کاسۂ شام

کاسۂ شام75%

کاسۂ شام مؤلف:
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 61

کاسۂ شام
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 61 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 34938 / ڈاؤنلوڈ: 2367
سائز سائز سائز
کاسۂ شام

کاسۂ شام

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

استغاثہ

تو کیا کوئی معجزہ نہ ہوگا

ہمارے سب خواب وقت کی بے لائظ آندھی میں جل بجھیں گے

دو نیم دریا و چاہِ تاریک و آتش َ سرد و جاں نوازی کے سلسے ختم ہو گئے کیا

تو کیا کوئی معجزہ نہ ہوگا؟

خدائے زندہ! یہ تیری سجدہ گزار بستی کے سب مکینوں کی التجا ہے

کوئی ایسی سبیل نکلے کے تجھ سے منسوب گل زمینوں کی عظمتیں پھر سے لوٹ آئیں

وہ عفو کی، درگزر کی، مہر و وفا کی روایتیں پھر سے لوٹ آئیں

وہ چاہتیں وہ رفاقتیں وہ محبتیں پھر سے لوٹ آئیں

٭٭٭

۲۱

ذرا سی دیر کو آئے تھے خواب آنکھوں میں

ذرا سی دیر کو آئے تھے خواب آنکھوں میں

پھر اس کے بعد مسلسل عذاب آنکھوں میں

*

وہ جس کے نام کی نسبت سے روشن تھا وجود

کھٹک رہا ہے وہی آفتاب آنکھوں میں

*

جنھیں متاع ِ دل و جان سمجھ رہے تھے ہم

وہ آئیے بھی ہوئے بے حجاب آنکھوں میں

*

عجب طرح کا ہے موسم کہ خاک اڑتی ہے

وہ دن بھی تھے کہ کھلے تھے گلاب آنکھوں میں

*

مرے غزال تری وحشتوں کی خیر کہ ہے

بہت دنوں سے بہت اضطراب آنکھوں میں

*

نہ جانے کیسی قیامت کا پیش خیمہ ہے

یہ الجھنیں تری بے انتساب آنکھوں میں

*

جواز کیا ہے مرے کم سخن بتا تو سہی

بنام خوش نگہی ہر جواب آنکھوں میں

٭٭٭

۲۲

ان وعدہ اللہ حق

سچے لوگ ہمشہ سے کہتے آئے ہیں

سب تعریفیں اس کے لیے ہیں جو فساخ عزائم ہے

اور جو کشاف ارادہ ہے

مرے حضور سے مرے خدا کا وعدہ ہے

خیر کے گھر میں جتنے دروازے کھلتے ہیں

ان میں ایک توبہ کا دروازہ ہے

اشک ندامت اپنی جگہ پر آپ بڑا

خمیازہ ہے

مرے حضور سے میرے خدا کا وعدہ ہے

٭٭٭

۲۳

صحرا میں ایک شام

دشت ِ بے نخیل میں

باد بے لانظ نے

ایسی خاک اڑائی ہے

کچھ بھی سوجھتا نہیں

*

حوصلوں کا سائبان

راستوں کے درمیان

کس طرح اجڑ گیا

کون کب بچھڑ گیا

کوئی پوچھتا نہیں

*

فصل اعتبار میں

آتش غبار سے

خیمہ دعا جلا

دامن وفا جلا

کس بری طرح جلا

پھر بھی زندگی کا ساتھ ہے کہ چھوٹتا نہیں

کچھ بھی سوجھتا نہیں

کوئی پوچھتا نہیں

اور زندگی کا ساتھ ہے کہ چھوٹتا نہیں

٭٭٭

۲۴

ھل من ناصراً ینصرنا

یہ زمینوں آسمانوں کے عذاب اور میں اکیلا آدمی

میں اکیلا آدمی کب تک لڑوں

سارے دشمن در پئے آزار، لشکر صف بہ صف

لشکروں کے سب کمانداروں کے رخ میری طرف

اور میں نہتا آدمی

میں نہتا آدمی کب تک لڑوں

میں اکیلا آدمی کیسے لڑوں

٭٭٭

۲۵

خواب کی طرح بکھر جانے کو جی چاہتا ہے

خواب کی طرح بکھر جانے کو جی چاہتا ہے

ایسی تنہائی کہ مر جانے کو جی چاہتا ہے

*

گھر کی وحشت سے لرزتا ہوں مگر جانے کیوں

شام ہوتی ہے تو گھر جانے کو جی چاہتا ہے

*

ڈوب جاؤں تو کوئی موج نشاں ت ک نہ بتائے

ایسی ندی میں اتر جانے کو جی چاہتا ہے

*

کبھی مل جائے تو رستے کی تھکن جاگ جائے

ایسی منزل سے گزر جانے کو جی چاہتا ہے

*

وہی پیماں جو کبھی جی کو خوش آیا تھا بہت

اُسی پیماں سے مکر جانے کو جی چاہتا ہے

٭٭٭

۲۶

اے میری زندگی کے خواب، شام بخیر شب بخیر

اے میری زندگی کے خواب، شام بخیر شب بخیر

ڈوب چلا ہے آفتاب، شام بخیر، شب بخیر

*

ایسا نہ ہو کہ دن ڈھلے روح کا زخم کھل اٹھے

کیسے کہوں مرے گلاب، شام بخیر شب بخیر

*

تیرہ شبی کی وحشتیں اب کوئی دن کی بات ہے

خلوت جاں کے ماہتاب شام بخیر شب بخیر

*

میں بھی وفا سرشت ہوں پاس وفا تجھے بھی ہے

دونوں کھلی ہوئی کتاب ، شام بخیر شب بخیر

*

موسم ابر و باد سے اب جو ڈریں تو کس لیے

کھل کے برس چکا سحاب، شام بخیر شب بخیر

*

میری نظر ، میرا شعور، میری غزل میرا جنوں

سب کا تجھی سے انتساب، شام بخیر، شب بخیر

٭٭٭

۲۷

جن کی پرواز کے چرچے کبھی افلاک میں تھے

جن کی پرواز کے چرچے کبھی افلاک میں تھے

آنکھ جھپکی تھی کہ وہ عشز نشیں خاک میں تھے

*

جس پہ اب تہمت ِ شب رنگ کے آوازے ہیں

کتنے سورج تھے کہ دامنِ صد چاک میں تھے

*

جانے کس وادی بے ابر کی قمست ٹھہرے

ہائے وہ لوگ جو اس موسم سفاک میں تھے

*

جن سے دلداری جاناں کے قرینے یاد آئیں

ایسے تیور بھی مرے لہجہ بے باک میں تھے

*

زرد پتوں کی طرح خواب اڑتے پھرتے تھے

پھر بھی کچھ رنگ میرے دیدہ نمناک میں تھے

*

شہر ِ بے رنگ ترے لوگ گواہی دے گے

ہم سے خوش رنگ بھی تیرے خس و خاشاک میں تھے

٭٭٭

۲۸

ایک پل کا فاصلہ

ایک پل کا فاصلہ ہے

عشق اور آوارگی کے درمیاں بس ایک پل کا فاصلہ ہے

ایک پل کا فاصلہ ہے

