مکتب تشیع

مکتب تشیع0%

مکتب تشیع مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

مکتب تشیع

مؤلف: محمد رضا مظفر
زمرہ جات:

مشاہدے: 9504
ڈاؤنلوڈ: 2147

تبصرے:

مکتب تشیع
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 19 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 9504 / ڈاؤنلوڈ: 2147
سائز سائز سائز
مکتب تشیع

مکتب تشیع

مؤلف:
اردو

امام بارہ ہیں

ہم عقیدہ رکھتے ہیں کہ امام اور رہنما جو برحق ہیں اور شرعی مسائل میں مرجع خلائق ہیں اور جن کی امامت کا صاف صاف اعلان ہوچکا ہے بارہ ہیں، انہیں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کے ناموں کے ساتھ متعارف کرایا اور بعد میں ہر پچھلے امام نے اپنے بعد میں آنے والے امام کو مندرجہ ذیل سلسلے میں مقرر فرمایا۔

نمبر شمار کنیت نام لقب سن پیدائش سن وفات

۱ ۔ ابوالحسن علی ابن ابیطالبؑ مرتضیٰ ۲۳ قبل از ہجرت ۴۰ ھ

۲ ۔ ابو محمد حسن بن علی ؑ مجتبیٰ ۲ ھ ۵۰ ھ

۳ ۔ ابو عبداللہ حسین بن علی ؑ سیدالشہداء ۳ ھ ۶۱ ھ

۴ ۔ ابو محمد علی بن الحسین ؑ زین العابدین ۳۸ ھ ۹۵ ھ

۵ ۔ ابو جعفر محمد بن علی ؑ باقر ۵۷ ھ ۱۱۴ ھ

۶ ۔ ابوعبداللہ جعفر بن محمد ؑ صادق ۸۳ ھ ۱۴۸ ھ

۷ ۔ ابوابراہیم موسیٰ بن جعفر ؑ کاظم ۱۲۸ ھ ۱۸۳ ھ

۸ ۔ ابوالحسن علی بن موسیٰ ؑ رضا ۱۴۸ ھ ۲۰۳ ھ

۹ ۔ ابو جعفر محمد بن علی ؑ جواد ۱۹۵ ھ ۲۲۰ ھ

۱۰ ۔ ابوالحسن علی بن محمد ؑ ہادی ۲۱۲ ھ ۲۲۰ ھ

۱۱ ۔ ابو محمد حسن بن علی ؑ عسکری ۲۳۲ ھ ۲۶۰ ھ

۱۲ ۔ ابوالقاسم محمد بن حسن ؑ مہدی ۲۵۵ ھ

بارھویں امام ہمارے زمانے میں رہبر اور خدا کی حجت ہیں، خدا جلد ان کا ظہور فرمائے اور ان کے ظہور اور قیام کے ابتدائی حالات کو آسان بنائے تاکہ وہ زمین کو ظلم و ستم سے بھر جانے کے بعد انصاف سے بھر دیں۔

حضرت امام مہدی عَجَّلَ اللہُ فَرَجَہ

حضرت امام مہدی ؑ کے ظاہر ہونے کی خوش خبری جو حضرت فاطمہ ؑ کی اولاد میں سے ہیں اور جو آخری زمانے میں جب روئے زمین پر ایک سرے سے دوسرے سرے تک ظلم و ستم کی کثرت ہوجائے گی تو وہ اس میں عدل و انصاف رائج کریں گے۔ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے بہت سی متواتر روایات کے ذریعے سے منقول ہے مسلمانوں کے تمام فرقوں نے اپنے اپنے اختلاف کے باوجود یہ روایتیں لکھی ہیں اور انہیں مستند مانتے ہیں۔

حضرت امام مہدی آخرالزمان ؑ کے ظہور سے متعلق عقیدہ صرف شیعوں سے ہی مخصوص نہیں ہے ۔

(نوٹ، تفصیلات کے لیے دیکھیے انتظار امام مولفہ آیت اللہ محمد باقر صدر ، مطبوعہ جامعہ تعلیمات اسلامی )

کہ وہ جو یہ عقیدہ قائم کرکے ظالموں اور ستمگروں کے مقابلے میں اپنے آپ کو یہ تسلی دینا چاہیں اور اپنا دل خوش کرنا چاہیں کہ امام مہدی ؑ ظہور فرمائیں گے اور روئے زمین کو ظلم سے پاک کردیں گے جیسا کچھ گمراہ کرنے والوں نے ناانصافی سے کام لیتے ہوئے اس عقیدے کو اسی سبب سے شیعوں سے مخصوص کر دیا ہے۔

اگر ظہور مہدی ؑ کا عقیدہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے منقول نہ ہوتا، مسلمانوں کے تمام فرقے اسے مستند نہ جانتے اور اس کی تردید کرتے تو مہدویت کا دعویٰ کرنے والوں کے لیے یہ ممکن نہیں تھا وہ اسلام کی ابتدائی صدیوں میں کیسانیوں اور کچھ عباسیوں اور علویوں وغیرہ کی طرح مہدی ہونے کا دعویٰ کرتے، اس کے ذریعے سے لوگوں کو دھوکا دیتے اور اس عام عقیدے سے حکومت اور سلطنت حاصل کرنے میں فائدہ اٹھاتے، ان لوگوں نے یہ غلط دعویٰ کرکےیہ چاہا کہ اس اسلامی عقیدے (ظہور امام مہدی ؑ کا عقیدہ جو تمام مسلمانوں کے نزدیک مسلم ہے) کو عوام کے خیالات پر اثر ڈالنے اور ان پر اپنا غلبہ قائم کرنے کا ذریعہ بنالیں، اگر یہ عقیدہ صرف شیعوں کا ہوتا تو مہدویت کا دعویٰ کرنے والے اس خصوصی عقیدے سے فائدہ نہیں اٹھاسکتے تھے۔

