مکتب تشیع

مکتب تشیع0%

مکتب تشیع مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

مکتب تشیع

مؤلف: محمد رضا مظفر
زمرہ جات:

مشاہدے: 9499
ڈاؤنلوڈ: 2146

تبصرے:

مکتب تشیع
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 19 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 9499 / ڈاؤنلوڈ: 2146
سائز سائز سائز
مکتب تشیع

مکتب تشیع

مؤلف:
اردو

تیسرا باب

پیغمبر کی پہچان

پیغمبروں کی بھیجنے کے بارے میں :۔

ہمارا عقیدہ ہے کہ نبوت اور پیغمبری ایک خدائی ذمے داری اور الوہی نمائندگی ہے اور خدا یہ منصب اپنے کامل، لائق اور نیک بندوں اور دوستوں میں سے منتخب لوگوں کو عطا فرماتا ہےاور ان کو اس لیے بھیجتا ہے کہ وہ دنیا اور آخرت کی بھلائی اور فائدے کے لیے انسانوں کی رہنمائی کریں۔

خدا اپنے پیغمبروں کو اس لیے بھیجتا ہے کہ وہ انسانوں کو بری عادتوں، خراب خصلتوں اور غلط رسموں سے بچائیں اور انہیں پاک بنائیں، عقل و شعور کی باتیں سکھائیں اور نیکی کی راہیں دکھائیں تاکہ انسان پیغمبروں کی رہنمائی میں انسانیت کے اس کمال تک پہنچ جائیں جو ان کے شایان شان ہے اور دنیا و آخرت کے بلند مقاموں اور درجوں پر فائز ہوں۔

ہمارے عقیدے کے مطابق مہربان خدا قانون ""کطف"" کے باعث (جس کی تشریح آگے کی جائے گی) انسانوں کی رہنمائی اور دنیا کی اصلاح کا فرض منصبی ادا کرنے کے لیے پیغمبر بھیجتا ہے اور وہ پیغمبر خداءی منصب دار اور نمائندے ہوتے ہیں۔

ہمارے عقیدے کے مطابق یہ بھی ہے کہ خدا نے انسانوں کو اپنے لیے خود کوئی پیغمبر مقرر، پسند یا منتخب کرنے کا حق نہیں دیا۔ لوگوں سے اس بارے میں کوئی رائے نہیں لی جاتی بلکہ ان تمام باتوں کا اختیار صرف خدا کو ہے کیونکہ وہ قرآن میں فرماتا ہے :

( اَللهُ اَعلَمُ حَیثُ یَجعَلُ رِسٰلَتَهُ ) :۔ خدا یہ بات سب سے بہتر طور پر جانتا ہے کہ رسالت کس کو عطا کرے۔ (سورہ انعام ۔ آیت ۱۲۵ کا جزو)

اسی طرح انسانوں کو چاہیے کہ وہ پیغمبروں کا حکم مانیں۔ انہیں یہ حق نہیں ہے کہ ان پیغمبروں پر اپنا حکم چلائیں (ان کی بات کے مقابلے میں کوئی دوسری بات کہیں) جن کو خدا نے نیک راہ دکھانے ، خوشخبری سنانے اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے اور وہ اس کے بھی مجاز نہیں ہیں کہ پیغمبروں کے احکام اور قوانین میں کوئی عذر اور تامل کریں۔

پیغمبروں کا بھیجنا لطف خداوندی ہے :۔

انسان عجیب و غریب مخلوق ہے ۔ اس کے حالات بھی حیرت انگیز ہیں اور اس کی پیدائش، اس کے جسم و روح اور سوچ بچار کے لحاظ سے بہت ہی مرموز، پر اسرار اور پیچیدہ ہے بلکہ ہر انسان اپنی صورت اور خصوصیات کے لحاظ سے منفرد پیدا ہوا ہے اور ایسی جبلتیں اور فطری نقاضے رکھتا ہے جو اسے بدی کی طرف لے جاتے ہیں اور ایسے محرکام کا بھی مالک ہے جونیکی کی طرف اس کی رہنمائی کرتے ہیں۔

ایک طرف انسان جبلتوں اور جذبوں مثلاً خود غرضی، لالچ اور غرور کے ساتھ ساتھ نفسانی خواہشوں کا غلام ہے اور جارحیت ، توسیع پسندی دوسرں کو محکوم بنانے اور دنیا کا مال اور شان و شوکت حاصل کرنے کے لیے تلاش اور جدوجہد میں مبتلا ہے ، جیسا کہ خداوند عالم قرآن میں فرماتا ہے :

( اِنَّ الاِنسَانَ لَفِی خُسرٍ ) :۔ انسان گھاٹے میں ہے ۔ (سورہ عصر ۔ آیت ۲)

اور دوسرے مقام پر کہتا ہے کہ

( اِنَّ الاِنسَان لَیَطغٰی ، اَن رَّاٰهُ استَغنٰی ) : جب انسان اپنے آپ کو مستغنی پاتا ہے ، تو بغاوت کر اٹھتا ہے ، (سورہ علق ۔ آیت ۶ ۔ ۷)

یا

( اِنَّ النَّفسَ لَاَمَّارَةٌ بِالسُّوٓءِ ) :۔ انسان کا نفس اسے ہمیشہ بدی کا حکم دیتا ہے (سورہ یوسف ؑ ۔ آیت ۵۳)

اسی طرح دوسری آیتیں بھی بڑی وضاحت سے یہ بات بتاتی ہیں کہ انسان سرکش جذبات اور رجحانات کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے ۔

دوسری طرف خدا نے انسان میں عقل کی طاقت بھی رکھی ہے جو نیکی اور اصلاح کی طرف انسان کی رہنمائی کرتی ہے اور اسے ملامت کرنے والا نفس اور ضمیر بھی دیا ہے جو اسے برائیوں اور ظلموں سے روکتا ہے ، برے اور ناپسندیدہ کاموں کے برے نتیجے سے خبردار اور آگاہ کرتا رہتا ہے۔

انسان کے وجود میں ہمیشہ نفسانی خواہشات اور میلانات کا عقل اور سوچ کی قوت سے جھگڑا رہتا ہے جو شخص اپنی عقل کو جذبات پر غالب رکھتا ہے وہ بلند مقام پر فاءز اور ان لوگوں کی صف میں مشار ہوتا ہے جو شرافت اور اخلاق کی راہ میں قدم رکھتے ہیں اور روحانیت میں درجہ کمال کو پہنچ گئے ہیں اور جو شخص اپنے نفسانی میلانات اور خواہشات کو عقل اور فکر پر مسلط کرلیتا ہے وہ گھٹیا اور انسانیت کی راہ سے بھٹکے ہوئے لوگوں کے زمرے میں آتا ہے اور جانوروں کی صف میں جگہ پاتا ہے۔

ان دو مخالف فریقوں میں سے جو ہمیشہ انسان کے اندر لڑتے رہتے ہیں نفسانی خواہشات اور ان کی فوج کا فریق انسانی طبیعت پر غالب آنے کے لیے زیادہ طاقت ور ہوتا ہے چنانچہ نفسانی خواہشات کی پیروی میں اور دلی جذبات کو تسکین دینے کی وجہ سے زیادہ تر انسان گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں اور ہدایت کے راستے سے دور ہوگئے ہیں جیسا کہ خداوند عالم قرآن مجید میں فرماتا ہے :

( وَمَآ اَکثَرُ النّاسِ وَلَو حَرَصتَ بِمُئومِنِینَ ) :۔ اے پیغمبر ! اگرچہ لوگوں کے ایمان لانے کی آپ کو بہت فکر ہے لیکن ان میں سے بیشتر ایمان نہیں لائیں گے۔ (سورہ یوسف ؑ آیت ۱۰۳)

