معراج خطابت

معراج خطابت0%

معراج خطابت مؤلف:
زمرہ جات: امام حسین(علیہ السلام)

معراج خطابت

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: مولانا عابد عسکری
زمرہ جات: مشاہدے: 61344
ڈاؤنلوڈ: 4770

تبصرے:

کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 44 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 61344 / ڈاؤنلوڈ: 4770
سائز سائز سائز
معراج خطابت

معراج خطابت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

دینِ اسلام ۵

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

( اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَاللّٰهِ الْاِسْلَامْ ) ۔

میں نے عرض کیا کہ آزادی کا جو مطالبہ ہورہا ہے، کہاجاتا ہے کہ انسان آزاد پیدا ہو ہے، لہٰذا آزاد رہنا چاہتا ہے اور اسے آزاد رہنا چاہئے۔ تو انسان کسی ایک فرد کا نام تو نہیں ہے۔ انسان ایک پوری نوع ہے جس میں سے ہر ایک انسان ہے اور آزادی کا مطلب یہ سمجھاجارہا ہے کہ جو دل چاہے، وہ کرسکیں۔ تو یاد رکھنا چاہئے کہ انسان کی خواہشات لامحدود ہیں۔ اسے میں نے مثالوں سے عرض کیا۔اب آزادی کسے دی جائے؟ یا تو ایک کو آزاد کردیاجائے بس اور سب کو مقیّد ، تو یہ اُس ایک کے ساتھ جس کی رشتہ داری ہو، وہ کرے گا یا پھر یہی شکل ہے کہ آزادی کی جنس کو حصہ رسدی تقسیم کیاجائے۔ یعنی ہر ایک اس حد تک آزاد ہوجس حد تک دوسروں کے حقوق کو صدمہ نہ پہنچے اور جہاں سے دوسروں کے حقوق کو صدمہ پہنچے، وہاں سے مقید۔ یہ قید ہر فرد کیلئے قید ہے مگر تمام نوعِ انسانی کو آزادی کے حقوق سے بہرہ ور کرنے کا ذریعہ ہے۔ مگر ان حقوقِ آزادی کو تقسیم کون کرے؟ اگر مرکز اس تقسیم کا کوئی مادّی ہوا تو وہ کسی نسل کا ہوگا، کسی ملک کا ہوگا، کسی زبان کا بولنے والا ہوگا تو سب کی ضرورتوں کا اُسے احساس بھی نہیں ہوگا اور اس کو اس پر اعتماد بھی نہیں ہوگا۔ لہٰذا اطمینانِ قلب ہر ایک کو حاصل نہیں ہوسکتا اور بے اطمینانی ہی تصادم کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔ لہٰذا مرکز تقسیم حقوق ایسی ذات ہونی چاہئے جو خود کسی ملک کی نہیں، خود کسی نسل کی نہیں، خود کسی رنگ کی نہیں، کسی سمت کی نہیں۔ جب اس کی طرف سے تقسیم ہوگی، تو ہر ایک کا ضمیر مطمئن ہوسکتا ہے کہ میرے ساتھ انصاف ہوا ہے، میرے ساتھ عدل ہوا ہے۔

یہ اُن لوگوں کیلئے جو اتفاق سے کل نہ شریک ہوئے ہوں، مختصر خلاصہ ربط کیلئے بیان کیاجاتا ہے۔ تو میں نے کہا کہ اس کا تجربہ خود مسلمانوں کو ہے اور وہ مشاہدہ خود دنیا کیلئے مثال ہے کہ جس جس چیز کو مسلمانوں نے خدا کی طرف سے مان لیا، پھر اس میں اختلاف نہیں ہوا۔ کعبہ کو خدا کی طرف سے مان لیا تو دو قبلے نہیں ہوئے۔ جس جس چیز کو خدا کی طرف سے سب نے مان لیا، اس میں اختلاف نہیں ہوا۔ جہاں سے ایک طبقہ نے اپنے اختیار کو صرف کردیا، وہیں سے اختلاف ہوگیا۔ اب اس کی طرف جو حقوق تقسیم ہوتے ہیں، اس میں پھر کسی کو احساس ہی نہیں ہوتا کہ ہمارے ساتھ ناانصافی ہوئی،مثلاً پابند شرع گھرانوں میں جہاں شرع کے اعتبار سے میراثیں تقسیم ہوتی ہیںِ وہان کبھی کسی لڑکی کو شکایت نہیں ہوتی کہ ہمیں آدھا ملااور ہمارے بھائی کو دوگنا ملا۔ اس لئے کہ وہ جانتی ہے کہ میرا حصہ اللہ کی طرف سے یہی ہے۔ لہٰذا اُسے کوئی ناانصافی کا شکوہ نہیں ہوگا۔ ہاں! جو حصہ مقرر ہے اللہ کی طرف سے، وہ نہ دیا جائے تو پھر وہ ظلم ہوگا۔ جیسے ایک وقت کا حال مجھے معلوم ہے کہ پنجاب میں لڑکی کو حصہ نہیں دیا جاتا تھا، عدالتوں میں پوچھا جاتا تھا کہ تم شریعت کے مطابق فیصلہ چاہتے ہو یا رواج کے مطابق؟

اس کے معنی یہ ہیں کہ شریعت الگ ہے اور رواج الگ ہے۔ بہت سے ایسے ہوتے تھے جو یہ کہہ دیتے تھے کہ ہمیں رواج کے مطابق فیصلہ چاہئے۔تو میں کہتا ہوں کہ گو وسعت شرع میں کفر کا فتویٰ جاری نہ ہو مگر حقیقت کے لحاظ سے جب شریعت کے مقابلہ میں آپ نے اعلان کردیا کہ ہم رواج کے پابند ہیں تو اس شعبہ میں غیر مسلم ہونے کا اعلان کردیا۔ تو کبھی جہاں شریعت کے مطابق فیصلہ ہو ، اس میں لڑکی کو یہ شکوہ نہیں ہوگا کہ مجھے آدھا حصہ کیوں ملا۔

ہاں! آجکل کے نئی روشنی والے ، وہ بلاوجہ عورت کے ہمدرد بن کے کہتے ہیں کہ اسلام نے دیکھو مرد اور عورت میں کتنی تفریق کردی ہے؟ لڑکے کو دُہرا دیا ہے اور لڑکی کو آدھا دیا ہے۔ میں اس وقت اصولی طور پر اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا مگر میں ایک نئے رُخ سے دنیا کو سمجھانا چاہتاہوں ۔ میں کہتاہوں کہ ذرا غور کیجئے جو عرض کررہا ہوں کہ اسلام اور کفر میں فرق کیا ہے؟ یہ ہے کہ اسلام قانون کو اللہ کی طرف سے مانتا ہے ، کفر جو ہے، وہ پیغمبر کاساختہ مانتا ہے۔ جو شخص پیغمبر کا ساختہ مانتا ہے، ارے یہی قرآن میں فرق ہے۔جو کلامِ خدا مانتاہے، وہ مسلمان ہے او رجو کلامِ بشر مانتا ہے، رسول کا کلام مانتا ہے، وہ کافر ہے۔تو ویسے ہی جو مسلمان ہے، وہ مانے گا کہ اصل قانون بنایا ہوا صرف اللہ کا ہے۔ یہ صرف اس کے مبلّغ تھے اور جو اللہ کی طرف کا نہیں مانتا، وہ یہ کہتا ہے کہ یہ قانون آپ نے بنایا۔