ہم شیعہ دین اسلام کو سچا سمجھتے ہیں اور یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ اسلام خدا کا آخؒری دین ہے اور ہم انسانی بھلائی کے لیے کسی دوسرے دین کے منتظر نہیں ہیں، اس کے باوجود ایک طرف ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ظلم اور تباہی ہر جگہ اس طرح مسلط ہے کہ آئندہ انصاف اور اصلاح کی کوئی امید نہیں ہے، یہاں تک کہ خود مسلمان اسلام کے قانون سے کنارہ کش ہوگئے ہیں اور انہوں نے تمام اسلامی ملکوں می اس کے احکام معطل کردیے ہیں اور اس کے ہزاروں اصولوں میں سے ایک اصول پر بھی عمل نہیں کرتے

جس کو کہتے ہیں مسلمان دوستوں اب وہ کہاں

دین حق اس دور میں ہے یوسف بے کارواں

(خوش قسمتی سے امت مسلمہ کو آج اسلامی فکر کے احیاء اور اسلامی نشاۃ ثانیہ کے لیے امام خمینی کی صورت میں ایک عزیمت پیکر رہبر میسر آگیا ہے ، جس نے طاغوتی فضا میں لاَ شَرقِیَّہ وَلاَ غَربِیَّہ کا قرآنی نعرہ بلند کرکے عالم اسلام کو صحیح معنوں میں آزاد اور خود مختار اسلامی حکومت قائم کرنے کی راہ دکھلا دی ہے جہاں اسلامی قوانین اور اصولوں کا نفاذ شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے، ناشر)

ہم جب یہ عقیدہ رکھتے ہوئے دیکھتے ہیں کہ اسلامی ملکوں کی حالت خراب ہوچکی ہے اور اصلاح کرنے والے کا ظہور لازمی اور ضروری سمجھتے ہوئے اس کا انتظار کرتے ہیں تاکہ وہ اسلام کو اس کی قوت اور بزرگی واپس دلائے اور ظلم اور خرابی کے گڑھے میں دھنسی ہوئی اس دنیا کو بچالے۔

دوسری طرف یہ خیال ہے کہ آج کے مسلمان اختلافات، گمراہیوں ، بدعتوں اور اسلامی قوانین کی تبدیلیوں میں پڑے ہوئے ہیں اور ان کے اور پچھلے مسلمانوں کے درمیان میں غلط اور فضول قسم کے دعوے بھی ظاہرہوچکے ہیں لہذا ایسی صورت میں یہ ممکن نہیں ہے کہ دین اسلام اپنی قوت اور عظمت دوبارہ حاصل کرلے۔

ان حالات میں صرف ایک شخص اسلام کی قابل دید عظمت کو تازہ کرنے کی قدرت رکھتا ہے، اس عظیم المرتبت مصلح کا ظہور جو مسلمانوں کو متحد کر دے گا اور خدا کے لطف کی بدولت اسلام کی پیشانی سے تبدیلیوں ، بدعتوں اور گمراہیوں کے داغ دھو دے گا ، صرف ایک رہنما ایسے انقلاب کی طاقت رکھتا ہے۔ جو ہر طرح کی ہدایت پائے ہوئے ہو اور ایک عظیم سرداری اور غیر معمولی قدرت اور عظمت کا مالک ہو تاکہ جب پوری زمین ظلم سے بھر جائے تو اس میں عدل اور انصاف قائم کرے۔

مختصر یہ ہے کہ دنیا میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک خرابی ، تباہی اور ظلم کا پھیل جانا اس عقیدے کے ساتھ اسلام سچا اور آخری مذہب ہے فطری طور پر ایسے بزرگ مصلح (امام مہدی منتظر ؑ) کی آمد کا تقاضا کرتا ہے جو اپنے طاقت ور ارادے سے دنیا کو تباہیوں اور گمراہیوں سے بچالے۔

اس لیے تمام اسلامی فرقے بلکہ غیر مسلم قومیں بھی اس حقیقی نکتے پر ایمان رکھتی ہیں، اثنا عشری شیعوں کے اعتقاد کے مطابق بس اتنا سا فرق ہے کہ وہ اصلاح اور ہدایت کرنے والا ایک خاص فرد ہے جس نے ۲۵۵ ہجری میں اس دنیا میں آنکھ کھولی تھی اور جو ابھی تک زندہ ہے، وہ امام حسن عسکری ؑ کے بیٹے ہیں اور ان کا نام ""محمدؑ"" ہے۔

حضرت پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان کے خاندان والوں نے ان کی پیدائش اور ظہور کی جو خبر دی ہے وہ ہم تک بہت سی متواتر اور قطعی روایتوں کے ذریعے سے پہنچی ہے زمی پر امامت کا سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوتا اور ایک امام دنیا میں ضرور موجود رہتا ہے چاہے وہ نظروں سے اوجھل ہی ہو تاکہ وہ اس دن جو خدا نے مقرر کر دیا ہے اور جو خدا کے بھیدوں میں سے ہے اور جسے خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا، ظاہر ہوکر سچائی کا پرچم بلند کرے۔

