• ابتداء
  • پچھلا
  • 40 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 8655 / ڈاؤنلوڈ: 1397
سائز سائز سائز
جدید مرثیہ

جدید مرثیہ

مؤلف:
اردو

حواشی

( ۱) مجتبیٰ حسین، پروفیسر ‘‘مرثیہ اور عہد جدید’’ مشمولہ جدید مرثیہ نگاری از سید وحیدالحسن ہاشمی، لاہور، مکتبہ تعمیر انسانیت، ۱۹۶۷ ء، ص ۱۸۴

( ۲) گوپی چند نارنگ، سانحہ کربلا بطور شعر ی استعارہ، لاہور، سنگ میل پبلی کیشنز، ۱۹۹۱ ء، ص ۲۰

( ۳) محمد حسن، ڈاکٹر ‘‘ادبی سماجیات کے نقطۂ نظر سے مرثیے کا مطالعہ’’ سہ ماہی ‘‘رثائی ادب’’ کراچی، اپریل ۲۰۰۲ U ، ص ۱۱

( ۴) سلیم اختر، ڈاکٹر ‘‘وحیدالحسن ہاشمی کے مرثیے’’ مشمولہ ‘‘العطش ‘‘ (جلد سوم)، لاہور، الحبیب پبلی کیشنز، ۱۹۹۸ ء، ص ۲۳۵

( ۵) خواجہ محمد زکریا، ڈاکٹر، قدیم نظمں ، لاہور، بک ورلڈ، ۱۹۶۴ ء، ص ۲۷۱

( ۶) سجاد باقر رضوی، ڈاکٹر، معروضات، لاہور، پولیمر پبلی کیشنز، ۱۹۸۸ ء، ۳۷

( ۷) صفدر حسین، سدم، ڈاکٹر، مرثیہ بعدانیس، لاہور، سنگ میل پبلی کیشنز، ۱۹۷۱ ء، ص ۲۳ ۔

( ۸) عابدعلی عابدؔ (دیباچہ)، موازنۂ انیسؔ و دبیرؔ، لاہور، مجلس ترقی ادب، سن۔ ن، ص ۶ ۔

( ۹) احتشام حسین (مقدمہ)، مراثی انیس مںؔ ڈرامائی عناصر، لکھنؤ : نسیم بکڈپو، ۱۹۵۹ ء، ص ۷

( ۱۰) شجاعت علی سندیلوی، تعارفِ مرثیہ، الہ آباد، ادارہ انیس اردو، ۱۹۵۹ ء، ص ۴۴ ۔

( ۱۱) سجاد باقر رضوی، ڈاکٹر،معروضات، لاہور، پولیمر پبلی کیشنز، ۱۹۸۹ ء، ص ۳۷ ۔

( ۱۲) عاشور کاظمی، سیداردو مرثیے کا سفر دہلی : ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، ۲۰۰۶ ء، ص ۶۰۰ ۔

( ۱۳) سجاد باقر رضوی، ڈاکٹر، معروضات، لاہور : پولیمر پبلی کیشنز، ۱۹۹۸ ء، ص ۲۲ ۔

( ۱۴) عبداللہ، سید، ڈاکٹر، وجہی سے عبدالحق تک، لاہور : خیابان ادب، ۱۹۷۷ ء، (طبع دوم)، ص ۱۱۵

۲۱

( ۱۵) احراز نقوی، ڈاکٹر، انیس ایک مطالعہ ، لاہور : مکتبہ میری لائبریری، ۱۹۸۲ ء، ص ۲۳

( ۱۶) محمد حسن، ڈاکٹر، ‘‘ادبی سماجیات کے نقطۂ نظر سے مرثیے کا مطالعہ’’ مشمولہ رثائی ادب، کراچی، اپریل ۲۰۰۲ ء، ص ۲۳

( ۱۷) ہلال نقوی، ڈاکٹر ‘‘بیسویں صدی اور جدید مرثیہ’’ کراچی، محمدی ٹرسٹ، ۱۹۹۴ ء، ص ۷

( ۱۸) طاہر حسین کاظمی، ڈاکٹر، اُردو مرثیہ میر انیس کے بعد،دہلی : ایرانین آرٹ پرنٹرز، ۱۹۹۷ ء، ص ۱۰۵

( ۱۹) احراز نقوی، ڈاکٹر، جدید فنِ مرثیہ نگاری، مرتبہ : وحیدالحسن ہاشمی، لاہور، مکتبہ تعمیر ادب، ۱۹۶۷ ء، ص ۲۱۲

( ۲۰) محمد رضا کاظمی، جدید اُردو مرثیہ، کراچی، مکتبہ ادب ۱۹۸۱ ء، ص ۱۳ ۔

( ۲۱) شجاعت علی سندیلوی، تعارف مرثیہ، الہ آباد، ادارہ انیس اُردو، ۱۹۵۹ ء، ص ۷۰

( ۲۲) اسد اریب، ڈاکٹر، اُردو مرثیے کی سرگزشت، لاہور : کاروانِ ادب، ۱۹۸۹ ء، ص ۸۴ ۔ ۸۹

( ۲۳) حامد حسن قادری، مختصر تاریخ مرثیہ گوئی، کراچی، اردو اکیڈمی سندھ، ۱۹۶۴ ء، ص ۱۰۰

( ۲۴) شجاعت علی سندیلوی، تعارفِ مرثیہ، الہ آباد، ادارۂ انیس اُردو، ۱۹۵۹ ء، ص ۸۶

( ۲۵) محمد رضا کاظمی، جدید اُردو مرثیہ کراچی : مکتبۂ ادب، ۱۹۸۱ ء، ص ۸۶

( ۲۶) ضمیر اختر نقوی (مرتب)، جو ش کے مرثیے، کراچی، ادارۂ فیض ادب، ۱۹۸۰ ء، ص ۲۲

( ۲۷) کرار حسین، پروفیسر (پشض لفظ)، مراثی آلِ رضا، کراچی، خراسان اسلامک ریسرچ سنٹر، ۱۹۸۱ ء

