معراج خطابت

معراج خطابت0%

معراج خطابت مؤلف:
زمرہ جات: امام حسین(علیہ السلام)

معراج خطابت

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: مولانا عابد عسکری
زمرہ جات: مشاہدے: 61353
ڈاؤنلوڈ: 4772

تبصرے:

کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 44 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 61353 / ڈاؤنلوڈ: 4772
سائز سائز سائز
معراج خطابت

معراج خطابت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

دینِ اسلام ۶

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

( اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَاللّٰهِ الْاِسْلَامْ ) ۔

میں نے عرض کیا کہ اسلام کے معنی دو ہیں، سرجھکانا اطاعت کے ساتھ اور اپنے کو سپرد کردینا ۔ اب یہ دونوں باتیں کس ذات سے متعلق ہیں؟ وہ ذات خالق کائنات کی ہے۔ اس لئے قرآن مجید میں جہاں جہاں اسلام کے ساتھ”مُتَعَلَقَ“کا ذکر ہے”( وَلَهُ اَسْلَمَ ) “اللہ ک یلئے اسلام لائے ہیں۔ بعض جگہ الفاظِ قرآنی سے پتہ چلتا ہے کہ دوسرے معنی زیادہ اس میں ملحوظ ہیں یعنی سپرد کردینا۔ یہودونصاریٰ کا مقولہ تھا:

( نَحْنُ اَبْنَاُاللّٰه واَحِبَّاهُ ) ۔

ہم اللہ کے بیٹے ہیں او ر اس کے لاڈلے ہیں، چہیتے ہیں۔

اب قرآن مجید نے اُن کے اسی مقولے کو نقل کیا کہ یہودونصاریٰ کا یہ قول ہے ۔ پہلے تو طنزیہ انداز میں اُن کے اس تصور کی خامی کا اظہار کیا۔ ارشاد کیا:

( قُلْ فَلِمَایُعَذِّبکُمْ بِذُنُوْبِکُمْ ) ۔

”کہئے کہ پھر بھلا وہ تمہیں تمہارے گناہوں کی سزا کیوں دینے لگا؟“

مطلب یہ کہ جس جماعت کو یہ تصور ہوجائے کہ ہمارا اللہ کے ساتھ کوئی خاص رشتہ ہے، وہ اصلاحِ عمل کا جذبہ ختم ہوجائے گا اور اس کے بعد جو اصل بات تھی، وہ کہی:

( وَاَنْتُمْ بَشَرٌ مِمَّنْ خَلَقَ ) ۔

بلکہ تم بھی آدمی ہو اُن میں سے جو اُس نے پیداکئے جیسے سب اس کی مخلوق ہیں، ویسے ہی تم بھی اُس کی مخلوق ہو۔ جیسے یہ ان کا مقولہ ہے اور قرآن مجید نے اس کو درج کرکے رد کیا، اسی طرح ایک مقولہ ان کا اور تھا:

( قَالُوْالَنْ یَدْخُلَ الْجَنَّة اِلَّا مَنْ کَانَ هُوْدًااَوْنَصَاریٰ )

”وہ کہتے ہیں کہ جنت میں کوئی داخل نہیں ہوگا سوائے اُس کے جو یہودی و نصاریٰ ہو“۔

یہ ”یا“ کہہ کر اُن سے کوئی نہیں کہتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہودی کہتے ہیں کہ وہی داخل ہوگا جو یہودی ہو۔ عیسائی کہتے ہیں کہ وہی داخل ہوگا جو عیسائی ہو کیونکہ قرآن نے ان دونوں کے مقولے کو سمو کر بیان کردیا ہے۔ اس لئے یا یا ہوگیا کہ ان دونوں کا نتیجہ یہ ہے ، وہ یا یہودی ہو یا نصرانی ہو۔

اُن کے قول کے مطابق یہودی ہو، ان کے قول کے مطابق نصرانی ہو۔اب اہل اسلام غور کریں، کسی بھی فرقے کے ہوں کہ اس کے مقابل میں قرآن ہمارے مذاق کے مطابق اُسے کیا کہنا چاہئے تھا جو ہم یہ سمجھتے ہیں،یہ کہا جاتاکہ نہیں، سوا اس کے جو مسلمان ہو، کوئی جنت میں نہیں جائے گا۔ مگر صرف مسلمان کہا جاتا تو مسلمان لقب ہوجاتا جیسے مردم شماری کے رجسٹر میں مذہب کے خانے میں مسلمان لکھا جاتا ہے کہ اس کے جواب میں مسلمانوں کی طرف سے جو حقیقت پیش کی جارہی ہے، اس میں مسلمین یہاں نہیں کہاجاتا ورنہ جماعتی نظام بن جائے گا۔ لوگ سمجھیں گے کہ ایک فرقے کا نام ہے۔ جیسے یہودی ہونا۔ بس ضمانت ہے چاہے کردار جیسا بھی ہو۔ جیسے نصرانی ہونا ضمانت ہے، چاہے کردار جیسا بھی ہو۔ویسا ہی مسلمانوں کا تصور ہوگا کہ بس مسلمین جائیں گے ۔ جوابِ ترکی بہ ترکی کا تقاضا تو یہی تھالیکن قرآن نے اُس کے جواب میں کیا کہا ہے؟ قرآن نے یہ کہا کہ وہاں جو کہاتھاانہوں نے، کہ اللہ ہمارا رب ہے یعنی دنیا اسلام کی فراخی و حوصلگی کو دیکھے اور بات یہ ہے کہ تنگ نظری آتی کہاں سے جبکہ وہ پیغام اُس کا ہے جو سب کا ہے۔ وہ اگر کسی محدود ذات کا ہوتا تو وہاں تنگ نظری ہوتی۔ تو وہ وہاں کہہ رہے تھے کہ ہم اللہ کے بیٹے ہیں اور اُس کے چہیتے ہیں۔ اُس کے جواب میں مسلمانوں سے یہ کہلوا دیاجاتا۔ جو ابِ ترکی بہ ترکی کا تقاضا یہ تھا کہ نہیں، ہم خاص اُس کے، ارے بیٹا نہ کہتے ، محبوب کہہ لیتے۔ ہم خاص اُس کے پیارے ہیں۔ یہ کہاجاتا مگر مسلمانوں کی زبان سے یہ نہیں کہاجارہا ہے کہ وہ ہمارا ہی ہے بس۔ مسلمانوں کی زبان سے اللہ نے اعلان کروایا:

