• ابتداء
  • پچھلا
  • 202 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 48255 / ڈاؤنلوڈ: 1832
سائز سائز سائز
مسدسِ حالی

مسدسِ حالی

مؤلف:
اردو

خود اپنی ہے گو قدر و قیمت گنوائی

پہ بھولے نہیں ہیں بڑوں کی بڑائی

جو آپ ان کی خوبی نہیں کوئی پائی

تو ہیں خوبیوں پر انہیں کی فدائی

شرف گو کہ باقی نہیں ان میں اب کچھ

مگر خواب میں دیکھ لیتے ہیں سب کچھ

***

۱۴۱

مسدسِ (۳۵)

ذرا پھر کے پیچھے وہ جب دیکھتے ہیں

وہ اپنا حسب اور نسب دیکھتے ہیں

بزرگوں کا علم و ادب دیکھتے ہیں

سر افرازیِ جدّو اب دیکھتے ہیں

تو ہیں فخر سے وہ کبھی سر اٹھاتے

کبھی ہیں ندامت سے گردن جھکاتے

***

اگر کچھ بھی باقی ہو یاروں میں ہمت

تو ان کا یہی افتخار اور ندامت

شگونِ سعادت ہے اور فال دولت

کہ آتی ہے کچھ اس سے بوئے حمیت

وہ کھو بیٹھے آخر کمائی بڑوں کی

بھلا دی جنہوں نے بڑائی بڑوں کی

***

اسیری میں جو گرم فریاد ہیں یاں

وہی آشیاں کرتے آباد ہیں یاں

قفس سے وہی ہوتے آزاد ہیں یاں

چمن کے جنہیں چہچہے یاد ہیں یاں

وہ شاید قفس ہی میں عمریں گنوائیں

گئیں بھول صحرا کی جن کو فضائیں

***

۱۴۲

بلندی میں ہوں یا کہ پستی میں ہوں ہم

قوی ہوں کہ کمزور افزوں ہو یا کم

محقر زمانہ میں ہوں یا مکرم

مؤخر ہوں اس بزم میں یا مقدم

عبا میں ہوں پوشیدہ یا شال میں ہوں

کسی رنگ میں ہوں کسی حال میں ہوں

***

اگر باخبر ہیں حقیقت سے اپنی

تلف کی ہوئی اگلی عظمت سے اپنی

بلندی و پسی کی نسبت سے اپنی

گزشتہ اور آئندہ حالت سے اپنی

تو سمجھو کہ ہے پار کھیوا ہمارا

نہیں دور منجدھار سے کچھ کنارا

***

الپ ارسلاں سے یہ طغرل نے پوچھا

کہ قومیں ہیں دنیا میں جو جلوہ فرما

نشاں ان کی اقبال مندی کے ہیں کیا

کب اقبال مند ان کو کہنا ہے زیبا

کہا" ملک و دولت ہو ہاتھ انکے جب تک"

جہان ہو کمر بستہ ساتھی انکے جب تک

***

۱۴۳

جہاں جائیں وہ سرخرو ہو کے آئیں

ظفر ہم عناں ہو جدھر باگ اٹھائیں

نہ بگڑیں کبھی کام جو وہ بنائیں

نہ اکھڑیں قدم جس جگہ وہ جمائیں

کریں مس کو گر مس تو وہ کیمیا ہو

اگر خاک میں ہاتھ ڈالیں طلا ہو"

***

ولی عہد کی جب کہ باتیں سنیں یہ

ہنسا سن کے فرزانۂ دور بیں یہ

کہا" جان عم گپ ہے گو دل نشیں یہ

مگر شرطِ اقبال ہر گز نہیں یہ

حوادث سہے بن گزارہ نہیں یاں

بلندی و پستی سے چارہ نہیں یاں

***

بہم ہے کبھی گاہ برہم ہے محفل

کٹھن ہے کبھی گاہ آسان ہے منزل

زمانہ کی گردش سے بچنا ہے مشکل

نہ محفوظ ہیں اس سے مدبر نہ مقبل

بہت یکہ تازوں کو یاں گھرتے دیکھا

سدا شہسواروں کو یاں گرتے دیکھا

***

۱۴۴

مسدسِ (۳۶)

