• ابتداء
  • پچھلا
  • 42 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 16063 / ڈاؤنلوڈ: 2204
سائز سائز سائز
رسول اللہ کے اخلاق حسنہ

رسول اللہ کے اخلاق حسنہ

مؤلف:
اردو

رسول اللہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ایک سو بیس صفات

(۱)آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب چلتے تھے تو تکبرانہ انداز میں نہ چلتے بلکہ آہستہ آہستہ اور با وقار انداز میں چلتے۔

(۲)جب کسی کو مخاطب کرتے تو اپنا پورا بدن اس شخص کی جانب پھیر لیتے۔

(۳)آپ کی نگاہیں ہمیشہ نیچی ہوتی تھیں۔

(۴)آپ ہمیشہ غور و فکر و تدبر میں رہتے۔

(۵)آپ غم و اندوہ میں غرق رہتے۔

(۶)ضرورت کے علاوہ بات نہ کرتے تھے۔

(۷)آپ کے کلام میں فصاحت و بلاغت تھی کہ الفاظ کم اور معنی زیادہ ہوتے تھے۔

(۸)آپ کے عادات و اطوار میں سخیم اور پست کلامی کا وجود نہ تھا۔

(۹) آپ کسی کو حقیر نہ سمجھتے تھے۔

(۱۰)حق کو اجاگر کرنے والے تھے۔

(۱۱)آپ خوش اخلاقی اور نرمی سے پیش آتے تھے۔

(۱۲)آپ تھوڑی سی نعمت کو عظیم نعمت سمجھتے تھے۔

(۱۳)آپ نے کسی نعمت کی مذمت نہیں فرمائی۔

(۱۴)کھانے پینے کی اشیاء میں جو اچھی لگتی کھا لیتے اور جو پسند نہ کرتے بغیر اس کی مذمت کئے اس کو چھوڑ دیتے۔

(۱۵)دنیوی امور میں گھاٹے پر افسوس نہ کرتے اور نہ غمگین ہوتے۔

(۱۶)خدا کے لئے اس طرح غضبناک ہوتے کہ کوئی آپ کو پہچان نہ سکتا تھا۔

(۱۷)اگر اشارہ کرنا ہوتا تو اپنی انگلی سے کرتے نہ کہ آنکھ یا ابروسے۔

۲۱

(۱۸)جب خوش ہوتے تو بہت زیادہ اظہار مسرت نہ کرتے۔

(۱۹)آپ ہنستے وقت تبسم فرماتے اور شاذونادر ہنستے وقت آپ کی آوازسنائی دیتی۔

(۲۰)آپ بار بار فرماتے کہ جو حاضر ہے وہ میرا کلام غائب کو پہنچائے۔

(۲۱)آپ فرمایا کرتے تھے کہ ان لوگوں کی حاجات مجھے بتاؤ جو اپنی حاجات مجھ تک نہیں پہنچاسکتے۔

(۲۲)کسی کا اس کی لغزش اور خطا پر مواخذہ نہ فرماتے۔

۲۳۔ اصحاب اور طالب علموں میں سے جو بھی آپ کی محفل میں داخل ہوتا علم و حکمت سے دامن بھر کرواپس آتا۔

۲۴۔آپ لوگوں کے شرسے واقف تھے پھر بھی ان سے کنارہ کشی نہ کرتے تھے۔

۲۵۔آپ لوگوں سے خوش روئی اور خندہ پیشانی سے پیش آتے تھے۔

۲۶۔آپ ہمیشہ اصحاب سے رابطے میں رہتے۔

۲۷۔آپ لوگوں کے حالات سے واقف رہنے کی ہمیشہ کوشش کرتے۔

۲۸۔اچھی عادات کے مالک افراد کو اپنے ساتھ جگہ دیتے اور آپ کے نزدیک اچھی عادات کا حامل وہ شخص ہے جو مسلمانوں کا خیرخواہ ہو۔

۲۹۔ آپ کے نزدیک عظیم لوگ وہ تھے جو لوگوں کے ساتھ احسان مدد اور نصرت سے پیش آتے۔

۳۰۔عالم مصلح اور اخلاق حسنہ کے مالک افراد کی تکریم فرماتے تھے۔

۳۱۔ہر قوم کے شریف افراد کی تالیف قلب کرتے اور ان پر احسان فرماتے تھے۔

۳۲۔آپ کسی مجلس میں اٹھتے بیٹھتے تو ذکر خدا کے ساتھ۔

۳۳۔مجلس میں اپنے لئے کوئی مخصوص جگہ قرار نہ دیتے اور دوسروں کو بھی اس سے منع فرماتے۔

۲۲

۳۴۔جب کسی مجلس میں داخل ہوتے تو جہاں کہیں بھی جگہ خالی ہوتی وہیں پر بیٹھ جاتے اگرچہ وہ جگہ آخر میں ہی کیوں نہ ہوتی لوگوں کو بھی اس کی نصیحت فرماتے۔

۳۵۔لوگوں میں اس طرح گھل مل جاتے کہ ہر آدمی سمجھتا کہ وہی آپ کی نگاہ میں سب سے مکرم ترین ہے۔

۳۶۔مجلس میں حاضر ہر فرد آپکے اکرام اور توجہ کا مرکز ہوتا۔

۳۷۔جس نے بھی آپ سے کوئی حاجت طلب کی تو مقدور ہونے کی صورت میں اسکی حاجت روا کرتے ورنہ حسن خلق سے اچھے وعدے کے ساتھ راضی کرتے۔