( وَهُوَرَبُّنَاوَربُّکُمْ ) “ ۔

”وہ ہمارا بھی مالک ہے، تمہارا بھی مالک“۔

( لَنَااَعْمَالُنَاوَلَکُمْ اَعْمَالُکُمْ ) “۔

”ہمارے لئے ہمارے اعمال ہیں، تمہارے لئے تمہارے اعمال ہیں“۔

اور وہ جو وہ کہہ رہے تھے کہ سوائے یہودونصاریٰ کے کوئی نہیں جائے گا۔ اُس کے جواب میں بھی جماعتی نام لے کر نہیں کہا جائے گا کہ نہیں، بس مسلمان جائیں گے۔ نہیں! اُ س کے جواب میں کہا جارہا ہے،اس کو میں نے پیش کرنے کیلئے منتخب کیا ہے۔ اب مسلمین نہیں کہا جاتا:

( بَلٰی مِمَّنْ اَسْلَمَ وَجْهُه لِلّٰهِ وَهُوَمُحْسِنٌ فَلَه اَجْرُه عِنْدَ رَبِّه وَلَاخَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَاهُمْ یَحْزَنُوْنَ ) ۔

کہاں ان کا وہ زور شور کہ سوائے یہودی و نصاریٰ کے کوئی نہیں جائے گا اور کہاں اس کتاب میں جو گویا مسلمانوں کی طرف سے وکالت کا ذمہ دار ہونا چاہئے۔ تو میں کہتا ہوں کہ بڑے دھیمے انداز میں کہاجارہا ہے : بھئی یہ کیوں کہتے ہو کہ کوئی نہیں جائے گا۔ بھلاکوئی نہیں۔

( مَنْ اَسْلَمَ وَجْهَه لِلّٰ ) ہِ“۔

اب یہاں وہ” سرنہادن بطاعت“ بنتا ہی نہیں۔اس لئے میں نے یہ آیت پیش کی ۔ یہاں وہی معنی بنتے ہیں جو اپنی شخصیت کو اللہ کے سپرد کردے”( مَنْ اَسْلَمَ وَجْهَه لِلّٰهِ ) “اس سے پتہ یہ دے دیا خود مسلمانوں کو کہ مسلم کہنے سے مسلم نہیں ہوتا، صفت کے ہونے سے مسلم ہوتا ہے۔ جو اپنی شخصیت کو اللہ کے سپرد کردے، درآنحالیکہ حسن عمل بھی رکھتا ہو، فقط دعویٰ سے کام نہیں چلتا۔ فقط نامِ اسلام ہو، اس میں ایمان سے کام نہیں چلتا، اس کے ساتھ حسن عمل رکھتا ہو توپھر بھی آنکھ بند کرکے نہیں کہاجارہا ہے کہ بس اُس کیلئے جنت ہے۔ کہاجارہا ہے کہ اس کیلئے جو اس کا اجر یعنی جتنی محبت کی ہو، جتنا کام کیا ہو، جتنا حسن عمل کیاہو، اس کیلئے اس کا اجر ہے جو ہوتا ہو اُس کا اللہ کے یہاں۔

( وَلَاخَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَاهُمْ یَحْزَنُوْنَ ) “ ۔

”تو نہ اُن کیلئے کوئی خوف ہوگا، نہ حزن و ملال ہوگا“۔

تو اب آپ نے دیکھا کہ اسلام کے یہاں وہی معنی ہیں ”سپرد کرنا“۔ اب یہ چیز جو ہے اصل دین اسلام اور اسلام ”سرنہادن بطاعت“،”اپنے کو سپرد کردینا“۔ اور میں نے کہا زیادہ یہی پہلو ملحوظ ہے مگر کس کے؟ اللہ کے۔

اور میں نے یہ کہا کہ انسان جب سے پیدا ہوا، یہ صفات لئے ہوئے آیا۔ اس کی اطاعت کرتا ہوا آیا۔ یہ جو اپنی ضروریاتِ حیات پوری کررہا ہے، اس کو یہ معلوم نہیں ہے کہ یہ میری ضروریاتِ حیات ہیں۔ یہ تو بس کسی مالک کی اطاعت کررہا ہے۔ اور میں کہتا ہوں کہ اس کے بعد ضرورریاتِ حیات پوری کیجئے مگر اس لئے نہیں کہ میری ضروریاتِ حیات ہیں بلکہ اس لئے کہ اس کی مرضی ہے۔ کھانا بھی کھائیے تو یہ سمجھ کر کہ مجھے حکم ہے۔ پانی بھی پیجئے تو یہ سمجھ کر مجھے حکم ہے۔ تمام نظامِ زندگی کے کام کیجئے مگر یہ سمجھ کر کہ اس کا حکم ہے۔

تو یہ یاد رکھئے کہ دنیا کا ہر کام عبادت ہوجائے گا۔ تو جنابِ والا! یہ دونوں صورتیں تو لئے ہوئے انسان پیدا ہوتا ہے مگر بس فرق اتنا ہے کہ اس وقت یہ دونوں صفات جبر قدرت سے، اللہ کے ارادئہ تکمیل ہی کے ماتحت ہیں۔ تکمیل کیا مطلب؟ کہ وہ ”کُن“والا،”ہوجا“، ہوگیا۔ یعنی وہ اُس کے ارادے کا ظہور، ورنہ کیا وہ لفظ”کُن“بولتا ہے، یہ تعلق ارادہ کی ایک لفظی تعبیر ہے اور اسی لئے یہ لفظ”کُن“ ہے جو ایک منزل پر آکر اتنا لمبا جملہ بنا:

( یَانَارُکُوْنِیْ بَرْدًاوَسَلامًا عَلٰی اِبْرَاهِیْمَ ) ۔

توکیا جتنی دیر میں مَیں نے کہا، کیا اتنی دیر میں اللہ تعالیٰ نے یہ کہا۔ یہ وہی حکمِ”کُن“ہے جو یہاں، کیونکہ متعلق اس کا یہ ہے کہ آگ نقطہ اعتدال برودت پر آئے یعنی سردی بھی اتنی نہ ہو جو حیاتِ انسانی کیلئے خطرناک ہے ، تو جب وہ الفاظ کے قالب میں آیا تو اتنا بڑا جملہ بنایاکہ:

