• ابتداء
  • پچھلا
  • 202 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 48231 / ڈاؤنلوڈ: 1827
سائز سائز سائز
مسدسِ حالی

مسدسِ حالی

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

مسدسِ حالی

الطاف حسین حالی

ماخذ: اردو کی برقی کتاب

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

۳

پہلا دیباچہ

١٢٩٤ ھ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حامد اً و مصلیاً

بلبل کی چمن میں ہم زبانی چھوڑی

بزم شعرا میں شعر خوانی چھوڑی

*

جب سے دل زندہ تو نے ہم کو چھوڑا

ہم نے بھی تری رام کہانی چھوڑی

***

بچپن کا زمانہ جو کہ حقیقت میں دنیا کی بادشاہت کا زمانہ ہے ایک ایسے دلچسپ اور پر فضا میدان میں گزارا جو کلفت کے گرد و غبار سے بالکل پاک تھا ۔ نہ وہاں ریت کے ٹیلے تھے ، نہ خاردار جھاڑیاں تھیں ، نہ آندھیوں کے طوفان تھے ، نہ باد سموم کی لپٹ تھی۔

جب اس میدان سے کھیلتے کودتے آگے بڑھے تو ایک اور صحرا اس سے بھی زیادہ دلفریب نظر آیا جس کے دیکھتے ہی ہزاروں ولولے اور لاکھوں امنگیں خود بخود دل میں پیدا ہو گںیی ۔ مگر یہ صحرا جس قدر نشاط انگیز تھا ۔ اس کی سر سبز جھاڑیوں میں ہولناک درندے چھپے ہوئے تھے اور اس کے خوشنما پودوں پر سانپ اور بچھو لپٹے ہوئے تھے۔ جونہی اس کی حد میں قدم رکھا ہر گوشہ سے شیر و پلنگ اور مارو کژدم نکلے آئے ۔ باغ جوانی کی بہار اگر چہ قابل دید تھی مگر دنیا کی مکروہات سے دم لینے کی فرصت نہ ملی، نہ خود آرائی کا خیال آیا، نہ عشق و جوانی کی ہوا لگی ، نہ وصل کی لذت اٹھائی ، نہ فراق کا مزا چکھا۔

۴

پنہاں تھا دام سخت قریب آشیانے کے

اڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے

***

البتہ شاعری کی بدولت چند روز جھوٹا عاشق بننا پڑا ۔ ایک خیالی معشوق کی چاہ میں برسوں دشت جنوں کی وہ خاک اڑائی کہ قیس و فرہاد کو گرد کر دیا۔ کبھی نالۂ نیم شب سے ربع مسکوں کو بلا ڈالا۔ کبھی چشم دریا بار سے تمام عالم کو ڈبو دیا۔ آہ د فغاں کے شور سے کرو بیوں کے کان بہرے ہو گئے۔شکایتوں کی بوچھاڑ سے زمانہ چیخ اٹھا ۔ طعنوں کی بھر مار سے آسمان چھلنی ہو گیا۔ جب رشک کا تلاطم ہوا تو ساری خدائی کو رقیب سمجھا ۔ یہاں تک کہ آپ اپنے سے بد گمان ہو گئے ۔ جب شوق کا دریا امنڈا تو کشش دل سے جذب مقناطیسی اور قوت کہر بائی کا کام لیا ۔ بارہا تیغ ابرو سے شہید ہوئے اور بارہا ایک ٹھوکر سے جی اٹھے۔ گویا زندگی ایک پیرا ہن تھا کہ جب چاہا اتار دیا اور جب چاہا پہن لیا۔ میدان قیامت میں اکثر گزرا ہوا۔ بہتد و دوزخ کی اکثر سیر کی۔ بادہ نوشی پر آئے تو خم کے خم لنڈھا دئیے اور پھر بھی سیر نہ ہوئے۔ کبھی خانۂ خمار کی چوکھٹ پر جبہ سائی کی ۔ کبھی مے فروش کے در پر گدائی کی۔ کفر سے مانوس رہے ایمان سے بیزار رہے۔ پیر مغاں کے ہاتھ پر بیعت کی ۔ برہمنوں کے چیلے بنے۔ بت پوجے ۔ سنار باندھا۔ قشقہ لگایا ۔ زاہدوں پر پھبتیاں کہیں ۔ واعظوں کا خاکہ اڑایا ۔ دیر اور بت خانہ کی تعظیم کی۔ کعبہ اور مسجد کی توہین کی ۔ خدا سے شوخیاں کیں ۔ نبیوں سے گستاخیاں کیں ۔ اعجاز مسیحی کو ایک کھیل جانا۔ حسن یوسفی کو ایک تماشا سمجھا ۔ غزل کہی تو پاک شہدوں کی بولیاں بولیں ۔ قصیدہ لکھا تو بھاٹ اور باد خوانوں کے منہ پھیر دیئے ۔ ہر مشت خاک میں اکسیر اعظم کے خواص بتلائے ، ہر چوب خشک میں عصائے موسوی کے کرشمے دکھائے۔ ہر نمرود وقت کو ابراہیم خلیل سے جا ملایا۔ ہر فرعون بے سامان کو قادر مطلق سے جا بھڑایا۔ جس کے مداح بنے اسے ایسا بانس پر چڑھایا کہ خود ممدوح کو اپنی تعریف میں کچھ مزا نہ آیا ۔ غرض نامۂ اعمال ایسا سیاہ کیا کہ کہیں سفید باقی نہ چھوڑی۔