( ۲۸) عاشور کاظمی، سیداُردو مرثیے کا سفر دہلی : ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، ۲۰۰۶ ء، ص ۴۵۴

( ۲۹) اسد اریب، ڈاکٹر، اردو مرثیے کی سرگزشت، لاہور، کاروانِ ادب، ۱۹۸۹ ء، ص ۱۰۱

( ۳۰) صفدر حسین، سید، ڈاکٹر، مرثیہ بعد انیس، لاہور، سنگ میل پبلی کیشنز، ۱۹۷۱ ء، ص ۱۷۴

( ۳۱) اسد اریب، ڈاکٹر،اُردو مرثیے کی سرگزشت،لاہور : کاروانِ ادب، ۱۹۸۹ ء، ص ۸۵

( ۳۲) ہلال نقوی، ڈاکٹر (مقدمہ)، لہو لہو کہکشاں، کراچی، ادارہ تقدیس قلم، ۱۹۸۹ ء، ص ۲۹

( ۳۳) عرفی ہاشمی، بُجھے چراغوں کی روشنی (مرثیے)، لاہور: الحسن پبلی کیشنز، ۲۰۰۵ ء، ص ۹

۲۲

ڈاکٹر سیّد شبیہ الحسن کی تحقیق و تنقید کا نقطہ مرکزی اور مرغوب موضوع مرثیہ اور مرثیہ گو شعرا رہا ہے، خاص طور پر جدید مرثیہ گو شعراء۔مرثیے کی تحقیق و تنقید ڈاکٹر شبیہ کا امتیاز یوں ٹھہرتی ہے کہ رثائی ادب کے سلسلے مں۔ اُن کی اب تک شائع ہونے والی کُتب مںث نصف کے قریب مرثیے کی تدوین، تحقیق، تفہیم اور تفسیر سے متعلق ہں۔۔ اس سلسلے مں۔ انہوں نے متعدد امکانی موضوعات پر مباحث کے در وا کیے ہںغ۔ انہوں نے لکیر کو نہیں پیٹا بلکہ ایسا فکری موقف اختیار کیا ہے جو مرثیے کے کئی نئے زاویے سامنے لاتا ہے یوں مرثیے کی تفہیم اور اس کے فنی پہلوؤں کو مزید نکھارا ہے۔(محمد شفیع بلوچ کے مضمون رثائی ادب کا ابن خلدون ڈاکٹر سیّد شبیہ الحسن سے اقتباس

مطبوعہ عکاس انٹرنیشنل اسلام آباد محرم الحرام نمبر۔جنوری ۲۰۰۹ ء۔ص ۲۵)

۲۳

اردو ادب میں مرثیے اور سلام کی حیثیت

تسلیم الہیٰ زلفیؔ ( کینیڈا)

سانحۂ کربلا کے حوالے سے اُردو زبان مں مرثیہ اور سلام ایک ایسی صنفِ ادب بن گئی ہے جو کسی دوسری زبان مںن نہںل پائی جاتی۔ میر انیسؔ اور دبیرؔ نے اُردو مرثیے اور سلام کو جس بلندی پر پہنچایا وہ کسی سے پوشیدہ نہںن ہے۔

ہر صنفِ ادب مںے وقت کے ساتھ نِت نئی تبدیلیاں رُو نما ہوئںا اور یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔ لہذا دیکھنا یہ ہے کہ مرثیے اور سلام مں کس قسم کی تبدیلیاں ہوئی ہںا۔ اور جدید مرثیہ اور سلام کیا ہے۔ مرثیے اور سلام کو فکری بنیادوں آگے بڑھانے والے کون ہںھ۔ اور مرثیے اور سلام کی ہتئں کی تبدیلیوں سے کیا صورتِ حال بنی ہے۔

کسی بھی صِنفِ ادب کے فروغ کتابں۔، رسائل اور ناقدین اہم کردار ادا کرتے ہںر۔ ہم دیکھتے ہںر کہ مرثیہ اور سلام ایک مقبول صِنفِ ادب ہونے کے باوجود امام بار گاہوں تک محدود کر دی گئی ہے۔ ادبی رسائل مںس مراثی اور سلام شامل نہں r کئے جاتے ہںے۔ مختلف شعراء کے مرثیوں اور سلام کے مجموعے شائع ضرور ہوتے ہںہ لیکن اُن کی تشہیر دیگر ادبی کتابوں کی صورت نہیں ہوتی۔ جبکہ ہمارے بیشتر ناقدین اس جانب متوّجّہ نہںک ہوتے۔ ان کی لا تعلقی کے اسباب کیا ہںر۔ ۔اور یہ کہ مرثیے اور سلام کی ادب مںہ کیا حیثیت ہے ؟

ادب کوئی ایسی مُجرّد حقیقت نہںب ہے کہ وہ مُعلّق فضاء مںی لکھا جائے۔ پچھلے ڈیڑھ دو سو برس مں؟ ہمارے معاشرے مں تہذیبی اور سیاسی انداز کی جو تبدیلیاں آئی ہںت اس سے مرثیے اور سلام کی صِنف بھی متاثر ہوئی۔ اگر آپ میر انیسؔ کے بعد کا زمانہ لںب تو جدید مرثیے اور سلام کا تصور جوش ؔ صاحب سے قائم ہُوا۔ برِّ صغیر کی جنگِ آزادی لڑی جا رہی تھی اور جوشؔ صاحب نے کربلا کو اُس آزادی کے رشتے سے ہم آہنگ کر کے جو مرثیے اور سلام لکھے۔ ۔وہاں سے جدید مرثیے اور سلام کا تصوّر قائم ہُو۔ اُس سے بہت پہلے ہم اقبالؔ کی شاعری کی طرف متوجّہ ہوتے ہںا تو ‘ رموزِ بے خودی’ سے سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ ۱۹۱۸ ؁ مںک ‘ رموزِ بے خودی’ شائع ہوئی ہے۔ سلیم چِشتی نے ‘رموزِ بے خودی’ کی شرح لکھی ہے، انہوں نے لکھا ہے کہ، مںر نے علاّمہ اقبال سے پوچھا کہ آپ فرماتے ہیں