شاخ گل پر شبنم وارفتہ کا پیہم نزول

حرف پیماں درمیان ِ جسم و جاں

منزل ِ دست ِ دعا بابِ قبول

ایک پل کا فاصلہ ہے

عشق اور آوارگی کے درمیاں بس ایک پل کا فاصلہ ہے

٭٭٭

۲۹

التجا

مرے شکاریو! امان چاہتا ہوں

بس اب سلامتی جاں کی حد تلک اڑان چاہتا ہوں

مرے شکاریو ! امان چاہتا ہوں

میں ایک بار پہلے بھی ہرے بھرے دنوں کی آرزو میں زیر دام آ چکا ہوں

مجھ کو بخش دو

میں اس سے پہلے بھی تو سایہ شجر کی جستجو میں اتنے زخم کھا چکا ہوں

مجھ کو بخش دو

مرے شکاریو۔۔۔۔ امان چاہتا ہوں میں

بس اب سلامتی جاں کی حد تلک اڑان چاہتا ہوں میں

بس ایک گھر زمین و آسمان کے درمیان چاہتا ہوں میں

مرے شکاریو امان چاہتا ہوں میں

٭٭٭

۳۰

دکھ اور طرح کے ہیں دعا اور طرح کی

دکھ اور طرح کے ہیں دعا اور طرح کی

اور دامن قاتل کی ہوا اور طرح کی

*

دیوار پہ لکھی ہوئی تحریر ہے کچھ اور

دیتی ہے خبر خلق ِ خدا اور طرح کی

*

کس دام اٹھائیں گے خریدار کہ اس بار

بازار میں ہے جنس ِ وفا اور طرح کی

*

بس اور کوئی دن کہ ذرا وقت ٹھہر جائے

صحراؤں سے آئے گی صدا اور طرح کی

*

ہم کوئے ملامت سے نکل آئے تو ہم کو

راس آئی نہ پھر آب و ہوا اور طرح کی

*

تعظیم کر اے جان معانی کے ترے پاس

ہم لائے ہیں سوغات ذرا اور طرح کی

٭٭٭

۳۱

یہ اب کھلا کہ کوئی بھی منظر مرا نہ تھا

یہ اب کھلا کہ کوئی بھی منظر مرا نہ تھا

میں جس میں رہ رہا تھا وہی گھر مرا نہ تھا

*

میں جس کو ایک عمر سنبھالے پھرا کیا

مٹی بتا رہی ہے وہ پیکر مرا نہ تھا

*

موج ہوائے شہر ِ مقدر جواب دے

دریا مرے نہ تھے کہ سمندر مرا نہ تھا

*

پھر بھی تو سنگسار کیا جا رہا ہوں میں

کہتے ہیں نام تک سر محضر مرا نہ تھا

*

سب لوگ اپنے اپنے قبیلوں کے ساتھ تھے

اک میں ہی تھا کہ کوئی بھی لشکر مرا نہ تھا

٭٭٭

۳۲

یہ معجزہ بھی کسی کی دعا کا لگتا ہے

یہ معجزہ بھی کسی کی دعا کا لگتا ہے

یہ شہر اب بھی اسی بے وفا کا لگتا ہے

*

یہ تیرے میرے چراغوں کی ضد جہاں سے چلی

وہیں کہیں سے علاقہ ہوا کا لگتا ہے

*

دل ان کے ساتھ مگر تیغ اور شخص کے ساتھ

یہ سلسہی بھی کچھ اہل ریا کا لگتا ہے

*

نئی گرہ نئے ناخن نئے مزاج کے قرض

مگر پیچ بہت ابتدا کا لگتا ہے

*

کہاں میں اور کہاں فیض نغمہ و آہنگ

کرشمہ سب در و بست ِ نوا کا لگتا ہے

٭٭٭

۳۳

امید و بیم کے محور سے ہٹ کے دیکھتے ہیں

امید و بیم کے محور سے ہٹ کے دیکھتے ہیں

ذرا سی دیر کو دنیا سے کٹ کے دیکھتے ہیں

*

بکھر چکے ہیں بہت باغ و دشت و دریا

اب اپنے حجرہ جاں میں سمٹ کے دیکھتے ہیں

*

تمام خانہ بدوشوں مین مشترک ہے یہ بات

سب اپنے گھروں کو پلٹ کے دیکھتے ہیں

*

پھر اس کے بعد جو ہونا ہے ہو رہے سر دست

بساط َ عافیت ِ جاں الٹ کے دیکھتے ہیں

*

وہی ہے خواب جسے مل کے سب نے دیکھا تھا

اب اپنے اپنے قبیلوں میں بٹ کے دیکھتے ہیں

*

سنا ہے کہ سبک ہو چلی ہے قیمت حرف

سو ہم بھی اب قد و قامت میں گھٹ کے دیکھتے ہیں

٭٭٭

۳۴

جیسا ہوں ویسا کیوں ہوں سمجھا سکتا تھا میں

جیسا ہوں ویسا کیوں ہوں سمجھا سکتا تھا میں

تم نے پوچھا ہوتا تو بتلا سکتا تھا میں

*

آسودہ رہنے کی خواہش مار گئی ورنہ

آگے اور بہت آگے تک جا سکتا تھا میں

*

چھوٹی موٹی ایک لہر ہی تھی میرے اندر

ایک لہر سے کیا طوفان اٹھا سکتا تھا میں

*

کہیں کہیں سے کچھ مصرعے ایک آدھ غزل

اس پونجی پر کتنا شور مچا سکتا تھا میں

*

جیسے سب لکھتے رہتے ہیں غزلیں، نظمیں گیت

ویسے لکھ لکھ کر انبار لگا سکتا تھا میں

٭٭٭

۳۵

میرے خدا میرے لفظ و بیاں میں ظاہر ہو

میرے خدا میرے لفظ و بیاں میں ظاہر ہو

اسی شکستہ و بستہ زباں میں ظاہر ہو

*

زمانہ دیکھے مرے حرف ِ باریاب کے رنگ

گل ِ مراد ِ ہنر دشت ِ جاں میں ظاہر ہو

*

میں سرخرو نظر آؤں ، کلام ہو کہ سکوت

تری عطا مرے نام و نشاں میں ظاہر ہو

*

مزہ تو جب ہے کہ اہل یقیں کا سر کمال

ملامت ِ سخنِ گمرہاں میں ظاہر ہو

*

گزشتگانِ محبت کا خواب گم گشتہ

عجب نہیں شب آئیندگاں میں ظاہر ہو

*

پس ِ حجاب ہے اک شہسوار ِ وادی نور

کسے خبر اسی عہد زیاں میں ظاہر ہو

٭٭٭

۳۶

انھیں بستیوں میں جیتے انھیں بستیوں میں مر رہتے

انھیں بستیوں میں جیتے انھیں بستیوں میں مر رہتے

یہ چاہتے تھے مگر کس کے نام پر رہتے

*

پیمبروں سے زمینیں وفا نہیں کرتیں

ہم ایسے کون خدا تھے کہ اپنے گھروں میں رہتے

*

پرندے جاتے نہ جاتے پلٹ کے گھر اپنے

پر اپنے ہم شجروں سے تو با خبر رہتے

*

بس اک خاک کا احسان ہے کہ خیر سے ہیں

وگرنہ صورت خاشاک دربدر رہتے

*

مرے کریم جو تیری رضا مگر اس بار

برس گزر گئے شاخوں کو بے ثمر رہتے

٭٭٭

۳۷

قلم جب درہم و دینار میں تولے گئے تھے

قلم جب درہم و دینار میں تولے گئے تھے