میں کہتا ہوں کہ جو کافر ہے، وہ مجھ سے پہلے اپنے ہی مسلمے کوسامنے رکھ کربات کرے کہ اس میں اصول کے سوا کیا کسی جذبہ کا دخل ہے؟ قانون وہ نافذ کررہا ہے جسے خدا نے بیٹی ہی دی ہے۔ ارے کوئی ایسا نبی ہوتا جسے اللہ نے بیٹا دیاکرامت فرمایا ہوتا اور بیٹی اس کے ہاں نہ ہوتی تو کہنے کو ہوتا کہ انہیں بیٹی کی قدر کیا تھا؟

ارے جناب! وہ رسول جس کا اللہ نے بیٹا آخر حیات تک زندہ رکھا ہی نہیں، بیٹے تھے جنابِ خدیجہ کے لیکن یہ کہ پھر بیٹا آپ کے ہاں نہیں تھا۔ ایک بیٹا آخر میں ہوا جنابِ ماریہ کے بطن سے، وہ بھی باقی نہیں رہا۔بیٹی ہی کرامت فرمائی تھی۔ ہاں! بیٹے بھی پھر اسی کے ذریعہ سے عطا کردئیے۔ تو اللہ نے اسے بیٹی ہی عطا فرمائی۔ تو اب کوئی کہہ سکتا ہے کہ انہیں بیٹی کی کیا قدر؟میں کہتا ہوں کہ بیٹی کی قدر تو ایسی کی کہ دنیا میں کسی باپ نے نہیں کی۔ کوئی باپ بیٹی کی تعظیم کیلئے کھڑا نہیں ہوا۔ لیکن پیغمبر خدا بیٹی کی تعظیم کیلئے کھڑے ہوتے تھے۔ حالانکہ وہ تعظیم میں غلط سمجھتا ہوں۔ یہ کہنا کہ وہ بیٹی ہونے کی وجہ سے تھی، بیٹی ہونے کی وجہ سے وہ تعظیم نہیں تھی، وہ بیٹی کچھ ایسی تھی اور اس کا میرے پاس ثبوت ہے۔ یہ مسلّمہ اصولِ اسلامی ہے کہ جو عملِ رسول ہے، اس کی پیروی یا واجب ہوگی یا مستحب ہوگی۔ بہرحال جزوِ سنت ہوگی۔یہ عملِ رسول تمام کتابوں میں موجود ہے۔ صحاح ستہ کا جزو ہے۔ صحیح ترمذی اور اس میں یہ حدیث موجود ہے کہ کوئی فرقہ اسلامی اس کا انکار نہیں کرسکتا ۔ ایک عملِ رسول متفقہ موجود ہے لیکن کسی مکتب اسلامی کی فقہ میں مَیں نے نہیں دیکھا کہ باپ کیلئے سنت ہے کہ بیٹی کی تعظیم کیلئے کھڑا ہو۔ ایک عملِ رسول مسلّمہ موجود ہے اور چودہ سو برس کے علماء میں کوئی نہیں لکھ رہاکہ یہ سنت ہے ۔ کسی تحفة العوام میں آپ نے نہیں دیکھا ، کہیں نہیں دیکھا۔ اچھا آجکل تو ریسرچ کا دَور ہے۔ ریسرچ کے معنی ہیں ایک نئی بات کوئی کہے کہ ان علماء نے نہیں لکھا، بھول گئے ۔ ہم اب سے لکھیں گے۔میں کہتا ہوں اچھا قلم آپ کے ہاتھ میں ہے، جب چاہے لکھ دیجئے گا۔ لیکن اب میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ صحابہ رسول میں سے کسی نے اس سنت پر عمل کیوں نہ کیا؟ کئی کئی ہزار صفحات کی کتابیں حالاتِ صحابہ میں موجود ہیں لیکن کسی نے کسی صحابی کے حالات میں نہیں لکھا کہ وہ اپنی

صاحبزادی کی تعظیم کیلئے کھڑے ہوجاتے ہوں۔یہاں تک کہ ایسی صاحبزادیاں جو کسی حیثیت سے واجب التعظیم بھی ہوگئی ہوں، ان کی تعظیم کو کھڑے نہیں ہوتے ۔ اچھا اب کوئی کہہ دے ہم میں سے تو ہر فرد بے تکلف کہہ دے گا کہ صحابہ معصوم نہیں تھے۔

اب دنیا چاہے یوں نہ کہئے لیکن پھنسنے پر تو کہے گا کیونکہ مانتا کوئی نہیں معصوم۔تو یہاں کہہ دے کہ معصوم نہیں تھے۔ اچھا مان لیجئے مگر اب ہم تو بحمدللہ رسول کے بعد بھی بقائے رسالت کے قائل نہیں۔ بقائے عصمت کے قائل ہیں۔ نبوت و رسالت ختم ہوگئی، عصمت ختم نہیں ہوئی۔ تو اب ہمارے ہاں جو معصومین ہیں اور جن کے گھر کی روایت تھی ، جن کے گھر کی بات تھی، ان میں سے کسی کے حال میں نہیں ملتا کہ کوئی اپنی بیٹی کی تعظیم کیلئے کھڑا ہوتا ہو۔ کیسی کیسی صاحب صفات بیٹیاں ، حضرتِ زینب سلام اللہ علیہا کیلئے ممکن ہے کہ بعض ذاکرین سے آپ نے سنا ہو ، میں سمجھتا ہوں کہ کبھی آپ نے سنا ہوگا، اگرچہ دیکھا میں نے بھی اسے کسی کتاب میں نہیں ہے لیکن آپ نے سنا ہوگا کہ امام حسین تعظیم کو کھڑے ہوتے تھے۔ یہ ہو تو بڑی بات ہے مگر وہ بات تو نہ ہوئی۔ بہن بھائی کا رشتہ تو برابر کاہوتا ہے، خواہ عمر کا فرق ہو۔ حضرت امیر المومنین علیہ السلام کیوں نہیں کھڑے ہوتے تھے؟ جن کی سیرت ہمارے نزدیک جزوِ سیرتِ رسول تھی۔ تو وہ تعظیم کو نہیں کھڑے ہوتے تھے۔

