• ابتداء
  • پچھلا
  • 202 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 48262 / ڈاؤنلوڈ: 1833
سائز سائز سائز
مسدسِ حالی

مسدسِ حالی

مؤلف:
اردو

تجارت نے رونق ہے یہ اس سے پائی

کہ ہیچ اس کے آگے ہے فرمانروائی

فلاحت کی یہ منزلت ہے بڑھائی

کہ فلاح کرتے ہیں معجز نمائی

ترقی یہ صنعت کو دی ہے بلا کی

کہ ہوتی ہے معلوم قدرت خدا کی

***

یہ نا اتفاقی ہے قوموں سے کھوتی

یہ قومی محبت کا ہے بیج بوتی

یہ آپس کے کینے دلوں سے ہے دھوتی

یہ دانے ہے سب ایک لڑ میں پروتی

یہ نقطوں پہ خط کی طرح ہے گزرتی

کروڑوں دلوں کو ہے یہ ایک کرتی

***

جہاں یہ نہیں واں نہ قوم اور نہ ملت

نہ ملکی حمایت نہ قومی حمیت

لجدا سب کے رنج اور جدا سب کی راحت

الگ سب کی عزت الگ سب کی ذلت

خبر واں نہیں یہ کہ ہے قوم شے کیا

چھپا سرّ حق اس تعلق میں ہے کیا

***

۱۸۱

جنہوں نے کہ تعلیم کی قدر و قیمت

نہ جانی مسلط ہوئی ان پہ ذلت

ملوک اور سلاطیں نے کھوئی حکومت

گھرانوں پہ چھائی امیروں کی نکبت

رہے خاندانی نہ عزت کے قابل

ہوئے سارے دعوے شرافت کے باطل

***

نہ چلتے ہیں واں کام کاریگروں کے

نہ برکت ہے، پیشہ میں پیشہ وروں کے

بگڑنے لگے کھیل سوداگروں کے

ہوئے بند دروازے اگثر گھروں کے

کماتے تھے دولت جو دن رات بیٹھے

ہو ہیں اب دھرے ہات پر ہات بیٹھے

***

ہنر اور فن واں ہیں سب گھٹتے جاتے

ہنر مند ہیں روز و شب گھٹتے جاتے

ادیبوں کے فضل و ادب گھٹتے جاتے

طبیب اور ان کے مطب گھٹتے جاتے

ہوئے پست سب فلسفی اور مناظر

نہ ناظم ہیں سر سبز ان کے نہ تاثر

***

۱۸۲

مسدسِ (۴۶)

