• ابتداء
  • پچھلا
  • 202 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 64817 / ڈاؤنلوڈ: 4053
سائز سائز سائز
مسدسِ حالی

مسدسِ حالی

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

خود اپنی ہے گو قدر و قیمت گنوائی

پہ بھولے نہیں ہیں بڑوں کی بڑائی

جو آپ ان کی خوبی نہیں کوئی پائی

تو ہیں خوبیوں پر انہیں کی فدائی

شرف گو کہ باقی نہیں ان میں اب کچھ

مگر خواب میں دیکھ لیتے ہیں سب کچھ

***

۱۴۱

مسدسِ (۳۵)

ذرا پھر کے پیچھے وہ جب دیکھتے ہیں

وہ اپنا حسب اور نسب دیکھتے ہیں

بزرگوں کا علم و ادب دیکھتے ہیں

سر افرازیِ جدّو اب دیکھتے ہیں

تو ہیں فخر سے وہ کبھی سر اٹھاتے

کبھی ہیں ندامت سے گردن جھکاتے

***

اگر کچھ بھی باقی ہو یاروں میں ہمت

تو ان کا یہی افتخار اور ندامت

شگونِ سعادت ہے اور فال دولت

کہ آتی ہے کچھ اس سے بوئے حمیت

وہ کھو بیٹھے آخر کمائی بڑوں کی

بھلا دی جنہوں نے بڑائی بڑوں کی

***

اسیری میں جو گرم فریاد ہیں یاں

وہی آشیاں کرتے آباد ہیں یاں

قفس سے وہی ہوتے آزاد ہیں یاں

چمن کے جنہیں چہچہے یاد ہیں یاں

وہ شاید قفس ہی میں عمریں گنوائیں

گئیں بھول صحرا کی جن کو فضائیں

***

۱۴۲

بلندی میں ہوں یا کہ پستی میں ہوں ہم

قوی ہوں کہ کمزور افزوں ہو یا کم

محقر زمانہ میں ہوں یا مکرم

مؤخر ہوں اس بزم میں یا مقدم

عبا میں ہوں پوشیدہ یا شال میں ہوں

کسی رنگ میں ہوں کسی حال میں ہوں

***

اگر باخبر ہیں حقیقت سے اپنی

تلف کی ہوئی اگلی عظمت سے اپنی

بلندی و پسی کی نسبت سے اپنی

گزشتہ اور آئندہ حالت سے اپنی

تو سمجھو کہ ہے پار کھیوا ہمارا

نہیں دور منجدھار سے کچھ کنارا

***

الپ ارسلاں سے یہ طغرل نے پوچھا

کہ قومیں ہیں دنیا میں جو جلوہ فرما

نشاں ان کی اقبال مندی کے ہیں کیا

کب اقبال مند ان کو کہنا ہے زیبا

کہا" ملک و دولت ہو ہاتھ انکے جب تک"

جہان ہو کمر بستہ ساتھی انکے جب تک

***

۱۴۳

جہاں جائیں وہ سرخرو ہو کے آئیں

ظفر ہم عناں ہو جدھر باگ اٹھائیں

نہ بگڑیں کبھی کام جو وہ بنائیں

نہ اکھڑیں قدم جس جگہ وہ جمائیں

کریں مس کو گر مس تو وہ کیمیا ہو

اگر خاک میں ہاتھ ڈالیں طلا ہو"

***

ولی عہد کی جب کہ باتیں سنیں یہ

ہنسا سن کے فرزانۂ دور بیں یہ

کہا" جان عم گپ ہے گو دل نشیں یہ

مگر شرطِ اقبال ہر گز نہیں یہ

حوادث سہے بن گزارہ نہیں یاں

بلندی و پستی سے چارہ نہیں یاں

***

بہم ہے کبھی گاہ برہم ہے محفل

کٹھن ہے کبھی گاہ آسان ہے منزل

زمانہ کی گردش سے بچنا ہے مشکل

نہ محفوظ ہیں اس سے مدبر نہ مقبل

بہت یکہ تازوں کو یاں گھرتے دیکھا

سدا شہسواروں کو یاں گرتے دیکھا

***

۱۴۴

مسدسِ (۳۶)

