا شخص تھا_

نخاف ا ن يفرط علينا ا و ا ن يطغى

يہ احتمال كہ فرعون موسى و ہارون كو بيان حقيقت كى فرصت نہيں ديگا انكے فرعون كى خودسرى كو جاننے كى وجہ سے تھا اور اسكى سركشى كے زيادہ ہونے كا احتمال ان دوكے اس بات سے آگاہى كى وجہ سے تھا كہ فرعون حق كے مقابلے ميں ہٹ دھر م مز اج كا مالك ہے_

۷ _ ذمہ دارى كى احتمالى مشكلات اور موانع كے بارے

ميں غور كرنا اور الہى پيغام كے پہچانے ميں ناكامى كاخوف،مقام نبوت اور خداتعالى كے لئے مخلص ہونے كے ساتھ من۰فات نہيں ركھتا _و اصطنعتك لنفسي إننا نخاف ا ن يفرط علينا ا و ا ن يطغى

انبياء (ع) :انكا اخلاص ۷; انكا خوف ۷; انبيا اور تبليغ كى مشكلات كے بارے ميں غور كرنا ۷; انبيا اور نبوت كى مشكلات كے بارے ميں غور كرنا ۷

فرعون:اس كا استبداد ۶; اسكے شكنجے ۳; اسكى طرف سے عجولانہ اقدام كى پريشانى ۳; اسكى طرف سے حق كو قبول نہ كرنے كى پريشانى ۵; اسكى سركشى كى پريشانى ۴

موسى (ع) :انكى سوچ ۷; انكى رسالت ۵; انكا قصہ ۱، ۲، ۳، ۴، ۵; موسى و ہارون كى باہى مشاورت ۱; موسى و ہارون كى ملاقات ۱; انكى مناجات ۲; انكى پريشانى ۳، ۴، ۵

ہارون (ع) :انكى سوچ ۶; انكى رسالت ۵; انكا قصہ ۱، ۲، ۳، ۴، ۵; انكى مناجات ۲; انكى پريشانى ۳، ۴، ۵

۸۷

آیت ۴۶

( قَالَ لَا تَخَافَا إِنَّنِي مَعَكُمَا أَسْمَعُ وَأَرَى )

ارشاد ہوا تم ڈرو نہيں ميں تمھارے ساتھ ہوں سب كچھ سن بھى رہا ہوں اور ديكھ بھى رہا ہوں (۴۶)

۱ _ خداتعالى نے موسى (ع) و ہارون (ع) سے چاہا كہ اپنى كاميابى كے سلسلے ميں پريشان نہ ہوں اور فرعون كے رد عمل سے بھى نہ ڈريں _إننا نخاف قال لاتخاف

۲ _ خداتعالى نے موسى (ع) و ہارون(ع) كو اطمينان دلايا كہ فرعون ان سے پيغام رسالت كو پہچانے كى فرصت نہيں چھينے گا اور اپنى سركشى ميں اضافہ نہيں كريگا _نخاف ا ن يفرط قال لا تخاف

۳ _ خداتعالى نے فرعون كا مقابلہ كرنے كے دوران موسى (ع) و ہارون (ع) كو اپنى طرف سے انكى مكمل ہمراہى اور حمايت و حفاظت كا اعلان فرمايا _إننى معكم

خداتعالى ہميشہ سب كے ہمراہ ہے اور ہر جگہ موجود ہے_ موسى (ع) و ہارون (ع) كى پريشانى دور كرنے كيلئے ہے جس چيز پر زيادہ زور ديا گيا ہے وہ خداتعالى كا خصوصى طور پر حاضر رہنا ہے كہ جو اسكى طرف سے انكى بے دريغ حمايت كى حكايت كرتا ہے_

۴ _ خداتعالى كى طرف سے ہمراہى اور مدد كے باوجود كام كے انجام سے خوفزدہ اور پريشان ہونے كى كوئي وجہ نہيں ہے _

لاتخافا إننى معكم ''إنني''''معكما'' كى علت كا بيان ہے _ يعنى خوف نہ كرو كيونكہ ميں تمہارے ساتھ ہوں اس كا مطلب يہ ہے كہ جہاں خدا كى مددكى ضمانت ہو وہاں خوف اور پريشانى را كوئي وجہ نہيں ہے_

۵ _ خداتعالى ہر بات كو سننے والا، ہر كردار كو ديكھنے والا اور ہر شے كو جاننے والا ہے_ا سمع وا رى

''ا سمع'' اور ''ا ري'' كے لئے كسى خاص مفعول كا ذكر نہ ہونا عموم كا فائدہ ديتا ہے او رخداتعالى كى سب قابل شنيد باتوں اور قابل ديد چيزوں سے آگاہى سے مراد اس كا علم مطلق ہے_

۶ _ خداتعالى كا سننا اور ديكھنا اس كى طرف سے فرعون كے مقابلے ميں موسى (ع) و ہارون (ع) كى مدد كى ضمانت