اس کے علاوہ ان چیزوں کے متعلق جو انسان کو گھیرے ہوئے ہیں یا جنہیں وہ خود بناتا ہے اس کی معلومات کی کمی اور ان کے تمام رازوں اور پوشیدہ حقیقتوں سے اس کی ناواقفیت کی وجہ سے وہ اس قابل نہیں ہے کہ نفع نقصان کے اسباب پہچان سکے اور اپنی خوش بختی اور بدبختی کی وجوہ سمجھ سکے۔ نہ وہ ایسی باتیں اور معاملے سمجھ سکتا ہے جو صرف اس سے مخصوص ہیں، نہ وہ جو تمام انسانوں اور ان کے سماج کے دائرے سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ انسان ہمیشہ اپنے معاملات میں بے خبر رہتا ہے اور قدرتی معاملات اور مادی مظاہر کو پہچاننے کے لیے جتنا آگے بڑھتا ہے اس کی ناواقفیت بھی بڑھتی جاتی ہے اور وہ اپنے علم کی کمی کو زیادہ محسوس کرنے لگتا ہے۔

اس بنا پر انسان نیکی کے بلند درجے حاصل کرنے کے لیے ان لوگوں کا سخت محتاج ہے جو اسے نیکی اور ہدایت کا روسن راستا دکھائیں تاکہ ان کی رہنمائی کے سائے میں وہ اپنی عقل کی قوت کو مستحکم بنا کر نفس جیسے ڈھیٹ دشمن پر اس وقت فتح حاصل کرے جب کہ وہ اپنے آپ کو عقل اور خواہشات کے درمیان سخت مقابلے کی صورت حال پھنسا ہوا پاتا ہے ۔

سب سے زیادہ سخت وقت، جب انسان ان کی رہنمائی کا محتاج ہوتا ہے وہ ہے جب نفسانی خواہشات اور جذبات حقائق کو الٹ کر دکھاتے اور دھوکا دیتےہیں اور چونکہ یہی اتفاق زیادہ پیش آتا ہے کہ ہمارے نفسانی رجحانات برے کاموں اور غلط رویوں کو دلکش اور دلفریب بنا کر دکھاتے ہیں اس لیے انسان ہر برائی کو اچھائی اور ہر اچھائی کو برائی سمجھنے لگتا ہے یہ نفسانی خواہشات خصوصاً ایسے وقت میں جب عقل کی قوت باسعادت اور بے سعادت کاموں کی پہچان کھو بیٹھتی ہے۔ دھوکے بازی اور فریب سے کام لینے لگتی ہیں، ہم میں سے ہر شخص وہ چاہے نہ چاہے ، جذبات اور عقل کی کشمکش کا مارا ہوا ہے لیکن جسے خدا نے معصوم بنایا ہے وہ ہمیشہ اپنے جذبات پر غالب رہتا ہے ۔

تہذیب یافتہ اور دانش ور انسانوں کا تو ذکر ہی کیا، وحشی انسانوں کے لیے بھی یہ حکم ہے کہ وہ اپنے آپ کو انسانوں کی خوشحالی اور بھلائی کی راہ پر ڈالیں اور اپنے اور اپنے سماج کے بھی تمام دینوی اور اخروی فائدے اور نقصانات پہچانیں، ایک دوسرے کے خیالات سے مدد لیں اور کانفرنسیں ، کانگریسیں اور مشاورتی مجلسیں وغیرہ ترتیب دیں۔

اس بنا پر اور مختلف پہلوؤں کے لحاظ سے خدا پر واجب ہے کہ وہ اپنے بندوں پر مہربانی، لطف و رحمت اور شفقت کے طور پر پیغمبر مقرر کرے تاکہ وہ انسانوں کو آیات الہٰی سنائیں، ان کی پلیدی سے پاک کریں، کتاب اور حکمت سکھائیں، تباہی اور بربادی سے ڈرائیں اور انسانی بھلائی کے کاموں اور نیکی کے انعامات کی خوش خبری سنائیں

(( لَقَد مَنَّ عَلَی المُئومِنِینَ اَذ بَعَثَ فِیهِم رَسُولاً مِن اَنفُسِهِم یَتلُوا عَلَیهِم اٰیَاتِهِ وَیُزَکِّهِم وَیُعَلِّمُهُمُ الکِتٰبَ وَالحِکمَةَ ) : (سورہ آل عمران ۔ آیت ۱۶۴)

خدا پر لطف کے واجب ہونے کے معنیٰ یہ ہیں کہ یہ بندوں پر اس کی رحمت اور اس کے مطلق کمال کا تقاضا ہے اور وہ اپنے بندوں پر لطف اور رحمت رکھتے ہوئے سخاوت اور بخشش کرنے والا بھی ہے اس وقت جب کہ خدا کی فیض رسانی اور سخاوت کی شرطیں موجود ہوں تو ہرگز ہرگز وہ مہربانی سے دریغ نہیں کرے گا کیونکہ اس کی رحمت کے میدان میں کنجوسی نہیں ہے اور اس کی بخشش اور سخاوت کے دریا میں کوئی کمی نہیں ہے۔

اس کے ساتھ یہ بھی دھیان رکھیے کہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ خدا پر یہ لازم ہے کہ وہ لطف کرے تو اس کے یہ معنیٰ نہیں ہیں کہ ایسا کرنے کے لیے کسی نے اسے حکم دیا ہےجس کی فرماں برداری اس پر واجب ہو بلکہ اس بارے میں واجب ہونے کے معنیٰ بالکل اسی طرح کے ہیں جیسے ہم خدا کے بارے میں کہیں کہ خدا واجب الوجود یعنی ناممکن ہے کہ خدا سے وجود الگ ہوجائے۔ اسی طرح یہ بھی محال ہے کہ خدا کا لطف و کرم اس سے جدا ہوجائے۔

پیغمبروں کے معجزے :۔

ہمارا عقیدہ ہے کہ خدائے بزرگ جو انسان کو صحیح راہ دکھانے کے لیے پیغمبر اور رہنما بھیجتا ہے اسے چاہیے کہ وہ انہیں ایک مقرر طریقے سے پہچنوائے اور ان کی طرف انسانوں کی صاف صاف رہنمائی کرے۔ ان کو پہچنوانے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ خدا خود ان کی رسالت اور پیغمبری کے لیے دلیل اور ثبوت قائم کرے تاکہ بندوں پر اس کا لطف اور رحمت کامل ہوجائے اور یہ دلیل اس قسم کی ہو کہ اس کا پیش کرنا کسی ایسی ذات کے لیے ممکن نہ ہو جو مظاہر کی خالق اور موجودات کی منتظم نہ ہو۔ زیادہ واضح الفاظ میں یوں سمجھیے کہ وہ ایسی دلیل ہو جو کی منتظم نہ ہو۔ زیادہ واضح الفاظ میں یوں سمجھیے کہ وہ ایسی دلیل ہو جو انسانی طاقت سے باہر ہو۔

خداوند عالم یہ دلیلیں اپنے پیغمبروں کے ذریعے سے پیش کرتا ہے تاکہ یہ دلیلیں ان کی نبوت کی سچائی کی نشان دہی کریں اور ان کی پہچان کرائیں۔ اس دلیل کو معجز یا معجزہ کہتے ہیں اس لیے کہ یہ اس قسم کی دلیل ہوتی ہے جسے پیش کرنے اور لانے سے عام انسان عاجز ہیں۔

جس طرح پیغمبر کے لیے معجزے کا مالک ہونا اور اس کی مدد سے لوگوں پر غالب آنا ضروری ہے اسی طرح یہ بات بھی ظاہر ہونا ضروری ہے کہ عوام کا ذکر ہی کیا تمام عالم، دانا اور ماہر لوگ بھی اسے پیش کرنے سے عاجز ہیں۔ اس کے علاوہ پیغمبروں کے ان معجزوں کو ان کے پیغمبری کے دعوے سے مربوط ہونا چاہیے تاکہ وہ معجزہ ان کے دعوے کی سچائی ثابت کرسکے۔ جب اس فن کے عالم اور ماہر اس جیسا معجزہ پیش کرنے سے عاجز ہوجائیں گے تو معلوم ہوجائے گا کہ معجزہ دکھانا انسانی طاقت سے بالاتر ہے اور اس فطری اور معمولی دنیا کے دائرے سے باہر ہے ۔ اس سے یہ نیتجہ نکالا جاسکتا ہے کہ اس معجزے کا مالک انسانوں سے بالاتر ہے اور مظاہرے کے خالق اور منتظم (خدا) سے خاص معنوی اور روحانی تعلق رکھتا ہے۔

