• ابتداء
  • پچھلا
  • 202 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 49197 / ڈاؤنلوڈ: 1906
سائز سائز سائز
مسدسِ حالی

مسدسِ حالی

مؤلف:
اردو

وہ ملک اور ملت پہ اپنی فدا ہیں

سب آپس میں ایک اک کے حاجت روا ہیں

اولوالعلم ہیں ان میں یا اغنیا ہیں

طلب گار بہبود خلقِ خدا ہیں

یہ تمغا تھا گویا کہ حصہ انہیں کا

کہ حب الوطن ہے نشان مومنیں کا

***

امیروں کی دولت غریبوں کی ہمت

ادیبوں کی انشا حکیموں کی حکمت

فصیحوں کے خطبے شجاعوں کی جرأت

سپاہی کے ہتیاےر شاہوں کی طاقت

دلوں کی امیدیں امنگوں کی خوشیاں

سب اہلِ وطن اور وطن پر ہیں قرباں

***

عروج ان کا جو تم عیاں دیکھتے ہو

جہاں میں انہیں کامراں دیکھتے ہو

مطیع ان کا سارا جہاں دیکھتے ہو

انہیں بر تر از آسماں دیکھتے ہو

یہ ثمرے ہیں ان کی جوانمردیوں کے

نتیجے ہیں آپس کی ہمدردیوں کے

***

۸۱

غنی ہم میں ہیں جو کہ اربابِ ہمت

مسلم ہے عالم میں جن کی سخاوت

اگر ہے مشائخ سے ان کو عقیدت

تو ہے پیر زادوں پہ وقف ان کی دولت

نکمے ہیں دن رات واں عیش کرتے

پہ نوکر ہیں جتنے وہ بھوکے ہیں مرتے

***

۸۲

مسدسِ (۲۰)