( یَانَارُکُوْنِیْ بَرْدًاوَسَلامًا عَلٰی اِبْرَاهِیْمَ ) ۔

تو اب یہ اللہ کا حکم جوہوتا ہے، تو پھر کائنات کی ہر شے اس کی اطاعت کرتی ہے۔ جو اطاعت عمومی ہیں، وہ روزمرہ ہورہی ہیں اور جو خصوصی حکم ہوجاتا ہے، تو وہ خصوصی ہوجاتا ہے۔ یہ آگ اپنی فطرت دکھاتی ہے جلانے کی۔ یہ بھی اطاعت ہے۔ یہ اس کے حکمِ عام کی تعمیل ہے اور ایک موقع پر نہیں جلایا، یہ اُس کے حکمِ خاص کی تعمیل ہے۔دواجواثر کررہی ہے، وہ بھی اُس کے حکم کی اطاعت کرتی ہوئی اور جو بے اثر ہوجاتی ہے، وہ بھی اُس کے حکم کی تعمیل کرتی ہوئی۔ یہ معنی ہیں اس کے کہ:

لَایَتَحَرَّکُ ذَرَّة اِلَا بِاِذْنِه “۔

”کوئی ذرّہ حرکت نہیں کرتا مگر اللہ کے ارادے سے“۔

دنیا نے لاکر اس مقولے کو منطبق کیا وہاں جہاں انسان مجبور بننا چاہے۔ بس یہ جس بات میں اپنا مطلب نکلے، اگر جبر ثابت ہو جائے تو پھر کسی کو بُرا کہنے کی ضرورت نہ ہو۔ یہ بڑا خطرناک ہے اختیار کہ یہاں بہت سی شخصیات معرضِ بحث میں آجاتی ہیں اور اگر جبر کا عقیدہ عام ہوجائے تو ہر شخص سمجھے ، وہ بیچارہ کیا کرے؟ وہ تو اللہ نے جو کروایا، وہ اُس نے کیا۔

تو ا س کیلئے روایات گھڑی یں کارخانوں میں ۔ عقائد بھی ڈھلے ہیں کارخانوں میں ۔ عوام کے ذہنوں کو مغطّل کرنے کیلئے کہ غور کرنا چھوڑدیں کہ یہ اچھا ہے یا برا ہے۔جب سب اللہ کرتا ہے تو سوچنا کیا کہ کون اچھا کررہا ہے ، کون برا کررہا ہے اور فعل اللہ کے قرار دئیے اور اللہ کے فعل میں یہ اصول بنانا کہ نہ اچھا ہوتا ہے ، نہ برا ہوتا ہے۔اللہ کرتا ہے، لہٰذا اچھا ہی ہے، برے کا سوال ہی نہیں۔ تو پورا قلعہ علم کلام کا تعمیر ہوگیا۔

نظامِ سیاست کے اوپر تو حضورِ والا”ولایتحرک ذرہ“بالکل صحیح ، وہ ہواسے پتہ ٹوٹ کر گرا تو ہوا نے اطاعت کس کی کی؟ اُس کی۔ اگر کسی وقت ہوا چلتی رہے اور پتہ نہ گرے تو معلوم ہوتا ہے کہ اب یہ پتے کو کوئی خاص حکم اب آیا ہے تو اس حکمِ خصوصی کی پیروی کررہا ہے۔ یاد رکھئے کہ یہی احکامِ خاص اللہ کے جب کچھ انبیاء و اولیاء کے ذریعے سے ہوجاتے ہیں تو اُن کا معجزہ قرار پاتے ہیں کیونکہ وہ فعل و عمل ایک نبی کے ہاتھ پر اُس کے دعوے کی تصدیق کیلئے ہوا، اس لئے معجزہ اسی رسول کا ہے مگر فعل اللہ کا ہے۔ یعنی اللہ نے اس کے ہاتھ پر اس معجزے کو ظاہر کیا۔ تو معجزے کی نسبت اسی کی طرف درست ہے جس کے ہاتھ پر ظاہر ہوا۔مگر فعل وہ اللہ کا ماننا پڑے گا۔ ہاں! اس کے اذن سے اس کا فعل بھی مانا جاتا ہے۔ورنہ قرآن میں نہ ہوتا عیسیٰ کیلئے کہ وہ مردوں کو زندہ کرتے تھے۔ یہی کہہ دیا ہوتا کہ میں تمہارے ہاتھ سے مردوں کو زندہ کرتا تھا۔ مگر اُسے اندازِ تکلم ہمیں طرح طرح کے سکھانا بھی تھے کہ وہ بھی کہہ سکتے ہو ، یہ بھی کہہ سکتے ہو۔ تم مردوں کو زندہ کرتے تھے میرے حکم سے۔

بس یاد رکھئے یہ باذن اللہ۔ذہن میں رہے کہ اللہ کے اذن سے ہے۔ تو جس فعل کی نسبت دیجئے، وہ شرک نہیں ہوگا کیونکہ مسلمانوں میں ایک مدت سے ،کم سے کم دو برس سے ایک گروہ ہے کہ جس کو ہرچیزمیں شرک نظر آتا ہے اور اس کے الفاظ یہ ہوتے ہیں کہ یہ نہ کرو ، نہیں تو شرک ہوجائے گا، یہ نہ کرو نہیں تو شرک ہوجائے گا۔تو اس کے جوا ب میں مَیں یہ کہتا ہوں کہ ہم نہیں کریں گے تو شرک کیونکر ہوگا؟

تو حضورِ والا! اللہ کا تصور ذہن میں ہو، اس کے حکم کی اطاعت کائنات کی ہر شے کررہی ہے۔ یہ انسان بھی پید اہوتا ہے اس کے حکم کی اطاعت کرتا ہوا اور ابھی جو میں نے کہا کہ کبھی قانونِ عام کی اطاعت ہوتی ہے، کبھی قانونِ خاص کی ۔ وہ اس منزل پر بھی میں دکھادوں کہ ہر بچہ جب اُسے فطری غذا ملے تو وہ رُخ کردے گا۔ یہ رُخ جو کیا تو یہ قانونِ عام کے ماتحت ہے او رموسیٰ جو رُخ نہیں کررہے ہیں، وہ قانونِ خاص کے ماتحت ہے اور خالق نے کہا ہے کہ اپنے قانون کے اجرکو:

حَرَّمْنَاعَلَیْهِ الْمَرَاضِعَ مِنْ قَبْلُ “۔

ارے وہ رُخ کرتے کیونکر، ہم نے اُن پر تمام دودھ پلانے والیوں کا دودھ حرام کردیا تھا بہت پہلے۔

اور ابھی تو میں نے دُور کی مثال دی اور بحمدللہ دُور کی مثال سے بھی آپ محظوظ ہوئے۔ مگر اب میں قریب کی مثال بھی دے دوں کہ اگر فطری غذا کی طرف بچہ رُخ کرے تو قانونِ عام کے ماتحت ہے اور اگر نانا کی زبان کو لے کر منہ میں چوسنے لگے تو یہ قانونِ خاص کے ماتحت ہے۔

توحضور! جیسے آیاتِ قرآن متشابہ ہیں، اُس میں بہت سے معنی ہیں۔ کہیں تو خود سمجھ میں نہیں آتے او رمعنی پیدا ہی نہیں ہوتے۔ کہیں سوچنے پر کچھ معنی مگر کسی دوسرے کے سوچنے پر کچھ اور معنی۔اسی طرح بعض آیات میں تیس اقوال، چالیس اقوال مفسرین کے ہوجاتے ہیں۔ تو وہ آیاتِ متشابہات ہیں۔ اسی طرح احادیث میں بھی بعض متشابہات ہوتی ہیں کہ اس میں بھی سوچنے والے طرح طرح کے معنی پیدا کرلیتے ہیں۔ چنانچہ یہ حدیث جو ہے کہ:

کُلُّ مَوْلُوْدٍ یُوْلَدُعَلٰی فِطْرَةِ الْاِسْلامِ “۔

”ہر بچہ فطرتِ اسلام پر پید اہوتا ہے“۔

ا س کی بھی تشریح ہر ایک ، ایک ہی طرح نہیں کرتا اور لوگ سوالات کرتے ہیں کہ اس کے کیا معنی ہیں؟ تو اس میں بھی ممکن ہے کوئی کچھ جواب دے ، کوئی کچھ دے۔ جو جس کے ذہن میں جس کا مفہوم۔میرے ذہن میں جو مفہوم اس کا ہے، وہ اجمالاً عرض کرچکا یعنی اسلام وہی مطالبہ کرتاہے جو ازروئے فطرت ہے۔ فطرت کے ماورا کوئی مطالبہ اسلام کا نہیں ہے۔ وہ کام جو انسان کرتا ہوا دنیا میں آتا ہی ہے، اُسی کا پھر انسان سے اسلام مطالبہ کرتا ہے ۔ کوئی بھی اپنی اطاعت کا مطالبہ کرے، وہ غیر فطری ہوگا، اس لئے کہ فطرت کے اوپر ایک بار ہے، کوئی حاکم کہے کہ میری اطاعت کرو، فطرت کے ماوراء مطالبہ ہے۔ جب یہ پیدا ہوا تھا، آکے کہتا کوئی کہ اطاعت کرو۔ دیکھوں کہ یہ اطاعت کرنا معلوم ہوتا ہے کہ فطرت کے اوپر الگ سے ایک بوجھ ہے جو رکھا جارہا ہے۔ لہٰذا ہر غیر خدا کی اطاعت غیر فطری ہے کیونکہ پیدائش کے بعد سے ان میں سے کوئی قادر نہیں تھا اس سے اطاعت کروانے پر۔ا س وقت اس پر کوئی حکم نہیں چلا سکتا تھا۔اب جو بعد میں آیا ہے حکم چلانے تو یہ اس کی فطرت سے ماوراء ایک بوجھ ہے جوا س پر لادا ہے ۔ لہٰذا غیر فطری۔

اسلام کسی اور کی اطاعت نہیں کرواتا سوائے اس کے۔ ہاں! ذہن میں آسکتاہے کہ اسلام میں یہ جو بعض اطاعتوں کا ذکر ہے، میں کہتا ہوں کہ جس کی بھی اطاعت ہے، وہ اس کے حکم سے ہے۔ لہٰذا اس کی اطاعت ہے اور اسی لئے کوئی بھی اطاعت ہو، جو اُس کی اطاعت سے ٹکراجائے تو اطاعت حرام۔ہے تو وہی حکم دینے والا مگر اب وہ نہیں اطاعت کررہاہے۔ اگر قانون کا پابند ہے ، اگر واقعی عملاً مسلم ہے تو اب نہیں اطاعت کررہا۔ کیوں؟ اس لئے کہ اس وقت جو اطاعت کررہا تھا، یہ سمجھ رہا تھا کہ میری اطاعت کررہا ہے مگر اصل میں ایک اور بالادست طاقت کی اطاعت کررہا تھا کیونکہ اس کا حکم اس کے حکم سے ٹکرا نہیں رہا تھا۔ اب جو ٹکرا گیا اور اس کے حکم کی مرضی کچھ اور ہوگئی تو پتہ چل گیا کہ یہ ظاہر میں اِس کو حاکم مان رہا تھا، اصل میں حاکم کسی اور کو مان رہا تھا۔

تو جو اطاعت ہے، ماں باپ کی اطاعت، اولاد پر بے شک واجب ہے۔ ارے بڑی عظیم الشان، قرآن میں خدا نے ماں باپ کا نام اپنے نام کے ساتھ لیا ہے، ارشاد ہوتاہے:

( قَضٰی رَبُّکَ اَنْ لَا تَعْبُدُوْااِلَّااِیَّاهُ وَبِالْوَالِدیْنِ اِحْسَانًا ) ۔

تمہارے پروردگار کا قطعی فیصلہ ہے کہ عبادت تو سوائے اس کے کسی اور کی نہ کرو مگر ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک۔

مطلب کیا ہوا؟ آئمہ معصومین نے اس کی طرف توجہ دلائی ہے کہ والدین کی اہمیت اتنی ہے کہ اپنے نام کے بعد بلافاصلہ ماں باپ کا نام لیا ہے ۔ یعنی بس میرا حق یاد کرو اور پھر کوئی حق ہے ، بلافصل، تو وہ والدین کا۔