اگر اک پہننے کو ٹوپی بنائیں

تو کپڑا وہ اک اور دنیا سے لائیں

جو سینے کو وہ ایک سوئی منگائیں

تو مشرق سے مغرب میں لینے جائیں

ہر اک شے میں غیروں کے محتاج ہیں وہ

مکینکس کی رو میں تاراج ہیں وہ

***

نہ پاس ان کے چادر نہ بستر ہے گھر کا

نہ برتن ہیں گھر کے نہ زیور ہے گھر کا

نہ چاقو نہ قینچی نہ نشتر ہے گھر کا

صراحی ہے گھر کی نہ ساغر ہے گھر کا

کنول مجلسوں میں قلم دفتروں میں

اثاثہ ہے سب عاریت کا گھروں میں

***

جو مغرب سے آئے نہ مالِ تجارت

تو مر جائیں بھوکے وہاں اہلِ حرفت

ہو تجار پر بند راہِ معیشت

دکانوں میں ڈھونڈے نہ پائے بضاعت

پرائے سہارے ہیں بیوپار واں سب

طفیلی ہیں سیٹھ اور تجار واں سب

***

۱۸۳

یہ ہیں ترکِ تعلیم کی سب سزائیں

وہ کاش اب بھی غفلت سے باز اپنی آئیں

مبادا رہِ عافیت پھر نہ پائیں

کہ ہیں بے پناہ آنے والی بلائیں

ہوا بڑھتی جاتی سرِ رہگزر ہے

چراغوں کو فانوس بِن اب خطر ہے

***

لیے فرد بخشیِ دوراں کھرا ہے

ہر اک فوج کا جائزہ لے رہا ہے

جنہیں ماہر اور کرتبی دیکھتا ہے

انہیں بخشتا تیغ و طبل و درا ہے

پہ ہیں بے ہنر یک قلم چھٹتے جاتے

رسالوں سے نام ان کے ہیں کٹتے جاتے

***

بس اب علم و فن کے وہ پھیلاؤ ساماں

کہ نسلیں تمہاری بنیں جن سے انساں

غریبوں کو راہِ ترقی ہو آساں

امیروں میں ہو نورِ تعلیم تاباں

کوئی ان میں دنیا کی عزت کو تھامے

کوئی کشتی دین و ملت کو تھامے

***

۱۸۴

بنے قوم کھانے کمانے کے قابل

زمانے میں ہو منہ دکھانے کے قابل

تمدن کی مجلس میں آنے کے قابل

خطاب آدمیت کا پانے کے قابل

سمجھتے لگیں اپنے سب نیک و بد وہ

لگیں کرنے آپ اپنی اپنی مدد وہ

***

کرو قدر ان کی ہنر جن میں پاؤ

ترقی کی اور ان کو رغبت دلاؤ

دل اور حوصلے ان کے مل کر بڑھاؤ

ستوں اس کھنڈر گھر کے ایسے بناؤ

کوئی قوم کی جن سے خدمت ب آئے

بٹھائیں انہیں سر پہ اپنے پرائے

***

کرو گے اگر ایسے لوگوں کی عزت

تو پاؤ گے اپنے میں تم اک جماعت

بڑھائے گی جو قم کی شان و شوکت

گھرانوں میں پھیلائے گی خیر و برکت

مدد جس قدر تم سے وہ آج لے گی

عوض تم کو کل اس کا دہ چند دے گی

***

۱۸۵

ترقی کے یوناں کے اسباب کیا تھے

ہنر پر جہاں پیر و برنا فدا تھے

تمدن کے میداں میں زور آزما تھے

وطن کی محبت میں یکسر فنا تھے

مقاصد بڑے اور ارادے تھے عالی

نہ تھا اس سے چھوٹا بڑا کوئی خالی

***

۱۸۶

مسدسِ (۴۷)