جہاں سود ہے یاں وہیں ہے زیاں بھی

جہاں روشنی ہے وہیں ہے دھواں بھی

سقر بھی ہے یہ خاکداں اور جناں بھی

بہاریں بھی ہیں اس چمن میں خزاں بھی

نکھرتے ہیں جویاں وہ گدلاتے بھی ہیں

چمکتے ہیں جو یاں وہ گہناتے بھی ہیں

***

ضعیف اور قومی امنی اور عراقی

چکھاتا ہے درد قدح سب کو ساقی

پہ اقبال کی ہے رمق جن میں باقی

یہ سب تلخیاں ان میں ہیں اتفاقی

بلاؤں میں گھر کر نکل جاتے ہیں وہ

ذرا ڈگمگا کر سنبھل جاتے ہیں وہ

***

نہیں ہوتے نیرنگِ گردوں سے حرناں

ہر اک درد کا ڈھونڈ لیتے ہیں درماں

اٹھاتے نہیں کچھ حوادث سے نقصاں

وہ چونک اٹھتے ہیں دیکھ خواب پریشاں

بھڑکتے ہیں افسردہ ہو کر سوا وہ

بھبکتے ہیں پژ مردہ ہو کر سوا وہ

***

۱۴۵

پگھلتے ہیں سانچے میں ڈھلنے کی خاطر

لگاتے ہیں غوطہ اچھلنے کی خاطر

ٹھرتتے ہیں دم لے کے چلنے کی خاطر

وہ کھاتے ہیں ٹھوکر سنبھلنے کی خاطر

سبب کو مرض سے سمجھتے ہیں پہلے

الجھتے ہیں پیچھے سلجھتے ہیں پہلے

***

ضرورت نہیں یہ کہ فرمانروا ہوں

رعیت ہوں وہ خواہ کشور شا ہوں

سپاہی ہوں تاجر ہوں یا خدا ہوں

وہ کچھ ہوں پہ اپنے سے واقف ذرا ہوں

کہ ہم کیا ہیں اور کون ہیں اور کہاں ہیں

گھٹے یا بڑھے ہیں، سبک یا گراں ہیں

***

جب آئے انہیں ہوش کچھ وقت کھو کر

رہیں بیٹھ قسمت کو اپنی نہ رو کر

کریں کوششیں سب بہم ایک ہو کر!

رہیں داغ ذلت کا دامن سے دھوکر

نہ ہو تاب پرواز اگر آسماں تک

تو واں تک اڑیں ہو رسائی جہاں تک

***

۱۴۶

پڑا ہے وہی وقت اب ہم پہ آ کر

کہ اٹھے ہیں سوتے بہت دن چڑھا کر

سواروں نے کی راہ طے باگ اٹھا کر

گئے قافلے ٹھہر منزل پہ جا کر

گر افتان و خیزاں سدھارے بھی اب ہم

تو پہنچے بھلا جا کے منزل پہ کب ہم

***

مگر بیٹھ رہنے سے چلنا ہے بہتر

کہ ہے اہلِ ہمت کا اللہ یارو

جو ٹھنڈک میں چلنا نہ آیا میسر

تو پہنچیں گے ہم دھوپ کھا کھا کے سر پر

یہ تکلیف و راحت ہے سب اتفاقی

چلو اب بھی ہے وقت چلنے کا باقی

***

ہوا کچھ وہی جس نے یاں کچھ کیا ہے

لیا جس نے پھل بیچ بو کر لیا ہے

کرو کچھ کہ کرنا ہی کچھ کیمیا ہے

مثل ہے کہ کرتے کی سب بدیا ہے

یونہی وقت سو سو کے ہیں گنواتے

ہو خرگوش کچھووں سے ہیں زک اٹھاتے

***

۱۴۷

مسدسِ (۳۷)