۸۸

كااطمينان دلانے كا باعث تھا _إننى معكما ا سمع و ا رى

۷ _ خداتعالى كى طرف سے مددكاوعدہ اور فرعون كو ہدايت كرنے كے واقعےكى جزئيات سے اسكى وسيع آگاہى موسى و ہارون كے پريشان دلوں كے سكون اور انكى اميد كا باعث تھى _إننا نخاف لا تخافا إننى معكما ا سمع و ا رى

۸ _ موسى (ع) و ہارون (ع) ، خداتعالى كى برتر قدرت سے آگاہ تھے اوردوسروں كو اسكے ارادے اور مشيت كا مقابلہ كرنے سے ناتوان سمجھتے تھے _إننى معكم

۹ _ موسى (ع) و ہارون(ع) نے خداتعالى كے مشتركہ خطاب كے ذريعے وحى الہى كو حاصل كيا _قال لا تخافا إننى معكم

ايمان:ارادہ خدا پر ايمان ۸; قدرت خدا پر ايمان ۸

پريشاني:ناپسنديدہ پريشانى ۴

خداتعالى :اسكى امداد كے اثرات ۴; اسكے ديكھنے كے اثرات ۶; اسكے سننے كے اثرات ۶; اسكے علم كے اثرات ۷; اسكے وعدوں كے اثرات ۷; اس كا ديكھنا ۵; اس كا سننا ۵; اس كا علم ۵

خوف:ناپسنديدہ خوف ۴

فرعون:اسكى سركشى سے پريشانى ۲; اسكى ہدايت ۷

موجودات:انكا عاجز ہونا ۸

موسى (ع) :انہيں اطمينان دلانا ۱، ۲; انكى امداد كرنا ۱، ۶، ۷; انكا ايمان ۸; انہيں تسلى دينا ۱; انكى رسالت ۹; انكے اطمينان كے عوامل ۶، ۷; انكى اميد كے عوامل ۷; انكا قصہ ۲، ۳، ۶، ۷; انكى حفاظت ۳ ; انكى طرف وحى ۹

ہارون (ع) :انہيں اطمينان دلانا ۱، ۲; انكى امداد كرنا ۳، ۶، ۷; انكا ايمان ۸; انہيں تسلى دينا ۱; انكى رسالت ۹; انكے اطمينان كے عوامل ۶، ۷; انكى اميد كے عوامل ۷; انكا قصہ ۲، ۳، ۶، ۷; انكى حفاظت ۳; انكى طرف وحى ۹

۸۹

آیت ۴۷

( فَأْتِيَاهُ فَقُولَا إِنَّا رَسُولَا رَبِّكَ فَأَرْسِلْ مَعَنَا بَنِي إِسْرَائِيلَ وَلَا تُعَذِّبْهُمْ قَدْ جِئْنَاكَ بِآيَةٍ مِّن رَّبِّكَ وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى )

فرعون كے پاس جاكر كہو كہ ہم تيرے پروردگار كے فرستادہ ہيں بنى اسرائيل كو ہمارے حوالے كردے اور ان پر عذاب نہ كر كہ تم تيرے پاس تيرے پروردگار كى نشانى لے كر آئے ہيں اور ہمارا سلام ہو اس پر جو ہدايت كااتباع كرے (۴۷)

۱ _ خداتعالى نے موسى (ع) و ہارون (ع) كو بے باكى اور بغير كسى خوف و خطر كے فرعون كے پاس جانے اور اسے اپنى رسالت سے آگاہ كرنے كا حكم ديا _لاتخافا فا تياه فقولا إنا رسولا ربك

''فا تياه'' كا''لاتخافا'' پر عطف ہے اور يہ اس پر متفرع ہے يعنى اب جبكہ تمہارے امن اور حفاظت كى ضمانت آچكى بغير كسى خوف اور پريشانى كے فرعون كے پاس جاؤ ''فائ'' عاطفہ تعقيب كيلئے ہے اور دلالت كرتى ہے كہ دوكاموں كے درميان متعارف حد سے زيادہ فاصلہ نہ ہو _

۲ _ حضرت موسى (ع) كى بعثت كے زمانے ميں بنى اسرائيل مصر ميں رہتے تھے اور فرعون كے ظلم و ستم كا شكار تھے_

فا رسل معنا بنى إسرائيل ولا تعذبهم فرعون كو بنى اسرائيل كو عذاب اور تكليف دينے سے منع كرنا اس وقت مصر ميں بنى اسرائيل كى سختى اور رنج و الم كا غماز ہے_

۳ _ بنى اسرائيل كى آزادى اور انہيں موسى (ع) و ہارون (ع) كے ہمراہ بھيجنا ان دو كا فرعون سے سب سے پہلا مطالبہ تھا _فقولا ا رسل معنا بنى إسرائيل

۴ _ بنى اسرائيل كو فرعون كے ظلم و ستم سے نجات دلانا اور انہيں فرعون كے دائرہ حكومت سے خارج كرنا موسى (ع) و ہارون (ع) كى رسالت كے اہم اہداف ميں سے تھا _فقولا إنا رسولا ربك فا رسل معنا بنى إسرائيل ولا تعذبهم

