مکتب تشیع

مکتب تشیع22%

مکتب تشیع مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

مکتب تشیع
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 19 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 10951 / ڈاؤنلوڈ: 3629
سائز سائز سائز
مکتب تشیع

مکتب تشیع

مؤلف:
اردو

1

ظالموں کی مدد

چونکہ ظلم ایک بڑا گناہ ہے اور اس کا نتیجہ بہت برا ہوتا ہے اس لیے خدا نے ظالموں کے ساتھ شریک ہونے اور ان کو سہارا دینے سے منع کیا ہے جیسا کہ قرآن فرماتا ہے:

وَلاَ تَرکَنُوا اِلیَ الَّذِینَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّکُمُ النَّارُ وَمَالَکُم مِن دَونِ اللهِ مِن اَولِیَآءَ ثُمَّ لاَ تُنضَرُونَ :۔ ظالموں کے ساتھ شرکت اور دوستی نہ کرو جو تم آگ میں جاپڑو۔ تم خدا کے سوا اور کسی سے دوستی نہ کرو ورنہ پھر کوئی تمہاری مدد نہیں کرے گا۔(سورہ ہود۔ آیت ۱۱۳)

یہ ہے قرآن کی تربیت کا ڈھنگ اور وہ ہے اہل بیت ؑ کے تربیتی مکتب کا انداز!

ظالموں کی مدد کرنے ، ان کی تقویت کا باعث بننے اور ان کے ساتھ کسی کام میں شرکت کرنے سے چاہے، وہ ایک کھجور کے ٹکڑے کے برابر ہی ہو، پرہیز اور نفرت کرنے کے سلسلے میں ائمہ اہلبیت ؑ کی بہت سی روایات ہم تک پہنچی ہیں۔

اس میں شک کی گنجائش نہیں ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کی سب سے بڑی بدبختی اور مصیبت یہ رہی ہے کہ ظالموں سے نرمی کرتے ہیں ان کے برے کاموں سے چشم پوشی کرتے ہیں اور ان سے تعلق قائم رکھتے ہیں، پھر یہ تو اس سے بھی کہیں بڑھ کر ہے کہ ان سے نہایت گرمجوشی سے ملیں اور ظلم ڈھانے میں ان کی مدد کریں۔

واقعی حق کی راہ سے ہٹ کر مسلمانوں پر کیا کیا بدبختیاں اور نحوستیں نازل ہوئی ہیں کہ جن کے منحوس سائے میں دین دھیرے دھیرے کمزور ہوتا گیا اور اس کی طاقت گھٹتی چلی گئی یہاں تک کہ آج ہم یہ دیکھتے ہیں کہ دین اجنبی ہوگیا اور مسلمان یا وہ لوگ جو صرف ظاہر میں مسلمان ہیں اور وہ جو غیر خدا سے دوستی کرتے ہیں خدا کی دوستی اور توفیق میں شامل نہیں رہے اور خدا کی مدد سے ایسے محروم ہوگئے کہ اب طاقتور عیسائی دشمنوں کا تو ذکر ہی کیا، یہودیوں جیسے سب سے زیادہ کمزور دشمنوں اور ظالموں سے مقابلے کی بھی طاقت نہیں رکھتے۔

ائمہ اطہار ؑ بہت کوشش کرکے شیعوں اور اپنے ماننے والے لوگوں کو ایسی باتوں سے جو ظالموں کی مدد کا موجب ہوتی تھیں الگ رکھتے تھے اور اپنے محبوں کو سختی سے تاکید کرتے تھے کہ ظالموں کی ذرا سی بھی مدد اور دوستی کا اظہار نہ کریں، اس بارے میں ان کے ارشادات شمار سے باہر ہیں، انہی میں ایک وہ بات ہے جو امام سجاد ؑ نے محمد بن مسلم زہری کو ایک خط میں لکھی تھی۔ آپ اس خط میں دشمنوں کی مدد سے خبردار کرنے کے بعد ان کے ظلم کے متعلق لکھتے ہیں:

اَوَلَیسَ بِدُعَائِهِم اِیَّاکَ حِینَ دَعَوکَ جَعَلوُکَ قُطباً اَدَارُوا بِکَ رَحٰیَ مَظَالِمِهِم وَجِسراً یَعبَرُونَ عَلَیکَ اِلٰی بَلاَیَاهُم سِلماً اِلٰی ضَلاَلَتِهِم دَععِیاً اِلٰی غَیِّهم سَالِکاً سَلِبِیلَهُ یَدخُلُونَ بِکَ الشَّکَّ عَلَی العُلَمَآءِ وَیَقتَادُونَ بِکَ قُلُوبَ الجُهَّالِ اِلَیهِم فَلَم یَبلُغ اَخَصَّ وُزَرَآئِهِم وَلاَ اَقوٰٓی اَعوَانِهِم اِلاَّ دُونَ مَابَلَغَت مِن اِصلاَحِ فَسَادِهِم وَاختِلاَفِ الخَآصَّةِ وَالعَآمَّةِ اِلَیهِم فَمَآ اَقَلَّ مَآاَعطوکَ فِی قَدرِمَآ اَخَذُوا مِنکَ وَمَآ اَیسَرَ مَا عَمَرُوا لَکَ فِی جَنبِ مَا خَرَّبُوا عَلَیکَ فَانظُر لِنَفسِکَ فَاِنَّهُ لاَ یَنظُرُ لَهَا غَیرُکَ حَاسِبِهَا حِسَابَ رَجُلٍ مَسؤُلٍ :۔ کیا تمہارے لیے دشمنوں کے بلاوے کی یہ غرض نہیں تھی کہ تم کو اپنے ظلم کی چکی کا محور و مدار اور پشت و پناہ بنالیں اور تمہیں اپنے منحوس مقاصد تک پہنچنے کے لیے پل ، اپنی گمراہی کی سیڑھی، ظلم کا اعلان کرنے والا اور اپنے ظلم کے راستے کا مسافر سمجھ لیں۔

انہوں نے تمہاری شمولیت سے عقلمندوں کے دل میں شک پیدا کر دیا اور تمہارے وسیلے سے بیوقوفوں کے دل اپہنی طرف مائل کرلیے۔ انہوں نے اچھے موقعے پر اپنا فساد چھیڑکر اور خاص و عام کی توجہ اپنی طرف کرکے جو فائدہ تم سے اٹھایا وہ خاص الخاص وزیروں جی حضوریوں اور سب سے زیادہ طاقتور دوستوں سے بھی نہیں اٹھایا، تمہارے دیے ہوئے کے بدلے میں انہوں نے جو کچھ تمہیں دیا وہ بہت تھوڑا ہے اورتمہاری اتنی ساری بربادیوں کے بدلے میں انہوں نے جو کچھ تمہارے لیے بسایا وہ بہت کم ہے۔ اپنے نفس کے بارے میں سوچو کیونکہ تمہارے علاوہ اور کوئی اس کے متعلق نہیں سوچے گا اور اپنے نفس سے اتنا حساب لو اور اتنی پوچھ گچھ کرو جتنا ایک ذمے دار اور فرض پہچاننے والا آدمی اس سے حساب لے گا۔

(نوٹ، تحف العقول عن آل الرسول صفحہ ۱۹۸ مطبوعہ سستہ الاعلمی للمطبوعات بیروت ۱۹۷۴) ۔

امام ؑ کا آخری جملہ واقعی اہم ہے کیونکہ جب انسان پر خواہش نفسانی غالب آجاتی ہے تو وہ اپنے آپ کو اپنے ضمیر میں بہت ہی حقیر اور ہیچ محسوس کرتا ہے ۔ دوسرے لفظوں میں خود کو اپنے اعمال کا ذمے دار نہیں پاتا۔ اپنے کام بہت چھوٹے گنتا اور سوچتا ہے کہ ان کا کوئی حساب کتاب نہیں ہوگا۔ اس طریقے کا اختیار کرنا انسان کے نفس امارہ کی خفیہ کارروائیوں میں شامل ہے۔

امام زین العابین ؑ کا اس بیان سے یہ مقصد ہے کہ محمد بن مسلم زہری کو نفس کے ان بھیدوں سے جو ہمیشہ انسان میں موجود رہتے ہیں آگاہ کردیں کہیں ایسا نہ ہو کہ ان پر یہ خیال غالب آجائے اور وہ انہیں ان کی ذمے داری کے مقام سے ہٹا دے۔

ظالموں کے ساتھ کام کرنے کے گناہ کو آنکھو کے سامنے لے آنے میں پچھلی گفتگو سے زیادہ واضح اور پرتاثیر صفوان جمال (اونٹ والے) سے ساتوی امام حضرت موسیٰ ب جعفر ؑ کی بات چیت ہے۔ صفوان ساتویں امام کے شیعہ اورمعتبر راوی تھے۔

کشی کی کتاب رجال کی روایت کے مطابق جو اس نے ""صفوان ان سے بیان کرتا ہے"" کے ذیل میں دی ہے ، صفوان نقل کرتے ہیں کہ میں امام موسیٰ ب جعفر ؑ کی خدمت میں پہنچا تو آپ نے مجھ سے فرمایا:

اے صفوان ! ایک کام کے سوا تمہارے سب کام اچھے ہیں۔

میں نے کہا : میں آپ کے صدقے، وہ ایک کام کون سا ہے؟

امام ؑ نے فرمایا: وہ یہ ہے کہ تم اپنے اونٹ اس مرد (ہارون رشید) کو کرائے پر دیتے ہو۔

میں نے کہا : خدا کی قسم ! میں اپنے اونٹ حرام ، گناہ ، باطل ، شکار اور عیاشی کے کاموں کے لیے نہیں دیتا بلکہ میں نے اپنے اونٹ مکے جانے کے لیے کرائے پر دیے ہیں اور پھر میں خود اونٹوں کے ساتھ نہیں جاتا بلکہ اپنے غلاموں کو بھیج دیتا ہوں۔

امام ؑ نے فرمایا: اے صفوان ! کیا تمہارے کرائے کی شرط یہ ہے کہ وہ واپس آجائیں؟

میں نے کہا : آپ پر فدا ہوجاؤں ، بے شک۔

آپ نے فرمایا: کیا تم چاہتے ہو کہ وہ زندہ واپس آجائیں تاکہ تمہارا کرایہ وصول ہوجائے۔

میں نے عرض کیا : جی ہاں ۔

آپ نے فرمایا :

فَمَن اَحَبَّ بَقَآءَ هُم فَهُوَمِنهُم وَمَن کَانَ مِنهُم فَهُوا کَاَن وَّرَدَ النَّارَ :۔ جو ان کے زندہ رہنے کو اچھا سمجھتا ہے وہ انہیں کے زمرے میں داخل ہے اور جو ان کے زمرے میں داخل ہے وہ دوزخ کی آگ میں ڈالا جائے گا۔

صفوان کہتا ہے کہ میں گیا اور میں نے تمام اونٹ ایک دم بیچ دیے۔

ہاں جب محض ظالموں کی زندگی باقی رہنے کی خواہش ایسی ہوسکتی ہے تو پھر اس شخص کا کیا ہوگا جو مستقل طور پر ظالموں کی مدد کرتا ہے اور ان کے ظلم اور زیادتی میں ان کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور پھر ان کا پوچھنا ہی کیا جو انہیں کی سی عادتیں اختیار کریں اور ان کے ساتھ ان کے کاموں ، منصوبوں اور گروہوں میں شریک ہوجائیں۔

ظالموں کی طرف سے کام قبول کرنا

جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں ظالموں کی مدد اور ان کے ساتھ کام کرنے کی چاہے ایک کھجور کے ٹکڑے کے برابر ہی کیوں نہ ہو بلکہ ان کے لیے زندگی کی خواہش کرنے کی بھی ائمہ اطہار ؑ نے نہایت سختی سے ممانعت کی ہے۔ پھر اس کے بارے میں تو کہا ہی کیا جائے جو ایسی حکومت میں شریک ہے اور ایسی ظالم حکومت کے منصوبوں اور عہدو پر متعین ہے۔ اس سے بھی آگے اس شخص کے لیے کیا کہا جائے جو ایسی حکومت کی بنیاد ڈالنے والوں میں سے ہو اور جو اس حکومت کو قوت پہنچانے اور مضبوط بنانے والے کارکنوں میں شمار کیا جائے کیونکہ امام جعفر صادق ؑ کے فرمان کے مطابق ظالم حکومت تمام صحیح قوانین کے مٹنے، باطل کے زندہ ہونے اور ظلم اور تباہی کے ظاہر ہونے کا موجب بنتی ہے۔

البتہ ائمہ اطہار ؑ نے بعض خاص موقعوں پر ان عہدوں کا قبول کرنا جائز سمجھا ہے مثلاً ظالم حکومت کی طرف سے ایک ایسا منصب قبول کرنا جو انصاف قائم کرنے، خدائی سزائیں دینے، مومنوں سے احسان اور نیکی کرنے، حلال کا حکم دینے اور حرام سے منع کرنے کے لیے ہو جیسا کہ امام موسیٰ بن جعفر ؑ ایک حدیث میں فرماتے ہیں :

اِنَّ لِلّٰهِ فِیٓ اَبوَابِ الظُّلمَةِ مِن نُّورِ اللهِ بِهِ البُرهَانَ وَمَکَّنَ لَهُ فِی البِلاَدِ اُمُورَ المُسلِمِینَ اُولٰٓئِکَ هُمُ المُؤمِنُونَ حَقّاً اُولٰٓئِکَ مَنَارُ اللهِ فِیٓ اَرضِهِ اُولٰٓئِکَ نُورُ اللهِ فِی رَعِیَّتِهِ :۔ ظالموں کے یہاں خدا کے لیے کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے ذریعے سے خدا لوگو پر اپنی دلیل اور حجت ظاہر کرتا ہے اور ان کو شہروں میں اختیار دیتا ہے تاکہ ان کے وسیلے سے اپنے دوستوں کی مدد ہو، ان سے شر دفع ہو اور مسلمانوں کے کام سدھریں ایسے لوگ اصلی مومن ہوتے ہیں، ایسے لوگ زمین پر خدا کی واضح علامتیں اور نشانیاں اور خدا کے بندوں میں اس کی روشنی ہوتے ہیں

اس کے بارے میں ائمہ اطہار ؑ سے بہت سی روایتیں ہیں جو مذکورہ حکومتوں کے منصب داروں کے فرائض اور اچھے طرز عمل پر روشنی ڈالتی ہیں مثلاً امیرا ہواز عبداللہ نجاشی کے نام امام جعفر صادق ؑ کا رسالہ جس کا ذکر ایک بہت بڑے محقق شیخ حرعاملی نے وسائل الشیعہ کتاب البیع باب ۷۷ میں کیا ہے۔

اسلامی اتحاد کی ترغیب :۔

اہل بیت ؑ ان چیزوں کی بزرگی اور مضبوطی کی شدید خواہش رکھتے تھے جن سے اسلام کا اظہار ہوتا ہے ۔ اور اسلام کی عزت، مسلمانوں کے اتحاد، ان میں بھائی چارے کی حفاظت اور مسلمانوں کے دلوں اور ذہنوں سے ہر قسم کی دشمنیاں دور کرنے کی ترغیب دیتے تھے۔