کہاں تک دل کی چنگاری ترے شعلے گئے تھے

*

فصیل شہر لب بستہ، گواہی دے کچھ لوگ

دہان ِ حلقہ زنجیر سے بولے گئے تھے

*

تمام آزاد آوازوں کے چہرے گرد ہو جائیں گے

فضاؤں میں کچھ ایسے زہر بھی گھولے گئے تھے

*

فساد ِ خوں سے سارا بدن تھا زخم زخم

سو نشتر سے نہیں شمشیر سے کھولے گئے تھے

*

وہ خاک پاک ہم اہل محبت کو ہے اکسیر

سر مقتل جہاں نیزوں پہ سر تولے گئے تھے

٭٭٭

۳۸

فریب کھا کے بھی اک منزل قرار میں ہیں

فریب کھا کے بھی اک منزل قرار میں ہیں

وہ اہل ہجر کے آسیب اعتبار میں ہیں

*

زمین جن کے لیے بوجھ تھی وہ عرش مزاج

نہ جانے کون سے موبر پہ کس مدار میں ہیں

*

پرانے درد ، پرانی محبتوں کے گلاب

جہاں بھی ہیں خس و خاشاک کے حصار میں ہیں

*

اڑائی تھی جو گروہ ِ ہوس نہاد نے دھول

تمام منزلیں اب تک اُسی غبار میں ہیں

*

نہ جانے کون سی آنکھیں وہ‌خواب دیکھیں گی

وہ ایک خواب کہ ہم جس کے انتظار میں ہیں

*

چراغ کون سے بجھنے ہیں کن کو رہنا ہے

یہ فیصلے ابھی اوروں کے اختیار میں ہیں

٭٭٭

۳۹

جہاں بھی رہنا ہمیں یہی اک خیال رکھنا

زمین فردا پہ سنگ ِ بنیاد ِ حال رکھنا

*

حضور ِ اہل کمال ِ فن سجدہ ریز رہنا

نگاہ میں طرہ کلاہ ِ کمال رکھنا

*

وہ جس نے بخشی ہے بے نواؤں کو نعمت حرف

وہی سکھا دے گا حرف کو بے مثال رکھنا

*

اندھیری راتوں میں گریہ بے سبب کی توفیق

میسر آئے تو غم کی دولت سنبھال رکھنا

٭٭٭

سورج تھے چراغ ِ کف جادہ میں نرن آئے

سورج تھے چراغ ِ کف جادہ میں نرن آئے

ہم آیسے سمندر تھے کہ دریا میں نظر آئے

*

دنیا تھی رگ و پے میں سمائی ہوئی ایسی

ضد تھی کہ سبھی کچھ اسی دنیا میں نظر آئے

*

سرمایہ جاں لوگ۔ متاع دو جہاں لوگ

دیکھا تو سبھی ایل تماشہ میں نظر آئے

*

خود دامن یوسف کی تمنا تھی کہ ہو چاک

اب کے وہ ہنر دست زلیخا میں نظر آئے

٭٭٭

۴۰

آپ کی شان میں نازل ہونے والی آیات

آپ کی فضیلت اورعظیم الشان منزلت کے بارے میں جوآیات نازل ہوئی ہیں ہم ان میں سے ذیل میں بعض آیات پیش کرتے ہیں :

۱۔اللہ کا ارشاد ہے :''انماانت منذرولکل قوم هاد'' ۔(۱)

''آپ کہہ دیجئے کہ میں صرف ڈرانے والا ہوں اور ہر قوم کے لئے ایک ہادی اور رہبر ہے ''۔

طبری نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہو ئی تو نبی نے اپنا دست مبارک اپنے سینہ پر رکھ کر فرمایا:''اناالمنذرولکل قوم هاد '' ،اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے علی کے کندھے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:''انت الہاد بک یھتد المھتدون بعد''۔(۲)

''آپ ہا دی ہیں اور میرے بعد ہدایت پانے والے تجھ سے ہدایت پا ئیں گے ''۔

۲۔خداوند عالم کا فرمان ہے :''وتعیهااذن واعیة'' ۔(۳)

''تاکہ اسے تمہارے لئے نصیحت بنائیںاور محفوظ رکھنے والے کان سُن لیں''۔

امیر المو منین حضرت علی اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ مجھ سے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسلام نے فرمایا:

''سألتُ رَبِّیْ اَن یَجْعَلَهَااذُنُکَ یاعلیُّ،فماسمعتُ مِنْ رسُولِ اللّٰهِ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شَیْئاًفنَسِیْتُهُ '' ۔(۴)

''میں نے پروردگار عالم سے دعا کی کہ وہ کان تمہارا ہے لہٰذا میں نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے جو کچھ سنا ہے اسے کبھی نہیں بھولا''۔

____________________

۱۔سورئہ رعد، آیت ۷۔

۲۔تفسیر طبری ،جلد ۱۳،صفحہ ۷۲۔اور تفسیر رازی میں بھی تقریباً یہی مطلب درج ہے ۔کنز العمال ،جلد ۶،صفحہ ۱۵۷ ۔ تفسیر حقائق، صفحہ ۴۲۔مستدرک حاکم، جلد ۳، صفحہ ۱۲۹۔

۳۔سورئہ حاقہ، آیت ۱۲۔

۴۔کنزالعمال ،جلد ۶،صفحہ ۱۰۸۔اسباب النزول ِ واحدی، صفحہ ۳۲۹۔تفسیر طبری، جلد ۲۹،صفحہ ۳۵۔تفسیر کشاف، جلد ۴، صفحہ ۶۰۔در منثور ،جلد ۸،صفحہ ۲۶۷۔

۴۱

۳۔خداوند عالم کا فرمان ہے: ( الَّذِینَ یُنفِقُونَ َمْوَالَهُمْ بِاللَّیْلِ وَالنَّهَار ِسِرًّا وَعَلاَنِیَةً فَلَهُمْ َأجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلاَخَوْف عَلَیْهِمْ وَلاَهُمْ یَحْزَنُونَ ) ۔(۱)

''جو لوگ اپنے اموال کو راہ خدا میں رات میں ،دن میں خا مو شی سے اور علی الاعلان خرچ کرتے ہیں اُن کے لئے پیش پروردگار اجر بھی ہے اور انھیں نہ کو ئی خوف ہو گا اور نہ حزن و ملال ''۔

امام کے پاس چار درہم تھے جن میں سے آپ نے ایک درہم رات میں خرچ کیا ،ایک درہم دن میں ،ایک درہم مخفی طور پر اور ایک درہم علی الاعلان خرچ کیا ۔تو رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آپ سے فرمایا : آپ نے ایساکیوں کیا ہے ؟مولائے کا ئنات نے جواب دیا:میں وعدہ ٔ پروردگار کامستحق بنناچاہتا ہوں اسی لئے میں نے ایسا کیا ''اس وقت یہ آیت نازل ہو ئی۔(۲)

