• ابتداء
  • پچھلا
  • 202 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 48233 / ڈاؤنلوڈ: 1828
سائز سائز سائز
مسدسِ حالی

مسدسِ حالی

مؤلف:
اردو

یکایک ہوئی غیرتِ حق کو حرکت

بڑھا جانبِ بوقبیں ابرِ رحمت

ادا خاکِ بطحا نے کی وہ ودیعت

چلے آتے تھے جس کی دیتے شہادت

ہوئی پہلوئے آمنہ سے ہویدا

دعائے خلیل اور نویدِ مسیحا

***

ہوئے محو عالم سے آثارِ ظلمت

کہ طالع ہوا ماہِ برجِ سعادت

نہ چٹکی مگر چاندنی ایک مدت

کہ تھا ابر میں ماہتابِ رسالت

یہ چالیسویں سال لطفِ خدا سے

کیا چاند نے کھیت غارِ حرا سے

***

وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا

مرادیں غریبوں کی بر لانے والا

مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا

وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا

فقیروں کا ملجا ضعیفوں کا ماویٰ

یتیموں کا والی غلاموں کا مولیٰ

***

۲۱

خطا کار سے درگزر کرنے والا

بد اندیش کے دل میں گھر کرنے والا

مفاسد کلا زیر و زبر کرنے والا

قبائل کو شیر و شکر کرنے والا

اٹھ کر حرا سے سوئے قوم آیا

اور اک نسخۂ کیمیا ساتھ لایا

***

مسِ خام کو جس نے کندن بنایا

کھرا اور کھوٹا الگ کر دکھایا

عرب جس پہ قرنوں سے تھا جہل چھایا

پلٹ دی بس اک آن مین اس کی کایا

رہا ڈر نہ بیڑے کو موجِ بلا کا

ادھر سے ادھر پھر گیا رخ ہوا کا

***

پڑی کان میں دھات تھی اک نکمی

نہ کچھ قدر تھی اور نہ قیمت تھی جس کی

طبیعت میں جو اس کے جو ہر تھے اصلی

ہوئے سب تھے مٹی میں مل کر وہ مٹی

پہ تھا ثبت علمِ قضا و قدر میں

کہ بن جائے گی وہ طلا اک نظر میں

***

۲۲

وہ فخرِ عرب زیبِ محراب و منبر

تمام اہلِ مکہ کو ہمراہ لے کر

گیا ایک دن حسبِ فرمانِ داور

سوئے دشت اور چڑھ کے کوہِ صفا پر

یہ فرمایا سب سے کہ " اے آلِ غالب

سمجھتے ہو تم مجھ کو صادق کہ کاذب؟"

***

۲۳

مسدسِ (۴)

کہا سب نے " قول آج تک کوئی تیرا

کبھی ہم نے جھوٹا سنا اور نہ دیکھا"

کہا" گر سمجھتے ہو تم مجھ کو ایسا

تو باور کرو گے اگر میں کہوں گا؟

کہ فوجِ گراں پشتِ کوہِ صفا پر

پڑی ہے کہ لوٹے تمہیں گھات پاکر"

***

کہا" تیری ہر بات کا یاں یقیں ہے

کہ بچپن سے صادق ہے تو اور امیں ہے"