بے شک یہ بات واضح ہے کہ اتنی لمبی مدت تک امام مہدی ؑ کی زندگی ایک معجزہ (غیر معمولی اور غیر عادی واقعہ) ہے لیکن یہ اس سے زیادہ حیرت انگیز نہیں ہے کہ آپ پانچ سال کی عمر میں جس روز آپ کے پدر بزگوار جنت کو سدھارے امام ہوگئے اور یہ واقعہ حضرت عسیٰ ؑ کے معجزے سے بھی بڑھ کر نہیں ہے۔جنہوں نے شیر خواری کے سن میں ہی اپنے جھولے می باتیں کیں اور اسی دوران میں نبوت کے منصب پر فائز ہوگئے۔

(نوٹ ،( فَاَشَارَت اِلَیهِ قَالُوا کَیفَ نُکَلِّمُ مَن کَانَ فِی المَهدِ صَبِیّاً ) ، سورہ مریم آیت ۲۹)

علم طلب کی رو سے ایسی زندگی ناممکن نہیں ہے جو فطری عمر سے زیادہ ہو یا اسے عمر سے زیادہ ہو جو فطری سمجھی جاتی ہے، اس وقت کی صورت حالات یہ ہے کہ علم طب ابھی تک لمبی عمر پانے کے کسی طریقے یا لمبی عمر بخشنے والی کسی دوا کی تحقیق یا انکشاف میں کامیاب نہیں ہوسکا ہے بہر حال اگر علم طب اس سے عاجز ہے تو خدا تو ہر شے پر قدرت رکھنا ہے اور خدا کے فرمانے کے مطابق کچھ لوگ حضر نوح ؑ (( وَلَقَد اَرسَلنَا نوُحاً اِلیٰ قَومِهِ فَلَبِثَ فِیهِم اَلفَ سَنَةٍ اِلاَّ خَمسِینں عَامَا ) ۔ سورہ عنکبوت ۔ آیت ۱۴ ) اور حضرت عیسیٰ ؑ کی طرح بھی گزرے ہیں جنہوں نے عام فطری عمر سے زیادہ زندگی پائی اور جو قرآن کو ماننے والا مسلمان اس کے متعلق شک کرے یا اسے نہ مانے تو اسے چاہیے کہ وہ اسلام کو خیر باد کہہ دے ۔ بڑا تعجب ہوتا ہے جب کوئی قرآن کو ماننے والا مسلمان یہ سوال کر دیتا ہے کہ کیا زندگی طبیعی عمر سے بھی زیادہ ہوسکتی ہے؟

یہاں یہ بات یاد دلانا ضروری ہے کہ اصلاح کرنےوالے اور نجات دہندہ (مہدی ؑ ) کے انتظار کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مسلمان ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں اور جو کچھ پر واجب ہے مثلاً حق کی حمایت ، خدا کے لیے جہاد ، تبلیغ ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر وغیرہ ، اسے اسی امید پر چھوڑ دیں کہ امام مہدی ؑ آئیں گے اور کام سنوار دیں گے بلکہ ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو ذمہ دار سمجھے تاکہ اسلام کی طرف سے اس کو جو فرض سونپا گیا ہے اسے ادا کرے، دین کا تعارف کرانے کے لیے ٹھیک طرح سے کوشش کرے اور جہاں تک ہوسکے امربالمعروف اور نہی عن المنکر کو ترک نہ کرے جیسا کہ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نےفرمایا ہے۔

کُلُّکُم رَاعٍ وَکُلُّکُم مَسُولٌ عَن رَعِیَّتِهِ :۔ تم سب لوگ ایک دوسرے کے رہبر اور (ایک دوسرے کو اصلاح کے ) ذمے دار ہو۔ (نہج الفصاحتہ ، حدیث ۲۱۶۳)

اس بناپر کسی مسلمان کے لیے نہ مناسب نہیں ہے کہ وہ انسانوں کے مصلح کے انتظار میں اپنے مسلم اور قطعی کاموں سے ہاتھ اٹھالے ، کیونکہ کسی مصلح کے متعلق عقیدہ کھنے سے نہ فرض ساقط ہوتا ہے اور نہ اپنی کوششوں میں سستی کرنا چاہیے کیا غفلت ، لاپروائی اور بے توجہی برتنے والا بے چروا ہے کے جانوروں کی طرح نہیں ہوتا؟

رجعت کا مسئلہ

اثنا عشری شیعوں کے عقیدوں میں سے ایک عقیدہ ۔ ان روایات کے مطابق جو پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہلبیت ؑ سے منقول ہیں اور جنہیں وہ مانتے ہیں، عقیدہ رجعت بھی ہے یعنی خداوند عالم مردوں کی ایک جماعت کو اسی جسم اور شکل میں جو وہ رکھتے تھے زندہ کرکے دنیا میں واپس بھیج دے گا، ان میں سے کچھ لوگوں کو عزت دے گا اور کچھ کو ذلیل و خوار کرے گا۔ سچوں کا حق، باطل پرستوں سے اور مظلوموں کا حق، ظالموں سے لے گا اور یہ واقعہ امام مہدی ؑ کے قیام کے بعد پیش آئے گا۔