۴۔خدا وند عالم کا ارشاد ہے: ( إنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُوْلَئِکَ هُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّةِ ) ۔(۳)

''اور بیشک جو لوگ ایمان لائے ہیںاور انھوں نے نیک اعمال کئے ہیںوہ بہترین خلائق ہیں ''۔

ابن عساکر نے جابر بن عبد اللہ سے روایت کی ہے : ہم نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ علی وہاں پر تشریف لائے تو رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:''وِالَّذِیْ نَفْسِيْ بِیَدِهِ اِنَّ هٰذَا وَشِیْعَتَهُ هُمُ الْفَائِزُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ '' ۔''خدا کی قسم جس کے قبضہ ٔ قدرت میں میری جان ہے بیشک یہ اور ان کے شیعہ قیامت کے دن کامیاب ہیں ''۔

اسی موقع پر یہ آیۂ کریمہ نازل ہو ئی ،اس کے بعد سے جب بھی مو لائے کا ئنات اصحاب کے پاس آتے تھے تو نبی کے یہ اصحاب کہا کرتے تھے :خیر البریہ آئے ہیں۔(۴)

۵۔خداوند عالم کا فرمان ہے :( فَاسْأَلُوا َهْلَ الذِّکْرِ ِإنْ کُنْتُمْ لاَتَعْلَمُونَ ) ۔(۵)

____________________

۱۔سورئہ بقرہ ،آیت ۲۷۴۔

۲۔اسد الغابہ، جلد ۴،صفحہ ۲۵،صواعق المحرقہ، صفحہ ۷۸۔اسباب النزول مؤلف واحدی، صفحہ ۶۴۔

۳۔سورئہ بینہ، آیت ۷۔

۴۔در المنثور ''اسی آیت کی تفسیر میں ''جلد ۸ ،صفحہ ۳۸۹۔تفسیر طبری، جلد ۳۰،صفحہ ۱۷۔صواعق المحرقہ ،صفحہ ۹۶۔

۵۔سورئہ نحل، آیت ۴۳۔

۴۲

''اگر تم نہیں جانتے ہو تو جاننے والوں سے دریافت کرو''۔

طبری نے جابر جعفی سے نقل کیا ہے :جب یہ آیت نازل ہو ئی تو حضرت علی نے فرمایا :''ہم اہل ذکر ہیں ''۔(۱)

۶۔خداوند عالم کا فرمان ہے: ( یَاَیُّهَاالرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ ِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ وَإنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَابَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاﷲُ یَعْصِمُکَ مِنْ النَّاسِ ِإنَّ اﷲَ لاَیَهْدِ الْقَوْمَ الْکَافِرِین ) ۔(۲)

''اے پیغمبر! آپ اس حکم کو پہنچا دیں جوآپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گو یا اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا بیشک اللہ کافروں کی ہدایت نہیں کرتا ہے ''۔

جب رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حجة الوداع سے واپس تشریف لا رہے تھے تو غدیر خم کے میدان میں یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اپنے بعد حضرت علی کواپنا جانشین معین کرنے کا حکم دیا گیا اس وقت رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کو اپنے بعد اس امت کا خلیفہ و جا نشین معین فرمایااور آپ نے اپنا مشہور قول ارشاد فرمایا :''من کنت مولاه فعلی مولاه ،اللّهم وال من والاه،وعادِمَن عاداه، وانصرمَن نصره،واخذُلْ مَنْ خَذَلَهُ'

'' جس کا میں مو لا ہوں اس کے یہ علی بھی مو لا ہیںخدا یا جو اسے دو ست رکھے تو اسے دوست رکھ اورجو اس سے دشمنی کرے اسے دشمن رکھ اور جو اس کی مدد کرے اس کی مدد کر جو اسے چھوڑ دے اسے ذلیل و رسوا کر '' ۔

عمر نے کھڑے ہو کر کہا :مبارک ہو اے علی بن ابی طالب آپ آج میرے اورہر مومن اور مومنہ کے مولا ہوگئے ہیں ' '۔(۳)

۷۔خداوند عالم کا ارشاد ہے: ( الْیَوْمَ أکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِ وَ رَضِیتُ لَکُمْ الْإِسْلاَمَ دِینًا ) ۔(۴)

____________________

۱۔تفسیر طبری ،جلد ۸ ،صفحہ ۱۴۵۔ ۲۔سورئہ مائدہ ،آیت ۶۷۔

۳۔ا سباب النزول، صفحہ ۱۵۰۔تاریخ بغداد، جلد ۸،صفحہ ۲۹۰۔تفسیر رازی، جلد ۴،صفحہ ۴۰۱۔در منثور، جلد ۶،صفحہ ۱۱۷۔

۴۔سورئہ مائدہ ،آیت ۳

۴۳

''آج میں نے تمہارے لئے دین کو کا مل کردیاہے اوراپنی نعمتوںکو تمام کردیاہے اورتمہارے لئے دین اسلام کو پسندیدہ بنا دیا ہے''۔

یہ آیت ۱۸ ذی الحجہ ۱۰ ھ کواس وقت نازل ہو ئی جب رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے بعد کیلئے حضرت علی کو خلیفہ معین فرمایااور آنحضرت نے اس آیت کے نازل ہونے کے بعد فرمایا :''اللّٰه اکبر علیٰ اِکمالِ الدِّین،وَاِتْمَامِ النِّعْمَةِ،ورضِیَ الرَّبِّ بِرِسَالَتِ وَالْوِلایَةِ لِعَلِى ْبنِ اَبِیْ طَالِب'' ۔(۱)

''اللہ سب سے بڑا ہے دین کا مل ہو گیا ،نعمتیں تمام ہو گئیں ،اور پروردگار میری رسالت اور علی بن ابی طالب کی ولایت سے راضی ہو گیا ''۔

جلیل القدر صحابی جناب ابوذر سے روایت ہے :میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے ساتھ مسجد میں نمازظہر پڑھ رہا تھا تو ایک سائل نے مسجد میں آکر سوال کیا لیکن کسی نے اس کو کچھ نہیں دیا تو سائل نے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر کہا :خدا یا گواہ رہنا کہ میں نے مسجد رسول میں آکر سوال کیا لیکن مجھے کسی نے کچھ نہیں دیا ، حضرت علی نے رکوع کی حالت میں اپنے داہنے ہاتھ کی انگلی سے انگوٹھی اتارنے کا اشارہ کیاسائل نے آگے بڑھ کر نبی کے سامنے ہاتھ سے انگوٹھی نکال لی ،اس وقت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسلام نے فرمایا :خدایا !میرے بھا ئی مو سیٰ نے تجھ سے یوں سوال کیا :( رَبِّ اشْرَحْ لِى صَدْرِ وَیَسِّرْلى أ َمْرِى وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسَانِی یَفْقَهُوا قَوْلِى وَاجْعَلْ لِى وَزِیرًامِنْ أَهْلِ هَارُونَ َأخى اشْدُدْ بِهِ َزْرِى وَأَشْرِکْهُ فِى َمْرِی ) ۔(۲)

