کاسۂ شام

کاسۂ شام50%

کاسۂ شام مؤلف:
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 61

کاسۂ شام
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 61 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 34929 / ڈاؤنلوڈ: 2367
سائز سائز سائز
کاسۂ شام

کاسۂ شام

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

ائمہ اہل بیت علیہم السلام

ہم ائمہ اہل بیت علیہم السلام کے روبرو حاضرہیں جنھوں نے معاشرہ کی اصلاح کی دعوت دی ، وہ دنیائے عرب و اسلام میں شعور و فکر کے چراغ ہیں ،انھوں نے انسانی فکر ،اس کے ارادے ، سلوک و روش کی بنیاد ڈالی ، خالق کا ئنات اور زندگی دینے والے کے علاوہ کسی اورکی عبادت کرنے سے مخلوق خداکو نجات دی

بیشک ائمہ اہل بیت علیہم السلام شجرئہ نبوت کے روشن چراغ ہیں ،یہ اس شجرۂ طیبہ سے تعلق رکھتے ہیں جس کی اصل ثابت ہے اور اس کی شاخیں آسمان تک پھیلی ہو ئی ہیں یہ شجرہ ہر زمانہ میںحکم پروردگار سے پھل دیتا رہتا ہے،یہ حضرات رسول اعظمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات کا ایسا جزء ہیں جن کو کبھی بھی ان سے جدا نہیں کیا جاسکتا ہے وہ رسول جنھوں نے انسان کو پستی نکال کر بلندی عطا کی اوراسے نور سے منور فرمایا۔۔۔ہم اپنی گفتگو کا آغاز اس سلسلۂ جلیلہ سید و سردار یعنی امام علی کی سوانح حیات سے کرتے ہیں:

حضرت علی علیہ السلام

آپ اپنی جود و سخا ،عدالت، زہد،جہاد اور حیرت انگیز کارنامو ں میں اس امت کی سب سے عظیم شخصیت ہیں دنیائے اسلام میں رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں سے کو ئی بھی آپ کے بعض صفات کا مثل نہیں ہوسکتا چہ جائیکہ وہ آپ کے بعض صفات تک کا مثل ہو ۔آپ کے فضائل و کمالات اور آپ کی شخصیت کے اثرات زمین پر بسنے والے پرتمام مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے زبان زد عام ہیں ، تمام مؤ رخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عرب یا غیرعرب کی تاریخ میں آپ کے بھائی اور ابن عم کے علاوہ آپ کا کو ئی ثانی نہیں ہے ہم ذیل میں آپ کے بعض صفات و خصوصیات کو قلمبند کررہے ہیں :

۲۱

کعبہ میں ولادت

تمام مؤرخین اورراویوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ کی ولادت با سعادت خانۂ کعبہ میں ہوئی۔(۱) آپ کے علاوہ کو ئی اور خانۂ کعبہ میں نہیں پیدا ہوا ،اور یہ اللہ کے نزدیک آ پ کے بلند مرتبہ اور عظیم شرف کی علامت ہے ،اسی مطلب کی طرف عبد الباقی عمری نے اس شعر میں اشارہ کیا ہے :

اَنْت العلیُّ الذی فوق العُلیٰ رُفِعا

ببطن مکة عند البیت اِذْوُضِعَا

____________________

۱۔مروج الذہب ،جلد ۲ صفحہ ۳،فصول مہمہ مؤلف ابن صبّاغ، صفحہ ۲۴۔مطالب السئول، صفحہ ۲۲۔تذکرة الخواص، صفحہ ۷۔کفایة الطالب، صفحہ ۳۷۔ نور الابصار ،صفحہ ۷۶۔نزھة المجالس ،جلد۲،صفحہ ۲۰۴۔شرح الشفا ،جلد ۲،صفحہ ۲۱۵۔غایة الاختصار ،صفحہ ۹۷۔عبقریة الامام (العقاد)، صفحہ ۳۸۔مستدرک حاکم، جلد ۳،صفحہ ۴۸۳۔اور اس میں وارد ہوا ہے کہ :''متواتر احادیث میں آیا ہے کہ امیر المو منین علی بن ابی طالب فاطمہ بنت اسد کے بطن سے کعبہ میں پیدا ہوئے ''۔

۲۲

''آپ وہ بلند و بالا شخصیت ہی ںجو تمام بلند یوں سے بلند و بالا ہیںاس لئے کہ آپ کی ولادت مکہ میں خانہ کعبہ میں ہوئی ہے ''۔

بیشک نبی کے بھائی اور ان کے باب شہر علم کی ولادت اللہ کے مقدس گھر میں ہو ئی تاکہ اس کی چوکھٹ کو جلا بخشے،اس پر پرچم توحید بلند کرے ،اس کو بت پرستی اور بتوںکی پلیدی سے پاک وصاف کرے ، اس بیت عظیم میں ابوالغرباء ،اخو الفقراء ، کمزوروں اور محروموں کے ملجأ و ماویٰ پیدا ہوئے تاکہ ان کی زندگی میں امن ،فراخدلی اور سکون و اطمینان کی روح کوفروغ دیں ، ان کی زندگی سے فقر و فاقہ کا خاتمہ کریں ،آپکے پدر بزرگوار شیخ بطحاء اور مو من قریش نے آپ کا اسم گرامی علی رکھاجو تمام اسماء میں سب سے بہترین نام ہے۔

اسی لئے آپ اپنی عظیم جود و سخا اور حیرت انگیز کارناموں میں سب سے بلند تھے اور خداوند عالم نے جو آپ کو روشن و منورعلم و فضیلت عطا فرمائی تھی اس کے لحاظ سے آپ اس عظیم بلند مرتبہ پر فائز تھے جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

امیر بیان اور عدالت اسلامیہ کے قائد و رہبرنبی کی بعثت سے بارہ سال پہلے تیرہ رجب ۳۰ عام الفیل کو جمعہ کے دن پیدا ہوئے ۔(۱)

القاب

امیر حق نے آپ کو متعدد القاب سے نوازا جو آپ کے صفات حسنہ کی حکایت کرتے ہیں ،آپ کے القاب مندرجہ ذیل ہیں :

۱۔صدیق(۲)

آپ کو اس لقب سے اس لئے نوازا گیا کہ آپ ہی نے سب سے پہلے رسول اللہ کی مدد کی اور اللہ کی طرف سے رسول ر نازل ہونے والی چیزوں پر ایمان لائے ، مولائے کائنات خود فرماتے ہیں :

''اَناالصدیق الاکبرآمنت قبل ان یومن ابوبکرواسلمتُ قبل ان یسلّم '(۳)

''میں صدیق اکبر ہوں ابوبکر سے پہلے ایمان لایاہوں اور اس سے پہلے اسلام لایاہوں ''۔

____________________

۱۔حیاةالامام امیر المو منین ،جلد ۱،صفحہ ۳۲۔منقول از مناقب آل ابوطالب ،جلد۳،صفحہ۹۰۔

۲۔تاریخ خمیس ،جلد ۲،صفحہ ۲۷۵۔

۳۔معارف ،صفحہ ۷۳۔ذخائر ،صفحہ ۵۸۔ریاض النضرہ ،جلد ۲،صفحہ ۲۵۷۔

۲۳

۲۔وصی

آپ کو یہ لقب اس لئے عطا کیا گیا کہ آپ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وصی ہیں اور رسول خدا نے اس لقب میں اضافہ کرتے ہوئے فرمایا: ''اِنَّ وَصِیّ،وَمَوْضِعَ سِرِّی،وَخَیْرُمَنْ اَتْرُکَ بَعْدِیْ،وَیُنْجِزُعِدَتِیْ،وَیَقْضِیْ دَیْنِیْ،عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طَالِبٍ'' ۔(۱)

''میرے وصی ،میرے راز داں ،میرے بعد سب سے افضل ،میرا وعدہ پورا کرنے والے اور میرے دین کی تکمیل کرنے والے ہیں ''۔