۵

چو پرسش گنہم روز حشر خواہد بود

تمسکات گناہان خلق پارہ کنند

***

بیس برس کی عمر سے چالیسویں سال تک تیلی کے بیل کی طرح اسی ایک چکر میں پھرتے رہے اور اپنے نزدیک سارا جہاں طے کر چکے ۔ جب آنکھیں کھیلیں تو معلوم ہوا کہ جہاں سے چلے تھے اب تک وہیں ہیں ۔

شکست رنگ شباب و ہنوز رعنائی

در آں دیار کہ زاوی ہنوز آنجائی

***

نگاہ اٹھا کر دیکھا تو دائیں بائیں آگے پیچھے ایک میدان وسیع نظر آیا جس میں بے شمار راہیں چاروں طرف کھلی ہوئی تھیں اور خیال کے لیے کہیں عرصہ تنگ نہ تھا۔ جی میں آیا کہ قدم آگے بڑھائیں اور اس میدان کی سیر کریں مگر جو قدم بیس برس تک ایک چال سے دوسری چال نہ چلے ہوں اور جن کی دوڑ گز دو گز زمین میں محدود رہی ہو ان سے اس وسیع میدان میں کام لینا آسان نہ تھا۔ اس کے سوا بیس برس کی بیکار اور نکمی گردش میں ہاتھ پاؤں چور ہو گئے تھے اور طاقت رفتار جواب دے چکی تھی ۔ لیکن پاؤں میں چکر تھا اس لیے نچلا بیٹھنا بھی دشوار تھا ۔ چند روز اسی تردد میں یہ حال رہا کہ ایک قدم آگے پڑتا تھا دوسرا پیچھے ہٹتا تھا۔ ناگاہ دیکھا کہ ایک خدا کا بندہ جو اس میدان کا مرد ہے ایک دشوار گزار رستے میں رہ نورد رہے ۔ بہت سے لوگ جو اس کے ساتھ چلے تھے تھک کر پیچھے رہ گئے ہیں ۔ بہت سے ابھی اس کے ساتھ افتاں و خیزاں چلے جاتے ہیں ۔ مگر ہونٹوں پر پیڑیاں جمی ہیں ۔ پیروں میں چھالے پڑے ہیں ۔ دم چڑھ رہا ہے ۔ چہرہ پر ہوائیاں اڑ رہی ہیں ۔ لیکن وہ اولو العزم آدمی جوان سب کا رہنما ہے ۔ اسی طرح تازہ دم ہے ۔ نہ اسے رستے کی تکان ہے نہ ساتھیوں کے چھوٹ جانے کی پروا ہے ۔نہ منزل کی دوری سے کچھ ہر اس ہے۔ اس کی چتون میں غضب کا جادو بھرا ہے کہ جس کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھتا ہے وہ آنکھیں بند کر کے اسی کے ساتھ ہو لیتا ہے