''فا رسل'' ميں ''فائ'' اسے''إنا رسولا ربك'' پر متفرع كرر ہى ہے اور بتا رہى ہے كہ بنى اسرائيل كو بھيجنا موسى (ع) و ہارون (ع) كى الہى رسالت كا حصہ تھا _

۵ _ فرعون كى طرف سے بنى اسرائيل كے نكل جانے كو قبول كرلينے كے بعد خداتعالى كے حكم سے موسى (ع) و ہارون (ع) انكى رہبرى كے ذمہ دار تھے_فا رسل معنا بنى إسرائيل

۹۰

۶ _ بنى اسرائيل كو فرعون كے ستم سے نجات دينا انہيں مصر اور فرعون معاشرے سے نكالنے كے بغير ممكن نہيں تھا_

فا رسل معنا بنى إسرائيل ولا تعذبهم ''لاتعذبهم'' كا ''ا رسل'' پر عطف اس نكتے كو بيان كررہا ہے كہ بھيجنے كى درخواست عذاب اور شكنجوں سے نجات كى غرض سے ہے اس كا مطلب يہ ہے كہ ہجرت كے بغير رہائي كا امكان نہيں تھا _

۷ _ بنى اسرائيل كا مصر ميں رہنا،فرعونيوں كيلئے بہت اہم تھا_فا رسل معنا بنى إسرائيل

مصر سے بنى اسرائيل كے خروج كيلئے فرعون سے درخواست كرنا مصر ميں بنى اسرائيل كى موجودگى كى اہميت كى علامت ہے اور فرعونيوں كے امور كى انجام دہى ميں انكے كردار كو بيان كررہا ہے _

۸ _ فرعون، بنى اسرائيل كے مصر سے نكل كر كسى اور جگہ كى طرف ہجرت كرنے ميں ركاوٹ بن رہا تھا_

فا رسل معنا بنى إسرائيل اگر بنى اسرائيل كا مصر سے نكلنا عادى طور پر ممكن ہوتا تو اس مسئلے فرعون كے سامنے اٹھانابے معنى تھا پس بنى اسرائيل اگر چہ خود رہائي حاصل كرنا اور ہجرت كرناچاہتے تھے ليكن فرعون اور اسكى حكومت اس كام ميں ركاوٹ تھے_

۹ _ بنى اسرائيل موسى (ع) و ہارون (ع) كى قيادت ميں مصر سے ہجرت كيلئے تيار_فا رسل معنا بنى إسرائيل ولا تعذبهم

فرعون كے سامنے اس درخواست كا پيش ہونا مصر سے ہجرت كيلئے بنى اسرائيل كى ذہنى آمادگى پر دلالت كرتا ہے_

۱۰ _ مظلوموں كو ظلم و ستم اور غلامى كى زنجيروں سے نجات دلانا اور انہيں غير توحيدى نظاموں كے تسلط سے رہائي دلانا خداتعالى كو مطلوب اور انبياء الہى كے اہداف كے ساتھ ہم آہنگ ہے_اذهبا فا رسل معنا بنى إسرائيل

۱۱ _ موسى (ع) و ہارون (ع) خداتعالى كى طرف سے ما مور تھے كہ فرعون كو بنى اسرائيل پر ظلم كرنے سے منع كريں _

إنا رسولا ربك ولا تعذبهم

۱۲ _ حكمران اپنے ما تحت لوگوں كے كردار كے ذمہ دار ہوتى ہيں _لاتعذبهم

بلاشك فرعون بالواسطہ طور پر بنى اسرائيل كو عذاب نہيں ديتا تھا اسكے باوجود خدا تعالى نے انہيں عذاب دينے كى نسبت فرعون كى طرف دى ہے كيونكہ فرعون سربراہ حكومت تھا اور عذاب دينے كاحكم جارى كرتا تھا_

۱۳ _ خداتعالى نے موسى (ع) و ہارون(ع) كو حكم ديا كہ وہ فرعون كو اس بات كى اطلاع ديں كہ اپنى رسالت كو ثابت كرنے كيلئے ان كے پاس معجزہ ہے _قد جئنك ب اية

۹۱

''آية'' اسم جنس ہے اور يہ كم اور زيادہ پر بولا جاسكتا ہے لذا متعدد معجزات پر بھى ''آية'' كا اطلاق ہوسكتا ہے _

۱۴ _ فرعون كو اس بات كى طرف توجہ دلانا كہ اسكى زندگى كے امور خداتعالى كى ربوبيت كے ساتھ وابستہ ہيں موسى (ع) و ہارون (ع) كى فرعون كے ساتھ ملاقات كے پروگراموں ميں سے تھا_انا رسولا ربك ب اية من ربك

فرعون كى طرف سے ربوبيت كے دعوى كو مد نظر ركھتے ہوئے اس آيت ميں اور فرعون كو مخاطب كرتے ہوئے ''ربك'' كا تكرار اسے اس بات كى ياد دہانى كرانے كيلئے ہے كہ ربوبيت خداتعالى ميں منحصر ہے_