جس وقت کسی شخص سے ایسا معجزہ بالکل اور کامل شکل میں ظاہر ہوا اور اس نے اس معجزے کے تعلق سے پیغمبری اور رسالت کا دعویٰ کیا تو یہی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ لوگ اس کے دعوے کو سچ مانیں، اس کی پیغمبری پر ایمان لے آئیں اور اس کے قول اور حکم کے سامنے احترام سے سرجھکادیں (اس صورت میں خدا کی حجت پوری ہوچکی ہے) اس پر ایمان لے آئے اور جو چاہے اس سے انکار کردے۔

اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ پیغمبر کا معجزہ ہے ان علوم اور فنون سے مناسبت رکھتا ہے جو اس کے زمانے میں رائج ہوتے ہیں۔

حضرت موسیٰ ؑ کا معجزہ ایک عصا تھا جو اپنے زمانے کے جادوگروں کے بنائے ہوئے سانپوں کو نکل گیا اس لیے کہ آپ کے زمانے میں جادوگری کے فن اور علم کا بہت رواج تھا۔ جب حضرت موسیٰ ؑ کا عصا میدان میں آیا تو جادوگروں کے بنائے ہوئے تمام سانپ ناکارہ ہوگئے اور انہوں نے جان لیا کہ عصا کا معجزہ ان کی قوت سے باہر ہے اور ان کے فن سے اونچا ہے۔ انسان اس کی مثال پیش کرنے سے عاجزرہ گئے اور علم و فن نے اس کے سامنے سرجھکا دیا۔

حضرت عیسیٰ ؑ کا معجزہ بھی ایسا تھا جو اندھے کو بینا کوڑھی کو صحت یاب اور مردوں کو زندہ کرنے کا تھا۔ اس لیے یہ معجزے اس زمانے میں ہوئے جب علاج معالجے کا علم سب سے زیادہ رواج یافتہ علم سمجھا جاتا تھا اس زمانے میں عالم ، نامور معالج اور نامی لوگ موجود تھے لیکن وہ سب کے سب حضرت عیسیٰ ؑ کے معجزے کے سامنے ہار مان گئے اور سرجھکا بیٹھے۔

ہمارے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ہمیشہ باقی رہنے والا معجزہ قرآن کریم ہے جس نے اپنی فصاحت اور بلاغت سے جو اس زمانے کا شہرت یافتہ علم تھا، اس زمانے کے تمام فصیحوں اور بلیغوں کو ہرادیا۔ قرآن نازل ہونے کے زمانے میں جن لوگوں کی گفتگو فصاحت اور بلاغت کے لحاظ سے اچھی ہوتی تھی وہ دوسروں پر فضلیت پاتے تھے جب قرآن کی آیتیں نازل ہوئیں (اس طرح جیسے آسمان سے بجلی گرتی ہے) تو انہوں نے اپنے بیان کے زور اور عظمت سے ان سب لوگوں کو پست کیا اور کپکپا دیا اور ان کی جڑیں ہلادیں۔ انہیں سمجھا دیا کہ وہ قرآن کے معجزانہ بیان کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔ آخر جب انہوں نے اپنی کمزوری اور مجبوری دیکھ لی تو قرآن کے سامنے تعظیماً سرجھکا دیا اور اپنے آپ کو اس کے سامنے گونگا محسوس کرنے لگے۔

ان کے عاجزہ رہ جانے کی دلیل یہ ہے کہ جب قرآ ن سب سے پہلے ان کو قرآن سورتوں کے مثل کی دس سورتیں لانے کا الٹی میٹم دیا۔

(( قُل فَاتُوا بِعَشرِ سُوَرٍ مِّثلِهِ مُفتَرَیٰتٍ وَّادعُوا مَنِ استَطَعتُم مِّن دُونِ اللهِ اِن کُنتُم صٰدِقِینَ ) (سورہ ہود۔ آیت ۱۳))

تو وہ پیش نہیں کرسکے۔ پھر قرآن نے اپنی سورتوں جیسی ایک ہی سورت لانے کو کہا تو وہ اس سے بھی عاجز رہ گئے۔

(( قُل فَاتُوا بِسُورَةٍ مِّثلِهِ وَادعُوا مَنِ اسَتطَعتُم مِّن دُونِ اللهِ اِن کُنتُم صٰدِقِینَ ) (سورہ یونس۔ آیت ۳۸)

اور زبان کے بجائے تلوار نکال لائے تو ہم سمجھ گئے کہ قرآن ایک قسم کا معجزہ ہے جسے حضرت محمد بن عبداللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنی پیغمبری کے دعوے کے ساتھ لائے تھے۔

چنانچہ ہم کسی ہچکچاہٹ اور تامّل کے بغیر یقین کرلیتے ہیں کہ وہ خدا کے رسول اور پیغمبر ہیں اور جو کچھ اپنے ساتھ لائے ہیں سچا اور حقیقی ہے ۔

عصمت انبیاء :۔

ہمارا اعتقاد ہے کہ پیغمبر اور انہی کی طرح ائمّہ اطہار ؑ غلطی اور گناہ سے بچے ہوئے ہیں ۔ مسلمانوں کے فرقوں میں سے کچھ لوگ اس عقیدے میں ہمارے مخالف ہیں اور امام تو امام وہ تو پییغمبروں کا معصوم ہونا بھی ضروری نہیں سمجھتے۔

پیغمبروں کی عصمت کا مطلب ہے ""ان کا چھوٹے بڑے گناہوں اور بھول چوک سے بری ہونا"" (حالانکہ ان باتوں کا پیغمبروں سے سرزد ہونا عقل کی رو سے ناممکن نہیں ہے) یہی نہیں بلکہ پیغمبر کا ایسی باتوں سے بھی بری ہونا ضروری ہے جو حسن اخلاق اور وقار کے منافی ہیں، مثلاً لوگوں کے مجمع میں حقیر اور نامناسب کام کرنا، جیسے راستا چلتے کچھ کھان ، اونچی آواز میں ہنسنا اور ہر وہ کام کرنا جسے عام طور پر لوگ ناپسند کرتے ہیں۔

اس بات کی دلیل کہ پیغمبروں کا معصوم ہونا ضروری ہے ، یہ ہے : ""فرض کیجیے کہ پیغمبر گناہ کرتا ہے یا غلطی کرتا ہے یا وہ بھولنے لگتا ہے تو ایسی خطا اور گناہ وغیرہ کے موقع پر بھی اس کی پیروی واجب ہے یا نہیں ؟ اگر پیروی واجب ہے تو پھر ہمارا یہ کہنا بھی لازم ہے کہ خدا نے نہ صرف گناہ کرنے کی اجازت دے دی ہے بلکہ گناہ کرنا واجب بھی کر دیا ہے اور یہ مانی ہوئی بات ہے کہ دین اور عقل کی رو سے خدا کی طرف یہ بات منسوب کرنا بالکل لغو اور غلط ہے اور اگر اس کی پیروی واجب نہیں ہے تو یہ بات بھی مقام پیغمبری کے خلاف ہے کیونکہ پیغمبر کی مکمل اطاعت واجب ہے""

اس کے علاوہ اگر یوں ہو کہ ہم پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہر فعل پر گناہ یا خطا کا شک کریں تو اس حساب سے بھی واجب نہیں ہے کہ ہم پیغمبر کے کسی قول اور فعل میں اس کی پیروی کریں۔

نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ پیغمبروں کے تصور کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے ، اس صورت میں پیغمبر اور دوسرے لوگوں میں کوئی فرق نہیں رہتا اور اس کے قول و فعل کی وہ غیر معمولی قدر و قیمت جس سے اس پر اعتبار کیا جاسکے نہیں ہوسکتی۔ اسی طرح ایسے پیغمبر کے احکام اور قوانین بھی قابل اطاعت نہیں رہتے اور اس کی گفتگو اور کردار پر بھروسا اور یقین کسی قید اور شرط کے بغیر نہیں کیا جاسکتا۔