۶

اس کی ایک نگاہ ادھر بھی پڑی اور اپنا کام کر گئی۔ بیس برس کے تھکے ہارے خستہ و کوفتہ اسی دشوار گزار رستہ پر پڑ لیے ۔ نہ یہ خبر ہے کہاں جاتے ہیں نہ یہ معلوم ہے کہ کیوں جاتے ہیں ۔ نہ طلب صادق ہے نہ قدم راسخ ہے نہ عزم ہے نہ استقلال نہ صدق ہے نہ اخلاص ہے مگر ایک زبردست ہاتھ ہے کہ کھینچے لیے چلا جاتا ہے۔

آں دل کہ رم نمودے از خو بروں جواناں دیرینہ سال پیرے بردس بیک نگاہے

زمانہ کا نیا ٹھاٹھ دیکھ کر پرانی شاعری سے دل سیر ہو گیا تھا اور جھوٹے ڈھکوسلے باندھنے سے شرم آنے لگی تھی۔ نہ یاروں کے ابھاروں سے دل بڑھتا تھا ۔ نہ ساتھیوں کی ریس سے کچھ جوش آتا تھا ۔ مگر یہ ایک ناسور کا منہ بند کرنا تھا جو کسی نہ کسی راہ سے تراوش کیے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ اس لیے بخارات درونی جن کے رکنے سے دم گھٹا جاتا تھا ، دل و دماغ میں تلاطم کر رہے تھے ۔ اور کوئی رخنہ ڈھونڈتے تھے ۔ قوم کے ایک سچے خیر خواہ نے ( جو اپنی قوم کے سوا تمام ملک میں اسی نام سے پکارا جاتا ہے اور جس طرح خود اپنے پر زور ہاتھ اور قوی بازو سے بھائیوں کی خدمت کر رہا ہے ۔ اسی طرح ہر اپاہج اور نکمے کو اسی کام میں لگانا چاہتا ہے )

آ کر ملامت کی اور غیرت دلائی کہ حومان ناطق ہونے کا دعویٰ کرنا اور خدا کی دی ہوئی زبان سے کچھ کام نہ لینا بڑے شرم کی بات ہے ۔

روچو انسان لب بجبنباں در دہن

در جمادی لاف انسانی مزن

***

۷

قوم کی حالت تباہ ہے ۔ عزیز ذلیل ہو گئے ہیں ۔ شریف خاک میں مل گئے ہیں ۔ علم کا خاتمہ ہو چکا ہے ۔ دین کا صرف نام باقی ہے ۔ افلاس کی گھر گھر پکار ہے ۔ پیٹ کی چاروں طرف دہائی ہے ۔ اخلاق بالکل بگڑ گئے ہیں اور بگڑتے جاتے ہیں ۔ تعصب کی گھنگھور گھٹا تمام قوم پر چھائی ہوئی ہے ۔ رسم و رواج کی بیٹی ایک ایک کے پاؤں پہنچا سکتے ہیں غافل اور بے پروا ہیں ۔ علماء جن کو قوم کی اصلاح میں بہت بڑا دخل ہے زمانہ کی ضرورتوں اور مصلحتوں سے ناواقف ہیں ۔ ایسے میں جس سے جو کچھ بن آئے تو بہت ہے ورنہ ہم سب ایک ہی ناؤ میں سوار ہیں اور ساری ناؤ کی سلامتی میں ہماری سلامتی ہے ۔ ہر چند لوگ بہت کچھ لکھ چکے ہیں اور لکھ رہے ہیں ۔ مگر نظم جو کہ بالطبع سب کو مرغوب ہے اور خاص کر عربوں کا ترکہ اور مسلمانوں کا موروثی حصہ ہے قوم کے بیدار کرنے کے لیے اب تک کسی نے نہیں لکھی ۔ اگر چہ ظاہر ہے کہ اور تدبیروں سے کیا ہوا جو اس تدبیر سے ہو گا ۔ مگر ایسی تنگ حالتوں میں انسان کے دل پر ہمیشہ دو طرح کے خیال گزرتے رہے ہیں ۔ ایک یہ کہ ہم کچھ نہیں کر سکتے ۔ دوسرے یہ کہ ہم کچھ کرنا چاہیے ۔ پہلے خیال کا یہ نتیجہ ہوا کہ کچھ نہ ہوا ۔ اور دوسرے خیال سے دنیا میں بڑے عجائبات ظاہر ہوئے ۔

