• ابتداء
  • پچھلا
  • 202 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 49444 / ڈاؤنلوڈ: 1937
سائز سائز سائز
مسدسِ حالی

مسدسِ حالی

مؤلف:
اردو

ارسطو کے مردہ فنوں کو جلایا

فلاطون کو زندہ پھر کر دکھایا

ہر اک شہر و قریہ کو یوناں بنایا

مزا علم و حکمت کا سب کو چکھایا

کیا برطرف پردہ چشمِ جہاں سے

جگایا زمانے کو خوابِ گراں سے

***

ہر اک میکدے سے بھرا جا کے ساغر

ہر اک گھاٹ سے آئے سیراب ہو کر

گرے مثلِ پروانہ ہر روشنی پر

گرہ میں لیا باندھ حکم پیمبر

کہ" حکمت کو اک گم شدہ مال سمجھو

جہاں پاؤ اپنا اسے مال سمجھو"

***

ہر اک علم کے فن کے جویا ہوئے وہ

ہر اک کام میں سب سے بالا ہوئے وہ

فلاحت میں بے مثل و یکتا ہوئے وہ

سیاحت میں مشہورِ دنیا ہوئے وہ

ہر اک ملک میں ان کی پھیلی عمارت

ہر اک قوم نے ان سے سیکھی تجارت

***

۴۱

کیا جا کے آباد ہر ملک ویراں

مہیا کیے سب کی راحت کے ساماں

خطرناک تھے جو پہاڑ اور بیاباں

انہیں کر دیا رشکِ صحنِ گلستاں

بہار اب جو دنیا میں آئی ہوئی ہے

یہ سب پودا انہی کی لگائی ہوئی ہے

***

۴۲

مسدسِ (۹)