سبب کچھ نہ تھا اس کا جز قدردانی

کہ ہوتے تھے جو علم و حکمت کے بانی

ترقی مںت کرتے تھے جو جاں فشانی

حیات ان کو ملتی تھی واں جاودانی

وطن جیتے جی ان پہ قرباں تھا سارا

پس از مرگ پجتے تھے وہ آشکارا

***

اسی گر نے تھا جوش سب کو دلایا

کہ تھا اک جزیرہ نے رتبہ یہ پایا

اسی شوق نے تھا دلوں کو بڑھایا

اسی نے تھا یوناں کو یوناں بنایا

اس امید پر کوشش تھیں یہ ساری

کہ ہو قوم کے دل میں عظمت ہماری

***

جنہیں ملک میں اپنی رکھنی ہو وقعت

جنہیں سلطنت کی ہو مطلوب قربت

جنہیں تھامنی ہو گھرانے کی عزت

جنہیں دین کی ہو نہ منظور ذلت

جنہیں نسل و اولاد ہو اپنی پیاری

انہیں فرض ہے قوم کی غمگساری

***

۱۸۷

بہت دل میں نرم ان دنوں ہوتے جاتے

کہ حالت پہ ہیں قوم کی امڈے آتے

تنزل پہ ہیں اس کے آنسو بہاتے

نہیں آپ کچھ کر کے لیکن دکھاتے

خبر بھی ہے دل ان کے جلتے ہیں کس پر

وہ ہیں آپ ہی ہات ملتے ہیں جس پر

***

رئیسوں کی جاگیرداروں کی دولت

فقیہوں کی دانشوروں کی فضیلت

بزرگوں کی اور واعظوں کی نصتںی

ادیبوں کی اور شاعروں کی فصاحت

جچے تب کچھ آنکھوں میں اہلِ وطن کی

جو کام آئے بہبود میں انجمن کی

***

جماعت کی عزت میں ہے سب کی عزت

جماعت کی ذلت میں ہے سب کی ذلت

رہی ہے نہ ہرگز رہے گی سلامت

نہ شخصی بزرگی نہ شخصی حکومت

وہی شاخ پھولے گی یاں اور پھلے گی

ہری ہوگی جڑ اس گلستاں میں جس کی

***

۱۸۸

ذخیرہ ہے جب چیونٹا کوئی پاتا

تو بھاگا جماعت میں ہے اپنی آتا

انہیں ساتھ لے لے کے ہے یاں سے جاتا

فتوح اپنی ایک ایک کو ہے دکھاتا

سدا ان کے ہیں اس طرح کام چلتے

کمائی سے ایک اک کی لاکھوں ہیں پلتے

***

جب اک چیونٹا جس میں دانش نہ حکمت

بنی نوع کی اپنے بر لائے حاجت

معیشت سے ایک اک کو بخشے فراغت

کرے ان پہ وقف اپنی ساری غنیمت

تو اس سے زیادہ ہے بے غیرتی کیا

کہ ہو آدمی کو نہ پاس آدمی کا

***

غضب ہے کہ جو نوع ہو سب سے برتر

گنے آپ کو جو کہ عالم کا سرور

فرشتوں سے جو سمجھے اپنے کو بڑھ کر

خدا کا بنے جو کہ دنیا میں مظہر

نہ ہو مردمی کا نشاں اس میں اتنا

مسلم ہے مٹی کے کیڑوں میں جتنا

***

۱۸۹

الٰہی بحقِ رسول تہامی

ہر اک فرد انساں کا تھا جو کہ حامی

جسے دور نزدیک تھے سب گرامی

برابر تھے مکی و زنگی و شامی

شریروں کو ساتھ اپنے جس نے نباہا

بروں کا ہمیشہ بھلا جس نے چاہا

***

طفیل اس کا اور اس کی عترت کا یارب

پکڑ جلد ہات اس کی امت کا یارب

اک ابر اس پہ بھیج اپنی رحمت کا یارب

غبار اس سے جو دھوئے ذلت کا یارب

کہ ملت و ہے ننگِ ہستی سے اس کی

ہوا پست اسلام پستی سے اس کی

***

انہیں کل کی فکر آج کرنی سکھا دے

ذرا ان کی آنکھوں سے پردہ اٹھا دے

کمیں گاہ بازیِ دوراں دکھا دے

جو ہونا ہے کل آج ان کو سجھا دے

چھتیں پاٹ لیں تاکہ باراں سے پہلے

سفینہ بنا رکھیں طوفاں سے پہلے

***

۱۹۰

بچا ان کو اس تنگنائے بلا سے

کہ رستہ ہو گم رہ رو و رہنما سے

نہ امید یاری ہو یار آشنا سے

نہ چشمِ اعانت ہو دست و عصا سے

چپ و راس چھائی ہوئی ظلمتیں ہوں