مولی الموحدین ، امام المتقین ، امیر المومنین حضر ت علی ؑ کا ان خلفاء کے ساتھ طرز عمل جو ان سے پہلے مسند خلافت پر بیٹھے تھے بھلایا نہیں جاسکتا۔ اگرچہ آپ خلافت کو اپنا حق سمجھتے تھے اور ان لوگوں غاصب ، تاہم آپ نے ان کے ساتھ (مسلمانوں کے اتحاد کی حفاظت کی خاطر) صلح جوئی اور مصاحبت رکھی بلکہ (ایک مدت تک) آپ نے اپنا یہ عقیدہ بھی عوام کے مجمعوں میں پیش نہیں کیا کہ منصب خلافت پر جس کا تعین کیا گیا ہے وہ صرف وہی ہیں لیکن جب حکومت آپ کے ہاتھ میں آئی تو آپ نے ""میدان رحبہ"" (نوٹ،کوفہ کا وہ مقام جہاں امیرالمومنین ؑ عموماً اپنے دور خلافت میں خطبہ دیا کرتے تھے) میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے باقی ماندہ اصحاب سے جنہوں نے غدیر کے دن حضور سرورکائناتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے آپ کا تقرر دیکھا تھا گواہی چاہی، آپ نے ان باتوں کا بے جھجک ذکر کیا جن میں مسلمانوں کے فائدے اور بھلائیاں تھیں۔ یہ اسی اتحادالمسلمین کے خیال سے تھا جو آپ نے اپنی حکومت سے پہلے کے زمانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:

فَخَشِیتُ اِن لَّم اَنصُرِالاِسلاَمَ وَ اَهلَهُ اَرٰی فِیهِ ثَلماً وَّهَدماً :۔مجھے ڈر تھا کہ اگر میں اسلام اور مسلمانوں کا ساتھ نہیں دوں گا تو اسلام میں تفرقہ اور تباہی پھیل جائے گی۔

یہی وجہ تھی کہ خلافت شروع ہونے کے بعد امام ؑ کی جانب سے کوئی ایسی بات دیکھنے میں نہیں آئی کہ ان کی گفتگو یا عمل سے (اسلام کی طاقت کی حفاظت کے خیال سے)خلفاء کی طاقت اور دبدبے کو نقصان پہنچے یا ان کی طاقت گھٹنے یا ان کی شان اور رعب میں بٹا لگنے کا سبب بنتی ، خلفاء کی ان کارروائیوں کے باوجود جو آپ دیکھتے تھے اپنے نفس پر قابو رکھتے ہوئے گھر میں بیٹھے رہے یہ تمام احتیاطیں محض اس لیے تھیں کہ اسلام کے فائدے محفوظ رہیں اور اسلام اور مسلمانوں کے اتحاد اور میل جول کے محل میں کوئی خرابی اور دراڑ پیدانہ ہو چنانچہ یہ احتیاط لوگوں نے آپ ہی سے سیکھی سمجھی ۔

حضرت عمر ابن خطاب بار بار کہتے تھے:

لاَ کُنتُ لِمُعضَلَةٍ لَیسَ لَهَا اَبُو الحَسَن :۔ خدا نہ کرے کہ میں ایسی مشکل میں پڑوں کہ جہاں ابوالحسن نہ ہوں۔

یا

لَولاَ عَلِّیٌ لَهَلَکَ عُمَرُ :۔ اگر علی نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوجاتا ۔

(نوٹ، ۱ ۔صحیح بخاری، کتاب المحاربین ، باب الایرجم المجنون ،سنن ابی داود، باب مجنون یسرق صفحہ ۱۴۷ ، مسند احمد بن حنبل جلد ۱ صفحہ ۱۴۰ و ۱۵۴ ،سنن دار قطنی، کتاب الحدود صفحہ ۳۴۶ ، کنرالعمال، علی متقی، جلد ۳ صفحہ ۹۵ ،فیض القدریر ،منادی،جلد ۴ صفحہ ۳۵۶ ، موطا، مالک، کتاب الاشر بہ صفحہ ۱۸۶ ، مسند، شافعی، کتاب الاشربہ صفحہ ۱۶۶ ، مستدرک حاکم جلد ۴ صفحہ ۳۷۵ ، سنن بیہقی صفحہ ۱۲۳ ، ریاض النضرہ، محب طبری، جلد ۲ صفحہ ۱۹۶ ، طبقات ابن سعد جلد ۲ باب ۲ صفحہ ۱۰۲ ، شرح معافی الآثار، طحاوی، کتاب القضاء صفحہ ۲۹۴ ، استیعاب، ابن عبدالبر، جلد ۲ صفحہ ۴۶۳ ، نورالابصار، ثعلبی، صفحہ ۵۶۶ ، درمنشور، سیوطی، سورہ مائدہ آیت خمر)

امام حسین ؑ کی روش بھی کبھی بھلائی نہیں جاسکتی کہ انہوں نے کس طرح اسلام کی حفاظت کی خاطر معاویہ سے صلح کی، جب آپ نے دیکھا کہ اپنے حق کے دفاع کے لیے جگ پر اصرار کرنا، قرآن اور عادلانہ حکومت ہی کونہیں بلکہ اسلام کے نام کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مٹادے گا اور شریعت الہٰیہ کو بھی نابود کردے گا تو آپ نے اسلام کی ظاہری نشانیوں اور دین کے نام کی حفاظت ہی کو مقدم سمجھا۔

اگرچہ یہ رویہ اس کے برابر ٹھہرا کہ ان ظالموں کے باوجود جن کے بارے میں یہ انتظار تھا کہ آپ پر اور آپ کے شیعوں پر ڈھائے جائیں گے، معاویہ جیسے اسلام اور مسلمانوں کے سخت دشمن اور آپ سے اور آپ کے شیعو سے دل میں بغض اور کینہ رکھنے والے دشمن سے صلح کی جائے۔ اگرچہ بنی ہاشم اور آپ کے عقیدت مندوں کی تلواریں نیام سے باہر آچکی تھیں اور حق کے بچاؤ اور حصول کے بغیر نیام میں واپس جانے کو تیار نہیں تھیں لیکن امام حسن ؑ کی نظر میں اسلام کے اعلیٰ فوائد اور مقاصد کی پاسداری ان تمام معاملات پر فوقیت رکھتی تھی۔

لیکن جب اسلام کے یہی اعلیٰ مقاصد معرض خطر میں پڑگئے تو امام حسین ؑ نے اپنے بھائی امام حسن ؑ کے طرز عمل سے جداگانہ رویہ اختیار کیا(نوٹ، تفصیلات کے لیے ملاحظہ فرمائیے مکتب اسلام مولفہ علامہ محمد حسین طباطبائی مطبوعہ جامعہ تعلیمات اسلامی) اور امام حسین ؑ باطل کے خلاف ڈٹ گئے، کیونکہ انہوں نے دیکھا کہ بنی امیہ کی حکومت اس راستے پر چل رہی ہے کہ اگر اسی طرح چلتی رہی اور کوئی اس کی برائیاں کھول کر سامنے نہیں لایا تو حکمران اسلام کی بنیادیں ڈھادیں گے اور اسلام کی عظمت ختم ہوجائے گی، آپ نے چاہا ہے کہ اگر اسی طرح چلتی رہی اور کوئی اس کی برائیاں کھول کر سامنے نہیں لایا تو حکمران اسلام کی بنیادیں ڈھادیں گے اور اسلام کی عظمت ختم ہوجائے گی۔ آپ نے چاہا کہ اسلام اور شریعت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ان کی دشمنی تاریخ میں محفوظ کر دیں اور ان کو ان برائیوں سمیت رسوا کریں چنانچہ امام حسین ؑ نے جس طرح چاہا تھا اسی طرح ہوا۔

اگر آپ کھڑے نہ ہوتے تو اسلام اس طرح فنا ہو جاتا کہ صرف تاریخ اسے ایک غلط مذہب کے نام سے یاد کرتی۔

شیعیان اہل بیت ؑ جو طرح طرح سے سیدالشہداء امام حسین ؑ کی یاد تازہ رکھنے سے شدید دلچسپی رکھتے ہیں یہ چاہتے ہیں کہ ان کی تحریک کی تبلیغ مکمل کریں جو ظلم وستم کو کچلنے کے لیے وجود میں آئی تھی اور ان کا مقصد (جو عدالت کا قیام تھا) حاصل کریں تاکہ امام حسین ؑ کے بعد ائمہ اطہار ؑ کی رسم کے مطابق عاشورہ محرم کی یاد تازہ کرنے کے معاملے میں ان کی پیروی اور اتباع کرنے والے بن جائیں، یہی وجہ ہے کہ ""عاشورہ "" ہمارا شعار بن گیا۔(نوٹ، تفصیلات کے لیے ملاحظہ فرمایئے فلسفہ شہادت مولفہ مرتضیٰ مطہری، مطبوعہ جامعہ تعلیمات اسلامی)

اسلام کی عظمت کو قائم رکھنے سے اہل بیت ؑ کی انتہائی دلچسپی (نوٹ عظمت اسلام ان باتوں سے عبارت ہے خدائے واحد کی عبادت اور حکومت ، دین، رہبران دین اور بنی نوع انسان کے حقوق کا پاس، معاشرے میں انفرادی اور اجتماعی عدالت کا اجراء، انسانوں کے مابین اسلامی اخوت اور مساوات اور فکر و عمل کی آزادی، اسلام یعنی کتاب و سنت کے انہی آفاقی اصولوں کی حفاظت اور بقا کے لیے ائمہ اہل بیت ؑ نے اپنی زندگیاں وقف کر دی تھیں۔ انہوں نے ایسے افراد کی تربیت کی جو ا سنہرے اصولوں کی پاسداری کرسکیں۔ اگر کوئی شخص یا گروہ ان اصولوں کے حصار کو توڑ کر کسی کا حق غصب کرے، عدل و انصاف کی دھجیاں بکھیرے ، طبقاتی نظام قائم کرے، انسانوں کی آزادی سلب کرے یا فرعونیت کا اظہار کرے تو وہ قرآ کی اصطلاح میں طاغوت ہے اور وہ بندگان خدا جن پر ایسی افتاد نازل کی جائے اور انہیں خدائے منعم کی دی ہوئی نعمتوں سے محروم کردیا جائے وہ مستضعف ہیں۔ شیعیان اہل بیت ؑ خدائے عزوجل کے سوا کسی کو سپر پاور تسلیم نہیں کرتے اور اپنے اپنے زمانے کے طاغوتوں سے ٹکر لینے اور کلمہ لا الہ الا اللہ کو بلند کرنے اور مظلوموں کی حمایت کرنے کو اپنا اشعار قرار دیتے ہیں جب وہ کلمہ طیبہ اپنی زبان پر جاری کرتے ہیں، تو وہ انہیں اصولوں پر اپنے ایمان اور ان سے وابستگی کا اظہار کرتے ہیں) اگرچہ ان کے دشمن حالات پر حاوی تھے۔۔امام علی زین العابدین ؑ کی زندگی سے ظاہر ہوجاتی ہے۔ اگرچہ آپ سلاطین بنی امیہ کے مد مقابل تھے اور بنی امیہ نے آپ کے رشتہ داروں کا خون بھی بہایا تھا اور آپ کے خاندا ن کی بے ادبی اور توہین کرنے میں حد سے گزر چکے تھےاور آپ کربلا کے دل ہلادینے والے حادثے کے باعث جس میں بنی امیہ نے آپ کے پدر بزگوار اور ان کے حرم پر بے حد و حساب ظلم توڑے تھے سخت دلگیر اور غمگین تھے پھر بھی آپ تنہائی میں مسلمانوں کی فوج کے لیے دعا کیا کرتے تھے اور خدا سے ان کی فتح ، اسلام کی عزت اور مسلمانوں کی امنیت اور سلامتی چاہتے تھے۔

اس سے پہلے بتایا جا چکا ہے کہ اسلام کی تعلیمات کو عام کرنے کے لیے امام زین العابدین ؑ کا واحد ہتھیار آپ کی دعا تھی آپ نے اپنے عقیدت مندوں کو یہ سکھایا کہ اسلامی فوج اور مسلمانوں کے لیے کس طرح دعا کریں۔

امام زین العابدین ؑ اس دعا میں جو ""دعائے اہل ثغور"" کے نام سے مشہور ہے یوں فرماتے ہیں۔

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهِ وَ حَصِّن ثُغُورَ المُسلِمِینَ بِعِزَّتِکَ وَ اَیِّدحُمَاتِهَا بَقُوَّتِکَ وَ اَسبِغ عَطَایَاهُم مِن جِدَتِکَ اَللّٰهُمَّ صَلِ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهِ وَکَثِّر عَدَّتَهُم وَاشحَذ اَسلِحَتَهُم وَاحرُس حَوزَتَهُم وَامنَع حَومَتَهُم وَ اَلِّف جَمعَهُم وَدَبِّر اَمرَهُم وَ وَاتِر بَینَ مِیَرِهِم وَتَوّحَّد بِکِفَایَةِ مُؤنِهِم وَاعضُدهُم بِالنَّصرِ وَاَعِنهُم بِالصّبرِ وَالطُف لَهُم فِی المَکرِ :۔ اے خدا محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آل محمد ؑ پر درود بھیج، مسلمانوں کی جماعت بڑھا، ان کے ہتھیار تیز کر، ان کے علاقے کی حفاظت کر، ان کی صف کی قابل توجہ حد مضبوط بنا، ان کی جماعت میں یک جہتی برقرار رکھ، ان کے کام پورے کر، ان کو روزی ان کے پیچھے پیچھے (ساتھ ساتھ ۹ پہنچا، ان کے اخراجات پورے کر، ان کو اپنی مدد سے طاقتور بنا صبر اور ثابت قدمی سے ان کی امداد کر اور ان کو اپنے دشمنوں کے مقابلے میں اپنا راستا پالینے کی خفیہ حکمت عملی عطا فرما۔ (صحیفہ ، ستاءیسویں دعا)

پھر کافروں پر لعنت بھیجنے کے بعد فرماتے ہیں:

اَللّٰهُمَّ وَقَوِّ بَذٰلِکَ مِحَالَ اَهلِ الاَسلاَمِ وَحَصِّن بِهِ دِیَارَهُم وَثَمِّر بِهِ اَموَالَهُم وَفَرِّغهُم عَن مُحَارَبَتِهِم لِعِبَادَتِکَ وَعَن مُنَابَذَتِهِم لِلخَلوَةِ بِکَ حَتّٰی لا یُعبَدَ فِی بَقَاعِ الاَرضِ غَیرُکَ وَلاَ تُعَفَّرَ لاَحَدٍ مِّنهُم جَبهَةٌ دُونَکَ :۔ (نوٹ، یہ دعا واقعی کتنی اچھی اور جامع ہے، اس دور میں مسلمانوں کو چاہیے کہ یہ دعا دن رات پڑھا کریں اور اس کے معافی سے سبق لیں اور خدا سے چاہیں کہ وہ انہیں میل جول ، اتحاد، صفوں کا گٹھاؤ اور عقل کی روشنی عطا فرمائے)۔

