• ابتداء
  • پچھلا
  • 202 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 48253 / ڈاؤنلوڈ: 1832
سائز سائز سائز
مسدسِ حالی

مسدسِ حالی

مؤلف:
اردو

نہ اہلِ حکومت کے ہمراز ہیں ہم

نہ درباریوں میں سرافراز ہیں ہم

نہ علموں میں شایانِ اعزاز ہیں ہم

نہ صنعت میں حرفت میں ممتاز ہیں ہم

نے رکھتے ہیں کچھ منزلت نوکری میں

نہ حصہ ہمارا ہے سوداگری میں

***

تنزل نے کی ہے بری گت ہماری

بہت دور پہنچی ہے نکبت ہماری

گئی گزری دنیا سے عزت ہماری

نہیں کچھ ابھرنے کی صورت ہماری

پڑے ہیں اک امید کے ہم سہارے

توقع پہ جنت کی جیتے ہیں سارے

***

سیاحت کی گوں ہیں نہ مردِ سفر ہیں

خدا کی خدائی سے ہم بے خبر ہیں

یہ دیواریں گھر کی و پیشِ نظر ہیں

یہی اپنے نزدیک حدِ بشر ہیں

ہیں تالاب میں مچھلیاں کچھ فراہم

وہی ان کی دنیا وہی ان کا عالم

***

۶۱

بہشت اور ارم سلسبیل اور کوثر

پہاڑ اور جنگل جزیرے سمندر

اسی طرح کے اور بھی نام اکثر

کتابوں میں پڑھتے رہے ہیں برابر

یہ جب تک نہ دیکھںی کہیں کس یقیں پر

کہ یہ آسماں پر ہیں یا ہیں زمیں پر

***

۶۲

مسدسِ (۱۵)