؎

۲۴

زاتشِ اُو شعلہ ہا اندوختیم

رَمزِ قرآں از حُسین ؓ آموختیم

٭٭٭

تو ‘ رمزِ قرآں’ سے کیا مُراد لیتے ہںھ۔ تو انہوں نے جواب دیا کہ تعلیماتِ قرآن کی روح یہ ہے کہ باطل کے خلاف صف آراء ہو جاؤ۔ اِس تناظر مں’ جوشؔ صاحب نے پہلا مرثیہ ‘آوازِ حق’ لکھا۔ اُس سے ایک جدید مرثیے کا تصوّر سامنے آیا۔ ۔اگر ہم عہدِ انیسؔ کا مرثیہ یا سلام پڑھتے ہںل تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کوئی اہم واقعہ رُو نما ہُوا ہے۔ میر انیسؔ کا یہ شعر دیکھئے ۔ ۔۔۔ ؎

آج شبّیرؓ پہ کیا عالمِ تنہائی ہے

ظلم کی گلشنِ زِہرہؓ پہ گھٹا چھائی ہے

٭٭٭

لیکن آج کا مرثیہ یا سلام پڑھتے ہںی تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کوئی عظیم واقعہ رُو نما ہُوا ہو۔ کہا جاتا ہے کہ اُس دَور کا مرثیہ ایک خبر تھا، جبکہ آج کا مرثیہ تجزیہ ہے۔ اُس مرثیے مںس حالات کی جنگ ہے، جبکہ آج کے مرثیے مںہ نظریات کی جنگ ہے۔جوشؔ صاحب سیدّنا حسینؓ کے کردار کو انسانی حوالے سے دیکھ تے ہںے، ا ور اُسی پر زیادہ زور دیتے ہں ملاحظہ ہو ۔ ۔۔۔ ؎

دل بھی جھُکتا جاتا تھا سجدے مں پیشانی کے ساتھ

کیا نمازِ شاہ تھی ا رکانِ ایمانی کے ساتھ

٭٭٭

ماضی مںی جو مرثیے لکھے گئے ان کی تعریف آسان ہے۔ اُن مںا ایک سراپا ہے، آمد ہے، رَجَز ہے، رخصت ہے، یہ سب باتںر آتی ہںھ۔ مگر آج کا مرثیہ کسی بھی لکھا تھا یہ اُن مرثیوں کے سیاسی محرّکات ہں اور جوشؔ ہی اُس سیاسی جد و جہد کو مرثیے سے منسلک کرتے ہں ۔

۲۵

آپ یہ دیکھیں کہ جتنی نظم نگاری مںی سیاسی شاعری ہوئی ہے، اُسی قدر مرثیے مںس سیاسی فکر نمایاں ہوئی ہے۔ اِس ضمن مںا بعض اہلِ فن کا کہنا ہے کہ مرثیے کو صرف مسدّس ہی مںھ لکھا جانا چاہیے، تو بہت پہلے علاّمہ جمیل مظہری اور حاضر مں ڈاکٹر ہِلال نقوی نے مسدّس کی فارم سے بہت ہٹ کر مرثیے لکھے ہںر۔ دیکھیے ہِلالؔ نقوی کا انداز۔ ۔۔۔ ؎

تڑپ کے اُٹھ نہ کھڑے ہوں قتیلِ راہِ وفا

پُکارتا ہے کوئی کربلا کی بستی مںا

٭٭٭

سَمت کا تعیّن نہں کرتا۔ جوشؔ صاحب اپنے مرثیے کو آزادی کی تحریک سے مِلا دیتے ہںے۔ جبکہ علاّمہ جمیل مظہری کے یہاں فلسفیانہ رنگ ہے ۔ ۔۔۔۔ ؎

کیوں کہوں کہ راہِ حق مںت مظہریؔ دریا نہ تھا

بھیک جو دریا سے لے، اتنا کوئی پیاسا نہ تھا

٭٭٭

لیکن نیمد ؔ امروہوی کے یہاں بالعموم دینی اِستدلال مِلتا ہے ۔ ۔۔۔ ؎

عشقِ خدا کا بار، نہ کہسار سے اُٹھا

افلاک سے نہ عرشِ ضیاء بار سے اُٹھا

یہ کیا نہ انتہائے خوش اطوار سے اُٹھا

حُسینِؓ بے کسَ و بے یار سے اُٹھا

رُخ زَر د آدم و مَلَک و جِن کا ہو گیا

یہ ہو گئے خدا کے، خدا اِن کا ہو گیا

٭٭٭

۲۶

اور آلِ رضاء کے اعتقاد و ایمان کے یہ تیور ہںی۔ ۔۔۔۔ ؎

لغزشیں ہم سے بھی ہوتی ہیں، مگر واہ رے ہم

یا علیؓ کہہ کے سنبھلنے میں مزا آتا ہے

٭٭٭

آج کے مرثیہ و سلام نگار بالکل مختلف انداز سے سوچتے ہں ۔ کہںس سائنسی تجزیہ ہے، کہں سیاسی بحث ہے اور کہںی کربلا کے سماجی پہلو نمایاں ہوتے ہںے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ فکری روّیہ کیا ہے۔ میرے خیال مںب آج کا مرثیہ اور سلام نگار تین کرداروں کے گِرد گھوم رہا ہے : حضرت حسینؓ، بی بی زینبؓ اور حضرت عباّسؓ، لیکن جب وہ عونؓ و محمّدؓ اور بی بی سکینہؓ کے متعلق لکھتا ہے تو ایک بے بسی سی محسوس ہوتی ہے، وہ اِس انداز کے رَوّیے جدید انداز مںا پیش نہںی کرسکتا !