تواب تویہ ماننا پڑے گاکہ چودہ سو برس کے علماء میں سے کوئی یہ نہیں لکھتا کہ یہ سنت ہے۔ صحابہ میں سے کوئی اس کی پیروی نہیں کرتا۔ ان کی اولادِ طاہرہ میں سے کوئی ان کی پیروی اس بارے میں کرتا ہوا نظر نہیں آتا۔ تو بس اس معمہ کا حل میرے نزدیک صرف یہ ہے کہ چودہ سو برس کے علماء صرف یہی سمجھے ، صحابہ یہی سمجھے ، آئمہ معصومین یہی جانتے تھے کہ یہ تعظیم بیٹی ہونے کی وجہ سے نہیں ہے، شخصیت فاطمہ کی وجہ سے ہے۔لہٰذا اصول اپنی جگہ قائم ۔ بحیثیت بیٹی ہونے کے ہوتی تو مجھے بھی وہ تعظیم مستحب ہوتی اپنی بیٹی کیلئے کم سے کم۔ لیکن وہ تعظیم تو خصوصی حیثیت سے شخصیت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کیلئے تھی۔ لہٰذا وہ پیروی واجب اور اس کے نتیجہ میں قیامت تک کیلئے فاطمہ کی تعظیم واجب ہوگی۔ اپنی بیٹی کی تعظیم کرکے اتباعِ رسول نہیں ہوگا۔تو ایسی بیٹی جس کی ہو، وہ یہ حکم نافذ کررہا ہے کہ بیٹی کا حصہ آدھا اور بیٹے کا حصہ دُہرا۔ تو اب تو غیر مسلم بھی ماننے پر مجبو رہے کہ اس میں صرف کوئی اصول ہے، جذبات کا دخل نہیں ہے۔

ایک بہت بڑا معرکة الآرا مسئلہ جو اس زمانہ میں ہوتا ہے، فرمائشیں ہوتی ہیں کہ رسالہ اس موضوع پر لکھئے ،حالانکہ میں نے اسی لئے ایک رسالہ اسلامی قانونِ وراثت میں لکھا ہے جو امامیہ مشن پاکستان سے بھی کبھی شائع ہوا ہے۔ تو وہ کیا ہے؟ بیٹے کے ہوتے ہوئے پوتے کا محروم ہونا اس قدر واویلا ہے، بڑی بے چینی ہے۔ ارے صاحب! پوتا بیچارہ، ایک تواس کے سر سے باپ کا سایہ اُٹھ گیا اور اس کے بعد اپنی خاندانی جائیداد سے بھی محروم ہوجائے۔ تو (معاذاللہ) یہ کتنی بڑی بے انصافی ہے۔ ہمارے ہاں جو آجکل صدرِ جمہوریہ صاحب ہیں، صدر نہیں، نائب صدر جمہوریہ جسٹس عبیداللہ ، انہوں نے ایک دفعہ کھل کر، ایک سوال ہے پرسنل لاء کی ترمیم کا، میری ایک کتاب کئی سو صفحات کی چھپ چکی ہے کہ اسلامی پرسنل لاء قابل تبدیلی نہیں۔ اس موضوع پر دس دن کا بیان ہے۔ وہ کتابی شکل میں شائع ہوچکا ہے۔ تو اس میں اس سے متعلق جتنے موضوعات ہیں، تفصیل سے آئے ہیں اور یہ بھی جزو آیا ہے اس میں تفصیل سے اور اسلامی قانونِ وراثت میں اس کا اصول درج ہے۔

تو کہتے ہیں بیچارہ۔ میں کہتا ہوں ادھر بیچارہ آپ نے کہااور جذبات کا دخل ہوگیا اور اب ظاہر ہے کہ اس کتاب میں تفصیل سے لکھا ہے۔ اس وقت اس تفصیل سے عرض نہیں کرنا ہے۔ ادھر آپ نے بیچارہ کہا اور اس بیچارے کے لفظ سے جذبات کا تعلق ہوگیا۔ قانونِ میراث بیچارے پن سے نہیں ہے، بے چارہ پن سے زکوٰة ملتی ہے، خمس ملتا ہے۔ بے چارہ پن سے میراث نہیں ملتی۔اگر بیچارہ بھائی فاقہ کش ہو اور بیٹا لکھ پتی ہو تو یہ نہیں ہوگا کہ میراث بھائی کو دے دی جائے۔ اس لئے کہ بیچارہ مفلوک الحال ہے اور لڑکے کو نہ دی جائے ، اس لئے کہ لکھ پتی ہے۔ تو میراث میں معلوم ہوا کہ بیچارے کا دخل نہیں ہے۔ قرابت کی قربت کا دخل ہے۔ اگر بیچارے پن کو دخل دیجئے تو یہیں پر کیوں بالکل برابرکا رشتہ ہے، بیٹا اور پوتا اور باپ اور دادا۔ یہ ادھر سے بلاواسطہ اور بیک واسطہ ، وہ اُدھر سے بلاواسطہ اور بیک واسطہ۔ تو اگر آپ کی منطق بیچارے پن کی یہاں درست ہو تو یہاں بھی کہئے کہ باپ تو بہرحال ممکن ہے کہ ابھی برسرِ کار ہو اور دادا تو بیچارہ ریٹائر ہوگا۔لہٰذا یہ کیا کہ باپ کے ہوتے ہوئے دادا کو نہ ملے۔ اگر آپ وہاں بیچارے کے فلسفہ کے قائل نہیں ہیں تو وہی نسبت بیٹے او رپوتے کی یہاں ہے۔آپ کیوں بیچارے پن کو دخل دیتے ہیں۔

تو یہ اصل اصول تھے جو میں نے ایک لمحہ فکریہ پیدا کردیا۔ آپ اپنی جگہ چاہے جتنا غور کیجئے، اتنے سمجھ میںآ تے جائیں گے تمام اصولِ میراث۔ قانونِ وراثت رسالہ بھی ہے جس میں قرابتوں کی گویا پیمائش کی گئی ہے کہ کون کتنا قریب ہے اور کون کتنا دور ہے اور کس طرح سے جو قریب ہے، اس کے ہوتے ہوئے بعید کو محروم کیا گیا ہے۔ تو اصول اس قرب و بُعد کا رشتہ داری پر ہے ۔ اس کی بنیاد بیچارہ پن پر ہے ہی نہیں۔لہٰذا آپ بیچارہ پن کو دخل دے کر بے اصولی کررہے ہیں اور اس کے بعد جو میں نے بیٹی کے بارے میں کہا تھا کہ ابھی میں ایک غیر مسلم کے سامنے کہوں گا کیونکہ جس رسول نے یہ قانون نافذ کیا ہے، وہ خود اس قسم میں داخل رہا ہے کہ اس کے باپ کا انتقال دادا کے سامنے ہوگیا تو اس سے بڑھ کر کون اس بیچارے کی مجبوریوں سے واقف ہوسکتا ہے؟ لہٰذا اصولِ میراث میں حق نہ قائم کیجئے۔ ہاں! باپ نہیں رہا تو دادا پوتے کے ساتھ وہ کرے جو جنابِ عبدالمطلب نے جنابِ رسولِ اکرم کے ساتھ کیا اور اسی طرح سے ہر ایک چچا اپنے بھتیجے کے ساتھ وہ کرے جوجنابِ ابو طالب نے اپنے فرزند برادر کے ساتھ کیااور کس شان سے پرورش کی ، یہ روزمرہ کی باتیں ہیں مگر جب تک کوئی غیر معمولی کیفیت نہ ہو، اس وقت تک تاریخ کا جزو نہیں بنتی ۔