جہاں سود ہے یاں وہیں ہے زیاں بھی

جہاں روشنی ہے وہیں ہے دھواں بھی

سقر بھی ہے یہ خاکداں اور جناں بھی

بہاریں بھی ہیں اس چمن میں خزاں بھی

نکھرتے ہیں جویاں وہ گدلاتے بھی ہیں

چمکتے ہیں جو یاں وہ گہناتے بھی ہیں

***

ضعیف اور قومی امنی اور عراقی

چکھاتا ہے درد قدح سب کو ساقی

پہ اقبال کی ہے رمق جن میں باقی

یہ سب تلخیاں ان میں ہیں اتفاقی

بلاؤں میں گھر کر نکل جاتے ہیں وہ

ذرا ڈگمگا کر سنبھل جاتے ہیں وہ

***

نہیں ہوتے نیرنگِ گردوں سے حرناں

ہر اک درد کا ڈھونڈ لیتے ہیں درماں

اٹھاتے نہیں کچھ حوادث سے نقصاں

وہ چونک اٹھتے ہیں دیکھ خواب پریشاں

بھڑکتے ہیں افسردہ ہو کر سوا وہ

بھبکتے ہیں پژ مردہ ہو کر سوا وہ

***

۱۴۵

پگھلتے ہیں سانچے میں ڈھلنے کی خاطر

لگاتے ہیں غوطہ اچھلنے کی خاطر

ٹھرتتے ہیں دم لے کے چلنے کی خاطر

وہ کھاتے ہیں ٹھوکر سنبھلنے کی خاطر

سبب کو مرض سے سمجھتے ہیں پہلے

الجھتے ہیں پیچھے سلجھتے ہیں پہلے

***

ضرورت نہیں یہ کہ فرمانروا ہوں

رعیت ہوں وہ خواہ کشور شا ہوں

سپاہی ہوں تاجر ہوں یا خدا ہوں

وہ کچھ ہوں پہ اپنے سے واقف ذرا ہوں

کہ ہم کیا ہیں اور کون ہیں اور کہاں ہیں

گھٹے یا بڑھے ہیں، سبک یا گراں ہیں

***

جب آئے انہیں ہوش کچھ وقت کھو کر

رہیں بیٹھ قسمت کو اپنی نہ رو کر

کریں کوششیں سب بہم ایک ہو کر!

رہیں داغ ذلت کا دامن سے دھوکر

نہ ہو تاب پرواز اگر آسماں تک

تو واں تک اڑیں ہو رسائی جہاں تک

***

۱۴۶

پڑا ہے وہی وقت اب ہم پہ آ کر

کہ اٹھے ہیں سوتے بہت دن چڑھا کر

سواروں نے کی راہ طے باگ اٹھا کر

گئے قافلے ٹھہر منزل پہ جا کر

گر افتان و خیزاں سدھارے بھی اب ہم

تو پہنچے بھلا جا کے منزل پہ کب ہم

***

مگر بیٹھ رہنے سے چلنا ہے بہتر

کہ ہے اہلِ ہمت کا اللہ یارو

جو ٹھنڈک میں چلنا نہ آیا میسر

تو پہنچیں گے ہم دھوپ کھا کھا کے سر پر

یہ تکلیف و راحت ہے سب اتفاقی

چلو اب بھی ہے وقت چلنے کا باقی

***

ہوا کچھ وہی جس نے یاں کچھ کیا ہے

لیا جس نے پھل بیچ بو کر لیا ہے

کرو کچھ کہ کرنا ہی کچھ کیمیا ہے

مثل ہے کہ کرتے کی سب بدیا ہے

یونہی وقت سو سو کے ہیں گنواتے

ہو خرگوش کچھووں سے ہیں زک اٹھاتے

***

۱۴۷

مسدسِ (۳۷)