میرا خیال ہے کہ وہ مرثیہ او رسلام جو مقصدِ شہادت کو واضح طور پر بیان کرتا ہے، وہ واقعتاً مقدّم ہے اور جدید ہے، یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ مرثیے اور سلام مںب جو واضح تبدیلی آئی ہے وہ دبرؔا کے بیٹے اوجؔ سے آئی ہے۔ لیکن اوجؔ کا شعر سننے سے پہلے مرزا دبیرؔ کی گھن گرج ملاحظہ فرمائںو۔ ۔۔۔۔ ؎

کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے

رن ایک طرف، چرخِ کہن کانپ رہا ہے

٭٭٭

۲۷

اب آتے ہںے مرزا اوجؔ کی طرف، جن کا کہنا ہے کہ۔ ۔۔۔ ؎

حُسینؓ جہد و عمل میں ہیں، کربلا میں نہیں

وہاں تو صرف چڑھایا تھاآستیوں کو

٭٭٭

یعنی فن برائے فن کا جو تصوّر وابستہ تھا، اُس کو سب سے پہلے اوجؔ نے اور پھر دبیرؔ کے شاگرد شادؔ عظیم آبادی نے توڑا۔ دوسری منزل جوشؔ صاحب کی ہے، انہوں نے اس سیاسی بیداری کو بغیر کسی ابہام کے سیاسی واقعات اور سیاسی جِد و جُہد سے منسلک کیا، لہذا ‘ آوازِ حق’ جوشؔ صاحب نے جَلیانوالہ باغ کے ردِّ عمل مں لکھا تھا۔ یہ ان مرثیوں کے سیاسی محرکات ہںی اور جوشؔ ہی اس سیاسی جدوجہد کو مرثیے سے منسلک سے منسلک کرتے ہںث۔

آپ یہ دیکھیں کہ جتنی نظم نگاری مں سیاسی شاعری ہوئی ہے، اسی قدر مرثیے مںا سیاسی فکر نمایاں ہوئی ہے۔ اس ضمن مں۔ بعض اہلِ فن کا کہنا ہے کہ مرثیے کو صرف مسدّس ہی مںس لکھنا چاہیے، تو بہت پہلے علامہّ جمیل مظہری اور حاضر مں ڈاکٹر ہلال نقوی نے مسدّس کی فارم سے بہت ہٹ کر مرثیے لکھے ہںت۔ دیکھیے ہلال نقوی کا انداز ۔ ۔۔ ؎

تڑپ کے اٹھ نہ کھڑے ہوں قتیلِ راہِ وفا

پکارتا ہے کوئی کربلا کی بستی میں

مئے وِلا کے شرابی شِکستہ حال سہی

خرید لیتے ہیں جنّت کو فاقہ مستی میں

٭٭٭

۲۸

میں سمجھتا ہوں کہ موضوع ہی صِنف کا تعین کرتا ہے، صِنف موضوع کا تعیّن نہیں کرتی۔ اُردو مں جو مرثیہ ہے، وہ ایک بالکل مختلف صِنف ہے۔ اُردو نے عربی سے مرثیہ ضرور قبول کیا ہے، لیکن اُردو مںہ مرثیہ سیّدنا حُسینؓ اور شہدائے کربلا سے مخصوص کر دیا گیا ہے، اور اِس مںن مرثیہ گو شعراء کوشش کرتے ہںک کہ سیدّنا حُسینؓ کے اعلیٰ کردار کے حوالے سے اپنی سیاسی، تہذیبی اور معاشرتی اَقدار کو بلند کریں، اِس لئے کہا جاتا ہے کہ اُردو مںّ جو مرثیہ ہے وہ بالکل مختلف ہے۔ یہ صِنف اگر کسی سے تھوڑی بہت ملتی ہے تو وہ رَزمیہ ہے، لیکن رَزمیے سے یوں مختلف ہے کہ رَزمیے مںت کردار خیالی ہوتے ہںس، جبکہ مرثیے کے کردار اصلی ہںہ اور ان کی بہت بڑی اہمیّت ہے۔ دوسری چیز یہ کہ جب آپ جدید مرثیے اور سلام کی بات کرتے ہںر تو جدید مرثیے اور سلام کا تعلق جدّت سے نہںر ہے۔ جدیدیت کا سلسلہ ہمارے یہاں اُس وقت سے شروع ہوتا ہے جب سے جنگِ آزادی اور سرسیّد تحریک شروع ہوئی اور اس مں ہم نے نئے نئے موضوعات جن کی معاشرے مںل ضرورت تھی، انہںی نثری ادب اور شاعری مںز پیش کرنا چاہا، وہاں سے ہمارا یہ جدید رَوّیہ شروع ہوتا ہے۔ مںب یہ نہںّ کہتا کہ ہماری روایتی شاعری بالکل ہی بے مقصد تھی۔۔وہ اَقدار پر مبنی تھی جس مںے آپ کا طرزِ احساس اَقدار سے متعلق تھا، لیکن اُس کے بعد اَقدار کے بجائے تجربات و مشاہدات شامل ہوئے اور سر سیّد تحریک کا سب سے بڑا کار نامہ بھی یہی ہے کہ چاروں طرف جو کچھ ہو رہا تھا اُسے موضوع بنایا گیا، وہںے سے جدید انداز اختیار کیا گیا اور یہ طرزِ احساس مرثیے اور سلام مںک بھی داخل ہُوا۔مرزا اوجؔ نے جو مرثیے کہے ہںڑ وہ سر سیّد تحریک کے موضوعات تھے، لیکن انہوں نے اپنے طرزِ احساس مںف کوئی تبدیلی نہ کی اُن کا طرزِ احساس روایتی تھا، کیونکہ اُن کا طرزِ احساس اَقدار پر قائم تھا۔ جدید حِسیّت کی تعلیم یہ ہے کہ بجائے اَقدار کے ذاتی تجربے پر قائم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض باریک بین نقّاد، جوشؔ ملیح آبادی اور علاّمہ جمیل مظہری کے مرثیوں کو بھی اِس لحاظ سے جدید نہں کہتے کہ ان مںَ بھی طرزِ احساس روایتی ہے، اَقدار کے اوپر بنیاد ہے، البتّہ موضوعات نئے ہں جو سر سیّد تحریک کا حصّہ ہںق۔ ہمارے یہاں جو جدّت آئی ہے وہ ذاتی احساس سے آئی ہے۔