اور اب میں کہتا ہوں جو چیز ہے، ابھی عرض کروں گا۔جنابِ ابوطالب سے زیادہ اس میں جنابِ فاطمہ بنت اسد کا دخل ہے۔ یہ معاملے عورتوں سے زیادہ متعلق ہوتے ہیں۔ طبری سے زیادہ مقدم تاریخ ہمارے ہاتھ میں موجود ہے۔ طبقاتِ ابن سعد ، وہ تقریباً طبری سے ایک صدی مقدم ہے اور ہمارے اپنے مسلمان مطابع نے اُسے نہیں چھاپا ہے، ہالینڈ کے شہر لیڈن میں اور جرمنی میں شائع ہوئی ہے۔ تو اسی طبقات ابن سعد میں دیکھئے۔ میں نے کہا کہ روز مرہ کی باتیں ہیں۔ مگر انوکھا پن پید انہ ہوتو جزوِ تاریخ نہیں بنتی۔اس میں ہے (ترجمہ عربی) ابو طالب کے بچے نظر آتے ہیں کہ بال بکھرے ہوئے ہیں، چہرہ گرد آلود ہے جیسے بچے گھر کے اندر کھیلتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ابو طالب کے بچے تو اس شان سے کبھی کبھی نظر آئے ہیں مگر محمد کو جب دیکھا تو آنکھوں میں سرمہ لگا ہوا اور بال آراستہ کئے ہوئے ۔ میں کہتا ہوں کہ یہ ایسی ہی شکلیں ہوتی ہیں۔ خود ابو طالب کی اولاد اگر بال پریشاں ہوتی تو کوئی نہ کہتا کہ بیچارے کی صورت سے یتیمی ٹپک رہی ہے لیکن یہ ایک دفعہ

بھی اس طرح نظر آتے تو دنیا کہتی کہ بیچارہ یتیم ہے۔ ابو طالب اور فاطمہ بنت اسد نے دنیا کو احساسِ یتیمی نہیں ہونے دیا۔ مگر خالق یتیم کے درجہ کو اتنا اونچا جانتا تھا کہ اُس نے قرآن جیسی ادبی کتاب میں اُس یتیمی کو یاد کیا۔

( اَلَمْ یَجِدْکَ یَتِیْمًا فَاَویٰ ) ۔

اپنے احساسات میں کہا جارہا ہے کہ کیا ایسا نہیں ہوا کہ ہم نے آپ کو یتیم پاتا تو پناہ کا انتظام کردیا۔ یہاں ہر نقطہ نظر کا مفسر لکھنے کو تیار ہے، مجبور ہے ،تیار چاہے دل سے نہ ہو۔ آیت کے تحت میں کوئی مفسر ماں کا نام نہیں لیتا۔ ارے خالق کی طرف کا انتظام جسے احسان میں پیش کرے اور چھ برس کی عمر میں اٹھ جائے اُس کا سایہ، کوئی نہیں لکھتا ماں کا نام۔ چھ برس تک تو ماں بھی موجود تھیں۔ کوئی نہیں لکھتا دادا کا نام۔ داداابھی تو آٹھویں برس دنیا سے اٹھ گئے۔ ہر مفسر یہاں مجبور ہے اور لکھتا ہے:

بِعَمِّه اَبِیْ طَالِب “۔

اللہ نے پناہ کا انتظام کیا ان کے چچا ابو طالب کے ذریعے۔اب جناب! میں نے بہت ہی توقف کرکے ترجمہ کیا اور پھر بھی ترجمہ پورا نہیں کیا۔ لفظی معنی ہیں ”آوا“ کے پناہ دی۔لوگ ترجمہ کرتے ہیں”پناہ دلوائی“۔ میں کہتا ہوں کہ پناہ دلوائی لفظی معنی نہیں ہیں۔ معنی یہ ہیں کہ آپ کو یتیم پایا تو پناہ دی۔ لفظی معنی یہی ہیں۔ اب میں ایک جملہ کہہ کر آگے بڑھوں گا کہ یہ بڑی بلند منزل ہے کہ کسی کے کام کو اللہ اپنا کام کہے۔ ارشاد ہے:

( وَمَارَمَیْتَ اِذْرَمَیْتَ وَلَکِنَّ اللّٰهُ رَمٰی ) ۔

وہ آپ نے سنگریزے نہیں پھینکے، اللہ نے پھینکے۔ یعنی رسول کے کام کو اپنا کام کہا تو یہ ایسی منقبت ہے جو رسول کی شان کے لائق ہے اور اب آپ یہاں دیکھ لیجئے کہ پناہ دینا کس کا کام ہے؟ ابو طالب نے پناہ دی۔ اللہ کہہ رہا ہے کہ ہم نے پناہ دی۔توبہرحال اصل محل گفتگو یہ ہے کہ جب خدا کی طرف سے کوئی قانون ہوجائے تو پھر اس میں جذبات کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔ پھر وہ حق ماننا پڑتا ہے۔ غیر مسلم معترض ہوں پوتے کی میراث پر یا فرض کیجئے کہ آجکل کی نئی روشنی والے اعتراض کریں ۔ وہ بہت سے حقائق اسلام پر معترض ہیں لیکن کوئی پابند شریعت پوتا ہو تووہ احساس نہیں کرے گا کہ میرے ساتھ ظلم ہوا ہے۔ کوئی لڑکی یہ احساس نہیں کرے گی کہ مجھے آدھا ملا تو مجھ پر ظلم ہوا۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف کا قانون ہے اور یہ خصوصیت اسلام کی یعنی اس کا اللہ کی طرف کا دین ہونا، یہ ایسی خصوصیت ہے جواس کے نام سے ظاہر ہے۔ دنیا کے مذاہب کا نام دیکھئے، کوئی دین کسی کی شخصیت کی طرف منسوب کوئی دین کسی قطعہ ارض کی طرف زمین کے حصے کی طرف منسوب مثلاً جو بڑے بڑے آجکل ادیان ہیںِ غیر اسلام ، انہیں دیکھئے کہ خود اپنے کو مثلاً عیسائی کہیں مسیحی، کہیں یعنی شخصیت کی طرف نسبت ، حضرت عیسیٰ کی طرف نسبت۔ ارے وہ نصرانی کہیں جو قدیم اصطلاح تھی، تو ناصریہ ایک مقام تھا وہاں پیدائش ہوئی تھی۔ ناصرہ، اُس جگہ کی طرف نسبت کرسچین یعنی کرسٹ مسیح کی طرف نسبت۔