عمل واعظوں کے اگر قول پر ہے

تو بخشش کی امید بے صرفِ زر ہے

نماز اور روزہ کی عادت اگر ہے

تو روزِ حساب ان کو پھر کس کا ڈر ہے

اگر شہر میں کوئی مسجد بنا دی

تو فردوس میں نیو اپنی جمادی

***

عمارت کی بنیاد ایسی اٹھانی

نہ نکلے کہیں ملک میں جس کا ثانی

تماشوں میں ثروت بڑوں کی اڑانی

نمائش میں دولت خدا کی لُٹانی

چھٹی بیاہ مین کرنے لاکھوں کے ساماں

یہ ہیں ان کی خوشیاں یہ ہیں انکے ارماں

***

مگر دینِ بر حق کا بوسیدہ ایواں

تزلزل مین مدت سے ہیں جس کے ارکاں

زمانہ میں ہے جو کوئی دن کا مہماں

نہ پائیں گے ڈھونڈا جسے پھر مسلماں

عزیزوں نے اس سے توجہ اٹھا لی

عمارت کا ہے اس کی اللہ والی

***

۸۳

پڑی ہیں سب اجڑی ہوئی خانقاہیں

وہ درویش و سلطاں کی امید گاہیں

کھیلیں تھیں جہاں علمِ باطن کی راہیں

فرشتوں کی پڑتی تھیں جن پر نگاہیں

کہاں ہیں وہ جذبِ الٰہی کے پھندے

کہاں ہیں وہ اللہ کے پاک بندے

***

وہ علمِ شریعت کے ماہر کدھر ہیں

وہ اخبار دیں کے مبصر کدھر ہیں

اصولی کدھر ہیں ، مناظر کدھر ہیں

محدث کہاں ہیں ، مفسر کدھر ہیں

وہ مجلس جو کل سر بسر تھی چراغاں

چراغ اب کہیں ٹمٹارتا نہیں واں

***

مدارس وہ تعلیم دیں کے کہاں ہیں

مراحل وہ علم و یقیں کے کہاں ہیں

وہ ارکان شرعِ متیں کے کہاں ہیں

وہ وارث رسول امیں کے کہاں ہیں

رہا کوئی امت کا ملجا نہ ماویٰ

نہ قاضی نہ مفتی نہ صوفی نہ مُلّا

***

۸۴

کہاں ہیں وہ دینی کتابوں کے دفتر

کہاں ہیں وہ علمِ الٰہی کے منظر

چلی ایسی اس بزم میں بادِ صرصر

بجھیں مشعلیں نورِ حق کی سراسر

رہا کوئی ساماں نہ مجلس میں باقی

صراحی نہ طنبور، مطرب نہ ساقی

***

بہت لوگ بن کے ہوا خواہِ امت

سفیہوں سے منوا کے اپنی فضیلت

سدا گاؤں در گاؤں نوبت بہ نوبت

پڑے پھرتے ہیں کرتے تحصیلِ دولت

یہ ٹھہرے ہیں اسلام کے رہنما اب

لقب ان کا ہے وارثِ انبیا اب

***

بہت لوگ پیروں کی اولاد بن کر

نہیں ذات والا میں کچھ جن کے جوہر

بڑا فخر ہے جن کو لے دے کے اس پر

کہ تھے ان کے اسلاف مقوسلِ داور

کرشمے ہیں جا جا کے جھوٹے دکھاتے

مریدوں کو ہیں لوٹتے اور کھاتے

***

۸۵

یہ ہیں جادہ پیمائے راہِ طریقت

مقام ان کا ہے ماورائے شریعت

انہیں پر ہے ختم آج کشف و کرامت

انہیں کے ہے قبضہ میں بندوں کی قسمت

یہی ہیں مراد اور یہی ہیں مرید اب

یہی ہیں جنید اور یہی با یزید اب

***

۸۶

مسدسِ (۲۱)

بڑھے جس سے نفرت وہ تقریر کرنی

جگر جس سے شق ہوں وہ تحریر کرنی

گنہگار بندوں کی تحقیر کرنی

مسلمان بھائی کی تکفیر کرنی

یہ ہے عالموں کا ہمارے طریقہ

یہ ہے ہادیوں کا ہمارے سلیقہ

***

کوئی ملہی پوچھنے ان سے جائے

تو گردن پہ بارِ گراں لے کے آئے

اگر بد نصیبی سے شک اس میں لائے

تو قطعی خطاب اہلِ دوزخ کا پائے

اگر اعتراض اس کی نکلا زباں سے

تو آنا سلامت ہے دشوار واں سے

***

کبھی وہ گلے کی رگیں ہیں پھلاتے

کبھی جھاگ پر جھاگ ہیں منہ پہ لاتے

کبھی خوک اور سگ ہیں اس کو بتاتے

کبھی مارنے کو عصا ہیں اٹھاتے

ستوں چشمِ بد دور ہیں آپ دیں کے

نمونہ ہیں خلقِ رسول امیں گے

***

۸۷

جو چاہے کہ خوش ان سے مل کر ہو انساں

تو ہے شرط وہ قوم کا ہو مسلماں

نشاں سجدہ کا ہو جبیں پر نمایاں

تشرع میں اس کے نہ ہو کوئی نقصاں

لبیں بڑھ رہی ہوں نہ ڈاڑھی چڑھی ہو

ازار اپنی حد سے نہ آگے بڑھی ہو

***

عقائد میں حضرت کا ہم داستاں ہو

ہر اک اصل مین فرع میں ہم زباں ہو

حریفوں سے ان کے بہت بد گماں ہو

مریدوں کا ان کے بڑا مدح خواں ہو

نہیں ہے گر ایسا تو مردود دیں ہے

بزرگوں سے ملنے کے قابل نہیں ہے

***

شریعت کے احکام تھے وہ گوارا

کہ شیدا تھے ان پر یہود و نصاریٰ

گواہ ان کی نرمی کا قرآن ہے سارا

خود اَلدّینُ یُسر نبی نے پکارا

مگر یاں کیا ایسا دشوار ان کو

کہ مومن سمجھنے لگے بار ان کو

***

۸۸

نہ کی ان کی اخلاق میں رہنمائی

نہ باطن میں کی ان کے پیدا صفائی

پہ احکام ظاہر کے لے یہ بڑھائی

کہ ہوتی نہیں ان سے دم بھر رہائی

وہ دیں جو کہ چشمہ تھا خلقِ نکو کا

کیا قلتیں اس کو غسل و وضو کا

***

سدا اہلِ تحقیق سے دل میں بل ہے

حدیثوں پہ چلنے میں دیں کا خلل ہے

فتاووں پہ بالکل مدارِ عمل ہے

ہر اک رائے قرآں کا نعم البدل ہے

کتاب اور سنت کا ہے نام باقی

خدا اور نبی سے نہیں کام باقی

***

جہاں مختلف ہوں روایات باہم

کبھی ہوں نہ سیدھی روایت سے خوش ہم

جسے عقل رکھے نہ ہر گز مسلم

اسے ہر روایت سے سمجھیں مقدم

سب اس میں گرفتار چھوٹے بڑے ہیں

سمجھ پر ہماری یہ پتھر پڑے ہیں

***

۸۹

کرے غیر گر بت کی پوجا تو کافر

جو ٹھررائے بیٹا خدا کا تو کافر

جھکے آگ پر بہر سجدہ تو کافر

کواکب میں مانے کرشمہ تو کافر

مگر مومنوں پر کشادہ ہیں راہیں

پرستش کریں شوق سے جس کی چاہیں

***

۹۰

مسدسِ (۲۲)