۲۹

ہم دیکھتے ہںت کہ سلام کا بنیادی موضوع بھی مرثیے والا ہی ہے، یعنی واقعاتِ کربلا، مصائبِ حُسینؓ و انصارِ حُسین، لیکن غزل کی طرح اس کے منفرد اشعار اور ردیف و قوافی کی پابندی کے سبب اس مں جولانیِ طبع دکھانے کی گنجائش بیحد کم ہوتی ہے۔ البتہ اگر سلام کہنے والا شاعر مشّاق، کہنہ مشق اور فکرِ رسا کا ملک ہو تو وہ اپنی جولانیِ طبع سے سلام مںب بھی قصیدے، مرثیے اور غزل کا لطف پیدا کر دیتا ہے۔ صباؔ اکبر آبادی صاحب کی فکرِ رسا، قادر الکلامی اور کہنہ مشقی نے سلام کو ایک نئی معنویت اور اشاریت دیدی ہے، ان کے سلام پڑھتے وقت ایسا محسوسو ہوتا ہے کہ یہ تشبیہات اور تراکیب محمدﷺ و آلِ محمدﷺ کی تعریف کے لئے ہی بنی ہںِ۔ صباؔ صاحب کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ تشبیہات اور الفاظ کے استعمال مںد حفظ مراتب کا بیحد خیال رکھتے ہںئ، وہ جہاں جس کے لئے جو لفظ استعمال فرماتے ہںی، وہ اس شخص کے لئے خاص معنویت رکھتا ہے، اور اس ماحول و فضاء مںھ اس بات کی بڑی اہمیت ہے۔ اس ضمن مںہ صباؔ صاحب نے سانحۂ کربلا کی کچھ نہایت ہی کڑی اور تکلیف دہ ساعتوں کی کیفیت اور شدّت کو بیان کرنے کے لئے اس کے نفسیاتی پہلو تلاش کئے ہں ، جو نہ صرف اس کے تاثّر اور درد انگیزی مںل اضافہ کرتے ہںا، اس طرح وہ واقعے کی تفصیل بیان کئے بغیر ہی محض اشاروں اور استعاروں کی مدد سے، اس کی مکمل تصویر نگاہوں کے سامنے کھینچ دیتے ہںک۔ صباؔ اکبر آبادی کے سلام سے تین شعر دیکھئے۔ ۔۔۔۔ ؎

روزِ عاشور سب نے دیکھا ہے

نوکِ پیکاں پہ پھول کھِلتا ہے

خطِ تقسیم دین و دنیا ہے

اب سمجھئے کہ کربلا کیا ہے

بس شہادت میں ہے حیاتِ ابد

ورنہ جینے کا بھروسا کیا ہے

٭٭٭

۳۰

اسی طرح ہیئّت کی تبدیلی نے بھی مرثیے کو نیا روپ دیا ہے، جس کی مثال خواجہ رئیس احمرؔ اور پرفیسر کرّارحُسین کے صاحبِ زاد ے شبیہ حیدر ہںے، جنہوں نےمسدّس کی پابندی سے نکل کر آزاد نظم مںے مرثیے لکھے، اور مقبولیت حاصل کی ہے۔ اردو مرثیے نے فکری بنیاد پر بھی بہت ترقی کی ہے۔ علی سردار جعفری اور فیض احمد فیضؔ صاحب نے بھی مرثیے لکھے اور جدید دَور مںؔ مرثیے کو آگے بڑھایا ہے۔ ملاحظہ ہو فیضؔ صاحب کا رنگ۔ ۔۔۔ ؎

مَرکب پہ تنِ پاک تھا اور خاک پہ سَر تھا

اُس خاک تلے جنّتِ فردوس کا در تھا

٭٭٭

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اُردو کی دوسری اَصنافِ سُخن کی طرح مرثیے اور سلام کو ادبی حیثیت اور اہمیّت حاصل کیوں نہںِ ہے ؟

میں سمجھتا ہوں اِس مں دونوں جانب سے قصور ہے۔ بیشتر مرثیے اور سلام تبلیغی انداز سے لکھے جا رہے ہیں ، جس کی وجہ سے وہ محدود سے محدود تر ہوتے جا رہے ہںو۔ اس مںص آفاقی حوالہ کم ہوتا جا رہا ہے۔ہندوستان کے رسائل مںی مرثیہ اور سلام نگاری پر کثرت سے مضامین لکھے جاتے ہںو، جبکہ ہمارے یہاں اس کا رواج نہںج ہے۔ شاید اس لئے بھی کہ پاکستان مںں ادبی رسائل کے ۹۸ فیصد پڑھنے والے سُنّی ہں !! مں نے پاکستان کے کسی رسالے مںم جوشؔ سے فیضؔ صاحب تک کی مرثیہ نگاری پر کوئی مضمون نہںے دیکھا!۔ فیضؔ صاحب کی ایک کمزور غزل پر بحث ہوتی ہے لیکن اُن کے مرثیے پر توجّہ نہںر دی گئی۔ ۔اس پر غور کی ضرورت ہے۔