تو غرض جس زبان میں بھی اس دین کا نام پوچھئے، کسی آدمی کا تعلق نمایاں ہوگا ۔ تو اب جیسے اس آدمی سے کوئی خاص تعلق نہ ہو، وہ بلا تکلف کہہ سکتا ہے کہ میں اس دین سے منحرف ہوں۔مجھ کو اس سے کیا مطلب؟ اب وہ قرآن نے ان کی سچائی مان لی ورنہ عیسائی اپنی پوری طاقت صرف کردیتے۔ تب بھی مسلمانوں سے حضرت عیسیٰ کی رسالت نہیں منواسکتے تھے اور جتنے معجزات کہیں گے، وہ سب ہمارے سامنے کہاں ہیں؟ اسی کے بیان کئے ہوئے ہیں۔مردے اس وقت وہ کب زندہ کررہے ہیں؟ کورمادرزاد کو اس وقت وہ شفا دے رہے ہیں؟ معجزات سب وقتی تھے جو وقت کے ساتھ چلے گئے۔ دیکھنے والوں کیلئے وہ قطعی تھے۔ وہ بعد والوں کیلئے روایت بن گئے۔ دین کی بناء روایا ت پر نہیں ہوتی، قطعی باتوں پر ہوتی ہے۔وہ تو ہمارے قرآن نے تصدیق کردی ان کی رسالت کی اور ان کے معجزات کو محفوظ کردیا تو ہم بربنائے ایمان بالقرآن مجبور ہوگئے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانے پر اور ان کے معجزات کو بھی ماننے پر مجبو رہوگئے۔ یہود کی جماعت پوری طاقت اگر صرف کردے تو وہ حضرت عیسیٰ کی رسالت ہم سے نہیں منوا سکتی۔ عیسائی یہودیوں سے کب منواسکے؟ آج تک جو ہم سے منوالیتے ، اب عیسیٰ نے بھی چونکہ توریت کی تصدیق کردی، اس لئے بیچارے عیسائی بھی حضرت موسیٰ کو مانتے ہیں۔ تو ہم سے یہودی نہیں منواسکتے تھے۔حضرت موسیٰ کی رسالت قرآن نے منوائی ۔

مجھے یاد ہے جس کسی کی کوئی بات ہو، اس کا نام لے کر میں پابند ہوں۔ وہ صاحب یادگارِ حسینی میں میرے ساتھ اکثر جلسوں میں ہوتے تھے۔کلجگانندا چھوت، لیڈر، بڑی پرزور تقریر کرتے تھے اور یادگارِ حسینی کے جلسوں میں بڑی پرزور تقریریں انہوں نے کیں۔ وہ اچھوت لیڈر تھے۔ سالِ گزشتہ کراچی میں مجھے ملے تھے ۔بہت ہی ضعیف ہوگئے تھے۔ اب کے نہیں ملے تو معلوم ہوا کہ وہ رخصت ہوگئے۔ تو وہ اچھوت لیڈر پہلے بھی تھے، اب بھی ہیں۔ لطف یہ ہے کہ پاکستان میں بھی وہ اچھوت لیڈر ہی رہے۔ مگر ایک جملہ انہوں نے کہا جو اُن سے پہلے تقریروں میں نہیں سنا تھا ۔ پہلے تو اس ضعیف العمری میں اپنا ایک پمفلٹ مجھے دیا۔ پھر زبانی مجھ سے کہا کہ یہودیوں کا آج تک اعتراض ہے پاکدامنیِ حضرت مریم پر اور حضرت عیسیٰ کے ساتھ انتہائی گستاخی وہ کرتے ہیں۔یہ اور بات ہے کہ سیاست کی ستم ظریفی ہے کہ اب عیسائیت ان کی نازبردار بن گئی ہے۔ وہ جنابِ عیسیٰ کے ساتھ شدید ترین گستاخی روارکھتے ہیں۔ ان کے فرزند جائز ہونے کو معرضِ بحث میں لاتے ہیں۔ اس کا جواب دنیائے عیسائیت کے پاس نہیں ہے۔ وہ انجیل ، جو ان کی کتاب ہے، میں نے دیکھی ہے، انہوں نے نسب نامہ حضرت عیسیٰ کا حضرت آدم تک پہنچایا ہے۔ یوسف نجارکے ذریعہ سے ، جن سے منگنی ہوئی تھی، شادی نہیں ہوئی تھی،یوسف نجار کی ولدیت قرار دے کر رشتہ پہنچایا ہے۔ جنابِ آدم تک پوراشجرہ لکھ دیا ہے۔ اب جو انہوں نے کہا ہے ، وہ بعد میں کہوں گا۔ اب اپنی طرف سے یہ میں بیان کردیتا ہوں۔

جب نصارائے نجرا ن آئے ہیں، پیغمبر سے بحث کیلئے، سب باتوں کے قائل ہوگئے۔ آخر میں انہوں نے کہا کہ آپ اللہ کا بیٹا مانتے ہیں یا نہیں؟ تو مجبوراً رسول نے یہی فرمایا ، اصول کی بات تھی کہ نہیں مانتے۔ بڑے درجہ کا رسول مانتے ہیں، بہت بڑا نبی مانتے ہیں، صاحب معجزا ت مانتے ہیں۔ یہ نہیں مانتے۔تو انہوں نے فوراً کہا کہ جب اللہ کا بیٹا نہیں مانتے تو پھر وہ کس کے بیٹے تھے؟ اب جو جواب قرآن میںآ یا ہے، وہ آپ میں سے کچھ حضرات تو جانتے ہی ہیں۔ پھر میں بھی بیان کروں گا وہ۔ تو جواب ہے قرآن کا اور اب حضرت عیسیٰ کی بات جان لیجئے کہ اس سوال کی غیر منطقیت کا ذرا اندازہ کیجئے کہ اللہ کے بیٹے نہیں ہیں تو پھر کس کے بیٹے ہیں؟ یعنی جس کے باپ کا پتہ نہ ہو، اُسے اللہ کا بیٹا مان لو۔

تو اگر رسول کو انہیں مناظرانہ طور پر چپ کروانا ہوتا تو صرف لاجواب کرنا ہوتا تو مجھے معلوم ہے کہ رسول بائبل کو پیش کرتے۔ کہتے کہ مجھ سے کیا پوچھتے ہو؟ شجرہ تمہارے ہاں موجود ہے۔ تو ان کے پاس کچھ جواب تھا؟ مگر یاد رکھئے کہ داعیِ حق کا کام نہیں ہے کہ وہ غیر کی باطل بات کو فائدہ اٹھانے کیلئے استعمال کرے۔ وہ خاموش رہتے مگر اصل حقیقت تو چھپی رہتی اور ایک رسولِ الٰہی کا دامن مجروح رہتا۔لہٰذا ان کے جواب میں یہ نہیں کہا گیا۔ جو اصل بات تھی، وہ کہہ کر انہیں سمجھایا گیا۔

( اِنَّ مَثَلُ عِیْسٰی عِنْدَاللّٰهِ کَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَه مِنْ تُرَابٍ فَقَالَ لَه کُنْ فَیَکُوْنُ ) ۔

ان کے باپ فقط نہیں ہے مگر آدم کے تو ماں بھی نہیں تھی، باپ بھی نہیں۔ پھر انہیں تم اللہ کا بیٹا کیوں نہیں مانتے؟یہ تو اللہ کی قدرت ہے جسے چاہتا ہے، بغیر ماں باپ کے پیدا کرتاہے، جسے چاہتا ہے بغیر باپ کے پیدا کرتا ہے۔ جسے چاہتا ہے عام نظامِ فطرت کے ماتحت پیدا کرتا ہے۔ یہ تو اس کی قدرت کی نشانی ہے۔ اب وہ آیت اس وقت عرض نہیں کرنا ہے۔ وہ جملہ جو بھول نہیں گیا ہوں،وہ کہنا ہے۔ انہوں نے مجھ سے پہلے زبانی کہا، پھر مختصر پمفلٹ بھی دیا جس میں انہوں نے اسے چھاپا ہے کہ یورپ کا ایک قومی کردار ہے کہ رومال گر گیا ، آپ نے اٹھایا ، انہوں نے کہا”تھینک یو“۔شکریہ۔ بہت ارزاں ہے یہ جملہ۔ بس ذرا سی بات کردیجئے، چاہے آپ کی نظرمیں کوئی قیمت اس کی نہ ہو لیکن وہ فوراً کہیں گے”شکریہ“۔رومال اٹھادیں آپ تو تھینک یو کہنا ضروری سمجھیں اور قرآن نے اور اسلام نے ان کے نبی کے دامن کو اتنے بڑے الزام سے بچادیا، انہوں نے کہا کہ چودہ سو برس سے عیسائیوں نے تھینک یو نہیں کہا ۔