۱۵ _ انبيا الہى كو معجزات كے ہمراہ بھيجنا ربوبيت خدا كا ايك جلوہ ہے_إنا رسولا ربك ب اية من ربك

۱۶ _ ہدايت الہى كى پيروى كا نتيجہ امن اور سلامتى ہے _والسلام على من اتبع الهدى

''سلام'' باب تفعيل كا اسم مصدر ہے اور اسم كا معنى مصيبتوں اور آفات سے سلامتى و عافيت ہے ( لسان العرب) بعد والى آيت قرينے ہے كہ اس آيت ميں سلامتى سے مراد دينا و آخرت كے عذاب سے امان ہے _

۱۷ _ ايمان لانے كى صورت ميں فرعون كو مكمل امان اور سلامتى كى ضمانت اس كيلئے خداتعالى كا ايك پيغام_

فقولا والسلام على من اتبع الهدى

۱۸ _ امن و صلح كا قيام ،انبياالہى كے اہداف ميں سے ہے _والسلام على من اتبع الهدى

۱۹ _ اديان الہي، لوگوں كو ہدايت كرنے والے اور انكے صلح و امن تك پہنچنے كا ذريعہ ہيں _و السلام على من اتبع الهدى

۲۰ _ سخن كے آخر ميں سلام ، موسى و ہارون كا نعرہ_*و السلام على من اتبع الهدى

۲۱ _ موسى (ع) و ہارون (ع) نے فرعون كے ہدايت سے محروم ہونے كو اسكے گوش گزار كيا اور اسے ہدايت كى پيروى كرنے كى دعوت دي_و السلام على من اتبع الهدى

جملہ''السلام على ...'' خبر يہ ہے اور''من اتبع '' كى تعبير فرعون كے اس صفت سے عارى ہونے كى طرف اشارہ اور اسے اسكے حاصل كرنے كى ترغيب دلانے كيلئے ہے_

۲۲ _ دين كے ا صولوں كو قاطعيت و صراحت كے ساتھ بيان كرنا گفتار ميں نرمى كے منافى نہيں ہے_

فقولا له قولا لينا إنا رسولا ربك

۹۲

فا رسل و لا تعذبهم و السلام على من اتبع الهدى

گذشتہ آيات ميں خداتعالى نے موسى (ع) و ہارون (ع) كو فرعون كے ساتھ نرمى سے گفتگو كرنے كاحكم ديا اور ان آيات ميں ان چيزوں كو ذكر فرمايا جو انہوں نے فرعون سے كہنى تھيں _ قابل ذكر ہے كہ فرعون كو جو پيغامات پہنچائے گئے ان ميں بنيادى عقائد، بشارت اور انذار موجود ہيں _ پس گفتار كى نرمى سے مراد اصولوں كو بيان نہ كرنا اور عقائد كو سينسركرنا نہيں ہے بلكہ اس سے مقصود انداز بيان اورپيش آنے كى روش ہے_

آسمانى اديان:انكا كردار ۱۹; انكا ہدايت كرنا ۱۹

امن:اسكى اہميت ۱۸; اسكے عوامل۱۶; ۱۹

انبياء:انكے اہداف ۱۰، ۱۸; انكى بعثت ۱۵

ايمان:اسكے اثرات ۱۷

بنى اسرائيل:انكى ہجرت كے اثرات ۶; انكى اذيت ۲; انكى مصر ميں رہائش كى اہميت ۷; انكى تاريخ ۲، ۶، ۸، ۹; انكى نجات كى درخواست ۳; انكے رہبر ۵; ان پر ظلم ۲; انكى نجات كے عوامل ۶; انكى ہجرت پرپابندى ۸; انكى نجات ۴; انكى ہجرت ۹

تبليغ:اس ميں صراحت ۲۲; اس ميں قاطعيت ۲۲; اس ميں سخن كى نرمى ۲۲

حكمران:انكى ذمہ دارى ۱۲

خداتعالى :اسكے اوامر ۱، ۳، ۱۳; اسكى ربوبيت كى نشانياں ۱۵

سخن:آداب سخن ۲۰/سلامتى :اسكے عوامل ۱۶

صلح:اسكى اہميت ۱۸; اسكے عوامل ۱۹

عمل:پسنديدہ عمل ۱۰

فرعون:اس تك معجزہ پہنچانا۱۳; اس سے درخواست ۳; اسكو دعوت ۲۱; اسكے امن كا پيش خيمہ ۱۷; اسكى سلامتى كا پيش خيمہ ۱۷; يہ اور بنى اسرائيل ۸; اسكى محروميت ۲۱; اسكے شكنجوں سے ممانعت ۱۱