۳۔فاروق

امام کو فاروق کے لقب سے اس لئے یاد کیا گیا کہ آپ حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والے ہیں۔یہ لقب نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی احادیث سے اخذ کیا گیا ہے ،ابو ذر اور سلمان سے روایت کی گئی ہے کہ نبی نے حضرت علی کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا :''اِنّ هٰذَااَوَّلُ مَنْ آمَنَ بِیْ،وهٰذَا اَوَّلُ مَنْ یُصَافِحُنِیْ یَوْمَ القِیَامَةِ،وَهٰذَا الصِّدِّیْقُ الْاَکْبَرُ،وَهٰذَا فَارُوْقُ هٰذِهِ الاُمَّةِ یَفْرُقُ بَیْنَ الْحَقِّ وَالْبَاطِلِ'' ۔(۲)

''یہ مجھ پر سب سے پہلے ایمان لائے ،یہی قیامت کے دن سب سے پہلے مجھ سے مصافحہ کریں

گے ،یہی صدیق اکبر ہیں ،یہ فاروق ہیں اور امت کے درمیان حق و باطل میں فرق کرنے والے ہیں ''۔

۴۔یعسوب الدین

لغت میں یعسوب الدین شہد کی مکھیوں کے نَر کو کہا جاتا ہے پھر یہ قوم کے صاحب شرف سردار کیلئے بولا جا نے لگا،یہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے القاب میں سے ہے ،نبی اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کو یہ لقب دیتے ہوئے فرمایا:هٰذَا ( واشارَالی الامام ) یَعْسُوْبُ المُؤمِنِیْنَ،وَالْمَالُ یَعْسُوْبُ الظَّا لِمِیْنَ'' ۔(۳)

''یہ (امام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا)مو منین کے یعسوب ہیں اور مال ظالموں کا یعسوب ہے ''۔

____________________

۱۔کنز العمال، جلد ۶،صفحہ ۱۵۴۔

۲۔مجمع الزوائد، جلد ۹، صفحہ ۱۰۲،فیض القدیر،جلد ۴، صفحہ ۳۵۸۔کنز العمال ،جلد ۶ ،صفحہ ۱۵۶۔فضائل الصحابة، جلد ۱، صفحہ ۲۹۶۔

۳۔ مجمع الزوائد، جلد ۹،صفحہ ۱۰۲۔

۲۴

۵۔امیر المو منین

آپ کا سب سے مشہور لقب امیر المو منین ہے یہ لقب آپ کو رسول اللہ نے عطا کیا ہے روایت ہے کہ ابو نعیم نے انس سے اور انھوں نے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا ہے :'' یاانس، ''اسْکُبْ لِیْ وَضُوء اً ''اے انس میرے وضو کرنے کے لئے پانی لائو''پھر آپ نے دورکعت نماز پڑھنے کے بعد فرمایا:'' اے انس اس دروازے سے جو بھی تمہارے پاس سب سے پہلے آئے وہ امیر المو منین ہے ، مسلمانوں کا سردار ہے ،قیامت کے دن چمکتے ہوئے چہرے والوں کا قائد اور خاتم الوصیین ہے '' ، انس کا کہنا ہے :میں یہ فکر کررہاتھا کہ وہ آنے والا شخص انصار میں سے ہو جس کو میں مخفی رکھوں ، اتنے میں حضرت علی تشریف لائے تو رسول اللہ نے سوال کیا کہ اے انس کون آیا ؟ میں (انس) نے عرض کیا : علی ۔ آپ نے مسکراتے ہوئے کھڑے ہوکر علی سے معانقہ کیا ،پھر ان کے چہرے کا پسینہ اپنے چہرے کے پسینہ سے ملایااور علی کے چہرے پر آئے ہوئے پسینہ کو اپنے چہرے پر ملا اس وقت علی نے فرمایا: ''یارسول اللہ میں نے آپ کو اس سے پہلے کبھی ایسا کرتے نہیں دیکھا؟ آنحضرت نے فرمایا:''میں ایسا کیوں نہ کروں جب تم میرے امور کے ذمہ دار،میری آواز دوسروں تک پہنچانے والے اور میرے بعد پیش آنے والے اختلافات میںصحیح رہنما ئی کرنے والے ہو ''۔(۱)

۶ حجة اللہ

آپ کا ایک عظیم لقب حجة اللہ ہے، آپ خدا کے بندوں پر اللہ کی حجت تھے اور ان کومضبوط و محکم راستہ کی ہدایت دیتے تھے ،یہ لقب آپ کو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عطا فرمایا تھا ،نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:''میںاور علی اللہ کے بندوں پر اس کی حجت ہیں''۔(۲)

یہ آپ کے بعض القاب تھے ان کے علاوہ ہم نے آپ کے دوسرے چھ القاب امام امیر المومنین کی سوانح حیات کے پہلے حصہ میںبیان کئے ہیںجیسا کہ ہم نے آپ کی کنیت اور صفات کا تذکرہ بھی کیا ہے۔

____________________

۱۔حلیة الاولیائ، جلد ۱،صفحہ ۶۳۔

۲۔کنوز الحقائق ''المناوی''،صفحہ ۴۳۔

۲۵

آپ کی پرورش

حضرت امیر المو منین نے بچپن میں اپنے والد بزرگوار شیخ البطحاء اورمو منِ قریش حضرت ابوطالب کے زیر سایہ پرورش پائی جو ہر فضیلت ،شرف اور کرامت میں عدیم المثال تھے ،اور آپ کی تربیت جناب فاطمہ بنت اسدنے کی جو عفت ،طہارت اور اخلاق میں اپنے زمانہ کی عورتوں کی سردار تھیں انھوں نے آپ کو بلند و بالا اخلاق ،اچھی عا دتیں اور آداب کریمہ سے آراستہ و پیراستہ کیا۔

پرورش امام کے لئے نبی کی آغوش

امام کے عہد طفولیت میں نبی نے آپ کی پرورش کرنے کی ذمہ داری اس وقت لے لی تھی جب آپ بالکل بچپن کے دور سے گذر رہے تھے ،جس کا ماجرا یوں بیان کیا جاتا ہے کہ جب آنحضرت کے چچا ابوطالب کے اقتصادی حالات کچھ بہتر نہیں تھے تو نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے چچاعباس اور حمزہ کے پاس گفتگو کرنے کیلئے تشریف لے گئے اور ان سے اپنے چچا ابوطالب کے اقتصادی حالات کے سلسلہ میںگفتگو کی اور ان کا ہاتھ بٹانے کا مشورہ دیاتو انھوں نے آپ کی اس فرمائش کو قبول کرلیا ، چنانچہ جناب عباس نے طالب ، حمزہ نے جعفر اور نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کی پرورش کی ذمہ داری اپنے اوپر لے لی، لہٰذا اس وقت سے آپ (علی) رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آغوش تربیت میں آگئے اور آنحضرت ہی کے زیر سایہ اورانھیں کے دامن محبت و عطوفت میں پروان چڑھے ،اسی لئے آپ کی رگ و پئے اور آپ کی روح کی گہرائی میںپیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کردار اور اخلاق اور تمام صفات کریمہ اسی وقت سے سرایت کر چکے تھے اسی لئے آپ نے زندگی کے آغاز سے ہی ایمان کو سینہ سے لگائے رکھا ،اسلام کو بخوبی سمجھا اور آپ ہی پیغمبر کے سب سے زیادہ نزدیک تھے ، ان کے مزاج و اخلاق نیز آنحضرت کی رسالت کو سب سے بہتر انداز میں سمجھتے تھے ۔