تو جناب! والدین کی اطاعت میں بڑا زور ہے۔ اتنی طاقت ہے کہ اللہ کے کسی حکم غیر الزامی سے اگر کوئی متصادم ہوتو اطاعت واجب رہے گی یعنی کسی مستحب کو منع کردیں تو حرام ہوجائے ، کسی مکروہ کا حکم کریں تو واجب ہوجائے۔ارے کوئی بڑے سے بڑا کارِ خیر، فرض کیجئے کسی وقت نمازِجماعت کیلئے آپ مسجد میں جانا چاہتے ہوں اور کسی وجہ سے ماں یا باپ حکم دے کر منع کردے تو جانا حرام ہوجائے گا، نماز باطل ہوجائے گی ۔ گھرمیں ہی پڑھ لیجئے ، کوئی وجہ ہی ہوگی جس کی وجہ سے ماں باپ یہ حکم دیں گے تو تعمیل واجب ہوجائے گی اور اسی طرح بڑے سے بڑا کوئی عملِ صالح، نیک مستحب کاموں میں سے لیجئے تو اگر منع کردیں تو حرام ہوجائے گا۔ مگر بس اتنی طاقت ہے ۔ لیکن اگر کسی واجب کے ترک کو کہیں تو اب ا طاعت حرام۔ مگر بعض بخیالِ خود بڑے چاہنے والے ماں باپ ہیں کہ بچہ ہوگیا ہے بالغ اور شرعاً پندرہ برس کی عمر میں لڑکا بالغ ہوجاتا ہے، نو برس میں لڑکی بالغ ہوجاتی ہے۔ مگر ہمارے عرفِ عام میں تو بہت دن بچہ رہتے ہیں۔ سولہ برس کا لڑکا بچے کے سواکہلاتا ہے کچھ اور؟کونسی دس برس کی لڑکی بچی کے سوا کچھ اور کہلاتی ہے؟ بس جب شرعاً وہ بالغ ہوگیا ، اب اس پر قلم تکلیف شرعی رواں ہوگیا۔ کاتبانِ اعمال اب اعمال لکھنے لگے۔ اب آیا ماہِ رمضان۔ ماں باپ بنظر محبت فرماتے ہیں: بیٹا! تم روزہ نہ رکھو۔ ارے تم؟ تمہاری بساط کیا ہے؟ یہ عام باتیں ہیں جو میں عرض کررہا ہوں۔ اپنے نزدیک محبت کررہے ہیں بچے کو۔

فرض کیجئے، اتفاق سے، اُسے شرعی مسئلہ معلوم ہوگیا ، وہ کہتا ہے کہ مجھ پر واجب ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ نہیں، تم ابھی بچے ہو۔ وہ سمجھتے ہیں کہ محبت کررہے ہیں۔ وہ درحقیقت عداوت ہے کیونکہ روزِقیامت سوال تو اس سے کیا جائے گا: تم نے روزہ کیوں نہیں رکھا؟ اس دن یہ ماں باپ شفاعت کیلئے نہیں جاسکیں گے۔ خود ان کو سزا ملے گی کہ تم نے کیوں روکا تھاایک عملِ خیر سے۔ تو یہاں حکم عدولی اللہ کی ہے جس سے ٹکرارہی ہے ان کی ہدایت۔ اب یہاں حکم کی تعمیل حرام ہے۔

دوسرے شعبوں میں بھی اس کی مثالیں ہواکرتی ہیں کہ جناب خوش دامن صاحبہ بہو سے خفا ہوئیں ۔ یہ تو نہیں کہتیں صاحبزادے سے کہ طلاق دے دو کیونکہ طلاق ہے شرافت خاندانی کے خلاف ، مگریہ حکم چلاتی ہیں کہ خبردار! اس کے پاس نہیں جانا۔اب حکم کی تعمیل حرام ہے کیونکہ بیوی ہوتے ہوئے اس کے حقوق اللہ کی طرف سے عائد کئے ہوئے ہیں۔ اب یہ والدہ صاحبہ اس کے حکم کے مقابلہ میں اپنا حکم چلانا چاہتی ہیں۔ توغرض اصول یہ ہوگا کہ :

”خالق کی معصیت میں کسی مخلوق کی اطاعت نہیں“۔

تو اب جو جو اطاعتیں ہم کررہے ہیں، وہ سب مشروط ہیں کہ اللہ کے احکام سے نہ ٹکرائیں۔ اب اگر قرآن نے کسی کی اطاعت کا غیر مشروط طور پر حکم دیا ہو تو ماننا پڑے گا کہ اس کا حکم خدا کے حکم سے نہیں ٹکراتا۔تو اب قرآن میں دیکھ لیجئے:

( اَطِیْعُوااللّٰهَ وَاَطِیْعُواالرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَ مْرِمِنْکُمْ ) ۔

”اللہ کی اطاعت کرو“۔

آیت ختم ہوگئی؟ جی نہیں ، اور”اَطِیْعُواالرَّسُوْلَ “، رسول کی اطاعت کرو۔ کوئی قید ہے اس میں؟ جیسے اللہ کی اطاعت کا حکم مطلق، ویسے ہی رسول کی اطاعت کا حکم مطلق۔ کہاجارہا ہے کہ رسول کی اطاعت کرو۔مطلق اطاعت کا حکم ہے۔ تو تسلیم کرنا پڑے گا کہ رسول کا حکم اللہ کے حکم سے کبھی نہیں ٹکراتا۔ ہر مکتب خیال کے تصورات بھی کچھ نہ کچھ آپ کے ذہن میں ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ ان کا حکم اللہ کے حکم سے کبھی نہیں ٹکراتا، نہ بھولے نہ چوکے۔ اب اگر کوئی حافظ قرآن ہوتو اُسے تو زبانی یاد ہوگا اور اگر کوئی حافظ قرآن نہیں، ناظرہ خواں ہو تو وہ قرآن سے نکال سکتا ہے۔ اگر ایسا نہیں بھی ہے تو بحمدللہ مجالس ہیں۔