دلوں میں امیدوں کی جا حسرتیں ہوں

***

۱۹۱

عرض حال

بجناب سرور کائنات علیہ افضل الصلوات و اکمل التحیات

اے خاصۂ خاصان رسل وقت دعا ہے

امت پہ تری آ کے عجب وقت پڑا ہے

*

جو دین بڑی شان سے نکلا تھا وطن سے

پر دیس میں وہ آج غریب الغربا ہے

*

جس دین کے مدعو تھے کبھی سیزر و کسریٰ

خود آج وہ مہمان سرائے فقرا ہے

*

وہ دین ہوئی بزمِ جہاں جس سے چراغاں

اب اس کی مجالس میں نہ بتی نہ دیا ہے

*

جو دین کو تھا شرک سے عالم کا نگہباں

اب اس کا نگہبان اگر ہے تو خدا ہے

*

لجو تفرقے اقوام کے آیا تھا مٹانے

اس دین میں جو تفرقہ اب آ کے پڑا ہے

*

جس دین نے غیروں کے تھے دل آ کے ملائے

اس دین میں خود بھائی سے اب بھائی جدا ہے

*

۱۹۲

جو دین کہ ہمدردِ بنی نوعِ بشر تھا

اب جنگ و جدل چار طرف اس میں بپا ہے

*

جس دین کا تھا فقر بھی اکسیر غنا بھی

اس دین میں اب فقرے ہے باقی نہ غنا ہے

*

جو دین کے گودوں میں پلا تھا حکما کی

وہ عرضۂ تیغ جہلا و سفہا ہے

*

جس دین کی حجت سے سب ادیان تھے مغلوب

اب معترض اس دین پہ ہر ہرزہ سرا ہے

*

ہے دین ترا اب بھی وہی چشمۂ صافی

دینداروں میں پر آب ہے باقی نہ صفا ہے

*

عالم ہے سو بے عقل ہے جاہل ہے سو وحشی

منعم ہے سو مغرور ہے مفلس سو گدا ہے

*

یاں راگ ہے دن رات دواں رنگِ شب و روز

یہ مجلسِ اعیاں ہے وہ بزمِ شرفا ہے

*

چھوٹوں میں اطاعت ہے نہ شفقت ہے بڑوں میں

پیاروں میں محبت ہے نہ یاروں میں وفا ہے

*

۱۹۳

دولت ہے نہ عزت نہ فضیلت نہ ہنر ہے

اک دین ہے باقی سو وہ بے برگ و نوا ہے

*

ہے دین کی دولت سے بہا علم سے رونق

بے دولت و علم اس میں نہ رونق نہ بہا ہے

*

شاہد ہے اگر دین تو علم اس کا ہے زیور

زیور ہے اگر علم تو مال سے کی جلا ہے

*

جس قوم میں اور دین میں ہو علم نہ دولت

اس قوم کی اور دین کی پانی پہ بنا ہے

*

گو قوم میں تیری نہیں اب کوئی بڑائی

پر نام تری قوم کا یاں اب بھی بڑا ہے

*

ڈر ہے کہیں یہ نام بھی مٹ جائے نہ آخر

مدت سے اسے دورِ زماں میٹ رہا ہے

*

جس قصر کا تھا سر بفلک گنبدِ اقبال

ادبار کی اب گونج رہی اس میں صدا ہے

*

بیڑا تھا نہ جو بادِ مخالف سے خبردار

جو چلتی ہے اب چلتی خلاف اس کے ہوا ہے

*

۱۹۴

وہ روشنیِ بام و درِ کشورِ اسلام

یاد آج تلک جس کی زمانے کو ضیا ہے

*

روشن نظر آتا نہیں واں کوئی چراغ آج

بجھنے کو ہے اب گر کوئی بجھنے سے بچا ہے

*

عشرت کدے آباد تھے جس قوم کے ہر سو

اس قوم کا ایک ایک گھر اب بزمِ عزا ہے

*

چاؤش تھے للکارتے جن رہگزروں میں

دن رات بلند ان میں فقیروں کی صدا ہے

*

وہ قوم کی آفاق میں جو سر بفلک تھی

وہ یاد میں اسلاف کے اب رو بقضا ہے

*

جو قوم کہ مالک تھی علوم اور حکم کی

اب علم کا واں نام نہ حکمت کا پتا ہے

*

کھوج ان کے کمالات کا لگتا ہے اب اتنا

گم دشت میں اک قافلہ بے طبل و ذرا ہے

*

بگڑی ہے کچھ ایسی کہ بنائے نہیں بنتی

ہے اس سے یہ ظاہر کہ یہی حکمِ قضا ہے

*

۱۹۵

تھی آس تو تھا خوف بھی ہمراہ رجا کے

اب خوف ہے مدت سے دلوں میں نہ رجا ہے

*