جو لوگ مرنے کے بعد زندہ ہوکر اس دنیا میں پلٹیں گے وہ صرف ایسے لوگ ہوں گے جو ایمان کی بلندی پر فائز ہوگئے تھے یا اخلاقی خرابی کے پاتال میں گر گئے تھے اور زندہ ہونے کے کچھ عرصے کے بعد دوبارہ مرجائیں گے تاکہ قیامت کے دن زنددہ ہوں اور جس سزا و جزا کے مستحق ہیں اس کو پہنچ جائیں جیسا کہ قرآن میں خداوند عالم ان لوگوں کی آرزو بیان فرماتا ہے جو مرنے کے بعد زندہ ہوگئے لیکن ان کے کام اسی واپس سے بھی نہیں سدھر سکے اور وہ تیسری بار زندہ ہونے کا تقاضا کرتے ہیں تاکہ اس مدت میں وہ درست ہوجائیں ، جہاں وہ کہتا ہے :

( قَالُوٓا رَبَّنَٓا اَمَتَّنَا اثنَتَینِ وَاَحیَیتَنَا اثنَتَینِ فَاعتَرَفنَا بَذُنُوبِنَا فَهَل اِلٰی خُرُوجٍ مِّن سَبِیلٍ ) ۔

کافر کہیں گے کہ اے پروردگار ! تو نے ہمیں دوبارہ جلایا اور دوبارہ مارا۔ ہم نے اپنے گناہوں کا اقرار کیا، کیا (اس عذاب سے) باہر جانے کا بھی کوئی راستا اور ذریعہ ہے؟ (سورہ مومن ۔ آیت ۱۱)

ہاں قرآ ن مجید میں رجعت (مردوں کا زندہ ہونا اور عرصے تک ان کی دوبارہ زندگی) کے متعلق آیتیں بیان کی گئی ہیں اور اس معاملے سے متعلق اہلبیت نبوت کی بہت سی روایتیں بھی ہم تک پہنچی ہیں۔ شیعہ امامیہ سب کے سب رجعت پر ایمان رکھتے ہیں سوائے ان تھوڑے سے لوگوں کے جنھوں نے رجعت کی آیتوں اور روایتوں کے معنیٰ میں تاویل کرلی ہے، مثلاً یہ کہ رجعت سے ظہور امام مہدی ؑ کے وقت امر اور نہی پر عملدرآمد کرانے کے لیے اہل بیت ؑ کی طرف حکومت کی واپسی مراد ہے، یہ مراد نہیں کہ مردہ انسان زندہ ہوں گے۔

اہل تسنن اور رجعت کا مسئلہ

سنی لوگ رجعت کے عقیدے کو اسلام کے خلاف سمجھتے ہوئے اس کو برا کہتے ہیں، سنی مصنفین اور شارحین رجال، رجعت کا عقیدہ رکھنے والے راویوں پر طعنہ کستے اور انہیں ناقابل اعتبار سمجھتے ہیں (مثلاً کہتے ہیں کہ جابر جعفی قابل اعتبار نہیں ہے کیونکہ وہ رجعت کا عقیدہ رکھتا ہے) اور اسی عقیدے کو اس بات کا جواز قرار دیتے ہیں کہ ایسے راوی کی روایت مسترد کر دی جائے، یہاں تک کہ وہ رجعت کے عقیدے کو کفر اور شرک بلکہ اس سے بھی بدتر شمار کرتے ہیں اور یہی عقیدہ سب سے بڑا بہانہ ہے جس سے اہل تسنن (اپنے خیال کے مطابق) شیعوں پر ضرب لگاتے اور سخت نکتہ چینی کرتے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ بات ان بے بنیاد اور گمراہ کن بہانوں میں سے ایک ہے جنہیں اسلامی فرقوں کے ایک گروہ نے دوسرے گروہوں کی کاٹ اور ان پر طعنہ زنی کا وسیلہ بنا لیا ہے ورنہ حقیقت میں کوئی ایسی بات نظر نہیں آتی جو اس بہانے کو درست منواسکے ، کیونکہ رجعت کا عقیدہ توحید اور نبوت کے عقیدے میں کسی قسم کا خلل نہیں ڈالتا بلکہ اس کے برعکس ، ان دونوں عقیدوں کو اور مضبوط کرتا ہے کیونکہ رجعت (مردوں کا زندہ ہونا) حشر و نشر کی طرح خدا کی قدرت کاملہ کی نشانی ہے اور غیر معمولی واقعات میں سے ہے جو ہمارے پیغمبر محمد مصطفیٰصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان کے اہلبیت ؑ کا معجزہ ہوسکتا ہے۔

اصل میں "رجعت" ہو بہو مردے زندہ کرنے کا معجزہ ہے جو حضرت عیسیٰ ؑ دکھایا کرتے تھے بلکہ رجعت میں یہ معجزہ زیادہ موثر اور زیادہ مکمل ہے کیونکہ رجعت سے مراد مردوں کو گل سڑ چکنے اور خاک برابر ہوجانے کے بعد زندہ ہونا ہے، جیسا کہ قرآن فرماتا ہے:

( قَالَ مَن یُّحیِ العِظَامَ وَ هِیَ رَمِیمٌ ، قُل یُحیِیهَا الَّذِیٓ اَنشَاَ هَٓااَوَّلَ مَرَّةٍ، وَهُوَ بِکُلِّ خَلقٍ عَلِیمٌ ) :۔ (منکر نے گلی سڑی ہڈی دکھائی اور)کہا : کیا کوئی ان گلی سڑی ہڈیوں کو دوبارہ زندہ کرسکتا ہے؟ اے پیغمبر کہہ دو جس نے اسے پہلے بار وجود بخشا تھا، وہ اسے دوبارہ بھی زندہ کرسکتا ہے اور وہ ہر شے کی پیدائش کا جاننے والا ہے (سورہ یٰسٓ ۔آیت ۷۸ ۔ ۷۹ )