در فیض ست منشیں از کشائش ناامید ایں جا برنگ دانہ از ہر قفل می روید کلید ایں جا

" اور وہ ایسا خدا ہے کہ جب لوگ نا امید ہو جاتے ہیں تو مینہ برسات ہے اور اپنی رحمت پھیلاتا ہے "

ہر چند اس حکم کی بجا آوری مشکل تھی اور خدمت کا بوجھ اٹھانا دشوار تھا ۔ مگر ناصح کی جادو بھری تقریر جی میں گھر کر گئی ۔ دل سے ہی نکلی تھی دل میں جا کر ٹھہری ۔برسوں کی بجھی ہوئی طبعیت میں ایک ولولہ پیدا ہوا۔ اور باسی کڑھی میں ایک ابال آیا ۔ افسردہ دل بوسیدہ دماغ جو امراض کے متواتر حملوں سے کسی کام کے نہ رہے تھے انہیں سے کام لینا شروع کیا اور ایک مسدس کی بنیاد ڈالی۔ دنیا کے مکروہات سے فرصت بہت کم ملی ۔ اور بیمار یوں کے ہجوم سے اطمینان کبھی نصیب نہ ہوا مگر ہر حال میں یہ دھن لگی رہی۔ بارے الحمد للہ کہ بہت سے وقتوں کے بعد ایک ٹوٹی پھو ٹی نظم اس عاجز بندہ کی بساط کے موافق تیار ہو گئی ۔ اور ناصح مشفق سے شرمندہ نہ ہونا پڑا ۔ صرف ایک امید کے سہارے پر یہ راہ دور دراز طے کی گئی ہے ۔ ورنہ منزل کا نشان نہ اب تک ملا ہے اور نہ آئندہ ملنے کی توقع ہے ۔

۸

خبر نیست کہ منزل گہ مقصود کجاست

ایں قدر ہست کہ بانگ جر سے مے آید

***

اس مسدس کے آغاز میں پان سات بند تمہید کے لکھ کر اول عرب کی اس ابتر حالت کا خاکہ کوکب اسلام کا طلوع ہونا اور نبی امی کی تعلیم سے اس ریگستان کا دفعتاً سر سزک و شاداب ہو جانا اور اس ابر رحمت کا امت کی کھیتی کو رحلت کے وقت ہر ابھرا چھو ڑ جانا اور مسلمانوں کا دینی و دنیوی ترقیات میں تمام عالم پر سبقت لے جانا بیان کیا ہے ۔ اس کے بعد ان کے تنزل کا حال کھا ہے اور قوم کے لیے اپنے بے ہنر ہاتھوں سے ایک آئینہ خانہ بنایا ہے جس میں آ کر وہ اپنے خط و خال دیکھ سکتے ہیں کہ ہم کون تھے اور کیا ہو گئے ۔ اگر چہ اس جانکاہ نظم میں جس کی دشواریاں لکھنے والے کا دل اور دماغ ہی خوب جانتا ہے بیان کا حق نہ مجھ سے ادا ہوا ہے اور نہ ہو سکتا ہے ۔ مگر شکر ہے کہ جس قدر رہو گیا اتنی بھی امید نہ تھی ۔ ہمارے ملک کے اہل مذاق ظاہراً اس روکھی پھیکی سیدھی سادی نظم کو پسند نہ کریں گے ۔ کیونکہ اس میں تاریخی واقعات ہیں چند آیتوں اور حدیثوں کا ترجمہ ہے یا جو آج کل قوم کی حالت ہے ، اس کا صحیح صحیح نقشہ کھینچا گیا ہے ۔ نہ کہیں نازک خیالی ہے ، نہ رنگیں بیانی ، نہ مبالغہ کی چاٹ ہے ، نہ تکلف کی چاشنی ہے ، غرض کوئی بات ایسی نہیں ہے جس سے اہل وطن کے کان مانوس اور مذاق آشنا ہوں اور کوئی کرشمہ ایسا نہیں ہے کہ لاعین راَت ولا اذنٌ سمعت ولا خطر علی قلب بشر (نہ کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کسی کان نے سنا، نہ کسی بشر کے دل میں گزارا) گویا اہل دہلی و لکھنؤ کی دعوت میں ایک ایسا دستر خوان چنا گیا ہے جس میں ابالی کھچڑی اور بے مرچ سالن کے سوا کچھ نہیں مگر اس نظم کی ترتیب مزے لینے اور وہ واہ سننے کیلیے نہیں کی گئی ۔ بلکہ عزیزوں اور دوستوں کو غیرت اور شرم دلانے کے لیے کی گئی ہے ۔ اگر دیکھیں اور پڑھیں اور سمجھیں تو ان کا احسان ہے ورنہ کچھ شکایات نہیں ۔