یہ دلیل جو پیغمبروں کی لازمی عصمت کے لیے دی گئی ہے ، بالکل اسی طرح امام کی عصمت کے بارے میں بھی دلیل بن جائے گی کیونکہ اصل میں امام خدا کی طرف سے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جانشین کی حیثیت سے انسان کی ہدایت کے لیے منتخب ہوئے ہیں جیسا کہ امامت کے باب میں بنایا جائے گا۔

پیغمبروں کی صفات :۔

جس طرح ہمارے عقیدے میں یہ واجب ہے کہ پیغمبر معصوم ہو اسی طرح یہ بھی واجب ہے کہ وہ سب سے کامل عقلی اور عملی صفات : مثلاً بہادری، سیاست ، تدبیر ، ثابت قدمی، ہوش مندی وغیرہ کا اس طرح مالک ہوکہ کوئی اور شخص اس کی صفات اور خصوصیات کے درجے تک نہ پہنچ سکے۔ اس لیے کہ اگر وہ ان صفات کا حامل نہیں ہوگا تو تمام انسانوں کے مقابلے میں دنیا کی سرداری کی قابلیت نہیں رکھ سکے گا اور دنیا والوں کی پیشوائی اور انتظام سے عاجز رہ جائے گا۔

اسی طرح پیغمبر کے لیے لازم ہے کہ وہ پیغمبری کے منصب پر فائز ہونے سے پہلے صحیح النسب ، ایمان دار، سچا اور ہر طرح کی گھٹیا باتوں سے بری ہوتا کہ اس سے دلوں کو سکون اور اطمینان ہو اور روحیں اس کی طرف رغبت کریں۔ ایسا نمایاں اور شاندار سابقہ کردار نبوت کے اعلیٰ منصب کے لیے مناسب اور ضروری ہے۔

انبیاء اور آسمانی کتابیں :۔

جس طرح ہم تمام پیغمبروں کے پاک اور معصوم ہونے کے معتقد ہیں ، اجمالی طور پر یہ بھی مانتے ہیں کہ تمام پیغمبر حق کے راستے پر تھے ہمارا عقیدہ ہے کہ ان کی نبوت کا انکار کرنا یا ان کو برا کہنا اور ان کا مذاق اڑانا کفر اور بے دینی کے برابر ہے کیونکہ ان باتوں سے ہمارے پیغمبر یعنی رسول اسلام حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے انکار لازم آتا ہے جنہوں نے ان کی نبوت اور سچائی کی خبردی ہے ۔ البتہ ان پیغمبروں پر ایمان لانا خاص طور سے واجب ہے جن کے نام اور شریعتیں مشہور ہیں ۔ جیسے حضرت آدم ؑ ، حضرت نوح ؑ ، حضرت ابراہیم ؑ ، حضرت داود ؑ ، حضرت سلیمان ؑ ، حضرت موسیٰ ؑ ، حضرت عیسیٰصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور دوسرے پیغمبر جن کے نام قرآن میں آئے ہیں، اگر کوئی شخص ان میں سے کسی ایک کا بھی انکار کرتا ہے تو اس نے گویا سبھی سے انکار کر دیا ہے اور خصوصیت کے ساتھ ہمارے پیغمبر کی پیغمبری سے منکر ہوگیا ہے۔

اسی طرح ا کی کتابوں پر اور اس پر بھی جو خدا کی طرف سے ان پر نازل ہوا ایمان رکھنا چاہیے۔

لیکن یہ ثابت ہوچکا ہے کہ یہ توریت اور انجیل جو آج لوگوں کے ہاتھوں میں ہیں اصلی توریت اور انجیل نہیں ہیں۔ ان میں تبدیلی ہوچکی ہے اور حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت عیسیٰ ؑ کے بعدیہ ہوس کے غلاموں، توسیع پسندوں اور لالچ کے ماروں کے کھلونے بن چکی ہیں، ان میں بہت سی باتیں بڑھادی گئی ہیں بلکہ آج کل کی توریت اور انجیل کا بیشتر یا سب کا سب مواد حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت عیسیٰ ؑ کے عہد کے بعد ان کے پیروؤں اور اتباع کرنے والوں ہاتھوں بدل چکا ہے اور یہ عمل اب بھی جاری ہے!

اسلام کا قانون :۔

ہمارا اعتقاد ہے کہ خدا کے نزدیک واحد دین ""دین اسلام "" ہے۔

(نوٹ :۔انسان کی فطرت سے ہم آہنگ ، اس کے وجود کے اندازے پر مبنی اور طبیعت انسانی سے صحیح صحیح مطابق رکھنے والادین جو اس کے پروردگار کی جانب سے بھیجا گیا ہے ، اس نے اسلام نام پایا ہے یہ حضرت خاتم الانبیاء کی شریعت اور دین کا خاص نام نہیں ہے بلکہ جو دین تمام انبیاء کرام (مثلاً حضرت نوح ؑ، حضرت ابراہیم ؑ ، حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت عیسیٰ ؑ) لائے اس کا نام بھی اسلام ہی ہے۔ جہاں تک قرآن مجید سے نشاندہی ہوتی ہے ، حضرت نوح ؑ سے پہلے والے دور کے سلسلے میں یہ پتا نہیں چلتا کہ آسمانی دین کا کیا نام تھا لیکن ان کے زمانے سے لے کر بعد کے ادوار میں تمام آسمانی شریعتوں کا نام ""اسلام"" ہی رہا ہے۔پہلے سب لوگ ایک ہی دین رکھتے تھے (پھر وہ آپس میں جھگڑنے لگے) تب خدانے نجات کی خوشخبری دینے والے اور عذاب سے ڈرانے والے پیغمبر بھیجے۔ (سورہ بقرہ ۔ آیت ۲۱۳) لہذا اسلام کی تعریف مختصر الفاظ میں یوں کی جاسکتی ہے : ""یہ ایسے قوانین کا مجموعہ ہے جو انسان کے پروردگار نے اس کی ساخت کی مناسبت سے اور انسانی طبیعت کے مطابق اس کے لیے وضع فرمائے ہیں"" قرآن مجید کی منطق کے مطابق : دین تو خدا کے نزدیک بس اسلام ہی ہے، وہ دین جس کی طرف تمام پیغمبروں نے لوگوں کو دعوت دی وہ خدا کی عبادت اور اس کے احکام ماننے سے عبارت اور اس کے احکام ماننے سے عبارت ہے اور مختلف مذاہب کے علماء اگرچہ حق اور باطل کے فرق کو پہچانتے تھے لیکن تعصب اور دشمنی کی وجہ سے انہوں نے حق کو قبول نہیں کیا اور ہر ایک نے اپنا الگ راستا اختیار کیا جس کے نیتجے میں روئے زمین پر مختلف مذاہب پیدا ہوگئے۔ (سورہ آل عمرن ۔ آیت ۱۹) گزشتہ انبیاء کے بعد ""اسلام"" مکمل طور پر معاشرے سے ناپید ہوگیا ۔ جواسلام حضرت موسیٰ ؑ لائے وہ رفتہ رفتہ معدوم ہوگیا اور جو اسلام حضرت عیسیٰ لائے وہ بھی ان کے بعد نابود ہوگیا حتیٰ کہ اس کے نام کا وجود بھی باقی نہ رہا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ جو دین اللہ کی جانب سے بذریعہ وحی تمام انبیائے کرام پر نازل کیا گیا اس کا نام ""اسلام "" ہے اور جو شریعت حضرت موسیٰ ؑ لائے اس کا نام بھی اسلام ہی تھا لیکن اب وہ یہودیت میں تبدیل ہوگیا ہے اور اسی طرح حضرت عیسیٰ ؑ کی شریعت کو مسیحیت کہا جاتا ہے ۔ یہ نام پروردگار عالم کی جانب سے نہیں بلکہ امتوں کے گھڑے ہوئے ہیں اور تحریف کرنے والوں کے ہاتھوں وجود میں آئے ہیں۔ تفصیلات کے لیے علامہ مرتضی عسکری کی کتاب ""احیائے دین میں ائمّہ اہلبیت ؑ السلام کا کردار "" ملاحظہ فرمائیے (ناشر)