۳۸۔آپ کی مجلس حیاء بردباری اور سچائی کا نمونہ ہوتی اس میں کسی کی برائی اور غیبت نہ ہوتی کسی کی غلطی کو وہاں ظاہر کرنا ممنوع تھا سب کو عدالت و تقوی و پرہیزگاری کی نصیحت فرماتے۔ بڑوں کا احترام کرتے اور چھوٹوں پر رحم فرماتے فقیروں اور محتاجوں کا خیال رکھتے تھے۔

۳۹۔تمام لوگ آپ کی نگاہ میں مساوی اور برابر تھے۔

۴۰۔سب کو اپنی محفل میں جگہ دیتے اور انہیں کسی سے خوف و ضرر کا احساس نہ ہوتا کشادہ دلی اور نرمی سے کلام کرتے۔

۴۱۔کسی وقت آپکی صدا بلند نہ ہوتی حتی کہ غیض و غضب کے وقت بھی۔

۴۲۔کسی سے بد کلامی نہ فرماتے۔

۴۳۔لوگوں کے عیوب نہ گنواتے اور نہ بہت زیادہ ان کی تعریف کرتے۔

۴۴۔کوئی بھی آپ سے نا امید نہ تھا۔

۴۵۔آپ کسی سے کبھی لڑتے جھگڑتے نہیں تھے۔

۴۶۔ زیادہ باتیں نہیں کرتے تھے۔

۲۳

۴۷۔کسی کی بات کو قطع نہ کرتے مگر یہ کہ وہ بات باطل ہو

۴۸۔فائدہ سے خالی اشیاء کے درپے نہ رہتے۔

۴۹۔کسی کی مذمت نہ کرتے۔

۵۰۔کسی کی سرزنش نہ کرتے

۵۱۔لوگوں کے عیب اور لغزش تلاش نہ کرتے اور نہ اس کی جستجو کرتے۔

۵۲۔بے ادبوں کی بے ادبی پر صبر فرماتے تھے۔

۵۳۔جب آپ دنیا سے رخصت ہوئے تو کوئی درہم و دینار غلام کنیز بھیڑ بکری اور اونٹ چھوڑ کر نہیں گئے۔

۵۴۔جب آپ دار فانی سے چلے گئے تو معلوم ہوا کہ آپ کی ایک زرہ مدینے کے ایک یہودی کے پاس گروی تھی جس کے بدلے میں آپ نے اس سے بیس صاع جو اپنے اہل وعیال کے لئے لئے تھے۔

۵۵۔آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تین دنوں تک گندم کی روٹی سے سیر نہ ہوے تھے کہ معبود حقیقی سے جا ملے۔

۵۶۔آپ خاک پر بیٹھتے ،زمین پر بیٹھ کر طعام تناول فرماتے ،زمین پر سوتے بھیڑ اور اونٹ کا پاؤں خود باندھتے بھیڑوں کو خود دوہتے اور اپنے گھر کا دروازہ خود کھولتے تھے۔

۵۷۔آپ کمال تواضع کے مالک تھے۔

۵۸۔آپ ہر روز بدن کی رگوں کی تعداد کے مطابق تین سوساٹھ مرتبہ الحمد للہ رب العالمین کثیرا علی کل حال کہتے تھے اور ستر مرتبہ استغفراللہ اور سترمرتبہ اتوب الی اللہ کا ذکر کرتے تھے۔

۲۴

۵۹۔روایت میں ملتا ہے کہ ایک مرتبہ آپ کے سامنے دودھ کا پیالہ لایا گیا جسمیں شہد ملا ہوا تھا آپ نے فرمایا یہ پینے کی دو چیزیں ہیں جن میں سے ایک پر اکتفاہوسکتا ہے۔ میں دونوں کو نہیں پیوں گا اور دونوں کو تم پر حرام بھی نہیں کرتا ہوں میں خدا کے لئے تواضع سے کام لوں گا۔ جو بھی تکبر کرتا ہے خدا اسے پست کر دیتا ہے ،جو اپنی روزی میں میانہ روی سے کام لے خدا اس کے رزق میں اضافہ فرماتا ہے ،جو فضول خرچی اور اسراف کرتا ہے خدا اسے رزق سے محروم کر دیتا ہے اور جو موت کو زیادہ یاد کرتا ہے خدا اسے دوست رکھتا ہے۔

۶۰۔آپ ہر ماہ کی پہلی جمعرات اور آخری جمعرات ،ماہ کے پہلے دس دنوں میں پہلے بدھ کو روزہ رکھتے تھے شعبان کا پورا مہینہ روزے رکھتے تھے۔