اے خدا! اس دور اندیش وسیلے سے مسلمانوں (یا ان کے مقامات) کو طاقت عطا کر، ان کے شہر مستحکم اور ان کی دولت زیادہ کر، ان کو اپنی بندگی اور عبادت کے لیے اور اپنے ساتھ تنہائی اختیار کرنے کے لیے دشمنوں کی جنگ اور رگڑے جھگڑے سے فرصت اورسکون عطا فرماتا کہ روئے زمین پر تیرے سوا دوسرے کی عبادت نہ ہو اور تیرے سوا ان کی پیشانی کسی کے آگے نہ جھکے۔

امام زین العابدین ؑ اس بلیغ اور پر تاثیر دعا میں (جو ان دعاؤں میں سب سے لمبی ہے) لشکر اسلام کو اس کام کے لیے جو اس کے شایان شان ہے اس طرح آمادہ کرتے ہیں کہ وہ عسکری اور اخلاقی خوبیوں کے مالک بنیں اور دشمنوں کی صفوں کے مقابلے میں پوری طرح مل کر کھڑے ہوجائیں۔

آپ اس دعا کے پردے میں اسلامی جہاد کی فوجی تعلیم، نتیجہ ، مقصد اور اس کے فائدے بیان کرتےہیں اور دشمن سے تصادم اور جھڑپوں میں جنگی حکمت عملی کی وضاحت کرتے ہیں، اور ساتھ ساتھ یہ بھی آجاتا ہے کہ لڑائی کے بیچ میں خدا کی محبت، اس پر بھروسا ، گناہوں سے پرہیز اور خدا کی خاطر جہاد کرنا دھیان سے نہ اترے۔

اپنے زمانے کے حاکموں کے مقابلے میں باقی اماموں کا بھی یہی رویہ رہا۔ یہ بزرگ اگرچہ دشمنوں کی قسم قسم کی دھکمیوں اور دھوکے بازیوں، سنگدلیوں اور بے باکیوں کا مقابلہ کرتے رہے لیکن جب انہوں نے سمجھ لیا کہ حق حکومت ان کی طرف نہیں پلٹے گا تو بھی وہ اپنے اصل مقصد سے نہیں ہٹے اور لوگوں کی دینی اور اخلاقی تعلیم اور اپنے پیروکاروں کو مذہب کی بلند مرتبہ تعلیمات کی طرف متوجہ اور راغب کرنے میں مصروف رہے۔

یہ ہے اہل بیت رسول ؑ اور ان کے پیروکاروں کا طریقہ لیکن کتنا بڑا جرم ہے آج کل کے مصنفین کا جو چند ڈالروں اور ریالوں کی خاطر شیعوں کو ایک خفیہ، تخریب کار اور بنیاد اکھیڑ دینے والی جماعت کا نام دیتے ہیں۔

یہ صحیح ہے کہ ہر وہ مسلمان جو اہل بیت ؑ کے تعلیمی مکتب کا ماننے والا ہے وہ ظلم اور ظالموں کا دشمن ہوتا ہے ، ظالموں اور بدکاروں سے تعلق نہیں رکھتا اور ان لوگوں کو جو ظالموں کی مدد کرتے ہیں نفرت اور حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے چنانچہ یہ نیک عادت اور صحیح دستور ایک نسل سے دوسری نسل تک چلتا رہتا ہے لیکن اس کے یہ معنیٰ نہیں ہیں کہ ہم شیعوں کو بہانہ ، دھوکا اور مکر وغیرہ کے عنوان سے پہچانیں۔

شیعہ مسلمان دوسرے مسلمانوں کو دھوکا دینا اپنے لیے جائز نہیں سمجھتے ۔ یہ وہ طریقہ ہے جو انہوں نے اپنے اماموں سے لیا ہے شیعوں کے عقیدے کی رو سے ہر اس مسلمان کا مال ، جان اور عزت محفوظ ہے جو خدا کی وحدانیت اور پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت کی گواہی دیتا ہے یعنی لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کہتا ہے کسی مسلمان کی اجازت کے بغیر اس کا مال کھانا جائز نہیں ہے کیونکہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھاءی ہے اسے چاہیے کہ وہ اپنے بھائی کے ان حقوق کا خیال رکھے ج کی طرف ہم آگے کی بحث میں اشارہ کریں گے۔

مسلمانوں کے ایک دوسرے پر حقوق :

مختلف طبقوں، درجوں اور مقاموں سے تعلق رکھنے کے باوجود مسلمانوں میں بھائی چارہ قائم کرنے کی ترغیب مذہب اسلام کی سب سے بڑی اور سب سے اچھی ترغیبوں میں سے ہے چنانچہ آج کے اور پچھلے مسلمانوں کا سب سے زیادہ بے وقعت اور ذلیل کام یہ ہے کہ انہوں نے اس اسلامی بھائی چارے کے تقاضوں کی طرف دھیان نہیں دیا اور اس بارے میں لاپروائی اور غفلت برتی۔

وجہ یہ ہے کہ اس بھائی چارے کا (جیسا کہ امام جعفر صادق کؑ کی گفتگو سے معلوم ہوتا ہے اور جسے ہم بیان کریں گے) کم سے کم تقاضا یہ ہے کہ ہر مسلمان اپنے بھائی کے لیے وہ پسند کرے اور عزیز رکھے جسے اپنے لیے اس نے پسند کیا ہے اور عزیز رکھا ہے اور جسے اپنے لیے پسند نہیں کرتا اسے دوسرے مسلمانوں کے لیے بھی پسند نہ کرے۔

اس چھوٹے اور سیدھے سادے سے قاعدے کے بارے میں جو اہلبیت ؑ کے پسندیدہ دستوروں میں سے ہے سوچنا چاہیے اور اس خیال سے سوچنا چاہیے کہ اس قاعدے پر صحیح صحیح عمل کرنا آج کے مسلمانوں کے لیے کتنا مشکل ہے ۔ آج کے مسلمان واقعی اس قاعدے سے کتنے دور ہیں اور اگر واقعی یہ لوگ انصاف سے کام لیتے اور اپنے مذہب کو ٹھیک ٹھیک پہچان لیتے اور صرف اسی قاعدے پر عمل کرتے تو کبھی ایک دوسرے پر ظلم نہ کرتے اور ان میں زیادتی، چوری، جھوٹ، بدگوئی ، چغلی ، الزام ، گستاخی ، تہمت لگانا، توہین کرنا اور خود غرضی وغیرہ کے عیوب ہرگز نہ ہوتے۔

بے شک اگر مسلمان آپس میں بھائی چارے کی کم سے کم خوبی کو سمجھ کر ہی عمل کرتے تو ان میں ظلم اور دشمنی باقی نہ رہتی اور انسان حد درجہ خوشی اور اجتماعی خوش بختی کے اونچے اونچے مرحلوں کی فتح کے ساتھ ساتھ بھائیوں کی طرح اپنی زندگی گزارتے۔

انسانیت کی دنیا میں وہ ""مثالی بعاشرہ"" جس کا قیام پچھلے فلسفیوں سے رہ گیا تھا یقینی طور پر وجود میں آجاتا، اس صورت میں لوگوں میں دوستی اور محبت کی حکمرانی ہوتی حکومتوں ، عدالتوں ، پولیس ، جیل تعزیری قوانین اور سزا اور قصاص کے احکام کی ضرورت ہی محسوس نہ ہوتی، اگر وہ سامراجیوں اور جابر حکمرانوں کے سامنے سر نہ جھکاتے اور باغی خود سروں کے دھوکے میں نہ آتے تو آخر کار پوری زمین بہشت کا بدل ہوجاتی اور خوش بختی کے گھر کی طرح بن جاتی۔

میں اس جگہ یہ مزید کہتا ہوں : اگر محبت اور بھائی چارے کا قانون جیسا کہ اسلام نے چاہا ہے انسانوں میں حکمرانی کرتا تو ہمارے مکتب کی لغت سے عدالت کا لفظ ہی نکل جاتا۔ یعنی ایسی صورت میں ہمیں عدل کی ضرورت ہی نہ پڑتی جو ہم لفظ عدل سے کام لینے کی حاجت رکھتے بلکہ محبت اور بھائی چارے کا قانون ہی نیکیاں پھیلانے ، امن ، خوش بختی اور کامیابی قائم رکھنے کو ہمارے لیے کافی ہوتا ۔

وجہ یہ ہے کہ انسان قانون عدل کی طرف اس وقت جاتا ہے جب سماج میں محبت نہیں ہوتی لیکن جہاں لوگوں میں باپ بیٹے اور بھائی بھائی کی سی محبت راج کرتی ہے، وہاں انسان اپنی خواہشات اور ضروریات چھوڑ بیٹھتا ہے اور محبت کے مقدس حدود کی خود خوشی خوشی حفاظت کرتا ہے آخر کار تمام مشکلیں محبت کے سائے تلے دور ہوجاتی ہیں اور پھر عدالت اور سیاست کی ضرورت نہیں رہتی ۔

اس کا راز اور سبب یہ ہے کہ ہر انسان صرف اپنے آپ سے اور اس چیز سے محبت کرتا ہے جو اسے اچھی لگتی ہے وہ کبھی ایسی چیز سے جو اس کی ہستی سے باہر ہو اس وقت تک محبت نہیں کرتا جب تک وہ اس سے تعلق پیدا نہ کرے ، وہ اسے بھلی نہ لگنے لگے، اسے اس کی ضرورت نہ پڑجائے اور اس سے رغبت نہ ہوجائے۔

اسی طرح یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ وہ کسی ایسی چیز کی خاطر جسے وہ پسند نہیں کرتا اور جس کی طرف وہ مائل نہیں ہے اپنے ارادے اور اختیار سے جان دے دے اور قربانی ہوجائے اور اس کے لیے اپنی خواہشات اور مرغوبات چھوڑ بیٹھے بجز اس صورت کے وہ ایک ایسا عقیدہ رکھتا ہو جس کی طاقت اس کی خواہشات اور مرغوبات سے زیادہ ہو ، جیسے عدالت اور احسان کا عقیدہ اس صوت میں زیادہ طاقتور میدان (مثلاً عدالت اور احسان چاہنے کا عقیدہ) کمزور رجحانات کو دبا دیتا ہے۔ یہ زیادہ پکا اور مضبوط عقیدہ انسان میں اس وقت جنم لیتا ہے جب کہ وہ بلند روح کا مالک ہو، ایسی روح جو اس سے زیادہ بلند ہو کہ خیالی اور مادی معاملات کی خاطر مادے سے ماورا (یعنی حقیقی، معنوی اور روحانی ) معاملات کو نظر انداز نہ کرے، اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ وہ کسی غیر کے ساتھ احسان اور انصاف کیے جانے کے مرحلے کو اعلیٰ سمجھے گا۔

انسان اس صورت میں اس روحانی پروگرام کا محتاج ہوتا ہے جب وہ اپنے اور تمام انسانوں کے بھائی چارے کے جذبے اور سچی محبت کے قائم رکھنے سے عاجزہ جائے۔ ورنہ جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں کہ محبت، عدالت کی جگہ لے لیتی ہے اور محبت کی حکومت میں عدالت کی ضرورت نہیں ہوتی۔

اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ مسلمان پر بھائی چارے کی صفت سے آراستہ ہونا واجب ہے۔ اسے سب سے پہلے یہ چاہیے کہ وہ دوسروں کے ساتھ بھائی چارے کا جذبہ رکھے اور جب اپنے نفس کی خواہشات غالب آجانے کے باعث اپنے اندر یہ جذبہ پیدا کرنے سے عاجز رہ جائے (جیسا کہ اکثر ہوتا ہے) تو اسلامی مواعظ اور رہبریو کی پیروی کرکے اپنے نفس میں عدالت اور احسان طلبی کا عقیدہ مضبوط کرے اور اس کی بدولت اسلامی مقاصد حاصل کرے اور اگر اسے مرحلے سے بھی مجبور ہوگیا تو پھر وہ صرف نام کا مسلمان ہے (کیونکہ محبت کے درجو کی کوئی انتہا نہیں ہے اور عدل ، اسلام کی آخری حد ہے جس کے بعد کفر و ضلالت ہے) اور وہ اللہ کی سرپرستی اور حزب اللہ سے باہر نکل گیا ہے اور امام ؑ کی تشریح کے مطابق جو بیان کی جارہی ہے خدا اس پر مہربانی اور عنایت نہیں کرتے گا۔

اکثر نفس کی سرکش خواہشیں اور تقاضے انسان پر غالب آجاتے ہیں اور اس کے نتیجے میں اس کے لیے دشوار ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے لیے انصاف چاہنے کی ضرورت محسوس کرے تو پھر اس بات کا توخیر خیال ہی چھوڑ دیجیے کہ وہ انسانی انصاف کی اتنی طاقت اپنے اندر اکٹھی اور تیار کرلے کہ اپنے نفس کی سرکش خواہشوں اور تقاضوں پر غالب آجائے۔

یہی وجہ ہے کہ بھائی چارے کے حقوق کا لحاظ اس حالت میں جب کہ انسان میں بھائی چارے کا سچا جذبہ نہ ہو سب سے مشکل مذہبی تعلیم اور سبق ہے ، چنانچہ امام جعفر صادق ؑ نے اپنے ایک صحابی معلیٰ بن خنیس کے جواب میں جس نے بھائی چارے کے حقوق پوچھے تھے اس کی حالت کا خیال کیا اور اس ڈر سے کہ معلیٰ بن خنیس ان حقوق کو جانتا ہے لیکن ان پر عمل نہیں کرسکتا اس کی قوت برداشت سے زیادہ وضاحت نہیں کی۔

معلیٰ بن خنیس کہتے ہیں ، میں نے امام جعفر صادق ؑ سے عرض کیا :

مَا حَقُّ المُسلِمِ عَلَی المُسلِمِ :۔ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر کیا حق ہے ؟

آپ نے فرمایا :

لَهُ سَبعُ حُقُوقٍ وَاجِبَاتٍ ، مَامِنهُنَّ حَقٌّ اِلاَّ وَهُوَ عَلَیهِ وَاجِبٌ ، اِن ضَیَّعَ مِنهَا شَیئاً خَرَجَ مِن وِلاَیَةِ اللهِ وَطَاعَتِهِ ، وَلَم یَکُن لِلّٰهِ فِیهِ نَصِیبٌ :۔ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر سات حق واجب ہوتے ہیں جن میں سے ہر ایک خود اس پر بھی واجب ہے اگر وہ ان میں سے ہر حق ضائع کردے گا تو خدا کی بندگی، حکومت اور سرپرستی سے باہر نکل جائے گا اور پھر خدا کی طرف سے اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔

میں نے کہا : میں آپ پر فدا ہوجاؤں، وہ حقوق کیا ہیں؟

آپ نے فرمایا:۔ اے معلیٰ ! میں تجھ پر شفقت کرتا ہوں، مجھے ڈر ہے کہ تو کہی یہ حقوق تلف نہ کرے، ان کی حفاظت نہ کرسکے اور انہیں سمجھتے ہوئے بھی ان پر عمل نہ کرسکے۔