اسلام خدا کا سچا قانون ہے اور انسان کی خوش بختی کے حصول کے لیے سب سے آخر ، سب کامل اور سب سے اچھا اور انسانوں کی دنیا اور آخرت کے فوائد کے حصول کے لیے سب سے جامع دین ہے اور یہ صلاحیت رکھتا ہے کہ جب تک رات دن جاری ہیں نہ اس میں کچھ بڑھے گا نہ اس میں کچھ گھٹے گا اور یہ ہمیشہ باقی رہے گا۔ یہ ایسا دین ہے جو انفرادی ، سماجی اور سیاسی نظام اور معاملات میں انسان کی تمام ضرورتیں پوری کرتا ہے۔

ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ اسلام آخری دین ہے اور اب ہمیں کسی دوسرے دین کا انتظار نہیں ہے جو انسانوں کو ظلم ، خرابی اور بربادی سے بچائے، لامحالہ اس عقیدے کی رو سے ایک دن ایسا آئے گا کہ اسلامی نظام قت پکڑے گا اور پوری دنیا کو اپنے پختہ قوانین اور انصاف کے تحت لے آئے گا۔

اگر اسلام کے قوانین جیسے ہیں ویسے ہی زمین کے تمام مقامات پر اپنی کامل اور صحیح صورت میں نافذ ہوجائیں تو تمام انسانوں کو امن اور سکون مل جائے، تمام انسانوں کو حقیقی خوش حالی نصیب ہوجائے اور وہ بہبود، آرام، عزت ، ناموری ، استغناء اور یک عادات کی آخری حدود تک پہنچ جائیں، دنیا میں ہمیشہ کے لیے ظلم کی جڑکٹ جائے ، تمام انسانوں کے درمیان پیار اور بھائی چارہ قائم ہوجائے اور محتاجی، افلاس اور غریبی روئے زمین سے ختم ہوجائیں۔

یہ جو ہم آج ان لوگوں کے ۔۔۔۔ جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں ۔۔۔۔ افسوسناک اور شرمناک حالات دیکھتے ہیں، درحقیقت اسی پہلی صدی ہجری سے۔۔۔۔ جب کہ اسلام کے حقیقی اصول اور جذبہ مسلمانوں میں عام نہیں ہوا تھا ۔۔۔۔ آج تک جبکہ ہم خود کو مسلما کہتے ہیں ، چلے آرہے ہیں بلکہ لمحہ بہ لمحہ اور دن بہ دن زیادہ افسوسناک اور ملال انگیز ہوتے جارہے ہیں۔

دوسری قوموں سے مسلمانوں کے پیچھے رہ جانے کا شرمناک عیب اسلام سے وابستگی اور اس کی یپروی سے یپدا نہیں ہوا ہے بلکہ اس کے برعکس بانی اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تعلیمات سے دوری، اسلام کے قوانین کی بے حرمتی ، حکمرانوں اور رعایا نیز عام اور خاص مسلمانوں کے درمیان ظلم اور زیادتی کا وجود میں آنا اور بچھڑ جانے ، اندرونی کمزوری، زوال، مجبوری اور ادبار کا باعث ہوا ہے ، خدا نے مسلمانوں کو ان گناہوں اور لیت ولعل کے باعث ان کی واجبی سزا تک پہنچا دیا ہے۔ جیسا کہ قرآن فرماتا ہے :

( ذٰلِکَ بِاَنَّ اللهَ لَم یَکُ مُغَیِّرًا نِّعمَةً اَنعَمَهَاعَلٰی قَومٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوا مَابِاَنفُسِهِم ) :۔ یہ اس لیے ہے کہ خدا جو نعمت کسی قوم کو دیتا ہے وہ اس سے وقت تک واپس نہیں لیتا جب تک اس کے افراد اپنی نیک انسانی عادتیں بدل نہیں ڈالتے (سورہ انفال ۔ آیت ۵۳)

خدا کے تمام مظاہر میں یہ قانون اٹل ہے ۔ وہ دوسری آیتوں میں فرماتا ہے :

( اِنَّهُ لاَ یُفلِحُ المُجرِمُونَ ) :۔ یقیناً مجرم کامیاب نہیں ہوں گے۔ (سورہ یونس ۔ آیت ۱۷)

( وَمَا کَانَ رَبُّکَ لِیُهلِکَ القُرٰی بِظُلمٍ وَّاَهلُهَا مُصلِحُونَ ) :۔ تیرا پروردگار کبھی ظلم سے کسی بستی کو نہیں اجاڑتا جب کہ اس میں مصلح (اپنی قوم کے امور کے اصلاح کرنے والے، ان کو آفات سے بچانے والے، ظالموں اور جابروں کا مقابلہ کرنے والے اور عدل و انصاف کو رواج دینے والے) بندے موجود ہوں (سورہ ہودؑ آیت ۱۱۷)

( وَکَذٰلِکَ اَخذُ رَبِّکَ اِذَا اَخَذَ القُرٰی وَهِیَ ظَالِمَةٌ اِنَّ اَخذَهُ اَلِیمٌ شَدِیدٌ ) :۔ ایسی ہی ہے تیرے پروردگار کی پکڑ جب کہ اس نے بستی والوں کو ان کے ظلم کے سبب سے سزا دی اس کی سزا بہت تکلیف دہ اور شدید ہوتی ہے۔ (سورہ ہود۔ آیت ۱۰۲)

اسلام سے کسی طرح یہ امید کی جاسکتی ہے کہ وہ مسلمانوں کو بدبختی سے چھٹکارا دلائے جب کہ خود اسلام ایسا رہ گیا ہے جیسے کاغذ پر روشنائی اور اس کے احکام جاری ہونے کا کوئی پتا نہیں ہے ۔ ایمان، ایمانداری، دوستی، محبت، نیک عمل ، چشم پوشی اور درگزر اور مسلمان بھائی کے لیےوہی پسند کرنا جو اپنے لیے پسند ہو وغیرہ ، یہ اسلام کے مانے ہوئے اصول ہیں لیکن اگلے پچھلے اکثر مسلمان یہ خوبیاں چھو بیٹھے ہیں اور جوں جوں وقت گزرتا جارہا ہے ہم مسلمانوں کو اور زیادہ ابتر دیکھ رہے ہیں جو دنیاوی منفعت کے لالچ میں آکر مختلف گروہوں میں بٹ گئے ہیں، تو ہم پرستی کا شکار ہوگئے ہیں، اسلام کی حقیقی زندگی کو نہ سمجھ پانے کے باعث فضول اور غیر واضح عقیدوں اور خیالوں کے باعث ایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگا رہے ہیں، دین کی حقیقت تک نہیں پہنچ پائے ہیں، انفرادی اور قومی بہبود بھلا بیٹھے ہیں اور ایسی بحثوں میں الجھ کر رہ گئے ہیں کہ :

قرآن مخلوق ہے یا نہیں ؟

عذاب و رجعت کیونکر ہوگی ؟

بہشت اور دوزخ پیدا ہوچکے ہیں یا بعد میں پیدا ہوں گے؟ اس قسم کی بحثیں اور جھگڑے ہیں جنہوں نے ان کو غافل بنا دیا ہے اور گھٹن میں مبتلا کر دیا ہے اور ایک گروہ دوسرے گروہ کو کافر بنا رہا ہے ، یہ ناخوشگوار جھگڑے اور بحثیں بتاتی ہیں کہ مسلمان دینداری اور خدا کی سچی عبادت کے سیدھے راستے سے بھٹک گئے ہیں یہاں تک کہ تباہی اور زوال کے راستے پر جاپڑے ہیں اورجیسے جیسے وقت گزرتا جارہا ہے ان افسوسناک پروگراموں کے جاری رہنے کے ساتھ ساتھ ان کی کجی اس طرح بڑھتی جارہی ہے کہ جہالت اور گمراہی ان پر اپنا منحوس سایہ ڈالے ہوئے ہیں اور وہ سطحی اور بے بنیاد مسئلوں میں پڑ گئے ہیں اور فضولیات اور فرضیات میں پھنس گئے ہیں لڑائیوں ، جھگڑوں اور شیخیوں نے انہیں اندھے کنویں میں گرادیا ہے۔