تو غرض یہ کہ جتنے دین ہیں دنیا میں ،عیسائیت تو میں نے بتایا، یہودیت۔یہودا جنابِ یعقوب کے ایک بیٹے تھے۔ ان کی طرف نسبت ہے یہودیت کی۔ اسرائیلی کہہ لیجئے تو وہ اسرائیل جنابِ یعقوب کا لقب تھا۔ اس کی طرف نسبت ہے۔ جیسے قرآن میں بنی اسرائیل ہے۔ وہ اسرائیلی کہے جانے لگے اوران کا کیا نام ہے؟ آخر کوئی بتائے کہ نام کیا ہے ان کا؟ شخصیت کی طرف نسبت ہے۔

ارے ہمارے ملک کا اکثریتی کیش جوہے، حالانکہ حقیقت ہے ، سیاست کی بات توہے نہیں، جو اس کے کہنے میں کوئی عذر کروں کہ قرآن مجید نے بت پرستی کو کوئی دین تسلیم نہیں کیا ہے۔ لیکن خیر دین کے طور پر مانا جارہا ہے اور پھر یہ کہ کسی حیثیت سے کتاب کا بھی دعویٰ ہے اور وہ کتاب، جو کتابیں ہم مانتے ہیں، وہ کب اصلی حالت میں ہیں جوہم سمجھیں کہ وہ کتابیں نہیں ہیں کیونکہ ان میں ایسا ایسا ہے۔ ان کتابوں میں کیسا کیسا ہے، پھر بھی ہم مانتے ہیں کہ اصل میں تھی ، بعد میں تبدیلی ہوگئی۔ تو پھر ہوسکتا ہے کہ جو نام لئے جاتے ہیں، وہ واقعی اللہ کی طرف سے رسول ہوں۔ جب ہمارے قرآن نے کہہ دیا کہ ہر ملک میں، ہر قوم میں ایک رہنما ہم نے بھیجا ہے تو ہمیں نفی کا حق اپنے پیغمبر سے پہلے نہیں ہے۔ اگر پیغمبر کے بعدکوئی دعویٰ کرے تو دعویٰ ہی خود جھوٹے ہونے کی دلیل ہے۔ چونکہ ختم نبوت کا اعلان ہوچکا ہے، لیکن اس سے پہلے کسی ملک والا، کسی پرانے کا نام لے تو ہوسکتا ہے کہ وہ نبی ہو۔ اس لئے کہ ایک مسلمان کی شان نہیں ہے کہ ان کا نام سن کر کوئی گستاخی کرے۔ بس کہہ دے گا کہ ہم پر نبوت ثابت نہیں۔ ہم پر رسالت ثابت نہیں ورنہ اس کے آگے ہم نفی نہیں کرسکتے۔

تو اب بہرحال اس کا مذہب جو اس دیس کا ، اس دھرم کا جو نام ہے، ہندو، تو وہ بھی ایک ملک کی طرف نسبت رکھتا ہے یا کسی مکان کی طرف یا کسی مکین کی طرف اور جب شخصیت محدود ہوگئی تو دین لامحدود نہیں ہوسکتا۔ جو شخصیت سے تعلق نہ رکھے، وہ بلاتکلف کہنے کا حق رکھتا ہے کہ ہم اس دین کو نہیں مانتے جو اس سرزمین سے کوئی دلچسپی نہ رکھے۔ وہ بلاتکلف کہہ سکتا ہے کہ ہم کو اس دین سے کوئی دلچسپی نہیں ، کوئی تعلق نہیں۔ دنیا کا ہر دین کسی شخصیت سے منسوب ہے۔

ایک غلط فہمی دور کردوں کہ اب ہمارے اسلام کو بھی غیروں نے اپنے دین کے ردیف قافیے پر لاکر دین محمدی کہنا شروع کیا جس سے دھوکے میں آکر کچھ مغرب زدہ مسلمان بھی اس لفظ کو استعمال کرنے لگے۔ یہ غیروں کا طلسم تھا ورنہ رسول نے کبھی اس دین کا بحیثیت دین محمدی تعارف نہیں کروایا یا آلِ رسول نے کبھی اس دین کا بحیثیت دین محمدی تعارف نہیں کروایا۔یہ دین کیا ہے؟ اسلام اور اسلام کس کیلئے؟ اللہ کیلئے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ دین کسی محدود شخصیت سے وابستہ نہیں ہے بلکہ یہ نام اس ذات کی طرف منسوب ہے جو میں نے کہا تھا کہ مرکز تقسیم حقوق لامحدود ذات ہونی چاہئے۔ تو یہ نام بھی اسی لامحدود ذات کی طرف نسبت رکھتا ہے۔

اب میں کہتا ہوں کہ کسی خطہ ارض میں اتنی وسعت سمجھئے کہ وہاں ایک پورا مجمع ہو جو صرف خدا کی مخلوق کا ہے اور ہزاروں مذاہب و ملت پر تقسیم ہوا اور اس کے سامنے میں کہوں کہ تم میں سے کونسی جماعت ہے جو اللہ کے قانون کو نہ مانے؟ تو اس مجمع میں سے کسی میں دم ہے، اگر اللہ کو مانتا ہے کہ وہ کہے کہ ہم نہیں مانتے کیونکہ ذات وہ پیش ہوگئی جو کسی ایک جماعت سے تعلق نہیں رکھتی۔لہٰذا اس کی طرف جس دین کی نسبت ہو، اُس سے انحراف صرف وہی کرے گا جو اس حقیقت سے واقف نہ ہو۔ میں نے ان الفاظ میں کہا تھا کہ کون ہے تم میں سے جو اس قانون کو نہ مانے؟ ارے چاہے عمل نہ کرتا ہو لیکن کہے گا کوئی نہیں کہ ہم اس قانون کو نہیں مانتے۔

معلوم ہوا کہ اسلام کی جو حقیقت ہے، اس کی سرتابی کی ہمت کوئی خدا کا ماننے والا نہیں کرسکتا۔ اس لئے کہ اس کا تعلق اُس اللہ کے ساتھ ہے اور اسلام کے معنی ہی ہیں اللہ کے قانون کے سامنے سر جھکانا۔اسلام کے لغت میں دو معنی ہیں، ایک سرنہادن بہ طاعت اور دوسرے سپردن، اطاعت کیلئے سرجھکانا اور اپنے کو سپرد کردینا۔ اسلام خواہ اس معنی سے اصطلاح ہو ، خواہ اُس معنی سے۔ اگر وہ معنی ہیں تو سرِ اطاعت جھکانا مکمل اطاعت اور اگر یہ معنی ہیں تو اس کے یہ معنی ہیں اپنے آپ کو سپرد کردینا۔ سپرد کردینے کے معنی ہیں کہ اپنی مرضی کچھ رہی نہیں۔ یہ خود اقرار اطاعت کا اور اونچا درجہ ہے کہ اپنی مرضی کچھ نہیں رہی، دوسرے کے حوالے ہوگئی۔ اسی لئے قرآن کہہ رہا ہے کہ اسلام دین کائنات:

( لَهُ اَسْلَمَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَ رْضِ ) ۔

اس کیلئے اسلام لاتے ہیں جتنے آسمان میں ہیں اور زمین میں ہیں۔

یعنی ہر مخلوق کا عالم اعلیٰ اور ہر مخلوق کا عالم اسفل۔ عالم بالا سے لے کر عالم پست تک سب اسلام لائے ہوئے ہیں اور اسلام کا مکمل اظہار عمل سے سجدہ ہے۔”لِلّٰهِ یَسْجُدُ “، اللہ کیلئے سجدہ ریز ہے ہر چیز جو آسمان ہیں اور جو زمین ہے۔ یہ کیا اطاعت ہے؟ اس کے قانون کی پابندی۔ دنیا کی ہر گاڑی لیٹ ہوتی ہے لیکن کبھی سورچ اور چاند کی گاڑیوں کو دیکھا کہ لیٹ ہوجائیں۔ جس وقت پر انہیں جس نقطہ پر پہنچا ہے، اسی نقطہ پر جائیں گی۔ ستاروں کا طلوع وغروب کبھی اپنے نقطہ سے ہٹ نہیں سکتا۔ یہ کیا ہے؟ یہ سب اطاعت کی زنجیروں میں مسخر ہیں۔ انسان بھی جب پیدا ہوتا ہے تو اسی کی اطاعت کرتا ہوا۔ ورنہ دنیا کی تمام طاقتیں صرف ہوجاتیں اور ایک بچے کو غذا حاصل کرنا نہ سکھاتیں۔ اس لئے کہ سکھایا جاتا ہے یا لفظوں میں یا اشاروں میں۔ لفظوں کے معنی وہی سمجھتا ہے جو موضوع”لَہُ“سے واقف ہو۔ یعنی یہ لفظ کس کیلئے ہے؟ اشاروں کو وہی سمجھتا ہے جو قرارداد سے واقف ہو۔

وہ بچہ جس نے مکتب وجود میں پہلی دفعہ قدم رکھا ہو، وہ نہ کسی لفظ کے معنی سے واقف، نہ کسی اشارہ سے واقف۔ تو اس کی زندگی ختم ہوجاتی اور دنیا کی طاقتیں ختم ہوجاتیں مگر غذا حاصل کرنا اُسے نہ سکھا سکتی تھیں۔ اس کیلئے اس حاکم کی ضرورت تھی جو براہِ راست دل و دماغ سے رابطہ قائم کرے۔ جس کیلئے کسی زبان کی ضرورت نہ ہو اور وہ اس کی طرف کا الہام ہے، اس کی طرف کا القا ہے، اس کی طرف کی تعلیم ہے جس کی بناء پر بچہ اپنی غذائے فطری حاصل کرتا ہے۔ تو یہ کیا ہے؟ یہ اس کے قانون پر چلنا ہے اور اسی لئے ابھی تک اس قانون پر چلنے میں کسی گھرانے ، کسی جماعت ، کسی گروہ کا دخل نہیں ہے۔ عیسائی کا بچہ ہو تو اسی طرح غذا حاصل کرے گا۔ یہودی کا بچہ ہو، ایک ہی طرح غذا حاصل کرے گا۔مسلمان کا بچہ ہو تو اسی طرح غذا حاصل کرے گا۔

معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب تفرقے بعد میں قائم ہوئے ہیں۔ شروع میں سب کا دین ایک ہے۔ اب آپ سمجھے۔” کل مولودِ یولد علی فطرة الاسلام“،ہر مولود فطرتِ اسلام پر پید اہوتا ہے۔ پتھر اسی کی اطاعت کررہے ہیں، درخت اسی کی اطاعت کررہے ہیں، حیوان اسی کی اطاعت کررہے ہیں۔ انسان بھی جس وقت پید اہوتا ہے، اسی کی اطاعت کرتا ہے۔ اب اگر اسے صرف پتھروں ، درختوں اور حیوانوں ہی کے درجہ پر رکھنا ہو تو بس یہی اطاعت عمر بھر لی جاتی رہتی۔ یہ اطاعت ہے تسخیری یعنی اللہ کی قوتِ قاہرہ خود اطاعت کرواتی ہے۔ ایسی عمر بھر یہ اطاعت کرتا رہتا تو بس درختوں کے برابر ہوتا، پتھروں کے برابر ہوتا، اشرف المخلوقات نہ ہوتا۔ مگر پھر اس کے پیدا ہونے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ اس کو تو پیدا ہی اس لئے کیا تھا کہ ایک مخلوق تو ایسی بھی ہو جو جہادِ نفس کے ساتھ اطاعت کرے۔

اب پھیلا کے عرض کرنے کا وقت نہیں ہے۔ پوری مجلس ہوچکی ہے وقت کے لحاظ سے،لہٰذا بس مجمل تشریح انشاء اللہ پھر کل ۔اب یہ خود سمجھنے لگتا ہے کہ یہ اچھا ہے یا بُرا ہے۔ تو اب سوال اس کے خود اپنے اختیار کا ہوتا ہے کہ ہم اِدھر چلیں یا اُدھر چلیں اور اس وقت ان چیزوں میں ، اس شعبہ میں جس حد تک اختیار دیا ہے، اب اللہ مجبور نہیں کرتا۔ اب یہ اپنے اختیار سے راستہ اختیا رکرتا ہے۔ کوئی کہے اب کہ صاحب! اطاعت کرتا ہوا آیا ہی ہے اور جس وقت آکر میں نے کہا کہ اللہ نے دست جبر و قہر کھینچ لیا، جب بھی کہا یہ آزاد ہوگیا بالکل، عین اس وقت کہ جب یہ کافر ہے ، تب بھی جتنی اطاعت اسے لینا ہے، جبری طور پر وہ لے رہا ہے۔ دل کی دھڑکن اس کی تابع ہے، ہاتھ کی جنبش اس کی تابع ہے، نبض کی رفتار اس کی تابع ہے۔ایک زبان اس کے اپنے قبضہ میں ہے چاہے حق کہے، چاہے باطل۔ ایک ہاتھ اپنے قبضہ میں ہے ۔ جب تک اس نے اپنے قبضہ میں دے رکھا ہے، چاہے عدل کرے، چاہے ظلم ۔لیکن وہ شل کردے تویہ حرکت دے لے۔ معلوم ہوا جس وقت انکار کررہا ہے، جب بھی اطاعت کررہا ہو، زبان انکار کر رہی ہے۔ اندرونِ جسم اس کے سب اجزاء اور طاقتیں اس کی اطاعت کررہی ہیں۔ یعنی کافرزبانی ہے اور اندرونی حصہ جو ہے، وہ ہمہ تن اسلام ہے۔ پھر کوئی کہے کہ جب اسلام ایسا ہے تو پھرمطالبہ کس چیز کا ہے؟