یہ ہموار سڑکیں یہ راہیں مصفا

دو طرفہ برابر درختوں کا سایا

نشاں جا بجا میل و فرسخ کے برپا

سرِ رہ کنوئیں اور سرائیں مہیا

انہی کے ہیں سب نے یہ چربے اتارے

اسی قافلہ کے نشاں ہیں یہ سارے

***

سدا ان کو مرغوب سیر و سفر تھا

ہر اک بر اعظم میں ان کا گزر تھا

تمام ان کا چھانا ہوا بحر و بر تھا

جو لنکا میں ڈیرا تو بربر میں گھر تھا

وہ گنتے تھے یکساں وطن اور سفر کو

گھر اپنا سمجھتے تھے ہر دشت و در کو

***

جہاں کو ہے یاد ان کی رفتار اب تک

کہ نقشِ قدم ہیں نمودار اب تک

ملایا میں ہیں ان کے آثار اب تک

انہیں رو رہا ہے ملیبار اب تک

ہمالہ کو ہیں واقعات ان کے ازبر

نشاں ان کے باقی ہیں جبرالٹر پر

***

۴۳

نہیں اس طبق پر کوئی بر اعظم

نہ ہوں جس میں ان کی عمارت محکم

عرب، ہند، مصر، اندلس ، شام، ویلم

بناؤں سے ہیں ان کی معمور عالم

سرِ کوہِ آدم سے تا کوہِ بیضا

جہاں جاؤ گے کھوج پاؤ گے ان کا

***

وہ سنگیں محل اور وہ ان کی صفائی

جمی جن کے کھنڈروں پہ ہے آج کائی

وہ مرقد کی گنبد تھے جن کے طلائی

وہ معبد جہاں جلوہ گر تھی خدائی

زمانہ نے گو ان کی برکت اٹھا لی

نہیں کوئی ویرانہ پر ان سے خالی

***

ہوا اندلس ان سے گلزار یکسر

جہاں ان کے آثار باقی ہیں اکثر

جو چاہے کوئی دیکھ لے آج جا کر

یہ ہے بیت حمرا کی گویا زباں پر

کہ تھے آلِ عدنان سے میرے بانی

عرب کی ہوں میں اس زمیں پر نشانی

***

۴۴

ہویدا ہے غرناطہ ہے شوکت ان کی

عیاں ہے بلنسیہ سے قدرت ان کی

بطلیوس کو یا دہے عظمت ان کی

ٹپکتی ہے قادس میں سر حسرت ان کی

نصیب ان کا اشبیلیہ میں ہے سوتا

شب و روز ہے قرطبہ ان کو روتا

***

کوئی قرطبہ کے کھنڈر جا کے دیکھے

مساجد کے محراب و در جا کے دیکھے

حجازی امیروں کے گھر جا کے دیکھے

خلافت کو زیر و زبر جا کے دیکھے

جلا لا ان کا کھنڈروں میں ہے یوں چمکتا

کہ ہو خاک میں جیسے کندن دمکتا

***

وہ بلدہ کہ فخرِ بلادِ جہاں تھا

ترو خشک پر جس کا سکہ رواں تھا

گڑا جس میں عباسیوں کا نشاں تھا

عراقِ عرب جس سے رشکِ جناں تھا

اڑا لے گئی بادِ پندار جس کو

بہا لے گئی سیلِ تاتار جس کو

***

۴۵

سنے گوشِ عبرت سے گرجا کے انساں

تو واں ذرہ ذرہ یہ کرتا ہے اعلاں

کہ تھا جن دنوں مہرِ اسلام تاباں

ہوا یاں کی تھی زندگی بخش دواں

پڑی خاک ایتھنز میں جاں یہیں سے

ہوا زندہ پھر نام یوناں یہیں سے

***

۴۶

مسدسِ (۱۰)

وہ لقمان و سقراط کے دُرِ مکنوں

وہ اسرارِ بقراط و درسِ فلاطوں

ارسطو کی تعلیم سولن کے قانوں

پڑے تھے کسی قبر کہنہ میں مدفوں

یہیں آ کے مہرِ سکوت ان کی ٹوٹی

اسی باغِ رعنا سے بو ان کی پھوٹی

***

یہ تھا علم پر واں توجہ کا عالم

کہ ہو جیسے مجروح جویائے مرہم

کسی طرح پیاس ان کی ہوتی نہ تھی کم

بجھاتا تھا آگ ان کی باراں نہ شبنم

حریمِ خلافت میں اونٹوں پہ لد کر

چلے آتے تھے مصر و یوناں کے دفتر

***

وہ تارے جو تھے شرق میں لمعہ افگن

پہ تھا ان کی کرنوں سے تا غرب روشن

نوشتوں سے ہیں جن کے اب تک مزین

کتب خانۂ پیرس و روم و لندن

پڑا غلغلہ جن کا تھا کشوروں میں

وہ سوتے ہیں بغداد کے مقبروں میں

***

۴۷

وہ سنجار کا اور کوفہ کا میداں

فراہم ہوئے جس میں مساحِ دوراں

کرہ کی مساحت کے پھیلائے ساماں

ہوئی جزو سے قدر کل کی نمایاں

زمانہ وہاں آج تک نوح گر ہے

کہ عباسیوں کی سبھا وہ کدھر ہے

***

سمر قند سے اندلس تک سراسر

انھی کی رصدگاہیں تھیں جلوہ گستر

سوادِ مراغہ میں اور قاسیوں پر

زمیں سے صدا آ رہی ہے برابر

کہ جن کی رصد کے یہ باقی نشاں ہیں

وہ اسلامیوں کے منجم کہاں ہیں

***

مورخ جو ہیں آج تحقیق والے

تفحص کے ہیں جن کے آئیں نرالے

جنہوں نے ہیں عالم کے دفتر کھنگالے

زمیں کے طبق سر بسر چھان ڈالے

عرب ہی نے دل ان کے جا کر ابھارے

عرب ہی سے وہ بھرنے سیکھے ترارے

***

۴۸

اندھیرا تواریخ پر چھا رہا تھا

ستارہ روایت کا گہنا رہا تھا

درایت کے سورج پہ ابر آ رہا تھا

شہادت کا میدان دھندلا رہا تھا

سرِ رہ چراغ اک عرب نے جلایا

ہر اک قافلہ کا نشاں جس سے پایا

***

گروہ ایک جو یا تھا علمِ نبی کا

لگایا پتا جس نے ہر مفتری کا

نہ چھوڑا کوئی رخنہ کذبِ خفی کا

کیا قافیہ تنگ ہر مدعی کا

کیے جرح و تعدیل کے وضع قانوں

نہ چلنے دیا کوئی باطل کا افسوس

***

اسی دھن میں آساں کیا ہر سفر کو

اسی شوق میں طے کیا بحر و بر کو

سنا خازنِ علم دیں جس بشر کو

لیا اس سے جا کر خبر اور اثر کو

پھر آپ اس کو پرکھا کسوٹی پہ رکھ کر

دیا اور کو کود مزا اس کا چکھ کر

***

۴۹

کیا فاش راوی میں جو عیب پایا

مناقب کو چھانا مثالب کو تایا

مشائخ میں جو قبح نکلا جتایا

ائمہ میں جو داغ دیکھا، بتایا

طلسم ورع ہر مقدس کا توڑا

نہ ملا کو چھوڑا نہ صوفی کو چھوڑا

***

۵۰

مسدسِ (۱۱)