۶۱۔آپ سب لوگوں سے زیادہ حکیم ،دانا بردبار ،شجاع عادل اور مہربان تھے۔

۶۲۔آپ لوگوں میں سب سے زیادہ سخی تھے درہم و دینار گھر میں باقی نہ رکھتے۔

۶۳۔سال کے اخراجات کے علاوہ سب کچھ خدا کی راہ میں خرچ کر دیتے تھے۔

۶۴۔معمولی طعام کو بھی استعمال کے لئے محفوظ کرتے جیسے کھجور جو وغیرہ۔

۶۵۔جب خادم چکی کے گرد گھومتے گھومتے تھک جاتا تو اس کی مدد کرتے۔

۶۶۔رات کو وضو کے لئے پانی خود مہیا کرتے۔

۶۷۔لوگوں کی موجود گی میں کبھی تکیہ نہ لگاتے۔

۶۸۔محتاج کی مدد خود کرتے تھے۔

۶۹۔کھانے کے بعد انگلیوں کو چاٹتے۔

۷۰۔آپ کبھی ڈکار نہ لیتے تھے۔

۷۱۔ہدیہ قبول فرماتے گرچہ دودھ کا ایک گھونٹ ہی کیوں نہ ہوتا۔

۲۵

۷۲۔آپ صدقہ نہیں کھاتے تھے۔

۷۳۔لوگوں کو ٹکٹکی باندھ کر نہیں دیکھتے تھے۔

۷۴۔اکثر بھوک سے کمر پر پتھر باندھ لیتے۔

۷۵۔جو کچھ بھی حاضر ہوتا تناول فرما لیتے۔

۷۶۔کسی چیز کورد نہیں کرتے تھے۔

۷۷۔آپ اکثرسفید لباس زیب تن فرماتے اور سرپرعمامہ باندھتے تھے۔

۷۸۔جمعہ کے دن اچھا لباس پہنتے اور پرانا لباس فقیر کو دے دیتے تھے آپ کی ایک ہی عبا تھی جہاں بھی جاتے اسی سے استفادہ فرماتے دائیں ہاتھ کی چھوٹی انگلی میں چاندی پہنتے تھے۔

۷۹۔بدبو سے کراہت کرتے تھے۔

۸۰۔ہر وضو کے ساتھ مسواک کرتے تھے۔

۸۱۔اپنی سواری پر کبھی خود اور کبھی دوسرے کو پچھے بٹھاتے تھے۔

۸۲۔جو سواری ملتی اس پر سوار ہو جاتے کبھی گھوڑا کبھی خچر اور کبھی اونٹ۔

۸۳۔آپ فقرا اورمساکین کے ساتھ بیٹھتے اور ان کے ساتھ کھانا تناول فرماتے تھے۔

۸۴۔ہر ایک کے ساتھ ادب سے پیش آتے۔

۸۵۔جب کوئی عذر کرتا تو اس کا عذر قبول کر لیتے۔

۸۶۔آپ کبھی بھی عورتوں اور خدمت گاروں پر غصہ نہ فرماتے اور نہ انہیں برا بھلا کہتے۔

۸۷۔جب بھی کوئی آزاد غلام یا کنیز آپ سے مدد کے طالب ہوتے تو آپ اٹھ کھڑے ہوتے اور ان کے ہمراہ چل پڑتے۔

۸۸۔آپ بدی کا نیکی سے جواب دیتے۔

۲۶

۸۹۔جس سے ملتے سلام میں پہل کرتے مردوں سے مصافحہ کرتے اور بچوں و عورتوں کو سلام کرتے۔

۹۰۔جس مجلس میں بیٹھتے ذکر خدا کرتے اکثر رو بہ قبلہ بیٹھتے ہرمجلس میں کم از کم پچیس مرتبہ استغفار کرتے۔

۹۱۔جو بھی آپ کے پاس آتا آپ اس کا احترام کرتے۔

۹۲۔آپ کی رضا اور غضب حق کہنے سے مانع نہ ہوتے۔

۹۳۔آپ کو گوشت اور کدو پسند تھا شکار نہیں کرتے تھے لیکن شکار کا گوشت تناول فرماتے پنیر اوراسی طرح گھی بھی آپ کو پسند تھا۔

۹۴۔اپنے سامنے سے کھانا تناول فرماتے تھے لیکن خرمہ پہلے اطراف میں بیٹھے لوگوں کو پیش کرتے۔

۹۵۔کھانے کے بعد ہاتھ دھوتے۔

۹۶۔پانی پینے کے وقت بسم اللہ پڑھتے تھوڑا سے پیتے پھر لبوں سے ہٹا لیتے اور الحمد للہ کہتے ،تین وقفوں میں پانی پیتے۔

۹۷۔سراور داڑھی کو آب سدر ر(بیر کے پانی ) سے دھوتے۔

۹۸۔تیل کی مالش کرنا پسند کرتے تھے۔

۹۹۔اپنے سامنے کسی کو کھڑے رہنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔

۱۰۰۔دو انگلیوں سے نہیں بلکہ تین انیو ں سے کھانا کھاتے۔

۱۰۱۔کوئی عطر آپ کے پسینے سے زیادہ خوشبودار نہیں تھا۔

۱۰۲۔روایت میں ملتا ہے کہ آپ ایک سفر میں تھے اور اصحاب سے فرمایا کہ کھانے کے لئے ایک بھڑط ذبح کریں ایک شخص نے کہا میں ذبح کروں گا دوسرا بولا میں کھال اتاروں گا تیسرے نے کہا کہ میں پکاؤں گا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ میں لکڑیاں جمع کروں گا اصحاب نے کہا یارسول اللہ ہم ہیں آپ زحمت نہ فرمائیں آپ نے فرمایا مجھے پسند نہیں کہ خود کو تم پر ترجیح دوں ،خدا اس بندے سے نفرت کرتا ہے جو اپنے ساتھیوں میں اپنے آپ کو ممتازسمجھے۔

۲۷

۱۰۳۔انس کہتے ہیں کہ میں نے دس سال تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت کی اور آپ نے اس مدت میں مجھے اف تک نہ کہا۔