جس دن سے اسلام کے کے جانی دشمن چوکنے مغرب نے اسلامی ملکوں کو اپنی توسیع پسندی کا محور بنالیا ہے ، اس دن سے مسلمان غفلت اور بے خبری کے عالم میں اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔

بے شک مغرب کی توسیع پسندی نے مسلمانوں کو ایک خطرناک گھاٹی میں گرادیا ہے جو ان کے اندرونی جھگڑو ں اور باہمی مخالفتوں کا نتیجہ ہے۔ یہ ایک ایسی گھاٹی ہے جس سے نکلنے کا راستا سوائے خدا کے اور کوئی نہیں جانتا جیسا کہ زندگی بخشنے اور آزادیوں کی خوش خبری دینے والا قرآن کہتا ہے :۔

( وَمَا کَانَ رَبُّک َلِیُهلِکَ القُریٰ بِظُلمٍ وَّاَهلُهَا مُصلِحُونَ ) :۔ تیرا رب کسی بستی کو ظلم سے ہلاک نہیں کرتا جب تک اس میں مصلح بندے موجود ہیں۔ (یعنی یہ لوگ خود ہی ایسے ہیں جو اپنے جرم اور غفلت کے پیروں سے چل کر گہرے گڑھوں کی طرف جارہے ہیں) (سورہ ہود۔ آیت ۱۱۷)

آج بھی اور آئندہ بھی مسلمانوں کے لیے نجات اور خوش بختی کا راستا سوائے اس کے دوسرا نہی ہے کہ نہایت غور و توجہ سے اپنا محاسبہ کریں۔ اپنی فضول خرچی اور بے فائدہ کاموں کا شمار کریں اور اپنی آنے والی نسل کو سدھارنے کے لیے اپنے محکم دین کے سائے میں ایک تحریک شروع کریں اور اس تحریک کے زیر اثر ظلم اور زیادتی کو اپنے اندر سے اکھاڑ پھینکیں ۔ یہی وقت ہے کہ وہ ان افسوسناک اور لرزا دینے والی ڈھلانوں سے اپنے آپ کو بچا سکتے ہیں دنیا کے ظلم اور ستم سے بھر جانے کے بعد اسی تحریک سے اس میں عدل اور انصاف کا راج ہوجائے گا۔ جیسا کہ خدا اور اس کے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس بات کا وعدہ کیا ہے اور دی اسلام کو بھی جو آخری دین ہے اور جس کے بغیر دنیا کی درستی نہیں ہوسکتی ، سوائے اس کے اور کوئی انتظار نہیں ہے۔ یہ انقلاب برپا کرنے کے لیے ایک پیشوا کی اشد ضرورت ہے جو آئے گا اور اسلام کے روشن چہرے سے توہم پرستی، بدعتوں اور گمراہیوں کی کثافتیں دھوڈالے گا اور انسان کو ہر جہتی بربادیوں ، ظلموں مسلسل دشمنیوں اور ان بے پروائیوں سے بچائے گا اور جو اچھے اخلاق اور انسانی روح کی بلندی سے برتی جارہی ہے خداوند عالم اس عظیم رہنما کو جلد ظاہر کرے اور اس کے ظہور اور انقلاب برپا کرنے سے پہلے کے معاملات کی راہ آسان بنائے۔ آمین۔

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

ہمارے عقیدے کے مطابق مذہب اسلام کے قائد اور رہبر حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں، وہ آخری پیغمبر اور تمام رسولوں کے پیشوا ہیں اور ان سب سے اعلیٰ وبالا ہیں ، اس طرح آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تمام انسانوں کے سردار ہیں اور کمال و عظمت اور فضل و شرافت میں اپنا ثانی نہیں رکھتے کسی شخص کی عقل اور عادات ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی عقل اور عادات کو نہیں پہنچتیں جیسا کہ خداوند عالم قرآن مجید میں فرماتا ہے :

( وَاِنَّکَ لَعَلیٰ خُلُقٍ عَظِیمٍ ) :۔ یقیناً آپ بہت بلند اخلاق کے مالک ہیں۔ (سورہ قلم ۔ آیت ۴ )

تمام انسانوں کے مقابلے میں ان کے درجے کی یہ بلندی اور یہ شان انسان کی پیدائش سے لے کر قیامت کے دن تک لیے ہے ۔

قرآن مجید

ہمارا عقیدہ ہے کہ قرآ ن وحی الہٰی ہے جو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زبان مبارک پر جاری ہوئی اور اس میں ہر اس چیز کا بیان موجود ہے جو انسان کی ہدایت کے لیے ضروری ہے یہ پیغام پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا جادوانی معجزہ ہے جس کی فصاحت و بلاغت اور بیش قیمت معلومات کے باعث انسان اس کا جوب یپش کرنے سے عاجز رہ گئے۔ اس آسمانی کتاب میں کسی قسم کی کوئی، تحریف نہیں ہوئی ہے ۔ یہ قرآن جو ہمارے ہاتھوں میں ہے اور جس کی آیات ہم پڑھتے ہیں وہی قرآن ہے جو آنحضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نازل ہوا تھا ، جو کوئی اس کے علاوہ کوئی اور بات کہتا ہے وہ جھوٹ بولتا ہے ، غلط سوچتا ہے یا دھوکا کھا گیا ہے وہ سب کے سب لوگ جو کسی طریقے سے ایسا سوچتے ہیں صحیح راستے سے بھٹک گئے ہیں کیونکہ قرآن مجید خدا کا کلام ہے اور خدا اس کے بارے میں فرماتا ہے ۔

( لاَ یَاتِیهِ البَاطِلُ مِن بَینِ یَدَیهِ وَلاَ مِن خَلفِهِ ) :۔ قرآن میں آگے پیچھے (کسی طرف) سے باطل (جھوٹ) داخل نہیں ہوسکتا ۔ (سورہ حٰمٓ سجدہ ۔ آیت ۴۲)

قرآن کو معجزہ ثابت کرنے والی دلیلوں میں سے ایک یہ ہے کہ جیسے جیسے زمانہ آگے بڑھتا جاتا ہے اس کے ساتھ ساتھ مختلف علوم و فنون اور معلومات میں ترقی ہوتی جاتی ہے۔ لیکن قرآن کی شیرینی اور تازگی اپنی جگہ قائم ہے ۔ اسی طرح اس کے خیالات اور مقاصد عظمت کی چوٹی پر موجود ہیں ، کسی ثابت شدہ اور مانے ہوئے علمی نظریے کی رو سے قرآن میں کوئی غلطی یا خامی ظاہر نہیں ہوپاتی ہے اور اس کے بلند مرتبہ مطالب اور حقائق میں کسی قسم کی تضاد بیانی نہیں آئی ہے۔

اس کے برعکس علم اور فلسفے کے ماہرین کی کتنی ہی کتابیں وہ علمی لحاظ سے کتنی ہی بلند کیوں نہ ہوں اور علم کی بلند ترین چوٹی پر ہی کیوں نہ ہوں ، آخر کار شبہات کا شکار ہوجاتی ہیں اور رفتہ رفتہ معلوم ہوتا ہے کہ ان میں غلطیاں درآئی ہیں، چنانچہ یہ بات یونانی فلسفے کے بزرگوں سقراط، افلاطون اور ارسطو کی کتابوں تک میں پائی جاتی ہیں، جنہیں ان کے بعد کے تمام دانشمند ""علم کا باپ "" کہتے ہیں اور جن کے خیالات کی عظمت کی تصدیق کرتے ہیں۔