یہ برکت ہے دنیا میں محنت کی ساری

جہاں دیکھئے فیض اسی کا ہے جاری

یہی ہے کلیدِ درِ فضل باری

اسی پر ہے موقوف عزت تمہاری

اسی سے ہے قوموں کی یاں آبرو سب

اسی پر ہیں مغرور میں اور تو سب

***

گلستاں میں جوبن گل و یاسمن کا

سماں زلفِ سنبل کی تاب و شکن کا

قدِ دل ربا سرو اور نارون کا

رخِ جاں فزا لالہ و نسترن کا

غریبوں کی محنت کی ہے رنگ و بو سب

کمیروں کے خوں سے ہیں یہ تازہ رو سب

***

ہلاتے نہ اگلے اگر دست و بازو

جہاں عطرِ حکمت سے ہوتا نہ خوشبو

نہ اخلاق کی وضع ہوتی ترازو

نہ حق پھیلتا ربعِ مسکوں میں ہر سو

حقائق یہ سب غیر معلوم رہتے

خدائی کے اسرار مکتوم رہتے

***

۱۴۸

ستارہ شریعت کا تاباں نہ ہوتا

اثر علمِ دیں کا نمایاں نہ ہوتا

جدا کفر سے نورِ ایماں نہ ہوتا

مساجد میں یوں دردِ قرآں نہ ہوتا

خدا کی ثنا معبدوں میں نہ ہوتی

اذاں جا بجا مسجدوں میں نہ ہوتی

***

نہیں ملتی کوشش سے دنیا ہی تنہا

کہ ارکانِ دیں بھی اسی پر ہیں برپا

جنہیں ہو نہ دنیائے فانی کی پروا

کریں آخرت کا ہی وہ کاش سودا

نہیں ہلتے دنیا کیا خاطر اگر تم

تو لو دینِ حق کی ہی اٹھ کر کبر تم

***

بنی نوع میں دو طرح کے ہیں انساں

تفاوت ہے حالت میں جن کی نمایاں

کچھ ان میں ہیں راحت طلب اور تن آساں

بدن کے نگہبان، بستر کے درباں

نہ محنت پہ مائل نہ قدرت کے قائل

سمجھتے ہیں تنکے کو رستے میں حائل

***

۱۴۹

اگر ہیں تو نگر تو بے کار ہیں سب

اپاہج ہیں روگی ہیں بیمار ہیں سب

تعیش کے ہاتھوں سے لاچار ہیں سب

تن آسانیوں میں گرفتار ہیں سب

برابر ہے یاں ان کا ہونا نہ ہونا

نہ کچھ جاگنا ان کا بہتر نہ سونا

***

اگر ہے تہی دست اور بے نوا وہ

تو محنت سے ہیں جی چراتے سدا وہ

نصیبوں کا کرتے ہیں گلا وہ

ہلاتے نہیں کچھ مگر دست و پا وہ

اگر بھیک مل جائے قسمت سے ان کو

ستو سو بار بہتر ہے محنت سے ان کو

***

نہ جو بے نوا ہیں نہ ہیں کچھ تو نگر

وہ ہیں ڈھور کی طرح قانع اسی پر

کہ کھانے کو ملتا رہے پیٹ بھر کر

نہیں بڑھتے بس اس سے آگے قدم بھر

ہوئے زیورِ آدمیت سے عاری

معطل ہوئیں قوتیں ان کی ساری

***

۱۵۰

نہ ہمت کہ محنت کی سختی اٹھائیں

نہ جرأت کہ خطروں کے میداں میں آئیں

نہ غیرت کہ ذلت سے پہلو بچائیں

نہ عبرت کہ دنیا کی سمجھیں ادائیں

نہ کل فکر تھی یہ کہ ہیں اس کے پھل کیا

نہ ہے آج پروا کہ ہونا ہے کل کیا

***

۱۵۱

مسدسِ (۳۸)

نہیں کرتے کھیتی ہیں وہ جاں فشانی

نہ ہل جوتتے ہیں نہ دیتے ہیں پانی

پہ جب یاس کرتی ہے دل پر گرانی

تو کہتے ہیں حق کی ہے نا مہربانی

نہیں لیتے کچھ کام تدبیر سے وہ

سدا لڑتے رہتے ہیں تقدیر سے وہ

***

کبھی کہتے ہیں" ہیچ ہیں سب یہ ساماں

کہ خود زندگی ہے کوئی دن کی مہماں

دھرے سب یہ رہ جائینگے کاخ و ایواں

نہ باقی رہے گی حکومت نہ فرماں

ترقی اگر ہم نے کی بھی تو پھر کیا

یہ بازی اگر جیت لی بھی تو پھر کیا

***

یہ سرگرم کوشش میں جو روز و شب ہیں

اٹھاتے سدا بارِ رنج و تعب ہیں

ترقی کے میداں میں سبقت طلب ہیں

نمائش پہ دنیا کی بھولے یہ سب ہیں

نہیں ان کو کچھ اپنی محنت سے لہنا

"بناتے ہیں وہ گھر نہیں جس میں رہنا"

***

۱۵۲

کبھی کرتے ہیں عقلِ انساں یہ نفریں

کہ با وصف کو تاہ بینی ہے خود بیں

وہ تدبیریں اس طرح کرتی ہں تلقیں

کہ گویا کھلا اس پہ ہے سرِّ تکویں

مگر سب خیالات ہیں خام اس کے

ادھورے ہیں جتنے ہیں یاں کام اس کے

***

نہ اسبابِ راحت کی اس کو خبر کچھ

نہ آثارِ دولت کی اس کو خبر کچھ

نہ عزت نہ ذلت کی اس کو خبر کچھ

نہ کلفت نہ راحت کی اس کو خبر کچھ

نہ آگاہ اس سے کہ ہستی ہے شے کیا

نہ واقف کہ مقصود ہستی سے ہے کیا

***

کبھی کہتے ہیں" زہر ہے مال و دولت

اٹھاتے ہیں جس کیلئے رنج و محنت

اسی سے گناہوں کی ہوتی ہے رغبت

اسی سے دماغوں میں آتی ہے نخوت

یہی حق سے کرتی ہے بندوں کو غافل

ہوئے ہیں عذاب اس سے قوموں یہ نازل"