حافظ وظیفۂ تو دعا گفتن است و بس

در بند آں مباش کہ تشنید یا شنید

***

۹

دوسرا دیباچہ

متعلق بہ ضمیمہ

١٣٠٣ ھ

حدیث درد دلآویز داستانے ہست

کہ ذوق بیش دہ چوں دراز تر گردو

***

مسدس مدو جز را سلام اول ہی اول ١٢٩٤ ھ میں چھپ کر شائع ہوا تھا ۔ اگر چہ اس نظم کی اشاعت سے شاید کوئی معتدبہ فائدہ سوسائٹی کو نہیں پہنچا ۔ مگر چھ برس میں جس قدر قبولیت و شہر ت اس نظم کو اطراف ہندوستان میں ہوئی وہ فی الواقع تعجب انگیز ہے ۔ نظم بالکل غیر مانوس تھی اور مضمون اکثر طعن و ملامت پر مشتمل تھے ۔ قوم کی برائیاں چن چن کر ظاہر کی گئی تھیں اور زبان سے تیغ و سناں کا کام لیا گیا تھا۔ ناظم کی نسبت قوم کے اکثر ابرار و اخیار مذہبی سو ء ظن رکھتے تھے۔ تعصب عموماً کلمہ حق سننے سے مانع تھا۔ با ایں ہمہ اس تھوڑی سی مدت میں یہ نظم ملک کے اطراف و جوانب میں پھیل گئی ۔ ہندوستان کے مختلف اضلاع میں اس کے ساتھ آٹھ ایڈیشن اب سے پہلے شائع ہو چکے ہیں ۔ بعض قومی مدرسوں میں اس کا انتخاب بچوں کو پڑھایا جاتا ہے ۔ مولود شریف کی مجلسوں میں جا بجا اس کے بند پڑھے جاتے ہیں ۔ اکثر لوگ اس کو پڑھ کر بے اختیار روتے اور آنسو بہاتے ہیں ۔ اس کے بہت سے بند ہمارے واعظوں کی زبان پر جاری ہیں ۔ کہیں کہیں قومی ناٹک میں اس کے مضامین ایکٹ کیے جاتے ہیں ۔ بہت سے مسدس اسی کی روش پر اسی بحر میں ترتیب دیئے گئے ہیں ۔ اکثر اخباروں میں موافق و مخالف ریویو اس پر لکھے گئے ہیں ۔ شمال مغربی اضلاع کے سرکاری مدارس میں عام قبولیت کی وجہ سے اس کو تعلیم میں دخل کر دیا گیا ہے ۔ یہ او ر اسی قسم کی اور بہت سی باتیں ایسی ہیں جس سے معلوم ہو تا ہے کہ قوم کے دل میں متاثر ہونے کا مادہ نہ ہوتا تو یہ اور ایسی ایسی ہزار نظمیں بے کار تھیں ۔ پس مصنف کو اگر فخر ہے تو صرف اس بات پت ہے کہ اس نے زمین گردانا ہے جو بے راہ ہے پر گمراہ نہیں ہے وہ رستے سے بھٹکے ہوئے میں مگر رستے کی تلاش میں چپ دراست نگراں ہیں ۔ اس کے ہنر مفقود ہو گئے ہیں مگر قابلیت موجود ہے ۔