۲۶

مو لائے کا ئنات نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پرورش کے انداز اور آپ سے اپنی گہری قرابت داری کے بارے میں ارشاد فرمایا :''تم جانتے ہی ہو کہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے قریب کی عزیز داری اور مخصوص قدر و منزلت کی وجہ سے میرا مقام اُن کے نزدیک کیا تھا ؟میں بچہ ہی تھا کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجھے گود میں لے لیا تھا،آنحضرت مجھے اپنے سینہ سے چمٹائے رکھتے تھے، بستر میں اپنے پہلو میں جگہ دیتے تھے، اپنے جسم مبارک کو مجھ سے مس کر تے تھے اور اپنی خوشبو مجھے سونگھاتے تھے ،پہلے آپ کسی چیز کو چباتے پھر اس کے لقمے بنا کر میرے منھ میں دیتے تھے ،اُنھوں نے نہ تو میری کسی بات میں جھوٹ کا شائبہ پایا نہ میرے کسی کام میں لغزش و کمزوری دیکھی ۔۔۔ میں ان کے پیچھے پیچھے یوں لگا رہتا تھا جیسے اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے رہتا ہے، آپ ہر روز میرے لئے اخلاق حسنہ کے پرچم بلند کر تے تھے اور مجھے ان کی پیروی کا حکم دیتے تھے ''۔

آپ نے نبی اور امام کے مابین بھروسہ اور قابل اعتماد رابطہ کا مشاہدہ کیااور ملاحظہ کیاکہ کس طرح نبی اکرم حضرت علی کی مہربانی اور محبت کے ساتھ تربیت فرماتے اور آپ کو بلند اخلاق سے آراستہ کرتے تھے ؟اور نبی نے کیسے حضرت علی کی لطف و مہربانی اور بلند اخلاق کے ذریعہ تربیت پا ئی ؟

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حمایت

جب رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے عظیم انقلاب کا آغاز فرمایاجس سے جاہلیت کے افکار ، اور رسم و رواج متزلزل ہوگئے ،تو قریش آپ کی مخالفت کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ،انھوں نے جان بوجھ کرتحریک کو خاموش کرنے کیلئے بھرپور کو شش کی اور اس کیلئے ہرممکنہ طریقۂ کاراختیارکیا ،اپنے بچوں کو نبی پر پتھروں کی بارش کرنے کے لئے بھڑکایا، اس وقت امام ہی ایک ایسے بچے تھے جو نبی کی حمایت کر رہے تھے اور ان بچوں کو ڈانٹتے اور مارتے تھے جب وہ اپنی طرف اس بچہ کو آتے ہوئے دیکھتے تھے تو ڈر کر اپنے گھروں کی طرف بھاگ جاتے تھے ۔

۲۷

اسلام کی راہ میں سبقت

تمام مو رخین اور راوی اس بات پر متفق ہیں کہ امام ہی سب سے پہلے نبی پر ایمان لائے ، آپ ہی نے نبی کی دعوت پر لبیک کہا،اور آپ ہی نے اپنے اس قول کے ذریعہ اعلا ن فرمایا کہ اس امت میں سب سے پہلے اللہ کی عبادت کرنے والا میں ہو ں :''لَقَدْ عَبَدْتُ اللّٰہَ تَعَالیٰ قَبْلَ اَنْ یَعْبُدَہُ اَحَدُ مِنْ ھٰذِہِ الاُمَّةِ ''۔ ''میں نے ہی اس امت میں سب سے پہلے اللہ کی عبادت کی ہے ''۔(۱)

اس بات پر تمام راوی متفق ہیں کہ امیر المو منین دور جا ہلیت کے بتوں کی گندگی سے پاک و پاکیزہ رہے ہیں ،اور اس کی تاریکیوں کا لباس آپ کو ڈھانک نہیں سکا،آپ ہر گز دوسروں کی طرح بتوں کے سامنے سجدہ ریز نہیں ہوئے ۔

مقریزی کا کہنا ہے :(علی بن ابی طالب ہاشمی نے ہر گز شرک نہیں کیا،اللہ نے آپ سے خیر کا ارادہ کیا تو آپ کو اپنے چچازاد بھائی سید المرسلین کی کفالت میں قرار دیدیا)۔(۲)

قابل ذکر بات یہ ہے کہ سیدہ ام المو منین خدیجہ آپ کے ساتھ ایمان لا ئیں، حضرت علی اپنے اور خدیجہ کے اسلام پر ایمان لانے کے سلسلہ میں فرماتے ہیں :''وَلَم یَجْمَعْ بَیْتُ یَومَئِذٍ واحدُ فی الاسلام غیرَرسُولِ اللّٰهِ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وَخَدِیْجَةَ وَاَنَا ثَالِثُهُمَا'' ۔(۳) ''اس دن رسول اللہ خدیجہ اور میرے علاوہ کو ئی بھی مسلمان نہیں ہوا تھا ''۔

ابن اسحاق کا کہنا ہے :اللہ اور محمد رسول اللہ پر سب سے پہلے علی ایمان لائے ''۔(۴)

حضرت علی کے اسلام لانے کے وقت آپ کی عمر سات سال یا دوسرے قول کے مطابق نو سال تھی۔(۵) مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ سب سے پہلے اسلام لائے ،جو آپ کیلئے بڑے ہی شرف اور فخر کی بات ہے ۔

آپ کی نبی سے محبت

آپ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سب سے زیادہ اخلاص سے پیش آتے تھے ایک شخص نے امام سے

____________________

۱۔صفوة الصفوہ، جلد ۱،صفحہ ۱۶۲۔

۲۔ امتاع الاسمائ، جلد ۱،صفحہ ۱۶۔

۳۔حیاةالامام امیر المومنین ،جلد ۱،صفحہ ۵۴۔

۴۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ،جلد ۴،صفحہ ۱۱۶۔

۵۔صحیح ترمذی، جلد ۲،صفحہ ۳۰۱۔طبقات ابن سعد ،جلد ۳،صفحہ ۲۱۔کنز العمال، جلد ۶،صفحہ ۴۰۰۔تاریخ طبری ،جلد ۲، صفحہ۵۵۔

۲۸

رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے محبت کے متعلق سوال کیا تو آپ نے اس سے فرمایا:''کَانَ وَاللّٰہِ احبَّ الینامِن مالناواولادِناوَامَّھَاتِنَاومِن المائِ الباردِعلیَ الظّمْأ۔۔۔''۔(۱)

''خدا کی قسم وہ مجھے میرے مال ،اولاد ،ماںاور پیا س کے وقت ٹھنڈے گوارا پانی سے بھی زیادہ محبوب تھے ''۔

حضرت علی کی نبی سے محبت کا یہ عالم تھا کہ ایک باغ آپ کے حوالہ کیا گیا ،باغ کے مالک نے آپ سے کہا :کیا آپ میرے باغ کی سینچا ئی کردیں گے میں آپ کو ہر ڈول کے عوض ایک مٹھی خرما دوںگا؟ آپ نے جلدی سے اس باغ کی سینچا ئی کر دی تو باغ کے مالک نے آپ کو خرمے دئے یہاں تک کہ آپ کی مٹھی بھرگئی آپ فوراً ان کو نبی کے پاس لیکر آئے اور انھیں کھلادئے ۔(۲)

نبی سے آپ کی محبت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ خود ان کی خدمت کرتے ، ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے آمادہ رہتے تھے اور ہم اس سلسلہ کے چند نمونے اپنی کتاب'' حیاة الامام امیر المومنین ''میںذکر کرچکے ہیں ۔

یوم الدار

حضرت علی کی بھر پور جوانی تھی جب سے آپ نے رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قدم بہ قدم چلنا شروع کیا،یہ وہ دور تھا جب آنحضرت نے اپنی اسلامی دعوت کا اعلان کیاتھا کیونکہ جب خداوند عالم نے آپ کو اپنے خاندان میں تبلیغ کرنے کا حکم دیا تو رسول نے علی کو بلاکر ان کی دعوت کرنے کوکہا جس میںآپ کے چچا :ابوطالب ،حمزہ ،عباس اور ابو لہب شامل تھے ،جب وہ حاضر ہوئے تو امام نے ان کے سامنے دسترخوان بچھایا،ان سب کے کھانا کھانے کے بعد بھی کھانا اسی طرح باقی رہااور اس میں کوئی کمی نہ آئی ۔

جب سب کھانا کھاچکے تو نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کھڑے ہوکر ان کو اسلام کی دعوت دی اور بتوں کی پوجاکرنے سے منع فرمایا ،ابو لہب نے آپ کا خطبہ منقطع کر دیا اور قوم سے کہنے لگا :تم نے ان کا جادو دیکھا ،