یہ برکت ہے دنیا میں محنت کی ساری

جہاں دیکھئے فیض اسی کا ہے جاری

یہی ہے کلیدِ درِ فضل باری

اسی پر ہے موقوف عزت تمہاری

اسی سے ہے قوموں کی یاں آبرو سب

اسی پر ہیں مغرور میں اور تو سب

***

گلستاں میں جوبن گل و یاسمن کا

سماں زلفِ سنبل کی تاب و شکن کا

قدِ دل ربا سرو اور نارون کا

رخِ جاں فزا لالہ و نسترن کا

غریبوں کی محنت کی ہے رنگ و بو سب

کمیروں کے خوں سے ہیں یہ تازہ رو سب

***

ہلاتے نہ اگلے اگر دست و بازو

جہاں عطرِ حکمت سے ہوتا نہ خوشبو

نہ اخلاق کی وضع ہوتی ترازو

نہ حق پھیلتا ربعِ مسکوں میں ہر سو

حقائق یہ سب غیر معلوم رہتے

خدائی کے اسرار مکتوم رہتے

***

۱۴۸

ستارہ شریعت کا تاباں نہ ہوتا

اثر علمِ دیں کا نمایاں نہ ہوتا

جدا کفر سے نورِ ایماں نہ ہوتا

مساجد میں یوں دردِ قرآں نہ ہوتا

خدا کی ثنا معبدوں میں نہ ہوتی

اذاں جا بجا مسجدوں میں نہ ہوتی

***

نہیں ملتی کوشش سے دنیا ہی تنہا

کہ ارکانِ دیں بھی اسی پر ہیں برپا

جنہیں ہو نہ دنیائے فانی کی پروا

کریں آخرت کا ہی وہ کاش سودا

نہیں ہلتے دنیا کیا خاطر اگر تم

تو لو دینِ حق کی ہی اٹھ کر کبر تم

***

بنی نوع میں دو طرح کے ہیں انساں

تفاوت ہے حالت میں جن کی نمایاں

کچھ ان میں ہیں راحت طلب اور تن آساں

بدن کے نگہبان، بستر کے درباں

نہ محنت پہ مائل نہ قدرت کے قائل

سمجھتے ہیں تنکے کو رستے میں حائل

***

۱۴۹

اگر ہیں تو نگر تو بے کار ہیں سب

اپاہج ہیں روگی ہیں بیمار ہیں سب

تعیش کے ہاتھوں سے لاچار ہیں سب

تن آسانیوں میں گرفتار ہیں سب

برابر ہے یاں ان کا ہونا نہ ہونا

نہ کچھ جاگنا ان کا بہتر نہ سونا

***

اگر ہے تہی دست اور بے نوا وہ

تو محنت سے ہیں جی چراتے سدا وہ

نصیبوں کا کرتے ہیں گلا وہ

ہلاتے نہیں کچھ مگر دست و پا وہ

اگر بھیک مل جائے قسمت سے ان کو

ستو سو بار بہتر ہے محنت سے ان کو

***

نہ جو بے نوا ہیں نہ ہیں کچھ تو نگر

وہ ہیں ڈھور کی طرح قانع اسی پر

کہ کھانے کو ملتا رہے پیٹ بھر کر

نہیں بڑھتے بس اس سے آگے قدم بھر

ہوئے زیورِ آدمیت سے عاری

معطل ہوئیں قوتیں ان کی ساری

***

۱۵۰

نہ ہمت کہ محنت کی سختی اٹھائیں

نہ جرأت کہ خطروں کے میداں میں آئیں

نہ غیرت کہ ذلت سے پہلو بچائیں

نہ عبرت کہ دنیا کی سمجھیں ادائیں

نہ کل فکر تھی یہ کہ ہیں اس کے پھل کیا

نہ ہے آج پروا کہ ہونا ہے کل کیا

***

۱۵۱

مسدسِ (۳۸)

نہیں کرتے کھیتی ہیں وہ جاں فشانی

نہ ہل جوتتے ہیں نہ دیتے ہیں پانی

پہ جب یاس کرتی ہے دل پر گرانی

تو کہتے ہیں حق کی ہے نا مہربانی

نہیں لیتے کچھ کام تدبیر سے وہ

سدا لڑتے رہتے ہیں تقدیر سے وہ

***

کبھی کہتے ہیں" ہیچ ہیں سب یہ ساماں

کہ خود زندگی ہے کوئی دن کی مہماں

دھرے سب یہ رہ جائینگے کاخ و ایواں

نہ باقی رہے گی حکومت نہ فرماں

ترقی اگر ہم نے کی بھی تو پھر کیا

یہ بازی اگر جیت لی بھی تو پھر کیا

***

یہ سرگرم کوشش میں جو روز و شب ہیں

اٹھاتے سدا بارِ رنج و تعب ہیں

ترقی کے میداں میں سبقت طلب ہیں

نمائش پہ دنیا کی بھولے یہ سب ہیں

نہیں ان کو کچھ اپنی محنت سے لہنا

"بناتے ہیں وہ گھر نہیں جس میں رہنا"