میں نے کہا : خدا کے سوا کسی میں طاقت نہیں ہے مجھے خدا کی مدد سے امید ہے کہ میں کامیاب ہوجاؤں گا۔

اس وقت امام نے ساتوں حقوق بیان کیے، اس کے بعد فرمایا کہ جو ان میں سب سے ادنی ہیے وہی سب سے سادہ بھی ہے اور وہ یہ ہے:

اَن تُحِبَّ لَهُ کَمَا تُحِبُّ لِنَفسِکَ وَتَکرَهَ لَه مَاتکرَرهُ لِنَفسِکَ :۔ دوسروں کے لیے بھی وہ چیز پسند کر جو تو اپنے لیے پسند کرتا ہے اور دوسروں کے لیے بھی وہ ناپسند کر جو تو اپنے لیے ناپسند کرتا ہے۔

کس قدر عجیب ہے ! سبحان اللہ ! کیا سچ مچ یہ سب سے ادنیٰ اور سب سے سادہ حق ہوسکتا ہے؟

آج ہم مسلمانوں کا کیا حال ہے؟ کیا اس حق کا ادا کرنا ہمارے لیے سادہ اور سہل ہے؟ ان کے مہ کو لوکا لگے جو مسلمان ہونے کا دعوی تو کرتے ہیں لیکن اسلام کے سب سے سادہ قاعدے پر بھی عمل نہیں کرتے ۔ اس سے بھی زیادہ تعجب اس بات پر ہے کہ اسلام کے پچھڑ جانے اور زوال پذیر ہونے کی بات کرتے ہیں جبکہ مسلمانوں کا عمل اس زوال کا سبب بنا ہے۔ اسلام می خود کوئی برائی نہیں ہے جو برائی ہے وہ ہمارے مسلمان ہونے کے دعوے میں ہے۔ ہاں تمام گناہ ان کے ہیں جو خود کو مسلمان کہتے ہیں اور اپنے مذہب کے سب سے آسان اور سادہ قاعدے پر عمل کرنے کو تیار نہیں ہیں۔

صرف تاریخ میں لکھے جانے کے لیے اور اس لیے کہ ہم خود کو اور اپنی کوتاہیوں کو پہچان لیں، یہ ساتوں حقوق جن کی امام جعفر صادق ؑ نے معلیٰ بن خنیس کی خاطر تشریح کی ہے ہم اس مقام پر پیش کرتے ہیں :

۱ ۔آن تحِبَّ لاَخِیکَ المُسلِمِ مَاتُحِبُّ لِنَفسِکَ وَتَکرَهَ لَهُ مَا تَکرَهُ لِنَفسِکَ :۔ اپنے مسلمان بھائی کے لیے وہ چیز پسند کو جو اپنے لیے پسند کرتا ہے اور جو اپنے لیے پسند نہیں کرتا اس کے لیے بھی پسند نہ کر۔

۲ ۔آن تَجتَنِبَ سَخَطَهُ وَتَتَّبِعَ مَرضَاتَهُ وَتُطِیعَ اَمرَهُ :۔ اپنے مسلمان بھائی کو ناراض کرنے سے (یا اس کے غصے سے) بچتا رہ جو اس کی مرضی کے مطابق ہو وہ کر اور اس کا حکم مان۔

۳ ۔اَن تُعِینَهُ بِنَفِسکَ وَمَالِکَ وَلِسَانِکَ وَیَدِکَ وَرِجلِکَ :۔ اپنی جان ، مال ، زبان اور ہاتھ پاؤں سے اس کا ساتھ دے۔

۴ ۔آن تَکُونَ عَینَهُ وَدَلِیلَهُ وَمِراٰتَهُ :۔ اس کی آنکھ، رہنما اور آئینہ بن کر رہ۔

۵ ۔اَن لاَّ تَشبَعَ وَیَجُوعَ وَلاَ تَروٰی وَیَظمَاَ وَلاَ تَلبَسَ وَیَعرٰی :۔ تو اس وقت تک پیٹ نہ بھر جب تک وہ بھوکا ہے۔ اس وقت تک سیراب نہ ہو جب تک وہ پیاسا ہے اور اس وقت تک کپڑے نہ پہن جب تک وہ ننگا ہے۔

۶ ۔اَن یَّکُونَ لَکَ خَادِمٌ وَلَیسَ لاَخِتکَ خَادِمٌ فَوَاجِبٌ اَن تَبعَثَ خَادِمَکَ فَیُغَسِّلَ ثِیَابَهُ وَیَصنَعَ طَعَامَهُ وَ یُمَهِّدَ فِرَاشَهُ :۔ اگر تیرے پاس ملازم ہے اور تیرے بھائی کے پاس نہیں ہے تو تجھے لازم ہے کہ اپنا ملازم اس کے پاس بھیج دے تاکہ وہ اس کا لباس دھودے ، کھانے کا انتظام کردے اور بستر لگا دے۔

۷ ۔اَن تُبِرَّ قَسَمهُ وَتُجِیبَ دَعوَتَهُ وَ تَعُودَ مَرِیضَهُ وَتَشهَدَ جَنَازَتَهُ وَاِذَا عَلِمتَ اَنَّ لَهُ حَاجَةً تُبادِرُهُ اِلیٰ قَضَآئِهَا وَلاَ تُلجِئُهُ اِلٰی اَن یَّساَلَکَهَا وَلٰکِن تُبَادِرهُ مُبَادَرَةً :۔ اسے اس کے معاہدوں کی ذمے داری سے آزاد کر، اس کی دعوت قبول کر، اس کی بیماری میں مزاج پرسی کر، اس کے جنازے میں شریک ہو، اگر تو جانتا ہے کہ اسے کوئی ضرورت ہے تو فوراً اس کی ضرورت پوری کر۔ اس کی ضرورت پوری کرنے میں اس انتظار میں دیرنہ کر کہ وہ خود ضرورت ظاہر کرے بلکہ جلد سے جلد اس کی حاجت پوری کرنے میں لگ جا۔

پھر امام صادق ؑ نے اپنی گفتگو ان جملوں پر ختم کی:

فَاِذَا فَعَلتَ ذٰلِکَ وَصَلتَ وِلاَیَتَکَ بِوِلاَیَتِهِ وَ وَلاَیَتَهُ بِوِلاَیَتِکَ :۔ جب تو نے یہ حقوق ادا کر دیے تو اپنی محبت کا رشتہ اس کی محبت سے اور اس کی محبت کا رشتہ اپنی محبت سے جوڑ لیا۔

(نوٹ، وسائل الشعیہ ، کتاب الجج ابواب احکام احکام العشرۃ باب ۱۲۲ حدیث ۷)

اس مضمون کی بہت سی روایتیں ائمہ اطہار ؑ سے منقول ہیں اور ان کا بیشتر حصہ کتاب وسائل الشیعہ کے مختلف ابواب میں درج ہے۔

ایک شک کا ازالہ :۔

بعض اوقات کچھ لوگ یہ شک کرتے ہیں کہ اس برادری سے جس کا ذکر اہل بیت ؑ کی حدیثوں میں آیا ہے مسلمانوں کے تمام فرقوں کی نہیں بلکہ شیعوں کی برادری مراد ہے لیکن ان تمام حدیثوں کو دیکھ کر جن میں یہ موضوع بیان ہوا ہے یہ شک دور ہو جاتا ہے، درآنحالیکہ ائمہ اطہار ؑ دوسری وجوہ سے مخالفین کے طور طریقوں کے خلاف تھے اور ان کےعقیدے کو درست نہیں سمجھتے تھے۔

اس مقام پر یہی کافی ہے کہ ہم پڑھنے والے سامنے ""معاویہ بن وہب"" کی حدیث پیش کریں، وہ کہتے ہیں:

میں نے امام جعفرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے عرض کیا کہ ہم تمام مسلمانوں سے جو ہمارے یہاں آمدورفت رکھتے ہیں لیکن شیعہ نہیں ہیں کس طرح پیش آئیں؟ آپ نے فرمایا:

اپنے اماموں کو دیکھو اور انہیں کی طرح مخالفوں سے پیش آؤ ۔ خدا کی قسم ! تمہارے امام ان کے مریضوں کی عیادت کرتے ہیں ان کے جنازوں میں شریک ہوتے ہیں ، ان کی موافقت یا مخالفت میں قاضی کے سامنے گواہی دیتے ہیں اور ان کی امانتوں میں خیانت نہیں کرتے۔

(نوٹ ، اصول کافی کتاب العشرۃ باب اول)

وہ بھائی چارہ جو ائمہ اطہار ؑ نے اپنے شیعوں سے چاہا ہے وہ اس اسلامی بھائی چارے سے بھی بڑھ کر ہے جس باب میں شیعوں کی تعریف کی گئی ہے اس میں بہت سی حدیثیں اس بات کی گواہ ہیں اس سلسلے میں وہ گفتگو کافی ہے جو امام صادق ؑ اور ان کے ایک صحابی ابان بن تغلب کے درمیان ہوئی ہے ہم اسے یہاں درج کرتے ہیں۔

ابان کہتے ہیں : ہم لوگ امام جعفر صادق ؑ کے ساتھ خانہ کعبہ کے طواف میں مشغول تھے کہ اس بیچ میں ایک شیعہ میرے پاس آیا اور مجھ سے کہنے لگا کہ ایک کام کے لیے میرے ساتھ چلے چلو، اسی وقت امام جعفر صادق ؑ نے ہم دونوں کو دیکھ لیا تو مجھ سے فرمایا :

کیا اس شخص کو تم سے کام ہے؟

آپ نے فرمایا : کیا وہ تمہاری طرح ہی شیعہ ہے ؟

میں نے کہا : جی ہاں

آپ نے فرمایا : طواف چھوڑ دو اور اس کے ساتھ اس کے کام سے چلے جاؤ۔

میں نے کہا : چاہے طواف، طواف واجب ہو اسے چھوڑ دوں ۔

آپ نے فرمایا : ہاں

میں اس کے ساتھ چلاگیا اور اس کا کام کرنے کے بعد امام جعفر صادق ؑ کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے مومن کا حق دریافت کیا ۔ آپ نے فرمایا:

یہ سوال چھوڑ دو اور نہ ہراؤ ۔

لیکن میں نے سوال دہرایا تو آپ نے فرمایا :

اے ابان ! کیا تم اپنی دولت اس مومن کے ساتھ بانٹ لو گے؟

اس کے بعد امام نے میری طرف دیکھا اور جوکچھ امام کی بات سن کر میں نے سمجھا تھا وہ انہوں نے میرے چہرے سے بھی پڑھ لیا تو فرمایا :

اے ابان ! کیا تم جانتے ہو کہ خدا ایثار کرنے والوں کو یاد کرتا ہے

(نوٹ،( وَ یُؤثِرُونَ عَلٰی اَنفُسُهِم وَلَو کَانَ بِهِم خَصَاصَةٌ ، وَمَن یُّوقَ شُحَّ نَفِسِهِ فَاُولٰئِکَ هُمُ المُفلِحُونَ ) (سورہ حشر۔ آیت ۹)

میں نے جواب دیا: جی ہاں میں جانتا ہوں۔

آپ نے فرمایا :

تم اپنا مال اس کو بانٹ دو گے تب بھی ""صاحب ایثار"" نہیں ہوسکو گے البتہ تم اس وقت ایثار کے درجے پر پہنچو گے جب اپنا آدھا مال اس کو دے دو گے اور جو دوسرا آدھا مال تمہارے لیے رہ گیا ہے وہ بھی اس کو دے ڈالو گے۔

(وسائل الشیعہ کتاب العج ابواب العشرہ باب ۱۲۲ حدیث ۱۶)

میں کہتا ہو کہ واقعی ہماری زندگی کی حقیقت کتنی شرم دلانے والی ہے واقعی ہمیں زیب نہیں دیتا کہ اپنے آپ کو مومن کہیں، ہم ایک وادی میں اور ایک طرف ہیں، ہمارے امام دوسری وادی میں اور دوسری طرف ہیں، وہی حالت اور رنگ بدلنے کی کیفیت جو امام کے فرمانے پر (مال بانٹنے کے سلسلے میں) ان کی ہوئی ان لوگوں کی بھی ہوگی جو یہ حدیث پڑھیں گے۔

ہم نے اپنے آپ کو اتنا بھلا دیا ہے اور حدیث سے منہ موڑ بیٹھے ہیں جیسے یہ حدیث ہمارے لیے نہیں ہے اور ہم ایک ذمے دار انسان کی طرح کبھی اپنے نفس کو نہیں جانچتے۔

تیسرا باب

پیغمبر کی پہچان

پیغمبروں کی بھیجنے کے بارے میں :۔

ہمارا عقیدہ ہے کہ نبوت اور پیغمبری ایک خدائی ذمے داری اور الوہی نمائندگی ہے اور خدا یہ منصب اپنے کامل، لائق اور نیک بندوں اور دوستوں میں سے منتخب لوگوں کو عطا فرماتا ہےاور ان کو اس لیے بھیجتا ہے کہ وہ دنیا اور آخرت کی بھلائی اور فائدے کے لیے انسانوں کی رہنمائی کریں۔

خدا اپنے پیغمبروں کو اس لیے بھیجتا ہے کہ وہ انسانوں کو بری عادتوں، خراب خصلتوں اور غلط رسموں سے بچائیں اور انہیں پاک بنائیں، عقل و شعور کی باتیں سکھائیں اور نیکی کی راہیں دکھائیں تاکہ انسان پیغمبروں کی رہنمائی میں انسانیت کے اس کمال تک پہنچ جائیں جو ان کے شایان شان ہے اور دنیا و آخرت کے بلند مقاموں اور درجوں پر فائز ہوں۔

ہمارے عقیدے کے مطابق مہربان خدا قانون ""کطف"" کے باعث (جس کی تشریح آگے کی جائے گی) انسانوں کی رہنمائی اور دنیا کی اصلاح کا فرض منصبی ادا کرنے کے لیے پیغمبر بھیجتا ہے اور وہ پیغمبر خداءی منصب دار اور نمائندے ہوتے ہیں۔

ہمارے عقیدے کے مطابق یہ بھی ہے کہ خدا نے انسانوں کو اپنے لیے خود کوئی پیغمبر مقرر، پسند یا منتخب کرنے کا حق نہیں دیا۔ لوگوں سے اس بارے میں کوئی رائے نہیں لی جاتی بلکہ ان تمام باتوں کا اختیار صرف خدا کو ہے کیونکہ وہ قرآن میں فرماتا ہے :

( اَللهُ اَعلَمُ حَیثُ یَجعَلُ رِسٰلَتَهُ ) :۔ خدا یہ بات سب سے بہتر طور پر جانتا ہے کہ رسالت کس کو عطا کرے۔ (سورہ انعام ۔ آیت ۱۲۵ کا جزو)

اسی طرح انسانوں کو چاہیے کہ وہ پیغمبروں کا حکم مانیں۔ انہیں یہ حق نہیں ہے کہ ان پیغمبروں پر اپنا حکم چلائیں (ان کی بات کے مقابلے میں کوئی دوسری بات کہیں) جن کو خدا نے نیک راہ دکھانے ، خوشخبری سنانے اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے اور وہ اس کے بھی مجاز نہیں ہیں کہ پیغمبروں کے احکام اور قوانین میں کوئی عذر اور تامل کریں۔