____________________

۱۔خزانة الادب، جلد ۳،صفحہ ۲۱۳۔

۲۔تاریخ طبری ،جلد ۲،صفحہ ۶۳۔تاریخ ابن اثیر، جلد ،صفحہ ۲۴۔مسند احمد بن حنبل، صفحہ ۲۶۳۔

۲۹

اور یہ نشست کسی نتیجہ کے بغیر ختم ہو گئی ،دوسرے دن پھر رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سب کو بلایا، جب سب جمع ہوگئے سب کو کھانا کھلایا اور جب سب کھانا کھا چکے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یوں خطبہ دیا :''اے بنی عبد المطلب! خدا کی قسم میں نے قوم عرب میں کسی ایسے جوان کا مشاہدہ نہیں کیا جو قوم میں مجھ سے بہتر چیزیں لیکر آیا ہو ،میں تمہارے لئے دنیا و آخرت کی بھلا ئی لیکر آیا ہوں ،خدا وند عالم نے مجھے یہ حکم دیا ہے کہ میں تمھیں اس کی دعوت دوں، تو تم میں سے جو بھی میری اس کام میں مدد کرے گا وہ میرا بھائی ،وصی اور خلیفہ ہوگا ؟''۔

پوری قوم پر سنّاٹا چھاگیا گو یاکہ ان کے سروں پر، پرندے بیٹھے ہوں ،اس وقت امام کی نوجوا نی تھی لہٰذا آپ نے بڑے اطمینان اور جوش کے ساتھ کہا :''اے نبی اللہ!میں اس کام میں، آپ کی مدد کروں گا ''۔

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آپ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر قوم سے مخاطب ہو کر فرمایا : '' بیشک یہ میرے بھائی ،وصی اور تمہارے درمیان میرے خلیفہ ہیں ان کی باتیں سنو اور ان کی اطاعت کرو ''۔

یہ سن کر مضحکہ خیز آوازیں بلند ہونے لگیںاور انھوں نے مذاق اڑاتے ہوئے ابوطالب سے کہا:''تمھیں حکم دیا گیا ہے کہ تم اپنے بیٹے کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو ''۔(۱)

علماء کا اتفاق ہے کہ یہ حدیث واضح طور پر امیر المو منین کی امامت پر دلالت کر تی ہے ،آپ ہی نبی کے وصی ،وزیر اور خلیفہ ہیں ،اور ہم نے یہ حدیث اپنی کتاب''حیاة الامام امیرالمو منین ''کے پہلے حصہ میں مفصل طور پر بیان کی ہے ۔

شعب ابی طالب

قریش کے سر کردہ لیڈروں نے یہ طے کیا کہ نبی کو شِعب ابو طالب میں قید کردیاجائے، اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

کو وہاں رہنے پر مجبور کیاجائے تا کہ آپ کا لوگوں سے ملنا جلنا بند ہو جائے اور ان کے عقائدمیں کو ئی تبدیلی نہ ہو سکے ، اور وہ آپ کے اذہان کو جا ہلیت کے چنگل سے نہ چھڑاسکیں،لہٰذا انھوں نے بنی ہاشم کے خلاف مندرجہ ذیل معاہدے پر دستخط کئے :

____________________

۱۔تاریخ طبری ،جلد ۲، صفحہ ۶۳۔تاریخ ابن اثیر، جلد ۲،صفحہ ۲۴۔مسند احمد، صفحہ ۲۶۳۔

۳۰

۱۔وہ ہاشمیوںسے شادی بیاہ نہیں کریں گے ۔

۲۔ان میں سے کو ئی ایک بھی ہاشمی عورت سے شادی نہیں کر ے گا ۔

۳۔وہ ہاشمیوں سے خرید و فروخت نہیں کریں گے ۔انھوں نے یہ سب لکھ کر اور اس پر مہر لگا کرکعبہ کے اندر لٹکادیا ۔

پیغمبر کے ساتھ آپ پر ایمان لانے والے ہاشمی جن میں سر فہرست حضرت علی تھے سب نے اس شعب میں قیام کیا ، اور وہ مسلسل وہیں رہے اور اس سے باہر نہیں نکلے وہ بد ترین حالات میں ایک دوسرے کی مدد کرتے رہے اور ام المومنین خدیجہ نے ان کی تمام ضروریات کو پورا کیا یہاں تک کہ اسی راستہ میں ان کی عظیم دولت کام آگئی ،نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شعب میں اپنے اہل بیت کے ساتھ دو یا دو سال سے زیادہ رہے ، یہاں تک کہ خدا نے دیمک کو قریش کے معاہدہ پر مسلط کیا جس سے وہ اس کو کھا گئیں ،اُدھر رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جناب ابوطالب کے ذریعہ یہ خبر پہنچا ئی کہ عہد نامہ کو دیمک نے کھا لیا ہے وہ جلدی سے عہد نامہ کے پاس آئے توانھوں نے اس کو ویسا ہی پایا جیسا کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کی خبر دی تھی تو ان کے ہوش اڑگئے ، قریش کی ایک جماعت نے ان کے خلاف آواز اٹھا ئی اور ان سے نبی کو آزاد کرنے کا مطالبہ کیا جس سے انھوں نے نبی کو چھوڑ دیا نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے اہل بیت کے ساتھ قید سے نکلے جبکہ ان پر قید کی سختیوں کے آثار نمایاں تھے۔

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے شعب سے باہر نکل کر قریش کی دھمکیوں کی پروا نہیں کی اور پھر سے دعوت توحید کا اعلان کیا ،ان کا مقابلہ کرنے میں آپ کے چچا ابو طالب ،حضرت علی اور بقیہ دوسرے افراد نے بڑی مدد کی،یہی لوگ آپ کی مضبوط و محکم قوت بن گئے ،اور ابو طالب رسالت کا حق ادا کرنے کے متعلق یہ کہہ کر آپ کی ہمت افزائی کر رہے تھے :

اذهب بنّى فماعلیک غضاضةُ

اذهب وقرّ بذاک منک عیونا

واللّٰه لَنْ یَصِلُوا الیک بِجَمْعِهِمْ

حتی اُوسد فی التراب دفینا

وَدعوتن وعلِمتُ انکّ ناصِحِ

ولقد صدقتَ وکنتَ قَبْلُ اَمِیْنا

۳۱

وَلقد علِمتُ بِاَنَّ دِینَ محمدٍ

مِنْ خیرِ اَدیانِ البریة دِیْنا

فَاصدَعْ بِاَمْرِکَ مَاعَلَیْکَ غضَاضَةُ

وَابْشِرْ بِذَاکَ وَقُرَّ عُیُوْنَا(۱)

''بیٹے جائو تمھیں کو ئی پریشانی نہیں ہے ،جائو اور اس طرح اپنی آنکھیں روشن کر و۔

خدا کی قسم وہ اپنی جماعت کے ساتھ اس وقت تک تم تک نہیں پہنچ سکتے جب تک میں دنیا سے نہ اٹھ جائوں ۔

تم نے مجھے دعوت دی اور مجھے یقین ہو گیا کہ تم میرے خیر خواہ ہو ،تم نے سچ کہا اور پہلے بھی تم امانتدار تھے ۔

مجھے یقین ہو گیا ہے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دین دنیا کا سب سے بہترین دین ہے۔

لہٰذا اپنی دعوت کا اعلان کرو اور تمھیںذرہ برابر ملال نہ ہو ،تم خوش رہواپنی آنکھیں ٹھنڈی کرو ''۔

یہ اشعار ابوطالب کے صاحب ایمان ،اسلام کے حا می اور مسلمانوں میں پہلے مجاہد ہونے پر دلالت کر تے ہیں ،اور ان کے ہاتھ ٹوٹ جا ئیںجو ابو طالب کو صاحب ایمان نہیں سمجھتے ،اس طرح کی فکر کرنے والوں کا ٹھکانا جہنم ہے ،حالانکہ ان کو یہ علم ہے کہ ابوطالب کا بیٹا جنت و جہنم کی تقسیم کرنے والا ہے ۔