''خدایا ! میرے سینہ کو کشادہ کردے ،میرے کام کو آسان کردے ، اور میری زبان کی گرہ کو کھول دے تاکہ یہ لوگ میری بات سمجھ سکیں ،اورمیرے اہل میںسے میرا وزیر قرار دے ،ہارون کو جو میرا بھا ئی بھی ہے اس سے میری پشت کو مضبوط کردے اسے میرے کام میں شریک کردے ''تونے قرآن ناطق میں نازل کیا: ( سَنَشُدُّ عَضُدَکَ بِأَخِیکَ وَنَجْعَلُ لَکُمَا سُلْطَانًا ) ۔(۳)

'' ہم تمہارے بازئووں کو تمہارے بھا ئی سے مضبوط کر دیں گے ،اور تمہارے لئے ایسا غلبہ قراردیں

____________________

۱۔دلائل الصدق ،جلد ۲،صفحہ ۱۵۲۔

۲۔سورئہ طہ، آیت ۲۵۔۳۲۔

۳۔سورئہ قصص، آیت ۳۵۔

۴۴

گے کہ یہ لوگ تم تک پہنچ ہی نہ سکیں گے ''۔

''خدایا میں تیرا نبی محمد اور تیرا منتخب کردہ ہوں میرے سینہ کو کشادہ کردے ،میرے کام کو آسان کردے ،میرے اہل میںسے علی کو میرا وزیر قرار دے اور ان کے ذریعہ میری پشت کو مضبوط کردے ' ' ۔

جناب ابوذر کا کہنا ہے :خدا کی قسم یہ کلمات ابھی ختم نہیں ہونے پائے تھے کہ جبرئیل خدا کا یہ پیغام لیکر نازل ہوئے ،اے رسول پڑھئے: ( اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰهُ وَرَسُوْلُهُ ) (۱)

اس روایت نے عام ولایت کو اللہ ،رسول اسلام اور امیر المو منین میں محصور کر دیا ہے ،آیت میں صیغہ ٔ جمع تعظیم و تکریم کے لئے آیا ہے ،جو جملۂ اسمیہ کی طرف مضاف ہوا ہے اور اس کولفظ اِنَّما کے ذریعہ محصور کردیا ہے ،حالانکہ ان کے لئے عمومی ولایت کی تا کید کی گئی ہے اور حسان بن ثابت نے اس آیت کے امام کی شان میں نازل ہونے کو یوں نظم کیا ہے :

مَن ذَابِخَاتِمِهِ تَصَدَّقَ رَاکِعاً

وَأَسَرَّهَافِىْ نَفْسِهِ اِسْرارا(۲)

''علی اس ذات کا نام ہے جس نے حالت رکوع میں زکات دی اور یہ صدقہ آپ نے نہایت مخفیانہ انداز میں دیا''۔

اہل بیت کے سلسلہ میں نازل ہونے والی آیات

قرآن کریم میں اہل بیت کی شان میں متعدد آیات نازل ہو ئی ہیں جن میں ان کے سید و آقا امیر المو منین بھی شامل ہیں اُن میں سے بعض آیات یہ ہیں :

۱۔خداوند عالم کا ارشاد ہے: ( ذَلِکَ الَّذِی یُبَشِّرُاﷲُ عِبَادَهُ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ قُلْ لاَأَسْأَلُکُمْ عَلَیْهِ أَجْرًاِلاَّالْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبَی وَمَنْ یَقْتَرِفْ حَسَنَةً نَزِدْ لَهُ فِیهَاحُسْنًاِإنَّ اﷲَ غَفُورشَکُور ) ۔(۳)

____________________

۱۔تفسیر رازی ،جلد ۱۲،صفحہ ۲۶،نورالابصار ،صفحہ ۱۷۰۔تفسیر طبری، جلد ۶،صفحہ ۱۸۶۔

۲۔در منثور، جلد ۳،صفحہ ۱۰۶۔کشاف، جلد ۱،صفحہ ۶۹۲۔ذخائر العقبیٰ ،صفحہ ۱۰۲۔مجمع الزوائد ،جلد ۷،صفحہ ۱۷۔کنز العمال، جلد ۷صفحہ ۳۰۵۔

۳۔سورئہ شوریٰ آیت ۲۳۔

۴۵

''یہی وہ فضل عظیم ہے جس کی بشارت پروردگار اپنے بندوں کو دیتا ہے جنھوں نے ایمان اختیار کیا ہے اور نیک اعمال کئے ہیں ،تو آپ کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت کا کو ئی اجر نہیں چا ہتا علاوہ اس کے کہ میرے اقرباء سے محبت کرو اور جو شخص بھی کو ئی نیکی حاصل کرے گا ہم اس کی نیکی میں اضافہ کر دیں گے کہ بیشک اللہ بہت زیادہ بخشنے والا اور قدر داں ہے ''۔

تمام مفسرین اور راویوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اللہ نے اپنے بندوں پر جن اہل بیت کی محبت واجب کی ہے ان سے مراد علی ،فاطمہ ،حسن اور حسین علیہم السلام ہیں ،اور آیت میں اقتراف الحسنہ سے مراد اِن ہی کی محبت اور ولایت ہے اور اس سلسلہ میں یہاں پردوسری روایات بھی بیان کریں گے جنھوں نے اس محبت و مؤدت کی وجہ بیان کی ہے :

ابن عباس سے مروی ہے :جب یہ آیت نازل ہو ئی تو سوال کیا گیا :یارسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ آپ کے وہ قرابتدارکو ن ہیں جن کی آپ نے محبت ہم پر واجب قرار دی ہے؟

آنحضرت نے فرمایا :''علی ،فاطمہ اور ان کے دونوں بیٹے ''۔(۱)

جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے :ایک اعرابی نے نبی کی خدمت میں آکر عرض کیا :مجھے مسلمان بنا دیجئے تو آپ نے فرمایا :'' تَشْهَدُ اَنْ لَااِلٰهَ اِلَّااللّٰهُ وَحْدَهُ لَاشَرِیْکَ لَهُ،وَاَنَّ مُحَمَّداًعَبْدُهُ وَرَسُوْلُهُ'' ''تم خدا کی وحدانیت اور محمد کی رسالت کی گو اہی دو میں قرابتداروں کی محبت کے علاوہ اور کچھ نہیں چا ہتا ''۔

اعرابی نے عرض کیا :مجھ سے اس کی اجرت طلب کر لیجئے ؟رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :''ِلا َّالْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبَی'' ۔

اعرابی نے کہا :میرے قرابتدار یا آپ کے قرابتدار ؟فرمایا :'' میرے قرابتدار ''۔اعرابی نے کہا :

میں آپ کے دست مبارک پر بیعت کرتا ہوں پس جو آپ اور آپ کے قرابتداروں سے محبت نہ کرے اس

____________________

۱۔مجمع الزوائد، جلد ۷، صفحہ ۱۰۳۔ذخائر العقبیٰ، صفحہ ۲۵۔نور الابصار ،صفحہ ۱۰۱۔در المنثور، جلد ۷،صفحہ ۳۴۸۔

۴۶

پر اللہ کی لعنت ہے ۔۔۔نبی نے فوراً فرمایا :''آمین ''۔(۱)