ایسی صورت میں رجعت کا یہ عقیدہ شرک اور کفر سے کوئی مشابہت نہیں رکھتا جو ان کے زمرے میں یا ان سے بدتر سمجھا جائے۔

کچھ لوگ رجعت کا عقیدہ غلط ثابت کرنے کے لیے اس راستے سے آئے ہیں کہ رجعت "تناسخ" (آوا گون) کی ایک قسم ہے جس کو اسلام میں سب نے غلط مانا ہے ، درحقیقت ج لوگوں نے ایسا سوچا ہے انہوں نے تناسخ اور جسمانی معاد (واپسی) میں فرق نہیں رکھا ہے۔

(رجعت جسمانی معاد کی ایک قسم ہے) کیونکہ تناسخ روح کے ایک جسم سے دوسرے جسم میں جانے کو کہتے ہیں جب کہ روح پہلے جسم سے جدا ہوچکی ہو لیکن جسمانی معاد سے کمراد یہ ہے کہ روح اپنے ہی جسم میں ۰ جس میں وہ پہلے رہ چکی ہے) انہیں خصوصیات کے ساتھ واپس آجائے۔

اگر رجعت کے معنیٰ تاسخ کے ہوں تو یہ بات بھی لازمی طور سے تسلیم کرنا پڑے گی کہ حضرت عیسیٰ ؑ کے ہاتھوں مردوں کا زندہ ہونا بھی تناسخ ہے اور حشر و نشر اور جسمانی معاد کا پورا ماجرا بھی تناسخ ہے (جب کہ ایسا نہیں ہے)

نتیجہ یہ نکلا کہ رجعت کے بارے میں دو پہلوؤں سے دفت اور دشواری پیدا ہوتی ہے۔

۱ ۔ رجعت کا پیش آنا ناممکن ہے۔

۲ ۔ رجعت کے بارے میں جو روایتیں ہم تک پہنچی ہیں ان کی کوئی اصلیت نہیں ہے۔

فرض کیجیے کہ یہ دونوں دقتیں پیش آگئیں لیکن رجعت کا عقیدہ ایسی برائی نہیں ہے جسے اہل تسنن شیعوں سے دشمنی کا سبب بنا لیں اور اسے بہانہ بنا کر شیعوں پر چڑھ دوڑیں، اس لیے کہ مختلف اسلامی فرقوں میں بہت سے ایسے عقیدے پائے جاتے ہیں جو ناممکنات میں سے ہیں یا ان کے بارے میں اسلام کے رہنما صاف صاف بیان کرچکے ہیں لیکن یہ کفر اسلام سے خارج ہونے کا سبب ہیں بنتے ، ان کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں مثلاً

یہ عقیدہ کہ پیغمبر بھی بھول جاتا ہے یا گناہ کرتا ہے

یہ کہ قرآن قدیم ہے۔

یہ کہ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے بعد کے لیے اپنے جانشین کا تقرر نہیں کیا ہے ۔

(اہل تسنن ان باتوں پر اعتقاد رکھتے ہیں)

پہلی دقت کا حل

یہ جو کہتے ہیں کہ رجعت ناممکن ہے اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے ۔ ہم پیشتر کہہ چکے ہیں کہ رجعت بھی حشر و نشر اور جسمانی معاد (واپسی) کی قسم ہے ، دونوں میں فرق ہے تو بس اتنا سا کہ رجعت کا زمانہ اسی دنیا میں ہے ، جسمانی معاد کے ممکن ہونے کی دلیل ہی رجعت کے ممکن ہونے کی دلیل بھی ہے اسے مختلف یا عجیب سمجھنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔

بات صرف یہ ہے کہ رجعت (مردو کے زندہ ہونے کی بات) سے ہم واقف نہیں ہیں، نہ دنیاوی زندگی میں ایسے موضوع سے ہمارا سابقہ پڑتا ہے اور نہ اس کے اسباب اور رکاوٹوں ہی کو پہچانتے ہیں جو ہمیں اس عقیدے کے قریب لائیں یا اس سے دور کر دیں اور انسان کا ذہن اور سمجھ دونوں اس بات کے عادی ہیں کہ جن معاملات سے ہم واقف نہیں ہیں ان کی تصدیق نہ کریں، بالکل اسی طرح جس طرح ایک شخص قیامت میں اٹھائے جانے اور حشر و نشر کو عجیب و غریب اور غیر فطری سمجھتا ہے اور کہتا ہے۔

( قَالَ مَن یُّحیِ العِظَامَ وَهِیَ رَمِیمٌ قُل یُحِییهَاالَّذِیٓ اَنشَاَهَا اَوَّلَ مَرَّةٍ ، وَهُوَ بِکُلِّ خَلقٍ عَلِیمٌ ) :۔ کیا کوئی ان گلی سڑی ہڈیوں کو زندہ انسان بنا سکتا ہے ؟ تو اس سے کہا جاتا ہے کہ "جس نے پہلی بار اسے وجود بخشا ہے وہی اسے دوبارہ زندہ بھی کرسکتا ہے اور وہ ہر چیز کی خلقت جانتا ہے "۔(سورہ یٰسٓ ۔آیت ۷۸ ۔ ۷۹)