بیشک ابو طالب اسلامی عقائد کے ایک رکن ہیں ،اگر آپ ابتدا میں پیغمبر کے موافق نہ ہوتے تو اسلام کا نام اور دستور و قواعد کچھ بھی باقی نہ رہتے اور قریش ابتدا ہی میں اس کا کام تمام کردیتے ۔

امام کا نبی کے بستر پر آرام کرنا (شب ہجرت)

یہ امام کی ایسی خو بی ہے جس کا شمارآپ کے نمایاں فضائل میں ہوتا ہے یعنی آپ نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر نبی کی حفاظت کی ہے اور نبی کی محبت میںموت کا بخو شی استقبال کیاہے اسی لئے عالم اسلام میں آپ سب سے پہلے فدا ئی تھے۔

جب قریش نے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قتل کرنے اور ان کی زندگی کا خاتمہ کرنے کے لئے آپ کے

____________________

۱۔حیاةالامام امیر المو منین ،جلد ۱، صفحہ ۱۳۷۔

۳۲

بیت الشرف کا اپنی ننگی تلواروں سے محاصرہ کیاتو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کو بلا بھیجا اور ان کو قوم کے ارادہ سے آگاہ کیا ، ان کو اپنے بستر پرسبزچادر اوڑھ کر سونے کا حکم دیا تاکہ کفار آپ کو نبی سمجھتے رہیں ،امام نے نبی کے حکم کا خنداں پیشانی کے ساتھ استقبال کیاگویا آپ کو ایسی قابل رشک چیزمل گئی جس کا کبھی خواب تک نہیں دیکھا تھا، نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اُن کے درمیان سے نکل گئے اور ان کو خبر بھی نہ ہو ئی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اُن کے منحوس چہروں کی طرف ایک مٹھی خاک یہ کہتے ہوئے پھینکی:''شاھت الوجوہ ذُلّاً'' ، ''رسوائی کی بنا پر چہرے بگڑ جا ئیں ' '، اس کے بعد قرآن کریم کی اس آیت کی تلاوت فرمائی:

( وَجَعَلْنَامِنْ بَیْنِ اَیْدِیْهِمْ سَدّاً وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدّاً فَاَغْشَیْنَاهُمْ فَهُمْ لَایُبْصِرُوْنَ ) ۔(۱)

'' اور ہم نے ایک دیوار ان کے سامنے اور ایک دیوار ان کے پیچھے بنا دی ہے پھر انھیں عذاب سے ڈھانک دیا ہے کہ وہ کچھ دیکھنے کے قابل نہیں رہ گئے ہیں ''۔

حضرت علی کا نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بستر پر رات گذارنا آپ کے جہاد کی درخشاں تصویر اور ایسی بے مثال منقبت ہے جس کا جواب نہیں لایا جا سکتا اور خداوند عالم نے آپ کی شان میںیہ آیت نازل فرما ئی :

( وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِی نَفْسَهُ ابْتِغَائَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ ) ۔(۲)

''لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو اپنے نفس کوبیچ کر مرضی الٰہی خرید لیتے ہیں ''۔

____________________

۱۔سورئہ یس، آیت ۹۔

۲۔سورئہ بقرہ ،آیت ۲۰۷۔

۳۳

اس عزت و شرف کی اسلامی پیغام میںبڑی اہمیت ہے جس تک کو ئی بھی مسلمان نہیں پہنچ سکا ، شاعر کبیر شیخ ہاشم کعبی امام کی یوں مدح سرا ئی کرتے ہیں :

وَمَوَاقِفُ لَکَ دُوْنَ اَحْمَدَ جَاوَزَتْ

بِمَقَامِکَ التَّعْرِیْفَ وَالتَّحْدِیْدا

فَعَلیٰ الْفِرَاشِ مَبِیْتُ لَیْلِکَ وَالْعِدْ

تُهْدِیْ اِلَیْکَ بَوَارِقا ًوَرُعُوْداً

فَرْقَدْتَ مَثْلُوْ جَ الْفُؤَادِ کَاَنَّمَا

یُهْدِ الْقَرَاعُ لِسَمْعِکَ التَّغْرِیْداً

فَکَفَیْتَ لَیْلَتَهُ وَقُمْتَ مُعَارِضا

جَبَلاً اَشَمَّ وَفَارِساً صِنْدِیْدا

رَصَدُواالصَبَاحَ لِیُنْفِقُواکَنْزَالهُدیٰ

أَوَمَا دَرَوْاکَنْزَالهُدیٰ مَرْصُوداً؟

''(اے علی)حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو چھوڑ کر آپ کے درجات اور مقامات تعریف و ثنا کی حد سے بالا ہیں ۔

چنانچہ آپ شب ہجرت اس عالم میں بستر رسول پر سوئے کہ دشمن شمشیروں کے ذریعہ آپ کو گھیرے ہوئے تھے ۔

پھر بھی آپ نہایت سکون کے ساتھ سوئے گویا،آپ کے گوش مبارک میں نغمہ ٔ معنویت گونج رہا تھا ۔

آپ نے اس شب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت کی اور صبح کے وقت مضبوط پہاڑاور بے مثال شہسوار کی مانند بیدار ہوئے ۔

انھوں نے مخزن ہدایت کوخرچ کرنے کے لئے صبح کا انتظار کیا جبکہ انھیں نہیں معلوم تھا کہ خود خزانہ ٔ ہدایت ان کے انتظار میں تھا''۔

۳۴

امام نے پوری رات خدا سے اس دعا میں گذاردی کہ خدا ان کی اس محنت و مشقت کے ذریعہ ان کے بھا ئی کو بچائے اور ان کو دشمنوں کے شر سے دور رکھے ۔

جب صبح نمودار ہو ئی تو سرکشوں نے ننگی تلواروں کے ساتھ نبی کے بستر پر دھاوا بول دیا تو حضرت علی ان کی طرف اپنی ننگی تلوار لئے ہوئے شیر کی مانند بڑھے جب انھوں نے علی کو دیکھا تو ان کے ہوش اُڑگئے وہ سب ڈر کر اما م سے کہنے لگے :محمد کہا ں ہیں ؟

امام نے ان کے جواب میں فرمایا:''جَعَلْتُمُوْنِیْ حَارِساًعَلَیْهِ؟''

''کیا تم نے مجھے نبی کی حفاظت کے لئے مقرر کیا تھا ؟''۔

وہ بہت ہی مایوسی ا ور ناراضگی کی حالت میں الٹے پیر پھر گئے، چونکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کے ہاتھ سے نکل چکے تھے وہ نبی جو ان کو آزاد ی دلانے اور اُن کے لئے عزم و ہمت کا محل تعمیر کرنے کیلئے آئے تھے ،قریش جل بھُن گئے اور آپ کو بہت ہی تیز نگاہوں سے دیکھنے لگے لیکن امام نے کو ئی پروا نہیں کی اور صبح وشام ان کا مذاق اڑاتے ہوئے رفت و آمد کرنے لگے ۔

امام کی مدینہ کی طرف ہجرت

جب رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مکہ سے مدینہ ہجرت کر گئے تو علی نے نبی کے پاس مو جودہ امانتوں کو صاحبان امانت کے حوالہ کیا، نبی جن کے مقروض تھے ان کا قرض اداکیا ،چونکہ آپ ان کے متعلق نبی سے وعدہ کر چکے تھے، آپ وہاں کچھ دیر ٹھہر کر اپنے چچازاد بھا ئی سے ملحق ہونے کیلئے مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے، آپ کے ساتھ عورتیں اور بچے تھے ، راستہ میں سات سرکشوں نے آپ کا راستہ روکنا چاہا ،لیکن آپ نے بڑے عزم وہمت کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا اور ان میں سے ایک کو قتل کیا اور اس کے باقی ساتھی بھاگ نکلے ۔

امام بغیر کسی چیز کے مقام بیداء پر پہنچے ،آپ صرف رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات کرنے کا شوق رکھتے تھے لہٰذا آپ مدینہ پہنچ گئے ،ایک قول یہ ہے :آپ نے مدینہ میں داخل ہونے سے پہلے مسجدقبا میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات کی ، نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ کی آمد سے بہت خوش ہوئے کیونکہ آپ کی ہر مشکل میں کام آنے والے مددگار آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس پہنچ گئے تھے ۔