۱۰۴۔آپ کے لعاب دھن میں برکت اور شفا تھی۔

۱۰۵۔آپ ہر زبان میں تکلم فرماسکتے تھے۔

۱۰۶۔لکھنے پڑھنے پر قادر تھے لیکن آپ نے کبھی تحریر نہیں فرمایا۔

۱۰۷۔جس حیوان پر سوارہوتے وہ کبھی بوڑھا نہ ہوتا۔

۱۰۸۔جب آپ کسی پتھر یا درخت کے قریب سے گزرتے تو سلام کرتے۔

۱۰۹۔مکھی مچھر اور ان جیسے جانور آنحضرت پر نہ بیٹھتے تھے۔

۱۱۰۔پرند کبھی بھی آپ کے سرمبارک پر سے پرواز نہیں کرتے تھے۔

۱۱۱۔چلنے کے دوران قدم مبارک کے نشان نرم زمین پر نظر نہ آتے لیکن پتھر پر نشان نظر آتے تھے۔

۱۱۲۔تازہ کھیرے نمک کے ساتھ تناول فرماتے تازہ میووں میں خربوزہ اور انگورپسند تھے اکثر آپ کی غذا پانی کھجور یا دودھ اور کھجور ہوتی تھی۔

۱۱۳۔کھانا سب سے پہلے شروع کرتے آخر تک کھانا کھاتے تاکہ کسی کو اکیلا نہ کھانا پڑے۔

۱۱۴۔آپ کی خدمت میں برتن لایا جاتا اور آپ تبرک کے طورپراس میں ہاتھ ڈالتے اور کراہت نہیں کرتے تھے۔

۱۱۵۔نومولود کو آپ کی خدمت میں لایا جاتا کہ آپ اس کے لئے دعا فرمائیں آپ بچے کو گود میں لیتے کبھی کبھار بچہ پیشاب کر دیتا تو آپ ہرگز ناراض نہ ہوتے بلکہ دامن کو دھو لیتے تھے۔

۱۱۶۔آپ قیدیوں پر رحم کرتے تھے حاتم طائی کی بیٹی کے ساتھ آپ کا مہربانی سے پیش آنا اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

۱۱۷۔آپ نے کسی عورت کی بے حرمتی نہیں کی۔

۲۸

۱۱۸۔جب گھر میں داخل ہوتے تو تین مرتبہ اجازت طلب کرتے تھے۔

۱۱۹۔سرکے نامناسب بالوں سے کراہت کرتے تھے۔

۱۲۰۔یہ سارے اوصاف تواضع کی علامت ہیں۔

یہ ہیں رسول اللہ الاعظم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات مجموعہ کمالات کے بعض اعلی نمونے جنہیں قلم بند کرنے کی توفیق ہمیں ملی ہے۔ یاد رہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس ذات کبریائی کی ولایت کبری کے حامل تھے جو مستجمع جمیع صفات کمال و جلال و جمال ہے لذلا آپ کے صفات کا ان ہی ایک سوبیس صفات حسنہ میں احصاء کرنا کسی بھی طرح صحیح نہیں ہے لیکن بقول شاعر

آب دریا را اگرنتوان کشید

ہم بقدر تشنگی باید چشید، کے مصداق ہماری ناقص عقل نے ان ہی صفات حسنہ کے احصاء پر اکتفا کیا ہے یہ ہمارے وجود کے نقص کا ثبوت ہے بھلا ذرے کو آفتاب کے نور کی تاب کہاں جتنا ہوسکا سو اپنی عقیدت کا اظہار کر دیا اب اس دریائے فیض کا کرم ہے کہ ہمیں مزید کتنا نوازتا ہے عبع ہم میں ہے اس کی عطا میں نہیں۔

۲۹

ادب و سنت

رسول اسلام ﷺ کے آداب و سنن کو پیش کرنے سے قبل مناسب ہے کہ ادب اور سنت کی حقیقت کے بارے میں گفتگو ہو جائے۔

ادب: علمائے علم لغت نے لفظ ادب کے چند معانی بیان کئے ہیں ، اٹھنے بیٹھنے میں تہذیب اور حسن اخلاق کی رعایت اور پسندیدہ خصال کا اجتماع ادب ہے(۱)

مندرجہ بالا معنی کے پیش نظر در حقیقت ادب ایسا بہترین طریقہ ہے جسے کوئی شخص اپنے معمول کے مطابق اعمال کی انجام دہی میں اس طرح اختیار کرے کہ عقل مندوں کی نظر میں داد و تحسین کا مستحق قرار پائے ، یہ بھی کہا جاسکتاہے کہ "ادب وہ ظرافت عمل اور خوبصورت چال چلن ہے جسکا سرچشمہ لطافت روح اور پاکیزگی طینت ہے "مندرجہ ذیل دو نکتوں پر غور کرنے سے اسلامی ثقافت میں ادب کا مفہوم بہت واضح ہو جاتا ہے _

پہلا نکتہ

عمل اسوقت ظریف اور بہترین قرار پاتا ہے جب شریعت سے اس کی اجازت ہو اور حرمت کے عنوان سے اس سے منع نہ کیا گیا ہو_

لہذا ظلم ، جھوٹ، خیانت ، بر ے اور ناپسندیدہ کام کیلئے لفظ ادب کا استعمال نہیں ہو سکتا دوسری بات یہ ہے کہ عمل اختیاری ہو یعنی اس کو کئی صورتوں میں اپنے اختیار سے انجام دینا ممکن ہو پھر انسان اسے اسی طرح انجام دے کہ مصداق ادب بن جائے _( ۲)