ہاں رجعت جیسے موضوعات میں جن کی موافقت یا مخالفت میں ہم کوئی عقلی دلیل نہیں رکھتے اور یہ خیال کرتے ہیں کہ کوئی دلیل موجود نہیں ہے ، ہمیں چاہیے کہ قرآن کی آیات اور ایسی مذہبی روایات کی تلاش کریں جو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گھر سے لی گئی ہوں اور وہاں سے مدد چاہیں

قرآن مجید میں ایسی آیتیں ہیں جو رجعت کے واقع ہونے، مردوں کے جی اٹھنے اور دنیا میں ان کے واپس آنے پر روشنی ڈالتی ہی جیسے مردوں کو زندہ کرنے سے متعلق حضرت عیسیٰ ؑ کا معجزہ جسے قرآن حضرت عیسیٰ ؑ کی زبان سے کہلواتا ہے :

۱ ۔( وَاُبرِیُ الاَکمَهَ وَالاَ برَصَ وَاُحیِ المَوتٰی بِاِذنِ اللهِ ) :۔ میں جنم کے اندھوں اور کوڑھیوں کو اچھا کرتا ہوں اور مردوں کو خدا کے حکم سے زندہ کردیتا ہوں (سورہ آل عمرا ن۔ آیت ۴۹)

۲ ۔ یا مثلاً سورہ بقرہ کی یہ آیت جو ایک پیغمبر کا قول دہراتی ہے جو کسی ویرانے اور بستی سے گزرے اور کہنے لگے :

( اَنّٰی یُحیِ هٰذِهِ اللهُ بَعدَ مَوتِهَا فَاَمَاتَهُ اللهُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ ) :، مجھے حیرت ہے کہ خدا اس بستی کے رہنے والوں کو ان کے مرنے کے بعد کیسے زندہ کرتا ہے خدا نے انہیں سو سال تک مردہ رکھا اور پھر جلادیا۔ (سورہ بقرہ ۔ آیت ۲۵۹)

۳ ۔ اور اس آیت کی طرح جس کا ذکر اس بحث کی ابتدا میں کیا گیا ہے ۔

یہ آیتیں مرنے کے بعد اس دنیا میں واپس آنے کے واقعے کو صاف صاف بیان کرتی ہیں اور ان آیتوں کے دوسرے معنیٰ درست نہیں ہیں ، اگرچہ بعض مفسروں نے اپنے آپ کو اس قسم کی تاویل کرتے ہوئے فضول اور ان کے حقیقی معنوں سے ہٹے ہوئے معاملات کا لجھانے کا تکلف بھی کیا ہے۔

دوسری دقت کا حل

یہ کہتے ہیں کہ رجعت کے بارے میں حدیثیں اور روایتیں بناوٹی اور غیر حقیقی ہیں، یہ ایک بے دلیل دعویٰ ہے کیونکہ رجعت ایک ضروری اور کھلی ہوئی بات ہے جو ائمہ اطہار ؑ سے مسلسل اور قطعی حدیثوں اور روایتوں کے ذریعے سے ہم تک پہنچی ہے اور ان متوات روایتوں کے جعلی ہونے کا دعویٰ فضول اور بے بنیاد ہے۔

رجعت کے واقعے اور اس کی کیفیت اور معنی کے واضح ہوجانے کے بعد کیا یہ حیرت انگیز بات نہیں ہے کہ اہل تسنن کا ایک مشہور مصنف جو علم و فضل کا دعویٰ بھی کرتا ہے یعنی احمد امین اپنی کتاب فجر الاسلام میں کہتا ہے ۔

"شیعوں کے عقیدہ رجعت سے یہودیوں کا مذہب ظاہر ہوگیا ہے"

ہم اس مصنف کے دعوے کے مطابق کہتے ہیں : "اس دلیل سے یہودیوں کا مذہب قرآن مجید میں ظاہر ہوگیا ہے کیونکہ اس میں بھی عقیدہ رجعت جھلک رہا ہے "اسی طرح ہم نے رجعت سے متعلق بھی کچھ قرآنی آیتیں پیش کر دی ہیں۔

اس جگہ ہم یہ اضافہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں :

حقیقت یہ ہے کہ یہودیوں اور عیسائیوں کا (اصلی اور ابتدائی) مذہب اسلام کے بہت سے قوانین اور عقیدوں سے ظاہر ہے کیونکہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پچھلے آسمانی مذہبوں اور شریعتوں کی تصدیق کرنے والے تھے ۔ اگرچہ ان کے تھوڑے سے احکام اسلام کے آنے سے منسوخ بھی ہوگئے۔

اس بنا پر یہودیوں اور عیسائیوں کے مذہبوں کے کچھ احکام کا اسلام میں نظر آنا اسلام کی کوئی برائی یا خامی نہیں ہے۔ چنانچہ فرض کر لیجیے کہ رجعت بھی یہودیو کے مذہب کا ایک حصہ ہے (جیسا کہ مصنف مذکور نے دعوی کیا ہے) اور پھر اسلام میں بھی یہ عقیدہ آگیا ہو گا۔

بہرحال رجعت اسلامی عقیدوں کی بنیاد نہیں ہے یعنی اصول دین میں داخل نہیں جو اس پر ایمان لانا اور غور کرنا واجب ہو بلکہ ہم شیعوں کا اعتقاد ان درست روایات کی پیروی ہے ہے جو ائمہ اطہار ؑ سے ہم تک پہنچی ہیں اور وہ ہمارے عقیدے کی رو سے معصوم ہیں اور رجعت کا یہ موضوع ان غیبی باتوں میں سے ہے جس کی انہوں نے اطلاع دی ہے اور پھر اس کا پیش آنا بھی ناممکن نہیں ہے۔