۲۔خداوند عالم کا فرمان ہے :(فَمَنْ حَاجَّکَ فِیهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَائَکَ مِنْ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْانَدْعُ أَبْنَائَنَاوَأَبْنَائَکُمْ وَنِسَائَنَاوَنِسَائَکُمْ وَأَنْفُسَنَاوَأَنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَةَ اﷲِ عَلَی الْکَاذِبِینَ(۲)

''پیغمبر علم آجانے کے بعد جو لوگ تم سے کٹ حجتی کریں ان سے کہہ دیجئے کہ آئو ہم لوگ اپنے اپنے فرزند،اپنی اپنی عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں کو بلائیں اور پھر خدا کی بارگاہ میں دعا کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دیں ''۔

مفسرین قرآن اور راویان حدیث کا اس بات پر اجماع ہے کہ یہ آیہ ٔ کریمہ اہل بیت ِ نبی کی شان میں نازل ہو ئی ہے ،آیت میں ابنائ(بیٹوں) سے مراد امام حسن اور امام حسین ہیںجوسبط رحمت اور

امام ہدایت ہیں ،نساء ''عورتوں '' سے مراد فاطمہ زہرا دختر رسول سیدئہ نساء العالمین ہیں اور انفسنا سے مراد سید عترت امام امیر المو منین ہیں ۔(۳)

۳۔خداوند عالم کا ارشاد ہے: ( هَلْ اَتیٰ عَلَی الاِنْسَانِ ) کامل سورہ ۔

مفسرین اور راویوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ سورہ اہل بیت ِنبوت کی شان میں نازل ہوا ہے۔(۴)

۴۔خداوند عالم کا فرمان ہے: ( إنَّمَایُرِیدُ اﷲُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیرًا ) ۔(۵)

____________________

۱۔حلیة الاولیائ، جلد ۳،صفحہ ۱۰۲۔

۲۔سورئہ آل عمران، آیت ۶۱۔

۳۔تفسیر رازی، جلد ۲،صفحہ ۶۹۹۔تفسیر بیضاوی ،صفحہ ۷۶۔تفسیر کشّاف، جلد ۱،صفحہ۴۹۔تفسیر روح البیان، جلد ۱،صفحہ ۴۵۷۔تفسیر جلالین، جلد ۱،صفحہ ۳۵۔صحیح مسلم، جلد ۲،صفحہ ۴۷۔صحیح ترمذی ،جلد ۲،صفحہ ۱۶۶۔سنن بہیقی ،جلد ۷،صفحہ ۶۳۔مسند احمد بن حنبل، جلد ۱،صفحہ ۱۸۵۔مصابیح السنّة، بغوی، جلد ۲،صفحہ ۲۰۱۔سیر اعلام النبلائ، جلد ۳،صفحہ ۱۹۳۔

۴۔تفسیر رازی، جلد ۱۰، صفحہ ۳۴۳۔اسباب النزول ، واحدی صفحہ۱۳۳۔ روح البیان ،جلد ۶،صفحہ ۵۴۶۔ینابیع المؤدة ،جلد ۱،صفحہ ۹۳۔ریاض النضرہ ،جلد ۲،صفحہ ۲۲۷۔امتاع الاسماع ،صفحہ ۵۰۲۔

۵۔سورئہ احزاب، آیت ۳۳۔

۴۷

''بس اللہ کا ارادہ یہ ہے اے اہل بیت کہ تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے ''۔

مفسرین اور راویوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ یہ آیت پانچوں اصحاب کساء کی شان میں نازل ہو ئی ہے(۱) ان میں سرکار دو عالم رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ،ان کے جا نشین امام امیر المو منین ،جگر گوشۂ رسول سیدئہ نسا ء العالمین جن کے راضی ہونے سے خدا راضی ہوتا ہے اور جن کے غضب کرنے سے خدا غضب کرتا ہے ، ان کے دونوں پھول حسن و حسین جوانان جنت کے سردار ہیں ،اور اس فضیلت میں نہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خاندان میں سے اور نہ ہی بڑے بڑے اصحاب کے خاندان میں سے ان کا کو ئی شریک ہے۔ اس بات کی صحاح کی کچھ روایات بھی تا ئید کر تی ہیںجن میں سے کچھ روایات مندرجہ ذیل ہیں :

۱۔ام المو منین ام سلمہ کہتی ہیں :یہ آیت میرے گھر میں نازل ہو ئی جبکہ اس میں فاطمہ ،حسن، حسین اور علی علیہم السلام مو جود تھے ،آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اُن پر کساء یما نی اڑھاکر فرمایا :اللَّھُمَّ اَھْلُ بَیْتِیْ فَاذْھِبْ عنْھمْ الرِّجْسَ وَطَھِّرْھُمْ تَطْہِیرًا''''خدایا !یہ میرے اہل بیت ہیں ان سے رجس کو دور رکھ اور ان کو اس طرح پاک رکھ جو پاکیزہ رکھنے کا حق ہے ''آپ نے اس جملہ کی اپنی زبان مبارک سے کئی مرتبہ تکرار فر ما ئی ام سلمہ سنتی اور دیکھتی رہیں،ام سلمہ نے عرض کیا :یارسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کیا میں بھی آپ کے ساتھ چادر میں آسکتی ہوں ؟اور آپ نے چادر میں داخل ہونے کیلئے چا در اٹھائی تو رسول نے چادر کھینچ لی اور فر مایا : ''اِنَّکِ عَلیٰ خَیْر''''تم خیر پر ہو ''۔(۲)

۲۔ابن عباس سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو سات مہینے تک ہر نماز کے وقت پانچ مرتبہ حضرت علی بن ابی طالب کے دروازے پر آکر یہ فرماتے سناہے :''السَّلامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَةُ اللّٰهِ وَ

____________________

۱۔تفسیررازی، جلد ۶، صفحہ ۷۸۳۔صحیح مسلم، جلد ۲،صفحہ ۳۳۱۔الخصائص الکبریٰ ،جلد ۲،صفحہ ۲۶۴۔ریاض النضرہ ،جلد ۲،صفحہ ۱۸۸۔تفسیر ابن جریر، جلد ۲۲،صفحہ ۵۔مسند احمد بن حنبل، جلد ۴،صفحہ ۱۰۷۔سنن بیہقی ،جلد ۲،صفحہ ۱۵۰۔مشکل الآثار ،جلد ۱،صفحہ ۳۳۴۔خصائص النسائی صفحہ ۳۳۔

یہ بات شایان ذکر ہے کہ ابن جریر نے اپنی تفسیر میں۱۵،روایات میں مختلف اسناد کے ساتھ نقل کیا ہے کہ یہ آیت اہل بیت علیہم السلام کی شان میں نازل ہو ئی ہے ۔

۲۔مستدرک حاکم، جلد ۲،صفحہ ۴۱۶۔اسدالغابہ، جلد ۵،صفحہ ۵۲۱۔

۴۸

بَرَکَاتُهُ اَهْلَ الْبَیْتِ: ( إنَّمَایُرِیدُ اﷲُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیرًا ) ، الصَّلَاةُ یَرْحَمُکُمُ اللّٰهُ''