فرعونى لوگ:انكى اذيتيں ۲; انكے شكنجے ۴، ۶; انكا ظلم ۲; يہ اور بنى اسرائيل ۷

كارندے:انكے كام كا ذمہ دار ۱۲

مظلومين:انكى نجات كى فضيلت ۱۰

۹۳

معجزہ:اس كا سرچشمہ ۱۵; اس كا كردار ۱۳

موسى (ع) :انكى رسالت كا اعلان ۱; انكے مطالبات ۳; انكى دعوت ۲۱; انكى رسالت ۱۱، ۱۳، ۱۴; انكى راہبرى ۵، ۹; انكا سلام ۲۰; انكا قصہ ۱، ۳، ۵، ۱۱، ۱۳، ۱۴; انكى سب سے اہم رسالت ۴

نبوت:اسكے دلائل ۱۳

ہارون (ع) :انكى رسالت كا اعلان۱; انكے مطالبات ۳; انكى دعوت ۲۱; انكى رسالت ۱۱، ۱۳، ۱۴; انكى راہبرى ۵، ۹; انكا سلام ۲۰; انكا قصہ ۱، ۳، ۵، ۱۱، ۱۳، ۱۴; انكى اہم ترين رسالت ۴

ہدايت:اسكے اثرات ۱۶; اسكى دعوت ۲۱; اس سے محروم لوگ ۲۱

آیت ۴۸

( إِنَّا قَدْ أُوحِيَ إِلَيْنَا أَنَّ الْعَذَابَ عَلَى مَن كَذَّبَ وَتَوَلَّى )

بيشك ہمارى طرف يہ وحى كى گئي ہے كہ تكذيب كرنے والے اور منھ پھيرنے والے پر عذاب ہے (۴۸)

۱ _ حضرت موسى (ع) كى طرح حضرت ہارون (ع) بھى وحى الہى دريافت كرتے تھے _إنا قد ا وحى إلين

۲ _ انبيا اور معجزات الہى كو جھٹلانے اور ان سے روگردانى كرنے كا نتيجہ ،عذاب الہى ہے_ا ن العذاب على من كذب و تولي گذشتہ آيات كے قرينے سے ''تكذيب'' كا متعلق انبيا كى رسالت اور وہ معجزات ہيں جو اسكے ثابت كرنے كيلئے دكھائے گئے_

۳ _ بشارت دينے كے بعد، نرم لہجے ميں فرعون كو عذاب سے ڈرانا موسى (ع) و ہارون(ع) كى ذمہ داريوں ميں سے تھا _

و السلام على من العذاب على من كذب

ظاہر كلام يہ ہے كہ فرعون كو انذار اسكى تبشير كے بعد ہوا ہے _ انذار ميں غائب كے صيغوں كا استعمال، نيز تاكيد كے ہمراہ اسكے وحى ہونے كى تصريح يہ سب چيزيں موسى (ع) و ہارون (ع) كے فرعون كے ساتھ نرم گفتگوكے گواہ ہيں _

۴ _ انذار بھى نرم لہجے ميں اور درشتى كے بغير ہوسكتا ہے_

۹۴

فقولا له قولاً ليناً ا ن العذاب على من كذب

گذشتہ آيات ميں خداتعالى نے موسى (ع) و ہارون (ع) كو نرم گفتگو اور ملائم روش اپنا نے كى نصيحت فرمائي پھر انہيں پيغامات ديئے كہ جن ميں انذار بھى شامل تھا_ اس كا لازمہ يہ ہے كہ نرم گفتگو كا مطلب انذار كو ترك كرنا نہيں ہے بلكہ ملائم اور مناسب لہجے ميں بھى انذار ہوسكتا ہے_

۵ _ فرعون كے مقابلے ميں موسى (ع) و ہارون (ع) كى ذمہ دارى تھى كہ وہ عذاب كى دھمكى كے وحى ہونے پر زور ديں _

إنا قد ا وحى إلينا ا ن العذاب

جملہ ''إنا قد ...'' ''إنّ'' اور ''قد''كے ساتھ تاكيد پر مشتمل ہے كہ جو تمام پيغامات خاص طور پر عذاب سے انذار والے پيغام كے وحى ہونے كى تاكيد ہے _

آيات خدا:ان سے اعراض كے اثرات ۲; انكى تكذيب كے اثرات ۲

انبياء (ع) :ان سے اعراض كے اثرات ۲; انكى تكذيب كے اثرات ۲

انذار:عذاب سے انذار ۳; اسكى روش ۴; اس ميں سخن كى نرمى ۴; عذاب سے انذار كا وحى ہونا ۵

عذاب:اسكے اسباب ۲

فرعون:اس كا انذار ۳--_ ۵

موسى (ع) :انكى رسالت ۳، ۵; انكا قصہ ۳; انكى سخن كى نرمى ۳; انكو وحى ۱

ہارون (ع) :انكى رسالت ۳،۵; انكا قصہ ۳; انكى سخن كى نرمى ۳; انكو وحى ۱

آیت ۴۹

( قَالَ فَمَن رَّبُّكُمَا يَا مُوسَى )

اس نے كہا كہ موسى تم دونوں كا رب كون ہے (۴۹)