پیغمبروں کا بھیجنا لطف خداوندی ہے :۔

انسان عجیب و غریب مخلوق ہے ۔ اس کے حالات بھی حیرت انگیز ہیں اور اس کی پیدائش، اس کے جسم و روح اور سوچ بچار کے لحاظ سے بہت ہی مرموز، پر اسرار اور پیچیدہ ہے بلکہ ہر انسان اپنی صورت اور خصوصیات کے لحاظ سے منفرد پیدا ہوا ہے اور ایسی جبلتیں اور فطری نقاضے رکھتا ہے جو اسے بدی کی طرف لے جاتے ہیں اور ایسے محرکام کا بھی مالک ہے جونیکی کی طرف اس کی رہنمائی کرتے ہیں۔

ایک طرف انسان جبلتوں اور جذبوں مثلاً خود غرضی، لالچ اور غرور کے ساتھ ساتھ نفسانی خواہشوں کا غلام ہے اور جارحیت ، توسیع پسندی دوسرں کو محکوم بنانے اور دنیا کا مال اور شان و شوکت حاصل کرنے کے لیے تلاش اور جدوجہد میں مبتلا ہے ، جیسا کہ خداوند عالم قرآن میں فرماتا ہے :

( اِنَّ الاِنسَانَ لَفِی خُسرٍ ) :۔ انسان گھاٹے میں ہے ۔ (سورہ عصر ۔ آیت ۲)

اور دوسرے مقام پر کہتا ہے کہ

( اِنَّ الاِنسَان لَیَطغٰی ، اَن رَّاٰهُ استَغنٰی ) : جب انسان اپنے آپ کو مستغنی پاتا ہے ، تو بغاوت کر اٹھتا ہے ، (سورہ علق ۔ آیت ۶ ۔ ۷)

یا

( اِنَّ النَّفسَ لَاَمَّارَةٌ بِالسُّوٓءِ ) :۔ انسان کا نفس اسے ہمیشہ بدی کا حکم دیتا ہے (سورہ یوسف ؑ ۔ آیت ۵۳)

اسی طرح دوسری آیتیں بھی بڑی وضاحت سے یہ بات بتاتی ہیں کہ انسان سرکش جذبات اور رجحانات کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے ۔

دوسری طرف خدا نے انسان میں عقل کی طاقت بھی رکھی ہے جو نیکی اور اصلاح کی طرف انسان کی رہنمائی کرتی ہے اور اسے ملامت کرنے والا نفس اور ضمیر بھی دیا ہے جو اسے برائیوں اور ظلموں سے روکتا ہے ، برے اور ناپسندیدہ کاموں کے برے نتیجے سے خبردار اور آگاہ کرتا رہتا ہے۔

انسان کے وجود میں ہمیشہ نفسانی خواہشات اور میلانات کا عقل اور سوچ کی قوت سے جھگڑا رہتا ہے جو شخص اپنی عقل کو جذبات پر غالب رکھتا ہے وہ بلند مقام پر فاءز اور ان لوگوں کی صف میں مشار ہوتا ہے جو شرافت اور اخلاق کی راہ میں قدم رکھتے ہیں اور روحانیت میں درجہ کمال کو پہنچ گئے ہیں اور جو شخص اپنے نفسانی میلانات اور خواہشات کو عقل اور فکر پر مسلط کرلیتا ہے وہ گھٹیا اور انسانیت کی راہ سے بھٹکے ہوئے لوگوں کے زمرے میں آتا ہے اور جانوروں کی صف میں جگہ پاتا ہے۔

ان دو مخالف فریقوں میں سے جو ہمیشہ انسان کے اندر لڑتے رہتے ہیں نفسانی خواہشات اور ان کی فوج کا فریق انسانی طبیعت پر غالب آنے کے لیے زیادہ طاقت ور ہوتا ہے چنانچہ نفسانی خواہشات کی پیروی میں اور دلی جذبات کو تسکین دینے کی وجہ سے زیادہ تر انسان گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں اور ہدایت کے راستے سے دور ہوگئے ہیں جیسا کہ خداوند عالم قرآن مجید میں فرماتا ہے :

( وَمَآ اَکثَرُ النّاسِ وَلَو حَرَصتَ بِمُئومِنِینَ ) :۔ اے پیغمبر ! اگرچہ لوگوں کے ایمان لانے کی آپ کو بہت فکر ہے لیکن ان میں سے بیشتر ایمان نہیں لائیں گے۔ (سورہ یوسف ؑ آیت ۱۰۳)

اس کے علاوہ ان چیزوں کے متعلق جو انسان کو گھیرے ہوئے ہیں یا جنہیں وہ خود بناتا ہے اس کی معلومات کی کمی اور ان کے تمام رازوں اور پوشیدہ حقیقتوں سے اس کی ناواقفیت کی وجہ سے وہ اس قابل نہیں ہے کہ نفع نقصان کے اسباب پہچان سکے اور اپنی خوش بختی اور بدبختی کی وجوہ سمجھ سکے۔ نہ وہ ایسی باتیں اور معاملے سمجھ سکتا ہے جو صرف اس سے مخصوص ہیں، نہ وہ جو تمام انسانوں اور ان کے سماج کے دائرے سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ انسان ہمیشہ اپنے معاملات میں بے خبر رہتا ہے اور قدرتی معاملات اور مادی مظاہر کو پہچاننے کے لیے جتنا آگے بڑھتا ہے اس کی ناواقفیت بھی بڑھتی جاتی ہے اور وہ اپنے علم کی کمی کو زیادہ محسوس کرنے لگتا ہے۔

اس بنا پر انسان نیکی کے بلند درجے حاصل کرنے کے لیے ان لوگوں کا سخت محتاج ہے جو اسے نیکی اور ہدایت کا روسن راستا دکھائیں تاکہ ان کی رہنمائی کے سائے میں وہ اپنی عقل کی قوت کو مستحکم بنا کر نفس جیسے ڈھیٹ دشمن پر اس وقت فتح حاصل کرے جب کہ وہ اپنے آپ کو عقل اور خواہشات کے درمیان سخت مقابلے کی صورت حال پھنسا ہوا پاتا ہے ۔

سب سے زیادہ سخت وقت، جب انسان ان کی رہنمائی کا محتاج ہوتا ہے وہ ہے جب نفسانی خواہشات اور جذبات حقائق کو الٹ کر دکھاتے اور دھوکا دیتےہیں اور چونکہ یہی اتفاق زیادہ پیش آتا ہے کہ ہمارے نفسانی رجحانات برے کاموں اور غلط رویوں کو دلکش اور دلفریب بنا کر دکھاتے ہیں اس لیے انسان ہر برائی کو اچھائی اور ہر اچھائی کو برائی سمجھنے لگتا ہے یہ نفسانی خواہشات خصوصاً ایسے وقت میں جب عقل کی قوت باسعادت اور بے سعادت کاموں کی پہچان کھو بیٹھتی ہے۔ دھوکے بازی اور فریب سے کام لینے لگتی ہیں، ہم میں سے ہر شخص وہ چاہے نہ چاہے ، جذبات اور عقل کی کشمکش کا مارا ہوا ہے لیکن جسے خدا نے معصوم بنایا ہے وہ ہمیشہ اپنے جذبات پر غالب رہتا ہے ۔

تہذیب یافتہ اور دانش ور انسانوں کا تو ذکر ہی کیا، وحشی انسانوں کے لیے بھی یہ حکم ہے کہ وہ اپنے آپ کو انسانوں کی خوشحالی اور بھلائی کی راہ پر ڈالیں اور اپنے اور اپنے سماج کے بھی تمام دینوی اور اخروی فائدے اور نقصانات پہچانیں، ایک دوسرے کے خیالات سے مدد لیں اور کانفرنسیں ، کانگریسیں اور مشاورتی مجلسیں وغیرہ ترتیب دیں۔

اس بنا پر اور مختلف پہلوؤں کے لحاظ سے خدا پر واجب ہے کہ وہ اپنے بندوں پر مہربانی، لطف و رحمت اور شفقت کے طور پر پیغمبر مقرر کرے تاکہ وہ انسانوں کو آیات الہٰی سنائیں، ان کی پلیدی سے پاک کریں، کتاب اور حکمت سکھائیں، تباہی اور بربادی سے ڈرائیں اور انسانی بھلائی کے کاموں اور نیکی کے انعامات کی خوش خبری سنائیں

(( لَقَد مَنَّ عَلَی المُئومِنِینَ اَذ بَعَثَ فِیهِم رَسُولاً مِن اَنفُسِهِم یَتلُوا عَلَیهِم اٰیَاتِهِ وَیُزَکِّهِم وَیُعَلِّمُهُمُ الکِتٰبَ وَالحِکمَةَ ) : (سورہ آل عمران ۔ آیت ۱۶۴)

خدا پر لطف کے واجب ہونے کے معنیٰ یہ ہیں کہ یہ بندوں پر اس کی رحمت اور اس کے مطلق کمال کا تقاضا ہے اور وہ اپنے بندوں پر لطف اور رحمت رکھتے ہوئے سخاوت اور بخشش کرنے والا بھی ہے اس وقت جب کہ خدا کی فیض رسانی اور سخاوت کی شرطیں موجود ہوں تو ہرگز ہرگز وہ مہربانی سے دریغ نہیں کرے گا کیونکہ اس کی رحمت کے میدان میں کنجوسی نہیں ہے اور اس کی بخشش اور سخاوت کے دریا میں کوئی کمی نہیں ہے۔

اس کے ساتھ یہ بھی دھیان رکھیے کہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ خدا پر یہ لازم ہے کہ وہ لطف کرے تو اس کے یہ معنیٰ نہیں ہیں کہ ایسا کرنے کے لیے کسی نے اسے حکم دیا ہےجس کی فرماں برداری اس پر واجب ہو بلکہ اس بارے میں واجب ہونے کے معنیٰ بالکل اسی طرح کے ہیں جیسے ہم خدا کے بارے میں کہیں کہ خدا واجب الوجود یعنی ناممکن ہے کہ خدا سے وجود الگ ہوجائے۔ اسی طرح یہ بھی محال ہے کہ خدا کا لطف و کرم اس سے جدا ہوجائے۔

پیغمبروں کے معجزے :۔

ہمارا عقیدہ ہے کہ خدائے بزرگ جو انسان کو صحیح راہ دکھانے کے لیے پیغمبر اور رہنما بھیجتا ہے اسے چاہیے کہ وہ انہیں ایک مقرر طریقے سے پہچنوائے اور ان کی طرف انسانوں کی صاف صاف رہنمائی کرے۔ ان کو پہچنوانے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ خدا خود ان کی رسالت اور پیغمبری کے لیے دلیل اور ثبوت قائم کرے تاکہ بندوں پر اس کا لطف اور رحمت کامل ہوجائے اور یہ دلیل اس قسم کی ہو کہ اس کا پیش کرنا کسی ایسی ذات کے لیے ممکن نہ ہو جو مظاہر کی خالق اور موجودات کی منتظم نہ ہو۔ زیادہ واضح الفاظ میں یوں سمجھیے کہ وہ ایسی دلیل ہو جو کی منتظم نہ ہو۔ زیادہ واضح الفاظ میں یوں سمجھیے کہ وہ ایسی دلیل ہو جو انسانی طاقت سے باہر ہو۔

خداوند عالم یہ دلیلیں اپنے پیغمبروں کے ذریعے سے پیش کرتا ہے تاکہ یہ دلیلیں ان کی نبوت کی سچائی کی نشان دہی کریں اور ان کی پہچان کرائیں۔ اس دلیل کو معجز یا معجزہ کہتے ہیں اس لیے کہ یہ اس قسم کی دلیل ہوتی ہے جسے پیش کرنے اور لانے سے عام انسان عاجز ہیں۔

جس طرح پیغمبر کے لیے معجزے کا مالک ہونا اور اس کی مدد سے لوگوں پر غالب آنا ضروری ہے اسی طرح یہ بات بھی ظاہر ہونا ضروری ہے کہ عوام کا ذکر ہی کیا تمام عالم، دانا اور ماہر لوگ بھی اسے پیش کرنے سے عاجز ہیں۔ اس کے علاوہ پیغمبروں کے ان معجزوں کو ان کے پیغمبری کے دعوے سے مربوط ہونا چاہیے تاکہ وہ معجزہ ان کے دعوے کی سچائی ثابت کرسکے۔ جب اس فن کے عالم اور ماہر اس جیسا معجزہ پیش کرنے سے عاجز ہوجائیں گے تو معلوم ہوجائے گا کہ معجزہ دکھانا انسانی طاقت سے بالاتر ہے اور اس فطری اور معمولی دنیا کے دائرے سے باہر ہے ۔ اس سے یہ نیتجہ نکالا جاسکتا ہے کہ اس معجزے کا مالک انسانوں سے بالاتر ہے اور مظاہرے کے خالق اور منتظم (خدا) سے خاص معنوی اور روحانی تعلق رکھتا ہے۔

جس وقت کسی شخص سے ایسا معجزہ بالکل اور کامل شکل میں ظاہر ہوا اور اس نے اس معجزے کے تعلق سے پیغمبری اور رسالت کا دعویٰ کیا تو یہی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ لوگ اس کے دعوے کو سچ مانیں، اس کی پیغمبری پر ایمان لے آئیں اور اس کے قول اور حکم کے سامنے احترام سے سرجھکادیں (اس صورت میں خدا کی حجت پوری ہوچکی ہے) اس پر ایمان لے آئے اور جو چاہے اس سے انکار کردے۔

اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ پیغمبر کا معجزہ ہے ان علوم اور فنون سے مناسبت رکھتا ہے جو اس کے زمانے میں رائج ہوتے ہیں۔

حضرت موسیٰ ؑ کا معجزہ ایک عصا تھا جو اپنے زمانے کے جادوگروں کے بنائے ہوئے سانپوں کو نکل گیا اس لیے کہ آپ کے زمانے میں جادوگری کے فن اور علم کا بہت رواج تھا۔ جب حضرت موسیٰ ؑ کا عصا میدان میں آیا تو جادوگروں کے بنائے ہوئے تمام سانپ ناکارہ ہوگئے اور انہوں نے جان لیا کہ عصا کا معجزہ ان کی قوت سے باہر ہے اور ان کے فن سے اونچا ہے۔ انسان اس کی مثال پیش کرنے سے عاجزرہ گئے اور علم و فن نے اس کے سامنے سرجھکا دیا۔

حضرت عیسیٰ ؑ کا معجزہ بھی ایسا تھا جو اندھے کو بینا کوڑھی کو صحت یاب اور مردوں کو زندہ کرنے کا تھا۔ اس لیے یہ معجزے اس زمانے میں ہوئے جب علاج معالجے کا علم سب سے زیادہ رواج یافتہ علم سمجھا جاتا تھا اس زمانے میں عالم ، نامور معالج اور نامی لوگ موجود تھے لیکن وہ سب کے سب حضرت عیسیٰ ؑ کے معجزے کے سامنے ہار مان گئے اور سرجھکا بیٹھے۔