کہا" گر مری بات یہ دل نشیں ہے

تو سن لو خلاف اس میں اصلا نہیں ہے

کہ سب قافلہ یاں سے ہے جانے والا

ڈرو اس سے جو وقت ہے آنے والا

***

وہ بجلی کا کڑکا تھا یا صوتِ ہادی

عرب کی زمیں جس نے ساری ہلا دی

نئی اک لگن دل میں سب کے لگا دی

اک آواز میں سوتی بستی جگا دی

پڑا ہر طرف غل یہ پیغام حق سے

کہ گونج اٹھے دشت و جبل نامِ حق سے

***

۲۴

سبق پھر شریعت کا ان کو پڑھایا

حقیقت کا گر ان کو ایک اک بتایا

زمانہ کے بگڑے ہوؤں کو بنایا

بہت دن کے سوتے ہوؤں کو جگایا

کھلے تھے نہ جو راز اب تک جہاں پر

وہ دکھلا دیئے ایک پردہ اٹھا کر

***

کسی کو ازل کا نہ تھا یاد پیماں

بھلائے تھے بندوں نے مالک کے فرماں

زمانہ میں تھا دورِ صہبائے بطلاں

مئے حق سے محرم نہ تھی بزمِ دوراں

اچھوتا تھا توحید کا جام اب تک

خم معرفت کا تھا منہ خام اب تک

***

نہ واقف تھے انساں قضا اور جزا سے

نہ آگاہ تھے مبداء و منتہا سے

لگائی تھی ایک اک نے لو ماسوا سے

پڑے تھے بہت دور بندے خدا سے

یہ سنتے ہی تھرا گیا گلہ سارا

یہ راعی نے للکار کر جب پکارا

***

۲۵

کہ ہے ذاتِ واحد عبادت کے لایق

زبان اور دل کی شہادت کے لایق

اسی کے ہیں فرماں اطاعت کے لایق

اسی کی ہے سرکار خدمت کے لایق

لگاؤ تو لو اس سے اپنی لگاؤ

جھکاؤ تو سر اس کے آگے جھکاؤ

***

اسی پر ہمیشہ بھروسا کرو تم

اسی کے سدا عشق کا دم بھرو تم

اسی کے غضب سے ڈرو گر ڈرو تم

اسی کی طلب میں مرد گر مرد تم

مبرا ہے شرکت سے اس کی خدائی

نہیں اس کے آگے کسی کو بڑائی

***

خرد اور ادراک رنجور ہیں واں

مہ و مہر ادنیٰ سے مزدور ہیں واں

جہاندار مغلوب و مقہور ہیں واں

نبی اور صدیق مجبور ہیں واں

نہ پرسش ہے رہبان و احبار کی واں

نہ پروا ہے ابرار و احرار کی واں

***

۲۶

تم اوروں کی مانند دھوکا نہ کھانا

کسی کو خدا کا نہ بیٹا بنانا

مری حد سے رتبہ نہ میرا بڑھانا

بڑھا کر بہت تم نہ مجھ کو گھٹانا

سب انساں ہیں واں جس طرح سر فگندہ

اسی طرح ہوں میں بھی اک اس کا بندہ

***

۲۷

مسدسِ (۵)