____________________

۱ (لغت نامہ دہخدا مادہ ادب)_

۲ (المیزان جلد ۲ ص ۱۰۵)_

۳۰

دوسرا نکتہ

حسن کے اس معنی میں کہ عمل زندگی کی آبرو کے مطابق ہو، کوئی اختلاف نہیں ہے لیکن اس معنی کے اپنے حقائق سے مطابقت میں بڑے معاشروں مثلاً مختلف اقوام ، ملل ، ادیان اور مذاہب کی نظر میں اسی طرح چھوٹے معاشروں جیسے خاندانوں کی نظر میں بہت ہی مختلف ہے _چونکہ نیک کام کو اچھے کام سے جدا کرنے کے سلسلہ میں لوگوں میں مختلف نظریات ہیں مثلاً بہت سی چیزیں جو ایک قوم کے درمیان آداب میں سے شمار کی جاتی ہیں ، جبکہ دوسری اقوام کے نزدیک ان کو ادب نہیں کہا جاتا اور بہت سے کام ایسے ہیں جو ایک قوم کی نظر میں پسندیدہ ہیں لیکن دوسری قوموں کی نظر میں برے ہیں( ۳)

اس دوسرے نکتہ کو نگاہ میں رکھنے کی بعد آداب رسول اکرم ﷺ کی قدر و قیمت اس وجہ سے ہے کہ آپ کی تربیت خدا نے کی ہے اور خدا ہی نے آپ کو ادب کی دولت سے نوازا ہے نیز آپ کے آداب ، زندگی کے حقیقی مقاصد سے ہم آہنگ ہیں اور حسن کے واقعی اور حقیقی مصداق ہیں _

امام جعفر صادق ؑ نے فرمایا:

"ان الله عزوجل ادب نبیه ﷺ علی محبته فقال : انک لعلی خلق عظیم"

خدا نے اپنی محبت و عنایت سے اپنے پیغمبرﷺ کی تربیت کی ہے اس کے بعد فرمایا ہے کہ: آپﷺ خلق عظیم پر فائز ہیں( ۴)

آنحضرت ﷺ کے جو آداب بطور یادگار موجود ہیں ان کی رعایت کرنا در حقیقت خدا کے بتائے ہوئے راستے "صراط مستقیم "کو طے کرنا اور کائنات کی سنت جاریہ اور قوانین سے ہم آہنگی ہے _

____________________

۳)( المیزان جلد ۲ ص ۱۰۵)_

۴)( اصول کافی جلد ۲ ص ۲ ترجمہ سید جواد مصطفوی)_

۳۱

ادب اور اخلاق میں فرق

باوجودیکہ بادی النظر میں دونوں لفظوں کے معنی میں فرق نظر نہیں آتا ہے لیکن تحقیق کے اعتبار سے ادب اور اخلاق کے معنی میں فرق ہے _

علامہ طباطبائی ان دونوں لفظوں کے فرق کو اجاگر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

ہر معاشرہ کے آداب و رسوم اس معاشرہ کے افکار اور اخلاقی خصوصیات کے آئینہ دار ہوتے ہیں اس لئے کہ معاشرتی آداب کا سرچشمہ مقاصد ہیں اور مقاصد اجتماعی، فطری اور تاریخی عوامل سے وجود میں آتے ہیں ممکن ہے بعض لوگ یہ خیال کریں کہ آداب و اخلاق ایک ہی چیز کے دو نام ہیں لیکن ایسا نہیں ہے اسلئے کہ روح کے راسخ ملکہ کا نام اخلاق ہے در حقیقت روح کے اوصاف کا نام اخلاق ہے لیکن ادب وہ بہترین اور حسین صورتیں ہیں کہ جس سے انسان کے انجام پانے والے اعمال متصف ہوتے ہیں( ۵)

ادب اور اخلاق کے درمیان اس فرق پر غور کرنے کے بعد کہا جاسکتاہے کہ خلق میں اچھی اور بری صفت ہوتی ہے لیکن ادب میں فعل و عمل کی خوبی کی علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا، دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ اخلاق اچھا یا برا ہوسکتاہے لیکن ادب اچھا یا برا نہیں ہوسکتا_

____________________

۵)المیزان جلد ۱۲ ص ۱۰۶_

۳۲

رسول اکرم ﷺ کے ادب کی خصوصیت

روزمرہ کی زندگی کے اعمال میں رسول خدا ﷺ نے جن آداب سے کام لیا ہے ان سے آپ نے اعمال کو خوبصورت و لطیف اور خوشنما بنا دیا اور ان کو اخلاقی قدر و قیمت بخش دی _

آپ کی سیرت کا یہ حسن و زیبائی آپ کی روح لطیف ، قلب ناز ک ا۵ور طبع ظریف کی دین تھی جن کو بیان کرنے سے ذوق سلیم اورحسن پرست روح کو نشاط حاصل ہوتی ہے اور اس بیان کو سن کر طبع عالی کو مزید بلندی ملتی ہے _ رسول خدا ﷺ کی سیرت کے مجموعہ میں مندرجہ ذیل اوصاف نمایاں طور پر نظر آتے ہیں _

الف: حسن و زیبائی ب: نرمی و لطافت ج: وقار و متانت

ان آداب اور پسندیدہ اوصاف کے سبب آپﷺ نے جاہل عرب کی بدخوئی ، سخت کلامی و بدزبانی اور سنگدلی کو نرمی ، حسن اور عطوفت و مہربانی میں بدل دیا، آپ ﷺ نے ان کے دل میں برادری کا بیچ بویا اور امت مسلمہ کے درمیان آپ ﷺ نے اتحاد کی داغ بیل ڈالی_

۳۳

رسول خدا ﷺ کے آداب

اپنے مدمقابل کے ساتھ آپ ﷺ کا جو سلوک تھا اس کے اعتبار سے آپ ﷺ کے آداب تین حصوں میں تقسیم ہوتے ہیں _