***

۱۵۲

کبھی کرتے ہیں عقلِ انساں یہ نفریں

کہ با وصف کو تاہ بینی ہے خود بیں

وہ تدبیریں اس طرح کرتی ہں تلقیں

کہ گویا کھلا اس پہ ہے سرِّ تکویں

مگر سب خیالات ہیں خام اس کے

ادھورے ہیں جتنے ہیں یاں کام اس کے

***

نہ اسبابِ راحت کی اس کو خبر کچھ

نہ آثارِ دولت کی اس کو خبر کچھ

نہ عزت نہ ذلت کی اس کو خبر کچھ

نہ کلفت نہ راحت کی اس کو خبر کچھ

نہ آگاہ اس سے کہ ہستی ہے شے کیا

نہ واقف کہ مقصود ہستی سے ہے کیا

***

کبھی کہتے ہیں" زہر ہے مال و دولت

اٹھاتے ہیں جس کیلئے رنج و محنت

اسی سے گناہوں کی ہوتی ہے رغبت

اسی سے دماغوں میں آتی ہے نخوت

یہی حق سے کرتی ہے بندوں کو غافل

ہوئے ہیں عذاب اس سے قوموں یہ نازل"

***

۱۵۳

کبھی کہتے ہیں"سعی و کوشش سے حاصل

کہ مقسوم بِن کوششیں سب ہیں باطل

نہیں ہوتی کوشش سے تقدیر زائل

برابر ہیں یاں محنتی اور کاہل

ہلانے سے روزی کی گر ڈور ہلتی

تو روٹی نکموں کو ہرگز نہ ملتی

***

نکموں کے ہیں سب یہ دلکش ترانے

سلانے کو قسمت کے رنگیں فسانے

اسی طرح کے کر کے حیلے بہانے

نہیں چاہتے دست و بازو ہلانے

وہ بھولے ہوئے ہیں یہ عادت خدا کی

کہ حرکت میں ہوتی ہے برکت خدا کی

***

سنی تم نے یہ جس جماعت کی حالت

تنزل کی بنیاد ہے یہ جماعت

بگڑتی ہیں قومیں اسی کی بدولت

ہوا اس کی ہے مفسدِ ملک و ملت

کیا صور و صیدا کو برباد اسی نے

بگاڑا دمشق اور بغداد اسی نے

***

۱۵۴

جہاں ہے زمیں پر نحوست ہے ان کی

جدھر ہے زمانہ میں نکبت ہے ان کی

مصیبت کا پیغام کثرت ہے، ان کی

تباہی کا لشکر جماعت ہے ان کی

وجود ان کا اصل البلیات ہے، یاں

خدا کا غضب ان کی بہتات ہے یاں

***

۱۵۵

مسدسِ (۳۹)