بنانا نہ تربت کو میری صنم تم

نہ کرنا مری قبر پر سر کو خم تم

نہیں بندہ ہونے میں کچھ مجھے سے کم تم

کہ بے چارگی میں برابر ہیں ہم تم

مجھے دی ہے حق نے بس اتنی بزرگی

کہ بندہ بھی ہوں اس کا اور ایلچی بھی

***

اسی طرح دل ان کا ایک اک سے توڑا

ہر اک قبلۂ کج سے منہ ان کا موڑا

کہیں ماسوا کا علاقہ نہ چھوڑا

خداوند سے رشتہ بندوں کا جوڑا

کبھی کے جو پھرتے تھے مالک سے بھا گے

دئیے سر جھکا ان کے مالک کے آگے

***

پتا اصل مقصود کا پا گیا جب

نشاں گنجِ دولت کا ہاتھ آگیا جب

محبت سے دل ان کا گرما گیا جب

سماں ان پہ تو حید کا چھا گیا جب

سکھائے معیشت کے آداب ان کو

پڑھائے تمدن کے سب باب ان کو

***

۲۸

جتائی انھیں وقت کی قدر و قیمت

دلائی انہیں کام کی حرص و رغبت

کہا چھوڑ دیں گے سب آخر رفاقت

ہو فرزندو زن اس مںب یا مال و دولت

نہ چھوڑے گا پر ساتھ ہر گز تمہارا

بھلائی میں جو وقت تم نے گزارا

***

غنیمت ہے صحت علالت سے پہلے

فراغت مشاغل کی کثرت سے پہلے

جوانی، بڑھاپے کی زحمت سے پہلے

اقامت، مسافر کی رحلت سے پہلے

فقیری سے پہلے غنیمت ہے دولت

جو کرنا ہے کر لو کہ تھوڑی ہے مہلت

***

یہ کہہ کر کیا علم پر ان کو شیدا

کہ ہیں دور رحمت سے سب اہلِ دنیا

مگر دھیان ہے جن کو ہر دم خدا کا

ہے تعلیم کا یا سدا جن میں چرچا

انہی کے لیے یاں ہے نعمت خدا کی

انہی پر ہے واں جا کے رحمت خدا کی"

***

۲۹

سکھائی انہیں نوعِ انساں پہ شفقت

کہا " ہے یہ اسلامیوں کی علامت

کہ ہمسایہ سے رکھتے ہیں وہ محبت

شب و روز پہنچاتے ہیں اس کو راحت

وہ برحق سے اپنے لیے چاہتے ہیں

وہی ہر بشر کے لیے چاہتے ہیں

***

خدا رحم کرتا نہیں اس بشر پر

نہ ہو درد کی چوٹ جس کے جگر پر

کسی کے گر آفت گزر جائے سر پر

پڑے غم کا سایہ نہ اس بے اثر پر

کرو مہربانی تم اہلِ زمیں پر

خدا مہرباں ہو گا عرشِ بریں پر۔

***

ڈرایا تعصب سے ان کو یہ کہہ کر

کہ زندہ رہا اور مرا جو اسی پر

ہوا وہ ہماری جماعت سے باہر

وہ ساتھی ہمارا نہ ہم اس کے یاور

نہیں حق سے کچھ اس محبت کو بہرہ

کہ جو تم کو اندھا کرے اور بہرہ

***

۳۰

بچایا برائی سے ان کو یہ کہہ کر

کہ طاعت سے ترکِ معاصی ہے بہتر

تو رع کا ہے ذات میں جن کی جوہر

نہ ہوں گے کبھی عابد ان کے برابر

کرو ذکر اہلِ ورع کا جہاں تم

نہ لو عابدوں کا کبھی نام واں تم

***

۳۱

مسدسِ (۶)