تقیے کا مسئلہ :۔

صحیح اور معتبر روایتوں کے مطابق امام جعفر صادق ؑ نے فرمایا ہے ۔

اَلتَّقِیَّةُ دِینِی وَدِینُ اٰبَآ ئِی تقیه میرے دین کا حصہ اور میرے باپ داداؤ کا شیوہ ہے اورمَن لاَ تَقِیَّةَ لَهُ لاَ دِینَ لَهُ جو تقیہ نہیں کرتا، اس کا کوئی دین نہیں ہے ۔

(نوٹ۔ اصول کافی جلد ۳ صفحہ ۳۱۱ مطبوعہ انتشارات علمیہ اسلامیہ ایران وسائل الشیعہ جلد ۶ صفحہ ۴۶۰ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت)

دراصل تقیہ اہلبیت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ اطہار ؑ کا وطیرہ رہا ہے جس کے ذریعے سے انہوں نے اپنے آپ کو اور اپنے ماننے والوں کو خطروں اور نقصانوں سے بچایا اور ان کی جانوں کی حفاظت اور مسلمانوں کے حالات کی درستی اور ان کی پراگندگی اور تفرقے سے بچاؤ کا سامان فراہم کیا۔

تقیہ وہ طریقہ ہے جس سے "امامیہ شیعہ" ہمیشہ پہچانا جاتا ہے اور باقی اسلامی فرقوں سے نمایاں ہوجاتا ہے۔

جب انسان اپنے عقیدے پھیلانے یا ظاہر کرنے کے سبب سے اپنی جان و مال کو خطرے میں محسوس کرتا ہے تو مجبوراً انہیں چھپاتا ہے اور خطرے کے موقع پر اپنے آپ کو چھپا کر اور چوکنا رہ کر بچاتا ہے ، یہ بات (پوشیدگی) ایسی ہے جس کا تقاضا انسانی فطرت اور عقل دونوں کرتی ہیں (اسی بات کو آج کل "نظریہ ضرورت " کے تحت تسلیم کرلیا گیا ہے)۔

یہ بات واضح ہے کہ شیعہ امامیہ اور ان کے رہنما ہر زمانے میں مسلسل آفتوں اور قیدوں کے طوفان میں یوں گھرے رہے ہیں کہ کسی گروہ اور کسی قوم نے ان کی طرح گھیراؤ اور دباؤ میں زندگی بسر نہیں کی ہے اس لیے مجبور ہوکر بہت سے موقعوں پر انہوں نے تقیے سے کام لیا اور خود کو اور اپنے خصوصی اعمال اور عقائد کو چھپا کر دشمن کے خطروں سے بچانا ضروری سمجھا ورنہ دینی اور دنیوی نقصانات بھگتنے پڑتے ۔ اس لیے امامیہ شیعہ ہی تقیے سے پہچانے جاتے ہیں اور جب تقیے کا ذکر ہوتا ہے تو شیعہ بھی اس کے ساتھ ساتھ یاد آجاتا ہے ۔

جاننا چاہیے کہ خطرے اور نقصانات کے موقعوں کے مطابق تقیے کے واجب ہونے، نہ ہونے کے لیے شرعی احکامات موجود ہیں، جن پر شیعہ فقیہوں نے اپنی فقہ کی کتابوں کے خاص ابواب میں بحث کی ہے۔

ایسا نہیں ہےکہ تقیہ ہر جگہ واجب ہو بلکہ کبھی تقیہ جائز (مستحب، مباح یا مکروہ) ہوتا ہے بعض موقعوں پر مثلاً ایسی جگھوں پر جہاں سچ کے اظہار اور دکھاوے سے دین کی مدد، اسلام کی خدمت اور اسلام کی راہ میں جہاد ہو تقیہ نہ کرنا واجب ہوتا ہے۔ ایسے موقعوں پر جان اور مال کو اہمیت نہیں دی جاتی بلکہ جان اور مال دین پر قربان ہوجاتے ہیں۔

کبھی تقیہ کرنا حرام ہوتا ہے مثلاً ایسے معاملات میں تقیہ کرنا جو مومن کے قتل یا باطل کی اشاعت یا دین میں خرابی یا مسلمانوں کی گمراہی کی صورت میں ان کے زیادہ اور ناقابل برداشت نقصان یا ان میں ظلم اور زیادتی کے ظاہر ہونے کا موجب بن جائیں۔

بہر حال شیعوں کی نظر میں تقیہ یہ نہیں ہے کہ اس کے ذریعے سے اجاڑنے اور بگاڑنے والی کوئی خفیہ جماعت بنائی جائے جیسا کہ شیعوں کے بعض دشمنوں نے تقیے کی حقیقت اور اصلیت اور اس کے موقع و محل کو سمجھے بغیر اسی خیال کو تقیے کا سبب قرار دے دیا اور خود کبھی یہ تکلیف نہیں اٹھائی کہ تقیے کے معاملے میں وہ شیعوں کا صحیح نقطہ نظر سمجھ لیں،