وہ بے مول پونجی کہ ہے اصل دولت

وہ شائستہ لوگوں کا گنجِ سعادت

وہ آسودہ قوموں کا راس البضاعت

وہ دولت کہ ہے وقت جس سے عبارت

نہیں اس کی وقعت نظر میں ہماری

یونہی مفت جاتی ہے برباد ساری

***

اگر ہم سے مانگے کوئی ایک پیسا

تو ہو گا کم و بیش بار اس کا دنیا

مگر ہاں وہ سرمایۂ دین و دنیا

کہ ایک ایک لمحہ ہے انمول جس کا

نہیں کرتے خست اڑانے میں اس کے

بہت ہم سخی ہیں لٹانے میں اس کے

***

اگر سانس دن رات کے سب گنیں ہم

تو نکلیں گے انفاس ایسے بہت کم

کہ ہو جن میں کل کیلئے کچھ فراہم

یونہی گزرے جاتے ہیں دن رات پیہم

نہیں کوئی گویا خبردار ہم میں

کہ یہ سانس آخر ہیں اب کوئی دم میں

***

۶۳

گڈریے کا وہ حکم بردار کتا

کہ بھیڑوں کی ہر دم ہے رکھوال کرتا

جو ریوڑ میں ہوتا ہے پتے کا کھڑکا

تو وہ شیر کی طرح پھرتا ہے بھپرا

گر انصاف کیجئے تو ہم سے بہتر

کہ غافل نہیں فرض سے اپنے دم بھر

***

وہ قومیں جو سب راہیں طے کر چکی ہیں

ذخیرے ہر اک جنس کے بھر چکی ہیں

ہر اک بوجھ بار اپنے سر دھر چکی ہیں

ہوئیں تب ہیں زندہ کہ جب مر چکی ہیں

اسی طرح راہِ طلب میں ہیں پویا

بہت دور ابھی ان کو جانا ہے گویا

***

کسی وقت جی بھر کے سوتے نہیں وہ

کبھی سیر محنت سے ہوتے نہیں وہ

بضاعت کو اپنی ڈبوتے نہیں وہ

کوئی لمحہ بے کار کھوتے نہیں وہ

نہ چلنے سے تھکتے نہ اکتاتے ہیں وہ

بہت بڑھ گئے اور بڑھے جاتے ہیں وہ

***

۶۴

مگر ہم کہ اب تک جہاں تھے وہیں ہیں

جمادات کی طرح بارِ زمیں ہیں

جہاں میں ہیں ایسے کہ گویا نہیں ہیں

زمانہ سے کچھ ایسے فارغ نشیں ہیں

کہ گویا ضروری تھا جو کام کرنا

وہ سب کر چکے ایک باقی ہے مرنا

***

یہاں اور ہیں جتنی قومیں گرامی

خود اقبال ہے آج ان کا سلامی

تجارت میں ممتاز دولت میں نامی

زمانہ کے ساتھی ترقی کے حامی

نہ فارغ ہیں اولاد کی تربیت سے

نہ بے فکر ہیں قوم کی تقویت سے

***

دکان ان کی ہے اور بازار ان کا

بنج ان کا ہے اور بہوار ان کا

زمانہ میں پھیلا ہے بیوپار ان کا

ہے پیر و جواں برسرِ کار ان کا

مدار اہلکاری کا ہے اب انہیں پر

انہیں کے ہیں آفس انہیں کے ہیں دفتر

***

۶۵

معزز ہیں ہر ایک دربار میں وہ

گرامی ہیں ہر ایک سرکار میں وہ

نہ رسوا ہیں عادات و اطوار میں وہ

نہ بدنام گفتار و کردار میں وہ

نہ پیشہ سے حرفہ سے انکار ان کو

نہ محنت مشقت سے کچھ عار ان کو

***

۶۶

مسدسِ (۱۶)