جو کچھ ہیں وہ سب اپنے ہی ہاتو ں کے ہیں کرتوت

شکوہ ہے زمانے کا نہ قسمت کا گلا ہے

*

دیکھے ہیں یہ دن اپنی ہی غفلت کی بدولت

سچ ہے کہ برے کام کا انجام برا ہے

*

کی زیب بدن سب نے ہی پوشاک کتاں کی

اور برف میں ڈوبی ہوئی کشور کی ہوا ہے

*

درکار ہیں یاں معرکے میں جوشن و خفتاں

اور دوش پہ یاروں کے وہی کہنہ ردا ہے

*

دریائے پر آشوب ہے اک راہ میں حائل

اور بیٹھ کے گھوڑ ناؤ پہ یاں قصد ثنا ہے

*

ملتی نہیں اک بوند بھی پانی کی جہاں مفت

واں قافلہ سب گھر سے تہی دست چلا ہے

*

یاں نکلے ہیں سودے کو ورم لے کے پرانے

اور سکہ رواں شہر میں مدت سے نیا ہے

*

۱۹۶

فریاد اے کشتی امت کے نگہباں

بیڑا یہ تباہی کے قریب آن لگا ہے

*

اے چشمۂ رحمت بابی انت و امی

دنیا پہ ترا لطف سدا عام رہا ہے

*

جس قوم نے گھر اور وطن تجھ سے چھڑایا

جب تو نے کیا نیک سلوک ان سے کیا ہے

*

صدمہ درِ دنداں کو ترے جس سے کہ پہنچا

کی ان کیلئے تو نے بھلائی کی دعا ہے

*

کی تو نے خطا عفو ہے ان کینہ کشوں کی

کھانے میں جنہوں نے کہ تجھے زہر دیا ہے

*

سو بار ترا دیکھ کے عفو اور ترحم

ہر باغی و سرکش کا سر آخر کو جھکا ہے

*

جو بے ادبی کرتے تھے اشعار میں تیری

منقول انہی سے تری پھر مدح و ثنا ہے

*

برتاؤ ترے جب کہ یہ اعدا سے ہیں اپنے

اعدا سے غلاموں کو کچھ امید سوا ہے

*

۱۹۷

کر حق سے عدا امتِ مرحوم کے حق میں

خطروں میں بہت جس کا جہاز آ کے گھرا ہے

*

امت میں تری نیک بھی ہیں لیکن

دلدادہ ترا ایک سے سیک ان میں سوا ہے

*

ایماں جسے کہتے ہیں عقیدہ میں ہمارے

وہ تیری محبت تری عترت کی ولا ہے

*

ہر چپقلش دہر مخالف میں ترا نام

ہتھیار جوانوں کا ہے پیروں کا عصا ہے

*

جو خاک ترے در پہ ہے جاروب سے اڑتی

وہ خاک ہمارے لئے داروئے شفا ہے

*

جو شہر ہوا تیری ولادت سے مشرف

اب تک وہی قبلہ تری امت کا رہا ہے

*

جس ملک نے پائی تری ہجرت سے سعادت

کعبے سے کشش اس کی ہر اک دل میں سوا ہے

*

کل دیکھئے پیش آئے غلاموں کو ترے کیا

اب تک تو ترے نام پہ اک ایک فدا ہے

*

۱۹۸

ہم نیک ہیں یا بد ہیں پھر آخر ہیں تمہارے

نسبت بہت اچھی ہے اگر حال برا ہے

*

گر بد ہیں تو حق اپنا ہے کچھ تجھ پہ زیادہ

اخبار میں الطالح لی ہم نے سنا ہے

*

تدبیر سنبھلنے کی ہمارے نہیں کوئی

ہاں ایک دعا تیری کہ مقبولِ خدا ہے

*

خود جاہ کے طالب ہیں نہ عزت کے ہیں خواں

پر فکر ترے دین کی عزت کی سدا ہے

*

گر دین کو جوکھوں نہیں ذلت سے ہماری

اب دیکھ لیں یہ بھی کہ جو ذلت میں مزا ہے

*

ہاں حالیِ گستاخ نہ بڑھ حدِ ادب سے

باتوں سے ٹپکتا تری اب صاف گلا ہے

*

ہے یہ بھی خبر تجھ کو کہ ہے کون مخاطب

یاں جنبشِ لب خارج از آہنگ خطا ہے

٭٭٭٭

۱۹۹

فہرست

پہلا دیباچہ ۴

١٢٩٤ ھ ۴

دوسرا دیباچہ ۱۰

متعلق بہ ضمیمہ ۱۰

١٣٠٣ ھ ۱۰

رباعی ۱۲

مسدس (۱) ۱۳

مسدسِ (۲) ۱۶

مسدسِ (۳) ۲۰

مسدسِ (۴) ۲۴

مسدسِ (۵) ۲۸

مسدسِ (۶) ۳۲

مسدسِ (۷) ۳۵

مسدسِ (۸) ۳۹

مسدسِ (۹) ۴۳

مسدسِ (۱۰) ۴۷

مسدسِ (۱۱) ۵۱

مسدسِ (۱۲) ۵۵

۲۰۰