بس ایک جملہ کہہ کر آگے بڑھوں گا، تشریح انشاء اللہ کل کروں گا۔ میں کہوں گا کہ یہ بس شرافت انسانی کا امتحان ہے کہ جس کی اطاعت جبراً کرنی ہی ہے، اُس کی اطاعت اختیاراً بھی کرلو ورنہ اطاعت اختیار نہ کرو گے۔ اختیاراً اطاعت نہ کرو گے تو جس نے لینی ہے اطاعت، وہ تو لے ہی لی جائے گی اور جتنی مخالفت کرو گے، اس کی سزا ملے گی اور جبری جتنی اطاعت کروگے، اس کی جزا نہیں ملے گی۔

اگر اپنے اختیار سے اطاعت کرلو تو پھر اس کا ثواب بھی ملے گا۔ لہٰذا اسی لئے علماء کہتے ہیں یعنی علمِ کلام میں ہے کہ یہ جو احکامِ شریعہ ہیں، یہ ہم پر مہربانی ہے تاکہ ہم مستحقِ جزاء بنیں اور جتنا اختیاری عمل ہے، وہ اگر غلط ہوا تو قہری کیفیات اگر اچھی نمودا رہوں تو کوئی فائدہ نہیں۔ اختیار طو رپر ظلم کررہا ہے اور مصائب کو دیکھ کر آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں۔ ظلم اختیاری ہے، یہ کیفیت قہری ہے۔ وہ اختیاری عمل ہے، یہ مصیبت کا اثر ہے اور اب آپ کے سامنے واقعات مجالس میں سے آہی گئے ہوں گے کہ کن محل پر ظالم روئے ہیں ۔ مگر وہ رونا کیا قیمت رکھتا ہے جو ظلم سے باز نہ رکھے۔ ظلم کررہے ہیں ، مظلومہ کے زیور اُتار بھی رہا ہے اور رو بھی رہا ہے۔ کہا: کیوں روتے ہو؟کہا: آپ کی مظلومی پر۔ کہا: زیور کیوں اُتار رہے ہو؟ کہا: اس لئے کہ میں نہ اُتاروں گا تو کوئی اور اُتار لے گا۔ میں ہی فائدہ اُٹھا لوں ۔

تو بتائیے اس رونے کی کیا قیمت ہے؟ بس یاد رکھئے کہ وہ مصیبت تو ایسی ہے کہ ظالم روئے ۔ اب اگر ہم مصیبت کے اثر سے روئے تو اس رونے کی کیا قیمت ہوگی۔ اگر ہمارے اختیا رمیں جو چیزہے یعنی اطاعت، وہ نہ کریں۔صاحب! یہ مستقل موضوع ہے۔ چند جملے کہہ رہا ہوں، حالانکہ آپ کیلئے ناخوشگوار ہیں یہ باتیں ۔آپ کیلئے تو بہت خوش آئند اس کے مخالف پہلو ہیں۔ تو میں کہتا ہوں کہ ناز ہے ہمیں، بڑا کارنامہ محبت ہے۔ میں کہتا ہوں کہ محبت ہمارا کارنامہ ہے؟ جو قابل محبت ہے، اس کا حسن ہے جو متقاضیِ محبت ہوتا ہے۔ محبت کرنے والے کا کوئی کارنامہ نہیں ہوتا۔ محبت کرنا ، جو ہستیاں محبت کے قابل ہیں، ان سے ہم محبت کرتے ہیں تو احسان کیا ہے؟ بس محبت کرتے ہیں قابل محبت سے۔ تو اس شعبہ میں ظلم کے مرتکب نہیں ہیں۔اس کے آگے یہ کارنامہ کیا ہے کہ ہم محبت کرتے ہیں؟

اسی طرح سے ہم ان کے مصائب پر روتے ہیں۔ مصائب ہیں ہی ایسے کہ ان پر پتھر روئے، ہم روئے تو کیا کمال؟ بس اب یہ بابِ مصائب ہے۔ میں کہتا ہوں کہ ہم تو آنسوؤں سے روتے ہیں۔ کائنات نے تو شاعروں کے مجاز کو حقیقت بنا دیا۔ خون کے آنسوؤں سے روئی محمد ابن طلحہ شافعی کی کتاب ”مطالب السئول“ ہے، علامہ سبط ابن جوزی کی کتاب ”تذکرئہ خواص الآئمہ“ ہے اور علامہ ابن حجر مکی کی کتاب ”صواعق محرقہ“ ہے۔ ہر ایک لکھ رہا ہے کہ واقعہ کربلا کے چالیس دن تک جو کپڑا زیر آسمان پھیلایا جاتا تھا، اس پر خون کے نشان ہوجاتے تھے کیونکہ آپ کا عشرہ اسی زمانے میں ہورہا ہے تو میں کہتا ہوں کہ اس رعایت سے میں سمجھا ، میں نے محسوس کیا کہ عشرہ کا دن ہی روزِ مصیبت اس کی طرف کا مقرر کردہ نہیں ہے بلکہ اربعین تک کا زمانہ عزا،یہ بھی اُدھر کا مقرر کردہ ہے کیونکہ چالیس دن پورے ہوتے ہیں بیس صفر کو۔ تومعلوم ہوتا ہے کہ یہ چہلم کی تاریخ بھی اُدھر سے مقرر ہوئی ہے۔ دنیا ہم سے کہتی ہے کہ تم روتے کیوں ہو؟ میں کہتا ہوں کہ آسمان سے جاکر پوچھو کہ کیوں روتا ہے؟زمین سے پوچھو کہ کیوں روتی ہے؟

ایک عجیب سوال کرتے ہیں کہ رسول کا ماتم کیوں نہیں کرتے؟ حسین کا ماتم کیوں کرتے ہو؟میں کہتا ہوں کہ خیر اگر ہم رسول کا ماتم نہیں کرتے تو ہم تھوڑی دیر کیلئے مان لیتے ہیں کہ یہ ہماری کوتاہی ہے۔ مگر آپ کو احساس ہے تو آپ ہی کیجئے ان کا ماتم۔ یہ ہمارے روکنے کیلئے آپ کو رسول یاد آتے ہیں۔ آپ رسول کا ماتم کیجئے، ہم آپ سے وعدہ کرتے ہیں کہ آپ کے ساتھ آکر شریک ہوں گے۔ تقسیم عمل ہوجائے۔ آپ رسول کا ماتم کیجئے، ہم فرزند رسول کا ماتم کریں۔

یونہی سہی۔ یہ آپ ماتمی ہونے سے گھبراتے کیوں ہیں؟ آپ بھی غم کیجئے۔ ماتم کے معنی ایک خاص طرز نہیں ہے۔ جس طرز سے آپ چاہیں، ہمارے ہاں ہر جگہ عزاداری ایک ہی عنوان سے ہوتی ہے۔ وہ تو فریاد کی کوئی لَے نہیں ہے۔نالہ پابند لَے نہیں ہے۔جس کی سمجھ میں جو آیا ہے، جذبہ ہے اظہارِ سوگواری کا۔