۳۵

امام ، قرآن کی نظرمیں

حضرت علی کے متعلق قرآن کریم میں متعدد آیات نا زل ہو ئی ہیں ، قرآن نے رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد آپ کواسلام کی سب سے بڑی شخصیت کے عنوان سے پیش کیا ہے ،اللہ کی نگاہ میں آپ کی بڑی فضیلت اوربہت اہمیت ہے ۔متعدد منابع و مصادر کے مطابق آپ کی شان میں تین سو آیات نازل ہو ئی ہیں(۱) جو آپ کے فضل و ایمان کی محکم دلیل ہے۔

یہ بات شایان ذکر ہے کہ کسی بھی اسلا می شخصیت کے سلسلہ میں اتنی آیات نازل نہیں ہوئیںآپ کی شان میں نازل ہونے والی آیات کی مندرجہ ذیل قسمیں ہیں :

۱۔وہ آیات جو خاص طور سے آپ کی شان میں نازل ہوئی ہیں ۔

۲۔وہ آیات جو آپ اور آپ کے اہل بیت کی شان میں نازل ہو ئی ہیں ۔

۳۔وہ آیات جو آپ اور نیک صحابہ کی شان میں نازل ہو ئی ہیں ۔

۴۔وہ آیات جو آپ کی شان اور آپ کے دشمنوں کی مذمت میں نازل ہو ئی ہیں ۔

ہم ذیل میں ان میں سے کچھ آیات نقل کر رہے ہیں :