جو گرتے ہیں گر کر سنبھل جاتے ہیں وہ

پڑے زد تو بچ کر نکل جاتے ہیں وہ

ہر اک سانچے میں جا کے ڈھل جاتے ہیں وہ

جہاں رنگ بدلا بدل جاتے ہیں وہ

ہر اک وقت کا مقتضیٰ جانتے ہیں

زمانہ کے تیور وہ پہچانتے ہیں

***

مگر ہے ہماری نظر اتنی اونچی

کہ یکساں ہے واں سب بلدی و پستی

نہیں اب تک اصلا خبر ہم کو یہ بھی

کہ ہے کون مردار کتیا ترقی

جدھر کھول کر آنکھ ہم دیکھتے ہیں

زمانہ کو اپنے سے کم دیکھتے ہیں

***

زمانہ کا دن رات ہے یہ اشارا

کہ ہے آشتی مین مری یاں گزارا

نہیں پیروی جن کو میری گوارا

مجھے ان سے کرنا پڑے گا کنارا

سدا ایک ہی رخ نہیں ناؤ چلتی

چلو تم ادھر کو، ہوا ہو جدھر کی

***

۶۷

چمن میں وا آ چکی ہے خزاں کی

پھری ہے نظر دیر سے باغباں کی

صدا اور ہے بلبلِ نغمہ خواں کی

کوئی دم میں رحلت ہے اب گلستاں کی

تباہی کے خواب آرہے ہیں نظر سب

مصیبت کی ہے آنے والی سحر اب

***

فلاکت جسے کہئے ام الجرائم

نہیں رہتے ایماں پہ دل جس سے قائم

بناتی ہے انسان کو جو بہائم

مصلّی ہیں دل جمع جس سے نہ صائم

وہ یوں اہلِ اسلام پر چھا رہی ہے

کہ مسلم کی گویا نشانی یہی ہے

***

کہیں مگر کے گر سکھاتی ہے ہم کو

کہیں جھوٹ کی لو لگاتی ہے ہم کو

خیانت کی چالیس سجھاتی ہے ہم کو

خوشامد کی گھاتیں بناتی ہے ہم کو

فسوں جب یہ پاتی نہیں کار گر وہ

تو کرتی ہے آخر کو دریوزہ گر وہ

***

۶۸

یہاں جتنی قومیں ہمارے سوا ہیں

ہزار ان میں خوش ہیں تو دو بینوا ہیں

یہاں لاکھ میں دو اگر اغنیا ہیں

تو سو نیم بسمل ہیں باقی گدا ہیں

ذرا کام غیرت کو فرمائیں گر ہم

تو سمجھیں کہ ہیں مبتذل کس قدر ہم

***

بگاڑے ہیں گردش نے جو خاندانی

نہیں جانتے بس کہ روٹی کمانی

دلوں میں ہے یہ یک قلم سب بے ٹھانی

کہ کیجئے بسر مانگ کر زندگانی

جہاں قدر دانوں کا ہیں کھوج پاتے

پہنچتے ہیں واں مانگتے اور کھاتے

***

کہیں باپ دادا کا ہیں نام لیتے

کہیں روشناسی سے ہیں کام لیتے

کہیں جھوٹے وعدوں پہ ہیں دام لیتے

یونہی ہیں وہ دے دے کے دم دام لیتے

بزرگوں کے نازاں ہیں جس نام پر وہ

اسے بیچتے پھرتے ہیں در بدر وہ

***

۶۹

یہ ہیں ڈھنگ ان تازہ آفت زدوں کے

بہت کم زمانہ ہوا جن بگڑے

ابھی ایک عالم ہے آگاہ جن سے

کہ ہیں کس کے بیٹے وہ اور کس کے پوتے

جنہیں دیس پردیس سب جانتے ہیں

حسب اور نسب جن کا پہچانتے ہیں

***

۷۰

مسدسِ (۱۷)