نبی کو جو چاہیں خدا کر دکھائیں

اماموں کا رتبہ نبی سے بڑھائیں

مزاروں پہ دن رات نذریں چڑھائیں

شہیدوں سے جا جا کے مانگیں دعائیں

نہ توحید میں کچھ خلل اس سے آئے

نہ اسلام بگڑے نہ ایمان جائے

***

وہ دیں جس سے توحید پھیلی جہاں میں

ہوا جلوہ گر حق زمین و زماں میں

رہا شرک باقی نہ وہم و گماں میں

وہ بدلا گیا آ کے ہندوستاں میں

ہمیشہ سے اسلام تھا جس پہ نازاں

وہ دولت بھی کھو بیٹھے آخر مسلماں

***

تعصب کہ ہے دشمنِ نوع انساں

بھرے گھر کیے سیکڑوں جس نے ویراں

ہوئی بزمِ نمرود جس سے پریشاں

کیا جس نے فرعون کو نذرِ طوفاں

گیا جوش میں بو لہب جس کے کھویا

ابو جہل کا جس نے بیڑا ڈبوبا

***

۹۱

وہ یاں اک عجب بھیس میں جلوہ گر ہے

چھپا جس کے پردے میں اس ضرر ہے

بھرا زہر جس جام میں سر بسر ہے

وہ آبِ بقا ہم کو آتا نظر ہے

تعصب کو اک جزوِ دیں سمجھے ہیں ہم

جہنم کو خلدِ بریں سمجھے ہیں ہم

***

ہمیں واعظوں نے یہ تعلیم دی ہے

کہ جو کام دینی ہے یا دنیوی بری ہے

مخالف کی ریس اس میں کرنی بری ہے

نشاں غیرتِ دینِ حق کا یہی ہے

مخالف کی الٹی ہر اک بات سمجھو

وہ دن کو کہے دن تم تم رات سمجھو

***

قدم گر رہِ راست پر اس کا پاؤ

تو تم سیدھے رستے سے کترا کے جاؤ

پڑیں اس میں جو دقتیں وہ اٹھاؤ

لگیں جس قدر ٹھوکریں اس میں کھاؤ

جو نکلے جہاز اس کا بچ کر بھنور سے

تو تم ڈال دو ناؤ اندر بھنور کے

***

۹۲

اگر مسخ ہو جائے صورت تمہاری

بہائم میں مل جائے سیرت تمہاری

بدل جائے بالکل طبعیت تمہاری

سراسر بگڑ جائے حالت تمہاری

تو سمجھو کہ ہے حق کی اک شان یہ بھی

ہے اک جلوۂ نورِ ایمان یہ بھی

***

نہ اوضاع میں تم سے نسبت کسی کو

نہ اخلاق میں تم پہ سبقت کسی کو

نہ حاصل یہ کھانوں میں لذت کسی کو

نہ پیدا یہ پوشش میں زینت کسی کو

تمہیں فضل ہر علم میں بر ملا ہے

تمہاری جہالت میں بھی اک ادا ہے

***

کوئی چیز سمجھو نہ اپنی بری تم

رہو بات کو اپنی کرتے بڑی تم

حمایت میں ہو جب کہ اسلام کی تم

تو ہو ہر بدی اور گنہ سے بری تم

بدی سے نہیں مومنوں کو مضرت

تمہارے گنہ اور اوروں کی طاعت

***

۹۳

مخالف کا اپنے اگر نام لیجے

تو ذکر اس کا ذلت سے خواری سے کیجئے

کبھی بھول کر طرح اس میں نہ دیجے

قیامت کو دیکھو گے اس کے نتیجے

گناہوں سے ہوتے ہو گویا مبّرا

مخالف پہ کرتے ہو جب تم تبرّا

***

۹۴

مسدسِ (۲۳)