۱۰

ان کی صورت بدل گئی ہے ۔ مگر ہیولیٰ باقی ہے ۔ ان کے قویٰ مضمحل ہو گئے ۔ مگر زائل نہیں ہوئے ۔ ان کے جوہر مٹ گئے ہیں مگر جلا سے پھر نمو دار ہو سکتے ہیں ۔ ان کے عیبوں میں خوبیاں بھی ہیں مگر چھپی ہوئی ۔ ان کے خاکستر میں چنگاریاں بھی ہیں مگر دبی ہوئی ۔

یہ نظم جس میں قوم کی گزشتہ اور موجودہ حالت کا صحیح صحیح نقشہ کھینچا مد نظر تھا اگرچہ مشرق کی عام نظموں کی نسبت مبالغہ سے خالی تھی ۔ لیکن فرو گذاشت سے خالی نہ تھی ۔ دوست کی نگاہ نکتہ چینی اور خوردہ گیری میں وہی کام کرتی ہے جو دشمن کی نگاہ کر تی ہے ۔ دونوں یکساں عیبوں پر خوردہ گیری اور چشم پوشی کرتے ہیں ۔ مگر دشمن اس غرض سے کہ عیب ظاہر ہوں اور خوبیاں مخفی رہیں ۔ اور دوست اس خوف سے کہ مبادا خوبیوں کا غرور عیبوں کی اصلاح سے باز رکھے ۔ مصنف بھی جو کہ دوستی کا دم بھرتا ہے شاید محبت اور دلسوزی ہی سے قوم کی عیب جوئی پر مجبور ہوا اور ہنر گستری سے معذور رہا ۔ مگر بھڑک بھڑک کر بجھ گئی تھی ۔ اور اس کی افسردگی الفاظ میں سرایت کر گئی تھی۔ نظم کا خاتمہ ایسے دل شکن اشعار پر ہوا جن سے تمام امیدیں منقطع ہو گںیو اور تمام کوشش رائیگاں نظر آنے لںیس ۔ شاید اس خرابی کا تدارک کچھ نہ ہو سکتا اگر قوم کی توجہ مصنف کے دل میں یاک نئی تحریک پیدا نہ کرتی اور قوم کو ایک نئے خطاب کا مستحق نہ ٹھریاتی ۔ گو قوم نہیں بدلی مگر اس کے تیور بدلتے جاتے ہیں ۔ پس اگر تحسین کا وقت نہیں آیا تو نفرین ضرور کم ہونی چاہیے ۔ بعض احباب کی تحریک نے ان خیالات کی تائید کی اور ایک ضمیمہ مقتضائے حال کے موافق اصل مسدس کے آخر میں لاحق کیا گیا ۔ ضمیمہ کو طول دینا مصنف کا مقصود نہ تھا لیکن اس مضمون کو چھیڑ کر طول سے بچنا ایسا ہی مشکل تھا جیسے سمندر میں کود کر ہاتھ پاؤں نہ مارنا۔

قدیم مسدس میں جستہ جستہ تصرف کیا گیا ہے ۔ شاید بعض تصرفات کو ناظرین اس وجہ سے کہ قدیم اسلوب مانوس ہو گیا تھا پسند نہ کریں ۔ مگر مصنف کا فرض تھا کہ دوستوں کی ضیافت میں کوئی ایسی چیز پیش نہ کرے جو خود اس کے مذاق میں ناگوار معلوم ہو ۔ نظم نہ پہلے پسند کے قابل تھی اور نہ اب ہے۔ مگر الحمد اللہ کہ درد اور سچ پہلے بھی تھا اور اب بھی ہے امید ہے کہ درد پھیلے گا اور سچ چمکے گا :

ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم

۱۱

رباعی

پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے

اسلام کا گر کر نہ ابھرنا دیکھے

مانے نہ کبھی کہ مد ہے ہر جزر کے بعد

دریا کا ہمارے جو اترنا دیکھے

***

۱۲

مسدس (۱)

کسی نے یہ بقراط سے جا کے پوچھا

مرض تیرے نزدیک مہلک ہیں کیا کیا

کہا " دکھ جہاں میں نہیں کوئی ایسا

کہ جس کی دوا حق نے کی ہو نہ پیدا

مگر وہ مرض جس کو آسان سمجھیں

کہے جو طبیب اس کو ہذیان سمجھیں

***

سبب یا علامت گر ان کو سجھائیں

تو تشخیص میں سو نکالیں خطائیں

دوا اور پرہیز سے جی چرائیں

یونہی رفتہ رفتہ مرض کو بڑھائیں

طبیبوں سے ہر گز نہ مانوس ہوں وہ

یہاں تک کہ جینے سے مایوس ہوں وہ"

***

یہی حال دنیا میں اس قوم کا ہے

بھنور میں جہاز آ کے جس کا گھرا ہے

کنارہ ہے دور اور طوفان بپا ہے

گماں ہے یہ ہر دم کہ اب ڈوبتا ہے

نہیں لیتے کروٹ مگر اہلِ کشتی

پڑے سوتے ہیں بے خبر اہلِ کشتی

***

۱۳

گھٹا سر پہ ادبار کی چھار رہی ہے

فلاکت سماں اپنا دکھلا رہی ہے

نحوست پس و پیش منڈلا رہی ہے

چپ و راست سے یہ صدا آ رہی ہے

کہ کل کون تھے آج کیا ہو گئے تم

ابھی جاگتے تھے ابھی سو گئے تم

***

پر اس قومِ غافل کی غفلت وہی ہے

تنزل پہ اپنے قناعت وہی ہے

ملے خاک میں رعونت وہی ہے

ہوئی صبح اور خوابِ راحت وہی ہے

نہ افسوس انہیں اپنی ذلت پہ ہے کچھ

نہ رشک اور قوموں کی عزت پہ ہے کچھ

***

بہائم کی اور ان کی حالت ہے یکساں

کہ جس حال میں ہیں اسی میں ہیں شاداں

نہ ذلت سے نفرت نہ عزت کا ارماں

نہ دوزخ سے ترساں نہ جنت کے خواں

لیا عقل و دیں سے نہ کچھ کام انھوں نے

کیا دینِ برحق کو بدنام انھوں نے

***

۱۴

وہ دیں جس نے اعدا کو اخواں بنایا

وحوش اور بہائم کو انساں بنایا

درندوں کو غمخوارِ دوراں بنایا

گڈریوں کو عالم کا سلطان بنایا

وہ خط جو تھا ایک ڈھوروں کا گلہ

گراں کر دیا اس کا عالم سے پلہ

***

۱۵

مسدسِ (۲)