'' اے اہل بیت تم پر سلام اور اللہ کی رحمت وبرکت ہو !''بس اللہ کا ارادہ یہ ہے اے اہل بیت کہ تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے''،نماز کا وقت ہے اللہ تم پر رحم کرے''آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہر روز پانچ مرتبہ یہی فرماتے۔(۱)

۳۔ابو برزہ سے روایت ہے :میں نے سات مہینے تک رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمراہ نماز ادا کی ہے جب بھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بیت الشرف سے باہر تشریف لاتے تو حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہاکے دروازے پر جاتے اور فرماتے :''السَّلامُ عَلَیْکُمْ : ( إنَّمَایُرِیدُ اﷲُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمْ الرِّجسَ أَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیرًا ) ۔(۲)

''تم پر سلام ہو:''بس اللہ کا ارادہ یہ ہے اے اہل بیت کہ تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے ''

بیشک رسول اللہ کے اس فرمان کا مطلب امت کی ہدایت اور اُن اہل بیت کے اتباع کوواجب قرار دینا ہے جو امت کو ان کی دنیوی اور اُخروی زندگی میں اُ ن کے راستہ میں نفع پہنچانے کیلئے ان کی ہدایت کرتے ہیں۔

امام اور نیک اصحاب کے بارے میں نازل ہو نے والی آیات

قرآن کریم کی کچھ آیات امام اور اسلام کے کچھ بزرگ افراد اور نیک و صالح اصحاب کے سلسلہ میں نازل ہو ئی ہیں ،جن میں سے بعض آیات یہ ہیں :

۱۔خداوند عالم کا ارشاد ہے: ( وَعَلَی الْأَعْرَافِ رِجَال یَعْرِفُونَ کُلًّابِسِیمَاهُم ) ۔(۳)

''اور اعراف پر کچھ لوگ ہوں گے جو سب کو ان کی نشانیوں سے پہچان لیں گے ''۔

____________________

۱۔در منثور ،جلد ۵،صفحہ ۱۱۹۔

۲۔ذخائر عقبیٰ ،صفحہ ۲۴۔

۳۔سورئہ اعراف، آیت ۴۶۔

۴۹

ابن عباس سے روایت ہے :اعراف صراط کی وہ بلند جگہ ہے جس پر عباس ،حمزہ ،علی بن ابی طالب اور جعفر طیار ذو الجناحین کھڑے ہوں گے جو اپنے محبوں کو ان کے چہروں کی نورانیت اور اپنے دشمنوں کو اُن کے چہروں کی تاریکی کی بنا پر پہچان لیں گے ۔(۱)

۲۔خداوند عالم کا فرمان ہے: ( مِنْ الْمُؤْمِنِینَ رِجَال صَدَقُوامَا عَاهَدُوا اﷲَ عَلَیْهِ فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَی نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ یَنْتَظِرُوَمَابَدَّلُوا تَبْدِیلًا ) ۔(۲)

''مو منین میں ایسے بھی مرد میدان ہیں جنھوں نے اللہ سے کئے وعدہ کو سچ کر دکھایا ہے ان میں بعض اپنا وقت پورا کر چکے ہیں اور بعض اپنے وقت کا انتظار کر رہے ہیں اور اُن لوگوں نے اپنی بات میں کو ئی تبدیلی نہیں پیدا کی ہے ''۔

اس آیت کے متعلق امیر المو منین سے اس وقت سوال کیا گیا جب آپ منبر پر تشریف فر ما تھے تو آپ نے فرمایا:''خدایا ! بخش دے یہ آیت میرے ، میرے چچا حمزہ اور میرے چچا زاد بھا ئی عبیدہ بن حارث کے بارے میں نازل ہو ئی ہے ،عبیدہ جنگ بدر کے دن شہید ہوئے ،حمزہ احد کے معرکہ میں شہید کر دئے گئے لیکن میں اس شقی کے انتظار میں ہوں جو میری اس ''ڈاڑھی اور سر مبارک کوخون سے رنگین کر دے گا ''۔(۳)

آپ کے حق اور مخالفین کی مذمت میں نازل ہونے والی آیات

قرآن کریم کی کچھ آیات آپ کے حق اور اُن مخالفین کی مذمت میں نازل ہو ئی ہیں جنھوں نے آپ کے سلسلہ میں مروی روایات اور فضائل سے چشم پوشی کی ہے :

۱۔خداوند عالم کا فرمان ہے: ( أجَعَلْتُمْ سِقَایَةَ الْحَاجِّ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ کَمَنْ آمَنَ بِاﷲِ وَالْیَوْمِ الْآخِر ) ۔(۴)

''کیا تم نے حاجیوں کے پانی پلانے اور مسجد الحرام کی آبا دی کو اس جیسا سمجھ لیا ہے جو اللہ اورآخرت

____________________

۱۔صواعق محرقہ، صفحہ ۱۰۱۔

۲۔سورئہ احزاب ،آیت ۲۳۔

۳۔صواعق محرقہ ،صفحہ ۸۰۔نورالابصار، صفحہ ۸۰۔

۴۔سورئہ برائت ،آیت ۱۹۔

۵۰

پر ایمان رکھتا ہے اور راہ خدا میں جہاد کرتا ہے ہر گز یہ دونوں اللہ کے نزدیک برابر نہیں ہو سکتے اور اللہ ظالم قوم کی ہدایت نہیں کر تا ہے ''۔

یہ آیت امیر المو منین کی شان میں اس وقت نازل ہو ئی جب عباس اور طلحہ بن شیبہ بڑے فخر کے ساتھ یہ بیان کر رہے تھے ۔طلحہ نے کہا :میں بیت اللہ الحرام کا مالک ہوں ،میرے ہی پاس اس کی کنجی ہے اور میرے ہی پاس اس کے کپڑے ہیں ۔عباس نے کہا :میںاس کا سقّہ اور اس کے امور کے سلسلہ میں قیام کرنے والا ہوں ۔امام نے فرمایا :''ماادری ماتقولون ؟لقدْ صلّیتُ الیٰ القِبْلَةِ سِتَّةَ اَشْھُرقَبْلَ النَّاسِ،واَنا صاحب الجہاد ''۔''مجھے نہیں معلوم تم کیا کہہ رہے ہو ؟میں نے لوگوں سے چھ مہینے پہلے قبلہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھی ہے اور میں صاحب جہاد ہو ں ''اس وقت یہ آیت نازل ہو ئی ۔(۱)

۲۔خدا وند عالم کا فرمان ہے: ( أفَمَنْ کَانَ مُؤْمِنًاکَمَنْ کَانَ فَاسِقًالَایَسْتَوُون ) ۔(۲)

''کیا وہ شخص جو صاحب ایمان ہے اس کے مثل ہو جائے گاجو فاسق ہے ہر گز نہیں دونوں برابر نہیں ہو سکتے ''۔

یہ آیت امیر المو منین اور ولید بن عقبہ بن ابی معیط کے بارے میں نازل ہو ئی ہے جب وہ اس نے امام پر فخر و مباہات کرتے ہوئے کہا :میں آپ سے زیادہ خوش بیان ہوں ،بہترین جنگجو ہوں،اور آپ سے بہتر دشمنوں کو پسپا کر نے والا ہوں ''اس وقت امام نے اس سے فرمایا :'' اسکُتْ، فَاِنَّکَ فَاسِق '' ''خاموش رہ بیشک تو فاسق ہے ''،اس وقت دونوں کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ۔(۳)