۱ _ موسى (ع) و ہارون (ع) نے فرعون كو خداتعالى كے پيغامات پہنچاكر اپنى ڈيوٹى انجام دے دي_فقولا له قال فمن ربكم گذشتہ سب آيات ميں خداتعالى كى موسى (ع) و ہارون (ع) كے ساتھ گفتگو تھى ليكن انكے فرعون كا سامنا كرنے اور جو كچھ وہاں ہوا اسكے بارے ميں ان آيات ميں بات نہيں كى گئي_ فرعون كے جواب سے پتا چلتا ہے كہ انہوں نے اس تك اپنا پيغام پہنچا كر اس كا جواب وصول كرليا تھا _

۹۵

۲ _ فرعون نے موسى (ع) و ہارون (ع) كى باتيں سن كر انہيں پيغام الہى پہنچانے كى اجازت دي_

فقولا إنا رسولا قال فمن ربكم

۳ _ موسى (ع) و ہارون (ع) كى باتوں كے رد عمل ميں فرعون نے انكے پروردگار كے بارے ميں تجاہل اور عدم اطلاع كا اظہار كيا_انا رسولا ربك ب اية من ربك قال فمن ربكم

اگر چہ موسى (ع) و ہارون (ع) نے ''ربك'' كے عنوان كے ساتھ فرعون تك پيغام پہنچايا ليكن فرعون نے سوال پوچھتے ہوئے ''ربكما'' كى تعبير كو استعمال كيا تاكہ خداتعالى كى ربوبيت كا انكار كرنے كے ساتھ ساتھ اسكى نسبت بے خبر ہونے كا اظہار كرے_

۴ _ فرعون نے موسى (ع) و ہارون (ع) كے پروردگار سے بے خبرى كا اظہار كر كے انكے پيغام كے اصلى ركن پر سواليہ نشان لگاديا _إنا رسولا ربك ا وحى إلينا فمن ربكم

۵ _ موسى (ع) و ہارون (ع) كے وحى و رسالت ميں شريك ہونے كے باوجود اسكى ذمہ دارى حضرت موسى (ع) كے كاندھوں پر تھى _قال فمن ربكما يا موسى

پورے مكالمے ميں موسى (ع) و ہارون (ع) فرعون كو اپنا مشتركہ پيغام پہچانے كے ذمہ دار تھے اسى وجہ سے گذشتہ آيات ميں سب ضمائر مشترك اور تثنيہ كى صورت ميں تھيں _ ليكن فرعون اپنے سوال ميں دونوں كو مخاطب قرار دينے كے باوجود موسى (ع) سے جواب طلب كرتا ہے (ياموسي) ان قرائن سے معلوم ہوتا ہے كہ موسى و ہارون كے رسالت ميں شريك ہونے كے باوجود سربراہى موسى (ع) كے ہاتھ ميں تھى اور فرعون بھى اسے جان چكاتھا _

انبياء (ع) :انكى ہم آہنگى ۵

فرعون:اس كا تجاہل ۳; اسكى شبہ انگيزى ۴;اسكے تجاہل كے اثرات ۴; اسے وحى پہچانا ۱، ۲;

موسى (ع) :انكا قصہ ۱، ۲، ۳، ۴، ۵;انكى رسالت ۵; انكى رسالت كا انجام پانا ۱; انكى رسالت ۵; انكى قيادت ۵

ہارون (ع) :انكى رسالت ۵;انكى رسالت كا انجام پانا ۱; انكا قصہ ۱، ۲، ۳، ۴، ۵

۹۶

آیت ۵۰

( قَالَ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطَى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدَى )

موسى نے كہا كہ ہمارا رب وہ جس نے ہر شے كو اس كى مناسب خلقت عطا كى ہے اور پھر ہدايت بھى دى ہے (۵۰)

۱ _ موسى (ع) نے فرعون كے جواب ميں اپنے پروردگار كو سب موجودات كا خالق اور ہدايت كرنے والا متعارف كرايا _من ربكما قال ربنا الذى ا عطى ثم هدى

۲ _ خلق كرنا، خداتعالى كا اختيارى فعل اور اسكى عطا ہے _الذى ا عطى كل شيء خلقه

كلمہ ''عطائ'' اور ''إعطا'' كے استعمالات ميں غور كريں تو معلوم ہوتا ہے كہ يہ مادہ ايسى جگہ ميں استعمال ہوتا ہے جب كسى چيز كا دينا ايك تو مجبورى كے ساتھ نہ ہو اور دوسرا كسى دوسرى چيز كے مقابلے ميں نہ ہو_

۳ _ سب موجودات كا خالق اور انہيں اپنے راستے كى طرف ہدايت كرنے والا، خداتعالى ہے _ا عطى كل شيء خلقه ثم هدى

۴ _ خداتعالى نے ہر موجود كو پورى خلقت اور اسكي حيثيت كے مطابق اعضاء اور خصوصيات عطا كى ہيں _

الذى ا عطى كل شيء خلقه خلق كا معنى پيدا كرنا يا صحيح انداز اور يا شكل و صورت ہے ( مفردات راغب) دوسرے اور تيسرے معنى سے مندرجہ بالا نكتہ حاصل ہوتا ہے _