یاد رکھئے کہ مجالس لا شعوری طور پر درسِ قرآن بھی ہیں اور درسِ حدیث بھی ہیں۔ یہ سب مفادات اس سے حاصل ہوجاتے ہیں۔ ضمناًبشرطیکہ صحیح کام لیا جائے مجالس سے۔ تو جنابِ والا!بہرحال یہ آیت تو آتی ہے سامنے کہ اگر اب اللہ اور رسول کے ساتھ بھی کوئی نام لیا گیا ہے؟ارے کسی ایک جگہ لیا گیا ہو، اس لئے کہ قرآن مجید کے حکم میں یہ قید نہیں ہے کہ چار دفعہ ہو تو تعمیل واجب۔ کسی ایک جگہ بھی اگر نام لیا گیا ہے اور اب جسے یاد نہ ہو، وہ یاد کرے اور جسے یاد ہے، وہ دہرائے کہ:

( اَطِیْعُوااللّٰهَ وَاَطِیْعُواالرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَ مْرِمِنْکُمْ ) ۔

”اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اولی الامر کی جو تم میں سے ہے“۔

اب اللہ ہے، رسول ہے اور اولی الامر ہے۔ مستقل طور پر یہ آیت پڑھنا مقصود نہیں۔ انشاء اللہ کبھی یہ آیت مستقل سرنامہ کلام ہوگی تو اب اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا کہ اولی الامر کون ہیں۔ ہاں! ترجمہ کردوں جو میرے نزدیک صحیح ہے۔خالق نے”آمِریْن “ نہیں کہا ہے۔ اتنی عربی میں جانتا ہوں ۔ اگر کہاجاتا کہ:

( اَطِیْعُوااللّٰهَ وَاَطِیْعُواالرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَ مْرِیْنَ مِنْکُمْ ) ۔

”اللہ کی اطاعت کرو، رسول کی اطاعت کرو اور تم میں سے جو حکمران ہوں، جو حکم چلانے والے ہوں“۔

جو چاہے ترجمہ کرلیجئے۔ ہمارے ہندوستان میں آجکل جو اُردو ہے، اس کے لحاظ سے جو اپنا حکم لاگو کردیں، تو جناب یہ نہیں ہے ، آمرین نہیں کہاجارہا۔ حالانکہ وہ لفظ مختصر تھا۔ بلاغت قرآنی بلاوجہ الفاظ کا اضافہ نہیں کرتی۔اگر اس لفظ سے مطلب حاصل ہوجاتا تو اضافے کی کیا ضرورت تھی؟ ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی ۔

اب جو میں ترجمہ کروں، اُس کا میں ذمہ دار ہوں اور ان لوگوں کی جو حکم چلانے کے حقدارہیں۔کوئی ”م( ِ نْکُمْ ) “ کا لفظ سے فائدہ اٹھاسکتا ہے؟ کہاجارہا ہے کہ اول ی الامر جو تم ہی میں سے ہیں یعنی ہمارے ہی بھائی بند ہیں۔میں کہتا ہوں کہ یہ قرآن ہے۔ آپ کو جانے نہیں دے گا۔ یہ قرآن ہے، کوئی اور کلام نہیں ہے۔ارے یہی ”( مِنْکُمْ ) “ اور ”م( ِ نْهُمْ ) “ضم یروں کا اختلاف ہے۔ ترتیب تو ایک ہی ہے۔ ارے یہی ”منھم“ تو رسول کے لئے کہا گیا ہے۔

( وَبَعَثَ فِی الْاُ مِّیِیْنَ رَسُوْلًا مِنْهُمْ ) ۔

”امین رسول بھیجا انہی میں سے“۔

اولی الامر کو کہاجارہا ہے کہ اولی الامر جو تم ہی میں سے ہیں ۔ تو رسول بھی انہی میں سے تھے۔ مگر اُن کے منتخب کردہ نہیں تھے۔اولی الامر بھی انہی میں سے ہیں۔ مگر تمہارے منتخب کردہ نہیں ہیں۔ پس مختصر یہ کہ جس کا منتخب کردہ رسول ہے، اسی کے منتخب کردہ یہ ہیں۔

اب نقطہ حقیقت واضح تو ہوگیا مگر ظاہر ہے کہ آیت جب مستقل عنوانِ کلام ہو تو اس میں تفصیلات آسکتی ہیں بہت زیادہ۔بس اب ایک اُردو زبان میں جملہ کہہ دوں کہ اللہ کی اطاعت غیر مشروط، رسول کی اطاعت غیر مشروط اور میں نے کہا کہ اس کا نتیجہ یہ کہ رسول کا حکم اللہ کے حکم سے کبھی نہیں ٹکراتا۔اب میں اس بحث میں نہیں پڑتا کہ اولی الامر کون ہیں؟ کون ہیں نہیں، ایک منفی تصور تو مسلماً پیش کئے جاتا ہوں۔ اولی الامر کوئی بھی ہوں، مگر وہ نہیں ہیں جن کے احکام کو ہم نے دیکھا ہے۔ خدا کے احکام سے ٹکراتے ہوں۔

تو معلوم ہوا کہ غیر مشروط اطاعت اللہ کے سوا کسی کی نہیں ہوسکتی۔ سوائے ایسے شخص کے جس کے حکم ،حکمِ خدا و رسول سے کبھی نہ ٹکرائے۔ یاد رکھئے کہ اسی کو سمیٹ کرہم اصطلاحی لفظ میں جب کہتے ہیں تو یہ ہے کہ معصوم ہو۔ اب ایک پہلو پر غور کیجئے۔ ماشاء اللہ قانون دان حضرات بھی ہوں گے اور اتنا قانون ہر ایک اپنی عقل سے سمجھ سکتا ہے کہ حضور! جو چیز اپنی جگہ غلط ہو تو کیا اُس کا معاہدہ صحیح ہوگا؟ جب کوئی چیز غلط ہے تو اُس کا معاہدہ بھی غلط ہوگا۔ چوری غلط ہے، چند آدمی مل کر معاہدہ کریں چوری کا تو وہ معاہدہ بھی غلط ہوگا۔تو جو چیز خودغلط ہے، اس کا عہد بھی غلط ہے۔اب میں نے کہا کہ غیر اللہ کی اطاعت ، کسی دوسرے کی غلط، سوائے اس کے کہ جس کی اطاعت عین مطابق حکمِ خدا ہو۔ جب حکم کبھی نہیں ٹکراتا تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کی اطاعت اللہ کی اطاعت۔