سب ایسے تن آسان و بے کار و کاہل

تمدن کے حق میں ہیں زہرِ ہلاہل

نہیں ان سے کچھ نوعِ انساں کو حاصل

نہیں ان کی صحبت کہ ہے سمِ قاتل

یہ جب پھیلتے ہیں سمٹتی ہے دولت

یہ جوں جوں کہ بڑھتے ہیں گھٹتی ہے دولت

***

جہاں بڑھ گئی ان کی تعداد حد سے

ہوئی قوم محسوب سب دام و دو سے

رہا اس کو بہرہ نہ حق کی مدد سے

وہ اب بچ نہیں سکتی نکبت کی زد سے

بچو ایسے شوموں کی پرچھائیوں سے

ڈرو ایسے چپ چاپ یغمائیوں سے

***

مگر اک فریق اور ان کے سوا ہے

شرف جس سے نوعِ بشر کو ملا ہے

سب اس بزم میں جن کا نور و ضیا ہے

سب اس باغ کی جن سے نشوونما ہے

ہوئے جو کہ پیدا ہیں محنت کی خاطر

بنے ہیں زمانہ کہ خدمت کی خاطر

***

۱۵۶

نہ راحت طلب ہیں نہ محنت طلب وہ

لگے رہتے ہیں کام میں روز و شب وہ

نہیں لیتے دم ایک دم بے سبب وہ

بہت جاگ لیتے ہیں سوتے ہیں تب وہ

وہ تھپکتے ہیں اور چین پاتی ہے دنیا

کماتے ہیں وہ اور کھاتی ہے دنیا

***

چنیں گر نہ وہ ہوں کھنڈر کا خ و ایواں

بنیں گر نہ وہ شاہ و کشور ہو عریاں

جو بوئیں نہ وہ تو ہوں جاندار بے جاں

جو چھانٹیں نہ وہ تو ہوں جنگل گلستاں

یہ چلتی ہے گاڑی انہیں کے سہارے

جو وہ کل سے بیٹھیں تو بے کل ہوں سارے

***

کھپاتے ہیں کوشش میں تاب و تواں کو

گھلاتے ہیں محنت میں جسم و رواں کو

سمجھتے نہیں اس میں جان اپنی جاں کو

وہ مر مر کے کھیتے ہیں زندہ جہاں کو

بس اس طرح جینا عبادت ہے ان کی

اور اس دھن میں مرنا شہادت ہے ان کی

***

۱۵۷

مشقت میں عمران کی کٹتی ہے ساری

نہیں آتی آرام کی ان کے باری

سدا بھاگ دوڑ ان کی رہتی ہے جاری

نہ آندھی میں عاجز نہ مینہ میں ہیں عاری

نہ لو جیٹھ کی دم تڑاتی ہے ان کا

نہ ٹھر ماگھ کی جی چھڑاتی ہے ان کا

***

نہ احباب کی تیغِ احساں سے گھائل

نہ بیٹے سے طالب نہ بھائی سے سائل

نہ دکھ درد میں سوئے آرام مائل

نہ دریا و کوہ ان کے رستے میں حائل

سنے ہوں کبھی رستم و سام جیسے

غیور اب بھی لاکھوں ہیں گمنام ایسے

***

کسی کو یہ دھن ہے کہ جو کچھ کمائیں

کھلائیں کچھ اوروں کو کچھ آپ کھائیں

کسی کو یہ کد ہے کہ جھیلیں بلائیں

پہ احساس کسی کا نہ ہر گز اٹھائیں

کوئی محو ہے فکرِ فرزند و زن میں

کوئی چور ہے حبِ اہل وطن میں

***

۱۵۸

جو مصروف ہے کاشتکاری میں کوئی

تو مشغول دوکان داری میں کوئی

عزیزوں کی ہے غمگساری میں کوئی

ضعیفوں کی خدمت گزاری میں کوئی

یہ ہے اپنی راحت کے سامان کرتا

وہ کنبے پہ ہے جان قربان کرتا

***

۱۵۹

مسدسِ(۴۰)

کوئی اس تگ و دو میں رہتا ہے ہر دم

کہ دولت جہاں تک ہو کیجئے فراہم

رہیں جیتے جی تاکہ خود شاد و خرم

مریں جب تو دل پر نہ لے جائیں یہ غم

کہ بعد اپنے کھائیں گے فرزند و زن کیا

لباس ان کا اور اپنا ہوگا کفن کیا

***

بہت دل میں اپنے یہ رکھتے ہیں ارماں

کہ کر جائیں یاں کوئی کارِ نمایاں

وہ ہوں تاکہ جب چشمِ عالم سے پنہاں

رو ذکرِ جمیل ان کا باقی رہے یاں

یہی طالبِ شہرت و نام لاکھوں

بناتے ہیں جمہور کے کام لاکھوں

***

بہت مخلص اور پاک بندے خدا کے

نشاں جن سے قائم ہیں صدق و صفا کے

نہ شہرت کے خواہاں نہ طالب ثنا کے

نمائش سے بیزار دشمن ریا کے

ریاضت سب ان کی خدا کیلئے ہے

مشقت سب ان کی رضا کیلئے ہے

***

۱۶۰