____________________

۱۔تفسیر طبری ،جلد ۱۰،صفحہ ۶۸،تفسیر رازی، جلد ۱۶،صفحہ ۱۱۔در منثور،جلد ۴،صفحہ ۱۴۶۔اسباب النزول، مؤلف واحدی ،صفحہ ۱۸۲۔

۲۔سورئہ سجدہ، آیت ۱۸۔

۳۔تفسیر طبری ،جلد ۲۱، صفحہ ۶۸۔اسباب نزول واحدی ،صفحہ ۲۶۳۔تاریخ بغداد، جلد ۱۳،صفحہ ۳۲۱۔ریاض النضرہ ،جلد ۲، صفحہ ۲۰۶۔

۵۱

امام روایات کی رو شنی میں

صحاح اور سنن جیسے مصادر امام کے متعلق نبی سے مروی روایات سے پُر ہیں جو اسلامی عدالت کے قائد و رہبر امام کے فضائل کا قصیدہ پڑھتی ہیں اور اسلامی معاشرہ میں ان کے مقام کو بلند کرتی ہیں ۔

احادیث کی کثرت اور راویوں کے درمیان اُ ن کی شہرت میں غور کرنے والا پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس بلند مقصد سے آگاہ ہو سکتا ہے جو امام کی مر کزیت اور ان کے خلیفہ ہونے کی نشاندہی کرتا ہے تاکہ اس کے ذریعہ نبوت ہمیشہ کے لئے باقی رہے اور وہ امت کی مشکلات حل کر سکے ،اُ ن کے امور کی اصلاح کر سکے اور اُن کو ایسے راستہ پر چلائے جس میں کسی طرح کی گمرا ہی کا امکان نہ ہو نیز امت مسلمہ پوری دنیا کے لئے نمونہ ٔ عمل بن سکے ۔

بہر حال جب ہم امام کی فضیلت کے سلسلہ میں روایات پر نظر ڈالتے ہیں تو ہم یہ دیکھتے ہیں کہ روایات کا ایک گروہ آپ کی ذات سے مخصوص ہے ،روایات کا دوسرا طائفہ اہل بیت کے فضائل پر مشتمل ہے جس میں لازمی طور آپ بھی شامل ہیں چونکہ آپ عترت کے سید و آقا ہیں اور ان کے علم کے منارے ہیں ہم اس سلسلہ میں ذیل میں چند روایات پیش کرتے ہیں :

پہلا دستہ

یہ روایات تعظیم و تکریم کی متعددصورتوں پر مشتمل ہیں اور امام فضائل کا قصیدہ پڑھتی ہوئی نظر آتی ہیں،ملاحظہ کیجئے:

نبی کے نزدیک آپ کا مقام و مرتبہ

امام لوگوں میں سب سے زیادہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نزدیک تھے ،ان میں سب سے زیادہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے قربت رکھتے تھے ،آپ ابو سبطین ،رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے شہر علم کا دروازہ ،آپ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سب سے زیادہ اخلاص رکھتے تھے ،احادیث کی ایک بڑی تعداد رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل کی گئی ہے جو آپ کی محبت و مودت کی گہرا ئی پر دلالت کرتی ہے اس میں سے کچھ احادیث مندرجہ ذیل ہیں :

۵۲

۱۔امام نفس نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

آیہ ٔ مباہلہ میں صاف طور پر یہ بات واضح ہے کہ بیشک امام نفس نبی ہیں ،ہم گذشتہ بحثوں میں اس بات کی طرف اشارہ کر چکے ہیں اور یہ بھی بیان کر چکے ہیں کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خود یہ اعلان فرمادیا تھا کہ امام ان کے نفس ہیں منجملہ ذیل میں چند احادیث ملاحظہ کیجئے :

عثمان کے سوتیلے بھا ئی ولید بن عقبہ نے نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو خبر دی کہ بنی ولیعہ اسلام سے مرتد ہو گیا ہے ،تو نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے غضبناک ہو کر فرمایا :''لَیَنْتَهِیَنَّ بَنُوْوَلِیْعَةَ اَوْلَاَبْعَثَنَّ اِلَیْهِمْ رَجُلاً کَنَفْسِیْ،یَقْتُلُ مَقَاتِلَهُمْ وَیَسْبِیْ ذَرَارِیْهِمْ وَهُوَ هٰذا'' ،''بنو ولیعہ میرے پاس آتے یا میں ان کی طرف اپنے جیسا ایک شخص بھیجوںجو ان کے جنگجوئوں کوقتل کرے اور ان کے اسراء کولے کر آئے اور وہ یہ ہے''،اس کے بعد امام کے کندھے پر اپنا دست مبارک رکھا ۔(۱)

عمرو بن عاص سے روایت ہے :جب میں غزوئہ ذات سلاسل سے واپس آیا تو میں یہ گمان کر تا تھا کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مجھ سے سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں ،میں نے عرض کیا :یارسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب کو ن ہے ؟آپ نے چندلوگوں کاتذکرہ کیا۔میں نے عرض کیا: یارسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم علی کہاں ہیں ؟تو رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے اصحاب سے مخاطب ہو کر فرمایا :''اِنَّ ھٰذایَسْأَلُنِْ عن النفسِ''،(۲) ''بیشک یہ میرے نفس کے بارے میں سوال کر رہے ہیں ''۔

۲۔امام نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بھا ئی

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اصحاب کے سامنے اعلان فرمایا کہ امام علی آپ کے بھا ئی ہیں ،اس سلسلہ میں متعدد روایات نقل ہوئی ہیں ہم ان میں سے ذیل میں چند روایات پیش کر تے ہیں :

ترمذی نے ابن عمر سے روایت کی ہے :رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اصحاب کے ما بین صیغۂ اخوّت پڑھا ،تو علی کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور آپ نے عرض کیا :یارسو لصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ آپ نے اصحاب کے درمیان صیغۂ اخوت پڑھاہے لیکن میرے اور کسی اور شخص کے درمیان صیغہ ٔ اخوت نہیں پڑھا ہے؟تورسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے

____________________

۱۔مجمع الزوائد، جلد ۷،صفحہ ۱۱۰،ولید اپنی بات کے ذریعہ بنی ولیعہ کی تردید کر رہا تھا اس وقت یہ آیت نازل ہو ئی :(یَاَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا ِنْ جَائَکُمْ فَاسِق بِنَبٍَ فَتَبَیَّنُوا َنْ تُصِیبُوا قَوْمًا بِجَہَالَةٍ۔۔۔)سورئہ حجرات، آیت ۶۔''ایمان والو اگر کو ئی فاسق کو ئی خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کرو ایسا نہ ہو کہ کسی قوم تک نا واقفیت میں پہنچ جائو ۔۔۔''

۲۔کنز العمال، جلد ۶،صفحہ ۴۰۰۔

۵۳

54

55

56

57

58

59

60

61