تو بس ایسے کی اطاعت یعنی معصوم کی اطاعت صرف غیر مشروط طریقے پر ہوسکتی ہے اور کسی کی اطاعت نہیں ہوسکتی۔غلط ہے، جب غلط ہے تو عہد اس کا کہ میں اطاعت کروں گا، یہ عہد بھی غلط اور یاد رکھئے کہ اسی عہد کا نام ہے بیعت۔ تو جس طرح اطاعت غیر خدا کسی کی نہیں ہوسکتی، ویسے ہی بیعت بھی کسی ایسے کی نہیں ہوسکتی جس کا حکم اللہ کے احکام سے الگ ہو اور اسی لئے میں جو قرآن مجیدکی آیت کی طرف توجہ دلاؤں گا کہ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ مسلمان رسول کے ہاتھ پر بیعت کرتے تھے۔ وہ قرآن مجید میں بھی ذکر ہے اور تاریخ میں بھی مسلّم ہے۔ ہاں! یہاں ایک چیز جو ہوائے زمانہ کے کتنی ہی خلاف ہو، وہ میں کہنا ضروری سمجھتا ہوں۔ اب ذہن میں بھی توجہ ہوگئی کہ حضور! مرد بھی بیعت کرتے تھے ، عورتیں بھی بیعت کرتی تھیں۔ مگر طریقہ دونوں کی بیعت کا مختلف تھا۔ حالانکہ پیغمبر خدا معصوم ہیں۔ہواوہوس کا غیر محل پر صرف ہونا غیر ممکن لیکن پھر بھی مردوں سے اطاعت کا طریقہ یہ کہ ہاتھ پر ہاتھ رکھیں ۔ لیکن عورتوں کی بیعت کیلئے گوشہ عبا کو بڑھادیا جاتا تھا تاکہ جسم رسول سے کسی نامحرم کا جسم مس نہ ہو۔

اب احکامِ اسلام یہی ہیں ۔ ترقی یافتہ دور کے تقاضے جو بھی ہوں، گوشہ عبا بڑھا دیا جاتا تھا کیونکہ گوشہ عبا کو تھام لیں۔بس یہی اُن کی بیعت کی علامت ہے۔ میں کہتا ہوں کہ یہ عمل جس مقصد کیلئے تھا، وقارِ خواتین کے تحفظ کیلئے۔ اس کے ساتھ ضمناً میں یہ کہتا ہوں کہ ان کا طریقِ بیعت زیادہ شاندار ہوگیا یعنی تمسک کے معنی ہیں دامن تھامنا۔ تو یہ بات تو ضمناً یاد آگئی تھی۔ بہرحال بیعت تھی۔ رسول سے مسلمان کرتے تھے۔ مگر قرآن مجید کیا کہہ رہا ہے:

( اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰهَ یَدُاللّٰهَ فَوْقَ اَیْدِیْهِمْ ) ۔

یہ جو آپ سے بیعت کررہے ہیں، یہ اللہ سے بیعت کررہے ہیں۔ یہ اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھ کے اوپر ہے۔

آخر اس کہنے کی ضرورت کیا ہوئی؟ یہ صرف مسلمان کے دماغ سے کھرچ کر نکالنا تھا غیر اللہ کی بیعت کا کہ رسول کی بھی بیعت کرو یہ سمجھ کر کہ اللہ کی بیعت ہے۔ اور اب جب یہ بات غلط ہے تو کسی بھی معصوم کیلئے یہ تصور کہ وہ کسی غیر کی بیعت کرے گا، یہ غلط ہے۔

چنانچہ سب مسلمانوں سے جو ہستی بحمدللہ سب کے نزدیک معصوم ہے، ارے وہ تفصیلات میں فرق ہو ، وہ اس وقت خارج از بحث ہے مگرآنکھ بند کرکے کسی مسلمان سے پوچھئے ، کہیں گے ہاں۔ رسول اللہ نے کبھی کسی کی بیعت کی تو ہر مسلمان کہے گا۔ فرض کیجئے کہ ایک مجمع ایسا ہو ہمارے وہی بیرون موچی دروازہ والے حسین ڈے کی طرح کا۔ تمام فرقِ اسلامیہ کا اجتماع ہو اور اس میں مَیں پوچھوں کہ رسول نے کسی کی بیعت کی تو پورا مجمع چیخ اُٹھے گا کہ نہیں نہیں ،کبھی رسول نے بیعت نہیں کی۔ میں کہوں گا تقریر کرتا ہوا کہ پھر سوچ لیجئے، غور کرلیجئے۔ زندگی کے کسی دور میں کبھی کسی دوسرے کی بیعت کی؟ اب اور زیادہ زور سے کہیں گے ، غصہ آئے گا سب کو۔کہیں گے صاحب! کہہ تو دیا بیعت لیتے تھے، بیعت کرتے نہیں تھے۔ نہیں! عمر میں کبھی کسی سے بیعت نہیں کی۔

اب میں اسی مجمع سے کہوں گا کہ پیغمبر نے حدیبیہ میں صلح فرمائی تھی مشرکین سے۔ اب وہ مجمع چونک کر کہے گا ، ہاں! صلح تو کی تھی۔ میں کہوں گا صاحبو! آپ سب نے میرے پہلے سوال پر کہہ دیا کہ رسول نے کبھی بیعت نہیں کی اور اب آپ سب مل کر کہہ رہے ہیں میرے یاد دلوانے پر کہ رسول نے صلح فرمائی تھی۔تو اب مان لیجئے کہ بیعت اور ہوتی ہے ، صلح اور ہوتی ہے۔میں فرق بتادوں ، یہ بھی مستقل موضوع ہے۔ کبھی انشاء اللہ”صلح اور بیعت“۔تو میں فرق بتادوں کہ بیعت تو وہی غیر مشروط اطاعت کا عہد۔ ارے وہ کسی خصوصی طور پر قید کے ساتھ بیعت ہو جیسے وہاں خریدوفروخت میں بھی ، وہ بیع اسی بیعت سے ہے یعنی ایک معاہدہ ہوتا ہے کہ یہ چیز ہم تمہیں دیتے ہیں۔ وہاں بھی ہاتھ پر ہاتھ مارا جاتا تھاعرب میں۔ اسی لئے فقہ کی کتابوں میں سفق کا لفظ ہے جس کا مطلب تالی بجانا ہے کیونکہ اس میں بھی ہاتھ پر ہاتھ ماراجاتا تھا۔ آجکل بھی ہمارے عوام میں ہے ”ہاتھ لاؤ“۔