۱_ خداوند عالم کے روبرو آپ ﷺ کے آداب

۲_ لوگوں کے ساتھ معاشرت کے آداب

۳ _ انفرادی اور ذاتی آداب

انہیں سے ہر ایک کی مختلف قسمیں ہیں جن کو آئندہ بیان کیا جائے گا _

خدا کے حضور میں بارگاہ خداوندی میں رسول خدا ﷺ کی دعائیں بڑے ہی مخصوص آداب کے ساتھ ہوتی تھیں یہ دعائیں خدا سے آپ ﷺ کے عمیق ربط کا پتہ دیتی ہیں _

وقت نماز

نماز آپ ﷺ کی آنکھوں کا نور تھی ،آپ ﷺ نماز کو بہت عزیز رکھتے تھے چنانچہ آپ ﷺ ہر نماز کو وقت پر ادا کرنے کا اہتمام کرتے تھے ، بہت زیادہ نمازیں پڑھتے اور نماز کے وقت اپنے آپ ﷺ کو مکمل طور پر خدا کے سامنے محسوس کرتے تھے _

نماز کے وقت آنحضرت ﷺ کے اہتمام کے متعلق آپ ﷺ کی ایک زوجہ کا بیان ہے کہ "رسول خدا ﷺ ہم سے باتیں کرتے اور ہم ان سے محو گفتگو ہوتے ، لیکن جب نماز کا وقت آتا تو آپ ﷺ کی ایسی حالت ہو جاتی تھی گویا کہ آپ ﷺ نہ ہم کو پہچان رہے ہیں اور نہ ہم آپ ﷺ کو پہچان رہے ہیں( ۶)

____________________

۶) سنن النبی ص ۲۵۱_

۳۴

منقول ہے کہ آپ ﷺ پورے اشتیاق کے ساتھ نماز کے وقت کا انتظار کرتے اور اسی کی طرف متوجہ رہتے تھے اور جیسے ہی نماز کا وقت آ جاتا آپ ﷺ مؤذن سے فرماتے "اے بلال مجھے اذان نماز کے ذریعہ شاد کر دو"( ۷)

امام جعفر صادق ؑ سے روایت ہے "نماز مغرب کے وقت آپ ﷺ کسی بھی کام کو نماز پر مقدم نہیں کرتے تھے اور اول وقت ، نماز مغرب ادا کرتے تھے( ۸) منقول ہے کہ "رسول خدا ﷺ نماز واجب سے دو گنا زیادہ مستحب نمازیں پڑھا کرتے تھے اور واجب روزے سے دوگنے مستحب روزے رکھتے تھے _( ۹)

روحانی عروج میں آپ ﷺ کو ایسا حضور قلب حاصل تھا کہ جس کو بیان نہیں کیا جاسکتا، منقول ہے کہ جب رسول خدا ﷺ نماز کیلئے کھڑے ہوتے تھے تو خوف خدا سے آپ ﷺ کا رنگ متغیر ہو جاتا تھا اور آپ ﷺ کی بڑی دردناک آواز سنی جاتی تھی( ۱۰)

جب آپ ﷺ نماز پڑھتے تھے تو ایسا لگتا تھا کہ جیسے کوئی کپڑا ہے جو زمین پر پڑا ہوا ہے( ۱۱) حضرت امام جعفر صادق ؑ نے رسول خدا ﷺ کی نماز شب کی تصویر کشی کرتے ہوئے فرمایا ہے :

____________________

۷) سنن النبی ص ۲۶۸_

۸) سنن النبی ص_

۹) سنن النبی ص ۲۳۴_

۱۰) سنن النبی ص۲۵۱_

۱۱) سنن النبی ص ۲۶۸_

۳۵

"رات کو جب آپ ﷺ سونا چاہتے تھے تو ، ایک برتن میں اپنے سرہانے پانی رکھ دیتے تھے آپ ﷺ مسواک بھی بستر کے نیچے رکھ کر سوتے تھے ،آپ ﷺ اتنا سوتے تھے جتنا خدا چاہتا تھا، جب بیدار ہوتے تو بیٹھ جاتے اور آسمان کی طرف نظر کر کے سورہ آل عمران کی آیات( ان فی خلق السموات والارض الخ ) پڑھتے اس کے بعد مسواک کرتے ، وضو فرماتے اور مقام نماز پر پہونچ کر نماز شب میں سے چار رکعت نماز ادا کرتے ، ہر رکعت میں قر أ ت کے بقدر ، رکوع اور رکوع کے بقدر ، سجدہ فرماتے تھے اس قدر رکوع طولانی کرتے کہ کہا جاتا کہ کب رکوع کو تمام کریں گے اور سجدہ میں جائیں گے اسی طرح انکا سجدہ اتنا طویل ہوتا کہ کہا جاتا کب سر اٹھائیں گے اس کے بعد آپ ﷺ پھر بستر پر تشریف لے جاتے اور اتنا ہی سوتے تھے جتنا خدا چاہتا تھا_اس کے بعد پھر بیدار ہوتے اور بیٹھ جاتے ، نگاہیں اسمان کی طرف اٹھا کر انہیں آیتوں کی تلاوت فرماتے پھر مسواک کرتے ، وضو فرماتے ، مسجد میں تشریف لے جاتے اور نماز شب میں سے پھر چار رکعت نماز پڑھتے یہ نماز بھی اسی انداز سے ادا ہوتی جس انداز سے اس سے پہلے چار رکعت ادا ہوئی تھی ، پھر تھوڑی دیر سونے کے بعد بیدار ہوتے اور آسمان کی طرف نگاہ کر کے انہیں آیتوں کی تلاوت فرماتے ، مسواک اور وضو سے فارغ ہو کر تین رکعت نماز شفع و وتر اور دو رکعت نماز نافلہ صبح پڑھتے پھر نماز صبح ادا کرنے کیلئے مسجد میں تشریف لے جاتے "( ۱۲)