ہمارے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ہمیشہ باقی رہنے والا معجزہ قرآن کریم ہے جس نے اپنی فصاحت اور بلاغت سے جو اس زمانے کا شہرت یافتہ علم تھا، اس زمانے کے تمام فصیحوں اور بلیغوں کو ہرادیا۔ قرآن نازل ہونے کے زمانے میں جن لوگوں کی گفتگو فصاحت اور بلاغت کے لحاظ سے اچھی ہوتی تھی وہ دوسروں پر فضلیت پاتے تھے جب قرآن کی آیتیں نازل ہوئیں (اس طرح جیسے آسمان سے بجلی گرتی ہے) تو انہوں نے اپنے بیان کے زور اور عظمت سے ان سب لوگوں کو پست کیا اور کپکپا دیا اور ان کی جڑیں ہلادیں۔ انہیں سمجھا دیا کہ وہ قرآن کے معجزانہ بیان کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔ آخر جب انہوں نے اپنی کمزوری اور مجبوری دیکھ لی تو قرآن کے سامنے تعظیماً سرجھکا دیا اور اپنے آپ کو اس کے سامنے گونگا محسوس کرنے لگے۔

ان کے عاجزہ رہ جانے کی دلیل یہ ہے کہ جب قرآ ن سب سے پہلے ان کو قرآن سورتوں کے مثل کی دس سورتیں لانے کا الٹی میٹم دیا۔

(( قُل فَاتُوا بِعَشرِ سُوَرٍ مِّثلِهِ مُفتَرَیٰتٍ وَّادعُوا مَنِ استَطَعتُم مِّن دُونِ اللهِ اِن کُنتُم صٰدِقِینَ ) (سورہ ہود۔ آیت ۱۳))

تو وہ پیش نہیں کرسکے۔ پھر قرآن نے اپنی سورتوں جیسی ایک ہی سورت لانے کو کہا تو وہ اس سے بھی عاجز رہ گئے۔

(( قُل فَاتُوا بِسُورَةٍ مِّثلِهِ وَادعُوا مَنِ اسَتطَعتُم مِّن دُونِ اللهِ اِن کُنتُم صٰدِقِینَ ) (سورہ یونس۔ آیت ۳۸)

اور زبان کے بجائے تلوار نکال لائے تو ہم سمجھ گئے کہ قرآن ایک قسم کا معجزہ ہے جسے حضرت محمد بن عبداللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنی پیغمبری کے دعوے کے ساتھ لائے تھے۔

چنانچہ ہم کسی ہچکچاہٹ اور تامّل کے بغیر یقین کرلیتے ہیں کہ وہ خدا کے رسول اور پیغمبر ہیں اور جو کچھ اپنے ساتھ لائے ہیں سچا اور حقیقی ہے ۔

عصمت انبیاء :۔

ہمارا اعتقاد ہے کہ پیغمبر اور انہی کی طرح ائمّہ اطہار ؑ غلطی اور گناہ سے بچے ہوئے ہیں ۔ مسلمانوں کے فرقوں میں سے کچھ لوگ اس عقیدے میں ہمارے مخالف ہیں اور امام تو امام وہ تو پییغمبروں کا معصوم ہونا بھی ضروری نہیں سمجھتے۔

پیغمبروں کی عصمت کا مطلب ہے ""ان کا چھوٹے بڑے گناہوں اور بھول چوک سے بری ہونا"" (حالانکہ ان باتوں کا پیغمبروں سے سرزد ہونا عقل کی رو سے ناممکن نہیں ہے) یہی نہیں بلکہ پیغمبر کا ایسی باتوں سے بھی بری ہونا ضروری ہے جو حسن اخلاق اور وقار کے منافی ہیں، مثلاً لوگوں کے مجمع میں حقیر اور نامناسب کام کرنا، جیسے راستا چلتے کچھ کھان ، اونچی آواز میں ہنسنا اور ہر وہ کام کرنا جسے عام طور پر لوگ ناپسند کرتے ہیں۔

اس بات کی دلیل کہ پیغمبروں کا معصوم ہونا ضروری ہے ، یہ ہے : ""فرض کیجیے کہ پیغمبر گناہ کرتا ہے یا غلطی کرتا ہے یا وہ بھولنے لگتا ہے تو ایسی خطا اور گناہ وغیرہ کے موقع پر بھی اس کی پیروی واجب ہے یا نہیں ؟ اگر پیروی واجب ہے تو پھر ہمارا یہ کہنا بھی لازم ہے کہ خدا نے نہ صرف گناہ کرنے کی اجازت دے دی ہے بلکہ گناہ کرنا واجب بھی کر دیا ہے اور یہ مانی ہوئی بات ہے کہ دین اور عقل کی رو سے خدا کی طرف یہ بات منسوب کرنا بالکل لغو اور غلط ہے اور اگر اس کی پیروی واجب نہیں ہے تو یہ بات بھی مقام پیغمبری کے خلاف ہے کیونکہ پیغمبر کی مکمل اطاعت واجب ہے""

اس کے علاوہ اگر یوں ہو کہ ہم پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہر فعل پر گناہ یا خطا کا شک کریں تو اس حساب سے بھی واجب نہیں ہے کہ ہم پیغمبر کے کسی قول اور فعل میں اس کی پیروی کریں۔

نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ پیغمبروں کے تصور کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے ، اس صورت میں پیغمبر اور دوسرے لوگوں میں کوئی فرق نہیں رہتا اور اس کے قول و فعل کی وہ غیر معمولی قدر و قیمت جس سے اس پر اعتبار کیا جاسکے نہیں ہوسکتی۔ اسی طرح ایسے پیغمبر کے احکام اور قوانین بھی قابل اطاعت نہیں رہتے اور اس کی گفتگو اور کردار پر بھروسا اور یقین کسی قید اور شرط کے بغیر نہیں کیا جاسکتا۔

یہ دلیل جو پیغمبروں کی لازمی عصمت کے لیے دی گئی ہے ، بالکل اسی طرح امام کی عصمت کے بارے میں بھی دلیل بن جائے گی کیونکہ اصل میں امام خدا کی طرف سے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جانشین کی حیثیت سے انسان کی ہدایت کے لیے منتخب ہوئے ہیں جیسا کہ امامت کے باب میں بنایا جائے گا۔

پیغمبروں کی صفات :۔

جس طرح ہمارے عقیدے میں یہ واجب ہے کہ پیغمبر معصوم ہو اسی طرح یہ بھی واجب ہے کہ وہ سب سے کامل عقلی اور عملی صفات : مثلاً بہادری، سیاست ، تدبیر ، ثابت قدمی، ہوش مندی وغیرہ کا اس طرح مالک ہوکہ کوئی اور شخص اس کی صفات اور خصوصیات کے درجے تک نہ پہنچ سکے۔ اس لیے کہ اگر وہ ان صفات کا حامل نہیں ہوگا تو تمام انسانوں کے مقابلے میں دنیا کی سرداری کی قابلیت نہیں رکھ سکے گا اور دنیا والوں کی پیشوائی اور انتظام سے عاجز رہ جائے گا۔

اسی طرح پیغمبر کے لیے لازم ہے کہ وہ پیغمبری کے منصب پر فائز ہونے سے پہلے صحیح النسب ، ایمان دار، سچا اور ہر طرح کی گھٹیا باتوں سے بری ہوتا کہ اس سے دلوں کو سکون اور اطمینان ہو اور روحیں اس کی طرف رغبت کریں۔ ایسا نمایاں اور شاندار سابقہ کردار نبوت کے اعلیٰ منصب کے لیے مناسب اور ضروری ہے۔

انبیاء اور آسمانی کتابیں :۔

جس طرح ہم تمام پیغمبروں کے پاک اور معصوم ہونے کے معتقد ہیں ، اجمالی طور پر یہ بھی مانتے ہیں کہ تمام پیغمبر حق کے راستے پر تھے ہمارا عقیدہ ہے کہ ان کی نبوت کا انکار کرنا یا ان کو برا کہنا اور ان کا مذاق اڑانا کفر اور بے دینی کے برابر ہے کیونکہ ان باتوں سے ہمارے پیغمبر یعنی رسول اسلام حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے انکار لازم آتا ہے جنہوں نے ان کی نبوت اور سچائی کی خبردی ہے ۔ البتہ ان پیغمبروں پر ایمان لانا خاص طور سے واجب ہے جن کے نام اور شریعتیں مشہور ہیں ۔ جیسے حضرت آدم ؑ ، حضرت نوح ؑ ، حضرت ابراہیم ؑ ، حضرت داود ؑ ، حضرت سلیمان ؑ ، حضرت موسیٰ ؑ ، حضرت عیسیٰصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور دوسرے پیغمبر جن کے نام قرآن میں آئے ہیں، اگر کوئی شخص ان میں سے کسی ایک کا بھی انکار کرتا ہے تو اس نے گویا سبھی سے انکار کر دیا ہے اور خصوصیت کے ساتھ ہمارے پیغمبر کی پیغمبری سے منکر ہوگیا ہے۔

اسی طرح ا کی کتابوں پر اور اس پر بھی جو خدا کی طرف سے ان پر نازل ہوا ایمان رکھنا چاہیے۔

لیکن یہ ثابت ہوچکا ہے کہ یہ توریت اور انجیل جو آج لوگوں کے ہاتھوں میں ہیں اصلی توریت اور انجیل نہیں ہیں۔ ان میں تبدیلی ہوچکی ہے اور حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت عیسیٰ ؑ کے بعدیہ ہوس کے غلاموں، توسیع پسندوں اور لالچ کے ماروں کے کھلونے بن چکی ہیں، ان میں بہت سی باتیں بڑھادی گئی ہیں بلکہ آج کل کی توریت اور انجیل کا بیشتر یا سب کا سب مواد حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت عیسیٰ ؑ کے عہد کے بعد ان کے پیروؤں اور اتباع کرنے والوں ہاتھوں بدل چکا ہے اور یہ عمل اب بھی جاری ہے!

اسلام کا قانون :۔

ہمارا اعتقاد ہے کہ خدا کے نزدیک واحد دین ""دین اسلام "" ہے۔

(نوٹ :۔انسان کی فطرت سے ہم آہنگ ، اس کے وجود کے اندازے پر مبنی اور طبیعت انسانی سے صحیح صحیح مطابق رکھنے والادین جو اس کے پروردگار کی جانب سے بھیجا گیا ہے ، اس نے اسلام نام پایا ہے یہ حضرت خاتم الانبیاء کی شریعت اور دین کا خاص نام نہیں ہے بلکہ جو دین تمام انبیاء کرام (مثلاً حضرت نوح ؑ، حضرت ابراہیم ؑ ، حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت عیسیٰ ؑ) لائے اس کا نام بھی اسلام ہی ہے۔ جہاں تک قرآن مجید سے نشاندہی ہوتی ہے ، حضرت نوح ؑ سے پہلے والے دور کے سلسلے میں یہ پتا نہیں چلتا کہ آسمانی دین کا کیا نام تھا لیکن ان کے زمانے سے لے کر بعد کے ادوار میں تمام آسمانی شریعتوں کا نام ""اسلام"" ہی رہا ہے۔پہلے سب لوگ ایک ہی دین رکھتے تھے (پھر وہ آپس میں جھگڑنے لگے) تب خدانے نجات کی خوشخبری دینے والے اور عذاب سے ڈرانے والے پیغمبر بھیجے۔ (سورہ بقرہ ۔ آیت ۲۱۳) لہذا اسلام کی تعریف مختصر الفاظ میں یوں کی جاسکتی ہے : ""یہ ایسے قوانین کا مجموعہ ہے جو انسان کے پروردگار نے اس کی ساخت کی مناسبت سے اور انسانی طبیعت کے مطابق اس کے لیے وضع فرمائے ہیں"" قرآن مجید کی منطق کے مطابق : دین تو خدا کے نزدیک بس اسلام ہی ہے، وہ دین جس کی طرف تمام پیغمبروں نے لوگوں کو دعوت دی وہ خدا کی عبادت اور اس کے احکام ماننے سے عبارت اور اس کے احکام ماننے سے عبارت ہے اور مختلف مذاہب کے علماء اگرچہ حق اور باطل کے فرق کو پہچانتے تھے لیکن تعصب اور دشمنی کی وجہ سے انہوں نے حق کو قبول نہیں کیا اور ہر ایک نے اپنا الگ راستا اختیار کیا جس کے نیتجے میں روئے زمین پر مختلف مذاہب پیدا ہوگئے۔ (سورہ آل عمرن ۔ آیت ۱۹) گزشتہ انبیاء کے بعد ""اسلام"" مکمل طور پر معاشرے سے ناپید ہوگیا ۔ جواسلام حضرت موسیٰ ؑ لائے وہ رفتہ رفتہ معدوم ہوگیا اور جو اسلام حضرت عیسیٰ لائے وہ بھی ان کے بعد نابود ہوگیا حتیٰ کہ اس کے نام کا وجود بھی باقی نہ رہا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ جو دین اللہ کی جانب سے بذریعہ وحی تمام انبیائے کرام پر نازل کیا گیا اس کا نام ""اسلام "" ہے اور جو شریعت حضرت موسیٰ ؑ لائے اس کا نام بھی اسلام ہی تھا لیکن اب وہ یہودیت میں تبدیل ہوگیا ہے اور اسی طرح حضرت عیسیٰ ؑ کی شریعت کو مسیحیت کہا جاتا ہے ۔ یہ نام پروردگار عالم کی جانب سے نہیں بلکہ امتوں کے گھڑے ہوئے ہیں اور تحریف کرنے والوں کے ہاتھوں وجود میں آئے ہیں۔ تفصیلات کے لیے علامہ مرتضی عسکری کی کتاب ""احیائے دین میں ائمّہ اہلبیت ؑ السلام کا کردار "" ملاحظہ فرمائیے (ناشر)

اسلام خدا کا سچا قانون ہے اور انسان کی خوش بختی کے حصول کے لیے سب سے آخر ، سب کامل اور سب سے اچھا اور انسانوں کی دنیا اور آخرت کے فوائد کے حصول کے لیے سب سے جامع دین ہے اور یہ صلاحیت رکھتا ہے کہ جب تک رات دن جاری ہیں نہ اس میں کچھ بڑھے گا نہ اس میں کچھ گھٹے گا اور یہ ہمیشہ باقی رہے گا۔ یہ ایسا دین ہے جو انفرادی ، سماجی اور سیاسی نظام اور معاملات میں انسان کی تمام ضرورتیں پوری کرتا ہے۔

ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ اسلام آخری دین ہے اور اب ہمیں کسی دوسرے دین کا انتظار نہیں ہے جو انسانوں کو ظلم ، خرابی اور بربادی سے بچائے، لامحالہ اس عقیدے کی رو سے ایک دن ایسا آئے گا کہ اسلامی نظام قت پکڑے گا اور پوری دنیا کو اپنے پختہ قوانین اور انصاف کے تحت لے آئے گا۔