رجال اور اسانید کے جو ہیں دفتر

گواہ ان کی آزادگی کے ہیں یکسر

نہ تھا ان کا احساں یہ اک اہلِ دیں پر

وہ تھے اس میں ہر قوم و ملت کے رہبر

لبرٹی میں جو آج فائق ہیں سب سے

بتائیں کہ لبرل بنے ہیں وہ کب سے

***

فصاحت کے دفتر تھے سب گاؤ خوردہ

بلاغت کے رستے تھے سب نا سپردہ

ادھر روم کی شمع انشا تھی مردہ

ادھر آتشِ پارسی تھی فسردہ

یکایک جو برق آ کے چمکی عرب کی

کھلی کی کھلی رہ گئی آنکھ سب کی

***

عرب کی جو دیکھی وہ آتش زبانی

سنی بر محل ان کی شیوا بیانی

وہ اشعار کی دل میں ریشہ دوانی

وہ خطبوں کی مانند دریا روانی

وہ جادو کے جملے وہ فقرے فسوں کے

تو سمجھے کہ گویا ہم اب تک تھے گونگے

***

۵۱

سلیقہ کسی کو نہ تھا مدح و ذم کا

نہ ڈھب یاد تھا شرحِ شادی و غم کا

نہ انداز تلقین وعظ و حکم کا

خزانہ تھا مدفوں زباں اور قلم کا

نوا سنجیاں ان سے سیکھیں یہ سب نے

زباں کھول دی سب کی نطقِ عرب نے

***

زمانہ میں پھیلی طب ان کی بدولت

وہی بہرہ ور جس سے ہر قوم و ملت

نہ صرف ایک مشرق میں تھی ان کی شہرت

مسلم تھی مغرب تک ان کی حذاقت

سلر نو میں جو ایک نامی مطب تھا

وہ مغرب میں عطارِ مشکِ عرب تھا

***

ابو بکر رازی علی ابنِ عیسیٰ

حکیم گرامی حسین ابن سینا

حنین ابن اسحٰق قسمیں دانا

ضیا ابنِ بیطار راس الاطبا

انھیں کے ہیں مشرق میں سب نام لیوا

انہیں سے ہوا پار مغرب کا کھیوا

***

۵۲

غرض فن ہیں جو مایۂ دین و دولت

طبیعی ، الہی، ریاضی و حکمت

طب اور کیمیا، ہندہ اور ہیئت

سیاست، تجارت، عمارت، فلاحت

لگاؤ گے کھوج ان کا جا کر جہاں تم

نشاں ان کے قدموں کے پاؤ گے واں تم

***

ہوا گو کہ پامال بستاں عرب کا

مگر اک جہاں ہے غزلخواں عرب کا

ہرا کر گیا سب کو باروں عرب کا

سپید و سیہ پر ہے احساس عرب کا

وہ قومیں جو ہیں آج سرتاج سب کی

کو نڈی رہیں گی ہمیشہ عرب کی

***

رہے جب تک ارکان اسلام برپا

چلن اہلِ دیں کا رہا سیدھا سادا

رہا میل سے شہد صافی مصفا

رہی کھوٹ سے سیمِ خالص مبرا

نہ تھا کوئی اسلام کا مردِ میداں

علم ایک تھا شش جہت میں در افشاں

***

۵۳

پہ گدلا ہوا جب کہ چشمہ صفا کا

گیا چھوٹ سر رشتہ دینِ ہدیٰ کا

رہا سر پہ باقی نہ سایہ ہما کا

تو پورا ہوا عہد جو تھا خدا کا

کہ ہم نے بگاڑا نہیں کوئی اب تک

وہ بگڑا نہیں دنیا میں جب تک

***

۵۴

مسدسِ (۱۲)