ہمارا یہ بھی عقیدہ ہے کہ قرآن مجید کی عزت اور اس کی توقیر گفتگو اور کردار دونں کے ذریعے سے کرنا واجب ہے۔ قرآن کے کسی ایک لفظ کو بھی اس خیال سے کہ وہ قرآن کا ایک حصہ ہے ناپاک نہیں کرنا چاہیے اور جس نے اپنے آپ کو (وضو وغیرہ کرکے) پا ک نہیں کیا ہے اسے اپنے جسم کا کوئی حصہ قرآن کے الفاظ یا حروف سے نہیں چھونا چاہیے ۔ جیسا کہ خدا فرماتا ہے :

لاَ یَمَسُّهُٓ اِلاَّ المُطَهَّرُونَ :۔ صرف پاک لوگوں کو قرآن چھونا جائز ہے۔ (سورہ واقعہ ۔ آیت ۷۹)

قرآن اس ضمن میں نجاست میں کوئی تفریق نہیں کرتا، چاہے جناب سے ہو، حیض سے ہو، نفاس سے ہو یا ایسی باتوں کے پیش آنے سے ہو جو وضو کو باطل کردیتی ہیں، جن میں نیند جیسی چیز بھی ہوسکتی ہے اور طہارت صرف اس صورت میں مانتا ہے جب آدمی اسلامی فقہ کی کتابوں میں کی ہوئی تشریح کے مطابق غسل یا وضو کرلے۔

اسی طرح قرآن کو جلانا اور قرآن کی ایسی بے عزتی کرنا جسے لوگ توہیں سمجھتے ہیں جیسے اسے پھینک دینا، اس میں نجاست لگانا، اسے ٹھوکر مارنا، اسے نیچی اور نامناسب جگہ پر کھ رینا جائز نہیں ہے اگر کوئی جان بوجھ کر ان کاموں میں سے کسی کام سے یا ان جیسے اور کسی عمل سے قرآن کی بے عزتی کرتا ہے تو وہ اسلام کے منکروں اور ایسے لوگوں میں شمار ہوجاتا ہے جو قرآن کی پاکیزگی اور اس کے کلام الہٰی ہونے کے قائل نہیں ہیں اور اس کا سزاوار ہوجاتا ہے کہ خداوند اسے دین اسلام سے خارج کردے۔

اسلام اور دوسرے مذہبوں کی سچائی ثابت کرنے کا طریقہ

جب کوئی شخص دین اسلام کے صحیح اور درست ہونے کے متعلق ہم سے بحث کرے تو ہم اس سے اسلام کے لافانی معجزے یعی قرآن مجید کے متعلق بحث کرسکتے ہیں اس طریقے سے اسے اسلام کی سچائی کا قائل کرسکتے ہیں اور اس سے پہلے بھی ہم بیان کرچکے ہیں کہ قرآن ایک معجزہ ہے۔

اسی طرح ہم اپنی عقل اور سوچ کی قوت کے وسیلے پر قناعت کرکے اسلام کی درستی اور سچائی کو پالیں گے کیونکہ ہر اس انسان کے ذہن میں جو آزادی سے سوچتا ہے کسی مذہبی عقیدے کو اپناتے وقت لازمی طور سے کچھ شکوک اور سوالات ابھرتے ہیں لیکن یہودیت اور عیسائیت جیسے پچھلے مذہبوں کی (ان کے زمانے میں) سچائی کا سراغ لگانے کو ہمارے لیے قرآن کی گواہی سے پہلے (یا اگر ہم اپنے ذہنوں کو اسلام کے عقیدے سے خالی کرلیں تو) کوئی بھروسے کی دلیل یا راہ نہیں ہے اور ہم کسی پوچھنے والے کو مطمئن نہیں کرسکتے کیونکہ یہودیوں اور عیسائیوں کے مذہب کے لیے قرآن مجید کی طرح کا کوئی جاودانی معجزہ نہیں ہے اور وہ تھوڑے سے معجزے اور غیر معمولی کام جو ان مذہبوں کے ماننے والے اپنے اپنے پیغمبروں سے منسوب کرتے ہیں بھروسے کے لائق نہیں ہیں، کیونکہ وہ لوگ انہیں مذہبوں کے ماننے والے ہیں اس لیے ان کا دعویٰ انہیں کے مذہب کے متعلق درست نہیں مانا جاسکتا اور قدیم پیغمبروں کی یہ موجودہ کتابیں جیسے توریت اور انجیل جو ہمارے ہاتھوں میں ہیں لافانی معجزہ کہلانے کے لائق نہیں ہیں کہ بجائے خود قطعی دلیل بن سکیں اور انہیں اسلام کی طرف سے کسی تصدیق کی ضرورت نہ پڑے۔

ہم مسلمانوں کے لیے پچھلے نبیوں کی گواہی دینا اور جس امر کا اعتراف کرنا صحیح ہے وہ یہ ہے کہ جو کچھ اسلام لایا ہے ہم اس پر اعتقاد رکھیں اور اسے قبول کریں۔ اسی میں پچھلے نبیوں کی نبوت بھی ہے جس پر ہم پہلے بحث کرچکے ہیں۔

اس بنا پر جو شخص دین اسلام کا ماننے والا ہے وہ عیسائیت اور دوسرے قدیم ادیان کے (ا ن کے زمانے میں) درست ہونے کے بارے میں تحقیق و تدقیق اور بحث مباحثے کی ضرورت نہیں رکھتا کیونکہ اسلام کا مان لینا ان کے مان لینے کے برابر ہے اور اسلام پر ایمان لانا پچھلے نبیوں پر ایمان لانے سے وابستہ ہے چنانچہ کسی مسلمان کے لیے پچھلے مذہبوں اور ان کے معجزوں کے بارے میں تحقیق اور چھان بین کرنا ضروری نہیں ہے کیونکہ یہ مان لیا گیا ہے کہ وہ مسلمان ہے اور دل میں اسلام پر ایمان رکھنے کے ساتھ ساتھ پچھلی شریعتوں پر بھی ایمان رکھتا ہے، واقفیت اور تصدیق کے لیے بس اتنا ہی کاری ہے۔

ہاں جب کوئی شخص مذہب اسلام کی سچائی کی چھان بی کرتا ہے اور اس کی تحقیق کسی نتیجے تک نہیں پہنچتی تو عقل کی رو سے (سچے مذہب کی پہچان کے لیے غور و فکر کے واجب ہونے کے لحاظ سے) اس کو لازم ہے کہ وہ عیسائیت کی تحقیق کرے (تاکہ اگر وہ سچا مذہب ہے تو اسی کی پیروی کرے) اس لیے کہ عیسائیت اسلام سے پہلے آخری مذہب ہے اگر اس مذہب کی تحقیق کے بعد اس کی درستی کے بارے میں اطمینان نہیں ہوا تو پھر یہودیت کی تحقیق کرے اور پھر اسی طرح دوسرے قدیم مذہبوں کی تحقیق کرتا چلا جائے جب تک کہ وہ ان مذہبوں میں سے کسی ایک مذہب کی سچائی کا قائل نہ ہوجائے اور اگر اپنی تحقیقات میں وہ کسی نتیجے پر نہ پہنچے تو پھر تمام مذاہب کو چھوڑ بیٹھے۔

البتہ جو شخص یہودیت یا مسیحیت میں پلا بڑھا ہے اس کا کام اس کے بالکل خلاف ہے کیونکہ یہودی اپنے ہی دین کے معتقد ہونے کے باعث مسیحیت اور اسلام کی صحت کے متعلق تحقیق نہیں کرتا۔ اسی طرح عیسائی اسلام کی درستی کے بارے میں چھان بین نہیں کرتا لیکن عقل کی رو سے یہودیوں اور ان کی طرح عیسائیوں پر بھی واجب ہے کہ دین اسلام کی درستی کی تحقیق کریں اور صرف اپنے ہی دین پر قناعت نہ کر بیٹھیں کیونکہ یہودی اور مسیحی اپنے اپنے دین کی خاتمیت کا دعویٰ نہیں کرتے اور ہ کسی ایسے دین کے آنے سے انکاری ہیں جو ان کے دین کو منسوخ کرنے والا ہو۔

حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت عسیٰ ؑ نے بھی یہ نہیں کہا ہے کہ ہمارے بعد کوئی پیغمبر نہیں آئیگا (بلکہ یہ بزرگوار تو اپنے بعد میں آنے والے پیغمبر کے متعلق پیشین گوئیاں کر گئے ہیں)۔

ایسی صورت میں یہ کب جائز ہے کہ یہودی اور عیسائی اپنے ہی عقیدے پر مطمئن ہوکر بیٹھ رہیں اور اپنے بعد کے دین کے متعلق (جیسے یہودیت ، مسیحیت کے متعلق اور مسیحیت اور یہودیت اسلام کے متعلق) تحقیق کرنے سے پہلے اپنے ہی مذہب سے دل کو وابستہ کرکے بیٹھ رہیں۔ فطرت اور صحت مند عقل کے مطابق انہیں لازم ہے کہ بعد کے مذاہب کے بارے میں بھی کچھ کھوج لگائیں اور سوچ بچار کریں۔ اگر ان کی درستی ان پر ثابت ہوجائے تو ان کی طرف چلے جائیں ورنہ اپنے ہی دین کی صحت کے متعلق اطمینان حاصل کرلیں اور اسی عقیدے پر قائم رہیں۔

جیسا کہ ہم پہلے کہہ چکے ہیں اسلام پر ایمان لانے کے بعد مسلمان کے لیے مختلف مذاہب کے بارے میں (خواہ پچھلے مذاہب ہوں خواہ آنے والے) تحقیق اور غور و فکر ضروری نہیں ہے۔ چونکہ اسلام پچھلے مذہبوں کی بھی تصدیق کرتا ہے اس لیے کوئی مسلمان ان مذہبوں کی صحت کی دلیلیں کیوں تلاش کرے؟

ہر مسلمان مذہب اسلام کے متعلق یہ اعتقاد رکھتا ہے کہ پچھلے مذہب (اپنے زمانے میں سچے تھے لیکن آج کل) منسوخ ہوچکے ہیں اور اب ان کتابوں کے احکام اور ضابطوں پر عمل کرنا واجب نہیں رہا۔ اب رہا آنے والے مذہب کے بارے میں تو چونکہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرما دیا ہے کہ

لاَ نَبِیَّ بَعدِی :۔ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔

اورآپ ہمارے عقیدے کے مطابق صادق اور امین ہیں اور بفجوائے قرآن :۔

( وَمَا یَنطِقُ عَنِ الهَوٰی اِن هُوَ اِلاَّ وَحیٌ یُّوحیٰ ) :۔ پیغمبر اپنی ہوائے نفس سے کوئی بات نہیں کہتے بلکہ جو کچھ کہتے ہیں وحی ہے جو خدا کی طرف سے ان پر نازل ہوتی ہے۔ (سورہ نجم ۔ آیت ۳ ۔ ۴)

اس لیے کوئی مسلمان پیغمبر کی سچی اور درست گفتار کے بعد ان بناوٹی مذاہب کے بارے میں جن کا بعد میں دعویٰ کیا گیا کس لیے تحقیق اور غور و فکر کرے؟

ان تمام اختلافات کی موجودگی میں مسلمان کا کام کیا ہے ؟

یہ بات نظر سے اوجھل نہیں رہنی چاہیے کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور مسلمانوں (اور پھر مسلمانوں میں بھی طرح طرح کی رائے اور مکاتب فکر پیدا ہونے) کے درمیا برسوں کی دوری اور فاصلے کے باوجود مسلمانوں کو اس راہ پر چلنا چاہیے جو اسلام کے حقیقی احکام اور پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ہدایات تک پہنچنے کے لیے زیادہ اطمینان بخش ہے کیونکہ ہر مسلمان کا فرض ہے کہ اسلام کے احکام پر اسی طح عمل کرے جس طرح وہ نازل ہوئے ہیں لیکن وہ کس طریقے سے (طرح طرح کی رایوں اور خیالوں کے درمیان) اسلام کے اصلی احکام معلوم کر سکتا ہے اور آجکل کے حالات میں جب کہ اختلافات نے تمام احکام کی وسعت کو گھیر لیا ہے یہاں تک کہ نماز اور دوسری عبادات اور معاملات وغیرہ کے متعلق بھی ایک نظریہ نہیں رہا، اسے کیا کرنا چاہیے ؟ کس طرح نماز پڑھے اور عبادتوں، سماجی معاملوں، نکاح، طلاق ، وراثت اور خرید و فروخت وغیرہ میں حدود و دیات کے جاری کرنے میں کس رائے اور فتوے پر عمل کرے؟

اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے بزرگوں کو تقلید کرے اور جس طریقے پر اس کے دوست اور رشتہ دار چل رہے ہیں اسی پر اطمینان ک بیٹھے۔ اسے چاہیے کہ ایسی راہ پر چلے جس سے وہ اپنے اور اپنے خدا کے درمیان حقیقی فرض کے ادا ہونے کا یقین کرسکے کیونکہ یہ جگہ نا تجربہ کاری، پاس و لحاظ ، دھوکے بازی اور جانبداری کی نہیں ہے۔

اسے چاہیے کہ بہت سے راستوں میں سے ایک ایسا راستا چن لے جو اس کے عقیدے کے مطابق فرض کی انجام دہی اور اپنے اور اپنے خدا کے درمیانی معاملے سے عہدہ برآہونے کا بہترین راستا ہو ایسا راستا جس پر چلنے سے خدائے بزرگ اس پر عذاب نازل نہیں کرے گا نہ اس کا جواب طلب کرے گا۔ ایسی صورت میں ایسا شخص کسی آدمی کے اعتراض اور ملامت سے نہیں ڈرتا۔

جیسا کہ خدا فرماتا ہے :

( اَیَحسَبُ الاِنسَانُ اَن یُّترَکَ سَدًی ) :۔ کیا انسان سوچتا ہے کہ وہ حساب دیے بغیر چھوٹ جائے گا۔ (سورۃ قیامت ۔ آیت ۳۶)

( بَلِ الاِنسَان عَلٰی نَفسِهِ بَصِیرَةٌ ) :۔ بلکہ انسان اپنے آپ کو خوب جانتا ہے (سورہ قیامت آیت ۱۴)

( اِنَّ هٰذِهِ تَذکِرَةٌ فَمَن شَآءَ اتَّخَذَ اِلیٰ رَبِّهِ سَبِیلاً ) :۔ یہ قرآن یاد دلاتا ہے کہ جو چاہے خدا کی طرف جانے والا راستا خود چن لے، (سورہ دھر ۔ آیت ۲۹) ( سورہ مزمل ۔ آیت ۱۹)

اس جگہ پہلا سوال جو انسان اپنے ضمیر سے کرتا ہے وہ یہ ہے کہ معصوم اور پاک اہلبیت ؑ کا راستا اختیار کروں۔۔۔ یا دوسروں کا؟ اگر اہلبیت ؑ کا راستا اختیار کیا تو صحیح اثنا عشری شیعہ کا ہے یا دوسرے شیعوں کا ؟ اور اگر اہل تسنن کا راستا لیا تو ان کے چار مذہبوں (فقہوں) میں سے کس مذہب کی تقلید کی جائے؟ یا پھر ان کے علاوہ دوسرے کسی متروک مذہب کی پیروی کی جائے؟

یہ سوالات ہر اس شخص کے سامنے آتے ہیں جو ارادہ اور اختیار رکھتا ہے اور جسے سوچنے کی آزادی ہے تاکہ مضبوط اور اطمینا بخش بنیاد ہاتھ آسکے۔

اس بحث کے بعد ہمیں چاہیے کہ اسی طرز پر امامت کے بارے میں تحقیق کریں اور ان مسائل کا تجزیہ اور تشریح کریں جو اثنا عشری شیعوں کے عقیدے کے فروعات میں شامل ہیں۔