نہ سنی میں اور جعفری میں ہو الفت

نہ نعمانی و شافعی میں ہو ملت

وہابی سے صوفی کی کم ہو نہ نفرت

مقلد کرے نا مقلد پہ لعنت

رہے اہلِ قبلہ مین جنگ ایسی باہم

کہ دینِ خدا پر ہنسے سارا عالم

***

کرے کوئی اصلاح کا گر ارادہ

تو شیطان سے اس کو سمجھو زیادہ

جسے ایسے مفسد سے ہے استفادہ

رہِ حق سے ہے برطرف اس کا جدہ

شریعت کو کرتے ہیں برباد دونوں

ہیں مردود شاگرد و استاد دونوں

***

وہ دیں جس نے الفت کی بنیاد ڈالی

کیا طبعِ دوراں کو نفرت سے خالی

بنایا اجانب کو جس نے موالی

ہر اک قوم کے دل سی نفرت نکالی

عرب اور حبش ترک و تا جیک و ویلم

ہوئے سارے شیر و شکر مل کے باہم

***

۹۵

تعصب نے اس صاف چشمہ کو آ کر

کیا بغض کے خار و خس سے مکدر

بنے خصم جو تھے عزیر اور برادر

نفاق اہلِ قبلہ میں پھیلا سراسر

نہیں دستیاب ایسے اب دس مسلماں

کہ ہو ایک کو دیکھ کر ایک شاداں

***

ہمارا یہ حق تھا کہ سب یار ہوتے

مصیبت میں یاروں کے غمخوار ہوتے

سب ایک اک کے باہم مددگار ہوتے

عزیزوں کے غم میں دل افگار ہوتے

جب الفت میں یوں ہوتے ثابت قدم ہم

تو کہہ سکتے اپنے کو خیر الامم ہم

***

اگر بھولتے ہم نہ قولِ پیمبر

کہ " ہیں سب مسلمان باہم برادر"

برادر ہے جب تک برادر کا یاور

معین اس کا ہے خود خداوند داور

تو آتی نہ بیڑے پہ اپنے تباہی

فقیری میں بھی کرتے ہم بادشاہی

***

۹۶

وہ گھر جس میں دل ہوں ملے سب کے باہم

خوشی نا خوشی میں ہوں سب یار و ہمدم

اگر ایک خوش دل تو گھر سارا خرم

اگر ایک غمگیں تو دل سب کے پر غم

مبارک ہے اس قصر شاہنشی سے

جااں ایک دل ہو مکدر کسی سے

***

اگر ہو مدار اس پہ تحقیق دیں کا

کہ ہے دین والوں کا برتاؤ کیسا

کھرا ان کا بازار ہے یا کہ کھوٹا

ہے قول و قرات ان جھوٹا کہ سچا

تو ایسے نمونے بہت شاذ ہیں یاں

کہ اسلام پر جن سے قائم ہو برہاں

***

مجالس میں غیبت کا زور اس قدر ہے

کہ آلودہ اس خون میں ہر بشر ہے

نہ بھائی کو بھائی سے یاں درگزر ہے

مہ ملا کو صوفی کو اس سے حذر ہے

اگر نشۂ مے ہو غیبت میں پنہاں

تو ہشیار پائے نہ کوئی مسلماں

***

۹۷

جنہیں چار پیسے کا مقدور ہے یاں

سمجھتے نہیں ہیں وہ انساں کو انساں

موافق نہیں جن سے ایامِ دوراں

نہیں دیکھ سکتے کسی کو وہ شاداں

نشہ میں تکبر کے ہے چور کوئی

حسد کے مرض میں ہے رنجور کوئی

***

۹۸

مسدسِ (۲۴)

اگر مرجعِ خلق ہے ایک بھائی

نہیں ظاہرا جس میں کوئی برائی

بھلا جس کو کہتی ہے ساری خدائی

ہر اک دل میں عظمت ہے جس کی سمائی

تو پڑتی ہیں اس پر نگاہیں غضب کی

کھٹکتا ہے کانٹا سا نظروں میں سب کی

***

بگڑتا ہے جب قوم میں کوئی بن کر

ابھی بخت و اقبال تھے جس کے یاور

ابھی گردیں جھکتی تھیں جس کے در پر

مگر کر دیا اب زمانے نے بے پر

تو ظاہر میں کڑھتے ہیں پر خوش ہیں جی میں

کہ ہمدرد ہات آیا اک مفلسی میں

***

اگر اک جوانمرد ہمدرد انساں

کرتے قوم پر دل سے جان اپنی قرباں

تو خود قوم اس پر لگائے یہ بہتاں

کہ ہے اس کی کوئی غرض اس میں پنہاں

وگر نہ پڑی کیا کسی کو کسی کی

یہ چالیں سراسر ہیں خود مطلبی کی

***

۹۹

نکالے گر ان کی بھلائی کی صورت

تو ڈالیں جہاں تک بنے اس میں کھنڈت

سنیں کامیابی میں گر اس کی شہرت

تو دل سے تراشیں کوئی تازہ تہمت

منہ اپنا ہو گو دین و دنیا میں کالا

نہ ہو ایک بھائی کا پر بول بالا

***

اگر پاتے ہیں دو دلوں میں صفائی

تو ہیں ڈالتے اس میں طرح جدائی

ٹھنی دو گروہوں میں جس دم لڑائی

تو گویا تمنا ہماری بر آئی

بس سے نہیں مشغلہ خوب کوئی

تماشا نہیں ایسا مرغوب کوئی

***

تغلب میں بد نیتی میں دغا میں

نمو اور بناوٹ فریب اور ریا میں

سعایت میں بہتان میں افترا میں

کسی بزم بیگانہ و آشنا میں

نہ پاؤ گے رسوا و بدنام ہم سے

بڑھے پھر نہ کیوں شانِ اسلام ہم سے

***

۱۰۰