غریبوں کو محنت کی رغبت دلائی

کہ بازو سے اپنے کرو تم کمائی

خبر تاکہ لو اس سے اپنی پرائی

نہ کرنی پڑے تم کو در در گدائی

طلب سے ہے دنیا کی گریاں یہ نیت

تو چمکو گے واں ماہِ کامل کی صورت

***

امیروں کو تنبیہ کی اس طرح پر

کہ ہیں تم میں جو اغنیا اور تو نگر

اگر اپنے طبقہ میں ہوں سب سے بہتر

بنی نوع کے ہوں مددگار و یاور

نہ کرتے ہوں بے مشورت کام ہر گز

اٹھاتے نہ ہوں بے دھڑک گام ہر گز

***

تو مردوں سے آسودہ تر ہے وہ طبقہ

زمانہ مبارک ملے جس کو ایسا

پہ جب اہلِ دولت ہوں اشرارِ دنیا

نہ ہو عیش میں جن کو اوروں کی پروا

نہیں اس زمانہ میں کچھ خیرو برکت

اقامت سے بہتر ہے اس وقت رحلت

***

۳۲

دیے پھیر دل ان کے مکر و ریا سے

بھرا ان کے سینہ کو صدق و صفا سے

بچایا انہیں کذب سے، افترا سے

کیا سرخرو خلق سے اور خدا سے

رہا قول حق میں نہ کچھ باک ان کو

بس اک شوب میں کر دیا پاک ان کو

***

کہیں حفظِ صحت کے آئیں سکھائے

سفر کے کہیں شوق ان کو دلائے

مفاد ان کو سوداگری کے سھاوئے

اصول ان کو فرماں دہی کے بتائے

نشاں راہِ منزل کا ایک اک دکھایا

بنی نوع کا ان کو رہبر بنایا

***

ہوئی ایسی عادت پہ تعلیم غالب

کہ باطل کے شیدا ہوئے حق کے طالب

مناقب سے بدلے گئے سب مثالب

ہوئے روح سے بہرہ ور ان کے قالب

جسے راج رد کر چکے تھے، وہ پتھر

ہوا جا کے آخر کو قایم سرے پر

***

۳۳

جب امت کو سب مل چکی حق کی نعمت

ادا کر چکی فرض اپنا رسالت

رہی حق پہ باقی نہ بندوں کی حجت

نبی نے کیا خلق سے قصدِ رحلت

تو اسلام کی وارث اک قوم چھوڑی

کہ دنیا میں جس کی مثالیں ہیں تھوڑی

***

سب اسلام کے حکم بردار بندے

سب اسلامیوں کے مددگار بندے

خدا اور بنی کے وفادار بندے

یتیموں کے رانڈوں کے غمخوار بندے

رہِ کفر و باطل سے بیزار سارے

نشہ میں مئے حق کے سرشار سارے

***

جہالت کی رسںیر مٹا دینے والے

کہانت کی بنیاد ڈھا دینے والے

سر احکام دیں پر جھکا دینے والے

خدا کے لیے گھر لٹا دینے والے

ہر آفت میں سینہ سپر کرنے والے

فقط ایک اللہ سے ڈرنے والے

***

۳۴

مسدسِ (۷)