۳۱

قِصّہ یہ ہے کہ پاکستان بننے کے بعد جس نسل نے مرثیہ اور سلام لکھنا شروع کیا اُس مںی ایک تبدیلی آئی، ہُوا یہ کہ کسی مُجرّد موضوع کی تشریح روایتی انداز سے کی جاتی ہے۔ ہمارے مرثیہ اور سلام لکھنے والے سمجھنے لگے ہںے کہ ہم فطری شاعری کر رہے ہںب، جبکہ اُن کو یہ نہںے معلوم کہ فطری موضوعات پر شاعری نہں ہوتی، ایک وجہ تو یہ ہے، دوسری چیز یہ دیکھیں کہ عقیدے کی شاعری کا ایک انداز اور روایت رہی ہے، اور ہمیشہ اِن اِصناف مںُ بلند تر شعراء عقیدے کا اظہار کر کے اسے آفاقی سطح تک لے آتے ہںق۔ ۔موضوع رشیدؔ لکھنوی اور جوشؔ ملیح آبادی کا مختلف نہںد ہے، لیکن جوشؔ کے مرثیے اسے آفاقی معیار تک لے جاتے ہںک۔ در اصل بڑا شاعر ہی کسی بھی صِنف کو آفاقی بنا سکتا ہے، درمیانی اور اُس سے نچلے درجے کا شاعر کسی صِنف کو آفاقی نہںن بنا سکتا۔ مرثیہ اور سلام عقیدے کی شاعری ہے، اس مںُ درمیانے اور نچلے درجے کے شاعر بھی ہوتے ہں اُن کے یہاں عقیدے کا غلبہ زیادہ ہو گا۔ جو شاعر زمانے کی تبدیلیوں پر نظر رکھے گا وہ ہر صِنف کو آفاقی سَمت دینے مںت کامیاب ہوسکے گا۔جیسا کہ ہماری دوسری نسل کے شعراء مںن۔ ۔شاہدؔ نقوی، سردارؔ نقوی، شاداں ؔ دہلوی، سحرؔ انصاری، اُمیدؔ فاضلی، شاعرؔ لکھنوی وغیرہ ہںل۔ یہ درمیانی نسل کم و بیش تقلیدی نسل ہے، درمیانہ دَور تقلیدی دور تھا، یہ لوگ تقلید پر فخر محسوس کرتے ہںد، اس مںا بڑے قادر الکلام شعراء ہںا، لیکن انہوں نے آفاقیت کو کہںو بھی استحکام نہیں دیا، اس لئے ایک خلاء پیدا ہُوا۔ ۔اس خلاء کو سب سے زیادہ ڈاکٹر ہِلالؔ نقوی نے پُر کای، ان کے بعد احمد نویدؔ، تصویرؔ فاطمہ، عارفؔ امام وغیرہ ہں ۔ یہ لوگ بڑی جدید حِسیّت کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں ۔

اسی طرح ہمارے وہ مقتدر و معتبر اور اہم شعراء کرام جو ربع صدی سے زیادہ عرصے سے برّ صغیر پاک و ہند سے باہر مقیم ہںق، اگر مرثیے اور سلام کے حوالے سے ان کی تخلیقی کار کردگی کا جائزہ لیا جائے تو ہم دیکھتے ہںس کہ ماسوائے یورپ کے اور یورپ مںا بھی برطانیہ کے کہںے اور اس سنجید گی اور معیاری سطح پر تخلیقی مظاہرہ نہں ہوا۔ گویا مرثیے اور سلام کے ضمن مںھ برطانیہ سے مغربی دنیا کی نمائندگی ہو رہی ہے اور یہ نمائندگی کرنے والے عاشورؔ کاظمی اور صفدرؔ ہمدانی ہںر۔ ان دونوں شعرائے اہلِ بیت نے، ہر دو اصناف کو فنی اعتبار سے مرثیے اور سلام کی حقیقی ہتئم دی ہے اور ہم سمجھتے ہںن کہ یہ بہت بڑا کام ہے کہ اگر ہم ماضی کی طرف دیکھیں تو قلی قطب شاہ، وجہی، غواصی ہاشمی تک کے مرثیے فنّی اعتبار سے ان کی غزل کے مرتبے کو نہںگ پہنچتے۔

۳۲

لیکن ان تمام باتوں کے باوجود آخر مرثیے اور سلام کو ادب مںہ کیوں شامل نہںر کیا جاتا، یا اس کی حیثیّت کا تعیّن اب تک کیوں نہںر ہوسکا، اس کے اسباب مںب نے آپ کے سامنے پیش کر دیئے ہںا، اور آخر مںت اپنی گفتگو سمیٹتے ہوئے، اُن مںن سے چند اسباب پر قدرے اِختصار کے ساتھ کچھ عرض کرتے ہوئے اپنی بات کو ختم کروں گا۔

ہمارے یہاں مرثیہ اور سلام صرف مجالس مںا پڑھا جاتا ہے اور ادبی رسائل مںت شائع نہں ہوتا، لہذا جو لوگ ان مجالس مںی نہںی جاتے ہیں وہ ان مرثیوں اور سلاموں سے واقف نہںد ہو پاتے ہں یہی وجہ ہے کہ مرثیے اور سلام کی تشہیر اُس انداز سے نہیں ہوتی جیسے دیگر اَصنافِ سخن کی ہوتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ اگر مرثیے اور سلام باقاعدگی سے شائع ہوں اور ناقدین تک پہںچا تو اس پر گفتگو ہو گی۔ جہاں تک عقیدے کی بات ہے تو ہماری شاعری مںم تصوّف کی شاعری کو صفِ اوّل کی شاعری کہا جاتا ہے۔ تصوّف بھی ایک طرح سے مذہبی اور عقیدے کی چیز ہے، جب یہ مقبول ہے اور ساری بڑی شاعری تصوّف پر ہی قائم ہے اور اہمیّت اختیار کر گئی ہے تو مرثیے اور سلام کو اہمیّت کیوں حاصل نہں ہے !!