____________________

۱۔تاریخ بغداد، جلد ۶،صفحہ ۲۲۱۔صواعق محرقہ ،صفحہ ۲۷۶۔نورالابصار ،صفحہ ۷۶،وغیرہ ۔

۳۶

37

38

39

40

اب کے بچھڑا ہے تو کچھ نا شادماں وہ بھی تو ہے

اب کے بچھڑا ہے تو کچھ نا شادماں وہ بھی تو ہے

دھوپ ہم پر ہی نہیں بے سائباں وہ بھی تو ہے

*

شکوہ بیداد موسم اس سے کیجے بھی تو کیوں

کیا کرے وہ بھی کہ زیر آسماں وہ بھی تو ہے

*

اور اب کیا چاہتے ہیں لوگ دیکھیں تو سہی

دربدر ہم ہی نہیں بے خانماں وہ بھی تو ہے

*

ایک ہی دستک جہاں چونکائے رکھے ساری عمر

ایک انداز ِ شکست ِ جسم و جاں وہ بھی تو ہے

*

اس طرف بھی اک نظر اے راہرو منزل نصیب

وہ جو منزل پر لٹا ہے کارواں وہ بھی تو ہے

٭٭٭

۴۱

کھوئے ہوئے ایک موسم کی یاد میں

سمائے ہیں مری آنکھوں میں خواب جیسے دن

وہ ماہتاب سی راتیں گلاب جیسے دن

وہ کنج شہر وفا میں سحاب جیسے دن

*

وہ دن کے جن کا تصور متاع قریہ دل

وہ دن کہ جن کی تجلی فروغ ہر محفل

گئے وہ دن تو اندھیروں میں کھو گئی منزل

*

فضا کا جبر شکستہ پروں پہ آ پہنچا

عذاب دربدری بے گھروں پہ آ پہنچا

ذرا سی دیر میں سورج سروں پہ آ پہنچا

*

کسے دکھائے یہ بے مائیگی خزینوں کی

کٹی جو فصل تو غربت بڑھی زمینوں کی

یہی سزا ہے زمانے میں بے یقینوں کی

٭٭٭

۴۲

اک خواب ِ دل آویز کی نسبت سے ملا کیا

اک خواب ِ دل آویز کی نسبت سے ملا کیا

جز دربدری اس درِ دولت سے ملا کیا

*

آشوب فراغت! ترے مجرم ترے مجبور

کہہ بھی نہیں سکتے کہ فراغت سے ملا کیا

*

اک نغمہ کہ‌ خود کو اپنے ہی آہنگ سے محجوب

اک عمر کے پندار ِ سماعت سے ملا کیا

*

اک نقش کہ خود اپنے ہی رنگوں سے ہراساں

آخر کو شب و روز کی وحشت سے ملا کیا

*

جاں دے کر بھی بالا نہ ہوئے نرخ ہمارے

بازار معانی میں مشقت سے ملا کیا

*

جیتا ہوا میدان کہ ہاری ہوئی بازی

اس خانہ خرابی کی اذیت سے ملا کیا

*

اک خلعت دشنام و کلاہ سخن ِ بد

شہرت تو بہت پائی پہ شہرت سے ملا کیا

٭٭٭

۴۳

کوچ

جس روز ہمارا کوچ ہوگا

پھولوں کی دکانیں بند ہو گی

شیریں سخنوں کے حرف ِ دشنام

بے مہر زبانیں بند ہو ں گی

*

پلکوں پہ نمی کا ذکر ہی کیا

یادوں کا سراغ تک نہ ہوگا

ہمواری ہر نفس سلامت

دل پر کوئی داغ تک نہ ہوگا

پامالی خواب کی کہانی

کہنے کو چراغ تک نہ ہوگا

*

معبود! اس آخری سفر میں

تنہائی کو سرخرو ہی رکھنا

جز تیرے نہیں کوئی نگہدار

اُس دن بھی خیال تو ہی رکھنا

جس آنکھ نے عمر بھر رلایا

اس آنکھ کو بے وضو ہی رکھنا

*

جس روز ہمارا کوچ ہوگا

پھولوں کی دکانیں بند ہوں گی

٭٭٭

۴۴

ستاروں سے بھرا یہ آسماں کیسا لگے گا

ستاروں سے بھرا یہ آسماں کیسا لگے گا

ہمارے بعد تم کو یہ جہاں کیسا لگے گا

*

تھکے ہارے ہوئے سورجوں کی بھیگی روشنی میں

ہواؤں سے الجھتا بادباں کیسا لگے گا

*

جمے قدموں کے نیچے سے پھسلتی جائے گی ریت

بکھر جائے گی جب عمر رواں کیسا لگے گا

*

اسی مٹی میں مل جائے گی پونجی عمر بھر کی

گرے گی جس گھڑی دیوار ِ جاں کیسا لگے گا

*

بہت اترا رہے ہو دل کی بازی جیتنے پر

زیاں بعد از زیاں بعد از زیاں کیسا لگے گا

*

وہ جس کے بعد ہوگی ایک مسلسل بے نیازی

گھڑی بھر کا وہ سب شور فغاں کیسا لگے گا

*

ابھی سے کیا بتائیں مرگ مجنوں کی خبر پر

سلوک ِ کوچۂ نا مہرباں کیسا لگے گا

*

بتاؤ تو سہی اے جان جاں کیسا لگے گا

ستاروں سے بھرا یہ آسماں کیسا لگے گا

٭٭٭

۴۵

ہمیں خبر تھی کہ یہ درد اب تھمے گا نہیں

ہمیں خبر تھی کہ یہ درد اب تھمے گا نہیں

یہ دل کا ساتھ بہت دیر تک رہے گا نہیں

*

ہمیں خبر تھی کوئی آنکھ نم نہیں ہو گی

ہمارے غم میں کہیں کوئی دل دکھے گا نہیں

*

ہمیں خبر تھی کہ اک روز یہ بھی ہونا ہے

کہ ہم کلام کریں گے کوئی سنے گا نہیں

*

ہماری دربدری جانتی تھی برسوں سے

گھر جائیں بھی تو کوئی پناہ دے گا نہیں

*

ہماری طرح نہ آئے گا کوئی نرغے میں

ہماری طرح کوئی قافلہ لٹے گا نہیں

*

نمود خواب کی باتیں شکست خواب کا ذکر

ہمارے بعد یہ قصے کوئی کہے گا نہیں

*

غریب شہر ہو یا شہر یار ہفت اقلیم

یہ وقت ہے یہ کسی کے لیے رکے گا نہیں

*

مگر چراغ ہنر کا معاملہ ہے کچھ اور

یہ ایک بار جلا ہے تو اب بجھے گا نہیں

٭٭٭

۴۶

یہ بستیاں ہیں کہ مقتل دعا کیے جائیں

یہ بستیاں ہیں کہ مقتل دعا کیے جائیں

دعا کے دن ہیں مسلسل دعا کیے جائیں

*

کوئی فغاں، کوئی نالہ، کوئی بکا، کوئی بین

کھلے گا باب مقتل دعا کیے جائیں

*

یہ اضطراب یہ لمبا سفر، یہ تنہائی

یہ رات اور یہ جنگل دعا کیے جائیں

*

بحال ہو کے رہے گی فضائے خطۂ خیر

یہ حبس ہوگا معطل دعا کئے جائیں

*

گزشتگان ِ محبت کے خواب کی سوگند

وہ خواب ہوگا مکمل دعا کیے جائیں

*

ہوائے سرکش و سفاک کے مقابل بھی

یہ دل بجھیں گے نہ مشعل دعا کیے جائیں

*

غبار اڑاتی جھلستی ہوئی زمینوں پر

امنڈ کے آئیں گے بادل دعا کیے جائیں

*

قبول ہونا مقدر ہے حرف خالص کا

ہر ایک آن ہر اک پل دعا کیے جائیں

٭٭٭

۴۷

دل کو دیوار کریں، صبر سے وحشت کریں ہم

دل کو دیوار کریں، صبر سے وحشت کریں ہم

خاک ہو جائیں جو رسوائی کو شہرت کریں ہم

*

اک قیامت کہ تلی بیٹھی ہے پامالی پر

یہ گزر لے تو بیان ِ قد و قامت کریں ہم

*

حرف تردید سے پڑ سکتے ہیں سو طرح کے پیچ

ایسے سادہ بھی نہیں ہیں کہ وضاحت کریں ہم

*

دل کے ہمراہ گزارے گئے سب عمر کے دن

شام آئی ہے تو کیا ترک ِ محبت کریں ہم

*

اک ہماری بھی امانت ہے تہ خاک یہاں

کیسے ممکن ہے اس شہر سے ہجرت کریں ہم

*

دن نکلنے کو ہے چہروں پہ سجا لیں دنیا

صبح سے پہلے ہر اک خواب کو رخصت کریں

*

شوق ِ آرائش گل کا یہ صلہ ہے کہ صبا

کہتی پھرتی ہے کہ اب اور نہ زحمت کریں ہم

*

عمر بھی دل میں سجائے پھرے اوروں کی شبیہ

کبھی ایسا ہو کہ اپنی بھی زیارت کریں ہم

٭٭٭

۴۸

مقدر ہو چکا ہے بے در و دیوار رہنا

مقدر ہو چکا ہے بے در و دیوار رہنا

کہیں طے پا رہا ہے شہر کا مسمار رہنا

*

نمود خواب کے اور انہدام خواب کے بیچ

قیامت مرحلہ ہے دل کا ناہموار رہنا

*

دلوں کے درمیاں دوری کے دن ہں اور ہم کو

اسی موسم میں تنہا برسرپیکار رہنا

*

اندھیری رات اور شور سگاں کوئے دشنام

اور ایسے میں کسی آنکھ کا بیدار رہنا

*

تماشا کرنے والے آ رہے ہیں جوک در جوک

گروہ پابجولاں! رقص کو تیار رہنا

*

ہوائے کوئے قاتل بے ادب ہونے لگی ہے

چراغ جادہ صدق و صفا ہشاور رہنا

*

یہ دشواری تو آسانی کا خمیازہ ہے ورنہ

بہت ہی سہل تھا ہم کو بہت دشوار رہنا

*

ادھر کچھ دن سے اس بستی کو راس آنے لگا ہے

ہم آشفتہ سروں کے در پے آزار رہنا

٭٭٭

۴۹

ہم نہ ہوئے تو کوئی افق مہتاب نہیں دیکھے گا

ہم نہ ہوئے تو کوئی افق مہتاب نہیں دیکھے گا

ایسی نیند اڑے گی پھر کوئی خواب نہیں دیکھے گا

*

نرمی اور مٹھاس میں ڈوبا یہی مہذب لہجہ

تلخ ہوا تو محفل کے آداب نہیں دیکھے گا

*

پیش لفظ سے اختتام تک پڑھنے والا قاری

جس میں ہم تحریر ہیں بس وہی باب نہیں دیکھے گا

*

لہو رلاتے خاک اڑاتے موسم کی سفاکی

دیکھتے ہیں کب تک یہ شہر گلاب نہیں دیکھے گا