یہ تو ہے بیعت اور صلح ایک درمیانی راستہ دوفریق میں ایسا پیدا ہونا جس میں تصادم ختم ہوجائے او رکسی کے اصول کو صدمہ نہ پہنچے۔ اس کا نام صلح ہے۔اس کیلئے عمومی حکم قرآن میں دیا ہے رسول کو:

( اِنْ جَنَحُوٰ لِلْسِلْمِ ) “۔

”جب بھی یہ جھکیں صلح کی طرف تو فوراً آپ بھی جھک جائیے “۔

اور توکل علی اللہ۔پھر اس سے بحث نہ رکھئے کہ یہ عمل کریں گے یا نہیں ۔ اس کو اللہ کے سپرد رکھئے تو رسول اللہ نے صلح فرمائی۔ حضرت امام حسن نے بھی صلح فرمائی۔ امام حسین علیہ السلام کے سامنے تھا بیعت کا سوال۔ یہ تو بنی اُمیہ کا پروپیگنڈہ تھا کہ بھائیوں کے مزاج ہی میں فرق ہے۔ وہ حسن صلح پسند ہیں اور یہ حسین شروع ہی سے جنگ پسند ہیں۔ یہ تو دشمنوں کا پروپیگنڈہ تھا مگر حقیقت کے لحاظ سے ۶۰ ھ میں حسن مجتبیٰ ہوتے تو وہ یہی کرتے جو حضرت امام حسین نے کیا۔ اگر ۴۰ ھ میں حسین برسراقتدارِ امامت ہوتے تو وہ وہی کرتے جو حسن مجتبیٰ نے کیااور ۶۰ ھ میں وہ ہوتے تو وہ یہی کرتے جو حضرت امام حسین نے کیا۔ یہ ذات کا اختلاف کیسا؟ وقت کا اختلاف ہے، فرض کا اختلاف ہے۔ اب بیعت بھی کس سے؟ یزید ایسے شخص سے۔ ان کے سامنے تھا بیعت کا سوال ۔

اب دنیا والے آج یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ ارے یہ سب کچھ برداشت کیا او ر بیعت نہیں کی۔ یہ بیعت سے اتنا انکار کیوں تھا؟ تو میں اس کے جواب میں کہتا ہوں کہ آپ اُدھر سے سوچتے ہیں کہ اِن کو بیعت سے اتنا انکار کیوں تھا؟ اُدھر سے کیوں نہیں سوچتے کہ یزید کو بیعت پر اتنا اصرار کیوں تھا؟ ارے جب پورا عالم اسلام بیعت کرچکا تھا، سب مان چکے تھے تو اگر ایک فرد بیعت نہ کرتا تو یزید کا کیا بگڑتا؟ کیا نقصان ہوتا؟ جبکہ آپ کا نظامِ جمہوریت یہی ہے کہ اکثریت مان لے تو اقلیت کی بات غیر معتبر۔پوری طاقت سلطنت صرف کردی جائے ان سے بیعت حاصل کرنے کی کوشش میں۔ معلوم ہوتا ہے کہ یزید سمجھتا تھا کہ یہ ایک فرد کا معاملہ نہیں ہے، فرد اہمیت حاصل کرتا ہے کسی اصول کا نمائندہ بن کر۔ مختصر طور پر اس وقت عرض کرنا چاہتا ہوں ۔

وہ سمجھتا تھا کہ جب تک حسین نے بیعت نہیں کی، تب تک حکومت کے مقابلہ میں شریعت کا محاذ قائم ہے اور اگر یہ بیعت کرلیں تو ہمیشہ کیلئے حکومت کے راستے سے شریعت ہٹ جائے گی۔ اب حسین کی بیعت کا سوال نہیں تھا، شریعت کی بیعت کا سوال تھا اور بیعت کے معنی ہیں جھک جانے کے۔ صاحب شریعت کا جھک جانا۔ تو میں کہتا ہوں کہ اللہ کو، اگر اس کی شریعت دوسرے کے سامنے جھک جائے تواس کے معنی ہیں کہ س کا قانون دنیا کے قانون کے سامنے جھک جائے۔

تو اب حسین کے لباس میں فقط حسین کی عزت نہیں ہے،اللہ کی عظمت کا سوال ہے ۔ ارے کہہ رہاہوں زبان سے نہیں ہے، یعنی عمل سے ثبوت دے دیا کہ بیعت نہیں کروں گا۔اب بیعت نہیں کروں گا تو کیا کروں گا؟

خدا کی قسم! عمل سے حسین کرکے نہ دکھاتے تو ہمیں تصور ہی نہیں ہوتا۔ ہاں! جس دن کہا ، جس وقت کہا کہ بیعت نہیں کروں گا۔ اسی وقت تمام امکانات کا جائزہ لے کر،سامنے رکھ کر انہیں واقعی مان کر کہا کہ بیعت نہیں کروں گا۔دنیا کو اُن تفصیلات کا علم نہیں تھا۔ ان کے اس اجمال میں پوری تفصیل مضمر تھی۔ اب مجھے تو علم ہوگیا کچھ تفصیلات کا۔ مطلب یہ ہے کہ بیعت نہیں کروں گا،چاہے وطن چھوڑنا پڑے، بیعت نہیں کروں گا۔چاہے دربدر پھرنا پڑے، بیعت نہیں کروں گا۔ چاہے خانہ خدا میں پناہ بھی نہ ملے، بیعت نہیں کروں گا۔چاہے ہزاروں کا لشکر چاروں طرف سے گھیر لے، بیعت نہیں کروں گا۔

اور ہاں اہل عزا!بیعت نہیں کروں گا چاہے پانی بند ہوجائے۔ چاہے چھوٹے چھوٹے بچے صدائے العطش بلند کرتے ہوں، چاہے سکینہ پیاس سے تڑپ رہی ہو اور پھر روزِ عاشور اور بعد عاشور جو جو ہوا، وہ سب سامنے تھا۔ اب یہ کہہ دیا کہ بیعت نہیں کروں گا۔