اُردو ادب مںا مرثیے اور سلام کا موجودہ مقام اور حیثیت دیکھتے ہوئے مںب تو یہ کہوں گا کہ اگر علامّہ شِبلیؔ نعمانی جیسا جیّد عالِم، میر انیسؔ کے بارے مںم نہ لکھتا تو وہ ادب مں r نہ آتے، وہ بہت بڑے شاعر ہونے کے باوجود محدود ہو کر رہ جاتے۔

مختصر یہ کہ اگر آپ اُردو شاعری کی صِنفِ مرثیہ اور سلام سے مخلص ہیں اور اِسے اُردو ادب مں کوئی مقام اور حیثیت دِلانا چاہتے ہںآ تو ۔ ۔مرثیہ اور سلام لکھنے والوں کو اپنے مرثیے اور سلام لوگوں تک پہنچانے کے لئے سنجیدگی سے سوچنا ہو گا۔

۳۳

احساسات کی دوہری معنویت کا حسینی شاعر

محمد شفیع بلوچ (جھنگ)

کربلا کے واقعات تاریخِ انسانیت کا وہ عظیم المیہ ہںو جن مںن ایک طرف جورو جفا کی انتہا ہے تو دوسری طرف حسینیت کے روپ مںل استقامت، عزم، قوتِ عمل، معیارِ قربانی، صبر و قناعت، استغنا و توکل، صفائے قلب، سخاوت، شجاعت، راست بازی اور ثباتِ قدم کی انتہا ہے۔ کرب و بلا مںع حسینؓ کے خون سے توحید کی اک نئی تفسیر لکھی گئی۔ اپنی اثر آفرینی کے لحاظ سے کربلا کے واقعات شروع دن سے ہی تازگی لئے ہوئے ہں ۔ بیدار دُنیا کا شاید ہی کوئی گوشہ ایسا ہو جہاں حق و باطل کے معرکے مںس حسینؓ کا نام بطور سچائی اور حق کی علامت کے طور پر نہ پہنچا ہو۔ دنیائے ادب مںش تو حسینؓ اور حسینیت کا شمار نہ صرف مذہبی معتقدات مںہ ہوتا ہے بلکہ تخلیق کاروں کا ہر دو سے ایک اعلیٰ سطح کا مستحکم جذباتی تعلق بھی قائم ہے۔ اس جذباتی تعلق نے پہلے اعتقادی صورت اختیار کی اور بعد مںا رثا اور نوحہ کی یہی کیفیت ارتقائی منزلیں طے کرتی ہوئی سلام کی صنف مںف ڈھل گئی جو بالآخر شہدائے کربلا اور بالخصوص حضرت امام حسینؓ کی ذاتِ والا صفات کے رثا اور مناقب کے بیان کے لئے وقف ہو گئی۔

سلام کی روایت عربی اور فارسی سے کہںا بڑھ کر اُردو مںا پروان چڑھی۔ مذہب و عقیدت سے گہری وابستگی کے باعث اس صنفِ سخن کو اردو مںی قابلِ اعتنا نہںک سمجھا گیا اور یہ عجب یوں نہںت کہ مذہبی ادب کے ساتھ شروع سے ہی ایسا سلوک ہوتا آیا ہے، حالانکہ مذہب ایسا لطیف اور پاکیزہ احساس ہے کہ جس کے ساتھ آدمی کا جذباتی رشتہ ہوتا ہے اور مذہب کے خلاف کوئی بھی بات آدمی کو نہ صرف ناگوار گزرتی ہے بلکہ وہ مرنے مارنے پر بھی اُتر آتا ہے کیا سچی مذہبی عقیدت تنگ نظری مںص شمار کی جا سکتی ہے؟ میرے خیال مںر اس لئے نہںر کہ معتقدات اور محسوسات افراد اور معاشرے دونوں سطحوں پر پائے جاتے ہں اور کسی بھی مہذب معاشرے مں ان کا شمار اعلیٰ اقدار مںو ہوتا ہے۔

۳۴

مذہبی شخصیات کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے یوں تو کئی اسالیب ہںی تاہم ان مںے انفرادیت کی حامل صنفِ سخن ہے۔ سلام کی ہیئتِ ترکیبی کے پیچھے قصیدے اور مرثیے کے ساتھ ساتھ غزل کی بھرپور روایت بھی موجود ہے۔غزل کی طرح سلام ایک ایسی صنف ہے جس کے مختلف اشعار مںے متنوع مضامین و خیالات پائے جاتے ہںے۔ سلام کا تشکیلی مزاج غزل سے یوں بھی زیادہ مماثل ہے کہ ممدوح کے اوصافِ حمیدہ کو جس طرح حۂطج نظم مںں لایا جا سکتا ہے وہ کسی اور صنفِ سخن مںے اس درجہ ممکن نہں ۔

اس قدر تمہید طولانی کا مقصد مدعا یہ ہے کہ عصر حاضر کے روایت و جدت کے حسین امتزاج کے حامل شاعر محمد منیر حسین گستاخ بخاری کے سلاموں کے بارے مں گفتگو کی جائے جو انہوں نے سیّدنا امام حسینؓ اور دیگر شہدائے کربلا کے بارے مںِ رقم کئے ہںش۔ عقیدت احترام اور محبت کے احساسات کی دوہری معنویت گستاخ بخاری کے ہاں یوں بھی اُبھر کر سامنے آتی ہے کہ خود ان کا تعلق بھی حسینی خانوادے سے ہے سلام کہنے کے لئے ممدوح کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کے ادراک کے ساتھ ساتھ زبان و بیان پر بھی مکمل دسترس حاصل ہونا از بس ضروری ہے اور یہ سب خوبیاں گستاخ بخاری مں بدرجۂ اتم موجود ہںح۔