۵ _ خداتعالى نے ہر موجود كو اپنے اعضا اور خصوصيات سے استفادہ كرنے كے طريقہ سے آشنا كيا ہے اور اسے اپنے مفادات اور ان تك پہنچے كا راستہ سمجھايا ہے_ا عطى كل شيء خلقه ثم هدى

سابقہ جملہ قرينہ ہے كہ ''ہدى '' كا متعلق خلقت كى خصوصيات اور انہيں اپنے مفادات ميں استعمال كرنے كا طريقہ ہے _

۶ _ عالم خلقت ميں حساب و كتاب اور اندازے كا وجود_ ا عطى كل شيء خلقه

۷ _ فرعون اور اسكے حوارى ،خالق كائنات اور موجودات كے رب كے درميان فرق كا عقيدہ ركھتے تھے _

من ربكما ربنا الذى ا عطى كل شيء خلقه

سوال كے جواب ميں كوشش ہوتى ہے كہ نامعلوم شے كو پہنچانونے كيلئے ايك معلوم مطلب سے استفادہ كيا جائے فرعون كے سوال(من ربكما) كے جواب ميں حضرت موسى (ع) نے بھى ايك جانى پہچانى چيز سے استفادہ كرتے ہوئے خداتعالى كى خالقيت كى صفت كے ساتھ توصيف كى كيونكہ فرعون اور اسكے پيروكار،خداتعالى كے خالق ہونے كا اعتقاد ركھتے تھے اور ان كا نقطہ اختلاف صرف، ربوبيت تھى _

۹۷

۸ _ فرعون اور اس كے پيروكار معترف تھے كہ عالم ہستى كا خالق ،خدا ہے ليكن وہ اس كى ربوبيت كے منكرتھے_

من ربكما ربنا الذى ا عطى كل شيء خلقه

۹ _حضرت موسى (ع) نے فرعون كے سامنے كائنات كے خالق اور پروردگار كے ايك ہونے پر زور ديا _

من ربكما ربنا الذى ا عطى كل شيء خلقه

۱۰ _ خداتعالى كى ربوبيت كا تقاضا ، موجودات كو خلق كرنا اور انہيں اپنے كمال وجودى كى طرف ہدايت كرناہے_

ربنا الذى ا عطى كل شيء خلقه ثم هدى

۱۱ _ تمام موجودات ہستى كى خلقت اور انہيں ہدايت كرنا خداتعالى كى ربوبيت كى دليل ہے_

ربنا الذى ا عطى كل شيء خلقه ثم هدى

حضرت موسى (ع) كے كلام كى بازگشت، محكم اور منطقى دليل كى طرف ہے كہ جس كى صورت يوں ہے ''الله تعالى رب ہے كيونكہ وہ خالق اور ہادى ہے''_

۱۲ _ سب موجودات، خداتعالى كى ہدايات سے بہرہ مند ہيں _ا عطى كل شيء خلقه ثم هدى

۱۳ _ حضرت موسى (ع) نے اپنى رسالت كو وسيع ربوبى ہدايت كا ايك جلوہ قرار ديا _من ربكما ربنا الذى ا عطى كل شيء خلقه ثم هدى فرعون كے ساتھ حضرت موسى (ع) كى بحث كے موقع و محل كا تقاضا ہے كہ آپ(ع) ،خداتعالى كى عام ہدايت والا موضوع اٹھائيں تا كہ فرعون كے مخفى سوال كا جواب ديا جاسكے كيونكہ ممكن تھا فرعون كہتا كہ فرض كريں خدائے خالق تيرا رب ہے كيا دليل ہے كہ اس كے رسولوں كى بات ماننا بھى ضرورى ہے حضرت موسى (ع) نے خداتعالى كى عام ہدايت كا تذكرہ كر كے نہ صرف فرعون كے ممكنہ سوال كا جواب دے ديا بلكہ كلى طور پر اپنى رسالت كو ثابت كرنے كا موضوع بھى چھيڑديا _

۱۴ _''عن محمد بن مسلم قال: سا لت ا با عبدالله (ع) عن قول الله عزوجل: '' ا عطى كل شيء خلقه ثم هدي'' قال: ليس شيء من خلق الله إلا و هو يعرف من شكله الذكر من الا نثى قلت: ما يعنى '' ثم

۹۸

هدى '' ؟ قال: هداه للنكاح و السفاح من شكله ;محمد بن مسلم كہتے ہيں ميں نے امام صادق عليہ السلام سے خداتعالى كے فرمان ''ا عطى كل شيء خلقہ ثم ہدى '' كے بارے ميں سوال كيا تو آپ (ع) نے فرمايا خداتعالى كى مخلوقات ميں سے كوئي چيز نہيں ہے مگر يہ كہ وہ اپنى جنس كے نر اور مادہ كو پہچانتى ہے_ ميں نے پوچھا ''ثم ہدى '' كا معنى كيا ہے توآپ (ع) فرمايا:خداتعالى نے اسے اپنى نوع كے ساتھ جنسى آميزش كے درست اور نادرست طريقے سے آشنا كيا ہے_(۱)