آنحضرت نے ابوذر سے ایک گفتگو کے ذیل میں نماز کی اس کوشش اور ادائیگی کے فلسفہ کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:"اے ابوذر میری آنکھوں کا نور خدا نے نماز میں رکھا ہے اوراس نے جس طرح کھانے کو بھوکے کیلئے اور پانی کو پیاسے کیلئے محبوب قرار دیا ہے اسی طرح نماز کو میرے لئے محبوب قرار دیا ہے ، بھوکا کھانا کھانے کے بعد سیر اور پیاساپانی پینے کے بعد سیراب ہو جاتا ہے لیکن میں نماز پڑھنے سے سیراب نہیں ہوتا"( ۱۳)

____________________

۱۲) سنن النبی ص ۲۴۱_

۱۳)سنن النبی ص ۲۶۹_

۳۶

دعا کے وقت تسبیح و تقدیس

آپ کے شب و روز کا زیادہ تر حصہ دعا و مناجات میں گذر جاتا تھا آپ سے بہت ساری دعائیں نقل ہوئی ہیں آپ کی دعائیں خداوند عالم کی تسبیح و تقدیس سے مزین ہیں ، آپ نے توحید کا سبق، معارف الہی کی گہرائی، خود شناسی اور خودسازی کے تعمیری اور تخلیقی علوم ان دعاؤں میں بیان فرما دیئے ہیں ان دعاؤں میں سے ایک دعا وہ بھی ہے کہ جب آپ ﷺ کی خدمت میں کھانا لایا جاتا تھا تو آپ ﷺ پڑھا کرتے تھے :

"سبحانک اللهم ما احسن ما تبتلینا سبحانک اللهم ما اکثر ما تعطینا سبحانک اللهم ما اکثر ما تعافینا اللهم اوسع علینا و علی فقراء المومنین" ( ۱۴)

خدایا تو منزہ ہے تو کتنی اچھی طرح ہم کو آزماتا ہے ، خدایا تو پاکیزہ ہے تو ہم پر کتنی زیادہ بخشش کرتا ہے ، خدا یا تو پاکیزہ ہے تو ہم سے کس قدر درگذر کرتا ہے ، پالنے والے ہم کو اور حاجتمند مؤمنین کو فراخی عطا فرما_

بارگاہ الہی میں تضرع اور نیاز مندی کا اظہار

آنحضرت ﷺ خدا کی عظمت و جلالت سے واقف تھے لہذا جب تک دعا کرتے رہتے تھے اسوقت تک اپنے اوپر تضرع اور نیاز مندی کی حالت طاری رکھتے تھے ، سیدالشہداء امام حسین ؑ رسول خدا ﷺ کی دعا کے آداب کے سلسلہ میں فرماتے ہیں :

"کان رسول الله ﷺ یرفع یدیه اذ ابتهل و دعا کما یستطعم المسکین " ( ۱۵)

رسول ﷺ بارگاہ خدا میں تضرع اور دعا کے وقت اپنے ہاتھوں کو اس طرح بلند کرتے تھے جیسے کوئی نادار کھانا مانگ رہا ہو_

لوگوں کے ساتھ حسن معاشرت

رسول اکرم ﷺ کی نمایاں خصوصیتوں میں سے ایک خصوصیت لوگوں کے ساتھ حسن معاشرت ہے ، آپ تربیت الہی سے مالامال تھے اس بنا پر معاشرت ، نشست و برخاست میں لوگوں کے ساتھ ایسے ادب سے پیش آتے تھے کہ سخت مخالف کو بھی شرمندہ کر دیتے تھے اور نصیحت حاصل کرنے والے مؤمنین کی فضیلت میں اضافہ ہو جاتا تھا_

____________________

۱۴) اعیان الشیعہ ج۱ ص۳۰۶_

۱۵)سنن النبی ص ۳۱۵_

۳۷

آپ کی معاشرت کے آداب، اخلاق کی کتابوں میں تفصیلی طور پر مرقوم ہیں _ہم اس مختصر وقت میں چند آداب کو بیان کر رہے ہیں امید ہے کہ ہمارے لئے رسول خدا ﷺ کے ا دب سے آراستہ ہونے کا باعث ہو:

گفتگو

بات کرتے وقت کشادہ روئی اور مہربانی کو ظاہر کرنے والا تبسم آپ کے کلام کو شیریں اور دل نشیں بنا دیتا تھا روایت میں ہے کہ :

"کان رسول الله اذا حدث بحدیث تبسم فی حدیثه" ( ۱۶)

بات کرتے وقت رسول اکرم ﷺ تبسم فرماتے تھے _

ظاہر ہے کہ کشادہ روئی سے باتیں کرنے سے ہر ایک کو اس بات کا موقع ملتا تھا کہ وہ آپ ﷺ کی عظمت و منزلت سے مرعوب ہوئے بغیر نہایت اطمینان کے ساتھ آپﷺ سے گفتگو کرے ، اپنے ضمیر کی آواز کو کھل کر بیان کرے اور اپنی حاجت و دل کی بات آپ ﷺ کے سامنے پیش کرے _

سامنے والے کی بات کو آپ ﷺ کبھی منقطع نہیں کرتے تھے ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کوئی آپ ﷺ سے گفتگو کا آغاز کرے تو آپ ﷺ پہلے ہی اسکو خاموش کر دیں( ۱۷)