غزل کی تشکیلی مزاج مںم عشق اور سلام کے تشکیلی مزاج مںک اعتقاد کو بالادستی حاصل ہوتی ہے۔ گستاخ بخاری بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہںق۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے سلاموں کے زیر مطالعہ مجموعے مں سبھی اجزاء کے علاوہ متغزلانہ ایمائیت بھی پائی جاتی ہے انہوں نے ادبی اور فنی عنصر کو قائم رکھتے ہوئے اپنے سلاموں مںہ منقبتی، مناجاتی اور رثائی گوشے پیدا کئے ہںا اور اپنے معتقدات مںم حمد، نعت اور منقبت وغیرہ کو بھی شامل کیا ہے۔ حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کے بارے کہتے ہں :

شریعت جب ضرورت مند ٹھہری

تدبر بانٹتا مولا علیؓ ہے

٭

بوقت شدتِ کفار گستاخؔ

نبیؐ کا مدعا مولا علیؓ ہے

٭٭٭

۳۵

سلام بنیادی طور پر ایک ایسی اعتقادی صنف ہے جس کی تہہ مں رثائی رنگ ہوتا ہے۔ گستاخ بخاری نے اس پہلو کو بھی مد نظر رکھ کر بہت خوبصورت اشعار کہے ہیں :

شب عاشور کا تصور کر

اور پھر کاٹ کر دِکھا اِک رات

٭

اہلِ ایمان کا

اس قدر حوصلہ

ریت تپتی ہوئی

خون بہتا ہوا

تھے بہتر مگر

ولولہ لاکھ کا

تجھ کو انسانیت

مِل گیا رہنما

٭٭٭

مرے سجدے کا وقت آنے لگا ہے

بدن جاگیر زخموں سے بھری ہے

٭

نوحہ گری ہواؤں میں کس نے اُچھال دی

خواہش ہے کس کی حشر تک مدحت حسین کی

٭٭٭

۳۶

رثا میں ڈوبے ہوئے یہ متغزلانہ اشعار دیکھیں۔

زبانیں سوکھ کر کانٹا ہوئی ہیں

کہیں سے ابرِ رحمت بار دیکھو

٭

بدن زخموں سے گلشن بن چکا تھا

کھلا نہ یوں کہںچ گلزار دیکھو

٭

جتنے بھی کارواں میں تھے حسنِ عمل کے ساتھ

شائق شہادتوں کے قرینے کو لے چلے

٭

میں تیرے پاؤں کے نیچے ثواب رکھ دیتا

میرا حوالہ تیری طرح کو بہ کو ہوتا

٭٭٭

۳۷

رثا کے علاوہ منقبتی اور اخلاقی مضامین کو بھی متغزلانہ آہنگ اور اسلوب مںں بڑے خوب صورت انداز مںا پیش کیا ہے:

کربلا اک مثال ٹھہر گئی

ہوتے ہیں زندگی میں سو صدمات

٭

کم ہی اتنے قریب ہوتے ہیں

جیسے شبیر اور خدا کی ذات

٭

آپ نے دیکھ تو لیا ہو گا

تھے بہتر کے اک سے احساسات

٭

کون گستاخ بھول سکتا ہے

سطوتِ دین اور غمِ سادات

٭

درس گستاخ کو دیتی ہے وفائے شبیر

ہر وفادار کا آقا ہے حسینؓ ابن علیؓ

٭

نہ کربلا نے چمن میں دیکھو

حسینؓ ہر اک زمن میں دیکھو

٭

۳۸

لہو مں ڈوبے وفا کے جذبے

حسینیت کے بدن میں دیکھو

٭

علیؓ کی صورت، نبی کی سیرت

حسینؓ کے بانکپن میں دیکھو

٭

حسینؓ تم کو بچا گیا ہے

تم اپنے گستاخ من میں دیکھو

٭٭٭

ذکرِ حسین، گستاخ بخاری کی طرح ہر درد مند دل رکھنے والے کے نزدیک نہ صرف باعث ثواب ہے بلکہ وجہ تکریم بھی ہے او ریہ کیوں نہ ہو یہ حوالہ تو زمان و مکان کی حدوں کو بھی عبور کر گیا ہے۔

حسین صبر و شجاعت میں شاندار رہا

یزید جیت گیا پھر بھی بے وقار رہا

٭

فلک سے، عصر سے، انسان سے کب یہ اترے گا

حسینیت کا لہو خلق پر اُدھار رہا

٭٭٭

سلام کی وہ روایت جس نے میر انیس سے سیّد آلِ رضا تک کئی منازل طے کی تھںب اب ماند پڑتی جا رہی تھی کہ ایک اور سیّد نے زیرِ نظر مجموعے سے سلام کی روایت کی جانب شہدائے کربلا کے عقیدت مندوں کی توجہ مبذول کرا کے اس مں پھر سے تازگی پیدا کر دی ہے۔ مں ان کے لئے دل سے دعا گو ہوں کہ وہ عقیدتوں کا یہ سفر یوں ہی جاری و ساری رکھںک۔

۳۹

فہرست

جدید اُردو مرثیہ ۴

(چند حقائق، چند معروضات) ۴

ڈاکٹر سیّد شبیہ الحسن(لاہور) ۴

حواشی ۲۱

اردو ادب میں مرثیے اور سلام کی حیثیت ۲۴

تسلیم الہیٰ زلفیؔ ( کینیڈا) ۲۴

احساسات کی دوہری معنویت کا حسینی شاعر ۳۴

محمد شفیع بلوچ (جھنگ) ۳۴

۴۰