اگر اسلام کے قوانین جیسے ہیں ویسے ہی زمین کے تمام مقامات پر اپنی کامل اور صحیح صورت میں نافذ ہوجائیں تو تمام انسانوں کو امن اور سکون مل جائے، تمام انسانوں کو حقیقی خوش حالی نصیب ہوجائے اور وہ بہبود، آرام، عزت ، ناموری ، استغناء اور یک عادات کی آخری حدود تک پہنچ جائیں، دنیا میں ہمیشہ کے لیے ظلم کی جڑکٹ جائے ، تمام انسانوں کے درمیان پیار اور بھائی چارہ قائم ہوجائے اور محتاجی، افلاس اور غریبی روئے زمین سے ختم ہوجائیں۔

یہ جو ہم آج ان لوگوں کے ۔۔۔۔ جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں ۔۔۔۔ افسوسناک اور شرمناک حالات دیکھتے ہیں، درحقیقت اسی پہلی صدی ہجری سے۔۔۔۔ جب کہ اسلام کے حقیقی اصول اور جذبہ مسلمانوں میں عام نہیں ہوا تھا ۔۔۔۔ آج تک جبکہ ہم خود کو مسلما کہتے ہیں ، چلے آرہے ہیں بلکہ لمحہ بہ لمحہ اور دن بہ دن زیادہ افسوسناک اور ملال انگیز ہوتے جارہے ہیں۔

دوسری قوموں سے مسلمانوں کے پیچھے رہ جانے کا شرمناک عیب اسلام سے وابستگی اور اس کی یپروی سے یپدا نہیں ہوا ہے بلکہ اس کے برعکس بانی اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تعلیمات سے دوری، اسلام کے قوانین کی بے حرمتی ، حکمرانوں اور رعایا نیز عام اور خاص مسلمانوں کے درمیان ظلم اور زیادتی کا وجود میں آنا اور بچھڑ جانے ، اندرونی کمزوری، زوال، مجبوری اور ادبار کا باعث ہوا ہے ، خدا نے مسلمانوں کو ان گناہوں اور لیت ولعل کے باعث ان کی واجبی سزا تک پہنچا دیا ہے۔ جیسا کہ قرآن فرماتا ہے :

( ذٰلِکَ بِاَنَّ اللهَ لَم یَکُ مُغَیِّرًا نِّعمَةً اَنعَمَهَاعَلٰی قَومٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوا مَابِاَنفُسِهِم ) :۔ یہ اس لیے ہے کہ خدا جو نعمت کسی قوم کو دیتا ہے وہ اس سے وقت تک واپس نہیں لیتا جب تک اس کے افراد اپنی نیک انسانی عادتیں بدل نہیں ڈالتے (سورہ انفال ۔ آیت ۵۳)

خدا کے تمام مظاہر میں یہ قانون اٹل ہے ۔ وہ دوسری آیتوں میں فرماتا ہے :

( اِنَّهُ لاَ یُفلِحُ المُجرِمُونَ ) :۔ یقیناً مجرم کامیاب نہیں ہوں گے۔ (سورہ یونس ۔ آیت ۱۷)

( وَمَا کَانَ رَبُّکَ لِیُهلِکَ القُرٰی بِظُلمٍ وَّاَهلُهَا مُصلِحُونَ ) :۔ تیرا پروردگار کبھی ظلم سے کسی بستی کو نہیں اجاڑتا جب کہ اس میں مصلح (اپنی قوم کے امور کے اصلاح کرنے والے، ان کو آفات سے بچانے والے، ظالموں اور جابروں کا مقابلہ کرنے والے اور عدل و انصاف کو رواج دینے والے) بندے موجود ہوں (سورہ ہودؑ آیت ۱۱۷)

( وَکَذٰلِکَ اَخذُ رَبِّکَ اِذَا اَخَذَ القُرٰی وَهِیَ ظَالِمَةٌ اِنَّ اَخذَهُ اَلِیمٌ شَدِیدٌ ) :۔ ایسی ہی ہے تیرے پروردگار کی پکڑ جب کہ اس نے بستی والوں کو ان کے ظلم کے سبب سے سزا دی اس کی سزا بہت تکلیف دہ اور شدید ہوتی ہے۔ (سورہ ہود۔ آیت ۱۰۲)

اسلام سے کسی طرح یہ امید کی جاسکتی ہے کہ وہ مسلمانوں کو بدبختی سے چھٹکارا دلائے جب کہ خود اسلام ایسا رہ گیا ہے جیسے کاغذ پر روشنائی اور اس کے احکام جاری ہونے کا کوئی پتا نہیں ہے ۔ ایمان، ایمانداری، دوستی، محبت، نیک عمل ، چشم پوشی اور درگزر اور مسلمان بھائی کے لیےوہی پسند کرنا جو اپنے لیے پسند ہو وغیرہ ، یہ اسلام کے مانے ہوئے اصول ہیں لیکن اگلے پچھلے اکثر مسلمان یہ خوبیاں چھو بیٹھے ہیں اور جوں جوں وقت گزرتا جارہا ہے ہم مسلمانوں کو اور زیادہ ابتر دیکھ رہے ہیں جو دنیاوی منفعت کے لالچ میں آکر مختلف گروہوں میں بٹ گئے ہیں، تو ہم پرستی کا شکار ہوگئے ہیں، اسلام کی حقیقی زندگی کو نہ سمجھ پانے کے باعث فضول اور غیر واضح عقیدوں اور خیالوں کے باعث ایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگا رہے ہیں، دین کی حقیقت تک نہیں پہنچ پائے ہیں، انفرادی اور قومی بہبود بھلا بیٹھے ہیں اور ایسی بحثوں میں الجھ کر رہ گئے ہیں کہ :

قرآن مخلوق ہے یا نہیں ؟

عذاب و رجعت کیونکر ہوگی ؟

بہشت اور دوزخ پیدا ہوچکے ہیں یا بعد میں پیدا ہوں گے؟ اس قسم کی بحثیں اور جھگڑے ہیں جنہوں نے ان کو غافل بنا دیا ہے اور گھٹن میں مبتلا کر دیا ہے اور ایک گروہ دوسرے گروہ کو کافر بنا رہا ہے ، یہ ناخوشگوار جھگڑے اور بحثیں بتاتی ہیں کہ مسلمان دینداری اور خدا کی سچی عبادت کے سیدھے راستے سے بھٹک گئے ہیں یہاں تک کہ تباہی اور زوال کے راستے پر جاپڑے ہیں اورجیسے جیسے وقت گزرتا جارہا ہے ان افسوسناک پروگراموں کے جاری رہنے کے ساتھ ساتھ ان کی کجی اس طرح بڑھتی جارہی ہے کہ جہالت اور گمراہی ان پر اپنا منحوس سایہ ڈالے ہوئے ہیں اور وہ سطحی اور بے بنیاد مسئلوں میں پڑ گئے ہیں اور فضولیات اور فرضیات میں پھنس گئے ہیں لڑائیوں ، جھگڑوں اور شیخیوں نے انہیں اندھے کنویں میں گرادیا ہے۔

جس دن سے اسلام کے کے جانی دشمن چوکنے مغرب نے اسلامی ملکوں کو اپنی توسیع پسندی کا محور بنالیا ہے ، اس دن سے مسلمان غفلت اور بے خبری کے عالم میں اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔

بے شک مغرب کی توسیع پسندی نے مسلمانوں کو ایک خطرناک گھاٹی میں گرادیا ہے جو ان کے اندرونی جھگڑو ں اور باہمی مخالفتوں کا نتیجہ ہے۔ یہ ایک ایسی گھاٹی ہے جس سے نکلنے کا راستا سوائے خدا کے اور کوئی نہیں جانتا جیسا کہ زندگی بخشنے اور آزادیوں کی خوش خبری دینے والا قرآن کہتا ہے :۔

( وَمَا کَانَ رَبُّک َلِیُهلِکَ القُریٰ بِظُلمٍ وَّاَهلُهَا مُصلِحُونَ ) :۔ تیرا رب کسی بستی کو ظلم سے ہلاک نہیں کرتا جب تک اس میں مصلح بندے موجود ہیں۔ (یعنی یہ لوگ خود ہی ایسے ہیں جو اپنے جرم اور غفلت کے پیروں سے چل کر گہرے گڑھوں کی طرف جارہے ہیں) (سورہ ہود۔ آیت ۱۱۷)

آج بھی اور آئندہ بھی مسلمانوں کے لیے نجات اور خوش بختی کا راستا سوائے اس کے دوسرا نہی ہے کہ نہایت غور و توجہ سے اپنا محاسبہ کریں۔ اپنی فضول خرچی اور بے فائدہ کاموں کا شمار کریں اور اپنی آنے والی نسل کو سدھارنے کے لیے اپنے محکم دین کے سائے میں ایک تحریک شروع کریں اور اس تحریک کے زیر اثر ظلم اور زیادتی کو اپنے اندر سے اکھاڑ پھینکیں ۔ یہی وقت ہے کہ وہ ان افسوسناک اور لرزا دینے والی ڈھلانوں سے اپنے آپ کو بچا سکتے ہیں دنیا کے ظلم اور ستم سے بھر جانے کے بعد اسی تحریک سے اس میں عدل اور انصاف کا راج ہوجائے گا۔ جیسا کہ خدا اور اس کے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس بات کا وعدہ کیا ہے اور دی اسلام کو بھی جو آخری دین ہے اور جس کے بغیر دنیا کی درستی نہیں ہوسکتی ، سوائے اس کے اور کوئی انتظار نہیں ہے۔ یہ انقلاب برپا کرنے کے لیے ایک پیشوا کی اشد ضرورت ہے جو آئے گا اور اسلام کے روشن چہرے سے توہم پرستی، بدعتوں اور گمراہیوں کی کثافتیں دھوڈالے گا اور انسان کو ہر جہتی بربادیوں ، ظلموں مسلسل دشمنیوں اور ان بے پروائیوں سے بچائے گا اور جو اچھے اخلاق اور انسانی روح کی بلندی سے برتی جارہی ہے خداوند عالم اس عظیم رہنما کو جلد ظاہر کرے اور اس کے ظہور اور انقلاب برپا کرنے سے پہلے کے معاملات کی راہ آسان بنائے۔ آمین۔

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

ہمارے عقیدے کے مطابق مذہب اسلام کے قائد اور رہبر حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں، وہ آخری پیغمبر اور تمام رسولوں کے پیشوا ہیں اور ان سب سے اعلیٰ وبالا ہیں ، اس طرح آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تمام انسانوں کے سردار ہیں اور کمال و عظمت اور فضل و شرافت میں اپنا ثانی نہیں رکھتے کسی شخص کی عقل اور عادات ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی عقل اور عادات کو نہیں پہنچتیں جیسا کہ خداوند عالم قرآن مجید میں فرماتا ہے :

( وَاِنَّکَ لَعَلیٰ خُلُقٍ عَظِیمٍ ) :۔ یقیناً آپ بہت بلند اخلاق کے مالک ہیں۔ (سورہ قلم ۔ آیت ۴ )

تمام انسانوں کے مقابلے میں ان کے درجے کی یہ بلندی اور یہ شان انسان کی پیدائش سے لے کر قیامت کے دن تک لیے ہے ۔

قرآن مجید

ہمارا عقیدہ ہے کہ قرآ ن وحی الہٰی ہے جو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زبان مبارک پر جاری ہوئی اور اس میں ہر اس چیز کا بیان موجود ہے جو انسان کی ہدایت کے لیے ضروری ہے یہ پیغام پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا جادوانی معجزہ ہے جس کی فصاحت و بلاغت اور بیش قیمت معلومات کے باعث انسان اس کا جوب یپش کرنے سے عاجز رہ گئے۔ اس آسمانی کتاب میں کسی قسم کی کوئی، تحریف نہیں ہوئی ہے ۔ یہ قرآن جو ہمارے ہاتھوں میں ہے اور جس کی آیات ہم پڑھتے ہیں وہی قرآن ہے جو آنحضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نازل ہوا تھا ، جو کوئی اس کے علاوہ کوئی اور بات کہتا ہے وہ جھوٹ بولتا ہے ، غلط سوچتا ہے یا دھوکا کھا گیا ہے وہ سب کے سب لوگ جو کسی طریقے سے ایسا سوچتے ہیں صحیح راستے سے بھٹک گئے ہیں کیونکہ قرآن مجید خدا کا کلام ہے اور خدا اس کے بارے میں فرماتا ہے ۔

( لاَ یَاتِیهِ البَاطِلُ مِن بَینِ یَدَیهِ وَلاَ مِن خَلفِهِ ) :۔ قرآن میں آگے پیچھے (کسی طرف) سے باطل (جھوٹ) داخل نہیں ہوسکتا ۔ (سورہ حٰمٓ سجدہ ۔ آیت ۴۲)

قرآن کو معجزہ ثابت کرنے والی دلیلوں میں سے ایک یہ ہے کہ جیسے جیسے زمانہ آگے بڑھتا جاتا ہے اس کے ساتھ ساتھ مختلف علوم و فنون اور معلومات میں ترقی ہوتی جاتی ہے۔ لیکن قرآن کی شیرینی اور تازگی اپنی جگہ قائم ہے ۔ اسی طرح اس کے خیالات اور مقاصد عظمت کی چوٹی پر موجود ہیں ، کسی ثابت شدہ اور مانے ہوئے علمی نظریے کی رو سے قرآن میں کوئی غلطی یا خامی ظاہر نہیں ہوپاتی ہے اور اس کے بلند مرتبہ مطالب اور حقائق میں کسی قسم کی تضاد بیانی نہیں آئی ہے۔

اس کے برعکس علم اور فلسفے کے ماہرین کی کتنی ہی کتابیں وہ علمی لحاظ سے کتنی ہی بلند کیوں نہ ہوں اور علم کی بلند ترین چوٹی پر ہی کیوں نہ ہوں ، آخر کار شبہات کا شکار ہوجاتی ہیں اور رفتہ رفتہ معلوم ہوتا ہے کہ ان میں غلطیاں درآئی ہیں، چنانچہ یہ بات یونانی فلسفے کے بزرگوں سقراط، افلاطون اور ارسطو کی کتابوں تک میں پائی جاتی ہیں، جنہیں ان کے بعد کے تمام دانشمند ""علم کا باپ "" کہتے ہیں اور جن کے خیالات کی عظمت کی تصدیق کرتے ہیں۔

ہمارا یہ بھی عقیدہ ہے کہ قرآن مجید کی عزت اور اس کی توقیر گفتگو اور کردار دونں کے ذریعے سے کرنا واجب ہے۔ قرآن کے کسی ایک لفظ کو بھی اس خیال سے کہ وہ قرآن کا ایک حصہ ہے ناپاک نہیں کرنا چاہیے اور جس نے اپنے آپ کو (وضو وغیرہ کرکے) پا ک نہیں کیا ہے اسے اپنے جسم کا کوئی حصہ قرآن کے الفاظ یا حروف سے نہیں چھونا چاہیے ۔ جیسا کہ خدا فرماتا ہے :

لاَ یَمَسُّهُٓ اِلاَّ المُطَهَّرُونَ :۔ صرف پاک لوگوں کو قرآن چھونا جائز ہے۔ (سورہ واقعہ ۔ آیت ۷۹)