تقیے سے یہ بھی غرض نہیں ہے کہ اس کے ذریعے دین اور احکام کو ایک راز بنا دیں اور اس کو ان لوگوں کے سامنے جو اس کے معتقد نہیں ہیں ظاہر ہی نہ کریں، فقہ،احکام ، علم کلام کی بحثوں اور عقیدوں وغیرہ کے موضوعات پر شیعوں کی مختلف تالیفات اور کتابیں اس بات کی گواہ ہیں کہ انہوں نے تمام مقامات کو پاٹ دیا ہے اور یہ کتابیں بہت زیادہ لوگوں تک پہنچ گئی ہیں۔

ہاں تقیے کے متعلق ہمارے عقیدے کا یہ نتیجہ نکلا کہ ہمارے مخالفوں نے اسے ایک بہانہ بنا لیا اور اسے غلط شکل میں پیش کرکے وہ ہم پر حملہ آور ہوگئے، گویا ان کی دشمنی اور نفاق کے شعلے ٹھنڈے نہیں پڑسکتے تھے جب تک کہ شیعہ تقیہ ترک کرکے خطرے میں نہ پڑجاتے اور ان کی گردنیں ان زمانوں میں (جب کہ بنی امیہ اور بنی عباس حکومت کرتے تھے) دشمنوں کی تلوار کی باڑھ کے نیچے نہ آجاتیں اور وہ مکمل طور پر فنا نہ ہوجاتے، اس زمانے میں آل محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دشمنوں یعنی بنی امیہ، بنی عباس بلکہ عثمانیوں کے ہاتھوں بھی شیعوں کا خون بہانے کے لیے صرف شیعہ کہلانا ہی کافی تھا۔

جو شخص اعتراض کی فکر میں ہے اور یہ چاہتا ہے کہ تقیے کے موضوع کو شیعیت پر اعتراضات کا سرخیل بنا دے، اس کی دلیل یہ ہے کہ دینی نقطہ نظر سے تقیہ درست اور جائز نہیں ہے اس سے ہم کہتے ہیں ۔

اول ۔۔۔ ہم اپنے رہنماؤں ائمہ اطہار ؑ کے ماننے والے ہیں اور ان کی ہدایت کی راہ پر چلتے ہیں انہوں نے ضرورت کے وقت ہمیں تقیے کا حکم دیا ہے اور تقیہ ان کی نظر میں دین کا حصہ ہے جیسا کہ ذکر کیا جاچکا ہے کہ حضرت امام جعفر صادق ؑ نے فرمایا ہے ۔

"جو تقیہ" نہیں کرتا وہ کوئی دین ایمان نہیں رکھتا"

دوم ۔ اس کی تصریح قرآن مجید میں بھی کی گئی ہے کہ تقیہ شریعت کے مطابق ہے جیسا کہ سورہ نحل میں ہم پڑھتے ہیں۔

( مَن کَفَرَ بِاللهِ مِن بَعدِ اِیمَانِهِ اِلاَّ مَن اُکرِهَ وَقَلبُهُ مُطمَیِنٌّ بِالاِیمَانِ وَلٰکِن مَّن شَرَحَ بِالکُفرِ صَدراً فَعَلَیهِم غَضَبٌ مِّنَ اللهِ وَلَهُم عَذَابٌ عَظِیمٌ ) :۔ اس شخص پر جس نے ایمان لانے کے بعد اللہ کا انکار کیا اور جی کھول کر کفر کیا خدا کا غضب اور عذاب نازل ہوا نہ اس شخص پر جس کا دل ایمان سے معمور ہو لیکن اسے کلمہ کفر پر مجبور کیا گیا ہو۔ (سورہ نحل ۔ آیت ۱۰۶)

یہ آیت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بزرگ صحابی عمار بن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق نازل ہوئی تھی جنہوں نے کافروں کے ڈر سے بناوٹی کفر کا اظہار کیا تھا (لیکن ان کا دل ایما کی دولت سے بھرا ہوا تھا چنانچہ وہ اس آیت اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے فرمانے کے مطابق قابل بخشش اور بے گناہ قرار پائے)

سورہ آل عمران میں ہم پڑھتے ہیں:

( لاَ یَتَّخِذِ المُومِنُونَ الکٰفِرِینَ اَولِیَآءَ مِن دُونِ المُومِنیںَ ، وَمَن یَّفعَل ذٰلِکَ فَلَیسَ مِنَ اللهِ فِی شَیءٍ اِلاَّ اَن تَتَّقُوا مِنهُم تُقٰةً ) :۔ مومنین ، مومنین کو چھوڑ کے کافروں سے دوستی نہ رکھیں ، جو کوئی ان سے دوستی کرتا ہے وہ خدا کے حکم کے خلاف ورزی کرتا ہے ، ہاں مگر تم چاہو تو دشمنوں سے تقیہ کرلو۔ (سورہ آل عمران ۔ آیت ۲۸)

(یعنی اس صورت میں ان سے ظاہر میں دوستی جتانے کی کوئی ممانعت نہیں ہے)۔

سورہ مومن میں مزید ارشاد ہوتا ہے :

( وَقَالَ رَجُلٌ مُّومِنٌ مِّن اٰلِ فِرعَونَ یَکتُمُ اِیمَانَهُ ) :۔ آل فرعون کے اس مومن شخص نے جو اپنا ایمان چھپائے ہوئے تھا کہا۔۔۔ (سورہ مومن ۔ آیت ۲۸)

اس آیت میں بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ بعض موقعوں پر تقیہ کرنا شرعی لحاظ سے جائز ہے ۔