مگر منٹ چکا جن کا نام و نشاں ہے

پرانی ہوئی جن کی اب داستاں ہے

فسانوں میں قصوں میں جن کا بیاں

بہت نسل پر تنگ ان کی جہاں ہے

نہیں ان کی قدر اور پرسش کہیں اب

انہیں بھیک تک کوئی دیتا نہیں اب

***

بہت آگ چلموں کی سلگانے والے

بہت گھانس کی گھٹڑیاں لانے والے

بہت دربدر مانگ کر کھانے والے

بہت فاقے کر کر کے مر جانے والے

جو پوچھو کہ کس کان کے ہیں وہ جوہر

تو نںلیو گے نسلِ ملوک ان میں اکثر

***

انہی کے بزرگ ایک دن حکمراں تھے

انہی کے پرستار پیر و جواں تھے

یہی مامنِ عاجز و ناتواں تھے

یہی مرجعِ ویلم و اصفہاں تھے

یہی کرتے تھے ملک کی گلہ بانی

انہیں کے گھروں میں تھی صاحب قرآنی

***

۷۱

یہ اے قومِ اسلام عبرت کی جا ہے

کہ شاہوں کی اولاد در در گدا ہے

جسے سنئے افلاس میں مبتلا ہے

جسے دیکھئے مفلس و بے نوا ہے

نہیں کوئی ان میں کمانے کے قابل

اگر ہیں تو ہیں مانگ کھانے کے قابل

***

نہیں مانگنے کا طریق ایک ہی یاں

گدائی کی ہیں صورتیں نت نئی یاں

نہیں حصر کنگلوں پہ گدیہ گری یاں

کوئی دے تو منگتوں کی ہے کای کمی یاں

بہت ہاتھ پھیلائے زیرِ ردا ہیں

چھپے اجلے کپڑوں میں اکثر گدا ہیں

***

بہت آپ کو کہہ کے مسجد کے بانی

بہت بن کے خود سیدِ خاندانی

بہت سیکھ کر نوحہ و سوز خوانی

بہت مدح میں کر کے رنگیں بیانی

بہت آستانوں کے خدّام بن کر

پڑے مانگتے کھاتے پھرتے ہیں در در

***

۷۲

مشقت کو محنت کو جو عار سمجھیں

ہنر اور پیشہ کو جو خوار سمجھیں

تجارت کو کھیتی کو دشوار سمجھیں

فرنگی کے پیسے کو مردار سمجھیں

تن آسانیاں چاہیں اور آبرو بھی

قوم آج ڈوبے گی گر کل نہ ڈوبی

***

کریں نوکری بھی تو بے عزتی کی

جو روٹی کمائیں تو بے حرمتی کی

کہیں پائیں خدمت تو بے عزتی کی

قسم کھائیے ان کی خوش قسمتی کی

امیروں کے بنتے ہیں جب یہ مصاحب

تو جاتے ہیں ہو کر حمت سے تائب

***

کہیں ان کی صحبت میں گانا بجانا

کہیں مسخرہ بن کے ہنسنا ہنسانا

کہیں پھبتیاں کہہ کے انعام پانا

کہیں چھیڑ کر گالیاں سب سے کھانا

یہ کام اور بھی کرتے ہیں پر نہ ایسے

مسلمان بھائی سے بن آئیں جیسے

***

۷۳

امیروں کا عالم نہ پوچھو کہ کیا ہے

خمیر ان کا اور ان کی طینت جدا ہے

سزاوار ہے ان کو جو نا سزا ہے

روا ہے انہیں سب کہ جو ناروا ہے

شریعت ہوئی ہے نکو نام ان سے

بہت فخر کرتا ہے اسلام ان سے

***

۷۴

مسدسِ (۱۸)