***

۱۵۳

کبھی کہتے ہیں"سعی و کوشش سے حاصل

کہ مقسوم بِن کوششیں سب ہیں باطل

نہیں ہوتی کوشش سے تقدیر زائل

برابر ہیں یاں محنتی اور کاہل

ہلانے سے روزی کی گر ڈور ہلتی

تو روٹی نکموں کو ہرگز نہ ملتی

***

نکموں کے ہیں سب یہ دلکش ترانے

سلانے کو قسمت کے رنگیں فسانے

اسی طرح کے کر کے حیلے بہانے

نہیں چاہتے دست و بازو ہلانے

وہ بھولے ہوئے ہیں یہ عادت خدا کی

کہ حرکت میں ہوتی ہے برکت خدا کی

***

سنی تم نے یہ جس جماعت کی حالت

تنزل کی بنیاد ہے یہ جماعت

بگڑتی ہیں قومیں اسی کی بدولت

ہوا اس کی ہے مفسدِ ملک و ملت

کیا صور و صیدا کو برباد اسی نے

بگاڑا دمشق اور بغداد اسی نے

***

۱۵۴

جہاں ہے زمیں پر نحوست ہے ان کی

جدھر ہے زمانہ میں نکبت ہے ان کی

مصیبت کا پیغام کثرت ہے، ان کی

تباہی کا لشکر جماعت ہے ان کی

وجود ان کا اصل البلیات ہے، یاں

خدا کا غضب ان کی بہتات ہے یاں

***

۱۵۵

مسدسِ (۳۹)

سب ایسے تن آسان و بے کار و کاہل

تمدن کے حق میں ہیں زہرِ ہلاہل

نہیں ان سے کچھ نوعِ انساں کو حاصل

نہیں ان کی صحبت کہ ہے سمِ قاتل

یہ جب پھیلتے ہیں سمٹتی ہے دولت

یہ جوں جوں کہ بڑھتے ہیں گھٹتی ہے دولت

***

جہاں بڑھ گئی ان کی تعداد حد سے

ہوئی قوم محسوب سب دام و دو سے

رہا اس کو بہرہ نہ حق کی مدد سے

وہ اب بچ نہیں سکتی نکبت کی زد سے

بچو ایسے شوموں کی پرچھائیوں سے

ڈرو ایسے چپ چاپ یغمائیوں سے

***

مگر اک فریق اور ان کے سوا ہے

شرف جس سے نوعِ بشر کو ملا ہے

سب اس بزم میں جن کا نور و ضیا ہے

سب اس باغ کی جن سے نشوونما ہے

ہوئے جو کہ پیدا ہیں محنت کی خاطر

بنے ہیں زمانہ کہ خدمت کی خاطر

***

۱۵۶

نہ راحت طلب ہیں نہ محنت طلب وہ

لگے رہتے ہیں کام میں روز و شب وہ

نہیں لیتے دم ایک دم بے سبب وہ

بہت جاگ لیتے ہیں سوتے ہیں تب وہ

وہ تھپکتے ہیں اور چین پاتی ہے دنیا

کماتے ہیں وہ اور کھاتی ہے دنیا

***

چنیں گر نہ وہ ہوں کھنڈر کا خ و ایواں

بنیں گر نہ وہ شاہ و کشور ہو عریاں

جو بوئیں نہ وہ تو ہوں جاندار بے جاں

جو چھانٹیں نہ وہ تو ہوں جنگل گلستاں

یہ چلتی ہے گاڑی انہیں کے سہارے

جو وہ کل سے بیٹھیں تو بے کل ہوں سارے

***

کھپاتے ہیں کوشش میں تاب و تواں کو

گھلاتے ہیں محنت میں جسم و رواں کو

سمجھتے نہیں اس میں جان اپنی جاں کو

وہ مر مر کے کھیتے ہیں زندہ جہاں کو

بس اس طرح جینا عبادت ہے ان کی

اور اس دھن میں مرنا شہادت ہے ان کی

***

۱۵۷

مشقت میں عمران کی کٹتی ہے ساری

نہیں آتی آرام کی ان کے باری

سدا بھاگ دوڑ ان کی رہتی ہے جاری

نہ آندھی میں عاجز نہ مینہ میں ہیں عاری

نہ لو جیٹھ کی دم تڑاتی ہے ان کا

نہ ٹھر ماگھ کی جی چھڑاتی ہے ان کا

***

نہ احباب کی تیغِ احساں سے گھائل

نہ بیٹے سے طالب نہ بھائی سے سائل

نہ دکھ درد میں سوئے آرام مائل

نہ دریا و کوہ ان کے رستے میں حائل

سنے ہوں کبھی رستم و سام جیسے

غیور اب بھی لاکھوں ہیں گمنام ایسے

***

کسی کو یہ دھن ہے کہ جو کچھ کمائیں

کھلائیں کچھ اوروں کو کچھ آپ کھائیں

کسی کو یہ کد ہے کہ جھیلیں بلائیں

پہ احساس کسی کا نہ ہر گز اٹھائیں

کوئی محو ہے فکرِ فرزند و زن میں

کوئی چور ہے حبِ اہل وطن میں

***

۱۵۸

جو مصروف ہے کاشتکاری میں کوئی

تو مشغول دوکان داری میں کوئی

عزیزوں کی ہے غمگساری میں کوئی

ضعیفوں کی خدمت گزاری میں کوئی

یہ ہے اپنی راحت کے سامان کرتا

وہ کنبے پہ ہے جان قربان کرتا

***

۱۵۹

مسدسِ(۴۰)