مزاح

مؤمنین کا دل خوش کرنے کیلئے آنحضرت ﷺ کبھی مزاح بھی فرمایا کرتے تھے ، لیکن تحقیر و تمسخر آمیز، ناحق اور ناپسندیدہ بات آپ ﷺ کی کلام میں نظر نہیں آتی تھی_

____________________

۱۶) سنن النبی ص۴۸ بحار ج۶ ص ۲۹۸_

۱۷)مکارم الاخلاق ص ۲۳_

۳۸

"عن الصادق قال ما من مؤمن الا وفیه دعابة و کان رسول الله یدعب و لا یقول الاحقا" ( ۱۸)

امام صادق ؑ سے نقل ہوا ہے کہ : کوئی مؤمن ایسا نہیں ہے جس میں حس مزاح نہ ہو، رسول خدا ﷺ مزاح فرماتے تھے اور حق کے علاوہ کچھ نہیں کہتے تھے _

آپ کے مزاح کے کچھ نمونے یہاں نقل کئے جاتے ہیں :

"قال ﷺ لاحد لا تنس یا ذالاذنین " ( ۱۹)

پیغمبر خدا ﷺ نے ایک شخص سے فرمایا: اے دو کان والے فراموش نہ کر_

انصار کی ایک بوڑھی عورت نے آنحضرت ﷺ سے عرض کیا کہ آپ میرے لئے دعا فرمادیں کہ میں بھی جتنی ہو جاؤں حضرت ﷺ نے فرمایا: "بوڑھی عورتیں جنت میں داخل نہیں ہوں گی"وہ عورت رونے لگی آنحضرت ﷺ مسکرائے اور فرمایا کیا تم نے خدا کا یہ قول نہیں سنا ;

( انا انشأناهن انشاءً فجعلنا هن ابکاراً ) ( ۲۰)

ہم نے بہشتی عورتوں کو پیدا کیا اور ان کو باکرہ قرار دیا _

کلام کی تکرار

رسول خدا ﷺ کی گفتگو کی خصوصیت یہ تھی کہ آپ ﷺ بات کو اچھی طرح سمجھا دیتے تھے_

ابن عباس سے منقول ہے : جب رسول خدا ﷺ کوئی بات کہتے یا آپﷺ سے کوئی سوال ہوتا تھا تو تین مرتبہ تکرار فرماتے یہاں تک کہ سوال کرنے والا بخوبی سمجھ جائے اور دوسرے افراد آنحضرت ﷺ کے قول کی طرف متوجہ ہو جائیں _

____________________

۱۸)سنن النبی ص ۴۹_

۱۹)بحارالانوار ج۱۶ ص ۲۹۴_

۲۰)سورہ واقعہ آیت ۳۵ و ۳۶_

۳۹

انس و محبت

پیغمبر خدا ﷺ کو اپنے اصحاب و انصار سے بہت انس و محبت تھی ان کی نشستوں میں شرکت کرتے اور ان سے گفتگو فرماتے تھے آپ ﷺ ان نشستوں میں مخصوص ادب کی رعایت فرماتے تھے _ حضرت امیر المؤمنین آپ کی شیرین بزم کو یاد کرتے ہوئے فرماتے ہیں ": ایسا کبھی نہیں دیکھا گیا کہ پیغمبر خد ا ﷺ کسی کے سامنے اپنا پاؤں پھیلاتے ہوں "(۲۱)

پیغمبر ﷺ کی بزم کے بارے میں آپ کے ایک صحابی بیان فرماتے ہیں "جب ہم لوگ رسول خدا ﷺ کے پاس آتے تھے تو دائرہ کی صورت میں بیٹھتے تھے "(۲۲)

جلیل القدر صحابی جناب ابوذر بیان کرتے ہیں "رسول خدا ﷺ جب اپنے اصحاب کے درمیان بیٹھتے تھے تو کسی انجانے آدمی کو یہ نہیں معلوم ہوسکتا تھا کہ پیغمبر ﷺ کون ہیں آخرکار اسے پوچھنا پڑتا تھا ہم لوگوں نے حضورﷺ سے یہ درخواست کی کہ آپ ایسی جگہ بیٹھیں کہ اگر کوئی اجنبی آدمی آ جائے تو آپ ﷺ کو پہچان لے ، اسکے بعد ہم لوگوں نے مٹی کا ایک چبوترہ بنایا آپ ﷺ اس چبوترہ پر تشریف فرما ہوتے تھے اور ہم لوگ آپ ﷺ کے پاس بیٹھتے تھے _(۲۳)

امام جعفر صادق ؑ فرماتے ہیں : رسول خدا ﷺ جب کسی کے ساتھ بیٹھتے تو جب تک وہ موجود رہتا تھا حضرت ﷺ اپنے لباس اور زینت والی چیزوں کو جسم سے جدا نہیں کرتے تھے(۲۴)

مجموعہ ورام میں روایت کی گئی ہے "پیغمبر ﷺ کی سنت یہ ہے کہ جب لوگوں کے مجمع میں بات کرو تو ان میں سے ایک ہی فرد کو متوجہ نہ کرو بلکہ سارے افراد پر نظر رکھو(۲۵)

____________________

۲۱) مکارم الاخلاق ص ۲۲_

۲۲) سنن النبی ص ۷۰_

۲۳) سنن النبی ص۶۳_

۲۴)سنن النبی ص۴۸_

۲۵)سنن النبی ص۴۷_

۴۰