اگر اختلاف ان میں باہم دگر تھا

تو بالکل مدار اس کا اخلاص پر تھا

جھگڑتے تھے لیکن نہ جھگڑوں میں شر تھا

خلاف آشتی سے خوش آیندہ تر تھا

یہ تھی موج پہلی اس آزادگی کی

ہرا جس سے ہونے کو تھا باغ گیتی

***

نہ کھانوں میں تھی واں تکلف کی کلفت

نہ پوشش سے مقصود تھی زیب و زینت

امیر اور لشکر کی تھی ایک صورت

فقیر اور غنی سب کی تھی ایک حالت

لگایا تھا مالی نے اک باغ ایسا

نہ تھا جس میں چھوٹا بڑا کوئی پودا

***

خلیفہ تھے امت کے ایسے نگہباں

ہو گلہ کا جیسے نگہبان چوپاں

سمجھتے تھے ذی و مسلم کو یکساں

نہ تھا عبد و حر میں تقاوت نمایاں

کنیز اور بانو تھی آپس میں ایسی

زمانہ میں ماں جائی بہنیں ہوں جیسی

***

۳۵

رہِ حق میں تھی دوڑ اور بھاگ ان کی

فقط حق پہ تھی جس سے تھی لاگ ان کی

بھڑکتی نہ تھی خود بخود آگ ان کی

شریعت کے قبضہ میں تھی باگ ان کی

جہاں کر دیا نرم نرما گئے وہ

جہاں کر دیا گم، گرما گئے وہ

***

کفایت جہاں چاہیے واں کفایت

سخاوت جہاں چاہیے، واں سخاوت

جچی اور تلی دشمنی اور محبت

نہ بے وجہ الفت نہ بہ بے وجہ نفرت

جھکا حق سے جو، جھک گئے اس سے وہ بھی

رکا حق سے جو، رک گئے اس سے وہ بھی

***

ترقی کا جس دم خیال ان کو آیا

اک اندھیر تھا ربعِ مسکوں میں چھایا

ہر اک قوم پر تھا تنزل کا سایہ

بلندی سے تھا جس نے سب کو گرایا

وہ نیشن جو ہیں آج گردوں کے تارے

دھند لکے میں پستی کے پنہاں تھے سارے

***

۳۶

نہ وہ دور دورہ تھا عبرانیوں کا

نہ یہ بخت و اقبال نصرانیوں کا

پراگندہ دفتر تھا یونانیوں کا

پریشاں تھا شیرازہ ساسانیوں کا

جہاز اہلِ روما کا تھا ڈگمگاتا

چراغ اہلِ ایراں کا تھا ٹمٹماتا

***

ادھر ہند میں ہر طرف تھا اندھیرا

کہ تھا گیان گن کا لدایاں سے ڈیرا

ادھر تھا عجم کو جہالت نے گھیرا

کہ دل سب نے کیش و کنش سے تھا پھیرا

نہ بھگوان ودھیان تھا گیانیوں میں

نہ یزداں پرستی تھی یزدانیوں میں

***

ہوا ہر طرف موجزن تھی بلا کی

گلوں پہ چھری چل رہی تھی جفا کی

عقوبت کی حد تھی نہ پرسش خطا کی

پڑی لٹ رہی تھی ودیعت خدا کی

زمیں پر تھا ابرِ ستم کا دڑیڑا

تباہی میں تھا نوع انساں کا بیڑا

***

۳۷

وہ قومیں جو ہیں آج غمخوار انساں

درندوں کی اور ان کی طینت تھی یکساں

جہاں عدل کے آج جاری ہیں فرماں

بہت دور پہنچا تھا واں ظلم و طغیاں

بنے آج جو گلہ باں ہیں ہمارے

وہ تھے بھیڑئیے آدمی خوار سارے

***

۳۸

مسدسِ (۸)

ہنر کا جہاں گرم بازار ہے اب

جہاں عقل و دانش کا بہورا ہے اب

جہاں ابرِ رحمت گہر بار ہے اب

جہاں ہن برستا لگاتار ہے اب

تمدن کا پیدا نہ تھا واں نشاں تک

سمندر کی آئی نہ تھی موج واں تک

***

نہ رستہ ترقی کا کوئی کھلا تھا

نہ زینہ بلندی پہ کوئی لگا تھا

وہ صحرا انھیں قطع کرنا پڑا تھا

جہاں نقشِ پا تھا نہ شورِ درا تھا

جونہی کان میں حق کی آواز آئی

لگا کرنے خود ان کا دل رہنمائی

***

گھٹا اک پہاڑوں سے بطحا کے اٹھی

پڑی چارسو یک بیک دھوم جس کی

کڑک اور دمک دور دور اس کی پہنچی

جو ٹیکس پہ گرجی تو گنگا پہ برسی

رہے اس سے محروم آبی نہ خاکی

ہری ہو گئی ساری کھیتی خدا کی

***

۳۹

کیا امیوں نے جہاں میں اجالا

ہوا جس سے اسلام کا بول بالا

بتوں کو عرب اور عجم سے نکالا

ہر اک ڈوبتی ناؤ کو جا سنبھالا

زمانہ میں پھیلائی توحید مطلق

لگی آنے گھر گھر سے آواز حق حق

***

ہوا غلغلہ نیکیوں کا بدوں میں

پڑی کھلبلی کفر کی سرحدوں میں

ہوئی آتش افسردہ آتشکدوں میں

لگی خاک سی اڑنے سب معبدوں میں

ہوا کعبہ آباد سب گھر اجڑ کر

جمے ایک جا سارے دنگل بچھڑ کر

***

لیے علم و فن ان سے نصرانیوں نے

کیا کسبِ اخلاق روحانیوں نے

ادب ان سے سیکھا صفاہانیوں نے

کہا بڑھ کے لبیک یزدانیوں نے

ہر اک دل سے رشتہ جہالت کا توڑا

کوئی گھر نہ دنیا میں تاریک چھوڑا

***

۴۰