کوئی اس تگ و دو میں رہتا ہے ہر دم

کہ دولت جہاں تک ہو کیجئے فراہم

رہیں جیتے جی تاکہ خود شاد و خرم

مریں جب تو دل پر نہ لے جائیں یہ غم

کہ بعد اپنے کھائیں گے فرزند و زن کیا

لباس ان کا اور اپنا ہوگا کفن کیا

***

بہت دل میں اپنے یہ رکھتے ہیں ارماں

کہ کر جائیں یاں کوئی کارِ نمایاں

وہ ہوں تاکہ جب چشمِ عالم سے پنہاں

رو ذکرِ جمیل ان کا باقی رہے یاں

یہی طالبِ شہرت و نام لاکھوں

بناتے ہیں جمہور کے کام لاکھوں

***

بہت مخلص اور پاک بندے خدا کے

نشاں جن سے قائم ہیں صدق و صفا کے

نہ شہرت کے خواہاں نہ طالب ثنا کے

نمائش سے بیزار دشمن ریا کے

ریاضت سب ان کی خدا کیلئے ہے

مشقت سب ان کی رضا کیلئے ہے

***

۱۶۰

کوئی ان میں ہے حق کی طاعت پہ مفتوں

کوئی نامِ حق کی اشاعت پہ مفتوں

کوئی زہد و صبر و قناعت پہ مفتوں

کوئی پند و وعظِ جماعت پہ مفتوں

کوئی موج سے آپ کو ہے بچاتا

کوئی ناؤ ہے ڈوبتوں کی تراتا

***

بہت نوعِ انساں کے غمخوار و یاور

ہوا خواہِ ملت بہ اندیشِ کشور

شدائد کے دریائے خوں میں شناور

جہاں کی پر آشوب کشتی کے لنگر

ہر اک قوم کی ہست و بود ان سے ہے یاں

سب اس انجمن کی نمود ان سے ہے یاں

***

کسی پر سختی صعوبت ہے ان پر

کسی کو غم و رنج و کلفت ہے ان پر

کہیں ہو فلاکت مصیبت ہے ان پر

کہیں آئے آفت قیامت ہے ان پر

کسی پر چلیں تیرا آماج ہیں یہ

لٹے کوئی رہ گیر تاراج ہیں یہ

***

۱۶۱

یہ ہیں حشر تک بات پر اڑانے والے

یہ پیماں کو میخوں سے ہیں جڑنے والے

یہ فوجِ حوادث سے ہیں لڑنے والے

یہ غیروں کی ہیں آگ میں پڑے والے

امنڈتا ہے رکنے سے اور ان کا دریا

جنوں سے زیادہ ہے کچھ ان کا سودا

***

جماتے ہیں جب پاؤں ہٹتے نہیں یہ

بڑھا کر قدم پھر پلٹتے نہیں یہ

گئے پھیل جب پھر سمٹتے نہیں یہ

جہاں بڑھ گئے بڑھ کے گھٹتے نہیں یہ

مہم بِن کئے سر نہیں بیٹھتے یہ

جب اٹھتے ہیں اٹھ کر نہیں بیٹھتے یہ

***

خدا نے عطا کی ہے جو ان کو قوت

سمائی ہے دل میں بہت اس کی عظمت

نہیں پھیرتی ان کا منہ کوئی زحمت

نہیں کرتی زیر ان کو کوئی صعوبت

بھروسے پہ اپنے دل و دست و پا کے

سمجھتے ہیں ساتھ اپنے لشکر خدا کے

***

۱۶۲

نہیں مرحلہ کوئی دشوار ان کو

ہر اک راہ ملتی ہے ہموار ان کو

گلستاں ہے صحرائے پر خار ان کو

برابر ہے میدان و کہسار ان کو

نہیں حائل ان کے کوئی رہگزر میں

سمندر ہے پایاب ان کی نظر میں

***

۱۶۳

مسدسِ (۴۱)