برے ان پہ وقت آ کے پڑنے لگے اب

وہ دنیا میں بس کر اجڑنے لگے اب

بھرے ان کے میلے بچھڑنے لگے اب

بنے تھے وہ جیسے بگڑنے لگے اب

ہری کھیتیاں جل گئیں لہلہا کر

گھٹا کھل گئی سارے عالم پہ چھا کر

***

نہ ثروت رہی ان کی قائم نہ عزت

گئے چھوڑ ساتھ ان کا اقبال و دولت

ہوئے علم و فن ان سے ایک ایک رخصت

مٹیں خوبیاں ساری نوبت بہ نوبت

رہا دین باقی نہ اسلام باقی

اک اسلام کا رہ گیا نام باقی

***

ملے کوئی ٹیلہ اگر ایسا اونچا

کہ آتی ہو واں سے نظر ساری دنیا

چڑھے اس پہ پھر اک خرد مند دانا

کہ قدرت کے دنگل کا دیکھے تماشا

تو قوموں میں فرق اس قدر پائے گا وہ

کہ عالم کو زیر و زبر پائے گا وہ

***

۵۵

وہ دیکھے گا ہر سو ہزاروں چمن واں

بہت تازہ تر صورتِ باغِ رضواں

بہت ان سے کمتر پہ سر سبز و خنداں

بہت خشک اور بے طراوت مگر ہاں

نہیں لائے گو برگ و باران کے پودے

نظر آتے ہیں ہونہار ان کے پودے

***

پھر اک باغ دیکھے گا اجڑ سراسر

جہاں خاک اڑتی ہے ہر سو برابر

نہیں تازگی کا کہیں نام جس پر

ہری ٹہنیاں جھڑ گئیں جس کی جل کر

نہیں پھول پھل جس میں آنے کے قابل

ہوئے دکھ جس کے جلانے کے قابل

***

جہاں زہر کا کام کرتا ہے باراں

جہاں آ کے دیتا ہے رُو اَبر نیساں

تردد سے جو اور ہوتا ہے ویراں

نہیں راس جس کو خزاں اور بہاراں

یہ آواز پیہم وہاں آ رہی ہے

کہ اسلام کا باغ ویراں یہی ہے

***

۵۶

وہ دینِ حجازی کا بیباک بیڑا

نشاں جس کا اقصاء عالم میں پہنچا

مزاحم ہوا کوئی خطرہ نہ جس کا

نہ عماں میں ٹھٹکا نہ قلزم میں جھجکا

کئے پے سپر جس نے ساتوں سمندر

وہ ڈوبا دہانے میں گنگا کے آ کر

***

اگر کان دھر کر سنیں اہلِ عبرت

تو سیلون سے تابہ کشمیر و تبت

زمیں روکھ بن پھول پھل ریت پر بت

یہ فریاد سب کر رہے ہیں بہ حسرت

کہ کل فخر تھا جن سے اہلِ جہاں کو

لگا ان سے عیب آج ہندوستاں کو

***

حکومت نے تم سے کیا گر کنارا

تو اس میں نہ تھا کچھ تمہارا اجارا

زمانہ کی گردش سے ہے کس کو چارا

کبھی یاں سکندر کبھی یاں ہے دارا

نہیں بادشاہی کچھ آخر خدائی

جو ہے آج اپنی تو کل ہے پرائی

***

۵۷

ہوئی مقتضی جب کہ حکمت خدا کی

کہ تعلیم جاری ہو خیرالوریٰ کی

پڑے دھوم عالم میں دینِ ہدیٰ کی

تو عالم کی تم کو حکومت عطا کی

کہ پھیلاؤ دنیا میں حکمِ شریعت

کرو ختم بندوں پہ مالک کی حجت

***

۵۸

مسدسِ (۱۳)

ادا کر چکی جب حق اپنا حکومت

رہی اب نہ اسلام کو اس کی حاجت

مگر حیف اے فخرِ آدم کی امت

ہوئی آدمیت بھی ساتھ اس کے رخصت

حکومت تھی گویا کہ اک جھول تم پر

کہ اڑتے ہی اس کے نکل آئے جوہر

***

زمانہ میں ہیں ایسی قومیں بہت سی

نہیں جس میں تخصیص فرماں دہی کی

پر آفت کہیں ایسی آئی نہ ہو گی

کہ گھر گھر پہ یاں چھا گئی آ کے پستی

چکور اور شہباز سب اوج پر ہیں

مگر ایک ہم ہیں کہ بے بال و پر ہیں

***

وہ ملت کہ گردوں پہ جس کا قدم تھا

ہر اک کھونٹ میں جس کا برپا علم تھا

ہو فرقہ جو آفاق میں محترم تھا

وہ امت لقب جس کا خیر الامم تھا

نشاں اس کا باقی ہے صرف اس قدر یاں

کہ گنتے ہیں اپنے کو ہم بھی مسلماں

***

۵۹

وگر ہماری رگوں میں لہو میں

ہمارے ارادو میں اور جستجو میں

دلوں میں زبانوں میں اور گفتگو میں

طبعیت میں فطرت میں عادت میں خو میں

نہیں کوئی ذرہ نجابت کا باقی

اگر ہو کسی میں تو ہے اتفاقی

***

ہماری ہر اک بات میں سفلہ پن ہے

کمینوں سے بدتر ہمارا چلن ہے

لگا نام آبا کو ہم سے گہن ہے

ہمارا قدم ننگِ اہلِ وچن ہے

بزرگوں کی توقیر کھوئی ہے ہم نے

عرب کی شرافت ڈبوائی ہے ہم نے

***

نہ قوموں میں عزت، نہ جلسوں میں وقعت

نہ اپنوں سے الفت، نہ غیروں سے ملت

مزاجوں میں سستی، دماغوں میں نخوت

خیالوں میں پستی، کمالوں سے نفرت

عداوت نہاں ، دوستی آشکارا

غرض کہ تواضع، غرض کی مدارا

***

۶۰