*

بپھرے ہوئے دریا کو ہوا کا ایک اشارہ کافی

کوئی گھر کوئی بھی گھر سیلاب نہیں دیکھے گا

*

بے معنی بے مصرف عمر کی آخری شام کا آنسو

ایک سبب دیکھے گا سب اسباب نہیں دیکھے گا

*

اک ہجرت اور ایک مسلسل دربدری کا قصہ

سب تعبر یں دیکھیں گے کوئی خواب نہیں دیکھے گا

٭٭٭

۵۰

روش میں گردش ساارگاں سے اچھی ہے

روش میں گردش ساارگاں سے اچھی ہے

زمین کہںش کی بھی ہو آسماں سے اچھی ہے

*

جو حرف حق کی حمایت مںب ہو وہ گمنامی

ہزار وضع کے نام و نشاں سے اچھی ہے

*

عجب نہںع کل اسی کی زبان کھنچ جائے

جو کہہ رہا ہے خموشی زباں سے اچھی ہے

*

بس ایک خوف کہںا دل یہ بات مان نہ جائے

یہ خاک غرک ہمں آشاہں سے اچھی ہے

*

ہم ایسے گل زدگاں کو بہار یک ساعت

نگار خانۂ عہد خزاں سے اچھی ہے

٭٭٭

۵۱

شہر بے مہر سے پما ن وفا کا باندھیں

شہر بے مہر سے پما ن وفا کا باندھیں

خاک اڑتی ہے گل تر کی ہوا کاا باندھیں

*

جانتے ہیں سفر شوق کی حد کیا ہوگی

زور باندھںت بھی تو ہم آبلہ پا کا باندھیں

*

کوئی بولے گا تو آواز سنائی دے گی

ہو کا عالم ہو تو مضمون صدا کان باندھیں

*

ساری بستی ہوئی اک موجۂِ سفاک کی نذر

اب کوئی بند سر سلا بلا کا باندھیں

*

آخرش ہر نفس گرم کا انجام ہے ایک

سو گھڑی بھر کو طلسم من و ما کا باندھیں

٭٭٭

۵۲

محبت کی ایک نظم

مری زندگی مں بس اک کتاب ہے اک چراغ ہے

ایک خواب ہے اور تم ہو

یہ کتاب و خواب کے درماون جو منزلںس ہںا، مںچ چاہتا تھا

تمہارے ساتھ بسر کروں

ییہ کل اثاثہ ِ زندگی ہے اسی کو زاد ِ سفر کروں

کسی اور سمت نظر کروں تو مری دعا مں اثر نہ ہو

مرے دل کے جادۂِ خوش خبر پہ بجز تمہارے کبھی کسی کا گزر نہ ہو

مگر اس طرح کہ تمہںر بھی اس کی خبر نہ ہو

اسی احتایط مںت ساری عمر گزر گئی

وہ جو آرزو تھی کتاب و خواب کے ساتھ تم بھی شریک ہو وہی مر گئی

اسی کشمکش نے کئی سوال اٹھائے ہںا

وہ سوال جن کا جواب مر ی کتاب مںھ ہے نہ خواب مںہ

مرے دل کے جادۂ خوش خبر کے رفقں

تم ہی بتاؤ پھر کہ یہ کاروبار ِ حاےت کس کے حساب مںت

مری زندگی مںب بس اک کتاب اک چراغ ہے

ایک خواب ہے اور تم

٭٭٭

۵۳

جو فضل سے شرف ِ استفادہ رکھتے ہںا

جو فضل سے شرف ِ استفادہ رکھتے ہںا

کچھ اہل ِ درد سے نسبت زیادہ رکھتے ہںی

*

رموز ِ مملکت ِ حرف جاننے والے

دلوں کو صورت ِ معنی کشادہ رکھتے ہںک

*

شب ِ ملال بھی ہم رہ روان ِ منزل ِ عشق

وصال ِ صبح سفر کا ارادہ رکھتے ہںا

*

جمال ِ چہرہ ِ فردا سے سرخرو ہے جو خواب

اس ایک خواب کو جادہ بہ جادہ رکھتے ہں

*

مقام ِ شکر کہ اس شہر ِ کج ادا مںد بھی لوگ

لحاظ ِ حرف دل آویز و سادہ رکھتے ہں

*

بنام ِ فضف، بجان ِ اسد فقرر کے پاس

جو آئے آ گئے ہم دل کشادہ رکھتے ہںے

٭٭٭

۵۴

تیری شوریدہ مزاجی کے سبب تیرے نہیں

تیری شوریدہ مزاجی کے سبب تیرے نہیں

اے مرے شہر ترے لوگ بھی اب تیرے نہیں

*

میں نے ایک اور بھی محفل میں انھیں دیکھا ہے

یہ جو تیرے نظر آتے ہیں یہ سب تیرے نہیں

*

یہ بہ ہر لمحہ نئی دھن پہ تھرکتے ہوے لوگ

کون جانے کہ یہ کب تیرے ہیں کب تیرے نہیں

*

تیرا احسان کہ جانے گئے پہچانے گئے

اب کسی اور کے کیا ہوں گے یہ جب تیرے نہیں

*

در بدر ہوکے بھی جو تیری طرف دیکھتے تھے

وہ ترے خانماں برباد بھی اب تیرے نہیں

*

اب گلہ کیا کہ ہوا ہو گئے سب حلقہ بگوش

میں نہ کہتا تھا کہ یہ اہل طلب تیرے نہیں

*

ہو نہ ہو دل پہ کوئ بوجھ ہے بھائی ورنہ

بات کہنے کے یہ انداز یہ ڈھب تیرے نہیں

٭٭٭

۵۵

سمجھ رہے ہیں مگر بولنے کا یارا نہیں

سمجھ رہے ہیں مگر بولنے کا یارا نہیں

جو ہم سے مل کے بچھڑ جائے وہ ہمارا نہیں

*

ابھی سے برف اُلجھنے لگی ہے بالوں سے

ابھی تو قرضِ ماہ و سال بھی اُتارا نہیں

*

سمندورں کو بھی حیرت ہوئی کہ ڈوبتے وقت

کسی کو ہم نے مد د کے لیے پکارا نہیں

*

جو ہم نہیں تھے تو پھر کون تھا سرِ بازار

جو کہ رہا تھا کہ بکنا ہمیں گوارا نہیں

*

ہم اہلِ دل ہیں محبت کی نسبتوں کے امیں

ہمارے پاس زمینوں کا گوشوارہ نہیں

٭٭٭

۵۶

ہو کے دنیا میں بھی دنیا سے رہا اور طرف

ہو کے دنیا میں بھی دنیا سے رہا اور طرف

دل کسی اور طرف دستِ دعا اور طرف

*

اک رجز خوان ہنر کاسہ و کشکول میں طاق

جب صفِ آرا ہوئے لشکر تو ملا اور طرف

*

اے بہ کہ ہر لمحہ نئے وہم میں الجھے ہوئے شخص

میری محفل میں الجھتا ہے تو جا اور طرف

*

اہلِ تشیری و تماشا کے طلسمات کی خیر

چل پڑے شری کے سب شعلہ نوا اور طرف

*

کیا مسافر تھا سفر کرتا رہا اس بستی میں

اور لو دیتے تےل نقشِ کفِ پا اور طرف

*

شاخِ مژگاں سے جو ٹوٹا تھا ستارہ سرِ شام

رات آئ تو وہی پھول کھلا اور طرف

*

نرغۂ ظلم میں دکھ سیھل رہی خلقتِ شرج

اہلِ دنیا نے کیے جشن بپا اور طرف

٭٭٭

۵۷

شہرِ گل کے خس و خاشاک سے خو ف آتا ہے

شہرِ گل کے خس و خاشاک سے خو ف آتا ہے

جس کا وارث ہوں اُسی خاک سے خوف آتا ہے

*

شکل بننے نہیں پا تی کہ بگڑ جا تی ہے

نئی مٹی کو ابھی چا ک سے خوف آتا ہے

*

وقت نے ایسے گھمائے افق آفاق کہ بس

محورِ گردشِ سفّا ک سے خوف آتا ہے

*

یہی لہجہ تھا کہ معیار سخن ٹھہرا تھا

اب اسی لہجۂ بے باک سے خوف آتا ہے

*

آگ جب آگ سے ملتی ہے تو لو دیتی ہے

خاک کو خاک کی پو شاک سے خوف آتا ہے

*

قامتِ جاں کو خوش آیا تھا کبھی خلعتِ عشق

اب اسی جامۂ صد چاک سے خوف آتا ہے

*

کبھی افلاک سے نا لوں کے جواب آتے تھے

ان دنوں عالمِ افلاک سے خوف آتا ہے

*

رحمتِ سیدِؐ لولاک پہ کامل ایمان

امتِ سیدِؐ لولاک سے خوف آتا ہے

٭٭٭

۵۸

فہرست

وہی پیاس ہے وہی دشت ہے وہی گھرانا ہے ۴

آخری آدمی کا رجز ۵

ایک رخ ۷

خوف کے موسم میں لکھی گئی ایک نظم ۸

بستی بھی سمندر بھی بیاباں بھی مرا ہے ۹

پتہ نہیں کیوں ۱۰

دن گزرا آشفتہ سر خاموش ہوئے ۱۱

سرگوشی ۱۲

سمجھ رہے ہیں مگر بولنے کا یارا نہیں ۱۳

رنگ تھا روشنی تھا قامت تھا ۱۴

ہوائیں ان پڑھ ہیں ۱۵

دعا ۱۶

کہیں سے کوئی حرف معتبر شاید نہ آئے ۱۷

پھول مہکیں مرے آنگن میں صبا بھی آئے ۱۸

ابو الہول کے بیٹے ۱۹

جھوٹ ۲۰

استغاثہ ۲۱

ذرا سی دیر کو آئے تھے خواب آنکھوں میں ۲۲

۵۹

ان وعدہ اللہ حق ۲۳

صحرا میں ایک شام ۲۴

ھل من ناصراً ینصرنا ۲۵

خواب کی طرح بکھر جانے کو جی چاہتا ہے ۲۶

اے میری زندگی کے خواب، شام بخیر شب بخیر ۲۷

جن کی پرواز کے چرچے کبھی افلاک میں تھے ۲۸

ایک پل کا فاصلہ ۲۹

التجا ۳۰

دکھ اور طرح کے ہیں دعا اور طرح کی ۳۱

یہ اب کھلا کہ کوئی بھی منظر مرا نہ تھا ۳۲

یہ معجزہ بھی کسی کی دعا کا لگتا ہے ۳۳

امید و بیم کے محور سے ہٹ کے دیکھتے ہیں ۳۴

جیسا ہوں ویسا کیوں ہوں سمجھا سکتا تھا میں ۳۵

میرے خدا میرے لفظ و بیاں میں ظاہر ہو ۳۶

انھیں بستیوں میں جیتے انھیں بستیوں میں مر رہتے ۳۷

قلم جب درہم و دینار میں تولے گئے تھے ۳۸

فریب کھا کے بھی اک منزل قرار میں ہیں ۳۹

جہاں بھی رہنا ہمیں یہی اک خیال رکھنا ۴۰

اب کے بچھڑا ہے تو کچھ نا شادماں وہ بھی تو ہے ۴۱

کھوئے ہوئے ایک موسم کی یاد میں ۴۲

۶۰

61