اسی طرح یاں اہلِ ہمت ہیں جتنے

کمر بستہ ہیں کام پر اپنے اپنے

جہاں کی ہے سب دھوم دھام انکے دم سے

فقیر اور غنی سب طفیل ہیں ان کے

بغیر ان کے بے سازو ساماں تھی مجلس

نہ ہوتے اگر یہ تو ویراں تھی مجلس

***

زمیں سب خدا کی ہے گلزار انہیں سے

زمانہ کا ہے گرم بازار انہیں سے

ملے ہیں سعادت کے آثار انہیں سے

کھلے ہیں خدائی کے اسرار انہیں سے

انہیں پر ہے کچھ فخر ہے گر کسی کو

انہیں سے ہے گر ہے شرف آدمی کو

***

انہیں سے ہے آباد ہر ملک و دولت

انہیں سے ہے سر سبز ہر قوم و ملت

انہیں پر ہے موقوف قوموں کی عزت

انہیں کی ہے سب ربع مسکوں میں برکت

دم ان کا ہے دنیا میں رحمت خدا کی

انہیں کو ہے پھبتی خلافت خدا کی

***

۱۶۴

انہیں کا اجالا ہے ہر رہگزر میں

انہیں کی ہے یہ روشنی دشت و در میں

انہیں کا ظہورا ہے سب خشک و تر میں

انہیں کے کرشمے ہیں سب بحر و بر میں

انہیں سے یہ رتبہ تھا آدم نے پایا

کہ سر اس سے روحانیوں نے جھکایا

***

ہر اک ملک میں خیر و برکت ہے ان سے

ہر اک قوم کی شان و شوکت ہے ان سے

نجابت ہے ان سے شرافت ہے ان سے

شرف ان سے فخر ان سے عزت ہے ان سے

جفا کش بنو گر ہو عزت کے خواں

کہ عزت کا ہے بھید ذلت میں پنہاں

***

مشقت کی ذلت جنہوں نے اٹھائی

جہاں میں ملی ان کو آخر برائی

کسی نے بغیر اس کے ہر گز نہ پائی

فضیلت نہ عزت نہ فرمانروائی

نہاں اس گلستاں میں جتنے بڑھے ہیں

ہمیشہ وہ نیچے سے اوپر چڑھے ہیں

***

۱۶۵

حکومت ملی ان کو صفار تھے جو

امامت کو پہنچے وہ قصار تھے جو

وہ قطبِ زماں ٹھہرے عطار تھے جو

بنے مرجعِ خلق نجار تھے جو

اولو الفضل یاں اٹھے سراج کتنے

ابو الوقت یاں گزرے حلاج کتنے

***

نہ بو نصر تھا نوع میں ہم سے بالا

نہ تھا بو علی کچھ جہاں سے نرالا

طبعیت کو بچپن سے محنت میں ڈالا

ہوئے اس لیے صاحبِ قدر والا

اگر فکرِ کسبِ ہنر تم کو بھی ہو

تمہیں پھر ابو نصر اور بو علی ہو

***

بڑا ظلم اپنے پہ تم نے کیا ہے

کہ عزت کی یاں جس ستوں پر بنا ہے

ترقی کی منزل کا جو رہنما ہے

تنزل کی کشتی کا جو ناخدا ہے

قوی پشت تھیں جس سے پشتیں تمہاری

ہوئی دست بردار قوم اس سے ساری

***

۱۶۶

ہنر ہے نہ تم میں فضیلت ہے باقی

نہ علم و ادب ہے نہ حکمت ہے باقی

نہ منطق ہے باقی نہ ہتئپ ہے باقی

اگر ہے تو کچھ قابلیت باقی

اندھیرا نہ چھا جائے اس گھر میں دیکھو

پھر اکسا دو اس ٹمٹا تے دیے کو

***

۱۶۷

مسدسِ (۴۲)