عرب جس کا چرچا ہے یہ کچھ وہ کیا تھا

جہاں سے الگ اک جزیرہ نما تھا

زمانہ سے پیوند جس کا جدا تھا

نہ کشور ستاں تھا، نہ کشور کشا تھا

تمدن کا اس پر پڑا تھا نہ سایا

ترقی کا تھا واں قدم تک نہ آیا

***

نہ آب و ہوا ایسی تھی روح پرور

کہ قابل ہی پیدا ہوں خود جس سے جوہر

نہ کچھ ایسے سامان تھے واں میسر

کنول جس سے کھل جائی دل کے سراسر

نہ سبزہ تھا صحرا میں پیدا نہ پانی

فقط آبِ باراں پہ تھی زندگانی

***

زمیں سنگلاخ اور ہوا آتش افشاں

لوؤں کی لپٹ بادِ صرصر کے طوفاں

پہاڑ اور ٹیلے سراب اور بیاباں

کھجوروں کے جھنڈ اور خارِ مغیلاں

نہ کھیتوں میں غلہ نہ جنگل میں کھیتی

عرب اور کل کائنات اس کی یہ تھی

***

۱۶

نہ واں مصر کی روشنی جلوہ گر تھی

نہ یونان کے علم و فن کی خبر تھی

وہی اپنی فطرت پہ طبع بشر تھی

خدا کی زمیں بن جتی سر بسر تھی

پہاڑ اور صحرا میں ڈیرا تھا سب کا

تلے آسماں کے بسیرا تھا سب کا

***

کہیں آگ پجتی تھی واں بے محابا

کہیں تھا کواکب پرستی کا چرچا

بہت سے تھے تثلیث پر دل سے شیدا

بتوں کا عمل سو بسو جا بچا تھا

کرشموں کا راہب کے تھا صید کوئی

طلسموں میں کاہن کے تھا قید کوئی

***

وہ دنیا میں گھر سب سے پہلا خدا کا

خلیل ایک معمار تھا جس بنا کا

ازل میں مشیت نے تھا جس کو تا کا

کہ اس گھر سے ابلے گا چشمہ بدی کا

وہ تیرتھ تھا اک بت پرستوں کا گو یہ

جہاں نامِ حق کا نہ تھا کوئی جویا

***

۱۷

قبیلے قبیلے کا بت اک جدا تھا

کسی کا ہبل تھا کسی کا صفا تھا

یہ عزا پہ وہ نائلہ پر فدا تھا

اسی طرح گھر گھر نیا اک خدا تھا

نہاں ابرِ ظلمت میں تھا مہرِ انور

اندھیرا تھا فاران کی چوٹیوں پر

***

چلن ان کے جتنے تھے سب وحشیانہ

ہر اک لوٹ اور مار میں تھا یگانہ

فسادوں میں کٹتا تھا ان کا زمانہ

نہ تھا کوئی قانون کا تازیانہ

وہ تھے قتل و غارت میں چالاک ایسے

درندے ہوں جنگل میں بے باک جیسے

***

نہ ٹلتے تھے ہر گز جو اڑ بیٹھتے تھے

سلجھتے نہ تھے جب جھگڑ بیٹھتے تھے

جو وہ شخص آپس میں لڑ بیٹھتے تھے

تو صدہا قبیلے بگڑ بیٹھتے تھے

بلند ایک ہوتا تھا گر واں شرارا

تو اس سے بھڑک اٹھتا تھا ملک سارا

***

۱۸

بہ بکر اور تغلب کی باہم لڑائی

صدی جس میں آدھی انھوں نے گنوائی

قبیلوں کی گردی تھی جس نے صفائی

تھی اک آگ ہر سو عرب میں لگائی

نہ جھگڑا کوئی ملک و دولت کا تھا وہ

کرشمہ اک ان کی جہالت کا تھا وہ

***

۱۹

مسدسِ (۳)

کہیں تھا مویشی چرانے پہ جھگڑا

کہیں پہلے گھوڑا بڑھانے پہ جھگڑا

لبِ جو کہیں آنے جانے پہ جھگڑا

کہیں پانی پینے پلانے پہ جھگڑا

یونہی روز ہوتی تھی تکرار ان میں

یونہی چلتی رہتی تھی تلوار ان میں

***

جو ہوتی تھی پیدا کسی گھر میں دختر

تو خوفِ شماتت سے بے رحم مادر

پھرے دیکھتی جب تھی شوہر کے تیور

کہیں زندہ گاڑ آتی تھی اس کو جا کر

وہ گود ایسی نفرت سے کرتی تھی خالی

جنے سانپ جیسے کوئی جننے والی

***

جوا ان کی دن رات کی دل لگی تھی

شراب ان کی گھٹی میں گویا پڑی تھی

تعیش تھا غفلت تھی، دیوانگی تھی

غرض ہر طرح ان کی حالت بری تھی

بہت اس طرح ان کو گزری تھیں صدیاں

کہ چھائی ہوئی نیکیوں پر تھی بدیاں

***

۲۰