ہر اک بول پر ان کے مجلس فدا ہے

ہر اک بات پر واں درست اور بجا ہے

نہ گفتار میں ان کی کوئی خطا ہے

نہ کردار ان کا کوئی نا سزا ہے

وہ جو کچھ کہ ہیں ، کہہ سکے کون ان کو

بنایا ندیموں نے فرعون ان کو

***

وہ دولت کہ ہے مایۂ دین و دنیا

وہ دولت کہ ہے توشۂ راہِ عقبیٰ

سلیماں نے کی جس کی حق سے تمنا

بڑھا جس سے آفاق میں نام کسریٰ

کیا جس نے حاتم کو مشہور دوراں

کیا جس نے یوسف کو مسوودِ اخواں

***

ملا ہے یہ فخر اس کو ان کی بدولت

کہ سمجھی گئی ہے وہ اصلِ شقاوت

کہیں ہے وہ سرمایۂ جہل و غفلت

کہیں نشۂ بادۂ کبر و نخوت

جہاں کے لئے جو کہ آبِ بقا ہے

وہ اقوم کے حق میں سمی دوا ہے

***

۷۵

ادھر مال و دولت نے یاں منہ دکھایا

ادھر ساتھ ساتھ اس کے ادبار آیا

پڑا آ کے جس گھر پہ ثروت کا سایا

عمل واں سے برکت نے اپنا اٹھایا

نہیں راس یاں چار پیسے کسی کو

مبارک نہیں جیسے پر چیونٹی کو

***

سمجھتے ہیں سب عیب جن عادتوں کو

بہائم سے نسبت ہے جن سیرتوں کو

چھپاتے ہیں اوباش جن خصلتوں کو

نہیں کرتے اجلاف جن حرکتوں کو

وہ یاں اہلِ دولت کو ہیں شیرِ مادر

نہ خوفِ خدا ہے نہ شرمِ پیمبر

***

طبعیت اگر لہو و بازی پہ آئی

تو دولت بہت سی اسی میں لٹائی

جو کی حضرتِ عشق نے رہنمائی

تو کر دی بھرے گھر کی دم میں صفائی

پھر آخر لگے مانگنے اور کھانے

یونہی مٹ گئے یاں ہزاروں گھرانے

***

۷۶

نہ آغاز پر اپنے غور ان کو اصلا

نہ انجام کا اپنے کچھ ان کو کھٹکا

نہ فکر ان کو اولاد کی تربیت کا

نہ کچھ ذلتِ قوم کی ان کو پروا

نہ حق کوئی دنیا پہ ان کا نہ دیں پر

خدا کو وہ کیا منہ دکھائیں گے جا کر

***

کسی قوم کا جب الٹتا ہے دفتر

تو ہوتے ہیں مسخ ان میں پہلے تو نگر

کمال ان میں رہتے ہیں باقی نہ جوہر

نہ عقل ان کی ہادی نہ دین انکا رہبر

نہ دنیا میں ذات نہ عزت کی پروا

نہ عقبیٰ میں دوزخ نہ جنت کی پروا

***

نہ مظلوم کی آہ و زاری سے ڈرنا

نہ مفلوک کے حال پر رحم کرنا

ہوا و ہوس میں خودی سے گزرنا

تعیش میں جینا نمائش پہ مرنا

سدا خوابِ غفلت میں بیہوش رہنا

دمِ نزع تک خود فراموش رہنا

***

۷۷

پریشاں اگر قحط سے اک جہاں ہے

تو بے فکر ہیں کیونکہ گھر میں سماں ہے

اگر باغِ امت میں فصلِ خزاں ہے

تو خوش ہیں کہ اپنا چمن گل فشاں ہے

بنی نوعِ انساں کا حق ان پہ کیا ہے

وہ اک نوع، نوعِ بشر سے جدا ہے

***

۷۸

مسدسِ (۱۹)

کہاں بندگانِ ذلیل اور کہاں وہ

بسر کرتے ہیں بے غمِ قوت و ناں وہ

پہنتے نہیں جز سمور و کتاں وہ

مکاں رکھتے ہیں رشکِ خلدِ جناں وہ

نہیں چلتے وہ بے سواری قدم بھر

نہیں رہتے بے نغمہ و ساز دم بھر

***

کمر بستہ ہیں لوگ خدمت میں ان کی

گل و لالہ رہتے ہیں صحبت میں ان کی

نفاست بھری ہے طبعیت میں ان کی

نزاکت سو داخل ہے عادت میں ان کی

دواؤں میں مشک ان کی اٹھتا ہے ڈھیروں

وہ پوشاک میں عطر ملتے ہیں سیروں

***

یہ ہو سکتے ہیں ان کے ہم جنس کیونکر

نہیں چین جن کو زمانے سے دم بھر

سواری کو گھوڑا نہ خدمت کو نوکر

نہ رہنے کو گھر اور نہ سونے کو بستر

پہننے کو کپڑا نہ کھانے کو روٹی

جو تدبیر الٹی تو تقدیر کھوٹی

***

۷۹

یہ پہلا سبق تھا کتاب ہُداٰ کا

کہ ہے ساری مخلوق کنبہ خدا کا

وہی دوست ہے خالقِ دوسرا کا

خلائق سے ہی جس کو رشتہ ولا کا

یہی ہے عبادت یہی دین و ایماں

کہ کام آئے دنیا میں انساں کے انساں

***

عمل جن کا ہے اس کلامِ متیں پر

وہ سر سبز ہیں آج روئے زمیں پر

تفوق ہے ان کو کہین و مہیں پر

مدار آدمتن کا ہے اب انہیں پر

شریعت کے جو ہم نے پیمان توڑے

وہ لے جا کے سب اہلِ مغرب نے جوڑے

***

سمجھتے ہیں گمراہ جن کو مسلمان

نہیں جن کو عقبیٰ میں امیدِ غفراں

نہ حصہ میں فردوس جن کے نہ رضواں

نہ تقدیر میں حور جن کے نہ غلماں

پس از مرگ دوزخ ٹھکانا ہے جن کا

حمیم آب و زقوم کھانا ہے جن کا

***

۸۰