بہت ہم میں اور تم میں جوہر ہیں مخیے

خبر کچھ نہ ہم کو نہ تم کو ہے جن کی

اگر جیتے جی ان کی کچھ نہ خبر لی

تو ہو جائیں گے مل کے مٹی میں مٹی

یہ جوہر ہیں ہم میں امانت خدا کی

مبادا تلف ہو ودیعت خدا کی

***

یہی نوجواں پھرتے آزاد جو ہیں

کمینوں کی صحبت میں برباد جو ہیں

شریفوں کی کہلاتے اولاد جو ہیں

مگر ننگِ آبا و اجداد جو ہیں

اگر نقدِ فرصت نہ یوں مفت کھوتے

یہی فخرِ آبا و اجداد ہوتے

***

یہی جو کہ پھرتے ہیں بے علم و جاہل

بہت ان میں ہیں جن کے جوہر ہیں قابل

رذائل میں پنہاں ہیں ان کے فضائل

انہیں ناقصوں میں ہیں پوشیدہ کامل

نہ ہوتے اگر مائلِ لہو و بازی

ہزاروں انہیں میں تھے طوسی و رازی

***

۱۶۸

یہی قوم، ہے جس میں قحط آدمی کا

جہاں شور ہے ہر طرف ناکسی کا

نہیں جہل میں جس کے حصہ کسی کا

کبھی علم و فن پر تھا قبضہ اسی کا

وہ تھیں برکتیں سعی و کوشش کی ساری

وہی خوں ہے ورنہ رگوں میں ہماری

***

حکومت سے مایوس تم ہو چکے ہو

زر و مال سے ہاتھ تم دھو چکے ہو

دلیری کو ڈھک ڈھک کے منہ رو چکے ہو

بزرگی بزرگوں کی سب کھو چکے ہو

مدار اب فقط علم پر ہے شرف کا

کہ باقی ہے تر کہ یہی اک سلف کا

***

ہمیشہ سے جو کہتے آئے ہیں سب یاں

کہ ہے علم سرمایۂ فخرِ انساں

عرب اور عجم ہند اور مصر و یوناں

رہا اتفاق اس پہ قوموں کا یکساں

یہ دعویٰ تھا اک جس پہ حجت نہ تھی کچھ

کھلی اس پہ اب تک شہادت نہ تھی کچھ

***

۱۶۹

جواہر تھا اک سب کی نظروں میں بھاری

پرکھنے کی جس کے نہ آئی تھی باری

فضائل تھے سب علم کے اعتباری

نہ تھی طاقتیں اس کی معلوم ساری

پہ اب بحر و بر دے رہے ہیں گواہی

کہ ہے علم میں زورِ دستِ الٰہی

***

کیا کوہساروں کو مسمار اس نے

بنایا سمندر کو بازار اس نے

زمینوں کو منوایا دوار اس نے

ثوابت کو ٹھہرایا سیار اس نے

لیا بھاپ سے کام لشکر کشی کا

دیا پتلیوں کو سکت آدمی کا

***

یہ پتھر کا ایندھن ہے جلوانے والا

جہازوں کو خشکی میں چلوانے والا

صداؤں کو سانچے میں ڈھلوانے والا

زمیں کے خزانے اگلوانے والا

یہی برق کو نامہ بر ہے بناتا

یہی آدمی کو ہے بے پر اڑاتا

***

۱۷۰

تمدن کے ایواں کا معمار ہے یہ

ترقی کے لشکر کا سالار ہے یہ

کہیں دستکاروں کا اوزار ہے یہ

کہیں جنگ جویوں کا ہتیار ہے یہ

دکھایا ہے نیچا دلیروں کو اس نے

بنایا ہے روباہ شیروں کو اس نے

***

۱۷۱

مسدسِ (۴۳)

اسی کی ہے اب چار سو حکمرانی

کئے اس نے زیر ارمنی اور یمانی

ہوئے رام دیوان ماژندرانی

گئے زابلی بھول سب پہلوانی

ہوا اس کی طاقت سے تسخیر عالم

پڑے سامنے اس کے چرکس نہ ویلم

***

یہ لاکھوں پہ ہے سینکڑوں کو چڑھاتا

سواروں کو پیادوں سے ہے زک دلاتا

جہازوں سے ہے زورقوں کو بھڑاتا

حصاروں کو ہے چٹکیوں میں اڑاتا

ہوا کوئی حربوں سے اس کے نہ سر بر

نہ ٹھہرے زرہ اس کے آگے نہ بکتر

***

جنہوں نے بنایا اسے اپنا یاور

ہر اک راہ میں اس کو ٹھہرایا رہبر

یہ قول آج کل صادق آتا ہے ان پر

کہ اک نوع ہی نوعِ انساں سے برتر

الگ سب سے کام ان کے اور طور ہیں کچھ

اگر سب ہیں انساں تو وہ اور ہیں کچھ

***

۱۷۲

بہت ان کو معجز نما جانتے ہیں

بہت دیوتا ان کو گردانتے ہیں

پہ جو ٹھیک ٹھیک ان کو پہچانتے ہیں

وہ اتنا مقرر انہیں مانتے ہیں

کہ دنیا نے جو کی تھی اب تک کمائی

وہ سب جزو و کل ان کے حصہ میں آئی

***

کیا علم نے ان کو ہر فن میں یکتا

نہ ہمسر رہا ان کا کوئی نہ ہمتا

ہر اک چیز ان کی ہر اک کام ان کا

سمجھ بوجھ سے ہے زمانہ کی بالا

ضائع کو سب ان کی تکتے ہیں ایسے

عجائب میں قدرت کے حیراں ہوں جیسے

***

دئیے علم نے کھول ان پر خزانے

چھپے اور ظاہر نئے اور پرانے

دکھائے انہیں غیب کے مال خانے

بتائے فتوحات کے سب ٹھکانے

ہوا جیسے چھائی ہے سب بحر و بر پر

وہ یوں چھا گئے خاور اور باختر پر

***

۱۷۳

پہ سچ ہے کہ ہے اصل تعلیم دولت

رہی ہے سدا پشتِ حکمت حکومت

ہوئی سلطنت جن کی دنیا سے رخصت

نہ علم ان میں باقی رہا اور نہ حکمت

نہ یونان محکوم ہو کر رہا کچھ

نہ ایران تاج اپنا کھو کر رہا کچھ

***

پہ اک خار کش صبر و ہمت میں کامل

یہ کہتا تھا محنت سے گھٹتا تھا جب دل

کہ"جن سختیوں کا اٹھانا ہے مشکل

وہی ہیں کچھ اے دل اٹھانے کے قابل

حلال آدمی پر ہے کھانا نہ پینا

نہ ہو ایک جب تک لہو اور پسینا"

***

نہیں سہل گر صید کا ہات آنا

تو لازم ہے گھوڑوں کو سر پٹ بھگانا

نہ بیٹھو جو ہے بوجھ بھاری اٹھانا

ذرا تیز ہانکو جو ہے دور جانا

زمانہ اگر ہم سے زور آزما ہے

تو وقت اے عزیزو یہی زور کا ہے

***

۱۷۴

کرو یاد اپنے بزرگوں کی حالت

شدائد میں جو ہارتے تھے نہ ہمت

اٹھاتے تھے برسوں سفر کی مشقت

غریبی میں کرتے تھے کسبِ فضیلت

جہاں کھوج پاتے تھے علم و ہنر کا

نکل گھر سے لیتے تھے رستہ ادھر کا

***

۱۷۵

مسدسِ (۴۴)