قرآن اس ضمن میں نجاست میں کوئی تفریق نہیں کرتا، چاہے جناب سے ہو، حیض سے ہو، نفاس سے ہو یا ایسی باتوں کے پیش آنے سے ہو جو وضو کو باطل کردیتی ہیں، جن میں نیند جیسی چیز بھی ہوسکتی ہے اور طہارت صرف اس صورت میں مانتا ہے جب آدمی اسلامی فقہ کی کتابوں میں کی ہوئی تشریح کے مطابق غسل یا وضو کرلے۔

اسی طرح قرآن کو جلانا اور قرآن کی ایسی بے عزتی کرنا جسے لوگ توہیں سمجھتے ہیں جیسے اسے پھینک دینا، اس میں نجاست لگانا، اسے ٹھوکر مارنا، اسے نیچی اور نامناسب جگہ پر کھ رینا جائز نہیں ہے اگر کوئی جان بوجھ کر ان کاموں میں سے کسی کام سے یا ان جیسے اور کسی عمل سے قرآن کی بے عزتی کرتا ہے تو وہ اسلام کے منکروں اور ایسے لوگوں میں شمار ہوجاتا ہے جو قرآن کی پاکیزگی اور اس کے کلام الہٰی ہونے کے قائل نہیں ہیں اور اس کا سزاوار ہوجاتا ہے کہ خداوند اسے دین اسلام سے خارج کردے۔

اسلام اور دوسرے مذہبوں کی سچائی ثابت کرنے کا طریقہ

جب کوئی شخص دین اسلام کے صحیح اور درست ہونے کے متعلق ہم سے بحث کرے تو ہم اس سے اسلام کے لافانی معجزے یعی قرآن مجید کے متعلق بحث کرسکتے ہیں اس طریقے سے اسے اسلام کی سچائی کا قائل کرسکتے ہیں اور اس سے پہلے بھی ہم بیان کرچکے ہیں کہ قرآن ایک معجزہ ہے۔

اسی طرح ہم اپنی عقل اور سوچ کی قوت کے وسیلے پر قناعت کرکے اسلام کی درستی اور سچائی کو پالیں گے کیونکہ ہر اس انسان کے ذہن میں جو آزادی سے سوچتا ہے کسی مذہبی عقیدے کو اپناتے وقت لازمی طور سے کچھ شکوک اور سوالات ابھرتے ہیں لیکن یہودیت اور عیسائیت جیسے پچھلے مذہبوں کی (ان کے زمانے میں) سچائی کا سراغ لگانے کو ہمارے لیے قرآن کی گواہی سے پہلے (یا اگر ہم اپنے ذہنوں کو اسلام کے عقیدے سے خالی کرلیں تو) کوئی بھروسے کی دلیل یا راہ نہیں ہے اور ہم کسی پوچھنے والے کو مطمئن نہیں کرسکتے کیونکہ یہودیوں اور عیسائیوں کے مذہب کے لیے قرآن مجید کی طرح کا کوئی جاودانی معجزہ نہیں ہے اور وہ تھوڑے سے معجزے اور غیر معمولی کام جو ان مذہبوں کے ماننے والے اپنے اپنے پیغمبروں سے منسوب کرتے ہیں بھروسے کے لائق نہیں ہیں، کیونکہ وہ لوگ انہیں مذہبوں کے ماننے والے ہیں اس لیے ان کا دعویٰ انہیں کے مذہب کے متعلق درست نہیں مانا جاسکتا اور قدیم پیغمبروں کی یہ موجودہ کتابیں جیسے توریت اور انجیل جو ہمارے ہاتھوں میں ہیں لافانی معجزہ کہلانے کے لائق نہیں ہیں کہ بجائے خود قطعی دلیل بن سکیں اور انہیں اسلام کی طرف سے کسی تصدیق کی ضرورت نہ پڑے۔

ہم مسلمانوں کے لیے پچھلے نبیوں کی گواہی دینا اور جس امر کا اعتراف کرنا صحیح ہے وہ یہ ہے کہ جو کچھ اسلام لایا ہے ہم اس پر اعتقاد رکھیں اور اسے قبول کریں۔ اسی میں پچھلے نبیوں کی نبوت بھی ہے جس پر ہم پہلے بحث کرچکے ہیں۔

اس بنا پر جو شخص دین اسلام کا ماننے والا ہے وہ عیسائیت اور دوسرے قدیم ادیان کے (ا ن کے زمانے میں) درست ہونے کے بارے میں تحقیق و تدقیق اور بحث مباحثے کی ضرورت نہیں رکھتا کیونکہ اسلام کا مان لینا ان کے مان لینے کے برابر ہے اور اسلام پر ایمان لانا پچھلے نبیوں پر ایمان لانے سے وابستہ ہے چنانچہ کسی مسلمان کے لیے پچھلے مذہبوں اور ان کے معجزوں کے بارے میں تحقیق اور چھان بین کرنا ضروری نہیں ہے کیونکہ یہ مان لیا گیا ہے کہ وہ مسلمان ہے اور دل میں اسلام پر ایمان رکھنے کے ساتھ ساتھ پچھلی شریعتوں پر بھی ایمان رکھتا ہے، واقفیت اور تصدیق کے لیے بس اتنا ہی کاری ہے۔

ہاں جب کوئی شخص مذہب اسلام کی سچائی کی چھان بی کرتا ہے اور اس کی تحقیق کسی نتیجے تک نہیں پہنچتی تو عقل کی رو سے (سچے مذہب کی پہچان کے لیے غور و فکر کے واجب ہونے کے لحاظ سے) اس کو لازم ہے کہ وہ عیسائیت کی تحقیق کرے (تاکہ اگر وہ سچا مذہب ہے تو اسی کی پیروی کرے) اس لیے کہ عیسائیت اسلام سے پہلے آخری مذہب ہے اگر اس مذہب کی تحقیق کے بعد اس کی درستی کے بارے میں اطمینان نہیں ہوا تو پھر یہودیت کی تحقیق کرے اور پھر اسی طرح دوسرے قدیم مذہبوں کی تحقیق کرتا چلا جائے جب تک کہ وہ ان مذہبوں میں سے کسی ایک مذہب کی سچائی کا قائل نہ ہوجائے اور اگر اپنی تحقیقات میں وہ کسی نتیجے پر نہ پہنچے تو پھر تمام مذاہب کو چھوڑ بیٹھے۔

البتہ جو شخص یہودیت یا مسیحیت میں پلا بڑھا ہے اس کا کام اس کے بالکل خلاف ہے کیونکہ یہودی اپنے ہی دین کے معتقد ہونے کے باعث مسیحیت اور اسلام کی صحت کے متعلق تحقیق نہیں کرتا۔ اسی طرح عیسائی اسلام کی درستی کے بارے میں چھان بین نہیں کرتا لیکن عقل کی رو سے یہودیوں اور ان کی طرح عیسائیوں پر بھی واجب ہے کہ دین اسلام کی درستی کی تحقیق کریں اور صرف اپنے ہی دین پر قناعت نہ کر بیٹھیں کیونکہ یہودی اور مسیحی اپنے اپنے دین کی خاتمیت کا دعویٰ نہیں کرتے اور ہ کسی ایسے دین کے آنے سے انکاری ہیں جو ان کے دین کو منسوخ کرنے والا ہو۔

حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت عسیٰ ؑ نے بھی یہ نہیں کہا ہے کہ ہمارے بعد کوئی پیغمبر نہیں آئیگا (بلکہ یہ بزرگوار تو اپنے بعد میں آنے والے پیغمبر کے متعلق پیشین گوئیاں کر گئے ہیں)۔

ایسی صورت میں یہ کب جائز ہے کہ یہودی اور عیسائی اپنے ہی عقیدے پر مطمئن ہوکر بیٹھ رہیں اور اپنے بعد کے دین کے متعلق (جیسے یہودیت ، مسیحیت کے متعلق اور مسیحیت اور یہودیت اسلام کے متعلق) تحقیق کرنے سے پہلے اپنے ہی مذہب سے دل کو وابستہ کرکے بیٹھ رہیں۔ فطرت اور صحت مند عقل کے مطابق انہیں لازم ہے کہ بعد کے مذاہب کے بارے میں بھی کچھ کھوج لگائیں اور سوچ بچار کریں۔ اگر ان کی درستی ان پر ثابت ہوجائے تو ان کی طرف چلے جائیں ورنہ اپنے ہی دین کی صحت کے متعلق اطمینان حاصل کرلیں اور اسی عقیدے پر قائم رہیں۔

جیسا کہ ہم پہلے کہہ چکے ہیں اسلام پر ایمان لانے کے بعد مسلمان کے لیے مختلف مذاہب کے بارے میں (خواہ پچھلے مذاہب ہوں خواہ آنے والے) تحقیق اور غور و فکر ضروری نہیں ہے۔ چونکہ اسلام پچھلے مذہبوں کی بھی تصدیق کرتا ہے اس لیے کوئی مسلمان ان مذہبوں کی صحت کی دلیلیں کیوں تلاش کرے؟

ہر مسلمان مذہب اسلام کے متعلق یہ اعتقاد رکھتا ہے کہ پچھلے مذہب (اپنے زمانے میں سچے تھے لیکن آج کل) منسوخ ہوچکے ہیں اور اب ان کتابوں کے احکام اور ضابطوں پر عمل کرنا واجب نہیں رہا۔ اب رہا آنے والے مذہب کے بارے میں تو چونکہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرما دیا ہے کہ

لاَ نَبِیَّ بَعدِی :۔ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔

اورآپ ہمارے عقیدے کے مطابق صادق اور امین ہیں اور بفجوائے قرآن :۔

( وَمَا یَنطِقُ عَنِ الهَوٰی اِن هُوَ اِلاَّ وَحیٌ یُّوحیٰ ) :۔ پیغمبر اپنی ہوائے نفس سے کوئی بات نہیں کہتے بلکہ جو کچھ کہتے ہیں وحی ہے جو خدا کی طرف سے ان پر نازل ہوتی ہے۔ (سورہ نجم ۔ آیت ۳ ۔ ۴)

اس لیے کوئی مسلمان پیغمبر کی سچی اور درست گفتار کے بعد ان بناوٹی مذاہب کے بارے میں جن کا بعد میں دعویٰ کیا گیا کس لیے تحقیق اور غور و فکر کرے؟

ان تمام اختلافات کی موجودگی میں مسلمان کا کام کیا ہے ؟

یہ بات نظر سے اوجھل نہیں رہنی چاہیے کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور مسلمانوں (اور پھر مسلمانوں میں بھی طرح طرح کی رائے اور مکاتب فکر پیدا ہونے) کے درمیا برسوں کی دوری اور فاصلے کے باوجود مسلمانوں کو اس راہ پر چلنا چاہیے جو اسلام کے حقیقی احکام اور پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ہدایات تک پہنچنے کے لیے زیادہ اطمینان بخش ہے کیونکہ ہر مسلمان کا فرض ہے کہ اسلام کے احکام پر اسی طح عمل کرے جس طرح وہ نازل ہوئے ہیں لیکن وہ کس طریقے سے (طرح طرح کی رایوں اور خیالوں کے درمیان) اسلام کے اصلی احکام معلوم کر سکتا ہے اور آجکل کے حالات میں جب کہ اختلافات نے تمام احکام کی وسعت کو گھیر لیا ہے یہاں تک کہ نماز اور دوسری عبادات اور معاملات وغیرہ کے متعلق بھی ایک نظریہ نہیں رہا، اسے کیا کرنا چاہیے ؟ کس طرح نماز پڑھے اور عبادتوں، سماجی معاملوں، نکاح، طلاق ، وراثت اور خرید و فروخت وغیرہ میں حدود و دیات کے جاری کرنے میں کس رائے اور فتوے پر عمل کرے؟

اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے بزرگوں کو تقلید کرے اور جس طریقے پر اس کے دوست اور رشتہ دار چل رہے ہیں اسی پر اطمینان ک بیٹھے۔ اسے چاہیے کہ ایسی راہ پر چلے جس سے وہ اپنے اور اپنے خدا کے درمیان حقیقی فرض کے ادا ہونے کا یقین کرسکے کیونکہ یہ جگہ نا تجربہ کاری، پاس و لحاظ ، دھوکے بازی اور جانبداری کی نہیں ہے۔

اسے چاہیے کہ بہت سے راستوں میں سے ایک ایسا راستا چن لے جو اس کے عقیدے کے مطابق فرض کی انجام دہی اور اپنے اور اپنے خدا کے درمیانی معاملے سے عہدہ برآہونے کا بہترین راستا ہو ایسا راستا جس پر چلنے سے خدائے بزرگ اس پر عذاب نازل نہیں کرے گا نہ اس کا جواب طلب کرے گا۔ ایسی صورت میں ایسا شخص کسی آدمی کے اعتراض اور ملامت سے نہیں ڈرتا۔

جیسا کہ خدا فرماتا ہے :

( اَیَحسَبُ الاِنسَانُ اَن یُّترَکَ سَدًی ) :۔ کیا انسان سوچتا ہے کہ وہ حساب دیے بغیر چھوٹ جائے گا۔ (سورۃ قیامت ۔ آیت ۳۶)

( بَلِ الاِنسَان عَلٰی نَفسِهِ بَصِیرَةٌ ) :۔ بلکہ انسان اپنے آپ کو خوب جانتا ہے (سورہ قیامت آیت ۱۴)

( اِنَّ هٰذِهِ تَذکِرَةٌ فَمَن شَآءَ اتَّخَذَ اِلیٰ رَبِّهِ سَبِیلاً ) :۔ یہ قرآن یاد دلاتا ہے کہ جو چاہے خدا کی طرف جانے والا راستا خود چن لے، (سورہ دھر ۔ آیت ۲۹) ( سورہ مزمل ۔ آیت ۱۹)

اس جگہ پہلا سوال جو انسان اپنے ضمیر سے کرتا ہے وہ یہ ہے کہ معصوم اور پاک اہلبیت ؑ کا راستا اختیار کروں۔۔۔ یا دوسروں کا؟ اگر اہلبیت ؑ کا راستا اختیار کیا تو صحیح اثنا عشری شیعہ کا ہے یا دوسرے شیعوں کا ؟ اور اگر اہل تسنن کا راستا لیا تو ان کے چار مذہبوں (فقہوں) میں سے کس مذہب کی تقلید کی جائے؟ یا پھر ان کے علاوہ دوسرے کسی متروک مذہب کی پیروی کی جائے؟

یہ سوالات ہر اس شخص کے سامنے آتے ہیں جو ارادہ اور اختیار رکھتا ہے اور جسے سوچنے کی آزادی ہے تاکہ مضبوط اور اطمینا بخش بنیاد ہاتھ آسکے۔

اس بحث کے بعد ہمیں چاہیے کہ اسی طرز پر امامت کے بارے میں تحقیق کریں اور ان مسائل کا تجزیہ اور تشریح کریں جو اثنا عشری شیعوں کے عقیدے کے فروعات میں شامل ہیں۔


4

5

6

7

8

9