آفرينش:اسكا اندازہ ۶

اقرار:خداتعالى كى خالقيت كا اقرار ۸

بدن:اسكے اعضا سے استفادے كى روش ۵

توحيد:خالقيت ميں توحيد ۳

خداتعالى :اس كا اختيار ۲;اسكى تعليمات ۵; اس كا ہدايت كرنا ۱، ۳; اسكى خالقيت ۱، ۲، ۴، ۹; اسكى ربوبيت ۹،۱۳; اسكى ربوبيت كو جھٹلانے والے ۸;اسكى ربوبيت كے اثرات ۱۰; اسكى ربوبيت كے دلائل ۱۱; اسكى ہدايت ۱۲، ۱۴ اسكى ہدايات كى نشانى ۱۳;اس كے افعال ۲; روايت: ۱۴اسكے عطيات ۲، ۴;

فرعون:اس كا اقرار ۸; اس كا عقيدہ۷; فرعون اور خالق كائنات ۷; فرعون اور موجودات كى تربيت كرنے والا ۷

فرعون كے پيروكار:ان كا اقرار ۸; ان كا عقيدہ ۷; يہ اور خالق كائنات ۷ ; يہ موجودات كى تربيت كرنے والا ۷

موجودات:انكا خالق ۳، ۴;انكى آميزش ۱۴; انكى تعليم ۵; انكى خلقت ۶، ۱۱; انكى خلقت كاپيش خيمہ ۱۰;انكى خلقت كا تكامل ۴;انكى ہدايت كا پيش خيمہ ۱۰; انكى ہدايت ۱۱، ۱۲انكے تكامل كا پيش خيمہ ۱۰;

موسى (ع) :آپ كى تربيت كرنے والا ۱۳آپ كا قصہ ۱، ۹; آپكى رسالت ۱۳;آپ كى سوچ ۱۳;

نظريہ كائنات:توحيدى نظريہ كائنات ۳

____________________

۱ ) كافى ج ۵ ص ۵۶۷ ح ۴۹_ نورالثقلين ج ۳ ص ۳۸۱ ح ۷۳_

۹۹

آیت ۵۱

( قَالَ فَمَا بَالُ الْقُرُونِ الْأُولَى )

اس نے كہا كہ پھر ان لوگوں كا كيا ہوگا جو پہلے گذر چكے ہيں (۵۱)

۱ _ مصر كى ماضى ( حضرت موسى (ع) كے ہم عصرفرعون سے پہلے ) كى تاريخ ايسى اقوام كى زندگى كى گواہ ہے جو شرك ربوبى ميں گرفتار تھيں اور خالق ہستى كى ربوبيت كا عقيدہ نہيں ركھتى تھيں _من ربكما ربنا الذي فما بال القرون الا ولي ''قرن'' يعنى ايك زمانے والے اور ''بال'' كا معنى ''حال'' ہے ( قاموس) _''ا ولى '' ''اوّل'' كى مؤنث ہے اور ''قرون اولى '' سے مراد فرعون سے پہلے كے مصرى لوگ ہيں _

۲ _ فرعون نے موسى (ع) كے سامنے گذشتہ اقوام كے شرك ربوبى كو چھيڑ كر توحيد ربوبى كے بارے ميں شكوك و شبہات پيدا كئے اور اسے بعيد قرار ديا _قال فما بال القرون الا ولى

۳ _ خداتعالى نے گذشتہ غيرمؤمن اقوام كے ساتھ كيسا سلوك كيا فرعون كا حضرت موسى (ع) سے سوال _

ا ن العذاب على من كذب فما بال القرون ا لاولي

چونكہ گذشتہ آيات ميں حضرت موسى (ع) نے ہدايت كى پيروى كرنے والوں كے امن اور اسے جھٹلانے والوں كے عذاب كے بارے ميں بات كى ہے لہذا فرعون نے يہ سوال اسلئے كيا تا كہ حضرت موسى (ع) گذشتہ نسلوں كى حالت كے بارے ميں اپنى رائے كا اظہار كريں اور اس كے سوال كا مقصد موجودہ نسل كو حضرت موسى (ع) كے اس جواب كے مقابلے ميں برانگيختہ كرنا ہوسكتا ہے كہ ان كے آباؤ اجداد عذاب كا شكار ہوئے تھے _ حضرت موسى كا واضح جواب نہ دينا اس احتمال كى تقويت كرتا ہے_

۴ _ فرعون، گذشتہ اقوام كے بارے ميں وعدہ عذاب كے عملى ہونے كو باور نہ كر كے ان كے بارے ميں حضرت موسى (ع) كى رائے جاننے كے درپے ہوا _قال فما بال القرون الا ولى

موسى (ع) كے يہ ( ا ن العذاب على من كذب) كہنے كے بعد فرعون كا گذشتہ اقوام كے بارے

۱۰۰