عراقین و شامات و خوارزم و توراں

جہاں جنسِ تعلیم سنتے تھے ارزاں

وہیں پے سپر کر کے کوہ و بیاباں

پہنچتے تھے طلاب افتان و خیزاں

جہاں تر عمل دین اسلام کا تھا

ہر اک راز میں ان کا تانتا بندھا تھا

***

نطامیہ نوریہ مستنصریہ نفیسیہ

ستیہ اور صاحبیہ

رواحیہ عزیہ اور قاہریہ

عزیزیہ زینیہ اور ناصریہ

یہ کالج تھے مرکز سب آفاقیوں کے

حجازی و کردی و قبچاقیوں کے

***

بشر کو ہے لازم کہ ہمت نہ ہارے

جہاں تک ہو کام آپ اپنے سنوارے

خدا کے سوا چھوڑ دے سب سہارے

کہ ہیں عارضی زور کمزور سارے

اڑے وقت تم دائیں بائیں نہ جھانکو

سدا اپنی گاڑی کو تم آپ ہانکو

***

۱۷۶

بہت خوان بے اشتہار تم نے کھائے

بہت بوجھ بندھ بندھ کے تم نے اٹھائے

بہت آس پر ساز کی راگ گائے

بہت عارضی تم نے جلوے دکھائے

بس اب اپنی گردن پہ رکھو جوا تم

کرو حاجتیں آپ اپنی روا تم

***

تمہیں اپنی مشکل کو آساں کرو گے

تمہیں درد کا اپنے درماں کرو گے

تمہیں اپنی منزل کا ساماں کرو گے

کرو گے تمہیں کچھ اگر یاں کرو گے

چھپا دست ہمت میں زور قضا ہے

مثل ہے کہ ہمت کا حامی خدا ہے

***

سراسر ہو گو سلطنت فیض گستر

رعیت کی خود تربیت میں ہو یاور

مگر کوئی حالت نہیں اس سے بدتر

کہ ہر بوجھ ہو قوم کا سلطنت پر

ہو اس طرح ہاتھوں میں اس کے رعیت

کہ قبضے میں غسال کے جیسے میت

***

۱۷۷

وہی گر تجارت کے اس کو سجھائے

وہی صنعت اور حرفت اس کو بتائے

وہی کاشتکاری کے آئیں سکھائے

وہی اس کو لکھوائے وہ ہی پڑھائے

ملا جس رعیت کو ایسا سہارا

کیا آدمیت نے اسے سے کنارا

***

یہی سلطنت کی ہے کافی اعانت

کہ ہو ملک میں امن اس کی بدولت

نفوس اور اموال کی ہو حفاظت

حکومت میں ہو اعتدال اور عدالت

نہ توڑا رعیت پہ بے جا ہو کوئی

نہ قانون چھٹ کار فرما ہو کوئی

***

جہاں ہو یہ انداز فرماں روائی

رعیت کی ہے واں نپٹ بے حیائی

کہ ہر کام میں آس ڈھونڈے پرائی

کرے آپ اپنی نہ مشکل کشائی

کھڑا ہو سہارے اک اڑوار کے گھر

ہٹی وہ جہاں، آ رہا یہ زمیں پر

***

۱۷۸

گیا اب وہ دل تنگیوں کا زمانہ

کہ اپنوں کا حصہ تھا پڑھنا پڑھانا

برہمن کا پہنے اگر شدر بانا

تو اس پر نہیں کوئی اب تازیانا

ہوئے برطرف سب نشیب و فراز اب

سفید و سیہ میں نہیں امتیاز اب

***

۱۷۹

مسدسِ (۴۵)

بس اب وقت کا حکم ناطق یہی ہے

کہ جو کچھ ہے دنیا میں تعلیم ہی ہے

یہی آج کل اصل فرماندہی ہے

اسی میں چھپا سِرّ شاہنشہہی ہے

ملی ہے یہ طاقت اسی کیمیا کو

کہ کرتی ہے یہ ایک شاہ و گدا کو

***

سکھاتی ہے محکوم کو یہ اطاعت

سجھاتی ہے حاکم کو راہِ عدالت

دلوں سے مٹاتی ہے نقشِ عداوت

جہاں سے اٹھاتی ہے رسمِ بغاوت

یہی ہے رعیت کو حق دار کرتی

یہی ہے کہ دمہ کو ہموار کرتی

***

سنی غریبوں کی فریاد اسی نے

کیا ہے غلامی کو برباد اسی نے

رپبلک کی ڈالی ہے بنیاد اسی نے

بنایا ہے پبلک کو آزاد اسی نے

مقید بھی کرتی ہے یہ اور رہا بھی

بناتی ہے آزاد بھی با وفا بھی

***

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202